پروفیسر خورشید احمد


بیسویں صدی نے تاریخ کے اوراق پر تباہی اور شکست و ریخت کے بڑے ہولناک نقوش ثبت کیے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ‘ فکری اور تعمیری حوالے سے بھی‘ اس کے دامن میں چند مثبت کارنامے اور بعض افادی پہلو نظرآتے ہیں۔

اُمت مسلمہ ایک طرف بدترین استحصال کا شکار ہوئی تو دوسری جانب اسے استعمار کی غلامی سے نجات بھی ملی اور تیسری جانب اس کے اندر ایسی تحریکیں برپا ہوئیں‘ جنھوں نے اُمت کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان تحریکوں کے بعض داعیوں اور رہنمائوں نے مسلمانوں کو بحیثیت اُمت سربلندی اورعظمت کی طرف لے جانے میںاہم کردارادا کیا۔ ایسی شخصیات میں ایک نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ہے۔

زیرنظر مضمون میں مولانا مودودیؒ کی زندگی کے فکری پہلوئوں پر جو معروضات پیش کی جارہی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کے فکری وعملی کارناموں کی روشنی میں ہم بھی ایمان‘ دانش اور عمل کی راہوں کو کشادہ کرتے ہوئے‘ اپنے زمانے کے درپیش چیلنجوں اوربحرانوں کا مقابلہ کریں۔ دورِ جدید کی تاریخ میں حق و باطل کی کش مکش کا جب بھی ذکر ہوگا‘ تو اس میں اس دور کی زمانہ ساز شخصیات اور تحریکوں کا بھی لازمی طور پر تذکرہ ہوگا۔ اس تذکرے میں مولانا مودودیؒ کی کاوشوں کو ایک مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے     ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خداے بخشندہ

  • پہلا حصہ ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۲۸ء تک‘مولانا مودودیؒ کے فکر کا تشکیلی دور ہے۔ اسے ان کی صحافتی زندگی کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ زمانہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں ان کے مطالعے اور تحقیق کا زمانہ ہے۔ ایک لحاظ سے اس زمانے کو ان کے دورِ طالب علمی کا تسلسل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مختصر خودنوشت شذرات (notes) کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان کا مطالعہ‘ زیادہ تر قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تاریخ کے علاوہ دورِ جدید کے علمی اور ادبی لٹریچر پرمشتمل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم اُمت کو تہذیبی‘ سیاسی اور معاشی سطح پر ایک کش مکش کا سامنا تھا‘ مولانا کو اس کش مکش کا صحیح ادراک اسی دور (۱۹۲۰ئ-۱۹۲۸ئ) میں ہوا‘ جس کا ثبوت ان کے وہ مضامین ہیں جو اس زمانے میں انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے۔ اس علمی اور صحافتی سرمایے کو خلیل احمد حامدی مرحوم و مغفور نے چار جلدوں (آفتاب تازہ‘ بانگِ سحر‘ جلوۂ نور اور صداے رستاخیز)میں جمع کر کے محفوظ کر دیا ہے۔
  • ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء تک کے زمانے کو میں دوسرے دور کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ الجہاد فی الاسلام کی تسوید کا کام ۲۶-۱۹۲۵ء سے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۹۲۷ء کے آخر تک اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودیؒ صحافت کو چھوڑکر محقق‘ مفکر‘ مصنف اور مصلح کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ اس دور میں انھوں نے تاریخ اور ثقافت سے لے کر  حدیث اور فقہ کے مباحث پر بڑی عرق ریزی سے کلام کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے اسلام کے انقلابی تصور کو اس کی تمام جہتوں سمیت دلیل کی قوت سے واضح کیا‘ اور اس کے ساتھ ہی عصرجدید کے تصورات پر بھرپور گرفت بھی کی۔ اس دور میں مولانا نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام کی شرح و بسط کے ساتھ ترجمانی کی‘ اور یہ ترجمانی اس خوبی اور عمدگی اور اس شان سے کی کہ مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالماجد دریابادیؒ جیسے بزرگوں نے ان کو’ ترجمانِ اسلام‘ قرار دیا۔ یوں ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک یہ ساری علمی اور قلمی جدوجہد وہ تن تنہا کرتے رہے۔

یہی زمانہ تھا جب ان کے ہم خیال‘ جاںنثار دوستوں‘ حلیفوں اور ہم سفروں پر مشتمل  ان کے حلقۂ احباب میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ اسلامیانِ ہند (خصوصاً مسلم اُمہ اور بالعموم پوری نوعِ انسانی) کے مستقبل کے بارے میں جو تصور اور وژن (vision) رکھتے تھے اور جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ وہ تن تنہا بروے کار نہیں لائی جاسکتی۔ اس مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا تھا کہ ایک منظم اور مربوط اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ سید مودودیؒ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ بلاشبہہ دورِ جدید میں اسلام کے احیا کے لیے فکری کام بھی ضروری ہے‘ لیکن اس فکر کو بروے کار لانے کے لیے کسی عملی جدوجہد اور اجتماعی تحریک کے بغیر‘یہ عظیم کام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ تجدید و احیاے دین اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش جیسی تصانیف ان کے اس ذہنی سفر کی عکاس ہیں‘ جو بالآخر ایک صالح جماعت کی ضرورت پر منتج ہوا۔

  • اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اِس منظم اجتماعی جدوجہد کا دور شروع ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے ۱۹۳۸ء میں علامہ محمد اقبال مرحوم کی دعوت پر حیدرآباد دکن سے دارالاسلام (پنجاب) منتقلی‘ اور وہاں ادارہ دارالاسلام کا قیام‘ دراصل اس بڑے کام کا ابتدائی مرحلہ (spade work) تھا‘ جب کہ اس کی دہلیز(threshold)اگست ۱۹۴۱ء ہے۔ اس تین سالہ عرصے (۱۹۳۸ئ-۱۹۴۱ئ) میں وہ اُمت کی تعمیر اور اس کے اندر مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے ایک متبادل شعور (alternative vision)کی پرورش کرتے رہے اور پھراس کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ایک ہمہ جہت اجتماعی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تیسرا دور ۱۹۴۱ء سے وفات  (۱۹۷۹ئ) تک کا ہے‘ جب وہ رفیق اعلیٰ کے بلاوے پر ہم سے رخصت ہوئے۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ہنگامہ خیز اور انقلابی دور تھا۔ جس میں سید مودودیؒ کا وژن بھی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے تھا۔ اس وژن کے مطابق زندگی کے نقشے کو ازسرنو تعمیر کرنے کی اجتماعی جدوجہد کے سارے خدوخال بھی صفحۂ قرطاس ہی پر نہیں‘بلکہ رنگ و بو کی اس دنیا میں اپنی تمام تر رعنائیوں اور تفصیلات کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے مجلے (ترجمان القرآن)سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد نہ صرف برعظیم ہی کے طول و عرض میں تہلکہ مچانے کا باعث بنی‘ بلکہ ایک عالم گیر انقلابی تحریک کا روپ دھار گئی‘ اور اس چومکھی لڑائی میں سید مودودیؒ کا عالم یہ تھا کہ    ؎

ایک دل ہے اور ہنگام حوادث اے جگر

ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں

اس طرح میں ان کی زندگی کو ان تین حصوں میں تقسیم کر کے غور کرتا ہوں۔

مولانا مودودیؒ بحیثیت صحافی

اولیں دورِ صحافت میں بالکل نوعمری ہی میں مولانا مودودیؒ نے بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور بحیثیت ایک وسیع النظر صحافی کے اپنی منفرد اور غیرمعمولی صلاحیتِ کار کا لوہا منوایا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انھوں نے تاج‘ مسلم اور جمعیت العلما کے پرچے الجمعیۃ میں لکھا‘ بلکہ اس کے ساتھ نگار ‘مدینہ‘ بجنور اور لاہور کے ہمایوں میں بھی مضامین لکھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۲۱‘۲۲ برس کے نوجوان کو مسلمانوں کی اس وقت کی ایک اہم تنظیم جمعیت العلما کے سرکاری ترجمان کی ادارت مکمل ذمہ داری کے ساتھ سونپی گئی جو مولانا مودودیؒ کی غیرمعمولی ذہانت اور ان کے کردار کی پختگی کے ساتھ جمعیت علماے ہند کے قائدین کی مردم شناسی کا مظہر بھی تھی۔ خصوصاً مفتی کفایتؒ اللہ اور مولانا احمدسعیدؒ اس نوجوان سے بے حد متاثر تھے۔ دوسری طرف مولانا محمدعلی جوہرؒ بھی چاہتے تھے کہ مولانا مودودی ؒان کے معاون کے طور پر‘ ان کے تاریخ ساز اخبار ہمدرد کے عملۂ ادارت میں شامل ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور صحافی کے‘ انھوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا نے ترجمے بھی کیے ہیں اور متعدد مضامین بھی لکھے ‘لیکن ان کا پہلا کارنامہ صحافت ہے۔

مولانا مودودی کے اس دورِ صحافت میں ہمیں پانچ چیزیں بڑی نمایاں نظرآتی ہیں:

  • پہلی بات یہ ہے کہ نوجوانی کے باوجود‘ ان کی تحریر میں بڑی پختگی ہے۔ الجمعیۃ کے زمانے کے مضامین اور بعد کی تحریروں کو دیکھیں تو زبان‘ اسلوب‘ اظہارخیال‘ حسن بیان اور رعنائی خیال میں بہت کم فرق نظر آئے گا۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ تحریر میں اتنی کم عمری میں ایسی پختگی‘ بڑی منفرد اور امتیازی خصوصیت ہے۔ اس سے قبل ہمیں یہ خوبی مولانا ابوالکلام آزادؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒمیں نظر آتی ہے اور بعدازاں یہ چیز ہمیں سید مودودیؒ میں بحیثیت ایک نوجوان صحافی کے نظرآتی ہے۔ البتہ آزاد اور شبلی کے برعکس مولانا مودودی کے ہاں ایک وسعت نظر‘ فکر میں ٹھیرائو اور زیادہ کھلے پن کا احساس ہوتا ہے۔
  • دوسری حیرت انگیز بات ان کے ہاں مطالعے کی ہمہ گیری اور حکمت و دانش کے متنوع ذخیروں سے اخذ و اکتساب کے لیے حیرت انگیز محنت وکاوش نظرآتی ہے۔ دنیا کے حالات سے باخبری‘اور نہ صرف گوناگوں موضوعات پر اظہار خیال‘ بلکہ راے کی پختگی کے نمونے اس زمانے کی تحریروں میں فراواں دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ خود   اپنی فکر کو سنوار اور نکھار رہے تھے۔ ان کا وژن اسلام کا سرچشمۂ قوت کے مضامین    کے ذریعے ہمارے سامنے آتاہے۔ یہ لہجہ اور وسعت بیان ان کی تحریروں کے چار مجموعوں (آفتاب تازہ‘ بانگ سحر‘ جلوہ نور اور صداے رستاخیز) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان مضامین میں وہ پوری شرح وبسط سے بیان کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین اور انسانیت کے لیے ایک آفاقی پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی تحریک بھی ہے۔ ان مضامین میں مولانا کے ہاں زبان و بیان کی صحت اور اثرانگیزی کے ساتھ ساتھ فکر کی پختگی اور وسعت تہہ در تہہ نظرآتی ہے۔ ایک سہ روزہ اخبار میں خبروں کے انتخاب اور ترجمے کے ساتھ اداریہ نویسی اور کالم نویسی بذات خود بڑاجاںگسل کام تھا‘ جب کہ معاونت کے لیے اس کا عملہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس متفرق نویسی کے ساتھ وہ اعلیٰ درجے کے علمی وفکری مضامین بھی لکھتے رہے۔ یہ چیز تحریر وتصنیف پر ان کی ماہرانہ دسترس اور ان کی غیرمعمولی دماغی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔

  • تیسری چیز جس نے مجھے سحر زدہ کیا‘ وہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت میں دماغ اور دل کا نہایت متوازن تعلق ہے۔ دماغ علامت ہے تفکر اور تدبر کی اور دل نمایندہ ہے جذبات‘ احساسات‘ توقعات اور خواہشات کا۔ ان میں جب بھی تصادم اور تضاد ہو تو انسان بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا غلبہ ہو اور دوسرا معدوم ‘تو شخصیت کا عدم توازن رونما ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان کے درمیان ایک صحیح توازن ہو تو متوازن شخصیت اُبھرتی اور معتدل فکر رونما ہوتی ہے۔ میں نے اس زمانے میں مولاناؒ کی تحریروں کا جو تجزیہ کیا ہے‘ اس میں کہیں کہیں فکر پر جذبے کا غلبہ نظر توآتا ہے‘ جو ان کی عمر اور اس عہد (age) کے مسائل و مصائب اور حالات کا فطری تقاضا تھا‘ اس کے باوجود مجھے کہیں بھی عقل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آیا۔

مثال کے طور پر ہندستان کے صنعتی زوال اور اس کے اسباب ۱۶۰۰ئ-۱۹۲۴ء کے موضوع پر قومی نقطۂ نظر سے‘ مگر معتدل و متوازن انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ سیدمودودیؒ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’کسی ملک کی اقتصادی و تمدنی حالت پر غور کرتے وقت‘ سب سے زیادہ توجہ کے قابل یہ امر ہوتا ہے کہ اس کا نظامِ حکومت کیسا ہے؟ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ قوموں کے بننے بگڑنے میں بڑا حصہ حکومت کا ہوا کرتا ہے۔ کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کا نظامِ حکومت درست نہ ہو‘ اور اسی طرح کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی‘تاوقتیکہ اس کا نظام حکومت خراب نہ ہو‘‘(ماہ نامہ نگار‘ اکتوبر ۱۹۲۴ئ)۔ اس مضمون میں انھوں نے ہم وطنوں کی اقتصادی بدحالی کا مفصل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر محض ۲۱ برس تھی مگر اس مضمون میں انھوں نے ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصادیات کی سی پختہ فکر کے ساتھ خرابی کی اصل جڑ کی نشان دہی کی ہے۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں انھوں نے زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ مشہور جملہ لکھا:’’حکومت کی خرابی‘ تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیدمودودیؒ سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے۔

اسی زمانے کی شاہکار تصنیف الجہاد فی الاسلام ان کی علمیت‘ پُرزور استدلال اور توازنِ فکر کی دلیل ہے۔ اسی کتاب کی تصنیف کے دوران انھوں نے عملی صحافت کا میدان چھوڑ دیا۔ صحافت میں موضوع کا کینوس اور دائرہ تخاطب بالعموم محدود ہوتا ہے اور فطری طور پر اس میں وقتی ردعمل اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے مزاج کی مناسبت سے اس میں اپنا مستقبل نہیں دیکھا۔ وہ دل و دماغ کے اس امتزاج کی طرف جانا چاہتے تھے کہ جہاں قلب حرکت‘ جدوجہد اور ترغیب کا کام تو انجام دے‘ لیکن عقل اور فکر جس طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ کسی حیثیت سے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے یا اس کے اوپر کوئی پرچھائیں یا سایہ نہ پڑجائے۔ اس زمانے کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نظرآتا ہے کہ وہ ایک کش مکش سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتے تھے اور بالآخر انھوں نے ریل کا کانٹا بدلا اور جس پٹڑی پر چاہتے تھے‘ اسی پر وہ آگئے اور ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کو بھی لے آئے۔ اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن اقدام ان کی صحافتی زندگی میں ہمیں نمایاں نظر آتا ہے‘ جس کے تحت وہ ضمیر کی بیداری‘ خودداری اور حریت کو اولیت دیتے ہیں۔ گویا صحافی‘ صحافت کو محض قلم کاری نہ سمجھے بلکہ قلم کوفکر اور علم کی ترویج اور فروغ کے لیے ایک ایسا ہتھیار خیال کرے‘ جو دیانت کے ساتھ استعمال ہو تاکہ وہ دوسروں کی چاکری اور کاسہ لیسی کا آلۂ کار نہ بنے۔

جمعیت العلما‘ مسلمان علما کی ایک ایسی قابلِ قدر جماعت تھی‘ جو اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کوئی علمی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک عوامی تحریک تھی‘ جس کی قیادت چند جیّد علما کے پاس تھی۔ تاہم یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آہستہ آہستہ جمعیت کی اس وقت کی قیادت کا ایک بڑا حصہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر کی طرف بڑھ رہا تھا۔

ہندستان میں مسلمان اُمت کو جو بنیادی مخمصہ (dilemma)درپیش تھا‘ اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور ان کے حقیقی کارنامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ جمعیت العلماء کی قیادت کے بڑے حصے نے وہ راستہ اختیار کرلیا‘ جس میں اسلام کی جگہ آزادی کو اولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں اس چیلنج کو سمجھنا چاہیے جو اس وقت اُمت مسلمہ کو درپیش تھا ‘اور تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پیش آتا رہا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی سے ہم علامہ اقبال اور سید مودودی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور برعظیم کے سیاسی منظرنامے ہی کو نہیں‘ بیسویں صدی کی پوری مسلم اُمت کی فکر اور سیاست کا بہتر فہم حاصل کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب اکیسویں صدی میں جن حالات‘ مسائل اور چیلنجوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ان کا صحیح ادراک اور ان کے مقابلے کے خطوط کار متعین کرنے میں بھی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔

اس میں پہلا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ وہ یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک‘ اسلام کا تہذیبی‘تاریخی اور عالمی کردار درحقیقت ایک تاریخ ساز اور عالمی طاقت کا کردار رہا ہے جس میں ایک طرف قلب کی اصلاح اور کردار کی تطہیر اور تزکیہ ہے‘ دوسری طرف معاشرے اور تاریخ و تہذیب کی تبدیلی کا عمل۔ اسلام کا مزاج پہلے دن ہی سے یہی رہا ہے کہ اس نے طاقت کو محض سیاسی اقتدار سے عبارت نہیں کیا‘تاہم سیاسی اقتدار‘ اس کی طاقت کا ایک اہم عنصر ضرور رہا ہے۔ اسلام نے ایمان‘ دین اور طاقت کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ اس تعلق کا اظہار صرف سیاسی طاقت ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے سارے اداروں میں ہوا‘چنانچہ خاندان سے لے کر ریاست تک‘ یعنی نظامِ قانون‘ نظامِ قضا اور نظامِ معیشت‘ سب کو اس کا حصہ بنایا۔

خلافت راشدہؓ کے فوراً بعد مسلمانوں کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ قوت تو اسلام کے پاس موجود تھی‘ لیکن اس کے لیے جو نظام اور جو ڈھانچا اسلام نے بنایا تھا‘ وہ متاثر ہونے لگا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اقتدار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون‘ اور فقہ کی تشکیل میں بھی بڑی محنت کی۔ فکرمودودی کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ فقہ کی تدوین اور نظام قضا پر علما کی دسترس‘ملوکیت کی انحرافی رو (deviationist wave) کے مدمقابل معاشرے میں ایک ایسے خودکار نظام کو فروغ دینا ایسا تاریخی کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں معاشرے اور تہذیب و تمدن پر اسلام غالب رہا اور ریاست بھی اسلام کی گرفت میں رہی۔ سید مودودیؒ نے اس تاریخی کارنامے کو خلافت و ملوکیت میں پیش کیا ہے اور اس میں ہماری تاریخ اور تدوین فقہ کی تحریک کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا ہے جسے مورخین اور مفکرین نے بالعموم نظرانداز کر دیا تھا۔ بلاشبہہ بارہ سو سالہ اس دور میں اتارچڑھائو بھی آتے رہے تھے ‘ لیکن اٹھارہویں کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی قیادت میں اب مسلمانوں کا کردار مضمحل بلکہ ختم ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان کا یہ کردار کم ہو کر بالکل نچلی سطح کو چھونے لگا۔

اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ صورت پیدا ہوئی کہ مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر بے وقعت ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر قوت کے طور پر عالمی سیاست کی بساط سے یکسر باہر ہوگئے۔ گویا اقتدار پر ان کی گرفت ختم ہوگئی اور عالمی قیادت میں ان کا مقام اور وقار سرنگوں ہوگیا۔ جب ترکوں نے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا‘ تو علامتی سطح پر بھی ان کی رہی سہی حیثیت کا خاتمہ ہوگیا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حضرات جذباتی ردعمل رکھتے تھے‘ ان کی ساری توجہ خلافت کو بچانے اور ساری قوت خلافت کو بحال کرنے میں صرف ہوئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور اسلامی تحریکات کی فکر کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے خلافت کے احیا کو اصل ایشو نہیں بنایا‘ بلکہ اسلام کے احیا‘ اسلامی سوسائٹی کے قیام‘ اور اسلامی ریاست کے حصول و قیام کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس طرح انھوں نے رسمی خلافت کے بجاے خلافت کے جوہر (essence) اور اس کے حقیقی مقصد اور ہدف کو اپنی منزل قرار دیا۔

اب ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قوت کے چھن جانے کے نتیجے میں مسلمان دوسروں کے غلام ہوگئے اور ایک دوسری تہذیب ان پر غالب ہوگئی۔ یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار تھی وہ اسلامی بنیادوں کی ضد تھی۔ اس طرح ایک تہذیبی کش مکش شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے تصورجہاں‘ اقدارِحیات‘ سماجی ادارات‘ انفرادی کیرکٹر اور اجتماعی مزاج کو متاثر کررہی تھی۔ اس تہذیبی کش مکش سے نکلنے کے لیے صرف جذباتی ردعمل کافی نہیں تھا‘ بلکہ ٹھوس فکر اور سوچے سمجھے انداز میں ایک متبادل لائحہ عمل‘ واضح نشانِ منزل اور ایک منظم و مربوط جدوجہد درکار تھی۔ ایک طبقے کے نزدیک اولین ہدف غیرملکی استعمارسے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس طبقے نے اصل ہدف سیاسی آزادی کو قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی احیا کے داعیوں کی سوچ یہ تھی کہ غیرملکی استعمار سے نجات کے لیے جتنی ضروری سیاسی جدوجہد اور آزادی ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے فکری اور تہذیبی غلبے کے خلاف پیکار ایک لازمی مرحلہ ہے۔ اوراگر استعمار کے اس فکری اور تہذیبی غلبے کو نظرانداز کیا گیا تو سیاسی جدوجہد بالآخر غیرموثر رہے گی۔ اس لیے  اصل ضرورت یہ ہے کہ اُمت کو دین حق کی بنیاد پر اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اسی جدوجہد کو استعمار کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔

یوں اسلام اور مسلمانوں کو بہت سے بنیادی چیلنجوں کا سامنا تھا۔

اس سیاسی‘ تہذیبی اور فکری پس منظر میں برعظیم کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ برطانیہ نے چونکہ اقتدار ہم سے لیا ہے‘ اس لیے آزادی کے بعد بھی اقتدار ہمارا حق ہے۔ تحریک مجاہدین سے لے کر ہجرت اور ترکِ موالات کی تحریک تک اور جمعیت علماے ہند سے دیگر انگریز مخالف تحریکوں تک کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس تھی‘ اور وہی ان میں فعال اور فیصلہ کن حصہ لے رہے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دماغ میں یہی چیز تھی کہ آزادی ملنے پر فطری طور پر ہم اقتدار کے وارث ہوں گے۔ لیکن وہ اس جوہری فرق کو نظرانداز کر رہے تھے جو جمہوریت کے تصور پر مبنی اداروں کے قائم ہونے سے یہاں ووٹ کی قوت کے باعث متعارف ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو اس کھیل کو بڑی کامیابی سے کھیل رہا تھا۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے جمعیت العلماء نے جدوجہد آزادی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہی سمجھا کہ آزادی کا حصول ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے۔

دوسری جانب مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر یہ تھی کہ فقط مسلمانوں کی آزادی نہیں بلکہ اسلام کی آزادی اصل مسئلہ ہے‘ اور مسلمانوں کو آزادی اگر اسلام کی آزادی کے بغیر ملتی ہے تووہ غلامی ہی کی دوسری شکل ہوگی۔ اس لیے اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کی آزادی دو ہی طرح ممکن ہے۔ یا تو مسلمان اتنے قوی ہوں کہ پورے برعظیم کی باگ ڈور سنبھال سکیں‘ جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ پھر انھیں کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں وہ اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھ سکیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین کی منشا اور اپنی ثقافت کے تحفظ کا بھی ٹھیک ٹھیک   حق ادا کر سکیں۔ جس بات کو عرفِ عام میں ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے‘ اس کی فکری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو جداگانہ نظریہ ہاے حیات کے علم بردار ہیں‘ اور آزادی کا وہی مفہوم انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے‘ جس میں ہر نظریے اور تہذیب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے سیاسی‘ قانونی‘ ثقافتی‘ غرض ہر میدان میں ایک نئے دروبست کی ضرورت ہوگی۔

مولانا مودودیؒ کی اس زمانے کی تحریروں میں آزادی‘ مسلمان اُمت اور ہندستان کے متعلق مسائل و معاملات پر مباحث ملتے ہیں۔ مولانا کا زاویۂ نگاہ اس وقت بھی بڑا واضح تھا کہ اسلام کی آزادی اور مسلمان اُمت کی آزادی اسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ اسلامی تشخص سے وابستگی کو شرط اول قرار دے۔ اس تشخص کی وضاحت اور اس کے حصول کے لیے مولانا ہرلمحے سرگرداں اور پریشان نظرآتے ہیں۔ برعظیم ان کی توجہ کا اولین مرکز ہے لیکن اس مرکز کا بیرونی حلقہ (circumference) بڑا وسیع اوردنیابھر کے مسلمانوں پر محیط ہے‘ چاہے وسط ایشیا میں کمیونسٹ زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے المناک واقعات ہوں‘ یا افریقی ممالک میں ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو‘ یا ہندستان میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کاشیطانی کھیل ہو‘ وہ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مغربی استعمار کے حلیف مسلمانوں کی فکری اور عملی حماقتوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن سے بھی زیادہ بدتر کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں جمعیت کانگرس کے ساتھ مل کر اس راستے کو اختیار کرچکی تھی جسے وہ ’سوراج‘ کہتے تھے۔ نتیجتاً علاقائی یا وطنی قوم پرستی ان کی نگاہ میں گوہرِمطلوب بن گیا تھا۔ بالکل یہی سوچ غیرمسلموں کی بھی تھی‘ اور مسلمان آزادی کی اس جدوجہد میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ وہ کش مکش تھی جس میں مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کی صحافت کا چوتھا امتیازی پہلو تھا۔

  • ان کی صحافت کا پانچواں پہلو وہ ہے جس کی مثال ہمیں اخبار تاج ‘ جبل پور] ۱۹۲۰ئ[کے زمانے میں ملتی ہے۔ تاج میں نام بطور مدیر تاج الدین صاحب کا آتا تھا‘ لیکن اسے مرتب سیدمودودیؒ کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ بتاتے ہیں:’’تاج کچھ مدت تک   ہفتہ وار نکلتا رہا‘ اور پھر روزانہ ہوگیا۔ میں تنہا اس کو چلاتا تھا… بدقسمتی سے میرے ایک مضمون پر حکومت نے گرفت کی۔ چونکہ اخبار کے ایڈیٹر‘پرنٹر اور پبلشر کی حیثیت سے تاج الدین کا نام شائع ہوتا تھا‘ اس لیے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ گو‘اس طرح میں حکومت کی گرفت سے بچ گیا‘ لیکن مجھے اس بچنے میں کوئی خوشی نہ تھی‘ اور آیندہ کے لیے میں نے عہد کرلیا کہ دوسروں کی ذمہ داری      پر اخبار نویسی نہ کروں گا‘ بلکہ اپنی ہر جنبشِ قلم کی ذمہ داری اپنے سرلوں گا‘‘۔(تذکرہ سید مودودی‘ج ۲‘ ص ۱۲۸-۱۲۹)۔ یہ بڑے اُونچے کردار اور جرأت کی بات ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس وقت مولاناؒ ابھی صرف ۱۸ سال کے نوجوان تھے۔ یہ واقعہ ان کے ضمیر کی بیداری اور ان کے کردار کے رخ کو متعین کرتا ہے۔

بحیثیت صحافی یہ امور مولانا مودودیؒ کے زمانۂ صحافت میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بھی اگرچہ مولاناؒ ان معنوں میں تو صحافی رہے کہ ایک ماہنامے کے مدیر تھے اور ایک ماہ نامے کا مدیر بھی صحافی ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو صحافی کہتے تھے‘ تاہم اب ان کی تحریر‘ ان کی سوچ‘ اور ان کے انداز میں ایک تبدیلی آئی اور ان کے اہداف‘ اب صحافت کے دائرے سے نکل کر ایک زیادہ اہم‘ مشکل اور کٹھن میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ میدان تھادین کی صحیح تعبیر‘ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور عالمی استعماری تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے کردار کی بازیافت کا۔ انسان سازی اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے جن عناصر اور قوتوں کی ضرورت ہے‘ ان کے لیے فکرمندی مولانا مودودیؒ کے طرزفکر اور اسلوبِ زندگی کا ایک مستقل حصہ بن گئی۔ اب وہ ایک مفکر‘مصلح‘ مدبر اور قائد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

مولانا کی نگارشات میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے    اور کہیں کہیں ادب کی یہ جولانیاں شاعرانہ اسلوب کی حدوں کو بھی چھوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقیات اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ پر بھی لکھا۔ اسی زمانے میں مشہور مصری دانش ور مصطفی کامل پاشا کی کتاب المسئلۃ الشرقیہ کا ترجمہ کیا۔

ان تمام تحریروں میں وہ اپنے مزاج اور موضوع کی مناسبت سے ادبیت اور مقصدیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ابتدائی زمانے ہی سے ادب کی مٹھاس‘  صحتِ زبان‘ حسنِ بیان اور رعنائی خیال کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے‘ جو ان کے طرزِ نگارش کو  ایک انفرادی آہنگ عطا کرتا ہے۔ اولین دور میں مولانا مودودی کے ہاں دو زیریں لہریں (under currents)ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نبردآزما بھی نظر آتی ہیں: ایک شبلی کا اسلوب تحریر‘ دوسرا ابوالکلام آزاد کا انداز نگارش۔ ایک کی خصوصیت گنگا جمنا کی میدانی علاقوں میں پُرسکون روانی ہے‘ اور دوسرے میں پہاڑی آبشار اور پتھروں کو بہا لے جانے والے پانی کے پُرشور دھاروں کا جوش و خروش۔ ان دونوں اسالیب سے مولانا نے استفادہ کیا ہے۔ دونوں کے کچھ نہ کچھ اثرات مولانا کے اسلوب پر نظرآتے ہیں۔ لیکن مولانا نے دونوں میں سے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ کسی ایک کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے خود نیا رنگ لیا‘‘۔ ان کا یہ اسلوب‘ دورصحافت میں تشکیل پا چکا تھا۔ اس لیے میری نگاہ میں الجھاد فی الاسلام مولانا مودودی کے بنیادی فکر ہی کا آئینہ ہے‘ بلکہ اس کتاب میں مولانا کے اندازِ تحریر اور اسلوبِ نگارش کی امتیازی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ الجھاد فی الاسلام  کے لیے تحقیق اور اس کی تحریر وتسوید     مولانا مودودی ؒکی زندگی میں ایک کلیدی موڑ اور امکانات کے وسیع افق روشن کرنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف تو انھیں اسلام کے تصورِ کائنات کو بالکل واضح حقیقت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقع ملا۔ دوسری طرف جو معذرت خواہانہ روایت مسلمانوں کی فکر میں جڑ پکڑ چکی تھی‘ اس کو انھوں نے بالکل ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا اور پوری متکلمانہ شان کے ساتھ اسلام پر اعتراضات کا دفاع کیا‘ان کا جواب دیا اور اس سے بڑھ کر مثبت طور پر اسلام کی ایک جامع تصویر پیش کی۔ اس عمل میں انھوں نے ایک نیا اسلوب بھی اختیار کیا۔ اس علمِ کلام کی اصل خود اسلام میں موجود ہے۔ الجھاد فی الاسلام‘ مولانا مودودی ؒکی زندگی کے رخ کو متعین کرنے والی کتاب ہے‘ اور یہ حسب ذیل تین حوالوں سے ہے:

اول: اسلام کے صحیح تصورِ حیات و کائنات کی بازیافت۔

دوم: یہ نکتہ کہ یہ تصورِ حیات فکری طور پر حق و باطل کی ایک عالم گیر کش مکش کی طرف لے جاتا ہے‘ جس میں اسلام کا تاریخی‘ بنیادی اور فطری کردار ہے۔ اس سے اسلام کا تحریکی تصور اُبھرتا ہے جو بالآخر بیسویں صدی میں اسلامی تحریکات کی صورت گری کا ذریعہ بنا ہے۔

سوم: یہ کہ اس تقاضاے دین کی بجاآوری اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ پر طاقت کے استعمال کا ایک متعین کردارہے‘ وہیں صرف طاقت یا جنگ اس کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ناگزیر پہلو ہے‘ لیکن ہر دور کے مسائل‘ معاملات اور زمینی حقائق کی روشنی میں  غلبۂ اسلام کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنا ضروری ہے‘ جو اس مقصد کے لیے مددگار ثابت ہو اور اس میں مداہنت و پسپائی یا رخصت و دل شکنی کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ مکی دور میں بھی    غلبۂ اسلام مقصود تھا‘لیکن یہ دور تیاری کا دور تھا۔ جس کی تکمیل اور تنفیذ ہجرت اور اس کے بعد ہوئی لیکن مکہ اور مدینہ دونوں اس تحریک کے لازمی مرحلے ہیں ‘جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ حرا سے لے کر شعب ابی طالب تک‘ معراج سے ہجرت تک‘ بدر سے حنین تک‘ حدیبیہ سے فتح مکہ تک‘ سب اس وسیع تر حکمت عملی کے پہلو ہیں اور اس نمونے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں حسبِ ضرورت ایک نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا دور ہی اصل اسلامی مثالیہ (paradigm )ہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ زمانۂ خلافت کے بعد غلبۂ اسلام کی کیا حکمت عملی ہو؟ یہ کیسے ہونا چاہیے؟ کیونکر ہونا چاہیے؟ گو‘ اس پہلو کو مولانا مودودی ؒکتاب میں لے آئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت مولانا مودودیؒ پر یہ پوری طرح واضح نہیں تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے؟ ۱۹۲۸ء سے ۳۹-۱۹۳۸ء تک کا زمانہ مولانا کے فکر کے نکھار کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مستقبل کے لیے اُمت کے سامنے ایک حکمت عملی پیش کی اور پھر اسے بروے کار لانے کا آغاز کیا۔ ان سنگ ہاے میل اور پیش آمدہ چیلنجوں کے خدوخال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

بحیثیت مصنف اور ادیب

اس دور کے بھی کئی حصے ہیں۔ ابتدائی چار سال تک تو انھوں نے خاموشی سے‘ مگر جم کر اور پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ اس عرصے میں کچھ کتابیں بھی لکھیں‘ اورمستقبل کے منصوبے بھی بنائے۔ ان کے اپنے عزائم کو پختگی حاصل ہوئی اور رجحانات کی واضح صورت گری ہوئی۔ پھر ۳۳-۱۹۳۲ء میں یکسو ہو کر وہ اپنی زندگی کے اصل  مشن کے لیے جہاد زندگانی کے وسیع میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ میری نگاہ میں اس جہادِزندگانی کے شروعات کا بہترین اظہار ترجمان القرآن کے پہلے سات برسوں کے ’اشارات‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اظہار مولانا کی شخصیت‘ وژن اور فکرکے ارتقا اور مولانا کے مستقبل کے تاریخی کردار کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمان کی ادارت سنبھالتے ہی انھوں نے جو پہلی چیز لکھی وہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مضامین ہیں۔بعدازاں تنقیحات‘ سود‘ پردہ‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ تفہیمات کے مباحث ہیں۔مولانا کے دوسرے دورِ حیات تک کی یہ مختصر سی جھلک ہے۔

۱۹۳۰ء کے عشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلامی‘ الٰہیاتی اور سائنسی موضوعات پر کلام کرتے ہوئے وہ مضبوط منطقی استدلال اختیار کرتے ہیں‘ لیکن جب معاملہ آتا ہے احساسات کو اُبھارنے کا‘ تو بعض تحریروں میں انھوں نے جھنجھوڑنے والا انداز بھی اختیار کیا۔ اس زمانے کی تحریروں میں مولانا کے ہاں انگریزی اور عربی کے الفاظ نسبتاً زیادہ ملتے ہیں‘ لیکن ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ان کے اسلوب میں آسان زبان اور عام فہم انداز فروغ پذیرہوتا ہے۔ اس سادہ نویسی کا شاہکار تفہیم القرآن اور خطبات ہیں۔ پھر آخری زمانے تک مولانا کا یہی انداز رہا ہے۔ گویا کہ ادیب کی حیثیت سے بھی مولانا کے ہاں ہمیں ایک ارتقا نظر آتا ہے۔ زمانۂ صحافت میں انھوں نے دوسروں کے کچھ اثرات بھی قبول کیے‘ اور یہ بالکل فطری بات تھی‘ لیکن پھر ان کا    اپنا طرزِنگارش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے طرزِنگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برٹرینڈرسل ہے۔ اس کے ہاں بھی الٰہیاتی‘ سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے‘ جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی نثر میں پیش کرتا ہے‘ اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے ۔ بحیثیت ادیب‘ مولانا کی یہ بڑی قابلِ قدر خدمت ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو علمی‘ دینی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشرتی موضوعات سے مالا مال کرتے ہوئے اظہار کی ایک شان دار روایت قائم کی۔ ادب صرف افسانہ نگاری اور شاعری تک محدود نہیں‘ بلکہ وہ زندگی کے سارے سنجیدہ موضوعات کو مختلف ادبی پیرایہ ہاے اسالیب میں زیربحث لاتا ہے۔ مقالے اور الٰہیاتی مضامین بھی ادب کے دائرے میں آتے ہیں۔

مولانا مودودی لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب میں کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ وہ اپنی توجہ موضوع پر مرکوز کرتے ہیں‘ الفاظ خود بخود موزوں ہو جاتے ہیں۔ دینی فکر اور معاشرتی علوم کو انھوں نے نہایت خوب صورت زبان میں پیش کیا ہے۔ وہ صنائع اور بدائع کے استعمال میں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نثرکا تجزیہ کیا جائے تو وہ کلاسیکی زمرے میں آتی ہے۔ یہ چیزیں تو اظہرمن الشمس ہیں‘ اس کے ساتھ جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے قرآنی اصطلاحات‘ قرآنی محاورے اور قرآنی پیغامات کو اُردو زبان میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ یہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

مولانا مودودیؒ کی فکری اور ادبی تخلیقات روایتی مذہبی تحریروں سے بڑی مختلف ہیں۔ ان میںفکر کے عمق کے ساتھ زندگی کی حرارت اور ادب کی چاشنی ہے‘ جس نے ان تخلیقات کو بولتی ہوئی تحریریں بنا دیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان میں دعوت کی روح اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ وہ حرکت کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ وہ خود بھی بیدار ہیں اور دوسروں کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر عمل اور حرکت پر اکساتا ہے۔ مولانا نے  طنزاور مزاح کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے‘ ان کی تحریر میں بلا کی شوخی ہے جو ان کی خوش ذوقی ہی کا ثبوت نہیں‘ بلکہ ادبی صنعت کاری کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔

آج کل مغرب کے زیراثر ’’اسلام کی اصلاح‘‘کرنے والوں کے لیے ترکی کے  مصطفی کمال پاشا کا نام ایک رول ماڈل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۰ء میں اتاترک پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’]کتاب اتاترک کے[ مصنف نے ازراہ انکسار اس کتاب کو اتاترک کی سوانح عمری قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے ’’قصیدۂ نعتیہ درشانِ اتاترک علیہ السلام‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ترکی میں ایک نبی مبعوث ہوا تھا… یہ مبالغہ جس شخص کے حق میں کیا گیا ہے اسے مرے ہوئے ابھی کچھ بہت زیادہ دن بھی نہیں گزرے کہ ماضی کے دھندلکے سے فائدہ اُٹھا کر اسے دیوتا بنا ڈالا جائے۔ پرانے زمانے کے مچھر کو آج ہاتھی بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ہم عصروں کی آنکھوں میں کہاں تک خاک جھونکیں گے... ]کتاب کے مصنف کے بقول‘ اتاترک[ نے مذہب ]اسلام[ کی اصلی روح کو برقرار رکھتے ہوئے درویشوں اور مولویوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ مذہب اسلام میں دنیاوی ترقیوں کا ساتھ دینے کی پوری پوری صلاحیت ہے‘ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ درویشوں اور مولویوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت ترکی کی سرزمین کو اتاترک نے ملائوں کے وجود سے پاک کیا‘ اور فی الحقیقت اتاترک کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی اصلاح کی تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی--- بے معنی الفاظ کا کتنا عجیب مجموعہ ہے۔ ان لوگوں کے ’’لچک دار اسلام‘‘کی کیا تعریف کی جائے‘ ] ان کے نزدیک[ اس کم بخت میں اس غضب کی لچک موجود ہے کہ دنیاوی ’’ترقیوں‘‘ کی خاطر قرآن کا قانون منسوخ کردینے تک کی گنجایش اس میں نکل آتی ہے۔ اور اس ’’مذہب اسلام کی اصل روح‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ ملا اور درویش کو سامنے رکھ کر اس طرح ڈائنامائیٹ سے اڑایئے کہ قرآن و سنت بھی ساتھ ساتھ اڑ جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کا نام ’خالص روحِ اسلام‘ ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ مئی-جون ۱۹۴۰ئ‘ ص ۳۲۲-۳۲۷)

مولانا مودودیؒ مقصد سے لگن رکھنے والے ایک ایسے ادیب اور مفکر ہیں جنھیں اپنے مخاطبین کے دل میں پیغام اتارنے اور ان کی شخصیت کو بدلنے سے غرض ہے۔ مگر وہ اس غرض کے لیے زور زبردستی کا ویسا رویہ اختیار نہیں کرتے‘ جو عموماً سیاسی یا مذہبی عناصر کے طرزِ تخاطب کی پہچان اور ان کا عیب ہوتا ہے۔

ادب نام ہے اثرانگیزی کا اور یہ اثرانگیزی مولانا کی تحریر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروع کے دینی ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے علما نے تفسیر‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ اور تاریخ پر بڑی گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ لیکن ان کے اسلوب کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق اس دنیا سے نہیں ہے‘ جسے وہ مخاطب کر رہے ہیں۔ بعض مستثنیات کے سوا ان کی زبان اتنی ادق اور محاورے اتنے بوجھل اور مثالیں ایسی ہوش ربا ہیں کہ آپ ان میں سے کچھ مواعظ کو تو محفل میں بیٹھ کر بآواز بلند پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن اُس زمانے میں دینی کتابوں کا کلچر یہی تھا۔ تاریخ پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کتاب بڑی عمدہ ہے‘ لیکن اگر آپ جملے کی طوالت دیکھیں تواندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔ یہی صورت دوسرے علما کی تحریروں کی ہے حتیٰ کہ مولانا مناظراحسن گیلانی  ؒتک کا طرزِ تحریر اس روایت سے جان نہ چھڑا سکا۔ اس فضا میں مولانا نے دینی موضوعات پر تحریر و نگارش کا اسلوب بدل کر رکھ دیا۔  صاف نظر آتا ہے کہ دینی ادب کی زبان اور اسلوبِ بیان پر مولانا مودودیؒ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور بحیثیت مجموعی علماے دین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوبِ تحریر میں ایک واضح تغیر واقع ہوا ہے‘ مثلاً تفسیر میں مولانا عبدالحقؒ کی تفسیرحقانی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجیے‘ اور پھر پیر کرم شاہ صاحبؒ کی ضیاء القرآن دیکھیے‘ ان کے اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس اسلوب نگارش اور اندازِ تحریر کو جس شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ بحیثیت ادیب مولانا کا یہ بڑا منفرد پہلو ہے‘ جس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اگر انصاف سے کوئی نقاد تحقیق و تجزیہ کرے تو وہ دواور دو چار کی طرح دکھا سکتا ہے کہ کیا فرق واقع ہوا ہے۔

بحیثیت مفکر‘مصلح اور مدبر

ایک مفکر(thinker)‘ مصلح (reformer) اور مدبّر (statesman) کی حیثیت سے مولانا مودودی ؒکی شخصیت کو زیربحث لانا ایک اہم موضوع ہے۔

جب اسلامی فکریات کے وسیع ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی فکرپر سب سے زیادہ جس شخص نے نہایت گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہ مولانا مودودی ؒہیں۔ ان کی اثرپذیری کا دائرہ اپنی وسعت اور عمق کے اعتبار سے‘ اور اپنی اصابت فکر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔

بلاشبہہ دوسرے مفکرین اور خادمانِ دین نے بھی بیسویں صدی میں اسلامی فکر کو مالا مال (enrich) کرنے کے لیے بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور ان کی حیثیت کہکشاں کے روشن ستاروں کی سی ہے اور اس میں ان کے ہاں ایک دوسرے سے اثرپذیری بھی نظرآتی ہے ۔ تاہم میری نگاہ میں مولانا مودودیؒ کو جس بنا پر منفرد مقام حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ انھوں نے وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک اس وقت کے حالات کی روشنی میں اسلامی فکریات کے قائدین نے انجام دیا تھا۔(ملاحظہ ہو‘ میرا مضمون ’’دینی ادب‘‘ مشمولہ: تاریخ ادبیات پاک و ہند‘ ج ۱۰‘ ص ۲۶۱-۳۷۶‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور)

اس کی ایک مثال اسلام کے لیے ’تحریک‘ کے لفظ کا استعمال ہے‘ جو بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی علامت اور پہچان بن گیا۔ اس اصطلاح کی کچھ وہی حیثیت ہے جو دوسری صدی اور اس کے بعد کے زمانے میں ’شریعت‘ کی اصطلاح سارے دینی لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ  قرآن پاک میں لفظ ’شریعت‘ راستے اور طریقے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ہماری فکری تاریخ میں لفظ ’شریعت‘ دوسری صدی میں داخل ہوتا ہے‘ جب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے پھیلائو اور نئے تہذیبی مسائل میں اسلام کی اُبھرتی ہوئی قوت کو پیش آمدہ مسائل کا کیسے جواب دینا ہے؟ اسلامی دعوت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی سوسائٹی‘ اسلامی اداروں کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی نظامِ زندگی کیسے پیش کیا جائے؟ اصول فقہ اور فقہ دونوں کی نشوونما‘ ترقی اور ارتقا دراصل اس ضرورت کو پورا کرنے کی بروقت‘ مؤثر اور کامیاب کوشش تھی۔ اس عظیم کارنامے نے اگلے ۱۲۰۰ برسوں میں اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت اور خود دین اسلام‘ اور اسلام کے سیاسی نظام کو ایک ایسا بنیادی ڈھانچا عطا کیا‘ جس سے وہ ہر طوفانی تھپیڑے اور ہر سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکا اور اس کے ذریعے وہ ہردور میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ کرسکا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ شریعت بحیثیت اصطلاح‘ اسلام کے فکری اثاثے میں شامل ہوئی۔

فقہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عبادات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلاشبہہ عبادات اس کا اولین موضوع ہیں‘پھر خاندان اور عائلی زندگی وغیرہ کے معاملات۔ یہ دونوں موضوعات فقہی کتب کے تقریباً دو تہائی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فقہ میں مالی معاملات‘ معاشی احکام‘ تجارتی احکام‘ پھر قانون صلح و جنگ‘معاہدات‘ سزائیں‘ تعزیر‘ حد اور سیر کے ابواب ہیں۔ سیر (قانون بین الاقوام) کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کس طرح معاملہ کریں اور غیرمسلموں کے حقوق کی کیا صورت ہے؟ یہ تمام ابواب فقہ کے ہیں اور فقہ کا یہ نشوونما اور شریعت کا یہ وسیع تر نظام‘ دراصل قرآن و سنت کی دعوت کا فطری مظہر تھا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت پیش کی گئی تھی‘ جس نے ایک سوسائٹی‘ ایک تحریک‘ ایک ریاست اور ایک تاریخی رو کو پروان چڑھایا تھا‘ اس چیلنج کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ قانونی اور اداراتی سطح پر ایک     ہیکل اساسی (infra-structure)کی ضرورت تھی۔ ان فقہا نے اسے دو اور دو چار کی طرح  واضح کیا تاکہ آنے والے کل کے مراحل کو طے کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہت کے باوجود قانون بادشاہوں کی مرضی کے تابع نہیں تھا بلکہ شریعت کا قانون تھا ۔ کم و بیش ہر بادشاہ شریعت کے قانون اور قاضی کے حکم کے تابع تھا۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تحریک ایک حقیقت تھی تو اس کے ماحصل کو محفوظ و مستحکم کرنے کے لیے فقہ اور شریعت کی تدوین کی ضرورت تھی اور اس تاریخی عمل نے شریعت کی مرکزیت کو برگ و بار عطا کیے۔

پہلی اور دوسری صدی میں درپیش حالات کی طرح کا چیلنج اُمت مسلمہ کو دوبارہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے شروع میں بڑی شدت کے ساتھ پیش آیا‘ لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ تب فقہ توموجود تھی لیکن وہ نظام باقی نہیں رہا جس کو چلانے کے لیے وہ فقہ مدون کی گئی تھی۔ شریعت کا وہ ڈھانچا تو موجود تھا لیکن شریعت کہیں بھی قانون ارضی (law of land) کے طور پر موجود نہیں تھی۔ مغربی سامراج نے مسلم ممالک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ممالک پر ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی‘ سیاسی نظام پر بھی‘ عدالتی نظام پر بھی‘ اجتماعی نظام پر بھی‘ معاشی نظام پر بھی‘ تعلیم پر بھی‘ حتیٰ کہ خاندان اور فرد پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس منظرنامے میں یہ ایک ادھوری بات تھی کہ بس ’’خلافت بحال کر دو‘‘۔ جو شخص بھی اسلام کے مزاج کو سمجھتا تھا اور وقت کے بحران اور اس کی اصلاح کا صحیح نقشۂ کار اس کے سامنے واضح تھا‘ اسے یہ بات بڑی سطحی اور غیرفطری لگتی تھی۔ ہم یہ دیکھتے ہیںاس موقع پر اُمت کے لیے ایک نقشۂ کار اور ایک واضح حکمتِ عملی متعین کرنے کا جو کام مولانا مودودیؒ نے کیا‘ وہ کم و بیش اسی نوعیت کا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ تب ہم ایک نئی اصطلاح سے روشناس ہوئے اور وہ ہے لفظ ’تحریک‘۔

جس طرح اولین دور میں لفظ ’شریعت‘ نہیں تھا لیکن اسلام کے منشا کو بیان کرنے کے لیے ’شریعت‘ کا جامع لفظ آیا۔ آج اگر کوئی سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟ تو اس کا فوراً جواب ملے گا ’’شریعت ِاسلامی‘‘۔ گویا شریعت‘ اسلام کے نظام کار کی مجسم کی صورت میں اس زمانے میں آئی‘ جب اسلام ایک غالب اور ایک تاریخ ساز قوت تھا۔ وہ قوت‘ اپنی اخلاقی اور تہذیبی برکت کے ساتھ دنیا کے شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب میں کارفرما نظر آرہی تھی۔ اس زمانے میں اس کی حرکت کے پہلو کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب حرکت اور پھیلائو کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ اور اُمت جمود ہی کا شکار نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے ایک دوسری تہذیب کے سانچے میں ڈھل جانے کی نوبت آگئی‘ تو نئی ضرورتیں اُبھریں۔ اب اسلام صرف اقتدار ہی سے محروم نہ تھا‘بلکہ وہ ادارے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت اور ریاست کے ستون تھے اور اس کی پوری عمارت کو تھامے ہوئے تھے‘ ایک ایک کر کے منہدم ہوگئے‘ اور ان کی جگہ ایک دوسری تہذیب سے درآمد شدہ اداروں کو مسلمانوں کی سرزمین پر مسلط کر دیا گیا تو ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اب شریعت کو دوبارہ زندگی کی رہنما قوت بنانے کے لیے ایک نئے وژن اور نئی اجتماعی تحریک اور نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کا صحیح وژن‘ایمانی دانش اور متوازن بصیرت کے ساتھ بیان کیا جائے‘ اس بصیرت کی وسعتیںاس کے اہداف کے ساتھ آشکارا کی جائیں ‘ اس کو بروے کار لانے کے لیے قوت عمل‘ اس کے نظامِ کار کی منہج اور اس کے لوازمات کی فکر کی جائے۔ اور پھر عملاً وہ جدوجہد برپا کی جائے جو دین کی اقامت کا ذریعہ بن سکے۔

یہی وہ چیز تھی جس کے اظہار کے لیے مولانا مودودی ؒنے دین و دعوت اور نظامِ زندگی اور قانونِ حیات کے تصورات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔ انھوں نے قوی دلائل کے ساتھ اسلام کا جو انقلابی تصور پیش کیا وہ ’تحریک‘ کے لفظ میں ڈھل گیا۔ ان کے فکر کا اصل آہنگ یہ پیغام ہے کہ: اسلام ایک دین‘ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون‘ ثقافت‘ طرزِمعاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسلام محض ایک نظری فلسفہ نہیں‘ بلکہ عقیدہ‘ اخلاق‘ قانون‘ معاشرت‘  تہذیب و تمدن اور اقدارحیات کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا صورت گر بھی ہے اور اس طرح وہ ایک تاریخی قوت ہے‘ جس کے داخلی وجود میں یہ صلاحیت کار ہے کہ وہ اپنے کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دے‘ انھیں متحرک اور منظم کر کے ایک جدوجہد کا  موج در موج حصہ بنا دے۔ دوسرے یہ کہ اسلام‘ دین کے ساتھ ساتھ‘ ایک پیغام‘ ایک دعوت‘ ایک تبدیلی کا عمل ہے۔ جب دین کی ان تینوں جہتوں کے ساتھ‘ عقیدہ‘ عبادت‘ نظامِ زندگی اور قانون اور معاشرت اور پھر پیغام‘ دعوت‘ جدوجہد اور نفاذ کی منظم کوشش کی جائے تو سب مل کر اسلام کی حقیقی منشا بن جاتی ہے‘ جسے ’تحریک‘ کی اصطلاح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

بعض علما نے مولانا مودودیؒ کی اس پکار کو ’بدعت‘ قرار دے کر ناگواری کا اظہار کیا‘کچھ نے بالکل ہی مسترد کر دیا‘ مگر ان افراد کے نامناسب ردعمل نے بہت جلد اپنی اپیل کھو دی۔ آج اُن پیشوائوں کے ارادت مند بھی انھی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں‘ جنھیں وہ کل مذموم قرار دے کر مولانا مودودیؒ کے خلاف فتووں کی بارش کر رہے تھے۔ گویا وقت اور حالات کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے اسلام کے اصل پیغام کو اس کے جوہر سے جوڑنے‘ بیان کرنے اور دل و دماغ اور قول و عمل میں انقلاب برپا کر کے اس کو ایک زندہ تحریک بنانے کا کام کیا۔ مولانا مودودی ؒاور اس دور میں احیائی فکر کے علم بردار مفکرین کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری میں اس وقت اُمت کے قائدین نے   انجام دیا تھا۔ اس وقت ایک چلتے ہوئے نظام کو مستحکم کرنے اور انحراف کی یورش کے مقابلے کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ضابطے اور قانون کا پابند کرنا اصل ضرورت تھی‘ اور اب    قانون اور ضابطے کا ایک مثالیہ تو موجود تھا مگر وہ قوتِ قاہرہ مفقود تھی‘ کہ جس کے ذریعے نظریات نظامِ حیات بن جاتے ہیں۔

اب اگر آپ اس کی تہ میں جانا چاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ خلافت و اسلامی ریاست دراصل اس تحریک ‘ اس جدوجہد اور تبدیلی کا نتیجہ ہوگی۔ اس کے لیے فکر کی تبدیلی‘ فکر کے ساتھ کردار کی تبدیلی اور کردار کے ذریعے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اس مقصدکے لیے منظم جدوجہد کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں‘ جو بالآخر اسلامی معاشرے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی ریاست اور حکومت الٰہیہ کے قیام پر منتج ہوگی۔ دیکھیے کہ خلافت کی اصطلاح جس نے ۱۹۲۴ء میں ایک خاص انداز میں پوری اُمت کو صدمے سے دوچار کیا تھا‘ اس کے زیادہ  جان دار متبادل کے طور پر حکومت الٰہیہ‘اقامت دین‘ اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ اور پیاس اپنے نئے روپ اور نئے وژن کے ساتھ کس طرح اس مقام تک آپہنچی ہے۔

علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ کے سامنے دراصل یہ بنیادی ایشو تھا۔ علامہ نے اپنے انداز و اسلوب اور اپنے دائرے میں اور اشاروں میں اور مولانا مودودیؒ نے تفصیل‘ وضاحت اور تسلسل کے ساتھ اس کا جواب دیا۔مولانا مودودیؒ کی نگاہ میں اصل مسئلہ خلافت کے کسی روایتی ادارے یا symbolکا قائم ہوجانا نہیں‘بلکہ خلافت تو اس وژن اور اس نئے عمل اور اس تہذیب کی سرتاج ہے جس کے لیے ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے‘ یعنی استخلاف فی الارض کی ذمے داری کو پورے شعور کے ساتھ ادا کرنا۔

آج کے دور اور حالات میں خلافت اور اقامت دین کے لیے مطلوب بنیادوں اور لائحہ عمل کے جو خدوخال سیدمودودی ؒنے پیش کیے ہیں‘ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز فکر اور فکرمیں بھی اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ وقت کی غالب فکر پر گرفت‘ تنقید و تنقیح اور ایک نئے انسان کو تیار کرنا ہے۔ ایساانسان جس کا وژن‘ اخلاق‘ کردار‘ صلاحیت کار‘ تعلیم‘ وسائل اور اوقات کار کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے بعد دوسری چیز ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے۔ چونکہ یہ کام محض انفرادی طور پر انجام نہیں پاسکتا‘ اس کے لیے ایک منظم اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔ ایسے تمام اچھے انسانوں کو منظم کر کے اجتماعی جدوجہد میں لگا دینا‘ تاکہ اسلام وقت کی غالب قوت بن کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا سکے۔ اس مطلوبہ قوت کا جو وژن سامنے آتا ہے وہ ہے تبدیل شدہ انسان اور اس کے ذریعے ایک اچھے معاشرے کا قیام۔ اس کے ادارات میں تعلیم‘ معاشرت‘ معیشت شامل ہے اور جس کا موثر ترین پہلو انقلاب قیادت اور اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ صرف ایک خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسلام کو ایک کارفرما اور قائد کی حیثیت سے سامنے لانا ہے۔

فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو

سید مودودی کے علمی کارنامے کا احاطہ اور جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ مگر اس جائزے کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا بڑا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کسی قدر غوروفکر اور مزید تحقیق و تحلیل (analysis) کے طور پر چند نکات مرتب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

سید مودودیؒ کے علمی کارنامے کی صحیح تفہیم کے لیے دو بنیادی باتوں کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے: اول یہ کہ ہماری تاریخ کی پہلی پانچ صدیاں اسلامی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی صورت گری اور استحکام اور ترقی کے باب میں اسلام کی اجتہادی اور انقلابی قوت کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج اور تاریخی کردار کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم عرض کریں گے کہ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ نہ صرف اسلام کے معیاری ادوار ہیں‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اسلامی مثالیے کے خدوخال متعین کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد کے ساڑھے چار سو سال کے سیاسی نشیب و فراز سے اگر صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ دور علوم اسلامی کی تدوین کا زریں زمانہ ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ تصوف‘ ان سب کے لیے یہ تعمیری اور تشکیلی دور ہے۔ اور امام غزالی ؒ

کی ذات اور کام میں اس دور کا حاصل دیکھا جا سکتا ہے۔

امام غزالی ؒنے فقہ‘ کلام اور تصوف کے تینوں دھاروں کو اپنے وقت کے فکری اور تہذیبی چیلنجوں کی روشنی میں اپنی مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ایک نامیاتی اکائی (organic whole)میں مرتب اور منضبط کرنے کی بڑی راہ کشا اور کامیاب کوشش کی۔ پھر ایسی ہی ایک کوشش بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ مرحوم و مغفور کے کام میں نظر آتی ہے۔

سید مودودیؒ کے کام کو بیسویں صدی کے فکری اور تہذیبی چیلنج کے پس منظرہی میں سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ فکری اعتبار سے ان کا کام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے کام کا تسلسل اور اس علمی روایت کے بیسویں صدی میں احیا کی ایک شان دار مثال ہے۔

دوسری چیز وہ فکری اور تہذیبی ماحول ہے جس میں سید مودودی ؒنے یہ کام انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ۲۰۰ سال کا فکری جمود‘ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(renaissance)‘ روشن خیالی (enlightenment) اور لبرل اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ‘ صنعتی انقلاب‘ مغربی استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار پوری دنیا بشمول مسلم دنیا پر ان تسلط تھا۔ اس پس منظر میں شروع شروع میں مسلمانوں میں دو رجحان رونما ہوئے۔ ایک تحفظ اور اپنی میراث کو بچانے کے لیے قدامت پسندی اور جدید سے عدمِ تعاون اور اجتناب کا رویہ تھا‘ اور دوسری جانب اپنے تشخص اور روایت سے بے نیاز ہوکر غالب قوت سے ہم آہنگی اور ہم رنگی اختیار کرنے اور لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر عملاً مغربی تہذیب‘ طرزفکروعمل‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں سے نئی ٹکنالوجی اور طرزمعیشت کو بلاتفریق وامتیاز (indiscriminately)اختیار کرنے کا۔

روایتی مذہبی طبقات پہلے راستے میں نجات دیکھ رہے تھے‘ اور جدید تعلیم یافتہ اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات دوسرے کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک وسیع خلیج تھی جسے پُر کرنے کے لیے کئی موثر کوششیں ہوئیں‘ جن میں سب سے اہم اسلام اور مسلم تہذیب و تاریخ پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی وہ کاوش تھی‘ جو سید امیرعلی‘ شبلی نعمانی اور ندوۃ العلما اور دارالمصنفین نے انجام دی۔

اس پس منظر کے ساتھ برعظیم پاک و ہند میں دو آوازیں اُبھریں جو اپنی تازگی‘ وسعت اور انفرادیت (originality) کے اعتبار سے بظاہر اپنے ماحول میں اجنبی‘ لیکن دراصل اسلام کے پہلے ۵۰۰سال کی روایت کے احیا کی نقیب تھیں---ایک‘ اقبال اور دوسرے ابوالکلام آزاد۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اسلام کی راہ وسط کو اجاگر کیا اور قدیم اور جدید کے درمیان راہِ صواب کی نشان دہی کی۔ لیکن صرف اس حد تک کہ جمود پر ضرب لگائی‘ مغربیت کے طلسم کو چیلنج کیا اور اسلام کے حقیقی پیغام اور مشن کی طرف مراجعت کی دعوت دی--- جس شخص نے اس نقشے میں رنگ بھرا اور اس دعوت کو فکروعمل دونوں میدانوں میں ایک حقیقی اور موثر تحریک بنانے کے لیے شب و رز وقف کر دیے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ جنھوں نے یہ کام روایت سے بغاوت کے ذریعے نہیں بلکہ روایت کو تجدید کے عمل کا حصہ بناکر‘ اور جدید کو نظرانداز کر کے نہیں‘ بلکہ جدید کو اپنی تہذیبی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر اور خذما صفا ودع  ما کدر (جودرست ہے اس کو قبول کرلو اور جو نادرست ہے اس کو رد کر دو) کے اصول کے مطابق انجام دیا۔ ان کے   اس کام کے تین اہم پہلو ہیں:

                ۱-            فکر اسلامی کی تشکیلِ نو

                ۲-            اُمت کی کمزوری اور زوال کے اسباب کی تعین و تشخیص اور اصلاح احوال کے   خطوطِ کار کی نشان دہی۔

                ۳-            اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرنو کی جدوجہد کا عملی آغاز

یہی وہ تین کام ہیں جس کے باعث بیسویں صدی کی تاریخ میں سید مودودیؒ ایک مفکر‘ ایک مصلح اور ایک مدبر کی حیثیت سے بڑا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں اپنی تصنیفی زندگی کے ۶۰برسوں میں سیدمودودیؒ نے تقریباً ڈیڑھ سوکتب کی تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت انجام دی۔ انھوں نے تفسیرقرآن‘ تشریح احادیث‘ تعلیم فقہ کے ساتھ اجتہادی بصیرت سے دورِحاضر کے جملہ اہم علوم اور مسائل کے بارے میں اسلامی فکر کے اساسی اصول پیش کیے۔ ان کے اجتہادی کام کا دائرہ چند گنے چنے مسائل تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اصل ماخذ اور تاریخی روایت کے ساتھ‘ پوری فکرِاسلامی کی روشنی اور تسلسل میں تعمیر اور تشکیلِ نو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس کام کی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق ہوگی اور اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔

اس سلسلے میں سید مودودیؒ کا سب سے بنیادی کام عقیدے کی تشریح اور توضیح ہے۔ سیدصاحبؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے سب سے کلیدی تصور‘ توحید کے عقیدے کی تشریح اور اس کے تقاضوں کی تعلیم ہے۔ قرآن نے الٰہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے‘ اس دور میں اس کی واضح ترین تعلیم سید مودودی ؒکا سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے۔ توحید کے تصور کو شرک کی تمام آلایشوں سے پاک کرنا اور اللہ کو الٰہ ماننے کے مضمرات کو جس طرح سیدمودودیؒ نے بیان کیا ہے‘ وہ اظہارمدعا کی دنیا میں ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اللہ صرف خالق اور پالنہار ہی نہیں ہے‘ بلکہ وہ حاکم‘ آقا‘ مطاع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کے معنی ایک طرف اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے دامن میں پناہ لینا ہے تو دوسری طرف اس سے عہداطاعت کرنا ہے کہ پھر زندگی کے ہر شعبے میں اس کی رضا کا حصول‘ اس کے احکام اور ہدایت کی اطاعت اپنے آپ کو اور اپنے پورے معاشرے کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لینا ہی کمال ترقی و کامیابی ہے۔

یہ تصور ایک طرف روایتی مذہبی جمود کو پارہ پارہ کر دیتا ہے تو دوسری طرف زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے اور الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر محض عقل‘ تاریخ اور تجربے کے سہارے زندگی گزارنے والے تمام طریقوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ عبادت صرف مخصوص اسلامی مظاہر (rituals) کا نام نہیں‘ بلکہ پوری زندگی کو منصوص عبادات کی ادایگی اور ان کی رمزیت اور اثرانگیزی کی قوت سے اللہ کی بندگی میں دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور اسلام ہے ہی وہ دین جو ایک طرف انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کو خالق کائنات کی مرضی سے ہم آہنگ (harmonize)کرنے کا وہ طریقہ ہے جس پر پوری کائنات عامل ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مسلم ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل پیرا ہے۔ جب انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو کر اللہ کے قانون کی اپنے ارادے سے پابندی کرتا ہے تو وہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے اسے حقیقی امن و سلامتی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے رب‘ اپنی ذات اور فطرت‘ اور پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اطمینان کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ اسلام کے معنی یہی سپردگی ہے جو اطمینان‘ امن اور سلامتی پر منتج ہوتی ہے (اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o الرعد ۱۳:۲۸)۔

توحید کے اس تصور کی وضاحت کے بعد سیدمودودیؒ اسی توحید کی بنیاد پر پوری انسانی فکر اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ  قرآن و سنت اور اسوئہ رسولؐ سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرشعبے کے لیے کافی و شافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے ہرایک پہلو کو انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کیا نقشۂ کار ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتا ہے‘ اور ایک متوازن فکرانسانی اور علوم عمرانی کی تشکیلِ نو کس طرح ان بنیادوں کے اوپر انجام دی جا سکتی ہے۔ قانون‘ سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ تعلیم‘ حقوقِ انسانی‘ عالمی نظام‘ غرض ہر پہلو پر انھوں نے اخلاقی دیانت‘ اجتہادی بصیرت اور عمیق تحقیق کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی خدمت انجام دی ہے۔ فردِواحد نے وہ کام کردکھایا‘ جو بڑے بڑے ادارے اور محققین کی بڑی بڑی جماعتیں بھی بمشکل انجام دے پاتی ہیں۔

سید مودودیؒ نے تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کی تصویرکشی کے ذریعے انسانی زندگی کے اصل ایشوز کو مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ آفرینش کے آغاز سے تاریخ دو ہی قوتوں کی پیکار کی آماجگاہ ہے‘ ایک اسلام ہے اور دوسری جاہلیت (یعنی اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کا نقشہ بنانے کی کوشش خواہ اس کا نام اور آہنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو)۔ یہی وہ کش مکش ہے جس میں انسان کو استخلاف فی الارض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ جو اُمت مسلمہ کا مشن‘ یعنی شہادت حق اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور جس کے لیے نفس سے جنگ سے لے کر کارزارحیات میں شر‘ ظلم اور فساد کے خلاف جہاد ہی اللہ کے بندوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ تزکیہ نفس سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک‘ یہ سب اس نقشۂ راہ کے مراحل ہیں۔ حق کے غلبے کی جدوجہد ہی ایمان کا اصل تقاضا اور ثمرہے۔

سید مودودیؒ نے اسلام کے اس وژن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کام کیا‘ اس کے تجزیے سے ان کے علم الکلام کے خدوخال مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے اولین دور میں وژن کی صحت اور جدوجہد کی قوت کا سرچشمہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی اور سنت رسولؐ پر مضبوطی سے قائم رہنا تھا۔ بڑھتی ہوئی اسلامی قلمرو اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے پھیل جانے سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین اجتہاد اور اجتہادی فیصلوں کی تنفیذ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ فکر‘ تعلیم اور معاملات کا کچھ ایسا آہنگ بن گیا کہ فقہ اور روایت کو اولیت حاصل ہوگئی اور قرآن و سنت سے بلاواسطہ ربط و رہنمائی میں اضمحلال آگیا۔ جن نام نہاد مصلحین نے فقہ اور روایت سے بغاوت کی بات کی‘ وہ اسلام کی روح اور اس کے مشن سے ناواقف تھے۔ لیکن فقہ اور روایت سے رہنمائی اور تعلق کو منقطع کیے بغیر احیاے اسلام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت سے رشتہ استوار کیا جائے اور نئے حالات میں رہنمائی کے لیے ترتیب وہی قائم کی جائے جو دورِاول میں تھی--- یعنی قرآن‘ پھر سنت اور پھر اجتہاد۔ جس میں سلف کے اجتہاد اور اس کے نتیجے میں ظہورمیں آنے والی فقہ سے اصولوں کے مطابق استفادہ ہے۔ پھر جس طرح اصولین نے اپنے زمانے میں اپنے وقت کے علوم اور مسائل کو سامنے رکھ کر اسلام کی رہنمائی کو متعین کیا‘ اسی طرح آج کا ماحول اس پورے علمی اثاثے کو سامنے رکھ کر لیکن جدید علوم اور عصری مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے سائنس‘ عمرانی علوم اور دورِ جدید کے اس ’عرف‘ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے‘ جو مقاصد شریعت سے  ہم آہنگ اور احکام اسلام سے متصادم نہ ہو۔

تحقیق‘تجزیے ‘ استنباط اور اطلاق کی یہ وہ حکمت عملی ہے جو سیدمودودیؒ نے اختیار کی۔ اسی طرح ان کے علم الکلام میں دورِ جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اسلامی علوم و افکار کی تشکیل جدید ہی نہیں بلکہ فکرِانسانی کی تشکیلِ نو کے اس عمل کو انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے خطوطِ کار کا تعین اور اس کے استعمال سے حاصل شدہ نتائج کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ گویا فکر اور فکری عمل کو آگے بڑھانے کے راستے اور طریقے بتاکر‘ ان دونوں میدانوں میں بھی سیدمودودی نے نئے چراغ روشن کیے اور مستقبل میں کام کرنے والوں کے لیے تابندہ نقوشِ راہ چھوڑے۔ ان کے سارے کام کا ہدف اللہ سے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا اور ان کے اندر اپنے رب سے مغفرت کی طلب بڑھانا  تھا۔ لیکن فرد کی اصلاح‘ فکر کی تشکیلِ نو‘ وقت کے فتنوں اور چیلنجوں کا جواب‘ اسلامی زندگی‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست اور اسلام کے عالمی نظام کے خدوخال کی وضاحت کے ساتھ ان کی توجہ ایک اور کلیدی نکتے پر مرکوز رہی‘ اور وہ یہ کہ اچھے انسانوں کی تیاری کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ذریعے انقلابِ قیادت کا معرکہ کیونکر سر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملاً مربوط و منظم جدوجہد کی کہ دین کے قیام‘ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام اور ہرسطح پر قیادت کی تبدیلی اور فاسد قیادت سے زمامِ کار‘   صالح قیادت کی طرف منتقل کرکے انسانیت کی قیادت اہلِ خیر کے ہاتھوں میں لائی جاسکے۔ سیدمودودیؒ کی فکر کا مرکزی نکتہ توحید کے تصور کی وضاحت ہی نہیں ہے بلکہ توحید کے تصور کی بنیاد پر انسان سازی اور زمانہ سازی کا عمل ہے۔ یہ کام انھوں نے فکر کے میدان میں بھی انجام دیا اور پھر ایک مصلح کی حیثیت سے عملاً اس جدوجہد کو برپا کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ ایک دیدہ ور مفکر تھے‘ جن کے ہاں فکری ارتقا جاری رہا۔ وہ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر اپنی آرا پر نظرثانی کے لیے کھلا دل اور ضروری لچک رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ابتدا میں پہلے تحدید ملکیت زمین کے بارے میں مولانا کا کم و بیش وہی نقطۂ نظر تھا‘ جس پر فقہا عامل تھے۔ تاہم‘ جماعت اسلامی کا منشور تیار کرنے کے مختلف مراحل (۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ئ) میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لامحدود ملکیت زمین ظلم اور انسانی سماج میں شدید عدم توازن کا باعث بن جائے توزمین کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اس میں ناجائز ملکیتی زمینوں کو بحقِ سرکار ضبط کر کے ضرورت مند کاشت کاروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور جائز ملکیتوں میں زرعی اور بارانی زمینوں کو ایک حد سے زیادہ کی صورت میں‘ ریاست خرید کر مستحق افراد کو دے سکتی ہے۔ ان کے ہاں یہ تحدید کمیونسٹوں کے قومیانے والے تصور سے بالکل مختلف اور عدل پر مبنی ہے۔

مولانا مودودی کے ہاں جمود نہیں ہے‘ وہ سوچ کر رائے قائم کرتے تھے لیکن اپنی رائے پر قفل نہیں لگاتے تھے۔ شوریٰ میں تو میں نے دیکھا کہ مولانا نے لوگوں کو گھنٹوں بحث کرنے کا موقع بھی دیا ہے اور اپنی آرا کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ہم سب ان کے شاگردوں اور خوردوں میں سے ہیں لیکن وہ ہماری رائے کو بھی پوری توجہ سے سنتے تھے‘ نوٹس لیتے تھے‘ جواب میں دلیل دیتے تھے اور پھر قائل کرنے اور قائل ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایسے بلندپایہ انسان کا ایسے  کھلے انداز میں شورائی آداب پر عمل کرنا‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ہی کا حصہ تھا۔

زندگی کے نئے مسائل اور نئی اُلجھنوں پر جب بھی سوچنے کا مرحلہ آتا تو مولانا اس پر ازسرنو غور کرتے تھے۔ جس چیز کے ایک سے زیادہ حل ہو سکتے تھے‘ ان میں ترجیح قائم کرتے تھے۔ مجھے مرکزی شوریٰ میں دو دن تک جاری رہنے والی وہ بحث اچھی طرح یاد ہے جس میں جداگانہ انتخابات کے مسئلے پر بات ہوئی تھی۔ یہ بحث محض نظریاتی نہیں تھی‘ بلکہ یہ اخلاقی اور اصولی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کے گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ اس پر شوریٰ میں دو آرا موجود تھیں۔ مولانا نے ایسے امور کو بڑی نزاکت سے نبھایا اور شوریٰ میں بالآخر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے (near consensus) کی کیفیت پیدا کی۔

میدانِ عمل میں رہنما خطوط کا تعین

مولانا مودودیؒ ایک مصلح کی حیثیت سے محض ایک نظریہ ساز (theorist) نہیں ہیں‘ بلکہ ایک عملی مصلح (active reformer) کی حیثیت سے ان کی نگاہیں ہمیشہ زمینی حقائق پر مرکوز رہتی ہیں۔ ایک ہمدرد معالج کے طور پر وہ مریض کو صحت یاب دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں اور مریض کی حالت کے مطابق نسخے میں ترمیم و تبدیلی بھی کرتے ہیں۔

عملیت پسند مولانا مودودیؒ میں خوداعتمادی تو بلا کی تھی‘ مگر خودپسندی کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی میں نہ تھا۔ وہ نئے حالات میں‘ دین کی روشنی میں‘ نئے تجربات اور نئے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور پورے عالمِ اسلام کی اصلاح کا انھوں نے بیڑا اٹھایا ‘اور اس عملی جدوجہد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے اور قیادت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جتنا بڑا کارنامہ انھوں نے فکری حیثیت میں انجام دیا‘ اتنا ہی بڑا کارنامہ انھوں نے عملی سطح پر بھی انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جماعت بنائی مگر جماعت اسلامی کا قیام بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے مترادف ثابت ہوا۔ جوں ہی انھوں نے جماعت بناکر دعوتِ عام دی تو وہ لوگ بھی جو ان کو ’ترجمانِ اسلام‘ کہتے تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے‘ بلکہ ان کے ناقد بن گئے۔ مولانا نے نئے حالات میں اسلامی فکر کے احیا اور تشکیلِ نو تک اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا‘ بلکہ دنیا کو بدلنے کی‘ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی‘ اُمت کو شہداء علی الناس کا کردار ادا کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھانے اور اقامت دین کی ذمے داری اٹھانے کے لیے سرگرم کر دیا۔ ان کی ذات میں مفکر اور مصلح‘ داعی اور منتظم‘ قائد اور مدبر کی صلاحیتوں کا اجتماع تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ان کے کردار کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔

l جدید خطوط پر تنظیم سازی :مولانا مودودیؒ نے اپنے عہدکی سرکردہ تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں اور نظاموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو ایک انقلابی تحریک کی ضرورت ہے جو محض ایک سیاسی تنظیم نہ ہو۔ اس تناظرمیں جماعت اسلامی کا وجود دراصل ایک نظریاتی تحریک کا روپ ہے۔ بنیادی پہلو یہ ہے کہ مولانا نے جماعت کے دستور میں پہلے ہی دن سے جو بنیادی چیز رکھی ہے‘ وہ اس کا وژن ہے‘ جس میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللہ کا تصور‘ اور اس کے تقاضے جماعت اسلامی کا محور ہیں۔ جماعت کے دستور کا سب سے اہم حصہ یہی ہے۔ اس میں پہلی بنیادی چیز اللہ کی حاکمیت‘ دین کی اقامت‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے پورے نظام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ازسرنو مرتب کرنے کا عزم اور سرگرم جدوجہد کا عہدہے۔ اس میں دوسری بنیادی چیزیہ ہے کہ ہرانسان قابلِ احترام ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معیارِ حق نہیں۔ اصل کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اسی میزان پر پرکھا جائے گا اور جو جتنا اس معیار سے قریب ہوگا ‘وہ اتنا ہی محترم ہوگا۔ جماعت کے قیام میں یہ اصول بھی کارفرما رہا کہ اس کی رکنیت بلاامتیاز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔ لیکن رکن وہ بنے گا جو شعوری طور پر اس ذمہ داری کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد کرے۔

مسلم تاریخ میں بیعت‘ امیر کے ہاتھ پر ہوتی تھی اور امیر کے مرجانے کے بعد دوسرے فرد سے بیعت ہوتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے نظامِ تنظیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: دعوت نہ تو امیر کی طرف ہے اور نہ بیعتِ امیر کی طرف‘ بلکہ دعوت بھی جماعت میں متعین کردہ نصب العین کی طرف ہے اور بیعت بھی جماعت کے ساتھ ہے‘ جسے حلفِ رکنیت کی شکل دی گئی۔ امیر پر نظام کو چلانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس کی قیادت تو کرے گا‘ اور بحیثیت امیر‘ نظام جماعت کے تحت اس کی اطاعت فی المعروف بھی ضروری ہے‘ لیکن امیر بھی اسی طرح دستور کا پابند ہے جس طرح ایک رکن۔ اسی طرح اطاعت نظام امر کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعوت امیر کی طرف نہیں‘ جماعت اوراس کے مشن کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا نظام معروف میں اطاعت اور منکر میں احتساب سے عبارت ہے۔ یہ جماعت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ میرے علم کی حد تک مسلمانوں کی اجتماعیت کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ نے پہلی مرتبہ تحریری دستور کے اندر احتساب کے حق کو حق ہی نہیں‘ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ہر رکن‘ شوریٰ اور پورا نظام امر‘ احتساب کے عمل میں شامل ہے۔ ہر رکن یہ عہد کرتا ہے کہ میں جہاں کہیں کوئی برائی دیکھوں گا ‘اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ مراد یہ ہے کہ رکنیت کے وجود میں احتساب کا حق ہی نہیں فرض بھی شامل ہے۔ دستور میں شوریٰ کے منصبی فرائض میں بھی احتساب شامل ہے۔ یہ اصول تو بڑی جمہوری پارٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے نظام کار کا جائزہ لیجیے‘ تو نظر آتا ہے کہ یا تو وراثت کا نظام کارفرما ہے‘ یا جس فرد کا وراثت‘ دولت اور اقتدار کے بل پر پارٹی پہ قبضہ ہے‘ وہی حرف اول ہے اور وہی حکم آخر۔

اس کے بعد ہے اختلاف راے کا حق۔ مولانا مودودیؒ نے اسے بھی ایک دستوری حق قرار دیا ہے‘ یعنی آپ پالیسی سے اختلاف رکھ سکتے ہیں‘ عقیدے سے نہیں۔ امیر سے اختلاف رکھ کر بھی آپ جماعت کے رکن رہ سکتے ہیں اور ایک وقت کی طے شدہ پالیسی کو بدلنے کے لیے افہام و تفہیم اور معروف شورائی ذرائع سے کوشش کرسکتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں بھی شورائی نظام کا ارتقا ہوا ہے‘ اورایک تدریجی عمل سے گزر کر جماعت نے ایک طرف امیر کو قیادت اور رہنمائی کا اختیار دیا ہے تو دوسری طرف پالیسی کو شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا ہے‘جب کہ آخری فیصلہ شوریٰ یا اجتماع ارکان کا استحقاق ہے۔ اس عمل سے شوریٰ کی برتری زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔

l نظام کی تبدیلی کا طریق کار اور حکمت عملی: مولانا مودودیؒ نے ملکی نظام میں تبدیلی کا جو طریق کار پیش کیا ہے‘ وہ افکار کی تبدیلی‘ کردار کی تعمیراور راے عامہ کی ہمواری کے لیے جمہوری‘ قانونی اور دستوری طریقے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں اس طریق کار کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا اور عملاً ملک کی سیاست میں دستوریت (constitutionalism) اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کی جدوجہد کی مثال قائم کی گئی۔ وہ سختی سے اس راستے پر کاربند رہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا: خفیہ جماعتوں کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں چونکہ یہ رجحان گڈمڈ تھا‘ اسی لیے عرب نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ میں آپ کوتلقین کرتا ہوں کہ آپ ان طریقوں کو اختیار نہ کریں جو فساد فی الارض کا ذریعہ بنتے ہیں۔ البتہ مسلمان جہاں پر محکوم ہیں اور غیروں کی غلامی میں ہیں‘ اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ جہادکی راہ اختیار کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ لیکن جن معاشروں میں آزادی ہے اور تبدیلی کے کچھ بھی جمہوری ذرائع موجود ہیں‘ وہاں آئینی اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا ہی مولانا کی نگاہ میں اور جماعت کے دستور کے تحت تبدیلی کا صحیح طریقہ ہے۔

یہاں ہمیں مولانا مودودیؒ مرحوم کی فکر کا یہ بڑا اہم نکتہ ملتا ہے‘ جسے علم السیاست میں ارتقائی عمل اور انقلابی عمل کہا جاتا ہے۔ مولانا نے بالکل ایک بیچ کا راستہ نکالا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ان کے تمام مقاصد تو انقلابی (revolutionary) ہیں‘ لیکن ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار ارتقائی (evolutionary) ہے۔ اسلامی انقلاب ہمارا مطلوب ہے‘ لیکن اس انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut)نہیں ہے اور نہ جبر کا کوئی طریقہ اس منزل کے حصول کے لیے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ذہنوں‘ معاشرے اور کردار کی تیاری کے ذریعے راے عامہ کو قائل کرتے اور اس طرح قیادت کی تبدیلی کا راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: قیادت کی تبدیلی کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ پہلے مولانا کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہییں۔ لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ اگر سیاسی پارٹیاں ان حدود کی پابندی کریں‘ جو شریعت نے اجتماعی زندگی کے لیے مرتب کی ہیں تو وہ اس ریاست کے نظام کار کو چلانے کے لیے نہ صرف معاون بلکہ ضروری ہیں۔ خاص طور پر سیاسی آزادی اور اختلاف راے کو اداراتی اور منظم شکل دینے کے لیے اس کو قبول کیا۔ اسی طرح ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص طرز پر جماعت کو تبدیلی کا صورت گربنایا۔ پھر انھوں نے جماعت کے ساتھ‘ معاشرے کے ہر طبقے کو فعال طور پر ساتھ لے کرچلنے کے لیے برادر تنظیموں کا ایک وسیع نظامِ کار وضع کیا۔

ایک اور مثال ہے‘ ان کا لیکچر : اسلام کا نظریۂ سیاسی ‘جو تقسیم ہند سے ۱۰برس قبل شائع ہوا تھا۔ اس میں مولانا نے امیر کے لیے زندگی بھر مامور رہنے اور شوریٰ کے مقابلے میں حق استرداد کو خلافت راشدہ کے تعامل سے لیا تھا۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ مولانا کے ہاں ہمیں دیانت اور علمی توسُّع کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بات کو ہمیشہ دلیل اور  اعتماد سے پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی افہام و تفہیم اور دلیل سے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایسے ہر مشاہدے سے مولانا کی عظمت کا نقش گہرا ہوا ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین کا مرحلہ آیا اور میں نے مولانا کی اسلامی قانون کی تدوین والی تقریر کو Islamic Law & Constitution میں شامل کر کے اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کام شروع کیا تو اس موقع پر مولانا ظفراحمد انصاری‘ چودھری غلام محمد اور غلام حسین عباسی صاحب کے ہمراہ‘ مولانا مودودیؒ سے ان معاملات پر گفتگوئیں ہوئیں۔ مولانا بہت کھلے دل سے ہماری گزارشات پر غور فرمایا اور اس مکالمے کے نتیجے میں متعدد امور میں انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کی۔ مثال کے طور پر‘ امیر کے سلسلے میں مولانا نے رائے تبدیل کی اور کہا کہ دورِ امارت مقید ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خلفاے راشدینؓ توتقویٰ ‘ کردار اور اپنی خدمات کے اعتبار سے بہت اونچے مقام پر تھے‘ پھر وہ محض منتخب سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ستون اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور افضل ترین حضرات تھے‘ اس لیے ان کے اوپر یہ بھروسا کیا جا سکتا تھا لیکن‘ اگر آج ایک آدمی اختیار اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے ہٹانے کا راستہ کیا ہوگا۔

اسی طرح امیر یا لیڈر کو بھی شوریٰ کی رائے کا پابند ہونا چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کے ہاں اس میں بھی ایک ارتقا ہے‘ جس کا نقطۂ عروج تفہیم القرآن میں سورہ شوریٰ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص ( ۴۲:۳۸)پر تفسیری نوٹ ہے‘ جو پورے تفسیری لٹریچر میں منفرد شان کا حامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا ہے: ’’مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے‘ اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے… جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو‘ اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کر ڈالنا‘ اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظرانداز کر دینا زیادتی ہے… اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمدعلیہ نمایندوں کو شریک مشورہ کیا جائے… جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو‘ ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو‘ اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی‘ کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جوخدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں… اسلامی طرزِزندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انھیں بھی شریک مشورہ کیا جائے… خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راے لی جائے… ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے… اگروہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں‘ اور اصلاح نہ ہوتی دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے‘ اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر‘ اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۰۸-۵۰۹)۔ یہی چیز امیر اور لیڈر کے لیے ہے۔ اکثریت کی راے کو قبول کرنا اور اجماع پسندیدہ امر ہے۔ یہ آثار اپنے ارتقا کے ساتھ ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔

پھر جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے دستور کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں امیر کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم نے دستور میں سربراہ حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت تجویز کی تھی‘ جسے مولانا نے قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح جماعت کے پہلے دستور میں شوریٰ کا ادارہ موجود تھا‘ لیکن ان ارکان شوریٰ کو امیران افراد کی قابلیت‘ بصیرت‘ خدمات اور تقویٰ کی بنیاد پر نامزد کرتا تھا۔ اس کے بعد شوریٰ کو منتخب کرنے کا ضابطہ بنایا گیا۔ شوریٰ منتخب کرنے کے لیے بھی دو نوعیت کے حلقے بنائے گئے۔ ایک کل پاکستان سطح پر انتخاب رکھا گیا‘ جس میں پانچ افراد کا انتخاب تھا اور باقی تمام ارکان شوریٰ کو علاقائی حلقوں کی بنیاد پر منتخب کرنے کا ضابطہ مقرر کیا گیا تھا۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستورِ جماعت میں کل پاکستان بنیاد پر انتخاب کی الگ سے شق ختم کر دی گئی اور تمام علاقوں سے منتخب ارکان کی شوریٰ مقرر کی گئی۔ پھر۱۹۵۲ء کے دستور میں شوریٰ کے بارے میں یہ شق تھی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے۔ لیکن اگر شوریٰ اور امیر میں نزاع ہو تو کچھ امور میںشوریٰ‘ امیر کی رائے مان لے گی خصوصیت سے جن کا تعلق نصوص کی تعبیر سے ہو‘ اور کچھ امور میں امیر‘ شوریٰ کی رائے کو فوقیت دے گا خصوصاً انتظامی معاملات کے بارے میں۔ لیکن جب معاملات میں شوریٰ امیر کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر معاملہ ارکان میں بھیجا جائے گا اور اگر ارکان جماعت‘ شوریٰ کی رائے کو مان لیں تو پھر امیرمستعفی ہوجائے گا‘ اور اگر ارکان امیر کی رائے کو مان لیں توشوریٰ مستعفی ہوجائے گی۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستور جماعت میں یہ بات لائی گئی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے لیکن اگر اختلاف ہو تو امیر کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایک سیشن کے لیے فیصلے کو موخر کر دے‘ اور اگلے سیشن میں شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے اسے امیر مان لے۔ یہاں بھی وہی مشاورت‘ افہام و تفہیم اور شوریٰ کی بالادستی کا ارتقا ہے۔

اسی طرح مولانا کی رائے تھی کہ عورتوں کی شوریٰ الگ ہونی چاہیے اور مردوں کی الگ۔ لیکن جب عملی مشکلات اور بعض مختلف فیہ امور پر افہام و تفہیم کے پہلو پر مولانا سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورتیں بھی شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلموں کے بارے میں مولانا کی پہلے رائے یہ تھی کہ انھیں انتظامی امور میں مشورے میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی شوریٰ الگ بنائی جائے۔ لیکن جب مولانا سے اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی تو اس میں مولانا نے غوروفکر کے لیے خاصا وقت لیا۔ بالآخر وہ خود اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف نہ ہو‘ اور اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو ایسی صورت میں غیرمسلم بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں جہاں وہ سارے معاملات میں رائے دیں گے اور راے دہی میں بھی شریک ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

اُمت کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒؒ نے وسعت اور کشادہ روی کا انقلابی‘ جمہوری اور شورائی راستہ دکھایا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ایک ملک میں تبدیلی آنی چاہیے ‘پھر وہی ملک دوسرے ممالک میں تبدیلی لانے کے لیے ماڈل بنے گا۔ ان کی دعوت کا اولین ہدف اپنا وطن ہے‘ لیکن روے سخن پوری دنیا کی طرف ہے۔ عربی اور انگریزی میں اہم تصانیف اور تحریروں کے تراجم کا کام مولانا نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی شروع کروا دیا تھا۔ جماعت کی رودادوں میں ایک لمبی فہرست ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی بات اور اپنی آواز دنیا کے مختلف خطّوں اور علاقوں تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے گویا کہ پورا عالم (global reach) ابتدا ہی سے ان کے پیش نظر رہا ہے۔

  • تحریک اور تنظیم کا فرق: ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہندکے نتیجے میں بھارت اور پاکستان میں جماعت اسلامی الگ الگ ہوگئی۔ مولانا کی پیش کردہ دعوت قبول کرنے والے بعض اصحاب نے سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرمیں بھی اپنے طور پر جماعت بنالی۔ پھر مشرقی پاکستان کے تسلسل میں بنگلہ دیش میں بھی جماعت قائم ہوئی۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ان     چھے جماعتوں کے مابین کسی درجے میں بھی کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مولانا نے کہیں بھی جماعت اسلامی کو قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ۱۹۶۴ء میں جب ہم جیل میں تھے تو ہمیں جیل میں معلوم ہوا کہ برطانیہ کے کچھ مخلص مگر جذباتی نوجوانوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ تب ہم نے مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر جیل ہی سے ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ: ’’آپ جماعت کے نام سے کام نہ کریں‘ بلکہ آپ کا جو نام وہاں پہلے سے تھا‘ اسی کے تحت کام کریں‘ اور مقامی قانون کے تحت کام کریں۔ نہ جماعت آپ کی ذمہ داری لے سکتی ہے اور نہ آپ کے لیے یہ مناسب ہے کہ آپ اس نام سے وہاں کام کریں‘‘۔ یہی اصول مولانا کا رہا ہے۔

اس طرح تحریک وتنظیم کے مابین ایک فرق بھی ہمارے سامنے آیا کہ اسلامی انقلاب کے لیے تحریکات تو ساری دنیا میں برپا ہوں‘ لیکن تنظیم ہر جگہ وہاں کے حالات کے مطابق الگ‘ آزاد اور اپنے قول و فعل کے لیے خود جواب دہ ہو۔ دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں گویا کہ وسیع ترعالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ  جماعت اسلامی پاکستان کے نظم کا اور قانونی اور دستوری تعلق (link) نہیں ہے۔ آج بھارت‘ کشمیر‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جماعت کے نام سے کام ہو رہا ہے‘ فکر کی یکسانیت بھی ہے‘ لیکن طریق کار‘ حالات‘ ضروریات‘ دستور اور قیادت ہر مقام نے اپنے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ یہ مولانا کی عملیت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

  • جماعتی تشخص اور اشتراکِ عمل: اسلامی انقلاب اور اسلامی تبدیلی کے لیے عملی سطح پر اور میدانِ کار میں مولانا مودودیؒ کے ہاں ایک لچک‘ خودبینی اور وسعت پائی جاتی ہے‘ جس میں دوسرے ہم مقصد افراد اور عناصر سے تعاون کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں ۱۹۴۹ء میں سول لبرٹیز یونین کا قیام عمل میں آیا‘ تو اس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی۔ بعدازاں متحدہ حزب اختلاف (COP)‘ پاکستان تحریک جمہوریت (PDM)‘ جمہوری مجلس عمل (DAC)‘ متحدہ جمہوری محاذ (UDF) اور پھر پاکستان قومی اتحاد (PNA) کا قیام ہے۔ اس عمل میں مولانا مودودیؒ نے اپنی جماعت کے تشخص کو محفوظ رکھتے ہوئے‘ مشترک نکات پر دوسرے سیاسی‘ مذہبی اور سماجی عناصر کو ساتھ ملا کر چلنے کی مثال پیش کی ہے۔

مولانا مودودیؒ ہی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغازکیا۔ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ئ) کے وقت بلاشبہہ مولانا مودودیؒ، سنٹرل جیل ملتان میں تھے‘ لیکن اگر مولانا نے اسلامی قانون کے موضوع پر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج‘ میں تقریر نہ کی ہوتی‘ اور وہ چار نکاتی پروگرام پوری قوم کے سامنے پیش نہ کیاہوتا تو قرارداد مقاصدکبھی پاس نہ ہوتی۔ یہ مولانا کی فکر‘ وژن اور جدوجہد تھی‘ جسے قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم‘ مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کی کوشش سے ’قرارداد مقاصد‘ کا جو مسودہ پہلی دستورساز اسمبلی نے منظور کیا‘ یہ مسودہ اسمبلی میں پاس ہونے سے قبل ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کو دکھایا گیا اور ان کی رضامندی کے بعد ہی وہ اسمبلی کے فلور پر پیش اور پھر منظور ہوا تھا۔

۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری کے تاریخی لمحات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس سلسلے میں علما کی جو نشست ہو رہی تھی‘ اس میں راجہبھائی ]ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری[ ‘خرم بھائی اور میں ان بزرگوں کے خادم کی حیثیت سے شریک تھے۔ جب پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ مگر کسی کے سامنے یہ بات واضح نہیں تھی کہ ہم نتیجے پر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ان دھواں دھار تقاریر کے آخر میں مولانا ظفراحمد انصاری صاحب نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ اس طرح کی تقریروں میں تو ہم کئی دن صرف کر دیں گے اور کچھ نتیجہ نہیںنکل سکے گا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس اجلاس کو موخر کردیتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا میں سے ہر شخص تحریر کر دے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے سربراہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒہوں‘ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے میں ان تجاویز کی روشنی میں ایک مسودہ تیار کرلیتا ہوں‘ اور پھر اس مسودے پر بحث کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل کو منظور کرلیں گے‘‘۔ سب نے اس تجویز کو بڑا پسند کیا۔

ہر ایک عالم دین کو سادہ کاغذدے دیے گئے‘ بیش ترنے لکھا۔ سب سے طویل مضمون مولانا راغب احسن مرحوم نے لکھا‘ لیکن وہ مضمون لفاظی اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ ان سب کے برعکس مولانا مودودیؒ نے پنسل سے فل اسکیپ کا ڈیڑھ صفحہ لکھا‘ جس میں انھوں نے منطقی ربط کے ساتھ‘ بڑے اختصار اور جامعیت سے بھرپور نکات بنا کر دیے کہ یہ اور یہ چیزیں ہونی چاہییں۔ چنانچہ علما کے ۲۲نکات کی بنیاد وہی مسودہ بنا‘ تاہم آخری مسودہ مولانا ظفراحمد انصاریؒ نے اپنے قلم سے لکھا۔ مولانا انصاری مرحوم کا مسودہ کم و بیش مولانا مودودیؒ کی تحریرہی پر مبنی تھا۔ اس دوران مولانا سلیمان ندویؒ استراحت فرما رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انھوں نے دوتین جگہ جزوی ترمیم و اضافہ کیا۔ پھر اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں سب سے پہلے اس کو پورا پڑھا گیا‘ پھر ایک ایک نکتے کی خواندگی ہوئی اور بالکل جس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے سربراہوں کو حجراسود اٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب کرنے میں شریک کر لیا تھا‘ اس طرح اس شرکت سے الحمدللہ یہ نکات متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی مولانا مودودیؒ اور مولانا انصاریؒکا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔

جب علما کی دستوری ترامیم اور سفارشات آئیں تو اس میں متفقہ طورپر جو چیزیں مرتب ہوئیں ان میں بھی مولانا مودودیؒ کا سب سے زیادہ تعمیری اور تحریری حصہ تھا‘ تاہم اس میں دو‘تین اختلافی نوٹ بھی تھے اور وہ بہت معمولی نوعیت کے تھے۔ پھر جب ۱۹۶۱ء میں فیلڈمارشل صدر ایوب خاں کے زمانے میں متنازع فیہ عائلی قوانین کا آرڈی ننس (MFLO) آیا تو مولانا مودودیؒؒ ہی نے اس پر تنقید لکھی اور اس تنقید پر علما نے دستخط کیے‘ اور سب کی طرف سے وہ تنقید قوم کے سامنے آئی۔ اسی طرح ایوب خان کے دستوری کمیشن کے سوال نامے کا جواب بھی مولانا مودودیؒ نے لکھا‘ اور پھر تمام علما اور سیاست دانوں نے اس کو دیکھا اور اس کو اپنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی صلاحیت دی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کے مختلف سنگ میل ہیں اور ان میں سے ہرسنگ میل پر مولانا مودودیؒ کا نام اور کام ثبت ہے۔

  • جمہوریت پسندی:خاص طور پر دینی حلقوں میں بھی اور پھر سیاسی حلقوں میں بھی ایک روایت بن چکی ہے کہ دینی حلقوں میں گدی اور سیاست میں بھی قیادت موروثی چلتی ہے۔ اور تو اور خود اب امریکہ میں بھی بڑے بش کے بعد چھوٹا بش برسرِاقتدار ہے۔ اس فضا اور رواج میں مولانا نے قیادت میں تبدیلی کی مثال قائم کی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے قیام کے فوراً بعد فرمایا: ’’مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں‘ بلکہ میں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت‘ اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اٹھانے کے لیے مل جائے… نیز ہمیشہ ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پا لیا ہے تو وہ اسے اپنا امیر منتخب کرلے۔ ان شاء اللہ‘ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا‘‘۔ (روداد جماعتِ اسلامی ‘اول‘ ص۳۳)

اس کے بعد دستور میں درج مستقل نظام کے تحت متعین وقت پر انتخاب امیر کے لیے انتخابات منعقد کرائے۔ پھر جب ۱۹۷۲ء میں انھوں نے محسوس کیا کہ اب صحت اس ذمے داری کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی توانھوں نے رفقا ے جماعت سے کہا: اب آپ میری زندگی میں اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں جماعت نئے امیر پر مجتمع ہوجائے‘‘۔ یہ ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ جس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی جاگیر قائم کرنا چاہتا ہو‘ گدی قائم کرنا چاہتا ہو‘ یا سیاست میں اس کا کوئی ذاتی مشن ہو‘ وہ کبھی ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتا۔ سچی بات ہے کہ جماعت کے لیے زندگی‘ تطہیر‘ قیادت‘ شورائیت اور صحیح راستے پر قائم رہنے کے لیے اس مثال میں بڑی عظیم رہنمائی موجود ہے جسے سید مودودیؒکی تاریخ ساز اور عہدآفریں شخصیت نے پیش کیا۔

  • شورائیت اور اجتماعی اجتہاد: مولانا کی حکمت کار میں ایک بڑی اہم چیز رچی ہوئی ہے اور وہ ہے مشورے‘ اجتماعیت‘ اختلاف راے اور بحث و مباحثے کی آزادی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا نے خود اجتہاد کے بارے میں بھی کئی بار کہا ہے کہ اس کے لیے شوریٰ کا نظام اور اجتماعی اجتہاد کی سبیل پیدا ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ آج کے دور میں کسی ایک فرد کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ ان تمام علوم پر جامع انداز سے گرفت رکھتا ہو‘ جو روز مرہ اور عصرِحاضر میں   پیش آمدہ امور پر فقہی چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ایک فرد سے یہ نہیں ہوسکتا توپھر اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف صلاحیتیں رکھنے والے افراد مل کرباہم مشاورت اور افہام و تفہیم (interaction) سے معاملات کو طے کریں۔

علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مولانا مودودیؒ بھی اس میں بہت گہرائی تک گئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے عصری تجربات‘ خصوصیت سے پارلیمنٹ کے وجود‘ انتخابی عمل‘ دستوری انداز‘ قانون سازی کے اسلوب‘ عدلیہ کی آزادی اور افراد کی آزادی اور حقوق--- غرض ان تمام چیزوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر اسلامی راسخ العقیدگی اور قرآن و سنت سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے  نہ صرف دوسروں کو ان پر کاربند ہونے کا نہ صرف راستہ دکھایا‘ بلکہ خود بھی انھیں قبول کر کے دکھایا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا یہ حرکی اور لچک دار رویہ‘ عصرحاضرکے مسائل و معاملات میں ہوا کا تازہ جھونکا اور فکرودانش کے گلستان کا بہار آفریں منظر پیش کرتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایک منفرد علم الکلام   دیا ہے۔ اسی ذیل میں مولانا مودودیؒ نے مسلم تاریخ کا محاکمہ (critique) لکھا ہے جو   محض محاکمہ نہیں ہے‘ بلکہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک منفرد اسلوب اور زاویہ ہے۔ مولانا مودودیؒ تجدید و احیاے دین‘ خلافت و ملوکیت‘ سلاجقہ اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے علاوہ تفہیم القرآن کے اوراق میں ہمیں رہنمائی دیتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کو کیسے دیکھنا چاہیے اور ہم اس کی تعبیر کیسے کریں؟ ہم محبت یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہونے کے بجاے اپنے اندر عدل کی حس کو بیدار کریں۔ تاریخ کے اوراق اور ادوار میں تعمیروتخریب‘ اطاعت و انحراف‘ ظلم اور عدل‘ سنت اور بدعت کی موجودگی ہمیں نظرآئے‘ تاکہ ہر موقع پر کھلے ذہن کے ساتھ  قوسِ قزح کے سب رنگ دیکھے جا سکیں۔ جہاں کہیں بنیادی اصول میں کوئی ایسا انحراف نظرآئے جو محل نظر ہو‘ یا قرآن و سنت کے مزاج سے مناسبت نہ رکھتا ہو‘ تو پھر اس پر تنقید بھی ہوسکے اور اس کی تصحیح بھی۔ اس کو مولانا مودودیؒ کے علم الکلام کا ایک حصہ تصور کیا جائے‘ یااپنی جگہ ایک مستقل علمی کارنامہ‘ بہرحال یہ بھی مولانا کی ایک بڑی شان دار اور ناقابلِ فراموش خدمت ہے۔

اسلامی انقلاب کا ایک منفرد ماڈل

یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فکر بھی دی اور فکر کے ساتھ سوچنے کا اسلوبِ بھی دیا۔انھوں نے اُمت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کا مشن متعین کیا‘ اس کے لیے اسے بیدار کیا اور آگاہ کیا کہ ہم محض معاشی ترقی حاصل کرنے والی ایک قوم نہیں ہیں‘ بلکہ ہم ایک صاحبِ مشن اور صاحب شریعت قوم ہیں۔ اس صاحبِ مشن قوم کو ملکی اور پھر عالم گیر سطح پر کامیاب کرانے کے لیے حکمت کاراور حکمتِ عملی کو پیش کیا۔ اسی حکمت کار کا ایک حصہ جماعت اسلامی کا قیام ہے جس میں فکر ہے‘ اور عمل کا وسیع دائرہ ہے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کا بالکل نیا ماڈل دیا‘ اور نہ صرف ماڈل دیا‘ بلکہ اس کے اوپر عمل کرکے بھی دکھایا۔

مولانا کے علمی کام میں سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن ہے۔ تجدید و احیاے دین کے تصور میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات خود مولانا نے مجھ سے فرمائی ہے: ’’جب جماعت قائم ہوئی تو اس کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس جماعت کا تعلق قرآن سے قائم کروں اور جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا ہے‘ اسے اس طریقے سے بیان کروں کہ جماعت اور پوری قوم قرآن کی روشنی کے دائرے میں آجائے‘ اور وہ قرآن سے تعلق قائم کرکے اس میں شریک ہو سکے‘ تاکہ جو تبدیلی میرے پیشِ نظر ہے اور جس کا ماخذ‘ جڑ اور بنیاد قرآن ہے اس تک رسائی حاصل کی جاسکے‘‘۔ یہ وہی کام ہے جو شاہ ولی اللہ مرحوم نے اپنے دور میں کیا۔ اس طرح مولانا کی احیائی فکر کے اندر تفہیم ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیم کی شکل میں جتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کے ذریعے اس دور میں اس اُمت کو دی ہے‘ اس پر اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ تفہیم القرآنمولانا کے فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدابہار کارنامہ (ever-lasting) ہے۔ یہ مولانا کے علم الکلام کا بھی بہترین مرقع ہے۔ اس میں مولانا کی چند اوّلیات بھی ہیں جن میں ترجمے کی جگہ ترجمانی‘ ہر سورہ کا مقدمہ اور پھر ترجمے میں پیراگراف بندی قابلِ ذکر ہیں۔۱؎

مولانا کے فکری اور علمی اثاثے میں ایک اور چیز ان کے ہاں پائی جانے والی تازگی اور تخلیقیت (originality) ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اور ماضی کے لکھنے والوں سے بھی استفادہ کیا‘ لیکن وہ دوسروں کے خیالات کے اسیر نہیں بنے‘ بلکہ جس طرح ایک صحت مند انسانی جسم‘ غذا کو ہضم کر کے نیا خون بناتا ہے‘اسی طرح اپنے دور اور ماقبل کے افکار سے استفادہ کر کے انھوں نے قرآن و سنت کے فہم کی روشنی میں خود تشکیلِ نو کا کام انجام دیا ہے۔

اس سلسلے میں ان کا ایک اور منفرد کارنامہ اسلام اور جاہلیت کے مابین فرق کو واضح کرنا ہے جس کے آئینے میں وہ انسانیت کی پوری تاریخ میں برپا معرکے کو پرکھتے ہیں۔ دورحاضر میں جن مفکرین نے بھی ’جاہلیت‘ کے تصور پر کلام کیا ہے‘ انھوں نے یہ کام مولانا مودودیؒ ہی کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں کیا ہے۔ مولانا کی فکر میں جاہلیت ‘علم کے معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسانی زندگی--- فکروعمل کو منظم و مرتب کرنے کے مثالیہ(paradigm) سے عبارت ہے۔ اسلامی فکر کی تفہیم اور حق و باطل کی تاریخی کش مکش کو سمجھنے کے لیے مولانا کا یہ تصور ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ان کی ایک نہایت بنیادی کتاب ہے جس میں انھوں نے قرآن کی بنیادی اصطلاحات الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین کا صحیح مفہوم اخذ اور متعین کرکے ایک قسم کی شاہ کلید فراہم کردی ہے‘ جس سے پوری اسلامی فکر کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ہمیں قرآن فہمی کے لیے ایک روشن اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کے بارے میں بھی بڑا متوازن رویہ اختیار کیا۔ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں اگر ایک طرف مغرب کے مکمل استرداد (rejection) کا رویہ پایا جاتا تھا تو دوسری جانب عملاً آنکھیں بند کر کے سپرڈالنے اور معذرت خواہانہ انداز میں دین کی توجیہہ کرنے والے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب‘ اس کے اصولوں‘ اس کی بنیادوں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا اور تقلید یورپ اور اندھی غلامانہ ذہنیت کو مسترد کر دیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ مغرب میں ہر چیز غلط نہیں اور اس کی ترقی کے کچھ حقیقی (genuine) اسباب ہیں۔ ان اسباب سے صرفِ نظر کر کے محض اندھی مخالفت کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ مغرب سے مرعوبیت‘ اس کی فکری بنیادوں کو بلاتنقید قبول کر لینا اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا رویہ نہ عادلانہ ہے اور نہ عاقلانہ۔ مولانا مودودیؒ نے درمیان کا راستہ نکالا۔ دیگر علما اور مولانا مودودیؒ میں یہی بنیادی فرق ہے۔

مولانا کے ہاں جو بالغ نظری‘ مغربی تہذیب کا فہم اور حقیقت پسندانہ طریق کار ہے‘ اسی وجہ سے عصرِحاضر میں تحریک اسلامی نے مسائل کو حل کرنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ رویہ صرف مغربی تہذیب کے بارے میں اختیار نہیں کیا‘ بلکہ مسلمانوں کی فکریات کے بارے میں بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی انھوں نے حنفی مکتب فکر کو ترجیح دی اور قبول کیا ہے۔ عبادات میں اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ معاملات کی حد تک ان کا ذہن یہی تھا کہ چاروں مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور خصوصیت کے ساتھ جدید معاملات اور مسائل کا حل نکالنے کے لیے ان کے دائرے کے اندر جو رہنمائی جہاں سے بھی میسر آئے‘ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ان مسلمہ مکاتب فکر میں سے کسی کو مسترد یا باطل قرار نہیں دیا‘ بلکہ اِن کے ہاں اس علمی اور عملی اختلاف راے کو محترم تصور کرنے کا رویہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے شیعہ مکتب فکر سے بھی تہذیبی حد تک ربط رکھا اور اُمت کی وحدت کے لیے کوشاں رہے۔

اسی تسلسل میں اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے ان کے ہاں ایک خاص انداز فکر پایا جاتا ہے‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد بہرحال اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کے مفادات کی بنیاد پر اگر آپ یہ کوشش کریں گے توکامیابی محال ہے۔ مفادات کا ایک جائز مقام ہے‘ لیکن مفادات‘ اسلامی مفاد اور تشخص کے تابع ہونے چاہییں۔ اس اتحادکی کوئی ایک لگی بندھی شکل نہیں ہے۔ جیساکہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ایک قسم کی مسلم دولت مشترکہ ہوسکتی ہے جس میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھتا رہے اور بالآخر کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم چیز بن سکے۔ اس سلسلے میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم کی ’تضامن اسلامی‘ کی تحریک اور پہلے مسلم سربراہی اجتماع ]رباط‘مراکش -۱۹۶۹ئ[ کے موقع پر اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جو  نقشۂ کار انھوں نے پیش کیا‘ وہ ایک تاریخی دستاویزہے‘ جس میں نظریاتی اتحاد اور عملی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے موثر تدابیر اور انتظامات کی نشان دہی کی گئی۔

اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے‘ بلکہ عملی اور فکری سطح پر اُن کی نگاہ‘ بلاتخصیصِ رنگ و نسل اور بلاتفریق مشرق و مغرب‘ تمام انسانوںپر رہی ہے۔ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے‘ تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے اور دنیا بھر کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے اور نظامِ عدل      قائم کرنے کی جہانی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تہذیبی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر مولانا مودودیؒ کے مثالی اسلوبِ کار کا تجزیہ کریں تو اسے عالم گیریت یا آفاقیت پر مبنی اسلوبِ کار کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی فوزوفلاح‘ بہبود اور ان کی نجات ہے۔ اسی طرح اللہ سے انسانوں کے رشتے کو جوڑنا اور انسانوں کے درمیان انصاف اور اخوت کی بنیاد پر معاشرتی‘ معاشی اور بین الاقوامی معاملات کوحل کرنا ہے۔ جو افراد مولانا مودودیؒ کے افکار کے صرف کسی ایک جزو کو لیتے ہیں‘ تو ان کے ہاں الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر مولانا کی پوری فکر کو لیا جائے تواس کی حیثیت ایک ایسے گلدستے کی سی ہے جس کے سارے پھول اپنے اپنے مقام پر ہیں‘ اور اس گلدستے کی تصویر اُبھرتی ہی اس کے مجموعی (macro) وجود سے ہے۔

مولانا مودودیؒؒ بہرحال ایک انسان تھے اور ماسوا انبیاے کرام‘ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒؒ نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس زعم میں رہے کہ ان کی راے ہی صحیح ہے۔ اس کے برعکس ہمیشہ انھوں نے مکالمے اور بحث کو پسند کیا‘ اختلاف کو دبایا نہیں۔ اس بات کا نہ صرف اظہار کیا‘ بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا۔ کسی موقع پر اگر ان کی کسی غلطی یا دلیل کی کوئی کمزوری سامنے لائی گئی تو انھوں نے کھلے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا۔ ان کی کتاب رسائل و مسائلکا مطالعہ کریں تو اس میں ایک نہیں‘ دسیوں مقامات ہیں جہاں مولانا نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ کسی صاحبِ علم کے متوجہ کرنے پر انھوں نے مسئلے یا معاملے کو چھپایا نہیں‘اس کی تصحیح کی ہے اور اس تبدیلی کو خود ریکارڈ کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ اپنے فکری ارتقا میں‘ دورِصحافت سے دورِ تصنیف کی طرف اور پھر    دورِ اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے‘ جن کی مناسبت سے انھوں نے غورو فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر‘ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت‘ علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی کی بنا پر‘ برسوں نہیں‘ صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی---!

اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو شرفِ قبولیت اور فیضانِ عام بخشے اور ہمیں     ان کے مشن کو صحیح خطوط پر آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین!

موت‘ توسب ہی کا مقدر ہے لیکن مرنے کے بعد بھی زندہ وہ رہتے ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور خیروفلاح کے فروغ کے لیے شب و روز صعوبتیں جھیلتے‘دشمنوں کے وار سہتے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے تاریکیاں چھٹیں‘ ماحول روشن ہو اور انسانوں کی زندگی اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے لیے دنیوی اور اخروی فلاح کے حصول کی جدوجہد کی تابناکی سے معمور ہوسکے۔ یہ نفوس قدسیہ زمین کے نمک‘ اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کے کارنامے مشعل راہ اور ان کی زندگی روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ راہ آنے والوں کے لیے سنگ میل ہوتے ہیں‘ اور اس طرح وہ مرکر بھی شہیدوں کی طرح زندہ ہی رہتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک گوشے میں جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو ایسے ہی ایک ۸۳سالہ مرد مجاہد نے عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرح سفر کیا اور اس شان سے کیا کہ اپنے اور غیر‘ سب پکار اٹھے کہ اس نے اپنے رب سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۱؎ یہ مرد مجاہد عالمِ عرب کی سب سے اہم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام محمد مامون الہضیبی تھا--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

بیسویں صدی میں اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے نمایاں انعام  عالمِ عرب میں حسن البنا شہیدؒ اور ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی تحریک        اخوان المسلمون‘ اور برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی تحریک جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ ان تحریکوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کو غلبۂ حق کی جاں گسل جدوجہد میں زندگی کا لطف پانے کا سلیقہ سکھا دیا۔

محمدمامون الہضیبیؒ نے ایک ایسے گوشے میں آنکھ کھولی جو علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کا گہوارا تھا۔ ان کے والد حسن الہضیبیؒ ایک نامور قانون دان اور اخوان المسلمون کے دوسرے مرشدعام ]۷۳-۱۹۵۱ئ[ تھے‘ جن کو حسن البنا شہیدؒکی جا نشینی کا شرف حاصل ہوا اور جنھوں نے تحریک کے مشکل ترین دور میں اس کی قیادت کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس خاندان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حسن الہضیبیؒ کی گود میں پلنے والا مامون‘ اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام منتخب ہوا‘ گو اسے یہ خدمت انجام دینے کے لیے مہلت صرف ۱۴ مہینے کی مل سکی۔

محمد مامون الہضیبیؒ ۲۸ مئی ۱۹۲۱ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے مصر کی عدالت استغاثہ (appellate court)میں بحیثیت جج تقرر حاصل کیا۔ وہ یہ خدمت ۱۹۶۵ء تک انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۵ء میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن نہ ہوتے ہوئے بھی ان کو پوری بے دردی سے جیل میں پھینک دیا گیا اور وہ چھے سال قیدوبند اور ظلم وتشدد کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے‘ اور اس دور میں تزکیہ نفس‘ روحانی ارتقا اور تحریکی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں رِہا ہوئے اور جلد ہی باقاعدہ رکنیت اختیار کرکے تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ الاستاذ عمرتلمسانیؒ (تیسرے مرشدعام: ۸۶-۱۹۷۳ئ) الاستاذ حامدابونصرؒ (چوتھے مرشدعام: ۹۶-۱۹۸۶ئ) اور مجاہد کبیرمصطفی مشہورؒ (پانچویں مرشدعام: ۱۹۸۶ئ-۲۰۰۲ئ) کے زمانے میں اخوان کے ترجمان (spokesman) اور پھر نائب مرشدعام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور نومبر ۲۰۰۲ء میں مصطفی مشہور کی وفات کے بعد چھٹے مرشدعام منتخب ہوئے۔    مامون الہضیبیؒ کو ۱۹۷۱ء میں رہائی کے بعد ان کے عہدہ قضا پر بحال نہیں کیا گیا۔ تقریباً ۱۰سال انھوں نے سعودی عرب میں بحیثیت قانونی مشیر صرف کیے اور ۱۹۸۷ء میں مصر کی پارلیمنٹ میں سرکاری مخالفت کے باوجود آزاد امیدوار مگر عملاً اخوان کے نمایندے کے طور پر منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پھر منتخب ہوئے اور وفات کے وقت تک حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔

مجھے محترم مامون الہضیبیؒ سے پہلی بار ملنے کا موقع ۱۹۷۴ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایک اہم تحریکی سلسلے میں برادرم خلیل احمد حامدیؒ کے ہمراہ پہلی بار قاہرہ گیا۔ شیخ عمر تلمسانیؒ (مرشدعام) سے بھی اس موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس وقت مامون الہضیبیؒ صرف ایک پختہ کار قانون دان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تحریک میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس سیف الاسلام (حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے) اپنی نوجوانی کے باوجود اس وقت بھی توجہ کامرکز تھے۔ پھر ۱۹۸۵ء میں اور اس کے بعد دسیوں بار قاہرہ‘ استنبول‘ انگلستان اور    نہ معلوم کہاں کہاں ان سے ملنے اور گھنٹوں مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔

مامون الہضیبیؒ بڑے دھیمے مگر موثرانداز میں اپنی بات پیش کرتے تھے۔ انگریزی میں بھی اپنا مافی الضمیرخوش اسلوبی سے ادا کر لیتے تھے۔ دینی امور پر مجھے اُن سے زیادہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن سیاسی اور تحریکی معاملات پر میں نے ان کی فکر کو بہت واضح‘ پختہ اور سلجھا ہوا پایا۔ وہ جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے سختی سے حامی تھے اور سیاسی نظام اور عمل (process)کو تحریک اسلامی کے ایک اہم موثر میدانِ کار کے طور پر استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تقریر میں منطقی ربط اور ٹھوس مواد ہوتا تھا اور وہ دلیل سے قائل کرنے اور دلیل سے قائل ہونے کی روایت کو مستحکم کرنے پر ہمیشہ کاربند رہے۔ مجھے ان کے ساتھ مصرکی پیشہ ورانہ تنظیموں کے اجتماعات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپوں (مخیّم) میں بھی۔ میں نے ہرموقع پر ان کو صاحب الرائے اور توازن و اعتدال پر قائم پایا۔ وہ شوریٰ کے آدمی تھے اور ان کے ساتھ بحث و گفتگو ہمیشہ فکرکشا ہوتی تھی۔

اخوان کا ابتدائی دور برطانوی استعمار سے کش مکش کا دور ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کش مکش اور جہاد (خصوصیت سے فلسطین کے محاذ پر) کا بھی بڑا نمایاں دخل ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا اور آزمایش کا دور ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک چل رہا ہے۔ لیکن شیخ عمرتلمسانی ؒکے دور سے سیاسی نظام کے اندر دستوری اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کا منہج آہستہ آہستہ نمایاں ہوتا گیا اور تقویت پاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر تقویت اور رواج دینے میں محمدمامون الہضیبیؒ کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ مرشدعام منتخب ہونے کے بعد مامون الہضیبیؒ ہرہفتہ اخوان    کے ہفت روزہ بلیٹن میں مضمون لکھتے تھے اور ان کی ان تحریروں کا نمایاں پہلو ان کا دین کے گہرے نہج کے ساتھ مصر اور دنیا کے حالات اور تحریک اسلامی کو درپیش مسائل اور معاملات کا حقیقت پسندانہ ادراک تھا۔

اگرچہ ان کی شخصیت کے اور بھی ایمان افروز پہلو ہیں‘ لیکن اب سے چند ماہ پہلے جب میں نے اسلامی تحریکوں سے وابستہ بزرگوں اور دوستوں کو خط لکھا کہ‘ مولانا مودودی مرحوم کی  یاد میں ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کے لیے مضمون لکھیں‘ تو دنیا بھر میں جس فرد نے  سب سے پہلے‘ اور میرا خط ملنے کے آٹھویں روز مضمون عطا فرمایا‘ وہ محمد مامون ہی تھے۔ ’’اشاعت خاص‘‘ میں قارئین نے وہ مضمون ملاحظہ کیا ہوگا۔ عمر‘صحت‘ مصروفیات اور عرب مسلم دنیا پر امریکی یلغار کی اس فضا میں ایسا تجزیاتی اور محبت بھرا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودیؒ سے کتنی عقیدت اور ان کے بارے میں کتنی گہرائی سے معلومات رکھتے تھے۔

اخوان کی تحریک کا ایک بڑا نمایاں پہلو قرآن سے شغف‘ باہمی محبت و الفت اور انسانی تعلقات میں گرمی اور مٹھاس کا عنصر ہے۔ مامون الہضیبیؒ کے ۳۰ سالہ دور میں جو نقش سب سے نمایاں ہے‘ وہ ان کا ذاتی تعلق اور اپنائیت کا رویہ ہے‘ جو دل کو موہ لینے کا باعث ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے لیکن ان کا مقام میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے دل میں ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل اور ان کے نہ ختم ہونے والے فیضان کی نشانی ہے     ؎

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو

درسینہ ہاے مردمِ عارف مزارِ ماست

جب ہمارا انتقال ہو جائے تو ہماری قبر زمین میں تلاش نہ کرو‘ ہمارا مزار اہل معرفت کے دلوں میں ہے۔

بلاشبہہ خالد اسحاق نے قانون کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور دستوری اور قانونی امور پر ان کی نگارشات‘ مقدمات اور بیانات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ان کی رہنمائی میں اچھے قانون دانوں اور ججوں کی ایک ٹیم بھی ہماری عدالتوں کی زینت ہے۔ لیکن میری نگاہ میں ان کی اصل شناخت اسلام سے ان کی گہری وابستگی اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش اور کاوش ہے۔ وہ بڑے پائے کے قانون دان تھے۔ اللہ بخش بروہی اور خالد اسحاق اپنے اپنے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں اور برسوں یاد کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں آیندہ بھی اچھے وکیل اور کشادہ ذہن مفکرین کی کھیپ تیار ہوتی رہے گی‘ لیکن جو چیز خالد اسحاق کو سب سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری اور فکر کے عمق اور وسعتوں کے ساتھ اسلام سے گہری وابستگی‘ اس کے پیغام کا فہم اور انسانی فکر میں اسلام کی مرکزیت کا شعور ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اس مشن کے لیے خلوص‘ دیانت اور محنت سے جدوجہد کی ایک تابناک مثال قائم کی۔

خالد اسحاق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ ان کے والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر    فائز تھے‘ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اُردو‘ پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی‘ بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم اے عربی زبان میں تھا۔

۱۹۲۶ء میں پیدا ہونے والے اس ہونہار بچے نے ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مغربی پاکستان کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ۱۹۶۳ء میں ہمار ی تاریخ کا سب سے نوعمر ایڈووکیٹ جنرل بنا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے شعبہ قانون سے کئی برس وابستہ رہے اور قانون کی اسلامی تشکیلِ نو کے سلسلے میں تحقیق اور نگران  کی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی دو بار رکن بنے اور سیکڑوں قومی اور    بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ ان کا رویہ خود اعتمادی اور ان کے فکر کا منہج قرآن سے وفاداری کے ساتھ دورِ جدید کے مسائل اور افکار کی روشنی میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا تھا۔ دینی امور کی تعبیر میں ان کی آرا سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا‘ لیکن ان کو کبھی اسلا م کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اللہ‘ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ہے۔

مجھے خالد اسحاق سے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں ملنے کا موقع ملا اور یہ بھی ہمارے مشترک دوست اور اس وقت کے (یعنی ایوبی دور کے) قومی تعمیرنو بیورو کے نائب ڈائرکٹر مجیب انصاری مرحوم کے توسط سے ہوا۔ ماہ نامہ چراغِ راہ ہمارے اس ابتدائی تعارف کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ تعلق دوستی اور اخوت کی سمت بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں آگئے اور ان کے ساتھ خالداسحاق سے روز و شب ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں گرما گرم بحثیں ہوتیں اور یوں اتفاق اور اختلاف کے ساتھ یہ تعلقات بتدریج گہرے ہوتے گئے۔

خالد اسحاق کے کردار کا سب سے متاثر کن پہلوان کی سادگی اور صاف گوئی تھی اور اختلاف کے باوجود ان کے ہاں برداشت کا وصف تھا۔ اس زمانے میں ان پر غلام احمد پرویز کے بھی اثرات تھے اور ان سے ذاتی تعلقات بھی تھے لیکن وہ پرویزکے ہم قافلہ کبھی نہ تھے۔چند موضوعات کو چھوڑ کر ان کی اسلامی فکر ‘توازن کا بہترین امتزاج تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور خدمات کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے دل سے قائل تھے‘ اگرچہ چند امور پر ان کے اپنے تحفظات تھے۔ جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں پیش ہوا۔ خالداسحاق نے ایڈووکیٹ جنرل ہوتے ہوئے بھی اس کیس میں حکومت کے موقف کی تائید سے اجتناب کیا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ سرکار کے وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں یا استغاثہ کا ‘ تو انھوں نے جرأت ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف مظلوم کو ظالم ثابت کرنے سے انکار کردیا۔

انگلستان کے قیام کے دوران بھی میرا ان سے گہرا ربط رہا۔ اسلامک کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم سے ہم نے جن دسیوں بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا‘ وہ شریک ہوئے۔ انٹرنیشنل ڈیکلرنس آف اسلامک ہیومن رائٹس جس کا اعلان یونیسکو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا‘ اس کے مرتب کرنے میں انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اسلامی معاشیات پر ہمارے پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ مگر مجھے یہ قلق ہے کہ آخرِ عمر میں ربا کے مسئلے پر وہ کچھ اشکالات کا شکار ہوگئے‘ ورنہ ہم نے بڑی ہم آہنگی سے اسلام کی معاشی حکمت عملی اور خصوصیت سے عدل اجتماعی کے قیام کے لیے اسلام کے کردار پر مل کر کام کیا۔

خالد اسحاق اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں کو بالکل شروع ہی سے میں نے نماز کے معاملے میں بڑا ہی باقاعدہ اور مضبوط پایا۔ بیرونی کانفرنسوں میں‘ حتیٰ کہ ان کانفرنسوں میں بھی‘ جن کا اہتمام مغربی ادارے کرتے تھے‘ انھوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور ہر محفل میں اسے وقت پر ادا کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ اپنے دین پر اعتماد اور اپنے طریقے کے بارے میں معذرت خواہانہ رویوں سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔

خالد اسحاق صاحب کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا‘ اور شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثرکن تھی‘ وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بہت سے غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔   اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین!

خالد اسحاق کی لائبریری بھی ایک افسانوی اور مثالی (legendary) حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے اس لائبریری کو ایک کمرے سے بڑھ کر کئی کوٹھیوں اور فلیٹوں تک پھیلتے ہوئے  بچشم سر دیکھا ہے۔ کتاب خالد اسحاق کی بہترین رفیق اور اصل جذبہ یا خبط (passion)تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ۲لاکھ سے زاید کتب ان کے کتب خانے میں تھیں اور بلاشبہہ یہ پاکستان میں سب سے بڑی نجی لائبریری تھی۔ اے کے بروہی صاحب کے پاس بھی بڑی اچھی لائبریری تھی مگر کتب کی تعداد۴۰ یا۵۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ میری اپنی لائبریری میں بھی پاکستان اور لسٹرمیں ملا کر۲۵ ہزار تک کتابیں ہیں‘ لیکن خالد اسحاق اس معاملے میں ہم سب سے آگے تھے بلکہ شاید پوری مسلم دنیا میں سرفہرست تھے۔

خالد اسحاق کے گھر منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشست بھی کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ تھی۔ فضل احمد کریم فضلی نے ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی تھی اور خالداسحاق نے ہفتہ وار علمی نشست کی۔ یہ وہ ثقافتی روایت تھی جو کبھی برعظیم کی مسلم ثقافت کی پہچان تھی۔ کاش! دلی کے آخری مشاعرے کی طرح خالد اسحاق کی علمی محفل خواب و خیال نہ ہو جائے۔

خالد اسحاق نے جو خدمات ۱۹۷۳ء کے دستورسازی کے دور میں اور پھر ۱۹۷۶ء میں پاکستان قومی اتحاد (PNA)کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں ادا کیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ وہ اور جناب عامر رضا ایڈووکیٹ اصل قانونی دماغ تھے‘ جس کا توڑ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ کر سکی۔

خالداسحاق نے بڑے قیمتی مضامین لکھے ہیں۔ غالباً کتابیں تو ان کی دو تین ہی شائع ہوئی ہیں۔ Constitutional Limitation اور Islamic Principles of Economic Management  ان میں نمایاں ہیں لیکن ان کے مضامین بلاشبہہ کئی سو ہونے چاہییں۔ ان کے احباب کا فرض ہے کہ ان کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ ان کی لائبریری کی حفاظت کے لیے قومی سطح پر اقدام کیا جائے تاکہ یہ صدقہ جاریہ ضوفشاں رہے۔ ان کی زندگی اور کارناموں کو نئی نسل سے روشناس کرایا جائے ‘ اس لیے کہ وہ بلاشبہہ ایک نمونے کی حیثیت (role-model) کا درجہ رکھتے ہیں۔

خالداسحاق ۹ فروری ۲۰۰۴ء کو ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن وہ اپنے افکار‘ اپنی خدمات اور اپنی یادوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے کہ بقول میرؔ    ؎

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

جو کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

جنرل پرویز مشرف نے بالآخر ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرکے وہ دستوری قرض اتار دیا جو ۱۴ماہ سے ان پر واجب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے سہارے اس ذمہ داری کی ادایگی سے مسلسل گریز کرتے آرہے تھے--- کبھی اسمبلی کو ’غیرمہذب‘ گردان کر اور کبھی اس دستوری ضرورت کو غیرضروری بتلا کر--- یا شاید سب سے زیادہ ایک مجرم ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ جس ریفرنڈم پر ان کے قصرصدارت کی دیواریں اٹھائی گئی تھیں اس کی اصل حقیقت سے خود ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ لیکن اللہ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ شاید اس تاخیر کے ذریعے قدرت کو سب کو یہ یاد دہانی کرانا مطلوب ہو کہ جب تک ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان کی صدارت کو کسی نہ کسی درجے میں سندجواز میسرنہ آجائے‘ پارلیمنٹ کی تکمیل اور سیاسی عمل کا حقیقی اجرا نہ ہو سکے گا۔ شکر ہے کہ یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جنرل صاحب اور ان کے رفقاے کار نے دستوری بحران کے اس جاں گسل دور سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اور کیا وہ فی الحقیقت ایک نئے اور صحیح معنی میں جمہوری اور دستوری عمل (process)   کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟یا اس سب کے باوجود حسب سابق فوج کی کمین گاہ میں بیٹھ کر ہی    کاروبارِ سیاست و حکومت چلانے پر مصر رہیں گے؟ کیا وہ کابینی حکومت کے صدر کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں یا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتے ہوئے بھی اسی حیثیت کے تسلسل کا ڈراما رچانا چاہتے ہیں؟

یہ خطاب ان کے لیے ایک آزمایش اور امتحان ہی نہ تھا بلکہ ان کو ایک تاریخی موقع بھی فراہم کر رہا تھا جس کے ذریعے وہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید قوم کو سنا سکتے تھے۔ لیکن ہم بڑے تاسف سے اس حقیقت کااظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑے نادر موقع کو ضائع کر دیا اور ایک ایسی گھسی پٹی اور بے جان تقریر کا اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کر لیا جو نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے‘ نہ پارلیمانی روایات کی امین ہے اور نہ اس تبدیلی کی نوید اپنے دامن میں رکھتی ہے جس کی قوم منتظر تھی مگر  ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

دستور کی دفعہ ۵۶ (۳) کے مطابق قومی اسمبلی کے ہر نئے انتخاب اور پارلیمنٹ کے ہر نئے سال کے آغاز پر صدرمملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرے۔ اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ صدر‘ کابینہ کے ایما پر اس خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی پالیسی اور نقشہ کار کو رکھے جس پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو اور اس طرح    سال بھر کے کام کا ایک واضح پروگرام وجود میں آسکے۔ بالعموم اس خطاب کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ایک حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارگزاری کا جائزہ‘ دوسرے سالِ رواں کے درپیش مسائل کے بارے میں حکومتی موقف اور تیسرے سال کے دوران پارلیمنٹ کے کرنے کے کاموں کی نشان دہی بشمول قانون سازی۔ جنرل صاحب کی ۳۵ منٹ کی اس تقریر میں ’در مدح خود می گوید‘ کے کچھ سُر اور تال تو ضرور موجود ہیں‘ اسی طرح کچھ وعظ اور پندونصیحت کی نوع کی باتیں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زعم میں کچھ چیلنجوں کی بھی انھوں نے نشان دہی فرمائی ہے‘ لیکن جمالی حکومت کی کارکردگی‘ آیندہ کے منصوبے‘ بنیادی امور کے بارے میں پالیسی اور سال بھر کی قانون سازی کا پروگرام‘ ان سب کے ذکر سے وہ خالی ہے۔ گویا     ؎

ہم گئے تھے عرض کرنے مدعا

اور عرض مدعا ہی رہ گیا

سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس بات کو انھوں نے درپیش چیلنجوں کا نام دیا ہے وہ دراصل بیرونی دنیا کے اعتراضات اور شاہکار الزامات ہیں جنھیں نہ معلوم کس خوف یا مصلحت سے انھوں نے کسی محاسبے اور نقدوجائزے کے بغیر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دیا ہے اور ان کا بھرپور جواب دینے سے کلی اجتناب کرکے دنیا کے سامنے اپنے قومی موقف کے اعلان کا ایک سنہری موقع انھوں نے گنوا دیا ہے۔ ان کے جن مشیروں نے بھی ان کے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے ‘اس سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۷ ویں ترمیم کے سلسلے میں اپنے تحفظات کے باوصف متحدہ مجلسِ عمل نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے سارے شور شرابے کے باوجود اے آرڈی اور دوسری جماعتیں جس طرح اب کم از کم پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوگئی تھیں‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ایک قومی مفاہمت کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ موقع تھا کہ جنرل صاحب    بالغ نظری کے ساتھ وسعت ِ قلب کا مظاہرہ کرتے اور قوم کو بیرونی حالات اور اندرونی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے کی طرف بلاتے۔ دل بڑا کر کے یہ کہتے کہ گذشتہ    چار سال میں جو کچھ کرسکتا تھا‘ میں نے کیا اور اب ملک میں منتخب پارلیمنٹ ہے اور نئے عزم اور نئے انتظام کی ضرورت ہے۔ سب جماعتوں اور سب افراد کو میں ایک نئے آغاز اور ایک نئے اجماع کی دعوت دیتا ہوں تاکہ صحیح اور مستحکم جمہوری عمل شروع ہو سکے‘ تاکہ دستور کی بالادستی ہو‘ پارلیمنٹ کی حاکمیت مستحکم ہو‘ برسرِاقتدار جماعتیں اور حزبِ اختلاف کم از کم سب ایک قدر مشرک پر جمع ہوں اور پاکستان کا جو حقیقی وژن ہے--- یعنی ایک مثالی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی فیڈرل نظامِ حکومت کا قیام--- اس کے لیے سب اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تعمیرکے لیے ہر ایک کو اس کا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے۔ صاف کہتے کہ فوج کے سیاسی کردار کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو رہی ہے اور سیاسی نظام اب قوم کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب نمایندے جو ملک کی آزادی اور سالمیت‘ اس کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اس کی معاشی اور سماجی ترقی اور عوام کے مسائل اور اُمت مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ میں صدر کی حیثیت سے جو ریاست اور وفاق کی علامت ہے‘ دستور کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی اور جواب دہی کا راستہ اختیار کر رہا ہوں اور اب      نظامِ حکومت کو چلانے کی ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ آیئے !ہم سب مل کر دستور کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ اداروں کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے اور قوم کے تمام وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ استعمال کریں اور اس طرح ہم سب مل کر اس عظیم مشن کے حصول کے لیے تن‘ من ‘دھن سے سرگرم ہو جائیں۔

یہ تھی وقت کی اصل ضرورت!--- لیکن جنرل صاحب کی تقریر میں ہمیں کیا ملتا ہے--- چند دعوے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ چند الزامات اور اتہامات جن کو انھوں نے خود اوڑھ لیا ہے۔ یہ کسی کی کوئی خدمت نہیں‘ اور کچھ وعظ و نصیحت‘ جس کا کوئی محل نہ تھا۔ اس تقریر سے قطعاً یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ملک میں انتخابات کے بعد کوئی نئی تبدیلی واقع ہوئی ہے‘ کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے‘ اس کا کوئی منشور اور مستقبل کا وژن ہے جسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے‘ کچھ اہداف ہیں‘ کچھ پالیسی کے خطوط کار ہیں‘ کوئی واضح نقشہ راہ ہے۔ قانون سازی کا کوئی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ‘پارلیمنٹ‘ منصوبے‘ پالیسیاں‘ قانون سازی--- ان سب کے ذکر سے تقریرخالی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ صحت اور اجتماعی بہبود کے نشانِ راہ‘ اخلاقی اور نظریاتی تشکیلِ نو کے مسائل کا کوئی پرتو اس میں نظرنہیں آتا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا تو وزنِ بیت کے لیے بھی نام تک نہیں آیا چہ جائیکہ انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور اس میں ایک پروگرام اپنے کرنے کے کاموں کے عنوان سے قوم کے سامنے رکھا تھا اس کا کوئی جائزہ پیش کیا جاتا کہ کیا حاصل کیا جا سکا ہے اور کیا ابھی حاصل کرنا ہے۔ پوری تقریر ایک بالکل دوسری ہی wave length پر انڈیل دی گئی ہے اور ہمیں معاف رکھا جائے اگر عرض کریں کہ پوری تقریر پر خوف‘ دبائو اور ایک گونہ بے بسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دبائو میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی وژن‘ کوئی حوصلہ‘ کوئی پیغام‘ کسی منزل کے نشان اس میں موجود نہیں--- یہ ایک سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔


اس وقت بین الاقوامی سطح پر کئی بڑے اہم مسائل اور ایشوز پر دنیا کے سارے ہی ملک‘ اقوام اور اہلِ نظر گفتگو کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے پورے سیکورٹی سسٹم کا نقشہ بدل گیا ہے۔ عالمی برادری نے جو کچھ دو سو سال کی جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا تھا وہ معرض خطرمیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت اور کردار کے بارے میں اقوامِ عالم پریشان ہیں‘ بین الاقوامی قانون کے مسلّمات تک کو غیرمحکم بنایا جا رہا ہے‘ بلاجواز آزاد اور خودمختار ممالک کو مختلف شکنجوں میں کسنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قانون‘ اصول‘ روایات سب    پامال کیے جا رہے ہیں‘ ثبوت کے بغیر تعزیر کو رواج دیا جا رہا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اور محض موہوم اور ناقابلِ التفات خطرات کے سہارے اقوامِ عالم پر فوج کشی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہو اور وہ کس طرح دوسرے تمام امن پسند اور خوددار ممالک کے ساتھ مل کر نئی عالمی سامراجیت کے چنگل سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں۔ عالمی برادری کس طرح عوامی سطح پر بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ورلڈ سوشل فورم کے انداز میں کس طرح عوامی سطح پر سامراجیت اور لاقانونیت کے خلاف انسان منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک     آزاد ملک کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟اس کا کوئی شعور جنرل صاحب کے خطاب میں نظرنہیں آتا۔

آج دنیا میں اس وقت جو تہذیبی کش مکش کا راگ الاپا جا رہا ہے اور اس کا ہدف کس طرح دنیابھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے؟ اس چیلنج کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے لگائے ہوئے الزامات کو ہم خود اپنے سر منڈھ لیں اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تصورات اور عقائد تک کو قطع و برید کا نشانہ بنائیں یادلیل اور شرافت لیکن ہمت اور قوت کے ساتھ اپنے دفاع اور اپنے تصورات کی تشریح و توضیح کی خدمت انجام دیں۔ اس سلسلے میں بھی تقریر خاموش ہے اور کوئی وژن اور کوئی پیغام جنرل صاحب کی تقریر میں دُور دُور نظرنہیں آتا۔

دنیا کی اقوام پر عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے نام پر جو ظلم کیا جا رہا ہے‘ دولت کا ارتکاز جس طرح چند ملکوں اور چند ہاتھوں میں ہو رہا ہے‘ آزاد تجارت کے نام پر ترقی پذیر ممالک اور   پس ماندہ اقوام کو جس طرح معاشی ترقی اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا چند سامراجی ممالک کی بالادستی کا شکار ہوکر ان کی چراگاہ بنتی جا رہی ہے‘ اس سے کیسے بچا جائے؟ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی نسبت جو ۱۹۵۰ء میں ایک اور تیس (۳۰:۱) تھی اور جو ۱۹۸۰ء تک ایک اور ساٹھ (۶۰:۱) ہوگئی تھی اب ایک اور پچاسی (۸۵:۱) تک پہنچ گئی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ان حالات کو بدلنے کی سعی کریں اور ایک منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ سارے مسائل خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے دروبست کو ازسرنو منظم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن کیا ان کا کوئی احساس اور شعور ہماری قیادت کو ہے؟

ابھی سارک کانفرنس اسی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے (۶ جنوری)۔ پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ایک غیرمعمولی صورت حال رونما ہوئی ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بالکل واضح ہے۔ علاقے میں بھارت کے ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے اور اس کو اُبھارنے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اٹیمی اور میزائل ٹکنالوجی میں شریک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ این پی ٹی پر دستخط کردے توجو مقام امریکہ کی پالیسی میں اسرائیل کا ہے‘ وہی بھارت کو دیا جا سکتا ہے۔ ادھر روس سے دو بلین ڈالر کی دفاعی خریداری کی جا رہی ہے جس میں نیا ہوائی جہاز بردار پانی کا جہاز ایڈمرل گورشکوف اور مگ ۲۹کا ایک انبوہ شامل ہے جس سے علاقے کا توازنِ قوت شدید متاثر ہوا ہے۔ مگر یہ سب جنرل مشرف کی تقریر کا موضوع نہیںبن سکے۔ کیا یہ سب امور اس بات کے متقاضی نہ تھے کہ صدر کے خطاب میں ان کا احاطہ کیا جائے‘ تجزیہ کیا جائے‘ اور پارلیمنٹ کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پارلیمنٹ کو دعوت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی خطوط کار مقرر کرے لیکن ان تمام معاملات کی کوئی پرچھائیں تک تقریر میں نظر نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۶جنوری اور ۱۷جنوری میں کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔

اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بس ایک جملے میں بھارت کے موقف کی اپنے الفاظ میں جگالی کر دی گئی ہے جو سہل انگاری کی انتہا ہے۔ پاک افغان تعلقات‘ پاک بھارت تعلقات‘ پاک چین تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود پاک امریکہ تعلقات گہرے غوروفکر اور بحث و مباحثے کے محتاج ہیں۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر بھارت کو جو رعایتیں دی ہیں اور ان کا جو جواب ادھر سے ملا ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھ گیا ہے اور بھارتی فوج پوری بے خوفی کے ساتھ معصوم انسانوں اور آزادی کے متوالوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے‘ لائن آف کنٹرول پر لوہے کے کانٹوں کی باڑ لگا رہی ہے اور ہم کشمیریوں کی آزادی کی اس جدوجہد سے یک جہتی تک کا کوئی پیغام دینے سے گریزاں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا شیشان کا یا کوئی اور مسلم مسئلہ‘ ہم خاموش ہیں اور صرف واشنگٹن کے اشارہ چشم و آبرو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کا نام قومی مفاد کی پاسداری اور اولیت ہے؟


جنرل پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’قوم سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہوگئے ہیں‘ جس میں حقیقی جمہوریت کا قیام شامل ہے‘‘۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ جمہوریت کی بحالی کی پہلی شرط دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام ہے۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کو دستور اور جمہوریت کے راستے کی طرف لانے کے لیے ایک قدم--- صرف ایک قدم--- اٹھایا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کااصل کام تو  باقی ہے کہ فوجی دور کے ساڑھے تین سو قوانین اورفرامین کا جائزہ لے کر ان کو دستور اور جمہوری اصولوں کے مطابق بنائے۔اس کے لیے ایک ۱۲ رکنی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی تحریک پر کر لیا ہے مگر اس کا اور اس کے کرنے کے کام کاکوئی ذکر تقریر میں موجود نہیں حالانکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے اس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کے بعد‘ جنرل صاحب کو فوج کی سربراہی سے جلد از جلد فارغ ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ سویلین صدر کی حیثیت سے دستور کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اختیارات میں جو عدمِ توازن پیدا کر دیا گیا ہے اسے دُور کیا جانا ہے تاکہ ملک کا ہر ادارہ بشمول فوج دستور کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہو سکے۔

معیشت کے بارے میں بھی جو دعوے کیے گئے ہیں ان کو صرف جزوی طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ کلاں معاشی اشاریے (macro economic indicators) معیشت کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف ایک حصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسرے حصے بھی اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جو مالیاتی پالیسی بیان جاری کیا ہے (۲۰ جنوری ۲۰۰۴ئ) اس کی رو سے اگست ۲۰۰۳ء کے بعد افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر تیل‘ ٹرانسپورٹ اور سب سے بڑھ کر اشیاے خوردنی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۳ء میں گندم کی قیمت میں ۴.۱۹ فی صد‘ گوشت میں ۲۲ فی صد اور ترکاریوں میں ۵.۱۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بے روزگاری جو دس سال پہلے لیبر فورس کے صرف ۳ فی صد تک محدود تھی اب بڑھ کر ۹ فی صد تک پہنچ گئی ہے اور غربت جو ۱۹۸۰ میں آبادی کے صرف ۲۰ فی صد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی‘ اب بڑھ کر ۴۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں بے شمار تضادات ہیں اور وزارتِ خزانہ ۳۲ اور ۳۳ فی صد کی آبادی کی غربت کی بات کر رہی ہے لیکن آزاد ماہرین تجارت اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بیرونی ادارے ۴۰ فی صد کی خبر دے رہے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر کے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ قوم کے ساتھ۔


جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں جو سب سے بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف ہم پر جو الزامات اور اتہامات لگا رہے ہیں نہ معلوم کس مصلحت سے انھوں نے ان کو من و عن تسلیم کر کے خود اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے۔ بجاے اس کے کہ ان اعتراضات کا بے لاگ جائزہ لیتے۔ ان میں اگر کسی حد تک کوئی بات درست تھی تو اس کی اصلاح کا پروگرام قوم کے سامنے رکھتے۔ ان میں جو باتیں صراحتاً غلط اور اتہام کا درجہ رکھتی ہیں ان کی بھرپور تردید کرتے اور اصل حقائق کو دلیل اور قوتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ صدربش کے جھوٹ کے سیلاب میں جنرل صاحب بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ اگر امریکہ کے دائیں بازو کے بنیاد پرست (neo-cons) مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو جنرل صاحب بھی انھی کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں۔ اگر اسرائیل اور بھارت اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دین و ایمان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو ہمارے صدرصاحب کی تقریر میں بھی انھی کی آواز بازگشت سنائی دیتی ہے حتیٰ کہ اب جو بات جنرل صاحب ۱۷جنوری کو کہی ہے توفوراً ہی ۱۸ جنوری کو اس کی داد ایڈوانی صاحب نے خوشی کے شادیانے بجا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آگرہ میں جنرل صاحب نے یہ کہہ دیا ہوتا تو سارے معاملات کبھی کے طے ہوچکے ہوتے‘ یعنی ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ سنیے‘ لال کشن ایڈوانی کرنال میں آل انڈیا فورسزکی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں:

یہ بہت اچھا بیان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اس موقف سے علاقے میں دہشت گردی کے پھیلائو کا روکنا یقینی ہوجائے گا۔ ان بیانات نے علاقے کی صورت حال کو یکدم بدل دیا ہے۔ جہاد یا کسی اور نام پر دہشت گردی کا مقابلہ تمام اقوام کو اجتماعی طور پر کرنا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ئ)

کل تک یہی جنرل صاحب فرماتے تھے کہ جنگِ آزادی اور دہشت گردی الگ الگ ہیں‘ جہاد کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا اور کشمیر میں وہاں کے مظلوم مسلمان اپنے ایمان اور آزادی کے لیے استعماری تسلط (occupation)کے خلاف صف آرا ہیں۔ آج وہی مجاہد دہشت گرد بن گئے اور جو زبان واجپائی اور ایڈوانی استعمال کر رہے تھے وہ صدرِ پاکستان ۶ جنوری کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد اب ۱۷ جنوری کے پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پسپائی اور یوٹرن کا نام ’’حکمت ‘‘اور ’’لچک‘‘ رکھا گیا ہے۔

بھارتی‘ صہیونی اور امریکی انتہا پسند پاکستانی معاشرے کو غیرمعتدل اور پُرتشدد معاشرہ کہتے ہیں تاکہ ہمیں ناقابلِ اعتبار ٹھیرائیں اور ہمارے جوہری سرمایے کو غیرمحفوظ قرار دیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب بھی اپنی تقریر میں پاکستان کی وہی تصویر پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسلام بلاشبہہ اعتدال‘ امن اور اخوت کا مذہب ہے لیکن کون سا معاشرہ ہے جو انسانی کمزوریوں سے پاک ہے۔ کیا امریکہ میں تشدد‘ غنڈہ گردی اور عدم رواداری موجود نہیں۔ کیا رنگ‘ نسل زبان اور اندازِ بودوباش کی بنیاد پر وہاں انسانوں کے درمیان تمیز اور تفریق عام نہیں۔ کیا کالے امریکی جو امریکہ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور ہسپانیہ اور میکسیکو سے آکر آباد ہونے والے لوگ جو اس وقت امریکہ کی آبادی کا ایک چوتھائی ہوچکے ہیں‘ اسی طرح برائون نسل کے لوگ--- کیا ان سب کے خلاف تعصب کا معاملہ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ آج امریکہ میں آبادی کے تناسب سے جیلوں میں محبوس لوگوں کی تعداددنیا کے بیشترممالک سے زیادہ ہے؟ نیز ان میں بھی کالے امریکی تعداد کے لحاظ سے آبادی میں اپنے تناسب سے دوگنا ہیں؟ کیا دنیا میں امریکہ   سول آبادی میں سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والا ملک نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق صدراور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبسن نے ابھی جنوری ۲۰۰۴ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے پُرتشدد (violent)ملک ہے۔

دنیا میں ۶۳۹ ملین کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ ہے اور ۱۶ بلین بارودی یونٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ۴۰ فی صد یعنی ۲۵۰ ملین ہتھیار صرف امریکہ میں ہیں‘ جب کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۸.۵ فی صد یعنی ۶ فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی گن لابی مضبوط ترین لابی ہے اور خود امریکی دستور کی ضمانت کا سہارا لیتی ہے۔ میری روبسن کہتی ہیں کہ ۱۱ستمبر کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۴ئ)


جنرل پرویز مشرف نے چار چیلنجوں کا ذکر کیا ہے جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو منفی تاثرات کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر کمالِ سادگی سے وہ ہر منفی پروپیگنڈے کو‘ اس کی صحت و عدمِ صحت پر کلام کیے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔

ان کی نگاہ میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ’’ہمیں اپنے سرحدی علاقوں میںایسے غیرملکی عناصر کے خلاف جو ہمارے ملک کے اندر اور افغانستان میں دہشت گردی کا باعث بن سکیں‘ بھرپور طاقت سے کارروائی کرنا ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جن مجبوریوں کے باعث بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ کیا وہ اب ہمیشہ کے لیے ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔ آج ہر عرب القاعدہ ہے اور ہر افغانی طالبان بن گیا ہے۔ یہ امریکہ کا خبط (phobia) ہے جس کا نہ زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے مصالح اور حالات سے اس کو کوئی نسبت ہے۔

عرب ہمارے اچھے دوست ہیں اور افغانی اور پاکستانی دین ‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کے دیرینہ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوسروں کی ناروا نازبرداریوں کی خاطردشمن بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی سامراجی فوج کشی کے لیے کندھا فراہم کرنے کا ہم نے یہ جواز دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور امریکہ ہمارا ساتھ دے گا‘ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہوجائیں گے‘ افغانستان میں جو حکومت بنے گی وہ ہمارے مشورے سے بنے گی‘ شمالی اتحاد کو اقتدار نہیں دیا جائے گا اور علاقے میں ہمارا کردار بڑھے گا‘ افغانستان میں جنگ لمبی نہیں ہوگی بلکہ محدود اور مختصر وقت میں معاملات طے ہوجائیں گے--- لیکن ہوا کیا؟

افغانستان کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکہ اپنے مقاصد کے لیے جو دروبست بنارہا ہے ہم تابع مہمل کی طرح اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس ڈیونڈر لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے ‘انھیں ہم سے اس کی حفاظت کرنے کے مطالبے کا کیا حق ہے؟ شمالی علاقہ جات کی ایک تہذیب اور روایات ہیں‘ اپنا نظام ہے اور قائداعظم نے پوری بالغ نظری سے اس انتظام کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم نے خود اپنی شمالی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے اور ۷۰ ہزار فوج وہاں تعینات ہے اور ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے--- اور کس کے فائدے کی خاطر؟ امریکہ کا حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی تعریف تو وہ ضرور کرتا ہے لیکن ہماری ہرخدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے اور مزید کے لیے بلیک میل کرتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہم نے گذشتہ ربع صدی میں جو نیک نامی اور محبت و احترام حاصل کیا تھا‘ وہ خاک میں مل گیا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایمان داری سے افغانستان کے معاملات کو افغانوں پر چھوڑ دیں اور فی الحقیقت کسی قسم کی بھی مداخلت کا راستہ ترک کردیں۔ امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کر دیا۔ اب آپ اور افغان عوام خود اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ ہمارے لیے سب افغانی برابر ہیں اور ہماری زمین سب کے لیے امن اور اخوت کا گھر ہے۔ ہمیں نہ عربوں سے خطرہ ہے اورنہ افغانوں سے--- امریکہ کی خاطر ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں کیوں دھکیل رہے ہیں؟

افغانستان ہو یا عراق‘ ان ممالک کے مسائل کا حل افغانستان اور عراق سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور وہاں کے لوگوں کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے معاملات سنبھالنے میں ہے۔ ہم کسی بھی دھڑے کی تائید یا مخالفت نہ کریں اور ساری توجہ اپنے حالات کی اصلاح پر صرف کریں اور یہ معاملات پوری طرح شفاف انداز میں انجام پائیں۔ البتہ امریکہ کو یہ پیغام جلد جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے انسداد کے نام پر جو دہشت گردی وہ دنیا بھر میں کرتا پھر رہا ہے اس کی ایک حد ہے۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ’’ بہت ہوگیا!‘‘ (enough is enough)کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں نئی راہیں اختیار کریں۔


جنرل صاحب کے دوسرے چیلنج کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

کشمیر کے حوالے سے ہمارے اوپر جو الزامات ہیں ان سے نبٹنے کا واحد راستہ کشمیر کا پُرامن اور منصفانہ حل ہے۔ اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے‘ اسے نیک نیتی کے ساتھ اور کشمیریوں کی امنگوں کے ساتھ حل کی طرف لے جانا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ الزام کیا ہے اور وہ کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بھارت کی چال ہے کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر پر جھوٹ اور دھوکے اور قوت کے ذریعے قبضہ کیا‘ اور اپنے سارے عہدوپیمان کو توڑ کر وہاں کے عوام کی امنگوں کا خون کر رہا ہے بلکہ ان کی رائے معلوم کرنے تک کی ضرورت کا منکر ہے۔ پاکستان اور تمام کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں‘ آزاد کشمیر میں ہوں‘ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور علاقے میں ہوں‘ اس کے فریق ہیں۔ مسئلہ کسی زمین کے ٹکڑے کا نہیں‘ سوا کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا ہے جو بین الاقوامی قانون‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت ایک مسلّمہ حق ہے۔ کشمیر کی جنگِ آزادی ایک قومی تحریکِ مزاحمت ہے جس کے سیاسی اور عسکری دونوں پہلو ہیں اور جو ان کا حق ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر آزادی کی جنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ غیر جانب دار ممالک کے چارٹر نے اسے مانا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان ہی کی قرارداد کے ذریعے عظیم اکثریت سے ایک بار پھر اس حق کا اعادہ کیا ہے۔ اس جدوجہد کی تائید ہمارا قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں تازہ ترین معلومات کے مطابق ۸۷ ہزار ۶ سو ۷۸ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ۶ ہزار ۷ سو کو زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔ ۹ہزار سے زیادہ دخترانِ کشمیر کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے اور ایک لاکھ سے زائد مکانات‘ باغات اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی کانٹوں کی باڑ لگائی جا رہی ہے اور جس طرح سیاچن پر قبضہ کر کے شملہ معاہدے میں کیے جانے والے status quo تبدیل نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اسی طرح باڑ لگا کر نئی خلاف ورزی کی جا رہی ہے؟

پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن کو جس پر قومی اتفاق رائے تھا‘ بیرونی دبائو کے نتیجے میں تبدیل کردیا ہے اور مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل ممکن نہیں‘ اس سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ یہ سہ فریقی مسئلہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے نمایندے ہی بات چیت کا حق رکھتے ہیں‘ اس سے بھی ہم ہٹ گئے ہیں۔ پھر ہماری حکمت عملی تھی کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا‘ کشمیر کے مرکزی اور محوری مسئلے (core issue) کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اب ہم بھارت کے موقف پر آگئے ہیں کہ پہلے تعلقات کی بحالی اورکشمیر پر بات چیت بھی (چہ جائیکہ مسئلے کاحل) بعد میں! اور سب سے بڑھ کر اب جنگِ آزادی‘ جہادِ کشمیر اور دہشت گردی کے فرق کو بھی ہم بھول گئے ہیں جس کا پرچار ہم آگرہ تک کرتے رہے ہیں اور جنرل صاحب نے خود بھارت کے میڈیا کے سامنے جرأت سے اس موقف کو پیش کیا تھا۔ لیکن اب کارگل کی پسپائی کی طرح وہ ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور کشمیر کے مجاہدوں اور سیاسی تحریک کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں‘ قومی مفادات کے یکسرمنافی ہے۔

جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف اور حق کے حصول کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو قوم اپنے حق کے حصول کے لیے قربانی اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیتی ہے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ نہیں ہوتی اور جو دشمن کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دیتی ہے وہ اپنی آزادی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی اور محکومی اور غلامی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔

اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے کسی درجے میں تیار ہوا ہے‘ تووہ کشمیریوں کی جنگِ آزادی اور قربانیوں کی وجہ سے ہوا ہے‘ کسی انصاف پسندی اور دوست نوازی کی وجہ سے نہیں۔ اگر یہ دبائو باقی نہیں رہتا تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پھر جس طرح ہم کشمیری عوام کو مایوس کر رہے ہیںاورمحض دوطرفہ انداز میں معاملات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہایت غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اگر ہندستان کی ہزارسال کی تاریخ اور کشمیر پر مذاکرات کی ۵۶سال کی داستان سامنے رہے‘ تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جس نیک نیتی کی بات جنرل صاحب کر رہے ہیں وہ بھارتی قیادت کے طریق اور اس کے تاریخی کردار سے مکمل اغماض پر مبنی ہے اور ایسی ہی نیک نیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ (Hell is paved with good intentions)


جوہری ہتھیاروں کے عدمِ پھیلائو کے بارے میں جنرل صاحب نے بیرونی الزام اور دبائو کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے اس اعلان کا تو خیرمقدم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرے گا اور اسے مزید ترقی دے گا۔ آزادی اور عزت کی حفاظت کا یہی راستہ ہے لیکن عملاً جس کمزوری کا مظاہرہ وہ اور ان کی حکومت ایٹمی سائنس دانوں کے سلسلے میں عالمی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کے نام نہاد خط کے باب میں کر رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کسی این پی ٹی کا رکن نہیں اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ کے ذریعے جو جوہری پھیلائو دنیا میں ہوا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ جرمنی‘کینیڈا‘ فرانس نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم آخرکیوں ہر چیز اپنے اوپر اوڑھ لیں اور اپنے ہی قومی ہیروز کی بے عزتی پر تل جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کے نائب وزیرخارجہ اور کرنل قذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام خود کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان یا کسی مسلمان ملک کا نام نہیں لیا اور ہم ہیں کہ امریکی‘ صہیونی اور بھارتی پروپیگنڈے سے خائف ہوکر اپنی ہی جڑوں پر کلہاڑی چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ڈی بریفنگ کس بلا کا نام ہے؟ اپنے معزز سائنس دانوں سے آپ شرافت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ گرفتاریاں‘ راتوں کو گھروں سے اٹھانا‘ اہلِ خانہ سے ربط و تعلق کی اجازت نہ دینا‘ آپس میں مشورہ اور وکیل تک رسائی کے انسانی حق سے محرومی--- یہ کس مہذب معاشرے کے طور طریقے ہیں۔ یہ راستہ ایٹمی قوت کے استحکام کا نہیں‘ اس کو تباہ کر دینے کا ہے اور قوم کسی کو اس کی اجازت اور موقع نہیں دے گی۔

معاشرے میں انتہا پسندی اور عدمِ اعتدال کے الزام کو بھی جنرل صاحب نے ایک چیلنج کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور یہاں بھی وہ خود انصاف اور توازن کی راہ اختیار نہیں کرسکے۔ اسلام ہے ہی اعتدال کا نام اور اس امت کو قرآن نے اُمت وسط ہی قرار دیا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ بے اعتدالی رونما ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج تعلیم و تلقین‘ اچھی مثال‘ آزاد مکالمے و مجادلے اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کی تشخیص اور اس کے اسباب کو رفع کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں ایسی چیزیں کچھ خاص سیاسی‘ گروہی‘ علاقائی‘ لسانی یا فرقہ وارانہ مفادات کی بنا پر ظہورپذیر ہوں وہاں‘ ان تمام حالات کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے۔ پاکستان میں ملّی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل نے یہی راستہ اختیار کیا اور الحمدللہ حالات کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ بات سخت ہے لیکن حقیقت ہے کہ تشدد مسلکی نام پر ہو یا لسانی اور نسلی‘ اس کو طرح دینے میں ملکی ایجنسیوں اور بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے اور یہ تمام معلومات سرکاری ریکارڈ میں ہیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور پریس میں طبع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مستند (authenticated) ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نہ الزام کو آنکھیں بند کرکے اپنے سر اوڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ خرابی جتنی ہے اور جن وجوہ سے ہے ان کو نظرانداز کرنا ہی صحیح ہے۔ خود جنرل صاحب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قوی خدشہ ہے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ان کو‘ فوج کو‘ اور حکومت کو دینی اور جہادی قوتوں کے خلاف برسرِکار کرنا چاہتے اور ملک میں فساد اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کونظرانداز کرکے بس انتہاپسندی کے خلاف جہاد کی باتیں کرنا بڑی سطحی بات ہے اور معکوس نتائج دے سکتی ہے۔ اصول پرستی اور انتہاپسندی میں فرق اسی طرح ضروری ہے جس طرح جہاد اور دہشت گردی ہیں۔

یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مغربی میڈیا میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی بات کو حد اور تناسب سے بڑھا کر (out of proportion) پھیلانے اور اس کا ڈھول پیٹنے کی    ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو غیرذمہ دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت قابلِ اعتماد ہاتھوں میں نہیں۔ یہ بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اس سے باخبر ہونا چاہیے اور کسی ایسے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اصلاحِ احوال ضروری ہے‘ مگر حقائق کو ہر مبالغے سے محفوظ رکھتے ہوئے۔

اگر ان چند افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر جو پاکستان میں ہوئے ہیں‘ اس ملک اور اس کے معاشرے کو انتہاپسند اور تشدد پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ۱۶ دوسری آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘ مسلمانوں‘ دلت اورعیسائیوں کو جس طرح قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوٹا (POTA) جیسے قوانین کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ اسے کیا کہیں گے۔ بات صرف بھارت تک محدود نہیں‘ امریکہ کے معاشرے کا کیا حال ہے۔ کیا وہاں امریکی دہشت پسند گروہوں کی کمی ہے؟ Ku Klux Klanسے لے کر اوکلاہاما کی تباہ کاری کے ذمہ دار گروہوں تک کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک قتل نہیں ہوتا؟ کیا امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سڑکیں ہی نہیں‘ گھربلکہ ہوٹل تک محفوظ ہیں؟ جو بھی فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھیرے ہیں‘ جانتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی ہوٹل کا عملہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے کیا کچھ ہدایات نہیں دیتا۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کا حال تو اور بھی تباہ ہے لیکن کسی ملک کا سربراہ اس طرح اپنے ملک میں تشدد اور بے اعتدالی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا اور یہ تاثر نہیں دیتا کہ اس کا ملک انتہاپسندی اور تشدد کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور اگر کچھ ناخوش گوار واقعات یہاں ہوئے ہیں‘ تو وہ خاص حالات کی پیداوار ہیں جن میں بیرونی ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہہ جو بھی کمزوری ہمارے ملک میں ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا لیکن محض دوسروں کے کہنے پر ایسے الزامات کو اوڑھ لینا اور انھیں حقیقت سمجھ کر پورے معاشرہ اور ملک کو بدنام کرنا‘ یہ دشمنوں کا کھیل ہے جس میں ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔

جس طرح جنرل پرویز مشرف نے اس پوری بات کو چیلنج قرار دے کر پیش کیا ہے‘ وہ مصنوعی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔


پاکستان کی فوج قوم کا قیمتی اثاثہ اور دفاع وطن کے باب میں ہماری متاع ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے فوج کے بارے میں بھی جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اسے صحت مندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی خدمات بیش بہا ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہے لیکن فوج تنقید و احتساب سے بالا نہیں اور فوجی قیادت نے سیاست میں مداخلت کر کے اور ہماری تاریخ کے ۵۶ برسوں میں سے تقریباً نصف مدت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو کر جو غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں واقع ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری سے فوج کی ان قیادتوں کو کیسے بری قرار دیا جاسکتا ہے جو اقتدار پر قابض تھیں۔

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ چشم کشاہے۔ دوسرا پہلو فوج کی عظیم خدمات اور دفاع وطن کے لیے قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ انسانی سطح پر کچھ اہم میدانوں میں فوجی قیادتوں کی غلطیاں بلکہ بھیانک غلطیاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ فوج کی بحیثیت ادارہ تحفظ اور قدرومنزلت کے ساتھ انفرادی فوجی اقدامات یا اجتماعی کوتاہیوں پر احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسے غلط محرکات اور فوج کو بدنام کرنے کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح راستہ درمیان کا راستہ ہے۔ فوج بھی باقی سب اداروں کی طرح محترم ہے اور اس کا احتساب بھی قانون کی بالادستی کا ایک حصہ ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور کسی کو بھی قانون سے بالا ہونے کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

فوج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر صرف دفاعِ وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاست میں دراندازی کر کے اپنے کو متنازع نہ بنائے۔ اور اگر فوج سیاست میں دخیل ہوگی تو پھر اس کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جائے گا جس طرح سیاسی جماعتوں‘ عناصر اور قیادتوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس وقت ملک کو جو اہم اندرونی چیلنج درپیش ہیں‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی طرح جلد از جلد فوج کو صرف دفاع وطن کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے تاکہ وہ متنازع نہ بنے اور قوم کے احترام اور تعاون کی مستحق رہے۔

ایک بڑا اہم پہلو سیاسی استحکام‘ سیاسی اداروں کا مؤثر ہونا‘ اور قوم کو اعتماد میں لے کر اندرونی سیاسی مضبوطی کا حصول ہے۔ جنرل صاحب نے استحکام کے دو ستونوں‘ یعنی فوج اور معیشت کا ذکر تو کیا ہے لیکن تیسرے ستون‘ یعنی سیاسی استحکام‘ حقیقی جمہوریت کا مؤثر اور معتبر ہونا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام کا فروغ اور چوتھے ستون‘ یعنی نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی مضبوطی کا ذکر نہیں کیا۔ قومیں اپنے نظریات اور اپنے عزائم کی بنیاد پر بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہیں اور بڑی بڑی آزمایشوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں مادی قوتوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں اورمادی قوت اخلاقی اور نظریاتی قوت اور استحکام کے بغیر اپنی اصل استعداد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اندرونی محاذ کی مضبوطی کے لیے معاشی اور دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری استحکام اورنظریاتی اور تہذیبی محاذ کی تقویت ازبس ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کوبھی نظرانداز کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ہر میدان میں نشیب و فرازممکن ہیں اور تاریخی حقیقت ہیں لیکن اصل فیصلہ کن قوت ایمان‘ نظریاتی اعتماد‘ اخلاقی قوت اور مستقبل کا وژن ہے۔ جنرل صاحب کی تقریر میں یہ دوسرے پہلو مفقود ہیں‘ جب کہ سیاسی ‘ معاشی اور دفاعی میدان میں تسلسل اور بقا کے لیے یہ فیصلہ کن ہیں۔ جنگیں عسکری ہوں یا نظریاتی‘ ان کا اصل انحصار قومی ارادے (national will) اور خودی کی قوت پر ہوتا ہے اور اگر یہی پہلو ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے سامنے نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم کو تیار کیا جائے اور فیصلے افرادنہ کریں بلکہ ادارے کریں اور قوم کے عزائم اور امنگوں کی روشنی میں کریں۔ خوف کے تحت کیے جانے والے فیصلے صرف پسپائی اور شکست پر ہی منتج ہوسکتے ہیں‘ کبھی بھی فتح کی نوید نہیں لا سکتے۔


آخر میں ہم پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں مفصل بحث ہونی چاہیے اور جن امور کا انھوں نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ پہلوتہی کرگئے ہیں‘ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ بات ہونی چاہیے تاکہ پارلیمنٹ ملکی اور غیرملکی مسائل کی روشنی میں کوئی نقشہ راہ قوم اور حکومت کے سامنے پیش کرسکے۔ آج جس طرح اسلام‘ دینی مدارس‘ جہاد اور قومی اقدار و روایات کو پوری دنیا میں  نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ پورے تدبر اور تحمل لیکن مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی خرابی اور کمزوری ہے تو اس کی اصلاح کی بھی پوری فکر کی جائے لیکن محض پرائے شگون پر ناک کٹوانے کی حماقت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے جس یقین‘ تدبر اور بالغ نظری سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدمے کو پیش کیا اور بالآخر مقدمہ جیت گئے اسی طرح آج بھی اپنے مقدمے کو پیش کرنے اور اپنی قوم کو تیار کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو گالی دینے سے کام نہیں چلے گا لیکن دوست اور دشمن میں صحیح صحیح تمیز کے بغیر بھی ہم اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتے۔ ۱۹۳۰ء کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا ادراک آج اور بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘ اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے حیات بخش تخیل میں رچ بس جائیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔

تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان اسی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ آج پھر اسی سبق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے اسی کے سہارے پاکستان بنا دیا اور ہم اسی کے سہارے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے معزز ارکان اور خود صدر صاحب کو قائداعظم کے وژن کی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ آگے کے سفر کے بارے میں ان کا دکھایا ہوا راستہ ایک بار پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ ۱۹۴۸ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِواحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان‘ وہ لنگرخدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا جائے گا… ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک کتاب‘ ایک اُمت۔

اس وقت میدانِ سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فتح یاب کون ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے    علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ   صبر و رضا پر کاربند ہوجائیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تحت الٹ دیے تھے۔

۱۴ فروری ۱۹۴۷ء کو شاہی دربار سبی (بلوچستان) میں دو ٹوک انداز میں فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔

۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو اپنے ایک پیغام میں فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔

اقبال اور قائداعظم کا وژن بالکل واضح ہے‘ کیا ہم اس وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرکے لیے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

اکتوبر۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں (دسمبرمیں) جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی‘ اس نے اپنا پہلا سال جوں توں کرکے مکمل کرلیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ظفراللہ جمالی کے   نام نہاد اشتراک اقتدار پرمبنی حکومت کے پہلے سال کو جنرل صاحب کے تین سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کی ساری کوشش اور کاوش کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی‘ جمالی حکومت کی کمزوری اور علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث پارلیمنٹ اپنی بالادستی قائم نہ کر سکی۔ اس طرح پورا سال ایک ایسی  کش مکش کی نذر ہوگیا جس کے نتیجے میں جمہوری سفر صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

اس صورت حال سے ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی جو تصویر قوم کے سامنے آتی ہے وہ اپنے اندر تشویش کے بے شمار پہلو رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ جو بھی مواقع قوم کو دے رہا ہے‘ اس کی قیادت ان کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں پوری مسلم دنیا پرشدید یورش کر رہی ہیں اور ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ دینی تشخص اور ملّی وقار سب اس کی زد میں ہیں‘ ہماری قیادت خطرناک حد تک عاقبت نااندیشی کی روش پر گامزن ہے بلکہ اس مہلک راستے پر چلنے پر مصر ہے۔

سالِ گذشتہ (۲۰۰۳ئ)کے آخری مہینے کے وسط میں (۱۷ دسمبر کے آس پاس) تین واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بظاہر آزاد اور مستقل بالذات (self-contained) ہونے کے باوجود ان واقعات میں واضح طور پر باہمی ربط و تعلق نظر آتا ہے۔

پہلا واقعہ ۱۸ دسمبر سے شروع ہونے والی مجلسِ عمل کی عوامی تحریک ہے جو اگرچہ ایل ایف او کے بارے میں حکومت کے مسلسل لیت ولعل اور سردمہری کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے لیکن دراصل اب وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اور جن کے بارے میں حکومتِ وقت تجاہل اور تغافل ہی کی مجرم نہیں بلکہ عملاً ان کو اور بھی گمبھیر کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے‘ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو بیدار اور منظم کرنے کا عنوان بن گئی ہے۔ تحریک کے شروع ہوجانے کے بعد حکومت نے ایل ایف او کی حد تک مجلسِ عمل سے طے شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل کی شکل میں لانے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی ہے (ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لاتے وقت تک کچھ پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں گوبعد از خرابیِ بسیار)۔ لیکن ایم ایم اے نے افہام و تفہیم اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کا حل نکالنے کے لیے ایک بار پھر دستِ تعاون بڑھایا ہے مگر اس واضح اعلان کے ساتھ کہ دستوری گتھی کو سلجھانے میں تعاون کو کسی صورت میں بھی اقتدار میں اشتراک یا جنرل پرویز مشرف پر کسی درجے میں بھی اعتماد کے اظہار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیادی وجہ جنرل صاحب کی خارجہ‘ داخلہ‘ ثقافتی اور نظریاتی پالیسیوں سے مجلس کا شدید اختلاف ہے ۔ ملک کی تعمیرِنو کے لیے مجلس اپنے ایجنڈے پر کسی سمجھوتے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔

مجلسِ عمل نے ایک طرف پوری بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کے حل کی ایک اور کوشش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے (اور ہماری دعا ہے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور ماضی کی کوششوں کی طرح درمیان میں تعطل کی نذر نہ ہو جائے) تو دوسری طرف پاکستان اور اُمت مسلمہ کو درپیش معاملات کے سلسلے میں اسے جنرل صاحب کی پالیسیوں سے جو اصولی اور جوہری اختلاف ہے‘ اس پر پوری استقامت دکھا کر تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعانوا علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو مگر گناہ اور زیادتی و بے انصافی کے باب میں ہرگز تعاون نہ کرو) کے قرآنی اصول کے مطابق اپنی پالیسی پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے۔

ہم اس امر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ ایل ایف او کا مسئلہ محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر پورے نظام کے جواز (legitimacy)کا انحصارہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کے جمہوری نظام کے ارتقا کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایل ایف او کے تحت انتخابات میں شرکت ایک ناگزیر برائی اور ایک وقتی ضرورت تھی کہ اس کے بغیر جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن ایک بار جب پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور سول حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا تو اولین اہمیت اس چیز کو حاصل تھی کہ دستوری اور جمہوری مسلمات کے سلسلے میں ایل ایف او کے بنیادی انحرافات‘ کی تصحیح کر دی جائے اور وہ یہ ہیں:

                ۱-            دستوری ترمیم کا حق کسی ایک فرد کو حاصل نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود دستوری ترمیم کرے یا کسی کو کرنے کا اختیار دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام دستوری ترامیم منتخب پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں اور وہ ان میں سے جن کو مناسب سمجھے قبول کرے اور جن کو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف سمجھے انھیں رد کر دے۔

                ۲-            جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول عوامی نمایندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں۔ دستور کے مطابق حکومت سازی کا فریضہ انجام دیں‘ قانون سازی اور پالیسی سازی کا منبع عوام کا منتخب ایوان ہو اور حکومت اور اس کے سارے کارپرداز (سول ہوں یا فوجی) اس کے سامنے جواب دہ ہوں اور اس کی طے کردہ پالیسی پر گامزن!

                ۳-            دستور‘ پارلیمنٹ اور منتخب نمایندوں پر کسی فرد یا گروہ کو بالادستی حاصل نہ ہو اور جس طرح سول انتظامیہ اور باقی تمام ادارے دستور کے مطابق سول حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ اسی طرح فوج بھی سول حکومت کے ماتحت ہو۔

                ۴-            ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کا جو نقشہ قوم کے مکمل اتفاق سے وضع کیا گیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پوری دیانت سے اس پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مقصد ایک جست میںحاصل نہ ہو تب بھی اقساط میں اور تدریج کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

بنیادی طور پر یہی چار چیزیں ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایل ایف اوکے اوپر سارے مذاکرات ہوئے اور اس کی ۲۹ دفعات میں سے ۲۲ کو مصلحتاً قبول کر کے باقی سات میں ایسی ترامیم کرانے کی کوششیں کی گئیں جو دستور کو ان چاروں اصولوں سے کم سے کم حد تک ہم آہنگ کرسکیں۔ بلاشبہہ جو معاہدہ مجلسِ عمل اور حکومت کے درمیان ہوا ہے وہ معیاری نہیں‘ صرف گوارا حد تک قابلِ قبول ہے لیکن یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنایا جائے اور کم از کم حد تک جمہوری عمل کو شروع کردیا جائے تاکہ رخ تبدیل ہو‘ اور آیندہ زیادہ سیاسی قوت حاصل کر کے دستوری نظام اور سیاسی پالیسیوں کو مزید جمہوری بنایا جائے۔ گاڑی کو پٹڑی پر لانا پہلی ضرورت ہے۔ پھر اس کو اچھی رفتار سے چلانے اور منزل تک پہنچنے کے بہترین طریقوں پر گامزن کرنے کی سعی و جہد ہوسکتی ہے۔

یہی وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر مجلسِ عمل نے کم سے کم قابلِ قبول پیکج کو قبول کرنے اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف اور جمالی حکومت کی بیشترپالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور ہم ان کو اعتمادکا ووٹ کسی قیمت پر نہیں دے سکتے۔ ہم حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

یہ حکمت کی شاہراہِ وسط ہے اور ہماری دعا ہے کہ حکومت اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اب کوئی اور چال نہ چلے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کا بل لاکر نئے سال کا آغاز ایک بہتر جمہوری فضا کو ہموار کرنے سے کرے۔ ہم علی وجہ البصیرت اس راستے کو اختیار کررہے ہیں اور ایک خاص لابی کی طرف سے ’’بی ٹیم‘‘ اور ’’ملا-ملٹری اتحاد‘‘ کی سطحی پھبتیوں سے آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹنے کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دو باتیں بہت صاف ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

اولاً :ہم نے یہ دستوری پیکج وقت کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق قبول کیا ہے اور اسے کم سے کم آخری حد(bottom line) کے طور پر اختیارکیا ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی کا پہلا قدم ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید عوامی تائید حاصل ہوگی اور دوسری سیاسی قوتوں کا تعاون ملے گا ہم مزید دستوری ترامیم کے ذریعے اپنے تصور کے مطابق اصلاحات کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے اور دستور کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی دفعات اور روح کے مطابق ایک حقیقی اسلامی پارلیمانی اور وفاقی دستور بنانے اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گے‘ نیز جہاں جہاں اور جس حد تک اس سے انحراف ہوا ہے اس کی تصحیح کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ حالات میں دستوری اصلاح کا عمل ایک ہی ہلّے میں مکمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ میدانوں میں جو غلط پالیسیاں جنرل صاحب نے اختیار کی ہیں اور جن کی طوعاً وکرہاً جمالی حکومت تائید کر رہی ہے‘ ان پر گرفت کرنے اور انھیں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمانی اور عوامی جدوجہد ہم جاری رکھیں گے اور جہاں جتنی قوت ہمیں حاصل ہے اس کو ہر غلطی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم عوامی قوت کو اس طرح منظم و موثر بناناچاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت مضبوط تر ہو‘ ملک پر امریکی سامراجی اقتدار کی گرفت سے نجات حاصل کی جائے اور اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودانحصاری‘ دفاعی صلاحیت اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی مکمل حفاظت ہو‘ قومی کشمیرپالیسی اور ملت اسلامیہ سے ہماری وفاداری اور اس کے تمام مسائل کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ حق وانصاف کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے‘ بھارت سمیت‘ ہم دوستی کے قائل ہیں مگر یہ دوستی عزت اور حق وا نصاف کی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ قوموں اور گروہوں کے درمیان دوستی اور تعاون اسی وقت پایدار ہوسکتے ہیں‘ جب وہ ہر قسم کے جبر‘ دبائو اور ناانصافی سے پاک ہوں۔ مجلسِ عمل اور تمام دینی اور جمہوری قوتیں ان شاء اللہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ہماری جدوجہدکسی تصادم کے لیے نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے لیے عوام کو بیدار کرنے‘ ان کو منظم کرنے اور تمام دینی اور جمہوری قوتوں کو ملک و قوم کی آزادی اور اس کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رکھنے کے لیے ہے۔ یہ کام ہمیں حکمت اور استقامت کے ساتھ اور پورے تسلسل سے انجام دینا ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں بلکہ ایک مستقل ذمہ داری ہے جو جہدِمسلسل ہی سے پوری کی جا سکتی ہے۔


اس مہینے کا دوسرا اہم واقعہ راولپنڈی کے حساس علاقے میں لئی نالہ پُل کو پانچ بموں سے اڑانے سے متعلق ہے جس کا بظاہر ہدف جنرل پرویز مشرف کا قافلہ تھا۔ اس واقعے کی مذمت ہم نے بروقت کی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں نے اسے ایک مجرمانہ اور ناقابلِ معافی فعل قرار دیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست کے ہمیشہ سے مخالف ہیں اور اسے صحت مند معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہم آج نہیں کہہ رہے بلکہ تحریکِ اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ تبدیلی کا صحیح طریقہ دعوتی‘ جمہوری اور دستوری طریقہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں بڑے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے‘ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور سب کو اس کی دعوت دی ہے:

جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی‘ یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تعمیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔(دفعہ ۵)

نیزقائدِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دنیا کی تمام اسلامی تحریکات کو مخاطب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں تلقین کی کہ اسلامی انقلاب کی راہ سازش اور تخریبی حربوں سے ہموار نہیں کی جاسکتی۔ ان کا ارشاد ہے:

اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے‘ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے‘ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔ (’’دنیاے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘، تفہیمات‘ جلد سوم‘ ص ۳۶۲-۳۶۳)

مولانا مودودیؒ نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ ’’یاد رکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی ہی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے‘‘۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ غوروفکر قوم کے تمام عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو‘ اور ثانیاً افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ اُمت غم و اندوہ میں نڈھال تھی اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں‘ اس کا سر قلم کر دوں گا‘ لیکن دین حق اور مزاجِ نبوت کے شناسا حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین ‘یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خلفا کی سنت کی پیروی ہے ۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور استحکام اور تسلسل کی ضامن ۔

لہٰذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیانے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہو وہ بہت ہی بودا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان ناگزیر نہیں۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیراعظم! آپ فرانس کے اقبال کے لیے ناگزیر ہیں‘ تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظرانداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ رچایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے‘ میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے بالا ہوں۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کرڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو  ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ وہ زندہ ہیں۔ ایوب کا اپنا بنایا ہوا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں (مارچ ۱۹۶۹ئ) کو اقتدار سونپ دیا۔ ایوب ہوں یا یحییٰ‘ ذوالفقارعلی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب اس مغالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری‘ تباہی اور عدمِ استحکام کے مجرم ہیں۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ دستور‘ قانون اور اداروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔

دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ کسی سطح پر بھی سیاست میں قوت اور گولی کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے یہ چیز افراد اور گروہوں کے لیے غلط ہے اسی طرح یہ ان لوگوں کے لیے بھی غلط ہے جن کو قوم اور ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اور قوم کے تمام عناصر کو بشمول فوج اور پولیس اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر ایک اپنے اپنے دستوری دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ ’’قانونِ ضرورت‘‘ کے نام پر جس سیاسی دہشت گردی اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہماری عدالتوں نے کھول دیا ہے‘ اب اسے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے۔ سطحی انداز میں ایک دہشت گردی کی مذمت اور آئینی دہشت گردی کے دوسرے تمام اسالیب سے اغماض حالات کو سدھارنے کا راستہ نہیں۔ ہم پوری دیانت اور دردمندی سے دہشت گردی کے ہر راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس پر قوم کا اجماع ہو۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ خلوصِ دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان حدود کی پاسداری کا عہد کریں جو اداروں کے استحکام‘ دستوری نظام کی پرورش اور ترقی‘ قانون کی بالادستی اور حقوق کی مکمل پاسداری کی راہ ہموار کرسکے۔

اس افسوس ناک واقعے پر جنرل صاحب کے ممدوح ملک امریکہ کے ایک روزنامے واشنگٹن ٹائمز نے جو اداریہ لکھا ہے‘ اس کے کچھ حصے اس لائق ہیں کہ جنرل صاحب خود اور ان کے وہ ساتھی جو ہر روز جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے راگ الاپتے ہیں (اور درحقیقت وہ اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عامل ہیں) ذرا غور سے پڑھیں:

قاتلانہ حملے کے واقعات عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ جس نے بھی بم نصب کیے اس نے بڑے حیرت انگیز طور پر کیا ہوگا اس لیے کہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ پونڈ تک کے بم خفیہ طور پر اتارے اور نصب نہیں کیے جاسکتے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بم فوج کی دسویں کور کے ہیڈکوارٹر سے آدھے میل کے فاصلے پر اور ملک کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پُل پر نصب کیے گئے تھے۔ امکانات یہ ہوسکتے ہیں کہ مشرف کے اندرونی حلقے میں سے کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے‘ یا اس کو ڈرامائی انداز سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ غیر یقینی تفصیلات سے قطع نظر‘ قاتلانہ حملہ اس ضرورت کو واضح کرتاہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ صدر کے بغیر‘مستقبل کے لیے جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے کی تیاری کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کیا ہوتا اگر اس بم نے مشرف کو قتل کر دیا ہوتا؟ اس کے بارے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر اب اس پر سوچنا چاہیے۔ صدارتی قتل کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یوسف اقتدار سنبھالیں گے۔ دونوں سیاسی طور پرکمزور شخصیات ہیں اور ان کی قیادت عدمِ استحکام اور غیریقینی صورت حال ---ایک فوجی انقلاب تک لے جائے گی۔ (اداریہ واشنگٹن ٹائمز‘ مشرف پر حملہ‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

بات صرف واشنگٹن ٹائمز ہی کی نہیں۔ جب خود جنرل صاحب سے ۱۸ دسمبر والے انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے نے اس مسئلے سے ان کا سامنا کرایا تو جنرل صاحب کا جواب شنید اور ان کے چہرے کی کیفیات دیدنی تھیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

بہت سے غیرملکی سرمایہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اندیشہ ہے کہ اگر جنرل مشرف جانشینی کے کسی واضح نظام کے بغیر مر گئے تو پاکستان عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نظام اور اداروں کو ابھی قائم ہونا ہے۔ جب اصرار کیا گیا کہ جانشینی کا نظام کیسے چلے گا؟ تو جنرل مشرف نے غیریقینی کا اظہار کیا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی دوسرے جنرل کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال سے یہ نظام کی بات ہے۔ ارے! میں نے تو اس پر درحقیقت سوچا ہی نہیں‘‘۔ پوچھا گیا کہ اتوار کے واقعے میں بال بال بچ جانے کے بعد‘ اس ممکنہ واقعے کے بارے میں اب سوچنا چاہیے تو انھوں نے اتفاق کیا: ’’ہاں‘ یہ کرنا چاہیے‘‘۔(رائٹر‘ ڈان‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

ہم جنرل صاحب کے قافلے پر حملے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں اور اس رجحان کو قوم اور ملک کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم اُتنا ہی ضروری اس امر کا اظہاربھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اداروں کا استحکام‘ دستور کا احترام‘ قانون کی بالادستی اور انصاف پر مبنی امن اور احترامِ باہمی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے اور اس سے ملک اور قوم کو بچانا اس کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے۔ واشنگٹن ٹائمز اور خود رائٹر کے نمایندوں نے جو سوال اٹھائے ہیں اور جنرل صاحب نے جو جواب دیے ہیں‘ کیا یہی وہ مستحکم جمہوریت (sustainable democracy) ہے جس کے عطا کرنے کا دعویٰ جنرل صاحب نے کیا ہے؟


اس مہینے کا تیسرا اہم واقعہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کا افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک یوٹرن (U-turn) ہے۔ ۱۸دسمبر کو رائٹر کو دیے جانے والے انٹرویو ہی میں انھوں نے ۵۶سالہ قومی پالیسی کو دریابرد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو ایک طرف رکھ کر استصواب کے متبادل سرابوں کی بات کی ہے اور اسے ’’لچک‘‘ اور ’’میانہ روی‘‘سے تعبیرکیا ہے‘ اور اس خطرے کا بھی اظہار کر دیا ہے کہ اگر بھارت ان کی اس half-way پسپائی کا خیرمقدم نہیں کرتا تو پاکستان میں انتہا پسندوں کو اُبھرنے کا موقع مل جائے گا۔

جنرل صاحب کے الفاظ ان کے ذہن اور منصوبوں کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:

ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حق میں ہیں لیکن اب ہم نے ان کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہرچیز‘ خود عسکریت پسندی میں کمی بنیادی طور پر مکالمے کے عمل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی مکالمہ واقع نہیں ہوتا‘ تو کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ یہ اعتدال پسند ہیں جو ہاریں گے اور انتہاپسند ہیں جو جیتیں گے اور ٹھیک یہی دراصل واقع ہو رہا ہے۔

جنرل صاحب نے اتنے کھل کر یہ بات پہلی بار کہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی گرفت میں جکڑے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لچک کی بات بار بار کی۔ پھر وہ چار نکاتی فارمولے کا راگ الاپتے رہے جس میں سیاست خارجہ کا ایک مضحکہ خیز اصول انھوں نے وضع کیا کہ ہر وہ حل ترک کر دیا جائے جو کسی بھی فریق کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ اس کا نتیجہ بندگلی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھوں نے جنگِ آزادی اور حق خوداختیاری کے لیے جدوجہد اور دہشت گردی کے فرق کو عملاً نظرانداز کرنا شروع کر دیا‘ حتیٰ کہ بھارت کی نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کے الفاظ تک کی بازگشت خود ان کے بیانوں میں سنائی دینے لگی۔ پھر اعتماد قائم کرنے والے اقدامات (CBMs)کے گن گائے جانے لگے۔

اس کے بعد وہ قلابازی لگائی گئی جو بھارت کی ۵۶سالہ سرحدی خلاف ورزیوں کا خود بھارت کے لیے ایک انعام تھی‘ یعنی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے سیزفائر اور اسے سیاچن تک پھیلا دینا! اس کے بعد ایک ہی اور بم ہو سکتا تھا اور وہ جنرل صاحب نے خود ہی ۱۸دسمبر کو ۱۹۷۱ء کے ۱۶دسمبر کا ماتم کرنے والی قوم پر داغ دیا۔ بھارت برابر اعلان کررہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرردادیں بے کار اور غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔ اس بارے میں جنرل صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتے ہیں ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے قوم سکتے کے عالم میں ہے۔ جمالی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی کشمیر کے مسئلے کا حل ہوسکتی ہیں۔ وزیرخارجہ معذرتیں کر رہیں کہ جنرل صاحب کا مفہوم یہ نہیں‘ وزیراطلاعات اپنے ردے چڑھانے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان سرکھجلا رہا ہے‘ مگر جنرل صاحب نے وہ اعلان کر ڈالا جس سے بھارت کی قیادت کی باچھیں کھل گئیں اور ان کے ایوانوں میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور امریکہ اُچھل پڑا کہ بالآخر پاکستان نے ریفرنڈم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔

بات بہت واضح ہے اور وزیرخارجہ‘ وزیراطلاعات اور دفترخارجہ کی یاوہ گوئیاں اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنا مقصد بظاہر حاصل کرلیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رچرڈ بوشر (Richard Boucher) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:

امریکہ صدر مشرف کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کو ترک کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔

اس پر بھارت کا ردعمل بھی قابلِ غور اور ہماری قیادت کے لیے مقامِ عبرت ہے۔ جنرل صاحب کے اعلانِ پسپائی پر نہ صدرِ مملکت گویا ہوئے اور نہ بھارتی وزیراعظم۔ کابینہ کی سلامتی کی کمیٹی نے باقاعدہ اس پر غور کیا (ہمارے وزیراعظم کو تو بیان کا علم بھی نہ تھا) اور وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کہا:

اگر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے یا اس میں کوئی اصلاح اور ترمیم کی گئی ہے تو بھارت اس کا خیرمقدم کرے گا۔ سخت گیر موقف پاکستان نے اختیار کر رکھا تھا اور وہ مذاکرات میں کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر اصرار کرتا تھا ‘ جب کہ ہم نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا۔

اور پھر اس لچک کی ایک جھلک کشمیر کے اخبار کشمیر ایج کو انٹرویو دیتے ہوئے یشونت سہنا نے دکھائی:

پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کی حمایت ترک کر دے کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتے۔

ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے اس اعلان کے صرف پانچ دن پہلے نئی دہلی میں امریکہ کی سابق وزیرخارجہ مینڈلین آل برائٹ نے تو بھارتی قیادت کی موجودگی میں اور پاکستان کی ایک سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مصالحتی بیانات پر ٹھنڈا پانی انڈیلتے ہوئے کہا تھا :

میرا خیال ہے کہ استصواب یا ریفرنڈم ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔

لیکن اپنے ہی جرنیل صاحب نے جو کارگل کے ہیرو بھی سمجھے جاتے ہیں‘ استصواب رائے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اسے لچک‘ آدھا رستہ طے کرنا اور اعتدال کا رویہ قرار دیا  ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے --- گویا اب ہر پسپائی بہادری اور جرأت مندی ہے۔ اصولوں سے ہر انحراف کا نام اعتدال اور ماڈریشن ہے‘ حق پر اصرار انتہاپسندی ہے اور آزادی اور خودمختاری کی بات تشدد اور دہشت گردی کے مترادف ہیع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!

جنرل صاحب کا یہ اعلان درحقیقت اس بگاڑ کا ایک مظہر ہے جو شخصِ واحد کی حکمرانی اور ایل ایف او کے نام پر انھیں مختارِ کل بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص پورے نظام کا کرتا دھرتا بن جائے اور ہر جواب دہی اور احتساب سے بالا ہو‘ نہ اسے کابینہ کی ضرورت کا احساس ہو‘ اور نہ اس کی رائے کا خیال ہو اور نہ پارلیمنٹ کی ہم نوائی اور تائید اس کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہو‘ اور نہ قوم کے احساسات‘ جذبات اور عزائم کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت ہو تو پھر قومیں ایسے ہی انحرافات اور حادثات سے دوچار ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے اس کے نتیجے میں کھو دیا۔ فلسطین کے معاملے میں یاسرعرفات نے یہی کیا۔ عراق میں صدام یہی کھیل کھیلتا رہا اور بالکل اسی طرح اب کرنل قذافی نے بھی ہر احتساب سے بالاہو کر اپنی دفاعی صلاحیت کو خود ہی دریابرد کر دیا ہے اور کوئی نہیں جو تباہی کے اِنھی ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کا نام بھی لے! آمریت اور فردِ واحد کی حکمرانی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ دراصل یہ اس نظام کا بگاڑ ہے جس میں قوم‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ سب غیرمتعلق ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہمارا سب سے پہلا اعتراض یہی ہے کہ جنرل صاحب کو اس اعلان کا حق اور اختیار کس نے دیا؟ انھوں نے دستور‘ قانون‘ روایات‘ قومی احساسات و عزائم‘ ہر چیزکی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی صدارت آج تک آئینی و اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ چیف آف اسٹاف بھی وہ محض خود اپنے دعوے اور خود اپنی مدت ملازمت کو توسیع دینے سے بنے ہوئے ہیں جس کا کوئی قانونی اور دستوری جواز نہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات‘ دستور کے تحت صدر وزیراعظم کی ہدایت (ایڈوائس) کا پابند ہے‘ بجز ان معاملات کے جہاں دستور نے اس کو اختیار (discretion) دیا ہو۔ لیکن جنرل صاحب خود کو کسی دستور‘ قانون اور ضابطے کے پابند نہیں اور یہ دستوری نظام سے ایسا انحراف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے قیامِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے جیسا کہ بے نظیربھٹو نے بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کے مماثل قرار دے کر کیا ہے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے کو پاکستان ہی نہیں‘ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف سرگرمِ جہاد ہیں اور بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور معاشی وجود ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ موجود ہے جو کشمیر کے مستقبل کو استصواب رائے سے وابستہ کرتی ہے۔ یہ ہمارا قومی موقف ہے اس میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا اور کشمیری عوام کا موقف جس قانونی‘ سیاسی اوراخلاقی بنیاد پراستوار ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈوگرہ مہاراجا نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں (جس کا کوئی ثبوت نہیں)۔ پھر ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے اس الحاق کی توثیق کر دی اور اس طرح وہ بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور بالآخر خود بھارت نے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی کو استصواب کے ذریعے معلوم کر کے کیا جائے گا۔

وقت کے گزرنے سے اس مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی کسی بھی پہلو پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یورپی استعمار کئی صدیوں تک درجنوں ممالک پر قابض رہے مگر اس سے ان کے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوا۔ میکائوکا چینی علاقہ ۵۰۰ سال استعمار کے قبضے میں رہا لیکن اس پر چین کا حق ثابت رہا اور بالآخروہ چین کو حاصل ہوگیا۔ ہانگ کانگ ۱۰۰سال برطانیہ کے قبضے میں رہا لیکن پھر چین کی طرف لوٹا۔ مرورزمانہ کا ان معاملات پر کبھی اثر نہیں پڑتا لیکن ظلم ہے کہ جس طرح برطانوی سامراج نے کشمیری عوام کو نظرانداز کرکے ڈوگروں کے ہاتھوں انھیں فروخت کر دیا تھا اسی طرح ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے دستبردار ہوکر خود اپنے اور کشمیری عوام کے قانونی موقف پر خاک ڈال رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہٹا دیا جائے تو پھر ڈوگرہ مہاراجا کی دستاویز الحاق کے سوا کیا چیز باقی رہ جاتی ہے؟

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں بہت کچھ ہے اور چند باتوں کا تعلق استصواب کے  طریق کار کی تفصیلات سے ہے جو جزوی اور ضمنی ہیں۔جوہری باتیں صرف تین ہیں‘ یعنی:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کا مسئلہ متنازع اور غیرتصفیہ شدہ ہے اور اس امر کو ابھی طے ہونا ہے کہ ریاست کے مستقبل کی حیثیت (status) کیا ہوگی؟

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزاد مرضی سے کریں گے۔

                ۳-            یہ فیصلہ بین الاقوامی انتظام میں آزاد استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس میں بھارت یا پاکستان کسی کی مداخلت نہ ہو‘ اور وہاں کے عوام شفاف طریقے سے اپنا مستقبل طے کر لیں۔

یہ کوئی سرحدی تنازع نہیں اور نہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جن قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات جنرل صاحب نے کی ہے وہ کیا اصول طے کر رہی ہیں اور ان کو ایک طرف رکھنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

سب سے اہم مرکزی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ UNCIP کی یہ قرارداد اہم قانونی بنیاد ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ:

ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدار استصواب کے جمہوری ذریعے سے طے کیا جائے گا۔

یہ قرارداد ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد پر مبنی ہے جس میں پاکستان اور بھارت نے اس اصول کو تسلیم کیا تھا یعنی:

حکومتِ ہندستان اور حکومتِ پاکستان اپنی اس خواہش کا ازسرنو اعلان کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کی حیثیت کا تعین عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے اور اس مقصد کے لیے طے شدہ شرائط کے مطابق دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور معتدل حالات پیدا کیے جاسکیں جن میں آزادانہ اظہار یقینی ہو۔

جب بھارت نے کشمیر میں نام نہاد دستور ساز اسمبلی کے ذریعے ان قراردادوں سے نکلنے کی کوشش کی تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کو دو ٹوک الفاظ میں یہ طے کیا:

The Security Council,

Having heard statements from representatives of the Governments of India and Pakistan concerning the dispute over the State of Jammu and Kashmir,

Reminding the Government and authorities concerned of the principle embodied in its resolutions of 21 April 1948 (S/726), 3 June 1948, March 1950 (S/1469) and 30 March 1951 (S/2017/Rev,1), and the United Nations Commission for India and Pakistan resolutions of 13 August 1948 (S/1100, Para 75) and 5 January 1949 (S/1196, Para 15),that the final disposition of the State of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations,

1. Reaffirms the affirmation in its resolution of 30 March 1951 and declares that the  convening of a Constituent Assembly as recommended by the General Council of the "All Jammu and Kashimr National Conference" and any action that Assembly may have taken or might attempt to take to determine the future shape and affiliation of the entire State or any part thereof, or action by the Assemby, would not constitute a disposition of the State in accordance with the above principle;

2. Decides to continue its consideration of the dispute.

(Resolution Adopted by the Security Council, 24 January 1957 (S/3779).

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے کشمیر کے مسئلے پر ۱۸ قراردادیں منظور کی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔

ہم یہ بات بھی بڑے دکھ سے کہنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح جنرل صاحب قِسم قِسم کے بیانات کی چاند ماری کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست خارجہ کے بنیادی اصولوں اور اسالیب تک سے ناواقف ہیں۔ ایسے اعلانات کر کے وہ خود اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی ما رہے ہیں۔

یہ بھی سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کوئی کھلاڑی اپنے بہترین پتے میز پر نہیں ڈالتا لیکن جنرل صاحب کا انداز ایک ماہر سفارت کار کا نہیں ایک اناڑی جواری کا سا ہے جس کے مقدر میں اپنی دولت لٹانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنے کا گر کسی کو سیکھنا ہو تو قائداعظم سے سیکھے جنھوں نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے۔ نہرو اور بھارتی صحافت ان پر پھبتی کستے تھے کہ جناح کے پاس کیا دھرا ہے وہ ایک ٹائپ رائٹر کے سہارے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن قائداعظم نے قوم کو ساتھ لے کر دو دشمنوں کا مقابلہ کیا یعنی انگریز حکمران اور کانگریس قیادت۔

۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے لے کر ۱۹۴۶ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے راہداری کے مطالبے تک وہ کانگریس کی قیادت سے جان دار سفارت کاری کے ذریعے اپنے مطالبات منواتے رہے‘ اور ہر کامیابی کے بعد نئے مطالبات پر بات چیت کے لیے اسے مجبور کرتے رہے‘ جب کہ ہماری قیادت کایہ حال ہے کہ نیوکلیر پاور ہوتے ہوئے بھی صرف رعایتیں دے رہے ہیں‘ بھارتی مطالبات مان رہے ہیں‘ مسلسل پسپائی اختیار کررہے ہیں اور پھر بھی ابھی تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھیک ہی مانگ رہے ہیں۔ سفارت کاری کا یہ اسلوب ذہنی شکست اور سیاسی اور مادی کمزوری کا مظہر ہے۔ جنرل صاحب نے یہ راستہ اختیار کرکے پوری قوم کا منہ کالا کیا ہے اور ہمارے قومی مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے۔ امریکہ کے آگے تو انھوں نے گھٹنے ٹیکے ہی تھے اور اب بھارت کے آگے بھی ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ کیا قوم نے اس ملک کی فوج کو اپنا پیٹ کاٹ کر اسی ذلّت کے لیے منظم اور مضبوط کیا تھا؟

ہم صاف کہنا چاہتے ہیں جنرل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ‘وہ ان کی ذاتی پسپائی تو ہو سکتی ہے پاکستان کی قوم کی پالیسی اور موقف نہیں ہو سکتا اور جموں و کشمیر کے غیور مسلمان بھی اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی‘ ایمان اور تہذیبی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک دن اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج ان کے عزم و ایمان اور جذبۂ جہاد کو مضمحل نہ کرسکی۔ موجودہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی بھی ان شاء اللہ ان کی ہمتوں کو پست نہیں کر سکتی اور ان کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر وہ جن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر پالیسی کا ایک بار پھر صاف الفاظ میں اعلان کرے اور جنرل صاحب کا احتساب کرے تاکہ وہ یا کوئی اور طالع آزما قوم کے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

کشمیر کا مسئلہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ امن وہی دیرپا ہو سکتا ہے جو انصاف پر قائم ہو۔ ظلم اور مجبوری کی خاموشی یا محکومی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اور حق بالآخر غالب ہوکر رہتا ہے۔ پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمان ان ۸۰ ہزار شہیدوں کے خون سے کبھی غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے جنھوں نے حق اور اصول کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔ سیاسی جدوجہد ہو یا فوجی مقابلے--- ان میں نشیب و فراز توآسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن جو قوم اپنی آزادی اور ایمان کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم کرلیتی ہے پھر اسے کوئی محکوم نہیں کر سکا۔ عزت اور آزادی وہ چیزیں ہیں جن کا سودا نہیں کیا جاتا اور حق وہ شے ہے جو اپنی ذات میں حق ہے۔ وہ اعتدال‘ سمجھوتے اور انتہاپسندی کی اصطلاحوں سے بالاتر شے ہے۔ نہ وہ کسی تراش خراش کا متحمل ہوتا ہے اور نہ اسے کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بیساکھیوں کا محتاج نہیں‘ بلکہ خود اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور بالآخر باطل پر غالب رہتا ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرکے کیا اور کہاں کہاں لچک دکھائے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اپنی آزادی‘ اپنا ایمان‘     اپنا دین‘ اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح سینہ سپر ہوجائے تاکہ باہرسے دبائو ڈالنے والوں اور اندر سے دبنے والوں دونوں کا مقابلہ کر کے اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ استقامت اور حکمت ہی ہمارا اصل زادِ راہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا اور اس سے مدد اور نصرت کی طلب!

جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟

ہندو ذہن اور سیاست برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ ہمارے تجربات ہزار سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی وہ نئی نسل جسے آزادی کے بعد کی فضا میں پلنے کا موقع ملا ہے بدقسمتی سے اس تاریخ اور تجربے سے نابلد ہے۔ پاکستان کا قیام کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں ہوا بلکہ ساری جدوجہد مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے تھی۔ بھارت کی قیادت ایک بار پھر تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے لیے نئے نقشۂ راہ (road map) پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرگرم ہے۔ واجپائی صاحب یا تو ملاقات سے گریزاں اور سارک کانفرنس میں آنے اور نہ آنے کے باب میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے‘ یا ایک دم ’’نرم سرحدوں‘ اور مشترک کرنسی‘‘ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اسی سلسلے کی  ایک کڑی وہ ٹریک ٹو اقدامات ہیں جن کی تفصیل ایک سابق سفارت کار نیاز نائیک نے  ۱۸دسمبر ۲۰۰۳ء کے ڈان میں بیان کی ہے اور جس کا ہدف ۲۰۱۰ء تک پاکستان کو بھارت کے مشترک کرنسی کے جال میں پھنسانا اور بھارت کی معاشی اور مالیاتی گرفت میں دے دینا ہے۔ اب تک اس منصوبے پرایک طرح سے خاموشی سے کام ہو رہا تھا مگر اب اسے کھل کر بیان کیا جارہا ہے اوراس سلسلے میں بائیسویں میٹنگ ۱۸-۲۲ جنوری ۲۰۰۴ء کو متوقع ہے۔ نائیک صاحب کے الفاظ میں اس نقشۂ راہ کو سمجھ لیجیے:

دونوں فریق جلد ہی تین بڑے مسائل پر گفتگو کریں گے: دفاعی بجٹ میں کمی‘ جوہری پابندی پر دستخط اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ۔ ان بڑے مسائل پر ابتدائی تفہیم کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف لے جائے گی۔ ہم نے ہندستان پاکستان کے لیے ایک نئی مشترک کرنسی جس کا نام ’’روپا‘‘ ہو‘ ۲۰۱۰ء تک رائج کرنے کی تجویز پیش کی ہے‘ اور اس حوالے سے ہمیں دونوں حکومتوں سے حوصلہ افزا ردعمل ملے ہیں۔ یہ آزادانہ منتقل ہونے والی کرنسی ہوگی جس کا ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن کی حمایت سے اجرا کیا جائے گا۔ ہماری غیر رسمی ملاقات کا مقصد اشیا کی آزادانہ نقل و حمل میں سہولت ہے تاکہ یورپی یونین کے طرز پر ایک معاشی یونین بن سکے۔ ہم علاقائی اتحادکے لیے کام کر رہے ہیں اور دونوں فریقوں کو اس معاملے میں اپنی متعلقہ حکومتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

واجپائی صاحب کے بیان کا پس منظر نیاز نائیک کے تفصیلی نقشۂ کار سے سامنے آجاتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل اہداف کیا ہیں۔ یہ خطرناک کھیل مختلف سطحوں پر کھیلا جا رہا ہے اور اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق سیکڑوں افراد متحرک ہوگئے ہیں اور روزانہ کسی نہ کسی طائفے یا وفد کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اسے بیدار کیا جائے کہ اس کے اپنے ملک کی قیادت کس طرح ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودمختاری اور تہذیبی تشخص کو دائو پر لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ یورپ کی مثالیں بڑی خوش کن ہیں مگر کیا ہمارے تاریخی تجربات اور یورپ کے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات میں کوئی مناسبت ہے؟ اور کیا ہمارے علاقے کے زمینی حقائق جن میں بھارت کا حجم ‘ عزائم اور علاقائی ہی نہیں عالمی طاقت بننے اور بالادستی مسلط کرنے کے اہداف شامل ہیں‘ کسی ایسے وژن کے لیے کوئی جواز فراہم کرسکتے ہیں؟

علاقے کا کون سا ملک ہے جو بھارت سے زخم خوردہ نہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی دن سے خصوصی ہدف ہے لیکن کیا بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء کی ساری لفاظی کے علی الرغم آج بھارت کی چیرہ دستیوں پر چِلّا نہیں رہا؟ سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھارت کا کیا کردار رہا ہے؟مالدیو کو کس طرح قابومیں کیا گیا ہے؟ نیپال اور بھوٹان ہندو اور بدھ ریاستیں ہونے کے باوجود کس طرح بھارت کی سازشوں اور دست درازیوں کا شکار ہیں؟ خود سارک آج تک کیوں پنپ نہیں سکی؟ کیا یورپ میں معاشی یونین جرمنی اور فرانس کے تنازعات کو طے کرنے اور ان دونوں بڑے ملکوں کے مسلسل قربانیاں دینے کے بغیر وجود میں آگئی؟ کیا یورو‘ معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور یورپ کے ایک مرکزی بنک اور مارسٹرک ٹریٹی کے تحت بجٹ سازی کی پالیسی پر ۲۰ سال عمل کرنے سے پہلے وجود میں آگیا تھا‘ اور کیا آج بھی یونین کے سارے ممالک نے یورو کو اختیار کرلیا ہے؟ غرض سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ہر پہلوسے یہ تمام ترک تازیاں نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہیں بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر ضرب کاری ہیں اوربے وقت کی راگنی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ البتہ یہ سب ایک خطرناک کھیل کا ضرور پتا دیتی ہیں جس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا پاکستانی قوم کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے Social Policy and Development Centre نے ۲۰دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی ایک رپورٹ پاکستان کے تعلیمی حالات پر شائع کی ہے جس پر قومی سطح پر غور نہ کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہوگا۔ یہ رپورٹ کسی سیاسی ادارے کی طرف سے نہیں آئی اور اس کا مقصد کسی ایک حکومت کا احتساب نہیں بلکہ اصل میں پوری قوم کا احتساب ہے اور اب تک کی ساری ہی حکومتوں کی ناکامی پر قومی گرفت کی ضرورت کی دعوت ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۲ء میں پاکستان میں ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد ناخواندہ تھے جن کی تعداد اب ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ۵ سے ۹ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول میں داخلے کی صورت حال بھی اندوہناک ہے۔ ایسے ۵ کروڑ بچوں میں سے عملاً صرف ایک کروڑ ۳۰ لاکھ پرائمری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں بھی اسکول چھوڑنے والوں کی شرح جو ۹۶-۱۹۹۵ء میں ۴۰ فی صد تھی وہ ۱۹۹۹ئ-۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۵۴ فی صد ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے مقابلے کا تو کیا سوال اس وقت عالم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان ناخواندگی اور اسکول میں داخلوں کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال بھی ہم سے آگے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے ان ۱۲ ممالک میں شامل ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا ۲ فی صد سے بھی  کم تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ ۵۰ سال کا اوسط ۸.۱ فی صد ہے۔

اس کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے نظام میں یکسانیت کی کمی ہے جس سے قوم طبقوں میں بٹ رہی ہے اور بالکل مختلف ذہنی رویے وجود میں آرہے ہیں۔ اس وقت نظامِ تعلیم‘ اپنے میں مگن تین منطقوںمیںتقسیم ہوگیا ہے۔ ایک طرف انگریزی میڈیم اسکول ہیں جو بالکل دوسرا ذہن پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُردو میڈیم اسکول ہیں جن کی تعلیمی حالت بھی دگرگوں ہے اور ان کا ذہنی اُفق بھی بالکل مختلف ہے۔ تیسرا طبقہ دینی تعلیمی اداروں کا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انگریزی میڈیم کے طلبہ کا دو تہائی بھارت سے دوستی‘ آزاد پریس‘ عورتوں کی مساوات‘جمہوریت اور کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف پرامن ذرائع کا قائل ہے‘ جب کہ ایک تہائی یا اس سے بھی کم جہاد کشمیر اور شریعت کے نفاذ کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میڈیم اور دینی مدارس کے طلبہ کی عظیم اکثریت شریعت کے نفاذ اور جہاد کشمیر کے حق میں ہے۔ رپورٹ کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

ہم ملک میں ایک سے زیادہ پاکستان تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ زندگی کے بارے میں متضاد نظریے رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک غیرمستحکم ہونے سے دوچار ہے۔ (ڈان ‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

یہ رپورٹ ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتی لیکن جس طبقے کی طرف سے یہ آئی ہے‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کی سیکولر لیڈرشپ بھی حالات پر پریشان ہے۔بنیادی مسائل دو ہی ہیں: ایک‘ تعلیم پر توجہ‘ وسائل اور مؤثر قومی جدوجہد کی کمی اور دوسرے‘ نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے تعلیم کا معاشرے اور قومی مقاصد سے متصادم ہونا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایک ہی مثبت بات کہی تھی کہ تعلیم کو ملک کی شناخت سے ہم آہنگ کرنا اور ملک میں ایک نصاب کی ترویج۔ لیکن عملاً ابھی تک اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیںہوسکی کیونکہ استعماریمفادات کی اسیراین جی اوز نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔

آج کمیت (quantity) اور کیفیت (quality) دونوں اعتبار سے تعلیم کی حالت  زارو زبوں ہے۔ یہ قوموں کی ترقی نہیں تنزل اور تباہی کا راستہ ہے۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تعلیم کے مسئلے کو اولیت دینی چاہیے اور کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اصلاحِ احوال کی فوری فکر کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ تمام طلبہ تنظیموں اور اساتذہ کے تعاون سے جو کوشش کر رہی ہے وہ بہت لائقِ تحسین اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام تمام دینی اور سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے۔ اور ترجیحی بنیادوں پر کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسلوں کو تباہی سے بچا سکیں اور پاکستان عالمی برادری میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی اور یہ دنیا فرق و امتیاز کی جگہ ہے اور جب انسان‘ عالمِ زیست کی حدوں سے گزر جاتا ہے توموت سب کو برابر کر دیتی ہے--- بے بسی کہ دوسروںکے کاندھوں پر انحصار‘ لباسِ افتخارسب رخصت اور دو سادہ کپڑوں میں امیروغریب سب کا آخری سفر‘ اور محلات اور جھونپڑے سب ختم‘ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے بسیرا سب کا مقدر۔ بات سچی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس میں فرق و امتیاز باقی رہتا ہے اور اس کا بھرپور اظہار بھی ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ دوسرے اس موت کو کس طرح دیکھتے ہیں‘ اس غم کو کس طرح محسوس کرتے ہیں اور جنازے کے آئینے میں رخصت ہونے والے کی تصویر کیا نقش چھوڑتی ہے۔

شیخ یوسف القرضاوی نے بڑی خوب صورت بات کہی تھی کہ کچھ جنازے استصواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلقِ خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ کراچی نے جو منظر ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء کو مولانا شاہ احمد نورانی کی نمازِ جنازہ میں دیکھا‘ وہ ایک عوامی استصواب سے کم نہ تھا۔ شاید قائداعظمؒ اور مولانا شبیراحمدعثمانی  ؒ کے جنازے کے بعد اتنا بڑا صلوٰۃِ جنازہ کا نظارہ کراچی کی زمین پر نہیں دیکھا گیا۔ اس میں جوان اور بوڑھے‘ عالم اور عامی‘ امیر اور غریب‘ خادم اور مخدوم اور سب سے بڑھ کر ہر مسلک اور ہر مذہبی اور سیاسی رجحان سے وابستہ افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ مرحوم کی مقبولیت اور  خلقِ خدا کی ان سے محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت‘ ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کے رتبے اور مقام کا اظہار تھا۔ سچ ہے     ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے صدر‘ جمعیت علما ے پاکستان کے قائد‘ ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ‘ ایک ممتاز عالمِ دین اور شہرہ آفاق مبلغ اور داعی تھے۔ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے قائد اور عملاً ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ ۱۰ دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس اور متحدہ حزبِ اختلاف کی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہنستے بولتے رخصت ہوئے کہ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ۱۲ بجے دن ایک اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ کسے خبر تھی کہ اس وقت جب انھیں اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے سینیٹ آنا تھا فرشتۂ رحمت رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا پروانہ لے کر آجائے گا اور ایک ابدی سفرکی طرف ان کو لے جائے گا۔ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مالک سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

مجھے حضرت شاہ احمد نورانی ؒسے ملنے کا پہلا موقع غالباً۵۳-۱۹۵۲ء میں نصیب ہوا جب ان کے برادرِ نسبتی اور میرے محترم اور مشفق بزرگ (جو مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے) ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی معیت میں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ وائس آف اسلام جمعیت الفلاح کا انگریزی مجلہ تھا اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اس کے مدیر تھے‘ کمالِ شفقت سے انھوں نے وجودِ باری تعالیٰ پر میرا مضمون مجلے میں شائع کیا تھا۔ اس مجلے کے ذریعے مجھے برادر محترم فضل الرحمن انصاری سے قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انھی کے توسط سے سنگاپور سے شائع ہونے والے مجلہ Al-Islam سے واقفیت ہوئی جو حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور شاید اس دور میں انگریزی میں دعوتِ اسلامی کا بہترین ترجمان تھا ۔ اسی مجلے سے عظیم مبلغ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کی تحریروں اور سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی تھی اور ملنے کا شوق تھا۔ پس یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی کا انتقال غالباً ۱۹۵۴ء میں ہوا اور پھر ان کے مشن کو ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے اپنے انداز میں جاری رکھا۔

انگلستان میں قیام کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں سے زیادہ گہری واقفیت ہوئی۔ وہ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر تشریف لائے اور بڑی شفقت سے ہمارے کام کی تحسین فرمائی۔ اسلام آباد میں بھی انتقال سے چند ماہ قبل اصرار کر کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تشریف لائے اور اپنی دعائوں سے نوازا۔ بیرون ملک بھی‘ خصوصیت سے لندن میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن سچی بات ہے کہ زیادہ قریب سے ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد حاصل ہوا‘ اور پھر گذشتہ پورا سال تو اس طرح گزرا کہ سینیٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کے کاموں کے سلسلے میں دن رات ان کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی شفقت‘ محبت‘معاملہ فہمی‘ نرم گفتاری کے نقوش دل پر مرتسم ہیں اور یہ کہنے میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ہر روز ان سے تعلق کو گہرا کرنے کا باعث ہوا۔ ان کے رخصت ہونے سے نہ صرف قومی زندگی بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی ایک خلا واقع ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے جاری کردہ اچھے کاموں میں مزید برکت اور افزونی پیدا کر دے۔ آمین!

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ (اپریل ۱۹۲۶ئ) میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور ۱۰ سال کی عمر سے تراویح میں باقاعدگی سے قرآنِ پاک سناتے رہے حتیٰ کہ آخری بار اِسی سال ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ بقول مولانا نورانی اس پورے عرصے میں صرف دو سال بیماری کے باعث ختمِ قرآن نہ کرسکے۔ گویا ۶۵ سال قرآن سنایا… سبحان اللہ! جزاھم اللّٰہ خیر الجزائ۔ تعلیم عربک کالج میرٹھ اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء سے والد مرحوم کے ساتھ تبلیغی سرگرمیوں میں شرکت کی اور غیرمسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور قادیانی مبلغوں سے مناظروں کا اہتمام بھی کیا اور کئی ہزار افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی۔

۱۹۷۰ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۷۶-۱۹۷۲ء والی اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی متفقہ قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں ان کا مقام صفِ اول میں تھا۔ اس جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۷۷ء میں سینیٹ میں منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ ۲۰۰۳ء میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے سینیٹ میں منتخب ہوئے۔ ۵۰سے زائد ملکوں کا دورہ کیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی ایک جید عالم‘ ایک بالغ نظر مبلغ‘ ایک باکردار سیاسی قائد اور مدبر اور اسلامی اتحاد اور ملّی وحدت کے نقیب اور اس کی علامت تھے۔ جس حکمت‘ شفقت اور    حسن تدبیر سے انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انصاف اور اعتدال کے ساتھ ان کی قیادت فرمائی وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو آنے والوں کے لیے بھی ایک تابناک مثال رہے گا   ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سقوطِ بغداد (۹ اپریل ۲۰۰۳ئ)کے بعد صدام کی گرفتاری یا موت کی خبر کسی وقت بھی متوقع تھی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ خفت ہے کہ ’’فتح‘‘کے آٹھ مہینے کے بعد اسے یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ "We got him" (ہم نے اسے پکڑلیا!)۔

بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ مخبری یا صدام کے اپنے محافظوں کی بے وفائی کے سبب امریکہ اس تک پہنچ سکا اور اسے پہلے نشہ زدہ کیا گیا اور پھر گرفتاری کے ڈرامے کو ٹیلی وژن کے اسکرین پر دکھایا گیا۔ یہ بھی معنی خیز ہے کہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۳ء کو گرفتاری کے اعلان سے ایک ہفتہ پہلے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے عراقی ججوں پر مشتمل عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گویا یہ سب اسی ڈرامے کی مختلف کڑیاں ہیں اور ہرمنظر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دکھایا جا رہا ہے۔

امریکہ نے صدام کو ’جنگی قیدی‘ (prisoner of war) قرار دیا ہے اور وہ قابض فوجوں کی تحویل میں ہے۔ ہمیں صدام کی ذات سے کوئی دل چسپی نہیں اور اس نے جو کچھ کیا‘ اس کی سزا وہ اللہ کے قانونِ مکافات کے مطابق یہاں اور آخرت میں ضرور بھگتے گا--- جس میں وہ ذلت بھی شامل ہے جو اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ گرفتاری اور جس طرح اس کی تشہیر کی گئی ہے وہ امریکہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر امریکہ ایک مہذب ملک ہے تو وہ بھی بین الاقوامی قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک۔ لیکن امریکہ خود کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا سمجھتا ہے اور ان تمام قوانین اور معاہدات بشمول جنیوا کنونشنز کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا جو اسے جنگ اور جنگی قیدیوں کے باب میں کسی درجے میں بھی پابند کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران جب عراق نے امریکہ کے جنگی قیدیوں کو ٹی وی پر دکھایا تھا تو امریکہ چیخ اُٹھا تھا کہ یہ جنیوا کنونشنز کے خلاف ہے۔ لیکن خود امریکہ نے جس طرح سے صدام کے بیٹوں کی لاشوں کی نمایش کی اور اب جس حقارت کے ساتھ صدام کو بہ ایں ریش دراز دکھایا‘شیوکیے جانے اور دانتوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے مناظرکو پیش کیا اور چوہے کے بل کی داستانیں نشر کیں‘ انھیں بھلا کون سے قانون یا ضابطے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کی تحقیرایک مذموم حرکت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ سب روا ہے۔ اس نے تو اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ جنگی جرائم کی کورٹ کو تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے دو طرفہ معاہدات کر رہا ہے کہ امریکہ کے فوجی بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی دسترس سے باہر رہیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ ایک مہذب ریاست کا نہیں بلکہ ایک غنڈا ریاست (Rogue State) کا کردار ادا کر رہا ہے اور طاقت کے نشے میں چور‘ خود کو ہر قانون سے بالا رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ  ایک عالمی لیڈر کا نہیں ایک Master اور Bully کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کی نگاہ میں اب امریکہ کی یہی پہچان ہے۔ پھر اگر دنیا کے لوگ امریکہ کو امن کے لیے خطرہ اور خود اپنے لیے ایک ناپسندیدہ کردار تصور کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ اس کے بعد بھی اگر صدربش یہی پوچھتے ہیں اہل دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ  ع

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

دوسرا پہلو‘ جس میں عرب اور مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی بڑا   سامانِ عبرت ہے اور خود امریکہ کے لیے بھی‘ یہ ہے کہ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ صدام پر مقدمہ کیسے چلایا جائے؟ اس لیے کہ اگر یہ کھلا مقدمہ ہو اور صدام سارا کچا چٹھا عدالت کے سامنے رکھ دے تو صدام کے جرائم سے کہیں زیادہ خود امریکہ کے جرائم اور گھنائونے کردار کا نقشہ دنیا کے سامنے آئے گا اور معلوم ہوگا کہ امریکہ عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ صدام نے ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویز عام تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی تھی امریکہ نے اس میں سے ۹ ہزار صفحات پر masking tape لگا دیا تھا کہ اس میں اس کے اپنے کردار کا ذکر تھا۔اب یہ سب چیزیں کھل کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔

اس کے علاوہ صدام کو صدام بنانے میں امریکہ نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ بھی دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ رچرڈسیل (Richard Sale)کی ایک تحقیقی رپورٹ کے بموجب جو اس سال اپریل میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے شائع کی ہے کہ امریکی سی آئی اے کا پہلا رابطہ نوجوان صدام حسین سے ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا جو عراق کے مقبول عوام حکمراں جنرل عبدالکریم قاسم کو قتل کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں تھا۔ جنرل عبدالکریم قاسم وہ شخص تھا جس نے عراق کی مغرب نواز شہنشاہیت کا تختہ الٹا تھا اور عراقی قوم پرستی اور اشتراکیت کے نظریے پر استوار بعث پارٹی کے ذریعے امریکہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ عرب محقق اور تجزیہ نگار عادل درویش کی کتاب UNHOLY BABYLON: The Secret History of Saddam's War میں پوری دستاویزی شہادتوں کے ساتھ صدام اور بعث پارٹی کے گھنائونے کردار اور ان کے   سی آئی اے سے تعلقات کی تفصیلات آچکی ہیں اور خود بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اعتراف کیا تھا کہ "We came to  power on CIA train" (ہم امریکی گاڑی پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے)۔ اس گاڑی میں صدام حسین کا ایک خاص مقام تھا‘ یعنی پارٹی کی خفیہ جاسوسی تنظیم کی سربراہی۔ پارٹی کا یہی وہ عنصر تھا جو Iraqi National Guardsmen کے    عنوان تلے سیاسی مخالفین اورسی آئی اے کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔

صدام سی آئی اے ہی کے تعاون سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بالآخر عراق کا مطلق العنان فرمانروا بنا اور اس حیثیت سے ہی وہ امریکہ کا منظورِ نظر تھا خاص طور پر جب امریکہ نے اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سے عراق پر بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایران کے خلاف جنگی خدمات کے عوض ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن نے وہ پابندیاں اٹھائیں اور صدام کو صرف معلومات ہی نہیں بلکہ اسلحہ‘ کیمیاوی اور گیس کے ہتھیار اور ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالی امداد بھی دی۔ اور وہ امداد اس کے علاوہ ہے جو سعودی عرب اور کویت سے دلوائی گئی۔ موجودہ سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ جو اُس وقت ریگن کے نمایندے کے طور پر ۲۰ دسمبر ۱۹۸۳ء کو صدام سے ملے اور اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر ۱۹۸۴ء میں بغداد کا دورہ کیا اور جس وقت صدام کردوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کررہا تھا جو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے فراہم کی گئی تھی‘ تب کھلے عام امریکہ اس کی پیٹھ تھپک رہا تھا۔ یہ اور سارے حقائق ویسے تو اب کسی نہ کسی طرح سامنے آچکے ہیں لیکن امریکہ خائف ہے کہ صدام کے مقدمے کے ذریعے سے یہ ساری کالک اس کے منہ پر مَلی جائے گی۔ اس لیے وہ   بین الاقوامی مقدمے سے کنی کترا رہا ہے اور صدام کی سرپرستی کے اپنے گھنائونے کردار کے اس طرح طشت ازبام ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدام کی گرفتار ی سے امریکہ کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوابلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ عراق میںامریکی قبضے کے خلاف جو تحریک برپا ہے اس میں کمی کا امکان نہیں اور صدام کی گرفتاری سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس کی پشت پر صدام نہیں (وہ تو ایک    تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا اور منشیات کے ذریعے اپنے غم غلط کرنے میں مصروف تھا)‘ بلکہ پوری قوم ہے اور محض صدام یا القاعدہ کی دہائی دے کر اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔

عالمِ اسلام کے لیے بھی اس میں عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح وہ قائدین جو اس پر مسلط ہیں‘ وہ دوسروں کے آلہ کار رہے ہیں اور ہیں‘ اور وہ جو اپنے عوام پر ظلم ڈھانے کے لیے بڑے جری ہیں جب آزمایش آتی ہے تو کس طرح چوہوں کی طرح بلوں میں گھستے اور اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ وہ نظام جس میں باگ ڈور ایسے آمروں کے ہاتھ میں ہو‘ کتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے اور کس طرح تاش کے پتوں کے گھروندے کی طرح  زمین بوس ہو جاتا ہے۔ استحکام‘ دستور اور قانون کی حکمرانی‘ اصولوں کی بالادستی اور اداروں کے استحکام سے حاصل ہوتا ہے۔ آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی اجتماعی نظام کا یہ بگاڑ اور اجتماعی احتساب کا فقدان ہے۔ خود اپنے گھر کی اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بات صرف عراق اور صدام کی نہیں‘ ہر مسلمان ملک اور وہاں پر مسلط ہر آمر کا مسئلہ ایک ہی ہے۔   نام اور جگہ مختلف ہے۔ اگر مسلم عوام یہ سبق سیکھ لیں اور اپنے معاملات ان باہر سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد مسیحائوں کے ہاتھوں سے لے کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو چند سالوں میں زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

سپریم کورٹ نے اپنے مئی ۲۰۰۰ء والے فیصلے میں ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو  ’’قانونِ ضرورت‘‘ کی بنیاد پر سندِجواز فراہم کی تھی مگر اس کے ساتھ تین باتیں بہت وضاحت سے بیان کردی تھیں جو ان کے فیصلے کی اصل روح اور آیندہ کے بارے میں رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ یہ تھیں:

۱-  اگرچہ دستور کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن دراصل ملک کا نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور موجودہ فوجی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے کے سلسلے میں دستور سے صرف ناگزیر حد تک انحراف کرے اور عملاً تمام معاملات کو دستور کے مطابق یا اس سے قریب ترین انداز میں طے کرے۔ نیز شخصی آزادی‘ بنیادی حقوق اور عدالتوں کی بالادستی پر کوئی آنچ نہ آنے دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے تمام اقدام و احکام عدالتی محاسبے (judicial review)کی گرفت میں ہوں گے۔

۲-  دستور کے تحت کام کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی حقیقی مشکل پیش آئے تو اس مشکل کو  رفع کرنے کی حد تک چیف ایگزیکٹو کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوگا‘ مگر وہ کوئی ایسی ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کو متاثرکرے جس میں پارلیمانی نظام‘ فیڈرل     نظامِ حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور ریاست کا اسلامی کیریکٹر شامل ہیں۔

۳-  ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے تین سال کے اندر اندر نئے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے فوج اپنی بارکوں میں واپس چلی جائے گی اور اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ سول حکومت نظامِ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور دستور کے مطابق کاروبارِ سلطنت چلایا جاسکے۔

اس فیصلے کی اصل روح یہ تھی کہ اقتدار منتخب سول حکومت کو منتقل کر دیا جائے اور فوج کا اصل کام صرف دفاع وطن کی ذمہ داری ہو۔

جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو دستور میں من مانی تبدیلیوں کے جواز کے لیے تو بڑی بے دردی اور بے باکی سے استعمال کیاہے مگر فی الحقیقت اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور انتقالِ اقتدار(transfer of power) کے اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف محدود اشتراکِ اقتدار (power sharing) کا ایک بندوبست وضع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عمل فیصلے کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ جنرل صاحب کی ساری کوشش یہ رہی ہے کہ اصل قوت اور اختیار حسب سابق انھی کے پاس رہے۔ سول نظام کی بحالی ایک ظاہری اور نمایشی عمل سے زیادہ نہ ہو اور قوت اورفیصلوں کا مرکز ان کی ذات اور ان کے معتمد علیہ افراد رہیں۔ اس کے لیے دستور کے ڈھانچے میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں کہ طاقت کی کنجی صرف ان کے ہاتھ میں ہو‘ پھر ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر دستور پر مسلط کر دیا گیا۔اس نے دستوری نظام کا حلیہ ہی بگاڑدیا ہے۔ وہ اپنے لائے ہوئے ایل ایف او سے بھی بڑھ کر عملاً اس طرح پورے نظام پر چھائے ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ انتظامی مشینری سب ان کے تابع مہمل ہے۔ دستور‘ قانون‘ روایات‘ سب کو بالاے طاق رکھ کر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور صرف دھونس‘ ہوس اقتدار اور فوجی قوت کے بل بوتے پر نظام چلایا جا رہا ہے جسے ’’خاکی جمہوریت‘‘ کے سوا کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل صاحب نے بارہا یہ کہا ہے کہ ۱۹۹۹ء سے پہلے ملک ’جعلی جمہوریت‘ (sham democracy) کے دور میں تھا اور اب میں ’حقیقی جمہوریت‘لانا چاہتا ہوں جسے کبھی انھوں نے real democracy (حقیقی جمہوریت)کہا اور کبھی substance of democracy (جوہرجمہوریت)لیکن فی الحقیقت جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا وہ ’جعلی جمہوریت‘ کی ہی بدترین صورت ہے۔خود ان کے مجرم ضمیر نے ایک آدھ بار ان سے اس کا اس طرح اعتراف کرا لیا ہے کہ:

اگر آپ واقعی ضرورت سمجھتے ہیںتو میں پاکستان پر جمہوریت کا لیبل چسپاں کردوں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم کے تماشے سے شروع ہونے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے ذریعے صورت پذیر ہونے والے سول نظام کو صرف فوجی حکمرانی کی ایک شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں مجبور ہیں کہ بحالیِ جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کو اولیں اہمیت دیں۔ اس لیے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دستور مکمل طور پر اور اپنی اصل شکل میں بحال ہو‘ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو‘ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی منتخب کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہو‘ عدالتیں خودمختار ہوں اور سیاست میں فوج کا عمل دخل عملاً ختم ہو‘ وہ سول نظام کے ماتحت ہوکر ان حدود کے اندر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جو دستور نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ الیکشن اور پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے ایک سال بعد بھی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں لیگل فریم ورک آرڈر اور جنرل پرویز مشرف کی ضد اصل رکاوٹ ہیں‘ جس نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔

جب تک لیگل فریم ورک آرڈر پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آتا اور پارلیمنٹ اسے ضروری ترمیم کے بعد منظور نہیں کرتی‘ ملک دستوری بحران کی گرفت میں رہے گا‘ سارے دستوری ادارے غیر موثر رہیں گے اور پاکستان جمہوریت اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔

اس پس منظر میں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی‘ ظفراللہ جمالی کی مخلوط حکومت کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے عملی کے نتیجے میں ملک و قوم کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا گیا ہے اور مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک ضائع شدہ سال ہی شمار کرے گا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات اورمنتخب پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے بس اتنا فرق پڑا ہے کہ ملک کھلی فوجی حکومت کی جگہ ایک ’خاکی جمہوریت‘ کے چنگل میں آگیا ہے اور اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی اسے جمہوریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مجبور ہوئی ہیں کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں اور ایک سال میں تقریباً پچاس مرتبہ انھیں اسمبلی اور سینیٹ سے واک آئوٹ کرنا اور پریس کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا پڑا ہے۔ یورپی یونین نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نہ صرف انتخابات خامیوں سے پُر تھے بلکہ ایل ایف او کی وجہ سے پارلیمنٹ با اختیار حیثیت سے محروم ہے۔ دولت مشترکہ نے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مکمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خود جنرل صاحب کے پشت پناہ اور مداح خواں صدر بش بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے جو انھوں نے مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کے بارے میں اپنی نومبر ۲۰۰۳ء کی بدنامِ زمانہ تقریر میں پیش کی ہے۔

بات بہت واضح ہے کسی بھی ملک میں بیک وقت جمہوریت اور فوجی قیادت کی   حکمرانی (یعنی مارشل لا) ممکن نہیں۔ کاروبارِ حکومت میں فوج کو بالادستی جمہوریت اور دستوریت (constitutionalism) کی نفی ہے۔فوج کو سول نظام کے تابع ہونا ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالاتر اتھارٹی قائم کرنا ہوگی‘ جو جمہوریت کی روح کو بحال کرنے کی شرط ہے۔ اس پر مہر تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے نے لگا دی ہے جو اس نے نومبر ۲۰۰۳ء میں ایک سرکاری ملازم کے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں دیا ہے اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوری نظام میں دستور اور قواعد و ضوابط کے تحت کسی سرکاری ملازم کو‘ سول یا فوجی‘ سیاست میں حصہ لینے کا اختیار نہیں۔

اس وقت ملک جس کش مکش میں مبتلا ہے اس کی جڑ ’’خاکی جمہوریت‘‘ کا وہ باطل تصور ہے جو کبھی عبوری دور اور کبھی تسلسل کے نام سے ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تعداد نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو ماضی میں سیاست دان فوجی اقتدار کے لیے دست و بازو بن کر کرتے رہے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ کا اصل فرض اور عوام کے منتخب نمایندے ہونے کی حیثیت سے ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور کی بحالی اور سول نظامِ حکمرانی کے قیام کو اولیت دیں۔ سال رواں میں پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکمران الائنس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور محض اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے ایک ایسے مخلوط سیاسی نظام (political hybrid) کو ملک پر مسلط کر دیا ہے جو فوجی حکمرانی کی ایک قبیح شکل ہے اور جس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک سارا نظامِ حکومت شترگربگی کا شکار ہے۔

مشرف جمالی حکومت کے ایک سال پر نظر ڈالی جائے تو اس کا سب سے زیادہ پریشان کن‘ بلکہ اندوہناک پہلو اداروں کی تباہی (structural deformity) ہے جس سے  ملک دوچار کر دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ پورا نظام ٹھٹھرا ہوا ہے‘ کسی سمت میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی‘ پارلیمنٹ بالاتر قوتوں کی یرغمال بن گئی ہے اور جنرل مشرف سے لے کر وزیراعظم جمالی تک اس کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسمبلیوں کی برطرفی اور نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات ہر وقت سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پارلیمنٹ اور سول حکومت اپنی بالادستی دستوری اور عملی ہر دو پہلو سے نہیں منوا لیتی۔ حزبِ اختلاف کی جدوجہد اقتدار میں شرکت کے لیے نہیں(اقتدار تو اسے بار بار پیش کیا گیا) بلکہ یہ جدوجہد نظام کو پٹڑی پر لانے کے لیے ہے جس کے بغیر حالات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں اس وقت جو بھی مخدوش حالات ہیں وہ اسی بنیادی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔


جنرل پرویز مشرف اور جمالی صاحب اور ان کے رفقاے کار نے ملک کو جس بحران میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا ایک بہت ہی اہم اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکمرانی سندِجواز (legitimacy) سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی واضح نہیں کہ کس دستور کے تحت نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور کتنا بحال ہوا ہے‘ ایل ایف او جسے جنرل صاحب اپنے اقتدار کا اصل ستون قرار دے رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دستور کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دستور کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ دستور پر بالاتر دستور (supra constitution) کیسے بن سکتا ہے؟ عدلیہ کس دستور کے تحت کام کر رہی ہے؟

حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اسے دستور کا حصہ تسلیم نہیں کرتیں۔ پوری وکلا برادری اس دھاندلی کے خلاف صف آرا ہے۔ اس باب میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عدلیہ اور قانون دان اور وکلاء ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ مرکز‘ صوبے اور لوکل باڈیز کا نظام سبھی دستوری تحفظ سے محروم ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکمران اور عدلیہ کس دستور کے پابند ہیں اور ان کے دستوری حلف کی کیا حیثیت ہے؟ عدلیہ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے عبوری آئین کے تحت حلف لیا تھا اب اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر ملک کا سیاسی اور قانونی نظام ہی جواز سے محروم ہو اور قوت اور اختیارات کا پورا دروبست ہی مشکوک ہو تو وہ نظام کیسے چل سکتا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک دستوری انحراف کے دور سے دستور کی بحالی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو دورِ انحراف کے اقدامات کو قانونی جواز (indemnity)پارلیمنٹ کے فیصلے کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہی ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کی دفعات ۲۷۰-۲۶۹ کی شکل میں کیا گیا اور یہی جنرل ضیا الحق مرحوم کے مارشل لاکے بعد ۱۹۸۵ء میں جمہوریت کے احیا کے وقت آٹھویں ترمیم کی شکل میں کیا گیا اور دستور کی دفعہ ۲۷۱ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف اس معاہدے کے باوجود جو ایم ایم اے سے جمالی صاحب کی ٹیم (ایس ایم ظفرکمیٹی) نے کیا اس صاف اور سیدھی بات سے پہلو بچا رہے ہیں اور ملک کے پورے دستوری‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مخدوش بنائے ہوئے ہیں۔ اس سال کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بدستور حل طلب ہے۔ جب تک یہ حل نہیں ہوتا کسی مثبت پیش رفت کی توقع عبث ہے۔


دوسری بنیادی چیز کا تعلق تقسیمِ اختیارات (checks & balances) سے ہے جس کا جنرل صاب موقع بہ موقع ذکر کرتے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد پورے ایک سال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ اختیار اور فیصلوں کا مرکز جنرل صاحب کی ذات ہی ہے اور انھوں نے پورا نظام اس طرح وضع کیا ہے کہ اصل قوت انھیں حاصل رہے‘ باقی سب نمایشی ہے۔ نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر بننے کا دعویٰ کیا جب کہ دستور میں ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی کوئی گنجایش نہیں۔ وہ منتخب صدر نہیں اور عملاً ملک ایک خود مسلط کردہ غیر آئینی صدر کے تحت کام کر رہا ہے۔ پھر انتخابات کو متاثر کرنے اور اس سے بھی پہلے ایک کنگز پارٹی بنانے اور اسے اکثریت دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ کوشش ناکام ہوگئی اور انتخاب میں بھی عوام کے تین چوتھائی ووٹ انھی جماعتوں کو حاصل ہوئے جو جنرل صاحب کے ساتھ نہ تھیں اور سرکاری جماعت کو سادہ اکثریت بھی میسر نہ آئی تو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وفاداریوں کی تبدیلی‘ ضمیر کی خریدوفروخت‘ نیب (NAB) کے بے محابا استعمال کے ذریعے زیرتفتیش ارکان اسمبلیوں کو جن میں سے کچھ پر باہر جانے پر پابندی بھی تھی‘ شامل حکومت کرکے مصنوعی اکثریت حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹس کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس میں ٹوٹنے والے دس ارکان میں سے چھے کو وزارت سے نواز دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بھی طہارت کا اشنان دے کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا اور اس طرح ایک ایسی سیاسی حکومت بنائی گئی جس میں وزیراعظم کو ووٹ اسمبلی میں دیے گئے مگر ان کا انتخاب کسی اور نے کیا۔

وزیراعظم کی کابینہ کا انتخاب بھی وزیراعظم یا پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کام ان کے لیے کسی اور نے کیا بشمول وزارتوں کی تقسیم۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ تو وزیراعظم کی ہے مگر وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے وزیر ان کی بات نہیں سنتے‘ اس کی سنتے ہیں جس نے ان کو وزارت سے نوازا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ’باس‘ کوئی اور ہے حالانکہ پارلیمانی نظام کی روح ہی یہ ہے کہ کابینہ وزیراعظم بناتا ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ قومی سلامتی کے امور ہوں یا خارجہ سیاست کے‘ معاشی و مالی معاملات ہوں یا انتظامی‘ گورنروں کا تقرر ہو یا سول انتظامیہ اور پولیس افسران کا‘ بین الاقوامی معاہدات کا معاملہ ہو یا لوکل گورنمنٹ کے اختیارت اور تنازعات کا‘ سب کا مرجع و مرکزجنرل صاحب کی ذات ہے۔ وہ بیرونِ پاکستان دورے اور معاہدات اس شان سے کرتے ہیں کہ وزیرخارجہ تک ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ صدربش سے ملنے جاتے ہیں تو اپنے معتمد وزیرخزانہ اور دستوری امور کے مشیر شریف الدین پیرزادہ صاحب کو لے کرجاتے ہیں۔ وہ وزیراعظم اور بیرونی سفرا سے فوجی وردی میں ملتے ہیں‘ حتیٰ کہ بیرونی سفروں سے ان کے پروانہ تقرری کی وصولی کی تقریب میں بھی فوجی وردی میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اندازِ حکمرانی کو کون جمہوری قرار دے سکتا ہے جہاں حکمرانی کا منبع فوجی صدارت ہے نہ کہ پارلیمنٹ اور اس کا منتخب کردہ وزیراعظم اور کابینہ۔

ہمیں معاف رکھا جائے اگر یہ کہیں کہ جو انتظامِ حکمرانی جنرل صاحب نے مرتب کیا ہے اور جس کے مطابق وہ عمل کر رہے ہیں اس میں وزیراعظم ایک بھاری بھرکم show piece (محض دکھاوے کی چیز) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمالی صاحب پر بہادر شاہ ظفر کا شبہ ہوتا ہے جو زبانِ حال سے گویا ہے کہ

یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا

یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اس نظام میں تقسیمِ اختیارات کا کوئی تصور نہیں۔ سب کے لیے صرف تحدیدات (checks) ہیں۔ اقتدار کا سارا سرمایہ صرف ایک فرد کے کھاتے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پورے سال سے ایک تماشائی بنی کھڑی ہے‘ قومی اور عوامی امور پر کوئی بحث‘ کوئی قانون سازی‘ کوئی پالیسی سازی اس کے دامن میں نظر نہیں آتی۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا گیا ہے اس کا کچھ اندازہ اس سے کیجیے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انتخابات کے ۴۰ دن کے بعد بلایا گیا تاکہ سرکاری پارٹی کے لیے اکثریت (خواہ وہ ایک ووٹ کی ہو اور وہ ووٹ بھی غالباً اس شخص کا جس کی جماعت کو  خلافِ قانون قرار دیا گیا تھا اور خود بھی بصدِافسوس تشدد کا نشانہ بن گیا) وضع کرلی جائے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس تو اسی مصلحت کی خاطر ۶۳ دن کے بعد بلایا گیا۔ قومی اسمبلی کو دستوری طور پر سال میں ۱۳۰ دن اجلاس کرنا ہوتا ہے لیکن پہلے ۹ مہینے میں صرف ۵۷ دن اجلاس ہوئے اور آخری تین مہینے میں جیسے تیسے ۸۳ دن بھگتا دیے گئے اور وہ بھی اس طرح کہ ہفتہ میں ۳ دن ایک ایک گھنٹے کا اجلاس ہوتا تھا اور ۴ دن کی چھٹی کو بھی اجلاس کے ایامِ کار میں شمار کرلیا جاتا تھا۔ سینیٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ مارچ میں پہلا سیشن ہوا ہے اور اب ۸مہینے گزر گئے ہیں لیکن سینیٹ صرف ۲۸ دن کے لیے اجلاس میں رہا ہے جن میں عملاً صرف ۱۸ دن کام ہوا ہے اور ۱۸میں ۶دن حزبِ اختلاف کے طلب کرنے پر (requisition) منعقد ہونے تھے اور ایک دن حلف برداری کے لیے تھا۔ گویا حکومت کی طرف سے صرف ۱۱ دن کارروائی ہوئی ہے‘ جب کہ سینیٹ کے لیے بھی دستوری طور پر سال میں ۹۰ دن ملنا ضروری ہے۔

اسمبلی نے پورے سال میں صرف دو بل منظور کیے ہیں جن میں سے ایک فائی نانس بل تھا جسے صرف ۵ دن میں کسی بحث کے بغیر نمٹا دیا گیا جب کہ ماضی میں بجٹ پر معمولاً ۴ ہفتے بحث ہوتی تھی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے ہر سال کے شروع میں ہونا چاہیے‘ جس سے صدر خطاب کرتا ہے اور جسے پارلیمانی سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے آج تک نہیں ہوا۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے وجود میںآنے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کوقائم ہونا چاہیے۔ مالیاتی کمیشن ایک سال کے بعد قائم ہوا ہے اور باقی دونوں دستوری ادارے آج تک نہیں قائم کیے گئے۔ اسمبلی کی مجالس قائمہ کا تقرر (نامکمل اور مشتبہ شکل میں) بارھویں مہینے ہوا ہے اور سینیٹ میں تومجالس قائمہ آج تک قائم ہی نہیں ہوئیں حتیٰ کہ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی جو سارے مالی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ تک نہیں بنی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی جو سب سے طاقتور اور محاسبے کے لیے سب سے اہم کمیٹی ہے‘ اس نے آج تک کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔

ارکان اسمبلی نے ۱۶۰ استحقاق کی قراردادیں داخل کرا رکھی ہیں جن کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے۔ ماضی میں ہر سال پارلیمنٹ نے اوسطاً ۲۸ بل منظور کیے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی نے عملاً کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ حکومت نے تو بل پیش کرنے کی بھی زحمت نہیں فرمائی۔ اگر اسمبلی اور سینیٹ کے order of the day کا مطالعہ کیا جائے تو حکومت کے پاس سرکاری دنوں میں کوئی ایجنڈا ہی نہیںہوتا تھا۔ سینیٹ میںارکان کے نجی بلوں کی تعداد سرکاری بلوں سے کہیں زیادہ ہے‘ گو ان پر بھی کوئی بحث اور فیصلے نہیں ہوسکے۔ قومی اسمبلی میں کورم بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور کم از کم ایک درجن مواقع پر کورم نہ ہونے کے سبب اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۰ ارکان ایسے ہیں جو پورے سال میں غائب رہے ہیں اور اس میں سرفہرست سرکاری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا نام آتا ہے۔

ایک طرف یہ افسوس ناک کارکردگی ہے‘ جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کو الزام دیا جاتا ہے حالانکہ حزبِ اختلاف کے واک آئوٹ کے بعد‘ سرکاری پارٹی کو کام کی کھلی چھٹی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے بیرونی دوروں پر بڑا وقت صرف کیا۔ صرف گذشتہ دو مہینے میں ۳۲ ارکان نے امریکہ کا سفر کیا جس کاڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بلکہ مجرمانہ کارروائی سال کے آخری دن ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہے اور وہ بھی اس غریب ملک میں جس میں آبادی کا ۳۳ سے ۴۰ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ جہاں خودکشی اور فاقہ کشی زندگی کا معمول بن رہے ہیں اور وہ بھی ایسے ارکان پارلیمنٹ کے لیے جن کے اثاثوں کا حال ہی میں جو ریکارڈ شائع ہوا ہے‘ اس کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کروڑپتی ہیں اور بقیہ ۷۰فی صد لکھ پتی۔بمشکل ۵ فی صد ایسے ہیں جو سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے والے ہیں۔

پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ریکارڈنہایت مایوس کن ہے اور اس کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ چشم پوشی ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس پارلیمنٹ نے خود اپنے مقام اور اختیارات سے غفلت برت کر اور ایل ایف او کو زیربحث نہ لا کر اپنی جو تصویر قوم کے سامنے پیش کی ہے وہ   بے حد ناقابلِ رشک ہے۔ اس کے ارکان‘ خصوصیت سے سرکاری الائنس سے وابستہ ارکان نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی خاطر اصولی معاملات سے صرفِ نظر کیا۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ دوسری قابلِ گرفت چیز پارلیمنٹ کے ارکان کی اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے اغماض اور محض ذاتی استحقاق اور مالی مراعات میں دلچسپی ہے۔ اسلام میں تو سیاست ایک خدمت ہے لیکن مغربی جمہوریتوں میں بھی ارکانِ اسمبلی ملک و قوم اور اپنے حلقہ انتخاب کی خدمت کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ارکان کی دل چسپی نہ قومی امور سے ہے اور نہ عوام کی خدمت سے بلکہ وہ مراعات میں دل چسپی رکھتے ہیں جو جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل مشرف کی ’’خاکی جمہوریت‘‘ میں یہ خرابی دوچند ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔


اس سال کے جائزے سے جو حیران کن اور تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اس میں صرف حکومت اور پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی ہی نمایاں نہیں بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو ملک میں اداروں کی تباہی (institutional breakdown) اور روایات کی پامالی اس مقام پر پہنچ سکتی ہے جس سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جنرل صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان کے چارسالہ دور کا حاصل یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور سیاست اور سرکاری مداخلت بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قانون اور ضابطے کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدلیہ کا وقار معرض خطر میں ہے۔ ایک طرف عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کش مکش ہے تو دوسری طرف عدلیہ اور وکلا (Bench & Bar) دست و گریباں ہیں اور ان میں کشیدگی اتنی گمبھیر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ کہ پاکستان بار کونسل نے جو بار کا اعلیٰ ترین سرکاری طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہے‘ عدلیہ کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں قرطاس ابیض شائع کیا ہے جس میں عدلیہ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ شرم ناک ہے۔ اس سے زیادہ نظامِ عدل کی زبوں حالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟

سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ پارٹیوں کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ بھی وفاداریوں کی خرید و فروخت کے ذریعے۔ اسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان کش مکش ہے۔ مسئلہ پانی کا ہو‘ محصولات کی تقسیم کا ہو‘ سرکاری افسروںکے تقرر اور تبدیلی کا ہو‘ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے اور دلوں کو پھاڑنے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے۔ صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ایسی قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں جو مرکزی اقدامات اور اعلانات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین سرکاری ادارے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ ضلعی نظام کو صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس بے لگام ہو رہی ہے اور جگہ جگہ عوام اور پولیس کا تصادم روز مرہ کا معمول ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کا عفریت بے قابو ہورہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ملک میں جرائم میں دوسو سے تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور پولیس اور حکمران عناصر کا ایک حصہ بھی ان میں ملوث ہے۔ سول ججوں کو جیل خانے میںہلاک کیا جاتا ہے اور مجرم گرفت میں نہیں آتے۔ ڈاکے‘ قتل‘ اجتماعی زیادتیاں‘ تاوان کے لیے اغوا کی بھرمار ہے اور کوئی ظالموں اور قانون کا دامن تار تار کرنے والوں کو گرفت میں لانے والا نہیں۔مسجدیں اور امام بارگاہیں خون سے آلودہ ہیں اور مجرم قانون کی گرفت سے باہر۔ یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے اور اس میں بڑا دخل اس امر کا ہے کہ دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ اگر بڑے بڑے دستور توڑنے والے احتساب سے بالا ہیں تو پھرعام لوگ قانون شکنی میں پیچھے کیوں رہیں؟ اگر ملک کا نظام سندِجواز سے محروم ہے تو پھر عام آدمی اور افسر سے جائز (legitimate)عمل کی توقع کیسے کی جائے؟

اداروں کی تباہی کا ایک نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب فوج اور سول سوسائٹی میں کش مکش اور تصادم کی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بری فال ہیں۔ اوکاڑہ کے مزارعوں سے تصادم‘ جرنیل کی گاڑی کے شیشوں پر سپاہی کے اعتراض کا معاملہ۔ ہم بڑے دکھ سے کہنا چاہتے ہیں کہ فوج جسے پوری قوم کی معتمدعلیہ ہونا چاہیے اور جسے سب کی تائید حاصل ہونا چاہیے وہ بار بار کی سیاسی دراندازیوں اور فوجی حکمرانی کے دور میں سیاست‘معیشت اور انتظامی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب سیاسی اختلاف اور انتظامی بدعنوانیوں کا ہدف بن رہی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈھائی سو فوجی افسر انتظامی مشینری میں داخل کیے گئے تو جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۲۷ ہوگئی ہے جو سول نظام کی بحالی اور شدید تنقید کی وجہ سے تبدیلیوں کے باوجود اس وقت ۷۰۰ سے زیادہ ہے‘ جب کہ سول انتظامیہ کے کئی سو افراد اوایس ڈی (’افسر بہ کار خاص‘)اور فارغ خطی کاشکار ہیں۔ فوجی ضرورتوں اور اعزازات کے نام پر زمینوں کے حصول‘ کنٹونمنٹ کے نظام کا سول انتظام سے بالا ہونا اور پھر سابق فوجیوں اور ان کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا معاشی امپائر کی شکل اختیار کرلینا بھی تشویش اور کشیدگی کا باعث ہو رہا ہے۔ ایک گروہ کی نگاہ میں اس طرح فوج کی دفاع کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے اور اس کے کچھ عناصر ایک vested inteestکی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں چیف آف اسٹاف اور صدارت کے عہدوں کا ایک ہی شخص کے پاس ہونا‘ گورنری اور دوسرے اہم مقامات پر سابق فوجیوں کی موجودگی‘ سول انتظامیہ اور سفارتی عہدوں پر ان کا تقرر‘ صنعت‘ بنک کاری‘ تعلیم‘ غرض ہر میدان میں ان کے لیے ایک مخصوص مقام اور حیثیت کا انتظام اور انصرام سول نظام اور ملٹری کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے اور ان میں جوہری تبدیلیوںکا ذریعہ بن رہا ہے جو فوج پر قومی اعتماد‘ اس کی غیرمتنازع حیثیت‘ اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ میں بھی بعد بلکہ ایک طرح کی رقابت (rivalry) کو جنم دے رہا ہے‘ فوج اور پولیس کے تعلقات میں کشیدگی رونما ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر فوج اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اگر جنرل مشرف اور فوج کی قیادت ان زمینی حقائق سے واقف نہیں تو یہ ایک سانحہ ہے اور اگر وہ اب بھی ان حالات کو سدھارنے کی فکر سے غافل ہیں تو یہ فوج اور ملک دونوں کے لیے اپنے دامن میں بڑے خطرات رکھتا ہے۔

ہم پوری دردمندی کے ساتھ فوجی قیادت اور سیاسی عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ملک پہلے ہی بیرونی خطرات اور اندرونی مشکلات میں مبتلا ہے۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے ہی ہم ان خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی اس ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سیاسی جماعتیں‘ وکلا‘ صنعت کار‘ تاجر‘ اساتذہ‘ طلبا‘ غرض ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حق تلفی کے بغیر یہ کام انجام دینا چاہیے۔ اسی میں سب کے لیے خیر ہے۔

دستوری‘ اداراتی اور سیاسی خلفشار اور شتر گربگی کے ساتھ ملک کی معاشی صورت حال بھی دگرگوں نظرآتی ہے۔ اس میدان میں گذشتہ چار سال اور خصوصیت سے پچھلے سال کی کارکردگی مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی منڈیوں میں روپے کی قیمت میں بحیثیت مجموعی استحکام رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں معتدبہ اضافہ ہوا جس نے عالمی منڈی میں پاکستان کی rating کو بہتر بنایا۔ یہ ذخیرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۱ بلین ڈالر سے متجاوز کرگیا جو تقریباً سال بھر کی درآمدات کے مساوی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس مثبت پہلو کا صرف جزوی کریڈٹ حکومت کی پالیسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی میکرو اسٹابی لائی زیشن کا ایک نتیجہ ضرور ہے لیکن اس کے حصول میں بیرونی ترسیلات اور آزاد منڈی سے ڈالر کی خرید (kerb buying) کا بڑا حصہ ہے۔ زرمبادلہ کے ان ذخائر میں اضافہ ملکی پیداوار اور برآمدات میں نمایاں اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں بڑا دخل عالمی حالات اور مرکزی بنک کی زرمبادلہ کے managment کی کارگزاری کا ہے۔ اس کا جزوی طور پر جو کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور جس میں سالِ رواں میں تسلسل کی پالیسی کا بھی عمل دخل ہے‘ اس کے اعتراف میں ہمیں کوئی باک نہیں‘ لیکن جو پہلو بہت ہی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی حقیقی فائدہ عوام کو نہیں ملا۔

بیرونی قرضوں کے باب میں مرکزی حکومت کو ریلیف ضرور ملا مگر ملک میں غربت میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ واضح اضافہ ہوا ہے جس پر شماریات کی اُلٹ پھیر(jugglery) سے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس پر گواہ ہے۔ غربت جس کی گرفت میں ۱۵سال پہلے آبادی کا صرف ۲۰ فی صد تھا اب وہ ۳۳ فی صد ہوگیا ہے اور آزاد معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ ۴۰ فی صد سے کم نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۴ کروڑ آبادی میں ۵ سے ۶کروڑ انسان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰۰۳ء جو ابھی شائع ہوئی ہے اس میں عالمی برادری میں ہماری غربت کی پوزیشن اور بھی نیچے چلی گئی ہے اور اب ہمارا مقام ۱۳۸ سے کم ہو کر ۱۴۴ پر آگیا ہے۔بے روزگاری میں بھی ۴۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت ہے اور لوگ خودکشی کا الم ناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی برابر جاری ہے۔ اس ایک سال میں پیٹرول و تیل کی قیمتوں میں ۲۱ بار اضافہ اور صرف تین بار کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر تیل کی قیمت میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کا ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر مستزاد زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح پر بدعنوانی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کرپشن میں اضافے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ حکومت کے سارے دعووں کے باوجود بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اضمحلال کے شکار معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کی کوئی موثر کوشش سامنے آئی ہے۔ خواہ نظری طور پرModis' rating  میں اضافہ ہو گیا ہو مگر عملاً بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری ۱۹۹۰ء       کے عشرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ خود۲۰۰۱-۲۰۰۲ء کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے اور  ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تازہ ترین تبصرہ کی رو سے اس کی بڑی وجہ  وہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے جس میں ملک مبتلا ہے:

غیریقینی قومی اور علاقائی صورت حال کی وجہ  سے پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کی سطح کم رہی ہے۔ اس کا ایک عنصر غیریقینی سیاسی منظر ہے لیکن سرمایہ کاری کی عمومی فضا کے خراب معاشی اور ادارتی پہلوئوں نے بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۵ نومبر۲۰۰۳ئ)

بنک کاری کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ قومی بنکوں نے ۱۴۵۹ شاخیں بند کرنے اور عملے میں تقریباً ۴۰ فی صد کمی کے باوجود نہ اخراجات میں کمی کی ہے اور نہ non-performing قرضوں کی پوزیشن خطرے سے باہر ہوئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوئی کام شروع نہیں کیا لیکن وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ جو ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء سے متعلق ہے یہ خبردیتی ہے کہ سرکاری محکموں کے آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۰ کھرب ۴۷ ارب روپے کی رقوم میں سے ایک کھرب ۴۲ارب اور ۹۰ کروڑ روپے کی رقوم کا استعمال قواعد کے مطابق نہیں ہوا۔ یعنی ۱۰فی صد سے بھی زیادہ سرکاری اخراجات یا بلاجواز تھے یا ان کا ناجائز استعمال ہوا۔

اس صورتِ حال کو کسی پہلو سے بھی قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔


خارجہ سیاست کے باب میں بھی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ہم جس طرح امریکہ کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کر رہا ہے۔ عالمی وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے روایتی دوست بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں دکھا رہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی دوستی تو کبھی بھی قابلِ اعتماد نہ تھی۔ اس کا مسلسل رویہ یہ ہے کہ ہر خدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور نیوکلیر پھیلائو اور دہشت گردی میں مطلوبہ سے کم تعاون پر ہاتھ مروڑنے اور بلیک میل کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ چین اور ایران سے تعلقات میں پہلی سی گرمی نہیں۔ بھارت کی ساری ناز برداریوں کے باوجود اس کا رویہ خطرناک حد تک معاندانہ اور ہمارا شرم ناک حد تک عاجزانہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بڑھ رہا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ بلکہ اب تو بھارت تاجکستان میں فوجی اڈے بنارہا ہے اور ہمارا عالم ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! قابلِ اعتماد دوستوں کا فقدان ہے۔ جو حقیقی دوست تھے اور ہمیں ان سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا‘ ان کو ہم نے دشمن قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے عوام میں ہماری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ خود جنرل صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشکل وقت آیا تو کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا‘‘۔اس سے زیادہ خارجہ سیاست کے افلاس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ۔ یہ سب اس حالت میں ہے کہ قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کی ساری باگ ڈور پارلیمنٹ یا وزارت خارجہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلاواسطہ ایوان صدارت کی گرفت میں ہے اور بش سے ساری ذاتی دوستی اور ’’جب چاہوں ٹیلی فون کر لوں‘‘ کی تعلیوں کے باوجود ہماری مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور آزادی اور خودانحصاری کی فصیل میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں۔ داخلی اور خارجہ کارکردگی کا یہ جائزہ روشنی سے محروم اور تاریکیوں اور مسائل کے گمبھیر بادلوں سے فضا کی آلودگی کا منظرپیش کرتا ہے۔


اس سال کا ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا اگر ہم مرکزی اداروں اور قیادت کی مایوس کن کارکردگی کے مقابلہ میں صوبہ سرحد کی متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلوئوں کا ذکر نہ کریں جو امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک تاریخی امر ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کا قیام انتخابات سے صرف دو ماہ قبل ہوا اور اسے انتخابی مہم کے لیے بہت کم وقت ملا لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں‘ بلکہ ملک کے اہم ترین سیاسی اور تجارتی شہروں یعنی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ حیدرآباد اور گوجرانوالہ میں اس کی کامیابی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک معتدبہ تعداد میں اس کے نمایندوں کا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا ملک گیر پیمانے پر ایک نئے رجحان کا غماز ہے۔ عوام دینی قوتوں کے اتحاد میں اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں جو بااثر اور مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں اور جنھیں بار بار مواقع دینے کے باوجود عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی نے بھی ان کے اس احساس کو اور بھی قوی کر دیا ہے کہ ان جماعتوں اور طبقوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایم ایم اے کی پوری قیادت عوام میں سے ہے اور اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو عوام کے مسائل اور معاملات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایم ایم اے نے ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے اور وہ ملک کی آزادی‘ معاشی خوش حالی اور دینی اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی علم بردار ہے۔ وہ خودانحصاری کی داعی اور ملک کی امریکی حاشیہ برداری سے نجات کے لیے کوشاں ہے۔

اکتوبر کے انتخابات کے بعد صرف صوبہ سرحد سے اسے اکثریت حاصل تھی اس لیے اس نے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کی اور مرکز میںاپنے اصولی موقف کے مطابق حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سرحد میں حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلو‘ ان تمام مشکلات اور تحدیدات کے باوجود جو مرکز کی طرف سے اسے پیش آئیں اور مرکز کے نمایندے کی گورنری کے منصب پر موجودگی اور اس کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جنھیں اور بھی گمبھیر کر دیا تھا‘ نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔

پہلی چیزیہ ہے کہ سرحد میں ایک مختصر کابینہ بنائی گئی جس نے پورے سال بڑی محنت سے کام کیا اور سادگی‘ عوام کی خدمت گزاری اور ہر وقت ان کی پہنچ میں ہونے اور ان کے درمیان پہلے کی طرح زندگی کے شب و روز گزارنے کی اچھی مثال قائم کی۔ مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں خدمت کی ایک شاہراہ روشن کی۔ الحمدللہ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کر رہے ہیں۔

دوسری چیز اسمبلی کی کارکردگی ہے۔ صوبائی اسمبلی قومی اور صوبائی معاملات پر بحث و مشورے کا محور اور مرکز رہی ہے۔ دستوری اعتبار سے سال میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۷۰ دن ہونا ضروری ہے مگر سرحد اسمبلی نے ۹۹ دن کام کیا اور ان بارہ مہینوں میں ایک بار بھی کورم کا مسئلہ پیش نہ آیا۔ اس سال ۱۳ بل منظور کیے جن کا تعلق زندگی اور حکمرانی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ خصوصیت سے شریعت بل‘ ہائیڈل پاور بل‘ غیرمنقولہ جایدادوں کا بل‘ ہیلتھ اور ہوسپٹل سروس بل وغیرہ۔ ان ۱۳ بلوں کے علاوہ بھی تین بل اسمبلی میں آئے جن میں ایک نامنظور ہوا اور دو ضروری تائید نہ ہونے کی وجہ  سے پیش نہیں ہو سکے۔ اسمبلی میں ۶۶ قراردادیں متفقہ طور پر اور دس اکثریتی ووٹ سے منظور ہوئیں جن کا تعلق ملکی اور صوبائی مسائل سے تھا۔ ان میں عالمی امور پر صوبے کی اسمبلی کی رائے بھی شامل ہے۔ پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت جیسے امور کے بارے میں قراردادیں بھی ہیں۔

سرحد اسمبلی کی کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام امور پر کھل کر بحث ہوئی اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف یہ کہ بڑی خوش گوار فضا رہی بلکہ بیشتر معاملات میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور سرحد کی روایات کے مطابق جرگے کے طریقہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوبہ سرحد کا بجٹ اور شریعت بل دونوں مکمل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے جو ترقیاتی فنڈاستعمال ہوتے ہیں ان میں حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی۔

سرحد اسمبلی نے اپنی ۲۹ مجالس قائمہ بھی پہلی فرصت میں قائم کر دیں جو اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بڑی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بدمعاملگیوں کا سراغ لگایا ہے اور ان کا احتساب کیا ہے۔ تمام بلوں پر متعلقہ کمیٹیوں نے غور کیا ہے اور ہیلتھ کمیٹی نے ماضی میں (فوجی حکومت کے دور میں) اختیار کی جانے والی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کو سرحداسمبلی سے منظورکرا کے نافذ کرا دیا ہے۔

صوبہ میں تعلیم‘ صحت اور ڈویلپمنٹ کے میدانوں میں نئی پالیسیوں اور اقدامات کااہتمام کیا گیا ہے اور صوبے کے حقوق‘ خصوصیت سے پن بجلی کے سلسلے میں صوبے کی رائلٹی کے معاملے میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اسے بھی کل جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں بھی کئی اہم امور میں پہل قدمی کی گئی جن میں فلاحی بجٹ (welfare budget) ایک لازمی حصہ کے طور پر شامل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر کابینہ اور ارکانِ اسمبلی نے اپنے مشاہروں میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اور سینیر وزیر نے اپنے اپنے مشاہرے میں علامتی کمی کا اعلان کیا ہے۔

صوبہ سرحد میں اسلامی بنک کاری کو متعارف کرانے کے الیکشن کے دعویٰ پر بھی پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور پہلے ہی سال اسٹیٹ بنک کی اجازت اور تعاون سے خیبربنک کی ایک شاخ نے مکمل اسلامی بنک کاری کا آغاز کر دیا ہے اور اس شاخ کا باقاعدہ افتتاح ۲۷رمضان المبارک کو عمل میں آ رہا ہے۔

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے نے جو روشن مثال قائم کی ہے جو مستقبل کے لیے ایک  نیک فال ہے ۔ ایم ایم اے کو تقسیم کرنے اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود الحمدللہ ایم ایم اے نے نہ صرف یہ کہ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہے بلکہ حکمرانی‘ عوامی خدمت اور اسلامی شعائر کے مکمل احترام کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن انگریزی محاورے کے مطابق: Well begun is half done ۔ اس سرسری موازنے سے قوم کے سامنے امید کی ایک نئی کرن آتی ہے اور اقبال کا ہم زباں ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے    ؎

کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں

آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ

صدربش بڑے باہمت لوگوں میں سے ہیں اور اگر ان کے ایک غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے تو فوراً ہی دوسرا غبارہ فضا میں لے آتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے انھوں نے قوم اور دنیا کو یہ امید دلائی تھی کہ امریکہ کے لیے صحیح رویہ انکساری اور غرور و تکبر سے پرہیز ہے لیکن صدر بننے کے بعد اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد غرورو تکبر ان کی پہچان اور امریکی پالیسی کا مزاج بن گئے‘ اور جس فرعونیت کا انھوں نے مظاہرہ کیا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ پھر انصاف کے نام پر انتقام کی روش پر وہ گامزن ہو گئے اور افغانستان کو تہس نہس کر ڈالا۔ پھرعمومی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں(WMD)کی تلاش ان کا ہدف بن گیا اور وہ ہاتھ دھو کر عراق اور صدام کے پیچھے پڑ گئے۔ اس زمانے میں کروسیڈز (صلیبی جنگیں)کا شوق بھی ان کو لاحق ہو گیا۔ عالمِ اسلام کی منفی رائے کی روشنی میں وہ اس لفظ کے استعمال کے باب میں محتاط ہو گئے لیکن عملاً وہ اور ان کے ساتھی امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں کروسیڈز میں مصروف ہیں اور ہدف مسلمان اور عرب ممالک ہیں۔ پھر بش ڈاکٹرائن(Bush Doctrine) نے جنم لیا اور اس میں پیش بندی کے طور پر حملے اور حکومتوں کی تبدیلی کے اہداف مرکزیت اختیار کر گئے۔ امریکہ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی کی اور اب ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جو امریکیوں کو ویت نام کے خوف ناک خواب (nightmare)کی یاد دلا رہی ہے۔

عراق میں گئے تھے اس دعوے کے ساتھ کہ تباہی کے ہتھیاروں کا پردہ چاک کر دیں گے لیکن پردہ ان کے دعویٰ کا چاک ہوا۔ نہ کوئی عمومی تباہی کے ہتھیار وہاں سے ملے اور نہ ان کو تیار کرنے کی صلاحیت کا کوئی ثبوت وہ پاسکے۔ پھر ان کا خیال تھا کہ عراقی عوام ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور سر پر بٹھائیں گے لیکن عملاً عراقی عوام نے ان کے قبضے کو سامراجی قبضہ قرار دیا اور اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے‘ اور امریکی عوام روزانہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کے تحفے وصول کر رہے ہیں۔ اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے اور بش مخالف رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان حالات میں        بش صاحب اپنی فوج کشی کے لیے ایک نئے جواز اور عالمی کروسیڈ کے لیے ایک نئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ قرعہ فال اس دفعہ ’’جمہوریت کے عالمی فروغ‘‘ کے نام نکلا ہے۔ ۶نومبر کو National Endowment for Democracy  کے ایک اجتماع میں ایک اہم پالیسی خطاب میں صدربش نے کہا کہ امریکہ کی ۶۰سالہ پالیسی جس کے تحت سیاسی آزادیاں نہ دینے والی حکومتوں کی حمایت کی گئی ناکام ہوگئی ہے۔ اس پالیسی نے امریکہ کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا کیونکہ آزادی کی قیمت پر استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے خصوصیت سے پورے مشرق وسطیٰ کے لیے جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا اور جمہوریت کی کمی کو تشدد اور دہشت گردی کا ایک اہم سبب قرار دیا اور آمریت اور تھیاکریسی (ملائیت) کو خصوصیت سے تنقید کا ہدف بھی بنایا۔ کچھ ممالک کو نام لے کر نشانہ بنایا اورکچھ کے بارے میں واضح اشارے دیے۔ اب اس تقریر کو عراق میں فوج کشی جاری رکھنے کے لیے وجہِ جواز بنایا جا رہا ہے اور آیندہ کی جولانیوں کے لیے فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آزادی اور جمہوریت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو عزیز ہے لیکن اس لیے نہیں کہ امریکہ ان کے لیے جمہوریت کی کوئی شکل فراہم یا مسلط کرے۔ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اپنے سیاسی نظریات اور تہذیبی روایات کی روشنی میںوہ اپنے نظام کی اصلاح اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ امریکہ جمہوریت کے بارے میں کتنا مخلص ہے اس کا اندازہ اس کے تاریخی کردار کے علاوہ آج کے سامراجی عزائم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پالیسی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دعووں کو خود امریکی عوام اب تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین عوامی جائزوں کے مطابق امریکی عوام کے ۵۰ فی صد سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قیادت نے ان سے غلط بیانی کی اور عراق پر حملے کے لیے کوئی حقیقی جواز موجود نہیں تھا۔

حال ہی میں ٹائم یورپ نے ایک عالمی سروے کیا جس میں ۷ لاکھ افراد نے حصہ لیا۔ سوال یہ تھا کہ دنیا کو آج سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے؟ اس کے جواب میں ۸۷ فی صد نے کہا :امریکہ۔ شمالی کوریا کو خطرہ سمجھنے والے صرف ۷.۶ فی صد تھے اور ایران کو ۳.۶۔

صدر جارج بش نے امریکہ کے دستور اور جمہوری روایات کو بری طرح پامال کیا ہے۔ آج قانون کی حکمرانی کا اصول جو جمہوریت کی روح ہے‘ خود امریکہ میں ہزاروں انسانوں کے لیے توڑا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم اور جرم کے ثبوت کے بغیر انسانوں کو آزادیوں سے محروم کرنا جمہوریت نہیں جنگل کا قانون ہے۔ امریکہ اس پر گامزن ہے۔ گوانٹاناموبے میں دو سال سے سیکڑوں افراد ہر قسم کی قانونی دادرسی سے محروم پڑے ہوئے ہیں اور امریکہ دنیا کو جمہوریت کا وعظ پلا رہا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر شہریوں کے پرائیویسی کے حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ امیگریشن قوانین کو انسانوں کے درمیان بدترین امتیازکے لیے بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا نئے قسم کے موثر thought control(سوچ پر پابندی) کا آلہ بن گیا ہے اور فکری آزادی کو زنجیریں پہنانے کے لیے امریکہ کے ایوانِ نمایندگان نے ۲۱ اکتوبر کو ایک ایسا قانون (HR 3077) عظیماکثریت سے منظور کر لیا ہے جس کی رو سے جامعات میں تعلیم اور تحقیق کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے شرق اوسط کے بارے میں نصابات‘ اساتذہ اور تحقیق کو بیڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔

امریکہ نے خود اپنی سرزمین پر بسنے والے اصل باشندوں سے جنھیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے‘ کیا سلوک کیا۔ اپنی سیاہ فام آبادی جسے اب ایفرو امریکن کہا جاتا ہے اور جو آبادی کا پانچواں حصہ ہے‘ اس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا اور زیادہ ’مہذب‘ (sophisticated) شکلوں میں آج بھی ہو رہا ہے۔ اسے اگر نظرانداز بھی کر دیا جائے اور صرف جارج بش کے دورِاقتدار کے جمہوریت کش اقدامات کا جائز ہ لیا جائے توجمہوریت اور آزادیوں کا حال صدر بش کے امریکہ میںدگرگوں ہے--- دنیا کو جمہوریت کا سبق سکھانے سے پہلے اگر وہ خود اپنے گھر کی کچھ فکر کرلیں تو امریکہ کے لیے بہتر ہوگا۔

صدربش کی تقریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب جمہوریت کے عنوان کو وہ اپنے سامراجی عزائم کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو اس میں بھی اسی طرح ناکامی ہوگی جس طرح افغانستان اور عراق میں ہوئی ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی کے خلاف ان کی نام نہاد جنگ مزید دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی اسی طرح جمہوریت کے فروغ کی جنگ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگی    ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

جب ہر طرف سے بری خبریں آ رہی ہوں تو ایسے میں اگر کوئی اچھی خبر ملے تودل خوشی اور استعجاب کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ راونڈا سے حال ہی میں موصول ہوئی ہے جو تاریکیوں میں روشنی کی کرن ہی نہیں‘ اسلام کی ناقابلِ تسخیر صلاحیت کا ایک نیا مظہر بھی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ راونڈا ان مظلوم ممالک میں سے ہے جو ۱۰ سال قبل کی خانہ جنگی کے باعث زبوں حال ہے اور وہاں کی دونوں بڑی قوموں ٹٹسی (Tutsi) اور ہوٹو (Hutu)کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ افراد قبائلی آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘ غربت و افلاس کا طوفان بپا ہے اور جہالت اور انتقام کی اس جنگ میں عالم اور عامی‘ حکمران اور عوام‘ فوج اور پولیس‘ حتیٰ کہ پادری اور عیسائی مذہبی سب ہی شریک ہوگئے اور ایک دوسرے کا سر قلم کرنے‘ مال و دولت لوٹنے اور عزت و عصمت کو تار تار کر دینے کے وحشیانہ کھیل میں شریک ہو گئے۔

راونڈا میں مسلمان ایک معمولی اقلیت تھے بمشکل ۲.۱ فی صد۔ لیکن خانہ جنگی کے اس خونی دور میں ان کا کردار منفرد رہا۔ انھوں نے کسی قبیلے کا ساتھ نہ دیا‘ کسی ظلم میں شریک نہ ہوئے بلکہ اپنی ساری قوت اس آگ کو بجھانے اور مظلوم انسانوں کو پناہ دینے کے لیے وقف کر دی‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس نسل اور قبیلے سے ہے۔ چند سال کی اس کوشش کے حیران کن نتائج رونما ہوئے۔ ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا اور لاکھوں کا تصور اسلام کے بارے میں بالکل بدل گیا۔ مسلمان غریب ہیں اور تعلیم کے میدان میں پیچھے۔ لیکن اپنے اخلاق اور خدمت کے ذریعے انھوں نے اسلام کے لیے بند راستوں کو کھول دیا اور اب عزت و احترام کے ساتھ ان کو ایسے اعوان و انصار میسر آگئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے اور خصوصیت سے نئی فوج اور انتظامیہ میں اسلام کے دوستی اور اخوت کے پیغام کے علم بردار بن گئے ہیں۔ اس وقت اے ایف پی کے ایک جائزے (دی نیوز‘ ۱۱نومبر ۲۰۰۳ئ) کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کے نتیجے میں ملک کی آبادی کا تقریباً ۱۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اے ایف پی کی اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش ہیں۔ Rawanda Patriotic Front کا ایک سپاہی جس کا اب اسلامی نام اسحق ہے‘ اپنے تاثرات یوں بتاتا ہے:

جب میری یونٹ کگالی میں آئی اور میں نے دیکھا کہ میرے کتنے ہی ساتھیوں کو مسلمانوں نے چھپایا اور اس طرح ان کی زندگی بچائی تو میں مسلمان ہوگیا۔

ایک رومن کیتھولک ژان پیرے سگاہاٹھ نے جس نے اسلام قبول کرلیا اور اب ایک ٹیکسی چلاتا ہے‘ اے ایف پی کو بتایا:

میں ایک مسلمان ادریس کے گھر کے پیچھے زیرزمین ٹینک میں چھپا ہوا تھا۔ صرف اسی کو معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ اگر وہ دھوکا دیتا تو میں قتل کر دیا جاتا لیکن اس نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔

راونڈا کے سیکڑوں باسی یہی داستان سناتے ہیں اور اپنے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو اس کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق:

جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی وہ عام طور پر اس ملیشیا اور فوجیوں سے محفوظ رہے جو ٹٹسیوں کو تلاش کر کے قتل کر رہے تھے۔اس کے مقابلے میں کلیسائوں کا ریکارڈ افسوس ناک ہے۔

اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ۱۹۹۴ء میں جب ۱۰۰ دن کے اندر ۱۰ لاکھ افراد ہلاک کر دیے گئے تھے اس کے فوراً بعد اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا اور ٹٹسی ہی نہیں خود ہوٹو کی بھی ایک تعداد نے اسلام قبول کیا۔ کچھ نے مسلمانوں کے انصاف پسند اور رحم دلانہ رویے سے متاثر ہو کر اور کچھ نے نئے حالات میں ٹٹسیوں کے انتقام سے بچنے کے لیے‘ جب کہ ٹٹسی  بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام اس لیے ہوئے کہ مسلمانوں نے ان کو تحفظ فراہم کیا اور انسانی ہمدردی اور خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

آج راونڈا میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے‘ ہر طبقہ ان کی عزت کرتا ہے۔ راونڈا کے طول و عرض میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کے سبز گنبد اور سفید   مینار آزادی اور انسانیت کی علامت بن گئے ہیں۔ راونڈا کے مسلمان غریب ہیں۔ مگر انھیں فخر ہے کہ وہ اپنے معاملات کسی بیرونی امداد کے بغیر اپنے ہی محدود وسائل سے چلا رہے ہیں بقول اے ایف پی: مسلمان کمیونٹی رواداری کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے اور تمام مذاہب اور قبائل سے ان کے تعلقات نہایت دوستانہ ہیں جو باہمی احترام اور عزت انسانی کی اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ کیا پاکستان اور دوسرے روایتی ’عظیم‘ مسلمان ممالک کے لیے راونڈا کے غریب مسلمانوں کے اسوے میں کوئی سبق ہے؟