بسم اللہ الرحمن الرحیم
قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور بھارت نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لیے آزادی کے فوراً بعد اس شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سازش‘ دھوکے‘ فوج کشی‘ بدعہدی غرض ہر حربے اور ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال کیا اور بالآخر ریاست جموں و کشمیر کے دوتہائی حصے پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
بھارت کے اس ناجائز قبضے کو نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے ریاست کی حیثیت (status ) کو متنازعہ قرار دیا اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے عملی اظہار کا ان کو موقع ملنا چاہیے۔
برطانوی محقق الیسٹرلیمب (Alastair Lamb)نے تو دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ قانونی طور پر بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ اس بنیاد پر لے کر گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان اور اس کے قبائل نے دراندازی کی ہے تو سلامتی کونسل نے ایک نہیں سات بار اس امر کا اظہار کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام استصواب راے کے ذریعے کریں گے ___ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اقوامِ متحدہ کے مبصرین لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ڈیوٹی دے رہے ہیں۔تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستانی قوم کا متفقہ مؤقف یہی رہا ہے کہ کشمیر‘ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ہر پہلو کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو اور اسی حقیقت کا اظہار جموں و کشمیر کے معتبر نمایندوں نے جولائی ۱۹۴۷ء میں الحاقِ پاکستان کی قرارداد کی شکل میں کردیا تھا۔ جس کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کی جانی تھی جسے بھارت نے آج تک نہیں ہونے دیا۔
جموں و کشمیر کے عوام اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لیے ۵۷ سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جہادِ حریت میں پانچ لاکھ سے زیادہ کلمہ گو جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہزاروں عصمتیں لٹ گئی ہیں‘ بستیوں کی بستیاں تباہ ہوچکی ہیں‘ ہزاروں افراد اس وقت بھی جیلوں میں محبوس ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر سے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے‘ البتہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی شکل میں پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف پر اصرار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کے عہد کے ساتھ مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی راہ قبول کرنے کی جو غلطی کی اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلے کو آج تک معلّق رکھا ہوا ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری ہر اعتبار سے بھارت میں ضم (integrate) کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ایک طرف جبر اور ظلم کے ہر ہتھکنڈے کا بے محابا استعمال کیا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کو بار بار لایعنی مذاکرات کے جال میں پھنسانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے کرتب دکھاتا رہا ہے۔
انھی حالات سے مجبور ہوکر جموں و کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھارت کے استبدادی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۹ء سے پوری ریاست عملاً حالتِ جنگ (state of war) میں ہے اور بھارتی اقتدار کی عملداری فوج کی بندوقوں کے سایے تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کے جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کی سامراجی حکومت اور اس کے شریکِ جرم مقامی کٹھ پتلی حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم نہیں کر سکے۔ آزاد مبصرین کی نگاہ میں اس بارے میں آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کی حکمرانی اور تسلط پر کسی شکل میں بھی راضی نہیں اور وہ دہلی کی حکومت سے مکمل طور پر بے تعلق (alienated) ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت (ground reality) ہے جسے نظرانداز کرکے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کسی معاملہ بندی (understanding) کا تصور ہمالہ سے بھی بڑی غلطی (Himalyan blunder) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا مشہور صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر بھارت کی کشمیر پالیسی کا بڑا ہوشیار مؤید اور علم بردار ہے اور پاکستانی قیادت کو لچک کے وعظ دیتا رہتا ہے لیکن وہ بھی باربار یہ اعتراف کرچکا ہے کہ کشمیری عوام دہلی کی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس میں دفاع اور سلامتی کے امور کا ایک تجزیہ نگار اجائے شکلا (Ajai Shukla)اپنے ۵ مئی ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کرتا ہے:
کشمیری دل کی گہرائیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے سیاسی عزم نے اور جن لوگوں نے اس کے لیے جانیں دی ہیں‘ ان سے وفاداری کے احساسات نے پرورش کیا ہے۔
پاکستان کے جو لبرل اور روشن خیال صحافی چند ماہ قبل کشمیر کے دورے پر گئے تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں خواہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان میں ایک تعداد پاکستان سے اس کی پالیسیوں کے انتشار اور ژولیدہ فکری کی بنیاد پر مایوس ہو۔ ایک اور لبرل صحافی خالد حسن (ڈیلی ٹائمز کے واشنگٹن کے نمایندے) ابھی کشمیر ہوکر آئے ہیں اور وہ فرائی ڈے ٹائمز (شمارہ ۶سے۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ) میں لکھتے ہیں کہ:
بھارت سے علیحدگی کا احساس مکمل ہے۔ کوئی بھی کشمیری اپنے آپ کو بھارتی نہیں سمجھتا۔ جب میں کشمیری کہتا ہوں تو میری مراد وادی کے مسلمان ہوتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ کبھی پہلے چاہتے تھے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی قیمت پر جو پالیسیاں اختیار کیں‘ اس سے لوگ دل برداشتہ ہیں۔ جس سے بھی بات کرو‘ ایک ہی جواب ملتا ہے: آزادی۔ آج کے کشمیر کی حقیقت شہدا کے وہ قبرستان ہیں جہاں تقریباً تمام قبریں ان نوجوانوں کی ہیں جن کی فصل جوانی کی پہلی بہار ہی میں کاٹ دی گئی۔ (دی فرائی ڈے ٹائمز‘ ۶-۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ)
جنرل پرویز مشرف نے اپنی دلّی کی ملاقاتوں کے بعد جن توقعات کا اظہار کیا ہے اور پھر سفما(South Asian Free Media Association) کے زیراہتمام جنوبی ایشیا کی پارلیمانی کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس ’’سنہری لمحے‘‘ کی بات کی ہے اس کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملّت اسلامیہ پاکستان اور اس کی حقیقی قیادت کے لیے سب سے بڑی ضرورت حالات کے بے لاگ جائزے اور صحیح حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی خوش فہمیوں کے خمار میں ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی شہ رگ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کشمیر پالیسی پر مسلسل قلابازیوں پر مبنی جنرل صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بھارت سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ دراصل پاکستان کے اصولی مؤقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ حکمران کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی ہی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ اپنے سوا کروڑ بھائیوں اور بہنوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکا کی گرفت میں دینے میں معاونت کررہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری لگانے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نظریاتی تشخص‘ اس کی قومی سلامتی اور اس کے وسیع علاقوں کے لیے مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کے امکانات سب دائو پر لگ چکے ہیں۔
ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام ضروری پہلوئوں پر کھل کر بات کی جائے اور قوم کو بیدار کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوجاتی ہے تو دراصل یہ اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں برپا کی جانے والی تحریکِ پاکستان کی نفی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو ایک انقلابِ معکوس (counter revolution) کے ذریعے دوبارہ جنوب ایشیا میں ضم کرنے پر منتج ہوسکتی ہے۔ نئے نقشہ جنگ کو سمجھنے کے لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی کے نئے آہنگ اور جنوبی ایشیا کی نئی شیرازہ بندی کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک نیا سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی منصوبہ ہے جس میں اس علاقے کے بارے میں امریکا کی نقشہ بندی‘ اس میں بھارت کا کردار اور اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحلیل (liquidation) ‘ علاقے کی اسلامی قوتوں کی کمرشکنی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ ایک ’’سیکولرپاکستان‘‘ کا فروغ ہو جو ’’سیکولرانڈیا‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب ایشیا کا ایک پیادہ بن جائے اور بالآخر امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ (strategic partnership) کا ایک دم چھلّا بن کر رہ سکے۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے جس کھیل کا ایک کردار بن گئے ہیں اس میں بات کشمیر سے چل کر‘ بھارت دوستی اور جنوبی ایشیا کے نئے وژن تک پہنچتی ہے جو سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کشمیر پالیسی کی تبدیلی کا تعلق کشمیر سے تو ہے ہی‘ مگر یہ کشمیر پر ختم نہیں ہوجاتی‘ بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو قربانی کا بکرا بناکر پاکستان کے اس تصور اور کردار کو ختم کرنا بھی اس کا ہدف ہے جو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا تصور تھا اور پاکستان کا قیام جس منزلِ مقصود کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلیوں اور اس کے مضمرات پر بات کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور خود امریکا کا اصل ہدف سامنے رہے تاکہ جنرل صاحب کی کشمیر پالیسی کے خطرناک رخ کا صحیح صحیح ادراک ہوسکے۔
کلدیپ نیر نے دہلی مذاکرات اور پاکستان کی کشمیرپالیسی کی تبدیلی پر کھل کر جو کچھ لکھا ہے اسے قوم کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ ڈان کے ۱۶ اپریل اور ۲۶ اپریل ۲۰۰۵ء کے شماروں میں کشمیر کے مسئلے پرموصوف کے دو مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کے خدوخال کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۶ اپریل کو No Halfway Stop for Musharaf کے عنوان سے‘ چودھری شجاعت حسین کے جامع مسجد دہلی کے خطاب کے پس منظر میں‘ پاک بھارت دوستی کے اصل اہداف کو نمایاں کرتے ہوئے‘ موصوف کا ارشاد ہے کہ پاکستان کا اصل تصور ‘جو ان کی نگاہ میں قائداعظم کا تصور تھا___ اسلامی نظام نہیں سیکولرزم تھا۔
He wanted it to be a secular polity not mixing religion with politics. He died an unhappy man because during his lifetime he saw the country being mutilated and deformed in the name of Islam.
وہ چاہتے تھے کہ یہ ایک سیکولر معاشرہ ہو‘ جس میں مذہب کو سیاست سے نہ ملایا جائے۔ وہ اپنی موت کے وقت ایک ناخوش انسان تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے ملک کو اسلام کے نام پر مسخ اور بدہیبت ہوتے دیکھا۔
شکر ہے کہ کلدیپ نیر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کے اس ’’تخریبی عمل‘‘ کا اظہار قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا ورنہ ہمارا لبرل طبقہ تو سارا الزام جنرل ضیاء الحق کے دور کو دیتا ہے۔
پاکستان میں کیوں ایسا جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ بھارت میں ہے۔
ان کو جان لینا چاہیے کہ وادی صرف اس لیے پاکستان کو نہیں مل سکتی کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ دو قومی نظریہ اب صرف تاریخ ہے۔ جناح‘ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ صدر مشرف وادی میں جناح کی منطق کا اطلاق نہ کر کے آدھے رستے میں رک گئے۔ درحقیقت اسلام آباد نے کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو اخلاقی و سفارتی حمایت کے نام پر اسلامی قرار دے کر‘ اس کو بہت نقصان پہنچایا۔
موصوف اس کے بعد اس بھارتی ضد کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر کو پاک بھارت دوستی کے مذاکرات میں اولیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔
میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشمیر کا یرغمال کیوں ہوں؟ اگر کشمیر سے ان کا تعلق توڑ دیا جائے تو حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔
پاکستان کے سابق سفرا نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ انھیں کشمیر کا خبط تھا۔ وہ کہتے یہی تھے کہ سارے مسائل کا حل صرف کشمیر کے مسئلے کے حل پر مبنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سفارت کار پاکستان کے اصولی مؤقف کی مؤثر ترجمانی کر رہے تھے مگر کلدیپ نیر صاحب بھارت کے مؤقف پر انھیں لانا چاہتے تھے‘ اور سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اصل حل یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پار کرنا ایسا ہوجائے جیسے ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا۔ ’’شجاعتوں‘‘ اور ’’مشاہدوں‘‘ کو اس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے‘ نہ کہ اس طرف یا اس طرف مسلمانوں کے علاقوں کے نقشے بنانا۔
دہلی میں مشرف موہن سنگھ مذاکرات کے بعد جو ’’روشنی‘‘ ان کو نظر آئی ہے اور جو پسپائی پاکستان کے مؤقف میںرونما ہوئی ہے ‘اس کا ادراک بھی کلدیپ نیر ہی کے الفاظ میں ضروری ہے جسے وہ عالمِ انبساط میں بالآخر ہری جھنڈی (Green Light Finally) کے عنوان سے ۱۶اپریل کی اشاعت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے احساسات کا اظہار جس زبان میں کرتے ہیں اس میں ان کی خوشی ہی پھوٹی نہیں پڑتی بلکہ پاکستان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
صدر مشرف کے دہلی کے دورے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ بحث گرم ہے کہ کیا وہ تبدیل ہوگئے ہیں؟ اور ہوگئے ہیں تو کیوں۔
میں نے سابق وزیراعظم اِندر گجرال سے پوچھا کہ کیا مشرف بدل گیا ہے؟ گجرال نے جواب دیا: اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس کے ملک کو اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔ اسے دِکھ رہا ہے کہ بھارت بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے امریکی دوستوں نے اسے بتا دیا ہے کہ کشتی کو نہ ڈبوئے۔ (وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے‘ مشرف کی دہلی میں آمد سے دو روز قبل اپنے واشنگٹن کے دورے میں اس بات کو محسوس کرلیا تھا)۔
بھارتی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مشرف نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک نئے دل کے ساتھ آئے ہیں (مطلب تھا کہ آگرہ کی ناکام سربراہی کانفرنس کے بعد)۔ پھر انھوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے انھیں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر تھا کہ امریکا نے اسے واضح الفاظ میں (in no uncertain terms) بتا دیا تھا کہ واشنگٹن سرحد پار دہشت گردی کو سنجیدگی سے لے گا (take serious note)۔
مشرف نے من موہن سنگھ کو جو یقین دہانی کروائی تھی‘ اسے دہرایا کہ دہشت گردوں کو امن کے عمل کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنگجوئوں کو پاکستان کا کوئی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد نے اس بارے میں دہلی کو تحریر بھی دی ہے)
اس امر کی کافی شہادت ہے کہ دہلی کے بارے میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ کشمیر اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک قدم ہوگیا ہے‘ نہ کہ مرکزی مسئلہ (core issue)‘ یا ایجنڈے کی پہلی شق۔ پاکستان نے بھارت کی اس یقین دہانی کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کشمیریوں کو بھی‘ یقینا آخری فیصلے سے قبل‘ مذاکرات میں شریک کرے گا۔
مشرف یقین رکھتا ہے کہ اگر سرحدیں اور لائن آف کنٹرول تبدیل نہیں کی جا سکتیں‘ تو سرحدوں کو نرم اور غیرمتعلق بنانا (جیساکہ وہ اسے کہتے ہیں) بہتر ہے۔
کلدیپ نیر کی یہ تحریر ہزار تقریروں اور بیانات پر بھاری ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں کی کشمیر پالیسی کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کی عکاس ہے۔
اقبال نے شاید کسی ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا ہوگا کہ ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کی حالیہ تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی اور بھارت کی ثقافتی یلغار اور سیکولر نظام کے فروغ کی باتوں میں کلدیپ نیر تنہا نہیں‘ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ عین اس زمانے میں‘ غالباً بھارت کی تاریخ میں پہلی بار‘ قائداعظم کی دریافتِ نو (rediscovery) کا ایک شرانگیز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ قائداعظم پر ایک بھارتی دانش ور پروفیسرآسیانیندا (Asiananda) کی ایک کتاب Jinnah - A Corrective Reading of Indian History شائع ہوئی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی اپریل ۲۰۰۵ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف کی دلّی یاترا سے دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع پرناب مکرجی اور وزیر پٹرولیم مانی شنکرآرگر کی موجودگی اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ محمد علی جناح اسی درجے کے ایک "great secular" لیڈر تھے جیسے پنڈت نہرو (دی ہندو‘ ۱۵اپریل ۲۰۰۵ئ)
بھارت کے ایک اور دانش ور رفیق دوسانی کی تازہ ترین کتاب: Prospects for Peace in South Asia حال ہی میں امریکا سے شائع ہوئی ہے اور یہ صرف انھی کی نہیں‘ بلکہ بھارت اور امریکا کے دانش وروں کی مشترک سوچ کا ماحصل ہے۔ دوسائی خود بھی امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور اس کتاب میں ان کے علاوہ امریکا کے کلیدی ادارے ووڈرو ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر رابرٹ ہتاوے اور ایک دوسرے پالیسی ساز ادارے اسٹمسن سنٹر کے پروفیسرمائیکل کریپن سب کا تجزیہ شامل ہے۔ ان کی نگاہ میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے حسبِ ذیل رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ m علاقے میں مذہب کے کردار کا فروغ(اسے وہ مذہبی انتہاپسندی کہتے ہیں)
اس کتاب میں بھارت کے عالمی عزائم اور اس کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی شکل میں معاملات طے کرنے کی ضرورت اور دوسری طرف پاکستان کی اس مجبوری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی‘ سیاسی اور معاشی قوت کی وجہ سے بہرحال پاکستان کو بھی کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا ہے اور ان کی نگاہ میں اس کے لیے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ لیکن اس کتاب کا بھی ٹیپ کا بند یہی ہے کہ جنرل مشرف اس کام کو انجام دینے کے لیے بہترین شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ اور جنرل جہانگیر کرامت دونوں ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علم بردار ہیں۔
ہماری نگاہ میں اس منظرنامے کی سب سے مؤثر ترجمانی بھارت کے ایک اور دانش ور سوبا چندرن نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مگر نہایت کھلے انداز میں کی ہے۔ موصوف بھی اس وقت امریکا کے علمی اور پالیسی ساز حلقوں ہی میں سرگرم ہیں اور دہلی کے Institute of Peace and Conflict سے وابستہ ہیں۔ان کے ارشادات بڑے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں اور کشمیر کے بارے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا ارشاد ہے کہ اس وقت بھارت کے اصل اہداف یہ ہیں:
(ا) امن کی بات چیت کے عمل کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔
(ب) کشمیر کے بارے میں یہ سمجھوتا کہ سرحد پار دہشت گردی حد سے نیچے رہے‘ خواہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو۔
(ج) مستحکم اور سیکولر پاکستان۔
اگر جنرل مشرف ان تین عنوانات سے بھارت کے مطالبے کو پوراکرسکیں‘ تو ان سے معاملہ کرنا بھارت کے مفاد میں ہوگا۔ بھارت کو جو مسئلہ طے کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال میں کیا وہ بہترین رفیق کار ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صحیح آدمی نہ ہوں‘ لیکن وہ پاکستان میں بھارت کے بہترین ساجھی ہیں۔ وہ قابلِ اعتماد ہوں یا نہ ہوں‘ نتائج صرف وہی دے سکتے ہیں۔
پروفیسر سوبا چندرن ان وجوہ کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ بھارت کے منصوبے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو بہترین ساجھی سمجھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اتنے حل پیش کیے ہیں‘ کہ اب اس میں کوئی شک نہیں وہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے اتنا ہٹ گئے ہیں کہ مزید سمجھوتوں کی انھی سے توقع ہے۔ نیز جو بھارت کا اصل مقصد اور فوری ہدف ہے‘ یعنی کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ختم ہوجائے‘ یا کمزور ہوجائے اور منقسم رہے وہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جہادی تحریک دم توڑ دے۔ یہاں بھی موصوف کی نگاہ میں جنرل صاحب کا کردار ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سوبا چندرن کہتے ہیں:
وہ واحد آدمی ہیں جو سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا کہ مسلح جدوجہد قابلِ برداشت حد سے نیچے رہے‘ تاکہ نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان کسی عمل کا آغاز ہوسکے اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔
موصوف کی نگاہ میں جنرل پرویز مشرف ہی وہ شخصیت ہیں جو اس ہفت آسمان کو سر کیے جانے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اصل ہدف سری نگر اور مظفرآباد میں راہداری نہیں‘ لائن آف کنٹرول پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سفر کو آسان بنانا ہے جیساکہ کلدیپ نیر نے کہا کہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاسکیں‘ لیکن اصل مقصد سری نگر اور دہلی کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ کشمیر بدستور بھارت کے نقشے کے مطابق ہی رہے۔
پھر سب سے اہم اسٹرے ٹیجک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اس معاملے میں اس طرح ملوث ہو کہ بھارت کے اہداف حاصل ہوسکیں اور پاکستانی عوام بھی کوئی منفی تحریک نہ اٹھا سکیں اور جو بات یا جو حل بھی امریکا‘ بھارت اور جنرل صاحب طے کرلیں‘ اسے ملک کے عوام پر مسلط کیا جاسکے۔ سوباچندرن اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ:
پاکستان میں سیاسی قیادت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی ہی رہے گی۔ دوطرفہ سطح پر جو کچھ طے کیا گیا ہے‘صرف مشرف وہ فرد ہیں‘ جو اسے نافذکرسکتے ہیں۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں بہت اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف لاہور پروسس کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے‘ تو فوج سے براہِ راست معاملہ طے کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اگر مشرف آج اسے کنٹرول کرتے ہیں تو بھارت کو ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ جنرل میں اتنا حوصلہ تھا کہ اس نے تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ اور ایک نرم سرحد کو عارضی حل سمجھا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف جنرل مشرف ہی بھارت سے کیے گئے سمجھوتے کو پاکستان میں زبردستی نافذ (impose) کر سکتے ہیں۔
اس جملے کا ایک ایک لفظ اہم ہے۔ جنرل صاحب ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہیں لیکن مطلب براری کے لیے ضروری ہیں۔ جو بات بھارت سے طے ہو وہ پاکستان کے عوام کے وژن تصورات‘ احساسات اور مفادات کے خلاف ہوگی اور اسے ملک پر مسلط (impose) کرنا ضروری ہوگا اور یہ جنرل صاحب اور فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے جنرل صاحب امریکا اور بھارت دونوں کے لیے بہترین مہرے ہیں یا کھل کر بات کی جائے تو ترپ کا پتہ ہیں! اور یہی وہ مجوزہ کردار ہے جس کے لیے ان کی وردی بھی ضروری ہے۔ امریکا اور بھارت کی جمہوریت نوازی اپنی جگہ‘ لیکن اس سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے جس کردار کی ضرورت ہے‘ اُسے فوجی لباس ہی میں ہونا چاہیے اور فوج کی قیادت بھی اسی کے پاس ضروری ہے‘ اور اسے اس روشن خیال اعتدال پسندی کا علم بردار ہونا چاہیے جو دراصل سیکولرزم کا دوسرا عنوان ہے اور جس کا اصل ہدف پاکستان کو اسلامی تشخص‘ اور جہاد فی سبیل اللہ سے محروم کرنا ہے۔
کشمیر کے سلسلے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے اس علاقے کے بارے میں امریکا کے عزائم اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ اور خود اقوام متحدہ کی ساختِ نو (restructuring ) کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر آپ امریکا کے سابق وزیرخارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India کا بغور مطالعہ کریں اور خصوصیت سے کارگل کے واقعے کے سلسلے میں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں بھارت اورامریکا میں جو فکری اور سیاسی ہم آہنگی ہی نہیں بلکہ اعتماد باہمی‘ اور مفادات کا اشتراک رونما ہوا‘ اس نے اس اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی راہ ہموار کی‘ جو اَب جارج بش کے دور میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جسونت سنگھ نے ٹالبوٹ اور کلنٹن کے کردار اور تعاون کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ امریکا کے اس کھیل پر مہرتصدیق ثبت کر دی جو وہ پاکستان اور بھارت کے تنازع کا فائدہ اٹھا کر بھارت سے دوستی اور نئی پارٹنرشپ کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جسونت سنگھ کا بیان غور کرنے کے لائق ہے:
ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ چند مہینوں میں کچھ خوفناک باتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس اختتام ہفتہ میرے اور آپ کے ممالک کے درمیان کچھ نئی اور بہت اچھی چیزیں واقع ہوئی ہیں جو بھروسے اور اعتماد سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں اور میرے وزیراعظم اس کے لیے آپ کے صدر کے شکرگزار ہیں۔
اب یہی وہ اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ ہے جو مسئلہ کشمیر کو تحلیل (liquidate) کرنے‘ سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے‘ تحریکِ جہاد کو ختم کرنے اور پاکستان اور بھارت کو نئے سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی رشتوں میں جکڑنے کے ایک نئے قسم کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کا اصل اور آخری ہدف اسلامی احیا کے راستے کو روکنا ہے۔ دیکھیے ہنری کسنجر کس چابک دستی سے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون Implementing Bush's Vision میں وہ یوں رقم طراز ہے:
"Now India, in effect a strategic partner, not because of compatible domestic structures but because of parallel security interests in South East Asia and the Indian ocean and vis-a-vis the radical Islam" (The Nation May 17th, 2005).
اب بھارت اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے‘ ایک جیسے داخلی نظام کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا اور بحرہند میں انقلابی اسلام کے مقابلے میں سلامتی کے متوازی مفادات کے حصول کے لیے۔
سیاست کا نقشہ اب بالکل واضح ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعاون کا مقصد چین کے خلاف محاذ آرائی ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کو ایک علاقائی قوت سے بڑھ کر ایک عالمی قوت بنانا ہے جس کے بارے میں گذشتہ ایک سال میں ایک درجن سے زائد امریکی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ مئی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی کارنیگی انڈوومنٹ کی رپورٹ ہے یعنی South Asian Seesaw: A New US Policy on the Subcontinent جسے اس ادارے کے ایک سینیر اسکالر ایشلے جے ٹیلنگ نے مرتب کیا ہے اور جو اپنی رپورٹ کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کے افکار کا پرتو قرار دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی صاف اعتراف ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایف-۱۶ طیّاروں کی پیش کش پر بھارت کی طرف سے جو بس واجبی سی تنقید کی گئی ہے‘ وہ اسکیم کا حصہ اور امریکی بھارت ملی بھگت ہے جو نئی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے:
علاقے کی تشکیل کے لیے امریکا کی غیرعلانیہ نئی حکمت عملی کا نتیجہ: ایک عالمی قوت (global power) کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانا‘ جب کہ پاکستان کو بھی ایک کامیاب ریاست ہونے کے لیے مدد پہنچانا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا‘ اسے ایک عسکری قوت بنانا اور اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے عالمی نظام کا حصہ بنانا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ گویا بھارت ایک عالمی طاقت ہوگا اور پاکستان اس کی ایک باج گزار اور طفیلی ریاست!
جنرل مشرف کہتے ہیں کہ وہ اہلِ کشمیر کے مفادات سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے مگر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا اور خلافِ حقیقت ہے۔ جو کچھ وہ عملاً کررہے ہیں‘ وہ امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کے فریم ورک کے بالکل مطابق ہے۔
۱- روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ کہا ہے کہ سیکولرزم اسلام سے متصادم نہیں اور پاکستان کو اپنے سیکولر امیج کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔
۲- امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس طرح شرکت کی ہے کہ امریکا سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے جتنے سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کے فوجی‘ خود پاکستان کی سرزمین پر ایسے لوگوں کے تعاقب میں مارے گئے ہیں جو امریکا کو جتنے بھی مطلوب ہوں لیکن وہ پاکستان کے لیے کبھی خطرہ نہ تھے اور اگر آج وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے ہیں تو محض اس لیے کہ جنرل صاحب محض امریکا کی محبت میں ان کے خون کے پیاسے ہیں اور انھوں نے اپنی فوج کو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے انھیں آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔ ناردرن ایریا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسن کے بقول (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ئ) شمالی علاقہ جات میں ۷۰ ہزارپاکستانی فوجی ۶۶۹ چوکیوں پر سرگرم ہیں جو اب تک ۴۸ آپریشن کرچکے ہیں جن میں ۳۰۶ افراد مارے گئے ہیں بشمول ۱۵۰ غیرملکی‘ جب کہ خود پاکستانی فوج کے ۲۵۱ جوان اور افسر ہلاک ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ساڑھے تین سال میں افغانستان میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا ملک میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہیں جو احتساب کرے اور پوچھے کہ کس کی جنگ کون لڑ رہا ہے اور کس قیمت پر؟
۳- کشمیر جس کے بارے میں فروری ۲۰۰۲ء تک کہا جا رہا تھا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں مرکزی ایشو (core issue) ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے حل کیے بغیر‘ بھارت سے کوئی سیاسی یا تجارتی معاملہ نہیں کیا جاسکتا اور کشمیر کی تحریکِ جہاد‘ آزادی کی جنگ ہے جسے کسی اعتبار سے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ایک ایک کر کے ان سب پر مؤقف کو تبدیل کرلیا گیا۔ بھارت کی cross-border infiltration اور cross-border terrorism کی زبان ہم بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے گئے اور پاک بھارت مذاکرات کو نہ صرف بھارتی مطالبے کے مطابق‘ اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا اعادہ بھارتی قیادت دن رات کر رہی ہے اور کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کے دعوے کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ بھارت کے دوستی کے عمل میں پیش رفت کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے بے تعلق (delink) بھی کر دیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہم نے اٹھا کر رکھ دیا۔ متبادل حل کے طور پر تقسیمِ کشمیر کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا اور وہ بھی مشترک کنٹرول اور محدود خودمختاری کی باتوں کے ساتھ۔ اب اصل مسئلہ ہی بدل گیا ہے‘ بھارت کے ناجائز قبضے سے جموں و کشمیر کی نجات اور جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو اوّل دن سے پاکستان کا اصول اور قومی مؤقف تھا اور ہے اور جسے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں ملک و قوم کا وہ مؤقف قرار دیا گیا ہے جس پر کوئی فرد سمجھوتا کرنے کا مجاز نہیں‘ اب اس کا ذکر غائب ہے اور بات صرف نرم سرحدوں (soft border) اور سرحدات کو غیرمتعلق بنانے (making borders irrelevant ) کی ہو رہی ہے جس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا اور بھارت کے مجوزہ ’’حل‘‘ پر سمجھوتا کرلیا جائے جس کے اہم اجزا یہ ہیں:
(ا) کشمیر کی مستقل تقسیم
(ب) دونوں حصوں میں کسی خاص شکل کی ’’خودمختاری‘‘
(ج) بھارت کے عمل دخل اور دراندازی کے لیے مستقل گنجایش
(د) امریکا کے لیے علاقے میں داخلے کی کھڑکی کھولنا۔
اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کشمیر کی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے‘ یا وہاں کی قیادت کو اس نئے نظام کا حصہ بنا لیا جائے یا پھر ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھارتی فوج کے ہاتھوں ختم ہوجانے‘ یا مجبوری کے عالم میں غلامی کی کسی نئی شکل پر آمادہ ہوجانے کا سامان کیا جائے۔
آپ سات متبادلات (seven options) کا جائزہ لیں‘ یا تیسرے حل (third option) کی بات کریں‘ یا امریکی اسٹڈی گروپ اور فاروق کٹھواری جیسے لوگوں کی پیش کردہ اسکیموں کو دیکھیں‘ سب کا مرکزی خیال یہی ہے اور اب جنرل صاحب جو نقطہ نظر پیش فرما رہے ہیں وہ اس امریکی بھارتی ایجنڈے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے نائب مدیر سدھارتھ وراداراجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کی دلّی ملاقات کے بعد حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس میں اپنے اصولی مؤقف سے پاکستان کی پسپائی اور بھارت کے اپنے ایجنڈے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ Slaying the Demons of Distrust ‘نیوزلائن‘ مئی ۲۰۰۵ئ)
اور جس اعتماد (trust) پر اب سارا کاروبار مملکت چلانے اور بھارت سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا حاصل تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ مقصد اور ترجیح بھارت کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے اہداف‘ مقاصد اور مفادات‘ پاکستانی عوام کی تمنائیں اور عزائم اور سب سے بڑھ کر انصاف اور عدل کے تقاضے‘ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقوق اور ان کی آزادی سب ثانوی بلکہ غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں اس صورت حال کو کس طرح پیش کیا ہے:
"Now that the April Foreign Policy euphoria is over, the party poopers are out with full force. The question is again being asked : Can we trust Gen Musharraf?
اب‘ جب کہ خارجہ پالیسی کا اپریل کا سرخوشی کا عالم گزر چکا ہے‘ پارٹی کے ڈھنڈورچی پوری طاقت سے میدان میں آگئے ہیں‘ یہ سوال پھر پوچھا جا رہا ہے: کیا ہم جنرل مشرف پر بھروسا کرسکتے ہیں؟
یہ سوال اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے واقعتا کوئی چیز دی ہے۔ لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قطعاً کوئی رعایت نہیں دی۔ سرحد کے ردوبدل‘ کشمیر میں سی بی ایم کی ترجیح‘ سب پر ہماری پوزیشن پہلے جیسی ہے۔ اس وقت تو ہم سے زیادہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا ہے۔
اس کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے سلامتی اوّلین اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ نیز پاکستان پر امریکی دبائو شدید ہیں اور وہ پاکستان کو یہ بھی خوف دلاتے ہیں کہ زمینی حالات بدل گئے ہیں اور اب کشمیر میں پاکستان کی تائید بہت کم ہے‘ لکھتے ہیں:
کشمیر کے اندر پاکستان کی حمایت اپنی زیریں ترین سطح پر ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو بھی اپنی کاٹ دکھا رہا ہے اس لیے کہ ان کا دہشت گردی کے بارے میں تصور تبدیل ہوچکا ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)
میرا خیال ہے کہ حل موجود ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے اور میں وہ حل جانتا ہوں کہ جو بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔ (ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)
اس لیے ضروری ہے کہ یہ عوام کی بنیاد پر‘ علاقے کی بنیاد پر ہو۔ علاقہ متعین کیا جائے لوگوں کو سیلف گورننس دی جائے‘ غیرفوجی علاقہ بنایا جائے اور کچھ ایسے کام کریں کہ سرحدوں کا سوال غیرمتعلق ہوجائے۔
اس پوری تقریر میں زیادہ سے زیادہ اپنی حکمرانی (maximum self governance) اور سرحدوں کو غیرمتعلق بنانا کلیدی تصورات ہیں جن کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ تو باقی ہی نہیں رہا۔ بھارت جوچاہتا تھا کہ جموں و کشمیر کے علاقے دونوں ملکوں کے زیراثر رہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے (جو خود بڑا دھندلا تصور ہے اور جس کا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے میں ہوچکا ہے) اور یہ اضافہ کردیا جائے کشمیر کے تمام حصوں کے درمیان سرحد غیرمتعلق ہوجائے۔ سرحد محض ایک سرحدی لکیر کا نام نہیں‘ یہ کسی ملک یا علاقے کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اور اگر یہی غیرمتعلق ہوجائے تو پھر سیاسی آزادی اور علاقائی سلامتی دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
واضح رہے کہ من موہن سنگھ نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد جو پہلی بات کی‘ وہ نرم سرحدوں کی تھی۔ اسی بات کو اب جنرل صاحب دہرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں ان کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیجیے کہ کشمیر کے مستقبل کے نظام میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا بھی کردار ہوگا۔ اور شاید اس نہلے پر دہلا لگاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی کے مسائل کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا کے ڈیم وغیرہ کے سلسلے میں مشترک نگرانی کا نظام قائم کیاجائے۔
اس سارے معاملے کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ متبادل حلوں کے اس سارے کھیل نے خود کشمیری قیادت کو بانٹ دیا ہے اور ان کے درمیان شدید کنفیوژن کی کیفیت ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس منقسم ہے اور اب ایک طرف میرواعظ عمر فاروق اور عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس) کے ساتھ ایک محاذ پر جمع ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سردار عبدالقیوم اپنی تاریخی پوزیشن تبدیل کرکے سات حلوں کے گن گانے لگے ہیں اور کشمیریوں کو ’’کسی بھی قسم کی خودمختاری‘‘ مل جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ البتہ مجاہدین اور وہ کشمیری لیڈر جو اپنی اصولی پوزیشن پر مردانہ وار ثابت قدم ہے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے‘ سید علی شاہ گیلانی ہے جو پاکستان کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن وہ اب یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے کہ ’’ہم نہ تھکے ہیں اور نہ دبے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت غالباً تھک گئی ہے اور وہ اب کشمیر کی تحریکِ حریت کی وکالت ترک کر کے بھارت کے مؤقف کی وکالت پر اتر آئی ہے‘‘۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں:
آج کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مسائل اہم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں‘اداکاروں‘ گلوکاروں اور عوامی وفودکی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت باہم شیروشکر ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے اور یہاں ظلم و ستم کا بازار اسی طرح گرم ہے‘ بلکہ فوجی مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم زنجیرغلامی کو کاٹنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے‘ بے وفائی کرنے والوں کی اپنی منزل تاریک ہے۔
جنرل پرویز مشرف اپنی خطرناک قلابازی (u-turn) کے باوجود قوم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جائے‘ وہ کشمیر کے کاز سے کبھی بے وفائی (betray) نہیں کریں گے۔ قوم ان کے اس اعلان پر کیسے بھروسا کرسکتی ہے؟ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ تین سال سے کشمیر کے مسئلے پر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ قول و قرار کے معاملے میں سخت ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی طرح نہیں ہوں کہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کروں لیکن عملاً انھوں نے ایوب اور ضیاء ہی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ بھی رچایا اور جس طرح ضیاء الحق نے ۹۰ دن کا وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی‘ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی دسمبر ۲۰۰۴ء میں وردی اتارنے کا عہدوپیمان کرکے عہدشکنی کی۔ دستور کی حفاظت کا حلف لے کر دستور کو پامال کیا‘ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا عہد کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور اب اسے بدستور ملوث رکھنے پر مصر ہیں۔ اس ریکارڈ کی موجودگی میں ان کے عہدوپیمان پر کون بھروسا کرسکتا ہے۔ اور ان کے الفاظ اور حقیقت کے فرق کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ موصوف نے کوئٹہ میں اسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے‘ یہاںتک کہہ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے‘ نظامِ حکومت وزیراعظم چلا رہے ہیں اور فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں! کیا دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور چوری اور سینہ زوری کی اس سے تابناک مثال بھی مل سکتی ہے؟
پھر وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے دبائو میں فیصلے نہیں کرتا حالانکہ جس طرح امریکا کے دبائو میں وہ ۲۰۰۱ء سے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں اور اب بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں (واضح رہے کہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے پاک بھارت اعلامیے کے بارے میں امریکا کے سابق وزیرخارجہ کولن پاول کا یہ اعلان اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا (ملاحظہ ہو‘ ڈان ۱۱ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارے میں سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد کا مضمون CBMs:not a final solution) وہ بالکل واضح ہے۔ اور باب ووڈ ورڈ کی کتاب Bush at War میں پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے (abject surrender) کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس کی روشنی میں کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جنرل پرویز مشرف کے بنیادی فیصلے واشنگٹن میں نہیں‘ اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ خود ان کے وزیر کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ یہاں فیصلے بیرونی دبائو کے تحت ہو رہے ہیں یا ملکی حاکمیت اور قومی وقار اور مفادات کے مطابق۔
جنرل صاحب بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بدل گئے ہیں‘ اورنائن الیون کے بعد اب قوت کے استعمال سے سیاسی فیصلے نہیں ہو سکتے‘ حالانکہ نائن الیون کا اگر کوئی سبق ہے تو صرف یہ کہ اس کے بعد صرف قوت ہی کے ذریعے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو کمزور ہے یا قوت کا استعمال کرنے کا عزم اور داعیہ نہیں رکھتا‘ اس کے مقدر میں محکومی کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیاجاسکتا ہے اور امریکا اپنی ساری عسکری اور ٹکنالوجیکل برتری کے باوجود‘ نہ پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مسلط کرنے میں کامیاب ہے اور نہ عراق پر‘ بلکہ پوری دنیا نائن الیون کے بعد‘ پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی حکمت عملی یکسر ناکام ہوگئی ہے‘ نیز دہشت گردی کے اسباب دُور کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ کے باوجود‘ اس سمت میں کوئی مؤثر اقدام دنیا میں کسی جگہ بھی‘ (بشمول فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ) نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے کشمیر میں امریکا اور بھارت کے دبائو میں جنرل پرویز مشرف نے تو تحریکِ آزادی سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے خانے میں رکھ دیا ہے لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے بلکہ روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حق خودارادیت ہی سے دست برداری کا راستہ اختیار کر کے ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ علاقائی تقسیم اور کھلی سرحدوں کی باتیں ہورہی ہیں جو تنازع کے اسباب دُور کرنے کے بجاے‘ ان کو دائمی شکل دینے اور نہ ختم ہونے والی پنجہ آزمائی کا سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
سیدھی اور واضح بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ذہنی شکست قبول کرچکے ہیں اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاسی ملمع آرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت میں عدمِ مساوات کوئی نئی بات نہیں اور دنیا میں سیاسی نقشے اس عدمِ مساوات کے باوجود بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ کیا آج افغانستان میں امریکی افواج اور نہتے عوام کے درمیان قوت کی مساوات ہے؟ کیا عراق میں یہ مساوات ہے؟ کیا دنیا کے ۱۴۰ ممالک جو گذشتہ ۵۰سال میں عظیم اور طاقت ور استعماری قوتوں کے چنگل سے جنگِ آزادی لڑکر آزاد ہوئے ہیں عسکری مساوات کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے؟ کیا بھارت کو ۱۹۸۹ء کے بعد کشمیر میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ عسکری مساوات پر مبنی ہے؟ آج بھی جس جہادی تحریک سے بھارت پریشان ہے اور تلملا رہا ہے اس کے بارے میں اس کے اپنے چیف آف اسٹاف کا قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار مجاہد (جنھیں وہ دہشت گرد کہتا ہے) میدان میں ہیں اور بھارت کی ۹ لاکھ فوج ان کو قابو نہیں کر پا رہی ہے۔بات مساوات کی نہیں‘ اصل مسئلہ ایمان‘ عزائم اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے استقلال اور پامردی کا ہے۔ کارگل کے معرکے میں بھی اصل فاتح بھارتی فوج نہیں وہ شہید کرنل ہے جس نے تن تنہا بھارتی فوج کو خون کے آنسو رلا دیے اور جس کی شجاعت اور استقامت پر بھارتی فوج نے بھی رشک کیا!
پاکستان کوئی کاغذی مملکت (banana republic) نہیں۔ یہ ریاست الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور اور ایک عظیم قوم کی روایات کی امین ہے جو اپنے ایمان‘ عزت اور آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے باب میں شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم نے گذشتہ ۵۷ برسوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو جو وسائل فراہم کیے ہیں اور جسے آپ خود ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت کہتے ہیں وہ کس لیے ہے۔ کیا بین الاقوامی تعلقات کا یہ ایک مسلمہ اصول نہیں کہ جنگ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے (war is an instrument of foreign policy)۔ اگر جنگ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت کے لیے خارجہ سیاست کا ایک آلہ کار ہے تو دوسروں کے لیے کیوں ممنوع ہے۔ بلاشبہہ جنگ نہ مطلوب ہے اور نہ محمود‘ لیکن اگر ضرورت پڑے تو آزادی اور حاکمیت کی حفاظت کے لیے یہی مؤثر ترین راستہ ہوتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں اور پہلے سے اس دروازے کو بند کردینا دراصل اپنی آزادی اور حاکمیت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ یہ مذہبِ گوسفنداں تو ہو سکتا ہے‘ اسے کیشِ مرداں قرار نہیں دیاجاسکتا۔
پھر ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بس یہ نادر موقع ہے جسے اگر ہم نے گرفت میں نہ لیا تو ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے زیادہ ناسازگار وقت اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کبھی نہ تھا۔ اس وقت تو ضرورت اس کی ہے کہ تحریکِ آزادی کی حفاظت کی جائے‘ مناسب تیاری ___ عسکری اور معاشی اور سب سے بڑھ کر ملک میں قومی مفاہمت اور یک رنگی ___ جاری رکھی جائے اور صحیح وقت کا انتظار کیا جائے۔ بھارت کے لیے قبضے کی قیمت (cost of occupation) کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہو‘ بڑھایا جائے‘ لیکن پورے تحمل اور حکمت و تدبیرکے ساتھ۔ یہ وقت دوستی کی پینگیں بڑھانے کا نہیں‘ مسئلے کو زندہ رکھتے ہوئے رکھ رکھائو کے ساتھ مناسب وقت کے انتظار کا ہے۔ نیز ہر اس اقدام سے مکمل اجتناب کیا جائے جو جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی قومی تحریکِ مزاحمت کو کمزور کرنے والی یا ان کی توقعات پر اوس ڈالنے والی ہو۔ اور یہی رائے ان تمام افراد کی ہے جن کی نگاہ دنیا کے حالات‘ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اور بھارت کے اپنے حالات پر ہے۔ جنرل صاحب کی یہ بے قراری کہ ان کے عہدِحکومت اور من موہن سنگھ کے عہدحکومت میں مسئلے کا آخری حل نکل آئے‘ خودغرضی اور بے بصیرتی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی خارجہ سیاست کے تمام اہم کردار متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت جلدبازی میں کوئی اقدام کرنے کا نہیں ہے۔
ہر صورت میں‘ دونوں ملکوں کے تعلقات کی اشتعال انگیز تاریخ اور ماضی کے تجربات کے پیش نظر غیرحقیقی امیدیں قائم کرنے یا نتائج نکالنے میں محتاط ہونا چاہیے۔ دونوں طرف بداعتمادی اور اندیشوں کی گہری جڑیں ہیں‘ اور محض شعلوں پر پھونکیں مارنے یا نیک خواہشات کرنے سے یہ تحلیل نہ ہوجائیں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔
اعتماد سازی کے اقدامات بہتر ماحول پیدا کرنے کے لحاظ سے اس عمل میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ تنازعات حل کرنے کا متبادل نہیں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ لچک کی یک طرفہ پیش کشوں کے باوجود صدرمشرف متنبہ کرتے رہے ہیں کہ جب تک تہ میں پوشیدہ مسائل حل نہ پیش کیے جائیں گے‘ تنازعات پھر بھڑک اٹھیں گے۔ جو کام پیش نظر ہے‘ وہ آسان نہیں ہے۔ متعلقہ مسائل کی پیچیدگی کے بارے میں کوئی فریب نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کی مزید ضرورت ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے لیکن جلدبازی میں ایسے فیصلوں کی طرف نہیں جانا چاہیے جو دونوں ممالک میں داخلی طور پر حکومت یا شخصیات کی تبدیلی کے بعد برقرار نہ رہ سکیں۔
ہمیں ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں قومی اتفاق راے پیدا کریں۔ اس کے لیے شفافیت اور داخلی محاذ پر حقیقی قومی کوشش کے ذریعے اعتماد سازی کی ضرورت ہوگی‘ بحث اور اتفاق کے لیے ہوٹلوں کی لابیوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹری چیمبرز میں تمام متعلقہ سیاسی عناصر کے اشتراک کے ساتھ۔
ایک سابق سفیر جاوید حسن ڈان (۱۸ مئی ۲۰۰۵ئ) میں Kashmir: The Time Factor کے عنوان سے اپنے مضمون میں حالات کی سنگینی پر قوم اور قیادت کو متنبہ کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ وقت آخری حل کے لیے سب سے زیادہ ناموزوں ہے۔ اس وقت بہترین حکمتِ عملی اس مسئلے پر holding on operation (برقرار رکھنے کا عمل) ہے نیز آخری فیصلے کے لیے تیاری کی جائے جو ان کے خیال میں اگلے ۲۵ سال میں ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اگر ہم ربع صدی کے اس طویل وقفے کے بعد بھارت کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ایک منظور شدہ سیاسی فریم ورک کے اندر جس میں نمایندہ اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے‘ افراد پر انحصار کے بجاے ادارے تعمیر کیے جائیں‘ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے اصول پر عمل کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے قومی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ معاشی ترقی کے لیے مختص کر کے تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنی معاشی منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات پر سخت کنٹرول کریں اور ممکنہ کم ترین قیمت پر قابلِ لحاظ سدّجارحیت برقرار رکھیں۔
کشمیر کے تنازعے کے عاجلانہ آخری حل کی توقع یا تو موجودہ حقائق کے بارے میں شدید غلط فہمی پر مبنی ہے یا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ مفروضہ اتنا مایوس کن اور شکست خوردہ ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گذشتہ ایک دو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ بھارت کشمیر کے آخری حل کے لیے ہماری بے صبری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرے گا۔
سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری اقبال اخوند اپنے مضمونKashmir: denouement or sell out ( ڈان ‘۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء ) میںاپنے شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ جلدی میں کوئی اقدام نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:
کشمیر کے تنازعے کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ مشرف من موہن سنگھ معاہدہ ایسا ہے جو سیاچن یا بگلیہار یا تنازعے کے دوسرے ضمنی مسائل تک کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ یہ سری نگر مظفرآباد بس سروس‘ ٹرکوں کے ذریعے تجارت کے اضافے اور منقسم ریاست کے دوسرے علاقوں اور شہروں کے درمیان بھی ایسی ہی سروس کے اجرا کی تجویز دیتا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول کی یہ نرمی (ایک طرح کا جواز فراہم نہ بھی کرے تب بھی) عملاً اس کو استحکام دینے کے مصداق نہیں ہے؟
اس طرح ہمارے آپشن کم ہوجاتے ہیں‘ (اور کافی عرصے سے کم ہیں) کہ اپنی پوزیشن پر کھڑے رہیں یا میدان جیسا بھی ہے‘ اس میں کھیلیں۔ لیکن جب کوئی کشمیر پر ہمارے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ٹھیک ٹھیک کیا معنی ہوتے ہیں؟مسئلہ کشمیر کا اساسی غیرمتبدل اصول (صرف اس لیے نہیں کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے) حق خود ارادیت کا اصول ہے اور یہ کشمیری عوام کو نظرانداز کر کے کنٹرول لائن پر سمجھوتے کو خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ شروع ہی سے بھارت اس بات کے حق میں رہا ہے کہ ’’جس کو ملے وہی پائے‘‘ کے اصول پر تقسیم کرلی جائے لیکن اب اس ملک میں کچھ امن کے حامی ایسے ہیں جو آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا پاکستان کے پاس کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قبول کرنے اور جائز قرار دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور نہ کوئی عملی سیاسی دلیل ہے کہ وہ اپنا حصہ رکھنے کے تبادلے میں ایسا کرے۔
بلاشبہہ معاہدئہ دہلی پر خاصا شور شرابا ہے مگر یہ ماحول دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے بغیر نہیں ہے جہاں کے عوام جذباتی ہنگامہ آرائی کی لہروں کے ساتھ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہہ جانے کے عادی ہیں۔ کشمیر میں بس سروس اور تجارتی راستے کھولنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایسا آغاز ہیں جن کے حتمی نتیجے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ منقسم کشمیریوں کا باہم ملنا جلنا خود اپنی ایک حرکیات پیدا کرسکتا ہے۔ بھارت کو بھی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے مضمرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کا کشمیر کو ۵۰برس سے اپنا اٹوٹ انگ کہنے نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہمیشہ کی طرح غیریقینی رہے گا۔
کسی بھی صورت میں کشمیر پر پیش رفت خط مستقیم پر نہیں ہوگی۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کسی ہموار میدان میں نہیں کھیل رہا۔
سفارتی میدان میں آپ کا کھیل کرکٹ نہیں ہوتا۔ آپ اس پر انحصار نہیں کرسکتے کہ کوئی انضمام نامی سفارت کار آخری گیند پر چوکا لگائے اور ٹرافی جیت لائے۔
مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی پر کوئی دفعہ نہیں ہے‘ وادی سے بھارتی افواج کو واپس بلانے پر کوئی وعدہ نہیں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں سیاچن‘ سرکریک یا بگلیہار پر کسی پیش قدمی کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اُمیدوں سے بھی زیادہ کامیابی کے وعدے حیران کن ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے جو مبالغہ آمیز دعویٰ کیا ہے‘ اس کی کیا بنیاد ہے؟ انھوں نے اسے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی تلاش میں بھارتی قیادت کے خلوص کے حوالے سے بیان کیا۔ واہ‘ کیا سادگی ہے!
مشترکہ بیان کے مطابق امن کا عمل ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ مشرف کے اس سابقہ دعوے سے بہت نیچے اترنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی امن کے عمل کو روک دے گا۔ اس پسپائی کے بعد ایک اور پسپائی آئی۔ صدر نے اپنی سابقہ پوزیشن کی جو گذشتہ سال کئی موقعوں پر بیان کی تھی کہ کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے ایک حتمی تاریخ کا تعین کیا جائے‘ خود ہی تردید کردی۔ ان قلابازیوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کی بھارت پر عنایات کا تسلسل ہے۔ بشمول اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری‘ کشمیر کے حل کے لیے نارملائزیشن کی اہمیت اور کشمیر میں روا مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امن کے عمل کو ناقابلِ واپسی قرار دے کر کشمیر پر یوٹرن کو مکمل کرلیا گیا۔
پس کشمیر کی پالیسی جس پر صدر عمل پیرا ہیں اور جس کی مغرب اور بھارت حمایت کر رہے ہیں‘ امن کے عمل کی کامیابی کے لیے خوش آیند نہیں۔ کشمیر پر کوئی امن دیرپا ہونا ممکن نہیں ہے جو کشمیر پر قومی اتفاق راے کی مضبوط بنیادوں پر نہ ہو۔ صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی کئی حکومتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
یہ ہے پاکستانی تجربہ کار سفارت کاروں اور دانش وروں کی سوچ جو قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اسے یکسرنظرانداز کرکے جس ایجنڈے پر بگٹٹ رواں دواں ہیں‘ وہ صرف ہزیمت اور تباہی کا راستہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس میں مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور قوم اپنے تشخص‘ آزادی‘ اسٹرے ٹیجک مفادات اور اپنے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو۔ جس مشکل مقام پر جنرل صاحب نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ اس کی بڑی وجہ ملک میں فردِ واحد کا اقتدار اور قومی اداروں کے ذریعے اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی امور پر فیصلے نہ کرنے کا رجحان ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ یہی جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق ہے۔ جمہوریت میں اگر ایک طرف دستور کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور قومی احتساب اور جواب دہی کا نظام مؤثر ہوتا ہے تو دوسری طرف فیصلہ سازی کے لیے اداروں پر انحصار کیا جاتا ہے‘ اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں قومی امور پر فیصلہ قومی اتفاق راے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشمیر پالیسی کے صحیح خطوط پر مرتب ہونے اور چلائے جانے کا انحصار جمہوریت کی مکمل بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ جنرل صاحب جو کچھ کر رہے ہیں اس میں نہ انھوں نے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے‘ اور نہ پارلیمنٹ کو‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی تک کو کسی معاملے میں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ بس ایک شخص حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پالیسی سے انحراف کر رہا ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رہا ہے اور جو خود دستور میں مرتسم ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بار پھر قوم کے تمام ذمہ دار عناصر پاکستان کی اصولی پالیسی کا اعادہ کریں اور قوم کو بیدار کریں تاکہ انحراف کرنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہ کرنے دی جائے ‘خواہ اس کے لیے جدوجہد کتنی ہی طویل اور صبرآزما کیوں نہ ہو۔
سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں جیسا کہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ ہمارے سامنے اصل ایشو ریاست جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے جس کی پشت پر انصاف کے مسلمہ اصول‘ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور جمہوریت کی متفق علیہ روایات ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ ریاست کے ڈیڑھ کروڑ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہی وہ حق ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ عقیدہ‘ ثقافت‘ معیشت ہر اعتبار سے ان کی تقدیر پاکستان سے وابستہ ہے اور انھوں نے ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار بھی کردیا ہے خواہ اس کا تعلق گھڑی کے وقت سے ہو‘ یا قومی ترانے سے‘ کھیل سے ہو یا سیاست سے‘ تہواروں سے ہو یا رسوم و رواج سے___ ان کے قومی ہیرو پاکستان کے اکابر ہیں‘ بھارت کے نہیں___ لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور خود اہلِ کشمیر کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے مستقبل کو طے کرنے کا باقاعدہ موقع ملنا چاہیے۔
پاکستان ان کے اس حق کا وکیل ہی نہیں‘ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی فریق ہے۔ گوجھگڑا زمین کا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس طرح زمین کا مسئلہ بھی ریاست کے باسیوں کے مسکن ہونے کی حیثیت سے متعلق ہے کہ مکین اور مکان لاینفک ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اصل ایشو بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات اور اہلِ کشمیر کا اپنی آزاد مرضی سے تقسیمِ ہند کی اسکیم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ہے‘ زمین کی بندربانٹ اصل ایشو نہیں۔
پھر یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کشمیر کے لوگ آسانیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ شہادتیں پیش کر کے اور ہر ہر شہید کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کر کے‘ اپنے عزم اور مستقبل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ ریلیف نہیں بھارت کے تسلط سے آزادی ہے۔
پاک بھارت دوستی کی کوئی بھی کوشش اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب وہ عزت اور برابری کے مقام سے ہو اور وہ اسی وقت بارآور ہو سکتی ہے جب اس کا ہدف بنیادی تنازع کے حق وا نصاف کے مطابق طے کیا جانا ہو جو تمام بگاڑ اور تصادم کا باعث رہا ہے۔ جو کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ وہ سراب ہے اور دھوکا___ اس سے کبھی بھی حقیقی دوستی جنم نہیں لے سکتی اور نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم یہ کہنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حق و انصاف سے ہٹ کر جو بھی عارضی حل تلاش کیا جائے گا‘ وہ مزید تصادم اور تفرق کو جنم دے گا۔ پاکستانی قوم کسی ایسے انتظام کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے بے وفائی پر مبنی ہو اور محض وقتی مفادات کے حصول کو سب کچھ سمجھ کر کیا گیا ہو۔ نیز کشمیری عوام بھی اپنی جدوجہد کو بے ثمر ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے غداری کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جدوجہد بہرحال جاری رہے گی۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سراب کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں اور اصل حقائق کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ سب سے زیادہ اپنی قومی یک جہتی کی فکر کریں اور وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے وہ قوت حاصل کریں جس کے بغیر ہم نہ اپنی آزادی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے حق و انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے‘ سیکڑہ پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)