اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور سوچنے سمجھنے والا دماغ عطا کیا ہے، جن کی مدد سے وہ کائنات اور خود اپنے وجود میںیاد دہانی کروانے والی آیات (نشانیوں) کا اِدراک کرسکتا ہے۔ اگر ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ وہ صرف اپنے وجود کا جائزہ لے، تو اس کا فطری رویہ اپنے خالق و مالک کے حوالے سے شکر اور حمد کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔بہت سے اہل نظر کے لیے طلوعِ صبح اورغروبِ آفتاب کا منظر ہی قبول حق کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کا پورا وجود انسانوں اور کائنات پر احسانات کرنے والے رب ، الرحمٰن اورالرحیم کے اعتراف عظمت میںروبہ سجود ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۔
دوسری جانب ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو تابناک سورج کی روشنی میں بھی بصیرت اور قلب کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے حق کا اعتراف نہیں کرتے اور یوںوہ اپنے نفس پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک صحت مند جسم ، روشن دماغ اور دردمند دل رکھنے والا شخص ان تینوں صلاحیتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک جانب ہرقسم کے شرک سے بے زاری اور دوسری جانب توحید خالص کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اپنے سارے وجود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی میں دے کر اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوجائے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً)۔
اسی احسانِ الٰہی کے حوالے سے انسان کو شعورِ حیات دیا گیا اور اسی احسانِ الٰہی کی بنا پر انسان کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطہ مرتب کر کے وحی الٰہی کے ذریعے اس کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ وہ آنکھ ، کان ، دل و دماغ رکھنے کے باوجود اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ گزارے، بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے مشاہدے ، بصارت و بصیر ت اور قلب و ذہن کی ہم آہنگی (synergy) کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی فرائض کو پورا کر سکے ۔یہ ادایگی فرض رنگ و نسل کی تفریق سے بلند ہے۔ اس میں جغرافیائی قومیت یا مذہبی اور مسلکی اختلاف کا کوئی دخل نہیں ہے ۔یہ ہر ذی حیات انسان کے لیے، وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصارت، سماعت اور شعور کی صلاحیت کی اخلاقی جواب دہی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘۔
اسلامی تحریکات اس بنیادی شعور اور جواب دہی اور احتساب کے احساس کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہیں کہ اس دور میں اقامتِ دین ان پر ایک فریضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ دین کی جدوجہد: تحریکات اسلامی کا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی ۔ ان کی حیات، نمو اور ارتقا کا براہِ راست تعلق اقامتِ دین کے ایک جامع اور کلی تصور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یہ تصورخودمتحرک ہے، حتیٰ کہ اگر وقتی طور پر ایک اسلامی تحریک سکڑتی بھی نظر آرہی ہو، تب بھی یہ تصور متحرک رہتا ہے ۔ یہ حرکی تصور، تحریک اسلامی کے ضمیر کو بار بار جھنجوڑتا ہے اور اپنی منزل، طریق کار اور حکمت عملی کے حوالے سے بار بار یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تو دیکھا جائے کہ کمی یا نقص کہاں پر ہے ؟
اسی بنا پر ان تحریکاتِ اسلامی میں، جو بظاہر تیزی کے ساتھ منزلیں سر کرتی نظر نہ آرہی ہوں، کارکنوں کی سطح پر اضطراب کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ ان کے ہاں یہ احساس کہ اصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا ، تربیت میں کمی آرہی ہے ،ترقی نہیں ہو رہی ہے، ایثار و قربانی کا جذبہ کم ہو رہا ہے ، قیادت میں فیصلوں کے ساتھ چلنے کے بجاے فیصلے نافذ کرنے کا سا انداز پیدا ہو رہا ہے، یا پھر یہ شکایت کہ ضرورت سے زیادہ فروتنی اور اپنے آپ کو کم تر سمجھا جارہا ہے۔ یا پھر اپنی قوت کے بارے میں یہ غلط احساس پیدا ہو گیا ہو کہ ہم جب چاہیں شاہراہیں روک کر اپنی قوت کو منوا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروںکے مقابلے میں خود کو زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب علم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ بے شمار اچھے پہلو ہوں یا بعض کمزوریاں ، ان کا پایا جانا، ان پر باہمی مکالمہ کرنا درحقیقت زندگی کی علامت ہے۔ان تمام احساسات و جذ بات کا وجود بنیادی طور پر تحریک اسلامی کے متحرک ہونے کی دلیل ہے۔ اگر تحریک جامد اور ساکت ہوتی تو کارکن ہوں یا قیادت یا دعوت کے مخاطب ، ان میں یہ اضطراب نہ پایا جاتا۔ اضطراب کا پایا جانا ہی حیات کا ثبوت ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حنظلہ ؓ کے دل میں تھا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو جو دل کی کفیت ہوتی ہے وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جو گھر پر یا بازار میں پائی جاتی ہے اور جسے دونوں اصحابِ رسولؐ نے نفاق سے تعبیر کیا تھا ۔
تحریک اسلامی ہر دور میں اس کیفیت سے دوچار رہی ہے اور رہے گی، کیونکہ اس کے تحریک ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا قلبِ مضطرب ، سوتے جاگتے اسے پکار پکار کر کہتا کہ کہیں اس میں نفاق تو نہیں آگیا ۔ یہ احساس اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے ، اپنے احتساب اور اپنی ترجیحات کے جائزے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
یہ خیال کہ بعض تحریکات پر سیاست غالب آگئی ہے اور تعلق باللہ ، للہیت ، تقویٰ و احسان مفقود ہو گئے ہیں، ایک قابل قدر احساس ہونے کے باوجوداس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ سیاسی سرگرمی اور سیاسی تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ جدوجہد اقامتِ دین اور حاکمیت الٰہیہ کے لیے کی جاری ہے یا محض سیاسی سرگرمی؟ کیااس کا مقصد سینٹ یا پارلیمنٹ میں علامتی وجود کو برقرار رکھنا ہے یا اقامتِ دین کے لیے ان ایوانوںمیں مؤثر کردار ادا کرنا ہے، جو قوم و ملک کی قسمت سے انصاف بھی کرسکے اور عوام پر ظلم اور ان کے استحصال کے مرتکب عناصر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکے؟ کسی بھی اسلامی تحریک کو اس نوعیت کے سوالات پر باربارغور کرنا چاہیے اور جذبات سے بلند ہو کر، نفع ونقصان کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور تحریکی سفر کے مراحل کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ کرنی چاہیے۔
ہمارے لیے اصل میزان قرآن وسنت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ذاتی اور اجتماعی احتساب اور اپنی حکمت عملی پر مسلسل غور وفکر کا عمل جاری رکھیں اور ظن و گمان سے بچتے ہوئے یہ کام انجام دیں کہ بہت سے گمان اور ظن گناہ کے دائرہ میں آتے ہیں (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲)۔ یاد رہے تحریکی کارکنوں اور قیادت کے درمیان شفافیت اور احتساب کا مسلسل عمل اور باہمی اعتماد ہی سفر کے جاری رہنے کی ضمانت ہے۔تحریک اسلامی کا ارتقائی سفر (Progressive Process ) کسی ایک مرحلے کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ اسلامی تحریک مکہ مکرمہ سے حبشہ اور مدینہ پہنچی اور مدینہ منورہ سے پوری دنیا کے لیے ایک عالم گیرتحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس کے تاریخی مراحل میں مکی دور ہو یا حبشہ کی ہجرت کا دور یا آخر کار ہجرت مدینہ منورہ اور قیام حاکمیت الٰہی، یا وہ فکری، اخلاقی، سیاسی اور ہمہ پہلو انقلاب جو دین کی تکمیل کے اعلان کا باعث بنا۔ ان تمام تاریخی مراحل میں قیامت تک کے لیے وہ راہنما اصول موجود ہیں ، جن کا صحیح شعور و ادراک تحریکات اسلامی کو صراط مستقیم پر رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔
تحریکات اسلامی کی سفر کی منزل صرف اور صرف ایک ہے ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ـ :
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ۔
یہ حاکمیت سب سے پہلے ایک فرد اپنے چندفٹ لمبے جسم پر قائم کرتا ہے۔ چنانچہ قران کریم نے جہاں کہیں بھی اسلام لانے کے بعد ایمان کا تذکرہ کیا ہے، فوری طور پر ایمان کو ناپنے، تولنے اورجانچنے کا پیمانہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیاہے۔ البقرہ کی ابتدائی آیات پر غور کریں تو یوں نظر آتا ہے کہ جو شخص بھی وہ مرد ہو یا عورت ، بچہ ہویا جوان ، بوڑھا ہو یا توانا اور صحت مند یا معذور جب ایمان لاتا ہے، تو اس کاعملی اظہار کرنے کے لیے ایمان کے پہلے تقاضے، یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کو اپنے عمل کا حصہ بنالے۔
انسانوں کی جو بڑی اقسام قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ : وہ جو ایمان لاکر مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کے اسلام اور ایمان کی پہچان اقامتِ صلوٰۃ (صرف نماز پڑھ لینا یا ادا کردینا نہیں بلکہ نماز کے ذریعے تزکیۂ نفس اور پھر نیکی اور عدل کا قیام اور فواحش کا ابطال) اور مالی معاملات میں ’انفاق‘ (اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرنا )ہے۔
’انفاق‘ کی اصطلاح زکوٰۃ اور صدقات سب کا احاطہ کرتی ہے ۔زکوٰۃ بطور فریضہ لازم ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی ادایگی ایک شخص کو صدقات اور انفاق سے بری نہیں کر دیتی ۔ گویا ایمان کا پہلا پیمانہ اور تقاضا نظامِ صلوٰۃ اور نظام انفاق کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور میں ان دونوںہتھیاروں سے لیس اہل ایمان نے وہ مجاہدہ کیا ، جس نے ایک ایسی قوت کو وجود بخشا جو عددی لحاظ سے چاہے کم تھی، لیکن اپنی اثر نگیزی میں دنیا کے بڑے سے بڑے لشکر سے زیادہ قوی اور حقیقی معنی میں ایک بُنیانٌ مَرصوصٌ بن کر طاغوت ،ظلم ، شرک و کفر کے خلاف ایک انقلابی اور اصلاحی تحریک بن کر ابھری اور کفر، جہالت اورظلم کی تاریک فضا کو اس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد اور نصرت کے سہارے، اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی طاغوتی قوتوں پر فتح حاصل کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کفر و ظلم کے بادلوںکو اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے سبک ہواؤں میں تبدیل کر دیا :
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔
یہ تصور کہ مکی اور مدنی ادوار مکمل طو ر پردو الگ اکائیاں ہیں ، تحریک اسلامی کے ارتقائی سفر کے تناظر میں غیر عقلی نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حاکمیت الٰہی کے قیام کے بعد یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔اب دین کی حکمت: یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘___ جسے رب کریم نے بارہا اپنے ایک انعام کے طور پر قرآن کریم میں دُہرایا ہے، کے پیش نظر تحریکی قیادت کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ عین مدنی دور کے دوران مکی حکمت عملی کو کس طرح استعمال کیاجائے اورعین مکی دور سے گزرتے ہوئے مدنی دور کی کسی حکمت عملی پر کیسے عمل کیا جائے؟ گویا ایک مرتبہ نظام اسلامی کے قیام کے بعد تاریخی زاویے سے یہ دونوں اَدوار الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیے جا سکتے۔
دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی بناتے وقت دونوں ادوار میں اختیار کی گئی حکمت عملی اور نظام تربیت سے بیک وقت مدد لینی ہو گی۔ اب دعوت اسلامی کے وسیع تر تناظر میں اقامتِ دین کے جامع مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی وضع کی جائے گی، جس کے لیے دونوں ادوار سے مناسب حد تک استفادہ کرنا ہو گا۔اس نکتے کو سمجھنے میں اللہ رب العزت کی اس حکمت عملی میںبھی بڑی رہنمائی ہے کہ قرآن پاک میں جہاں مکی اور مدنی سورتوں کی نشان دہی کردی گئی ہے، وہیں قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے مطابق نہیںبلکہ اللہ کی ہدایت کے تحت اس ابدی اور آفاقی ہدایت کو اس طرح مرتب فرمایا گیا ہے کہ مدنی آیات کے ساتھ ساتھ مکی دور کی آیات کوپیوست کر دیا ہے۔
اس پس منظر میں تحریک اسلامی پر ایک ارتقائی سفرکے زاویے سے غور کیا جائے: تو چاہے اس نے اپنے کارکنوں اور قیادت کوفکری طور پر اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے آگاہ کر دیا ہو اور قرآن و سنت ، فقہ ، تفسیر اور اعلیٰ اسلامی ادب سے پوری طرح واقف کرا دیا ہو، اس کے باوجود ہرکارکن اور قائد کو ہر لمحے جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے، تو اس کا سبب کیا ہے ؟
ہم نے آغا ز میں سوال اٹھایا ہے کہ کمی، کوتاہی یا نقص کہاں ہے ؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں خود اپنے کردار اور ترجیحات کاجائزہ لینا ہوگا۔ نیز یہ دیکھنا ہو گاکہ جو افرادی قوت پیش نظر تھی اس میںمطلوبہ خصوصیات پیدا ہوئیں یا نہیں؟ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ: کیا افرادی قوت اسی معیار پر تیار ہورہی ہے جو ہم چاہتے تھے اور کیا ہماری حکمت عملی اور حصول مقصد کے ذرائع، مطلوبہ نتائج ( Outcome) کے لیے مفید ثابت ہوئے؟ یا جو ذرائع ، حکمت عملی اور طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان سے وہ معیارِ مطلوب (End Product) حاصل نہیں ہواجس کی خواہش اور طلب دل و دماغ میں پائی جاتی تھی ۔ اگرہماری خواہش یہ ہو کہ ہم فصل آنے پر اعلیٰ قسم کے آم کا مزا لیں جبکہ ہم نے درختوں میں نہ قلم لگایا ہو، نہ ارد گرد پھیلے ہوئے کیڑوں ، مکوڑوں کو دور کیا ہو اور محض تخمی پودا لگا کر اعلیٰ آموں کے خواب دیکھتے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اور نتائج میں کبھی بھی یگانگت نہیں ہو سکتی۔
تحریکاتِ اسلامی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا مکی دور کبھی ختم نہیں ہوتا (بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال اور مصر میں گذشتہ ۷۰سال کا جائزہ اس جانب اشارہ کرتا ہے)۔ یہ مکی دور دراصل تحریک کا تعمیری دور ہے ۔ اس میں افراد سازی ، ذہن سازی ، کردار میں تبدیلی ، رویوں کی تبدیلی، انسانی تعلقات کی نئی تعبیر ، تصور حیات میں بنیادی اصلاح ، اپنی ذات، گھر اور معاشرے میں اپنے کردار پر غور، اور سب سے بڑھ کر طاغوت اور کفر کی طرف سے مزاحمت اور ہر قدم پر رکاوٹوں اور آزمایشوں کے پہاڑوں کا پایا جانا شامل ہے ۔ قرآن کریم نے اس اصول کو واضح فرما دیا کہ جب حق کی بے لاگ دعوت پیش کی جائے گی تو کفر و شرک کا رد عمل صرف یہ ہو گا کہ یا تو ہم سے قدم ملاکر تعاون کرو اور وہی راستہ اختیار کرو، ورنہ ہم تمھیں اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے:
آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یاتو تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۱۳)
گویا مکی دور مدینہ پہنچ جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا ۔ فکری بنیادوں کی آبیاری پر ہی تحریک کی اٹھان کا انحصار ہوتا ہے ۔چنانچہ مدنی دور کے مطالبات میں: چاہے سیاسی محاذ پر بین الاقوامی قانون کی تدوینِ جدید ہو یا مسلمانوں میں باہمی تعلق و اخوت کا قیام ، یا مدینہ کے دفاعی نظام کا مستحکم کرنا شامل ہو۔ اسی طرح ان تمام ریاستی مطالبات کے ساتھ ، تعمیر سیرت ، فکری بلوغت ، تعلق باللہ، توحید کا صحیح شعور ، عدلِ اجتماعی کا فہم ، اقامتِ دین کی بنیادوں ، عبادات، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ وہ پہلو ہیں جو تحریک کا قلب و روح ہوتے ہیں۔ ان پر اگر شعوری طور پر کام نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ تحریک عوام کا ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لے اور ایوانِ نمایندگان میں اچھی خاصی تعداد میں کامیاب ہو کر بھی آجائے ، لیکن وہ اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کر سکے گی ۔ اس کی کامیابی تعداد پرمنحصر نہیں ہے بلکہ ان باشعور افراد کی تیاری ، اس معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جو وقت کے ہر امتحان میں پوری اُترے اور تحریک ہوا کے رخ سے بے پروا ہو کر شاہین کی طرح اپنے ہدف کی طرف سفر کو جاری رکھ سکے۔
قرآن کریم کا دیا ہوااٹل اصول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے صالح افراد کی جماعت ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت جو چاہے تعداد میں مختصر ہو ،اگر اس کا کردار اور تربیت معیاری ہو گی تو اسے ایک کثیر جماعت پر غالب آنا چاہیے ۔ اصل ضرورت ان افراد کی ہے جو منزل کا واضح تصور رکھتے ہوں، ان کی سیرت اُسوہ نبویؐ کی عکاسی کرتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی جان ، مال، علم ہر چیز کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بازی پر لگانے کے لیے آمادہ ہوں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (انعام۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہی قرآنی اصول بنی اسرائیل کے لیے تھا ، یہی امت مسلمہ کے لیے ہے ۔تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو ہر لمحے اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ ان دونوں پہلوؤں میں کس حد تک توازن و اعتدال برقرار رکھ سکی ہے اور کہاں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
فکری غذاکے سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جب تک تحریکی فکر میں نئے سوتے پھوٹتے رہیں گے ، تحریک کی اثر انگیزی اور وسعت میں اضافہ ہو گا ۔ اس کی فکر طاغوتی مادہ پرستانہ فکر کے مقابلے میں اپنی برتری تسلیم کرائے گی ۔لیکن اگر یہ فکری سوتے خشک ہونے لگیں تو تحریک بھی ایک سوکھے درخت کی طرح اپنی جگہ قائم تو رہے گی، لیکن امت مسلمہ اس کی گھنی چھاؤں اور اس کے میٹھے پھل سے محروم رہے گی۔اس لیے تحریک کو علمی اور فکری میدان میں مسلسل ترقی کی فکر کرنی ہو گی۔
یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ دور جدید میں تحریک اسلامی کے فکری رہنماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیااور جو حل تجویز کیے وہ وقت اور جغرافیائی سرحدوں میں محدودہیں۔ اگر امام حسن البنا بالاکوٹ یا لاہور میں پیدا ہوتے تو ان کی دعوتی زبان اُردو ہی ہوتی ، اسی کے محاورے ان کی نوک زبان پر ہوتے ، ایسے ہی اگر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کی تحریری زبان ترکی ہی ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امام غزالی نے بغداد میں یا قاہرہ میں بیٹھ کر عربی زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے دہلی میـں بیٹھ کر عربی اور فارسی میں جو کچھ تحریر کیا ان کے مخاطب نہ صرف عربی سمجھنے والے افراد تھے بلکہ آج تک ان کی فکر کی تازگی اور دینی حکمت سوچنے سمجھنے والے افراد کو متاثرکرتی ہے ۔ کیا اقبال محض پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئے تھے یا اقبال کی قدر اس کی جاے پیدائش والوں سے زیادہ وسط ایشیا کے افراد نے کی اور کر رہے ہیں ۔
پھر یہ بنیادی مقدمہ کہ کیا فکر (thought) وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے ؟ قرآن وحدیث کو زمان و مکان کی محدودیت اور کسی علاقے یا وقت میں قید کر دینا ایک انتہائی مریضانہ ذہنیت ہے، جو غیر شعوری طور پر مغرب کی لادینی اور استشراقی فکرسے متاثر بعض مسلمان دانش ور پیش کررہے ہیں۔یہ بالکل اُسی طرح ہے، جس طرح مغرب میں ہر تھوڑے عرصے میں ایک ’دانش وارانہ ‘نعرہ بلند ہوتا ہے کہ: ’’ماضی کے تصورات اب پرانے ہو گئے ہیں اس لیے نئے نظریات کی ضرورت ہے‘‘۔
جس طرح مغرب میں جدیدیت کے بطن سے نو جدیدیت (Post Modernism) کی ولادت ہوئی اور جس طرح مغرب نے تاریک دور (Dark Ages) سے دور عقلیت (Rationalism) میں قدم رکھا، اور بالخصوص آگسٹ کومے، ہیگل اور کانٹ کے تصورات کی روشنی میںعیسائیت کی جگہ عقلیت ، اباحیت، آزاد روی، مادیت پرستی اور دیگر تصورات کو ’روشن خیالی‘ کے زیرعنوان فخریہ طور پر اختیار کیا گیا، بالکل ایسے ہی ان مغربی فکر سے متاثر ’دانش وروں‘ کے خیال میںمسلم اہل فکر کو بھی قرآن و حدیث کو جدیدیت کی چھلنی سے گزارناچاہیے ۔ یہ وہ سادہ لوحی پر مبنی گمراہی ہے جو آج بعض مسلم دانش ور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور تحریکات اسلامی کے قائدین کی فکرکے حوالے سے وقتاً فوقتاً دُہراتے رہتے ہیں۔
یہ ’مسلم دانش ور‘ سمجھتے ہیں کہ حق و صداقت کے معیارات کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور ہر دور میں ایک ’من پسند نو تراشیدہ اور شتر بے مہار اسلام‘ وجود میں آنا چاہیے ۔اپنی اس خواہش کے باوجود یہ لوگ اگر سنجیدگی سے اسلامی قانون سمجھانا چاہتے ہیںتوائمہ اربعہ کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیںکر سکتے۔ دوسری طرف دورِ جدید کے تحریکات اسلامی کے مؤسسین کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ ان کی فکر آج بھی ویسی ہی تازہ، کارآمد اور relevant ہے جیسے ۸۰برس قبل تھی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی جامعات یا مغربی نظام تعلیم میں تربیت پانے والے اکثر مسلمان مصنفین یہ نعرہ بلند کرنے لگے ہیں کہ:’’ چونکہ وہ Postmodernism [مابعد دورِ جدیدیت] عہد میںبس رہے ہیں، اس لیے تحریکات اسلامی کو بھی ایک بالکل نئی فکری بنیاد کی ضرورت ہے‘‘۔ بہ ظاہریہ بات بہت دل پسند معلوم ہوتی ہے اور اسے اور بھی معتبر بنانے کے لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی لسان /زبان میں انبیاؑ کے ذریعے اپنا پیغام اور ہدایت بھیجی۔ اس کا واضح مفہوم یہی نظرآتا ہے کہ ہر دور کے حالات کی رو شنی میں، وہ اسلوب جو اس دور میں زیادہ مؤثر ہو استعمال کیا جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر نئے دور کے لحاظ سے نبی کی دعوت بھی مختلف ہویاہر دور میں توحید ، رسالت اور آخرت کا ایک نیا تصور پیش کیا جائے ؟ قرآن نے یہ بات قیامت تک کے لیے طے کر دی ہے کہ تمام انبیا ؑکی دعوت دو نکات ہی پر مبنی تھی، اللہ کی مکمل بندگی اور طاغوت کا مکمل رداور مخالفت:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶ ) ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(مزیدملاحظہ ہو:الزمر ۳۹:۱۷)
تحریکاتِ اسلامی کی دعوت انبیا ؑ کی دعوت ہے ۔ یہ اللہ کی مکمل حاکمیت اور نظامِ عدل کے قیام کی دعوت ہے، جس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، حکمت عملی اور ترجیحات ہر دور کے لحاظ سے متعین کی جائیں گی۔جہاں تک دعوت کا تعلق ہے اسے قرآن اور سنت رسولؐ کی شکل میں مکمل کر دیا گیا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ( المائدہ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔
جیساکہ پہلے کہا گیا کہ لازمی طور پر تحریکات کی زندگی کا تعلق فکر کی تازگی کے ساتھ ہے۔ لیکن بعض افکار صدیا ںگزر جانے کے باوجود تازہ رہتے ہیں۔آج غالب گو انتقال کیے ڈیڑھ سوبرس گزر چکے ہیں۔ کیا اس کے باوجود اردو شعر و ادب کا کوئی طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ غالب کا دور گزر گیا ہے، اس لیے اب غالب کا مطالعہ کرنے کے بجاے نو آموز شعرا کے کلام پر اکتفا کیا جائے اور ادبی سفر اور ادبی نقد کا آغازصرف جدید شعرا کے کلام سے کیا جائے ؟اس تخیل کو وزن دینا تو دُور کی بات، ایسی بات کہنے والے کی عقل کو ناقص سمجھا جائے گا۔
یہاں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ فکر مودودی ہو یا فکر اقبال یا فکر امام حسن البنا اس کو مصادر کی روشنی میں سمجھ کر آگے بڑھانے کے لیے وہ زاویے اور وہ راستے تلاش کیے جائیں، جن کی طرف ان فکری قائدین نے اشارے کیے ہیں اور جن کی تفاصیل وہ بیان نہ کر سکے یا ایسے پہلو جو کسی بنا پر ان کی نگاہ سے اوجھل رہ گئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب ان کی فکر کو ہضم کر کے حکمت دعوت کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کے ارتقائی سفر کے مطالبات کی روشنی میں حل تلاش کیے جائیں۔
غور سے دیکھا جائے تو مکی دور کے نمایاں پہلوؤں میں سب سے واضح پیغام توحید خالص کا تعارف ہے (سورۂ ا خلاص اور الفاتحہ توحید کا ایک جامع تصور پیش کرتی ہیں)۔ اس کے ساتھ ہی شرک کا رد اور دلیل کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت کہ اسلام جس دین کا نام ہے، وہ شرک کی کسی قسم کو برداشت نہیں کر سکتا (الکافرون میں اس سے مکمل براء ت کا اعلان کر دیاگیا۔(مزید دیکھیے: سورۂ یوسف۱۲:۴۰)
مکی معاشرے میں ’شرک‘ جس طرح سرایت کرگیا تھا، آج بالکل وہی شکل پائی جاتی ہے ۔ یہ ’شرک‘ فکر میں ، معاش میں، اخلاق میں ، معاشرت میں ، سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں رچ بس گیا تھا اور مشرکانہ معاشرہ شرک و نفاق کا اس طرح عادی ہو چکا تھا،جس طرح ایک متعفن نالے کے کنارے بسنے والے لوگ فضا کے تعفن کے عادی ہوجاتے ہیں۔
آج شرک کے روپ اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن ان سب کی خاصیت ایک ہی ہے۔ کہیں یہ سود کی شکل میں ، کہیںسیاست میں برادری اور دولت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی شکل میں، یامعاشرت میں اسلام کے دعوے کے باوجود ایسی بہت سی رسوم رواج کی شکل میں موجود ہے، جو خالصتاً ہندو ازم سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہیں ایشائی تہذیب اور معاشرت کے نام پرا پنی مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیںاور ہمارے گھر وں ، بازاروں ،اقتدار کے ایوانوں، حتیٰ کہ مذہبی حلقوں تک میں پائی جاتی ہیں۔ کسی کا خدا دولت ہے، کسی کا شہرت ، کسی کا اخلاقی اباحیت ، کسی کا عسکری قوت اور کسی کا بیرون ملک فرماں رواؤں سے ذاتی دوستی کا فخر۔
ایسے حالات میں سوچنا ہو گا کہ مکہ میںکیاحکمت عملی اختیار کی گئی تھی اورآج ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیا توحید پر ایک مدلل درس اور شرک پر ایک بھرپور تقریر یا کسی جلسے میں اعلان جہاد مسئلہ حل کرسکے گا ؟ مکی دور کا مطالعہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاںایوانِ اقتدار پر بیٹھے قریش کے سر داروں کومخاطب کیا، وہیں معاشرے کے ہر ہر طبقے کے افراد کو اقامتِ دین کی دعوت دی ۔ جہاںآپ عتبہ ، ابو طالب ، ابوجہل ، ابو سفیان ، کو براہِ راست دعوتِ دین دینے میں مصروف عمل رہے ، وہیں آپ نے حضرت بلال ، آل یاسر اورمعاشرے کے ان افراد کو، جو طبقاتی سطح پر محرومیوں کا شکار تھے، اپنی دعوت کا ہدف بنایا اور ان سے بڑے قیمتی ساتھی حاصل کیے۔
اسلام صرف ایک نظری دعوت بن کر نہیں آیا بلکہ معاشی استحصال، اخلاقی فساد اور سیاسی خلفشار کو ایک ہمہ گیر الہامی اور فطری ہدایت کے ذریعے مکہ کے محروم طبقات کی نجات کے لیے ان کے مسائل کو حل کرنے کا عزم بھی لے کر آیا۔ مکّہ کی مذہبی، سیاسی اور معاشی مقتدرہ نے ۳۶۵بتوں کی ڈھال کی آڑ میں ہر آنے والے دن کی قسمت پہلے سے طے کررکھی تھی۔ یہاں معاشی سطح پر دولت پرستی نے آقاؤں اور غلاموں کے دو طبقات پیدا کر دیے تھے۔ (آج کے ’روشن خیال‘ زمانے میں یہ تقسیم نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور ان کی معاشی و فکری غلام اقوام میں پائی جاتی ہے)۔ مسلم دنیا اپنی معیشت، تحفظ، دفاع،تعلیم اور سیاست، غرض ہرشعبۂ حیات میں مغرب کی لادینی فکری اور علمی روایت کی اندھی تقلید میں مبتلا ہے۔ یہ ’جدید شرک‘ جوہری اعتبار سے اس شرک سے مختلف نہیں ہے،جس میں ہر خواہش کے لیے ایک بت تراش لیا گیا تھا۔ ہوش کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مکی دورِجاہلیت ہی کی ایک جدید شکل ہے ۔ اس لیے ہمیں مکی دور کی حکمتِ عملی کو سمجھ کر آج کے حالات کے لحاظ سے مناسب شکل دینی ہو گی۔
مکہ میں توحید خالص کا عملی مطالبہ یہ تھا کہ تمام جاہلی روایات سے تعلق توڑ کر صرف اللہ رب العالمین اور اس کی نازل کرد ہ ہدایت کو معیشت ،معاشرت، سیاست ، ثقافت اور علم، قانون، غرض ہرشعبۂ حیات میں نافذو قائم کرنے کے لیے مجاہدہ کیا جائے۔یہ اقامتِ دین کا جامع تصور ہے، جس نے مکی دورِ ظلمت کوایک تابناک دور میں میں تبدیل کر دیا ۔ حق آگیا اور حق آنے ہی کے لیے تھا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے کے لیے ہی تھا۔(انفال ۸:۸، بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)
اس دور کی حکمت عملی جو ہمارے ارتقائی سفر کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، مکی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ آیات آج بھی اسی طرح عملیت پسندانہ (pragmatic) سوچ اور حکمت عملی لیے ہوئے ہیں ، جس طرح اپنے نزول کے وقت تھیں ۔ قران کریم اور سنتِ مطہرہ کا ایک ایک لفظ وہ ابدیت لیے ہوئے ہے، جو کسی انسانی فکرمیں نہیں پائی جاسکتی۔ مکی دور کی یہ آیات وقت اور مقام کی قید سے بلند آج بھی تحریکات اسلامی کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قرآن کریم عالم گیر انسانیت کے اولین مرکز ، ایک بے آب و گیاہ وادی کو قیامت تک کے لیے مرکز نگاہ بنا دینے والے شہر مکہ معظمہ کی قسم کھا کر جس حکمت عملی کا ذکرکرتاہے وہ آج بھی ہر اسلامی تحریک کے لیے کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتی ہے ۔ فرمایا گیا:
نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی، اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے، اور قسم کھاتا ہوں باپ (یعنی) آدمؑ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑادیا۔کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا ؟ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دوہونٹ نہیں دیے؟ اور ( نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟ مگر اس نے دشوا رگزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزارگھاٹی؟کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کوصبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ (البلد ۹۰: ۱-۱۸)
آغاز جس بات سے کیا جارہا ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہے، یعنی کیا انسان کو قوت مشاہدہ اور قوت بیان سے نہیں نوازا گیا کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور ذہن وقلب سے جو اس کا تجزیہ کرتا ہے اس پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھا رہے، بلکہ کم از کم اپنے ہونٹوں اور زبان کا استعمال کر کے حق وباطل میں فرق اور تمیز کرتے ہوئے نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھتے ہوئے ، حق کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہو۔ اس سفر کی دشوار گزار گھاٹی کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتا آگے بڑھتا چلا جائے۔
اقامتِ دین کی جدوجہد کی سربلندی کے لیے جن رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، ان میں ’’کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا ہے‘‘، یا ’’کسی فاقہ کش کو فاقے سے بچانے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے‘‘، یا کسی ’’قریبی یتیم رشتہ دار کو‘حالت محرومی سے نکال کر مقام قیادت تک پہنچا دینا‘‘ بھی شامل ہے ۔
جب تحریک سے وابستہ فرد یہ کرے گا تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا:’’جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور(مخلوق پر)رحم کی تلقین کی‘‘۔ یہ افراد اس سورۂ مبارکہ کی روشنی میں کامیاب ہونے والے ہیں ، دائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے ۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے (ناکام لوگ) ہیں ۔ اس سورۂ مبارکہ میں جو منشور تحریک اسلامی کو دیا گیا ہے وہ ایک لفظ میں ’خدمت خلق‘کے ذریعے خالق کی رضا کا حصول ہے ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، گردن کا چھڑوانا یا آزاد کرانا اس غلامی تک محدود نہیں ہے جو روم ، یونان ، ایران اور ہندستان میں ظہورِ اسلام سے قبل پائی جاتی تھی۔ بلاشبہہ وہ بھی اس میں شامل ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر یہ فکری غلامی ، ثقافتی غلامی ، معاشی غلامی ، سیاسی غلامی ، علمی غلامی ، غرض غلامی کی تمام اقسام کا احاطہ کرتی ہے، اور تحریکات اسلامی کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ مادیت کا دور ہو یا بادشاہتوں کا، فوجی آمریتوں کا دور ہو یا لادینی جمہوریتوں کا زمانہ، یہ غلامی ہی کی شکلیں ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی جب تک ان بتوں کی جگہ حاکمیت الٰہی کا قیام عمل میں نہیں لاتیں، اس وقت تک ان کا ارتقائی سفر صحیح سمت میں نہیں ہو گا۔ یاد رہے مکی دور کی حکمت عملی مکہ تک نہ محدود ہے اور نہ اسے اُس حد میں محدود تصور کرنا چاہیے۔ یہ مدنی دور میں بھی اتنی ہی بنیادی اور مؤثر رہے گی، جتنی مکہ میں تھی۔
اگلی بات جو وضاحت سے بیان فرمائی گئی ہے وہ بھوکے کو کھانا کھلانے سے متعلق ہے ۔ آج دنیا کی آبادی کاایک بڑاحصہ بھوک کا شکار ہے۔ یہ بھوک اس سودی استحصالی نظام کی عطا کردہ ہے جس کی بنیاد معاشی ظلم پر ہے، جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ تحریکات اسلامی کو اس معاشی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مو جودہ نئے عالمی معاشی نظام (New Ecnomic World Order) کی جگہ ایک اخلاقی معاشی عالمی نظام کو متعارف کرانا ہو گا ۔ جس کا آغاز محدود پیمانے پرغیر سودی قرضوں سے کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کامیابی سے نوازاہے(پاکستان میں ’الخدمت‘ اور ’اخوت‘ نامی اداروںنے اس کو کامیابی سے کیا ہے ، کچھ دیگر ادارے بھی غیر سودی بنیاد پر یہ کام کر رہے ہیں، گویا یہ محض ایک خیال نہیں ہے ایک عملی شکل ہے)۔بھوک کو دور کرنے کی ایک شکل بھوکوں کو مچھلی کھلانے کی جگہ مچھلی پکڑنے کی تربیت دینا ہے۔
مکی دعوتی حکمت عملی میں یتیموں کا ذکر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ بہت سے قیمتی جواہر جو یتیم ہونے کے سبب کسی تاج کی زینت نہیں بن پاتے، اگر انھیں صیح تربیت مل جائے تو یہ انسانی سرمایہ معاشروں میں انقلاب پرپا کر سکتا ہے ۔
ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں جو عملی اقدامات اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے اور تحریک اسلامی کے دعوتی ارتقا ئی سفر کے دوران کیے جاسکتے ہیں،ہم نے ان میں سے صرف تین کی طرف نشان دہی کریں گے ۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید اہداف کا تعین کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ تحریکی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجوزہ عمل ہمیں مزید ایسے پہلوؤں کی طرف لے جائے، جن کے تجزیے اور حل کے ذریعے ہم اپنی دعوت کو مزید وسعت دے سکیں اور اپنی منزل سے مزید قربت حاصل کر سکیں ۔
تعلیم کا میدان
اولاً،مستقبل کی حکمت عملی ہی میںنہیں آج کی حکمت عملی میں بھی تعلیم اور علم کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔مکہ مکرمہ میں دعوت اسلامی کے قیام اورفروغ کے لیے دار ارقم کو مرکز بنایا گیا ۔ یہ تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز تھا ۔ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر تعلیم کے شعبے میں کام کیا ہے اور تحریک سے وابستہ افراد نے بہت سے نجی ادارے بھی قائم کیے ہیں، جو ایک بھلائی کا کام ہے۔ تاہم، اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تعلیم گاہ میں (جو دار ارقم کے تاریخی کردار سے وابستہ خیال کرلی گئی ہے ،نصاب ، تعلیمی و تربیتی ماحول ، کردار سازی کے لیے نفسیاتی اور تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی حکمت عملی، اساتذہ کی ایسی تربیت کہ ان کا ہر عمل طلبہ کے لیے نمونہ ہو) کا اہتمام کیا گیا ہے؟ یا عملا ً کاروباری بنیاد ہی پر توسیع ہورہی ہے؟ کیا ان مطلوبہ مقاصد اور دعوت کا پورا شعور رکھتے ہوئے اس کا انعکاس ہورہا ہے؟ ایک تعلیمی ادارے کے نصاب، اساتذہ کے کردار، ، امتحانی معیار ، کامیابی کے تناسب اور کامیابی کی درجہ بندی میں کیا وہ تصورات موج زن ہیں؟ کیا طالب علموں کے اخلاق و کردار میں مسلسل ترقی ہورہی ہے؟ غرض یہ کہ جب تک تعلیم میں فنی مہارت اور تعمیر سیرت و کردار کو یک جا نہیں کیا جائے گا وہ انسان تیار نہیں ہو سکتے جو اسلامی انقلاب برپاکرنے کا ذریعہ بنیں۔
ترکی کی کالعدم تحریک ’حزمت‘کی حکمت عملی میں کئی سبق ہیں۔ ’حزمت‘ نے اپنے لیے ایک۳۰ سالہ منصوبہ تیار کیا، جس میں تعلیم کے ذریعے دعوت کا فروغ مقصد قرار دیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے امام بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل و تعلیمات کو ایک ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا ایک جال پورے ملک میں۳۰سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ پھیل گیا۔ ان اسکولوں سے نکلنے والے نوجوان ملک کے عام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی گئے اور بعض ان کی اپنی جامعات میں داخل ہوئے ۔ ان کو تعلیمی مشاورت کے ذریعے عدلیہ ، فوج، انتظامیہ اور کاروباری دنیا میں متعارف کروایا گیا، حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کے فارغ طلبہ کی فیصلہ کن مقامات تک پہنچ گئی ۔ یہ کام کاروباری انداز میں نہیں بلکہ مشن اور مقصد کے ساتھ کیا گیا اور سوچ سمجھ کر علامہ سعید نورسی کے رسائل کو اس لیے استعمال کیا گیا کہ ملک کے دین دار طبقات میں ان کا خیر مقدم ہو سکے ۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ۔
یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے کہ ان کے اور طیب اردگان کے درمیان پچھلے انتخابات میں اتحاد کس طرح ہوا اور حالیہ صورت حال میں دونوں میں ٹکراؤ کیوں اور کیسے ہوا؟ پھر یہ بھی اس وقت زیر بحث نہیں کہ’حزمت‘ کو اس کی قیادت نے کن وجوہ اور کن قوتوں کی ایما پر غلط سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟اس وقت ہمارے لیے جو پہلو قابل غور ہے، وہ ان کی تعلیمی حکمت عملی میں باہمی ربط اور مواصلاتی نظام کے ذریعے حصول مقصد ہے۔ طویل المیعاد تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے آیندہ ۲۵سال میں مختلف شعبہ ہاے زندگی میں قیادت کے قابل افراد کو تعلیم و تربیت کے ایک معیاری نظام سے گزار کر تیار کیا جاسکتا ہے، جن کی سیرت و کردار پر تحریکی مزاج غالب ہو۔ فر ض کیجیے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود، وہ سیاسی ہدف جو دعوت کا ایک لازمی حصہ ہے حاصل نہ ہو سکا، جب بھی اقامتِ دین کاایک اہم ہدف، یعنی افراد کار کی تیاری ، اور ان کے ذریعے خاندان اور معاشرے پر اثرانداز ہونا تو ہاتھ سے نہیں جا سکتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے بالآخر اجتماعی تبدیلی رونما ہو کر رہے گی۔ یہ مسلسل جدوجہد تحریک کے ارتقائی سفرکو منز ل کی جانب رواںرکھے گی۔
کیا آج اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کی کوششوں کے نتیجے میں باہر کے حلقے میں نہیں، خود تحریکی حلقوں میں فرد، خاندان ، معاشی سرگرمی اور معاشرتی تبدیلی کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکے ہیں؟ تحریکی فکر کا ایک لازمی حصہ مسلسل احتساب کا عمل ہے کہ ہم اپنے اہداف سے کتنے قریب ہیں؟ اس لیے اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتو ہمیں اسے تحمل مزاجی کے ساتھ دیکھنا ہو گا اور جو کمی رہ گئی اسے دُور کرکے شعور اور جذبے سے آگے بڑھنا ہو گا ۔کسی ایک مقام پر رک جانا اور محض ماضی کے تذکروں سے عظمتیں گنتے رہنے اور محض طاغوت کی برائیاں بیان کرتے رہنے سے پیش آمدہ مسائل حل نہیںہو سکتے۔
تعلیمی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے، جیسا کہ اوپر صرف ایک مثال دے کر وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح تعلیمی میدان میں قومی سطح پر حکمت عملی وضع کر کے اس کے نفاذ کے لیے جدو جہد کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت وقت سے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن خود تحریک کے پاس جتنے کچھ انسانی وسائل موجود ہیں، انھیں اعلیٰ معیار پر تعلیم و تربیت کے نظام کے قیام کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ آج غیر سرکاری تعلیم ، سرکاری تعلیم سے زیادہ انقلابی نتائج دکھا سکتی ہے۔ جو ادارے خود کو تحریکی پہچان سے منسوب کرتے ہیں، اگر وہ تحریکی اہداف کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ امر تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اصلاح کی ضرورت اور اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔
تعلیمی اداروں، خصوصاً اسکول سسٹم کو دعوتی نقطۂ نظر سے غیر معمولی مرکزیت حاصل ہے۔ انھیں ایک یا دو شفٹ میں چلا کر ایک اچھی آمدن پیدا کرنا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعے طلبہ و طالبات کے والدین تک پہنچ کر، ان کی فکری تربیت ایک اہم مقصد اور ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سکول کے احاطے کو محض اسکول کے لیے نہیں، بلکہ ہر ہفتہ کسی ایسی دعوتی سرگرمی کے لیے جو نہ صرف والدین اور طلبہ بلکہ پورے معاشرے کے لیے مفید ہو، استعمال نہ کرنا کفران نعمت کے مترادف ہے۔یہ درس قرآن سے لے کر صحت کے اصو لوں پر گفتگو ، قومی دنوں پر تحریکی نقطۂ نظر سے تقریبات کے انعقاد، اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی اصلاح کے لیے مطلوب سرگرمیوں کے مرکز بن سکتے ہیں۔ یہ کام غیر سیاسی ہونا چاہیے تاکہ ہم خیال اور اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس میںشرکت کرنے میں تنگی محسوس نہ کریں، اور یوں وہ تحریک کی فکر اور دعوت کو سمجھ سکیںگے۔ اس سرگرمی کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا نہیں ہے۔ یہ با ت ذہن میں رہے کہ جس طرح پہلا دعوتی مرکز دار ارقم تھا، ایسے ہی مدینہ منورہ میں بھی دعوتی مرکز صفہ تھا اور دونوں کا ہدف فکر و عمل کو یکجا کر کے علم اور تقویٰ و احسان کے ذریعے اسلام کی مطلوب شخصیت کی تعمیر تھا۔ یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
دوسرا اہم میدان معاشی طور پہ پریشان افراد کی خدمت ہے ۔ اس میں مائیکرو فنانس (یاچھوٹے قرضوں کی فراہمی) جس کا تذکرہ اشارتاً پہلے آچکا ہے، تحریک کی توجہ کا مستحق ہے ۔ تحریک کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جو اس شعبے کا فنی تجربہ رکھتے ہیں اور خالص اسلامی بنیادوں پر اسے چلا سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے آیندہ ۲۵سالہ حکمت عملی کے طور پر اس شعبے کو ترجیح دی جائے۔ یہ کام پورے پاکستان میں پھیلانے کے بجاے مختلف اضلاع کو متعین کر کے شروع کیا جائے اور پھر بہ تدریج اس کے دائرے کو بڑھایا جائے لیکن فیصلے سے پہلے غیر جانب دارانہ میدانی جائزہ ضروری ہے۔
تحریکی ترجیحات میں ہمیںتعلیمی اور معاشی اداروں میں بلوچستان اور سندھ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس کے بعد پختوانخواہ پر توجہ دی جائے ، اس وقت ان دونوں مقامات پر نظریاتی خلا اپنے عروج پر ہے۔ اگر اس وقت تحریک یہ کام نہیں کرے گی تو اسے بعد میں زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
تیسرا شعبہ صحت کا ہے۔ اس میں مفت طبی امداد کے مراکز ، فری شفا خانے کاتصور اور ایسے طبی مراکز کا قیام ضروری ہے جو گاؤں ، قصبے اورضلعے میں تشخیص کے بعد ایک مریض کوصحیح مشورہ دے سکیں کہ مریض مقامی طور پر علاج کرائے یا کسی دوسرے مرکز میںجا کر مزید تشخیص کے بعد اس کا علاج ہو ۔ اس سلسلے میں دُور دراز مقامات کو ترجیح دی جائے۔ یہ اہم کام بآسانی ملک گیر بنیاد پر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے بھی جائزے کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ عقل یہ کہتی ہے بلوچستان کو اولین اہمیت دی جائے ، اس کے بعد سند ھ اور خبیر پختونخوا ترجیحی بنیاد پر ہو۔
ان گزارشات میں صرف تین عملی میدانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر اس رخ پر غور کیا جائے تو کئی اور اہم شعبے ہیں، جن میں ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ تحریکی نگارشات خصوصاً مولانا مودودی کی تحریرات میں وہی تازگی اور مطابقت (relvance) موجود ہے جو اب سے ۵۰سال پہلے تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سمجھتے ہوئے ان کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے ۔ماچھی گوٹ کے اجتماع میں مولانا محترم کی تقریر اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور آج بھی روشنی کا مینار ہے۔
آج کے حالات میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل Action Planیا حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے بانی نے جو ترجیحات مقرر کیں ، ان سے ہم میں سے اکثر حضرات واقفیت رکھتے ہیں یعنی تطہیر افکار و تعمیر افکار، صالح افراد کی تیاری ، اجتماعی اصلاح اور آخر کار نظام حکومت کی اصلاح۔ بلاشبہہ چوتھا مرحلہ بھی اہم اور فیصلہ کن ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا تحریک کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے لیکن اولین تینوں نکات بھی بے حد اہم ہیں اور چوتھے مرحلے کی کامیابی کے لیے ان پر قرار واقعی توجہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہماری خاص توجہ کی جرورت ہے یہ اس لیے بھی کہ خود بانی تحریک نے تیسرے مرحلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع ہوں۔اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اورہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں ، کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف، کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو ، کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے ہو، کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو ، کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کرے اور کوئی علم وتحقیق کے میدان میں ۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہاے کار الگ الگ ہوں مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔یہ کام صرف وعظ ہو تلقین ، نشرو اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے مثلاً یہ اصلاح کرنے والے جہاں کہیں اپنی تبلغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں وہاں انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کریں اور ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کریں ، جس کے چند اجزا یہ ہیں : بستی میں مسجدوں کی اصلاح احوال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروانا ، تعلیم بالغان کا نظام ، کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام ، لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدو جہد ، باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظان صحت کی کوشش، بستی کے یتیموں، بیواؤں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، مذہبی تعلیم کاا یسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کاانتظام ہو‘‘۔ (مسلمانوں کا ماضی ، حال ،اور مستقبل، ۱۱نومبر، ۱۹۵۱ءکراچی، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، ص ۳۳۱-۳۳۲، مطبوعہ ۱۹۹۸ء)
ہم جس ارتقائی سفر Progressive Process سے گزر رہے ہیں ،اس میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ہم نے اس تیسرے مرحلہ کے تقاضوں کو مطلوبہ اہمیت اور توجہ دی ہے؟ کیا ا س سے قبل کے دو مراحل ضروری حد تک سر کیے جا چکے ہیں، یہ اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں میدانوں کو بیک وقت مخاطب کرنا ہو گا اور مکی اور مدنی تقسیم کی جامد تعبیر سے نکل کر ایک چومکھی جہاد کو اپنی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا ۔اس امر پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ کیااس حکمت عملی میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے ہم نے اپنی ترجیحات میں غیر مسلموں کو دعوت، ماحولیاتی مسائل ، معاشرتی مسائل ، خاندان کا تحفظ، بچوں پر ہونے والی زیادتیوں،خواتین کے جائز حقوق، معاشی و تعلیمی حیثیت سے کمزور افراد کے مسائل کا حل اور اسلام کے معاشرتی عدل کے قیام کے لیے معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اداروںکے قیام کی فکر کہاں تک کی ہے ۔ ہمارے ارتقائی سفر کے لیے ان تمام پہلو ؤں کا شعور اور ان پر ایک واضح حکمت عملی اور اس حکمت عملی کے حصول کے لیے مناسب اور مؤثر پروگرام اور اقدامات کی ضرورت ہے۔