علم النفس کو تعلیم و تربیت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ مائیںاور باپ گھروں میں اور استاد مدرسوں میں‘ اگر مستقبل کے انسان کو تعمیر کرنے کی ذمہ داری اپنے سرلیتے ہیں تو پھر انھیں یہ جاننا چاہیے کہ بچہ کیا ہے؟ اس کے ذہن میں کیا کیا تحریکیں نشوونما پاتی ہیں؟ وہ خارج سے کس کس طرح اثرپذیر ہوتا ہے؟ اس میں عمر کے ارتقا کے ساتھ کیا کیا دماغی تغیرات ہوتے چلے جاتے ہیں؟ متعلقین کے مختلف سلوک اور رویے‘ اس میں کون کون سی اچھی یا بری صفات کو اُبھارتے ہیں؟ وغیرہ۔ مگر افسوس ہے کہ اُردو زبان میں علم النفس پر بہت کم سرمایۂ کتب پایا جاتا ہے اورنفسیاتِ طفلی کے معاملے میں تو ہنوز ’’عالم طفلی‘‘ ہے۔ جناب شیرمحمداختر صاحب کی پیشِ نظر کتاب‘ اسی کمی کو ایک حد تک پورا کرتی ہے۔ اگرچہ انگریزی زبان میں اس موضوع پر جو کتابیں پائی جاتی ہیں‘ یہ کتاب ان کی برابری نہیں کرسکتی‘مگر اُردو کی حد تک یہ بساغنیمت ہے اور خصوصاً اس لحاظ سے تو بہت زیادہ قابلِ قدر ہے کہ سادگی ٔبیان کی وجہ سے‘ عام تعلیم یافتہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے قابلِ فہم ہے۔ لیکن دوسری طرف اس میں بنیادی فساد یہ ہے کہ احوالِ نفس کو یورپ کے تصور انسان اور نظریۂ اخلاق کی روشنی میں دیکھا گیا ہے‘ حالانکہ اس تصور اور اس نظریے کی آنکھ بھینگی ہے اور اپنے بھینگے پن کی وجہ سے نفسِ انسانی میں بہت سے ٹیڑھ اسے نظر آتے ہیں۔
بہرحال اس کتاب کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ بچے کو سال خوردہ سمجھ کر جو مطالبات اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں‘ اور جنھیں قبل از وقت پورا کرنے کے لیے جھاڑ جھڑک کے ساتھ لاٹھی استعمال کرنے تک نوبت پہنچتی ہے‘ ان مطالبات کو ملتوی کیا جائے۔ اس وقت تک‘ جب کہ بچہ انھیں پورا کرنے کے قابل ہوجائے۔ غالباً اس مطالبے سے بہت سے ذی فہم حضرات‘ بچے کو اپنا ہم عمر سمجھنے سے تائب ہوکر بچہ سمجھنے پر آمادہ ہوجائیں گے اور پھول کی اس ننھی منی نازک پتی پر‘ اُن چٹانوں کو لادنے کی مہم سر کرنے سے باز آجائیں گے جنھیں صرف ایک ہوش مند جوان آدمی ہی اٹھا سکتا ہے۔ [بچوں کی نفسیات پر مطبوعہ ایک کتاب پر تبصرے سے]۔ (’’مطبوعات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ جلد۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۹۰-۱۹۱)