جون۲۰۰۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون۲۰۰۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

سید مودودی سرحد میں، پروفیسر نورورجان۔ ناشر:کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

پروفیسر نور وَرْجان ‘ قبل ازیں متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں‘ مثلاً مولانا معین الدین خٹک: احوال و آثار (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) اور اسلام اور عصرِحاضرکا چیلنج از مولانا معین الدین خٹک (لاہور‘ ۲۰۰۱ئ) وغیرہ۔ سید مودودی سرحد میں پروفیسر موصوف کی تازہ تحقیقی کتاب ہے جس میں انھوں نے صوبہ سرحد میں جماعت اسلامی کو منظم کرنے اور وہاں دعوتِ دین پہنچانے کے ضمن میں سید مودودی کے کارنامے کی تفصیل بیان کی ہے۔

انھوں نے مختصر مدت میں اخبارات اور جماعت کے جملہ رسائل کا ریکارڈ دیکھا‘ پڑھا اور یہ کتاب مرتب کر دی۔ میری نظر سے ایسی کوئی کاوش ابھی تک نہیں گزری جس میں سید مودودیؒ کے دوروں کو اس طرح مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ میرا اور ارباب عون اللہ مرحوم کا یہ خیال تھاکہ سید مرحوم صوبہ سرحد میں سات مرتبہ تشریف لائے مگر پروفیسر موصوف نے سیدکے ۱۲دورے ثابت کیے ہیں۔

سید مودودی سرحد میں پروفیسر نورورجان کی بہترین کاوش ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے‘ میں زمانۂ ماضی میں کھو گیا۔ دوروں کا چشم دید گواہ ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ تحقیق قابلِ داد ہے اور پیرایۂ بیان عمدہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے‘ قاری سید مودودیؒ کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا ہے۔ دوروں سے متعلق بعض نادر دستاویزات بھی شاملِ کتاب ہیں۔

اسلامیہ کالج پشاور میں مولانا مودودیؒ کی تقریر ’اسلام اور جاہلیت‘ (فروری‘ ۱۹۴۱ئ) سے قبل ایک واقعے کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں۔ ہوا یہ تھا کہ سید مرحوم و مغفور کے دورے سے قبل انگریز کی مرکزی حکومت کی طرف سے مقامی انتظامیہ کو ہدایت موصول ہوئی تھی کہ مولانا مودودی پشاور میں تقریر کے لیے آنے والا ہے۔ یہ خطرناک آدمی ہے‘ اس کی نگرانی کی جائے۔ متعلقہ تھانے کے منشی تاج محمد آف اکبرپورہ نے یہ انگریزی حکم نامہ پڑھ کر اس پر عمل درآمد کیا۔ مگر بعد میں جب تاج محمد نے مولانا مودودیؒ کی کتاب تنقیحات پڑھی تو اس قدر متاثر ہوئے کہ مولانا مودودیؒ کو خط لکھ کر جماعت اسلامی کا رکن بننے کی درخواست کی۔جواب ملا: پولیس اور فوج کے ملازمین کو جماعت اسلامی کا رکن نہیں بنایا جاتا۔ تاج محمد مرحوم نے پولیس کی ملازمت سے استعفا دیا اور جماعت کی رکنیت اختیار کرلی۔

مؤلف نے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع تک‘ جگہ جگہ سے تحقیق کرکے‘ استفسارات کرکے‘ اور انٹرویو لے کر ۱۹۱ صفحات کی مختصرکتاب میں بیش قیمت اور مفید معلومات یک جا کر دی ہیں یعنی دورے کب کب کیے؟ تقریریں اور ان کے سامعین میں سرکردہ افراد کون تھے اور ان کے تاثرات کیا تھے۔ یہ معلومات بعد میں مرتب ہونے والی مفصل کتابوں کے لیے مفید اور معاون ثابت ہوں گی۔

پروفیسر موصوف‘ سید مودودیؒ کے بیرونی سفروں کی روداد بھی مرتب کردیں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔ کتاب دیدہ زیب ہے اور قیمت مناسب ہے۔ (سید فضل معبود)


معلمِ اخلاق، حافظ ثنا اللہ ضیائ۔ مکتبہ اسلامیہ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت (مجلد): ۱۱۵ روپے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ایک ایسی نہ ختم ہونے والی تصویر ہے جس کے کسی رخ کا کتنا ہی احاطہ کیوں نہ کیا جائے‘ تشنگی کا احساس باقی رہتاہے۔ زیرتبصرہ کتاب کو سیرت پر اوّل انعام ملاہے۔ پیش کش کے لحاظ سے اس خوب صورت کتاب میں ۲ سو سے زیادہ عنوانات کے تحت آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ کوئی اسے ہاتھ میں لے لے تو سیرتؐ کی کشش اور خوب صورت پیش کش‘ کتاب کو خود پڑھواتی ہے اور قاری کے سامنے اوّل تا آخر آپؐ کی زندگی کے تمام گوشوں کاکوئی نہ کوئی عکس سامنے آتا ہے۔ اگر ہم کچھ موضوعات کا ذکر کر دیں تو اس سے کتاب کی وسعت متاثر ہوگی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر واقعے کے ساتھ حدیث کی کتاب کا حوالہ اسی صفحے پر درج کیا گیا ہے جس نے اس کتاب کی قدروقیمت میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ (مسلم سجاد)


یہ تیرے پُراسرار بندے، طالب الہاشمی۔ طٰہٰ پبلی کیشنز‘ ۲۲‘ اے‘ ملک جلال الدین وقف بلڈنگ‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحا ت: ۹۶۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

امام عبداللہ الذہبی کا قول ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف و اکابر کے صحیح اور سچے حالات سے بے خبر ہے اور اس کو علم نہیں کہ اس کے راہبروں اور بزرگوں نے دین و ملّت کی کیا خدمت انجام دی ہے‘ ان کے اعمال کیسے تھے‘ وہ کیا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے‘ وہ قوم تاریکی میں بھٹک رہی ہے‘ اور یہ تاریکی اُس کو گمراہی میں بھی مبتلا کرسکتی ہے۔

جناب طالب الہاشمی ایک خوش بخت انسان ہیں کہ ان کی تمام تر تحریری اور تصنیفی صلاحیتیں بزرگانِ سلف اور اکابرِ دین و ملّت کے قابلِ تقلید نمونوں کو‘ بذریعہ تحریر‘ افرادِ اُمت تک پہنچانے   میں صرف ہو رہی ہیں۔ سیرت النبیؐ، تاریخ اسلام اور اکابرِ اُمت ان کے مرغوب موضوعات ہیں۔ یہ تیرے پُراسرار بندے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سے پہلے یہ کتاب دس گیارہ مرتبہ چھپ چکی ہے۔ زیرنظر اڈیشن میں بہت سے اضافے کیے گئے ہیں۔ اب یہ دل پذیر تذکرہ     ۱۲۰ مشاہیرِ اُمت کے ذکر و اذکار پر مشتمل ہے جن میں ۸۰ صحابہ کرام اور ۴۰ دیگر اکابر ہیں۔

جناب طالب الہاشمی مشاہیر کی زندگیوں کے قابلِ رشک اور لائقِ تقلید پہلوئوں کی تصویرکشی سہل زبان اور سادہ اسلوب میں کرتے ہیں۔ تاریخِ اسلام کی یہ قدآور شخصیتیں اسلامی طرزِحیات کا عمدہ نمونہ ہیں۔ احوال وواقعات کے بیان میں مصنف نے صحتِ زبان کے ساتھ ساتھ لوازمے کے استناد کا بھی اہتمام کیا ہے۔

گو یہ کتاب طویل ہے‘ لیکن اس کے اندر ذکرِ اخیار‘ ایسا دل چسپ ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے ‘اُکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ بعض کرداروں سے ایک عجیب قربت اور دل بستگی کا احساس ہوتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ اُمت کی تعمیر و ترقی اور سربلندی میں کس کا اور کتنا خونِ جگر شامل ہے۔ اس کتاب میں بھی فاضل مصنف نے حسبِ سابق صحتِ املا و اعراب اور رموزِ اوقاف کا حتی الوسع پورا اہتمام کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مشارق‘ اسدملتانی‘ مرتب: جعفر بلوچ۔ دارالکتاب‘ کتاب مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۳۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

اسدملتانی (۱۹۰۲ئ-۱۹۵۹ئ) ایک نامور شاعر‘ادیب اور ہمدردِ ملک و ملّت شخص تھے۔ علامہ اقبال نے ’آیندہ پنجاب کی ادبی روایات کو برقرار رکھے جانے کی اُمیدیں‘ جن دو نوجوانوں سے وابستہ کی تھیں‘ اسدملتانی ان میں سے ایک تھے (دوسرے: محمد دین تاثیر تھے)۔ مولانا ماہرالقادری کے نزدیک: ’’وہ ایک مصلح اور صاحبِ پیغام شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں سادگی و سلاست‘ بندش کی چُستی اور صفائی کے ساتھ گہرا خلوص اور فکر کی بلندی پائی جاتی ہے۔ علامہ اقبال سے وہ شدید متاثر تھے‘‘۔

پروفیسر جعفر بلوچ نے مرحوم کا حمدیہ و نعتیہ کلام جمع و مرتب کیا ہے۔ پروفیسر موصوف‘ قبل ازیں اقبالیاتِ اسد ملتانی کے عنوان سے‘ اقبال سے اسدمرحوم کے ربط و ضبط کی تفصیل‘ نیز اسد کی اقبالیاتِ نظم و نثر جمع کر کے شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر مجموعے کے ابتدا میں‘ اسد کی شاعری پر سیرحاصل تبصرہ ہے‘ پھر اس بارے میں متعدد اکابر (حامد علی خاں‘ ضمیر جعفری‘ محمد عبدالرشید فاضل اور منشی عبدالرحمن خاں وغیرہ) کی آرا دی گئی ہیں۔

اسدملتانی کے ہاں فکرونظر اور اظہار و اسلوب میں ایک پختگی‘ ٹھیرائو اور توازن ملتاہے۔ یہ مجموعہ ایک سچے اور کھرے مسلمان شاعر کے جذبات کا آئینہ ہے۔ حمدونعت کے اس مجموعے میں چھوٹے چھوٹے قطعات کی صورت میں‘ سفرِحج کے مختلف مراحل کے منظوم تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتابت و طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔ (ر- ہ)


یہودیت‘ یوسف ظفر۔ ملنے کا پتا: ۳۵- رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۱۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

دنیا بھر میں یہودیت کے پیروکار تقریباً اڑھائی کروڑ ہوں گے لیکن جس قوم نے ماضی میں  حددرجہ ہزیمتیں اٹھائیں مگر دورِ جدید میں مادی اور سیاسی کامیابیاں سب سے زیادہ حاصل کیں‘ وہ یہود ہی ہیں۔

یوسف ظفر مرحوم نے یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کی تفصیلی تاریخ بیان کرنے کے بعد‘ موجودہ دور میں مسلم یہودی مخاصمت کو تاریخ کے پس منظر میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے پیش لفظ میں بجا طور پر لکھا ہے کہ اُردو زبان میں یہودیت کے موضوع پر اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد اور وقیع کاوش ہے۔

مصنف نے بتایا ہے کہ بنی اسرائیل‘اوائل ہی میں اخلاقی انحطاط کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ ذلت و پستی کے اس درجے پر راضی ہوچکے تھے کہ اپنے بچوں کا قتلِ عام بھی انھیں فراعنۂ مصر کے خلاف بغاوت پر نہ اُکسا سکا اور وہ اپنی بچیوں کی بے حُرمتی کو بھی گوارا کر گئے (ص ۳۵)۔ پھر انبیا کے انکار‘ اور پیرویِ نفس کے نتیجے میں یہودیوں کو مختلف ادوار میں طرح طرح کی ذلتوں اور ہزیمتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ آج بھی یہودی ربی جلاوطنی اور بے آبروئی کے اُس دور کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں اور وہ سامعین کو بھی رُلاتے ہیں‘ تاکہ یہ واقعات اُنھیں اسرائیل کی حفاظت پر چوکنّا رکھیں۔ پھر یوسف ظفر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کے طرزِعمل اور اسلامی ریاست کے خلاف ان کی سازشوں کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ دورِ جدید میں یہودیوں نے اقتصادیات‘ بنک کاری‘ سفارت کاری‘ اور مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کر کے اپنی دھاک بٹھالی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ یہودی ریاست کے قیام کے لیے تھیوڈور ہرزل نے سخت محنت و کاوش کی۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے کہ بہت سے معروف لوگ‘ مثلاً آئن سٹائن‘  بل گیٹس‘ سگمنڈ فرائیڈ اور کارل مارکس یہودی النسل ہیں۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کی بنیاد پر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل قائم ہوا تو صہیونیوں نے فلسطینی مسلمانوں سے اپنی چار ہزار سالہ بے بسی اور ذلت کا انتقام لینے کی ٹھان لی (حالانکہ مسلمان ان کی ذلت کے ذمہ دار نہ تھے) اور آج فلسطین میں چھے ماہ کے بچوں سے لے کر اسّی سالہ بوڑھے تک اُن کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

یوسف ظفر نے نہایت قیمتی اور چشم کشا معلومات پر مبنی کتاب لکھ کر مسلم اہلِ دانش کو دعوتِ غوروفکر دی ہے۔ ہمیں ایسی جامع‘وقیع اور مبنی برحقائق مزید کتابوں کی ضرورت ہے تاکہ بقول محمد افضل چیمہ: ’’ہرپاکستانی کو یہودیوں کے خبثِ باطن‘ ان کی نفسیات اور شرم ناک تاریخی کردار سے روشناس کرایا جائے‘‘۔ (محمد ایوب منیر)


شرح اسلامی قانونِ شفعہ، سلیم محمود چاہل۔ پتا: ضیاء الحق روڈ‘ سول لائن‘گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۳۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

قانونِ شفعہ بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات‘ بالخصوص قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ۱۹۱۳ء کے ایکٹ کی شکل میں نافذ العمل رہا۔ تاہم اس دوران میں ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۲ء کے مارشل لا ریگولیشن ۲۵ میں ۱۹۱۳ء کے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے شفعہ کے حق داروں کی فہرست(دفعہ ۱۵) میں سب سے بنیادی استحقاق مزارع کو دے دیا۔ یہ چیز سوشلسٹ فکر سے قریب تر اور اسلامی تعلیمات سے بعید تر تھی۔ سلیم محمود چاہل نے اس قانون کے مضمرات پر سیرحاصل بحث کی ہے‘ اور عدل کے ایوانوں میں اٹھنے والے مباحث کو پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس ضمن میں بلاشبہہ شریعت پنج کے جج صاحبان یا فقہا کی آرا سے تشریحی امور پر اختلاف کی گنجایش کو راست‘ متوازن اور عدل پر مبنی اسلوب میں بیان بھی کیا جا سکتا ہے۔

مصنف نے اس موضوع کے حوالے سے حدیث اور سنت کی تغلیط‘ فقہ کی تردید اور دینی روایت کی تحقیر کو اپنا ہدف بنانے کی کوشش کی ہے۔ تشریح و تعبیر میں اختلاف اور بحث کی گنجایش سے ہرگز انکار نہیں لیکن ایک الجھے ہوئے اسلوب میں چند درچند مباحث‘ واقعات اور باتوں کو انھوں نے کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اصل موضوع خبط ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ قانون شفعہ کی بحث کا سہارا لے کر ذخیرۂ حدیث کو یوں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا کہ ادب اور انصاف ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ (سلیم منصور خالد)


اُمّتِ مسلمہ کے موجودہ مسائل اور ان کا حل‘ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں،  ڈاکٹر صہیب حسن۔ ناشر: جمعیت اہل حدیث‘ ۸۰ ہائی روڈ‘ لیوٹن‘ لندن‘ای ۱۵‘ ۲ بی پی‘ صفحات:۳۶۔

یہ کتابچہ ایک لیکچر پر مبنی ہے‘ جس میں قرآن‘ حدیث اور سنّتِ رسولؐ کی روشنی میں‘ عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کا اصولی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیش تر اسباب و علل اور نتائج تو ظاہر ہیں۔ مجرد اصول بیان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا‘ اس کے لیے لامحالہ‘ منصوبۂ کار اور دائرۂ کار بھی پیش کیا جائے تو کسی بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔

کتابچے میں جہاں اُمتِ مسلمہ کے سیاسی و اجتماعی مسائل پر اشارے کیے گئے ہیں‘ وہاں ابہام یا تضاد کا تاثر اُبھرتا ہے ‘ اور اُمت کے اجتماعی معاملات کے لیے قاری رہنمائی کا منتظر رہ جاتا ہے۔ دو تین جملے بلاتبصرہ پیش ہیں: ’’خلافت کا نفاذ اسلام کے مجموعی نظام کا ایک حصہ تھا‘ نہ کہ غایت۔ لیکن عصرِحاضر کی جن جن [اسلامی]تحریکوں نے اسے غایت کے طور پر اپنایا‘ انھیں کہیں نہ کہیں شرکیات [شرک] سے صرفِ نظر کرنے یا اس کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر مجبور ہونا پڑا‘‘ (ص۷)۔ ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک‘ خالص توحیدِ الٰہی کا بول بالا کرنے اور شرکات کی بیخ کنی کے لیے شروع [ہوئی] تھی‘ دو سو سال گزرنے کے باوجود‘ اس کے بابرکت اثرات سعودی عرب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘ جن میں شریعت کا نفاذ سرِفہرست ہے‘‘ (ص ۸)۔ ’’مجلسِ عمل ایک انتہائی خوش آیند کوشش ہے‘ لیکن یہ اتحاد بغضِ معاویہ کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے‘‘ (ص۲۴)۔ یہ اور ایسی ہی دیگر متضاد آرا‘ غوروفکر‘ تبصرے اور تجزیے کا تقاضا کرتی ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طاغوت کا مقابلہ محض چند اصولی باتوں کی تذکیر سے ہوگا؟ یا مثبت طور پر علمی‘ اجتماعی اور سیاسی سطح پر اداروں کی تشکیل سے یہ جواب دیا جائے گا۔ (س- م- خ)


تعارف کتب

  • خطبۂ حجۃ الوداع ، ڈاکٹر نثار احمد۔ ناشر: کتاب سرائے‘ الحمد مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۵۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [خطبۂ مذکورہ کے متن پر یہ ایک قابلِ ستایش تحقیق ہے۔ مکمل عربی متن‘ اُردو ترجمہ‘ تاریخی پس منظر اور توضیح و تشریح کے ساتھ خطبے کے اہم نکات اور مباحث پر تحقیقی و توضیحی گفتگو۔ بقول جناب محمود احمد برکاتی: ’’ڈاکٹر نثار احمد نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے اور میری نظر سے آج تک اس خطبے کا مکمل اور مستند متن نہیں گزرا‘‘۔ اُردو اور عربی میں سیرت اور متعلقاتِ سیرت کی اہم کتابوںکا جائزہ لیتے ہوئے‘ اس خطبے کے سلسلے میں ان کتابوں کی ایک ایک کمی اور کوتاہی کی نشان دہی بھی کی ہے۔]
  • قرآن اور کائنات، حاجی غلام حسن۔ ناشر: صادق پبلی کیشنز‘ اولمپک پلازا‘ الکریم مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [مختلف عنوانات‘ مثلاً: اللہ تعالیٰ کی نشانیاں‘کائنات ایک مرکز کے گرد متحرک ہے‘ فرشتے‘ روح‘ اللہ آسمانوں اور زمین کانور ہے اور عرش وغیرہ کے تحت آیاتِ قرآنی مع اُردو اور انگریزی تراجم یک جا کی گئی ہیں۔ کچھ توضیحات بھی شامل ہیں۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کے بقول ’’کائنات اور قیامت پر مبنی آیات کی تشریح موجودہ سائنس کی روشنی میں کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے ایسی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا سائنس دان حضرات کا کام ہے‘‘۔ اشاریہ بھی شامل ہے۔]
  • کفار کے تہواروں میں شرکت، مولانا عبدالصبور ۔ ناشر: ادارہ التعلیمات الاسلامیہ‘ نوشہرہ خورد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات:۳۵۔ قیمت: درج نہیں۔[مؤلف کہتے ہیں کہ اہلِ اسلام پر مختلف النّوع فتنوں‘ گمراہیوں اور بدعتوں کا زوردار حملہ ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہود و نصاریٰ اور ہندوئوں کے تہواروں اور ان کی عیدوں (بسنت‘ ویلنٹائن ڈے‘ اپریل فول‘ ہیپی نیوایئر وغیرہ) منانا یا ان میں شرکت کرنا بالکل ناجائز ہے۔ قرآن و حدیث اور اقوال صحابہؓ و تابعین وغیرہ سے استدلال کیا گیا ہے۔]