عراق میں مارچ ۲۰۰۳ء سے امریکا کی ڈیڑھ لاکھ فوج موجود ہے۔ ۲۰مارچ ۲۰۰۵ء کو قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر‘ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے‘ ان کے مطابق دو سالوں میں۱۵۲۰ امریکی مارے گئے‘ ۱۱ ہزار ۲ سو شدید زخمی اور معذور ہوئے‘ جب کہ جنگی صورتِ حال‘ موت اور گوریلا حملوں کے خوف سے ایک لاکھ امریکی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ماہرین جنگ کے تجزیوں کے مطابق عراق میں اپنی مدت قیام مکمل کرکے واپس جانے والے فوجیوں میں دوبارہ کسی محاذ پر جاکر لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی (روزنامہ ڈان‘ ۲۰ مارچ ۲۰۰۵ئ)۔ واضح رہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ امریکا اپنی فوجیوں کی ہلاکتیں چھپاتا ہے۔
عراق کو آزادی دلانے کے لیے آنے والا امریکا‘ عراقیوں کے لیے صدام سے سوگنا بدتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت‘ انتخابات‘ دستورساز اسمبلی‘ دستور سازی اور عراقیوں کی حکومت کے پردے میں امریکا اپنی حکمت عملی کے تحت اپنے منصوبوں اور سازشوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن اسے اپنے اندازوں سے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اے ایف پی کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے جو تفصیل دی ہے‘ اس کے مطابق امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ صدام کے حامیوں سے خطرہ نہیں‘ اس لیے ان سے لڑنے کے بجاے امریکی اور اتحادی فوجوںکو مذہبی انتہاپسندوں ہی سے لڑنے کو ترجیحِ اول بنانا ہوگا۔ (ڈان‘ ۹مئی۲۰۰۵ئ)
امریکی حکومت اور اس کے عراق میں متعینہ جرنیل ‘جعفری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگجو گوریلا قوتوں سے سختی سے نمٹے۔ حکومت کی کامیابی کے لیے نظرآنا چاہیے کہ وہ واقعی کچھ کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کے ترجمان اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کافی مزاحمت کاروں کو ہلاک کرکے اور بڑی تعداد میں اسلحے کے ذخیروں پر قبضہ کرلیا ہے مگر امریکی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جنرل جارج کیسی کا کہنا ہے کہ ابومصعب الزقاوی کی کارروائیاں روز افزوں ہیں اور شام کی سرحد سے غیرملکی مداخلت کار عراق میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عبوری وزیراعظم ابراہیم جعفری کے ترجمان لیث قبہ نے اپنی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان قائم کرنے اور شورش پسندوں کو قابو کرنے کے لیے امریکی جرنیلوں سے مشورے مسلسل جاری رہتے ہیں۔ تاہم امریکی جرنیل اور عراق کی کٹھ پتلی حکومت کوئی مثبت نتیجہ آج تک حاصل نہیں کرسکے۔ (مضمون جوناتھن فائنر اور بریڈلے گراہم‘ روزنامہ ڈان‘ ۱۵ مئی ۲۰۰۵ئ)
دوسری طرف‘ نومنتخب اسمبلی کو اس سال کے اختتام تک دستور بنانا ہے ورنہ یہ تحلیل ہوجائے گی۔ دستور بن جانے کے بعد‘ نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ ملک میں ۴۰ سے ۴۵ فی صد تک سنی ہیں مگر ان کو کرد اور عرب قومیتوں میں تقسیم کر کے ۲۰ فی صد کردسنیوں کو اس تعداد سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ سنی جماعت سنی عرب حزب اسلامی کے ترجمان ناصرالعانی نے مطالبہ کیا ہے کہ دستور سازی کے لیے نام نہاد پارلیمنٹ کے بجاے تمام گروپوں کے مستند نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی جائے‘ ورنہ دستور تسلیم نہیں کیا جائے گا (ڈان‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)۔ پارلیمنٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل جو ۵۵ رکنی کمیٹی قائم کی ہے اس میں صرف دو سنی ارکان شامل ہیں۔ ابراہیم جعفری نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنیوں کے جذبات کا احترام کریں گے۔ سنی جماعت بااثر ہے اور اسے شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سابق عبوری وزیراعظم ایاد علاوی اور مشیربراے قومی سلامتی قاسم دائود نے بھی جو شیعہ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ دستوری کمیٹی کا بھی ممبر ہیں‘ سنیوں کے مذکورہ بالا مطالبے کی پُرزور تائید کی ہے۔ یہ کمیٹی اپنا مجوزہ مسودہ ۱۵ اگست تک تیار کرنے کی پابند ہے۔ یہ مسودہ مجلس کی منظوری سے ۱۵اکتوبر تک قومی استصواب راے (ریفرنڈم) کے لیے پیش کیا جائے گا۔
قبضے کے دو سال مکمل ہونے پر ‘ یہ جائزے لیے جارہے ہیں کہ کس نے کیا حاصل کیا۔ متحدہ عرب امارات کے معروف عربی اخبار الخلیج میں ایک عرب تجزیہ نگار عبدالالہ بلقزیز نے ۲۰مارچ کو اپنے مضمون ’’عراق جنگ کے دو سال‘‘ میں لکھا ہے کہ تیل کے تاجروں‘ بش‘ ڈک چینی اور ان کے رفقاے کار نے اپنے اہداف میں سے تین حاصل کر لیے ہیں۔ پہلا ہدف تیل کی دولت پر قبضہ تھا جو پورا ہوچکا اور وہ سارے اخراجات مع منافع یہاں سے حاصل کررہے ہیں۔ دوسرا ہدف اسرائیل کا تحفظ تھا‘ اس کے حصول کے لیے بھی وہ بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘ اور تیسرا ہدف عراق کی تقسیم تھی جو سنی‘ شیعہ اور کرد میں کردی گئی ہے۔ امریکی عوام کو اس سے کیا ملتا ہے؟ اس کا جواب بہت جلد دنیا کے سامنے آجائے گا کیونکہ تیل کی دولت تو یہ دہشت گرد امریکی حکمران خود ہی ہضم کررہے ہیں۔
وقتی طور پر تیل کی دولت پر قبضے کے باوجود ‘عراق میں امریکا کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
۱- امریکا اور بحیثیت مجموعی استعمار کی تاریخ بتاتی ہے کہ حریت پسند قوموں پر استعماری تسلط کبھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ویت نام‘ کمبوڈیا‘ کوریا‘ جنوبی افریقہ‘ الجزائر اور بہت سی دیگر مثالیں بالکل واضح ہیں۔
۲- عراق میں مزاحمت بے پناہ قربانیوں کے بعد بڑھ رہی ہے‘ کم ہونے کے دُور دُور تک آثار نظر نہیں آتے۔
۳- قابض فوجوں کے پاس قبضے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے‘ اس لیے ان کے حوصلے سارے مادی وسائل کے باوجود پست ہوچکے ہیں۔
۴- قابض فوجوں نے قیدیوں پر ابوغریب اور دیگر جیلوں میں جو ننگ ِانسانیت مظالم ڈھائے ہیں‘ عالمی راے عامہ اس پر شدید غم و غصے اور امریکا سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں خود امریکی راے عامہ بھی شامل ہے۔ امریکا کے دو ماہرین سروے ڈیموکریٹ پیٹرہارٹ اور ری پبلکن بِل میک انٹرف نے بتایا ہے کہ امریکی ووٹر عراق پر امریکی پالیسی سے نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)
اس ساری صورت حال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عراقی قوم اس آزمایش سے کندن بن کر نکلے گی۔ عراق سے مقامی آمریت کا خاتمہ تو ہوگیا ہے‘ اب بیرونی قبضہ بھی ختم ہوگا۔ اگر عراق حقیقی جمہوریت کے راستے پر چلا تو اس سے اسلامی قوتوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔