۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء پاکستانی قوم کے لیے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتاہے۔ اس روز کوئٹہ شہر سے ۱۷کلومیٹر دُور سبّی روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سنٹر میں تین دہشت گردوں نے یورش کی۔ ۵۰۰ کے قریب زیرتربیت نوجوان اہل کاروں (عمر ۱۶ سے ۲۵ سال) کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گردوں نے چارگھنٹے کے خونیں معرکے میں ۶۳معصوم انسانوں کو شہید اور تقریباً ۱۵۰ کو زخمی کیا، جن میں سے ایک درجن سے زیادہ جوان زندگی اور موت کی کش مکش سے دوچار ہیں۔
یہ دل خراش واقعہ، کوئٹہ ہی میں دہشت گردی کے ایک اور دل دہلا دینے والے واقعے کے صرف اڑھائی ماہ بعد رُونما ہوا ہے۔ تب دہشت گردوں نے دن کی روشنی میں پہلے ایک نام وَر وکیل کو نشانہ بنایا اور پھر جب شہر کے چوٹی کے وکلا غم سے نڈھال ہسپتال پہنچے، تو دہشت گردوں نے ہسپتال میں ۷۰؍افراد کو بے دردی سے بھون ڈالا۔ ان شہدا میں سے تقریباً ۵۰ کا تعلق وکالت کے پیشے سے تھا اور یہ بلوچستان کی وکیل برادری کے گل ہاے سرسبد کی حیثیت رکھتے تھے۔
’ضربِ عضب‘ کی تمام قابلِ قدر کوششوں کے باوجود، صرف صوبہ بلوچستان میں اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد، اس اندوہناک واقعے سے پہلے بھی، دہشت گردی کے آٹھ بڑے واقعات رُونما ہوچکے ہیں، جن میں مجموعی طور پر ۲۰۰ سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں ایک نمایاں تعداد خود قانون نافذ کرنے والوں کی ہے، جن کا تعلق فوج، ایف سی اور پولیس سے تھا۔ واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس خصوصیت سے دہشت گردوں کا نشانہ رہی ہے۔
’ضربِ عضب‘ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر سفاکانہ حملے کے بعد وقت کی اہم ضرورت تھی اور بہ حیثیت مجموعی اس کے مثبت اثرات بھی رُونما ہوئے، جس کا ہرحلقے نے اعتراف کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’دہشت گردی کا قلع قمع کرنے‘ کا جو دعویٰ کیا گیا تھا، وہ ابھی پوری طرح شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔ باربار دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘ لیکن یہ کمر معلوم نہیں کتنی مضبوط ہے کہ ساری کوشش کے باوجود ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے ہر اندوہناک واقعے کے بعد جس ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ اب اپنی معنویت کھوتا نظر آتا ہے۔ وہی گھسی پٹی مذمت! وہی وحشیانہ کارروائیاں کرنے کی اجازت نہ دینے کے دعوے، وہی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزائم، وہی آہنی ہاتھوں کے حرکت میں آنے کی نوید، پھر دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعامات کا اعلان! اور ان سب پر مستزاد حالیہ چند واقعات بشمول حالیہ کوئٹہ کے سانحے کی یہ توجیہ کہ: ’’اگر بروقت دہشت گردوں کو زیر نہ کرتے تو بڑی تباہی ہوتی‘‘۔ گویا ۶۳ نوجوانوں کی شہادت اور ۱۵۰کا زخمی ہونا تو کم تباہی ہے۔
بلاشبہہ آج ہر آنکھ اَشک بار ہے، ہر دل افسردہ اور مغموم ہے اور ہرزبان دُکھ اور شہیدوں اور مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہر صاحب ضمیر فرد، شرم سار ہے کہ ۱۹۸۰ء سے دہشت گردی کے جس عفریت نے پاکستان میں سر اُٹھایا ہے اور جسے قابو کرنے اور تہ تیغ کرنے کی ہرسطح پر کوششیں کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ شخصی آزادیوں اور قانون کے باقاعدہ عمل (due process) تک کی بھی قربانی دی گئی ہے اور سویلین معاملات میں فیصلے کا دستوری اختیار بھی فوجی عدالتوں کو سونپ دیا گیا ہے، اس کے باوجود یہ عفریت بدستور اپنی تباہ کاریوں میں مشغول ہے۔
’ضربِ عضب‘ کو بھی اب دو سال ہورہے ہیں۔ شروع میں اس کے اثرات زیادہ نمایاں تھے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روایتی عسکری آپریشن اپنے مثبت نتائج کے باوجود اس عفریت کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ سرکاری اعداد و شمار سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ بہت خوش آیند نہیں ہے۔۲۰۱۴ء میں ملک بھر میں ۲۷۵ افراد دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے تھے، وہ ۲۰۱۵ء میں کم ہوکر ۲۰۲ کی سطح پر آگئے تھے لیکن ۲۰۱۶ء کے ۱۰ماہ میں بدقسمتی سے یہ تعداد ۳۲۰ہوگئی ہے۔ لہٰذا، اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے، اور جسے قوم کی تائید حاصل رہی ہے، نتائج کی روشنی میں اس پر نظرثانی کی جائے اور تمام حالات کے بے لاگ تجزیے کے بعد پالیسی کی ازسرِنو شیرازہ بندی کی جائے۔
چند بنیادی سوال جن پر فوری غوروفکر ضروری ہے،انھیں ہم ملک کے تمام پالیسی سازوں اور متاثر اداروں اور افراد کے غوروفکر کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
۱- سب سے پہلا اور پریشان کن سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس کے ذرائع کی جانب سے جب واضح اور متعین معلومات، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا کی جاتی ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کی روشنی میں مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے اور دہشت گرد قانون نافذ کرنے والوں کو چکما دے کر اپنا کام کر جاتے ہیں اور خود قانون نافذ کرنے والوں ہی کو ہدف بنا لیتے ہیں۔ اخباری نہیں، سرکاری اطلاعات اور اعترافات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ کے حالیہ واقعے اور اس سے پہلے رُونما ہونے والے ایک ہولناک واقعے سے قبل بھی متوقع دہشت گردی کے حملے کی واضح اطلاعات موجود تھیں اور متعلقہ اداروں کو ان سے باخبر کیا جاچکا تھا۔
اسی طرح کراچی میں بحریہ کے بیس پر حملے کا واقعہ ہو یا ایئرفورس بیس کا ، جی ایچ کیو کا واقعہ ہویا کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا، پشاور آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہو یا ولی خان یونی ورسٹی کا واقعہ، ہرموقعے پر متوقع حملے کے بارے میں ہوشیار رہنے کے لیے ’الرٹ سگنل‘ جاری کیے گئے، مگر ان پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی، اور سانحے پر سانحہ نمودار ہوتا رہا۔ حالیہ واقعے کے بارے میں تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے ٹی وی پر اعتراف کیا ہے کہ: ’’ہمیں پولیس پر حملے کی اطلاع تھی‘‘ مگر وزیراعظم اور اپیکس کمیٹی کے ایک سال سے زیادہ پرانے فیصلے کے باوجود کہ کوئٹہ کو ’محفوظ شہر‘ بنایا جائے گا اور ہر اہم مقام پر چوکیاں قائم کی جائیں گی، کیمرے لگائے جائیں گے، لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔ حالیہ وارننگ کے باوجود پولیس ٹریننگ کالج جہاں ۵۰۰ سے زیادہ اہل کار تھے، اس کے احاطے کی نہ دیوار درست تھی{ FR 551 } اور نہ حفاظت کا کوئی معقول انتظام تھا۔ صرف ایک سپاہی واچ ٹاور پر تھا، جس نے مزاحمت کے دوران شہادت دے دی اور حملہ آور دندناتے ہوئے کمپائونڈ میں داخل ہوگئے اور بے باکی سے خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ ایک تربیت کار نوجوان جو زخمی ہوا، اس کے یہ الفاظ دل کو دہلا دینے والے اور آنکھوں کو شرم سار کرنے والے ہیں کہ ’’حملہ آوروں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی، اور ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے‘‘۔
واضح رہے کہ پشاور آرمی اسکول اور ولی خاں یونی ورسٹی کے واقعات کے بعد کہا گیا تھا کہ ہر اسکول اور کالج میں دفاع کے لیے اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ ان تمام اعلانات کا کیا بنا؟
بلاشبہہ انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی بھی بار بار سامنے آئی ہے، لیکن انٹیلی جنس کی فراہم کردہ اطلاعات کے بعد انتظامی اور سیکورٹی کے اداروں کی غفلت بھی ایک حقیقت ہے۔ جب تک یہ کیفیت رہتی ہے محض فوج کی ’ضربِ عضب‘ کے باب میں سرگرمی نتائج نہیں نکال سکتی۔
۲- بات صرف انٹیلی جنس کی معلومات، انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت اور کوتاہی تک محدود نہیں، ہماری نگاہ میں فوج اور پولیس کو بیش قیمت قربانیوں کے باوجود دہشت گردی پر نہ قابو پانے میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:
ا- دہشت گردی کے خلاف ۲۰ نکاتی حکمت عملی کے بیش تر نکات پر عمل درآمد نہ کیا جانا اور اس سلسلے میں جن بنیادی اداراتی اور پالیسیوں کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی اور حکومت کے تمام متعلقہ اداروں کے درمیان جس ہم آہنگی کی ضرورت تھی، ان کی طرف قرارِواقعی توجہ نہیں دی گئی۔ نیز اس پوری حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے جن مالی اور انسانی وسائل کی حاجت تھی، اس کی بھی کوئی فکر نہ کی گئی۔ ایسی صورتِ حال میں بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی تھی۔
ب- بات نازک ہے لیکن اس کا اظہار اور ادراک بھی ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت میں جس فکری ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور حقیقی تعاون کی ضرورت تھی، نیز وفاق اور صوبوں کے درمیان فوج، ایف سی اور صوبائی اسمبلیوں کے درمیان جس قسم کی ہم آہنگی ناگزیر تھی، بدقسمتی سے وہ بڑی کمزور رہی۔
ج- ملک میں بحیثیت مجموعی اور تقریباً ہرسطح پر اور ہر ادارے میں جس ناقص طرزِحکمرانی کا رواج ہے، انتظامی بدنظمی جس سطح تک پہنچ چکی ہے، کرپشن نے جس طرح پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اہلیت و قابلیت کا خون کر کے نااہل افراد کو اہم ترین مناصب پر فائز کرنے کا جو چلن عام ہوگیا ہے، پھر ایک ہی حکومت کے مختلف وزیروں اور مشیروں، مختلف محکموں میں باہمی ربط اور تعاون کا جو فقدان دکھائی دیتا ہے، ان سب نے حکمرانی کے پورے نظام کو اتنا تباہ کردیا ہے کہ ایک اچھی پالیسی بھی مطلوبہ نتائج دینے میں بُری طرح ناکام ہوجاتی ہے۔
د-کوئی قانونی اور کوئی انتظامی پالیسی اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے نفاذ کا معقول انتظام نہ ہو۔ اس سلسلے میں جہاںعمل درآمد کا نظام ( delivery system) بنیادی اہمیت رکھتا ہے، وہیں قانون کی خلاف ورزی اور پالیسی کے بارے میں انحراف اور عدم تعمیل پر احتساب اور سزا کا نظام ضروری ہے۔ جس معاشرے میں قانون کا نفاذ نہ ہو، جہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، جہاں قانون توڑنے اور ذمہ داریاں ادا نہ کرنے یا بدعنوانی کا ارتکاب کرنے پر سزا کا نظام مفقود ہو، وہاں اچھی سے اچھی پالیسی اور بہتر سے بہتر قانون بھی بے کار ہوں گے___ اور آج ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔
۳- دہشت گردی کے سدباب کے لیے جہاں عسکری کارروائیاں ضروری ہیں اور قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا بڑا کلیدی کردار ہے، وہیں سیاسی، فکری، سماجی، معاشی اور اخلاقی پہلوئوں سے بھی بڑی اہم اصلاحات اور پالیسیاں درکار ہیں۔ فوجی کارروائی سے جن علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرا لیا جاتا ہے ان کی دوبارہ آبادکاری، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی، پُرامن شہری زندگی کی صورت گری بھی اتنی بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح پوری سول انتظامی مشینری کا مؤثر وجود اور متحرک کردار تاکہ لوگ اعتماد سے نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بھی اپنے سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی اور معاشی پہلو ہیں، جن کی طرف ۲۰نکاتی پالیسی میں اشارے موجود ہیں لیکن ان کے لیے مؤثر پالیسیاں، انتظامی اور اداراتی سہولتیں اور صحیح مردانِ کار کا وجود مفقود ہے۔ ایسے ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط (disjointed) انداز میں اگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد منظم ہیں، تربیت یافتہ ہیں، ان کا اپنا انٹیلی جنس کا نظام ہے اور وہ مسلح بھی ہیں بلکہ کچھ حالات میں عام قانون نافذ کرنے والوں سے کہیں بہتر اسلحہ اور ٹکنالوجی کے حامل ہیں۔
کوئٹہ کا خونیں حادثہ خون کے آنسو رُلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن کیا یہ ہماری اور ہماری قیادت کی آنکھیں کھولنے کا تازیانہ ثابت ہوسکتا ہے؟ ___ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ !
۱-
۲-
۳-
۴-
۵-