جنرل پرویز مشرف نے بالآخر ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرکے وہ دستوری قرض اتار دیا جو ۱۴ماہ سے ان پر واجب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے سہارے اس ذمہ داری کی ادایگی سے مسلسل گریز کرتے آرہے تھے--- کبھی اسمبلی کو ’غیرمہذب‘ گردان کر اور کبھی اس دستوری ضرورت کو غیرضروری بتلا کر--- یا شاید سب سے زیادہ ایک مجرم ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ جس ریفرنڈم پر ان کے قصرصدارت کی دیواریں اٹھائی گئی تھیں اس کی اصل حقیقت سے خود ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ لیکن اللہ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ شاید اس تاخیر کے ذریعے قدرت کو سب کو یہ یاد دہانی کرانا مطلوب ہو کہ جب تک ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان کی صدارت کو کسی نہ کسی درجے میں سندجواز میسرنہ آجائے‘ پارلیمنٹ کی تکمیل اور سیاسی عمل کا حقیقی اجرا نہ ہو سکے گا۔ شکر ہے کہ یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جنرل صاحب اور ان کے رفقاے کار نے دستوری بحران کے اس جاں گسل دور سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اور کیا وہ فی الحقیقت ایک نئے اور صحیح معنی میں جمہوری اور دستوری عمل (process) کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟یا اس سب کے باوجود حسب سابق فوج کی کمین گاہ میں بیٹھ کر ہی کاروبارِ سیاست و حکومت چلانے پر مصر رہیں گے؟ کیا وہ کابینی حکومت کے صدر کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں یا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتے ہوئے بھی اسی حیثیت کے تسلسل کا ڈراما رچانا چاہتے ہیں؟
یہ خطاب ان کے لیے ایک آزمایش اور امتحان ہی نہ تھا بلکہ ان کو ایک تاریخی موقع بھی فراہم کر رہا تھا جس کے ذریعے وہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید قوم کو سنا سکتے تھے۔ لیکن ہم بڑے تاسف سے اس حقیقت کااظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑے نادر موقع کو ضائع کر دیا اور ایک ایسی گھسی پٹی اور بے جان تقریر کا اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کر لیا جو نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے‘ نہ پارلیمانی روایات کی امین ہے اور نہ اس تبدیلی کی نوید اپنے دامن میں رکھتی ہے جس کی قوم منتظر تھی مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
دستور کی دفعہ ۵۶ (۳) کے مطابق قومی اسمبلی کے ہر نئے انتخاب اور پارلیمنٹ کے ہر نئے سال کے آغاز پر صدرمملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرے۔ اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ صدر‘ کابینہ کے ایما پر اس خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی پالیسی اور نقشہ کار کو رکھے جس پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو اور اس طرح سال بھر کے کام کا ایک واضح پروگرام وجود میں آسکے۔ بالعموم اس خطاب کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ایک حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارگزاری کا جائزہ‘ دوسرے سالِ رواں کے درپیش مسائل کے بارے میں حکومتی موقف اور تیسرے سال کے دوران پارلیمنٹ کے کرنے کے کاموں کی نشان دہی بشمول قانون سازی۔ جنرل صاحب کی ۳۵ منٹ کی اس تقریر میں ’در مدح خود می گوید‘ کے کچھ سُر اور تال تو ضرور موجود ہیں‘ اسی طرح کچھ وعظ اور پندونصیحت کی نوع کی باتیں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زعم میں کچھ چیلنجوں کی بھی انھوں نے نشان دہی فرمائی ہے‘ لیکن جمالی حکومت کی کارکردگی‘ آیندہ کے منصوبے‘ بنیادی امور کے بارے میں پالیسی اور سال بھر کی قانون سازی کا پروگرام‘ ان سب کے ذکر سے وہ خالی ہے۔ گویا ؎
ہم گئے تھے عرض کرنے مدعا
اور عرض مدعا ہی رہ گیا
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس بات کو انھوں نے درپیش چیلنجوں کا نام دیا ہے وہ دراصل بیرونی دنیا کے اعتراضات اور شاہکار الزامات ہیں جنھیں نہ معلوم کس خوف یا مصلحت سے انھوں نے کسی محاسبے اور نقدوجائزے کے بغیر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دیا ہے اور ان کا بھرپور جواب دینے سے کلی اجتناب کرکے دنیا کے سامنے اپنے قومی موقف کے اعلان کا ایک سنہری موقع انھوں نے گنوا دیا ہے۔ ان کے جن مشیروں نے بھی ان کے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے ‘اس سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔
ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۷ ویں ترمیم کے سلسلے میں اپنے تحفظات کے باوصف متحدہ مجلسِ عمل نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے سارے شور شرابے کے باوجود اے آرڈی اور دوسری جماعتیں جس طرح اب کم از کم پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوگئی تھیں‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ایک قومی مفاہمت کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ موقع تھا کہ جنرل صاحب بالغ نظری کے ساتھ وسعت ِ قلب کا مظاہرہ کرتے اور قوم کو بیرونی حالات اور اندرونی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے کی طرف بلاتے۔ دل بڑا کر کے یہ کہتے کہ گذشتہ چار سال میں جو کچھ کرسکتا تھا‘ میں نے کیا اور اب ملک میں منتخب پارلیمنٹ ہے اور نئے عزم اور نئے انتظام کی ضرورت ہے۔ سب جماعتوں اور سب افراد کو میں ایک نئے آغاز اور ایک نئے اجماع کی دعوت دیتا ہوں تاکہ صحیح اور مستحکم جمہوری عمل شروع ہو سکے‘ تاکہ دستور کی بالادستی ہو‘ پارلیمنٹ کی حاکمیت مستحکم ہو‘ برسرِاقتدار جماعتیں اور حزبِ اختلاف کم از کم سب ایک قدر مشرک پر جمع ہوں اور پاکستان کا جو حقیقی وژن ہے--- یعنی ایک مثالی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی فیڈرل نظامِ حکومت کا قیام--- اس کے لیے سب اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تعمیرکے لیے ہر ایک کو اس کا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے۔ صاف کہتے کہ فوج کے سیاسی کردار کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو رہی ہے اور سیاسی نظام اب قوم کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب نمایندے جو ملک کی آزادی اور سالمیت‘ اس کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اس کی معاشی اور سماجی ترقی اور عوام کے مسائل اور اُمت مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ میں صدر کی حیثیت سے جو ریاست اور وفاق کی علامت ہے‘ دستور کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی اور جواب دہی کا راستہ اختیار کر رہا ہوں اور اب نظامِ حکومت کو چلانے کی ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ آیئے !ہم سب مل کر دستور کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ اداروں کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے اور قوم کے تمام وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ استعمال کریں اور اس طرح ہم سب مل کر اس عظیم مشن کے حصول کے لیے تن‘ من ‘دھن سے سرگرم ہو جائیں۔
یہ تھی وقت کی اصل ضرورت!--- لیکن جنرل صاحب کی تقریر میں ہمیں کیا ملتا ہے--- چند دعوے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ چند الزامات اور اتہامات جن کو انھوں نے خود اوڑھ لیا ہے۔ یہ کسی کی کوئی خدمت نہیں‘ اور کچھ وعظ و نصیحت‘ جس کا کوئی محل نہ تھا۔ اس تقریر سے قطعاً یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ملک میں انتخابات کے بعد کوئی نئی تبدیلی واقع ہوئی ہے‘ کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے‘ اس کا کوئی منشور اور مستقبل کا وژن ہے جسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے‘ کچھ اہداف ہیں‘ کچھ پالیسی کے خطوط کار ہیں‘ کوئی واضح نقشہ راہ ہے۔ قانون سازی کا کوئی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ‘پارلیمنٹ‘ منصوبے‘ پالیسیاں‘ قانون سازی--- ان سب کے ذکر سے تقریرخالی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ صحت اور اجتماعی بہبود کے نشانِ راہ‘ اخلاقی اور نظریاتی تشکیلِ نو کے مسائل کا کوئی پرتو اس میں نظرنہیں آتا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا تو وزنِ بیت کے لیے بھی نام تک نہیں آیا چہ جائیکہ انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور اس میں ایک پروگرام اپنے کرنے کے کاموں کے عنوان سے قوم کے سامنے رکھا تھا اس کا کوئی جائزہ پیش کیا جاتا کہ کیا حاصل کیا جا سکا ہے اور کیا ابھی حاصل کرنا ہے۔ پوری تقریر ایک بالکل دوسری ہی wave length پر انڈیل دی گئی ہے اور ہمیں معاف رکھا جائے اگر عرض کریں کہ پوری تقریر پر خوف‘ دبائو اور ایک گونہ بے بسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دبائو میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی وژن‘ کوئی حوصلہ‘ کوئی پیغام‘ کسی منزل کے نشان اس میں موجود نہیں--- یہ ایک سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔
اس وقت بین الاقوامی سطح پر کئی بڑے اہم مسائل اور ایشوز پر دنیا کے سارے ہی ملک‘ اقوام اور اہلِ نظر گفتگو کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے پورے سیکورٹی سسٹم کا نقشہ بدل گیا ہے۔ عالمی برادری نے جو کچھ دو سو سال کی جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا تھا وہ معرض خطرمیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت اور کردار کے بارے میں اقوامِ عالم پریشان ہیں‘ بین الاقوامی قانون کے مسلّمات تک کو غیرمحکم بنایا جا رہا ہے‘ بلاجواز آزاد اور خودمختار ممالک کو مختلف شکنجوں میں کسنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قانون‘ اصول‘ روایات سب پامال کیے جا رہے ہیں‘ ثبوت کے بغیر تعزیر کو رواج دیا جا رہا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اور محض موہوم اور ناقابلِ التفات خطرات کے سہارے اقوامِ عالم پر فوج کشی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہو اور وہ کس طرح دوسرے تمام امن پسند اور خوددار ممالک کے ساتھ مل کر نئی عالمی سامراجیت کے چنگل سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں۔ عالمی برادری کس طرح عوامی سطح پر بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ورلڈ سوشل فورم کے انداز میں کس طرح عوامی سطح پر سامراجیت اور لاقانونیت کے خلاف انسان منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟اس کا کوئی شعور جنرل صاحب کے خطاب میں نظرنہیں آتا۔
آج دنیا میں اس وقت جو تہذیبی کش مکش کا راگ الاپا جا رہا ہے اور اس کا ہدف کس طرح دنیابھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے؟ اس چیلنج کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے لگائے ہوئے الزامات کو ہم خود اپنے سر منڈھ لیں اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تصورات اور عقائد تک کو قطع و برید کا نشانہ بنائیں یادلیل اور شرافت لیکن ہمت اور قوت کے ساتھ اپنے دفاع اور اپنے تصورات کی تشریح و توضیح کی خدمت انجام دیں۔ اس سلسلے میں بھی تقریر خاموش ہے اور کوئی وژن اور کوئی پیغام جنرل صاحب کی تقریر میں دُور دُور نظرنہیں آتا۔
دنیا کی اقوام پر عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے نام پر جو ظلم کیا جا رہا ہے‘ دولت کا ارتکاز جس طرح چند ملکوں اور چند ہاتھوں میں ہو رہا ہے‘ آزاد تجارت کے نام پر ترقی پذیر ممالک اور پس ماندہ اقوام کو جس طرح معاشی ترقی اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا چند سامراجی ممالک کی بالادستی کا شکار ہوکر ان کی چراگاہ بنتی جا رہی ہے‘ اس سے کیسے بچا جائے؟ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی نسبت جو ۱۹۵۰ء میں ایک اور تیس (۳۰:۱) تھی اور جو ۱۹۸۰ء تک ایک اور ساٹھ (۶۰:۱) ہوگئی تھی اب ایک اور پچاسی (۸۵:۱) تک پہنچ گئی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ان حالات کو بدلنے کی سعی کریں اور ایک منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ سارے مسائل خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے دروبست کو ازسرنو منظم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن کیا ان کا کوئی احساس اور شعور ہماری قیادت کو ہے؟
ابھی سارک کانفرنس اسی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے (۶ جنوری)۔ پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ایک غیرمعمولی صورت حال رونما ہوئی ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بالکل واضح ہے۔ علاقے میں بھارت کے ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے اور اس کو اُبھارنے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اٹیمی اور میزائل ٹکنالوجی میں شریک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ این پی ٹی پر دستخط کردے توجو مقام امریکہ کی پالیسی میں اسرائیل کا ہے‘ وہی بھارت کو دیا جا سکتا ہے۔ ادھر روس سے دو بلین ڈالر کی دفاعی خریداری کی جا رہی ہے جس میں نیا ہوائی جہاز بردار پانی کا جہاز ایڈمرل گورشکوف اور مگ ۲۹کا ایک انبوہ شامل ہے جس سے علاقے کا توازنِ قوت شدید متاثر ہوا ہے۔ مگر یہ سب جنرل مشرف کی تقریر کا موضوع نہیںبن سکے۔ کیا یہ سب امور اس بات کے متقاضی نہ تھے کہ صدر کے خطاب میں ان کا احاطہ کیا جائے‘ تجزیہ کیا جائے‘ اور پارلیمنٹ کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پارلیمنٹ کو دعوت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی خطوط کار مقرر کرے لیکن ان تمام معاملات کی کوئی پرچھائیں تک تقریر میں نظر نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۶جنوری اور ۱۷جنوری میں کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔
اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بس ایک جملے میں بھارت کے موقف کی اپنے الفاظ میں جگالی کر دی گئی ہے جو سہل انگاری کی انتہا ہے۔ پاک افغان تعلقات‘ پاک بھارت تعلقات‘ پاک چین تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود پاک امریکہ تعلقات گہرے غوروفکر اور بحث و مباحثے کے محتاج ہیں۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر بھارت کو جو رعایتیں دی ہیں اور ان کا جو جواب ادھر سے ملا ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھ گیا ہے اور بھارتی فوج پوری بے خوفی کے ساتھ معصوم انسانوں اور آزادی کے متوالوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے‘ لائن آف کنٹرول پر لوہے کے کانٹوں کی باڑ لگا رہی ہے اور ہم کشمیریوں کی آزادی کی اس جدوجہد سے یک جہتی تک کا کوئی پیغام دینے سے گریزاں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا شیشان کا یا کوئی اور مسلم مسئلہ‘ ہم خاموش ہیں اور صرف واشنگٹن کے اشارہ چشم و آبرو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کا نام قومی مفاد کی پاسداری اور اولیت ہے؟
جنرل پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’قوم سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہوگئے ہیں‘ جس میں حقیقی جمہوریت کا قیام شامل ہے‘‘۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ جمہوریت کی بحالی کی پہلی شرط دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام ہے۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کو دستور اور جمہوریت کے راستے کی طرف لانے کے لیے ایک قدم--- صرف ایک قدم--- اٹھایا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کااصل کام تو باقی ہے کہ فوجی دور کے ساڑھے تین سو قوانین اورفرامین کا جائزہ لے کر ان کو دستور اور جمہوری اصولوں کے مطابق بنائے۔اس کے لیے ایک ۱۲ رکنی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی تحریک پر کر لیا ہے مگر اس کا اور اس کے کرنے کے کام کاکوئی ذکر تقریر میں موجود نہیں حالانکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے اس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کے بعد‘ جنرل صاحب کو فوج کی سربراہی سے جلد از جلد فارغ ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ سویلین صدر کی حیثیت سے دستور کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اختیارات میں جو عدمِ توازن پیدا کر دیا گیا ہے اسے دُور کیا جانا ہے تاکہ ملک کا ہر ادارہ بشمول فوج دستور کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہو سکے۔
معیشت کے بارے میں بھی جو دعوے کیے گئے ہیں ان کو صرف جزوی طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ کلاں معاشی اشاریے (macro economic indicators) معیشت کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف ایک حصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسرے حصے بھی اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جو مالیاتی پالیسی بیان جاری کیا ہے (۲۰ جنوری ۲۰۰۴ئ) اس کی رو سے اگست ۲۰۰۳ء کے بعد افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر تیل‘ ٹرانسپورٹ اور سب سے بڑھ کر اشیاے خوردنی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۳ء میں گندم کی قیمت میں ۴.۱۹ فی صد‘ گوشت میں ۲۲ فی صد اور ترکاریوں میں ۵.۱۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بے روزگاری جو دس سال پہلے لیبر فورس کے صرف ۳ فی صد تک محدود تھی اب بڑھ کر ۹ فی صد تک پہنچ گئی ہے اور غربت جو ۱۹۸۰ میں آبادی کے صرف ۲۰ فی صد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی‘ اب بڑھ کر ۴۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں بے شمار تضادات ہیں اور وزارتِ خزانہ ۳۲ اور ۳۳ فی صد کی آبادی کی غربت کی بات کر رہی ہے لیکن آزاد ماہرین تجارت اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بیرونی ادارے ۴۰ فی صد کی خبر دے رہے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر کے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ قوم کے ساتھ۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں جو سب سے بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف ہم پر جو الزامات اور اتہامات لگا رہے ہیں نہ معلوم کس مصلحت سے انھوں نے ان کو من و عن تسلیم کر کے خود اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے۔ بجاے اس کے کہ ان اعتراضات کا بے لاگ جائزہ لیتے۔ ان میں اگر کسی حد تک کوئی بات درست تھی تو اس کی اصلاح کا پروگرام قوم کے سامنے رکھتے۔ ان میں جو باتیں صراحتاً غلط اور اتہام کا درجہ رکھتی ہیں ان کی بھرپور تردید کرتے اور اصل حقائق کو دلیل اور قوتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ صدربش کے جھوٹ کے سیلاب میں جنرل صاحب بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ اگر امریکہ کے دائیں بازو کے بنیاد پرست (neo-cons) مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو جنرل صاحب بھی انھی کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں۔ اگر اسرائیل اور بھارت اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دین و ایمان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو ہمارے صدرصاحب کی تقریر میں بھی انھی کی آواز بازگشت سنائی دیتی ہے حتیٰ کہ اب جو بات جنرل صاحب ۱۷جنوری کو کہی ہے توفوراً ہی ۱۸ جنوری کو اس کی داد ایڈوانی صاحب نے خوشی کے شادیانے بجا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آگرہ میں جنرل صاحب نے یہ کہہ دیا ہوتا تو سارے معاملات کبھی کے طے ہوچکے ہوتے‘ یعنی ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ سنیے‘ لال کشن ایڈوانی کرنال میں آل انڈیا فورسزکی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں:
یہ بہت اچھا بیان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اس موقف سے علاقے میں دہشت گردی کے پھیلائو کا روکنا یقینی ہوجائے گا۔ ان بیانات نے علاقے کی صورت حال کو یکدم بدل دیا ہے۔ جہاد یا کسی اور نام پر دہشت گردی کا مقابلہ تمام اقوام کو اجتماعی طور پر کرنا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ئ)
کل تک یہی جنرل صاحب فرماتے تھے کہ جنگِ آزادی اور دہشت گردی الگ الگ ہیں‘ جہاد کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا اور کشمیر میں وہاں کے مظلوم مسلمان اپنے ایمان اور آزادی کے لیے استعماری تسلط (occupation)کے خلاف صف آرا ہیں۔ آج وہی مجاہد دہشت گرد بن گئے اور جو زبان واجپائی اور ایڈوانی استعمال کر رہے تھے وہ صدرِ پاکستان ۶ جنوری کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد اب ۱۷ جنوری کے پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پسپائی اور یوٹرن کا نام ’’حکمت ‘‘اور ’’لچک‘‘ رکھا گیا ہے۔
بھارتی‘ صہیونی اور امریکی انتہا پسند پاکستانی معاشرے کو غیرمعتدل اور پُرتشدد معاشرہ کہتے ہیں تاکہ ہمیں ناقابلِ اعتبار ٹھیرائیں اور ہمارے جوہری سرمایے کو غیرمحفوظ قرار دیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب بھی اپنی تقریر میں پاکستان کی وہی تصویر پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسلام بلاشبہہ اعتدال‘ امن اور اخوت کا مذہب ہے لیکن کون سا معاشرہ ہے جو انسانی کمزوریوں سے پاک ہے۔ کیا امریکہ میں تشدد‘ غنڈہ گردی اور عدم رواداری موجود نہیں۔ کیا رنگ‘ نسل زبان اور اندازِ بودوباش کی بنیاد پر وہاں انسانوں کے درمیان تمیز اور تفریق عام نہیں۔ کیا کالے امریکی جو امریکہ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور ہسپانیہ اور میکسیکو سے آکر آباد ہونے والے لوگ جو اس وقت امریکہ کی آبادی کا ایک چوتھائی ہوچکے ہیں‘ اسی طرح برائون نسل کے لوگ--- کیا ان سب کے خلاف تعصب کا معاملہ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ آج امریکہ میں آبادی کے تناسب سے جیلوں میں محبوس لوگوں کی تعداددنیا کے بیشترممالک سے زیادہ ہے؟ نیز ان میں بھی کالے امریکی تعداد کے لحاظ سے آبادی میں اپنے تناسب سے دوگنا ہیں؟ کیا دنیا میں امریکہ سول آبادی میں سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والا ملک نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق صدراور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبسن نے ابھی جنوری ۲۰۰۴ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے پُرتشدد (violent)ملک ہے۔
دنیا میں ۶۳۹ ملین کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ ہے اور ۱۶ بلین بارودی یونٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ۴۰ فی صد یعنی ۲۵۰ ملین ہتھیار صرف امریکہ میں ہیں‘ جب کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۸.۵ فی صد یعنی ۶ فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی گن لابی مضبوط ترین لابی ہے اور خود امریکی دستور کی ضمانت کا سہارا لیتی ہے۔ میری روبسن کہتی ہیں کہ ۱۱ستمبر کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۴ئ)
جنرل پرویز مشرف نے چار چیلنجوں کا ذکر کیا ہے جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو منفی تاثرات کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر کمالِ سادگی سے وہ ہر منفی پروپیگنڈے کو‘ اس کی صحت و عدمِ صحت پر کلام کیے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔
ان کی نگاہ میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ’’ہمیں اپنے سرحدی علاقوں میںایسے غیرملکی عناصر کے خلاف جو ہمارے ملک کے اندر اور افغانستان میں دہشت گردی کا باعث بن سکیں‘ بھرپور طاقت سے کارروائی کرنا ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جن مجبوریوں کے باعث بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ کیا وہ اب ہمیشہ کے لیے ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔ آج ہر عرب القاعدہ ہے اور ہر افغانی طالبان بن گیا ہے۔ یہ امریکہ کا خبط (phobia) ہے جس کا نہ زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے مصالح اور حالات سے اس کو کوئی نسبت ہے۔
عرب ہمارے اچھے دوست ہیں اور افغانی اور پاکستانی دین ‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کے دیرینہ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوسروں کی ناروا نازبرداریوں کی خاطردشمن بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی سامراجی فوج کشی کے لیے کندھا فراہم کرنے کا ہم نے یہ جواز دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور امریکہ ہمارا ساتھ دے گا‘ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہوجائیں گے‘ افغانستان میں جو حکومت بنے گی وہ ہمارے مشورے سے بنے گی‘ شمالی اتحاد کو اقتدار نہیں دیا جائے گا اور علاقے میں ہمارا کردار بڑھے گا‘ افغانستان میں جنگ لمبی نہیں ہوگی بلکہ محدود اور مختصر وقت میں معاملات طے ہوجائیں گے--- لیکن ہوا کیا؟
افغانستان کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکہ اپنے مقاصد کے لیے جو دروبست بنارہا ہے ہم تابع مہمل کی طرح اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس ڈیونڈر لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے ‘انھیں ہم سے اس کی حفاظت کرنے کے مطالبے کا کیا حق ہے؟ شمالی علاقہ جات کی ایک تہذیب اور روایات ہیں‘ اپنا نظام ہے اور قائداعظم نے پوری بالغ نظری سے اس انتظام کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم نے خود اپنی شمالی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے اور ۷۰ ہزار فوج وہاں تعینات ہے اور ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے--- اور کس کے فائدے کی خاطر؟ امریکہ کا حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی تعریف تو وہ ضرور کرتا ہے لیکن ہماری ہرخدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے اور مزید کے لیے بلیک میل کرتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہم نے گذشتہ ربع صدی میں جو نیک نامی اور محبت و احترام حاصل کیا تھا‘ وہ خاک میں مل گیا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایمان داری سے افغانستان کے معاملات کو افغانوں پر چھوڑ دیں اور فی الحقیقت کسی قسم کی بھی مداخلت کا راستہ ترک کردیں۔ امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کر دیا۔ اب آپ اور افغان عوام خود اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ ہمارے لیے سب افغانی برابر ہیں اور ہماری زمین سب کے لیے امن اور اخوت کا گھر ہے۔ ہمیں نہ عربوں سے خطرہ ہے اورنہ افغانوں سے--- امریکہ کی خاطر ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں کیوں دھکیل رہے ہیں؟
افغانستان ہو یا عراق‘ ان ممالک کے مسائل کا حل افغانستان اور عراق سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور وہاں کے لوگوں کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے معاملات سنبھالنے میں ہے۔ ہم کسی بھی دھڑے کی تائید یا مخالفت نہ کریں اور ساری توجہ اپنے حالات کی اصلاح پر صرف کریں اور یہ معاملات پوری طرح شفاف انداز میں انجام پائیں۔ البتہ امریکہ کو یہ پیغام جلد جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے انسداد کے نام پر جو دہشت گردی وہ دنیا بھر میں کرتا پھر رہا ہے اس کی ایک حد ہے۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ’’ بہت ہوگیا!‘‘ (enough is enough)کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں نئی راہیں اختیار کریں۔
کشمیر کے حوالے سے ہمارے اوپر جو الزامات ہیں ان سے نبٹنے کا واحد راستہ کشمیر کا پُرامن اور منصفانہ حل ہے۔ اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے‘ اسے نیک نیتی کے ساتھ اور کشمیریوں کی امنگوں کے ساتھ حل کی طرف لے جانا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ الزام کیا ہے اور وہ کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بھارت کی چال ہے کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر پر جھوٹ اور دھوکے اور قوت کے ذریعے قبضہ کیا‘ اور اپنے سارے عہدوپیمان کو توڑ کر وہاں کے عوام کی امنگوں کا خون کر رہا ہے بلکہ ان کی رائے معلوم کرنے تک کی ضرورت کا منکر ہے۔ پاکستان اور تمام کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں‘ آزاد کشمیر میں ہوں‘ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور علاقے میں ہوں‘ اس کے فریق ہیں۔ مسئلہ کسی زمین کے ٹکڑے کا نہیں‘ سوا کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا ہے جو بین الاقوامی قانون‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت ایک مسلّمہ حق ہے۔ کشمیر کی جنگِ آزادی ایک قومی تحریکِ مزاحمت ہے جس کے سیاسی اور عسکری دونوں پہلو ہیں اور جو ان کا حق ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر آزادی کی جنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ غیر جانب دار ممالک کے چارٹر نے اسے مانا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان ہی کی قرارداد کے ذریعے عظیم اکثریت سے ایک بار پھر اس حق کا اعادہ کیا ہے۔ اس جدوجہد کی تائید ہمارا قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں تازہ ترین معلومات کے مطابق ۸۷ ہزار ۶ سو ۷۸ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ۶ ہزار ۷ سو کو زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔ ۹ہزار سے زیادہ دخترانِ کشمیر کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے اور ایک لاکھ سے زائد مکانات‘ باغات اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی کانٹوں کی باڑ لگائی جا رہی ہے اور جس طرح سیاچن پر قبضہ کر کے شملہ معاہدے میں کیے جانے والے status quo تبدیل نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اسی طرح باڑ لگا کر نئی خلاف ورزی کی جا رہی ہے؟
پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن کو جس پر قومی اتفاق رائے تھا‘ بیرونی دبائو کے نتیجے میں تبدیل کردیا ہے اور مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل ممکن نہیں‘ اس سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ یہ سہ فریقی مسئلہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے نمایندے ہی بات چیت کا حق رکھتے ہیں‘ اس سے بھی ہم ہٹ گئے ہیں۔ پھر ہماری حکمت عملی تھی کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا‘ کشمیر کے مرکزی اور محوری مسئلے (core issue) کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اب ہم بھارت کے موقف پر آگئے ہیں کہ پہلے تعلقات کی بحالی اورکشمیر پر بات چیت بھی (چہ جائیکہ مسئلے کاحل) بعد میں! اور سب سے بڑھ کر اب جنگِ آزادی‘ جہادِ کشمیر اور دہشت گردی کے فرق کو بھی ہم بھول گئے ہیں جس کا پرچار ہم آگرہ تک کرتے رہے ہیں اور جنرل صاحب نے خود بھارت کے میڈیا کے سامنے جرأت سے اس موقف کو پیش کیا تھا۔ لیکن اب کارگل کی پسپائی کی طرح وہ ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور کشمیر کے مجاہدوں اور سیاسی تحریک کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں‘ قومی مفادات کے یکسرمنافی ہے۔
جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف اور حق کے حصول کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو قوم اپنے حق کے حصول کے لیے قربانی اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیتی ہے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ نہیں ہوتی اور جو دشمن کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دیتی ہے وہ اپنی آزادی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی اور محکومی اور غلامی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔
اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے کسی درجے میں تیار ہوا ہے‘ تووہ کشمیریوں کی جنگِ آزادی اور قربانیوں کی وجہ سے ہوا ہے‘ کسی انصاف پسندی اور دوست نوازی کی وجہ سے نہیں۔ اگر یہ دبائو باقی نہیں رہتا تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پھر جس طرح ہم کشمیری عوام کو مایوس کر رہے ہیںاورمحض دوطرفہ انداز میں معاملات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہایت غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اگر ہندستان کی ہزارسال کی تاریخ اور کشمیر پر مذاکرات کی ۵۶سال کی داستان سامنے رہے‘ تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جس نیک نیتی کی بات جنرل صاحب کر رہے ہیں وہ بھارتی قیادت کے طریق اور اس کے تاریخی کردار سے مکمل اغماض پر مبنی ہے اور ایسی ہی نیک نیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ (Hell is paved with good intentions)
جوہری ہتھیاروں کے عدمِ پھیلائو کے بارے میں جنرل صاحب نے بیرونی الزام اور دبائو کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے اس اعلان کا تو خیرمقدم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرے گا اور اسے مزید ترقی دے گا۔ آزادی اور عزت کی حفاظت کا یہی راستہ ہے لیکن عملاً جس کمزوری کا مظاہرہ وہ اور ان کی حکومت ایٹمی سائنس دانوں کے سلسلے میں عالمی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کے نام نہاد خط کے باب میں کر رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کسی این پی ٹی کا رکن نہیں اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ کے ذریعے جو جوہری پھیلائو دنیا میں ہوا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ جرمنی‘کینیڈا‘ فرانس نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم آخرکیوں ہر چیز اپنے اوپر اوڑھ لیں اور اپنے ہی قومی ہیروز کی بے عزتی پر تل جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کے نائب وزیرخارجہ اور کرنل قذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام خود کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان یا کسی مسلمان ملک کا نام نہیں لیا اور ہم ہیں کہ امریکی‘ صہیونی اور بھارتی پروپیگنڈے سے خائف ہوکر اپنی ہی جڑوں پر کلہاڑی چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ڈی بریفنگ کس بلا کا نام ہے؟ اپنے معزز سائنس دانوں سے آپ شرافت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ گرفتاریاں‘ راتوں کو گھروں سے اٹھانا‘ اہلِ خانہ سے ربط و تعلق کی اجازت نہ دینا‘ آپس میں مشورہ اور وکیل تک رسائی کے انسانی حق سے محرومی--- یہ کس مہذب معاشرے کے طور طریقے ہیں۔ یہ راستہ ایٹمی قوت کے استحکام کا نہیں‘ اس کو تباہ کر دینے کا ہے اور قوم کسی کو اس کی اجازت اور موقع نہیں دے گی۔
معاشرے میں انتہا پسندی اور عدمِ اعتدال کے الزام کو بھی جنرل صاحب نے ایک چیلنج کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور یہاں بھی وہ خود انصاف اور توازن کی راہ اختیار نہیں کرسکے۔ اسلام ہے ہی اعتدال کا نام اور اس امت کو قرآن نے اُمت وسط ہی قرار دیا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ بے اعتدالی رونما ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج تعلیم و تلقین‘ اچھی مثال‘ آزاد مکالمے و مجادلے اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کی تشخیص اور اس کے اسباب کو رفع کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں ایسی چیزیں کچھ خاص سیاسی‘ گروہی‘ علاقائی‘ لسانی یا فرقہ وارانہ مفادات کی بنا پر ظہورپذیر ہوں وہاں‘ ان تمام حالات کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے۔ پاکستان میں ملّی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل نے یہی راستہ اختیار کیا اور الحمدللہ حالات کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ بات سخت ہے لیکن حقیقت ہے کہ تشدد مسلکی نام پر ہو یا لسانی اور نسلی‘ اس کو طرح دینے میں ملکی ایجنسیوں اور بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے اور یہ تمام معلومات سرکاری ریکارڈ میں ہیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور پریس میں طبع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مستند (authenticated) ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نہ الزام کو آنکھیں بند کرکے اپنے سر اوڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ خرابی جتنی ہے اور جن وجوہ سے ہے ان کو نظرانداز کرنا ہی صحیح ہے۔ خود جنرل صاحب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قوی خدشہ ہے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ان کو‘ فوج کو‘ اور حکومت کو دینی اور جہادی قوتوں کے خلاف برسرِکار کرنا چاہتے اور ملک میں فساد اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کونظرانداز کرکے بس انتہاپسندی کے خلاف جہاد کی باتیں کرنا بڑی سطحی بات ہے اور معکوس نتائج دے سکتی ہے۔ اصول پرستی اور انتہاپسندی میں فرق اسی طرح ضروری ہے جس طرح جہاد اور دہشت گردی ہیں۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مغربی میڈیا میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی بات کو حد اور تناسب سے بڑھا کر (out of proportion) پھیلانے اور اس کا ڈھول پیٹنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو غیرذمہ دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت قابلِ اعتماد ہاتھوں میں نہیں۔ یہ بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اس سے باخبر ہونا چاہیے اور کسی ایسے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اصلاحِ احوال ضروری ہے‘ مگر حقائق کو ہر مبالغے سے محفوظ رکھتے ہوئے۔
اگر ان چند افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر جو پاکستان میں ہوئے ہیں‘ اس ملک اور اس کے معاشرے کو انتہاپسند اور تشدد پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ۱۶ دوسری آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘ مسلمانوں‘ دلت اورعیسائیوں کو جس طرح قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوٹا (POTA) جیسے قوانین کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ اسے کیا کہیں گے۔ بات صرف بھارت تک محدود نہیں‘ امریکہ کے معاشرے کا کیا حال ہے۔ کیا وہاں امریکی دہشت پسند گروہوں کی کمی ہے؟ Ku Klux Klanسے لے کر اوکلاہاما کی تباہ کاری کے ذمہ دار گروہوں تک کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک قتل نہیں ہوتا؟ کیا امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سڑکیں ہی نہیں‘ گھربلکہ ہوٹل تک محفوظ ہیں؟ جو بھی فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھیرے ہیں‘ جانتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی ہوٹل کا عملہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے کیا کچھ ہدایات نہیں دیتا۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کا حال تو اور بھی تباہ ہے لیکن کسی ملک کا سربراہ اس طرح اپنے ملک میں تشدد اور بے اعتدالی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا اور یہ تاثر نہیں دیتا کہ اس کا ملک انتہاپسندی اور تشدد کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور اگر کچھ ناخوش گوار واقعات یہاں ہوئے ہیں‘ تو وہ خاص حالات کی پیداوار ہیں جن میں بیرونی ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہہ جو بھی کمزوری ہمارے ملک میں ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا لیکن محض دوسروں کے کہنے پر ایسے الزامات کو اوڑھ لینا اور انھیں حقیقت سمجھ کر پورے معاشرہ اور ملک کو بدنام کرنا‘ یہ دشمنوں کا کھیل ہے جس میں ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔
جس طرح جنرل پرویز مشرف نے اس پوری بات کو چیلنج قرار دے کر پیش کیا ہے‘ وہ مصنوعی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی فوج قوم کا قیمتی اثاثہ اور دفاع وطن کے باب میں ہماری متاع ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے فوج کے بارے میں بھی جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اسے صحت مندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی خدمات بیش بہا ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہے لیکن فوج تنقید و احتساب سے بالا نہیں اور فوجی قیادت نے سیاست میں مداخلت کر کے اور ہماری تاریخ کے ۵۶ برسوں میں سے تقریباً نصف مدت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو کر جو غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں واقع ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری سے فوج کی ان قیادتوں کو کیسے بری قرار دیا جاسکتا ہے جو اقتدار پر قابض تھیں۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ چشم کشاہے۔ دوسرا پہلو فوج کی عظیم خدمات اور دفاع وطن کے لیے قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ انسانی سطح پر کچھ اہم میدانوں میں فوجی قیادتوں کی غلطیاں بلکہ بھیانک غلطیاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ فوج کی بحیثیت ادارہ تحفظ اور قدرومنزلت کے ساتھ انفرادی فوجی اقدامات یا اجتماعی کوتاہیوں پر احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسے غلط محرکات اور فوج کو بدنام کرنے کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح راستہ درمیان کا راستہ ہے۔ فوج بھی باقی سب اداروں کی طرح محترم ہے اور اس کا احتساب بھی قانون کی بالادستی کا ایک حصہ ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور کسی کو بھی قانون سے بالا ہونے کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔
فوج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر صرف دفاعِ وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاست میں دراندازی کر کے اپنے کو متنازع نہ بنائے۔ اور اگر فوج سیاست میں دخیل ہوگی تو پھر اس کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جائے گا جس طرح سیاسی جماعتوں‘ عناصر اور قیادتوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس وقت ملک کو جو اہم اندرونی چیلنج درپیش ہیں‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی طرح جلد از جلد فوج کو صرف دفاع وطن کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے تاکہ وہ متنازع نہ بنے اور قوم کے احترام اور تعاون کی مستحق رہے۔
ایک بڑا اہم پہلو سیاسی استحکام‘ سیاسی اداروں کا مؤثر ہونا‘ اور قوم کو اعتماد میں لے کر اندرونی سیاسی مضبوطی کا حصول ہے۔ جنرل صاحب نے استحکام کے دو ستونوں‘ یعنی فوج اور معیشت کا ذکر تو کیا ہے لیکن تیسرے ستون‘ یعنی سیاسی استحکام‘ حقیقی جمہوریت کا مؤثر اور معتبر ہونا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام کا فروغ اور چوتھے ستون‘ یعنی نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی مضبوطی کا ذکر نہیں کیا۔ قومیں اپنے نظریات اور اپنے عزائم کی بنیاد پر بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہیں اور بڑی بڑی آزمایشوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں مادی قوتوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں اورمادی قوت اخلاقی اور نظریاتی قوت اور استحکام کے بغیر اپنی اصل استعداد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اندرونی محاذ کی مضبوطی کے لیے معاشی اور دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری استحکام اورنظریاتی اور تہذیبی محاذ کی تقویت ازبس ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کوبھی نظرانداز کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ہر میدان میں نشیب و فرازممکن ہیں اور تاریخی حقیقت ہیں لیکن اصل فیصلہ کن قوت ایمان‘ نظریاتی اعتماد‘ اخلاقی قوت اور مستقبل کا وژن ہے۔ جنرل صاحب کی تقریر میں یہ دوسرے پہلو مفقود ہیں‘ جب کہ سیاسی ‘ معاشی اور دفاعی میدان میں تسلسل اور بقا کے لیے یہ فیصلہ کن ہیں۔ جنگیں عسکری ہوں یا نظریاتی‘ ان کا اصل انحصار قومی ارادے (national will) اور خودی کی قوت پر ہوتا ہے اور اگر یہی پہلو ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے سامنے نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم کو تیار کیا جائے اور فیصلے افرادنہ کریں بلکہ ادارے کریں اور قوم کے عزائم اور امنگوں کی روشنی میں کریں۔ خوف کے تحت کیے جانے والے فیصلے صرف پسپائی اور شکست پر ہی منتج ہوسکتے ہیں‘ کبھی بھی فتح کی نوید نہیں لا سکتے۔
آخر میں ہم پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں مفصل بحث ہونی چاہیے اور جن امور کا انھوں نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ پہلوتہی کرگئے ہیں‘ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ بات ہونی چاہیے تاکہ پارلیمنٹ ملکی اور غیرملکی مسائل کی روشنی میں کوئی نقشہ راہ قوم اور حکومت کے سامنے پیش کرسکے۔ آج جس طرح اسلام‘ دینی مدارس‘ جہاد اور قومی اقدار و روایات کو پوری دنیا میں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ پورے تدبر اور تحمل لیکن مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی خرابی اور کمزوری ہے تو اس کی اصلاح کی بھی پوری فکر کی جائے لیکن محض پرائے شگون پر ناک کٹوانے کی حماقت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے جس یقین‘ تدبر اور بالغ نظری سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدمے کو پیش کیا اور بالآخر مقدمہ جیت گئے اسی طرح آج بھی اپنے مقدمے کو پیش کرنے اور اپنی قوم کو تیار کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو گالی دینے سے کام نہیں چلے گا لیکن دوست اور دشمن میں صحیح صحیح تمیز کے بغیر بھی ہم اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتے۔ ۱۹۳۰ء کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا ادراک آج اور بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘ اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے حیات بخش تخیل میں رچ بس جائیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان اسی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ آج پھر اسی سبق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے اسی کے سہارے پاکستان بنا دیا اور ہم اسی کے سہارے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے معزز ارکان اور خود صدر صاحب کو قائداعظم کے وژن کی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ آگے کے سفر کے بارے میں ان کا دکھایا ہوا راستہ ایک بار پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ ۱۹۴۸ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِواحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان‘ وہ لنگرخدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا جائے گا… ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک کتاب‘ ایک اُمت۔
اس وقت میدانِ سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فتح یاب کون ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ صبر و رضا پر کاربند ہوجائیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تحت الٹ دیے تھے۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
اقبال اور قائداعظم کا وژن بالکل واضح ہے‘ کیا ہم اس وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرکے لیے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟