جون۲۰۰۵

فہرست مضامین

’مہذب‘ قوموں کے ’کارنامے‘

ڈاکٹر رچرڈ ڈریگٹن | جون۲۰۰۵ | مغربی تہذیب

Responsive image Responsive image

ترجمہ: امجد عباسی

عراق‘ افغانستان اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں امریکی اور برطانوی افواج جن گھنائونے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں اور جس سہل انگاری کے ساتھ مغربی اقوام کی قیادتیں‘ اقوام متحدہ‘ جنگی جرائم پر گرفت کرنے والی نام نہاد بین الاقوامی عدالت انھیں نظرانداز کر رہی ہے یا جرم   ثابت ہونے پر اعلیٰ حکام کے عدم شرکت کے سرٹیفیکیٹ جاری کر کے متعلقہ افراد کو تنزلی یا جرمانے سے نواز رہے ہیں‘ وہ ان اقوام کے اخلاقی افلاس کا آئینہ دار ہے اور اس کے ساتھ خود مسلمان    اور عرب ممالک کے حکمرانوں اور بااثر طبقات کی بے حسی اور مجرمانہ معاونت (criminal complicity) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا جس منافقت کی گرفت میں ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر دعوے کر رہے ہیں دنیا میں امن‘ جمہوریت‘ آزادی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی ترویج کے‘ اور عملاً ہر انسانی قدر کو بے دردی سے پامال کر رہے ہیں اور مزید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گوانتاناموبے میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اور صرف ابوغریب ہی نہیں عراق کی ہر جیل میں معصوم انسانوں سے ناکردہ جرائم کا اعتراف کرانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ انسانی ضمیر کے لیے تو چیلنج ہے ہی‘ لیکن اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اقوام جنھیں مہذب ہونے کا دعویٰ ہے اور جو روشن خیالی کی پیامبر ہیں ان کا اصل کردار کیا ہے۔ اور یہ آج ہی نہیں ان کا مستقل وطیرہ ہے۔ ہر بے خدا اور اخلاق باختہ تہذیب کا تاریخ میں یہی رویہ رہا ہے۔

مئی ۱۹۴۵ء میں دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہوئی تھی‘ اور اس ماہ (مئی ۲۰۰۵ئ) اس کی ۶۰ سالہ تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔ اس موقع پر جرمنی‘ اٹلی اور جاپان کی بہیمانہ کارروائیوں کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ جیسے مظالم جرمنی‘ اٹلی اور جاپان نے کیے خود امریکی اور برطانوی اور اتحادی افواج کا رویہ اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔

اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں--- ہاں‘ اندھے وہ حکمران اور دانش ور ہیں جن کو مغربی اقوام کا یہ وحشیانہ کردار نظر نہیں آتا اور جو انھیں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کا علم بردار قرار دے کر ان کی خوش نودی حاصل کرنے اور ان کی چاکری کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کی ۶۰ سالہ تقریبات کے موقع پر لندن کے روزنامے دی گارڈین میں کیمبرج یونی ورٹی کے تاریخ کے استاد ڈاکٹر رچرڈ ڈریگٹن(Richard Dragton) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جو پاکستان کی موجودہ قیادت اور لبرل دانش وروں کے لیے بھی اپنے اندر عبرت اور موعظت کا کافی سامان رکھتا ہے‘ اور ان تمام افراد کے لیے بھی چشم کشا لوازمے کا حامل ہے جو اس آبروباختہ تہذیب سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے اپنے لیے نمونہ سمجھتے ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔ مضمون کا ترجمہ پیش ہے۔ (مدیر)

۱۹۴۵ء میں تمام جنگوں کے خاتمے پر‘ فاتح طاقتوں نے تاریخ کو ایسا رخ دیا کہ اشرافیہ کے مفادات پورے ہوں۔ اس طرح جنگی پروپیگنڈے کو غیرمعمولی نئی زندگی مل گئی۔ جیسے ولادی میرپوٹن نے ظاہر کیا ہے کہ حُبِ وطن کے لیے لڑی جانے والی جنگ عظیم روس میں ایک کلیدی سیاسی وسیلہ ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں بھی جنگ عظیم دوم کا مخصوص تصور جوش و خروش سے زندہ رکھا جاتا ہے اور کم خوش کُن تعریفی یادداشتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔

پانچ سال قبل‘ ایک ممتاز امریکی ماہر سماجیات رابرٹ للّی نے فوجی دستاویزات کی بنیاد پر ایک کتاب Taken by Forceمرتب کی ہے۔ یہ دراصل ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان یورپ میں امریکی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر جو آبروریزی کی‘ اس کا ایک مطالعہ ہے۔ اس نے اپنا مسودہ ۲۰۰۱ء میں اشاعت کے لیے اپنے ناشر کو دیا تھا مگر نائن الیون کے بعد اس کے امریکی ناشر نے اسے دبا دیا اور ۲۰۰۳ء میں یہ کتاب پہلی مرتبہ فرانسیسی ترجمے کی شکل میں منظرعام پر آئی۔

سرخ فوج کا جنسی تشدد توانتھونی بیور کے ذریعے ہمارے علم میں ہے لیکن ہم یہ نہیں جاننا چاہتے کہ امریکی اور برطانوی فوج نے کس بڑے پیمانے پر آبروریزی کی۔ للّی کے مطابق امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کے کم از کم ۱۰ ہزار واقعات پیش آئے۔ دیگر ہم عصروں کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر جنسی جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور ان پر کوئی سزا نہ دی گئی۔ ٹائم میگزین کی ستمبر ۱۹۴۵ء کی رپورٹ کے مطابق: ہماری اپنی فوج نے اور ہمارے ساتھ ساتھ برطانوی فوج نے لوٹ مار اور آبروریزی میں پورا حصہ لیا… ہم بھی زناکاروں کی فوج (army of rapists) سمجھے جاتے ہیں۔

برطانوی اور امریکی عوام دوسری جنگ عظیم کے صرف خوش گوار پہلو جانتے ہیں۔فلمیں‘ عام تاریخی کتب اور سیاسی تقاریر جنگ کو اینگلو امریکی بہادری کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور سرخ فوج کا مرکزی کردار بھلا دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ جمہوریت کے لیے تھی۔ امریکی یقین رکھتے ہیں کہ انھوں نے دنیا کے بچائو کے لیے جنگ لڑی۔ برطانوی سلطنت کے معذرت خواہوں‘ جیسے نائل فرگوسن کے لیے جنگ ایک ایسا غسل تھا جہاں فتوحات‘ غلامی اور استحصال کے صدیوں کے گناہ دھو دیے گئے۔ ہم ہمیشہ کے لیے اچھے لوگ قرار دے دیے گئے۔ ہم خوش خوش گاسکتے ہیں: دو عالمی جنگیں اور ایک ورلڈکپ۔

یہ تمام ایک معصومانہ مذاق لگتا ہے لیکن حب الوطنی کے تخیلات کی دھار بڑی تیز ہوتی ہے۔ ہٹلر کے خلاف جنگ براے خیر (good war)نے ۶۰ سال کی جنگ بازی کو جواز عطا کردیا۔ یہ برطانوی اور امریکی طاقتوں کے لیے ایک اخلاقی بلینک چیک ہوگیا ہے۔ ہم فاشزم کے خلاف جنگ کی کھلی اور خفیہ اپیلوں کی بنیاد پر بم باری کرنے‘ مثلہ بنانے اور بغیر مقدمے کے جیل میں ڈالنے کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جب ہم نوریگا‘ مائیلوسووچ اور صدام جیسے سفاک دوستوں سے اپنی دوستی ختم کرتے ہیں تو ان کو ’’ہٹلر‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ ان کے خلاف ’’جنگ براے خیر‘‘ میں تمام قابلِ مذمت کارروائیاں بھلائے جانے کے قابلِ ضمنی نقصان بن جاتی ہیں۔ سربیا اور عراق میں شہری ٹھکانوں کو تاخت و تاراج کرنا‘ ابوغریب اور گوانتاناموبے میں تعذیب‘ فلوجہ میں اجتماعی سزا کا جنگی جرم‘ سب ’’جمہوریت کی قیمت‘‘ کے نام پر بھولی بسری یادیں قرار دیے جاتے ہیں۔

ہمارا جمہوری استعمار یہ بات بھلانے کو ترجیح دیتا ہے کہ فاشزم کی اہم اینگلو امریکی جڑیں ہیں۔ ہٹلر کے خواب کی بنیاد برطانوی سلطنت تھی۔ نازی مشرقی یورپ میں اپنا امریکا اور آسٹریلیا بنانا چاہتے تھے جہاں نسلی صفائی اور غلاموں کی بے گار نے آبادکاری کے لیے زمین تیار کی۔ اور مغربی یورپ میں انھیں اپنے ہندستان کی تلاش تھی جہاںسے محاصل‘ مزدور اور فوجی حاصل کیے جاسکیں۔

جرمنی اور جاپان کے اپنے پڑوسی علاقوں میں بالادستی کے دعووں کو لاطینی امریکا میں امریکا کی استعماریت نے واضح مثالیں فراہم کیں۔ امریکی اور برطانوی اصلاحِ نسلِ انسانی کے کلیدی نظریہ ساز تھے اور انھوں نے نسلی تفریق کو قابلِ احترام بنا دیا۔ نظربندی کیمپ ایک برطانوی ایجاد تھے‘ اور عراق اور افغانستان میں گروہی مزاحمت کو کچلنے کے لیے فضائی طاقت کے استعمال میں پہل کرنے والے برطانوی تھے۔

ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اور امریکی اشرافیہ نے فاشسٹوں کو مدد فراہم کی تھی۔ صدربش کے دادا جن پر ۱۹۴۲ء میں‘ دشمن سے تجارت کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا‘ ان طاقت ور اینگلو امریکی لوگوں میں سے ایک تھے جو ہٹلر اور مسولینی کو پسند کرتے تھے اور ان کی مدد کے لیے جو کچھ ممکن تھا انھوں نے کیا۔ ان آمریتوں سے مصالحت خواہی کی سرکاری پالیسی تو برفیلے تودے کا محض نظر آنے والا سرا تھا‘ درحقیقت ان کو دی جانے والی عملی امداد بہت زیادہ تھی۔ فاشسٹ حکمرانوں کو واشنگٹن اور لندن میں انتہائی احترام کا مقام دیا گیا۔ ہنری فورڈ نے ہٹلر کی پیدایش پر ۵۰ہزار مارک کا تحفہ دیا۔

ہم اس بات کو بہت کم یاد رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ۱۹۴۰ء میں جنگی جرائم کاارتکاب کیا تھا۔ ڈرس ڈن (Dresden) کی تباہی‘ ایساشہر جو عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا اور جس کی کوئی فوجی اہمیت نہ تھی‘ شہری آبادیوں پر ہمارے بم باروں کے کیے ہوئے مظالم کی سب سے زیادہ معروف مثال ہے۔ ہم جنگی قیدیوں کے ساتھ جاپانیوں کی بدنام بدسلوکی کو تو جانتے ہیں لیکن قیدی جاپانیوں کے قتل اور تعذیب کو یاد نہیں کرتے۔

جنگی نامہ نگار ایڈگار جونز نے ۱۹۴۶ء میں لکھا: ’’ہم نے قیدیوں کو بے دردی سے گولی مار دی‘ ہسپتالوں کا صفایا کر دیا‘ لائف بوٹس پر گولے برسائے‘ دشمن شہریوں کو قتل کیا‘ زخمی دشمنوں کو ختم کر دیا‘ ہم نے زندہ انسانوں کو مُردوں کے ساتھ گڑھوں میں پھینک دیا‘ اور دشمن کی کھوپڑیوں کو اُبالا تاکہ ان سے گوشت نکل جائے اور ان کو میزوں کی زینت بنایا جاسکے‘‘۔

۱۹۴۱ء کے بعد ہم نے بہت سے فاشسٹ طریقے اُدھار لیے۔ نورمبرگ میں صرف چند مجرموں کو سزا دی گئی‘ زیادہ تر ہماری مدد سے بچ نکلے۔ ۱۹۴۶ء میں پراجیکٹ پیپرکلپ کے ذریعے ایک ہزار سے زائد نازی سائنس دانوں کو خفیہ طور پر امریکا لایا گیا۔ ان میں کرٹ بلومے بھی شامل تھا جس نے آئوش وٹس میں اعصابی گیس کا تجربہ کیا‘ اورکانرڈ شیفر بھی شامل تھا جس نے ڈیخائو میں ملزموں کے جسم میں زبردستی نمک داخل کیا۔ دوائوں اور سرجری کے ذریعے ذہنوں پر قابو پانے کے لیے تجربات سی آئی اے کے پراجیکٹ بلیوبرڈ کا حصہ تھے۔ جاپان کے ڈاکٹر شیرو اشی کو جس نے منچوریا میں جنگی قیدیوں پر تجربات کیے تھے‘ حیاتیاتی اسلحے پر مشورے دینے کے لیے میری لینڈ لایا گیا۔ بیلسن کو آزاد کروانے کے ایک عشرے کے اندر اندر برطانوی فوجی مائو مائو کو کچلنے کے لیے کینیا میں اپنے نظربندی کیمپ چلا رہے تھے۔ الجزائر میں فرانسیسیوں نے تعذیب کی تکنیک گسٹاپو سے مستعار لیں‘ پھر یہ امریکیوں نے لاطینی امریکا کی آمریتوں کو ۶۰ اور ۷۰کے عشرے میں پہنچائیں۔ امریکا کے کیوبا اور ڈیگوگارشیا کیمپوں میں آج ہم ان کو زیراستعمال دیکھتے ہیں۔

جنگ کے نتیجے میں ظلم کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے زور پر آگے بڑھتا ہے۔ Taken by Forceکا سبق ہے کہ کس طرح امریکی فوجی اپنے جنسی تشدد میں اضافہ کرتے چلے گئے‘ اور فوجی حکام اس کی گرفت کرنے میںآہستہ آہستہ نرم پڑتے چلے گئے۔ ٹھیک اس وقت‘ جب کہ ہم نازی ازم کی خرابیوں کو یاد کرتے ہیں اور جنھوں نے ان کو شکست دی ان کے حوصلوں کی تعریف کرتے ہیں‘ ہمیں دوسری عالمی جنگ پر اپنی خود اطمینانی کی کیفیت میں کمی لانی چاہیے۔ خاص طور پر ہمیں ان لوگوں پر بداعتمادی کرنا سیکھنا چاہیے جو اس کو حالیہ جنگ کے جواز کے لیے پیش کرتے ہیں۔