غذا تمام جان داروں کی طرح انسان کی بھی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر غذا صحیح، متوازن اور اچھی ہو تو اس کے اثرات دیگر جان داروں کی طرح انسانی صحت پر بھی اچھے مرتب ہوں گے۔ اس کی نشوونما اچھی اور جسم تندرست و توانا ہوگا۔ وہ امراض و عوارض اور موسم کی سختیوں کو اچھی طرح جھیلے گا لیکن غذا اگر ناقص اور غیرمتوازن ہوگی تو اس کے نتائج بھی اسی طرح ظاہر ہوں گے۔
عام جان داروں اور انسانی غذا میں سب سے اہم اور بنیادی فرق حلال و حرام کا ہے۔ عام جان دار جیسے نباتات، حشرات، حیوانات وغیرہ حلال و حرام کی حدود سے ماورا ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس لیے اچھی اور متوازن غذا کے ساتھ ساتھ اس کا حلال ہونا بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح غیرمتوازن اور ناقص غذا کے منفی اثرات انسانی صحت پر پڑتے ہیں، بالکل اسی طرح رزق حرام کے منفی اثرات بھی انسانی روح اور قلب پر پڑتے ہیں۔ اس کی روحانی اور قلبی نورانیت کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ روحانی طور پر کمزور اور بیمار پڑتا ہے۔ اس میں بُرائیوں کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ جلد غلط کاموں کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔ رزق کے اثرات کی وجہ سے انسان ذہنی اور قلبی ابتری کا شکار ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رزقِ حلال کی بہت تاکید کی ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے لقمۂ حرام سے پرہیز کی یادگار مثالیں رقم کیں ہیں۔ ان کی زندگی قرآن اور حدیث کی عملی تفسیریں تھیں۔ سورئہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا (بقرہ ۲:۱۶۸) لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال و طیب ہیں وہ کھائو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط (المومنون ۲۳:۵۱) اے پیغمبرو ؑ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور عملِ نیک کرو۔
کتاب و سنت میں رزقِ حلال اختیار کرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر اس لیے زور دیا گیا ہے کہ غذا کا اثر انسان کے قلب و دماغ پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے جذبات پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر اولاد پرپڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے اعمال پر پڑتا ہے۔ رزقِ حلال کے طفیل دل میں رقت و لطافت پیدا ہوتی ہے، یا دل وحشت سے لبریز ہوجاتا ہے۔ اس میں شکروصبر اور استغفار کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ ذہن و دماغ میں پاکیزہ خیالات جنم لیتے ہیں، انوار کی بارش محسوس ہوتی ہے لیکن اگر رزق حرام ہوگا تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ نور کے بجاے ظلمت دل و دماغ پر چھا جائے گی۔ نیکی اور قبولِ ہدایت کی صلاحیت اور استعداد ختم ہوجائے گی۔ دل اور دماغ پر منفی اثرات غالب آئیں گے۔
اللہ نے اپنے تمام انبیا ؑ کو، اور انبیا ؑکی معرفت ان کی پیرو اُمتوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ: ٰٓیٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط (المومنون ۲۳:۵۱) ،یعنی اے میرے رسولو ؑ! پاکیزہ روزیاں کھائو اور عملِ صالح پر کاربند رہو۔ چھے سات الفاظ کا یہ مختصر ارشاد ایسا ہے کہ اُصولی طور پر قریب قریب پورے دین کا منشا اس میں آگیا ہے۔ اگر کوئی شخص رزقِ حلال و طیب کی پابندی کے ساتھ عملِ صالح میں زندگی گزارتا ہے، تو گویا اس نے حسنۂ دنیا کو بھی پالیا اور حسنۂ آخرت کو بھی!اس مختصر سے کلمے میں یہ نمایاں اشارہ موجود ہے کہ پاکیزہ روزی یا حلال رزق کے بغیر اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ عالیہ کا ہونا ممکن نہیں، اور اسی طرح اعمالِ حسنہ یا اخلاقِ حسنہ سے جس شخص کی زندگی خالی ہو، یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے دامنِ معیشت کو حرام کی آلایشوں سے بچائے گا اور رزقِ حلال کمانے کے لیے غیرمعمولی جُہدومشقت کرے گا۔ حضوؐر نے بروایت عبداللہؓ بن مسعود فرمایا کہ رزقِ حلال کا کسب فرض ہے۔(تحریکی شعور، نعیم صدیقی، ص ۱۶۷)
امام غزالیؒ کیمیاے سعادت میں لکھتے ہیں کہ غذا سے بدن کا گوشت اور خون پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر غذا حرام ہو تو اس سے قساوت، یعنی سختی پیدا ہوتی ہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عبادت کے ۱۰ جز ہیں۔ ان میں نو کا تعلق رزقِ حلال سے ہے۔
طبرانی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے لیے دُعا کیجیے کہ اللہ مجھے مستجابُ الدعوات بنا دے۔ آپؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنی خوراک کو پاکیزہ کرلو، تمھاری دعائیں قبول ہونے لگیں گی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! بندہ جب ایک لقمہ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ ۴۰ دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہہ کسی جان کو اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک کہ وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ خبردار! اللہ سے ڈرو اوررزق طلب کرنے میں احسن طریقہ اختیار کرو۔ رزق کا دیر میں ملنا تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے رزق طلب کرو، کیوںکہ جو کچھ ہے اللہ کے پاس ہے۔ (مشکوٰۃ)
ہماری بدقسمتی کہ ہم جلد از جلد آگے بڑھنے کی حرص میں مشیت الٰہی کا انتظار نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دل و دماغ کو حرام کا چسکا لگ جاتا ہے اور پھر ہمارا مزاج اس قدر بگڑجاتا ہے کہ وہ حلال غذا قبول ہی نہیں کرتا۔ بالکل اس بیمار کی طرح جو ہاضمے کی خرابی کے باعث اچھی غذا کو ہضم نہیںکرسکتا اور ہم بابِ رحمت خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اُوپر بند کرواد یتے ہیں۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص متواتر حلال روزی کھاتا ہے جس میں حرام کی آمیزش نہ ہو، حق تعالیٰ اس کے دل کو پُرنور کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے قلب سے جاری کردیتا ہے۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ ہرچیز کا تقویٰ ہے اور پیٹ کا تقویٰ رزقِ حلال ہے۔ امام غزالیؒ مزید رقم طراز ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا طعام و لباس حرام ہے اور وہ ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگتے ہیں۔ ایسی دعائیں بھلا کب قبول ہوں گی؟‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ تو یہاں تک نماز پڑھے کہ پیٹھ ٹیڑھی ہوجائے اور اس قدر روزے رکھے کہ بال کی طرح باریک ہوجائے۔اس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ یہ قبول ہوں گے جب تک حرام سے پرہیز نہ کرے۔اس کی وضاحت میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص ۴۰دن تک شبہہ کا مال کھاتا ہے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اسے زنگ لگ جاتا ہے۔
حضرت تُستریؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے عضو گناہ میں پڑتے ہیں خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے، جب کہ جو شخص حلال کھاتا ہے اس کے تمام اعضا اطاعت میں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے خیر کی توفیق دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے رزق کے معاملے میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حلال کے ۱۰حصوں میں سے ۹ کو اس لیے چھوڑ دیا کہ کہیں حرام میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ (کیمیاے سعادت، ص۲۲۵-۲۲۸)
o حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ایک غلام تھا جو ان کی زمین کا محصول (خراج) وصول کرتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ کھانے کی کوئی چیز آپؓ کو دی جس کو آپؓ نے تناول فرمایا۔امام غزالی کے مطابق دودھ ملا شربت پلایا۔ اس کے معاً بعد آپؓکو خیال آیا اور غلام سے پوچھا:کہ یہ کہاں سے ملی تھی؟ غلام نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں مَیں نے ایک آدمی کے لیے کہانت کہی تھی حالاںکہ کہانت کا مجھے کوئی ڈھنگ بھی نہیں آتا۔ بس اسے بے وقوف بنایا۔اب اس شخص سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے یہ چیز مجھے دی تھی جو میں نے آپؓ کو تناول فرمانے کے لیے دی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے منہ میں انگلی ڈال کر اُبکائی کی اور جو کھایا پیا پیٹ میں تھا، قے کردی۔
یہ روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دینی احتیاط، تقویٰ اور رزقِ حلال کے بارے میں انتہائی محتاط رویے کی واضح مثال ہے۔ قے کے باوجود آپؓ نے توبہ و استغفار کی اور دُعا مانگی: اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس قدر شربت کے لیے جو میری رگوں میں رہ گیا ہے۔(ایضاً، ص۲۲۶)
oخلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓکی خدمت میں ایک دفعہ دودھ پیش کیا گیا۔ آپؓ نے دودھ تو پی لیا مگر اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا۔ آپؓ فوراً چونک اُٹھے اور پوچھا: یہ دودھ کہاں سے لیا ہے؟دودھ پیش کرنے والے نے کہا: میں ایک چشمے پر گیا جہاں زکوٰۃ کی اُونٹنیوں کو پانی پلایا جارہا تھا۔ شتربانوں نے ان کا دودھ دوہا اور اس میں سے تھوڑا مجھے بھی دیا جو میں نے آپؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ سن کر حضرت عمرفاروقؓ نے فوری طور پر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور اس کو قے کر دیا کیونکہ بیت المال کی اُونٹنیوں کا دودھ آپ اپنے لیے حرام سمجھتے تھے کہ مبادا یہ دودھ جزوِ بدن بن جائے۔
ہمارے اسلاف کھانے پینے کے معاملے میں ان ہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ اور احتیاط سیکھنے کے لیے ہم لوگ ہروقت حضرت عمرؓ کے ساتھ لگے رہتے تھے۔
o ایک آدمی نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا: دل کیسے نرم ہوتا ہے؟ آپؒ نے فرمایا: ’’حلال کھانے سے ‘‘(طبقات الحنابلہ)۔ امام احمد بن حنبلؒ خود بھی کھانے میں بے حد احتیاط فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے گھر روٹی تیار ہوئی جس کا خمیر ان کے بیٹے صالح کے گھر سے آیا تھا۔ صالح نہایت متقی پرہیزگار تھے لیکن وہ ایک سال تک اصفہان کے قاضی رہے۔ چونکہ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک اس وقت اسلامی حکومت اپنے فرائض پوری طرح انجام نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے سرکاری عہدوں پر فائز افراد سے کچھ لینا دینا آپؒ کو پسند نہ تھا۔ آپؒ نے وہ روٹی کھانے سے انکار کر دیا۔
آج اگر دعائیں قبول نہیں ہورہیں، اخلاص و یکسوئی کے باوجود عبادات میں ایسا لطف و سُرور محسوس نہیں ہوتا جو یاد الٰہی کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ معاشرہ ذہنی، روحانی ابتری، اخلاقی تنزل اور بے سکونی کا شکار ہے، تو اس کا ایک بنیادی سبب رزقِ حلال میں محتاط رویہ نہ اپنانا ہے۔ کیونکہ رزقِ حلال سے قلب و روح کو جِلا ملتی ہے۔ آج بھی اگر رزقِ حلال کا اہتمام کیا جائے تو اسی سُرور ولذت سے قلوب آشنا ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی