مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۱۷

صلح حدیبیہ کا ایک تاثراتی مطالعہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اُٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔

موت پر بیعت

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مر مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج (الفتح ۴۸:۱۰) اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸)

اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔    ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔

دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___  اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے  ؎

نگاہ یار جسے آشناے راز کرے

وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء  رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:

’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔ 

اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے،  حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا   ؎

دست از طلب ندارم تاکار من برآید

یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید

[میں نے کام میں ہاتھ اس لیے نہیں ڈالا کہ میری غرض پوری ہو بلکہ یہ کام اس عزم کے ساتھ کر رہا ہوں کہ مَیں محبوب تک پہنچ جائوں یا اسی کام میں اپنی جان ہار دوں۔]

عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___  اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔

لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!

اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___

یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !

دعوت اسلامی کی اخلاقی قوت

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔

وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:

اے قریش! میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے ___  پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن    ہشام ، ص ۴۵۱)

قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔

دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___  وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___  یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔

رسولؐ اللہ ، کیا یہ الفاظ مٹائے سے مٹ جائیں گے !

اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔

 مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ: 

                ۱-            دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔

                ۲-            اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔

                ۳-            قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔

                ۴-            محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔

ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___ 

دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم  آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔

حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___  لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟

حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا گیا۔ یہ تھی نبیِؐ برحق کی حکمت عملی ___ !

باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!

زمین وآسمان کے اس اعلان پر حق تعالیٰ نے خود شہادت دی:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔

یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔

نئی آزمایش

لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔    وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___  ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔

ابھی صلح نامے پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___  یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:

’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔

یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔

ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟

ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘

ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔

حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :

عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟

حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔

عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔

عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟

فرمایا : میںخدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔

عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟

فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)

معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔    اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیںبلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے     بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___  اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___  ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا   ؎

نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔

یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___  توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___  اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔ 

ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامے پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!

 جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !

مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔  فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:

وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔

پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَئُوْھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵)  اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔

حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلدبازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___  وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔

مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:

وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) زمین اور آسمان کے سب لشکر اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔

پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___  یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔

ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ ط وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے)تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___  اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے، اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع  ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے  ع 

    ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :

وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔

اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___  اور نادانو!  تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں  کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:

فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___  اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔

خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:

وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳)

یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔

اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔

یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔

اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ!کیا یہی فتح ہے ‘‘۔

 آپؐ نے فرمایا: ’ہاں ‘۔(ابن جریر)

ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)

یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!

اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ  (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔

شکست ، فتح میں بدل گئی

بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___  ایک نہیں، متعدد فتوحات کا !

  • پہلی فتح تو یہ تھی کہ مادی سہاروں اور دنیوی توقعات سے مسلمانوں کی نگاہیں ہٹ کر اطاعت الٰہی اور پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لگ گئیں، قلب مطمئن ہونے لگے اور سرشاری میں اضافہ ہونے لگا ۔ اصل فتح تو یہی ہے ۔
  •  پھر اس معرکے میںجو شریک تھے، ان سے حق تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا اور حضوؐر نے فرمایا کہ بیعت رضوان میں شرکت کرنے والوں کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی___  یہ دوسری فتح ہے!
  • پھر مسلمانوں کا اخلاقی رعب، منکرین حق کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ ان کا عزم، ان کی ہمت، ان کا اخلاق وکردار ، اس کا جذبۂ جہاد وقربانی ، ان کی سمع واطاعت___  یہ سب تیر کی طرح دلوں میں پیوست ہو گئے ۔ مکہ کے دروازے چاہے مسلمانوں پر بند رہے ہوں، لیکن اہلِ مکہ کے دلوں کے دروازے کھل گئے___  یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد خود اہل مکہ میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھتی رہی، اور وہی جو حدیبیہ کے موقعے پر مقدمتہ الجیش کو لے کر آئے تھے، اس معاہدے کے کچھ ہی عرصے کے بعد خود دائرہ اسلام میں آگئے___ یہ تیسری فتح تھی !
  •  بات صرف اہل مکہ ہی تک نہ تھی، بلکہ اس صلح کے ذریعے پورے عرب میں اسلام کے پھیلنے اور قبائل کو حلیف بنانے کا موقع پیدا ہو گیا، ایک راستہ بند ہوا تو سو نئے راستے کھل گئے۔  ملک اور ملک کے باہر وفود بھیجے گئے، دعوت وتبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر ہوا، اور بقول ابن ہشام دعوتِ اسلامی کا حلقہ اثر جتنا صلح حدیبیہ کے بعد کے دو برسوں میںبڑھا ہے، اتنا اس سے قبل کے ۱۹برسوں میں نہیں بڑھا تھا___ یہ چوتھی فتح تھی!
  •  اسی طرح اس صلح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان چھپے ہوئے مسلمانوں کو بچا لیا، جو کفّار کے جور و جبر کے باعث اعلانِ حق کرنے کا موقع نہیں پاتے تھے ___  جب ایک آدمی کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے تو بیسوں اور سیکڑوں کلمہ گوئوں کو بچانا ایک عظیم فتح کیوں نہ ہو___  یہ پانچویں فتح تھی!
  • پھر اگلے سال مسلمانوں نے پوری شان وشوکت کے ساتھ عمرہ کیا۔ چودہ سو کے بجاے دوہزار زائرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے ۔ مشرکین مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہی جنھیں مکہ سے نکالا گیا تھا، سینہ تان کر اور سر حضورِ رب میں جھکا کر لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے داخل ہوئے___  اللہ اللہ ، کیا منظر ہوگا! سات سال کے بعد ترسی ہوئی آنکھوں نے بیت اللہ کا دوبارہ نظارہ کیا ہو گا، سوکھے ہوئے ہونٹوں نے حجرِ اسود کو چوما، اورخشک زبانوں نے آب زم زم سے دہن ودل کی پیاس بجھائی ہو گی!

کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔

مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا ___ اور یہ چھٹی فتح تھی!

فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

  o

میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتحِ ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟

اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں___  طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___  افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔

منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___  خوش ہو رہے تھے___  چلو قصہ ختم ہوا، لیکن  اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔

اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے  حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔  فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:

اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے اُنھیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائو گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔

یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔

o

میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ  اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوکر رہے گا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔

 حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ان شاء اللہ اس سلسلے کی ایک کامیابی ہے ___ لیکن سب سے بڑی اور اصولی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !

غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔

                                 

تصحیح: ’جدید فرعون کی جیل میں‘ (جولائی ۲۰۱۷ء) محمد حامد ابوالنصر کی تحریر کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا تھا۔ ان کا نام درست شائع نہ ہوسکا جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔ ادارہ

الحمدللہ، قیامِ پاکستان کو۷۰برس بیت گئے ہیں۔ تخلیقِ پاکستان کے لیے ہمارے آباواجداد نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ فی الحقیقت وہ خون کا دریا عبور کرکے اس خطۂ ارضی تک پہنچے۔ انھوں نے اپنے گھربار چھوڑے، رشتے ناتے توڑے، اور صدیوں سے آباد اپنے مسکن ہندو اور سکھ بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے۔ اتنی بڑی قربانی اور اتنی بڑی ہجرت کی غرض محض ’مادی ترقی کا خواب‘ نہیں تھا، (یہ کیسی ’مادی ترقی‘ کی دوڑ تھی کہ سب کچھ جلتا چھوڑ دیا اور عزت و آبرو بھی قربان کر دی؟) نہیں، بلکہ مادی ترقی سے بالاتر ایک خواب تھا کہ ہم دو قومی نظریے کی بنیاد پر، یہ وطن حاصل کررہے ہیں، جہاں دینِ اسلام کی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرح ڈالیں گے۔

ان میں ایک تو وہ تھے جنھوں نے بے پناہ قربانی دی۔ دوسرے وہ تھے جنھوں نے اپنے اِن لُٹے پٹے بہن بھائیوں کو مشرقی بنگال، مغربی پنجاب اور سندھ بشمول وفاقی دارالحکومت کراچی میں خوش آمدید کہا۔ پھر تیسرے وہ ہیں جو پاکستان کے لیے قربانی دیتے ہوئے بھارت میں، برہمنی استبداد کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن نے قربانی، ہمت، کامیابی اور ناکامی کے ان ۷۰ برسوں کی تکمیل پر ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا ہے، جس میں مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہلِ دانش کو دعوت دی ہے کہ وہ مختصراً ۷۰برسوں کا جائزہ لے کر، بہتر مستقبل کے لیے رہنما خطوط متعین کریں۔ ہماری دعوت پر قلیل وقت میں جن کرم فرمائوں نے قلمی تعاون فرمایا، ان میں سے چند تحریریں آیندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں ، جب کہ دیگر تحریریں آیندہ اشاعت ستمبر ۲۰۱۷ء میں پیش کی جائیں گی۔ پیش کردہ تحریروں کے متن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ بعض نکات سے اختلاف کے باوجود من و عن پیش کی جارہی ہیں۔ (ادارہ)

قیامِ پاکستان کے ۷۰ سال ایک اہم سنگ ِ میل ہیں۔ جہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ سوچنا کہ کیا کھویا، کیا پایا؟ قوموں کی زندگی میں ایک فطری اور عقلی مطا لبہ ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ حَاسِبُوْا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا  [اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا حساب کیا جائے] لیکن احتساب نفس کا یہ عمل اس شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ نشانِ منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی قوت، صلاحیت اور کوشش کی ضرورت ہے، تاکہ یہ احتسابی عمل اُمید ، یقین اور حرکت میں اضافے کا باعث ہو ۔ کفِ افسوس ملتے رہنا زندہ قوموں کی صفت نہیں۔ اسی طرح ایک فرد کی ۷۰سالہ عمر کو ایک قوم کی عمر پر قیاس کرنا بھی تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں کہا جاسکتا۔ ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو آزادی کا سانس لینے والی اس پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام سے بہت پہلے قا ئد اعظم محمد علی جناح نے مملکت کے مقصد وجود کو ۱۲جون ۱۹۴۵ءکو سرحد مسلم اسٹوڈٹنس ایسوسی ایشن کے نام اپنے پیغام میں واضح الفاظ میں یوں کہا تھا:

Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope others will share with us (S.M. Zaman , Quaid -e-Azam and Education, National Institute of Historical and Cultural Research, Islamabad,  1995,  p384(.

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے، بلکہ ’مسلم نظریہ‘ بھی ہے، جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے، جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے، اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ ہیں۔

اسی پیغام اور عزم کی توثیق قائدنے پاکستان میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر۱۹۴۷ء ، کراچی کے نام اپنے پیغام میں ان الفاظ میں فرمائی :

In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honour, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honour to Pakistan.

الغرض ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ ان میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کر دیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اَتم موجود ہو، اور وہ اس طرح کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بن جائے۔(کتاب مذکورہ بالا، ص ۴۳۲)

تعلیمی پالیسی پر قائد کی اتنی واضح ہدایات کے بعد مستقبل کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے:

  •  اول :ہمارے تعلیمی نظام کو اسلامی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ یا اسلام کے نظامِ حیات ہونے کے بنیادی تصور کو علم کے ہر شعبے میں اختیار کرنا ہوگا۔ اسلام کو اسلامیات کے مضمون تک قید نہیں کیا جائے گابلکہ معاشرتی اور طبیعیاتی علوم میں بہ الفاظِ دیگر ہرہرشعبۂ علم میں اسلام کے تصورِ علم (وحی الٰہی اور سنت کی مرکزیت ) کی روشنی میں اسلامی اقدار کو مکمل طور پر سمو کر یا integrate کرکے نصاب، درسی کتب اور طریق تدریس میں اختیار کرنا ہو گا۔ یہ کام ۷۰سال گزرنے کے باوجود انجام نہیں دیا جاسکا۔ جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کریں اور ہرفرد کو بلاامتیاز علم و تحقیق اور صلاحیت ِ کار کے زیور سے آراستہ کریں، اور ہرشعبۂ علم میں قائدانہ حیثیت حاصل کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو مدنظر رکھیں، نیز تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی کو مساوی اہمیت دیں۔ یہ ہماری اوّلین قومی ضرورت اور خود قائداعظم کے تصورِ علم اور تصورِ پاکستان کا بھی مطالبہ ہے۔
  • دوم :اپنے پیغام میں قائد نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات (Muslim Ideology ) کو معیشت اور معاشرتی ترقی میں مکمل طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ مُسلم آئیڈیالوجی کی اصطلاح خود استعمال کر کے قائد نے ان تمام ممکنہ گمراہیوں کا خاتمہ کر دیا جو تعلیم کو اقدار سے بے نیاز ( Value Free) اور معیشت کو محض ایک مادی سرگرمی سمجھنے کی شکل میں ہو سکتی ہیں ۔ قائد کے دونوں پیغامات، ایک قیام مملکت سے قبل اور ایک اس کے فوری بعد سےقائد کی فکری ہم آہنگی اور مقصد کے واضح شعور کا پتا چلتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی عقل ، اور مشاہدہ اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کر ے تو وہ قائد اور اپنے اُوپر ظلم کرتا ہے ۔
  • سوم : تعلیمی پالیسی میں آزادی اور خود انحصاری کو بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ نہ تو لارڈ میکالے کی غلامانہ سامراجیت کو مستحکم کرے اور نہ آج کی جدید مغربی درس گاہوں میں مروجہ نظام اور ذخیرہ علم کو حق اور صداقت سمجھتے ہوئے اس کی غلام ہو۔ ہم اس وقت بلکہ ۷۰سال سے دوسروں کے علم کے صارف (Consumer) رہے ہیں ۔ ہم نے اپنی اقدار اور نظام حیات پر مبنی علم کے پیدا کرنے کو جو ایک اجتہادی عمل ہے ، جان بوجھ کر پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ پاکستان میں آج بھی ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو نصاب اور کتب کی تشکیل قائد کے تصور کی بنیاد پر کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک جو مطالبوں کی سیاست اختیار کی گئی ، اس کی جگہ آگے بڑھ کر اس تعلیمی مواد اور ان تعلیمی سفارشات کو یک جا کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے، جو آخر کار عوامی اور معاشرتی دباؤ کی شکل میں قانون سازی کرنے والے افراد کو اپنی فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر سکے ۔ یہ ایک تعمیری عمل ہے اور تحریک اسلامی اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم و عمل اس میں قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تعلیمی حکمت عملی اور تعلیم سے وابستہ شعبوں میں تحقیق پر مبنی مواد کی فراہمی تحریک کی اوّلیات میں سر فہرست ہونی چاہیے ۔ یہ طویل المیعاد لیکن یقینی تبدیلی کی طرف ایک مثبت اقدام ہو گا۔ اس میں اور عمومی سیاسی جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
  • چہارم: ملک گیر پیمانے پر اہل علم کو چاہے وہ کتنے ہی نظریاتی اختلاف رکھتے ہوں، اس بات پر دعوت فکر دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوریا ، چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، اپنی قومی زبان میں تعلیم و تحقیق کر سکتے ہیں تو ہم اپنی قومی زبان میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ زبان کسی خطے کے افراد کی مقامی بولی کا نام نہیں ہے ، یہ اقدار حیات ، تصور زمان و مکان ، قومی تشخص اور قومی ورثے کی امین ہوتی ہے ۔ یہ افراد میں خود اعتمادی اور مستقبل کی تعمیر میں اینٹ اور گارے کا کام کرتی ہے۔ یہ ملک کی یک جہتی کا ذریعہ اور صو بائیت اور قبائلی عصبیت کو ختم کرتی ہے ۔ یہ اُمت مُسلمہ کو جسدِ واحد میں جوڑ دیتی ہے ۔ اس لیے تعلیمی حکمت عملی میں اس کی بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ اگر ہم نے اس  طرف توجہ نہ کی جو نوجوان نسل آج موبائل فون کے ذریعے اردو رسم الخط کی جگہ رومن میں پیغامات بھیجنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، اس نسل اور اس کے بعد کی نسل کے لیے غالب، شبلی، حالی، اقبال اور مودودی ہی نہیں اُردو کاتمام ادبی سرمایہ ناقابل فہم بن جائے گا اور اسے محض میوزیم کی زینت بنادیا جائے گا ۔ جن قوموں کا ماضی نہیں ہوتا ان کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا ۔ زبان مستقبل کی تعمیر و بقا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔

اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہمارے ملک کے دستور کی نہ صرف شق 2-A بلکہ آرٹیکل نمبر۱اور ۲ (جس میں ریاست کے مذہب کو متعین کر دیا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہو گا)، باب دوم میں ان انسانی حقوق کا  ذکر جو اسلام دیتا ہے ، آرٹیکل۲۹ تا ۴۰ میں ریاست کے راہنما اُصولوں کی شکل میں جو واضح ہدایات ہیں ، ان سب کا مکمل اظہار تعلیمی پالیسی میں ہونا ایک دستوری تقاضا ہے ۔ اس کے خلاف پالیسی بنانا دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے، انھیں کون پیدا کرے گا ؟ اگر تعلیم اس کا ذریعہ نہیں ہو گی اور قائد کے قول، یعنی ’ تعمیر کردار‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا تو کیا سو سال بعد بھی آرٹیکل۶۲ اور ۶۳پر عمل ہو سکتا ہے؟

 مختصر یہ کہ دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قائداعظم دونوں کی واضح ہدایات کو تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنا لیا جائے، تو ہمارے ہاں کے وہ تضادات جو بیک وقت تین یا چار قسم کے انسان پیدا کررہے ہیں، ان کی جگہ یکساں نظام تعلیم ملکی وحدت ، اسلامی تشخص، پاکستانی ثقافت اور ایک باہمت، غیور ، آزاد ذہن رکھنے والی ، خود انحصاری پر عمل پیرا نوجوان نسل پیدا کرے گا جو وہ کام کرسکتی ہے، جس کو ۷۰ سال اس کے بزرگوں نے نظر انداز کیا ۔

ہماری بری فوج نے ملک کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں، لیکن ہماری اعلیٰ عسکری قیادت نے اپنی نا اہلی کے سبب ان قربانیوں کو ضائع کر دیاہے اور ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ مثلا قیام پاکستان کو ۱۰سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ایوب خان نے امریکا کو اپنا آقا بنا لیا اور پچھتانے پر کتاب لکھ ڈالی لیکن اس کمبل نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔ ایوب خان مایوس ہوئے تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا، جنھوں نے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ ملک دولخت ہوگیا۔ ۱۹۷۱ء میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کے معاہدے پر دستخط کر نے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے آقاوں کی خوش نودی میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے میں کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی سلامتی کو دائو پر لگادیا، اور برادر پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوابلکہ افغانستان کے ساتھ ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس جرم میں ہماری عدلیہ، انتظامیہ، کچھ سیاسی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔

جنرل مشرف کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج افغانستان کی جنگ آزادی سے لاتعلق ہوچکی ہے اور ہم بھی نہیں سوچتے کہ ۴ کروڑ ۵۰ لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ۶۰ فی صد پاکستان میں ہیں، ۴۰ فی صد افغانستان میں اور ۱۰ فی صد پاکستان کے دل، یعنی کراچی میں آباد ہیں، جنھوں نے گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی ہے اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سےاپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ایک عرصے سے پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ گذشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہواہے اور اب قائد اعظم کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کاوقت آگیا ہے۔ قائد اعظم نے پختون قوم کو متحد رکھنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیاتھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔قائد اعظم کا ویژن پختون قوم کی یک جہتی اور اس کے پھیلائو سے متعلق تھا جوڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اوراس سے آگےآمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جسےجھٹلانے کی کوشش میں ہم نے ان سرحدوں پر دوسرا محاذ کھول لیاہے۔

ان تمام ترغلطیوں کے باوجود ہماری فوج نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں وہ صلاحیت حاصل کرلی کہ جس کے سبب اسے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہمارے تجدیدی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں Armed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری  تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں،اداروں اور اکثر عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی، جنھوں نےبّری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات سے احسن طریقے سے  نمٹا جا سکے۔دوسری بڑی تبدیلی چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد نوعیت حاصل کر چکی تھی۔اسی شراکت کی بدولت ہماری فوج ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ ہماری عسکری قیادت اب اعلیٰ عسکری تعلیم سے مزین ہے اور ساتھ ہی ہمیں چین کی غیرمشروط مدد بھی حاصل ہے، جسے ہم رحمتِ ایزدی سمجھتے ہیں۔یہی دو اہم عوامل ہیں جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کرسکی ہےاور ۹۰فی صدتک خودانحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے،الحمد للہ۔

ہماری فوج کا ترویجی عمل ایک تزویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف  مضبوط چٹان کی مانندہے، قومی سلامتی اورترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس اشتراک کی بدولت ہمارا تزویراتی محور (Strategic Pivot)قائم ہے۔ الحمدللہ ہم نےاب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہےجس کی بدولت اپنی تزویراتی سوچ کوجنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیاہے،یعنی پہلے حملہ کرنے (Pre-emption)اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت (Offensive Defence) میں حقیقت کا رنگ بھرنے اورحریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف  حاصل کیےہیں۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذاتِ خود مزاحمت(deterrence ) بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نویدبھی۔ یہ اَمر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں، قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنا بھی جانتی ہے۔

دوسری اہم بات جو ہمارے لیے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں حریت پسندوں کی جدوجہدآزادی کی کامیابی ہے جواب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔سوپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب افغانیوں کے غلبے کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

 ہماری فوج کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا بھی ادراک ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندا سوچ ہے جوبے حد خطرناک ہے۔ اس خطرے سے ترکی کے صدر نے پاکستان کے دورے کے موقعے پر قوم کو آگاہ کیا تھاکہ: ’’پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے‘‘ جس سے نمٹنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی  سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیاردیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں۔یہی ہمارا نظریۂ حیات ہے جس کی تشریخ ۱۹۷۳ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا، جس کی بنیادقرآن و سنت کے اصولوں پرقائم ہو گی‘‘۔

لیکن بدقسمتی سے ہم نےقرآن و سنت کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔نہ ماضی کی کسی حکومت کو، نہ موجودہ حکومت کو اور نہ متعدد مذہبی جماعتوں کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتیں۔ ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں، کیوںکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنت کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسرِ اقتدار طبقہ ہے، جس نےہمارے معاشرے کولبرل ’سیکولر‘ روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظرانداز ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتےاور نہ حکمرانی سے ہی متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انھیں ووٹ نہیں دیتے۔ ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے، پاکستانی قوم کے رخ کودرست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔

ہمارے قومی نظریۂ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہوگا اور قرآن و سنت اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کریں گے  لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جنھوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحفظ اوردفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے‘‘، وہی قومی نظریۂ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ لہٰذا،موجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اوّلین ذمہ داری ہے، کیوںکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے دینِ اسلام کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں ’’انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجاے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خودمختاری کا قائل ہے۔اوّلیت اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے‘‘( نعوذ باللہ)۔ بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔خدانخواستہ اگر ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا۔ کچھ ایسے ہی حالات۶۶-۱۹۶۵ء میں انڈونیشیا کو درپیش تھے جب سوشلزم اور کمیونزم کی تبلیغ کی جارہی تھی، جس کےخلاف وسیع پیمانے پراحتجاجی تحریک چلی اور خانہ جنگی ہوئی، جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اورآخر کار صدر سہارتو نے اقتدار سنبھالا۔ خدانخواستہ اگر ہم اس گرتی ہوئی صورتِ حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے توہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا ہوگا کیوںکہ پاکستان انڈونیشیا کی طرح جزیرہ نہیں ہے۔ہمارے پڑوس میں انقلابی ایران اور افغانستان جیسے جہادی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا جسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہماری افواج اپنی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ہمارا نظریۂ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریۂ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ہمارے ایک دانش ور کے بقول: ’’ہماری قوم آج ان مسائل کے بجاے اپنے آپ سے برسرِپیکار ہے جو ایک تباہ کن شغف ہے۔ اس میں جیت ہی ہماری سب سے بڑی ہار ثابت ہوگی‘‘۔

پاکستان اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی نعمت ہے۔۱۹۴۷ء میں جب پاکستان قائم ہوا ، برصغیر پاکستان اور ہندستان کی صورت میں تقسیم ہوا تو اس وقت برصغیرمیں مسلمانوں کی حالت اجتماعی طورپر خاصی خستہ تھی، خصوصاًمسلمانوں کی معاشی حالت بہت ہی خراب تھی ۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے باشندوںکی فی کس سالانہ آمدنی بہت کم تھی ۔صحت کے شعبے میںبھی حالات دگر گوں تھے ،اوسط عمر بھی بہت طویل نہیںتھی۔

اگر ہم اس صورتِ حال کو سامنے رکھیں تو ہمیں یہ صاف نظرآرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں  کم ازکم ان معاملات میں اپنی رحمت سے نوازا ہے اور ہماری فی کس آمدنی میں بھی ۳۰، ۴۰ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اوسط عمر میں بھی دگنے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح بھی کم ہوگئی ہے ۔تعلیم کے شعبے میں قیام پاکستان کے وقت جہاں چند اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے اب ملک بھر میں ۲۰۰ کے قریب یونی ورسٹیاں بن گئی ہیں ،اعلیٰ درجے کے اسپتال بن گئے ہیں ۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں جہاں ہم تھری ناٹ تھری کی گولیاں تک غیروں سے خریدنے پر    مجبور تھے، اب ماشاء اللہ ہم اپنے زور بازو سے بین براعظمی میزائل ،ایٹمی ہتھیار، فائٹر ائر کرافٹ تیار کررہے ہیں ۔یہ سب اس لیے ہوا کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔

پاکستان کے قیام ہی نے ایک غریب مسلمان بچے کو یہ موقع دیاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان کی ترقی میں شریک ہوسکے۔ متحدہ ہندستان میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی غریب مسلمان بچے کو اتنی آسانی سے اعلیٰ تعلیم کا موقع مل سکے۔ پہلے صرف نوابوں کے بچے ہی سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے وہاں سے مزید تعلیم کے لیے اوکسفرڈ جایا کرتے تھے۔    یہ صرف پاکستان کا فیض ہے کہ آج غریب کا بچہ بھی اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتا ہے ۔ الحمد للہ، آج ہم خود انحصاری کی سمت سفر کررہے ہیں۔ ہم شاید اس طرف نہ جاتے لیکن ہمارے دشمن ہمیں اس جانب دھکیل رہے ہیں ۔میرا بچپن لاہور میں گزرا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور میں بجلی امرتسر سے آتی تھی، لیکن ایک بار کسی مسئلے پر پنڈت جواہرلال نہرو پاکستان سے خفا ہوگئے تو لاہور کو امرتسر سے بجلی کی فراہمی روک دی گئی ۔ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہم کیسی حالت میں تھے اور ہمارا دشمن ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا تھا ۔ہم اس مجبوری سے نجات پانے کے لیے آج خودمختاری کی کیفیت میں پہنچے ہیں ۔آج پھر بھارت ہمیں اپنا باج گزار بنانا چاہتا ہے اورہمیں اس کی سازشوں کو سمجھنا چاہیے اورہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا چاہیے کہ ہم اس کے محتاج نہیں ہیں ۔

ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کرکے پاکستان حاصل کیا تھا کہ ہم اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزاریں گے۔ اس وعدے کو ہمیں پورا کرنا ہے اور ہمیں اس عہد کو یاد رکھنا چاہیے، تاکہ پاکستان مزید ترقی کرسکے ۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی جھولی میں یہ آزادی خود بخود نہیں آن گری تھی ، اس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے نذرانے دیے تھے ۔یہ آزادی اسی وقت قائم رہ سکتی ہے کہ ہم اپنے اُس وعدے پرقائم رہیں، جو ہم نے قیام پاکستان کے وقت اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اور اس کو پوراکرنے کے لیے کوشاں رہیں ۔ اپنی معیشت کو مضبوط رکھیں ، یہاں پر صاف ستھری زندگی گزاریں اور ایمان داری کی زندگی گزاریں ، ملک میں نہ کرپشن ہو اور نہ ریا کاری ۔ کسی قسم کی بدی نہ ہو۔یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب ہم یہ سمجھیں کہ پاکستان ایک مسجد کا صحن ہے جہاں کوئی برائی نہیں ہوسکتی ، جہاں جھوٹ نہیں بولا جاسکتا، جہاں پر گالی نہیں دی جاسکتی ۔ ہمیں پاکستان کو پاک سرزمین ہی بنانا ہے اور ان شاء اللہ پاکستان دنیا کی بہترین ریاستوں میں ہوگا بشرطیکہ ہم نظریہ پاکستان کو نہ بھولیں۔ یادرکھیں، پاکستان دوقومی نظریے کی بنا پروجود میں آیا تھا اور ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر ہم قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزاریں گے ۔

پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں وجود میں آیا۔ غیر منقسم ہندستان کے جن علاقوں پر یہ مشتمل تھا، وہ پس ماندگی کی نچلی سطح پر تھے، اور اگر اس علاقے میں کوئی قابل ذکر انفراسٹرکچر تھا (مثلاً ریلوے یا نہری نظام) تو وہ یہاں کی عمومی معاشی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روس کی ممکنہ جارحیت کو روکنے اور جنگ آزادی میں انگریز کا ساتھ دینے والوں کو جاگیروں سے نوازنے اور ان کی زمینوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ، اس قدر پس ماندہ علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کا وجود میں آنا اور قائم رہنا بہت سے تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایک بڑا محیرالعقول واقعہ   رہا ہے۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں نے یہ کہہ کر اس مطالبے کی مخالفت ختم کردی کہ چھے ماہ سے زیادہ یہ چل نہیں سکے گا، اور خوار ہو کر واپس آن ملے گا۔ لیکن ان تمام تجزیوں اور پیش گوئیوں کے باوجود، نہ صرف اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں پر اپنی اس نعمت کو قائم رکھا، بلکہ یہ ملک دسمبر ۱۹۷۱ءمیں دو لخت ہونے کے بعد بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

اس مضمون میں ہم نہایت اختصار سے اس سفر کی رُوداد بیان کریں گے: ہم کہاں کھڑے تھے(جس کا مختصر ذکر ہوگیا)، کہاں پہنچ گئے ہیں، اور مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟

پہلا دور : عرصہ پلاننگ (۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۱ء)

اس دور میں پاکستان نے زبردست معاشی ترقی حاصل کی اور یہ بھی قریب تھا کہ ہم پس ماندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر تیز رفتار ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوجاتے۔ پانچ سالہ منصوبہ بندی کا سلسلہ جاری ہوا اور ایک مضبوط مرکزی حکومت نے سارے معاشی عمل کو قوانین، ضابطوں اور منظوریوں کے زیر اثر رکھا۔

 بلاشبہہ اس دور میں پاکستان کی معیشت نے بڑی تیز رفتار ترقی کی، جس کی اوسط شرح ۶فی صد سے زیادہ رہی۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھا، زراعت میں سبز انقلاب آیا، شہروں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، غربت میں کمی واقع ہوئی اور تعلیم اور صحت ایسے سماجی شعبوں میں بھی گراںقدر کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) جس کا اندا زہ ۱۹۴۷ء میں ۲۴ ؍ارب روپے تھا، وہ بڑھ کر ۵۵ ؍ارب ہوگئی، جب کہ فی کس آمدنی ۳۱۱ روپے سے بڑھ کر ۴۵۰  روپے ہوگئی۔

بدقسمتی سے اس دور میں ہم سے کم از کم تین بڑی خطائیں بھی سرزد ہوئیں: lاول، معاشیات میں غیر شعوری طور پر سیاست بھی در آئی lدوم، سماجی انصاف کی ضرورتوں کا ہمیں صحیح ادراک نہیں ہو سکا؛ اور l سوم، ترقی کے لیے جو وسائل درکار تھے، ان کے حصول میں ہم اپنے اہم قومی مفادات کا کما حقہ تحفظ نہ کرسکے۔ ہم یہاں پر تینوں خطاؤں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں:

  •  پہلی، چوں کہ مرکزی حکومت بہت طاقت ور تھی اور ملک میں یا تو آئینی بحران رہا ،یا پھر فوج کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت رہی، تو ایک جانب صوبائی خود مختاری کے مسائل نے جنم لیا۔ دوسری جانب عوام کی عدم نمایندگی کی وجہ سے سیاسی بےچینی پیدا ہوئی۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مصنوعی حل نکالے گئے (جیسا کہ ۱۹۵۶ء میں ’ون یونٹ کا قیام‘ اور ۱۹۶۲ء میں ’صدارتی نظام‘ کا اجرا)۔ ایوب خان کی مارشل لا حکومت نے سیاسی صورت گری کے لیے معاشی طاقت کو بے دردی سے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی (مثلاً ’کنونشن مسلم لیگ‘ کا قیام، اقربا پروری اور پسندیدہ اور منظورِ نظر افراد کو پرمٹ، قرضوں، سرمایہ کاری کی اجازت وغیرہ کی فراہمی)۔ یوں معاشی ترقی کو سیاست کا گھن لگ گیا اور اس کا عوامی اعتبار کمزور پڑ گیا اور ملک میں اس کے چرچے ماند پڑتے چلے گئے۔
  •  دوسری، معاشی ترقی کی اوسط (average) میں بیان کی جانے والی پیمایش عام طور پر اس کی اندرونی تقسیم میں موجود تفاوت کو چھپا دیتی ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کس کو زیادہ فائدہ ہوا اور کون محروم رہ گیا۔ باوجودیکہ اس دور میں مجموعی غربت میں کمی واقع ہوئی، لیکن دوسری طرف آمدنی کی تقسیم میں زبردست بگاڑ پیدا ہوگیا۔ ایک طرف مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان (یعنی موجودہ پاکستان) میں عمومی معاشی تفاوت بڑھا (جس کے بیان میں وہاں کی سیاسی قیادت نے بہت مبالغہ آرائی کرکے دونوں حصوں میں غلط فہمیاں پھیلائیں)۔ دوسری طرف صنعتی ترقی کے ثمرات چند صنعت کار گھرانوں (مشہور ۲۲ خاندان) اور زرعی ترقی کے ثمرات نام وَر جاگیرداروں تک محدود رہ گئے اور مغربی پاکستان کے عوام اور خصوصاً محنت کش اور کسان طبقات میں احساسِ محرومی پھیل گیا۔
  • تیسری، اور شاید سب سے بڑی خطا یہ ہوئی کہ اس ترقی کے حصول میں ہم اپنے قومی مفادات کا پوری طرح تحفظ نہ کر سکے۔ امریکا سے بے جا قربت میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے امریکی بلاک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا مگر ’سرد جنگ‘ میں پھر امریکا کی زیرقیادت ’ناٹو‘ اور  سوویت یونین (اشتراکی روس) کی زیرقیادت ’وارسا پیکٹ‘ جیسی فوجی جتھہ بندیوں نے ہمیں دنیا میں کوئی معروف مقام نہیں دلایا۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ امریکی امداد کے مقاصد اور ہماری امریکا سے توقعات میں ہمیشہ ایک تفاوت رہا ہے۔ مثلاً ہم نے بلاوجہ امریکا کو بھارت کے مقابلے میں اپنا دوست سمجھا، جب کہ حقیقتاً امریکا نے بھارت کو ہم سے زیادہ عزیز رکھا اور مقابلتاً کبھی پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ اس تلخ حقیقت کا سب سے بڑا تجربہ ہمیں اس وقت ہوا، جب ستمبر۱۹۶۵ء کی جنگ میں امریکا نے ہم کو کسی طرح کی نہ صرف مدد دینے سے انکار کردیا بلکہ دفاعی ساز و سامان کی طے شدہ ترسیل بھی روک دی۔ دوسری جانب تلخ ترین بات یہ ہے کہ بھارت پہ التفات یہ کیا گیا کہ اُس کی کمیونسٹ روس سے قربت اور نام نہاد غیر وابستہ ممالک کی تنظیم میں کلیدی کردار کے باوجود مختلف شکلوں میں عنایات جاری رہیں۔ لیکن ہم نے امریکی قربت کو روس کی دعوت کو رد کرکے حاصل کیا تھا اور یوں ہم نے خود اپنی ممکنہ حکمت عملی کو محدود کردیا۔

اس دور کا خاتمہ مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہوگیا، لیکن اس کے اثرات میں ملک دو لخت بھی ہوگیا۔

دوسرا دور: سوشلزم اور قومیانے کا عمل (۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۷ء)

اس دور میں معیشت کی تنظیم کا نظریہ یکسر بدل گیا۔ یہ پہلے دور کی غلطیوں اور خطاؤں کا ردعمل تھا۔ تمام بڑی صنعتوں کو اور سارے بنکنگ اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ نجی شعبے کا معاشی عمل میں کوئی قابل قدر کردار باقی نہ رہا۔ آجر و مزدور کے تعلقات میں زبردست ضد (antagonism) پیدا ہوگئی، اور دوسری جانب زرعی اصلاحات کی وجہ سے عام محنت کش کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان بھی حالات کشیدہ ہوگئے۔ لیکن ان اقدامات سے کسی حد تک معاشرے میں سیاسی حقوق سے آگہی اور ان کے جدوجہد کے راستے بھی کھل گئے۔ گو اس دور میں سرکاری شعبے میں بنیادی صنعتوں کا جال پھیلایا گیا (مثلاً اسٹیل ملز،نیوکلر پاور، بنیادی کیمیکلز اور مصنوعی دھاگا وغیرہ)، لیکن ان کے ثمرات فوری طور پر قومی اور سماجی زندگی میں سامنے نہیں آئے۔ معاشی ترقی کی رفتار جو گذشتہ دور میں حاصل ہوئی تھی، وہ بھی کم ہوکر رہ گئی۔ ۶ فی صد کے مقابلے میں، اس دور میں   یہ رفتار ۴ فی صد سے بھی کم سطح پر آرہی۔              

اس کے ساتھ ہی حکومت نے ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے کہنے پر شرح تبادلہ میں یکمشت ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ devaluation‪)) کردیا، جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا اور مہنگائی کا سیلاب آگیا، جو عام آدمی کے لیے بہت تکلیف کا باعث بنا۔ یوں باوجود اس دور میں تقسیم آمدنی میں بہتری لانے کی کوششوں کے، غربت میں قابل قدرکمی واقع نہ ہوسکی۔  شرح تبادلہ میں اس بڑی تبدیلی سے درآمدات کو زبردست فائدہ ہوا اور ملک کا بیرونی ادایگیوں کا توازن (Balance  of Payments)   ۱۹۵۱ءکے بعد دوبارہ منافع میں بدل گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دسمبر ۱۹۷۱ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت نے اقتدار سنبھالا، تو ملک  نہ صرف دولخت ہونے کے صدمات سے نبردآزما تھا، بلکہ سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کی قربت اور ان کی امداد سے حاصل کی ہوئی معاشی ترقی سے منسلک گمبھیر مسائل کا بھی سامنا تھا۔ لہٰذا، ایک لحاظ سے شرح تبادلہ میں مناسب اضافہ ضروری تھا، تاکہ درآمدات کو برآمدات پر بے جا ترجیح دینے کا عمل ختم ہو۔ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ اس دور کی غلطیوں کا ازالہ بھی کیا جائے، خصوصاً آمدنی اور دولت کے ارتکاز کو توڑا جائے۔

پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے انقلابی اقدامات اور سوشلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں   مغربی ذرائع سے بیرونی وسائل کی آمد بند ہوگئی۔ لیکن اس کمی کا توڑ کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے مسلم ممالک سے تعاون کو زبردست فروغ دیا۔ فروری۱۹۷۴ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تعاون نے بیرونی وسائل کے حصول میں آسانی پیدا کردی۔ خصوصاً اس دور میں پاکستان کی افرادی قوت کی مشرق وسطیٰ میں درآمد کے راستے کھل گئے اور ان کی بھیجی ہوئی ترسیلات (Remittances) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

تیسرا دور :  نجی و سرکاری شعبوں کا اشتراک  (۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۸ء)

اس دور میں ابتدائی طور پر یہ کوشش کی گئی کہ دوسرے دور کے وہ انقلابی اقدامات، جن سے بڑی حد تک معاشی نظام تتر بتر ہوگیا تھا، اس کی تلافی کی جاسکے۔ اس مقصد کے تحت ’عقیلی کمیٹی‘ بنائی گئی، جس نے بلا کم و کاست تجویز کیا کہ: ’’قومیائے گئے اثاثوں کو اصلی مالکان کو واپس کردیا جائے‘‘ اور کچھ اثاثے واپس بھی کردیے گئے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بہت جلد حکمرانوں کو احساس ہوگیا، یا پھر احساس دلایا گیا کہ سرکاری شعبے میں اتنی عظیم الشان معاشی طاقت کو نج کاری یا پرانے مالکان کو واپس کرنے کے بجاے، موجودہ نظام کو خوش اسلوبی سے چلایا جائے، تاکہ   سیاسی سرپرستی (political patronage) اور ’مثبت‘ سیاسی نتائج کے حصول کے لیے حکومت کے پاس دینے کے لیے ترغیبات موجود ہوں ۔ لہٰذا، جلد ہی ایک نظام وضع کرلیا گیا، جس کے تحت سرکاری کارپوریشنوں میں تعینات مینیجرز کے لیے علیحدہ نام نہاد مینجمنٹ اسکیلز بنادیے گئے اور   ان کی کارکردگی کے جانچنے کے لیے پہلے سے موجود ایک ادارے کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یوں اس عوامی حکومت کے بنائے ہوئے نظام کو ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ کے مصداق فوجی حکومت کی حمایت حاصل ہوگئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، گو اس کا حجم بہت کم ہوگیا ہے۔

 اس دور میں سب سے بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روسی افواج، افغانستان میں کھلے عام ،پوری قوت سے گھس آئیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس مداخلت کی مخالفت اور اس کی مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ یوں ۱۰ سال کا عرصہ اس مزاحمت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں صرف ہوگیا۔ اس صورتِ حال میں ایک دفعہ پھر پاکستان اور امریکا کے درمیان قربت پیداہوگئی، لیکن ازاں بعد اس کا بھی خاتمہ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ماضی میں ہوا تھا۔ لیکن اب کی بار پاکستان اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۹۰ کا عشرہ اندونی اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے میں صرف ہوگیا۔ پاکستان نے اس مزاحمت کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور آج تک کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں مناسب نظم و ضبط کی کمی کے باعث اسلحے کی فراوانی اور منشیات کی اسمگلنگ، معاشی بدنظمی، معاشرتی بگاڑ اور امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی جیسے مسائل کھڑے کردیے۔

چوتھا دور : کاروبار اور سیاست کا اختلاط

یہ وہ دور ہے، جو اَب بھی جاری ہے۔ ہم نے عرصے کی طوالت کے علی الرغم اس دور کو اس لیے جاری دور کہا ہے کہ اس کی جوہری صفت آج بھی ہماری معاشی تنظیم میں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں ایک عرصہ پھر فوجی حکومت کے زیراثر گزرا ہے۔ یہاں ہمیں کسی حد تک فوجی حکومت کے آٹھ برسوں کو الگ سے دیکھنا ہوگا۔ لہٰذا ،ہم اس کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کریں گے:

ذیلی دور:۱- سیاسی عدم استحکام  (۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء )

اس دور کا آغاز ۷جولائی ۱۹۷۷ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت کے تحت، پیپلزپارٹی کے بنے سیاسی نظام کے ڈرامائی خاتمے کے بعد ہوا۔ اس دور میں مسلسل سیاسی کشیدگی رہی، جس کا ایک بڑا سبب اپریل ۱۹۷۹ء میں ایک مقدمۂ قتل میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا بھی تھا۔ دوسری جانب نسبتاً نوعمر قیادت کی ناتجربہ کاری سے پیدا ہونے والے مسائل تھے۔ اس کے ساتھ دنیا میں تاریخی تبدیلیاں رُونما ہوگئیں۔ سودیت یونین کا دسمبر ۱۹۹۱ء میں خاتمہ ہوگیا، برلن کی دیوار گرگئی، یورپ متحد ہوگیا اور امریکا دنیا میں واحد سوپر پاور بن کر اُبھرا۔

اس کے ساتھ ہی ایک نیا معاشی نظام وجود میں آنے لگا، جس کو ’عالم گیریت‘ سے منسوب کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر نئے نظام میں سرمایہ بغیر روک ٹوک کے ساری دنیا میں گردش کرنے لگا۔ شرح سود کھلی مارکیٹ میں طے ہونے لگی۔ سرکاری سطح پر امداد کی فراہمی کا عمل تیزی سے ختم ہونے لگا۔ دنیا میں نج کاری، آزاد معیشت، حکومتی کنٹرول کا خاتمہ، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے منڈیوں کو کھولنا اور تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ساری دنیا کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی عام ہوگئی۔ مزید افتاد یہ آن پڑی کہ افغانستان سے روس کے اخراج کے ساتھ ہی امریکا بھی علاقے سے نکل گیا اور پاکستان کی امداد کا سلسلہ بھی رک گیا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کی جانب سے’پریسلر ترمیم‘ کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے ایک نئے امتیازی دور کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کی معطلی اور CTBT پر دستخط کے مطالبات بھی شامل ہوگئے۔

اس دور میں ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام رہا۔ ۱۰ سال کے عرصے میں اوسطاً ۳۰ ماہ کی مدت پر مشتمل پے در پے چار حکومتیں بنیں، جو ناکام ہوتی رہیں اور بالآخر اکتوبر۱۹۹۹ء میں ملک میں پھر مارشل لا لگا دیا گیا، جو تقریباً ۱۰ سال تک مختلف صورتوں میں سیاسی نظام کی پشت پہ کام کرتا رہا۔ اس دوران معاشی پالیسی کی سمت اور اس کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور ترقی کی شرح ۴ فی صد سے بھی کم ہوگئی۔ بعض تجزیہ نگار اس عرصے کو ’معاشی ترقی کا گم شدہ عشرہ‘ بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس دور میں معاشی ترقی کا عمل معکوسیت کا شکار ہوگیا۔ افراطِ زر کا دباؤ بڑھ گیا اور ملک کو پہلی دفعہ دیوالیہ ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے۔ اس دور کی درج ذیل خصوصیات قابل ذکر ہیں:

(ا) نج کاری کا اجرا؛ (ب) معاشی میدان میں حکومتی منظوریوں اور کنٹرول کی تمام صورتوں کا خاتمہ یا ان میں بڑی کمی اور آسانیاں؛ (ج) نجی شعبے کی بتدریج معاشی عمل میں شمولیت اور بالخصوص ان کے لیے نئے شعبوں، مثلاً بجلی کی پیداوار میں سرکایہ کاری کی اجازت؛ (د) نئے ریگولیٹری اداروں کا قیام (نیپرا اور پی ٹی اے وغیرہ)؛ مرکزی بنک کو خودمختاری دینے کا آغاز؛ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی)کا قیام اور کیپٹیل مارکیٹ کی وسعت شامل ہیں۔

اس عرصے میں بیرونی وسائل کی کمیابی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی، لہٰذا ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے پاس حکومت ِ پاکستان کا جانا ناگزیر ہوگیا۔ اس کی پہلی درخواست اور شرائط کی منظوری خود  جنرل محمد ضیاء الحق کی بنائی ہوئی عبوری حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اکتوبر۱۹۸۸ء میں دے دی تھی۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد بے نظیر حکومت (۹۰-۱۹۸۸ء) نے کیا۔ بعدازاں ۲۰ماہ بعد جب بے نظیر کی حکومت ختم کی گئی تو محمدنوازشریف کی پہلی حکومت (۹۳-۱۹۹۰ء) نے اس پروگرام پر عمل درآمد روک دیا۔ اس کے بعد نواز حکومت نے معاشی میدان میں ایسے فیصلے کیے جو مقبول ضرور تھے، لیکن ان کی معاشی حکمت مشتبہ تھی۔لہٰذا، کچھ ہی عرصے میں معاشی اشاریوں میں   عدم توازن پیدا ہونا شروع ہوگیا، خصوصاً بیرونی ادایگیوں کا توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے۔ اس فضا میں اپریل ۱۹۹۳ء کے شروع میں ایک درخواست عالمی مالیاتی فنڈکو دی گئی۔

دوسری طرف نوازحکومت، صدر مملکت سے محاذ آرائی میں اُلجھ گئی، جو بالآخر ۱۸؍اپریل ۱۹۹۳ء کو ان کی معزولی کا باعث بن گئی۔ عبوری وزیراعظم (۱۸؍اپریل-۲۶مئی ۱۹۹۳ء)      بلخ شیرمزاری کے وزیرخزانہ سردار فاروق لغاری نے ’فنڈ‘ سے ایک نئے پروگرام کے لیے ابتدائی مذاکرات شروع کیے، گو وہ نامکمل رہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے نوازحکومت کو بحال کردیا۔    اس کے بعد بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشیدگی نہ صرف جاری رہی بلکہ مزید بگڑ گئی۔ اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحیدکاکڑ نے دونوں کو استعفا دینے پر  راضی کرلیا اور ۱۹۹۳ء میں نئے انتخابات کا راستہ کھل گیا۔ عبوری حکومت میں وزارتِ عظمیٰ (۱۸جولائی-۱۹؍اکتوبر ۱۹۹۳ء) کے لیے ڈاکٹر معین قریشی صاحب کو درآمد کیا گیا، جن کی حکومت کی عبوری نوعیت کے باوجود ’فنڈ‘ کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلیے اور ایک نیا پروگرام شروع کر دیا۔

ابتدا میں بے نظیر کی دوسری حکومت (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) نے اس پروگرام کو اپنا لیا، لیکن جلد ان سخت مشکل اصلاحات کو جاری نہ رکھ سکی۔ ایک سال بعد ہی یہ پروگرام معطل ہوگیا۔   دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی تیزی سے بڑھنے لگی اور پنجاب میں مرکز کی اتحادی حکومت کے ساتھ بھی زبردست اختلافات کھڑے ہوگئے۔ ان مسائل نے حکومت کو کمزور کردیا اور آہستہ آہستہ وہ خود اپنے بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں معزولی کا شکار ہوگئی۔ جب حکومت کا خاتمہ ہوا اس وقت نئے وزیرخزانہ نویدقمر کے ساتھ ’فنڈ‘ کے مشن کے مذاکرات نئے پروگرام کے لیے کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

دوسری نواز حکومت (۱۹۹۷ء-۱۹۹۹ء) زبردست عوامی اعتماد کے ساتھ منتخب ہوئی اور اس نے ایک بڑی پارلیمانی حمایت کے ساتھ وہ آئینی ترمیم ختم کردی، جو صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیتی تھی۔ لیکن اس غیرمعمولی تحفظ کے علی الرغم یہ حکومت جلد ہی عدلیہ اور صدر کے ساتھ غیرضروری مسائل میں اُلجھ کر رہ گئی اور اس حکومت کا خاتمہ ڈرامائی انداز میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی برادر ججوں کے ہاتھوں برطرفی اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے استعفا کی شکل میں سامنے آیا۔کچھ عرصے بعد مئی ۱۹۹۸ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی مئی ۱۹۹۸ء ہی میں ایٹمی دھماکے کردیے۔ جس کے جواب میں اُسے مغرب کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقعے پر حکومت نے ایک بڑی غلطی کر کے ملک میں موجود فارن کرنسی اکائونٹس کو غیرضروری طور پر منجمد کردیا، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بُری طرح مجروح ہوا۔بعدازاں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ بھی طرزِحکمرانی کے معاملے میں اختلافات کھڑے ہوگئے اور بالآخر انھوں نےبھی استعفا دے دیا اور حکومت کو نیا آرمی چیف بنانے کا موقع مل گیا، لیکن ان کا نئے چیف جنرل پرویز مشرف سے بھی  نباہ نہ ہوسکا کیونکہ کارگل کی مہم جوئی کے نتیجے میں وزیراعظم نے ان کو برطرف کرنے کی کوشش کی اور فوج نے جوابی قدم اُٹھا کر حکومت کا خاتمہ کردیا۔

اس نئی حکومت نے ابتدا میں اس پروگرام کو شروع کرنے کی کوشش کی جس پر بے نظیر بھٹو حکومت میں اتفاق ہوگیا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ پٹڑی سے اُتر گیا اور بعدازاں ایٹمی دھماکوں پر لگنی والی پابندیوں کی وجہ سے ملک کو قرضوں کی خاطر ازسرِنو پیرس اور لندن کلب جانا پڑا، جس کے لیے  ’فنڈ‘ کا پروگرام لازمی ضرورت تھی۔ لہٰذا ، معطل شدہ (Rescheduling) ادایگیوں کے لیے شرائط رکھی گئیں۔ یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی اور اسی پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا پڑا۔

یہ ہے وہ دور جب قومیائے گئے اداروں میں بڑے پیمانے پر سیاسی مداخلت شروع ہوگئی اور خصوصاً بنکوں اور مالیاتی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر قرضوں کا اجرا شروع ہوگیا۔ ایک طرف سیاسی بنیاد پر دیے گئے قرضوں سے بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا، تو دوسری طرف اس ریاستی سرپرستی سے فیض یاب ہونے والے عناصر سیاسی طور پر مضبوط ہوتے چلے گئے۔

ذیلی دور:۲- فوجی حکومت  (۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۸ء)

 یہ دور معاشی اعتبار سے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کا دور ہے۔ ہرچند کہ اس کا آغاز نسبتاً سُست رہا، لیکن نائن الیون کے فوراً بعد بیرونی وسائل کی آمد بڑھ گئی۔ جب تک امریکا کی نظرالتفات قائم رہی (جو مشرف اور صدربش کی دوستی تک موجور رہی) آسانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

اس دور کا آغاز ناخوش گوار حالات میں ہوا تھا، جب مئی ۱۹۹۹ء میں کارگل کی جنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف میں اعتماد کا شدید فقدان پیدا ہوگیا تھا اور حالات بتدریج یوں مرتب ہوئے کہ منتخب جمہوری حکومت کو فوج نے ختم کردیا۔ پہلے تین سال تک یہ فوجی حکومت اس انداز میں چلائی گئی، جیسے ایک کارپوریشن کو چلایا جاتا ہے۔ سیاست کا حکومت میں وہ دخل جو سیلابی شکل میں ہماری قومی زندگی میں شامل ہوگیا تھا، اس کے اثرات بہت حد تک ختم ہوگئے۔ معاشی عمل آہستہ آہستہ مستحکم ہوتا گیا۔ اسی دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آگئی تھیں، جس کی وجہ سے افراط زر بھی کم ہوگیا۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے لگا۔ شرح تبادلہ مستحکم ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح ۶۰ کے عشرے والی رفتار سے بڑھنے لگی۔ اس زمانے میں یوں لگتا تھا کہ ملک تیز رفتار ترقی کرکے شاید دنیا کی اُبھرتی (Emerging) معیشتوں  کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ تین سال کے بعد ۲۰۰۲ء میں فوجی حکومت نے انتخابات کرا کے ایک کنٹرولڈ جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ(ن) کے جبری خلا کو ایک نئی مسلم لیگ (ق) بنا کر پورا کیا گیا جو پیپلز پارٹی کے کچھ اراکینِ پارلیمنٹ کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنی مدت بھی پوری کی۔ لیکن حکومت عملاً فوج ہی کے ہاتھوں میں رہی، کیوں کہ جنرل مشرف نے وعدہ کرنے کے باوجود صدر ہوتے ہوئے وردی نہیں اتاری۔ جوں جوں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کا وقت قریب آتا گیا، نئی صف بندیاں ہونے لگی اور امریکا سے تعلقات میں سرد مہری کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے۔

  پھر جس طرح ماضی کی حکومتوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا، خود جنرل مشرف حکومت کے خاتمے کا سبب ان کا یہ خوف بنا کہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان کو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دے کر فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس سے ایک ملاقات میں استعفا طلب کیا، جس سے انھوں نے انکار کردیا اور صدر نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی وکلا کی زبردست تحریک شروع ہوگئی اور سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا اور ان کو اپنے عہدے پر بحال کردیا۔ لیکن اس کے باوجود عدلیہ اور جنرل مشرف کے درمیان ٹکرائو جاری رہا اور صدر انتخاب جیتنے کے بعد بھی پے دَر پے مشکلات کا شکار ہوتے رہے اور بالآخر اگست ۲۰۰۸ء میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔

ان واقعات کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء میں ہوا اور ۱۶ ماہ میں یہ واقعات مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوتے رہے۔ یوں عملاً مارچ ۲۰۰۷ء ہی سے حکومت کی توجہ اہم مملکتی اُمور سے ہٹ گئی اور بڑی محنت سے حاصل کیا ہوا سارا معاشی اور سیاسی استحکام ابتری کا شکار ہوگیا۔ عالمی مالیاتی بحران سر اٹھا رہا تھا، لیکن بٹی ہوئی توجہ اور غفلت نے اصلاحی اقدامات اُٹھانے کا موقع نہیں دیا اور معیشت تیزی سے بحران کی طرف لڑھکنے لگی۔ جب اکتوبر ۲۰۰۸ء میں مالیاتی بحران آیا تو وفاق میں پیپلزپارٹی کی نئی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ سابق صدرجنرل مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے سر ڈال دیا۔

ذیلی دور:۳ -جمہوریت کا احیا   (۲۰۰۸ء تا حال)

یہ دور جو اَب بھی جاری ہے جنرل مشرف اور ان کے وضع کردہ نظام کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں برسرِاقتدار آنے والی جمہوری قوتوں نے بلا جھجک اس سارے نظام کو آہستہ آہستہ جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ عمل کس قدر مبنی بر انصاف تھا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ۱۰سال کے بعد ملک پھر اسی بے یقینی کا شکار ہوگیا، جس کے خاتمے کی نوید فوجی حکومت نے دی تھی۔ اس طرح پالیسیوں میں ردوبدل اور ترجیحات کو متعین کرنے کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑا۔ اس سب کا گہرا اثر ملک کی معیشت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد پر پڑا اور باہر کی دنیا بھی یہ سمجھنے لگی کہ: ’’پاکستان جیسے ملک میں کبھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا، ان کے ساتھ کام کرنے میں خطرات زیادہ ہیں، جن کا خیال رکھنا چاہیے اور شاید کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔

اس دور کے پہلے حصے میں حکومت پیپلز پارٹی نے بنائی اور اپنی مدت بھی پوری کی، تاہم اس دوران ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل بھی قرار دے دیا۔ پیپلز پارٹی اپنا صدر بھی لانے میں کامیاب ہوگئی اور آرمی چیف کو توسیع بھی دے دی۔ لیکن یہ دور معاشی ترقی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا، جس کی ایک وجہ تو شدید عالمی مالیاتی بحران تھا، جس کے ساتھ تیل کی عالمی قیمت ۱۵۰ ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور شرح تبادلہ میں بھی بڑا اضافہ ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا نے پاکستان پر زور ڈال کر اسے آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل کرادیا، جس نے شرح سود میں اضافہ کرنے کی سابقہ شرط لگادی، جس کے ساتھ قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ یوں وہ معاشی استحکام، جو فوجی حکومت کے دور میں نظر آتا تھا، پھر ختم ہوگیا۔

نئی حکومت چوںکہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بہیمانہ قتل کے بعد وجود میں آئی تھی، لہٰذا اتنے بڑے المیے اور حادثے کے نتیجے میں پارٹی کی قیادت نسبتاً غیر تجربہ کار ہاتھوں میں آگئی۔ بعدا زاں آصف علی زرداری صاحب کے صدر بنتے ہی طاقت کے کئی مراکز وجود میں آگئے اور پالیسی سازی کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ حاصل نہ رہی، بلکہ اس میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ ۲۰۱۰ء میں ملک ایک بڑے سیلاب سے دوچار ہوگیا، جس سے جانی اور مالی نقصانات اُٹھانے پڑے۔ ایک اور مسئلہ جس میں حکومت اُلجھی رہی، وہ عدلیہ سے کشیدہ تعلقات تھے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔

یہ عرصہ ایک اور لحاظ سے سخت مشکلات کا شکار رہا، جو امریکا سے ہمارے تعلقات سے متعلق ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ ہی امریکا میں ری پبلکن حکومت ختم ہوگئی اور بارک اوباما صدر  بن گئے۔ گو وہ عراق جنگ کے خلاف تھے، لیکن اس الزام سے بچنے کے لیے کہ ڈیموکریٹک لیڈر دفاع کے معاملے میں نرم رویہ رکھتے ہیں، انھوں نے بغیر کسی مؤثر دلیل کے افغانستان میں امریکا کی جنگ کو ’مبنی برانصاف‘ قرار دیا اور وہاں فوج میں اضافے کی منظوری دے دی۔ لیکن ساتھ ہی اس کے قیام کی مدت بھی متعین کردی، جو ۲۰۱۴ء تک تھی۔ اس وجہ سے امریکا اور اتحادیوں کی فوج کی تعداد ۱۳ہزار تک پہنچ گئی۔

صدرجنرل مشرف کے منظر سے ہٹتے ہی نئی حکومت اور امریکا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا، جو تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستاں کے کُلی مفاد میں نہیں تھا۔ پھر کچھ تلخ واقعات بھی اسی پس منظر میں پیش آئے۔ ان میں چار بہت اہمیت کے حامل ہیں: بلیک واٹر سے وابستہ اہل کاروں کی بڑے پیمانے پر پاکستان اور خصوصاً اسلام آباد میں مبینہ آمد؛ اسامہ کی ایبٹ آباد میں مبینہ موجودگی اور اس کو ہلاک کرنے کے لیے امریکا کی یک طرفہ کارروائی ؛ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے لاہور میں دو افراد کو قتل کردیا اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اس کی رہائی کے مطالبے سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے؛ اور، سب سے   بڑا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوگیا، جب امریکی فوج نے سلالہ میں پاکستانی چوکی پر حملہ کرکے متعدد پاکستانی فوجیوں کو شہید کردیا۔ ان وجوہ سے حکومت بہت کمزور پڑگئی اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے ساتھ اس کا پروگرام بھی ناکام ہو کر بند ہوگیا اور معیشت بے شمار مسائل کا شکار ہوگئی، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ملک کو ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کے قریب لے گئی۔ مزید ابتری وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے حکم پر نااہلی اور ایک خوفناک گردشی قرضے کی وجہ سے توانائی کے بحران نے پیدا کردی۔

اس عرصے کا دوسرا دور مسلم لیگ (ن) کی مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۱۴ سال کے بعد دائرے کا سفر اسی جگہ پہنچ گیا، جہاں سے سے آغاز ہوا تھا۔ اپنی پیش رو حکومت کے مقابلے میں یہ حکومت بڑی قیادت اور واضح مینڈیٹ کی حامل تھی اور اس نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے کام کو شروع کیا، جو بہت جلد ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام میں بدل گیا، جو تین برسوں پر محیط تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ پروگرام جمہوری حکومت کے دور میں کامیاب ہوگیا اور معیشت میں استحکام واپس آگیا۔ افراطِ زر میں کمی ہوئی، شرح نمو میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگا اور سال ۲۰۱۷ء میں اس کی شرح ۵ء۳ فی صد تک پہنچ گئی، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ CPEC کی شکل میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے معاشی و ترقیاتی پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا، اور توانائی اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے تعمیروترقی کی جانب گامزن ہوئے۔

تاہم، مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت بھی وقفے وقفے سے حادثات کا شکار ہوتی رہی۔ لیکن تیسرے سال، یعنی ۲۰۱۶ء میں پے دَر پے دو حادثے ایسے پیش آئے، جنھوں نے حکومت کو مفلوج کردیا: ایک ’پانامہ لیکس ‘اور دوسرا ’ڈان لیکس‘۔ ان مسائل کے دوران میں حکومت کی توجہ اہم قومی اُمور سے ایسے ہی ہٹ گئی ہے، جیسی مشرف حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ہٹ گئی تھی۔ گو معاشی بگاڑ کی وہ صورت نہیں پیدا ہوئی جیساکہ ماضی میں ہوا تھا، لیکن ابتدائی اشارے اسی سمت میں سفر کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر لگتا ہے کہ ہم اسی مشکل صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں ہمیں پھر آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پیش آنے والی ہے۔

تیسرے دور کو ہم نے ’کاروبار اور سیاست کا اختلاط‘ سے منسوب کیا ہے اور اس گفتگو کے اختتام پر ہم اس حوالے سے چند بنیادی گذارشات پیش کریں گے:

اول، اگرچہ صدرجنرل ایوب خان، صدر جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے اَدوار میں سرکاری ملازمین کو فراہم کردہ آئینی تحفظات کو ختم کردیا اور پے در پے تین بڑی قسطوں میں بغیر وجہ بتائے اعلیٰ سرکاری افسروں کو ملازمتوں سے نکال باہر کیا گیا، لیکن اس کے باوجود سول سروس میں کچھ دَم خم باقی تھا۔ بعد کے سیاست دانوں نے سول سروس کو اپنے زیراثر لانے کے لیے پسندیدہ افسروں کے گروہ بنا لیے، جس کے نتیجے میں اُن کی وفاداریاں ریاست کے بجاے حکمرانوں کو منتقل ہوگئیں۔ ان حالات میں بعض مؤثر سول سرونٹ بھی سیاست دانوں کے اس مکروہ مفاداتی عمل کا حصہ بننے لگے۔

دوم، پارلیمانی نظام میں بنیادی طور پر حکومت وزیر اعظم اور کابینہ تک محدود ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومتی اراکین پارلیمنٹ، حکومت سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ ان کے اس دباؤ کو کم کرنے کی خاطر ان کے لیے ترقیاتی اسکیموں کا اجرا کیا گیا۔ ان کے علاقوں میں انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں ( SHO , SSP‪, DCO) کی تعیناتی ان کی خواہش اور منظوری سے ہونے لگی۔

سوم، سیاست دانوں کی پبلک سیکڑ کی کارپوریشنز اور خاص طور پر بنکوں اور مالیاتی اداروں میں زبردست مداخلت شروع ہوگئی اور ان میں نہ صرف تعیناتیاں سیاسی وابستگی اور سرپرستی کی بنیاد پر ہونے لگیں، بلکہ ان کے کاروبار کے محرکات بھی سیاسی مقاصد کے تابع ہوگئے۔ مثلاً قرضوں کا اجرا اور ان اداروں کے بنے مال کی تقسیم (اسٹیل ملز کی پیداوار کی فروخت یا گیس اور بجلی کی فراہمی)، سب کچھ سیاست کی نذر ہونے لگا۔

آخری بات یہ کہ، کاروبار اور سیاست کا اس بڑے پیمانے پر اختلاط ماضی میں نظر نہیں آتا۔ فوج اور کسی حد تک عدلیہ کو چھوڑ کر (گو ان کے ساتھ بھی طرزِ حکمرانی کے مسائل موجود ہیں اور ان پر تفصیل سے گفتگو بھی ہونی چاہیے)، سیاست، قومی ادارے اور کاروبار مربوط ہوگئے اور عوام دیکھتے رہ گئے۔ حکومت تو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہے، لیکن اگر یہ اُن ہاتھوں میں چلی جائے، جن سے عوام کو تحفظ چاہیے تو پھر دادرسی کی کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور مایوسیاں پھیلنے لگتی ہیں اور لوگ تبدیلی کے لیے ایسے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں، جو سیاسی عمل سے باہر ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالا مدوجزر کے باوجود پاکستان کی معیشت آگے کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ ان حادثات نے ترقی کی رفتار اور پالیسی کی یکسوئی کو تو ضرور متاثر کیا ہے، لیکن اس کی سمت کو نہیں بدلا۔   فی الحقیقت اس میں کمال ہمارے لوگوں کا ہے، جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور محنت کے جذبے سے سرشار ہیں۔

 اختتامیہ

پاکستان کی معیشت مقابلتاً اُس وقت سے کہیں مضبوط اور مستحکم ہے، جب یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ اس معیشت کا جوہرِ خاص اس کی بے پناہ انعطاف پذیری (resilience)ہے۔ آج ہماری معیشت ان پابندیوں سے آزاد ہے، جو ایک حکومتی کنٹرول میں چلنے والی معیشتوں کا خاصّہ ہوتا ہے۔ نجی شعبے کو ہر طرح کی آزادی ہے، بڑے منصوبوں میں وہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور آزاد ریگولیٹری اداروں کے ذریعے ان کے معاملات حکومتی اثرات و مداخلت سے محفوظ ہیں۔ بیرونی تجارت پر کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ زرمبادلہ ہی پر وہ پابندیاں ہیں، جو پانچ عشروں تک ہم پر مسلط رہی ہیں۔

اس مختصر سے جائزے میں قارئین کو یہ اندازہ بھی ہوگیا ہوگا کہ اتنے بڑے حادثات سے گزر کر بھی پاکستان کی معیشت نہ صرف قائم ہے اور ملک کی سلامتی کی ضرورتوں کو پورا کررہی ہے، بلکہ اس کی ترقی کی فطری صلاحیت بھی لامحدود ہے، کیوں کہ یہاں پر حقیقی ترقی کی اصل ضرورت، یعنی انسانی وسائل اور قدرتی وسائل، دونوں موجود ہیں۔ ہمیں جس بات نے ضعف اور صدمہ پہنچایا ہے، وہ رہنماؤں کی کوتاہ نظری اور بے اعتدالی کے ساتھ دُوراندیشی سے تہی دامنی بھی ہے۔ یہ ملک اس قابل ہے کہ اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کم از کم اس نمبر پر آئے، جو اس کی آبادی کے لحاظ سے اس کا حق بنتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک ضرورت ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات پر غیرمتزلزل ایمان اور مستقل مزاجی سے ایک سیدھی سمت میں سُبک رفتار سفر۔ اگر ہم راستے بدلتے رہے تو اوپر بیان کردہ دائرے کا سفر جاری رہے گا۔

_______________

پاکستانی قوم نے گذشتہ ۷۰ سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس بات کے تعین کے لیے خودپاکستان کی اہمیت کا تعین ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم جان ہی نہیں سکتے کہ ہم نے اپنے  سات عشروں کے سفر کے دوران کیا کیا ہے؟

انسانی تاریخ میں تین حوالوں سے پاکستان کی اہمیت غیرمعمولی ہے:

  •  پاکستان کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ عصر حاضر میں پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے، جس کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا۔ بعض لوگ اس سلسلے میں اسرائیل کا نام بھی لیتے ہیں، لیکن یہ ایک غلط بحث ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پاکستان حقیقی معنو ں میں ایک مذہبی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی بنیاد یہودیوں کی بدنام زمانہ نسل پرستی پر رکھی ہوئی ہے۔ عصر حاضر میں قوموں کے آئین کو قوموں کے تشخص کے تعین کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ریاست ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کا موازنہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان ایک عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل عالمی طاقتوں کی ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اول وآخر حق ہے اور اسرائیل اول و آخر باطل ۔
  • پاکستان کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ایک بہت بڑے تہذیبی و تاریخی مطالبے کا اظہار ہے۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ جو پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا، ۲۰ ویں صدی میں برصغیر کی ملت اسلامیہ کو پیش آنے والی صورتِ حال کا حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دو قومی نظریہ ایک بہت پرانی چیز ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے یہ کہا ہے کہ پاکستان تو اس دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کے گہرے شعور کے بغیر کہی ہی نہیں جاسکتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کش مکش ہے۔  جہانگیر کے زمانے میں مسلمان سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے مغلوب نہیں تھے غالب تھے، لیکن مجدد الف ثانی ؒکے نزدیک سیاسی اور معاشی غلبے کی اہمیت نہیں تھی۔ ان کے نزدیک جو چیز اہم تھی وہ مسلمانوں کا جداگانہ مذہبی و تہذیبی تشخص تھا۔ اور مجدد الف ثانی کو اس تشخص کے تحفظ کی اتنی فکر تھی کہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی غلبے کے زمانے میں جہانگیر سے کہا کہ تم اکبر کی ان پالیسیوں کو ترک کرو جو مسلمانوں کے مذہبی و تہذیبی تشخص کو مجروح کررہی ہیں۔ غور کیا جائے تو مجدد الف ثانیؒ دراصل دو قومی نظریے پر ہی اصرار کررہے تھے۔ جہانگیر نے ابتدا میں مجدد الف ثانیؒ کی مزاحمت کی اور انھیں پابند سلاسل کیا مگر بالآخر اسے مجدد الف ثانی کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے ان کے مطالبے کے مطابق دربار میں سجدۂ تعظیم بھی منسوخ کیا اور گائے کے ذبیحے کی بھی اجازت دی، بلکہ اس نے محل میں گائیں ذبح کراکے ان کے گوشت سے کباب بنوائے۔

اس اعتبارسے دیکھا جائے تو برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی مجدد الف ثانی تھے لیکن دو قومی نظریہ صرف مجدد الف ثانی اور جہانگیر کی کش مکش میں ظاہر ہوکر نہیں رہ گیا۔اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کش مکش بھی اپنی اصل میں دو قومی نظریے کی کش مکش تھی۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ قرآن مجید اور گیتا کی تعلیمات کو آمیز کرکے ’ایک قومی‘ نظریہ ایجاد کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اکبر نے دین الٰہی کی صورت میں جو تجربہ نہایت بھونڈے انداز میں کیا تھا داراشکوہ وہی تجربہ انتہائی دانش ورانہ اور علمی سطح پر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اورنگ زیب کو اس ’خطرے‘ کا اندازہ تھا۔ اس لیے کہ وہ دو قومی نظریے کے معنی کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کش مکش میں اکابر علما اور صوفیہ اورنگ زیب کے ساتھ تھے۔

یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سرسیّداحمدخان کسی زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے، لیکن ہندی اُردو تنازعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا اور کہا کہ اگر مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انھیں اپنا پلیٹ فارم تخلیق کرنا چاہیے۔

اقبال بھی اپنے ابتدائی دو رمیں قوم پرست اور وطن پرست تھے اور انھیں خاکِ وطن کا ہرذرہ ’دیوتا‘ نظر آتا تھا اور وہ کہہ رہے تھے    ؎

سارے جہاں سے اچھا ہندُستاں ہمارا

ہم بُلبلیں ہیں اس کی ، یہ گُلستاں ہمارا

مگر اقبال کی فکر میں بھی تغیر رونما ہوا اور چند ہی برسوں میں وہ     ؎

چین و عرب ہمارا ، ہندُستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

کہتے نظر آئے۔ محمد علی جناح کا معاملہ بھی عیاں ہے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انھیں ہندو مسلم اتحاد کی سب سے بڑی علامت قرار دیتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت ایسی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح ؒقائداعظم بن کر ابھرے اور انھوں نے دو قومی نظریے کی وضاحت پر جتنا زورِ بیان صرف کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ۱۹۳۰ء یا ۱۹۴۰ء میں سامنے آنے والی حقیقت نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔

  •  پاکستان کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ پاکستان عصر حاضر کا سب سے بڑا خواب ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے چنانچہ انسان کی تخلیقی قوت اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے ذریعے ہمیں ریاست مدینہ کے تجربے کو نیا قالب مہیا کرنا تھا۔ ایسا قالب جس کی روح قدیم اور جس کے اظہار یااسالیب کو نیا ہونا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ پاکستان کے جیسی کوئی ریاست تھی‘ نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مذہب کی بنیاد پر    الگ ریاست کے مطالبے کا حق ادا کرسکے، نہ ہم نے اپنی تہذیب اور تاریخ کی ’مرکز جُو‘ حرکت سے کوئی کام لیا، اور نہ ہم پاکستان ہی کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی صورت پیدا کرسکے۔

بلاشبہہ مذہبی جماعتوں اور علما کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان ’اسلامی جمہوریہ‘ تو  بن گیا مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ اسلام کو اس قیدخانے سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ حکومت و ریاست کے بندوبست پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، اور سود جنرل پرویز مشرف ہی کو نہیں میاں نواز شریف کو بھی اتنا عزیز ہے کہ انھوں نے اس کے خاتمے کے لیے دکھاوے کے لیے بھی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ہمارا نظام تعلیم صرف اتنا اسلامی ہے کہ اس میں اسلامیات ایک مضمون کے طور پر شامل ہے۔ ہمارے حکمران ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی آئین کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک عہد جدید میں منتخب نمایندوں کا امین و صادق ہونا ممکن ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو مذاق اڑانے والے دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا مذاق نہیں اڑاتے‘ اسلام کے تصور صداقت و امانت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ۱۹۷۱ء میں ہم پاکستان کی جغرافیائی وحدت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے اور ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے بھارت کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ اس نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ قوم کو دھوکے میں مبتلا کرنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان بیرونی طاقتوں کی سازش اور بھارت کی مداخلت کے باعث الگ ہوا لیکن اتنے بڑے سانحات بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ داخلی عوامل یا داخلی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ہماری سب سے بڑی داخلی کمزوری یہ تھی کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک پاکستان کی تخلیق کے محرک اسلام کو اجتماعی زندگی میں مؤثر یا Functional بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ اگر ہم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک کچھ اور نہیں تو اسلام کے تصور عدل ہی پر عمل کررہے ہوتے تو بیرونی طاقتیں اور بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔

  •  پاکستان کی گذشتہ ۷۰  سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ایٹم بم کی تخلیق ہے۔ ایٹم بم کی تخلیق پاکستان اور پاکستانی قوم کے ’امکانات‘ کو سمجھنے کے سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے جب ایٹم بم بنانے کا آغاز کیا تو اس وقت وطن عزیز میں بنیادی سائنسز کی تعلیم کا بھی کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں تھا۔ ہمارے پاس ’ماہرین‘ اور ’مالی وسائل‘ دونوں کی کمی تھی مگر اس کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنا کر دکھادیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اگر ہم ایک ہدف طے کرلیں اور حکمران طبقہ اس ہدف کے حصول کے سلسلے میں دس پندرہ سال تک پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھ لے تو بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔
  •  پاکستانی قوم تمام تر مخدوش معاشی حالات کے باوجود ہر سال ۳۰۰؍  ارب روپے سے زیادہ کی خیرات کرتی ہے اور ہم اس حوالے سے دنیا کی تین اہم ترین قوموں میں سے ایک ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قوم میں جذبۂ خیر اور جذبۂ تعمیر زندہ ہے جسے مہمیز دے کر قوم سے مزید بڑے بڑے کام کرائے جاسکتے ہیں۔
  •  ہماری قومی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر پانچ سات سال کے بعد ایک فوجی آمر ملک و قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اس آمر کو سیاست دانوں کی حماقتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ  عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے مگر پاکستانی قوم بالآخر آمروں کی مزاحمت کرتی ہے۔ چنانچہ قوم نے جنرل ایوب خان کی مزاحمت کی، جنرل محمد ضیاء الحق کی مزاحمت کی اور جنرل پرویز مشرف کی مزاحمت کی۔اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی آمر آٹھ دس سال سے زیادہ ٹک نہیں پایا۔ ورنہ عرب ممالک میں کرنل قذافی ۴۰سال سے قوم پر سوار تھے۔ مصر کا صدر حسنی مبارک ۳۰سال تک مصر پر قابض رہا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم میں جذبۂ حریت کافی مقدار میں موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس جذبٔہ حریت سے بھی ’نئی دنیا کی تعمیر‘ میں بڑی مدد لی جاسکتی ہے۔
  •  تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کی بیداری اور تعمیر میں ’تصور دشمن‘ کا بھی ایک کردار ہے۔ اتفاق سے ہمیں بھارت کی صورت میں ایک بڑا اور کم ظرف دشمن فراہم ہے۔ لیکن ہم نے اس دشمن کے تصور سے کوئی خاص ’کام‘ نہیں لیا۔ غور کیا جائے تو اس دشمن کا تصور ہمیں زیادہ نظریاتی بھی بناسکتا ہے اور زیادہ بیدار بھی کرسکتا ہے۔ زیادہ متحرک بھی کرسکتا ہے اور مادی معنوں میں زیادہ ترقی یافتہ بھی کرسکتا ہے___مگر اس کام کے لیے ’قیادت‘ کی ضرورت ہے۔
  •  پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظریے نے پاکستان کی تخلیق کی ہے، اس نظریے سے پاکستانی قوم کا ’جذباتی تعلق‘ ختم نہیں ہوا۔ آخر ایک قوم کی حیثیت سے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کے جونظریہ ہمیں پاکستان کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرکے دے سکتا ہے‘ وہ نظریہ پاکستان کو علاقائی نہیں عالمی طاقت بھی بناسکتا ہے۔  لیکن اس کی دوشرائط ہیں: ایک یہ کہ نظریے کو قومی زندگی میں حقیقی معنوں میں مؤثر یا Functional بنایا جائے۔ تاہم، اس کام کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس میں دو فضیلتیں موجود ہوں۔ ایک تقویٰ کی فضیلت اور دوسری علم کی فضیلت ۔ تاریخ میں مسلمانوں کو جب بھی غلبہ ملا ہے انھی دوفضیلتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ تقویٰ اور علم میں کمال کے بغیر پاکستان کیا پوری امت مسلمہ کا کوئی مستقبل نہیں۔

پاکستان اپنے قیام ہی سے اپنے قائدین کے جوش و جذبے اور عزم و ارادوں سے سرشار تھا۔ چنانچہ معاشی و فنی وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود، چند ہی برسوں میںنہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور زندگی کے متعدد شعبوں اور میدانوں میں ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے اس نوزائیدہ مملکت نے متعدد ایسی کامیابیاں بھی حاصل کیں جوتوقع سے بھی بڑھ کر تھیں۔تعلیمی اور  علمی میدانوں میںبھی صورت حال مایوس کن نہ تھی۔قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں قائم پنجاب یونی ورسٹی اور بالخصوص اس سے ملحق اورینٹل کالج علوم و ادبیات کی تدریس و مطالعات میں ایک  شان دار علمی شہرت و مقام پر فائز تھے۔ اور یہاں کے علمی و تحقیقی منصوبے اور ان کی عالمانہ و محققانہ تصانیف ہرایک کے لیے قابلِ رشک تھیں۔ یہاں کے گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج نے بھی علمی و تعلیمی سرگرمیوں کی ایک شان دار روایت قائم کررکھی تھی۔ان تینوں اداروں سے منسلک اساتذہ و طلبہ نے دل چسپی کے اپنے اپنے شعبوں میں اپنی تخلیقی و تصنیفی سرگرمیوں سے زبان و ادب، تاریخ اور علوم کے دیگر متنوع شعبوں میں قابل قدر خدمات کی ایک مستحکم روایت قائم کردی تھی کہ جو بعد کی نسلوں کے لیے بھی پُرکشش اور قابل تقلید رہی۔ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، پنجاب پبلک لائبریری اور لاہور ریکارڈ آفس کے ذخائر نے معلّمین و محققین کے لیے ممکنہ وسائل فراہم کرنے میں اپنا مفید کردار ادا کیا۔پشاور آرکائیوز بھی اپنی ایک حیثیت کا حامل تھا۔

کراچی کے قومی عجائب گھر کے نادر ذخائراور پھرچند ہی برسوں میں کراچی اور حیدرآباد میں جامعات کے قیام نے ان شہروں اور خصوصا ً کراچی کو ایک علمی و تہذیبی مرکز بنادیا۔جس میں کراچی یونی ورسٹی نے اپنے لائق وقابل سربراہوں اور اساتذہ کی حددرجہ مخلصانہ انتظامی کاوشوں اور جدید سائنسی علوم کے شعبوں کے قیام اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کے سبب بہت جلد ملک کی ممتاز ترین جامعہ کی حیثیت حاصل کرلی۔

’انجمن ترقی اُردو‘ کے وقیع کتب خانے کی دہلی سے کراچی منتقلی نے بھی کراچی میں علمی تحقیقات کو حددرجہ مہمیز دی اور ادبی تحقیقات و مطالعات کا ایک قابلِ رشک آغاز ہوا۔

علمی و تحقیقی ادارے

جامعات کے ساتھ ساتھ ،حکومت نے اپنے قلیل وسائل کے باوجود، علمی ادارے قائم کیے اور نجی کوششوں کی سرپرستی بھی کی۔لاہور میں:’ مجلس ترقی ادب‘؛’ اقبال اکیڈمی‘؛ ’ادارۂ ثقافت اسلامیہ‘؛’مرکزی اُردو بورڈ‘، بعد میں’ اُردو سائنس بورڈ‘؛’ادارۂ تحقیقات پاکستان‘؛’اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘؛کراچی میں:’انجمن ترقی اُردو‘؛ ’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘؛ ’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘؛ ’ترقی اُردو بورڈ‘ اب’ اُردو لغت بورڈ‘؛ اسلام آباد میں:’ادارۂ تحقیقات اسلامی‘؛ ’قومی کمیشن براے تحقیق، تاریخ و ثقافت‘؛کچھ عرصے بعد مقتدرہ قومی زبان بھی کراچی سے یہیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ہر صوبے میں قائم کردہ علاقائی زبانوں کی اکادمیوں:’ پنجابی ادبی اکادمی‘؛ ’بلوچی اکیڈمی‘؛ ’سندھی ادبی بورڈ‘؛ ’پشتو اکیڈمی‘ ان سب نے اپنے اپنے دائرے میں مفید علمی و مطالعاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوششیں کیں جن میں سے خاص طور پر’ سندھی ادبی بورڈ‘ اور’پنجابی ادبی اکادمی‘ نے زیادہ سرگرمی دکھائی اور کلاسیکی ادب اور تاریخ ا ور تاریخی متون کو ترتیب و تدوین کے بعد شائع کیا۔ پھر ان کی کارکردگی یا تو ماندپڑگئی یا منقطع بھی ہوگئی۔ اداروں کے سربراہوں کے انتخاب و تقرر میں سیاسی فیصلے در آئے تھے، چنانچہ اقربا پروری ، سفارشوں اور جانب داری نے اپنے اثرات قائم کرنے شروع کیے۔ سربراہوں میں اہلیت، خلوص، دیانت داری اور مستعدی کی صفات رفتہ رفتہ عنقاہوگئیں اور اب اکثر اداروں میں بالائی سطح پر کم ہی کہیں اہلیت و مستعدی دیکھی جاسکتی ہے۔

متعدد قابل تحسین ادارے اپنی ابتدا یا ماضی میں اپنی ہی جس مستحسن روایت پر کاربند تھے اور عمدہ علمی و تصنیفی منصوبوں میں سرگرمِ عمل ہونے کے بجاے اپنے سربراہوں کی ذاتی اغراض، خود نمائی یا اقربا پروری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اُن میں کسی بڑے منصوبے کی تشکیل یا اس میں پیش رفت کا شعور اور صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ صورتِ حال اداروں میں سیاست کے عمل دخل کا نتیجہ ہے، مگر خرابی کی ایک اور وجہ قحط الرجال بھی ہے۔ جو اکابر اداروں سے منسلک تھے وہ رفتہ رفتہ اس دنیاسے رخصت ہوتے رہے تو ان کی جگہ لینے والے اہل اور مخلص افراد نا پید تھے۔

جامعات کاکردار

 آج علمی و تحقیقی اور ادبی اداروں کی بے عملی اور کج روی کے باوجود علمی و تحقیقی سرگرمیاں بھی کہیں مرکوز نظر آتی ہیں، مگر جامعات کے ادارے یا شعبہ جات ایسے کم ہیں جو اپنے طورپر اجتماعی اور گروہی تحقیقی و مطالعاتی منصوبے تشکیل دیں اور مثالی صورت میں انھیں مکمل کریں۔ جامعات میں تحقیقات و مطالعات بالعموم اساتذہ یا منسلک مصنّفین و محققین کی ذاتی دل چسپیوں اور ان کے اپنے ذوق و شوق کے تحت رہنے کی ایک طویل اور دیرینہ روایت رہی ہے اور بہت مستحکم بھی رہی ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے منسلک محققین نے، جن میں بعض عالمی شہرت رکھتے تھے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی اپنی اعلیٰ معیار تحقیقات اور مطالعات کے باوصف بہت نمایاںاور نہایت قابلِ قدر خدمات کی ایک درخشاںمثال قائم کی تھی۔ یہاں سے نکلنے والاتحقیقی مجلّہ اورینٹل کالج میگزین، اپنے معیار کے سبب ایک عالمی وقار اور امتیاز کا حامل تھا۔ کچھ برسوں کے بعد یہاں سے مجلہ تحقیق  اور دیگر مجلّوںکے کامیاب اجرا نے اس روایت کو مزید فروغ اور استحسان عطا کیا۔ بعض اساتذہ کے تحقیقی مطالعات نے بھی عمدہ علمی و سماجی اور ادبی موضوعات پر لائقِ تحسین مثالیں پیش کیں۔

جامعہ کراچی سے ایسے اکابر محققین اور مصنّفین منسلک رہے ہیں، جن میں سے کچھ نے قیامِ پاکستان اور کراچی میں آباد ہونے سے قبل ہی علمی اور تعلیمی دنیا میں اپنے مؤقر کارناموں کے باوصف شہرت و امتیاز حاصل کیاتھا اور جامعہ کراچی سے منسلک ہوکر اپنے تجربے اور اپنی لیاقت سے اس جامعہ کو ملک کی ممتاز ترین جامعہ کے درجے تک پہنچادیا ۔ پھر اس شہر کو قوم پرستانہ سیاست کی نظر لگ گئی۔ اب جامعہ کراچی کا نظم و نسق اور معیار بھی حسب سابق برقرار نہیں رہا اور مطالعات اور تحقیقات کا معیار بھی مزید زوال پذیر ہے۔اس کا ایک بڑا سبب جامعہ کا شہرکے سیاسی نظام کے تابع ہوجانا یا کردیا جانا ہے۔چنانچہ اساتذہ کے تقرر اور ان کی ترقیوں کا انحصار اب سفارشوں اور سیاسی وابستگیوں پر زیادہ ہوکر رہ گیاہے اور مطالعہ و تحقیق کی جو شرائط اور پابندیاں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) کی جانب سے جائز طور پر جامعات اور ان کے اساتذہ پر عائد ہیں، یہ جامعہ اور اس کے اساتذہ بڑی حد تک ان سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً جامعہ کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں اب زوال پذیر ہیں۔

یہی صورت اب ملک کی دیگر متعدد سرکاری جامعات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ تقرر اور ترقیوں کے لیے ایچ ای سی کی جانب سے عائد شرائط میں سے عالمی سطح کے معیاری مجلّوں میںتحقیقی مقالات کی اشاعت کے بارے میں غلط بیانیاں عام ہیں اور سطحی اور سرسری مضامین کو تحقیقی مقالہ قرار دینا اور اسے انتظامیہ کی جانب سے تسلیم کرلیاجانا ایسا عمل ہے جس نے اساتذہ میں اہلیت پیدا کرنے کے بجاے انھیں جرم پر آمادہ کرنے کی آزادی دے دی ہے۔

اس ضمن میں خود ہایر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اپنے ہی قواعد و ضوابط کا لحاظ نہ رکھا اور ان پر عمل درآمد کے جائزے کا کوئی مستحکم اور مؤثر نظام تشکیل نہیںدیا کہ بدعنوانیوں اور غلط بیانیوں کی روک تھام ہوسکتی۔بعض اساتذہ کی اپنی کاوشوں کے تحت جو معیاری تحقیقی و مطالعاتی سرگرمیاں ہیں وہ اس صورت حال سے ماورا ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت قابلِ اطمینان نہیں۔

جامعات میں مطالعات و تحقیق کی یہ صورتِ حال حد درجے افسوس ناک ہے۔اس میں اساتذہ اور جامعات کے ساتھ خود ایچ ای سی بھی اس کی بڑی ذمے دار ہے کہ اس کے نظام میں اساتذہ کی تحقیقات و مطالعات کو خود جانچنے اور اس کے اپنے فیصلوں کے معیار کو پرکھنے اور ساتھ ہی اس کی اپنی عائد پابندیوں کو نظر انداز کرکے غلط بیانیوں اور دھوکا دہی کے ذمے دار اساتذہ کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جامعات بھی اپنی داخلی علمی بدعنوانیوں کی روک تھام کا کوئی مؤثر نظام نہیں کرسکیں۔

تعلیمی معیار رُوبہ زوال و تدارک

تحقیقات و مطالعات سے قطع نظر سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار بھی گذشتہ دہائیوں میں متاثر ہوا ہے۔ معیار کی بہتری کے لیے جو کوششیں خود جامعات اور ان کی سرپرست ایچ ای سی کو  کرنی چاہییں تھیں، وہ بھی ہر سطح کے تعلیمی نصاب کی بہتری کے باب میں مجموعی طور پر بے نیاز اور لاپروا ہیں۔ برسوں بلکہ عشروں تک بھی نہ نصابات پر نظر ثانی کی جاتی ہے نہ ان کی تجدید کے بارے میں کوئی عمل ہوتاہے اور نہ نصابات کو قومی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی مخلصانہ اور شعوری کوشش ہوتی ہے۔ بالعموم ہمارے سارے ہی قومی اور صوبائی نصابات ازکارِرفتہ، فرسودہ اور طلبہ کے لیے بے فیض ہیں اوروہ ان میں کسی طرح بھی قومی اور اجتماعی سو چ پیدا کرنے کے لائق نہیں۔ایک مقصدی اور تعمیری نصاب کی عدم موجودگی ہمارے اکثر قومی اور سیاسی و سماجی مسائل اور مشکلات کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم اب تک نہ بن سکے۔

صدرجنرل یحییٰ خاںکے دور میں ائیر مارشل نورخان کی تعلیمی تجاویز، اپنے چند اسقام کے باوجود، ملک میںتعلیمی نظام کی اصلاح وبہتری کاایک فکر انگیز اور مخلصانہ اقدام تھا، لیکن افسوس صد افسوس کہ  پھر کبھی اس طرح کی کوئی مخلصانہ اور سنجیدہ و مؤثر کوشش نہ ہوسکی۔

نظامِ تعلیم اورنصاب کی طرح ہم نے جامعات میں اپنے مطالعات اور تحقیقات کو بھی قومی تقاضوں اور عہد حاضر کی معاشرتی اور علمی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی جانب بھی کبھی نہیں سوچا۔ سائنسی شعبوں کے تحقیقی موضوعات سے قطع نظر،سماجی علوم اور زبان و ادبیات کے شعبوں میں تحقیق کے لیے بالعموم ایسے موضوعات کی بھرمار رہتی ہے جو سطحی، سرسری اور فرسودہ و از کار رفتہ ہوتے ہیں،جن سے نہ متعلقہ علم کوکوئی فائدہ پہنچتاہے ، نہ ان سے کوئی علمی و تحقیقی خلا پُر ہوتا ہے۔ جامعات میںسندی سطح کے امیدواروں میں اگرموزوں و مفید یا تعمیری موضوعات کے انتخاب کا شعور نہیں تو ان کے نگران اساتذہ بھی اس شعور سے بمشکل ہی کہیں بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جامعات میں ایچ ای سی کی ہدایت پر حالیہ کچھ عرصے سے بظاہر ایک ’صیغۂ فروغِ تحقیق ‘ (Research Enhancement Cell)کاقیام عمل میں آیاہے، جس پر تحقیق کے معیار کی بہتری اور اس کے فروغ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اسے موضوعات کی افادیت کے نقطۂ نظر سے اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ  ایشیا کی پانچ سو جامعات میں ہمارے ملک کی کوئی جامعہ بھی کبھی شمار میں نہیں آتی ، عالمی سطح کی جامعات کا تو کیا ذکر!

میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی معیارکی بہتری اور طلبہ میں قومی سوچ کو عام کرنے کے لیے جہاں ایک قومی سطح کی منصوبہ بندی، بمثل نورخان تجاویز، اشد ضروری ہے ،وہیں ایچ ای سی کو ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنے فرائض میںتعلیمی معیار کی بہتری،جامعات میں نظم و نسق کے قیام کی نگرانی، جامعات اوراساتذہ کو اس کے اپنے ہدایت کردہ قواعد و ضوابط کا پابند کرنا اور اساتذہ اور سربراہوں میں اہلیت، فرض شناسی اور دیانت داری کی صفات کے جانچنے اور اس کے اپنے عائدکردہ ضوابط سے انحراف پرمناسب سزا کا اہتمام کرنابھی شامل ہونا چاہیے۔ آج ہمارا تعلیمی معیار بڑی حد تک اساتذہ کی نااہلی،بدعنوانی اور اپنے فرائض سے غفلت کے سبب برباد ہوا ہے۔میں یہ بارہا لکھتا رہاہوں کہ آج ہمارے معاشرے کی تعمیر اور تخریب تین افرادکی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے: ایک استاد، دوسرا صحافی اور تیسرا منصف(جج)،جب کہ صحافی اور منصف بھی استاد ہی بناتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں اور بالخصوص جامعات میں سیاست کے عمل دخل نے تعلیمی نظم و نسق اور معیار کو بری طرح متاثر کیاہے۔سیاست اور اقربا پروری کے پروردہ نااہل اور بدعنوان اساتذہ نے سارے ماحول کو برباد کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ایچ ای سی کی غفلت اور اپنے بنیادی فرائض میں روورعایت اور بے نیازی کی اس کی حالیہ کیفیت بدعنوان اساتذہ پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتی، جس کے سبب تعلیم و تدریس کا معیار پست ہوتاجارہاہے اور تحقیق و مطالعات زوال پذیر ہوگئے ہیں۔اور یہی ایچ ای سی تدریس اور تحقیق کے لیے ایسے رہنما اصول و ضوابط بھی تجویز نہیں کرتی کہ اساتذہ کی تدریسی کارکردگی کا محاسبہ ہوسکے اور تحقیق کامعیار حقیقی معنوں میں بلند ہوسکے۔ اگرچہ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ تحقیقی مقالات ایچ ای سی کے منظورشدہ مجلّوں میں چھپوائیں، لیکن ایچ ای سی نے کبھی نہیں سوچاکہ وہ اساتذہ کے لیے، ترقی یافتہ ملکوں کی جامعات کی طرح لازم کریں کہ وہ اپنے موضوعات کی دل چسپی کے پیش نظر سال میں ایک یا دو سیمی نار پیش کرنے کا اہتمام کریں، جو ان کی ترقی کے لیے شمار میں آئیں۔

پاکستان اور پاکستانی قوم کا یہ المیہ ہے کہ تعلیم اور تدریس اب اپنا جیسا تیساسابقہ معیار و امتیاز بھی بتدریج کھوتے جارہے ہیں اور یہ دونوں ہی آئے دن زوال پذیر ہیں۔یقیناً ہماری قوم کے نابغہ افراد نے انفرادی طور پران ہی جامعات سے تحصیل علم کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں بڑے نام کمائے ہیں، اور عالمی سطح پر بھی ایسے کارنامے انجام دیے ہیںکہ اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیاہے۔ ایسے اعزازات و عزت کا حصول ہر فرد کا حق ہے، جب کہ اس کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی اور ایک عمومی حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنا ہماری جامعات کا کام ہے لیکن آج جامعات میں جو حوصلہ شکن فضا عام نظر آتی ہے اس سے کیا توقعات باندھی جاسکتی ہیں؟

پاکستان میں علمی وادبی تحقیق زوال کاشکار ہے۔ اس زوال کاپاکستان کی سیاسی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ سیاسی نشیب وفراز(فراز سے نشیب کی طرف سفر)اورحکمرانی کا (گوارا یا بہتر معیار سے پست ہوتا ہوا)معیار، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم وتحقیق اورعلمی وتحقیقی اداروں پر بھی اثر انداز ہواہے۔

قیامِ پاکستان کے اوائل میں نئی یونی ورسٹیوںاورمتعددعلمی اداروں کے قیام کی صورت میں بعض خوش آیند اقدام کیے گئے ،جس کے نتائج حوصلہ افزاتھے(اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ  بعض پہلوؤں سے چند اداروں کی کارکردگی مایوس کن تھی)۔

جس طرح ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں جڑنہیںپکڑسکی اور جمہوریت کے پودے کو بار بارنوچ کر،جڑسے اُکھاڑپھینکاجاتارہا،اسی طرح اداروں میں بھی من پسنداورنااہل افراد کا تقرر کیا جاتا رہا،خصوصاً ۱۹۷۲ء کے بعد کے اَدوار میں تواہلیت اورمیرٹ کوایک طرف ہی نہیں، بالاے طاق رکھ دیاگیا۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی وفاقی تحقیقی و ادبیاتی اداروں کے سربراہان کچھ ایسا تعارف رکھتے ہیں کہ جنھیں تحقیق و تفکر سے کم ہی واسطہ ہے۔اسی طرح بیرون ملک (برطانیہ، جرمنی وغیرہ)پاکستان اوراقبال مسندوں(chairs)پرمیرٹ سے ہٹ کر ایسے من پسند افراد کا تقرر کیا جاتا رہا جواِن مسندوںکے لیے مقررہ ضابطوں اور شرائط ومعیارپرقطعی پورے نہیں اُترتے تھے (یا پھر ایسی متعدد مسانیدِ دانش (chairs) آج تک خالی پڑی ہیں)۔

ایسے سربراہ اور’عالم‘اپنے مربیّوں کی خوش نودی کو مقدم سمجھتے تھے چنانچہ لاہور کے ایک علمی ادارے کے سربراہ نے حاکمِ وقت کے اشارۂ ابرو پرپہلے توملّاپر چاند ماری کی اور کندھا  علّامہ اقبال کا استعمال کیا۔پھرانھیں اقبال کی شاعری میں بھی کیڑے نظرآنے لگے۔مغربی تہذیب پراقبال کی تنقیدان کی آنکھوںمیںکانٹے کی طرح کھٹکنے لگی اورانھوں نے بڑے بھد ّے انداز میںاقبال پر بھی تبر ّا کیا۔

اقبال کا ذکرہواتو سمجھ لینا چاہیے کہ تخیل پاکستان، تشکیل پاکستان اور پھر تعمیرپاکستان میں اقبال کے کلام و پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کو تقویت عطا کرنے کا ایک زندہ و توانا حوالہ بھی ہیں۔ اس لیے آج ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں اقبال کے حوالے سے روا رکھے جانے والے طرزِعمل کا توجہ سے جائزہ لینا چاہیے۔

اقبال کے فکرپرتحقیق اوران کے پیغام کی نشرواشاعت کے لیے حکومتی سطح پر لاہورمیںدوادارے قائم ہیں:اقبال اکادمی پاکستان وفاقی حکومت کاادارہ ہے اور بزم اقبال پنجاب کی صوبائی حکومت کا۔ دونوں اداروں نے سیکڑوں کتابیں چھاپی ہیں،مگرفروغِ اقبالیات کے ضمن میں صرف کتابیں چھاپناہی کافی نہیں،اقبال کے فکراورپیغام کی نشرواشاعت کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرناناگزیرہے مگر ایسا کچھ نہیں کیاگیا (البتہ ایک استثنیٰ ہے۔اقبال اکادمی نے خصوصاً محمد سہیل عمرکے زمانۂ نظامت میں، ابلاغِ فکراقبال کے لیے کتابوں کی اشاعت کے علاوہ نشرواشاعت کے جدید برقی ذرائع بھی اختیار کیے،جن میں آڈیو کیسٹ،وڈیوکیسٹ،سی ڈی، نمایشیں، اقبالیات کے مختلف النّوع مقابلوں اورمذاکروں کا انعقاد وغیرہ شامل ہیں)۔تاہم ان اداروں میں بہ حیثیت ِمجموعی تنظیم،ترتیب اورمنصوبہ بندی کی خاصی ضرورت ہے۔

یہ منصوبہ بندی کی کمی ہی تھی، جس کی وجہ سے ، مثلاً اقبال کے صدسالہ جشنِ ولادت تک علامہ اقبال کی کوئی ڈھنگ کی سوانح عمری نہ لکھی جاسکی تھی۔ پچاس کے عشرے میں بزمِ اقبال نے یہ منصوبہ ابتدامیں غلام رسول مہرکے سپرد کیا، پھر ان سے واپس لے کرعبدالمجیدسالک کودے دیا۔ انھوں نے۱۹۵۵ء میں ذکراقبال لکھ دی تو اس پرشدیدتنقید ہوئی۔بعض افراد نے اپنے طورپر سوانح عمریاں لکھیں، مگر اداروں کی سطح پرمزیدکوئی کوشش نہ کی گئی۔اسی لیے ۱۹۷۷ء کی صدسالہ جشن اقبال کمیٹی نے ایک مفصّل اورمعیاری سوانح عمری لکھنے کاکام پہلے سید نذیر نیازی، بعد ازاں ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کے ذمے لگایا مگر بات نہیں بنی۔آخر علامہ کے فرزندِارجمندجاویداقبال مرحوم نے زندہ رود  لکھ کر اس کمی کوپوراکیا۔

میراتاَثّر یہ ہے(اوراکثرحضرات اس سے اتفاق کریں گے)کہ اقبالیات ہو،غالبیات ہو یا تاریخِ ادب یاادبِ اردو کا کوئی شعبہ،جوچند ایک قابل ِقدرکام ہوئے ،بیش تروہ انفرادی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اداروں کی کارکردگی بالعموم ناقص رہی ہے،حالاںکہ وسائل،بہ نسبت افراد کے، اداروں کو میسرہوتے ہیں۔

ڈاکٹرعطاء الرحمٰن ہائرایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے، توعلمی وادبی تحقیق میں تیزی و تیزرفتاری آئی، مگرمعیار،مقدارکاساتھ نہ دے سکا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ایما پر پی ایچ ڈی اورایم فل کے وظائف دینے کے مثبت قدم نے، عملاً معیارکونیچے کھینچنے میں حصہ لیا ہے اوراب تو جامعات میںتحقیقی مقالے یوں دھڑادھڑ تصنیف ہورہے ہیں، جس طرح کسی فیکٹری سے خاص وضع قطع کے بُرے بھلے پُرزے تھوک کے حساب سے ڈھل ڈھل کر نکلتے چلے آتے ہیں۔ تحقیق کرانے والے اساتذ ہ کی کمی نہیں مگر محنت کرنے اور کرانے والے اساتذہ بہت کم ہیں۔  آج ایک اخبار نویس نے اپنے بقول’انکشاف‘کیاہے کہ پاکستانی جامعات میں۱۱ہزار پی ایچ ڈی اسکالر (اساتذہ) اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ مزید۳۰ہزار اسکالروں کی ضرورت ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کی کوشش ہے کہ اگلے سال میں مزید۲۰ہزار اسکالرتیارکیے جائیں (روزنامہ۹۲نیوز،۲۳؍جولائی ۲۰۱۷ء)۔ گویاکمیشن مقداربڑھانے کی فکر میںہے، حالاںکہ ضرورت ان ’خدمات‘ کا معیار بڑھانے کی ہے، جو موجودہ ۱۱ہزار اسکالرانجام دے رہے ہیں۔

بقول رشیدحسن خاں: ’’ہمارے اساتذہ (اسکالر)کو ترقی کے ہجے کرنے سے فرصت نہیں ہے‘‘۔ چمک نے چندھیادیاہے۔ تحقیق کا معیار بلندہوتوکیسے؟ معیار تو بعدکی بات ہے، اب تو پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالر موضوعاتِ تحقیق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اساتذہ نے موضوعات کی تلاش بھی شاگردوںکے ذمے ڈال دی ہے(حقیقت یہ ہے کہ موضوعات موجود ہیں، مگر ان پر کام کرانے کے لیے اساتذہ کو خود بھی محنت کرنی پڑتی ہے،دل جمعی سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ ان مشکل موضوعات کے قریب نہیں پھٹکتے)۔

پاکستان کامستقبل تعلیم(تحقیق جس کالازمی جزوہے)کے اچھے معیاراورانصاف کی بلاتاخیر فراہمی پرمنحصر ہے، اور یہی دوچیزیں ہمیں نظرنہیں آتیں۔مگرخوش آیندبات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںشایدپہلی باراحتساب کاسلسلہ شروع ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ علمی تحقیق خصوصاً جامعات کے تحقیقی مقالوں کا بھی جائزہ لیا جائے(خصوصاً سماجی و ادبیاتی علوم)۔ جامعات کے تحقیقی مقالوں کے پست معیار کاایک سبب ہائرایجوکیشن کمیشن کی غفلت بھی ہے۔ وہ کم ہی اس بات کااہتمام کرتی ہے کہ تحقیقی مقالات کے لیے اس نے جو اصول اورضابطے مقرر کیے ہیں،     یہ دیکھے کہ کیا تحقیقی مقالوں میں ان کی پابندی کی جارہی ہے؟ ماضی قریب میںہائرایجوکیشن کمیشن نے ضابطہ جاری کیاتھاکہ مقالہ نگاروں کا زبانی امتحان (viva)کھلے بندوں لیاجائے گا اور مقالہ نگار اپنے مقالے کا کھلا دفاع (open defence)کریںگے۔شعبوںسے کہاگیاتھاکہ وہ اس کے لیے امتحان کاوقت اورتاریخ میڈیاپرنشرکرانے کااہتمام کریں ،عنوان بھی بتایا جائے اورعوام النّاس کو دعوت دی جائے کہ وہ اس موقعے پر زبانی امتحان کا مشاہدہ کریںاور امیدوار سے سوالات کریں۔ اگر مقالہ نگار، تسلی بخش جواب نہ دے سکے تواسے تیاری کاایک اورموقع دے کردوبارہ امتحان لیا جائے۔ افسوس ہے کہ ہماری جامعات میں اِلاّماشاء اللہ ،اس کااہتمام نہیں کیاجاتا۔ شعبے اخبارات میں اطلاع نہیں بھیجتے۔ خانہ پُری کے لیے متعلقہ شعبے میں فقط ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے، بسااوقات اسی روزیاایک آدھ روز پہلے۔ یہ کمیشن کے ضابطے کا مذاق اُڑانے والی بات ہے مگر کمیشن نے مذاق اُڑانے والوں کاشاید ہی کبھی احتساب کیاہو۔ اگر کمیشن غفلت نہ برتے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کھلے بندوں دفاع کے ضابطے پرپابندی سے عمل کیاجارہاہے تواس سے مقالات کامعیاربہتر ہوگا۔

بہرحال، اُمیدرکھنی چاہیے کہ حالات بہترہوں گے۔ ہمیںایک لمبافاصلہ طے کرنا ہے، تب کہیں جاکرقیام پاکستان کے مقاصد پایۂ تکمیل کوپہنچیں گے۔

پاکستان بنتے وقت اس میں صرف ایک (پنجاب)یونی ورسٹی تھی اوراب سرکاری و نجی   کم وبیش ۱۸۳یونی ورسٹیاں ہیں۔اس نوعیت کے کئی پیمانےہیں، جن کے مطابق ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ تاہم دوسرے معیارات کے مطابق صورت حال مایوس کن ہے۔

سائنس ایک ایسا میدان ہے جس میں انسانوں کی مجموعی دانش نے حصہ ادا کیا ہے۔ خود  ہم نے ہرایک سےسائنس سیکھی اور ہر ایک کے ساتھ کام کیا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم۔   پاکستان میں اس سفر کا بیان ڈاکٹر رفیع محمد چودھری سے شروع کر سکتے ہیں، جنھوں نے کیمبرج (انگلینڈ) میں نوبل انعام یافتہ ردر فورڈسے ڈاکٹریٹ کی۔ پاکستان بننے کے بعد برطانیہ چھوڑ کر یہاں آئےاوربرطانیہ کی مدد سے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہائی ٹینشن لیبارٹری بنائی۔ یہیں سے شروع ہونے والے سفر کے تحت آخر کا رپاکستان نے ایٹم بم بنایا۔ ان ابتدائی برسوں میں پاکستانی سائنس دان حکومت پاکستان سے زیادہ یورپ کی مدد لیتے رہے۔ساٹھ کے عشرے سے حکومت پاکستان نے مدد کرنا شروع کی، مگر اس طرح پاکستان میں سائنسی تحقیق زیادہ ترحکومتی اداروں میں ہونے لگی، جب کہ دنیا میں زیادہ تحقیق یونی ورسٹیوں میں ہی ہوتی ہے۔

ہمارے مخصوص جغرافیائی حالات کے سبب ہماری سائنس کا آخر کارسب سے بڑا مقصد ایٹم بم اور میزائل پروگرام بنا۔ ایٹم بم بنانے کے اعلان کے بعد حکومتی اداروں نے یونی ورسٹیوں سے تعاون بڑھایا۔قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کا اس ضمن میں کلیدی کردار رہا، اور نیشنل سنٹرفار فزکس کی تعمیر ایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوا۔ اس میں بیرونِ ملک پاکستانی سائنس دانوں اور انجینیروں کا بھی تعاون حاصل رہا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو۱۹۷۹ء میں نوبل پرائز ملا اور انھوں نے ۱۹۶۴ء میں اٹلی میں ’عبدالسلام مرکز براے تھیوریٹیکل فزکس‘  قائم کیا، جس میں تربیت حاصل کرنے والے پاکستانی سائنس دانوں نے پاکستان میں سائنس کی ترقی میں بڑا حصہ ادا کیا۔ –پاکستان میں موجود سائنسی ادارے بھی خاصی حد تک یورپی، امریکی اور اب چینی اور جاپانی اداروں کی مدد سے ہی کام کرتے ہیں۔

بیرونِ پاکستان سے اعلیٰ مہارت حاصل کرنے اور وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے پوری زندگی تج دینے والی ایک روشن ترین مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں، جنھوں نے ایٹمی پروگرام کی تعمیروتکمیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ –کیمسٹری میں اس طرح کا ایک اہم ادارہ ’حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری‘، کراچی ہے، جہاں سے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاءالرحمان نے جنرل مشرف کے دورِحکومت میں سائنس کو بہت ترقی دی۔یاد رہے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں زراعت، میڈیکل اور بیالوجی کے ادارے بھی ہیں۔

حکومت نے اپنے اداروں کے علاوہ یونی ورسٹیوں کی بھی مالی امداد کی۔یہ بھی ایک اچھا اقدام ہے۔ دراصل ہر طرح کے سائنسی علوم کی تدریس و تربیت حکومتی اداروں میں نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۲ء تک یونی ورسٹیوں کی یہ امداد یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعےملتی رہی۔ ۲۰۰۲ء کے بعد اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کر دیا گیا، اور ۲۰۰۸ءتک ڈاکٹر عطاءالرحمان کی قیادت کے دوران میں پاکستان میں تحقیق کی سہولیات کئی گنازیادہ ہوئیں اور نتیجے میں پاکستان میں، تحقیق ۴سے ۱۰گنا تک زیادہ ہوئی اور یہ ترقی آج بھی جاری ہے۔

موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے اور حقیقی قومی تقاضے پیش نظر ہوں تو سائنس میں ترقی کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔دوسرے یہ کہ اس ’ترقی‘ کےمطلب اور مفہوم پرکچھ اختلاف بھی موجود ہے ۔اس ترقی میں کہیں اعداد وشمار کی شعبدہ بازی بھی شامل ہوسکتی ہے اور ایسا کیا بھی جارہا ہے ۔ یونی ورسٹیاں کئی بار وہ حرکتیں بھی کرتی ہیں، جو میڈیاکے چینل اپنی رینکنگ یا ریٹنگ میں اضافے کے لیے کرتے ہیں۔ سائنس کے بہت سے اساتذہ نے اپنےتحقیقی مقالات کی تعداد بڑھانے کے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں، کہ جن پر جتنا سوچا جائے، انسان اتنا ہی ندامت میں ڈوبتا چلاجاتا ہے۔تاہم، تحقیق میں سارا اضافہ کھوکھلا نہیں ہے۔

–اگلا سوال یہ ہے کہ: ’’تحقیق کی اس ترقی سے کیا پاکستان کے عوام کی حالت اچھی ہو جائے گی؟‘‘ اس کا کوئی سادہ جواب ’نہیں‘ ہے۔ تحقیق ویسے بھی اپنے عوام کی بہتری کے لیے کم اور زیادہ اس (اکثرغیر ملکی) رسالے کے لیے کی جاتی ہے، جو اسے شائع کرسکتاہے۔اس لیے عملاً سب سے زیادہ تحقیق، ترقی یافتہ ملکوں کے سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ملکوں نے اسی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی ہے۔ پاکستان نے بہرحال امتیازی ترقی نہیں کی، سواے انفارمیشن ٹکنالوجی کے، جس میں ہم کچھ بنانے بھی لگ گئے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر تو ہم     خام مال ہی برآمد کرتے ہیں۔

–تحقیق کے رُخ کو قومی ضروریات کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر  غیر ملکی سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر کام کے نتیجے میں زیادہ اہم چیز وہ صلاحیت اور مہارت ہے، جو ہمارے سائنس دانوں میں قومی ضروریات پورا کرنے میں مددگار ہو۔ ہمارے ہاں ایسی منصوبہ سازی کسی حد تک فوج کرتی ہے۔ اس کے برعکس –عام معاشرہ زیادہ تر اس جاگیر دارانہ مزاج میں جکڑا ہوا ہے کہ کسی قسم کی ترقی ہو یا نہ ہو۔ مقام و مرتبے کا رُعب داب برقرار رہنا چاہیے۔ جدید دور میں ترقی کے لیے سرمایہ دارانہ مقابلے کی فضا عام طور پر بہتر ثابت ہوئی ہے کہ جس نے منڈی پر حاوی ہونے کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کی سرپرستی کرکے ناقابلِ تصور سرمایہ سمیٹا، اور انسانوں کے لیے سہولتیں بھی مہیا کیں۔ ہمارے ہاںصنعت نہ ہونے کے برابر ہے، اور ا س کے ذمہ دار سائنس دان نہیں ہیں۔دراصل حکومت اور صنعت کار کومسائل سائنسی اور عقلی انداز سے  حل کرنے کے بجاے بنے بنائے حل اور مشینیں باہر سے منگانا ہی آ سان لگتا ہے۔

اصل کمی اس سوچ اور ہمت کی ہے کہ ہم خود بھی سائنسی صلاحیت حاصل کرسکتے ہیں۔ عموماً مسلم معاشرے سائنس کو اپنا سمجھتے ہی نہیں۔ٹکنالوجی کی اہمیت ہم سب مانتے ہیں، مگر اس کی بنیاد جس سائنس پر ہے، اس کے بارے میں ہمارا ذہن واضح نہیں۔ ہم دوسروں کی پیدا کردہ سائنس سے فائد ہ تو اٹھانا چاہتے ہیں، مگر خود سائنسی طور پر سوچنا نہیں چاہتے۔اس نفسیاتی کیفیت کا ہماری تعلیم پر اثر یہ پڑا ہے کہ ہم باہر سے آئے نتائج یاد کرنے (رٹنے) میں مصروف رہتے ہیں، مگر ان کااپنی لیبارٹری یا زندگی میں استعمال نہیں کرسکتےیا نہیں سوچتے۔ اگر ہم خود سائنسی انداز سے نہیں سوچیں گے تو اپنے مسائل کیسے حل کریں گے؟

اسی طرح ہم سائنسی طریقے کے بھی خلاف چل پڑتے ہیں، خصوصاً سوشل سائنسز (معاشیات، سیاسیات، سماجیات وغیرہ) میں۔ اس میں قصور سار ا ہما را نہیں۔ ردعمل پیدا کرنے کے لیے سائنس اور عقل (Reason)کانام لے کر ہمارے عقائد تک پر بلاوجہ حملے کیے گئے۔   ردعمل کی نفسیات سے مسلمان امت نے جتنے فائدے اٹھانے تھے اٹھالیے، –لیکن جب یہ نفسیات، سائنس اور عقل پسندی کو مغربی کہتے ہوئے ان سے بے زاری پیدا کرتی ہے، تو اس سے ہمارا نقصان بھی ہوتا ہے۔

سائنسی ترقی میں ہم ان پاکستانیوں پر بہت انحصار کررہے ہیں، جنھیں سائنس کے مطالعہ و تحقیق سے کوئی بے زاری نہیں ہے،لیکن یہ لوگ بہت کم ہیں۔عوام اور سیاست دان اپنے مسائل سائنس اور عقل کے بجاے جذبات سے ہی حل کرنا چاہتے اوران کو ہربار یہی نظر آتا ہے کہ جذبات سے کام بن جائے گا، مگر وقت گزرنے کے بعد پتا چلتاہے کہ سائنس اور ترقی کا کام محض جذباتی نعروں سے ممکن نہیں۔ خود صحافت اور ابلاغِ عامہ کے میدان پر نظر دوڑائیں تو پاکستانی معاشرے میں شاید ہی کچھ صحافی سائنسی سوچ رکھتے ہوں۔

چاہیے یہ کہ ہم سائنس کو مغربی یا غیرمغربی سمجھنے کے بجاے ایک اعلیٰ انسانی کاوش اور صلاحیت سمجھیں جو غیرمسلم کی طرح ہمارے اندر بھی ہے۔ پھر اسلام نے ہمیں اس صلاحیت کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے ہاں یہ سوچ کیوں پیدا نہ ہوسکی اور آیندہ اس سفر کو کس طرح طے کرنا ہے؟

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہ مملکت ہیں، جنھوں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات کی داغ بیل ۱۹۷۱ءکی بھارت-پاکستان جنگ کے دوران ہی پڑی تھی، البتہ حساس اداروں کے درمیان اشتراک ۱۹۵۳ء سے ہی جاری تھا، جب ممبئی میں اسرائیل کو قونصل خانہ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی، مگر ان تعلقات میں سیاسی عنصر کی عدم موجودگی اسرائیل کو بُری طرح محسوس ہو رہی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سیکورٹی کے انچارج رامیشور ناتھ کائو (جو بعد میں خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ انالیسز وِنگ یعنی ’را‘ کے پہلے سربراہ بنے) نے ۵۰کے عشرے میں ہی افریقی ملک گھانا میں قیام کے دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے۔باضابطہ سفارتی تعلقات کی پراو کیے بغیر ، ۱۹۷۱ءکی جنگ میں اسرائیل نے فوجی ماہرین کے ساتھ اسلحے کی ایک بڑی کھیپ بھارت روانہ کی۔ چوںکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھارتی فوجی آپریشن کی قیادت ایک یہودی افسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی، تب اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ امیئر نے ایران جانے والے اسرائیلی اسلحے کے ایک بڑے ذخیرہ کوبھارت کی طرف موڑ دیا۔

حال ہی میں عام کی گئی دستاویزات کے مطابق، اگست ۱۹۷۱ء میں ’را‘ کے سربراہ کاؤ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہکسر کو لکھے ایک تفصیلی خط میں بتایا کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کو فوج اور مکتی باہنی کے گوریلا دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘‘۔یاد رہے جنرل جیکب کا پچھلے سال ہی انتقال ہوا ۔ اکثر نجی ملاقاتوں میں جنرل جیکب بتایا کرتے تھے کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کے بغیر مشرقی پاکستان میں آپریشن کی کامیابی ممکن نہ تھی‘‘۔ وہ اندرا گاندھی سے سخت ناراض تھے، کہ: ’’ایک تو اس نے مجھے فوجی سربراہ بننے نہیں دیا، اور دوسرا یہ کہ پاکستانی جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب کے لیے ایک سکھ افسر جنرل جگجیت سنگھ ارورا کو ڈھاکہ بھیجا، جب کہ ملٹری آپریشنز کی کمان میرے سپرد تھی‘‘۔ جنرل جیکب کے مطابق اندراگاندھی کو اسرائیل سے معاونت لینے میں کوئی لیت و لعل نہیں تھا، مگر اس ضمن میں وہ ایک یہودی افسر کی تشہیر نہیں چاہتی تھیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پاکستان اس چیز کو عرب ممالک میں بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا تھا۔

۷۰ءکے عشرے کے اواخر تک دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا اشتراک اور محور پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ بھارت کے لیے تو پاکستانی ایٹمی پروگرام خطرہ تھا ہی، مگر اسرائیل اس کو ’اسلامی بم‘ سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کی خبر تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ: ’’پاکستانی سائنس دان یورونیم کی افزودگی پر بھی کام کر رہے ہیں، مگر کہاں او ر اس کا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتا نہیں چل رہا تھا‘‘۔ منصوبہ یہ تھاکہ پلانٹ کا پتا چلتے ہی ’موساد‘ بھارتی سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اس کو تباہ کردے گا، جیساکہ بعد میں ۱۹۸۱ء میں اس نے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردیا تھا۔

’را‘ کے ذمے اس پاکستانی پلانٹ کا پتا لگانا تھا۔ جب کئی آپریشنز ناکام ہوگئے، تو بتایا جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ اہل کاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ٹیسٹ ٹیوبوں میں محفوظ اور لیبل لگا کر بھارت بھیجا جاتا تھا، جہاں انتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سالہا سال پر پھیلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم-۲۳۵  کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ حالاں کہ یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان ۹۰ فی صد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کے لیے ۴/۵فی صد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے، مگر یہ خبر ہونے تک بھارت میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔

۱۹۷۷ء میں نئے بھارتی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب ’را‘ کے افسران یہ منصوبہ لے کر پہنچے، تو انھوں نے نہ صرف اس کی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ پاکستانی صدرجنرل محمدضیاء الحق کو فون کرکے بتایا کہ ’’بھارت کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے‘‘۔’را‘ نے ڈیسائی کو اس کے لیے کبھی معاف نہیں کیا کہ اس کے مطابق مرارجی ڈیسائی نے پاکستانی صدر کو یہ بتاکر ’را‘ کے ایجنٹوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس کے بعد برسوں تک ’را‘ اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ پھر پاکستان نے کہوٹہ کو فضائی حملوں سے بھی محفوظ بنالیا۔

پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف کے دور میں جب بھارت اور امریکا کے درمیان ’سویلین جوہری معاہدے‘ کے خدو خال طے ہورہے تھے، تو واشنگٹن میں طاقت ور یہودی لابی کو اس کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے استنبول میں ملاقات کی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں قصوری صاحب نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ: ’’یہ میٹنگ کسی جیمز بانڈ فلم کے اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ ترکی میں اس وقت کے وزیر اعظم (اور موجودہ صدر) رجب طیب اردوان نے یہ میٹنگ طے کی تھی‘‘۔ قصوری صاحب کے مطابق: ’’میرا جہاز پاکستان سے لیبیا کے لیے روانہ ہوا، بعد میں مالٹاسے ہوتا ہوا استنبول میں اُترا۔ جہاز کو ایئرپورٹ کی بلڈنگ سے دُور لینڈنگ کی اجازت مل گئی، جہاں پر طیب اردوان کے ایک معتمد نے میرا استقبال کیا۔  اسی دوران پورے استنبول شہر کی بتیاں گل کر دی گئیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پاور سپلائی میں خرابی آگئی ہے۔ گھپ اندھیرے میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کی میٹنگ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ اگر یہ خبر میڈیا تک پہنچ گئی، تو پاکستان میں سیاسی اور عوامی سطح پر قیامت آجائے گی۔ قصوری صاحب کے بقول: ’’یہ میٹنگ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ اسرائیل نے فوجی اور دیگر ٹکنالوجی دینے کی پیش کش کی،مگر مَیں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے، جب تک وہ مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے اُردن کے شاہ عبداللہ کے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔

اسرائیلوں کا کہنا ہے: ’’جب عرب ممالک اس کے ساتھ رشتے بنا سکتے ہیں، تو باقی ممالک کو آخر کیوں اعتراض ہے؟ تل ابیب سے ۱۵کلومیٹر دور سوریک کا سمند ر سے صاف پانی کشید کرنے کا پلانٹ ہی اردن کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مصر صحراے سینا میں سیکورٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل سے اشتراک کر رہا ہے۔گوکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں، مگر کچھ عرصے سے خبریں گشت کر رہی ہیں کہ پس پردہ دونوں ممالک کے درمیان سلسلہ جنبانی جاری ہے۔ اور یہ خبر عام ہے کہ سعودی حکومت بطور خادمِ حرمین، قبلہ اوّل کی خدمت کا ذمہ لینا چاہتی ہے (یاد رہے اس وقت مسجد اقصیٰ کی خدمت اُردن کے محکمہ اوقاف کے تحت ہے)۔

اب سوال یہ ہے، کہ آخر مودی کے اسرائیل دورے سے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ وہ بھارت کے ایسے پہلے سیاسی لیڈرہیں، جو اس دورے کے دوران فلسطینی لیڈروں سے نہیں ملے۔ ماضی میں چاہے بھارتی وزیرداخلہ لال کشن ایڈوانی ہو یا بھارتی صدر پرناب مکرجی، سبھی اسرائیلی دورے کے دوران فلسطینی علاقوں میں بھی جاتے تھے۔ بھارت اور چین نے تقریباً ایک ہی سال، یعنی۱۹۹۲ء میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ دونوں ممالک کو اسرائیل سے دفاعی ٹکنالوجی درکار تھی، جو انھیں امریکا براہِ راست فراہم نہیں کرسکتا تھا۔ اگر موجودہ عالمی صورت حال کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کو بھی اس وقت بھارت کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک میں اسرائیل کا قد خاصا چھوٹا ہے۔ فلسطینیوں پر اس کے مظالم کی آوازیں یو رپی شہروں میں اب واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں۔ ایسے وقت، عالمی اداروں میں اسرائیل کو سیاسی اور سفارتی دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ پھر اسلحے کی خریداری میں بھارت، اسرائیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور یوں اس کی اقتصادیات کا ایک بڑا سہارا ہے۔

اسرائیل میں طرزِ زندگی خاصا مہنگا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل سے اس لیے بھی خار کھائے ہوئے ہیں، کہ وہ ’القاعدہ‘ اور ’داعش‘ (ISIS) کو لگام دینے میں اتنی مستعدی نہیں دکھا رہا ، جتنا کہ ’حماس‘ یا ’حزب اللہ‘ کے خلاف اس کی ایجنسیاں برسر پیکار ہیں۔ جب یہی سوال میں نے دہلی میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون سے کیا تو موصوف کا برجستہ جواب تھا: ’’ان کی مستعدی ان تنظیموں کے خلاف ہے، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ دو سال قبل یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا علاج ایک اسرائیلی ہسپتال میں چل رہا تھا۔میں نے اس حوالے سے جب اسرائیلی سفیر سے استفسار کیا ، تو ان کا گو ل مول جواب تھا کہ: ’’ہمارا ملک ڈاکٹری اصولوں کے مطابق کسی بھی زخمی یا بیمار شخص کے علاج کا پابند ہے، جو سرحد عبور کرکے اسرائیل کی پناہ میں آیا ہو‘‘۔ تاہم، اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوسکتا کہ: ’’کیا     یہ ڈاکٹری اصول حزب اللہ یا حماس کے زخمیوں پر بھی لاگو ہوگا؟‘‘

بھارت اور اسرائیل تعلقات کے حوالے سے ایک اور بحث کشمیر پر اس کے اثرات کی مناسبت سے زبانِ زد خاص و عام ہے۔ بھارت میں سخت گیر عناصر کشمیر میں اسرائیلی طرز اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے۔ اسی دوران بھارت کے سینر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ ’انتفاضہ‘ [’حماس‘ کی عوامی تحریکِ آزادی] کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے، اس لیے بھارتی صحافی ان سے یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر وہ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹتے ہیں؟ ڈیوڈ رائزنر نے کہا:’’ ۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری فوج اور پولیس نے پوائنٹ ۴ کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد  ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان ہتھیاروں کی کھیپ اسلحہ خانے میں زنگ کھا رہی تھی ۔ جس کمپنی نے یہ ہتھیار بنائے، اس نے حکومت کو پیش کش کی تھی کہ وہ پوائنٹ ۹ کے پیلٹ سپلائی کرے گی، جو نسبتاً کم خطرناک ہوں گے، مگر اس وقت تک اسرائیلی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا‘‘۔ رائزنر نے تسلیم کیا کہ مسلح جنگجوؤں کے برعکس مظاہرین سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو‘‘۔

 حیرت کی بات ہے کہ ہمارے دورے کے چند ماہ بعد ہی یہ ہتھیا ر،جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے،کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے درآمد کر لیے۔ اور لائسنس ایگریمنٹ کے تحت خود بھارت کے دفاعی ادارے اب یہ تیار کرتے ہیں۔ ڈیوڈ رائزنرنے بتایا تھا کہ : ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی تجربہ کیا تھا، مگر نشانہ بننے والے بچوں پر ان کے مہلک اثرات کے سبب ان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بھارت میں پیلٹ گنوں کے بعد اب یہ دونوں ہتھیارکشمیر میں استعمال ہورہے ہیں‘‘۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات ’بھارتی فوج کے افسروں کے کارنامے‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا: ’’بھارتی افسر اس بات پر سخت بے زاری کا اظہار کرتے ہیں کہ:’’ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے مجھ کو بتایا کہ کشمیر میں ہم پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میں گھس کر تلاشی لیتے ہیں، کیوںکہ    ان کے لیے کشمیر کا ہردروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے‘‘۔ ڈیوڈ رائزنر نے سلسلۂ کلام جوڑتےہوئے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل پوری دنیا میں بدنام سہی، مگر اس طرح کے آپریشن اور وہ بھی بغیر کسی انٹیلی جنس کے، ہماری جوابی کارروائیوں میں شامل نہیں ہیں‘‘۔ یاد رہے رائزنر، اسرائیلی وزیراعظم یہود برک کے اس وفد کے بھی رکن تھے، جس نے کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ جولائی ۲۰۰۰ء میں گفت و شنید کی تھی۔

مارچ۲۰۱۶ءمیں ایک اسرائیلی سپاہی ایلور ارزانیہ نے زمین پر گرے ایک فلسطینی زخمی شخص کے سرکو نشانہ بناکر ہلاک کردیا تھا۔ اگرچہ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ شخص ان پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا اور اس کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر کی گئی تھی، مگر ارزانیہ پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور اس کو ۱۸ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر پورے اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں نے ہاہا کار مچادی، کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کرنے کے الزام میں فوجی کو کس طرح سزا ہوسکتی ہے۔ اس ہا ہا کار میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو بھی شریک تھے، مگر اسرائیلی فوج نے عوامی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر ناقص ابلاغِ عامہ (under reporting) کا شکار رہا ہے اور فوجی مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں بتایا مگر کہا کہ: ’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا تھا کہ : عسکری اور غیرعسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔

نوعِ انسانی کی خاطر برپا ہونے والی امت کے احوال دیکھ کر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُمتِ مسلمہ آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں کر ہوئی ہے اور اس زبوں حالی سے نکلنے کا کیاکوئی راستہ بھی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات ہمیں جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ جسے ’خیر اُمت‘ کا لقب حاصل ہے اور جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی امین بھی ہے اور جانشین بھی ۔ یہ ایک ایسی امت جسے بجا طور پر سیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہیے تھا، اپنے آپ کو مظلوم و محکوم پاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ  مشرقِ وسطیٰ سے لے کر کشمیر، برما ، فلسطین، بھارت میں اس امت کی بد حالی، مظلومیت اور مفلوجیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ایسی امت جو عددی اعتبار سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہو، جو جغرافیائی اعتبار سے اسٹرے ٹیجک علاقوں میں سکونت پذیر ہو اور جس کی سرزمین قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہو، آخر ایسا کیوں ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ کی حیثیت ایک ایسے بے حس جان دار کی سی ہو گئی ہے، جس پر جو چاہے اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے۔انسانیت کو اندھیروں سے نور کی طرف لے آنے والی امت آج خود پستی کی دلدل میں دھنسی نظر آتی ہے۔

عالمی سطح پر ۵۶ سے زیادہ اسلامی ممالک کا وزن پانی پر جھاگ کے ماند بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسلم ممالک خود کو بے وزن محسوس کرتے ہیں۔ ان کی راے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سارے عالمی معاملات جی سیون، جی ففٹین وغیرہ سے منسوب ممالک طے کرتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی آڑ میںبین الاقوامی مسائل کو اپنی اغراض کے مطابق طے کرتے ہیں۔ الغرض اُمتِ مسلمہ پر ذلت اور مسکنت کا دور جاری و ساری ہے اور عذابِ الٰہی کے کوڑے بڑی شدت کے ساتھ اس اُمت پر برس رہے ہیں۔ ایسی حالتِ زار میں اگر یہ وعدہ پیش نظر رکھا جائے: اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹]،   ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘، اگر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے غلبے کی بشارتیں ہیں تو اُمت کیوں کر پستی اور جمود کا شکار ہو کے رہ جائے؟آخر اس پستی کے اسباب کیا ہوئے اور اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟              

اگر غور سے اس مسئلے پر سوچا جائے تو ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں رہتا کہ یہ امت خیر اُمت کی تاویل میں غلطی کر گئی ہے ۔ اہل یہود کی طرح شاید ہم مسلمان بھی مدت سے کچھ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپنی تمام کج فکریوں کے باوجود بھی ہم ہی تا قیامت دنیا کی سیادت پر مامور کر دیے گئے ہیں۔ چوں کہ خیر اُمت ہم ہیں، لہٰذا اقوامِ عالم کی سیادت پر فائز بھی ہمیں ہی کیا گیا ہے۔ اب چاہے کوئی ہماری اقتدا کرے یا نہ کرے ۔ کوئی کہتا ہے کہ غلبے سے مراد سیاسی، تہذیبی یا معاشی غلبہ نہیں بلکہ روحانی غلبہ ہے۔دراصل ’خیر‘ کا لفظ ان تمام کاموں پر محیط ہے، جس سے نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری توانائی ان باتوں میں خرچ ہوتی ہے کہ لائوڈاسپیکر پر اذان دی جائے یا نہیں، قرآن کی تلاوت جائز قرار دی جائے یا نہیں، موبائل پر بنا وضو قرآن پڑھا جائے یا نہیں، گھڑی دائیں ہاتھ میں پہننی جائز ہے یا بائیں ہاتھ میں، ہوائی جہاز میں کس سمت ہو کر نماز پڑھی جائے؟ ہم نئی ٹکنا لوجی کے خریدار ضرور ہیں، مگر اس کی پیداوار میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں دوسری قوموں نے دیانت یا محنت کے نتیجے میں اپنا قائدانہ تفوق برقرار رکھا اور اس سمت میں اپنی پیش رفت جاری رکھی، وہیں ہم خیر کے ان کاموں سے یکسر کٹ کر رہ گئے۔ اس سے بڑی کرب ناک اور اذیت دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے سرکردہ علما کسی سائنسی تحقیق [جسے غیر اقوام نے انجام دیا ہو] کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات میں واضح کیا جا چکا ہے‘‘۔ اس بات سے انکار نہ کرنے کے باوجود لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو وہ اشارے اور ارشادات تب تک نظر کیوں نہیں آتے جب تک کہ غیر اقوام کسی سائنسی تحقیق کو سامنے نہیں لے آتیں۔

آج اُمتِ مسلمہ کے ذہن مفلوج ہو گئے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ صلاحیت سے عاری ہیں، بلکہ شاید اس لیے کہ امت نے ان سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ اُمت ’ توکل‘ میں اس حد تک غلو کی مرتکب ہوئی کہ عقل کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ ’محرک اور نتیجے‘ کے اصول کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس اصول سے آیاتِ آفاق وانفس کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ ’فکرودانش کی خودکشی‘ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی۔ امت اب اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر ’توکل‘ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

نیال فرگوسن نے اپنی کتاب Civilization: The West and the Rest  (۲۰۱۲ء) میں مغربی طاقت کے چھے بنیادی محرکات کو واضح کیا ہے، جو اسے تمام دنیا کی اقوام پر غلبہ اور سیادت بخشتے ہیں۔ان چھے محرکات میں فرگوسن پہلے نمبر پر مقابلے اور مسابقت کو جگہ دیتا اور کہتا ہے کہ یورپ میں مقابلے و مسابقت کی سوچ کے پیدا ہوتے ہی مادی اور فوجی طاقتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا جو یورپی طاقتوں کے غلبے کا سبب بنا۔اس مسابقت سے نہ صرف معیار میں اضافہ ہوا بلکہ مقدار میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا۔ پھر پیداوار اور اس کی کھپت میں انقلابی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔فرگوسن کی اس بات کو ہمارا طرزِفکر یہ کہہ کر خارج کر دیتا ہے کہ: ’’اسلام مقابلے کا نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے‘‘۔ لیکن فرگوسن کے باقی کے پانچ وجوہ(طب، ملکیت، سائنس، محنت اور کھپت) تو ایسی ہیں، جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ ان میں وہ سائنسی میدان میں یورپ کی ترقی کو دوسری بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب یورپ پر تہذیبی زبوں حالی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اُمتِ مسلمہ علوم و فنون کے میدان میں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن جب یورپی قومیں اپنی شکست خوردگی سے بیدار ہونی شروع ہوئیں، انھی ایام میں اُمتِ مسلمہ پر ایسی گہری نیند چھائی کہ اب تک بیدار ہونے کانا م نہیں لیتی۔ دورِ رسالت اوردور خلافت وہ   شان دار اَدوار تھے، جب اُمتِ مسلمہ ایک تعمیری اُمت ہوا کرتی تھی۔علوم و فنون کی افزایش و ترقی میں اس امت کا ایک کلیدی کردار تھا۔ لیکن جوں جوں مسلم ذہنوں پر سُستی اور کاہلی چھاتی گئی، اس بنیادی کام میں ہمارا حصہ گھٹتا گیا اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف علمی ترقی میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، بلکہ علم کے جذب و اجتہاد میں بھی یہ امت بخل سے کام لیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پرمُسلم ہے کہ اس سائنسی ترقی کا ایک اور رخ بھی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جہاں علم کی ترقی نے انسان کو ایٹمی طاقت پر دسترس عطا کی، وہیں وحی سے کٹ کر انسان نے ایٹم بم بنا کر انسانیت کو ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر دھکیل دیا ہے۔ انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے صرف نت نئی ٹکنالوجی کافی نہیں بلکہ مشفق اور محسن اور آخرت کی جواب دہی سے سرشار انسانوں کی ضرورت ہے، جو اس ٹکنا لوجی کو انسانیت کی بقا کے خاطر استعمال کرسکیں ۔ انسانیت کو اس فساد سے نکال کر امن کی شاہراہ پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی ڈال سکتی ہے۔

اُمتِ مسلمہ ایک بانجھ امت نہیں ہے اور نہ کبھی بانجھ رہی ہے۔ اس امت نے علوم و فنون کے ہر شعبے میں اعلیٰ صلاحیت اور امتیازی حیثیت رکھنے والے افراد کو جنم دیا ہے۔ حسن بصریؒ،   امام بخاریؒ، امام مسلم ؒ ،امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ ، امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ، علّامہ محمداقبالؒ، سیّدقطب شہیدؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ، اس اُمت کے وہ موتی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس امت کے احیا کے لیے کام کیا، بلکہ تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے دل ہمیشہ تڑپتے رہے۔ آج ضرورت ایسے ہی ذہنوں کی ہے، جو اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکا بیڑا اٹھائیں اور اس سمت میں اپنی خدمات انجام دیں۔ عشروں کی محنت سے ہم صرف جامعۃ الازہر ،دارالعلوم دیوبند جیسے گنتی کے چند اعلیٰ اداروں کا قیام عمل میں لاسکے ہیں، جب کہ غیر مسلم قومیں علم اور تحقیق کے ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں، جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ہی تحقیقی اداروں سے ایسے کافرانہ نظریات بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کے دشمن بھی۔ غرض مغربی ممالک علم وتحقیق کو غلبے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو سابقون الاولون میں دیکھنے کو  ملا تھا۔ اس ناکامی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو دو بڑے خانوں میں تبدیل کر دیا: دُنیوی تعلیم اور دینی تعلیم۔ دنیاوی تعلیم کو ہم نے سرے سے ہی وحی سے کاٹ دیا اور دینی تعلیم کو دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے [دینی یا دنیوی] صرف اور صرف ’یک رُخا انسان‘ تیار اور فراہم کرتے ہیں، جن میں بنیادی طور پر منقسم شخصیت ہی پیدا ہوسکتی ہے، اسلام کے انسانِ مطلوب کا تصور محال ہے۔

سوال : ’اسلامی بنیاد پرستی‘ کی جو لہر گذشتہ عشروں سے شدت پکڑتی جارہی ہے، اس پر انڈیا میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی صورت میں بڑا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ’’اگر دوسرے مذاہب اپنے سیکڑوں سال پرانے قوانین پر اصرار کرتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہ کریں؟‘‘ اس عمل اور ردعمل کے باعث آج بھارت جیسی ریاست میں ۲۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کے مستقبل کی تباہی اور گذشتہ ہزار برس کے تمام مسلم تہذیبی نشانات مٹ جانے کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال میں برعظیم پاک و ہند کے کچھ ’روشن خیال‘ دانش وروں کا خیال ہے کہ برعظیم کے تمام مذاہب کے سرکردہ رہنما مل کر مذہبی بنیادوں پر سیاسی نظام نافذ کرنے پر اصرار کرنے کے بجاے سیکولر کلچر کو رواج دیں، مذہبی حوالے سے پُرامن بقاے باہمی کو عام کریں، اور اسی حوالے سے اپنے مذاہب کی صرف تبلیغ و اشاعت اور محض رفاہِ عامہ کا کام کریں اور بھارت میں یرغمال مسلمانوں کو بچانے اور ان کا مستقبل سنوارنے کا کام کریں؟

جواب:اگر یہی کام کرنا تھا تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال میں پوشیدہ ’ہمدردانہ مشورہ‘ قیامِ پاکستان کی بنیادی اپروچ ہی سے متصادم ہے۔ یہ بات بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ بھارت میں جس چیز کو آپ ’ہندو بنیاد پرستی‘ کہہ رہے ہیں، اس کی تاریخ ولادت، شاید قیامِ پاکستان یا پاکستان میں اسلامی نظام کی بات یا پھر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کے وجود میں آنے سے متعلق ہے۔ مَیں بڑے ادب سے کہوں گا کہ جو حضرات یہ بات کہتے ہیں وہ اس برعظیم کی تاریخ سے واقف نہیں۔ یہاں برعظیم میں ’شدھی‘ کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں دیاندا سرسوتی (م:۱۸۸۳ء) نے شروع کی، جب کہ اس سے قبل ’سنگھٹن‘ وغیرہ کی تحریکیں بھی ’رام راج‘ ہی کی پکار تھیں۔ سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کا توڑ کرنے کے لیے جو برعظیم پاک و ہند میں مغربی استعمار اور ’سکھاشاہی‘ کے لیے مزاحمت کی سب سے بڑی قوت تھی، جو مختلف فتنے جنم دیے گئے ہیں، اِن میں ایک ’قادیانیت‘ کا فتنہ بھی تھا۔ مذہبی فرقہ پرستی کا فتنہ بھی تھا اور اسی تسلسل میں ہندو احیا پرستی کا اقدام بھی تھا۔

انیسویں صدی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد اور خصوصیت سے تحریک ِ مجاہدین کے مقدمات اور ۱۸۸۴ء میں ان کا جو آخری مقدمہ قائم ہوا، اس میں آپ دیکھیں گے کہ برہمنوں کی زیرقیادت ہندو قوم پرستی کا بخار پروان چڑھ چکا تھا۔ ’دھرتی ماتا‘ کی محبت اور دھرم سے شیفتگی کے اس نسل پرستانہ نعرے کی رہنمائی اور آبیاری انگریزوں نے کی تھی۔ اس وقت سے لے کر پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد تک ہندو بنیاد پرستی اور ٹھیٹ ہندو قوم پرستی سے سرشار پُرتشدد تحریک اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں ہندو مسلم فسادات رُونما ہوئے اور ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اسی دوران مسٹرگاندھی کے باطن میں چھپا ہوا برہمن بے نقاب ہوا تھا۔ یاد رہے کہ ۱۹۲۴ء سے پہلے برعظیم کی تاریخ میں مسلمانوں کے ۹۰۰سالہ دورِاقتدار اور انگریز کے سوسالہ دور میں کبھی ہندو مسلم فساد رُونما نہیں ہوئے تھے۔

برہمنی نفرت کے انھی شعلوں کی بنیاد پر ۱۹۲۵ء کو پہلے تو ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ ‘ (RSS) قائم ہوا۔ اگرچہ اس کے بانی کیشوو ہیڈگوار [م: ۱۹۴۰ء] تھے مگر پنڈت مدن موہن مالویہ اس کے فکری لیڈروں میں سے تھے، جو پہلے پہل تو ہمارے ہندستانی مسلم قائدین مولانا محمدعلی جوہر، عبدالباری فرنگی محل، قائداعظم اور دوسرے اکابر مسلمانوں کے ممدوح تھے،لیکن مسلمان قائدین کی وسعتِ قلبی اور وسیع المشربی بھی گاندھی جی اور موہن مالویہ جی کے ذہن میں جمے ہوئے برہمنی تعصب اور تنگ نظری کو نہ دھو سکی۔ یہ پارٹی ہندو مذہبی انتہاپرستی اور ہندو قوم پرستی پر مبنی تھی اور اس نے غیرمنقسم ہند میں باقاعدہ مسلح جتھے منظم کررکھے تھے۔ پھر اس پارٹی نے ۱۹۵۱ء میں اپنے سیاسی بازو ’بھارتیہ جن سنگھ‘ کو جنم دیا اور آخرکار ۱۹۸۰ء میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کا رُوپ سامنے آیا۔ اب اگر برہمنی تعصب اور مسلمانوں سے نفرت کے ارتقا کو کچھ لوگ پاکستان میں اسلامی نظام کی تحریک کا ردعمل قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی علمی بددیانتی ہے۔ لیکن جو مسلمان ان کی ایسی باتیں سن کر اسلامی احیا کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنے مطالعۂ تاریخ کی نفی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں پورے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بھارت میں ہندو تعصب اور انتقام کی موجودہ لہر کا کوئی تعلق قیامِ پاکستان اور پاکستان کی تحریک نفاذِاسلام کے ردعمل میں نہیں، بلکہ یہ سرتاپا Anti Muslim تحریک ہے، جس کی جڑیں انیسویں صدی میں مضبوط کی گئی تھیں۔ ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ہندو انتہاپسندی کی تازہ لہر کو پروان چڑھانے میں خود اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کا غیرمعمولی حصہ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے دوران جنوبی بھارت میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں نچلی ذات کے لوگ جب اسلام کی دعوت کی طرف متوجہ ہوئے، تو خود اندراگاندھی اور بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے تب باقاعدہ ہندو انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کی۔ خصوصیت سے شمالی بھارت کی ہندو پٹی (belt) میں مسلم کش فسادات کی ایک رَو چل پڑی۔ بابری مسجد کا مسئلہ اُٹھایا گیا۔ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو متنازع بنایا گیا اور محض سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے مذہبی تعصب کی فضا پیدا کی گئی، لیکن تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ کانگریس جس نے اس فضا کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکی اور اصل فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچا___  فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ ۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہندوئوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب ردعمل کے طور پر بھارتی مسلمانوں کا خود اپنے اُوپر اعتماد بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے ووٹ کا سیاسی دبائو استعمال کر رہے ہیں۔ خصوصاً بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے ۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی لگائی۔ اس دوران مسلمانوں کی ’نس بندی‘ کا مسئلہ بھی بنیادی موضوع بنا۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور مسلم ووٹ نے کانگریس کی پہلی شکست اور جنتاپارٹی کی کامیابی میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل یہی ہے وہ مقام جہاں پر ہندو انتہاپسندی نے خاص سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اس کی بھی فکری بنیادیں انیسویں صدی سے اُٹھائی جارہی تھیں، اور یہ چیز یکایک نہیں ہوئی۔

اسی طرح میری نگاہ میں یہ بہت طویل عرصے تک رہنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوازم میں اجتماعی معاملات کے لیے کوئی واضح تصورِحیات موجود نہیں ہے۔ معاشرت اور عدل کے بارے میں ان کے ہاں کوئی قابلِ لحاظ رہنمائی نہیں ملتی۔ مجھے مولانا مودودیؒ کی وہ تحریر یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے ایک ہندو سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کے پاس حقیقی الہامی مذہبی ہدایت موجود ہو، اور آپ اس کے مطابق معاملات چلانا چاہیں اور واقعی اللہ کی بندگی پر مبنی کوئی راستہ اختیار کرلیں تو اس میں آپ کی خیر ہوگی، لیکن آپ کے پاس ایسی کوئی چیزنہیں ہے تو پھر آپ کو تعصب سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ جس مذہب کے پاس الہامی ہدایت پر مبنی نظامِ زندگی موجود ہے، اسے اختیار کرنا چاہیے کہ اسی میں انسانیت کی خیر ہے۔ دراصل یہی وہ شعور ہے جس پر پاکستان کی تحریک وجود میں آئی۔

اگر ہمیں خوش نما لفظوں اور مفروضوں پر مبنی سیکولرزم کے سائے تلے کوئی نظام بنانا تھا، تو اس کے لیے پاکستان قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب نے آج انسان، معاشرے، اسٹیٹ اور قوم کے جو تصورات دیے ہیں، وہ ایک ایک کر کے منہدم ہورہے ہیں۔ کمیونزم نے اس کے مقابلے میں جو بند کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی تنکے کی طرح بہہ گیا۔ ان حالات میں وہ ہدایت، وہ اصول اور وہ نظام جس کی بنیاد پر انسانیت کے مسائل فی الحقیقت حل ہوسکیں ، صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام صرف پاکستانیوں کا دین نہیں ہے، اسلام پر محض نسلی مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ اسلام تو وہ پیغام ہے جو انسانیت کو زندگی، بقا اور تہذیب کا راستہ سکھانے کا نمونہ پیش کرتاہے۔ یہی ہمارا دعویٰ ہے اور یہی پیغام۔

آ پ نے سوال میں ہندو انتہاپسندی کے علاج کے لیے جو دوا تجویز کی ہے، وہ تو دراصل مسلمانوں کے پورے نظام کو دریا برد کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ہم اس نوعیت کی ’ہمدردانہ اور دانش ورانہ‘ تجاویز کو مسترد کرتے ہیں۔ گو آج کے انسان نے فضائوں میں پرندوں کی طرح اُڑنا اور سمندر میں مچھلیوں کی طرح تیرنا سیکھ لیا ہے، لیکن بدقسمتی سے زمین پر انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔ اسلام ہی دراصل زمین پر انسانوں کی طرح رہنا سکھاتا ہے اور ہم یہی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قائم ہوجاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات ہندو ذات پات کی شکار اقوام پر بھی پڑیں گے اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں اور مقہور ہریجنوں تک بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جائے گا، کیوں کہ اسلام میں مذہبی رواداری کا ان لوگوں نے ابھی تک نظارہ نہیں کیا، بلکہ اس وقت، جب کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ بھی نہیں ہے، تب بھی پاکستان کا اپنی اقلیتوں کے ساتھ رویّہ کسی بھی دوسرے ایشیائی ملک سے بہتر، بلکہ بہت زیادہ بہتر ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد)

 

دربرگِ لالہ وگُل (جلد اوّل)۔ افضل رضوی، ناشر : بقائی یونی ورسٹی کراچی۔ تقسیم کنندہ: کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ ،اردو بازار لاہور۔ صفحات :۴۲۷۔ قیمت :۶۵۰۔

اس کتاب کا ضمنی عنوان ہے :’کلام اقبال میں مطالعۂ نباتات ‘(سرورق )۔

کلامِ اقبال میں تقریبا ً ایک سو نباتات (درختوں،پودوں، پھلوں وغیرہ ) اور تقریباً ۶۰(پرندوں، درندوں، جانوروں ) کا ذکر ملتا ہے۔ مگر یہ ذکر فقط تذکرے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس تذکرے کے عقب میں کوئی مقصد اور معنویت ہے، جیسے ’شاہین‘ کا ذکر فقط ایک پرندے کے طور پر نہیں ،بلکہ قوت، بلند پروازی،سخت کوشی اور فقر ودرویشی کی علامت یا استعارے کے طور پر ہے۔

زیر نظر کتاب کے مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں اور آج کل آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اقبالیات کا ایک منفرد اور اچھوتا موضوع تلاش کر کے، رضوی صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں : [اقبال ] نے شاعری کو احیاے ملت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا ، قوم کو اُمید وارتقاکا پیغام دیا اور جہدِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ نیا آہنگ ، نیا لہجہ ، نئے موضوعات اور نیا فلسفہ دیا.... انوکھی تراکیب سے جدت اور ندرت پیدا کی....  ان سب کے لیے وہ عناصر فطرت (پانی، ہوا، آگ ) کو کبھی مشکَّل، کبھی مجسّم، کبھی مرئی ، کبھی غیرمرئی اور کبھی طبّی خواص کے حوالے سے کام میں لاتے ہیں۔ وہ زمین اور زیر زمین جمادات (موتی ، گوہر، الماس، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھر ) کی چمک دھمک ، آب وتاب، رنگ وروپ، خوب صورتی،کمیابی،اور مضبوطی کو کبھی استعاراتی صورت میں ، کبھی علامتی انداز میں، کبھی تلمیحات کے طور پر ، کبھی محاوراتی طرز پر اور کبھی تراکیب کے نئے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ (ص ۲)

افضل رضوی صاحب کے تحقیقی کام کی زیر نظر جلد اول، میں انھوں نے ۱۸ نباتات (ارغوان، انگور، افیون، انار، انجیر، ببول، باغ، لالہ، گل، بید،برگ، بوستاں، چمن، چنار، دانا، گندم، گھاس، گلِ رعنا ) پر اپنے مختصر مضامین جمع کیے ہیں۔ ہر عنوان کے تحت پہلے وہ اس کی بناتاتی یا تخلیقی نوعیت کا تعارف کرواتے ہیں۔ پھر وہ پھل یا پودا کلام اقبال میں جہاں جہاں آیا ، متعلقہ اشعار درج کرتے ہیں اور پھر ان کی تشریح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام اقبال کی نثر اور بطورِ خاص ان کے خطوط سے بھی متعلقہ حوالے یا اقبال کے جملے شاملِ تحقیق کیے ہیں۔

یہ کتاب اقبالیات کے ایک نادر موضوع کے ساتھ اقبال کے منتخب کلام کی تشریح بھی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )


صحیفہ ،مکاتیب نمبر حصہ اول، مدیر: افضل حق قرشی ۔ناشر : مجلس ترقی ادب ،۲ کلب روڈ لاہور۔ ۵۴۰۰۰۔شمارہ جولائی ۲۰۱۶تا دسمبر ۲۰۱۶ء۔صفحات :۴۱۲۔قیمت ۴۰۰ روپے ۔

مشاہیر کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ افکاروتصورات اور ذہنی وفکری ارتقا کی تفصیل بھی پیش کرتے ہیں، غالباً اسی اہمیت کے پیشِ نظر گذشتہ چند برسوں میں یکے بعد دیگر مکاتیب کے متعدد مجموعے شائع ہوئے ہیں، اور بعض جرائد (مجلہ تحقیق سندھ یونی ورسٹی ،مجلہ تعبیر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی وغیرہ ) نے مکتوبات نمبر شائع کیے ہیں۔ زیر نظر صحیفہ کا مکاتیب نمبر حصہ اول اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے جو اردو عربی اور فارسی تحقیق وتنقید کی نام ور شخصیات کے مکاتیب پر مشتمل ہے۔

اس نمبر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کے ۷۷،مشفق خواجہ کے ۵۳ + ۲۹ ،غلام بھیک  نیرنگ کے ۳۲، ڈاکٹر شوکت سبزواری کے ۲۲ ،غلام رسول مہر کے ۲۰ ، اور رشید احمد صدیقی کے ۹خطوط شامل ہیں۔ مزید دسیوں مشاہیر کے ایک ایک ،دو دو اور چار چار خط شامل ہیں۔ بعض اصحاب (محمد راشد شیخ ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا مظہر محمود شیرانی ،ڈاکٹر تحسین فراقی ،محبوب عالم ،زاہد منیر عامر) نے خطوط کم وبیش حواشی وتعلیقات کے ساتھ مرتب کیے ہیں،اور بعض خطوط حواشی وتعلیقات کے بغیر شائع کیے گئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی سارے خطوط بہت علمی ، دل چسپ اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ مجلس ادارت نے بڑے سلیقے اور کاوش سے یہ خاص نمبر مرتب کیا ہے ۔ امید ہے حصہ دوم اس سے بھی بہتر معیار پر شائع ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی )

غمِ آرزو کا حسرتؔ ، سبب اور کیا بتائوں

میری ہمتوں کی پستی ، مرے شوق کی بلندی

پاکستان کی ۷۰سالہ تاریخ حسرت موہانی کے اس شعر کی شرح کہی جاسکتی ہے۔ نصف صدی سے زائد اس عرصے کو ہم اِن عنوانات کے ذیل میں دیکھ سکتے ہیں:

۱- سیاست اور سیاست دان: ۲۰ویں صدی کے ۴۰ کے عشرے میں، جب برصغیر ہند کے ۱۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کی اکثریت نہایت جذباتی انداز میں برصغیر کی تقسیم اور خلافت ِ راشدہ کے نمونے کی ایک مسلم ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے نہایت جوش و خروش سے حصہ لے رہی تھی، بعض گوشوں سے یہ ضعیف آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں کہ یہ تحریک درست نہیں۔ ان میں  بعض مذہبی طبقے بھی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت اس نصب العین کو پورا کرنے کی اہل نہیں۔ لیکن اکثریت نے ان کے تحفظات کو رَد کر دیا اور ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو برصغیر تقسیم ہوگیا۔ ’پاکستان‘ کے نام سے ایک ’اسلامی‘ (مسلم) ریاست وجود میں آگئی۔

لیکن اس تحریک کے قائدین کی اکثریت، اسلامی اصول یا سیاست و ریاست سے کس قدر واقفیت رکھتی تھی؟ ان قائدین کی اپنی ذاتی زندگی میں اسلامی ثقافت اور سماجی اقدار کی کیفیت کیا تھی؟ فکری طور پر وہ اسلام کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اصولوں سے کس قدرواقفیت رکھتے تھے؟ یہ سوالات قابلِ توجہ ہیں۔

۲- سرزمینِ      بـے آئین : اس میں شک نہیں کہ اس نوزائیدہ مملکت کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا، لیکن آئین سازی کے لیے ایک چھوٹی سی کمیٹی ہی کافی تھی۔ میری یادداشت کے مطابق اس کمیٹی میں مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر محمدحمیداللہ اور بعض دوسرے لوگ شامل تھے۔۱ ڈاکٹر حمیداللہ اس کی کارکردگی سے مایوس ہوکر یورپ لوٹ گئے۔ آخر ’قراردادِ مقاصد‘   منظور ہوئی، جس میں پاکستان کو اسلام کی راہ پر ڈالنے کا عزم تھا (پروفیسر خورشیداحمد کی کتاب: پارلیمنٹ، دستو ر اور عدلیہ  کا مطالعہ اس سلسلے میں نہایت مفید ہوگا)۔

دنیا کے دساتیر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دستور سازی کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا: مقنّنہ ایک ایوانی ہو یا دو ایوانی، صدارتی /پارلیمانی (وزیراعظم)، ایوان کی مدتِ انتخاب، حلقے، حقوق اور ذمہ داریاں ___ ان سب معاملات پر دنیا کے دساتیر سے رہ نمائی مل سکتی تھی، مگر اس دستور سازی کے لیے جماعت اسلامی اور بعض جماعتوں کو ایک مہم چلانی پڑی (’اپنا مقصد اپنی منزل، اسلامی دستور‘)۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ایک سال میں دستور مرتب کر کے نافذ کرلیا،۲ مگر ہم ۹سال تک بلادستور ۱۹۳۵ء کے برطانوی قانون کے تحت حکومت چلاتے رہے۔ پہلا دستور ۱۹۵۶ء، پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۶۲ء اور پھر تنسیخ کے بعد ۱۹۷۳ء میں نیا دستور بنا اور نافذہوا۔

۳- نظریاتی انحراف : کہا جاتا ہے کہ ۲۰ویں صدی کی نصف دہائی کے قریب دنیا کے نقشے پر دو’نظریاتی ریاستیں‘ وجود میں آئیں۔۳  ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل۔ پاکستان پورے برصغیر ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کی خواہش اور جدوجہد سے وجود میں آیا تھا۔ لیکن قائد کا یہ فرمان تاریخ کا حصہ ہے کہ: ہندستان میں مقیم مسلمان اب ہندستان کے وفادار شہری بن کر رہیں ۔ یہ ہندستان کے مسلم کُش ہندو مسلم فسادات کے دوران کہا گیا تھا۔ دہلی میں دی گئی  اس ’اذان‘ کا مقابلہ اسرائیل کی قیادت کی اس پالیسی سے کیجیے، جس کے مطابق دنیا میں کہیں بھی آباد یہودی، ہر وقت ریاست ِ اسرائیل کا شہری بن سکتا ہے۔ اس پر اسرائیل کی شہریت اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔۴

۴- غلامی کا  آغاز : قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دنیا کی دو بڑی طاقتوں اشتراکی روس اور امریکا کی طرف سے ہند اور پاکستان کے سربراہوں کودوستانہ دوروں کی دعوت دی گئی۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کی دعوت کو قبول کیا اور وہاں کا خاصا طویل دورہ کیا۔ کئی معاہدے ہوئے اور اس طرح دوستی کی جگہ جو طوقِ غلامی، امداد (US Aid) کی شکل میں امریکا سے آکر پاکستان کی زینت بنا، اس کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی گئی۔ اس کے اثرات و شواہد بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ روزمرہ کی خبروں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے (ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکا کو حوالگی، اسامہ بن لادن کو پاکستان میں دراندازی کرکے ہلاک کر دینا، افغانستان کی بربادی، ڈرون حملوں کا تسلسل، ریمنڈ ڈیوس کی ’فاتحانہ‘ رہائی، پاکستان کی اعلیٰ قیادت پر اس کی طعن و تشنیع)۔ امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جو وظائف دیے جاتےہیں ان میں تعلیم سے فارغ اکثریت امریکا ہی کے مفاد میں کام کرتی نظر آتی ہے۔

۵- مذہبی قیادت : چوں کہ پاکستان کا قیام ایک اسلامی ریاست کے قیام کے وعدے پر کیا گیا تھا، اس لیے فطری طور پر یہاں اسلامی جماعتوں کے اثرواقتدار کو فروغ ہونا چاہیے تھا۔ اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور متحرک جماعت اسلامی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری مذہبی و سیاسی جماعتیں جو میدان میں آئیں وہ جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی سیاست (انتخابی سیاست) میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کراچی اور پنجاب کے بعض حلقے اس کے زیراثر آئے، یہاں تک کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں ’شوکت ِ اسلام‘ کے مظاہروں سے یہ گمان ہوا کہ یہ اب اقتدار کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے، مگر نتیجہ   اس کے برعکس تھا۔ کارکنان پُراُمید تھے کہ اگر انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے تو ایک دن جماعت اسلامی ضرور اقتدار سنبھال کر معاشرے کی اسلامی تشکیل و تعمیر کا فریضہ انجام دے گی، مگر اس کے بعد حالات زیادہ ہی نامساعد ہوتے گئے۔ دوسری طرف جمعیۃ العلماے اسلام اور جمعیۃ العلماے پاکستان کبھی قابلِ ذکر اراکین پارلیمان میں نہ بھیج سکیں۔

مذہبی جماعتوں کے انتخابی نتائج سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی جڑوں میں اسلام کا کتنا اثر موجود ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مذہبی قیادتیں اپنے وژن میں کس قدر معاشرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔

۶- ثقافت : کسی قوم کی قدر کی پیمایش کا ایک طریقہ اس کی ثقافت، رسوم و رواج ، رہن سہن اور آدابِ زندگی کی جانچ پڑتال بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مسلمانوں میں امیر، غریب اور متوسط طبقے موجود تھے، لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران میں اس تفاوت میں اضافہ ہی نظر آیا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات، آرایش، لباس اور خوراک اور طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ لباس، مکانات اور سواریوں میں اور طرزِ زندگی میں تکلف، نمایش اور دکھاوا عروج پر ہیں۔ اسلامی مساوات اور سادگی جیسی قدریں، جو دینِ اسلام کا طرئہ امتیاز تھی، بڑی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبوں میں صرف ’شادی ہال‘ کے کرائے لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ کھانوں کا اسراف اور ضیاع ایک الگ مسئلہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علما اور اَئمہ کرام ، خود بھی سادگی کو اپنائیں اور اس کی مؤثر تلقین بھی کریں۔

اعلیٰ قیادت کس طرح خود کو نچلے معاشی طبقے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کرشمے دکھا سکتی ہے، اس کی ایک مثال مشرقِ بعید کی ایک چھوٹی سی ریاست ویت نام میں نظر آئی۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی/ اقتصادی قوت امریکا نے جب ویت نام پر حملہ کیا تو امریکا کے پاس تو جدید جنگی ٹکنالوجی تھی، جس سے ویت نام محروم تھا، مگر اس کے سربراہ ہوچی منہ ، جو ٹائر کی تراشی ہوئی چپل اور سفید پاجامے میں ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارتے تھے، امریکا کے آگے سر نگوں نہ ہوئے۔ جنگ ہوئی اور آخر امریکا کو اپنی تاریخ کی پہلی (اب تک کی آخری) شکست کھاکر ویت نام سے ذلّت کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔

ہمارے ٹی وی پروگرام اور اشتہارات میں جس بے محابانہ انداز میں عورتوں اور پُرتعیش زندگی کو دکھایا جاتا ہے، وہاں عریانی کے فروغ اور اس کی اجازت بھی ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

۷- تعلیم : انگریزوں کے زیرتسلط برصغیر میں ابتدائی تعلیم (چوتھی جماعت) تقریباً مفت تھی۔ متوسط اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی نہایت سادگی سے ارزاں تعلیمی نظام رائج تھا۔ یہ کیفیت پاکستان کے بننے کے بعد بھی جاری رہی۔ لیکن رفتہ رفتہ حکومت، تعلیم کی ذمہ داری سے دست کش ہوتی نظر آئی اور نجی تعلیمی اداروں کا فروغ شروع ہوا۔ آج پاکستان میں تعلیم باقاعدہ نفع بخش اور نقدآور کاروبار بن چکی ہے۔ ابتدائی (پرائمری) اسکولوں میں بچوں کے بستے، فضول، بے کار، نہایت گراں اسٹیشنری اور کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کا اُٹھانا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بیش تر علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے (اسکول /کالج) تقریباً خالی یا زبوں حالی کا شکار ہیں۔ مؤثر نظامِ معائنہ نہ ہونے سے اساتذہ، سرکاری اداروں سے مشاہرے تو وصول کرتے ہیں، لیکن اپنے نجی تعلیمی اداروں یا ٹیوشن سنٹرز میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف ’انگلش میڈیم‘ اور دوسرے نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ ابتدائی جماعتوں کے بچوں کی فیس ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے۔ غریب کے لیے اچھی/معیاری تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں درسی کتابیں زیادہ تر اوکسفرڈ یا ایسے ہی دوسرے اداروں کی شائع کردہ استعمال ہوتی ہیں۔ ان سے ثقافت، زبان اور ذہنیت کی ساخت کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، کم ہی لوگوں کی اس پر نظر ہے۔

وزارتِ تعلیم اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے: ایک عرصے سے گریجویشن کی سطح کے تعلیمی نصاب میں ’اسلامیات‘ ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل تھا (جامعہ کراچی نے اس کے لیے پروفیسر خورشیداحمد سے ایک نہایت عمدہ کتاب اسلامی نظریۂ حیات تالیف کروائی تھی)۔ اب ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) جو اعلیٰ تعلیمی نصاب اور طریقِ تدریس کی نگرانی کا ذمہ دار ہے، اسلامیات کے اس ’کانٹے‘ کو تو نہیں نکال سکا، تاہم اس کی جگہ ’اسلامیات اور پاکستانیات‘ (Islamic & Pakistan Studies) کے عنوان سے ایک مضمون رکھ دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کی تاریخ تو ہے، مگر اسلام کا کہیں نام و نشان نہیں۔

نئے تعلیمی نظام کے ذریعے نئی نسل اسلامی اور روایتی اعلیٰ ثقافتی اقدار اور اپنی قومی زبان سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ اُردو صرف بولنے کی زبان رہ گئی ہے۔ صرف انگریزی کو علم کی زبان تصور کرلیا گیا ہے۔ پوری قوم اُردو کے رسم الخط اور حروف تک سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے۔ اُردو بھی اب رومن حروف میں لکھنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے (خصوصاً اشتہاروں اور مختصر اعلانات میں)۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنی زبان کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ چین، جاپان، کوریا، نیز یورپی ممالک نے اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی نئی نسلوں کو علوم و فنون کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ انگریزی بے شک ایک عالمی زبان ہے، اس سے شناسائی (بلکہ عبور) میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ اُردو ہی ہے جس کے ذریعے ہم ملک کے گوشے گوشے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں،اور اسی کے ذریعے کم محنت سے علوم کو وسیع حلقوں میں پھیلا سکتے ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) نے اس سلسلے میں جو کام کیے، ان کی نظیر بھی سودمند ہوگی۔ تمام عصری و سائنسی علوم، طب، انجینیرنگ کی اعلیٰ تعلیم اُردو ہی میں دی جاتی تھی،اور وہاں کے طلبہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا۔

۸- پس چہ باید کرد : پاکستان کی مذہبی جماعتوں، بالخصوص جماعت اسلامی نے اپنے جتنے وسائل، روپیا، صلاحیتیں، افرادی قوت اور وقت انتخابات کے ذریعے کامیابی میں صرف کیا، اگر وہ نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتیں تو شاید اس ملک کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔۵ انتخابی سیاست کے نتیجے میں برسرِاقتدار آجانے کے بعد بھی کیا ہوسکتا ہے، اس کی ایک حالیہ مثال مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا استیصال اور بغاوت کرکے جنرل سیسی کا برسرِاقتدار آنا ہے۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت کی تعلیم و تربیت ایک مختلف انداز میں ہو، تو ایسی کسی سازش کا کامیاب ہونا ممکن نہیں، جو ہمارے ملک میں بار بار کی گئی اور اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔

نفسیات کے تجربوں میں ’آموزش بہ سعی وخطا (Learning by Trial and Error) ایک دل چسپ تجربہ ہے۔ ایک چوہے کو ’بھو ل بھلیوں‘ (maze) میں چھوڑ دیتے ہیں، جس کے دوسرے سرے پر پنیر کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ چند مرتبہ غلطی کرکے وہ اندھے راستوں سے واقف ہوجاتا ہے، اُدھر نہیں جاتا اور پھر سیدھا (بغیر غلطی کیے) پنیر کے ٹکڑے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس حقیرجانور نے صحیح راستہ دریافت کرلیا ہے۔ ہمارے قائدین صحیح راستہ کب دریافت کریں گے؟

ضرورت ہے کہ اہلِ دانش سر جوڑ کر بیٹھیں، حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں، اور ایک نئے طریق /نئے لائحۂ عمل کو تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہوں۔ بہرحال، ہمیں حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال (مفکرِ پاکستان) کہتے ہیں کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیے۔

حواشی [ادارہ]

۱-            غالباًمقالہ نگار کی مراد ’تعلیماتِ اسلامی بورڈ‘ سے ہے ، جو قراردادِ مقاصد کی منظوری ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کے بعد ’دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (بیسک پرنسپلز کمیٹی: BPS )کے تحت قائم کیا گیا تھا، جس کے سربراہ سیّد سلیمان ندوی تھے، جب کہ ارکان میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا محمد اکرم خان، مولانا ظفراحمد انصاری، مفتی جعفرحسین، پروفیسر عبدالخالق اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ شامل تھے۔

۲-            بھارت کا دستور ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور ، اور۲۴جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذالعمل ہوا۔

۳-            یہ بات اصولی طور پر درست نہیں ہے کہ ’اسرائیل نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا‘۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے ۱۹۴۴ء میں وضاحت فرمائی تھی:’’میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے دو ہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اس معنی میں، جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لا بسایاجائے اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنادیا جائے۔ بخلاف     اس کے مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘(ترجمان القرآن، جولائی-اکتوبر ۱۹۴۴ء)۔ اسرائیل کا کسی طرح بھی پاکستان کے قیام سے موازنہ نہیں بنتا، کیوں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل اور کسی نسلی عصبیت کے بغیر وجود میں آیا، جب کہ اسرائیل،مغربی سامراج کی دھونس، دھاندلی، قدیم فلسطینی باشندوں کی بے دخلی اور قتل و غارت کے بل پر، اور سب سے بڑھ کر یہودی نسل پرستی کے اصول پر وجود میں آیا۔

۴-            قائداعظم نے دہلی میں نہیں، بلکہ کراچی میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مسلح افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہندستان میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں، میرا انھیں یہ مشورہ ہے کہ وہ مملکت کے ساتھ بلاجھجک وفاداری (unflinching loyalty)کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو دوبارہ منظم کریں اور صحیح قسم کی قیادت پیدا کریں، جو اس خطرناک زمانے میں ان کی ٹھیک طور پر رہنمائی کرسکے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندستان کی حکومت ان لوگوں کی غیردانش مندانہ کارروائیوں کے باعث اپنا نام بدنام نہیں ہونے دے گی، جو ظالمانہ اور غیرانسانی طریقوں سے مسلمانوں کے انخلا یا انھیں فنا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر اقلیتوںکے مسئلے کا حتمی حل عوامی سطح پر تبادلہ آبادی کے ذریعے ہی ہونا ہے، تو پھر اس کا تصفیہ حکومتوں کی سطح پر ہونا چاہیے، اس معاملے کو خون خوار عناصر پر نہیں چھوڑنا چاہیے‘‘ (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam، جلد۴، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۲۸)۔ اس خطبے میں قائداعظم نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ ’’تم مت پاکستان آئو‘‘۔ یاد رہے، کم و بیش ۱۹۶۵ء تک بھارت سے مسلمان نقل مکانی کر کے پاکستان آتے رہے اور انھیں بجاطورپر شہریت دی جاتی رہی۔ پھر اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہےکہ ہرملک کے شہری کو، جب تک وہ متعلقہ وطن کا شہری ہے یا اس نے متعلقہ ملک کا شہری بننا قبول کرلیا ہے تو اسے اسی ملک کا وفادار رہنا چاہیے، جس طرح اہلِ پاکستان چاہتے ہیں، کہ پاکستانی ہندو برادری، پاکستان کی وفادار رہے۔

۵-            جماعت اسلامی نے بہ حیثیت جماعت تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ذمہ داری اس لیے نہیں لی کہ وہ زیرتعلیم طلبہ اور ان کے مستقبل کو پاکستان کی مخصوص صورتِ حال میں سیاسی وابستگی کے رنگ سے متاثر نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم، اس کے حلقۂ اثر میں بہت سے افراد نے نجی سطح پر تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، جن کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں ہے۔

حضرت علیؓ کی عالی ظرفی

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو نہایت صحیح اور معتبر روایتیں کتب ِ حدیث میں وارد ہوئی ہیں، وہ ملاحظہ ہوں: بخاری میں حضرت علیؓ کے صاحب زادےمحمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ ’میں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟‘ فرمایا: ’ابوبکرؓ‘۔ میں نے عرض کیا: ’پھر کون؟‘ فرمایا: ’عمرؓ‘۔ اس کے بعد مجھے اندیشہ ہوا کہ میں پھر یہی سوال کروں گا تو یہ کہہ دیں گے : ’عثمانؓ‘۔ اس لیے میں نے پوچھا: ’اُن کے بعد کیا آپ ہیں؟‘ فرمایا:’ مَا اَنَـا اِلَّا رَجُلٌ  مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ،[بخاری، کتاب المناقب، حدیث ۳۴۸۹](میں کچھ نہیں ہوں مگر بس مسلمانوں میں سے ایک آدمی)۔ یہ جواب ٹھیک اُس بلند اور پاکیزہ سیرت کے مطابق ہے جو سیّدنا علیؓ کی تھی۔ اُن جیسے عالی ظرف انسان کا یہی مقام تھا کہ اپنے مرتبےکی فضیلت بیان کرنے سے اجتناب فرماتے اور اپنی ذات کو عام مسلمانوں کی صف ہی میں رکھتے۔

بیہقی [المدخل اِلی السنن الکبریٰ] اور مسنداحمد [فضائلِ صحابہؓ]میں حضرت علیؓ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: مَا کُنَّا نُبْعِدُ اَنَّ السَّکِیْنَۃَ تَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ (ہم لوگ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ سکینت عمر کی زبان سے بولتی ہو)۔

بخاری و مسلم اور مسنداحمد میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ: جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور آپ کو غسل دینے کے لیے تختے پر لاکر رکھا گیا، تو چاروں طرف لوگ کھڑے ہوئے ان کے حق میں دُعاے خیر کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص پیچھے سے میرے شانے پر کہنی ٹیک کر جھکا اور کہنے لگا: ’’اللہ تم پر رحمت فرمائے، تمھارے سوا کوئی ایسا نہیں ہے، جس کے متعلق میرے دل میں یہ تمنا ہو کہ میں اُس کا سا نامۂ اعمال لے کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔ مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تم کو ضرور اپنے دونوں رفیقوں (یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ہی رکھے گا، کیوں کہ میں اکثر حضوؐر کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ فلاں جگہ مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ تھے۔ فلاں کام میں نے اور ابوبکرؓ و عمرؓ نے کیا۔ فلاں جگہ مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ گئے۔ فلاں جگہ سے مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ نکلے‘‘۔ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ: ’میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علیؓ بن ابی طالب تھے‘۔(’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۵، ذی قعد ۱۳۷۶ھ، اگست ۱۹۵۷ء، ص ۵۶-۵۹)