ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی
اگر آپ جرمنی میں کسی غیرمسلم سے یہ سوال کریں کہ اسلام کے پاس یورپ کو پیش کرنے کے لیے کیا ہے؟ تو شاید اس کا جواب ہو: کچھ نہیں۔ اس جواب کی جڑ اس حقیقت میں پیوست ہے کہ جرمنی کی اکثریت اور شاید د یگر مغربی ممالک اسلام کو عدم تحمل، تشدد، جہالت اور بچھڑے پن سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اسلام کی یہ شبیہہ، جو میڈیا اور سیاست کی پشت پناہی سے مسلسل پیش کی جارہی ہے، حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ مَیں مضبوط دلائل کے ساتھ اس کی حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں۔
ہرشخص کو یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کا طرزِ معاشرت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر اسلام کو مسلمانوں کے رویوں کے ذریعے نہیں جانچا جاسکتا، جب کہ مسلمانوں کے رویوں کی اصلاح کرنے اور انھیں اسلامی تعلیمات کے پیرایے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مصنوعی جواب تمام غیرمسلموں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں۔ شاید وہ آپ کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرلیں کہ اصولوں اور عملی نمونوں کے درمیان فرق مذہب، فکر یا تصورِ کائنات میں پایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے مذہب کی بہترین پیش کش اور صبروتحمل کے ذریعے ہم انھیں مطمئن کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ کہ اسلام منفی پروپیگنڈے کے علی الرغم، مغرب کے سامنے بے شمار چیزیں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے غیرمسلم بھائی یقینا یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ اگر ایسی بات ہے تو مسلمان اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر کیوں نہیں عمل کرتے؟ یا دوسرے الفاظ میں ان کا یہ مطالبہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان جن چیزوں کی تبلیغ کرتے ہیں ان کا عملی مظاہرہ وہ خود کیوں نہیں کرتے؟
بجاطور پر یہ سوالات ہمیں ان بہت سی قرآنی آیات کی یاد دلاتے ہیں، جن میں اعمال اور رویوں کی تضادبیانی پر نکیر کی گئی ہے (الصف ۶۱: ۲-۳) ،اور اس حقیقت کا سراغ ملتا ہے کہ اقوال اور دعوئوں کے لیے عملی نمونوں کی بہرحال ضرورت ہے۔ ہم مسلم دنیا کے اندر موجود قول و فعل کے تضاد کو جس انداز سے بھی پیش کریں اس حقیقت سے منہ نہیں موڑسکتے کہ جب تک ہم اس کھائی کو پاٹنے میں کامیاب نہیں ہوجاتے یا شعوری طور پر اسے کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم کسی کو بھی متاثر اور متوجہ نہیں کرسکتے۔ قبل اس کے کہ ہم اس سوال پر غور کریں کہ اسلام مغرب کو کیا تحفہ دے سکتا ہے؟
ضروری ہے کہ خود مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، جو عصرِحاضر میں اسلام کے نمایندے تصور کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے اس پہلو پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اپنے اردگرد رہنے بسنے والے غیرمسلم بھائیوں کا اعتماد اور یقین کس طرح حاصل کریں، تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوسکیں اور اسلام کو وہ اپنے لیے مفید سمجھیں اور اس کو خوش آمدید کہہ سکیں۔ کبھی کبھی یہ پہلو ان کے سامنے مخفی ہوتا ہے کیوں کہ ان سے اس بات کی توقع عبث ہے کہ وہ اسلام کی خوب صورت حقیقت کو خود سے جان سکیں گے، بالخصوص، جب کہ مسلمانوں کی خوف ناک تصویر کے پیچھے یہ حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہو۔
بڑے پیمانے پر یہ غلط فہمی عام ہوچکی ہے کہ اسلام کا پیغام ۱۴سو سال قبل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دنیا میں پہلی بار آیا تھا، حالاں کہ صحیح بات یوں کہی جانی چاہیے کہ وہ اللہ کے تمام سچّے نبیوں اور رسولوں کی معرفت دنیا میں ابتدا سے آتا رہا ہے۔ اس بنا پر وہ ایک آفاقی پیغام ہے۔ قرآن، جس کی تعلیمات کا اظہار اور نفاذ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوا، وہ آخری پیغام ہے اور گذشتہ تمام رسولوں ؑ کے پیغامات و تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ بھی ہے۔ اس سے یہ بات پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات صرف مغرب کے لیے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ اس کا فیض تمام انسانیت کے لیے عام ہے۔ مَیں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس نکتے کو اپنی گفتگو میں فراموش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ بہ طور خاص اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ بات اب عام طور پر کہی جاتی ہے کہ پوری دنیا ایک گائوں کے مانند ہے۔
اب، جب کہ گلوبلائزیشن (عالم گیریت) کے منظرنامے کا انکار کسی کے بس میں نہیں رہا تو تبلیغ اسلام کی ضرورت کو ہم صرف مغرب ہی تک کیوں محدود کریں؟ چنانچہ اب اگر ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ اسلام مغرب کو کیا پیش کرسکتا ہے؟ تو اس کا محض یہ مفہوم ہونا چاہیے کہ چوں کہ ہم مغرب میں زندگی گزار رہے ہیں، اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے درمیان زندگی گزارنے والوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کریں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ اسلام کے پاس عطا کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ اس کے برعکس یہ حقیقت بالکل واضح رہنی چاہیے کہ جو کچھ اسلام عطا کرتا ہے وہ چند بنیادی حقائق ہیں، خواہ انھیں مغربی تناظر میں پیش کیا جائے یا کسی دوسرے سیاق میں۔
اسلام امن کا ایک پیغام ہے۔ واضح رہے کہ لفظ’اسلام‘ کا انتہائی موزوں ترجمہ ’امن کی نشوونما کرنا‘ یا ’امن کو قائم کرنا‘ ہے۔ اسے صرف اللہ کے سامنے جھکنے یا اس کی اطاعت تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات ہمارے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ اسلام کا تصور جھکنے اور اطاعت قبول کرنے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم، صرف اتنی سی بات سے لفظ ’اسلام‘ کے حقیقی مفہوم کی مکمل ترجمانی نہیں ہوپاتی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا راستہ تصورِ امن ہی سے ہوکر گزرتا ہے اور اس میں بھی کلام کی گنجایش نہیں کہ مسلم ماہرین لغت اور مفسرین کی ایک معتدبہ تعداد نے اسی تصور کو اپنی کتابوں میں درج اور رائج کیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے: لسان العرب، ابن منظور، مادہ سلم)
مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں لفظ اسلام کو زندگی کے ایک ایسے طریقے سے تعبیر کرنا چاہیے جس کا مقصد امن کا قیام ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اس سے ملتے جلتے تصورات پائے جاتے ہیں، مثلاً عیسائیت میں محبت اور بدھ مت میں برداشت کرنے کا تصور۔ مجھے اس امر میں قطعی شبہہ نہیں ہے کہ اسلام کی توہین کرنے کے بعد کبھی بھی قیامِ امن کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اسلام کے بنیادی تصور کا مطلب خدا اور بندے کے تعلق کی وضاحت کرنا ہے۔ اس طرح اسلام کا مفہوم جھکنا اور خالق کی اطاعت کرنا ہے، کیوں کہ خالق کے ساتھ امن کی حالت میں زندگی گزارنا تب ہی ممکن ہے جب اس کی مرضی کی پیروی کی جائے۔ اسی صورت میں خالق کے ساتھ بندے کا تعلق خوش گوار ہوسکتا ہے اور تبھی دیگر شعبوں میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اسلام چاہتا ہے کہ آپ کا تعلق پہلے خالق کے ساتھ، پھر خود آپ کے نفس کے ساتھ، دوسرے انسانوں کے ساتھ، معاشرت کے ساتھ، الغرض پوری دنیا کے ساتھ امن والا ہونا چاہیے۔
اب مَیں اصل موضوع پر آتا ہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام بطور تحفہ بہت کچھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جی ہاں، مغرب کو بھی!
سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک آفاقی تصور رکھتا ہے۔ وہ دیگر تصورات کے بالمقابل پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، کیوں کہ دیگر مذاہب میں تبدیلی کا عمل برابر جاری رہتا ہے، تاکہ ان کو مسلسل تبدیل ہونے والی سماجی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جاسکے۔ اب، جب کہ یہ کوئی اختلافی موضوع نہیں رہا کہ انسانی معاشرہ ارتقا پذیر ہے اور اس میں مسلسل تبدیلی ہورہی ہے، ایسی صورت میں اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے اصولی موقف سماجی تبدیلی کے تابع ہوگا یا سماجی تبدیلی کو ہمارے اصولی موقف کے تابع ہونا چاہیے؟ اسلام اس سلسلے میں مؤخر الذکر نقطۂ نظر کی تائید کرتا ہے۔
عقیدے کی پختگی کو اسلام میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مسلمانوں کے رویوں سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ اگرچہ اسلام اور اس کے نمایندوں کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے، اس کے باوجود مسلمانوں اور اسلام کے اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ مسلمان دوسروں کی بہ نسبت جدید دنیا کے مطابق اپنے کو ڈھالنے میں سخت گیر واقع ہوئے ہیں، کیوں کہ عقیدے سے وابستگی کے گہرے آثار ان کی زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ اس یکسوئی نے دوسروں میں اقدار پر مبنی مسلمانوں کے رویوں کے مطالعے کی رغبت پیدا کی ہے، خواہ ان کا تعلق مذہبی اُمور سے ہو یا غیر مذہبی مسائل سے۔ مثال کے طور پر ان بیانات کو پیش کیا جاتا ہے جو مذہبی اختلافات کے باوجود بین المذاہب مکالموں میں شریک ہونے والے افراد کی زبانی سامنے آتے ہیں کہ بہ حیثیت انسان مسلمانوں کی زندگیاں عقیدے میں پختگی کی شاہ کار ہوتی ہیں۔ جرمنی میں عام سطح پر بھی ان باتوں کی بازگشت سننے کو ملتی ہے، جہاں مہاجرین اور مسلمانوں کو قومی دھارے میں سمونے کی بحثیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ عقیدے کے معاملے میں مسلمانوں کی جذباتیت اور مذہب سے ان کا لگائو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اسلام کے نظامِ اقدار پر ازسرنو غوروفکر کرنے کی دعوت دیتاہے۔ کوئی سیاسی نمایندہ ایسا نظر نہیں آتا جو یہ سوال اُٹھاتا ہو کہ جرمنی کی نمایندہ تہذیب (Let Kulture) کو کس طرح ڈھالا جائے کہ مسلمان اور دیگر مذاہب کے پیروکار اس میں داخل ہوسکیں۔
باواریان (جرمنی کا ایک صوبہ) کی پارلیمنٹ میں گذشتہ دنوں بحث جاری تھی کہ: ’’ایک ایسا قانون وضع کیا جائے جو مذہبی علامات کا تحفظ کرسکے اور گالی، توہین اور مضحکہ خیزی کے مقابلے میں یقین و اعتماد کی فضا پیدا کرسکے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ عیسائی جنون کی موجودگی کے باوجود اس پہل کو مسلمانوں نے خوش آمدید کہا۔ ڈنمارک اور دوسرے مقامات پر توہین آمیز خاکوں کی تشہیر پر ان کا ردعمل اس کی دلیل ہے۔
تصورِ کائنات کے بارے میں اسلام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک انسان نہیں، بلکہ رب العالمین ہے (الفاتحہ۱:۱، البقرہ۲:۳)۔ اس عقیدے سے جواب دہی اور ذمہ داری کا تصور اُبھرتا ہے کہ انسان کے مقابلے میں کوئی عظیم ہستی اس کی سزاوار ہے۔ اس تصور کے نتیجے میں ایک مضبوط و مستحکم اصول وضع ہوتا ہے، وہ یہ کہ احساسِ ذمہ داری کچھ بنیادی اصولوں اور ضابطوں کی متقاضی ہے، جن کے ذریعے انسانوں کے اعمال اور رویے جانچے پرکھے جاسکتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ اصول اور ضابطے انسان نہیں وضع کرسکتا، بلکہ یہ اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہیں جس کو جواب دہی کرنی ہے۔ اسی ہستی کو اللہ رب العالمین، یعنی تمام جہانوں کا مالک کہا جاتا ہے۔ (البقرہ۲:۳۸-۳۹)
بلاشبہہ ایسی ڈھیروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دوا میں الکحل کی آمیزش سے افراد اور مجموعی طور پر پورا معاشرہ پریشانیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ دوا کی عادت دوا کے استعمال کا سبب ہے۔ دوا بذاتِ خود اپنے وجود کا سبب نہیں ہے۔ اس ضمن میں روس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جہاں تیز نشہ آور شراب کا استعمال قدیم رواج کے مطابق وسیع پیمانے پر جاری ہے، اور شراب نوشی سے تشفی کا احساس انسانوں کو ایک ایسی حالت میں دھکیل دیتا ہے جہاں پہنچ کر ان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا ادراک کرنے سے عاری ہیں۔ روس میں اکثر انفرادی طور پر معاشی تنگی ہونے اور اس سے نہ نکل پانے کے نتیجے میں لوگ شراب نوشی کے عادی بن جاتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے لوگ اگرچہ خوش حال زندگی گزارتے ہیں، تاہم وہ بھی نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کی تلخیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔
اسلام ایک ایسی زندگی اور معاشرہ عطا کرتا ہے جس میں الکحل اور منشیات کا گزر نہیں ہے۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی مضبوطی کے ساتھ نشہ آور اشیا کے تعلق سے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں، تاہم اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ موجودہ دور میں نشے سے بچنے والی قوم مسلمان ہی ہے۔ مزیدبرآں متعدد مسلم ممالک الکحل اور منشیات کی روک تھام کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں، تاکہ ان کے نقصانات اور ہلاکت خیز اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔ بلاشبہہ اس طرح کی قانون سازی اور الکحل و منشیات سے دُور رہنے کی فکر رکھنے والے معاشرے میں نہ صرف پریشانیوں میں کمی آئے گی ، بلکہ معاشی تنگی سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا، جب کہ الکحل اور منشیات استعمال کرنے والے معاشرے میں دونوں مسائل باقی رہیں گے۔
عصرِحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کی بہتر تفہیم کرنا عظیم خدمت ہوگی۔ اگر ایک کمیٹی، جو ماہرین معاشیات، سماجی کارکنوں اور محکمہ صحت پر مشتمل ہو، سنجیدگی سے اس مسئلے پر تحقیق کرے اور صحیح اعداد و شمار کی روشنی میں یہ معلوم کرے کہ معاشرے پر پڑنے والے عمومی اخراجات کی کیفیت کیا ہے؟ اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ مثلاً اگر برطانیہ اور جرمنی جیسے یورپی ممالک کے تمام مسلمان الکحل اور نشہ آور اشیا استعمال کرنے لگیں تو کیا وہ اس ملک میں آباد غیرمسلم آبادی کے ذریعے ہونے والے الکحل کے اخراجات کے برابر دولت صَرف کرسکیں گے؟
بدقسمتی یہ ہے کہ اگر کسی طرح اس طرح کی تحقیقی رپورٹ فراہم بھی ہوجائے تو اس کا واقعی اعتبار و استناد قائم نہیں ہوسکتا کیوں کہ بیش تر غیرمسلم ممالک میں حکومتی محاصل کا اکثر حصہ الکحل کی پیداوار اور اس کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے ہرمعقول آدمی کے سامنے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مسلمان بالعموم الکحل اور منشیات کا استعمال نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ حادثات اور جرائم، نیز الکحل کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کو بے تحاشا مالی اخراجات سے بچانا ضروری ہے تاکہ بیماریوں پر آنے والے مالی بوجھ پر یہ بچت صرف کی جاسکے۔
اسلام کی برکت کے طفیل مسلم اُمت انسانی معاشرے کے اندر پُرامن اور خوش گوار تعلق کے قیام کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اس مقصد کی بجاآوری میں انسانوں کے تمام معاشروں کو شراکت داری نبھانی چاہیے۔ اس مقام پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پُرامن اور خوش گوار ہم آہنگی کے قیام اور اس کے طریقوں کے سلسلے میں آرا کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ مخالفین اسلام کو وضعی اور قانونی طریقۂ زندگی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ قوانین رکھنا اور ان کی حفاظت کرتے ہوئے شہریت اختیار کرنا آج صرف اس صورت میں ممکن تصور کیا جاتا ہے، جب کہ یہ قوانین سیکولر ہوں اور مذہب کی بالادستی نہ قبول کرتے ہوں۔ یقینا اسلام محض قانون سازی کی بات نہیں کرتا، بلکہ اس کے سلسلے میں راہ نمائی بھی فراہم کرتا ہے۔
اسلام قانون کا ایک مکمل ڈھانچہ عطا کرتا ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت واضح کرتا ہے اور معاشرے کے اندر خاندان کی نوعیت، کردار اور کارکردگی کے ضوابط اور شرائط بھی متعین کرتا ہے۔
سماجی علوم کے اساتذہ نے ایک عشرہ قبل یورپی معاشروں، مثلاً جرمنی کی ایک تکلیف دہ صورتِ حال کا ذکر کیا تھا اور آج پھر سیاسی لیڈر، اگرچہ تاخیر ہی سے سہی، اس مسئلے پر سوچ بچار کرنے لگے ہیں۔ وہ ہے آبادی میں تخفیف کا مسئلہ۔ اس کے متعدد وجوہ میں سب سے تازہ اور جدید خاندانی منصوبہ بندی کا طریقۂ کار ہے جس نے نہ صرف ہرخاندان میں شرحِ پیدایش میں کمی کردی ہے بلکہ خاندانوں کو بھی کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس کیفیت کو، جسے ماضی قریب میں ’موزوں خاندان‘ کہا جاتا تھا (یعنی شوہر، بیوی اور دو تین بچے) اسے بھی آج ’مناسب خاندان‘ نہیں سمجھا جاتا۔ آج صورت یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک شادی بھی نہیں کرتے، جو لوگ شادی کرتے ہیں ان میں ۵۰ فی صد لوگ ایک یا دو سال میں طلاق دے دیتے ہیں اور پیدا ہوجانے والے بچے اکلوتے والدین کے خاندان (single parent family) ہی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسلام مستحکم خاندانی رشتوں کو استوار کرتا ہے اور اس ضمن میں معقول اصول دیتا ہے۔ یورپی معاشروں میں آبادی میں تخفیف کا مسئلہ اولاً اقتصادیات سے جڑتا ہے، ثانیاً اس کی حیثیت سماجی مسئلے کی بھی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حل کے لیے جو اصول و ضوابط وضع کیے جاتے ہیں وہ بھی سب سے پہلے معاشیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نوعمروں کی کم تعداد بزرگوں کی بڑی تعداد کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ نئی نسل کی کم تعداد کا مطلب یہ ہوگا کہ مستقبل میں خریداروں اور گاہکوں کی تعداد بھی کم ہوجائے گی۔ اس طرح سے یہ معاشی خسارے کا سودا ہوگا۔ اس آسان منطق کی رُو سے جرمنی میں آج کی اتحادی حکومت یہ نتیجہ نکال رہی ہے کہ خاندانی وظیفہ (parent money) کی شکل میں راشن کی تقسیم مسئلے کا ایک حل ہے، اور بچے رکھنا افزایش و ترقی کی ایک ایسی قسم ہے جو صنعت کاری کے مانند ہے۔
یہ بات بجا طور پر قابلِ یقین ہے کہ بچے بے قیمت نہیں ہوتے۔ انسانی نسل کی افزایش کے لیے متعدد شرطیں مطلوب ہیں، جو بہرحال صنعتی پیداوار سے جدا ہیں۔ اسلامی نظریہ صنفی تفریق پر مبنی نہیں ہے اور محض لفظی مساوات کے مفروضے پر بھی قائم نہیں ہے، بلکہ اس میں فطری اختلافات کو اہمیت دیتے ہوئے دونوں صنفوں کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ثابت ہوں، نہ کہ ایک دوسرے کو اس کے مقام سے ہٹانے والے بن جائیں۔ شادی کے عہدوپیمان کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان حقوق و فرائض کا خوب صورت تعلق قائم ہوتاہے اور دونوں کی ضروریات اور ذمہ داریوں کا چارٹر طے ہوتا ہے۔ اس تعلق کے ذریعے ایک ایسی فضا استوار ہوتی ہے جس میں بچے معاشی بوجھ تصور نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں خوشیوں کی سوغات سمجھا جاتا ہے۔
اسلام دنیا کے سامنے چند طریقے اور مناہج پیش کرتا ہے، تاکہ انسانوں اور دیگر تمام مخلوقات کے درمیان پُرامن رشتے بحال ہوسکیں۔ اس ضمن میں ایک بار پھر مَیں معاشی پہلو کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، کیوں کہ غیرمسلم معاشرے میں اس کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں معاشی مفادات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اکثر و بیش تر فطری وسائل و ذخائر اور طاقت و قوت پر قبضے کے تعلق سے جنگیں تک چھڑجاتی ہیں۔
اسلام معاشی جدوجہد اور اقتصادی حرکت و عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، البتہ مسلمانوں کو سود سے دُور رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵-۲۷۹)۔ مسلمانوں نے اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کی ہیں اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے معاشی متبادل فراہم کیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض مغربی بنکوں نے بھی اس کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دینے کا خواب دیکھا اور بنک اکائونٹس کو اسلامی شریعت کے موافق ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام سود (ربوٰ) کے دروازے کو کُلّی طور پر بند کرنا چاہتا ہے، جو آج کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ اس تعلق سے اسلام کا نقطۂ نظر وقت کا ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ موجودہ دور میں ’اسلاموفوبیا ‘کا ایک سبب اس خوف میں محسوس کیا جاسکتا ہے جو موجودہ اقتصادی نظام کے منافع خوروں کے اندر پایا جاتا رہا ہے۔ انھیں اس بات کا خطرہ پریشان کر رہا ہے کہ مشقت اور دولت کے حقیقی وجود کے بغیر انھیں جو منافع حاصل ہو رہا ہے وہ نسبتاً کم ہوجائے گا اور اس کا بہائو بلاسود اسلامی اقتصادی نظام کی طرف ہوجائے گا۔ حالانکہ درحقیقت عصرِحاضر میں مسلمانوں کی اقتصادی کوششیں اور ان کے ادارے براے نام ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں انھوں نے اس میدان میں کافی ترقی کی ہے اور اعتبار حاصل کرلیا ہے۔ نیز وہ اس ضمن میں مسلسل کوشاں بھی ہیں۔ طویل مدتی پالیسی کے تحت ہمیں عالم گیریت کے ممکنہ پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ زیربحث مسئلے پر سوال یہ نہیں ہے کہ مسلم دنیا کی معاشیات مستقبل میں اسلامی شریعت کے اصول و ضوابط پر استوار ہوں گی یا نہیں؟ بلکہ اصل ترجیح یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی اقتصادی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، جو ایک جانب دنیا کی بہت بڑی آبادی کو قرض کے لامتناہی عذاب سے نجات دلا سکے، یعنی ان کی غربت اور حقیقی آزادی سے محرومی کا مسئلہ حل ہوسکے، اور دوسری جانب دنیا کے بقیہ حصے کو اس ظلم اور حرماں نصیبی سے نجات دلا سکے جو ان کی زندگی کا مقدر بن چکی ہے۔
ہم پورے یقین و اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنا مخصوص عالمی نقطۂ نظر اور نظامِ حیات رکھتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو متعدد گوشوں میں امن کے قیام کا متمنی ہے۔ اس کا آغاز اور اس کی انتہا ایک ایسی ہستی پر ایمان سے استوار ہے جو رب العالمین ہے، جس کے ساتھ امن وابستہ ہے اور جو تمام انسانوں، ان کے معاشروں اور پوری کائنات میں امن کی بحالی چاہتی ہے۔(خطبہ: دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔بہ شکریہ: تحقیقاتِ اسلامی،علی گڑھ، مارچ ۲۰۱۶ء)