سوال: فجر کی سنتیں فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنا صحیح ہے یا صحیح نہیں؟
جواب: شیخ الاسلام بُرہان الدین مرغینالیؒ ھدایہ میں لکھتے ہیں: ’’جب فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو سورج نکلنے سے پہلے ان کی قضا نہیں پڑھی جائے گی، اس لیے کہ سنت جب اپنے وقت سے رہ جائیں تو پھر وہ نفل بن جاتے ہیں اور نفل صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک مکروہ ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کے نزدیک سورج کے بلند ہونے کے بعد ان کی قضا نہیں ہے مگر امام محمدؒ نے فرمایا ہے کہ مجھے تو یہ پسند ہے کہ سورج کے بلند ہونے کے بعد زوال تک ان کی قضا پڑھ لی جائے‘‘۔
امام محمد بن محمود بابرتیؒ (متوفی ۷۸۶ھ) عنایہ علی الھدایہ میں لکھتے ہیں:’’ بعض فقہا نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اور ابویوسفؒ کا مقصد یہ ہے کہ: قضا واجب نہیں ہے، لیکن اگر قضا پڑھ لی گئی تو کوئی باک بھی نہیں ہے اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ قضا پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر نہ پڑھنے میں کوئی باک بھی نہیں ہے (یعنی قضا نہ پڑھنے میں ورنہ بغیر عذر کے وقت پر نہ پڑھنے میں تو گناہ ہے)۔ اس اعتبار سے ہمارے ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن بعض علما نے کہا ہے کہ اختلاف تو ہے مگر صرف اتنا کہ اگر کسی نے قضا پڑھ لی تو ابوحنیفہؒ و ابویوسفؒ کے نزدیک یہ نفل شمار ہوں گے اور امام محمدؒ کے نزدیک یہ سنت کی قضا ہوگی۔(رد المحتار، ص ۶۷۲، ج۱، طبع قدیم)
یہی وضاحت ابن عابدین شامیؒ نے درمختار کے حاشیے رد المحتارمیں بھی کی ہے۔ امام محمد بابرتی اور شامی کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں فرض نماز کے متصل بعد قضا پڑھنا امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ تینوں کے نزدیک مکروہ ہے اور سورج نکلنے کے بعدزوال سے قبل ان کی قضا پڑھنا تینوں کے نزدیک جائز ہے ،مکروہ نہیں ۔ عبادات میں جائز اور غیرمکروہ کام مستحب ہوتا ہے، اس لیے کہ عبادت محضہ کا اجروثواب کے علاوہ اور کوئی مقصد ہوتا نہیں اور ثواب کے کاموں کا ادنیٰ درجہ مستحب ہوتا ہے۔ امام احمدؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بھی: ’’فجر کی سنتوں کی قضا سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنی بہتر ہے‘‘۔ البتہ امام احمدؒ کے نزدیک: ’’اگر فجر کی نماز کے بعد پڑھی لی جائیں تو کوئی باک بھی نہیں ہے‘‘۔(المغنی لابن قدامہ، ص ۸۹، ج۲)
ان ائمہ کی دلیل حضرت ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے‘‘۔(سنن ترمذی)
امام شافعی کا قول جدید اور شافعیہ کا متداول مسلک یہ ہے کہ: ’’فجر کی سنتیں فرض کے متصل بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ نماز کے بعد پڑھ لی جائیں‘‘۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ: ’’نفل نماز نہیں ہے بلکہ سنتوں کی قضا ہے اور صبح کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھنا جائز ہے‘‘۔ ان کی دوسری دلیل قیس بن قہدؓ کی یہ حدیث ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور اقامت ہوئی تو میں نے (سنتیں چھوڑ کر) آپؐ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ سلام کے بعد جب آپؐ نے نمازیوں کی طرف رُخ کیا اور مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ’’رُک جائو اے قیس! کیا دونمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ: ’’میں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’اذن شافعیہ‘ ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب سنتیں پڑھ رہے ہو تو کوئی باک نہیں ہے اور حنفیہ یہ معنی کرتے ہیں کہ جب سنت ہیں تو نہ پڑھو۔(سنن ترمذی)
اس لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے، یعنی اس سے اباحت اور کراہت دونوں ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن دوسری روایات سے اباحت اور جواز کے معنی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ یہ حدیث مسنداحمد، ابوداؤد ، ابن ماجہ اورابن خزیمہ میں بھی نقل ہوئی ہے اور آخر میں ’فسکت رسول اللہ‘ کا لفظ آیا ہے اور ابن حبان کی روایت میں ’فلم ینکر‘ کا لفظ آیا ہے۔ (مسنداحمد، ج۵،ص۴۴۷، ابوداؤد، ج۲، ص ۵۱، ابن ماجہ بتحقیق محمد عبدالفوائد، ص۳۶۵)
ظاہر ہے کہ فسکت اور فلم ینکر ،یعنی آپ خاموش رہے اور کوئی اعتراض نہ کیا کہ الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے بھی فجر کی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں اور جس حدیث میں سورج نکلنے کے بعد پڑھنے کا ذکر ہوا ہے، اس میں پہلے پڑھنے کی ممانعت نہیں کی گئی۔ باقی رہی وہ حدیث جس میں نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نمازِ عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو یہ ’نہی‘ [منع کرنا]عام نوافل کے بارے میں ہے، قضا نماز کے بارے میں نہیں ہے اور یہ تو فجر کی سنتوں کی قضا تھی۔
اگرچہ سنتوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اس کی ممانعت بھی کسی حدیث میں نہیں آئی بلکہ ظہر کی دو رکعت سنتوں کی قضا نمازِ عصر کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور فجر کی سنتوں کی قضا سورج نکلنے کے بعد مذکورہ قولی حدیث سے اور نمازِ فجر کے بعد مذکورہ تقریری حدیث سے ثابت ہے۔ مذکورہ بحث کے نتیجے میں بہتر اور افضل تو یہ ہے کہ فجر کی سنتیں رہ جائیں تو سورج طلوع ہونے کے بعد اور زوال سے قبل ان کی قضا پڑھی جائے۔
جمہور فقہا کی راے بھی یہی ہے کہ نمازِ فجر کے فوراً بعد پڑھنا بھی جائز ہے، اس لیے کہ رسولؐ اللہ نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ اگرچہ حنفی فقہ کے ائمہ ثلاثہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسف اور امام محمدؒ کے نزدیک نمازِ فجر کے بعد اور طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے تو اس کی دلیل کو مَیں سمجھ نہیں سکا ہوں۔ اگر مکردہ تنزیہی،یعنی غیراولیٰ مراد ہے تو پھر یہ صحیح ہے مگر فقہ حنفی کی کتابوں میں جب لفظ کردہ مطلقاً ذکر ہو تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے۔ (مولانا گوہر رحمان، تفہیم المسائل، چہارم، ص ۳۶۶-۳۷۰)
س : ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے ۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔میت کوغسل دیتے وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ: ’’پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے‘‘ ۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا، جس طرح غسل دیا جاتا ہے ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائے گا؟
دوسرا یہ کہ ایک صاحب بُری طرح حادثے کا شکار ہوگئے۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا ۔ اس کے بعد نعش کو ورثا کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی تھی ۔ حادثے میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟
ج: اصطلاحِ شریعت میں شہیداس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقعے پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے اللہ کے رسولؐ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: ’’انھیں بغیر غسل دیے دفن کردو‘‘۔(بخاری)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ، مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے (بخاری:۶۵۳)۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (بخاری:۲۴۸۰، مسلم: ۱۴۱)۔ ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انھیں غسل دیا جائے گا۔
پھر اگر: ’’حادثے میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟‘‘ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ: ’’اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک: ’’جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا‘‘۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ: ’’جنگِ جمل کے موقعے پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔ تب اہلِ مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقعے پر انھوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ‘‘۔
بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن [سرایتِ مرض] کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہیے اور اس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ (مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)