انفرادی کوشش کا طریقہ یہ ہے کہ ہرشخص کچھ نہ کچھ ایسے نیک اعمال کا التزام کرے، جو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ ہوں، اور ہمیشہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ اسے زیادہ دل چسپی اِن مخفی نیکیوں میں محسوس ہوتی ہے یا اُن نیکیوں میں جو منظرعام پر آنے والی ہوں۔ اگر دوسری صورت ہو تو آدمی کو فوراً خبردار ہو جانا چاہیے کہ ’ریا‘ اس کے اندر نفوذ کر رہا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے پوری قوتِ ارادی کے ساتھ نفس کی اس کیفیت کو بدلنے کی سعی کرنی چاہیے۔
اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے، اپنے کاموں میں اعلان و اظہار کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے۔ جماعتی مشوروں اور گفتگوئوں میں یہ بات کبھی اشارۃً و کنایۃً بھی برداشت نہ کی جائے کہ: فلاں کام اس لیے کرنا چاہیے کہ وہ مقبولیت کا ذریعہ ہے اور فلاں کام اس لیے نہ کرنا چاہیے کہ اسے لوگ پسند نہیں کرتے۔ جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمت، ہردو سے بے نیاز ہوکر کام کرنے کی ذہنیت پیدا کرے اور اُس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے۔
اس کے باوجود اگر کچھ افراد جماعت میں ایسے پائے جائیں جن میں ’ریا ‘کی بو محسوس ہو تو ان کی ہمت افزائی کرنے کے بجاے ان کے علاج کی فکر کی جانی چاہیے۔ (’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۷، عدد۳، صَفر ۱۳۷۶ھ،نومبر ۱۹۵۶ء، ص ۱۵۱)