سوال: میرا تعلق تحریک سے وابستہ ایک گھرانے سے ہے مگر میرے شوہر حافظِ قرآن ہونے کے باوجود گھر میں کیبل لانے کے ذمہ دار ہیں۔ میں ٹی وی اور لوکل چینل شوق سے دیکھتی تھی‘ پھر کیبل بھی دیکھنا شروع کر دی۔ لیکن اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ کیبل اخلاق و کردار کو تباہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ میری شادی کو ابھی چار سال ہوئے ہیں اور میری دو چھوٹی بچیاں ہیں۔ بچیوں اور شوہر کو منع کرتی ہوں مگر منع کرنے پر کبھی تو وہ رک جاتے ہیں اور کبھی دیکھتے رہتے ہیں۔ دیگر اہلِ خانہ بھی ٹی وی اور کیبل کو برا جانتے ہیں مگر دیکھنے سے اجتناب نہیں کرتے۔ ایسے میں میرا کردار کیا ہونا چاہیے‘ جب کہ ٹی وی میرے اپنے کمرے میں موجود ہے۔
جواب: آپ نے اپنے خط میں جس عملی تضاد کا ذکر کیا ہے‘ تحریکات اسلامی کی کامیابی کی راہ میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شعوری طور پر اسلام کے مان لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک شخص اپنی فکر‘ نظر‘ فہم‘ معاملات و تعلقات کو جذبات و احساسات کے بجاے عقلی رویے کا عادی بنائے۔ اس کی نظر‘ سماعت اور طرزِعمل نفسی خواہش کی بنا پر نہ ہو‘ بلکہ وہ اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں دے دے۔ اس کا شعار قرآن کریم کی وہ آیت بن جائے جسے آپ اور میں بارہا سنتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے‘ یعنی قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لاَ شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمْرِتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)‘کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
جہاں تک سوال کسی گھر میں کیبل کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے‘ موجودہ دور میں صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ‘ یعنی پی ٹی وی کے مختلف چینل کسی کیبل کے محتاج نہیں ہیں اور ہر گھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ وہ خود اتنے عریاں اور فحاشی کا ذریعہ بن گئے ہیں کہ اگر کیبل نہ بھی ہو جب بھی ایک شخص کے اہلِ خانہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ جہاں کہیں برائی ہو رہی ہو‘ قرآن کریم نے وہاں سے ایک مومن کے گزر کا جو طریقہ بتایا ہے وہ بڑا واضح ہے‘ یعنی وہ ایسی لغو اور غیراخلاقی چیز پر سے گزر جاتے ہیں اور اس سے چپک کر نہیں رہ جاتے۔ (الفرقان ۲۵:۷۲)
قرآن کریم نے ہمیں سماعت‘ بصارت اور قلب (فواد) کی جواب دہی کی طرف بھی متوجہ کیا ہے اور دو ٹوک انداز میں ہدایت کر دی ہے کہ ان ذرائع کو (جو دراصل حصولِ علم کے ذرائع ہیں) فحش اور عریانیت سے آلودہ نہ ہونے دیا جائے۔ ایک مرتبہ یہ عمل شروع ہو جائے تو پھر حدیث کی روشنی میں یہ غیرمحسوس داغ یا دھبہ‘ جو نگاہ پر قلب پر اور دماغ پر لگ جاتا ہے‘ آہستہ آہستہ پورے قلب کو اپنی تاریکی میں لپیٹ لیتا ہے۔
اس اصولی صورت حال کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ آج تحریک اسلامی کے مرکز میں واقع کوئی گھر ہو یا ملک کے دور ترین گوشے میں کوئی کچی آبادی‘ آپ کو ہر جگہ پر ٹی وی انٹینا‘ ڈش یا زیرزمین کیبل کے آثار مل جائیں گے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عالمی ابلاغی انقلاب کے بعد معلومات اور اپنے آپ کو دنیا کے واقعات سے آگاہ رکھنے کا ایک اہم اور سریع ذریعہ ٹی وی اسکرین ہے‘ تو صرف معلومات کے حصول کی حد تک اس کا استعمال ایک ضرورت (مجبوری) بنتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر ہونے والے ناچ گانے اور ڈرامے میں ہر قاتلِ اخلاق کردار کا شوق اور توجہ سے نظارہ کیا جائے۔
اس میں خود آپ کو اور آپ کے بزرگوں اور آپ کے شوہر کو اپنے نفس پر ضبط کرنا ہوگا اور اپنی نگاہ اور سماعت کو بھی اللہ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ اللہ کی بندگی جزوی نہیں ہوسکتی کہ گلے کی حد تک اس کے کلام کی تلاوت کر دی جائے اور نگاہ اور سماعت پر اس کا عمل دخل نہ ہونے دیا جائے۔
آپ نے دو بچیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ گو وہ ابھی چھوٹی ہیں لیکن دو سال کی عمر سے ہی ایک بچہ اپنے ماحول سے الفاظ‘ طرزعمل اور رویے کو اخذ اور جذب کرتا ہے۔ اگر وہ آج کیبل کی عادی ہوں گی تو پھر اُن کے بڑے ہونے پر‘ آپ انھیں مارپیٹ کے ذریعے بھی اس عادت سے نجات نہیں دلا سکتیں۔ اگر بچیوں کے لیے کارٹون دیکھنا‘ آپ کے خیال میں ان کی ’’شرعی ضرورت‘‘ ہے تو پھر ہر کارٹون کا تجزیہ کر کے انھیں یہ بھی بتائیں کہ فلاں کردار کیوں غلط ہے اور انھیں اس سے بچنا چاہیے۔ اگر آپ یہ اصلاحی کام نہیں کر سکتیں اور بچیوں کو محض خاموش اورمصروف رکھنے کے لیے انھیں کارٹون نیٹ ورک کے حوالے کر دیتی ہیں تو جو کچھ بچیاں دیکھیں گی اس کے اثرات ان کے ذہن اور یادداشت میں آپ کے نصیحتی خطبات سے کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوں گے۔ پانچ یا دس سال بعد ان کے ذہن سے ان اثرات کو محو کرنا آسان نہیں ہوگا۔
کیبل اگر آپ کی ضرورت ہے تو پھر اس کے پروگراموں کو محدود رکھیے اور جو پروگرام آپ کے خیال میں مضر نہیں ہیں‘ مثلاً نیشنل جیوگرافک کی کوئی تعلیمی documentary یا Discovery کا کوئی ایسا پروگرام جو اخلاق کو خراب نہ کرتا ہو‘ ایسے پروگراموں کو دیکھتے وقت بھی اپنے ذہن کو کھلا رکھیے اور جہاں ضروری ہو تجزیہ و تبصرہ کر کے اس کے مضر اثرات کو دُور کرنے کی کوشش کیجیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: بعض لوگ مشکوک آمدنی کی بنا پر حلال و حرام میں بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی رفیق یا کوئی فرد جس تک میں دعوت دین پہنچانا چاہتا ہوں‘ اگر اُس کے گھر والوں کی کمائی کا ذریعہ حرام ہے تو کیا میں اُس کے ہاں کھاپی سکتا ہوں؟ یا اگر کبھی اُس نے کھانے وغیرہ کی دعوت دی تو میں کیسے ردّ کر سکتا ہوں‘ جب کہ دعوت قبول کرنا سنت رسولؐ ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ تحقیق کے بعد ہی کسی کی دعوت یا تحفہ قبول کرتے تھے۔ اگر کسی شخص کی کمائی کے بارے میں ہمیں شک ہو یا معلوم ہو کہ اُس کی کمائی حرام ہے‘ تو ایسی صورت میں کیا رویہ اپنایا جائے؟
ج: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ حلال (بھی) واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے‘ اور دونوں کے درمیان شبہے کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا‘ اس نے اپنے دین و آبرو کو محفوظ کرلیا‘‘۔ (بخاری ‘مسلم)
اس حدیث میں ہماری رہنمائی کے لیے تین بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اول: حلال کواللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر دیا ہے اور طیبات کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے___ یہ طیبات اور حلال نہ صرف کھانے پینے میں‘ بلکہ بصارت‘ سماعت‘ معاملاتِ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلال نگاہ وہ ہے جو صرف ان اشیا کو دیکھے جن کا دیکھنا اخلاقی طور پر درست ہے۔ ایسے ہی صرف ان چیزوں کو کھایا اور پیا جائے جو بجاے خود پاکیزہ اور صحت بخش ہوں۔
دوسری بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ حرام کو واضح اور متعین کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اس سے مکمل طور پر بچا جائے اور اس کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے۔ قرآن و حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کوئی شخص اپنی پسند ناپسند سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار نہیں دے سکتا ۔ حتیٰ کہ اللہ کے رسول کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز کو‘ جسے اللہ نے اس کے لیے حلال کیا ہو‘ اپنے اُوپر حرام کرلے۔ (التحریم ۶۶:۱)
اسی بنا پر امام مالکؒ نے جو اصول بیان کیا ہے اس پر تقریباً تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ اصلاً تمام اشیا مباح ہیں جب تک انھیں قرآن و سنت حرام قرار نہ دے دیں۔ وجہ ظاہر ہے اِنَّ الْحَلَالُ بَیِّنٌ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ’’یہ دونوں چیزیں شریعت نے ظاہر اور واضح کر دی ہیں۔
تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جن معاملات میں قرآن و سنت کا واضح حکم موجود نہیں ہے‘ یعنی مشتبہات‘ تو ان میں احتیاط کا رویہ اختیار کیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دین اہلِ ایمان کو غیر ضروری طور پر مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ قرآن کریم نے یہ اصول دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دین میں آسانی چاہتا ہے (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ حدیث میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ دین میں آسانی اختیار کی جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ کے سامنے ایک راستہ آسان اور ایک قدرے مشکل ہوتا تو آپؐ آسان کو اختیار فرماتے تھے‘ تاکہ آپؐ اپنی سنت کی پیروی میں اُمت کو غیر ضروری طور پر دقت اور مشکل میں نہ ڈالیں۔
آپ کی جانب سے احتیاط کا رویہ اختیار کرنا اچھی عادت ہے۔ لیکن اس کی بنا پر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ لینا اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہو جانا بھی دین کا مدّعا نہیں ہے۔ دین کے تمام احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے۔ اگر تحقیق کے بعد ایک بات آپ پر ظاہر ہو کہ ایک شخص دین کا باغی اور دشمن ہے تو آپ لازماً اس کے ہاں کھانا کھانے سے بچیں۔ لیکن محض گمان کو سورۃ الحجرات میں گناہ شمارکیا گیا ہے۔ (الحجرات ۴۹:۱۲)
ایک بات یہ بھی سمجھ لیجیے کہ جب تک ایک شخص کا اپنا حصولِ رزق کا طریقہ صحیح ہے‘ اسے اپنے ذہن کو ہر شبہے سے خالی کر کے‘ اللہ کے دیے ہوئے رزق کو مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے اور ہر شخص کی روزی کو آلودہ سمجھ کر اس سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ایک شخص کو جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کے والد کس طرح روزی کماتے ہیں اور وہ اپنے گھر کا کھانا استعمال نہ کرے‘ عقل کے منافی ہے۔ جب تک آپ کو تحقیق سے یہ معلوم نہ ہو کہ ایک شخص کی روزی حرام ہے‘ محض گمان کی بنا پر اس سے قطع تعلق کرنے کی بنیاد علم نہ ہوگا بلکہ ظن و گمان ہی ہوگا جس سے قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں منع کیا ہے۔ اسلام کا مثبت اصول یہ ہے کہ جب تک ایک چیز کے ممنوع ہونے کا حکم نہ ہو اسے مباح سمجھا جائے۔
اس لیے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اگر کسی نے آپ کو مدعو کیا یا کھانے کو کوئی چیز بھیجی تو اسے استعمال کرنے میں تردّد نہ کریں۔ جب تک آپ تحقیق سے یہ نہ جان لیں کہ وہ حرام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا -ا)