دہشت گردی کے نام سے چھیڑی جانے والی جنگ میں امریکی حکومت جو کارروائیاں کررہی ہے خود امریکی تجزیہ نگار ان کے بے سمت اور ناکام ہونے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ’’دل‘ دماغ اور ڈالر‘‘ کے عنوان سے ۱۰ اقساط پر مشتمل ایک اہم رپورٹ تیار کرنے والے امریکی دانش ور ڈیوڈ کیپلن نے اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۴ء کے وسط تک‘ عالمِ اسلام سے متعلق امریکی پالیسیاں کسی ایسی مرکزی قیادت کے بغیر چل رہی تھیں جسے امریکا کی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہو‘‘۔ ۲۰۰۰ء میں امریکی وزارت دفاع کے نائب سربراہ پول ولفووٹیز نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ’’ہماری جنگ نظریات اور اذہان کی جنگ ہے‘‘۔ ایک سال کے بعد کونڈولیزارائس نے بیان دیا کہ ’’ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے افکار ونظریات کی جنگ جیتنا ہوگی‘‘۔
امریکی ذمہ داران پوچھ رہے ہیں کہ ’’دنیا امریکا سے نفرت کیوں کرتی ہے؟‘‘ خود صدر بش بھی یہ ’’معصومانہ‘‘سوال دہرا چکے ہیں۔ لیکن پھر اس سوال کے جواب تک پہنچے بغیر یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے مسلم دنیا میں امریکا سے نفرت ختم کرنے کے لیے تقریباً ایک ارب ۳ کروڑ ڈالر خرچ کر دیے گئے۔ اس غرض سے عربی اور دیگر کئی زبانوں میں ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن کھولے گئے‘ فلمیں بنائی گئیں‘ مشہور فلمی ستاروں کو انسانی امداد کے مختلف پروگراموں کا نمایندہ بناکر مسلم دنیا کے دورے کروائے گئے۔ رسالے‘ کتابیں اور رپورٹیں شائع کی گئیں۔ عراق میں صدام کی آمریت کے خاتمے اور افغانستان و عراق کے تاریخی ’’انتخابات‘‘کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ امریکی سفرا نے مسلم اسکولوں کے دورے کیے۔ بچوں میں کتابیں اور چاکلیٹ تقسیم کیے‘ اسکولوں کی دیواروں پر رنگ و روغن کرنے کی سماجی تقریبات منعقد کرکے تصویریں بنوائی گئیں۔ انڈونیشیا‘ پاکستان اور کئی مسلم ملکوں میں امریکی امداد سے مساجد میں سفیدیاں کی گئیں‘ درباروں پر حاضریاں دی گئیں۔ غرض یہ سب کچھ کیا گیا لیکن جائزوں نے یہی بتایا کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کم نہیں‘ زیادہ ہی ہورہی ہے۔
امریکی دانش وروں کا کہنا ہے کہ: سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ نسبتاً آسان تھی کیونکہ وہ ایک بے خدا سیاسی نظریے کے خلاف تھی‘ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا تعلق دین سے ہے۔ ایک تھنک ٹینک ’نکسن سنٹر‘ کی دانش ور زینو پاران لکھتی ہے: ’’امریکیوں کے لیے مخصمہ یہ ہے کہ اب ہمیں دین اسلام جیسے مذہب سے نظریاتی چیلنج درپیش ہے جو جدوجہد کا دین ہے۔ اس کے گرد سیاسی اہداف کا ہالہ ہے‘ قیادت ہے‘ افواج ہیں… یہ دین کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر امریکی پالیسی ساز کسی راحت کدے میں بیٹھ کر بحث کریں۔ یہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے‘‘۔
’’فاشسٹ نظریے‘‘ کے مقابلے کے لیے امریکا نے مسلم دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی ایک جنگ شروع کی ہے۔ لیکن دوسری طرف....
گوانتاناموبے کے فوجی پنجروں میں بند سیکڑوں ’’دہشت گردوں‘‘ سے کیے جانے والے امریکی ’’حسنِ سلوک‘‘ کی تفصیلات سے دنیا بے خبر تھی۔ تین سال سے زائد عرصے تک آہنی پنجروں کے مہمان رکھنے کے بعد ان میں سے کچھ ’’دہشت گردوں‘‘ کورہائی ملنا شروع ہوئی تو امریکی ’’خوش نما‘‘ چہرے کے کچھ مزید خدوخال دنیا کے سامنے آئے۔ قیدیوں پر تشدد اور انھیں عذاب دینے کے بارے میں تو شاید ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی خاکہ بنتا ہو… لیکن جو کچھ ان قیدیوں نے بیان کیا اور نیوزویک سمیت مختلف رسائل و اخبارات اور ٹی وی چینلوںنے ان کا کچھ حصہ شائع اور نشر کیا‘ وہ ان سب اندازوں اور خاکوں سے کہیں بڑھ کر گھنائونا تھا۔
چند ہفتے پیشتر رہا ہونے والے مراکش کے ایک نوجوان محمد مزوز نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں عذاب و اذیت دیتے تھے لیکن سب سے سخت روحانی عذاب دینے کے لیے وہ ہمارے سامنے نعوذ باللہ قرآن کریم پھینک کر اس پر پیشاب کر دیتے تھے۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے تھے۔ ہم نماز پڑھنے لگتے تو سامنے مختلف فحش جنسی حرکات میں لگ جاتے۔ ایک نوجوان سے دورانِ تفتیش‘ ایک خاتون امریکی فوجی نے اپنے مخصوص دنوں کی غلاظت اس کی داڑھی پر مل دی…‘‘ ایک نہیں دسیوں گواہیاں ہیں۔ گوانتاناموبے کا چپہ چپہ امریکی کیمروں کی زد میں رہتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے پاس تو پل پل کی رپورٹ ہوگی لیکن یہ خبریں آنے کے باوجود اب تک کوئی شفاف تحقیق نہیں کی گئی۔ کسی مجرم کے جرم کا تعین نہیں کیا گیا۔ اب تک یہ ضمانت نہیں دی گئی کہ اب کبھی وہاں اس طرح کی بہیمیت کا ارتکاب نہ ہوگا۔
تین سال بعد رہائی پانے والے ایک اور قیدی بدرالزمان بدر نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے جنگلوں میں کموڈ لگے ہوئے تھے۔ بعد میں ساری غلاظت ایک ڈرم میں جمع ہوجاتی‘ جس میں سے مشینیں کھینچ کر لے جاتیں۔ اسی غلاظت میں نعوذ باللہ قرآن بھی پھینک دیا جاتا۔ ہم احتجاج کرتے‘ بھوک ہڑتال کرتے‘ وہ قہقہے لگاتے…
انسانیت وا خلاق سے عاری ان خبروں کے آنے کے بعد سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل پر آرے چل رہے ہیں۔مسلسل مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ محترم قاضی حسین احمد کی اپیل پر ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کا عالمی یومِ احتجاج بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ یہ احتجاج مسلسل جاری رہے گا‘ لیکن کیا امریکی دانش ور اور پالیسی ساز یہ سمجھنے میں کامیاب ہوں گے کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ مسلمانوں کے دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں امریکا کیوں شکست کھا رہا ہے؟
ضرورت ہے کہ امریکی معاشرے کے فہمیدہ عناصر آگے بڑھ کر اپنے حکمرانوں اور میڈیا کے گمراہ کردہ عوام کو یہ سمجھائیں کہ نفرت ختم کرنے اور عام مسلمانوں کی نظر میں پسندیدہ ہونے کے لیے امریکا کو صرف یہی کرنا ہے کہ وہ ایک طرف فلسطین‘ کشمیر‘ چیچنیا اور دوسرے مقاماتِ ظلم پر اپنا رسوخ حق و انصاف کے لیے استعمال کرے‘ افغانستان اور عراق کے عوام سے معافی مانگے اور فوجیں واپس نکال لے‘ مسلم ممالک میں حقیقی جمہوری قوتوں کو برسرِکار آنے دے‘ آمروں کی سرپرستی بند کردے‘ دوسری طرف اپنے ملک میں مسلمانوں سے باعزت سلوک کرے۔ یہ ’’عظیم‘‘ امریکا کے لیے کیوں ناممکن ہے؟ اس کی قیمت پوری انسانیت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔