نومبر ۲۰۱۶

فہرست مضامین

عراق میں حالیہ جنگ اور مشرقِ وسطیٰ

عبد الغفار عزیز | نومبر ۲۰۱۶ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۵۰۰۰ء قبل مسیح کی تاریخ رکھنے والا ’نینویٰ‘ حالیہ عراق کا ایک اہم صوبہ ہے۔ موصل اس کا صدر مقام اور ۴۵۶کلومیٹر پر واقع وفاقی دارالحکومت بغداد کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز ہے۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء سے یہاں گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک طرف عراقی افواج، الحشد الشعبی کے نام سے شیعہ رضاکار لشکر، کرد فوج ’بشمرگہ‘ اور ان سب کو مکمل امریکی سرپرستی اور عسکری تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف ۲۰۱۴ء سے اس پر قابض داعش کے جنگ جُو ہیں۔

گذشتہ برسوں کے دوران یہاں کئی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ عراقی افواج اپنے اور شیعہ لشکروں کے سوا کسی علاقائی قوت کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ داعش خود پر حملہ آور شیعہ لشکروں کے علاوہ مقامی سُنّی آبادی اور صدام حسین کے دست راست عزت الدوری کی قیادت میں قائم نقشبندی لشکر سے بھی برسر پیکار ہے۔ ترکی بھی اپنی سرحد پر ہونے والی اس لڑائی سے لاتعلق نہیں اور عملاً اس میں شرکت چاہتا ہے۔ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے کے باوجود: امریکی، اور عراقی افواج اور دوسری طرف داعش بھی، یعنی یہ تینوں ترکی کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکا ان سب فریقوں کو تادیر باہم خوں ریزی میں مصروف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس آگ پر مسلسل تیل چھڑک رہا ہے۔ جنگ کا شکار بے گناہ شہری بن رہے ہیں، جنھیں ہر جانب سے ظلم و ستم اور مہاجرت کا سامنا ہے۔

۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا کو جس بھرپور عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، موصل ان میں سرفہرست تھا۔ اس وقت امریکی پالیسی ساز اداروں نے واضح سفارشات پیش کی تھیں کہ عراق اور دیگر علاقوں میں درپیش مزاحمت کا مقابلہ صرف ’اسلام کو تقسیم‘ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ Split Islam  کے عنوان سے لکھی گئی ان تحریروں کا تعارف کئی بار ترجمان القرآن کے صفحات پر کروایا جاچکا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن آج ان ’مغربی سفارشات‘ کی عملی تصویر پیش کررہے ہیں۔

عراق کے شہر موصل ہی کی مثال لیجیے۔

۲۰۱۴ء میں اس پر داعش کا مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد خود عراقی پارلیمنٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی کہ اس بارے میں حقائق پیش کرے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں اس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ سقوط موصل کے اصل ذمہ دار اس وقت کے عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ان کے معاونین تھے۔ کچھ عرصہ قبل الاخوان المسلمون عراق کے سابق سربراہ نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ موصل پر داعش کا حملہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم نوری المالکی نے ۱۰ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے سامنے وہاں موجود ۷۰ ہزار سے زائد عراقی افواج کو اپنا تمام تر جدید ترین اسلحہ وہیں چھوڑ کر، وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ یہی اسلحہ بعد میں داعش کے ہاتھ آیا۔ گذشتہ دوبرس کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ امریکی افواج نے ’غلطی‘ سے مزید جدید اسلحہ داعش کے زیرقبضہ علاقے میں اتار دیا۔ حال ہی میں روتانا الخلیجیۃ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے بعض علاقوں کو جب دہشت گردوں سے آزاد کروایا گیا تو وہاں سے کثیر تعداد میں مغربی ممالک کا فراہم کردہ بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ’’امریکی کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ داعش کے مقابلے کے لیے دیا گیا ہے … ہم بھی تو داعش کا مقابلہ کررہے ہیں، آؤ پھر ہم مل کر اس سے لڑیں … ایک دوسرے کو یا خود کو دھوکا دینے سے باز آجانا چاہیے‘‘۔

موصل پر حالیہ حملے کا خوف ناک ترین پہلو اسے شیعہ سُنّی تصادم کی بلندیوں پر پہنچا دینا ہے۔ موصل پر حملے سے کئی ہفتے پہلے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعصبات کے شعلے بھڑکائے جانے لگے۔ موصل شہر کی ۹۰ فی صد سے زائد اکثریت سنی آبادی پر مشتمل ہے۔ داعش نے پوری آبادی کو یرغمال اور اپنی مرضی کا پابند کردیا۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر عراقی فوج اور الحشد الشعبی کو جو مذہبی غذا فراہم کی گئی، وہ تمام اہل سنت مسلمانوں سے نفرت و انتقام پر مشتمل تھی۔ الحشد الشعبی بنیادی طور پر درجنوں مسلح شیعہ رضاکار گروہوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہر گروہ کسی نہ کسی علاقے میں ’مخالفین‘ کے خلاف کوئی بڑا ’کارنامہ‘ انجام دے چکا ہے۔ ایک گروہ کے سربراہ قیس الخزعلی حملے سے پہلے اپنے کارکنان کو تیار کرتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں:    ’’امام حسینؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیتے ہوئے کارروائی کرنا ہے‘‘۔ ’’یہ لوگ انھی باپ دادا کی اولاد ہیں جنہوں نے امام (حسینؓ) کو قتل کیا تھا‘‘۔ اس طرح کے اشتعال انگیز ویڈیوز بڑے پیمانے پر پھیلائے جارہے ہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ یہاں دیگ کا ایک چاول صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ اس مہیب خطرے سے خبردار کیا جاسکے۔ اس تناظر میں یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ دوران جنگ اور بعد از جنگ خدانخواستہ قتل و انتقام کیا مہیب صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملہ شروع ہوا، اسی روز کا برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ لکھتا ہے:

After ISIS the future of Mousal will be decided by sactarian forces  داعش کے بعد موصل کے مستقبل کا فیصلہ فرقہ پرست قوتیں کریں گی۔

یہ صرف ایک پیش گوئی یا تجزیہ نہیں، یہی منصوبے کا اہم ترین ہدف ہے۔

                موصل کے قریب واقع شہر ’تلعفر‘ بنیادی طور پر ترکمانی النسل اہل سنت اکثریت پر مشتمل ہے۔ ۲۰۰۵ء  اور ۲۰۰۶ء کے دوران یہاں القاعدہ اور شیعہ ملیشیا تنظیموں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہیں، جن میں شیعہ ملیشیا کو شکست ہوئی۔ حالیہ حملے کے ساتھ ہی یہ امریکی یقین دہانیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ ’تلعفر ‘ کو شیعہ ملیشیا کے سپرد کردیا جائے گا۔ نینویٰ ہی کا ایک اور شہر ’سنجار‘ کرد اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ کرد قوم پرست تنظیم PKK  اور ایک حصہ داعش کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔ یہ دونوں اسی علاقے سے ترکی کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف ترکی براہِ راست اور بالواسطہ اس لڑائی میں شریک رہنا چاہتا ہے۔ ترکی کا ایک اہم مقصد موصل میں مذہبی منافرت کو روکنا بھی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔ دوسری جانب عراقی کردستان کی فوج ’بشمرگا‘ اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہے۔ کردستان اس جنگ کے ذریعے اپنی مستقل حدود طے کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور روس بھی تمام تر باہمی کھینچا تانی اور بظاہر تنازعات کے باوجود اس جنگ میں ایک ہی ہدف رکھتے ہیں کہ خطے میں اپنے اپنے مہروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرسکیں۔

اس پورے نقشے پر دوبارہ نگاہ ڈالیں اور پھر مختلف اطراف بالخصوص روس کی طرف سے بار بار تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی بات سنیں، اس کی طرف سے اپنے شہریوں کو خبردار رہنے کے اعلانات اور جدید و قدیم بحری بیڑے خطے میں بھیجے جانے کی خبریں سنیں تو حالات کی مزید سنگینی سامنے آتی ہے۔ گذشتہ دونوں عالمی جنگوں کے بعد بھی عالمی قوتوں کا نیا میزانیہ سامنے آیا اور عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کردیے گئے تھے۔ لاکھوں بے گناہ انسان رزق خاک بنادیے گئے۔ اب ایک بار پھر خطے کی تقسیمِ نو کی باتیں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔

۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملے کا آغاز ہوا اور ۱۸؍ اکتوبر کو دی واشنگٹن ٹائمز نے تجزیہ شائع کیا کہ ۱۰برس قبل امریکی ذمہ دار جوبائیڈن کی طرف سے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر عمل درآمد کا وقت قریب آن لگا ہے۔ مختلف امریکی تھنک ٹینک تمام مکروہ منصوبے دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عراق کے مغربی علاقے میں ایک الگ ملک بننے کے تمام تر عوامل موجود ہیں۔ تقریباً تمام چوٹی کے امریکی جرائد و رسائل، عراق اور شام میں جاری لڑائی کی کوکھ سے نئے ممالک وجود میں آنے اور ان کی مشکلات و مستقبل کے اثرات کا تجزیہ کررہے ہیں۔ تجزیے ہی نہیں شام اور عراق تو عملاً تقسیم کیے جاچکے ہیں، بس نقشے میں رنگ بھرنا اور تقسیم کے عمل کو خطے کے کئی دیگر ممالک تک پھیلانا باقی ہے۔ بدقسمتی سے یہ رنگ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے بھرا جارہا ہے۔

اسی بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہے: ’’ہر وہ ملک جو شامی حکومت اور شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے، وہ گذشتہ پانچ برسوں میں قتل کیے جانے والے ۶ لاکھ بے گناہ شہریوں کے خون میں برابر کا شریک ہے۔ اب حالات جس مرحلے تک آن پہنچے ہیں وہ شام کی حدود تک محدود نہیں رہے۔ اب یہ مسئلہ ترکی اور ترک عوام کی بقا کا مسئلہ  بن چکا ہے۔ اس لیے ہم نے مصمم ارادہ اور حتمی فیصلہ کیا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ شامی سرزمین کی وحدت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے شامی عوام کے کامل حق کے بارے میں ہمارا واضح موقف ساری دنیا کو معلوم رہنا چاہیے‘‘۔

صدر اردوان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’ہم نے شامی علاقے جرابلس کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے معتدل شامی اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب تک آزاد کروائے جانے والے علاقوں کے ۴۰ ہزار کے قریب شہری اب وہاں واپس جاچکے ہیں۔‘‘ مغربی سازشوں کے پیچھے اصل ہدف واضح کرتے ہوئے صدر اردوان کا کہنا تھا ’’ان کا اصل مقصد (ہماری سرحدوں سے متصل) ان شامی علاقوں پر قبضہ کرنا اور شمالی شام میں دہشت گردی پر مشتمل ایک کاریڈور بنانا ہے___ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ترک سرزمین کی سلامتی کو درپیش ہر خطرے کامقابلہ کریں گے۔ترک سرحد سے متصل شام کا ۵ہزار مربع کلومیٹر  کا علاقہ وہاں مقیم ہمارے برادر عرب عوام کے لیے پر امن بنانا ضروری ہے۔‘‘

ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے مغرب کے دوغلے پن کے بارے میں اردوان کا کہنا ہے: ہم نے ۳۰ لاکھ سے زائد اپنے شامی بھائیوں کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ اب تک ہم ان کی خدمت کے لیے سرکاری خزانے سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ اتنا ہی سرمایہ مختلف ترک رفاہی ادارے خرچ کرچکے ہیں (یعنی  ۲۵؍ ارب ڈالر)…لیکن  افسوس کہ تمام تر دعووں کے باوجود ساری عالمی برادری نے اب تک صرف ۵۲کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں… حیرت ہے کہ ساری مغربی دنیا اپنی ان انسانی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں بھی شامی پناہ گزینوں کے لیے خاردار تاریں لگا رہے ہیں لیکن ہم اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے‘‘۔

ترک صدر کے خطاب اور انٹرویو سے یہ قدرے طویل اقتباسات حالات کی جامع عکاسی کرتے ہیں۔ فعال کردار ادا کرنے کی انھی کوششوں کی وجہ سے ترکی کو ہر طرف سے مزید دشمنیوں کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کے وزرا تو آئے دن دشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں۔

شام اور عراق میں روس اور ایران کا موقف بھی ترک پالیسی سے یکسر متصادم ہے، لیکن تمام تر تلخیوں اور اختلافات کے باوجود ترکی نے سفارتی محاذ پر دونوں ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ ایران نے بھی ۱۵جولائی کو ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی کھل کر مذمت کی ہے۔ بغاوت کی رات ایرانی وزیر خارجہ نے تین بار اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کرتے ہوئے منتخب حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کچھ روز بعد ترک وزیر خارجہ بھی اچانک تہران کے دورے پر چلے گئے۔ اسی طرح روس نے بھی بغاوت کی ناکامی یقینی ہوجانے کے بعد اس کی بھرپور مذمت کی۔ تمام تر اختلافات کے باوجود پیہم رابطوں کا ایک بنیادی سبب ان تینوں ممالک کے مؤثر اقتصادی تعلقات ہے۔

۲۴نومبر ۲۰۱۵ء کو ترک فضائیہ نے اپنی سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا جنگی طیارہ ’سوخو۲۴‘ مار گرایا۔ اس کے بعد ترک روس تعلقات بدترین صورت اختیار کرگئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے وسیع اور اہم ترین اقتصادی معاہدے اور منصوبے معلق ہوجانے کے بعد دونوں ملکوں نے بالآخر معاملات کافی حد تک سلجھا لیے ہیں۔ روسی صدر پوٹن اور طیب اردوان کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ترکی کی حتی المقدور کوشش ہے کہ ایران، شام، عراق اور ترکی کے سنگم پر امریکا اور روس کو کوئی ایسا علاقہ قائم نہ کرنے دے جو ان سب ممالک کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے۔ دوسری طرف ترکی سے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والی کئی قوتیں بہرصورت ترکی کو طویل جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ہر روز ترکی کے کسی نہ کسی شہر میں پولیس اور فوجی مراکز پر دھماکے ہوجاتے ہیں۔ ترک معیشت کے اہم ستون سیاحت کو تباہ کرنا عالمی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ اللہ کرے کہ تمام مسلمان ممالک اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں کہ دشمن کا ہدف کوئی ایک نہیں سب ممالک ہیں۔

اس ساری لڑائی کا ایک بہت اہم پہلو وہ دینی بحث ہے، جو بعض مخصوص حلقوں میں گہری دل چسپی کا باعث بنتی ہے اور اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ تیسری عالمی جنگ، علاقے کے بعض شہروں اور قصبوں کے ناموں اور ظاہر ہونے والے بعض کرداروں پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فتنوں اور مراحل سے اُمت کو خبردار بھی کیا اور پیشن گوئیاں بھی کی ہیں۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آخری عہد کے عظیم ترین فتنوں اور نشانیوں کا اطلاق خود اپنے آپ پر کرتے ہوئے، بہت سے گروہوں اور افراد نے کئی بار خود کو ’خلافت‘ کا امین اور ’امام مہدی‘ تک قرار دے ڈالا ہے۔ اب ایک طرف داعش کا دعواے خلافت دیکھیں اور دوسری جانب صلیبی اور صہیونی طاقتوں کی اس کھلی عیاری کو دیکھیں کہ وہی انھیں تمام اسباب بقا فراہم کرنے والے ہیں، تو ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ صحیح احادیث میں بیان کیے گئے مراحل کی حقیقت کو بدل کر یا کسی غلط فہمی یا ضد کا شکار ہو کر دشمن کے اصل منصوبوں میں معاون بن جانا کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

حالیہ دورِ فتن کا ایک بدترین المیہ یہ بھی ہے کہ کئی مسلم ممالک اور عوام پر مسلط کم ظرف  حکمران ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ شیعہ سُنّی اور عرب و عجم کی لڑائی کی ایک رذیل مثال گذشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی، جب سعودی عرب نے مصر کو مزید اربوں ڈالر دینے سے عارضی معذرت کرلی۔ یہ خبریں سامنے آتے ہی مصر کی شاہراہوں پر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے جہازی سائز کے کچھ اعلانات اور بورڈ لگا دیے گئے۔ اس اعلان میں ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی بڑی سی تصویر ہے، جو اپنی ’سیلفی‘ تصویر بنارہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں سعودی دار الحکومت ریاض کے دو نمایاں ترین ٹاور اور کویتی دارالحکومت کی علامت بلند ترین ٹاور دکھائی دے رہے ہیں۔ عرب سفارت کار اس تصویر کی یہ تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’اس میں یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ ہماری مدد نہ کی گئی تو سعودی عرب اور کویت پر ایران قبضہ کرلے گا‘‘۔ اسی دوران میں شام میں جاری لڑائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد پر راے شماری ہوئی تو حیرت انگیز طور پر مصر نے روس اور ایران کے موقف کے حق میں اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ووٹ دیا۔ اس پر خلیجی ریاستوں اور مصر کے ذرائع ابلاغ میں مسلسل بحث جاری ہے۔