جون۲۰۰۵

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | جون۲۰۰۵ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس نے اپنے غصے کو دفع کیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کر دیں گے‘ اور جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کردیں گے‘ اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے۔ (طبرانی‘ ابویعلٰی)

اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ہر ایک کو‘ تین نہایت اہم باتوں کی طرف    دل کش انداز سے متوجہ کیا ہے:

الف: غصے میں ہوش و حواس مختل ہوجاتے ہیں‘ انسان کو اپنی زبان اور حرکات و سکنات پر قابو نہیں رہتا۔ اول فول بکنے لگتا ہے۔ ماتحتوں پر ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ شوہر ہے تو بیوی زد میں آجاتی ہے۔ باپ ہے تو اولاد اس کا تختۂ مشق بنتی ہے۔ غصے کو پی جانا اصل بہادری ہے۔ غصے کو رفع کرنے کی ترکیب بتائی گئی ہے کہ پانی پی لے‘ کھڑاہے تو بیٹھ جائے‘ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ ایسا کرنے سے تعلقات کے دائرے میں جو نقصانات ہوسکتے تھے اس سے تو انسان بچتا ہی ہے‘ اصل کشش اللہ کے رسولؐ کا یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کردیں گے۔ غصہ پی جانے والے کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔

ب: زبان کی بے احتیاطی جو گُل کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ جبڑوں کے درمیان والی چیز کی حفاظت پر‘ ایک دوسری حدیث میں جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ اپنے اعمال نامے سے آدمی خود ہی سب سے زیادہ واقف ہے۔ اگر ہر انسان کا کیا دھرا سب کے سامنے آجائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا۔ اس لیے انسان‘ ستار العیوب سے درخواستیں کرتا ہے کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے۔ یہاں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے‘ یعنی اُسے غیبت‘ بدگوئی اور فحش گوئی سے بچائے‘ گالم گلوچ‘ جھوٹ‘ بہتان اور افترا سے بچائے۔ اور اگر صاحبِ قلم ہے تو اپنے قلم کو ان منکرات سے بچائے۔

ج: تیسری بات کیا پیاری بات ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے‘ یعنی نقد اور کھرا سودا۔ لیکن معافی طلب کرنے کے لیے واقعی معافی مانگنا چاہیے۔ زبان پر معافی ہو اور اعضا و جوارح اور قلب و ذہن ٹھیک اسی وقت گناہوں میں مصروف ہوں تو پھر تو یہ معافی کی طلب نہ ہوئی۔ نیک نیتی سے معافی کی طلب بالآخر ترکِ معاصی کی طرف لے جائے گی۔ ان شاء اللہ!

o

حضرت معاویہ بن حیدہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین طرح کی آنکھیں دوزخ کی آگ کو نہیں دیکھیں گی: ایک وہ جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے موقع پر رات کو پہرہ دیا‘ دوسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت میں رو پڑی‘ تیسری وہ جو اللہ کے محارم (جن کا دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے) کو دیکھنے سے رُک گئی۔ (طبرانی)

ہماری زندگی کی سب سے زیادہ دلی آرزو یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ کی مختصر دعا اس خواہش کا اظہار ہے جو ضرور بار بار کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی صالح اعمال بھی ہونے چاہییں تاکہ یہ آرزو پوری ہو۔ اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے رسولؐ نے نگاہ کے حوالے سے تین باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر نگاہوں کے استعمال میں ان کا خیال رکھا گیا ہو تو دوزخ میں داخلے کی نوبت نہ آئے گی۔

اوّل :جہاد کے دوران راتوں کو پہرہ دیا جائے۔ جہاد کی تعریف کو وسیع سمجھا جائے جیسا کہ وہ ہے‘ تو اللہ کی راہ میں راتوں کو کام کرنے والے بھی اس تعریف میں آئیں گے۔

دوم: جس کی آنکھوں نے اللہ کی خشیت میں آنسو بہائے۔ نماز میں قرآن سنتے ہوئے‘ یا خود پڑھتے ہوئے‘ یا تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے‘ کتنے ہی مواقع پر اللہ کی خشیت انسان پر طاری ہوتی ہے۔ اس موقع پر آنسو نہ آئیں تو کوشش کرکے کچھ آنسو بہا لینا چاہیے۔

سوم: کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کن چیزوں کو دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے۔   اس کے مواقع ہمیشہ ہی رہے ہوں گے لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ چلتے پھرتے‘ کام کرتے‘ دفتروں میں ‘ اداروں میں‘ اِدھر اُدھر نظر اٹھائیں‘ جرائدو رسائل پڑھیں‘ ٹی وی دیکھیں‘ مواقع ہی مواقع--- نظروں کو محارم سے بچانے اور دوزخ سے بچنے کے۔

o

حضرت رکب مصریؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خوش خبری ہے اس کے لیے جس نے اپنے علم پر عمل کیا‘ اپنے زائد از ضرورت مال کو خرچ کیا‘ اور بلاضرورت باتوں سے پرہیز کیا۔ (طبرانی)

اس حدیث میں بھی تین باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ تین کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے خوش خبری دی ہے۔ پہلا یہ ہے کہ اپنے علم پر عمل کریں۔ سچ یہ ہے کہ آج مسئلہ علم کی کمی کا نہیں‘ عمل کی کمی کا ہے۔ علمی دھماکے کے اس دور میں دینی معلومات بھی سب کے حصے میںزیادہ ہی آرہی ہیں۔ اس حوالے سے آزمایش بھی بڑھ گئی ہے۔ برائی اور اچھائی کا‘ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے‘ کس سے منع کیا گیا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ لیکن خوش خبری اس کے لیے ہے جو اپنے علم پر عمل کرے۔ دوسرا عمل جس پر خوش خبری دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے زائد از ضرورت مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ ضرورت کا تعین بڑا نازک مسئلہ ہے۔ ہر شخص اپنے معیار کے لحاظ سے اپنی ضروریات کا دائرہ متعین کرتا ہے‘ لیکن ہر شخص خود ہی جانتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ کتنا مال اس کے پاس ہے۔ عظمت تو اس میں ہے کہ ضرورت سے زائد سب مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔ محض زکوٰۃ ادا کرنے کو کافی نہ سمجھا جائے۔ آج کل اُمت مسلمہ جس نازک دَور سے گزر رہی ہے اور اللہ کے دین پر جو وقت آپڑا ہے‘ اُس کا تقاضا ہر مسلمان سے‘ خصوصاً ان افراد سے جو اِن باتوں کا شعور رکھتے ہیں یہ ہے کہ ایک اوسط معیار پر اپنی زندگی گزاریں‘ رہن سہن خوراک پوشاک میں واقعی سادگی اختیار کریں۔ پھر جو کچھ بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ تب ہی وہ اس خوش خبری کے مستحق ہوں گے۔

خوش خبری پانے والا تیسرا شخص وہ ہے جو خواہ مخواہ کی لغو باتوں میں وقت ضائع نہ کرے۔ آج کل اسی طرح کے سوال بہت بڑھ گئے ہیں۔ محض وقت گزاری اور خوش وقتی کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ تفریح منع نہیں‘ لیکن ہرلمحے کا جواب دینا ہے‘ تب ہی خوش خبری ہے۔

o

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حدیث    بار بار بیان کرتے ہوئے سنا۔ اگر ایک بار یا دو بار بیان کرتے ہوئے سنا ہوتا تو میں اسے نہ بیان کرتا۔ لیکن میں نے ایک دو بار نہیں‘ بلکہ سات سے بھی زیادہ مرتبہ سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

بنی اسرائیل میں کِفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے پرہیز نہیںکرتا تھا۔ [ایک دفعہ] ایک خاتون اس کے پاس مدد کے لیے آئی‘ تو اس نے اسے ۶۰ دینار اس شرط پر دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا‘ توجب اس نے اس کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ خاتون کانپ اٹھی اور روپڑی۔ کِفل نے پوچھا: تجھے کس چیز نے رُلا دیا۔ اس خاتون نے جواب میں کہا کہ یہ وہ برائی ہے جس کا ارتکاب میں نے کبھی نہیں کیا۔ اب مجھے میری محتاجی نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے تو میں اللہ کی خشیت سے کانپ اٹھی ہوں۔ (خاتون کی اس نیکی اور پاک دامنی نے اسے متاثر کیا) اس نے کہا: تو اللہ کے خوف سے کانپتی اور روتی ہے تو میں اس سے خشیت اور آہ و بکا کا زیادہ سزاوار ہوں۔ اچھا جو دینار تجھے دیے ہیں وہ تیرے ہوئے۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی بھی اس کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اس نے یہ عزم کیا اور پھر اسی رات وہ فوت ہوگیا۔ صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھا تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے کِفل کی مغفرت کر دی ہے‘‘۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا۔ (ترمذی)

اس حدیث کا ایک سبق تو یہ ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی‘ زندگی کے کسی مرحلے پر اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے۔ ہر انسان کی فطرت میں جو نیکی ہے وہ کسی واقعے کو دیکھ کر عود کر آتی ہے۔ اس لیے کسی کی اصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کتنی ہی مجبوری کا عالم کیوں نہ ہو‘ اللہ سے  بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کے خوف کا اظہار جسم کی کیفیت سے یا زبان سے ہو‘ وہ دوسرے دیکھنے والے پر غیرمعمولی اثر رکھتا ہے۔ یہ بات کہ راوی حضرت ابن عمرؓ نے یہ حدیث رسولؐ اللہ سے سات بار سنی اور یقینا اس سے زیادہ بار بیان کیا گیا ہوگا‘ ایک طرف اس حدیث سے ملنے والے سبق کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور دوسری طرف دعوت و تربیت کے لیے ‘ایک ہی بات بار بار کہنے کی حکمت اور ضرورت کو سامنے لاتی ہے۔