اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور سوچنے سمجھنے والا دماغ عطا کیا ہے، جن کی مدد سے وہ کائنات اور خود اپنے وجود میںیاد دہانی کروانے والی آیات (نشانیوں) کا اِدراک کرسکتا ہے۔ اگر ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ وہ صرف اپنے وجود کا جائزہ لے، تو اس کا فطری رویہ اپنے خالق و مالک کے حوالے سے شکر اور حمد کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔بہت سے اہل نظر کے لیے طلوعِ صبح اورغروبِ آفتاب کا منظر ہی قبول حق کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کا پورا وجود انسانوں اور کائنات پر احسانات کرنے والے رب ، الرحمٰن اورالرحیم کے اعتراف عظمت میںروبہ سجود ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۔
دوسری جانب ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو تابناک سورج کی روشنی میں بھی بصیرت اور قلب کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے حق کا اعتراف نہیں کرتے اور یوںوہ اپنے نفس پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک صحت مند جسم ، روشن دماغ اور دردمند دل رکھنے والا شخص ان تینوں صلاحیتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک جانب ہرقسم کے شرک سے بے زاری اور دوسری جانب توحید خالص کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اپنے سارے وجود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی میں دے کر اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوجائے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً)۔
اسی احسانِ الٰہی کے حوالے سے انسان کو شعورِ حیات دیا گیا اور اسی احسانِ الٰہی کی بنا پر انسان کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطہ مرتب کر کے وحی الٰہی کے ذریعے اس کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ وہ آنکھ ، کان ، دل و دماغ رکھنے کے باوجود اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ گزارے، بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے مشاہدے ، بصارت و بصیر ت اور قلب و ذہن کی ہم آہنگی (synergy) کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی فرائض کو پورا کر سکے ۔یہ ادایگی فرض رنگ و نسل کی تفریق سے بلند ہے۔ اس میں جغرافیائی قومیت یا مذہبی اور مسلکی اختلاف کا کوئی دخل نہیں ہے ۔یہ ہر ذی حیات انسان کے لیے، وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصارت، سماعت اور شعور کی صلاحیت کی اخلاقی جواب دہی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘۔
اسلامی تحریکات اس بنیادی شعور اور جواب دہی اور احتساب کے احساس کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہیں کہ اس دور میں اقامتِ دین ان پر ایک فریضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ دین کی جدوجہد: تحریکات اسلامی کا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی ۔ ان کی حیات، نمو اور ارتقا کا براہِ راست تعلق اقامتِ دین کے ایک جامع اور کلی تصور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یہ تصورخودمتحرک ہے، حتیٰ کہ اگر وقتی طور پر ایک اسلامی تحریک سکڑتی بھی نظر آرہی ہو، تب بھی یہ تصور متحرک رہتا ہے ۔ یہ حرکی تصور، تحریک اسلامی کے ضمیر کو بار بار جھنجوڑتا ہے اور اپنی منزل، طریق کار اور حکمت عملی کے حوالے سے بار بار یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تو دیکھا جائے کہ کمی یا نقص کہاں پر ہے ؟
اسی بنا پر ان تحریکاتِ اسلامی میں، جو بظاہر تیزی کے ساتھ منزلیں سر کرتی نظر نہ آرہی ہوں، کارکنوں کی سطح پر اضطراب کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ ان کے ہاں یہ احساس کہ اصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا ، تربیت میں کمی آرہی ہے ،ترقی نہیں ہو رہی ہے، ایثار و قربانی کا جذبہ کم ہو رہا ہے ، قیادت میں فیصلوں کے ساتھ چلنے کے بجاے فیصلے نافذ کرنے کا سا انداز پیدا ہو رہا ہے، یا پھر یہ شکایت کہ ضرورت سے زیادہ فروتنی اور اپنے آپ کو کم تر سمجھا جارہا ہے۔ یا پھر اپنی قوت کے بارے میں یہ غلط احساس پیدا ہو گیا ہو کہ ہم جب چاہیں شاہراہیں روک کر اپنی قوت کو منوا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروںکے مقابلے میں خود کو زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب علم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ بے شمار اچھے پہلو ہوں یا بعض کمزوریاں ، ان کا پایا جانا، ان پر باہمی مکالمہ کرنا درحقیقت زندگی کی علامت ہے۔ان تمام احساسات و جذ بات کا وجود بنیادی طور پر تحریک اسلامی کے متحرک ہونے کی دلیل ہے۔ اگر تحریک جامد اور ساکت ہوتی تو کارکن ہوں یا قیادت یا دعوت کے مخاطب ، ان میں یہ اضطراب نہ پایا جاتا۔ اضطراب کا پایا جانا ہی حیات کا ثبوت ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حنظلہ ؓ کے دل میں تھا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو جو دل کی کفیت ہوتی ہے وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جو گھر پر یا بازار میں پائی جاتی ہے اور جسے دونوں اصحابِ رسولؐ نے نفاق سے تعبیر کیا تھا ۔
تحریک اسلامی ہر دور میں اس کیفیت سے دوچار رہی ہے اور رہے گی، کیونکہ اس کے تحریک ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا قلبِ مضطرب ، سوتے جاگتے اسے پکار پکار کر کہتا کہ کہیں اس میں نفاق تو نہیں آگیا ۔ یہ احساس اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے ، اپنے احتساب اور اپنی ترجیحات کے جائزے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
یہ خیال کہ بعض تحریکات پر سیاست غالب آگئی ہے اور تعلق باللہ ، للہیت ، تقویٰ و احسان مفقود ہو گئے ہیں، ایک قابل قدر احساس ہونے کے باوجوداس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ سیاسی سرگرمی اور سیاسی تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ جدوجہد اقامتِ دین اور حاکمیت الٰہیہ کے لیے کی جاری ہے یا محض سیاسی سرگرمی؟ کیااس کا مقصد سینٹ یا پارلیمنٹ میں علامتی وجود کو برقرار رکھنا ہے یا اقامتِ دین کے لیے ان ایوانوںمیں مؤثر کردار ادا کرنا ہے، جو قوم و ملک کی قسمت سے انصاف بھی کرسکے اور عوام پر ظلم اور ان کے استحصال کے مرتکب عناصر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکے؟ کسی بھی اسلامی تحریک کو اس نوعیت کے سوالات پر باربارغور کرنا چاہیے اور جذبات سے بلند ہو کر، نفع ونقصان کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور تحریکی سفر کے مراحل کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ کرنی چاہیے۔
ہمارے لیے اصل میزان قرآن وسنت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ذاتی اور اجتماعی احتساب اور اپنی حکمت عملی پر مسلسل غور وفکر کا عمل جاری رکھیں اور ظن و گمان سے بچتے ہوئے یہ کام انجام دیں کہ بہت سے گمان اور ظن گناہ کے دائرہ میں آتے ہیں (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲)۔ یاد رہے تحریکی کارکنوں اور قیادت کے درمیان شفافیت اور احتساب کا مسلسل عمل اور باہمی اعتماد ہی سفر کے جاری رہنے کی ضمانت ہے۔تحریک اسلامی کا ارتقائی سفر (Progressive Process ) کسی ایک مرحلے کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ اسلامی تحریک مکہ مکرمہ سے حبشہ اور مدینہ پہنچی اور مدینہ منورہ سے پوری دنیا کے لیے ایک عالم گیرتحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس کے تاریخی مراحل میں مکی دور ہو یا حبشہ کی ہجرت کا دور یا آخر کار ہجرت مدینہ منورہ اور قیام حاکمیت الٰہی، یا وہ فکری، اخلاقی، سیاسی اور ہمہ پہلو انقلاب جو دین کی تکمیل کے اعلان کا باعث بنا۔ ان تمام تاریخی مراحل میں قیامت تک کے لیے وہ راہنما اصول موجود ہیں ، جن کا صحیح شعور و ادراک تحریکات اسلامی کو صراط مستقیم پر رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔
تحریکات اسلامی کی سفر کی منزل صرف اور صرف ایک ہے ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ـ :
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ۔
یہ حاکمیت سب سے پہلے ایک فرد اپنے چندفٹ لمبے جسم پر قائم کرتا ہے۔ چنانچہ قران کریم نے جہاں کہیں بھی اسلام لانے کے بعد ایمان کا تذکرہ کیا ہے، فوری طور پر ایمان کو ناپنے، تولنے اورجانچنے کا پیمانہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیاہے۔ البقرہ کی ابتدائی آیات پر غور کریں تو یوں نظر آتا ہے کہ جو شخص بھی وہ مرد ہو یا عورت ، بچہ ہویا جوان ، بوڑھا ہو یا توانا اور صحت مند یا معذور جب ایمان لاتا ہے، تو اس کاعملی اظہار کرنے کے لیے ایمان کے پہلے تقاضے، یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کو اپنے عمل کا حصہ بنالے۔
انسانوں کی جو بڑی اقسام قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ : وہ جو ایمان لاکر مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کے اسلام اور ایمان کی پہچان اقامتِ صلوٰۃ (صرف نماز پڑھ لینا یا ادا کردینا نہیں بلکہ نماز کے ذریعے تزکیۂ نفس اور پھر نیکی اور عدل کا قیام اور فواحش کا ابطال) اور مالی معاملات میں ’انفاق‘ (اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرنا )ہے۔
’انفاق‘ کی اصطلاح زکوٰۃ اور صدقات سب کا احاطہ کرتی ہے ۔زکوٰۃ بطور فریضہ لازم ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی ادایگی ایک شخص کو صدقات اور انفاق سے بری نہیں کر دیتی ۔ گویا ایمان کا پہلا پیمانہ اور تقاضا نظامِ صلوٰۃ اور نظام انفاق کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور میں ان دونوںہتھیاروں سے لیس اہل ایمان نے وہ مجاہدہ کیا ، جس نے ایک ایسی قوت کو وجود بخشا جو عددی لحاظ سے چاہے کم تھی، لیکن اپنی اثر نگیزی میں دنیا کے بڑے سے بڑے لشکر سے زیادہ قوی اور حقیقی معنی میں ایک بُنیانٌ مَرصوصٌ بن کر طاغوت ،ظلم ، شرک و کفر کے خلاف ایک انقلابی اور اصلاحی تحریک بن کر ابھری اور کفر، جہالت اورظلم کی تاریک فضا کو اس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد اور نصرت کے سہارے، اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی طاغوتی قوتوں پر فتح حاصل کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کفر و ظلم کے بادلوںکو اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے سبک ہواؤں میں تبدیل کر دیا :
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔
یہ تصور کہ مکی اور مدنی ادوار مکمل طو ر پردو الگ اکائیاں ہیں ، تحریک اسلامی کے ارتقائی سفر کے تناظر میں غیر عقلی نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حاکمیت الٰہی کے قیام کے بعد یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔اب دین کی حکمت: یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘___ جسے رب کریم نے بارہا اپنے ایک انعام کے طور پر قرآن کریم میں دُہرایا ہے، کے پیش نظر تحریکی قیادت کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ عین مدنی دور کے دوران مکی حکمت عملی کو کس طرح استعمال کیاجائے اورعین مکی دور سے گزرتے ہوئے مدنی دور کی کسی حکمت عملی پر کیسے عمل کیا جائے؟ گویا ایک مرتبہ نظام اسلامی کے قیام کے بعد تاریخی زاویے سے یہ دونوں اَدوار الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیے جا سکتے۔
دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی بناتے وقت دونوں ادوار میں اختیار کی گئی حکمت عملی اور نظام تربیت سے بیک وقت مدد لینی ہو گی۔ اب دعوت اسلامی کے وسیع تر تناظر میں اقامتِ دین کے جامع مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی وضع کی جائے گی، جس کے لیے دونوں ادوار سے مناسب حد تک استفادہ کرنا ہو گا۔اس نکتے کو سمجھنے میں اللہ رب العزت کی اس حکمت عملی میںبھی بڑی رہنمائی ہے کہ قرآن پاک میں جہاں مکی اور مدنی سورتوں کی نشان دہی کردی گئی ہے، وہیں قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے مطابق نہیںبلکہ اللہ کی ہدایت کے تحت اس ابدی اور آفاقی ہدایت کو اس طرح مرتب فرمایا گیا ہے کہ مدنی آیات کے ساتھ ساتھ مکی دور کی آیات کوپیوست کر دیا ہے۔
اس پس منظر میں تحریک اسلامی پر ایک ارتقائی سفرکے زاویے سے غور کیا جائے: تو چاہے اس نے اپنے کارکنوں اور قیادت کوفکری طور پر اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے آگاہ کر دیا ہو اور قرآن و سنت ، فقہ ، تفسیر اور اعلیٰ اسلامی ادب سے پوری طرح واقف کرا دیا ہو، اس کے باوجود ہرکارکن اور قائد کو ہر لمحے جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے، تو اس کا سبب کیا ہے ؟
ہم نے آغا ز میں سوال اٹھایا ہے کہ کمی، کوتاہی یا نقص کہاں ہے ؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں خود اپنے کردار اور ترجیحات کاجائزہ لینا ہوگا۔ نیز یہ دیکھنا ہو گاکہ جو افرادی قوت پیش نظر تھی اس میںمطلوبہ خصوصیات پیدا ہوئیں یا نہیں؟ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ: کیا افرادی قوت اسی معیار پر تیار ہورہی ہے جو ہم چاہتے تھے اور کیا ہماری حکمت عملی اور حصول مقصد کے ذرائع، مطلوبہ نتائج ( Outcome) کے لیے مفید ثابت ہوئے؟ یا جو ذرائع ، حکمت عملی اور طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان سے وہ معیارِ مطلوب (End Product) حاصل نہیں ہواجس کی خواہش اور طلب دل و دماغ میں پائی جاتی تھی ۔ اگرہماری خواہش یہ ہو کہ ہم فصل آنے پر اعلیٰ قسم کے آم کا مزا لیں جبکہ ہم نے درختوں میں نہ قلم لگایا ہو، نہ ارد گرد پھیلے ہوئے کیڑوں ، مکوڑوں کو دور کیا ہو اور محض تخمی پودا لگا کر اعلیٰ آموں کے خواب دیکھتے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اور نتائج میں کبھی بھی یگانگت نہیں ہو سکتی۔
تحریکاتِ اسلامی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا مکی دور کبھی ختم نہیں ہوتا (بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال اور مصر میں گذشتہ ۷۰سال کا جائزہ اس جانب اشارہ کرتا ہے)۔ یہ مکی دور دراصل تحریک کا تعمیری دور ہے ۔ اس میں افراد سازی ، ذہن سازی ، کردار میں تبدیلی ، رویوں کی تبدیلی، انسانی تعلقات کی نئی تعبیر ، تصور حیات میں بنیادی اصلاح ، اپنی ذات، گھر اور معاشرے میں اپنے کردار پر غور، اور سب سے بڑھ کر طاغوت اور کفر کی طرف سے مزاحمت اور ہر قدم پر رکاوٹوں اور آزمایشوں کے پہاڑوں کا پایا جانا شامل ہے ۔ قرآن کریم نے اس اصول کو واضح فرما دیا کہ جب حق کی بے لاگ دعوت پیش کی جائے گی تو کفر و شرک کا رد عمل صرف یہ ہو گا کہ یا تو ہم سے قدم ملاکر تعاون کرو اور وہی راستہ اختیار کرو، ورنہ ہم تمھیں اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے:
آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یاتو تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۱۳)
گویا مکی دور مدینہ پہنچ جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا ۔ فکری بنیادوں کی آبیاری پر ہی تحریک کی اٹھان کا انحصار ہوتا ہے ۔چنانچہ مدنی دور کے مطالبات میں: چاہے سیاسی محاذ پر بین الاقوامی قانون کی تدوینِ جدید ہو یا مسلمانوں میں باہمی تعلق و اخوت کا قیام ، یا مدینہ کے دفاعی نظام کا مستحکم کرنا شامل ہو۔ اسی طرح ان تمام ریاستی مطالبات کے ساتھ ، تعمیر سیرت ، فکری بلوغت ، تعلق باللہ، توحید کا صحیح شعور ، عدلِ اجتماعی کا فہم ، اقامتِ دین کی بنیادوں ، عبادات، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ وہ پہلو ہیں جو تحریک کا قلب و روح ہوتے ہیں۔ ان پر اگر شعوری طور پر کام نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ تحریک عوام کا ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لے اور ایوانِ نمایندگان میں اچھی خاصی تعداد میں کامیاب ہو کر بھی آجائے ، لیکن وہ اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کر سکے گی ۔ اس کی کامیابی تعداد پرمنحصر نہیں ہے بلکہ ان باشعور افراد کی تیاری ، اس معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جو وقت کے ہر امتحان میں پوری اُترے اور تحریک ہوا کے رخ سے بے پروا ہو کر شاہین کی طرح اپنے ہدف کی طرف سفر کو جاری رکھ سکے۔
قرآن کریم کا دیا ہوااٹل اصول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے صالح افراد کی جماعت ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت جو چاہے تعداد میں مختصر ہو ،اگر اس کا کردار اور تربیت معیاری ہو گی تو اسے ایک کثیر جماعت پر غالب آنا چاہیے ۔ اصل ضرورت ان افراد کی ہے جو منزل کا واضح تصور رکھتے ہوں، ان کی سیرت اُسوہ نبویؐ کی عکاسی کرتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی جان ، مال، علم ہر چیز کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بازی پر لگانے کے لیے آمادہ ہوں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (انعام۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہی قرآنی اصول بنی اسرائیل کے لیے تھا ، یہی امت مسلمہ کے لیے ہے ۔تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو ہر لمحے اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ ان دونوں پہلوؤں میں کس حد تک توازن و اعتدال برقرار رکھ سکی ہے اور کہاں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
فکری غذاکے سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جب تک تحریکی فکر میں نئے سوتے پھوٹتے رہیں گے ، تحریک کی اثر انگیزی اور وسعت میں اضافہ ہو گا ۔ اس کی فکر طاغوتی مادہ پرستانہ فکر کے مقابلے میں اپنی برتری تسلیم کرائے گی ۔لیکن اگر یہ فکری سوتے خشک ہونے لگیں تو تحریک بھی ایک سوکھے درخت کی طرح اپنی جگہ قائم تو رہے گی، لیکن امت مسلمہ اس کی گھنی چھاؤں اور اس کے میٹھے پھل سے محروم رہے گی۔اس لیے تحریک کو علمی اور فکری میدان میں مسلسل ترقی کی فکر کرنی ہو گی۔
یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ دور جدید میں تحریک اسلامی کے فکری رہنماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیااور جو حل تجویز کیے وہ وقت اور جغرافیائی سرحدوں میں محدودہیں۔ اگر امام حسن البنا بالاکوٹ یا لاہور میں پیدا ہوتے تو ان کی دعوتی زبان اُردو ہی ہوتی ، اسی کے محاورے ان کی نوک زبان پر ہوتے ، ایسے ہی اگر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کی تحریری زبان ترکی ہی ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امام غزالی نے بغداد میں یا قاہرہ میں بیٹھ کر عربی زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے دہلی میـں بیٹھ کر عربی اور فارسی میں جو کچھ تحریر کیا ان کے مخاطب نہ صرف عربی سمجھنے والے افراد تھے بلکہ آج تک ان کی فکر کی تازگی اور دینی حکمت سوچنے سمجھنے والے افراد کو متاثرکرتی ہے ۔ کیا اقبال محض پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئے تھے یا اقبال کی قدر اس کی جاے پیدائش والوں سے زیادہ وسط ایشیا کے افراد نے کی اور کر رہے ہیں ۔
پھر یہ بنیادی مقدمہ کہ کیا فکر (thought) وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے ؟ قرآن وحدیث کو زمان و مکان کی محدودیت اور کسی علاقے یا وقت میں قید کر دینا ایک انتہائی مریضانہ ذہنیت ہے، جو غیر شعوری طور پر مغرب کی لادینی اور استشراقی فکرسے متاثر بعض مسلمان دانش ور پیش کررہے ہیں۔یہ بالکل اُسی طرح ہے، جس طرح مغرب میں ہر تھوڑے عرصے میں ایک ’دانش وارانہ ‘نعرہ بلند ہوتا ہے کہ: ’’ماضی کے تصورات اب پرانے ہو گئے ہیں اس لیے نئے نظریات کی ضرورت ہے‘‘۔
جس طرح مغرب میں جدیدیت کے بطن سے نو جدیدیت (Post Modernism) کی ولادت ہوئی اور جس طرح مغرب نے تاریک دور (Dark Ages) سے دور عقلیت (Rationalism) میں قدم رکھا، اور بالخصوص آگسٹ کومے، ہیگل اور کانٹ کے تصورات کی روشنی میںعیسائیت کی جگہ عقلیت ، اباحیت، آزاد روی، مادیت پرستی اور دیگر تصورات کو ’روشن خیالی‘ کے زیرعنوان فخریہ طور پر اختیار کیا گیا، بالکل ایسے ہی ان مغربی فکر سے متاثر ’دانش وروں‘ کے خیال میںمسلم اہل فکر کو بھی قرآن و حدیث کو جدیدیت کی چھلنی سے گزارناچاہیے ۔ یہ وہ سادہ لوحی پر مبنی گمراہی ہے جو آج بعض مسلم دانش ور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور تحریکات اسلامی کے قائدین کی فکرکے حوالے سے وقتاً فوقتاً دُہراتے رہتے ہیں۔
یہ ’مسلم دانش ور‘ سمجھتے ہیں کہ حق و صداقت کے معیارات کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور ہر دور میں ایک ’من پسند نو تراشیدہ اور شتر بے مہار اسلام‘ وجود میں آنا چاہیے ۔اپنی اس خواہش کے باوجود یہ لوگ اگر سنجیدگی سے اسلامی قانون سمجھانا چاہتے ہیںتوائمہ اربعہ کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیںکر سکتے۔ دوسری طرف دورِ جدید کے تحریکات اسلامی کے مؤسسین کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ ان کی فکر آج بھی ویسی ہی تازہ، کارآمد اور relevant ہے جیسے ۸۰برس قبل تھی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی جامعات یا مغربی نظام تعلیم میں تربیت پانے والے اکثر مسلمان مصنفین یہ نعرہ بلند کرنے لگے ہیں کہ:’’ چونکہ وہ Postmodernism [مابعد دورِ جدیدیت] عہد میںبس رہے ہیں، اس لیے تحریکات اسلامی کو بھی ایک بالکل نئی فکری بنیاد کی ضرورت ہے‘‘۔ بہ ظاہریہ بات بہت دل پسند معلوم ہوتی ہے اور اسے اور بھی معتبر بنانے کے لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی لسان /زبان میں انبیاؑ کے ذریعے اپنا پیغام اور ہدایت بھیجی۔ اس کا واضح مفہوم یہی نظرآتا ہے کہ ہر دور کے حالات کی رو شنی میں، وہ اسلوب جو اس دور میں زیادہ مؤثر ہو استعمال کیا جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر نئے دور کے لحاظ سے نبی کی دعوت بھی مختلف ہویاہر دور میں توحید ، رسالت اور آخرت کا ایک نیا تصور پیش کیا جائے ؟ قرآن نے یہ بات قیامت تک کے لیے طے کر دی ہے کہ تمام انبیا ؑکی دعوت دو نکات ہی پر مبنی تھی، اللہ کی مکمل بندگی اور طاغوت کا مکمل رداور مخالفت:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶ ) ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(مزیدملاحظہ ہو:الزمر ۳۹:۱۷)
تحریکاتِ اسلامی کی دعوت انبیا ؑ کی دعوت ہے ۔ یہ اللہ کی مکمل حاکمیت اور نظامِ عدل کے قیام کی دعوت ہے، جس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، حکمت عملی اور ترجیحات ہر دور کے لحاظ سے متعین کی جائیں گی۔جہاں تک دعوت کا تعلق ہے اسے قرآن اور سنت رسولؐ کی شکل میں مکمل کر دیا گیا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ( المائدہ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔
جیساکہ پہلے کہا گیا کہ لازمی طور پر تحریکات کی زندگی کا تعلق فکر کی تازگی کے ساتھ ہے۔ لیکن بعض افکار صدیا ںگزر جانے کے باوجود تازہ رہتے ہیں۔آج غالب گو انتقال کیے ڈیڑھ سوبرس گزر چکے ہیں۔ کیا اس کے باوجود اردو شعر و ادب کا کوئی طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ غالب کا دور گزر گیا ہے، اس لیے اب غالب کا مطالعہ کرنے کے بجاے نو آموز شعرا کے کلام پر اکتفا کیا جائے اور ادبی سفر اور ادبی نقد کا آغازصرف جدید شعرا کے کلام سے کیا جائے ؟اس تخیل کو وزن دینا تو دُور کی بات، ایسی بات کہنے والے کی عقل کو ناقص سمجھا جائے گا۔
یہاں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ فکر مودودی ہو یا فکر اقبال یا فکر امام حسن البنا اس کو مصادر کی روشنی میں سمجھ کر آگے بڑھانے کے لیے وہ زاویے اور وہ راستے تلاش کیے جائیں، جن کی طرف ان فکری قائدین نے اشارے کیے ہیں اور جن کی تفاصیل وہ بیان نہ کر سکے یا ایسے پہلو جو کسی بنا پر ان کی نگاہ سے اوجھل رہ گئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب ان کی فکر کو ہضم کر کے حکمت دعوت کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کے ارتقائی سفر کے مطالبات کی روشنی میں حل تلاش کیے جائیں۔
غور سے دیکھا جائے تو مکی دور کے نمایاں پہلوؤں میں سب سے واضح پیغام توحید خالص کا تعارف ہے (سورۂ ا خلاص اور الفاتحہ توحید کا ایک جامع تصور پیش کرتی ہیں)۔ اس کے ساتھ ہی شرک کا رد اور دلیل کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت کہ اسلام جس دین کا نام ہے، وہ شرک کی کسی قسم کو برداشت نہیں کر سکتا (الکافرون میں اس سے مکمل براء ت کا اعلان کر دیاگیا۔(مزید دیکھیے: سورۂ یوسف۱۲:۴۰)
مکی معاشرے میں ’شرک‘ جس طرح سرایت کرگیا تھا، آج بالکل وہی شکل پائی جاتی ہے ۔ یہ ’شرک‘ فکر میں ، معاش میں، اخلاق میں ، معاشرت میں ، سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں رچ بس گیا تھا اور مشرکانہ معاشرہ شرک و نفاق کا اس طرح عادی ہو چکا تھا،جس طرح ایک متعفن نالے کے کنارے بسنے والے لوگ فضا کے تعفن کے عادی ہوجاتے ہیں۔
آج شرک کے روپ اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن ان سب کی خاصیت ایک ہی ہے۔ کہیں یہ سود کی شکل میں ، کہیںسیاست میں برادری اور دولت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی شکل میں، یامعاشرت میں اسلام کے دعوے کے باوجود ایسی بہت سی رسوم رواج کی شکل میں موجود ہے، جو خالصتاً ہندو ازم سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہیں ایشائی تہذیب اور معاشرت کے نام پرا پنی مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیںاور ہمارے گھر وں ، بازاروں ،اقتدار کے ایوانوں، حتیٰ کہ مذہبی حلقوں تک میں پائی جاتی ہیں۔ کسی کا خدا دولت ہے، کسی کا شہرت ، کسی کا اخلاقی اباحیت ، کسی کا عسکری قوت اور کسی کا بیرون ملک فرماں رواؤں سے ذاتی دوستی کا فخر۔
ایسے حالات میں سوچنا ہو گا کہ مکہ میںکیاحکمت عملی اختیار کی گئی تھی اورآج ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیا توحید پر ایک مدلل درس اور شرک پر ایک بھرپور تقریر یا کسی جلسے میں اعلان جہاد مسئلہ حل کرسکے گا ؟ مکی دور کا مطالعہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاںایوانِ اقتدار پر بیٹھے قریش کے سر داروں کومخاطب کیا، وہیں معاشرے کے ہر ہر طبقے کے افراد کو اقامتِ دین کی دعوت دی ۔ جہاںآپ عتبہ ، ابو طالب ، ابوجہل ، ابو سفیان ، کو براہِ راست دعوتِ دین دینے میں مصروف عمل رہے ، وہیں آپ نے حضرت بلال ، آل یاسر اورمعاشرے کے ان افراد کو، جو طبقاتی سطح پر محرومیوں کا شکار تھے، اپنی دعوت کا ہدف بنایا اور ان سے بڑے قیمتی ساتھی حاصل کیے۔
اسلام صرف ایک نظری دعوت بن کر نہیں آیا بلکہ معاشی استحصال، اخلاقی فساد اور سیاسی خلفشار کو ایک ہمہ گیر الہامی اور فطری ہدایت کے ذریعے مکہ کے محروم طبقات کی نجات کے لیے ان کے مسائل کو حل کرنے کا عزم بھی لے کر آیا۔ مکّہ کی مذہبی، سیاسی اور معاشی مقتدرہ نے ۳۶۵بتوں کی ڈھال کی آڑ میں ہر آنے والے دن کی قسمت پہلے سے طے کررکھی تھی۔ یہاں معاشی سطح پر دولت پرستی نے آقاؤں اور غلاموں کے دو طبقات پیدا کر دیے تھے۔ (آج کے ’روشن خیال‘ زمانے میں یہ تقسیم نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور ان کی معاشی و فکری غلام اقوام میں پائی جاتی ہے)۔ مسلم دنیا اپنی معیشت، تحفظ، دفاع،تعلیم اور سیاست، غرض ہرشعبۂ حیات میں مغرب کی لادینی فکری اور علمی روایت کی اندھی تقلید میں مبتلا ہے۔ یہ ’جدید شرک‘ جوہری اعتبار سے اس شرک سے مختلف نہیں ہے،جس میں ہر خواہش کے لیے ایک بت تراش لیا گیا تھا۔ ہوش کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مکی دورِجاہلیت ہی کی ایک جدید شکل ہے ۔ اس لیے ہمیں مکی دور کی حکمتِ عملی کو سمجھ کر آج کے حالات کے لحاظ سے مناسب شکل دینی ہو گی۔
مکہ میں توحید خالص کا عملی مطالبہ یہ تھا کہ تمام جاہلی روایات سے تعلق توڑ کر صرف اللہ رب العالمین اور اس کی نازل کرد ہ ہدایت کو معیشت ،معاشرت، سیاست ، ثقافت اور علم، قانون، غرض ہرشعبۂ حیات میں نافذو قائم کرنے کے لیے مجاہدہ کیا جائے۔یہ اقامتِ دین کا جامع تصور ہے، جس نے مکی دورِ ظلمت کوایک تابناک دور میں میں تبدیل کر دیا ۔ حق آگیا اور حق آنے ہی کے لیے تھا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے کے لیے ہی تھا۔(انفال ۸:۸، بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)
اس دور کی حکمت عملی جو ہمارے ارتقائی سفر کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، مکی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ آیات آج بھی اسی طرح عملیت پسندانہ (pragmatic) سوچ اور حکمت عملی لیے ہوئے ہیں ، جس طرح اپنے نزول کے وقت تھیں ۔ قران کریم اور سنتِ مطہرہ کا ایک ایک لفظ وہ ابدیت لیے ہوئے ہے، جو کسی انسانی فکرمیں نہیں پائی جاسکتی۔ مکی دور کی یہ آیات وقت اور مقام کی قید سے بلند آج بھی تحریکات اسلامی کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قرآن کریم عالم گیر انسانیت کے اولین مرکز ، ایک بے آب و گیاہ وادی کو قیامت تک کے لیے مرکز نگاہ بنا دینے والے شہر مکہ معظمہ کی قسم کھا کر جس حکمت عملی کا ذکرکرتاہے وہ آج بھی ہر اسلامی تحریک کے لیے کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتی ہے ۔ فرمایا گیا:
نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی، اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے، اور قسم کھاتا ہوں باپ (یعنی) آدمؑ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑادیا۔کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا ؟ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دوہونٹ نہیں دیے؟ اور ( نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟ مگر اس نے دشوا رگزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزارگھاٹی؟کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کوصبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ (البلد ۹۰: ۱-۱۸)
آغاز جس بات سے کیا جارہا ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہے، یعنی کیا انسان کو قوت مشاہدہ اور قوت بیان سے نہیں نوازا گیا کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور ذہن وقلب سے جو اس کا تجزیہ کرتا ہے اس پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھا رہے، بلکہ کم از کم اپنے ہونٹوں اور زبان کا استعمال کر کے حق وباطل میں فرق اور تمیز کرتے ہوئے نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھتے ہوئے ، حق کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہو۔ اس سفر کی دشوار گزار گھاٹی کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتا آگے بڑھتا چلا جائے۔
اقامتِ دین کی جدوجہد کی سربلندی کے لیے جن رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، ان میں ’’کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا ہے‘‘، یا ’’کسی فاقہ کش کو فاقے سے بچانے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے‘‘، یا کسی ’’قریبی یتیم رشتہ دار کو‘حالت محرومی سے نکال کر مقام قیادت تک پہنچا دینا‘‘ بھی شامل ہے ۔
جب تحریک سے وابستہ فرد یہ کرے گا تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا:’’جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور(مخلوق پر)رحم کی تلقین کی‘‘۔ یہ افراد اس سورۂ مبارکہ کی روشنی میں کامیاب ہونے والے ہیں ، دائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے ۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے (ناکام لوگ) ہیں ۔ اس سورۂ مبارکہ میں جو منشور تحریک اسلامی کو دیا گیا ہے وہ ایک لفظ میں ’خدمت خلق‘کے ذریعے خالق کی رضا کا حصول ہے ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، گردن کا چھڑوانا یا آزاد کرانا اس غلامی تک محدود نہیں ہے جو روم ، یونان ، ایران اور ہندستان میں ظہورِ اسلام سے قبل پائی جاتی تھی۔ بلاشبہہ وہ بھی اس میں شامل ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر یہ فکری غلامی ، ثقافتی غلامی ، معاشی غلامی ، سیاسی غلامی ، علمی غلامی ، غرض غلامی کی تمام اقسام کا احاطہ کرتی ہے، اور تحریکات اسلامی کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ مادیت کا دور ہو یا بادشاہتوں کا، فوجی آمریتوں کا دور ہو یا لادینی جمہوریتوں کا زمانہ، یہ غلامی ہی کی شکلیں ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی جب تک ان بتوں کی جگہ حاکمیت الٰہی کا قیام عمل میں نہیں لاتیں، اس وقت تک ان کا ارتقائی سفر صحیح سمت میں نہیں ہو گا۔ یاد رہے مکی دور کی حکمت عملی مکہ تک نہ محدود ہے اور نہ اسے اُس حد میں محدود تصور کرنا چاہیے۔ یہ مدنی دور میں بھی اتنی ہی بنیادی اور مؤثر رہے گی، جتنی مکہ میں تھی۔
اگلی بات جو وضاحت سے بیان فرمائی گئی ہے وہ بھوکے کو کھانا کھلانے سے متعلق ہے ۔ آج دنیا کی آبادی کاایک بڑاحصہ بھوک کا شکار ہے۔ یہ بھوک اس سودی استحصالی نظام کی عطا کردہ ہے جس کی بنیاد معاشی ظلم پر ہے، جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ تحریکات اسلامی کو اس معاشی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مو جودہ نئے عالمی معاشی نظام (New Ecnomic World Order) کی جگہ ایک اخلاقی معاشی عالمی نظام کو متعارف کرانا ہو گا ۔ جس کا آغاز محدود پیمانے پرغیر سودی قرضوں سے کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کامیابی سے نوازاہے(پاکستان میں ’الخدمت‘ اور ’اخوت‘ نامی اداروںنے اس کو کامیابی سے کیا ہے ، کچھ دیگر ادارے بھی غیر سودی بنیاد پر یہ کام کر رہے ہیں، گویا یہ محض ایک خیال نہیں ہے ایک عملی شکل ہے)۔بھوک کو دور کرنے کی ایک شکل بھوکوں کو مچھلی کھلانے کی جگہ مچھلی پکڑنے کی تربیت دینا ہے۔
مکی دعوتی حکمت عملی میں یتیموں کا ذکر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ بہت سے قیمتی جواہر جو یتیم ہونے کے سبب کسی تاج کی زینت نہیں بن پاتے، اگر انھیں صیح تربیت مل جائے تو یہ انسانی سرمایہ معاشروں میں انقلاب پرپا کر سکتا ہے ۔
ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں جو عملی اقدامات اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے اور تحریک اسلامی کے دعوتی ارتقا ئی سفر کے دوران کیے جاسکتے ہیں،ہم نے ان میں سے صرف تین کی طرف نشان دہی کریں گے ۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید اہداف کا تعین کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ تحریکی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجوزہ عمل ہمیں مزید ایسے پہلوؤں کی طرف لے جائے، جن کے تجزیے اور حل کے ذریعے ہم اپنی دعوت کو مزید وسعت دے سکیں اور اپنی منزل سے مزید قربت حاصل کر سکیں ۔
تعلیم کا میدان
اولاً،مستقبل کی حکمت عملی ہی میںنہیں آج کی حکمت عملی میں بھی تعلیم اور علم کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔مکہ مکرمہ میں دعوت اسلامی کے قیام اورفروغ کے لیے دار ارقم کو مرکز بنایا گیا ۔ یہ تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز تھا ۔ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر تعلیم کے شعبے میں کام کیا ہے اور تحریک سے وابستہ افراد نے بہت سے نجی ادارے بھی قائم کیے ہیں، جو ایک بھلائی کا کام ہے۔ تاہم، اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تعلیم گاہ میں (جو دار ارقم کے تاریخی کردار سے وابستہ خیال کرلی گئی ہے ،نصاب ، تعلیمی و تربیتی ماحول ، کردار سازی کے لیے نفسیاتی اور تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی حکمت عملی، اساتذہ کی ایسی تربیت کہ ان کا ہر عمل طلبہ کے لیے نمونہ ہو) کا اہتمام کیا گیا ہے؟ یا عملا ً کاروباری بنیاد ہی پر توسیع ہورہی ہے؟ کیا ان مطلوبہ مقاصد اور دعوت کا پورا شعور رکھتے ہوئے اس کا انعکاس ہورہا ہے؟ ایک تعلیمی ادارے کے نصاب، اساتذہ کے کردار، ، امتحانی معیار ، کامیابی کے تناسب اور کامیابی کی درجہ بندی میں کیا وہ تصورات موج زن ہیں؟ کیا طالب علموں کے اخلاق و کردار میں مسلسل ترقی ہورہی ہے؟ غرض یہ کہ جب تک تعلیم میں فنی مہارت اور تعمیر سیرت و کردار کو یک جا نہیں کیا جائے گا وہ انسان تیار نہیں ہو سکتے جو اسلامی انقلاب برپاکرنے کا ذریعہ بنیں۔
ترکی کی کالعدم تحریک ’حزمت‘کی حکمت عملی میں کئی سبق ہیں۔ ’حزمت‘ نے اپنے لیے ایک۳۰ سالہ منصوبہ تیار کیا، جس میں تعلیم کے ذریعے دعوت کا فروغ مقصد قرار دیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے امام بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل و تعلیمات کو ایک ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا ایک جال پورے ملک میں۳۰سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ پھیل گیا۔ ان اسکولوں سے نکلنے والے نوجوان ملک کے عام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی گئے اور بعض ان کی اپنی جامعات میں داخل ہوئے ۔ ان کو تعلیمی مشاورت کے ذریعے عدلیہ ، فوج، انتظامیہ اور کاروباری دنیا میں متعارف کروایا گیا، حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کے فارغ طلبہ کی فیصلہ کن مقامات تک پہنچ گئی ۔ یہ کام کاروباری انداز میں نہیں بلکہ مشن اور مقصد کے ساتھ کیا گیا اور سوچ سمجھ کر علامہ سعید نورسی کے رسائل کو اس لیے استعمال کیا گیا کہ ملک کے دین دار طبقات میں ان کا خیر مقدم ہو سکے ۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ۔
یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے کہ ان کے اور طیب اردگان کے درمیان پچھلے انتخابات میں اتحاد کس طرح ہوا اور حالیہ صورت حال میں دونوں میں ٹکراؤ کیوں اور کیسے ہوا؟ پھر یہ بھی اس وقت زیر بحث نہیں کہ’حزمت‘ کو اس کی قیادت نے کن وجوہ اور کن قوتوں کی ایما پر غلط سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟اس وقت ہمارے لیے جو پہلو قابل غور ہے، وہ ان کی تعلیمی حکمت عملی میں باہمی ربط اور مواصلاتی نظام کے ذریعے حصول مقصد ہے۔ طویل المیعاد تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے آیندہ ۲۵سال میں مختلف شعبہ ہاے زندگی میں قیادت کے قابل افراد کو تعلیم و تربیت کے ایک معیاری نظام سے گزار کر تیار کیا جاسکتا ہے، جن کی سیرت و کردار پر تحریکی مزاج غالب ہو۔ فر ض کیجیے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود، وہ سیاسی ہدف جو دعوت کا ایک لازمی حصہ ہے حاصل نہ ہو سکا، جب بھی اقامتِ دین کاایک اہم ہدف، یعنی افراد کار کی تیاری ، اور ان کے ذریعے خاندان اور معاشرے پر اثرانداز ہونا تو ہاتھ سے نہیں جا سکتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے بالآخر اجتماعی تبدیلی رونما ہو کر رہے گی۔ یہ مسلسل جدوجہد تحریک کے ارتقائی سفرکو منز ل کی جانب رواںرکھے گی۔
کیا آج اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کی کوششوں کے نتیجے میں باہر کے حلقے میں نہیں، خود تحریکی حلقوں میں فرد، خاندان ، معاشی سرگرمی اور معاشرتی تبدیلی کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکے ہیں؟ تحریکی فکر کا ایک لازمی حصہ مسلسل احتساب کا عمل ہے کہ ہم اپنے اہداف سے کتنے قریب ہیں؟ اس لیے اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتو ہمیں اسے تحمل مزاجی کے ساتھ دیکھنا ہو گا اور جو کمی رہ گئی اسے دُور کرکے شعور اور جذبے سے آگے بڑھنا ہو گا ۔کسی ایک مقام پر رک جانا اور محض ماضی کے تذکروں سے عظمتیں گنتے رہنے اور محض طاغوت کی برائیاں بیان کرتے رہنے سے پیش آمدہ مسائل حل نہیںہو سکتے۔
تعلیمی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے، جیسا کہ اوپر صرف ایک مثال دے کر وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح تعلیمی میدان میں قومی سطح پر حکمت عملی وضع کر کے اس کے نفاذ کے لیے جدو جہد کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت وقت سے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن خود تحریک کے پاس جتنے کچھ انسانی وسائل موجود ہیں، انھیں اعلیٰ معیار پر تعلیم و تربیت کے نظام کے قیام کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ آج غیر سرکاری تعلیم ، سرکاری تعلیم سے زیادہ انقلابی نتائج دکھا سکتی ہے۔ جو ادارے خود کو تحریکی پہچان سے منسوب کرتے ہیں، اگر وہ تحریکی اہداف کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ امر تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اصلاح کی ضرورت اور اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔
تعلیمی اداروں، خصوصاً اسکول سسٹم کو دعوتی نقطۂ نظر سے غیر معمولی مرکزیت حاصل ہے۔ انھیں ایک یا دو شفٹ میں چلا کر ایک اچھی آمدن پیدا کرنا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعے طلبہ و طالبات کے والدین تک پہنچ کر، ان کی فکری تربیت ایک اہم مقصد اور ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سکول کے احاطے کو محض اسکول کے لیے نہیں، بلکہ ہر ہفتہ کسی ایسی دعوتی سرگرمی کے لیے جو نہ صرف والدین اور طلبہ بلکہ پورے معاشرے کے لیے مفید ہو، استعمال نہ کرنا کفران نعمت کے مترادف ہے۔یہ درس قرآن سے لے کر صحت کے اصو لوں پر گفتگو ، قومی دنوں پر تحریکی نقطۂ نظر سے تقریبات کے انعقاد، اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی اصلاح کے لیے مطلوب سرگرمیوں کے مرکز بن سکتے ہیں۔ یہ کام غیر سیاسی ہونا چاہیے تاکہ ہم خیال اور اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس میںشرکت کرنے میں تنگی محسوس نہ کریں، اور یوں وہ تحریک کی فکر اور دعوت کو سمجھ سکیںگے۔ اس سرگرمی کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا نہیں ہے۔ یہ با ت ذہن میں رہے کہ جس طرح پہلا دعوتی مرکز دار ارقم تھا، ایسے ہی مدینہ منورہ میں بھی دعوتی مرکز صفہ تھا اور دونوں کا ہدف فکر و عمل کو یکجا کر کے علم اور تقویٰ و احسان کے ذریعے اسلام کی مطلوب شخصیت کی تعمیر تھا۔ یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
دوسرا اہم میدان معاشی طور پہ پریشان افراد کی خدمت ہے ۔ اس میں مائیکرو فنانس (یاچھوٹے قرضوں کی فراہمی) جس کا تذکرہ اشارتاً پہلے آچکا ہے، تحریک کی توجہ کا مستحق ہے ۔ تحریک کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جو اس شعبے کا فنی تجربہ رکھتے ہیں اور خالص اسلامی بنیادوں پر اسے چلا سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے آیندہ ۲۵سالہ حکمت عملی کے طور پر اس شعبے کو ترجیح دی جائے۔ یہ کام پورے پاکستان میں پھیلانے کے بجاے مختلف اضلاع کو متعین کر کے شروع کیا جائے اور پھر بہ تدریج اس کے دائرے کو بڑھایا جائے لیکن فیصلے سے پہلے غیر جانب دارانہ میدانی جائزہ ضروری ہے۔
تحریکی ترجیحات میں ہمیںتعلیمی اور معاشی اداروں میں بلوچستان اور سندھ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس کے بعد پختوانخواہ پر توجہ دی جائے ، اس وقت ان دونوں مقامات پر نظریاتی خلا اپنے عروج پر ہے۔ اگر اس وقت تحریک یہ کام نہیں کرے گی تو اسے بعد میں زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
تیسرا شعبہ صحت کا ہے۔ اس میں مفت طبی امداد کے مراکز ، فری شفا خانے کاتصور اور ایسے طبی مراکز کا قیام ضروری ہے جو گاؤں ، قصبے اورضلعے میں تشخیص کے بعد ایک مریض کوصحیح مشورہ دے سکیں کہ مریض مقامی طور پر علاج کرائے یا کسی دوسرے مرکز میںجا کر مزید تشخیص کے بعد اس کا علاج ہو ۔ اس سلسلے میں دُور دراز مقامات کو ترجیح دی جائے۔ یہ اہم کام بآسانی ملک گیر بنیاد پر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے بھی جائزے کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ عقل یہ کہتی ہے بلوچستان کو اولین اہمیت دی جائے ، اس کے بعد سند ھ اور خبیر پختونخوا ترجیحی بنیاد پر ہو۔
ان گزارشات میں صرف تین عملی میدانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر اس رخ پر غور کیا جائے تو کئی اور اہم شعبے ہیں، جن میں ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ تحریکی نگارشات خصوصاً مولانا مودودی کی تحریرات میں وہی تازگی اور مطابقت (relvance) موجود ہے جو اب سے ۵۰سال پہلے تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سمجھتے ہوئے ان کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے ۔ماچھی گوٹ کے اجتماع میں مولانا محترم کی تقریر اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور آج بھی روشنی کا مینار ہے۔
آج کے حالات میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل Action Planیا حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے بانی نے جو ترجیحات مقرر کیں ، ان سے ہم میں سے اکثر حضرات واقفیت رکھتے ہیں یعنی تطہیر افکار و تعمیر افکار، صالح افراد کی تیاری ، اجتماعی اصلاح اور آخر کار نظام حکومت کی اصلاح۔ بلاشبہہ چوتھا مرحلہ بھی اہم اور فیصلہ کن ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا تحریک کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے لیکن اولین تینوں نکات بھی بے حد اہم ہیں اور چوتھے مرحلے کی کامیابی کے لیے ان پر قرار واقعی توجہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہماری خاص توجہ کی جرورت ہے یہ اس لیے بھی کہ خود بانی تحریک نے تیسرے مرحلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع ہوں۔اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اورہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں ، کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف، کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو ، کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے ہو، کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو ، کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کرے اور کوئی علم وتحقیق کے میدان میں ۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہاے کار الگ الگ ہوں مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔یہ کام صرف وعظ ہو تلقین ، نشرو اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے مثلاً یہ اصلاح کرنے والے جہاں کہیں اپنی تبلغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں وہاں انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کریں اور ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کریں ، جس کے چند اجزا یہ ہیں : بستی میں مسجدوں کی اصلاح احوال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروانا ، تعلیم بالغان کا نظام ، کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام ، لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدو جہد ، باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظان صحت کی کوشش، بستی کے یتیموں، بیواؤں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، مذہبی تعلیم کاا یسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کاانتظام ہو‘‘۔ (مسلمانوں کا ماضی ، حال ،اور مستقبل، ۱۱نومبر، ۱۹۵۱ءکراچی، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، ص ۳۳۱-۳۳۲، مطبوعہ ۱۹۹۸ء)
ہم جس ارتقائی سفر Progressive Process سے گزر رہے ہیں ،اس میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ہم نے اس تیسرے مرحلہ کے تقاضوں کو مطلوبہ اہمیت اور توجہ دی ہے؟ کیا ا س سے قبل کے دو مراحل ضروری حد تک سر کیے جا چکے ہیں، یہ اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں میدانوں کو بیک وقت مخاطب کرنا ہو گا اور مکی اور مدنی تقسیم کی جامد تعبیر سے نکل کر ایک چومکھی جہاد کو اپنی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا ۔اس امر پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ کیااس حکمت عملی میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے ہم نے اپنی ترجیحات میں غیر مسلموں کو دعوت، ماحولیاتی مسائل ، معاشرتی مسائل ، خاندان کا تحفظ، بچوں پر ہونے والی زیادتیوں،خواتین کے جائز حقوق، معاشی و تعلیمی حیثیت سے کمزور افراد کے مسائل کا حل اور اسلام کے معاشرتی عدل کے قیام کے لیے معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اداروںکے قیام کی فکر کہاں تک کی ہے ۔ ہمارے ارتقائی سفر کے لیے ان تمام پہلو ؤں کا شعور اور ان پر ایک واضح حکمت عملی اور اس حکمت عملی کے حصول کے لیے مناسب اور مؤثر پروگرام اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء پاکستانی قوم کے لیے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتاہے۔ اس روز کوئٹہ شہر سے ۱۷کلومیٹر دُور سبّی روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سنٹر میں تین دہشت گردوں نے یورش کی۔ ۵۰۰ کے قریب زیرتربیت نوجوان اہل کاروں (عمر ۱۶ سے ۲۵ سال) کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گردوں نے چارگھنٹے کے خونیں معرکے میں ۶۳معصوم انسانوں کو شہید اور تقریباً ۱۵۰ کو زخمی کیا، جن میں سے ایک درجن سے زیادہ جوان زندگی اور موت کی کش مکش سے دوچار ہیں۔
یہ دل خراش واقعہ، کوئٹہ ہی میں دہشت گردی کے ایک اور دل دہلا دینے والے واقعے کے صرف اڑھائی ماہ بعد رُونما ہوا ہے۔ تب دہشت گردوں نے دن کی روشنی میں پہلے ایک نام وَر وکیل کو نشانہ بنایا اور پھر جب شہر کے چوٹی کے وکلا غم سے نڈھال ہسپتال پہنچے، تو دہشت گردوں نے ہسپتال میں ۷۰؍افراد کو بے دردی سے بھون ڈالا۔ ان شہدا میں سے تقریباً ۵۰ کا تعلق وکالت کے پیشے سے تھا اور یہ بلوچستان کی وکیل برادری کے گل ہاے سرسبد کی حیثیت رکھتے تھے۔
’ضربِ عضب‘ کی تمام قابلِ قدر کوششوں کے باوجود، صرف صوبہ بلوچستان میں اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد، اس اندوہناک واقعے سے پہلے بھی، دہشت گردی کے آٹھ بڑے واقعات رُونما ہوچکے ہیں، جن میں مجموعی طور پر ۲۰۰ سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں ایک نمایاں تعداد خود قانون نافذ کرنے والوں کی ہے، جن کا تعلق فوج، ایف سی اور پولیس سے تھا۔ واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس خصوصیت سے دہشت گردوں کا نشانہ رہی ہے۔
’ضربِ عضب‘ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر سفاکانہ حملے کے بعد وقت کی اہم ضرورت تھی اور بہ حیثیت مجموعی اس کے مثبت اثرات بھی رُونما ہوئے، جس کا ہرحلقے نے اعتراف کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’دہشت گردی کا قلع قمع کرنے‘ کا جو دعویٰ کیا گیا تھا، وہ ابھی پوری طرح شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔ باربار دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘ لیکن یہ کمر معلوم نہیں کتنی مضبوط ہے کہ ساری کوشش کے باوجود ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے ہر اندوہناک واقعے کے بعد جس ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ اب اپنی معنویت کھوتا نظر آتا ہے۔ وہی گھسی پٹی مذمت! وہی وحشیانہ کارروائیاں کرنے کی اجازت نہ دینے کے دعوے، وہی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزائم، وہی آہنی ہاتھوں کے حرکت میں آنے کی نوید، پھر دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعامات کا اعلان! اور ان سب پر مستزاد حالیہ چند واقعات بشمول حالیہ کوئٹہ کے سانحے کی یہ توجیہ کہ: ’’اگر بروقت دہشت گردوں کو زیر نہ کرتے تو بڑی تباہی ہوتی‘‘۔ گویا ۶۳ نوجوانوں کی شہادت اور ۱۵۰کا زخمی ہونا تو کم تباہی ہے۔
بلاشبہہ آج ہر آنکھ اَشک بار ہے، ہر دل افسردہ اور مغموم ہے اور ہرزبان دُکھ اور شہیدوں اور مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہر صاحب ضمیر فرد، شرم سار ہے کہ ۱۹۸۰ء سے دہشت گردی کے جس عفریت نے پاکستان میں سر اُٹھایا ہے اور جسے قابو کرنے اور تہ تیغ کرنے کی ہرسطح پر کوششیں کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ شخصی آزادیوں اور قانون کے باقاعدہ عمل (due process) تک کی بھی قربانی دی گئی ہے اور سویلین معاملات میں فیصلے کا دستوری اختیار بھی فوجی عدالتوں کو سونپ دیا گیا ہے، اس کے باوجود یہ عفریت بدستور اپنی تباہ کاریوں میں مشغول ہے۔
’ضربِ عضب‘ کو بھی اب دو سال ہورہے ہیں۔ شروع میں اس کے اثرات زیادہ نمایاں تھے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روایتی عسکری آپریشن اپنے مثبت نتائج کے باوجود اس عفریت کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ سرکاری اعداد و شمار سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ بہت خوش آیند نہیں ہے۔۲۰۱۴ء میں ملک بھر میں ۲۷۵ افراد دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے تھے، وہ ۲۰۱۵ء میں کم ہوکر ۲۰۲ کی سطح پر آگئے تھے لیکن ۲۰۱۶ء کے ۱۰ماہ میں بدقسمتی سے یہ تعداد ۳۲۰ہوگئی ہے۔ لہٰذا، اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے، اور جسے قوم کی تائید حاصل رہی ہے، نتائج کی روشنی میں اس پر نظرثانی کی جائے اور تمام حالات کے بے لاگ تجزیے کے بعد پالیسی کی ازسرِنو شیرازہ بندی کی جائے۔
چند بنیادی سوال جن پر فوری غوروفکر ضروری ہے،انھیں ہم ملک کے تمام پالیسی سازوں اور متاثر اداروں اور افراد کے غوروفکر کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
۱- سب سے پہلا اور پریشان کن سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس کے ذرائع کی جانب سے جب واضح اور متعین معلومات، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا کی جاتی ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کی روشنی میں مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے اور دہشت گرد قانون نافذ کرنے والوں کو چکما دے کر اپنا کام کر جاتے ہیں اور خود قانون نافذ کرنے والوں ہی کو ہدف بنا لیتے ہیں۔ اخباری نہیں، سرکاری اطلاعات اور اعترافات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ کے حالیہ واقعے اور اس سے پہلے رُونما ہونے والے ایک ہولناک واقعے سے قبل بھی متوقع دہشت گردی کے حملے کی واضح اطلاعات موجود تھیں اور متعلقہ اداروں کو ان سے باخبر کیا جاچکا تھا۔
اسی طرح کراچی میں بحریہ کے بیس پر حملے کا واقعہ ہو یا ایئرفورس بیس کا ، جی ایچ کیو کا واقعہ ہویا کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا، پشاور آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہو یا ولی خان یونی ورسٹی کا واقعہ، ہرموقعے پر متوقع حملے کے بارے میں ہوشیار رہنے کے لیے ’الرٹ سگنل‘ جاری کیے گئے، مگر ان پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی، اور سانحے پر سانحہ نمودار ہوتا رہا۔ حالیہ واقعے کے بارے میں تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے ٹی وی پر اعتراف کیا ہے کہ: ’’ہمیں پولیس پر حملے کی اطلاع تھی‘‘ مگر وزیراعظم اور اپیکس کمیٹی کے ایک سال سے زیادہ پرانے فیصلے کے باوجود کہ کوئٹہ کو ’محفوظ شہر‘ بنایا جائے گا اور ہر اہم مقام پر چوکیاں قائم کی جائیں گی، کیمرے لگائے جائیں گے، لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔ حالیہ وارننگ کے باوجود پولیس ٹریننگ کالج جہاں ۵۰۰ سے زیادہ اہل کار تھے، اس کے احاطے کی نہ دیوار درست تھی{ FR 551 } اور نہ حفاظت کا کوئی معقول انتظام تھا۔ صرف ایک سپاہی واچ ٹاور پر تھا، جس نے مزاحمت کے دوران شہادت دے دی اور حملہ آور دندناتے ہوئے کمپائونڈ میں داخل ہوگئے اور بے باکی سے خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ ایک تربیت کار نوجوان جو زخمی ہوا، اس کے یہ الفاظ دل کو دہلا دینے والے اور آنکھوں کو شرم سار کرنے والے ہیں کہ ’’حملہ آوروں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی، اور ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے‘‘۔
واضح رہے کہ پشاور آرمی اسکول اور ولی خاں یونی ورسٹی کے واقعات کے بعد کہا گیا تھا کہ ہر اسکول اور کالج میں دفاع کے لیے اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ ان تمام اعلانات کا کیا بنا؟
بلاشبہہ انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی بھی بار بار سامنے آئی ہے، لیکن انٹیلی جنس کی فراہم کردہ اطلاعات کے بعد انتظامی اور سیکورٹی کے اداروں کی غفلت بھی ایک حقیقت ہے۔ جب تک یہ کیفیت رہتی ہے محض فوج کی ’ضربِ عضب‘ کے باب میں سرگرمی نتائج نہیں نکال سکتی۔
۲- بات صرف انٹیلی جنس کی معلومات، انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت اور کوتاہی تک محدود نہیں، ہماری نگاہ میں فوج اور پولیس کو بیش قیمت قربانیوں کے باوجود دہشت گردی پر نہ قابو پانے میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:
ا- دہشت گردی کے خلاف ۲۰ نکاتی حکمت عملی کے بیش تر نکات پر عمل درآمد نہ کیا جانا اور اس سلسلے میں جن بنیادی اداراتی اور پالیسیوں کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی اور حکومت کے تمام متعلقہ اداروں کے درمیان جس ہم آہنگی کی ضرورت تھی، ان کی طرف قرارِواقعی توجہ نہیں دی گئی۔ نیز اس پوری حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے جن مالی اور انسانی وسائل کی حاجت تھی، اس کی بھی کوئی فکر نہ کی گئی۔ ایسی صورتِ حال میں بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی تھی۔
ب- بات نازک ہے لیکن اس کا اظہار اور ادراک بھی ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت میں جس فکری ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور حقیقی تعاون کی ضرورت تھی، نیز وفاق اور صوبوں کے درمیان فوج، ایف سی اور صوبائی اسمبلیوں کے درمیان جس قسم کی ہم آہنگی ناگزیر تھی، بدقسمتی سے وہ بڑی کمزور رہی۔
ج- ملک میں بحیثیت مجموعی اور تقریباً ہرسطح پر اور ہر ادارے میں جس ناقص طرزِحکمرانی کا رواج ہے، انتظامی بدنظمی جس سطح تک پہنچ چکی ہے، کرپشن نے جس طرح پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اہلیت و قابلیت کا خون کر کے نااہل افراد کو اہم ترین مناصب پر فائز کرنے کا جو چلن عام ہوگیا ہے، پھر ایک ہی حکومت کے مختلف وزیروں اور مشیروں، مختلف محکموں میں باہمی ربط اور تعاون کا جو فقدان دکھائی دیتا ہے، ان سب نے حکمرانی کے پورے نظام کو اتنا تباہ کردیا ہے کہ ایک اچھی پالیسی بھی مطلوبہ نتائج دینے میں بُری طرح ناکام ہوجاتی ہے۔
د-کوئی قانونی اور کوئی انتظامی پالیسی اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے نفاذ کا معقول انتظام نہ ہو۔ اس سلسلے میں جہاںعمل درآمد کا نظام ( delivery system) بنیادی اہمیت رکھتا ہے، وہیں قانون کی خلاف ورزی اور پالیسی کے بارے میں انحراف اور عدم تعمیل پر احتساب اور سزا کا نظام ضروری ہے۔ جس معاشرے میں قانون کا نفاذ نہ ہو، جہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، جہاں قانون توڑنے اور ذمہ داریاں ادا نہ کرنے یا بدعنوانی کا ارتکاب کرنے پر سزا کا نظام مفقود ہو، وہاں اچھی سے اچھی پالیسی اور بہتر سے بہتر قانون بھی بے کار ہوں گے___ اور آج ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔
۳- دہشت گردی کے سدباب کے لیے جہاں عسکری کارروائیاں ضروری ہیں اور قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا بڑا کلیدی کردار ہے، وہیں سیاسی، فکری، سماجی، معاشی اور اخلاقی پہلوئوں سے بھی بڑی اہم اصلاحات اور پالیسیاں درکار ہیں۔ فوجی کارروائی سے جن علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرا لیا جاتا ہے ان کی دوبارہ آبادکاری، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی، پُرامن شہری زندگی کی صورت گری بھی اتنی بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح پوری سول انتظامی مشینری کا مؤثر وجود اور متحرک کردار تاکہ لوگ اعتماد سے نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بھی اپنے سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی اور معاشی پہلو ہیں، جن کی طرف ۲۰نکاتی پالیسی میں اشارے موجود ہیں لیکن ان کے لیے مؤثر پالیسیاں، انتظامی اور اداراتی سہولتیں اور صحیح مردانِ کار کا وجود مفقود ہے۔ ایسے ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط (disjointed) انداز میں اگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد منظم ہیں، تربیت یافتہ ہیں، ان کا اپنا انٹیلی جنس کا نظام ہے اور وہ مسلح بھی ہیں بلکہ کچھ حالات میں عام قانون نافذ کرنے والوں سے کہیں بہتر اسلحہ اور ٹکنالوجی کے حامل ہیں۔
کوئٹہ کا خونیں حادثہ خون کے آنسو رُلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن کیا یہ ہماری اور ہماری قیادت کی آنکھیں کھولنے کا تازیانہ ثابت ہوسکتا ہے؟ ___ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ !
۱-
۲-
۳-
۴-
۵-
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے۵۰نئے ہسپتال قائم کرنے کا اعلان فرمایا ہے۔ وہ مریضوں کی بے کسی اور علاج کی عدم فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے اَشک بار بھی ہوگئے۔ کسی نہ کسی شکل میں ۳۰سال اقتدار میں رہنے کے بعد اگر آج انھیں اس ملک کے بے کس عوام کی صحت کے بارے میں کچھ فکر لاحق ہوئی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ چند اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے ان پر جو ’مگرمچھ کے آنسوئوں‘ کی پھبتی کَسی ہے، وہ صحافتی آداب کے منافی ہے۔ اسے ’دیر آید درست آید‘ سمجھنا چاہیے۔
ہم پورے ادب سے یہ ضرور عرض کریں گے کہ نئے ہسپتال بھی آپ ضرور قائم کریں، مگر جو سرکاری ہسپتال اس وقت موجود ہیں، کچھ توجہ ان کی طرف بھی دیں، تاکہ وہ ایسے ہسپتال بن سکیں جو مریضوں کو فی الحقیقت بروقت اور صحیح علاج کی سہولت فراہم کرسکیں۔ اس وقت حال یہ ہے کہ بیش تر سرکاری ہسپتال نام کے ہسپتال ہیں۔ نہ وہاں علاج کی ضروری سہولتیں میسر ہیں، نہ صفائی ستھرائی کا کوئی خیال ہے، نہ مناسب اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود ہیں اور جو ڈاکٹر ہیں ان میں ایک تعداد ایسے افراد کی بھی ہے، جو ڈاکٹر کم اور قصاب زیادہ ہیں۔ دوائیاں میسر نہیں اور جو ہیں وہ جعلی!
کرپشن کا دور دورہ ہے۔ اہلیت اور خدمت مفقود ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز اپنی ترقی کے مسئلے پر پریشان ہیں اور بڑوں کے رویّے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اس احتجاج میں ہرحد کو پھاندنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سینیرڈاکٹروں میں شفقت اور بزرگی کا فقدان ہے۔ اس کش مکش میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، وہ بے چارہ مریض ہے۔ ہم درخواست کریں گے کہ وزیراعظم جہاں صحت کے شعبے کے لیے ضروری وسائل فراہم کریں، وہیں علاج معالجے کے پورے نظام اور خصوصیت سے موجود ہسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز کو بہتر اور مؤثر بنانے پر توجہ دیں۔ ان تمام اخراجات کو آہنی ہاتھوں سے روکیں جو عیاشیوں کی نذر ہو رہے ہیں اور نئے ہسپتال قائم ضرور کریں، لیکن اس سے زیادہ اہمیت موجود ہسپتالوں کو بہتر بنانے کو اولیت دیں۔
آج ہسپتالوں کا کیا حال ہے اس کے بارے میں ہم دو معروف صحافیوں کے کالم سے چند اقتباس دیتے ہیں، جو صرف اس ایک ہفتے میں دو موقر اخبارات میں شائع ہوئے۔یہ ایک آئینہ ہے، جس میں صحت کی موجودہ کیفیت کی اصلی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
’’میجر صاحب ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آگرا۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انھیں اسلام آباد کے بڑے ہسپتال ’پمز‘ لے کر گئے۔ وی آئی پی روم لیا مگر ۲۴گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اَپ کے لیے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بُری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب۔ جو صاحب ’پمز‘ کے سربراہ ہیں، وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔۲۴گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑگئی ہے اور ہسپتال میں انھیں اٹینڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انھیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہورہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔ اگر میجرعامر صاحب جیسا نام وَر اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو، تو کیا وزیراعظم کے رحیم یارخاں میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدگی سے لینا چاہیے؟‘‘
’’ربِّ کریم نے میری بیٹی کو سات سال بعد عیدالاضحی سے تین دن قبل اولادِ نرینہ سے نوازا۔ بچہ جب پانچ دن کا ہوا تو اسے یرقان کی وجہ سے ایک نجی ہسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ کو دکھایا، اس نے کچھ ضروری ٹیسٹ لکھے۔ ان ٹیسٹ رپورٹوں سے پتا چلا کہ یرقان بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ کسی بھی چلڈرن ہسپتال میں لے جائیں، کیونکہ بچے کا خون تبدیل کرنا ہوگا۔ اسی دوران رات کے ۱۱ بج چکے تھے۔ ہم اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال ’پمز‘ کے شعبۂ اطفال پہنچے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے انتہائی اخلاق سے ہمیں کہا کہ: ’’واقعی بچے کا خون تبدیل ہونا ضروری ہے، لیکن ہم آپ کی مدد کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ بچوں کی ICU (نرسری) میں مزید کوئی جگہ نہیں‘‘۔ واقعی وہاں ایک ایک baby incubator میں تین تین بچے تھے۔ ڈاکٹرصاحب نے ہمیں کہا: ’’آپ تبدیلیِ خون کے لیے کسی نجی ہسپتال میں نہ جایئے گا، بہتر ہے کہ آپ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں چلے جائیں۔ ہم فوری وہاں پہنچے۔ اتفاق سے ہولی فیملی ہسپتال کے شعبۂ اطفال کے انچارج ڈاکٹر صاحب شناسا تھے۔ انھوں نے ایک ڈاکٹر کو فون پر ہدایت کی کہ وہ خصوصی توجہ دیں۔ ہولی فیملی کے ڈاکٹروں اور عملے نے بھرپور تعاون کیا لیکن کیا کیا جائے کہ جہاں ’آوے کا آوا‘ ہی بگڑا ہو، وہاں کیا ہوسکتا ہے؟ بچے کو خون دینے کے لیے ڈونر بھی ہمارا اپنا بھتیجا تھا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ڈیوٹی پر موجود نرسیں اور ڈاکٹر بچے کی vein یعنی نس تلاش نہ کرسکے۔ بار بار جسم کو Prick [سیخ زدن] کرنے کی وجہ سے پانچ دن کا بچہ شدید تکلیف میں تھا۔ اس کی نڈھال حالت کو دیکھتے ہوئے جب میں نے احتجاج کیا تو انھوں نے بتایا کہ: ’’عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہماری تربیت یافتہ نرس چھٹی پر ہے۔ اس لیے ہمارے پاس اب دوراستے ہیں کہ یا تو آپ بچے کو بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جائیں، اگر وہاں تربیت یافتہ نرس موجود ہے تو وہاں سے Cannula [کینولا، یعنی خون کی بڑی ورید میں بڑی سوئی لگانا]لگوا کر یہاں واپس لے آئیں، تاکہ ہم بچے کو خون لگاسکیں۔ دوسری صورت میں صبح ۱۰بجے تک انتظار کریں، آپریشن تھیٹر میں چھوٹے سے آپریشن کے بعد Cannula لگا دیا جائے گا‘‘۔
’’بچے کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر ہم نے اسے بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے بے نظیر بھٹو ہسپتال فون کر کے ہمیں رابطہ نمبر دے دیا۔ اس طرح ہم وہاں پہنچے۔ اگر یہاں سے وہاں فون نہ کیا ہوتا تو شاید ہمیں وہاں کوئی لفٹ نہ ملتی۔ خوش قسمتی سے وہاں موجود عملے نے کینولا لگا دیا اور ہم واپس ہولی فیملی آئے۔ اس وقت رات کے ۳بج چکے تھے۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک بچے کو کینولا لگوانے کے عمل میں چار گھنٹے صرف ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور بچہ خون کی تبدیلی کے بعد کافی بہتر ہوگیا۔ اگلے روز اس کا یرقان کنٹرول میں تھا۔ بچے کو نرسری سے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ ہسپتال کی نرسری کے باہر داخلی ہال میں نومولود بچوں کی سیکڑوں مائیں اور متعلقہ افراد فرش پر بیٹھے تھے۔ وقفے وقفے سے ۲۰، ۲۰ مائوں کو نرسری کے اندر بلوا کر بچوں کو دودھ پلوایا جاتا تھا۔ ایک سے ۱۰ دن کی زچہ مائیں اپنی تکلیف اور حالت بھول کر، پریشان حال اپنی اپنی باری کی منتظر تھیں۔ ان کی جسمانی کیفیت کی منظرکشی انتہائی دل خراش ہے۔ مدر فیڈنگ کے لیے کوئی باضابطہ و باعزت جگہ مجھے نظر نہ آئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک دن بعد آپ بچے کو گھر لے جاسکتے ہیں۔ اگلے روز بچے کی حالت بہتر ہونے کے بجاے خراب ہونے لگی۔ بچے کے دل کی دھڑکن کافی تیز ہوگئی۔ بارہا لگا کہ اس کا سانس بھی اُکھڑ رہا ہے۔ بچے کو دوبارہ نرسری لے گئے۔ میں بھی ساتھ ہی گیا۔ ہولی فیملی ہسپتال کی نرسری دیکھ کر مَیں پریشان ہوگیا۔ اس روز وہاں ایک ایک’بے بی انکوبیٹر‘ میں تین تین اور چار چار نومولود بچے تھے۔ مریض بچوں کی تعداد ۲۰۰ کے لگ بھگ تھی۔ ڈیوٹی پر صرف دو نرسیں اور ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ انھوں نے بچے کو ایک ’انکوبیٹر‘ میں ڈالا، جس میں پہلے ہی تین بچے تھے۔ ایک بچے کا کینولا دوسرے بچے کے منہ میں جارہا تھا۔ مختلف بیماریوں کی تخصیص کیے بغیر، بچوں کو جہاں جگہ تھی وہاں رکھ دیا جاتا۔ میں حیران اور پریشان یہ منظردیکھ رہاتھا۔ نرسری کے فرش پر آلودہ اشیا بھی بکھری پڑی تھیں۔ ڈاکٹر نے میرے نواسے کو چیک کرنے کے بعد نرس سے کہا: ’’بچے کا بلڈٹیسٹ کے لیے نکالیں‘‘۔ میرے سامنے انھوں نے بچے کو ’انکوبیٹر‘ سے نکال کر ساتھ رکھی میز پر لٹایا۔ ۱۰منٹ تک کوشش کے باوجود نرس خون کا نمونہ لینے میں ناکام رہی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور صورتِ حال بتائی۔
’’ڈاکٹر صاحب موقعے پر آئے تو پتا چلا کہ: ’’بچوں کا خون نکالنے کے لیے مخصوص بٹرفلائی نرسری میں ختم ہوچکے ہیں، اس لیے وہ بڑی سوئی والی بٹرفلائی سے کوششیں کر رہی ہے۔ ہمیں ضروری سہولتیں ہی میسر نہ ہوں تو ہم علاج کیسے کریں گے۔ ہماری بھی کوئی نہیں سنتا۔۲۰۰ سے ۳۰۰ نومولود بچوں کی ایمرجنسی کے لیے سٹاف بہت کم ہے۔صفائی کا عملہ بھی اپنی مرضی کرتا ہے۔ ضروری ادویات اور ایمرجنسی کا ساما ن پورا نہیں ہوتا، اس لیے مریض کے لواحقین کو سامان لانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ آپ بھی باہر میڈیکل سٹور سے بٹرفلائی منگوا دیں‘‘، جو ہم اگلے ہی لمحے لے آئے۔ اس سے بھی خون کا نمونہ لینے میں نرس کامیاب نہ ہورہی تھی۔ اسی اثنا میں مَیں نے جب بچے کے پائوں کی جانب دیکھا تو دومکوڑے نرسری کی ٹیبل پر بچے کے پائوں کے ساتھ لگے خون سے چمٹے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ بچے کو یہاں رکھنا مزید بیماریوں میں مبتلا کرنے کے مصداق ہے۔ میں ڈیوٹی ڈاکٹر کے پاس گیا اور درخواست کی: ’’براہِ مہربانی مجھے بتایئے کہ مَیں بچے کو کہاں لے جائوں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ: ’’بے نظیربھٹو ہسپتال کی نرسری کا حال ہم سے مختلف نہیں۔ ’پمز‘ قدرے بہتر ہے لیکن وہاں بھی آپ کو سہولتیں نہیں ملیں گی۔ چھوٹے پرائیویٹ کلینکس میں توبچوں کی نرسری نہ ہونے کے برابر ہے۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال نے حال ہی میں بچوں کی نرسری شروع کی ہے۔ وہ بہتر ہے لیکن بہت مہنگا۔ اگر آپ اخراجات برداشت کرسکتے ہیں تو وہاں لے جائیں‘‘۔ بچے کی زندگی بچانے کی خاطر ہم فوراً شفا انٹرنیشنل پہنچے۔بچوں کی ایمرجنسی میں تو یوں لگا کہ شاید بچے میں دم ہی نہ ہو۔ انھوں نے فوراً بچے کو ’خصوصی انکوبیٹر‘ میں ڈالا اور کہا: ’’دُعا کریں اللہ اسے زندگی عطا کرے، بچے کی حالت تشویش ناک ہے‘‘۔ شکرالحمدللہ، چند منٹ بعد بچے نے حرکت شروع کی۔ انھوں نے ضروری چیک اَپ کے بعد بچے کو فوری طور پر بچوں کی نرسری کےالگ کمرے میں منتقل کیا اور کہا کہ: ’’بچہ ہولی فیملی ہسپتال سے کئی قسم کے انفیکشن لے آیا ہے، اس لیے اسے الگ رکھنا لازم ہے‘‘۔ اگلے دن مختلف رپورٹس آنے پر پتا چلا کہ بچے کے خون میں انفیکشن ہے۔ ۱۰روز تک بچے کا انتہائی نگہداشت میں علاج ہوا۔ تقریباً ۲ لاکھ روپے کا بل ادا کر کے ہم بچے کو واپس گھر لائے تو ڈاکٹر نے کہا:’’ گھر پر اسے مزید ۱۵دن تک صبح و شام انجکشن لگیں گے‘‘۔
یہ دل خراش داستان خود بتا رہی ہے کہ موجودہ ہسپتالوں میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نئے ہسپتا ل ضرور قائم کریں، لیکن موجودہ ہسپتال جن کے قیام پر کروڑوں روپے لگے ہوئے ہیں اور جن کو چلانے پر اب اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، خدارا انھیں صحیح معنوں میں ہسپتال بنانے کی طرف بھی توجہ دیں۔ اگر ایسے ہی کچھ اور سفید ہاتھی آپ نے زمین پر کھڑے کر دیے تو اس سے کسی کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
ترجمہ: مسلم سجاد
مجھے نوجوانی کی عمر ہی سے ہفتے وار درسِ قرآن میں شریک خواتین کا اللہ سے پورے انہماک سے دعا کرنا کہ ہمیں کعبے کی زیارت، حجراسود کے بوسے اور مدینے میں سلام پیش کرنے کی توفیق دے، اچھا لگتا تھا۔ گو کہ میں ایک مسلمان ملک میں، ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوئی، اور ایک طرح کے دینی ماحول میں پرورش پائی، لیکن افسوس کہ میں نے اتنی شدت سے مکے اور مدینے کی زیارت کے لیے اپنے اندر جذبہ محسوس نہیں کیا تھا اور نہ کبھی میری آنکھوں سے ان مقامات پر جانے کی شدید خواہش سے آنسو اُمڈ آئے۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میں اس جذبے سے محروم ہوں اور وہ جذبہ ہے: ایک پیاس، ایک تمنّا مکہ کے پہاڑوں کی، اللہ کے گھر کی، مدینے کے راستوں کی اور مسجد نبویؐ کی زیارت کی تمنّا!
۱۸برس کی عمر میں مَیں ایک آئن لائن مدرسے سے وابستہ ہوگئی۔ میں اس کے طلبہ و طالبات کے لیے دل میں بڑی محبت اور احترام محسوس کرتی تھی۔ اس مدرسے کا ایک جز بننے سے میں ایمان بڑھتا ہوا محسوس کرتی۔ میں اپنے فرائض کی ادایگی میں اور تلاوتِ قرآن میں باقاعدہ ہوگئی۔ گویا میں نے ایمان اور پُرخلوص عبادت کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا لیکن اب بھی جب ان مقدس مقامات کی زیارت کا ذکر ہوتا تو میرے دل میں کوئی خواہش بیدار نہ ہوتی تھی۔
میں اپنے ہم جماعت طلبہ و طالبات کی جذبات سے بھری ہوئی تحریریں نیٹ پر دیکھتی تھی کہ کس طرح وہ ہمارے مولانا جی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ عمرے اور حج کے لیے بے چین ہیں اور کس طرح ان کے دل وہاں بار بار جانے کی تمنّا کرتے ہیں، مگر میرا دل ان مقدس مقامات کے امن و سکون اور برکات کے خیال سے بے نیاز ہی رہا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا، جب کہ میں ان مقامات پر کبھی گئی ہی نہیں۔ میں نے اپنے آپ سے سیکڑوں دفعہ سوال کیا اور اپنے کو درست جانا۔
شادی کے بعد ۲۲سال کی عمر میں مجھے وہ بابرکت موقع میسر آیا جس کے لیے ہزاروں ساری ساری عمر دُعا کرتے ہیں۔ ہم عمرہ کرنے جارہے تھے۔ میرے شوہرکا شادی کے بعد پہلا اور میرا اپنی کُل ۲۲سال کی عمر میں پہلا۔ میں اس کے بارے میں کچھ عرصے سے واقف تھی۔ ہم اس کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ درحقیقت ضمیر ’ہم‘ کا استعمال غلط ہے۔ میرے شوہر کچھ عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ میں ان کے منصوبوں کے ساتھ تھی۔ اس لیے نہیں کہ میں جانا چاہتی تھی بلکہ اس خلا کی وجہ سے جو میرے قلب میں ہمیشہ سے تھا۔
جانے کے دن جوں ہی قریب آئے میرے ذہن میں شکوک و شبہات سر اُٹھانے لگے۔ میں کچھ محسوس کیوں نہیں کر رہی؟ یہ بہت مایوس کن تھا کہ میں جوش، جذبے اور اس کے لیے بے چینی کی منصوبہ بندی کی کوشش کروں۔ مجھے وہ سب مواقع یاد آئے جب میں نے سعودی مکہ چینل کو اپنے پسندیدہ چینل کی طرف منتقل کیا۔ چینل سے مجھے درس میں سنی ایک مثال یاد آئی جس میں کسی فرد نے حج کیا لیکن وہ سارے وقت بس کعبہ نہ دیکھ سکا کیوں کہ اس نے کوئی سنگین گناہ کیا تھا۔ میں نے اپنے ان سب گناہوں کو یاد کیا جن کا میں نے ارتکاب کیا تھا اور ہردفعہ دل میں ایک خوف در آیا کہ میرے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے مجھے مکہ کی طلب سے محروم کر دیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جو دعا آپ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی کرتے ہیں، اس کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ ایک ایسی دُعا سوچنے کی تلاش (خاندان والوں اور دوستوں کی طرف سے دعائوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ بے شک میری اپنی دُعائیں بھی تھیں مگر مَیں اب بھی اس خاص دُعا کے بارے میں سوچ رہی تھی جو میں کعبے پر پہلی نظر پڑتے ہی کروں) الٰہ دین کی ان تین خواہشوں کو سوچنے کے مانند تھی جن کو جِنّ بلاشک و شبہہ پورا کردیتے۔ دراصل اسی کوشش میں میرے دل میں جوش کا ایک شعلہ بھڑکا۔ یہ وہ مرحلہ تھی جب میں نے حقیقی طور پر محسوس کیا کہ انسان کتنا خودغرض ہے۔ اپنی خصوصی خواہش پوری کرنے کی خواہش نے ایک ایسی خواہش کو جنم دیا جو مجھے پہلے کبھی نہیں رہی۔ کعبے کی زیارت کی خواہش!
مکہ کے پہاڑوں میں کوئی ایسی بات تھی جو ان کو اپنے ’ٹھوس پن‘ اور عظمت میں دوسرے پہاڑوں سے ممتاز کرتی تھی۔ شاید یہی امرِواقعہ تھا کہ میں ایک ایسے پہاڑ سے اتنا زیادہ قریب ہوگئی تھی، جتنا میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ جب ہم مکہ کی طرف ڈرائیو کر رہے تھے تو یہ پہاڑ ہمارے دونوں اطراف میں پھیلے ہوئے تھے۔ منظم، بے حس و حرکت، بڑے بڑے اہرام کی طرح ۔ میں نے سوچا کہ اللہ کس طرح قرآن میں پہاڑوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ میں نے اس کی دانش پر غوروفکر کیا۔ عرب اپنی زندگی کے ہر دن پہاڑوں کی شان و شوکت کا مشاہدہ کرتے، وہ انھیں اس ہستی کی عظمت سے کیوں نہ جوڑتے جس نے ان کو پیدا کیا اور کسی دن ان کو ریزہ ریزہ کردے گا، روئی کے گالوں کی طرح۔
آس پاس کی عمارتیں آہستہ آہستہ نظر آنا بند ہوگئیں اور ان کی جگہ ایک وسیع ریگستان نے لے لی۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کی پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں، سورج کی شدید تمازت میں۔ میں نے پہاڑوں کے ڈھلوان پر صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مکانات دیکھے۔ جب میں نے طائف جانے کا سائن بورڈ دیکھا تو رسولؐ اللہ کے زخم آلود چہرے اور خون آلود ایڑیوں کو نظر میں لائی۔ وہ جذبات جن کی میں طویل عرصے سے تمنّا کر رہی تھی میرے دل میں اُبھرنے اورآگے بڑھنے لگے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اور خاموشی سے تلبیہ کے الفاظ ادا کرنے لگی۔
حرم کے فرش کے چمکتے ہوئے ٹائیل خنک اور آرام دہ محسوس ہوئے۔ تمازت بھرے سورج میں طویل مسافت کے بعد میں گھبرائی ہوئی تھی کہ عوام کے جم غفیر میں کس طرح چلوں گی جو اللہ کے گھر میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن جب میں نے تجربے کا آغاز کیا تو مَیں خوشی و مسرت کی ایک لہر سے گزری۔ میں نے اپنے شوہر کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑلیا اور کعبے کی طرف ہجوم کے اندر راستہ بنانا شروع کیا۔ ذہن میں یہی بات تھی کہ میں اللہ سے کیا مانگوں گی جب میں آخر میں پہلی دفعہ اس کا سامنا کروں گی۔ ’تم تیار ہو؟‘ میرے شوہر نے میرا ہاتھ پکڑ کر تیسری دفعہ مجھ سے پوچھا۔ میں نے سرجھکا دیا، میرا دل سینے میں اُچھل رہا تھا اور میرے ہاتھ خوف اور گھبراہٹ سے سرد ہو رہے تھے۔
اگر میں اسے نہ دیکھ سکی اور اگر میں اس شخص کی طرح اپنے گناہوں کی وجہ سے اس خوب صورت شے سے محروم کردی گئی تو! ’’نگاہیں نیچی رکھو، میں تمھیں بتائوں گا کہ اب تم نظر اُٹھالو، میرے شوہر نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں کئی منٹ تک نیچے ان قدموں کو دیکھتی رہی جو تیزی سے رواں تھے یہاں تک کہ مزید نہ دیکھ سکی۔میں نے نظر اُٹھائی اور میری چیخ نکل گئی اور مَیں روپڑی۔
کعبہ میری نگاہوں کے سامنے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے چند سیکنڈ دیکھا ، پھر ایک سیکنڈ نیچے دیکھا، پھر اپنے شوہر کو ایک سیکنڈ کے لیے دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ میری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھیں۔ میں شکرگزار تھی وہ میرے پیچھے کھڑے رہے۔ میں خانہ کعبہ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی اور اپنی دُعا کا آغاز کرنے والی تھی، اس ’خصوصی دُعا‘ کا جس کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے مگر میرے منہ سے الفاظ نکل نہیں رہے تھے۔میں وہاں ہاتھ اُٹھائے کھڑی تھی۔ میری آنکھوں سے تشکر بھرے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اللہ کی اس طرح شکرگزار تھی جس طرح پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس خوب صورت قیمتی منظر کو عطا کرکے، مجھ کو اس جیسے قیمتی خزانے سے مالامال کرکے، جب کہ میں نے اس کے لیے کبھی دل سے دُعا نہ کی تھی۔ میں یہاں کھڑی اپنے آپ کو اللہ کی خاص بندی سمجھ رہی تھی۔ ذہن کے پردے پر سارے مناظر ایک کے بعد ایک فلم کی طرح گزر گئے۔ جب اللہ نے تجھے وہ کچھ عطا کیا جو تو نے طلب نہ کیا۔ محسوس ہوا کہ جیسے اللہ اس وقت خود مجھے ان کی یاد دلا رہا ہے!
خوف، مسرت، تشکر اور جوش کا آمیزہ میری آنکھوں سے رواں ہوگیا۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ آیت سامنے آگئی: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵) ۔’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے دل میں جان لیا کہ یہی میری خصوصی دعا تھی۔ میں نے اللہ سے دعا کی میرا دل اس کی اور اس کے رسولؐ کی محبت سے لبالب بھر جائے۔ اس لیے کہ محبت ہی خواہش کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مسجد نبویؐ میں خواتین کا راستہ اس ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر تھا جس میں ہم ٹھیرے ہوئے تھے۔ مسجد نبویؐ کی مقناطیسی کشش کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اسے ایک ریگستان میں نخلستان کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جہاں پیاسے کو ٹھنڈک اور سکون ملے۔
جب میری نگاہیں موتیوں جیسی سفید چھتریوں پر پڑیں تو میرے لیے خواب کا سا منظر تھا۔ وہ بے حد حسین تھیں۔ مجھے پہلے دن مسجد کے اندر جاکر نماز پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ میں نے شاید کافی کوشش نہیں کی تھی، اندر جانے کی۔ باہر کھلے آسمان کے نیچے اور کبھی چھتریوں تلے، مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا تجربہ خاصا سحرزدہ تھا۔ میں نے سوچا کہ مسجد نبویؐ ۱۴۳۷ھ سے پہلے کیسی نظر آتی ہوگی۔ نہ چھتریاں، نہ ریگستان کی گرمی سرد کرنے کے لیے پنکھے، نہ چمک دار پھسلنے والے ٹائل، بس صرف ایک چھوٹی سی عمارت۔ کیا میں یہاں باربار آکر نماز پڑھنا پسند کروں گی؟ یہ اس شخص کی مسجد تھی جس کے آخری الفاظ اپنے اُمتی کے لیے، میرے لیے دُعا تھے۔ کیا میں اپنے نبیؐ سے اس کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے کافی محبت کرتی تھی، کم از کم اس سے قریب تر جو وہ مجھ سے کرتا تھا___ وہاں کھڑا ہونا میرے اس دعوے پر سیکڑوں سوال اُٹھا رہا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھی!
مسجد کا اندرونی حصہ بیرونی کے مقابلے میں زیادہ ششدر کرنے والا تھا___ چمک دار سنہرے فانوس، منقش ستون، صفیں اور لال قالین۔ یہاں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا جو دلوں کو چھوتا تھا جو بس محسوس کیا جاسکتا تھا، دل کو مسرت سے بھر دیتا تھا۔ مہربانی کے چھوٹے چھوٹے عمل جو ایک اجنبی دوسرے اجنبی کے ساتھ کر رہا تھا۔ مصلّے میں حصہ داری، دوسرے بہن یا بھائی کے لیے جگہ بنانے کی خاطر، بچے کی مدد کہ وہ اپنا گلاس زم زم سے بھرے، دوسروں کے مصلّے اپنی جگہ پر پہنچانا۔ سلام اور مسکراہٹیں بغیر یہ جانے کہ آپ کون ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں۔ در حقیقت مہربان ترین ہستی کے بہت بڑے خاندان کا حصہ ہونے کا احساس!
میں کوئی یادگار گھر واپس نہیں لائی لیکن کوئی چیز چھوڑ ضرور دی۔ اپنا دل ایسی جگہ چھوڑ دیا جو میرے گھر سے بہت دُور گھر جیسا لگا۔ (بہ شکریہ دوماہی Intellect، کراچی، جلد۷، شمارہ۵،۲۰۱۶ء)
غذا تمام جان داروں کی طرح انسان کی بھی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر غذا صحیح، متوازن اور اچھی ہو تو اس کے اثرات دیگر جان داروں کی طرح انسانی صحت پر بھی اچھے مرتب ہوں گے۔ اس کی نشوونما اچھی اور جسم تندرست و توانا ہوگا۔ وہ امراض و عوارض اور موسم کی سختیوں کو اچھی طرح جھیلے گا لیکن غذا اگر ناقص اور غیرمتوازن ہوگی تو اس کے نتائج بھی اسی طرح ظاہر ہوں گے۔
عام جان داروں اور انسانی غذا میں سب سے اہم اور بنیادی فرق حلال و حرام کا ہے۔ عام جان دار جیسے نباتات، حشرات، حیوانات وغیرہ حلال و حرام کی حدود سے ماورا ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس لیے اچھی اور متوازن غذا کے ساتھ ساتھ اس کا حلال ہونا بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح غیرمتوازن اور ناقص غذا کے منفی اثرات انسانی صحت پر پڑتے ہیں، بالکل اسی طرح رزق حرام کے منفی اثرات بھی انسانی روح اور قلب پر پڑتے ہیں۔ اس کی روحانی اور قلبی نورانیت کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ روحانی طور پر کمزور اور بیمار پڑتا ہے۔ اس میں بُرائیوں کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ جلد غلط کاموں کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔ رزق کے اثرات کی وجہ سے انسان ذہنی اور قلبی ابتری کا شکار ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رزقِ حلال کی بہت تاکید کی ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے لقمۂ حرام سے پرہیز کی یادگار مثالیں رقم کیں ہیں۔ ان کی زندگی قرآن اور حدیث کی عملی تفسیریں تھیں۔ سورئہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا (بقرہ ۲:۱۶۸) لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال و طیب ہیں وہ کھائو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط (المومنون ۲۳:۵۱) اے پیغمبرو ؑ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور عملِ نیک کرو۔
کتاب و سنت میں رزقِ حلال اختیار کرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر اس لیے زور دیا گیا ہے کہ غذا کا اثر انسان کے قلب و دماغ پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے جذبات پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر اولاد پرپڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے اعمال پر پڑتا ہے۔ رزقِ حلال کے طفیل دل میں رقت و لطافت پیدا ہوتی ہے، یا دل وحشت سے لبریز ہوجاتا ہے۔ اس میں شکروصبر اور استغفار کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ ذہن و دماغ میں پاکیزہ خیالات جنم لیتے ہیں، انوار کی بارش محسوس ہوتی ہے لیکن اگر رزق حرام ہوگا تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ نور کے بجاے ظلمت دل و دماغ پر چھا جائے گی۔ نیکی اور قبولِ ہدایت کی صلاحیت اور استعداد ختم ہوجائے گی۔ دل اور دماغ پر منفی اثرات غالب آئیں گے۔
اللہ نے اپنے تمام انبیا ؑ کو، اور انبیا ؑکی معرفت ان کی پیرو اُمتوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ: ٰٓیٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط (المومنون ۲۳:۵۱) ،یعنی اے میرے رسولو ؑ! پاکیزہ روزیاں کھائو اور عملِ صالح پر کاربند رہو۔ چھے سات الفاظ کا یہ مختصر ارشاد ایسا ہے کہ اُصولی طور پر قریب قریب پورے دین کا منشا اس میں آگیا ہے۔ اگر کوئی شخص رزقِ حلال و طیب کی پابندی کے ساتھ عملِ صالح میں زندگی گزارتا ہے، تو گویا اس نے حسنۂ دنیا کو بھی پالیا اور حسنۂ آخرت کو بھی!اس مختصر سے کلمے میں یہ نمایاں اشارہ موجود ہے کہ پاکیزہ روزی یا حلال رزق کے بغیر اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ عالیہ کا ہونا ممکن نہیں، اور اسی طرح اعمالِ حسنہ یا اخلاقِ حسنہ سے جس شخص کی زندگی خالی ہو، یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے دامنِ معیشت کو حرام کی آلایشوں سے بچائے گا اور رزقِ حلال کمانے کے لیے غیرمعمولی جُہدومشقت کرے گا۔ حضوؐر نے بروایت عبداللہؓ بن مسعود فرمایا کہ رزقِ حلال کا کسب فرض ہے۔(تحریکی شعور، نعیم صدیقی، ص ۱۶۷)
امام غزالیؒ کیمیاے سعادت میں لکھتے ہیں کہ غذا سے بدن کا گوشت اور خون پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر غذا حرام ہو تو اس سے قساوت، یعنی سختی پیدا ہوتی ہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عبادت کے ۱۰ جز ہیں۔ ان میں نو کا تعلق رزقِ حلال سے ہے۔
طبرانی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے لیے دُعا کیجیے کہ اللہ مجھے مستجابُ الدعوات بنا دے۔ آپؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنی خوراک کو پاکیزہ کرلو، تمھاری دعائیں قبول ہونے لگیں گی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! بندہ جب ایک لقمہ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ ۴۰ دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہہ کسی جان کو اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک کہ وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ خبردار! اللہ سے ڈرو اوررزق طلب کرنے میں احسن طریقہ اختیار کرو۔ رزق کا دیر میں ملنا تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے رزق طلب کرو، کیوںکہ جو کچھ ہے اللہ کے پاس ہے۔ (مشکوٰۃ)
ہماری بدقسمتی کہ ہم جلد از جلد آگے بڑھنے کی حرص میں مشیت الٰہی کا انتظار نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دل و دماغ کو حرام کا چسکا لگ جاتا ہے اور پھر ہمارا مزاج اس قدر بگڑجاتا ہے کہ وہ حلال غذا قبول ہی نہیں کرتا۔ بالکل اس بیمار کی طرح جو ہاضمے کی خرابی کے باعث اچھی غذا کو ہضم نہیںکرسکتا اور ہم بابِ رحمت خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اُوپر بند کرواد یتے ہیں۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص متواتر حلال روزی کھاتا ہے جس میں حرام کی آمیزش نہ ہو، حق تعالیٰ اس کے دل کو پُرنور کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے قلب سے جاری کردیتا ہے۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ ہرچیز کا تقویٰ ہے اور پیٹ کا تقویٰ رزقِ حلال ہے۔ امام غزالیؒ مزید رقم طراز ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا طعام و لباس حرام ہے اور وہ ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگتے ہیں۔ ایسی دعائیں بھلا کب قبول ہوں گی؟‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ تو یہاں تک نماز پڑھے کہ پیٹھ ٹیڑھی ہوجائے اور اس قدر روزے رکھے کہ بال کی طرح باریک ہوجائے۔اس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ یہ قبول ہوں گے جب تک حرام سے پرہیز نہ کرے۔اس کی وضاحت میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص ۴۰دن تک شبہہ کا مال کھاتا ہے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اسے زنگ لگ جاتا ہے۔
حضرت تُستریؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے عضو گناہ میں پڑتے ہیں خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے، جب کہ جو شخص حلال کھاتا ہے اس کے تمام اعضا اطاعت میں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے خیر کی توفیق دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے رزق کے معاملے میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حلال کے ۱۰حصوں میں سے ۹ کو اس لیے چھوڑ دیا کہ کہیں حرام میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ (کیمیاے سعادت، ص۲۲۵-۲۲۸)
o حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ایک غلام تھا جو ان کی زمین کا محصول (خراج) وصول کرتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ کھانے کی کوئی چیز آپؓ کو دی جس کو آپؓ نے تناول فرمایا۔امام غزالی کے مطابق دودھ ملا شربت پلایا۔ اس کے معاً بعد آپؓکو خیال آیا اور غلام سے پوچھا:کہ یہ کہاں سے ملی تھی؟ غلام نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں مَیں نے ایک آدمی کے لیے کہانت کہی تھی حالاںکہ کہانت کا مجھے کوئی ڈھنگ بھی نہیں آتا۔ بس اسے بے وقوف بنایا۔اب اس شخص سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے یہ چیز مجھے دی تھی جو میں نے آپؓ کو تناول فرمانے کے لیے دی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے منہ میں انگلی ڈال کر اُبکائی کی اور جو کھایا پیا پیٹ میں تھا، قے کردی۔
یہ روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دینی احتیاط، تقویٰ اور رزقِ حلال کے بارے میں انتہائی محتاط رویے کی واضح مثال ہے۔ قے کے باوجود آپؓ نے توبہ و استغفار کی اور دُعا مانگی: اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس قدر شربت کے لیے جو میری رگوں میں رہ گیا ہے۔(ایضاً، ص۲۲۶)
oخلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓکی خدمت میں ایک دفعہ دودھ پیش کیا گیا۔ آپؓ نے دودھ تو پی لیا مگر اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا۔ آپؓ فوراً چونک اُٹھے اور پوچھا: یہ دودھ کہاں سے لیا ہے؟دودھ پیش کرنے والے نے کہا: میں ایک چشمے پر گیا جہاں زکوٰۃ کی اُونٹنیوں کو پانی پلایا جارہا تھا۔ شتربانوں نے ان کا دودھ دوہا اور اس میں سے تھوڑا مجھے بھی دیا جو میں نے آپؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ سن کر حضرت عمرفاروقؓ نے فوری طور پر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور اس کو قے کر دیا کیونکہ بیت المال کی اُونٹنیوں کا دودھ آپ اپنے لیے حرام سمجھتے تھے کہ مبادا یہ دودھ جزوِ بدن بن جائے۔
ہمارے اسلاف کھانے پینے کے معاملے میں ان ہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ اور احتیاط سیکھنے کے لیے ہم لوگ ہروقت حضرت عمرؓ کے ساتھ لگے رہتے تھے۔
o ایک آدمی نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا: دل کیسے نرم ہوتا ہے؟ آپؒ نے فرمایا: ’’حلال کھانے سے ‘‘(طبقات الحنابلہ)۔ امام احمد بن حنبلؒ خود بھی کھانے میں بے حد احتیاط فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے گھر روٹی تیار ہوئی جس کا خمیر ان کے بیٹے صالح کے گھر سے آیا تھا۔ صالح نہایت متقی پرہیزگار تھے لیکن وہ ایک سال تک اصفہان کے قاضی رہے۔ چونکہ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک اس وقت اسلامی حکومت اپنے فرائض پوری طرح انجام نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے سرکاری عہدوں پر فائز افراد سے کچھ لینا دینا آپؒ کو پسند نہ تھا۔ آپؒ نے وہ روٹی کھانے سے انکار کر دیا۔
آج اگر دعائیں قبول نہیں ہورہیں، اخلاص و یکسوئی کے باوجود عبادات میں ایسا لطف و سُرور محسوس نہیں ہوتا جو یاد الٰہی کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ معاشرہ ذہنی، روحانی ابتری، اخلاقی تنزل اور بے سکونی کا شکار ہے، تو اس کا ایک بنیادی سبب رزقِ حلال میں محتاط رویہ نہ اپنانا ہے۔ کیونکہ رزقِ حلال سے قلب و روح کو جِلا ملتی ہے۔ آج بھی اگر رزقِ حلال کا اہتمام کیا جائے تو اسی سُرور ولذت سے قلوب آشنا ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
وقت بچانا اور اس سے صحیح معنوں میں فائدہ اُٹھانا ہی کامیاب اور منظم زندگی کی طرف پہلاقدم ہے۔ یہی تنظیمِ وقت ہے۔یا د رکھیے، وقت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کو ہی وقت بچانا سمجھا جاتا ہے۔ وقت کی بچت کے سلسلے میں سب سے زیادہ ممدومعاون وہ شعور ہوتا ہے جو انسان وقت کی نسبت سے اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پہلو ایسے ہیں جن پر ہماری نظر رہنی چاہیے۔ ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
یہاں وقت بچانے کے حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا اور مشوروں کو جمع کیا گیا ہے۔ چند دن ان مشوروں پر عمل کریں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ نتائج غیر متوقع طور پر کتنے حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے ان مشوروں اور اشارات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ان اشارات میں اکثر کو پہلے گروپ میں ڈال کر آسانی پید ا کرنے کی کوشش کی ہے۔کہیں کہیں ان کی نوعیت کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے: o ذاتی یا انفرادی زندگی o تعلیمی زندگی oمعاشی زندگی (دفتر اور کاروبار) oخاندانی یا گھریلو زندگی oمعاشرتی یا قومی زندگی۔
معاشی مصروفیات میں دفتری یا کاروباری معاملات اہمیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنا مفید ہوگا:
ہم ہر کام نہیں کرسکتے۔ ان مصروفیات پر توجہ دیجیے جو بہت اہم ہیں اور جن سے آپ کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کم نفع مند کاموں کو مؤخر کرسکتے ہیں یا پھر کسی کو تفویض کرکے اس پر کچھ لاگت لگاکر بہتر طریقے سے کر اسکتے ہیں۔
q ۲۰؍ ۸۰ کے قاعدے کے مطابق کام کیجیے۔ یعنی وہ کام خود کریں جن میں محنت کم اور استفادہ یا نتائج زیادہ ہوں۔
q اپنے موجودہ طریقۂ کام کا جائزہ لیں اور اس میں حسب ضرورت تبدیلی کریں۔
افغانستان، برطانوی سامراج کے وقت سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، خاص کر برعظیم پاک و ہند اور مرکزی و مغربی ایشیا کے لیے تو اس کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ جب ایشیا اور افریقہ پر یورپ، خصوصاً برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا تو یہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیوروجری مسلم پشتون قبائل تھے، جو مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحدوں پر کر رہے تھے۔ ایک طرف سے برطانیہ اور دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں۔ افغانستان اس وقت ہندستان اور پورے ایشیا و افریقہ کی تحریکاتِ آزادی کے لیے نہ صرف ایک مینارِ اُمید بلکہ مجاہدین آزادی کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔
مغرب کے سامراجیوں کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اُٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ معاشرے پر دینِ اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے، یا مطلقاً و عموماً لوگوں کو مذہب سے بیگانہ کر دیا جائے۔ اس لیے کہ یورپ کے عیار مدبّرین بہت غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے، جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقت کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت کے لیے، اور حُریت و آزادی کے حصول کے لیے اُکساتی اور آگے بڑھاتی ہے۔ اقبال مغربی منصوبے کے اس راز کو پاگئے۔ اقبال کے لفظوں میں یہ: ’ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف‘۔ گویا یہ ایک ابلیسی سازش تھی چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم ’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ میں اس سازش کا پول اس فکرانگیز انداز میں کھولا گیا ہے:
لاکر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زُنّاریوں کو دیرِ کُہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار خُتن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
ایشیا و افریقہ کے ممالک (بہ شمول مقبوضہ برطانوی ہندستان) کی سیاسی آزادی سے پہلے مشرق کی یہ وہ صورتِ حال تھی، جس میں اقبال کی پُرامید نگاہیں افغانستان اور اس کے قریبی علاقے پر مرکوز تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی سامراج کو اس کی بے پناہ مادی قوت کے پیش نظر، اگر شکست دی جاسکتی ہے تو ایک کوہستانی علاقے ہی میں اور ان جفاکش لوگوں کے ذریعے ہی، جن کی پرورش ایک آزاد فضا میں محنت و مشقت اور غیرت و خودداری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے شاہین کو جو ایک مثالی جواں مرد کی علامت بنایا، وہ افغانستان اور سرحد کے علاقے ہی کا ایک مشہور و معروف پرندہ ہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ایمانی جرأت ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکر لی جاسکتی ہے اور اس مقابلے میں تائید ایزدی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ جرأت ایمانی دورِ غلامی کے برعظیم اور مرکزی و مغربی ایشیا میں اقبال کو صرف افغانستان اور سرحد کے آزاد خطے میں نظر آتی تھی۔ ارمغانِ حجاز میں ’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘ ایک نہایت ولولہ انگیز نظم ہے جس سے آج کے افغانستان کے تازہ ترین حالات پر ایک بصیرت افروز روشنی پڑتی ہے:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر اُمم کیا ہے ، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاص عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا
فلسطین ہو، ایران ہو، افغانستان ہو، ہرجگہ دنیا کو ’معرکۂ روح و بدن پیش‘ ہے۔ ایک طرف مادیت کا پورا سازوسامان اور اسلحہ و آلات ہیں، جب کہ دوسری طرف ایمان کی اخلاقی و روحانی طاقت۔ مغربی تہذیب، خواہ امریکی سرمایہ داری کی ہو یا اسرائیلی صہیونیت کی، یا کمیونزم کی، اپنے تمام درندوں کو اُبھار لائی ہے اور توپ و تفنگ سے بم اور گیس تک ہلاکت کے سارے ذرائع و وسائل کمزور اور معصوم انسانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ تہذیب حاضر کی ابلیسی طاقتوں کو ’یورپ کی مشینوں کا سہارا‘ ہے اور ان کے مقابلے میں اللہ کی تائید و نصرت صرف ’پامردی مومن‘ پر مبنی ہے۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے اس تاریخی معرکے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ’تقدیر اُمم کیا ہے؟‘ اللہ کی مشیت کیا چاہتی ہے؟ ایسے بظاہر نابرابری کے معرکے کا انجام کیا ہوگا؟ لیکن سارے سوالات اور شبہات اسی صورت میں اُٹھتے ہیں جب نظر محض مادی وسائل اور ظاہری اسباب پر مرکوز ہو۔ برخلاف اس کے ع
یہ فقط خوش عقیدگی اور خوش فہمی کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ایسا ہے کہ کارِ دنیا میں اسباب و وسائل کی اہمیت نہیں ہے۔ جرأت ایمانی کے ساتھ فراست ایمانی کی بات بھی ہے۔ معمولی دنیوی تدبر اور مادی بصیرت اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی کہ کسی بھی معرکے میں آخری فیصلہ ہتھیاروں سے نہیں کرداروں سے ہوتا ہے اور یہ انسان ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی وسائل سے بڑے سے بڑے کام لیتا ہے۔ اس لیے کسی فوج کی اخلاقی حالت ہی اسے اس دلیری اور پامردی پر آمادہ کرتی ہے جو ہر جنگ میں فتح کی کنجی ہے۔ لہٰذا، مومن کی فراست کے لیے یہ اشارہ کافی ہے کہ حق و باطل اور کفروایمان کے معرکے میں آخری فتح ایمان اور حق کی ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے،اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔
لہٰذا، ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے ’اخلاصِ عمل‘ کی طلب کرنی چاہیے۔ ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ عقیدے کی کامیابی کے لیے کوشش بھی درکار ہے، لیکن ہرعمل اور ہرکوشش کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ’اخلاص‘ شرط ضروری ہے۔
فراستِ مومن کا ’اشارا‘ عصرِحاضر کے آیندہ حالات کی طرف بھی ہے۔ اس حقیقت کو مومن کی بصیرت ہی سمجھ سکتی ہے کہ آج کی دنیا کے تمام لادینی نظریات ناکام ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم ادیان پہلے ہی ازکار رفتہ ہیں۔ پھر ان نظریات کی علَم بردار قومیں اخلاقی لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہیں۔ عیاشی ان کے معاشرے کو گھُن کی طرح چاٹ چکی ہے۔ بدکرداری نے ان کے قُواے عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔ ان کی سیاست دھوکے بازی، ان کی معیشت بوالہوسی اور ان کی معاشرت گندگی ہے۔ لہٰذا ،زوال ان کا مقدر بن چکا ہے اور مستقبل ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اور اسلام ایک بار پھر پرانی جاہلیت و ظلمت کی طرح نئی جاہلیت و ظلمت کو بھی دُور کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والا دُور اس کا ہی ہے:
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلبِ سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے، قصۂ فرعون و کلیم
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہواے زر و سیم
’فرنگی‘ سے مراد ’مغربی‘ ہے جس میں امریکا، یورپ اور روس سب شامل ہیں اور روح فرنگی ہراس جگہ ہے، جہاں ’زر وسیم‘ کی پرستش ہوتی ہو۔ ’فقرغیور‘ کا مطلب اقبال ہی سے سنیے ؎
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
انھی خیالات کے تحت اقبال نے ضربِ کلیم کے آخر میں’محراب گل افغان کے افکار‘ کے ذریعے افغانیوں کو پیغامِ انقلاب دیا:
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان
اپنی خودی پہچان
تو بھی اے فرزند کہستاں، اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
موسم اچھا ، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
اپنی خودی پہچان
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان
او غافل افغان
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اپنی خودی پہچان
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
او غافل افغان
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
اپنی خودی پہچان
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
او غافل افغان
نصب العین
یہ پیغام اندرونی انقلاب کا ہے تاکہ ان بے علم افغانوں کے ہاں سے( جنھوں نے ’بے علموں کی لاج‘ رکھ لی ہے، جب کہ ’عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان‘)۔ جہالت اور افلاس نیز کاہلی دُور ہو اور وہ اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک انقلاب کا جھنڈا لے کر اُٹھیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروے کار لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں۔ یہ اس نظم کا خلاصہ ہے جو اُوپر درج کی گئی، جب کہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ اور نصب العین یوں دیا گیا ہے ؎
افغان باقی کُہسار باقی
الحکم للہ ، الملکُ للہ!
اس پیغامِ انقلاب کے ساتھ ایک اور نظم میں افغانیوں کی انقلابی قوتوں کو اُبھارا گیا ہے:
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری
عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کرّاری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری
دیگر نظموں میں چند خاص نصیحتیں بھی احوالِ زمانہ اور حقائقِ حیات کے پیش نظر دی گئی ہیں:
لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لاغالب اِلاّ ہو
صیّادِ معانی کو یورپ سے ہے نومیدی
دل کش ہے فضا لیکن بے نافہ تمام آہو
__________
نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے جو محتاجِ مہر و ماہ نہیں
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم اُٹھا ، یہ مقام انتہاے راہ نہیں
__________
بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق ید اللّٰہی
اب یہ دیکھیے کہ اقبال اپنی خدادادبصیرت کی بدولت جانتے ہیں کہ افغانستان کس طرح اپنی جغرافیائی اہمیت کے سبب ’رقابتِ اقوام‘ کا نشانہ رہا ہے اور رہے گا اور اسی وجہ سے اسے زمانے کا زخم بھی لگتا رہا ہے اور لگتا رہے گا اور یہ کہ اس زخم کا علاج کیا ہے:
حقیقتِ ازلی ہے رقابتِ اقوام
نگاہِ پیرِ فلک میں نہ مَیں عزیز نہ تو
خودی میں ڈوب زمانے سے نااُمید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں لَا شَرِیْکَ لَہٗ
اقبال کی دُوربین نگاہیں مستقبل کی تبدیلیوں کو بھی دیکھتی ہیں اور افغانیوں کو ان سے نبردآزما ہونے کے لیے اشارے کرتی ہیں:
مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دِگرگوں
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا
ہرسینے میں اِک صبحِ قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیروزبر کیا
کرسکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا؟
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا
یہ مشورے اقبال نے افغانیوں کو اس لیے دیے کہ مستقبل میں ان سے تاریخی کردار کی توقع تھی:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندئہ صحرائی ، یا مرد کُہستانی
دنیا میں محاسب ہے ، تہذیبِ فسوں گر کا
ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی
بہرحال اقبال، افغانستان کے قبائل کی اصل کمزوری سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اس کو دُور کرلیں، تاکہ آنے والے سخت تر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں:
یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری
عزیز ہے انھیں نامِ وزیری و محسود
ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری
ہزار پارہ ہے کُہسار کی مسلمانی
کہ ہرقبیلہ ہے اپنے بتوں کا زُناری
وہی حرم ہے ، وہی اعتبارِ لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری
یہ پیغام اتحاد و تنظیم تو محراب گل افغان کی زبانی ہوا۔ پشتو شاعر خوش حال خاں خٹک نے بھی بلندنگاہی اور اُولوالعزمی کے ساتھ ملّی اتفاق و یگانگت کا یہ پیغام افغانیوں کو دیا تھا:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ان باتوں کے علاوہ اقبال کی نظر مرکزی ایشیا اور اس کے قرب و جوار کی سیاست پر اتنی گہری تھی کہ پیامِ مشرق کی ایک غزل میں انھوں نے روس کے اشتراکی سامراج کی ہلاکت خیز جارحیت کا اندیشہ بھی ظاہر کر دیا ؎
از خاکِ سمرقندے تر سم کہ دگر خیزد
آشوب ہلاکوے ، ہنگامۂ چنگیزے
’خاکِ سمرقند‘ سے ایک ہلاکو اور ایک چنگیز کی پُرآشوب ہنگامہ خیزی کی یہ پیش گوئی اس وقت پوری ہوچکی ہے اور اشتراکی روس چنگیز و ہلاکوے وقت بن کر اپنے ایشیائی مقبوضات سمرقند وبخارا وغیرہ سے افغانستان پر اپنی تمام ہلاکت سامانیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ عبرت انگیز واقعہ تاریخ کی ستم ظریفیوں میں سے ایک ہے کہ جس جمال الدین افغانیؒ سے اقبال نے جاوید نامہ میں ’پیغام باملّت روسیہ‘دلوایا تھا، اسی افغانی کے وطن پر روسیوں نے ہوسِ ملک گیری میں حملہ کردیا۔ جمال الدین افغانی نے روس کو خاص کر تین مشورے دیے تھے:
۱- ملوکیت، یعنی سامراج کی طرف رُخ نہ کرے،۲- اپنی تقدیر کو مغرب کے بجاے مشرق سے وابستہ کرے، ۳- لا سے اِلا کی جانب سفر کر کے قرآنی نظامِ حیات کو اختیار کرلے۔
لیکن روس ’لا‘ کے دلدل میں گرفتار ہوکر منفی اشتراکیت کی گود میں گیا اور ایک ہولناک سامراجی طاقت بن گیا۔ پھر طاقت کے نشے اور تعصب کے جنون میں اس نے عصرِحاضر میں اپنے آپ کو مغرب کی ایک نوآبادیاتی، قوم پرست اور علاقہ پرست حکومت کی حیثیت سے پیش کیا۔ اسی سامراجی حیثیت سے مرکزی ایشیا کے بیش تر علاقوں [ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان، آذربائی جان، قازقستان، ترکمانستان] کو اپنی مقبوضہ نوآبادیاں بناکر اور وہاں کے باشندوں کی تہذیبی نسل کشی کردینے کے بعد، ۱۹۷۹ء میں، اس نے مرکزی ایشیا کے واحد آزاد ملک افغانستان پر بھی حملہ کردیا۔ اس نے سوچا کہ افغانستان پر بھی قبضہ جماکر اپنے سامراجی قدم، مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی طرف بڑھائوں۔
جمال الدین افغانی کے ذریعے اقبال نے روس کو ایک محکم اساس پر اپنی نئی نظریاتی ملّت کی تشکیل کا جو پیغام دیا تھا، اس کی خلاف ورزی کرکے اشتراکی روسی طاقت نے سخت غلطی کی، جس کا خمیازہ اس کو بہت جلد بھگتنا پڑا۔ اشتراکی روس نے اپنے مشرق کے پڑوسیوں کے ساتھ وہی رویہ جاری رکھا جو زارشاہی نے اختیار کر رکھا تھا، بلکہ دغابازی، فتنہ پردازی اور خوں ریزی میں اشتراکی روس، شہنشاہی روس سے بھی بہت آگے نکل گیا۔ اس نے اپنی فرعونیت سے مرکزی ایشیا کی اس عظیم الشان تہذیب کو کچل کر رکھ دیا، جو اس کے لیے ایک زبردست اثاثہ ہوسکتی تھی، اگر وہ اس تہذیب کی قدروں کو قبول کرلیتا یا کم از کم انھیں پھلنے پھولنے کا آزادانہ موقع دیتا۔ لیکن روس نے وہ تاریخی موقع کھو دیا، جس کی اہمیت کی طرف اقبال نے اس کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
شاید وقت آگیا ہے کہ روس کا خوف ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے لیکن ایک خوف زدہ ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت بدحواسی میں کیا تباہیاں مچاسکتی ہے، اس کا تصور ہی دنیا کے لیے لرزہ خیز ہے۔ بہرحال کسی ’سمرقند‘ سے ’ایک ہلاکو ‘ اور ’ایک چنگیز‘ کا نمودار ہونا، جیساکہ اقبالؔ نے پیامِ مشرق کے محولہ بالا شعر میں پیش گوئی کی ہے،تاریخِ انسانی کے اس خطرناک اور پُرہول لمحے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یاجوج ماجوج ذوالقرنین کی کھڑی کی ہوئی دیوار توڑ کر یا اس کے ٹوٹ جانے پر ’’ہرسطح مرتفع سے دوڑ رہے ہوں گے‘‘ (وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَo الانبیاء ۲۱: ۹۶)
قرآن نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے جو آج کی اصطلاح میں سطح مرتفع ہے اور یہ اس خطے کی جغرافیائی خصوصیت ہے جو چینی ترکستان سے روسی ترکستان تک پھیلا ہوا ہے اور سمرقند اس خطے کا مرکزی مقام ہے۔ وقت کے ہلاکو و چنگیز سے اقبال کا اشارہ روس کی طرف ہے کیوںکہ اشتراکی روس کے اندر آشوب قیامت اور ہنگامہ خیز باطل طاقت کی ساری صفات پائی جاتی ہیں۔
بہرحال ، یہ افغانستان کے ساتھ اقبال کے غیرمعمولی شغف کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۳۳ء میں سرراس مسعود اور علّامہ سیّد سلیمان ندوی کے ساتھ وہ والیِ افغانستان نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کا نظامِ تعلیم مرتب کرنے کے لیے افغانستان تشریف لے گئے اور بادشاہ امراے سلطنت اور عوام کو اسلام کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ بزرگانِ ملک جو مشاہیرِ عالم ہیں، کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے۔ محمود غزنوی،ظہیرالدین بابر، حکیم سنائی اور احمدشاہ درانی و ابدالی جیسی شخصیتوں کے متعلق اظہارخیال کرکے اقبال نے افغانیوں کے سامنے ان کی تاریخ کے زریں اوراق رکھ دیے تاکہ وہ اپنی عظمت ِ رفتہ سے روشنی حاصل کر کے موجودہ تاریکیوں کو دُور کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کریں اور آنے والے دور کے لیے خود ایک روشنی بن جائیں۔
آرنلڈ ٹائن بی کا خیال ہے کہ عالمِ انسانی کے اتحاد و انقلاب کی تحریک عصرِحاضر میں مرکزی ایشیا خاص کر اس علاقے سے اُٹھے گی جو دیار ِ افغان ہے۔ اقبال کو نادرشاہ سے توقع تھی کہ وہ ملّتِ افغان کو مستقبل کے انقلابی رول کے لیے تیار کر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۳۳ء میں افغان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کے خیالات ان کی مثنوی مسافر میں بروے اظہار آئے ہیں (جو پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کے ساتھ شائع ہوئی)۔ مسافر کا ایک باب ہے:’خطاب بہ اقوامِ سرحد‘۔ اس کے چند اشعار جو مناسب موقع ہیں، یہ ہیں:{ FR 721 }
بندئہ حق وارثِ پیغمبراں
اونگنجد در جہانِ دیگراں
تا جہانے دیگرے پیدا کند
ایں جہانِ کہنہ را برہم زند
فطرتِ او را کشاد از ملّت است
چشمِ او روشن سواد از ملّت است
اند کے گم شو بقرآن و خبر
باز اے ناداں بخویش اندر نگر
در جہاں آوارئہ بے چارہ
وحدتے گم کردئہ ، صد پارہ
بندِ غیراللہ اندر پاے تست
داغم ازداغے کہ در سیمائے تست ۱؎
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کا پیغام آج بھی تروتازہ ہے۔ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے مشرق کے لیے مضمونِ واحد ہے۔ مشرق کی تقدیر بدلنے کے لیے، اقبال ملّت ِ بیضا سے توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے ___ اور تاریخ، ملّت ِ بیضا سے جواب کی منتظر ہے!
جن اخلاقی بیماریوں میںہمارا معاشرہ مبتلا ہے، یوں تو وہ بے شمار ہیں، لیکن ان میں سب سے بڑی بیماری ’بے حسّی‘ ہے۔ صورت کچھ یوں ہے کہ ایک شخص اپنی ذات اور اپنے معاملات کے بارے میں تو بہت حسّاس نظر آتا ہے، لیکن وہی شخص دوسروں کی ذات اور ان کے مسائل کے حوالے سے بے حس اور بیگانہ ہوتاہے۔
اس بے حسّی اور بیگانگی کے بطن سے کتنی اور بیماریاں اور امراض جنم لیتے ہیں، اس کا اندازہ ایسے شخص کو نہیں ہوسکتا ۔ مثلاً اسی بے حسّی سے خود غرضی جنم لیتی ہے ، ناشکرگزاری پیدا ہوتی ہے۔ اس بے گانگی سے ’احسان فراموشی‘ جیسے برے مرض کو بڑھاوا ملتاہے۔ یہی بے حسّی دوسروں کو اذّیت پہنچاتی ہے اور یہی بے حسّی اور لاتعلقی باہمی تعلقات میں زہر گھول دیتی ہے۔ یہ بے حسّی سنگ دلی اور شقی القلبی کی بھی ایک شکل ہے۔ اور یہ بے حسّی ہمیں پڑوسیوں ، رشتہ داروں ، دوست احباب اور اس سے آگے بڑھ کر معاشرے ، ملک و ملّت اور پھر پوری انسانیت سے بے گانہ کردیتی ہے ۔ اس بے حسّی کو ہم لوگوں کے روّیوں میں چلتے پھرتے، رستے گھاٹ میں، دفتروں میں، شادی بیاہ کی تقریبات میں، بازاروں میں اور گلی محلّوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ٹریفک کے ہجوم میں جب ہرگاڑی دوسری گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جانا چاہتی ہے۔ بسوں میں سوار ہوتے، یوٹیلیٹی بل جمع کراتے یا دکانوں میں سودا سلف خریدتے یا ہسپتال میں اپنا علاج کرنے یا اپوائنٹمنٹ لینے یا کسی تقریب میں پلیٹ تھام کر کھانا لینے میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا کام پہلے ہوجائے، چاہے وہ بعد ہی میں آیا ہوا کیوں نہ ہو۔ سرکاری دفتروں میں، بنکوں میں، تعلیمی اداروں میں وہ ملازمین جو عوام سے رابطے (پبلک ڈیلنگ) پر مامور ہوتے ہیں ان کا رویّہ بھی عام طور پر بے حسّی کا ہوتاہے۔ وہ آنے والے ضرورت مند کو ٹال دیتے ہیں، کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اگلے دن آنے کا کہہ دیتے ہیں۔ کسی دفتر میں کسی کلرک یا افسر کا رویّہ خوش اخلاقی اور تعاون کرنے والا ہو تو حیرت ہوتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ فرشتہ ٔ رحمت کہاں سے آگیا۔
اس کے برعکس آپ یورپ کے کسی ملک یا امریکا چلے جائیے تو صورت حال بالکل برعکس ملے گی۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ کئی سال پہلے میں نیویارک ایرپورٹ پراترا، مجھے ڈیٹورائٹ کی فلائٹ لینی تھی۔ کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں بیٹھی ہوئی خاتون نے مسکرا کر استقبال کیا، نہایت مستعدی سے میرا ٹکٹ بنایا۔ اسی دوران اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا سامان کہاں ہے؟ میں نے فرش پر رکھے ہوئے اپنے بھاری سوٹ کیس کی طرف اشارہ کیا۔ خاتون تیزی سے اپنی کرسی سے اتری اور کاؤنٹر کے باہر آکر اس نے میرا سوٹ کیس اٹھا کر وزن کرنے والی مشین پر رکھا۔ اس کاٹیگ اور ٹکٹ میرے حوالے کرکے ایک بار پھر خوش اخلاقی سے مسکرا کر Thank youاور Have a nice journeyکہہ کر مجھے رخصت کیا۔کیا اس مہذّبانہ اور مہربانی کے روّیے کا ہم اپنے ملک میں تصّور کرسکتے ہیں؟
عوام سے رابطے کے کام پر جو شخص بھی مامور ہوتاہے، وہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ قطار باندھے سامنے کھڑے ہیں، وہ صرف اسے پریشان کرنے آئے ہیں۔ لہٰذا اوّل تو اس کا موڈ خوش گوار نہیں ہوتا، تیوریاں چڑھی ہوتی ہیں، آواز میں ملائمت مفقود ہوتی ہے، اکثر تو صریحاً بداخلاقی اور بدمزاجی پر اترے ہوتے ہیں۔ کسی دفتر میں چلے جائیے افسر موصوف کادروازہ بند ملتا ہے۔ چپراسی کو ہدایت ہوتی ہے کہ ہر آنے والے سے کہہ دے کہ صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں، جب کہ اندر صاحب کسی دوست کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں۔ فرض کیجیے میٹنگ ہورہی ہے تو کیا میٹنگ کا وقت دوپہر کے بعد نہیں رکھا جاسکتا۔ جب لوگوں کی شکایات سننے یا دُور کرنے کی ذمّہ داری آپ کے پاس ہے تو آپ انھیں کیوں انتظار کراتے ہیں؟ یہ ساری چیزیں بے حسّی اور بے گانگی کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کے روّیے کا مظاہرہ کرنے والا کبھی نہیں سوچتا کہ اگر اس شخص کی جگہ’’میں ہوتا تو مجھ پر کیا گزرتی‘‘۔
دفتروں میں چھوٹے ملازمین کے ساتھ بڑے افسران کا رویّہ صریحاً غیر انسانی ہوتاہے۔ ہر دفتر میں صاحب کو چپراسی کو طلب کرنے کے لیے ایک گھنٹی دے دی جاتی ہے جو سارا دن چیختی رہتی ہے اور ہر گھنٹی کی پکار پر چپراسی کو چشم زدن میں صاحب کے حضور حاضر ہونا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ صاحب کو ایک گلاس پانی بھی پینا ہو،تو اس کے لیے بھی وہ چپراسی ہی کو حکم دیتا ہے۔ اسی ملک میںملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جہاں افسرانِ بالا کو’ کالنگ بیل‘سے محروم کرکے اس کا عادی بنادیا گیا ہے کہ چائے پینی ہو یا پانی، فائل اپنے کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچانا ہو، یا کسی ماتحت کو کوئی ہدایت دینی ہو، یہ کام انھیں خود ہی انجام دینے ہیں۔ کوئی چپراسی یا خدمت گار ان کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
گھروں کے اندر دیکھ لیجیے بیوی، بہن یا بیٹی وہ باپ، شوہر یا بھائی کی ایک طرح سے خدمت گزار ہوتی ہیں۔ ناشتہ کھانا تیار کرنے، برتن سمیٹنے اور دھونے سے لے کر گھر کی جھاڑپونچھ تک جُملہ ذمہ داریاں ان ہی کی ہوتی ہیں۔ بعض ـصورتوں میں کپڑے استری کرنا اور مردوں کے جوتے پالش کرنا بھی ان ہی کے ذمّے ہوتاہے۔ آنے والے مہمانوں کی تواضع، بچّوں کی تعلیمی ذمّہ داریوں اور سودا سلف لانے کا بوجھ بھی ان ہی کو اٹھانا پڑتاہے۔ اور اگر عورت ملازمت کررہی ہو تو بھی اسے گھر کی ذمّہ داری سے نجات پھر بھی نہیں ملتی۔ اسے دوہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ مرد حضرات خواہ شوہر ہوں یا باپ، بھائی یا بیٹا، گھر کی عورت کے لیے بالعموم بے حسّی کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ عورت صنفی اعتبار سے کمزور واقع ہوئی ہے، وہ اس پر رحم نہیں کرتے، ترس نہیں کھاتے۔ ایک مرتبہ کسی طالبہ نے مجھ سے کہا تھا کہ سر! مجھ پر تین ذمّہ داریاں ہیں: تعلیمی ذمّہ داری، دفتری ذمّہ داری اور گھر کی ذمّہ داری ۔ جب میں یونی ورسٹی سے دفتر اور دفتر سے گھر جاتی ہوں تو تھک کر چور ہوجاتی ہوں۔ پھر بھی مجھے بھائیوں کے لیے کھانا تیار کرنا ہوتا ہے کہ امّی بیمار رہتی ہیں۔ اگر کھانا ٹھنڈا ہوجائے تو حکم ملتا ہے کہ کھانا گرم کرکے دو۔ کھانا من پسند نہ ہو تو اس پر الگ باتیں سننی پڑتی ہیں۔اسے آپ کیا کہیں گے؟ بے حسّی اور سنگ دلی کے علاوہ اس روّیے کوکیا نام دیا جائے۔
آپ کسی دکان پر خریداری کے لیے فٹ پاتھ کے ساتھ گاڑی پارک کرتے ہیں، واپسی پر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی گاڑی کے پیچھے کوئی موٹر سائیکل کھڑی ہے یا کسی دوسرے نے اپنی گاڑی کھڑی کردی ہے حالاں کہ آس پاس جگہ موجود تھی۔ آ پ کی گاڑی کا راستہ روکنا ضروری نہ تھا لیکن بے حسّی اور دوسروں کی اذّیت سے بے گانگی کا رویّہ ہی ہے جو ایسے نامعقول ، اور تکلیف دہ کام کراتا ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات ہی کو دیکھ لیجیے کہ کراچی میں کوئی تقریبِ شادی مہمانوں کو اذّیت دیے بغیر انجام پذیر نہیں ہوتی۔ بارہ بجے بارات اور ساڑھے بارہ بجے عشائیہ اور ایک ڈیڑھ بجے رات گھر واپسی ۔ میزبان یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ جن مہمانوں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنی ہے، ان کی واپسی رات گئے گھر تک کیسے ہوگی؟ یہ بھی بے حسّی کا ہی معاملہ ہے۔ پھر عشائیے کے وقت ’کھانا کھُلنے‘ کا اعلان ہوتے ہی کھانے کی میز پر جو بھگڈر مچتی ہے، جس طرح ہر شخـص دوسرے کو دھکیل کر خود پہلے کھانا لینے کے لیے ٹوٹتا ہے اور پھر پلیـٹ میں جس طرح کھانا بھرلیتاہے۔ا س سے بہت کم غذا میں اس کا پیٹ بھر سکتاہے، یہ جاننے کے باوجود زائد کھانا لے کر اسے بے دردی سے ضائع کرنا کیا اس روّیے کو ہم بے حسّی کا نام نہیں دیں گے؟ یہ بے حسّی اور بے دردی ہی نہیں بد تہذیبی بھی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب ایسا کرنے والے ماشاء اللہ تعلیم یافتہ بھی ہوں۔
بے حسّی، سنگ دلی ، بد تہذیبی اور اذّیت دہی کے یہی وہ روّیے ہیں جس نے آج ہمارے معاشرے میں رہنے سہنے اور زندگی گزارنے کو ناقابل برداشت بنادیا ہے۔ ایسے افراد جو اس اجتماعی روّیے کے برعکس مہذّب اطوار کے مالک ہوتے ہیں، دوسروں کے ساتھ خوش خلقی اور مدد کرنے کا رویّہ اپناتے ہیں، انکسار اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انھیں اکثر انھی کے دوست احباب اور شناسا اپنے مقاصد کے لیے ’استعمال‘کرتے ہیں اور پھر کام نکل جانے پر اس طرح ہوجاتے ہیں جیسے یہ تو ان کا حق تھا۔ احسان کا بدلہ احسان سے دینے کے بجاے احسان فراموشی سے دیا جاتا ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ جس کے ساتھ نیکی کا معاملہ کیجیے وہی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتاہے۔ مُحسن کشی کا یہ رویّہ بھی بے حسّی ہی سے پیدا ہوتاہے۔ احسان کرنے والے کے احسان کا احساس ہی جب دل سے نکل جائے تبھی آدمی اپنے محسن کو تکلیف پہنچا سکتاہے۔
اور یہ بھی بے حسّی ہی ہے کہ آدمی اپنی بے حسّی کو محسوس ہی نہ کرسکے۔ کبھی اپنا جائزہ ہی نہ لے پائے کہ اس کا طرزِ عمل اکثر صورتوں میں دوسروں کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوتاہے۔ یہی بے حسّی ہے کہ ہم اپنی تکلیف کے اسباب خود اپنے اعمال اور اپنے روّیے اور اپنی ذات میں تلاش نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو اس کا ذمّہ دار ٹھیرا کر خود کو مظلوم سمجھتے رہتے ہیں۔ قرآن کہتاہے کہ تمھیں جو بھی تکلیف یا رنج پہنچتاہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ اس لیے بیماری ہو، کاروبار میں گھاٹا ہو، نوکری چاکری میں پریشانیاں ہوں یا اسی طرح کے اور مسائل اور الجھنیں___ ان کا باطنی سبب یہی ہماری ذات سے دوسروں کو پہنچنے والی تکلیف اور اذّیتیں ہیں جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔
آج ہمارے معاشرے میں جو عمومی بے سکونی ، عدم تحفّظ کا احساس جیسی طرح طرح کی بلائوں کی وجہ سے ہمہ وقت جو موت کا وحشت ناک رقص جاری ہے اس کی ذمّہ داری ویسے تو ہم جس پر چاہیں ڈالیں، ورنہ حقیقتاً اس کے ذمّہ دار ہم لوگ خود ہیں۔ ہماری بے حسّی اور بیگانگی کا رویّہ ہے کہ ہم ہر ظلم اور بہیمیت کو، سنگ دلی اور بے رحمی کے واقعات کو یہ سوچ کر نظر انداز کردیتے اور بھول جاتے ہیں کہ اس کے شکار ہم نہیں دوسرے ہیں۔بے شک اس وقت دوسرے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کل کلاں کو ہماری باری بھی تو آسکتی ہے، اور ضرور آئے گی، اور آتی ہے لیکن پھر بھی ہم نہیں سمجھ پاتے کہ یہ اپنا ہی بویا ہے جسے ہم کاٹ رہے ہیں۔
اپنی بے حسّی سے واقف ہونا، یہ جان جانا کہ ہم بے حس ہیں، یہی اس کا علاج ہے۔ بے حسّی غفلت اور بے خبری سے پیدا ہوتی ہے۔ جو آدمی اپنے مرض سے آگاہ ہوجاتاہے، وہ اپنا معالج خود بن سکتاہے۔
بے حس آدمی اگر اپنی بے حسّی سے واقف ہوکر اپنے روّیے کو درست کرنا چاہے تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ ہم دوسروں کی ذات ا ور مسائل کو اہمیت دینے لگیں۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی سے پیش آنا، دوسروں کے کام آنا، ان کی پریشانیوں میں مددگار ہونا،دوسروں سے محبت اور التفات برتنا___ یہی ہے بے حسّی کا علاج جس میں فرد کی بھی نجات ہے اور معاشرے کی بھی!
ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی
اگر آپ جرمنی میں کسی غیرمسلم سے یہ سوال کریں کہ اسلام کے پاس یورپ کو پیش کرنے کے لیے کیا ہے؟ تو شاید اس کا جواب ہو: کچھ نہیں۔ اس جواب کی جڑ اس حقیقت میں پیوست ہے کہ جرمنی کی اکثریت اور شاید د یگر مغربی ممالک اسلام کو عدم تحمل، تشدد، جہالت اور بچھڑے پن سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اسلام کی یہ شبیہہ، جو میڈیا اور سیاست کی پشت پناہی سے مسلسل پیش کی جارہی ہے، حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ مَیں مضبوط دلائل کے ساتھ اس کی حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں۔
ہرشخص کو یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کا طرزِ معاشرت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر اسلام کو مسلمانوں کے رویوں کے ذریعے نہیں جانچا جاسکتا، جب کہ مسلمانوں کے رویوں کی اصلاح کرنے اور انھیں اسلامی تعلیمات کے پیرایے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مصنوعی جواب تمام غیرمسلموں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں۔ شاید وہ آپ کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرلیں کہ اصولوں اور عملی نمونوں کے درمیان فرق مذہب، فکر یا تصورِ کائنات میں پایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے مذہب کی بہترین پیش کش اور صبروتحمل کے ذریعے ہم انھیں مطمئن کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ کہ اسلام منفی پروپیگنڈے کے علی الرغم، مغرب کے سامنے بے شمار چیزیں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے غیرمسلم بھائی یقینا یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ اگر ایسی بات ہے تو مسلمان اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر کیوں نہیں عمل کرتے؟ یا دوسرے الفاظ میں ان کا یہ مطالبہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان جن چیزوں کی تبلیغ کرتے ہیں ان کا عملی مظاہرہ وہ خود کیوں نہیں کرتے؟
بجاطور پر یہ سوالات ہمیں ان بہت سی قرآنی آیات کی یاد دلاتے ہیں، جن میں اعمال اور رویوں کی تضادبیانی پر نکیر کی گئی ہے (الصف ۶۱: ۲-۳) ،اور اس حقیقت کا سراغ ملتا ہے کہ اقوال اور دعوئوں کے لیے عملی نمونوں کی بہرحال ضرورت ہے۔ ہم مسلم دنیا کے اندر موجود قول و فعل کے تضاد کو جس انداز سے بھی پیش کریں اس حقیقت سے منہ نہیں موڑسکتے کہ جب تک ہم اس کھائی کو پاٹنے میں کامیاب نہیں ہوجاتے یا شعوری طور پر اسے کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم کسی کو بھی متاثر اور متوجہ نہیں کرسکتے۔ قبل اس کے کہ ہم اس سوال پر غور کریں کہ اسلام مغرب کو کیا تحفہ دے سکتا ہے؟
ضروری ہے کہ خود مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، جو عصرِحاضر میں اسلام کے نمایندے تصور کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے اس پہلو پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اپنے اردگرد رہنے بسنے والے غیرمسلم بھائیوں کا اعتماد اور یقین کس طرح حاصل کریں، تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوسکیں اور اسلام کو وہ اپنے لیے مفید سمجھیں اور اس کو خوش آمدید کہہ سکیں۔ کبھی کبھی یہ پہلو ان کے سامنے مخفی ہوتا ہے کیوں کہ ان سے اس بات کی توقع عبث ہے کہ وہ اسلام کی خوب صورت حقیقت کو خود سے جان سکیں گے، بالخصوص، جب کہ مسلمانوں کی خوف ناک تصویر کے پیچھے یہ حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہو۔
بڑے پیمانے پر یہ غلط فہمی عام ہوچکی ہے کہ اسلام کا پیغام ۱۴سو سال قبل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دنیا میں پہلی بار آیا تھا، حالاں کہ صحیح بات یوں کہی جانی چاہیے کہ وہ اللہ کے تمام سچّے نبیوں اور رسولوں کی معرفت دنیا میں ابتدا سے آتا رہا ہے۔ اس بنا پر وہ ایک آفاقی پیغام ہے۔ قرآن، جس کی تعلیمات کا اظہار اور نفاذ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوا، وہ آخری پیغام ہے اور گذشتہ تمام رسولوں ؑ کے پیغامات و تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ بھی ہے۔ اس سے یہ بات پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات صرف مغرب کے لیے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ اس کا فیض تمام انسانیت کے لیے عام ہے۔ مَیں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس نکتے کو اپنی گفتگو میں فراموش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ بہ طور خاص اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ بات اب عام طور پر کہی جاتی ہے کہ پوری دنیا ایک گائوں کے مانند ہے۔
اب، جب کہ گلوبلائزیشن (عالم گیریت) کے منظرنامے کا انکار کسی کے بس میں نہیں رہا تو تبلیغ اسلام کی ضرورت کو ہم صرف مغرب ہی تک کیوں محدود کریں؟ چنانچہ اب اگر ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ اسلام مغرب کو کیا پیش کرسکتا ہے؟ تو اس کا محض یہ مفہوم ہونا چاہیے کہ چوں کہ ہم مغرب میں زندگی گزار رہے ہیں، اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے درمیان زندگی گزارنے والوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کریں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ اسلام کے پاس عطا کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ اس کے برعکس یہ حقیقت بالکل واضح رہنی چاہیے کہ جو کچھ اسلام عطا کرتا ہے وہ چند بنیادی حقائق ہیں، خواہ انھیں مغربی تناظر میں پیش کیا جائے یا کسی دوسرے سیاق میں۔
اسلام امن کا ایک پیغام ہے۔ واضح رہے کہ لفظ’اسلام‘ کا انتہائی موزوں ترجمہ ’امن کی نشوونما کرنا‘ یا ’امن کو قائم کرنا‘ ہے۔ اسے صرف اللہ کے سامنے جھکنے یا اس کی اطاعت تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات ہمارے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ اسلام کا تصور جھکنے اور اطاعت قبول کرنے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم، صرف اتنی سی بات سے لفظ ’اسلام‘ کے حقیقی مفہوم کی مکمل ترجمانی نہیں ہوپاتی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا راستہ تصورِ امن ہی سے ہوکر گزرتا ہے اور اس میں بھی کلام کی گنجایش نہیں کہ مسلم ماہرین لغت اور مفسرین کی ایک معتدبہ تعداد نے اسی تصور کو اپنی کتابوں میں درج اور رائج کیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے: لسان العرب، ابن منظور، مادہ سلم)
مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں لفظ اسلام کو زندگی کے ایک ایسے طریقے سے تعبیر کرنا چاہیے جس کا مقصد امن کا قیام ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اس سے ملتے جلتے تصورات پائے جاتے ہیں، مثلاً عیسائیت میں محبت اور بدھ مت میں برداشت کرنے کا تصور۔ مجھے اس امر میں قطعی شبہہ نہیں ہے کہ اسلام کی توہین کرنے کے بعد کبھی بھی قیامِ امن کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اسلام کے بنیادی تصور کا مطلب خدا اور بندے کے تعلق کی وضاحت کرنا ہے۔ اس طرح اسلام کا مفہوم جھکنا اور خالق کی اطاعت کرنا ہے، کیوں کہ خالق کے ساتھ امن کی حالت میں زندگی گزارنا تب ہی ممکن ہے جب اس کی مرضی کی پیروی کی جائے۔ اسی صورت میں خالق کے ساتھ بندے کا تعلق خوش گوار ہوسکتا ہے اور تبھی دیگر شعبوں میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اسلام چاہتا ہے کہ آپ کا تعلق پہلے خالق کے ساتھ، پھر خود آپ کے نفس کے ساتھ، دوسرے انسانوں کے ساتھ، معاشرت کے ساتھ، الغرض پوری دنیا کے ساتھ امن والا ہونا چاہیے۔
اب مَیں اصل موضوع پر آتا ہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام بطور تحفہ بہت کچھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جی ہاں، مغرب کو بھی!
سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک آفاقی تصور رکھتا ہے۔ وہ دیگر تصورات کے بالمقابل پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، کیوں کہ دیگر مذاہب میں تبدیلی کا عمل برابر جاری رہتا ہے، تاکہ ان کو مسلسل تبدیل ہونے والی سماجی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جاسکے۔ اب، جب کہ یہ کوئی اختلافی موضوع نہیں رہا کہ انسانی معاشرہ ارتقا پذیر ہے اور اس میں مسلسل تبدیلی ہورہی ہے، ایسی صورت میں اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے اصولی موقف سماجی تبدیلی کے تابع ہوگا یا سماجی تبدیلی کو ہمارے اصولی موقف کے تابع ہونا چاہیے؟ اسلام اس سلسلے میں مؤخر الذکر نقطۂ نظر کی تائید کرتا ہے۔
عقیدے کی پختگی کو اسلام میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مسلمانوں کے رویوں سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ اگرچہ اسلام اور اس کے نمایندوں کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے، اس کے باوجود مسلمانوں اور اسلام کے اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ مسلمان دوسروں کی بہ نسبت جدید دنیا کے مطابق اپنے کو ڈھالنے میں سخت گیر واقع ہوئے ہیں، کیوں کہ عقیدے سے وابستگی کے گہرے آثار ان کی زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ اس یکسوئی نے دوسروں میں اقدار پر مبنی مسلمانوں کے رویوں کے مطالعے کی رغبت پیدا کی ہے، خواہ ان کا تعلق مذہبی اُمور سے ہو یا غیر مذہبی مسائل سے۔ مثال کے طور پر ان بیانات کو پیش کیا جاتا ہے جو مذہبی اختلافات کے باوجود بین المذاہب مکالموں میں شریک ہونے والے افراد کی زبانی سامنے آتے ہیں کہ بہ حیثیت انسان مسلمانوں کی زندگیاں عقیدے میں پختگی کی شاہ کار ہوتی ہیں۔ جرمنی میں عام سطح پر بھی ان باتوں کی بازگشت سننے کو ملتی ہے، جہاں مہاجرین اور مسلمانوں کو قومی دھارے میں سمونے کی بحثیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ عقیدے کے معاملے میں مسلمانوں کی جذباتیت اور مذہب سے ان کا لگائو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اسلام کے نظامِ اقدار پر ازسرنو غوروفکر کرنے کی دعوت دیتاہے۔ کوئی سیاسی نمایندہ ایسا نظر نہیں آتا جو یہ سوال اُٹھاتا ہو کہ جرمنی کی نمایندہ تہذیب (Let Kulture) کو کس طرح ڈھالا جائے کہ مسلمان اور دیگر مذاہب کے پیروکار اس میں داخل ہوسکیں۔
باواریان (جرمنی کا ایک صوبہ) کی پارلیمنٹ میں گذشتہ دنوں بحث جاری تھی کہ: ’’ایک ایسا قانون وضع کیا جائے جو مذہبی علامات کا تحفظ کرسکے اور گالی، توہین اور مضحکہ خیزی کے مقابلے میں یقین و اعتماد کی فضا پیدا کرسکے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ عیسائی جنون کی موجودگی کے باوجود اس پہل کو مسلمانوں نے خوش آمدید کہا۔ ڈنمارک اور دوسرے مقامات پر توہین آمیز خاکوں کی تشہیر پر ان کا ردعمل اس کی دلیل ہے۔
تصورِ کائنات کے بارے میں اسلام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک انسان نہیں، بلکہ رب العالمین ہے (الفاتحہ۱:۱، البقرہ۲:۳)۔ اس عقیدے سے جواب دہی اور ذمہ داری کا تصور اُبھرتا ہے کہ انسان کے مقابلے میں کوئی عظیم ہستی اس کی سزاوار ہے۔ اس تصور کے نتیجے میں ایک مضبوط و مستحکم اصول وضع ہوتا ہے، وہ یہ کہ احساسِ ذمہ داری کچھ بنیادی اصولوں اور ضابطوں کی متقاضی ہے، جن کے ذریعے انسانوں کے اعمال اور رویے جانچے پرکھے جاسکتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ اصول اور ضابطے انسان نہیں وضع کرسکتا، بلکہ یہ اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہیں جس کو جواب دہی کرنی ہے۔ اسی ہستی کو اللہ رب العالمین، یعنی تمام جہانوں کا مالک کہا جاتا ہے۔ (البقرہ۲:۳۸-۳۹)
بلاشبہہ ایسی ڈھیروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دوا میں الکحل کی آمیزش سے افراد اور مجموعی طور پر پورا معاشرہ پریشانیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ دوا کی عادت دوا کے استعمال کا سبب ہے۔ دوا بذاتِ خود اپنے وجود کا سبب نہیں ہے۔ اس ضمن میں روس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جہاں تیز نشہ آور شراب کا استعمال قدیم رواج کے مطابق وسیع پیمانے پر جاری ہے، اور شراب نوشی سے تشفی کا احساس انسانوں کو ایک ایسی حالت میں دھکیل دیتا ہے جہاں پہنچ کر ان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا ادراک کرنے سے عاری ہیں۔ روس میں اکثر انفرادی طور پر معاشی تنگی ہونے اور اس سے نہ نکل پانے کے نتیجے میں لوگ شراب نوشی کے عادی بن جاتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے لوگ اگرچہ خوش حال زندگی گزارتے ہیں، تاہم وہ بھی نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کی تلخیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔
اسلام ایک ایسی زندگی اور معاشرہ عطا کرتا ہے جس میں الکحل اور منشیات کا گزر نہیں ہے۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی مضبوطی کے ساتھ نشہ آور اشیا کے تعلق سے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں، تاہم اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ موجودہ دور میں نشے سے بچنے والی قوم مسلمان ہی ہے۔ مزیدبرآں متعدد مسلم ممالک الکحل اور منشیات کی روک تھام کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں، تاکہ ان کے نقصانات اور ہلاکت خیز اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔ بلاشبہہ اس طرح کی قانون سازی اور الکحل و منشیات سے دُور رہنے کی فکر رکھنے والے معاشرے میں نہ صرف پریشانیوں میں کمی آئے گی ، بلکہ معاشی تنگی سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا، جب کہ الکحل اور منشیات استعمال کرنے والے معاشرے میں دونوں مسائل باقی رہیں گے۔
عصرِحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کی بہتر تفہیم کرنا عظیم خدمت ہوگی۔ اگر ایک کمیٹی، جو ماہرین معاشیات، سماجی کارکنوں اور محکمہ صحت پر مشتمل ہو، سنجیدگی سے اس مسئلے پر تحقیق کرے اور صحیح اعداد و شمار کی روشنی میں یہ معلوم کرے کہ معاشرے پر پڑنے والے عمومی اخراجات کی کیفیت کیا ہے؟ اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ مثلاً اگر برطانیہ اور جرمنی جیسے یورپی ممالک کے تمام مسلمان الکحل اور نشہ آور اشیا استعمال کرنے لگیں تو کیا وہ اس ملک میں آباد غیرمسلم آبادی کے ذریعے ہونے والے الکحل کے اخراجات کے برابر دولت صَرف کرسکیں گے؟
بدقسمتی یہ ہے کہ اگر کسی طرح اس طرح کی تحقیقی رپورٹ فراہم بھی ہوجائے تو اس کا واقعی اعتبار و استناد قائم نہیں ہوسکتا کیوں کہ بیش تر غیرمسلم ممالک میں حکومتی محاصل کا اکثر حصہ الکحل کی پیداوار اور اس کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے ہرمعقول آدمی کے سامنے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مسلمان بالعموم الکحل اور منشیات کا استعمال نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ حادثات اور جرائم، نیز الکحل کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کو بے تحاشا مالی اخراجات سے بچانا ضروری ہے تاکہ بیماریوں پر آنے والے مالی بوجھ پر یہ بچت صرف کی جاسکے۔
اسلام کی برکت کے طفیل مسلم اُمت انسانی معاشرے کے اندر پُرامن اور خوش گوار تعلق کے قیام کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اس مقصد کی بجاآوری میں انسانوں کے تمام معاشروں کو شراکت داری نبھانی چاہیے۔ اس مقام پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پُرامن اور خوش گوار ہم آہنگی کے قیام اور اس کے طریقوں کے سلسلے میں آرا کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ مخالفین اسلام کو وضعی اور قانونی طریقۂ زندگی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ قوانین رکھنا اور ان کی حفاظت کرتے ہوئے شہریت اختیار کرنا آج صرف اس صورت میں ممکن تصور کیا جاتا ہے، جب کہ یہ قوانین سیکولر ہوں اور مذہب کی بالادستی نہ قبول کرتے ہوں۔ یقینا اسلام محض قانون سازی کی بات نہیں کرتا، بلکہ اس کے سلسلے میں راہ نمائی بھی فراہم کرتا ہے۔
اسلام قانون کا ایک مکمل ڈھانچہ عطا کرتا ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت واضح کرتا ہے اور معاشرے کے اندر خاندان کی نوعیت، کردار اور کارکردگی کے ضوابط اور شرائط بھی متعین کرتا ہے۔
سماجی علوم کے اساتذہ نے ایک عشرہ قبل یورپی معاشروں، مثلاً جرمنی کی ایک تکلیف دہ صورتِ حال کا ذکر کیا تھا اور آج پھر سیاسی لیڈر، اگرچہ تاخیر ہی سے سہی، اس مسئلے پر سوچ بچار کرنے لگے ہیں۔ وہ ہے آبادی میں تخفیف کا مسئلہ۔ اس کے متعدد وجوہ میں سب سے تازہ اور جدید خاندانی منصوبہ بندی کا طریقۂ کار ہے جس نے نہ صرف ہرخاندان میں شرحِ پیدایش میں کمی کردی ہے بلکہ خاندانوں کو بھی کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس کیفیت کو، جسے ماضی قریب میں ’موزوں خاندان‘ کہا جاتا تھا (یعنی شوہر، بیوی اور دو تین بچے) اسے بھی آج ’مناسب خاندان‘ نہیں سمجھا جاتا۔ آج صورت یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک شادی بھی نہیں کرتے، جو لوگ شادی کرتے ہیں ان میں ۵۰ فی صد لوگ ایک یا دو سال میں طلاق دے دیتے ہیں اور پیدا ہوجانے والے بچے اکلوتے والدین کے خاندان (single parent family) ہی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسلام مستحکم خاندانی رشتوں کو استوار کرتا ہے اور اس ضمن میں معقول اصول دیتا ہے۔ یورپی معاشروں میں آبادی میں تخفیف کا مسئلہ اولاً اقتصادیات سے جڑتا ہے، ثانیاً اس کی حیثیت سماجی مسئلے کی بھی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حل کے لیے جو اصول و ضوابط وضع کیے جاتے ہیں وہ بھی سب سے پہلے معاشیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نوعمروں کی کم تعداد بزرگوں کی بڑی تعداد کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ نئی نسل کی کم تعداد کا مطلب یہ ہوگا کہ مستقبل میں خریداروں اور گاہکوں کی تعداد بھی کم ہوجائے گی۔ اس طرح سے یہ معاشی خسارے کا سودا ہوگا۔ اس آسان منطق کی رُو سے جرمنی میں آج کی اتحادی حکومت یہ نتیجہ نکال رہی ہے کہ خاندانی وظیفہ (parent money) کی شکل میں راشن کی تقسیم مسئلے کا ایک حل ہے، اور بچے رکھنا افزایش و ترقی کی ایک ایسی قسم ہے جو صنعت کاری کے مانند ہے۔
یہ بات بجا طور پر قابلِ یقین ہے کہ بچے بے قیمت نہیں ہوتے۔ انسانی نسل کی افزایش کے لیے متعدد شرطیں مطلوب ہیں، جو بہرحال صنعتی پیداوار سے جدا ہیں۔ اسلامی نظریہ صنفی تفریق پر مبنی نہیں ہے اور محض لفظی مساوات کے مفروضے پر بھی قائم نہیں ہے، بلکہ اس میں فطری اختلافات کو اہمیت دیتے ہوئے دونوں صنفوں کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ثابت ہوں، نہ کہ ایک دوسرے کو اس کے مقام سے ہٹانے والے بن جائیں۔ شادی کے عہدوپیمان کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان حقوق و فرائض کا خوب صورت تعلق قائم ہوتاہے اور دونوں کی ضروریات اور ذمہ داریوں کا چارٹر طے ہوتا ہے۔ اس تعلق کے ذریعے ایک ایسی فضا استوار ہوتی ہے جس میں بچے معاشی بوجھ تصور نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں خوشیوں کی سوغات سمجھا جاتا ہے۔
اسلام دنیا کے سامنے چند طریقے اور مناہج پیش کرتا ہے، تاکہ انسانوں اور دیگر تمام مخلوقات کے درمیان پُرامن رشتے بحال ہوسکیں۔ اس ضمن میں ایک بار پھر مَیں معاشی پہلو کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، کیوں کہ غیرمسلم معاشرے میں اس کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں معاشی مفادات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اکثر و بیش تر فطری وسائل و ذخائر اور طاقت و قوت پر قبضے کے تعلق سے جنگیں تک چھڑجاتی ہیں۔
اسلام معاشی جدوجہد اور اقتصادی حرکت و عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، البتہ مسلمانوں کو سود سے دُور رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵-۲۷۹)۔ مسلمانوں نے اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کی ہیں اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے معاشی متبادل فراہم کیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض مغربی بنکوں نے بھی اس کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دینے کا خواب دیکھا اور بنک اکائونٹس کو اسلامی شریعت کے موافق ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام سود (ربوٰ) کے دروازے کو کُلّی طور پر بند کرنا چاہتا ہے، جو آج کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ اس تعلق سے اسلام کا نقطۂ نظر وقت کا ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ موجودہ دور میں ’اسلاموفوبیا ‘کا ایک سبب اس خوف میں محسوس کیا جاسکتا ہے جو موجودہ اقتصادی نظام کے منافع خوروں کے اندر پایا جاتا رہا ہے۔ انھیں اس بات کا خطرہ پریشان کر رہا ہے کہ مشقت اور دولت کے حقیقی وجود کے بغیر انھیں جو منافع حاصل ہو رہا ہے وہ نسبتاً کم ہوجائے گا اور اس کا بہائو بلاسود اسلامی اقتصادی نظام کی طرف ہوجائے گا۔ حالانکہ درحقیقت عصرِحاضر میں مسلمانوں کی اقتصادی کوششیں اور ان کے ادارے براے نام ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں انھوں نے اس میدان میں کافی ترقی کی ہے اور اعتبار حاصل کرلیا ہے۔ نیز وہ اس ضمن میں مسلسل کوشاں بھی ہیں۔ طویل مدتی پالیسی کے تحت ہمیں عالم گیریت کے ممکنہ پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ زیربحث مسئلے پر سوال یہ نہیں ہے کہ مسلم دنیا کی معاشیات مستقبل میں اسلامی شریعت کے اصول و ضوابط پر استوار ہوں گی یا نہیں؟ بلکہ اصل ترجیح یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی اقتصادی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، جو ایک جانب دنیا کی بہت بڑی آبادی کو قرض کے لامتناہی عذاب سے نجات دلا سکے، یعنی ان کی غربت اور حقیقی آزادی سے محرومی کا مسئلہ حل ہوسکے، اور دوسری جانب دنیا کے بقیہ حصے کو اس ظلم اور حرماں نصیبی سے نجات دلا سکے جو ان کی زندگی کا مقدر بن چکی ہے۔
ہم پورے یقین و اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنا مخصوص عالمی نقطۂ نظر اور نظامِ حیات رکھتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو متعدد گوشوں میں امن کے قیام کا متمنی ہے۔ اس کا آغاز اور اس کی انتہا ایک ایسی ہستی پر ایمان سے استوار ہے جو رب العالمین ہے، جس کے ساتھ امن وابستہ ہے اور جو تمام انسانوں، ان کے معاشروں اور پوری کائنات میں امن کی بحالی چاہتی ہے۔(خطبہ: دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔بہ شکریہ: تحقیقاتِ اسلامی،علی گڑھ، مارچ ۲۰۱۶ء)
’اسلامو فو بیا‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے بر طانیہ میں استعمال کیا گیا ۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’یہ اصطلاح ۱۹۹۱ء میں امریکی رسالہ Insightمیں معرض وجو د میں آئی‘‘۔ ا یٹن دیمت اور سلیما بن ابراہیم نے فرانس میں یہ اصطلاح ۱۹۲۵ء میں استعمال کی، جب انھوں نے کہا کہ: occes detive islampnobia۔۱ اگرچہ اُس وقت یہ اصطلاح، آج کے عہد میں زیراستعمال اصطلاح کے تناظر میں نہیں تھی۔
کسی بھی چیز یا عمل سے خوف کھانے کو ’فوبیا‘ کہا جاتا ہے ۔اس کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہو تی ہیں، مثلاً وہ شخص جس کو پانی سے ڈر لگتا ہو،اس کے لیے ’ہایڈروفوبیا‘ کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے۔اسی طرح سے ایک اصطلاح ’فوبوفوبیا‘ ہے۔ اس مرض کامر یض کسی حادثے کو دیکھ کر خوف زدہ رہتا ہے ۔کچھ لو گوںکواُونچائی سے ڈر لگتا ہے وہ ’ایکروفوبیک‘ کے مریض ہو تے ہیں، جب کہ ’مونوفوبیک‘ بھی ایک نفسیاتی بیماری کا نام ہے جس کا مریض تنہا ئی سے ڈر تا ہے۔
’فوبیا‘ (phobia)خوف، ڈر اور نفرت رکھنے کو کہتے ہیں۔یہ ذہن کی اس مریضانہ کیفیت کا نام ہے، جو کسی کی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہو تی ہے۔۲چیمبرز ڈکشنری میں ’فوبیا‘ کا یہ معنی مذکور ہے: a fear, aversion, or hatred esp, morbid and irrational ۔
’فوبیا‘ غیر منطقی اور مریضانہ ذہنیت کا نام ہے، جو خوف ،بے رغبتی اور نفرت پر مبنی ہے۔ جب لفظ ’فوبیا‘ کو اسلام کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کے معنی و مفہوم: ’’اسلام سے خوف،ڈر یا نفرت‘‘ کے ہوتے ہیں، جو مخالفین اسلام اور معترضین کے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے ۔اسلام کی حقیقی تصویر کو بگاڑنا، مسلما نوں کو بد نام کرنا ،انھیں جاہل اور خوف ناک رُوپ میں پیش کرنا،اور انھیں ذہنی و جسمانی طور سے پر یشان کرنا،تشددکا نشانہ بنانا،مساجد اور اسلامی شعائر پر حملے کرنا،مسلمانوں کے مخصوص لباس پر طعنے دینا اور ان کے تہذیبی تشخص اور جائز اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا وغیرہ، ’اسلامو فوبیا‘ کی مختلف شکلیں اور حر بے ہیں۔ اگر جامع الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے:
’اسلامو فوبیا‘ سے مراد، اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذ یب و ثقافت سے نفرت اور خوف کا اظہار اور عمل ہے۔’اسلامو فوبیا‘ ایک ایسا نظر یہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکثر مسلمان جنونی ہو تے ہیں جو غیر مسلموں کے بارے میں متشددانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘ (OIC) نے ’اسلامو فوبیا‘ کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:’’اسلام کے خلاف غیر منطقی، جارحانہ اور سخت نا پسند ید گی کے اظہار کا نام ’اسلامو فوبیا‘ ہے‘‘۔
اسی طرح ’اسلامو فوبیا‘ میں مسلمانوں کو نفسیاتی ،سماجی اور تہذیبی طور پر ہراساں کر نا اور اسلام کے ماننے والوں کو ملک و قوم کے اقتصادی ،سماجی ،سیاسی اور روز مرہ زندگی سے بے دخل کر نا بھی شامل ہے۔دنیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ عملاً ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔مخا لفینِ اسلام کی طرف سے یہ مبنی بر جاہلیت بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ: ’’اسلام میں کو ئی تہذیب ہی نہیں ہے اوراگر ہے بھی تو وہ مغربی تہذیب سے ہر اعتبار سے کم تر ہے‘‘۔ علاوہ ازیںوہ اپنے آپ کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو کم تر باور کر تے ہیں۔بر طانیہ کا ایک تحقیقی ادارہ ’دی رُونی میڈ ٹرسٹ‘ بائیں بازو کا ایک ’مرکزدانش‘ (تھنک ٹینک) ہے، جس نے۱۹۹۷ء میں: ’اسلاموفوبیا ہم سب کے لیے چیلنج‘ کے عنوان کے تحت ایک دستاویز میں ’اسلامو فوبیا‘ کی تعریف کے درج ذیل آٹھ نکات بیان کیے ہیں:۳
l اسلام ایک توحید پرست، جامد اور ناقابلِ تغیر مذہب ہے۔lاسلام ایسا منفرد مذہب ہے، جس میں دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے مختلف اقدار ہیں۔ lیہ غیر معقول،قدامت پرست، جنسی تفریق پر مبنی، خطر ناک، دہشت گردی اور تہذیبی تصادم کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔lمغر بی فکر و تہذیب سے کم تر مذہب ہے۔ l اسلام ایک سیاسی نظر یہ ہے۔ lاسلام مغر بی فکر و اقدار پر غیر معمولی تنقید کر تا ہے۔
یہ سب باتیں توہیں آج کی، لیکن ہم ماضی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے یہی پروپیگنڈا چلا آرہا ہے۔ اسلام کے خلاف بُغض و عنا د ،نفرت اور خوف بعثت نبویؐ سے ہی شروع ہوگیا تھا۔جب اللہ کے رسول ؐ نے لو گوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو دشمنان اسلام نے اسلام کے خلاف زبردست محاذ سنبھالا۔وہ ہر اس جگہ پہنچ جاتے ،جہاں اللہ کے رسول ؐ پیغام پہنچاتے تھے۔ وہ اللہ کے رسول ؐ پر بے جا الزامات و اعتراضات عائد کر تے تھے کہ یہ نعوذ باللہ ’کا ہن‘ اور ’شاعر‘ وغیرہ ہیں، اور لوگوں سے کہتے تھے کہ ان کی باتوں میں نہ آیئے ۔
اس کی ایک مثال حضرت طفیلؓ بن عمر دوسی کی ہے۔ جس زمانے میں حضرت طفیل ؓ کا مکہ آنا ہوا، قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو نبی کر یم ؐ کے پاس آنے سے روکتے تھے، ان کے پاس بھی پہنچے اور کہا کہ: ’’تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو۔ اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص نے ہمارے اندر پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کی زبان میںکیا سحر ہے، جس کے زور سے وہ بیٹے کو باپ سے،بھائی کو بھائی سے،اور بیوی کو شوہر سے لڑادیتا ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ کہیں تم اور تمھاری قوم بھی ہم لو گوں کی طر ح اس کے دام میں نہ آجائے۔ اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو‘‘۔ غر ض کہ ان لوگوں نے انھیں ہرممکن طریقے سے سمجھا کر نبی کر یمؐ کی ملاقات سے روک دیا۔طفیل دوسیؓ نے اس خیال سے کہ مبادا نبی کریمؐ کی آواز کانوں میں پڑجائے، دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر بالآخر وہ نبی کریمؐکی زبان سے قرآن کی آیتیں سن کر متحیر ہو گئے اور اسلام کی آغوش میں آگئے۔۴
سخت جاں قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، دشمنان اسلام کااسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف و خطرہ اور عنا دو بغض بھی بڑھتا گیا۔ دور نبوت کے بعد عہد فاروقی میں جب مسلمانوں نے یروشلم اور شام کو فتح کرلیا، جو اس وقت عیسائیوں اور یہودیوں کا مر کز تھا تو انھوں نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کیں۔اس کے بعد دوسری صدی عیسوی میں مسلمانوں نے یورپ کے مغر بی حصے کی طر ف رخ کر کے اسلام کی روشن تعلیمات کو پہنچایا۔ بعد میں سلطان محمد فاتح [۳۰ مارچ ۱۴۳۲ء-۳مئی ۱۴۸۱ء] نے اس کو مزیدوسعت دے کر اسلامی حکومت کا جھنڈا گاڑ دیا۔علاوہ ازیں قسطنطنیہ [استنبول]کو بھی فتح کر لیا۔
اس سے قبل جب ۱۰۹۹ ء کے بعد عیسائی اور یہودی دنیا نے صلیبی جنگوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف ،نفرت، خطرہ اور منفی نفسیاتی اثرات مر تب کیے۔اسلامی تاریخ میں صلیبی جنگوں کا عہد نازک ترین دور تھا ۔پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کی اور ان کے مذہب کی بیخ کنی کے لیے اُمنڈ پڑی تھی، مگر انھوں نے پامردی اور جرأت کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے ان کے ارادوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ وہ ان کی تاریخ کا بہت ہی زریں کا رنامہ کہا جاسکتا ہے۔ ۵
’اسلامو فوبیا‘ منظم طر یقے سے صلیبی جنگوں سے شروع ہوا، کیوںکہ عیسا ئی دنیا کو فوج کی کثرت اور بے شمار وسائل کے باوجود کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو ا۔مشہور مصنفہ اور راہبہ کیرن آرم سٹرانگ [پ:۱۹۴۴ء]نے اعتراف کیا کہ:’’اسلامو فوبیا کی تاریخ صلیبی جنگوں سے ہی جاملتی ہے‘‘۔۶ یعنی عیسائی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف رکھنے کی تاریخ محفوظ ومدون ہے۔
مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ رویہ ۲۰ویں صدی کے اختتام اور نائن الیون (۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء) کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔اسلامی تعلیمات اور اقدار کو مغر ب نے اپنی پیش کردہ لبرل جمہوریت کے نظر یے سے متصادم قرار دیتے ہو ئے کہا کہ: ’’اسلام اور مسلم دنیا مغر بی فکر و اقدار اور تہذ یب کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘۔اس نظریے کے تحت مغرب اور یو رپ اپنی تہذ یبی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسلام کو بُرا نام دینے اور مسلمانوں کے خلاف نت نئے حر بے استعمال کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جب کچھ مہم جوئوں نے امریکا کے ’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘ پر حملہ کیا (جو کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا)۔ اس کے بعد مغرب اور مغرب کے زیراثر قوتوں کے ہاں اسلام کی تعلیمات، تہذیب اور تاریخ کو نشانہ بنانے میں کسی قاعدے، کلیے،عدل اور اخلاق کا لحاظ نہ کیا گیا۔ تب سے اب تک مسلمانوں کے تہذ یبی اور ثقافتی اداروں کے ساتھ مساجد، اسکولوں اور اسلامی مراکز پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔
مغرب میں ایک ہی بات بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اسلام ’انتہا پسندی‘ کا ذریعہ ہے۔ یہ امریکا میں مارچ ۲۰۰۲ ء میں ۲۵ فی صد لوگوں کی راے تھی، جب کہ ۲۰۱۴ء میں یہ ۵۰ فی صد تک پہنچ گئی۔ ۷ برطانیہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔
کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں: ’’ نائن الیون کی پانچویں بر سی کے موقعے پر پاپاے اعظم بینیڈکٹ [پ: ۱۹۲۷ء] نے جر منی میں جو متنازع بیان دیا، اس نے ’اسلامو فوبیا‘ کی لہر کو اور بڑھادیا۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ’اسلاموفوبیا ‘کی تحر یک کو فروغ مل رہا ہے اور مغر ب ایک نئی صلیبی جنگ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ ۸
مغرب اور یو رپ میں اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی تضحیک کی جاتی ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے، کیو ںکہ انھیں معلوم ہے کہ مسلمان رسول پاک ؐ اور ان کی تعلیمات سے بے حد عقید ت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مغرب اور یو رپ میں ہرزمانے اور ہر وقت اللہ کے رسول ؐ پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں وہاں کا ہر طبقہ پیش پیش ہے۔چاہے وہ حکمرانوں یا پالیسی سازوں کا طبقہ ہویا دانش وروں، مصنفوں،فن کاروں اور ادبیوں کا، غرض کہ ان میں ہر گروہ یا طبقے کے سرگرم افراد اسلام اور نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس پر حملہ کرنے کی کو شش میں مصروف عمل ہیں۔
مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ [م: اکتوبر۲۰۰۶ء] نے نبی کر یم ؐ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کے حوالے سے مغرب کے تاریخی کردار کے بارے میں لکھا ہے: ’’تاریخ کی کسی بھی بڑی شخصیت کو اتنا ہتک آمیز طور پر مغر ب میں پیش نہیں کیا گیا، جتنا کہ محمد[صلی اللہ علیہ وسلم]کو پیش کیا گیاہے‘‘۔ ۹
مغر ب میں اسی فضا کو پروان چڑھایا جارہا ہے، گویا: ’’اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہرچیز کا دوسرا نام انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے‘‘۔دنیا میں جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی شہریت پر سوالات ،پاسپورٹ مشکوک،نقاب و حجاب میں ملبوس عورتیں شکوک و شبہات کی شکار ہیں۔ جس مذ ہب کو سب سے زیادہ ہدف تنقید و ملامت بنایا جارہا ہے وہ اسلام ہی ہے۔ CSEW [کرائم سروے فار انگلینڈ اینڈ ویلز]کی تحقیق کے مطابق نفرت اور عداوت کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں،جن کا تنا سب۸ء۳ فی صد ہے۔ اس کے بر عکس ہندو ۳ء۰فی صد، عیسائی ۱ء۰فی صد اور باقی مذاہب کا تناسب ۵ء۰ فی صد ہے ۱۰، اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر تشدد کے بھی بے شمار واقعات رونما ہو ئے ہیں۔ CAIR [کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز] کے مطابق امریکا میں: ۲۰۰۵ ء کے دوران ۱۹۷۲ ،جب کہ ۲۰۰۶ء میں ۲ہزار ۴سو۷۲ حادثات اور حملے مسلمانوں پر ہو ئے۔۱۱
اسی چیز کو پھیلا کر دیکھیے تو مغر ب میں نائن الیون کے بعد جب کسی مسلمان سے کو ئی جر م یا خطا سرزد ہو جاتی ہے تو اس کو نہ صر ف شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ قانون کے دائرے میں بھی لیا جاتا اور اسلام پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس کسی دوسرے مذ ہب سے تعلق رکھنے والے شخص سے جر م یا قتل سرزد ہو جاتا ہے تو صرف اس کی ذات کو تنقید کی زد میں لایا جاتا ہے۔
میڈیا ’اسلامو فوبیا‘کی جڑ مضبوط کر نے اور پھیلانے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔مسلمانوں کو متشدد، گمراہ ،جاہل ،انتہا پسند اور جنو نی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مغر ب اور یورپ کا کو ئی ایسا اخبار اور رسالہ نہ ہو گا، جس میں آئے روز اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی نہ کی گئی ہو۔برطانیہ کے قومی اخبارات ہر ماہ اوسطاً پانچ سو سے زیادہ تحریریں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق شائع کرتے ہیں ۔ان میں سے ۹۱فی صد مضامین میں منفی تصویر پیش کی گئی، جب کہ صرف ۴فی صد نے کسی حد تک مثبت خیالات کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ ۶۰ فی صد میں اسلام کو مسیحی اور مغر بی دنیا کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور زبان بھی اس کے لیے بازاری قسم کی استعمال کی جاتی ہے،مثلاً پیغمبرؐ اسلام کے لیے وہ جان بوجھ کر ذومعنی اور ناشائستہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح جب مسلم دنیا میں کو ئی شخص یا عورت اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی شبیہہ بگاڑنے کی کو شش کرتا یاکر تی ہے تو مغر بی اور یورپی میڈیا اس کو امت مسلمہ کے لیے ’رول ماڈل‘ کی حیثیت سے پیش کر تا ہے۔جس کی بدترین مثال بھارتی نژاد سلمان رشدی، بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین،پاکستان کی ملالہ یوسف اور صومالیہ کی ایان حرثی علی کی ہے۔ اس رویے پر کیرن آرم سٹرانگ نے لکھا ہے:
مغر بی اسکا لرز نے اسلام کو کھلے عام گستاخانہ اور ہتک انگیز مذہب قرار دیا اور پیغمبرؐ اسلام پر جھوٹ کہنے اور تلوار پر مبنی پُرتشدد مذہب کی بنیاد ڈالنے کا الزام دہرایا۔۱۲
مغر بی میڈ یا کی یہ سب زہر افشانیاں،جنھیں وہ ’آزادیِ راے ‘کہتے ہیں ،صرف اسلام، پیغمبرؐ اسلام اور مسلمانوں تک ہی محدود ہیں۔لیکن جب بھی کو ئی ان کی فکر و تہذیب، ثقافت، سیاست اور اخلاقیات پر کسی قسم کی تنقید کر تا ہے،تو اسے وہ آزادیِ اظہارِ راے پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
مغر بی اور یو رپی ممالک میں مسلسل نہ صر ف اسلام اور پیغمبرؐ اسلام بلکہ مساجد ،اسلامی مراکز، اس نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں، بلکہ روز مرہ کاموں ،سفر اور دفاتر میں مسلم خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔
۲۰۱۳ ء کی اسی رپورٹ میں ایک ۲۱ سالہ حاملہ خاتون کی مثال پیش کی گئی، جب اس پر حملہ کیا گیا تو اس وقت وہ حجاب پہنے ہو ئی تھیں۔ د و مردوں نے اس کا اسکارف چھین لیا۔پھر اس کے بال کٹوا ئے، اس کے بعد اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، جس کی وجہ سے اس کا حمل ضا ئع ہوگیا۔۱۳ اسی طر ح سے بہت سی خواتین نے اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کی داستان الم سنائی۔ لندن میں حال ہی میں ایک شر م ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک باحجا ب مسلم لڑ کی کو بھر ی ٹر ین میں نسلی تعصب کی بنیاد پر حملے کا نشانہ بنا یا گیا۔ ۱۴
مغرب اور یورپ میںمیڈیا ،ادبا،اور دانش وروں کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ بھی ’اسلاموفوبیا‘ کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے ۔امریکا میں اس کی بہت سی مثالیں ضرب المثل بن چکی ہیں۔ یورپ میں فرانس وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان(۶۰ لاکھ) آباد ہیں۔مارین لوپون [پ: ۱۹۶۸ء] وہاں مسلم مخالف قدامت پسند جماعت ’فرنٹ نیشنل‘ [تاسیس: ۵؍اکتوبر ۱۹۷۲ء] کی سربراہ نے ۲۰۱۰ء میں بیان دیا کہ ’’جب مسلمان، گلیوں اور سڑکوں پر عبادت کر تے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ نازی جرمن دوبارہ فرانس پرقبضہ کریں گے‘‘۔ وہ حکومت سے حجاب اور مسلم مہاجرین کی آمد پر پابند ی کا مسلسل مطالبہ کر تی آرہی ہے۔ اسلام مخالف یورپی حکمرانوں میں ہالینڈ کا خیرت دیلدرس بہت مشہور ہے اور پارٹی فارفر یڈم کا سربراہ بھی ہے۔ جس کا لائحہ عمل ہے کہ:’’ اب وہ وقت آپہنچا ہے جب یورپی معاشروں کو مسلمانوں سے پاک کر دیا جائے اور ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں پر اپنی سر حد یں بند کر دیں‘‘۔۱۵
بعض ماہرین کے مطابق:’’اسلامو فوبیا مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نسلی تعصب کا نام ہے‘‘۔ مذہبی اور نسلی تعصب زیادہ تر ڈنمارک ،جرمنی،ہنگری، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ایسٹونیا،یونان اور اٹلی میں پایا جاتا ہے۔ ۱۶ مغر بی اور یورپی دنیا میں مسلمانوں کے لیے ’Others‘ یعنی ’دوسروں‘ کا لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ ڈاکٹر موسیلا تن کیری (ہارورڈ یونی ورسٹی) لکھتی ہیں:
یورپ اور مغرب، اسلام اور مسلمانوں کو دشمن کے طور پرپہلے ہی سے پیش کر تے آرہے ہیں۔ قرون وسطیٰ سے مسلمانوں کو مغرب میں غیروں کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بالخصوص ترقی ،قوم، فرد اور سکولرائزیشن کی بنیاد پر مغرب ایک ایسے مستقل میلان طبع کی نشان دہی کرتا ہے، جس کے زیر اثر اسلام کو غیر مہذب رو یے سے جوڑا جاتا ہے، اور مسلمانوں کی اقدار اورشناخت کو لاحق خطرے کی شکل میں داخلی دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے ساتھ برسرِ پیکار خارجی دشمن بھی سمجھا جاتا ہے۔۱۷
آسٹریلیا میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور مذہبی عدم روا داری کا غیر مسلموں کے مقابلے میں تقریباًتین گنا زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تقریباً ۶۰ فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ انھیں ’اسلاموفوبیا‘کی کسی نہ کسی قسم کا سامنا رہا ہے۔۱۸اسی طرح سے ایئرپورٹ پر جہاز سے چڑھتے اور اُترتے وقت بھی مسلمانوں کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔نومبر ۲۰۱۵ء میں امریکی ریاست شکاگو سے فلاڈلفیا جانے والی پرواز کے دومسافروں کو اس وجہ سے جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا، کیوںکہ یہ آپس میں عربی بول رہے تھے۔بر طانیہ میں مسلمانوں پر حملوں میں ۳۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹ اور مسلمان اپنے آپ کو مغر بی اور یورپی ممالک میں قدرے الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔
بھارت میں بھی مسلم مخالف لہر زوروں پرہے، جہاں آئے روز مسلمان نوجوانوں کو اسلام پسندی کی بنیا د پر گرفتار کر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس طرح مسلم شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں کو بہت سے حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ’اسلامو فوبیا‘کی بنیاد پر ہی گو دھرا، میرٹھ اور مظفر نگر جیسے فسادات واقع ہو ئے۔۲۵ ؍اگست ۲۰۱۵ء کو بنگلور میں ایک لڑکے شاکر کو مبینہ طور پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے کھمبے سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹااور اس کے کپڑے تار تار کر دیے۔ اسی طرح سے مئی ۲۰۱۵ ء کو ممبئی میں ایم بی اے گر یجویٹ ذیشان کو ایک کمپنی نے یہ کہہ کر نوکری دینے سے انکار کر دیا کہ :’’ہم صرف غیر مسلم امید واروں کو ملازمت پر رکھتے ہیں‘‘۔۲۰
راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آرایس ایس) ، بجرنگ دل ،بی جے پی اور دیگر بھگوازعفرانی تنظیموں اور تحریکوں کے قائدین اور سیاسی زعما کے زہر آلود نظریات و بیانات سے بھارت میں ہرمسلمان پریشان ہے۔ زعفرانی تحریکات ہندو اکثر یت کو بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیںکہ: ’’مسلمان بھارت میں اپنی آبادی میں اضافے کے ذریعے اسے مسلم ملک بنانے کی سازش میں لگے ہو ئے ہیں اور چند برسوں میں بھارت ایک مسلم ملک بن جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں اب کھلے بندوں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں کسی بھی جائز مطالبے کی حق دار نہیں ہیں۔
۲۹ تا ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو آر ایس ایس کے قومی سطح کے اجلاس نئی دہلی میں جس مسئلے کو مرکزی حیثیت دی گئی، وہ مسلمانوں کی ملک میں بڑھتی ہو ئی آبادی تھا۔اجلاس کے اختتام پر ایک قرارداد میں دو باتوں کا اظہار کیا گیا۔ ایک یہ کہ: ’’بھارتی مذاہب ہندومت ،بدھ مت اور جین مت کے ماننے والوں کی آبادی میں تشویش ناک حد تک کمی آرہی ہے‘‘۔ دوسری یہ کہ: ’’مسلمانوں کی آبادی میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے‘‘، اور آخر میں یہ پیغام دیا گیا کہ: ’’اسلام، مسلمان اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں۔ یہ بھارت ماتا کو نہیں مانتے ‘‘۔۲۱ آرایس ایس سے وابستہ ہریا نہ کے وزیر اعلیٰ نے انڈین ایکسپریس سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ: ’’بھارت میں مسلمان رہیں مگر اس دیش میں ان کو گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا، یہ یہاں کی گئوماتاہے۔۲۲اس اعلان کے چندہی روز بعد ایک مسلمان محمد اخلاق کو ہندوئوں نے محض اس افواہ کی بنیاد پر کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے، مارمار کر ہلاک کر دیا۔
’اسلاموفوبیا‘ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاo وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا o (احزاب۳۳:۴۵-۴۶)اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اس ذمہ داری کا مکلف ٹھیرایا گیا :
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط ( ٰال عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی بنیاد پر ہی خیر امت ہے ۔اور ہر مسلمان دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار بنایا گیاہے۔یہ صرف چند مخصوص، تنظیموں ،اداروں اور علما کا کام نہیںبلکہ امت مسلمہ سے وابستہ ہر فرد کا کام ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میراراستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خودبھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوںاور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
آج دعوت الی اللہ کی اہمیت اور افادیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ مشرق و مغرب میں متلاشیانِ حق حقیقی راہ اختیار کر نے کے لیے ترستے رہتے ہیں، لیکن ان تک یہ پیغام حق پہچانے والا کوئی نہیں ہے۔مسلمانوں نے دعوت الی اللہ کے فریضے کے ساتھ بے حدغفلت برتی ہے، اب وہ وقت آگیاہے کہ تمام مسلمان اس کا رخیر کی انجام دہی میں تن من دھن سے لگ جائیں۔
اسلام کی حقیقی تصویر کو بگا ڑنے میں میڈیا زبردست کردار ادا کرر ہا ہے۔اسلام دشمن میڈیا اور معترضین زہر آلود مکا لمے اور بیانات دینے کا کو ئی مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مغربی اور یورپی لو گوں کو میڈیا نے اسلام کے تئیں جاہل اور گمراہ قراردیاہے۔ دوسری جانب وہاں کے لوگوںکی اسلام کے متعلق جو معلومات ہیں وہ یا تو اخبارات سے حاصل کر تے ہیں یا ٹی وی کے ذریعے سے ،جو اسلام کی انتہائی مسخ شدہ تصویر لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔You Gov سروے کے مطابق ۵۷ فی صد لوگ وہاں اسلام کے متعلق معلومات ٹی وی چینل کے ذریعے اور ۴۱ فی صد لوگ اخبارات سے حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کو میڈ یا کے تئیں حساس اور سنجیدہ ہونا چاہیے، اور مسلم حکومتوں کو میڈیا پر اچھی خاصی رقم خرچ کر کے میڈیا میں نہ صرف نمایندگی بلکہ کارِ دعوت کے لیے استعمال میں لانا وقت کی اہم ترین ضرور ت ہے۔
ہم اہلِ مغرب سے یہ نہیں کہتے کہ آپ اسلام، حضرت محمد، ؐ قرآن اور تہذیب ِ اسلامی پر علمی اور دیانت داری سے تنقید نہ کر یں، بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بازار ی زبان استعمال کرکے بے بنیاد اعتراضات ،پروپیگنڈا اور جھوٹے الزامات نہ لگائیں ۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں:
اسلام کو پیش کر نے میں انھوں نے بالعموم تعصب، جانب داری اور غیر سائنٹی فک اسلوب اختیار کیا ہے۔اسلام کے متعلق ان کی معلومات غلط، ناقص اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کو پورا حق ہے کہ وہ اسلام پر تنقید کریں لیکن پسندیدہ ، معتبر،سنجیدہ اور متوازن طر یقے سے۔۲۳
لیکن مسلمانوں کو بھی جواب دینے کے لیے روایتی طریقے سے ہٹ کر ایک نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ان کے اعتراضات ،الزامات اور پیغمبر ؐاسلام کی زند گی پر حملے کے جواب میں محض احتجاج اور مظاہر ے کر نا کو ئی حل نہیں ہے، اور نہ جذبات میں بہہ کر اور مشتعل ہو کر جارجیت کا جواب جارجیت سے دینے میں اسلام کا کچھ فائدہ ۔ علمی اور فکری میدان میں کود کر احسن طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام کے سا منے اسلامی تعلیمات کو عام کر نے کے سلسلے میں کانفرنسوں، کارگاہوں [ورکشاپس] دعوتی مہمات،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ،اداروں ، کتابوں، مضامین اور اس کے علاوہ ہرممکن طریقے سے مغربی اور یو رپی سازشوں اور کارستانیوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اسلام کی روشن تعلیمات کو اس طر ح پیش کیا جائے کہ ہر ایک ان تعلیمات سے متا ثر ہو۔
اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے ، خصوصاً خاندان کا تصور،بنی آدم،تصورِ عدل، تصورِ رحمت اور امن وغیرہ پراسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح سود،جوا،نسل پرستی، حرص مال وغیرہ کے خلاف تحریکات چلائی جائیں تاکہ ’اسلامو فوبیا‘ کے اصل محرکات پر ضرب لگے اور اسلام اور اُمت مسلمہ کے لیے راہ ہموار ہو جائے‘‘۔۲۴اس سلسلے میں باہمی اور مسلکی اختلافات اور فروعی مسائل کو بالاے طاق رکھ کر امت کے مفاد عامہ کے لیے پالیسیاں اور اہداف طے کیے جائیں۔
اسلام کا دوسرا نام ہی امن وامان ہے اور یہ عدل و انصاف قائم کر نے کے ساتھ ساتھ قیام امن کی بے حد تاکید کرتا ہے۔اسلام کا بنیادی نظر یہ قیام امن و عدل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ظلم، تشدد، فسطائیت ، فساد، جنگ،قتل غارت گری وغیرہ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔اس سلسلے میں اسلام اور اس کی بنیادی تعلیمات کو عام کر نے کا بھی ایک سنہرا موقع ہے۔ کیوں کہ دنیا اس وقت امن اور اس کی برکتوں کے لیے ترس رہی ہے۔مغر بی دنیا آج بھی اسلام اور پیغمبرؐ اسلام اور ان کی تعلیمات سے نہ صرف غلط فہمیوں کی شکار ہے، بلکہ لا علم بھی ہے۔ایک سر وے کے مطابق مغرب میں ۶۰ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کے متعلق واقفیت نہیں رکھتے ہیں، جب کہ ۱۷ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کو سرے سے جانتے ہی نہیں ۔۲۵
’اسلاموفوبیا‘ کی صورت میں اسلام کو درپیش چیلنج کا اُمت مسلمہ کو نہ صرف ادراک کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اسلام کو دنیا ے انسانیت تک پہنچانے کی بھر پو ر جدو جہد کر نے کی بھی اشد ضرورت ہے، تاکہ دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہو جائے، اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی یہ چال خود مغرب میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن جائے۔
۱- کرس ایلن،Islamophobia،لندن، ۲۰۱۰ء، ص ۵۔
۲- اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری ،شان الحق حقی ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پر یس، کراچی ۱۳ ۲۰ ،ص ۱۲۳۳
۳- Islamophobia: a challange for us all،لندن، ۱۹۹۷ء، ص ۳
۴- شاہ معین الدین احمد ندوی، مہاجرین ،جلد دوم۔دارالمصنفین، شبلی اکیڈ می اعظم گڑھ،۱۹۹۶ء ،ص ۲۴۷
۵- سیّد صباح الد ین عبدالرحمٰن ،صلیبی جنگ،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۵ء،ص ۳۹
۶- کیرن آرم سٹرانگ، دی گارڈین، ۸ستمبر ۲۰۰۶ء
۷- دی واشنگٹن پوسٹ، ۳ دسمبر ۲۰۱۵ء
۸- کیرن آرم سٹرانگ، ایضاً، ۸ستمبر ۲۰۰۶ء
۹- منٹگمری واٹ، Muhammad at Mecca، لندن ۱۹۵۳ء، ص ۵۲
۱۰- دیکھیے: The Fear of Islam at www.news.org
۱۱- عبدالرشید متین: The West Islam and the Muslim Islamophobia and Extremism
۱۲- کیرن آرم سٹرانگ: Muhammad. A Biography of the Prophet، نیویارک، ۱۹۹۲ء
۱۳- Huge Rise in Islamophobia، جریدہ نیوز ویک، ۱۰مئی ۲۰۱۵ء
۱۴- دیکھیے: Islamophobia in Briton ،ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۷ستمبر ۲۰۱۵ء
۱۵- سیّد عاصم محمود، دنیاے مغرب میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا، لاہور
۱۶- نیوز ویک، ۱۵مئی ۲۰۱۵ء
۱۷- www.commongroundnews.org
۱۸- روز نامہ انقلاب ،نئی دہلی، یکم دسمبر ۲۰۱۵ء
۱۹- روز نامہ انقلاب، نئی دہلی،نومبر ۲۰۱۵ء
۲۰- ’اسلامو فوبیا: محرکات ، اثرات اور تدارک‘ ،عرفان وحید ماہنامہ رفیق منزل ،دہلی، اکتو بر، ۲۰۱۵ء،ص ۲۳
۲۱- ناظم الدین فاروقی ،’مسلمانوں کی آبادی میں اضا فے کی حقیقت‘ ،سہ روزہ دعوت نئی دہلی ۱۰؍ اکتوبر۲۰۱۵ء
۲۲- اسرار الحق قاسمی،’مسلم دشمنی کی آگ میں بے جے پی‘،ماہنامہ ابلاغ ،ممبئی، نومبر۲۰۱۵ء،ص ۲۹
۲۳- پروفیسر خورشید احمد: Islam and The West ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۸ء، ص ۶۲
۲۴- عبدالرشید اگوان ،اسلامو فوبیا ،رجحانات ،اثرات تدارک،اقلیتوں کے حقوق اور اسلامو فوبیا ، ایفاپبلی کیشنز، دہلی۔۲۰۱۱ء میں۵۱۷
۲۵- The You Gov survey
اسلام کی تعلیمات ابدی اور لافانی ہیں۔ اسلام زمان و مکان کی حدود قیود سے بالا تر ہونے کی وجہ سے ہر دور کی رہبری و رہنمائی کرتا ہے۔ ہر شعبۂ حیات کے لیے قرآن و سیرتِ نبویؐ میں بنیادی رہنما اصول موجود ہیں۔ ان اصولوں کا ہر معاشرے میں اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔ ریاست، سیاست اور قیادت کے لیے بھی یہاں ایسے بنیادی اصول موجود ہیں جو ہر دور کے معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ اس لیے اسلامی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں’سرکاری ملازمین‘ (Public Servants)کے پیشہ وارانہ فرائض و ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت سی اہم اور بنیادی ہدایات موجود ہیں۔
دستور زمانہ یہ ہے کہ عہدے اور منصب ایک اعزاز سمجھے جاتے ہیں لیکن اسلام میں یہ ایک ’امانت‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نہایت اہم اور بنیادی فرق ہے جو ذمہ داریوں کی نوعیت اور عہدے دار کی حیثیت کو واضح کر دیتا ہے۔ اس ذمہ داری کی بجا آوری کے ہرپہلو کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا تصور ’منصب دار‘ کو ’خدمت گار‘ کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ یہ خدمت گار اپنے فرائض کی بجا آوری میں ہر لمحہ لرزاں وترساں رہتا ہے کہ کہیں کوتاہی ہو گئی تو خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا۔ یہی وہ تصور تھا جس کی وجہ سے اکابرین امت کسی ذمہ داری کو قبول کرنے سے گریز کرتے تھے۔
نبی کریمؐ نے واضح ہدایات ارشاد فرمائیں کہ عہدے یا منصب کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ آپؐ کا واضح ارشاد ہے: ’’اللہ کی قسم! ہم اس عمل پر کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کرتے، جو اس کا مطالبہ کرے اور جو اس کی تمنا کرے‘‘ (بخاری، ۷۱۹۴)۔اس حدیث مبارکہ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ جب عہدے مطالبات اور لالچ کی بنیاد پر مانگے جائیں گے تو معاشرے میں بے اعتدالی اور افسران میں لوٹ مار کا رجحان زور پکڑے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ عہدہ امانت ہے اور (اس کا حق ادا نہ ہو سکا) تو قیامت کے دن یہ رُسوائی اور ندامت کا سبب بنے گا (بخاری، ۱۸۲۵)۔ آپؐ اُمت میں ان عہدوں کے طلب کی حرص کا پیدا ہونا بھی نگاہِ نبوت سے ملاحظہ فرما رہے تھے اور اس کو یوں بیان بھی کر دیا: ’’عنقریب تم امار ت کے لیے حرص و کوشش کرو گے‘‘۔
قوم جن لوگوں کو منصب ان کی اہلیت و صلاحیت دیکھ کر دے اور وہ اس کے لیے تگ و دو کریں، تو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایات اس منصب کے تقاضوں کو ادا کرنے کے لیے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ (بخاری،۷۱۴۶)
دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صاحب منصب کے لیے جو لفظ استعمال فرمایا وہ ’راعی‘ کا ہے۔ راعی (نگہبان) اپنے ریوڑ کو خود بھی نقصان نہیں پہنچاتا اور دوسرے کو بھی روکتا ہے اور اس کی نظر اپنے ہر جانور پر ہوتی ہے۔ راعی اپنے ریوڑ سے اس درجہ پیار کرتا ہے کہ ریوڑ کا ہرجانور اس کے اشاروں پر چلتا ہے۔ ’راعی‘ کے اس اعلیٰ درجے کے تعلق سے رعیت بھی راعی کے اشارۂ ابرو پر جان وارنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، بشرطیکہ افسر ’راعی‘ کے روپ میں ہو ’بیوروکریٹ‘ کی شکل میں نہ ہو۔ حدیث نبوی ؐ کے الفاظ یہ ہیں:’’آگاہ رہو تم سب نگہبان ہو اور تم سب اپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دہ ہو‘‘۔(بخاری، ۱۸۲۷)
ذمہ داریوں کی نوعیت کے اعتبار سے سرکاری ملازم’راعی‘ کی طرح ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق وہ اسلام اور پاکستان کا نمایندہ ہے۔ اسے اپنی ذمہ داریوں سے اس طرح عہدہ برآ ہونا ہے کہ وہ فرائض منصبی انجام دیتے ہوئے ایک اچھے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہو۔ اپنی اس حیثیت کو صرف پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ہی ظاہر نہ کیا جائے بلکہ اس کی زندگی کے ہر میدان میں اس حیثیت کا عکس نظر آئے۔
شریعت ِ اسلامیہ میں اہلیت و صلاحیت کے حامل اور حرص و طمع سے بچنے والے لوگوں کو عہدہ و منصب کی امانت سونپی گئی ہے کہ مقاصد شریعت کی محافظت ہوتا کہ معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے۔ مقاصد شریعت درج ذیل ہیں:
۱- تحفظ دین: یعنی دین الٰہی کو ہر جہت سے نافذ کیا جاسکے اور اللہ اور بندے کے درمیان تعلق ہر شعبے میں قائم رہے۔
۲- تحفظِ جان: لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہو سکے۔ قصاص ودیت کے قرآنی احکامات اسی مقصد کے لیے ہیں۔
۳- تحفظِ عقل: عقل کا تحفظ شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے کیونکہ انسان اور جانوروں میں تمیز کرنے والی یہی قوت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شراب نوشی اور منشیات کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
۴- تحفظِ نسل :خاندان کے ادارے کی بقا کے لیے بدکاری پر پابندی لگائی گئی اور نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔
۵- تحفظِ مال:مال کسی فرد کا ہو یا اجتماعی ادارہ و حکومت کا اس کا تحفظ لازم و ضروری ہے۔ قطع ید جیسی سزائوں کا یہی مقصد ہے۔
۶- تحفظِ عدل:قیام عدل شریعت کے بنیادی اور اہم مقاصد میں سے ہے۔ اگر عدل ہو گا تو دیگر مقاصد شریعت کی حفاظت ہو سکے گی۔
کہا جا سکتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مختلف محکمے، منصب اور عہدو ں کے بنیادی و اساسی مقاصد درج بالا ہیں۔ چونکہ یہ مقاصد بذات خود بہت اعلیٰ ہیں اس لیے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کا تقرر ان مناصب پر کیا جانا چاہیے۔
سرکاری ملازمین کے انتخاب کے لیے رہنما اصول
قرآ ن کریم اور اسوۂ حسنہ سے سرکاری ملازمین کے انتخاب کے لیے بنیادی رہنما اصول سامنے آتے ہیں۔ اس معاملے میں اس آیت قرآنی کو ایک بنیادی اور اصولی حیثیت حاصل ہے: ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں امانت والوں (ان کے اہل) کو ادا کرو‘‘۔ (النساء ۴:۵۸)
l علم اور اہلیت:اسلام میں علم کے حصول پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ اسلام اور علم ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ امام غزالی کے نزدیک دنیا اور آخرت میں سعادت کی بنیاد علم ہی ہے۔ افسران اپنے علم سے معاشرے کے لیے راہ سعادت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لہٰذا، اس طبقے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے مصالح و مفاسد کا علم رکھتا ہو۔ ایسا علم کہ جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھائیںاور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔
ایک قوی سربراہ ادارہ وہ ہے جو اپنے فرائض منصبی سے خوب واقف ہو۔ دفتری کام کے مقاصد سے باخبر ہو، ترتیب کا ر اور پروگرام بنانے میں ماہر ہو اور اس میں ایجاد و اختراع کی قابلیت ہو، نیز کام کو منظم کرنے کی مہارت رکھتا ہو۔ اس کے ذہن میں غایت کا ر واضح ہو اور اپنی تمام صلاحیتوں کو مقصدتک پہنچنے کے لیے استعمال میں لائے۔ وہ لوگ جو کسی کو کوئی ذمہ داری سپرد کرتے ہوئے صرف اس کی امانت اور بلند کردار پر قناعت کر لیتے ہیں وہ بھی اسی غلط فہمی میں ہیں جیسے کہ وہ لوگ جو ان چیزوں کو نظرانداز کرکے محض کسی کی مہارت خصوصی دیکھ کر اس پر بھروسا کرلیتے ہیں۔ خائن اور بددیانت ماہرین خصوصی ویسا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ نا اہل اور ناواقفان کا ر ایمان دار لوگ۔ سربراہ ادارہ خائن ہو اور صالح کردار لوگوں کو ذمہ داریوں سے محروم رکھا جائے، تو نتیجہ دونوں حالتوں میں ایک ہوگا۔
آپؐ نے فرمایا:’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں، جس کو اپنے عہد کا پاس نہیں اس میں دین نہیں۔ اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! کسی بندے کا اس وقت تک دین درست نہ ہو گا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو، اور اس کی زبان درست نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا دل درست نہ ہو۔ جو کوئی ناجائز ذرائع سے مال کمائے گا اور اس میں سے خرچ کرے گا تو اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ اگر اس میں سے خیرات کرے تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ جو اس میں سے بچ جائے گا وہ اس کے جہنم کی طرف سفر کا توشہ ہو گا‘‘۔(کنزالعمال، ۵۵۰۳)
آپؐ نے فرمایا:’’قیامت کی نشانیوں میں ہے کہ سب سے پہلے اس امت سے امانت کا جوہر جاتا رہے گا‘‘۔(ایضاً، ۵۴۰۲)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت اس وقت تک فطری صلاحیت پر قائم رہے گی جب تک وہ امانت کو غنیمت کا مال اور زکوٰۃ کو جرمانہ نہیں سمجھے گی‘‘۔ (ایضاً، ۵۴۰۴)
نبی کریمؐ نے امانت میں خیانت کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ (بخاری، ۳۳)
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ اگر کسی سے ساری دنیا کی چیزیں چھن جائیں اور اس کے پاس امانت کا وصف باقی رہ جائے تو اسے کسی چیز کا تأسف نہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’مومن میں ہر بری عادت ہو سکتی ہے لیکن خیانت اور جھوٹ اس میں نہیں آسکتا‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کی راہ میں شہید کیا جانا تمام گناہوں کا کفارہ ہے لیکن امانت کا کفارہ نہیں۔ ایک بندے کو قیامت کے روز لایا جائے گا جو شہید ہوا ہو گا اور کہا جائے گا کہ تم امانت (جس میں اس نے خیانت کی ہو گی) ادا کرو۔ وہ کہے گا کہ اے اللہ ! اب میں اسے کس طرح لائوں ، اب تو دنیا ختم ہو چکی ہے۔ کہا جائے گا کہ اسے جہنم کے طبقہ ’ہاویہ‘ میں لے جائو۔ وہاں امانت والی چیز مثال بن کر اصل حالت میں اس کے سامنے آئے گی تو وہ اسے دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگے گا یہاں تک کہ اسے پکڑ لے گا۔ وہ اسے اپنے کندھوں پر لاد کر چلے گا۔ لیکن جب وہ جہنم سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو وہ بوجھ اس کے کندھے سے گر پڑے گا۔ پھر وہ اس کے پیچھے ہمیشہ بھاگتا چلا جائے گا۔ اس کے بعد آپؐ نے وضو، نماز ، ناپ تول اور دیگر بہت سی چیزیں گن کر فرمایا: ان سب سے زیادہ سخت معاملہ امانت کی چیزوں کا ہے‘‘۔ (بیہقی ، شعب الایمان، ۵۲۶۲)
ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اللہ نے امانت کی اہمیت کو بیان فرمایا: ’’اللہ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا کو نکال لیتا ہے۔ جب حیا اس سے نکل جاتی ہے تو ہمیشہ اس پر اللہ کا غصہ ہوتا ہے۔ جب اس پر اللہ کا غصہ رہتا ہے تو اس کے دل سے امانت نکل جاتی ہے، تُو پھر اُسے ہمیشہ چور اور خائن پاتا ہے۔ جب اسے تُو چور اور خائن پاتا ہے تو اس میں سے رحمت نکل جاتی ہے۔ جب اس میں سے رحمت نکل جاتی ہے تو اسے ہمیشہ مردود و ملعون پائے گا۔ جب وہ ہروقت مردود و ملعون ہو جاتاہے تو اس کی گردن سے اسلام کی رسی نکل گئی‘‘۔ (ابن ماجہ، ۴۰۵۴)
نبی کریمؐ نے امانت کی پاس داری اور محافظت کا سبق لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے ساتھ لوگوں کو خیانت اور بددیانتی کے بارے میں بھی آگاہ فرمایا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الانفال۸:۲۷) اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ جانتے بوجھتے آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔
وَ لَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاo (النساء ۴:۱۰۵) تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَo(الانفال ۸:۵۸)بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
نبی کریمؐ نے ان آیات کا صحیح مفہوم اپنے اسوۂ حسنہ کے ساتھ پیش فرمایا۔ آپؐ جن باتوں سے پناہ مانگا کرتے تھے، ان میں سے ایک خیانت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ِ گرامی ہے:’’اے اللہ مجھے خیانت سے بچائے رکھنا کہ یہ بہت بُرا اندرونی ساتھی ہے‘‘۔ (ابوداؤد،۱۵۴۷)
آپ ؐ نے فرمایا: ’’سب سے اچھا میرا زمانہ ہے، پھر وہ زمانہ جو اس کے بعد آئے گا، پھر اس کے بعد آنے والا زمانہ۔ اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ بن بلائے گواہی دیں گے، خیانت کریں گے ، امانت داری نہیں کریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے‘‘۔ (بخاری، ۳۴۵۰) ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ بد دیانتی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب امانت ضائع کر دی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری، ۵۹)
اسلامی معاشرے کا ہر فرد خواہ اس کے پاس کوئی عہدہ ومنصب ہو یا نہ ہو، اس میں درج ذیل بنیادی اوصاف ضرور ہونے چاہییں اور صاحبِ منصب میں تو کمال درجے پر ہونے چاہییں:
اسلامی نقطۂ نگاہ سے عمل و کردار کی اساس و بنیاد ، محرک و سرچشمہ اور روح و جان تقویٰ ہے۔ ملازم جب تک صاحب تقویٰ نہیں ہو گا فرائض کی انجام دہی بہتر طور پر نہ ہو سکے گی۔ خاص طور پر افسران کے حوالے سے حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کا یہ واقعہ قابل توجہ ہے:
آپ اکثر دعا کرتے وقت روتے تھے۔ اہلیہ نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:جب میں اپنے بارے میں غور کرتا ہوں کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ و سفید جملہ امور کا ذمہ دار ہوں اور بے کس، غریب ، محتاج، فقیر ، گم شدہ قیدی اور اس قبیل کے دوسرے آدمیوں کو یاد کرتا ہوں جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور اللہ اس بارے میں مجھ سے سوال کرے گا اور رسولؐ اللہ کے سامنے کوئی دلیل پیش نہ کر سکوں گا، تو مجھے خوف لاحق ہوجاتا ہے اور میرے آنسو نکل آتے ہیں۔ اور جس قدر میں ان چیزوں پر غور کرتا ہوں اسی قدر میرا دل خوف زدہ ہوتا جاتا ہے‘‘۔(عبدالرشید عراقی، سیرت عمر بن عبدالعزیز، ص ۱۲۷)
یہ ہے تقویٰ سے احساس ذمہ داری کے شعور کی بیداری اور اس کو بہترین طرز پر کرنے کے جذبے کا پیدا ہونا۔ جب یہ قوی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے تو حکومت جسم پر نہیں دلوں پر ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ میں کتنی ہی نامور شخصیات ہیں جو بظاہر کوئی عہدہ نہیں رکھتی تھیں مگر آج بھی ان کے تقویٰ کی وجہ سے دلوں میں احترام موجود ہے۔ ایک ایسے ہی ’حکمران‘ کو دیکھ کر ہارون الرشید کی ایک کنیز نے بادشاہ سے کہا تھا کہ اصل بادشاہی تو عبد اللہ بن مبارک کی ہے جو لوگوں کے دلوں پر قائم ہے، آپ کی نہیں جو زور و جبر سے قائم ہے ۔
اسلامی معاشرے کے افراد، خواہ سرکاری عہدے دار ہوں یا عام شہری ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے حیاتِ نبویؐ کے ماہ و سال اور لیل و نہار بطور نمونہ سامنے رکھنے ہوں گے۔ نبی کریمؐ کے ارشادات اور آپؐ کی سیر ت کے نقوش یہ سب حیات مسلم کے لیے دائمی رہنما اصول ہیں اور ایک مسلمان ان رہنما نقوش سے ہٹ کر کسی مغربی طرزِ حیات سے رہنمائی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ صحابہ کرامؓ اور مثالی اسلامی ادوار میں رہنمائی کے یہی بنیادی اصول مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے ہیں۔ تہذیب اور تمدن کی بنیادیں بھی انھی اصولوں پر استوار کی جائیں گی۔ کسی بھی صورت میں ان سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔
ماتحتوں پر شفقت و مہربانی: افسر(Public Servant)اور ماتحتوں میں رشتہ ایک جسم کے اعضا کی طرح ہے۔ جسم کے تمام اعضا ایک دوسرے کو نفع پہنچاتے ہیں جس سے بدن کا سارا نظام چلتا ہے۔ ہمارے ہاں نظام کو چلانے کے لیے شفقت و محبت اور مہربانی و نرمی کے بجاے سختی، درشتی و تندخوئی کو معیارِ افسری سمجھا جاتا ہے مگر قرآن کریم سیرت رسولؐ اللہ کا جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور اعلیٰ قیات کا جو وصف ہمارے لیے تجویز کرتا ہے وہ رفق و نرمی ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج (الِ عمرٰن ۳:۱۵۹) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ اگر کہیں تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چُھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کردو، اِن کے حق میں دُعاے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں اِن کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری اُمت میں سے اگر کسی فرد کو اُمت کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے اُمت پر سختی کی تو تُو بھی اس پر سختی کر اور اگر اس نے نرمی کی تو تُو بھی نرمی کر۔
کسی کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور سختی کا رویہ اپنانا آسان ہے لیکن آسانی و نرمی کی راہیں نکالنا مشکل ہے۔ آپؐ نے اسی لیے ایسے آدمی سے جو سخت گیر ہو بچنے کی ہدایت کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک حطمہ بدترین حاکم ہے، لہٰذا تم ایسے لوگوں میں شمار ہونے سے بچو‘‘۔(مسلم، ۸۴۰)
’ حطمہ‘ سے مراد ایسا شخص ہے جو انتظامی امور کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور اس کی خاصیت ایسی ہو کہ وہ ظالم، خود غرض اور لوگوں کو اپنے ظلم سے تباہ کرنے والا ہو۔ اس حوالے سے حضرت عمر ؓ کے ایک خط کے یہ الفاظ بھی قابل توجہ ہیں:’’اے عمال (گورنر ) رعیت پر تمھارے اور رعیت کے تم پر حقوق ہیں۔ خدا برد بار حاکم کو بہت پسند کرتا ہے اور کوئی نفع اس نفع کے برابر ہمہ گیر اور عام نہیں ہوتا جو برد بار اور مہربان حاکم سے رعیت کو پہنچے۔(خورشیداحمد فارق، حضرت عمرؓ کے سرکاری خطوط، ص ۲۰۷)
ہمارے دفاتر میں استہزا، غیبت ، حسد، بُرے القاب، بد ظنی، تجسس جیسے مہلک ہتھیاروں کا راج ہوتا ہے جن سے عامۃ الناس، ماتحت اور افسران بالا کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے ۔ در اصل یہ معاشرے اور دفاتر میں موجود منفی رویے ہیں جو پُرامن ماحول کو ہی تہ و بالا نہیں کرتے بلکہ دفاتر اور معاشرے کو آگے بڑھنے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے بھی روکتے ہیں۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تو وہاں اُن قدروں کی تحسین و حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو دفاتر اور معاشرے کی کارکردگی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ حسد سے منع کیا گیا ہے مگر رشک کو اچھا سمجھا گیا۔ حسدمیں دوسروں سے نعمت کے چھن جانے کا تصور ہے اور رشک میں دوسروں کے پاس موجود نعمت پر اظہار مسرت کے ساتھ اپنے لیے اس نعمت کے پانے کی تمنا ہے۔ تجسس اسلام کی نظر میں مذموم ہے، جب کہ رشک محمود ہے۔ تجسس میں دوسروں کے راز اور عیب ٹٹولنا اور دوسروں کے نقائص اور کوتاہیاں تلاش کرنا ہے، جب کہ رشک کا جذبہ انسان کو سرچشمۂ خیر ثابت کرنے کی تگ و دو سے عبارت ہے۔ یہی چیز معاشرہ اور دفتر کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
قصہ مختصر، اسلام معاشرے کے تمام اجزا کو ایسی مادی اور روحانی ترقی کی طرف دھکیلتا ہے جس میں دوسروں کے احساسات و جذبات تک کو قابل احترام سمجھا جائے۔ معاشرہ اور دفاتر جو ترقی اعلیٰ روحانی اور اخلاقی بنیادوں کو چھوڑ کر کر تے ہیں وہ پانی کا بلبلہ ہوتی ہے۔ چند احادیث کا ترجمہ ملا حظہ فرمائیں:
o بدگمانی سے بچو،بد گمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔ بھید نہ ٹٹولو ، ایک دوسرے کی ٹوہ لگانے کی کوشش میں نہ لگ جائو۔ حسد اور بُغض سے بچو، سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری، ۶۰۶۶)
o افسر (حاکم) جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی بُرائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے تو انھیں بگاڑ دیتا ہے ۔(ابوداؤد، ۴۸۸۹)
o اے وہ لوگو !جن کی زبانیں تو ایمان لا چکی ہیں لیکن دل ایمان دار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنی چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کرو۔ یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمھاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے خاندان میں بھی بدنام اور رسوا ہو جائو گے۔(ابوداؤد، ۴۸۸۰)
o جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی۔ اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اس جیسی جہنم کی پوشاک پہنائی جائے گی۔ (ابوداؤد، ۴۸۸۱)
نبی کریمؐ کے ارشادات نے احترام آدمیت و انسانیت کا پیغام دیا ہے جس سے نفسیاتی الجھنیں ختم ہوتی ہیں۔ نفرت و حقارت کے دھارے تھم جاتے ہیں۔ فساد کے جراثیم اور افتراق کی قوتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ افسران بالا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی دوسروں کی عزت نفس کے محافظ بنیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
مالِ غنیمت میں سے جو شخص کوئی چیز چراتا ہے اسے غال (خائن) اور اس فعل کو غلول (خیانت ) کہا جاتا ہے۔ اس کا جنازہ نبی کریمؐ نے نہیں پڑھا۔ حضرت زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن ایک جہنی شخص فوت ہوا۔ نبی کریمؐ کے سامنے اس شخص کی وفات کا ذکر کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا:’’اپنے ساتھی کا جنازہ ’تم خود ہی‘ پڑھو‘‘۔آپ ؐ کی بات سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہوگئے۔ یہ دیکھتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارے ساتھی نے غنیمت کے مال میں سے کوئی چیز چرائی تھی‘‘۔(ابوداؤد، ۲۷۱۰، ۲۷۱۱)
امام احمد ؒ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ آپؐ کا یہ فرمانا کہ تم جنازہ پڑھ لو اور خود نہیں پڑھا، کہ امام کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غال کی نمازِ جنازہ پڑھے۔ اس کے علاوہ باقی تمام لوگ جنازہ پڑھیں گے(ابن قدامہ، المغنی، ۳/۵۰۴)۔یہ درحقیقت بددیانتی کے جرم کی شدت کے اظہار کی ایک صورت ہے۔
نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:’’صاحب مکس جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔(مسند دارمی، باب۲۸)۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’صاحب مکس کو آگ میں ڈالا جائے گا‘‘۔(مسنداحمد، ۴/۱۰۰۸)
حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ رات کے ایک حصے میں جاگتے اور عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ رات میں ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جس میں جو دعا بھی کی جائے قبول ہوتی ہے سواے جادو کرنے والے اور زیادتی سے ٹیکس وصول کرنے والے کی۔ (ایضاً)
اس موضوع پر کئی روایات موجود ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک پکارنے والا (فرشتہ) پکارتا ہے کہ ہے کوئی سائل کہ اس کی دعا کے مطابق اسے عطا کیا جائے۔ ہے کوئی تکلیف میں مبتلا کہ اس کو تکلیف سے نجات دی جائے۔ اس طرح کوئی ایسا مسلمان نہیں بچتا کہ اس کی دعا کو قبولیت حاصل نہ ہو سواے زانیہ عورت یا زیادتی سے محاصل وصول کرنے والے شخص کے کہ ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی۔ (الترغیب والترہیب، ۲/۸۷)
حضرت ابو سعید خدری ؓ اور ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’تمھارے اوپر ایسے حکمران اور عمال مقرر ہوں گے کہ ان کے ارد گرد شریر لوگ جمع ہوجائیں گے۔ یہ لوگ نمازوں کو مؤخر کر دیں گے۔ تم میں سے جو کوئی ان کے زمانے میں موجود ہو تو نہ ان کا عریف (لوگوںکے حالات حکومت تک پہنچانے والا) بنے، نہ ان کا صاحب الشرطہ(سپاہی) بنے اور نہ ان کا محاصل وصول کرنے والے محصلین بنے اور نہ ان کا خازن بنے‘‘۔ (ایضاً)
ان احادیث میں جن لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو زکوٰۃ ، عشر یا کوئی اور ٹیکس وصول کرتے وقت لوگوں کو ناجائز طور پر چھوٹ دینے کے لیے ان سے رشوت وصول کرتے ہیں اور جو لوگ رشوت نہیں دیتے، ان سے اصل سے زائد ٹیکس وصول کرتے ہیں یا کسی اور طریقے سے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو بھی تلقین فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے ان کے بہترین مال وصول نہ کریں۔ لیکن یہ لوگ آپ ؐ کی اس تلقین کی پروا نہ کرتے ہوئے ازراہِ ظلم ان کے بہترین مال وصول کرنے لگتے ہیں۔
کسی نے نبی کریم ؐ سے درخواست کی کہ’’ اسے اس کے باپ کے بعد جو کہ اب بوڑھا ہو چکا ہے، ایک چشمے کا عریف بنا دیا جائے ‘‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’عرافت بے شک ایک ضروری منصب ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں مگر اکثر عریف جہنم میں جائیں گے‘‘۔(ابوداؤد، ۲۹۳۴)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے ، رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’ جہنم میں ایک پتھر ہے جسے ’ویل‘کہا جاتا ہے۔ عرفاء کو اس پر چڑھایا جائے گا اور پھر نیچے پھینکا جائے گا‘‘۔(الترغیب والترہیب، ۲/۸۸)
مسند ابو یعلی میں روایت ہے کہ نبی کریمؐ ایک جنازے کے پاس سے گزرے آپؐ نے فرمایا: اس جنازے والے کے لیے خوشخبری ہے بشرطیکہ یہ ’عریف‘ نہ ہو۔ (ایضاً)
رشوت اور اس کے بارے میں وعید
مالی بد عنوانیوں کی ایک شکل رشوت بھی ہے۔ رشوت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کام کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ وصول کیاجائے۔ ایک کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہو اور اسے اس کام کی انجام دہی پر سرکاری طور پر معاوضہ ملتا ہو، ایسا کام کرنے پر وہ صاحب ِ ضرورت سے کوئی معاوضہ وصول کرے۔(مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ۳/۱۵۱-۱۵۲)
قرآن مجید میں رشوت کے لیے سُحت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ سُحت کے معنی ہلاکت و بربادی کے ہیں۔ رشوت نہ صرف لینے دینے والوں کو اخلاقی اور معاشی طور پر تباہ و برباد کرتی ہے بلکہ ملک و ملت کی جڑ اور امن عامہ کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔ جس ملک میں رشوت کی لعنت چل پڑتی ہے وہاں قانون بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے ، لوگ رشوت دے کر ہر کام کروا لیتے ہیں۔ حق دار کا حق مارا جاتا ہے اور غیر حق دار مالک بن بیٹھتے ہیں۔ قانون ، جو کہ لوگوں کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔ قانون کی حاکمیت جس معاشرے میں کمزور پڑ جائے وہ معاشرہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا ، نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے نہ مال و عزت۔ قرآن مجید نے اسے سُحت کہہ کر ’اشد حرام‘ قرار دے دیا ہے ۔ رشوت کے دروازے بند کرنے کے لیے اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ امراء و حکام کو تحفے دینا حرام ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔
قرآن مجید نے یہود کے مذہبی اجارہ دار طبقے کی یہ خرابی بیان کی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی پسند کے فتوے جاری کر کے ان سے رشوت کھاتے ہیں۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کا ذکر یوں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیْھِمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o(البقرہ ۲:۱۷۲) اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے ، یہ لوگ (یہود) اسے چھپاتے ہیں اور اس کے ذریعے معمولی معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا۔
نبی کریمؐ کی پالیسی بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہے لیکن مالیاتی معاملات میں نظم اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب بد عنوانی کا سبب بننے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے سوراخ کو بھی مکمل طور پر بند کیا جائے۔ چھوٹی چھوٹی بد عنوانیوں سے اگر در گزرکیا جائے تو یہی غلطیاں پورے معاشی ڈھانچے کو زمین بوس کر دیتی ہیں۔آج کا دور اس کی واضح مثال ہے۔
حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انھیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے۔
نبی کریم ؐنے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔(ترمذی، ۱۳۳۶)۔ آپ ؐ نے فرمایا :جس گوشت نے سُحت (حرام) سے پرورش پائی، آگ اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ پوچھا گیا: سُحت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: الرشوۃ فی الحکم،’’فیصلے صادر کرنے میں رشوت وصول کرنا‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن، ۳/۱۸۳)
اسی طرح کی ایک حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے بھی مروی ہے:ابن خویز منداد نے سُحت کی ایک شکل یہ بیان کی ہے کہ ایک شخص کا کسی صاحبِ اختیار شخص کے ساتھ کوئی کام اور حاجت ہو لیکن اس کی صاحبِ منصب تک رسائی نہ ہو، جب کہ کسی دوسرے شخص کا اس صاحبِ منصب کے سا تھ تعلق موجود ہو اور وہ سائل کی رسائی متعلقہ افسر تک کروانے کے لیے کوئی معاوضہ طلب کرے۔ (ایضاً)
سُحت اوررشوت کی ایک شکل یہ بھی روایت میں بیان کی گئی ہے کہ کسی صاحبِ منصب شخص کو کوئی چیز دی جائے تاکہ کسی کا حق مار کر خود حاصل کر لیا جائے۔ اگر کوئی شخص رشوت لے کر کسی کا کام حق کے مطابق کرتا ہے تو وہ شخص رشورت لینے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور یہ مال اس کے لیے سُحت ہوگا۔ لیکن اگر رشوت لے کر حق کے خلاف فیصلہ کیا اور غیر حقدار کو حق دے دیا تو یہ جرم کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اس میں رشوت، ظلم، حق تلفی اور اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑنا بھی شامل ہو جاتا ہے۔ (ایضاً)
امام ابو حنیفہؒ کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رشوت وصول کرتا ہے تو اسے اسی وقت معزول کر دیا جائے۔ اگر اسے معزول نہ کیا گیا تو اس فعل کے ارتکاب کے فوراً بعد سے اس کے تمام احکام غیر قانونی سمجھے جائیں گے۔ (ایضاً)
صاحب تفسیر امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ رشوت وصول کرنا فسق ہے اور کسی فاسق کے لیے فیصلہ کرنا جائز نہیں (ایضاً)۔ حدیث شریف میں رشوت کے لینے دینے میں واسطہ بننے والے کو بھی اتنا ہی مجرم قرار دیا گیا ہے جتنا رشوت لینے اور دینے والے کو۔ (کنزالعمال، ۱۴۴۹۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قرآنی تعلیمات کو عملی شکل دی ۔ آج کے دور میں مالی بدعنوانیوں کے انسداد کے لیے یہ واقعہ بڑا بنیادی راہنما ثابت ہو سکتا ہے۔
خیبر کے یہودیوں سے نبی کریمؐ نے اس شرط پر مصالحت فرمائی تھی کہ وہ اپنی آدھی زرعی آمدنی مسلمانوں کو ادا کیا کریں گے۔ آپ ؐ کی طرف سے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کو محاصل وصول کرنے کے لیے متعین فرمایا گیا۔ ان لوگوں نے اپنی عورتوں کے زیورات بیچ کر رقم جمع کی اور صحابی رسول کو پیش کرنا چاہی کہ یہود کا حصہ بڑھا دیاجائے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کاجواب نہ صرف یہود کے لیے بلکہ آج کے دور کے لیے بھی روشنی کا مینار ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا: ’’اے یہودیو! اللہ کی قسم تم اللہ کی مخلوق میں سے مبغوض ترین مخلوق ہو لیکن تمھاری یہ رشوت مجھے ظلم پر آمادہ نہیں کر سکی۔ تمھاری یہ رشوت حرام ہے۔ ہم مسلمان اسے نہیں کھاتے‘‘۔ یہودیوں نے ان کی تقریر سن کر کہا کہ یہی وہ انصاف ہے جس سے آسمان و زمین قائم ہیں۔(مؤطا امام مالک، ۱/۵۱۶)
بد عنوانی کی ایک شکل یہ ہے کہ حکمران لوگوں کو سرکاری خزانے سے رشوت کے طور پر مال دیں اور اس سے ان کا مقصد یہ ہو کہ سیاسی یا معاشی مقاصد حاصل کریں۔ اس طرح کی بد عنوانی کے انسداد کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اگر تمہیں کوئی چیز عطا کریں تو لے لیا کرو جب تک کہ وہ عطا ہی رہے یعنی (یہ عطیہ کسی خدمت اور استحقاق کے طور پر ہو اور اس کی شرعی بنیاد موجود ہو)پھر جب قریش اقتدار کی خاطر ایک دوسرے سے لڑیں اور عطائیں قرض کے بدلے میں ملیں تو ان عطیات کو چھوڑ دیں اور قبول نہ کرو‘‘۔(ابوداؤد، ۳۹۵۹)
آپؐ نے فرمایا : ’’جب قریش آپس میں حکومت کے لیے لڑنے لگیں اور رشوت کے طورپر لوگوں کو عطیات دیئے جائیں (اور یہ مستحق لوگوں کو نہ دئیے جاتے ہوں) تو یہ عطیات قبول نہ کرو‘‘(ایضاً)۔ آج کے دور میں یہ دونوں طرح کی رشوت موجود ہے ۔ سرکاری کارندے قومی خزانے کو اپنی ذاتی دولت سمجھ کرنا جائز طور پر لوگوں کو بھاری رقوم دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ عوام کی بہت بڑی تعداد اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتی جار ہی ہے۔ رشوت نے لوگوں کی اخلاقی حس کو زنگ آلود کر کے ان کے ضمیر کو سلا دیا ہے۔ دوسری طرف عوام میں یہ خیال اب جڑ پکڑ چکا ہے کہ رشوت کے بغیرکوئی کام نہیں ہو سکتا اور رشوت کے ذریعے ہر ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔
ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جو شخص کسی حاکم یا امیر سے کسی کی سفارش کرے اور پھر اس حاکم کو ہدیہ بھیجے اور وہ اس ہدیہ کو قبول کرے تو اس کا یہ فعل ایسا ہے گویا کہ وہ سود کے بڑے دروازے میں داخل ہو گیا۔(ابوداؤد، ۳۵۴۱)
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ اسلام کے معاشی نظام میں انتقالِ دولت کا جواز تین طریقوں سے جائز ہے۔ ان میں وراثت ، ہبہ اور محنت و کسب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عطیات بھی انتقالِ دولت کا ایک ذریعہ ہیں۔ لیکن عطیات صرف وہی معتبر ہوتے ہیں جو کسی چیز یا مال کے حقیقی مالک نے شرعی حدود کے اندر کسی کو ہبہ اور عطیہ دیا ہو۔ اگر عطیہ کسی حکومت کی جانب سے ہو تو وہ اسی صورت میں جائز ہو گا جب وہ کسی صحیح خدمت کے صلے میں یا معاشرے کے مفاد کے لیے حکومت املاک میں سے جائز اور معروف طریقے پر دیا گیا ہو۔عطیہ دینے کا حق بی اسی حکومت کو حاصل ہو گا جو شرعی دستور کے مطابق شوریٰ کے طریقہ کے مطابق چلائی جا رہی ہواور جس کا محاسبہ کرنے کا حق اور آزادی قوم کو حاصل ہو۔ (اسلامی ریاست، ص ۵۱۶)
ملک میں مالی باے قاعدگی بیت المال کو غلط طور پر استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس غلط استعمال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خزانہ غیر مستحق لوگوں کے لیے کھول دیا جائے، اس سے ملکی خزانہ کئی پہلوئوں سے منفی طور پر متاثر ہوتا ہے ۔ ایک تو غیر مستحق لوگ ملکی خزانے پر ناروا بوجھ بن جاتے ہیں ۔ خزانہ غلط طور پر استعمال ہونے لگتاہے ۔ حق دار محروم رہ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو محنت کی بجائے مفت خوری کی عادت پڑ جاتی ہے اور جس ملک کے لوگ محنت سے گریز کرنے لگیں ، اس کی معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ ؒ لکھتے ہیںکہ اگر بیت المال سے وہ لوگ وظائف اور مستقل امداد لینا شروع کر دیں جو درحقیقت اس کے مستحق نہیں ہوتے تو یہ لوگ حقداروں کا حق مارنے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں اور ملکی خزانہ بھی غلط طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت پیدا ہو جائے تو باشندوں کی اکثریت بادشاہ پر انحصار کرنے لگتی ہے اور بیت المال پر بوجھ بن جاتی ہے۔ غیر مستحق لوگ کبھی یہ کہہ کر وظیفہ حاصل کرتے ہیں کہ وہ غازی ہیں اور ملک کے سیاسی راہنما ہیں۔ وہ کبھی یہ کہہ کر وظائف حاصل کرتے ہیں کہ وہ درباری شاعر ہیں اور بادشاہوں کی درباری شاعروں پر عنایات ہوا ہی کرتی ہیں۔ وہ یہ وظائف کبھی یہ کہہ کر حاصل کرتے ہیں کہ وہ صوفی اور درویش ہیں اور خلیفہ اس بات کو معیوب سمجھتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے حالت کی تفتیش کرے کہ کیا یہ حقیقت مین ان وظائف کے مستحق ہیں بھی یا نہیں؟…ان کا معاشی انحصار صرف بادشاہوںکی مصاحبت ، ان کی خوشامدی ، جی حضوری اور ان کی مدح میں چرب زبانی پر ہوتا ہے اورآخر کار یہ ایک ایسا فن بن جاتا ہے کہ ان کے تمام خیالات اور فکریں اس برے فن پر صرف ہونے لگتی ہیں اور وقت کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ (حجۃ اللّٰہ البالغہ)
ملکی خزانے کے غلط استعمال کی ایک شکل سر براہِ مملکت یا سربراہِ حکومت کے مالیاتی اختیارات بھی ہیں۔ ان اختیارات کے تحت سرکاری خزانہ سربراہ کی ذاتی ملکیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ خصوصی طور پر ایسی مدات جن کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا یا جنہیں آج کی اصطلاح میں (unforeseen) مدات کہا جاتا ہے ۔ ان مدات میں سے عموما ًسیاسی رشوتوں کا کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول میں تو اس طرزِ عمل سے عوام بھی آگاہ ہو چکے ہیںکہ سیاسی لوگوں کو ہم نوابنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی میدان میں کار ہاے نمایاں سر انجام دینے والوں کی حوصلہ ہونی چاہئے تاکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔اس سلسلے میں قرنِ اوّل سے شواہد ملتے ہیں کہ ملک و ملت کے لیے کار ہائے نمایاں سر انجام دینے والوں کی قدر شناسی کی گئی، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غیر مستحق لوگوں اور سرکاری افسران کے چہیتوں کو بھاری انعامات و وظائف سے نوازا جائے اور ہزاروں حق دار اور اہل لوگوں کی کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ انعامات ملکی خزانے پر ناروا بوجھ نہ بن جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انعامات ملک میں غیر عادلانہ تقسیم دولت کی شکل اختیار نہ کر لیں۔ جن لوگوں پر ملی خزانہ خرچ کیا جائے، ان کی خدمات ملکی نظریے کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ جن شعبوں کو اللہ اور اس کا رسولؐ حرام قرار دیں ، جن کے انسداد کے احکام دئیے گئے ہوں ہم ان شعبوں میں ’خدمات‘ سر انجام دینے والوں کو انعامات سے نوازیں۔
اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ وزیر اعظم پاکستان یا صدرِ مملکت یا کسی اعلیٰ عہدے دار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات کو کام میں لاتے ہوئے کسی کو پلاٹ یا خصوصی انعامات سے نواز سکے گا یا نہیں ؟ عدالت نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کسی بڑے سے بڑے عہدے دار کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ بیت المال میں تصرف کرے اوراپنی پسند کے لوگوں کو انعامات سے نوازے۔ جن لوگوںکو حکومت نے اونے پونے داموں پلاٹ فروخت کیے تھے، انھیں حکم دیا گیا کہ وہ ان پلاٹوں کی حقیقی قیمت اد اکریں۔ عدالت نے سابق وزرائے اعظم اور وزیر اعلیٰ کو حکم دیا کہ وہ بیت المال سے رقوم نکلوانے اور سستے داموں پلاٹ فروخت کرنے کی عدالت میں وضاحت کریں۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان بیت المال ایکٹ ۱۹۹۱ء کے تحت بیت المال سے تصرف کے حوالے سے وزیر اعظم کے پاس کوئی اختیارات نہیں اور پاکستان بیت المال مینجمنٹ بورڈ اس کے فنڈز کو ایکٹ کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے فاضل جج نے قرار دیا کہ وزارتِ خزانہ بیت المال سے کوئی بھی رقم وزیر اعظم سیکر ٹریٹ کو منتقل نہیں کر سکتی۔ عدالت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مستحق افراد کی شناخت کے لیے کوئی مناسب منصفانہ اور منظم طریقہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی فی کس امدا دکے لیے کوئی ضابطہ موجو د ہے۔ عدالت کے خیال کے مطابق کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیت المال میں تصرف کرے ۔ بد عنوانی کے انسداد کے لیے عدالت نے کہا کہ کسی بھی فرد کے پاس کوئی صواب دیدی مالیاتی اختیارا ت نہیں ہونے چاہییں۔
۵۰۰۰ء قبل مسیح کی تاریخ رکھنے والا ’نینویٰ‘ حالیہ عراق کا ایک اہم صوبہ ہے۔ موصل اس کا صدر مقام اور ۴۵۶کلومیٹر پر واقع وفاقی دارالحکومت بغداد کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز ہے۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء سے یہاں گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک طرف عراقی افواج، الحشد الشعبی کے نام سے شیعہ رضاکار لشکر، کرد فوج ’بشمرگہ‘ اور ان سب کو مکمل امریکی سرپرستی اور عسکری تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف ۲۰۱۴ء سے اس پر قابض داعش کے جنگ جُو ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران یہاں کئی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ عراقی افواج اپنے اور شیعہ لشکروں کے سوا کسی علاقائی قوت کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ داعش خود پر حملہ آور شیعہ لشکروں کے علاوہ مقامی سُنّی آبادی اور صدام حسین کے دست راست عزت الدوری کی قیادت میں قائم نقشبندی لشکر سے بھی برسر پیکار ہے۔ ترکی بھی اپنی سرحد پر ہونے والی اس لڑائی سے لاتعلق نہیں اور عملاً اس میں شرکت چاہتا ہے۔ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے کے باوجود: امریکی، اور عراقی افواج اور دوسری طرف داعش بھی، یعنی یہ تینوں ترکی کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکا ان سب فریقوں کو تادیر باہم خوں ریزی میں مصروف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس آگ پر مسلسل تیل چھڑک رہا ہے۔ جنگ کا شکار بے گناہ شہری بن رہے ہیں، جنھیں ہر جانب سے ظلم و ستم اور مہاجرت کا سامنا ہے۔
۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا کو جس بھرپور عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، موصل ان میں سرفہرست تھا۔ اس وقت امریکی پالیسی ساز اداروں نے واضح سفارشات پیش کی تھیں کہ عراق اور دیگر علاقوں میں درپیش مزاحمت کا مقابلہ صرف ’اسلام کو تقسیم‘ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ Split Islam کے عنوان سے لکھی گئی ان تحریروں کا تعارف کئی بار ترجمان القرآن کے صفحات پر کروایا جاچکا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن آج ان ’مغربی سفارشات‘ کی عملی تصویر پیش کررہے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں اس پر داعش کا مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد خود عراقی پارلیمنٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی کہ اس بارے میں حقائق پیش کرے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں اس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ سقوط موصل کے اصل ذمہ دار اس وقت کے عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ان کے معاونین تھے۔ کچھ عرصہ قبل الاخوان المسلمون عراق کے سابق سربراہ نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ موصل پر داعش کا حملہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم نوری المالکی نے ۱۰ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے سامنے وہاں موجود ۷۰ ہزار سے زائد عراقی افواج کو اپنا تمام تر جدید ترین اسلحہ وہیں چھوڑ کر، وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ یہی اسلحہ بعد میں داعش کے ہاتھ آیا۔ گذشتہ دوبرس کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ امریکی افواج نے ’غلطی‘ سے مزید جدید اسلحہ داعش کے زیرقبضہ علاقے میں اتار دیا۔ حال ہی میں روتانا الخلیجیۃ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے بعض علاقوں کو جب دہشت گردوں سے آزاد کروایا گیا تو وہاں سے کثیر تعداد میں مغربی ممالک کا فراہم کردہ بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ’’امریکی کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ داعش کے مقابلے کے لیے دیا گیا ہے … ہم بھی تو داعش کا مقابلہ کررہے ہیں، آؤ پھر ہم مل کر اس سے لڑیں … ایک دوسرے کو یا خود کو دھوکا دینے سے باز آجانا چاہیے‘‘۔
موصل پر حالیہ حملے کا خوف ناک ترین پہلو اسے شیعہ سُنّی تصادم کی بلندیوں پر پہنچا دینا ہے۔ موصل پر حملے سے کئی ہفتے پہلے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعصبات کے شعلے بھڑکائے جانے لگے۔ موصل شہر کی ۹۰ فی صد سے زائد اکثریت سنی آبادی پر مشتمل ہے۔ داعش نے پوری آبادی کو یرغمال اور اپنی مرضی کا پابند کردیا۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر عراقی فوج اور الحشد الشعبی کو جو مذہبی غذا فراہم کی گئی، وہ تمام اہل سنت مسلمانوں سے نفرت و انتقام پر مشتمل تھی۔ الحشد الشعبی بنیادی طور پر درجنوں مسلح شیعہ رضاکار گروہوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہر گروہ کسی نہ کسی علاقے میں ’مخالفین‘ کے خلاف کوئی بڑا ’کارنامہ‘ انجام دے چکا ہے۔ ایک گروہ کے سربراہ قیس الخزعلی حملے سے پہلے اپنے کارکنان کو تیار کرتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں: ’’امام حسینؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیتے ہوئے کارروائی کرنا ہے‘‘۔ ’’یہ لوگ انھی باپ دادا کی اولاد ہیں جنہوں نے امام (حسینؓ) کو قتل کیا تھا‘‘۔ اس طرح کے اشتعال انگیز ویڈیوز بڑے پیمانے پر پھیلائے جارہے ہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ یہاں دیگ کا ایک چاول صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ اس مہیب خطرے سے خبردار کیا جاسکے۔ اس تناظر میں یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ دوران جنگ اور بعد از جنگ خدانخواستہ قتل و انتقام کیا مہیب صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملہ شروع ہوا، اسی روز کا برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ لکھتا ہے:
After ISIS the future of Mousal will be decided by sactarian forces داعش کے بعد موصل کے مستقبل کا فیصلہ فرقہ پرست قوتیں کریں گی۔
موصل کے قریب واقع شہر ’تلعفر‘ بنیادی طور پر ترکمانی النسل اہل سنت اکثریت پر مشتمل ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء کے دوران یہاں القاعدہ اور شیعہ ملیشیا تنظیموں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہیں، جن میں شیعہ ملیشیا کو شکست ہوئی۔ حالیہ حملے کے ساتھ ہی یہ امریکی یقین دہانیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ ’تلعفر ‘ کو شیعہ ملیشیا کے سپرد کردیا جائے گا۔ نینویٰ ہی کا ایک اور شہر ’سنجار‘ کرد اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ کرد قوم پرست تنظیم PKK اور ایک حصہ داعش کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔ یہ دونوں اسی علاقے سے ترکی کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف ترکی براہِ راست اور بالواسطہ اس لڑائی میں شریک رہنا چاہتا ہے۔ ترکی کا ایک اہم مقصد موصل میں مذہبی منافرت کو روکنا بھی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔ دوسری جانب عراقی کردستان کی فوج ’بشمرگا‘ اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہے۔ کردستان اس جنگ کے ذریعے اپنی مستقل حدود طے کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور روس بھی تمام تر باہمی کھینچا تانی اور بظاہر تنازعات کے باوجود اس جنگ میں ایک ہی ہدف رکھتے ہیں کہ خطے میں اپنے اپنے مہروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرسکیں۔
اس پورے نقشے پر دوبارہ نگاہ ڈالیں اور پھر مختلف اطراف بالخصوص روس کی طرف سے بار بار تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی بات سنیں، اس کی طرف سے اپنے شہریوں کو خبردار رہنے کے اعلانات اور جدید و قدیم بحری بیڑے خطے میں بھیجے جانے کی خبریں سنیں تو حالات کی مزید سنگینی سامنے آتی ہے۔ گذشتہ دونوں عالمی جنگوں کے بعد بھی عالمی قوتوں کا نیا میزانیہ سامنے آیا اور عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کردیے گئے تھے۔ لاکھوں بے گناہ انسان رزق خاک بنادیے گئے۔ اب ایک بار پھر خطے کی تقسیمِ نو کی باتیں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔
۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملے کا آغاز ہوا اور ۱۸؍ اکتوبر کو دی واشنگٹن ٹائمز نے تجزیہ شائع کیا کہ ۱۰برس قبل امریکی ذمہ دار جوبائیڈن کی طرف سے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر عمل درآمد کا وقت قریب آن لگا ہے۔ مختلف امریکی تھنک ٹینک تمام مکروہ منصوبے دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عراق کے مغربی علاقے میں ایک الگ ملک بننے کے تمام تر عوامل موجود ہیں۔ تقریباً تمام چوٹی کے امریکی جرائد و رسائل، عراق اور شام میں جاری لڑائی کی کوکھ سے نئے ممالک وجود میں آنے اور ان کی مشکلات و مستقبل کے اثرات کا تجزیہ کررہے ہیں۔ تجزیے ہی نہیں شام اور عراق تو عملاً تقسیم کیے جاچکے ہیں، بس نقشے میں رنگ بھرنا اور تقسیم کے عمل کو خطے کے کئی دیگر ممالک تک پھیلانا باقی ہے۔ بدقسمتی سے یہ رنگ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے بھرا جارہا ہے۔
اسی بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہے: ’’ہر وہ ملک جو شامی حکومت اور شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے، وہ گذشتہ پانچ برسوں میں قتل کیے جانے والے ۶ لاکھ بے گناہ شہریوں کے خون میں برابر کا شریک ہے۔ اب حالات جس مرحلے تک آن پہنچے ہیں وہ شام کی حدود تک محدود نہیں رہے۔ اب یہ مسئلہ ترکی اور ترک عوام کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم نے مصمم ارادہ اور حتمی فیصلہ کیا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ شامی سرزمین کی وحدت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے شامی عوام کے کامل حق کے بارے میں ہمارا واضح موقف ساری دنیا کو معلوم رہنا چاہیے‘‘۔
صدر اردوان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’ہم نے شامی علاقے جرابلس کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے معتدل شامی اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب تک آزاد کروائے جانے والے علاقوں کے ۴۰ ہزار کے قریب شہری اب وہاں واپس جاچکے ہیں۔‘‘ مغربی سازشوں کے پیچھے اصل ہدف واضح کرتے ہوئے صدر اردوان کا کہنا تھا ’’ان کا اصل مقصد (ہماری سرحدوں سے متصل) ان شامی علاقوں پر قبضہ کرنا اور شمالی شام میں دہشت گردی پر مشتمل ایک کاریڈور بنانا ہے___ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ترک سرزمین کی سلامتی کو درپیش ہر خطرے کامقابلہ کریں گے۔ترک سرحد سے متصل شام کا ۵ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ وہاں مقیم ہمارے برادر عرب عوام کے لیے پر امن بنانا ضروری ہے۔‘‘
ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے مغرب کے دوغلے پن کے بارے میں اردوان کا کہنا ہے: ہم نے ۳۰ لاکھ سے زائد اپنے شامی بھائیوں کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ اب تک ہم ان کی خدمت کے لیے سرکاری خزانے سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ اتنا ہی سرمایہ مختلف ترک رفاہی ادارے خرچ کرچکے ہیں (یعنی ۲۵؍ ارب ڈالر)…لیکن افسوس کہ تمام تر دعووں کے باوجود ساری عالمی برادری نے اب تک صرف ۵۲کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں… حیرت ہے کہ ساری مغربی دنیا اپنی ان انسانی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں بھی شامی پناہ گزینوں کے لیے خاردار تاریں لگا رہے ہیں لیکن ہم اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے‘‘۔
ترک صدر کے خطاب اور انٹرویو سے یہ قدرے طویل اقتباسات حالات کی جامع عکاسی کرتے ہیں۔ فعال کردار ادا کرنے کی انھی کوششوں کی وجہ سے ترکی کو ہر طرف سے مزید دشمنیوں کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کے وزرا تو آئے دن دشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں۔
شام اور عراق میں روس اور ایران کا موقف بھی ترک پالیسی سے یکسر متصادم ہے، لیکن تمام تر تلخیوں اور اختلافات کے باوجود ترکی نے سفارتی محاذ پر دونوں ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ ایران نے بھی ۱۵جولائی کو ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی کھل کر مذمت کی ہے۔ بغاوت کی رات ایرانی وزیر خارجہ نے تین بار اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کرتے ہوئے منتخب حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کچھ روز بعد ترک وزیر خارجہ بھی اچانک تہران کے دورے پر چلے گئے۔ اسی طرح روس نے بھی بغاوت کی ناکامی یقینی ہوجانے کے بعد اس کی بھرپور مذمت کی۔ تمام تر اختلافات کے باوجود پیہم رابطوں کا ایک بنیادی سبب ان تینوں ممالک کے مؤثر اقتصادی تعلقات ہے۔
۲۴نومبر ۲۰۱۵ء کو ترک فضائیہ نے اپنی سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا جنگی طیارہ ’سوخو۲۴‘ مار گرایا۔ اس کے بعد ترک روس تعلقات بدترین صورت اختیار کرگئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے وسیع اور اہم ترین اقتصادی معاہدے اور منصوبے معلق ہوجانے کے بعد دونوں ملکوں نے بالآخر معاملات کافی حد تک سلجھا لیے ہیں۔ روسی صدر پوٹن اور طیب اردوان کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ترکی کی حتی المقدور کوشش ہے کہ ایران، شام، عراق اور ترکی کے سنگم پر امریکا اور روس کو کوئی ایسا علاقہ قائم نہ کرنے دے جو ان سب ممالک کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے۔ دوسری طرف ترکی سے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والی کئی قوتیں بہرصورت ترکی کو طویل جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ہر روز ترکی کے کسی نہ کسی شہر میں پولیس اور فوجی مراکز پر دھماکے ہوجاتے ہیں۔ ترک معیشت کے اہم ستون سیاحت کو تباہ کرنا عالمی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ اللہ کرے کہ تمام مسلمان ممالک اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں کہ دشمن کا ہدف کوئی ایک نہیں سب ممالک ہیں۔
اس ساری لڑائی کا ایک بہت اہم پہلو وہ دینی بحث ہے، جو بعض مخصوص حلقوں میں گہری دل چسپی کا باعث بنتی ہے اور اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ تیسری عالمی جنگ، علاقے کے بعض شہروں اور قصبوں کے ناموں اور ظاہر ہونے والے بعض کرداروں پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فتنوں اور مراحل سے اُمت کو خبردار بھی کیا اور پیشن گوئیاں بھی کی ہیں۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آخری عہد کے عظیم ترین فتنوں اور نشانیوں کا اطلاق خود اپنے آپ پر کرتے ہوئے، بہت سے گروہوں اور افراد نے کئی بار خود کو ’خلافت‘ کا امین اور ’امام مہدی‘ تک قرار دے ڈالا ہے۔ اب ایک طرف داعش کا دعواے خلافت دیکھیں اور دوسری جانب صلیبی اور صہیونی طاقتوں کی اس کھلی عیاری کو دیکھیں کہ وہی انھیں تمام اسباب بقا فراہم کرنے والے ہیں، تو ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ صحیح احادیث میں بیان کیے گئے مراحل کی حقیقت کو بدل کر یا کسی غلط فہمی یا ضد کا شکار ہو کر دشمن کے اصل منصوبوں میں معاون بن جانا کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حالیہ دورِ فتن کا ایک بدترین المیہ یہ بھی ہے کہ کئی مسلم ممالک اور عوام پر مسلط کم ظرف حکمران ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ شیعہ سُنّی اور عرب و عجم کی لڑائی کی ایک رذیل مثال گذشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی، جب سعودی عرب نے مصر کو مزید اربوں ڈالر دینے سے عارضی معذرت کرلی۔ یہ خبریں سامنے آتے ہی مصر کی شاہراہوں پر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے جہازی سائز کے کچھ اعلانات اور بورڈ لگا دیے گئے۔ اس اعلان میں ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی بڑی سی تصویر ہے، جو اپنی ’سیلفی‘ تصویر بنارہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں سعودی دار الحکومت ریاض کے دو نمایاں ترین ٹاور اور کویتی دارالحکومت کی علامت بلند ترین ٹاور دکھائی دے رہے ہیں۔ عرب سفارت کار اس تصویر کی یہ تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’اس میں یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ ہماری مدد نہ کی گئی تو سعودی عرب اور کویت پر ایران قبضہ کرلے گا‘‘۔ اسی دوران میں شام میں جاری لڑائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد پر راے شماری ہوئی تو حیرت انگیز طور پر مصر نے روس اور ایران کے موقف کے حق میں اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ووٹ دیا۔ اس پر خلیجی ریاستوں اور مصر کے ذرائع ابلاغ میں مسلسل بحث جاری ہے۔
سوال: فجر کی سنتیں فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنا صحیح ہے یا صحیح نہیں؟
جواب: شیخ الاسلام بُرہان الدین مرغینالیؒ ھدایہ میں لکھتے ہیں: ’’جب فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو سورج نکلنے سے پہلے ان کی قضا نہیں پڑھی جائے گی، اس لیے کہ سنت جب اپنے وقت سے رہ جائیں تو پھر وہ نفل بن جاتے ہیں اور نفل صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک مکروہ ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کے نزدیک سورج کے بلند ہونے کے بعد ان کی قضا نہیں ہے مگر امام محمدؒ نے فرمایا ہے کہ مجھے تو یہ پسند ہے کہ سورج کے بلند ہونے کے بعد زوال تک ان کی قضا پڑھ لی جائے‘‘۔
امام محمد بن محمود بابرتیؒ (متوفی ۷۸۶ھ) عنایہ علی الھدایہ میں لکھتے ہیں:’’ بعض فقہا نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کا مقصد یہ ہے کہ: قضا واجب نہیں ہے، لیکن اگر قضا پڑھ لی گئی تو کوئی باک بھی نہیں ہے اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ قضا پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر نہ پڑھنے میں کوئی باک بھی نہیں ہے (یعنی قضا نہ پڑھنے میں ورنہ بغیر عذر کے وقت پر نہ پڑھنے میں تو گناہ ہے)۔ اس اعتبار سے ہمارے ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن بعض علما نے کہا ہے کہ اختلاف تو ہے مگر صرف اتنا کہ اگر کسی نے قضا پڑھ لی تو ابوحنیفہؒ و ابویوسفؒ کے نزدیک یہ نفل شمار ہوں گے اور امام محمدؒ کے نزدیک یہ سنت کی قضا ہوگی۔(رد المحتار، ص ۶۷۲، ج۱، طبع قدیم)
یہی وضاحت ابن عابدین شامیؒ نے درمختار کے حاشیے رد المحتارمیں بھی کی ہے۔ امام محمد بابرتی اور شامی کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں فرض نماز کے متصل بعد قضا پڑھنا امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ تینوں کے نزدیک مکروہ ہے اور سورج نکلنے کے بعدزوال سے قبل ان کی قضا پڑھنا تینوں کے نزدیک جائز ہے ،مکروہ نہیں ۔ عبادات میں جائز اور غیرمکروہ کام مستحب ہوتا ہے، اس لیے کہ عبادت محضہ کا اجروثواب کے علاوہ اور کوئی مقصد ہوتا نہیں اور ثواب کے کاموں کا ادنیٰ درجہ مستحب ہوتا ہے۔ امام احمدؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بھی: ’’فجر کی سنتوں کی قضا سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنی بہتر ہے‘‘۔ البتہ امام احمدؒ کے نزدیک: ’’اگر فجر کی نماز کے بعد پڑھی لی جائیں تو کوئی باک بھی نہیں ہے‘‘۔(المغنی لابن قدامہ، ص ۸۹، ج۲)
ان ائمہ کی دلیل حضرت ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے‘‘۔(سنن ترمذی)
امام شافعی کا قول جدید اور شافعیہ کا متداول مسلک یہ ہے کہ: ’’فجر کی سنتیں فرض کے متصل بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ نماز کے بعد پڑھ لی جائیں‘‘۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ: ’’نفل نماز نہیں ہے بلکہ سنتوں کی قضا ہے اور صبح کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھنا جائز ہے‘‘۔ ان کی دوسری دلیل قیس بن قہدؓ کی یہ حدیث ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور اقامت ہوئی تو میں نے (سنتیں چھوڑ کر) آپؐ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ سلام کے بعد جب آپؐ نے نمازیوں کی طرف رُخ کیا اور مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ’’رُک جائو اے قیس! کیا دونمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ: ’’میں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’اذن شافعیہ‘ ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب سنتیں پڑھ رہے ہو تو کوئی باک نہیں ہے اور حنفیہ یہ معنی کرتے ہیں کہ جب سنت ہیں تو نہ پڑھو۔(سنن ترمذی)
اس لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے، یعنی اس سے اباحت اور کراہت دونوں ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن دوسری روایات سے اباحت اور جواز کے معنی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ یہ حدیث مسنداحمد، ابوداؤد ، ابن ماجہ اورابن خزیمہ میں بھی نقل ہوئی ہے اور آخر میں ’فسکت رسول اللہ‘ کا لفظ آیا ہے اور ابن حبان کی روایت میں ’فلم ینکر‘ کا لفظ آیا ہے۔ (مسنداحمد، ج۵،ص۴۴۷، ابوداؤد، ج۲، ص ۵۱، ابن ماجہ بتحقیق محمد عبدالفوائد، ص۳۶۵)
ظاہر ہے کہ فسکت اور فلم ینکر ،یعنی آپ خاموش رہے اور کوئی اعتراض نہ کیا کہ الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے بھی فجر کی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں اور جس حدیث میں سورج نکلنے کے بعد پڑھنے کا ذکر ہوا ہے، اس میں پہلے پڑھنے کی ممانعت نہیں کی گئی۔ باقی رہی وہ حدیث جس میں نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نمازِ عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو یہ ’نہی‘ [منع کرنا]عام نوافل کے بارے میں ہے، قضا نماز کے بارے میں نہیں ہے اور یہ تو فجر کی سنتوں کی قضا تھی۔
اگرچہ سنتوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اس کی ممانعت بھی کسی حدیث میں نہیں آئی بلکہ ظہر کی دو رکعت سنتوں کی قضا نمازِ عصر کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور فجر کی سنتوں کی قضا سورج نکلنے کے بعد مذکورہ قولی حدیث سے اور نمازِ فجر کے بعد مذکورہ تقریری حدیث سے ثابت ہے۔ مذکورہ بحث کے نتیجے میں بہتر اور افضل تو یہ ہے کہ فجر کی سنتیں رہ جائیں تو سورج طلوع ہونے کے بعد اور زوال سے قبل ان کی قضا پڑھی جائے۔
جمہور فقہا کی راے بھی یہی ہے کہ نمازِ فجر کے فوراً بعد پڑھنا بھی جائز ہے، اس لیے کہ رسولؐ اللہ نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ اگرچہ حنفی فقہ کے ائمہ ثلاثہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسف اور امام محمدؒ کے نزدیک نمازِ فجر کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے تو اس کی دلیل کو مَیں سمجھ نہیں سکا ہوں۔ اگر مکردہ تنزیہی،یعنی غیراولیٰ مراد ہے تو پھر یہ صحیح ہے مگر فقہ حنفی کی کتابوں میں جب لفظ کردہ مطلقاً ذکر ہو تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے۔ (مولانا گوہر رحمان، تفہیم المسائل، چہارم، ص ۳۶۶-۳۷۰)
س : ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے ۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔میت کوغسل دیتے وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ: ’’پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے‘‘ ۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا، جس طرح غسل دیا جاتا ہے ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائے گا؟
دوسرا یہ کہ ایک صاحب بُری طرح حادثے کا شکار ہوگئے۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا ۔ اس کے بعد نعش کو ورثا کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی تھی ۔ حادثے میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟
ج: اصطلاحِ شریعت میں شہیداس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقعے پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے اللہ کے رسولؐ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: ’’انھیں بغیر غسل دیے دفن کردو‘‘۔(بخاری)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ، مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے (بخاری:۶۵۳)۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (بخاری:۲۴۸۰، مسلم: ۱۴۱)۔ ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انھیں غسل دیا جائے گا۔
پھر اگر: ’’حادثے میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟‘‘ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ: ’’اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک: ’’جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا‘‘۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ: ’’جنگِ جمل کے موقعے پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔ تب اہلِ مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقعے پر انھوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ‘‘۔
بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن [سرایتِ مرض] کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہیے اور اس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ (مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
مسلم سجاد صاحب کی یاد میں پروفیسر خورشید احمد کے مضمون (اکتوبر ۲۰۱۶ء) سے ان کے انتقال کی اطلاع ملی۔ دل کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص رحمت سے نوازے اور دین کے لیے ان کے سعی و عمل کا بہتر سے بہتر صلہ عطا فرمائے۔آمین! ترجمان کے مرتب کی حیثیت کے علاوہ مَیں ان کی دیگر خدمات سے زیادہ واقف نہ تھا۔ اس مضمون سے ان کی خوبیوں کا علم ہوا، اور واقعتاً ان کی وفات سے دلی رنج ہوا۔
مدیر’ترجمان القرآن‘ نے ’اشارات‘ (اکتوبر ۲۰۱۶ء) میں وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے کی بنیاد پر، اُس ذہنیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ جس کے علَم بردار لوگ، دین اسلام کو اپنی خواہشات کا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما میرقاسم علی شہید پر معلومات افزا مضمون نے بنگلہ دیش کی دل دہلا دینے والی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ہوش عطا کرے۔
ایس احمد پیرزادہ کے مضمون ’غلامی یا پچھتاوا‘ (اکتوبر ۲۰۱۶ء) کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ اہلِ کشمیر کس ذہنی اذیت و کرب اور ظلم و ستم کا روز سامنا کرتے ہیں۔ مضمون نگار نے وہاں کے الم ناک حالات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اسی وحشیانہ جبر کا نتیجہ ہے کہ آج کشمیر کی نوجوان نسل بھارتی جبر کے سامنے سینہ تان کر ڈٹ گئی ہے۔
عالمی ترجمان القرآن (اکتوبر ۲۰۱۶ء) میں ’اختلاف اُمت: نجات کی راہ؟‘پر مضمون اپنے مندرجات کے لحاظ سے بڑا اہم اور برمحل ہے۔ آج کل دو کلمے عام طور پر بولے جاتے ہیں: ’اختلاف اور تفرقہ‘۔ عام لوگ اور خواص بولتے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر درج ذیل نکات پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے:
۱-اختلاف اور تفرقے میں بنیادی فرق کیا ہے؟۲-کب اختلاف صرف اختلاف رہتا ہے؟۳-کب اختلاف تفرقہ میں بدل جاتا ہے؟۴-کب تفرقہ و اختلاف ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں؟۵ -تفرقہ و اختلاف کو کم کرنے یا ختم کرنے کے کون سے عوامل ہیں؟۶-اختلاف اُمتی رحمۃ کس پایے کی حدیث ہے؟۷-کیا یہ کہنا کہ اختلاف محمود ہے اور تفرقہ مذموم ہے، صحیح ہے؟۸-قرآنِ مجید میں اختلاف اپنے مادے کے لحاظ سے ۱۲۶مرتبہ آیا ہے جب کہ تفرقہ اپنے مادے کے لحاظ سے ۷۱ مرتبہ آیا ہے۔اس قسم کے مضمون سے اختلاف اور تفرقے میں فرق کیا جاسکے گا۔
انفرادی کوشش کا طریقہ یہ ہے کہ ہرشخص کچھ نہ کچھ ایسے نیک اعمال کا التزام کرے، جو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ ہوں، اور ہمیشہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ اسے زیادہ دل چسپی اِن مخفی نیکیوں میں محسوس ہوتی ہے یا اُن نیکیوں میں جو منظرعام پر آنے والی ہوں۔ اگر دوسری صورت ہو تو آدمی کو فوراً خبردار ہو جانا چاہیے کہ ’ریا‘ اس کے اندر نفوذ کر رہا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے پوری قوتِ ارادی کے ساتھ نفس کی اس کیفیت کو بدلنے کی سعی کرنی چاہیے۔
اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے، اپنے کاموں میں اعلان و اظہار کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے۔ جماعتی مشوروں اور گفتگوئوں میں یہ بات کبھی اشارۃً و کنایۃً بھی برداشت نہ کی جائے کہ: فلاں کام اس لیے کرنا چاہیے کہ وہ مقبولیت کا ذریعہ ہے اور فلاں کام اس لیے نہ کرنا چاہیے کہ اسے لوگ پسند نہیں کرتے۔ جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمت، ہردو سے بے نیاز ہوکر کام کرنے کی ذہنیت پیدا کرے اور اُس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے۔
اس کے باوجود اگر کچھ افراد جماعت میں ایسے پائے جائیں جن میں ’ریا ‘کی بو محسوس ہو تو ان کی ہمت افزائی کرنے کے بجاے ان کے علاج کی فکر کی جانی چاہیے۔ (’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۷، عدد۳، صَفر ۱۳۷۶ھ،نومبر ۱۹۵۶ء، ص ۱۵۱)