نومبر ۲۰۱۶

فہرست مضامین

علّامہ محمد اقبال اور افغانستان

ڈاکٹر عبدالمغنی | نومبر ۲۰۱۶ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

افغانستان، برطانوی سامراج کے وقت سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، خاص کر برعظیم پاک و ہند اور مرکزی و مغربی ایشیا کے لیے تو اس کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ جب ایشیا اور افریقہ پر یورپ، خصوصاً برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا تو یہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیوروجری مسلم پشتون قبائل تھے، جو مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحدوں پر کر رہے تھے۔ ایک طرف سے برطانیہ اور دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں۔ افغانستان اس وقت ہندستان اور پورے ایشیا و افریقہ کی تحریکاتِ آزادی کے لیے نہ صرف ایک مینارِ اُمید بلکہ مجاہدین آزادی کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔

سامراجی سازشیں

مغرب کے سامراجیوں کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اُٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ معاشرے پر دینِ اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے، یا مطلقاً و عموماً لوگوں کو مذہب سے بیگانہ کر دیا جائے۔  اس لیے کہ یورپ کے عیار مدبّرین بہت غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے، جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقت کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت کے لیے، اور حُریت و آزادی کے حصول کے لیے اُکساتی اور آگے بڑھاتی ہے۔ اقبال مغربی منصوبے کے اس راز کو پاگئے۔ اقبال کے لفظوں میں یہ: ’ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف‘۔ گویا یہ ایک ابلیسی سازش تھی چنانچہ ضربِ کلیم  کی ایک نظم ’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ میں اس سازش کا پول اس فکرانگیز انداز میں کھولا گیا ہے:

لاکر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں

زُنّاریوں کو دیرِ کُہن سے نکال دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو

آہو کو مرغزار خُتن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

ایشیا و افریقہ کے ممالک (بہ شمول مقبوضہ برطانوی ہندستان) کی سیاسی آزادی سے پہلے مشرق کی یہ وہ صورتِ حال تھی، جس میں اقبال کی پُرامید نگاہیں افغانستان اور اس کے قریبی علاقے پر مرکوز تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی سامراج کو اس کی بے پناہ مادی قوت کے پیش نظر، اگر شکست دی جاسکتی ہے تو ایک کوہستانی علاقے ہی میں اور ان جفاکش لوگوں کے ذریعے ہی، جن کی پرورش ایک آزاد فضا میں محنت و مشقت اور غیرت و خودداری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے شاہین کو جو ایک مثالی جواں مرد کی علامت بنایا، وہ افغانستان اور سرحد کے علاقے ہی کا ایک مشہور و معروف پرندہ ہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ایمانی جرأت ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکر لی جاسکتی ہے اور اس مقابلے میں تائید ایزدی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ جرأت ایمانی دورِ غلامی کے برعظیم اور مرکزی و مغربی ایشیا میں اقبال کو صرف افغانستان اور سرحد کے آزاد خطے میں نظر آتی تھی۔ ارمغانِ حجاز میں ’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘ ایک نہایت ولولہ انگیز نظم ہے جس سے آج کے افغانستان کے تازہ ترین حالات پر ایک بصیرت افروز روشنی پڑتی ہے:

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص

کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

تقدیر اُمم کیا ہے ، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

اخلاص عمل مانگ نیاگانِ کہن سے

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا

معرکہ روح و بدن

فلسطین ہو، ایران ہو، افغانستان ہو، ہرجگہ دنیا کو ’معرکۂ روح و بدن پیش‘ ہے۔    ایک طرف مادیت کا پورا سازوسامان اور اسلحہ و آلات ہیں، جب کہ دوسری طرف ایمان کی اخلاقی و روحانی طاقت۔ مغربی تہذیب، خواہ امریکی سرمایہ داری کی ہو یا اسرائیلی صہیونیت کی، یا کمیونزم کی، اپنے تمام درندوں کو اُبھار لائی ہے اور توپ و تفنگ سے بم اور گیس تک ہلاکت کے سارے ذرائع و وسائل کمزور اور معصوم انسانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔  تہذیب حاضر کی ابلیسی طاقتوں کو ’یورپ کی مشینوں کا سہارا‘ ہے اور ان کے مقابلے میں اللہ کی  تائید و نصرت صرف ’پامردی مومن‘ پر مبنی ہے۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے اس تاریخی معرکے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ’تقدیر اُمم کیا ہے؟‘ اللہ کی مشیت کیا چاہتی ہے؟ ایسے بظاہر نابرابری کے معرکے کا انجام کیا ہوگا؟ لیکن سارے سوالات اور شبہات اسی صورت میں اُٹھتے ہیں جب نظر  محض مادی وسائل اور ظاہری اسباب پر مرکوز ہو۔ برخلاف اس کے  ع

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

یہ فقط خوش عقیدگی اور خوش فہمی کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ایسا ہے کہ کارِ دنیا میں اسباب و وسائل کی اہمیت نہیں ہے۔ جرأت ایمانی کے ساتھ فراست ایمانی کی بات بھی ہے۔ معمولی دنیوی تدبر اور مادی بصیرت اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی کہ کسی بھی معرکے میں آخری فیصلہ ہتھیاروں سے نہیں کرداروں سے ہوتا ہے اور یہ انسان ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی وسائل سے بڑے سے بڑے کام لیتا ہے۔ اس لیے کسی فوج کی اخلاقی حالت ہی اسے اس دلیری اور پامردی پر آمادہ کرتی ہے جو ہر جنگ میں فتح کی کنجی ہے۔ لہٰذا، مومن کی فراست کے لیے یہ اشارہ کافی ہے کہ حق و باطل اور کفروایمان کے معرکے میں آخری فتح ایمان اور حق کی ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے،اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔

لہٰذا، ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے ’اخلاصِ عمل‘ کی طلب کرنی چاہیے۔ ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ عقیدے کی کامیابی کے لیے کوشش بھی درکار ہے، لیکن ہرعمل اور ہرکوشش کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ’اخلاص‘ شرط ضروری ہے۔

فراستِ مومن کا ’اشارا‘ عصرِحاضر کے آیندہ حالات کی طرف بھی ہے۔ اس حقیقت کو مومن کی بصیرت ہی سمجھ سکتی ہے کہ آج کی دنیا کے تمام لادینی نظریات ناکام ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم ادیان پہلے ہی ازکار رفتہ ہیں۔ پھر ان نظریات کی علَم بردار قومیں اخلاقی لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہیں۔ عیاشی ان کے معاشرے کو گھُن کی طرح چاٹ چکی ہے۔ بدکرداری نے ان کے قُواے عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔ ان کی سیاست دھوکے بازی، ان کی معیشت بوالہوسی اور ان کی معاشرت گندگی ہے۔ لہٰذا ،زوال ان کا مقدر بن چکا ہے اور مستقبل ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اور اسلام  ایک بار پھر پرانی جاہلیت و ظلمت کی طرح نئی جاہلیت و ظلمت کو بھی دُور کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والا دُور اس کا ہی ہے:

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلبِ سلیم

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے، قصۂ فرعون و کلیم

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور

کھا گئی روحِ فرنگی کو ہواے زر و سیم

’فرنگی‘ سے مراد ’مغربی‘ ہے جس میں امریکا، یورپ اور روس سب شامل ہیں اور روح فرنگی ہراس جگہ ہے، جہاں ’زر وسیم‘ کی پرستش ہوتی ہو۔ ’فقرغیور‘ کا مطلب اقبال ہی سے سنیے   ؎

لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور

پیغامِ انقلاب

انھی خیالات کے تحت اقبال نے ضربِ کلیم کے آخر میں’محراب گل افغان کے افکار‘ کے ذریعے افغانیوں کو پیغامِ انقلاب دیا:

رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان

اپنی خودی پہچان

تو بھی اے فرزند کہستاں، اپنی خودی پہچان

او غافل افغان

موسم اچھا ، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز

اپنی خودی پہچان

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

او غافل افغان

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اپنی خودی پہچان

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

او غافل افغان

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

اپنی خودی پہچان

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

او غافل افغان

نصب العین

یہ پیغام اندرونی انقلاب کا ہے تاکہ ان بے علم افغانوں کے ہاں سے( جنھوں نے ’بے علموں کی لاج‘ رکھ لی ہے، جب کہ ’عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان‘)۔ جہالت اور افلاس نیز کاہلی دُور ہو اور وہ اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک انقلاب کا جھنڈا لے کر اُٹھیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروے کار لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں۔ یہ اس نظم کا خلاصہ ہے جو اُوپر درج کی گئی، جب کہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ اور نصب العین یوں دیا گیا ہے   ؎

افغان باقی کُہسار باقی

الحکم للہ ، الملکُ للہ!

اس پیغامِ انقلاب کے ساتھ ایک اور نظم میں افغانیوں کی انقلابی قوتوں کو اُبھارا گیا ہے:

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری

اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر

اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری

عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز

کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری

خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی

کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کرّاری

نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو

یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری

دیگر نظموں میں چند خاص نصیحتیں بھی احوالِ زمانہ اور حقائقِ حیات کے پیش نظر دی گئی ہیں:

لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا ، لاغالب اِلاّ ہو

صیّادِ معانی کو یورپ سے ہے نومیدی

دل کش ہے فضا لیکن بے نافہ تمام آہو

__________

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے

نگاہ وہ ہے جو محتاجِ مہر و ماہ نہیں

فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن

قدم اُٹھا ، یہ مقام انتہاے راہ نہیں

__________

بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی

بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق ید اللّٰہی

اب یہ دیکھیے کہ اقبال اپنی خدادادبصیرت کی بدولت جانتے ہیں کہ افغانستان کس طرح اپنی جغرافیائی اہمیت کے سبب ’رقابتِ اقوام‘ کا نشانہ رہا ہے اور رہے گا اور اسی وجہ سے اسے زمانے کا زخم بھی لگتا رہا ہے اور لگتا رہے گا اور یہ کہ اس زخم کا علاج کیا ہے:

حقیقتِ ازلی ہے رقابتِ اقوام

نگاہِ پیرِ فلک میں نہ مَیں عزیز نہ تو

خودی میں ڈوب زمانے سے نااُمید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اُتر گیا جو ترے دل میں لَا شَرِیْکَ لَہٗ

اقبال کی دُوربین نگاہیں مستقبل کی تبدیلیوں کو بھی دیکھتی ہیں اور افغانیوں کو ان سے نبردآزما ہونے کے لیے اشارے کرتی ہیں:

مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دِگرگوں

معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا

ہرسینے میں اِک صبحِ قیامت ہے نمودار

افکار جوانوں کے ہوئے زیروزبر کیا

کرسکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی

اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا؟

ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے

اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا

توقعات

یہ مشورے اقبال نے افغانیوں کو اس لیے دیے کہ مستقبل میں ان سے تاریخی کردار کی توقع تھی:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندئہ صحرائی ، یا مرد کُہستانی

دنیا میں محاسب ہے ، تہذیبِ فسوں گر کا

ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی

بہرحال اقبال، افغانستان کے قبائل کی اصل کمزوری سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ  وہ سب سے پہلے اس کو دُور کرلیں، تاکہ آنے والے سخت تر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں:

یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے

کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری

عزیز ہے انھیں نامِ وزیری و محسود

ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری

ہزار پارہ ہے کُہسار کی مسلمانی

کہ ہرقبیلہ ہے اپنے بتوں کا زُناری

وہی حرم ہے ، وہی اعتبارِ لات و منات

خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری

یہ پیغام اتحاد و تنظیم تو محراب گل افغان کی زبانی ہوا۔ پشتو شاعر خوش حال خاں خٹک نے بھی بلندنگاہی اور اُولوالعزمی کے ساتھ ملّی اتفاق و یگانگت کا یہ پیغام افغانیوں کو دیا تھا:

قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

وسعتِ نظر

ان باتوں کے علاوہ اقبال کی نظر مرکزی ایشیا اور اس کے قرب و جوار کی سیاست پر اتنی گہری تھی کہ پیامِ  مشرق   کی ایک غزل میں انھوں نے روس کے اشتراکی سامراج کی ہلاکت خیز جارحیت کا اندیشہ بھی ظاہر کر دیا    ؎

از خاکِ سمرقندے تر سم کہ دگر خیزد

آشوب ہلاکوے ، ہنگامۂ چنگیزے

’خاکِ سمرقند‘ سے ایک ہلاکو اور ایک چنگیز کی پُرآشوب ہنگامہ خیزی کی یہ پیش گوئی     اس وقت پوری ہوچکی ہے اور اشتراکی روس چنگیز و ہلاکوے وقت بن کر اپنے ایشیائی مقبوضات سمرقند وبخارا وغیرہ سے افغانستان پر اپنی تمام ہلاکت سامانیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ عبرت انگیز واقعہ تاریخ کی ستم ظریفیوں میں سے ایک ہے کہ جس جمال الدین افغانیؒ سے اقبال نے جاوید نامہ میں ’پیغام باملّت روسیہ‘دلوایا تھا، اسی افغانی کے وطن پر روسیوں نے ہوسِ ملک گیری میں حملہ کردیا۔ جمال الدین افغانی نے روس کو خاص کر تین مشورے دیے تھے:

۱- ملوکیت، یعنی سامراج کی طرف رُخ نہ کرے،۲- اپنی تقدیر کو مغرب کے بجاے مشرق سے وابستہ کرے، ۳- لا سے اِلا کی جانب سفر کر کے قرآنی نظامِ حیات کو اختیار کرلے۔

لیکن روس ’لا‘ کے دلدل میں گرفتار ہوکر منفی اشتراکیت کی گود میں گیا اور ایک ہولناک سامراجی طاقت بن گیا۔ پھر طاقت کے نشے اور تعصب کے جنون میں اس نے عصرِحاضر میں اپنے آپ کو مغرب کی ایک نوآبادیاتی، قوم پرست اور علاقہ پرست حکومت کی حیثیت سے پیش کیا۔   اسی سامراجی حیثیت سے مرکزی ایشیا کے بیش تر علاقوں [ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان،  آذربائی جان، قازقستان، ترکمانستان] کو اپنی مقبوضہ نوآبادیاں بناکر اور وہاں کے باشندوں کی تہذیبی نسل کشی کردینے کے بعد، ۱۹۷۹ء میں، اس نے مرکزی ایشیا کے واحد آزاد ملک افغانستان پر بھی حملہ کردیا۔ اس نے سوچا کہ افغانستان پر بھی قبضہ جماکر اپنے سامراجی قدم، مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی طرف بڑھائوں۔

اشتراکی غلطی

جمال الدین افغانی کے ذریعے اقبال نے روس کو ایک محکم اساس پر اپنی نئی نظریاتی ملّت کی تشکیل کا جو پیغام دیا تھا، اس کی خلاف ورزی کرکے اشتراکی روسی طاقت نے سخت غلطی کی، جس کا خمیازہ اس کو بہت جلد بھگتنا پڑا۔ اشتراکی روس نے اپنے مشرق کے پڑوسیوں کے ساتھ وہی رویہ جاری رکھا جو زارشاہی نے اختیار کر رکھا تھا، بلکہ دغابازی، فتنہ پردازی اور خوں ریزی میں اشتراکی روس، شہنشاہی روس سے بھی بہت آگے نکل گیا۔ اس نے اپنی فرعونیت سے مرکزی ایشیا کی اس عظیم الشان تہذیب کو کچل کر رکھ دیا، جو اس کے لیے ایک زبردست اثاثہ ہوسکتی تھی، اگر      وہ اس تہذیب کی قدروں کو قبول کرلیتا یا کم از کم انھیں پھلنے پھولنے کا آزادانہ موقع دیتا۔ لیکن روس نے وہ تاریخی موقع کھو دیا، جس کی اہمیت کی طرف اقبال نے اس کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

ممکنہ   تباہیاں

شاید وقت آگیا ہے کہ روس کا خوف ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے لیکن ایک خوف زدہ ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت بدحواسی میں کیا تباہیاں مچاسکتی ہے، اس کا تصور ہی دنیا کے لیے لرزہ خیز ہے۔ بہرحال کسی ’سمرقند‘ سے ’ایک ہلاکو ‘ اور ’ایک چنگیز‘ کا نمودار ہونا، جیساکہ اقبالؔ نے پیامِ  مشرق کے محولہ بالا شعر میں پیش گوئی کی ہے،تاریخِ انسانی کے اس خطرناک اور پُرہول لمحے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یاجوج ماجوج ذوالقرنین کی کھڑی کی ہوئی دیوار توڑ کر یا اس کے ٹوٹ جانے پر ’’ہرسطح مرتفع سے دوڑ رہے ہوں گے‘‘ (وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَo  الانبیاء ۲۱: ۹۶)

قرآن نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے جو آج کی اصطلاح میں سطح مرتفع ہے اور یہ    اس خطے کی جغرافیائی خصوصیت ہے جو چینی ترکستان سے روسی ترکستان تک پھیلا ہوا ہے اور سمرقند اس خطے کا مرکزی مقام ہے۔ وقت کے ہلاکو و چنگیز سے اقبال کا اشارہ روس کی طرف ہے کیوںکہ اشتراکی روس کے اندر آشوب قیامت اور ہنگامہ خیز باطل طاقت کی ساری صفات پائی جاتی ہیں۔

غیرمعمولی شغف

بہرحال ، یہ افغانستان کے ساتھ اقبال کے غیرمعمولی شغف کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۳۳ء میں سرراس مسعود اور علّامہ سیّد سلیمان ندوی کے ساتھ وہ والیِ افغانستان نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کا نظامِ تعلیم مرتب کرنے کے لیے افغانستان تشریف لے گئے اور بادشاہ امراے سلطنت اور عوام کو اسلام کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ بزرگانِ ملک جو مشاہیرِ عالم ہیں، کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے۔ محمود غزنوی،ظہیرالدین بابر، حکیم سنائی اور احمدشاہ درانی و ابدالی جیسی شخصیتوں کے متعلق اظہارخیال کرکے اقبال نے افغانیوں کے سامنے ان کی تاریخ کے زریں اوراق رکھ دیے تاکہ وہ اپنی عظمت ِ رفتہ سے روشنی حاصل کر کے موجودہ تاریکیوں کو دُور کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کریں اور آنے والے دور  کے لیے خود ایک روشنی بن جائیں۔

آرنلڈ ٹائن بی کا خیال ہے کہ عالمِ انسانی کے اتحاد و انقلاب کی تحریک عصرِحاضر میں مرکزی ایشیا خاص کر اس علاقے سے اُٹھے گی جو دیار ِ افغان ہے۔ اقبال کو نادرشاہ سے توقع تھی کہ وہ ملّتِ افغان کو مستقبل کے انقلابی رول کے لیے تیار کر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۳۳ء میں افغان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کے خیالات ان کی مثنوی مسافر میں بروے اظہار آئے ہیں (جو پس  چہ   باید   کرد  اے اقوامِ شرق کے ساتھ شائع ہوئی)۔ مسافر کا ایک باب ہے:’خطاب بہ اقوامِ سرحد‘۔ اس کے چند اشعار جو مناسب موقع ہیں، یہ ہیں:{ FR 721 }

بندئہ حق وارثِ پیغمبراں

اونگنجد در جہانِ دیگراں

تا جہانے دیگرے پیدا کند

ایں جہانِ کہنہ را برہم زند

فطرتِ او را کشاد از ملّت است

چشمِ او روشن سواد از ملّت است

اند کے گم شو بقرآن و خبر

باز اے ناداں بخویش اندر نگر

در جہاں آوارئہ بے چارہ

وحدتے گم کردئہ ، صد پارہ

بندِ غیراللہ اندر پاے تست

داغم ازداغے کہ در سیمائے تست ۱؎

پس  چہ   باید   کرد  اے اقوامِ شرق کا پیغام آج بھی تروتازہ ہے۔ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے مشرق کے لیے مضمونِ واحد ہے۔ مشرق کی تقدیر بدلنے کے لیے، اقبال ملّت ِ بیضا سے توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے ___ اور تاریخ، ملّت ِ بیضا سے جواب کی منتظر ہے!