عالم گیریت یا گلوبلائزیشن‘ اکیسویں صدی کا ایک ایسا فتنہ ہے‘ جو اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ تدریجاً‘ لیکن نہایت تیزی سے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح بھی نئی ہے‘ اس کے اطلاقات بھی ‘اور اس کی جڑیں بیسویں صدی کے وسط میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن مغرب سے آنے والی اس یلغار کا تعلق اٹھارھویں‘ انیسویں صدی کے اس دور سے ہے‘ جب اس سمت سے اٹھنے والا طوفان ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے عوام پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ مزاحمت کرنے والے سفاکی کے ساتھ نیست و نابود کیے جا رہے تھے‘ وسائل کا بے پناہ استحصال ہو رہا تھا‘ اور قیادت و حکومت’غیروں‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد’نوآبادیات‘ کا یہ دور سمٹتا چلا گیا‘ لیکن اس کی جگہ ایک نئے استعمار نے لے لی‘ جو زیادہ ’نفیس‘ ، بظاہر نرم لیکن اندر سے اسی طرح سفاک اور بے رحم تھا۔
۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ (جس میں چار بڑی طاقتوں کو ساری دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ویٹو کا اختیار دیا گیا) اور پھر ۱۹۹۰ء میں ’نیا عالمی نظام‘ (New World Order) اور پھر۱۹۹۵ء میں عالمی تجارتی کانفرنس میں ایک نئی عالمی تنظیم براے تجارت (WTO) کے پردے میں عالم گیریت کے عفریت نے جنم لیا‘ جو اپنی ساری حشرسامانیوں کے ساتھ ساری دنیا میں اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہے۔ پچھلی صدی میں ۹۰ء کی دہائی میں روس کے انہدام کے بعد (جو مغربی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک چیلنج تھا)‘ کوئی قابلِ ذکر طاقت نہ رہی جو اس عفریت کو للکارتی۔ ماوزے تنگ کے بعد چین بھی اس ’زلف‘ کا اسیر ہوگیا‘ اور اب یہ ساری دنیا میں کوس’ ’لمن الملک‘‘ بجا رہا ہے۔
عالم گیریت کے حامی اسے جدیدیت کی ایک ایسی لہر قرار دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے یورپ اور امریکہ کی ’خوش حالی‘ ساری دنیا کا مقدر بن جائے گی‘ سب کا معیارِ زندگی بڑھے گا‘ تعلیم و ثقافت عام ہوگی‘ صحت و مسرت سے سبھی فیض یاب ہوں گے۔ گویا دنیا سے پس ماندگی‘ تاریکی اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر یہ ہوگا کس طرح؟ یوں کہ صنعت‘ تجارت (اور سیاست)‘ اور ثقافت کے لیے انسان کی بنائی ہوئی سرحدیں دھندلی پڑ جائیں گی‘ ساری دنیا ایک ایسا قصبہ بن جائے گی‘ جس کے سارے شہری خوش حالی اور ترقی کے ثمرات سے یکساں مستفید ہوسکیں گے۔ مگر عملاً ہوا کیا؟ ہوا یہ ہے کہ مغربی قوتوں نے‘ جو ساری دنیا کے وسائل کے استحصال‘ سائنس اور فنیات کی ترقی اور سامانِ حرب و ضرب کے نتیجے میں پہلے ہی دنیا کے بیشتر ممالک پر حاوی ہوچکی تھیں۔ یہ مطالبے شروع کیے کہ تجارت‘ صنعت و حرفت اور دولت کی نقل و حرکت پر ساری پابندیاں ختم ہونی چاہییں۔
نتیجتاً پس ماندہ ملکوں میں مزاحمت کمزور پڑتی جا رہی ہے‘ بیشتر حکمران اور پالیسی ساز یا تو خرید لیے گئے ہیں‘ یا انھوں نے یہی مناسب جانا ہے کہ اپنے مفادات کو انھی سے وابستہ کریں۔ کھلی منڈی‘ ملکی تجارت‘ بے روک ٹوک وسائل کی حرکت کے نتیجے میں غریب ملکوں ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ ’کثیرالقومی‘ کمیٹیاں پس ماندہ ملکوں میں ہشت پا کی طرح وسائل کو چُوس رہی ہیں۔ سستی مزدوری اور وسائل سے اپنی مہارت کے نتیجے میں ’قدر افزونی‘ کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایک کلچر‘ ایک زبان‘ اباحیت‘کرپشن‘ لادینیت کے ذریعے نہ صرف اخلاقی بندشیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں‘ بلکہ غربت‘ بے روزگاری اور لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ کیوں کہ عالم گیریت کا ایک اہم اصول ’نج کاری‘ بھی ہے‘ جس کے نتیجے میں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوکر عوام کی فلاح و بہبود اور خبرگیری کو اپنے استحصالی اداروں کے سپرد کر رہی ہیں‘ جن کا ایمان ’’کثیر ترین نفع کا حصول‘‘ (maximization of profit) ہے۔
اس نئے رجحان پر انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں بہت سا لٹریچرآچکا ہے اور آرہا ہے۔ اس کے حق میں بھی اور اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خلاف بھی۔ اُردو میں گلوبلائزیشن اور اسلام اس موضوع پر ایک نئی کتاب ہے۔ فاضل مصنف نے جو دیوبند کے ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور دینی علوم کے فاضل ہیں‘ عربی‘ انگریزی اور اُردو کے تمام دستیاب مصادر سے استفادہ کر کے اس نئے رجحان کی تاریخ‘ اس کے عواقب و نتائج پر سیرحاصل بحث کی ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ’’جدید گلوبلائزیشن جن نظریات کو دعوت دے رہا ہے‘ اور جن افکار وخیالات کو نافذ کرنا چاہتا ہے‘ وہ انھی جاہلی مفاسد کا عکس ہیں‘ جو ]قبل اسلام[ غضب ِ خداوندی کا باعث بنے تھے۔ جاہلیت کی طرح گلوبلائزیشن نے بھی سُود‘ اباحیت‘ اور جنس پرستی کو درست ٹھیرایا اور عالمی استحکام کے نام پر سیاسی انارکی پھیلائی۔ زمانۂ جاہلیت میں جس طرح مال داروں کے مفادات ہی کو محبوب رکھا جاتا تھا اور غُربا کی زندگی کو تنگ سے تنگ کر دیا جاتا تھا‘ عالم گیریت میں بھی چند گنی چُنی کمپنیوں کے مالکان اور ان کے ذاتی مفادات کی رعایت کی جاتی ہے۔ عالمی اقتدار پر چند طاقتوں ہی کا غلبہ ہے‘ جو سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے ذریعے پوری دنیا کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آج کا گلوبلائزیشن زمانۂ جاہلیت کی کھلی تصویر اور اس کا عکاس ہے‘‘۔ (ص ۴۳۲-۴۳۳)
اس کتاب کی ایک بڑی خوبی ہے کہ فاضل مصنف نے اُردو کے قارئین کو اس موضوع پر لکھی جانے والی بہت سی عربی تحریروں سے روشناس کرایا ہے۔ تاہم انگریزی زبان میں موجود اس وسیع ذخیرے سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا گیا‘ جو’گھر کے گواہ‘کی حیثیت سے دستیاب ہے‘ اور اس نظام کی تمام ہلاکت سامانیوں کے باوجود اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ بہت عرصہ نہیں گزرے گا کہ یہ طلسم تارِ عنکبوت کی طرح بکھر جائے گا۔ (پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیرسلیم)
مظلومیِ نسواں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ عصرحاضرمیں یہ ظلم مختلف روپ بدل بدل کر عورت کو نشانۂ ستم بنا رہا ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ اس ظلم کی شکار ہستی عورت‘ ستم گر کے دام کو دانہ سمجھتی نظرآتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’اپوا‘ قسم کی تنظیموں نے مسلم عورت کو گھر کی چاردیواری سے کھینچ کر باہر لانے کا بیڑا اٹھایاتھا۔ وقتاً فوقتاً اس ہدف کی جانب بڑھنے کے مختلف بہانے تراشے گئے اور نئی نئی سبیلیں نکالی گئیں۔ گذشتہ ۲۵ برس سے اسی حلقے نے حدود آرڈی ننس پر تنقید کا بازار گرم کیا ہوا ہے‘ جس میں نام تو عورت کی ہمدردی کا ہے‘ مگر اس مہم کا نشانہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قوانین ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس ۱۹۷۹ء کے متن کا تعزیرات پاکستان کے سابقہ قوانین سے موازنہ کیا گیا ہے۔ یوں لفظی اور معنوی سطح پر اس پروپیگنڈے کے تاروپود بکھیرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ جس کا سلسلہ بڑے تواتر سے جاری ہے۔ پھر حدود آرڈی ننس پر مختلف اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر متعلقہ امور کو بھی زیربحث لایا گیا ہے اور آخر میں سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
اہلِ علم کی جانب سے ‘ اس جارحانہ الزامی مہم کا ساتھ ہی ساتھ جواب دیا جاتا رہا ہے‘ لیکن زیرنظرکتاب میں اس بحث کو اختصار سے مرتب کیا گیا ہے۔ جتنا بڑا چیلنج درپیش ہے‘ اس میں گنجایش موجود ہے کہ اس موضوع پر مزید گہرائی سے کام کیا جائے۔ حدود آرڈی ننس ہو یا اس کتاب میں پیش کردہ سفارشات‘ سبھی پر بات کی جاسکتی ہے‘ مگر راستہ قرآن وسنت اور تعامل صحابہؓ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرِحاضر میں بہترراہیں متعین کی جاسکتی ہیں۔ البتہ اگر معاملات کو مغربی دبائو کے نتیجے میں ’’درست کرنے‘‘ کی کوشش کی گئی تو ان قوانین کی روح اور احکامِ الٰہی کا منشا دونوں متاثر ہوں گے۔
پیش لفظ میں ڈاکٹر محموداحمد غازی نے لکھا ہے: ’’یہ جائزہ ملک کے تمام اہلِ علم‘ خاص طور پر قانون دانوں اور قانون ساز حضرات تک پہنچنا چاہیے‘‘ (ص ۷)۔ بلاشبہہ اپنی موجودہ شکل میں یہ ایک موثر اور قابلِ لحاظ پیش کش ہے۔(سلیم منصورخالد)
جاویدنامہ (۱۹۳۲ئ) علامہ اقبال کی شاعرانہ فکر کا شاہکارہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا ماحصل (ان کے اپنے بقول: life work) بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ اپنے اس مجموعۂ شعر کووہ ’’ڈوائن کامیڈی کی طرح ایک اسلامی کامیڈی‘‘ سمجھتے تھے‘ جس میں انھوں نے اپنے مرشد مولانا جلال الدین رومی کی معیت و رہنمائی میں مختلف افلاک اور سیاروں کا تصوراتی اور روحانی سفر کیا ہے۔ متعدد اکابر وشخصیات کی ارواح سے ملاقات و گفتگو کی اور اس حوالے سے ’’بہت سے روحانی تجربات‘ دینی حقائق‘ علمی افکار اورشاعرانہ خیالات‘‘ کا اظہار کیا۔ فلک عطارد کے دورے میں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کے ساتھ مکالمے میں علامہ نے ’’عالمِ قرآنی‘‘ کے عنوان کے تحت چار محکمات کا ذکر کیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں اس حوالے سے عالمِ قرآنی کی تشکیلِ نو اور جہانِ قرآنی کی ازسرِنودریافت کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’علامہ اقبال کی نظرمیں قرآنی دنیا کی امتیازی خصوصیات اور اس کی بنیادیں (جاوید نامہ کی روشنی میں)‘‘۔
جاوید نامہ کے مجموعی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی کئی ایک کتابیں اور تحقیقی مقالے ملتے ہیں۔ زیربحث تصنیف‘ اس کے صرف ایک مبحث (محکماتِ عالمِ قرآنی) سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے عالمِ قرآنی کی ان چار محکمات (خلافتِ آدم‘حکومت ِ الٰہی‘ زمین خدا کی ملکیت ہے‘ حکمت خیرکثیر ہے) پر اقبال کی شعری و فکری توضیحات کے حوالے سے کلام کیا ہے۔ ابتدا میں جاوید نامہ کامختصر تعارف ہے‘ بعدازاں چار ابواب میں چاروں محکمات پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں یہ وضاحت کہ عالمِ قرآنی وجود میں آسکتا ہے‘ بشرطیکہ افرادِ اُمت اہلِ فرنگ کی تقلید سے اجتناب کریں اور اپنی مملکتوں میں سرمایہ داری‘ جاگیرداری اور ملوکیت کے بجاے قرآنی نظام رائج کریں۔ جب وہ اپنے اسلوبِ حیات کو توازن‘ اعتدال اور فقرپر استوار کریں گے تو خودی اور اپنے حقیقی تشخص کو پالیںگے‘ اور یہ اُمت کی سربلندی کا راستہ ہوگا۔
جنابِ مولف کی یہ کاوش جاوید نامہ کے متعلقہ حصے کی ایک عمدہ تشریح ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعرہی نہ تھے‘ قانون و سیاست اور معاشیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور بجاطور پر انھیں شدید احساس تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر‘ روے زمین پر عدل وانصاف کا قیام ممکن نہیں۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے مگر آغاز میں فہرست کی کمی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
معلم اگر باعمل بھی ہو تو اس کی ہر بات روح کی گہرائیوں تک اترتی چلی جاتی ہے۔ جناب عتیق الرحمن صدیقی ہمارے اہلِ قلم حضرات کے اُسی قافلے سے تعلق رکھتے ہیں جو گل و بلبل کے قصوں کو خیرباد کہہ کر اپنے زورِ قلم سے اور نورِ علم سے مسلمان معاشرے کی اصلاح میں تندہی سے مصروف ہے۔
زیرِنظر کتاب مختلف موضوعات پر لکھے گئے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مصنف نے معاشرتی اصلاح کے مقصد اور تعلیم و تلقین کے جذبے کے ہمراہ‘ دین مبین کی ترویج و تبلیغ میں جولانیِ قلم کا خوب خوب مظاہرہ کیا ہے۔ اُن کے یہ مضامین ایک سچے مسلمان اور ایک سچے پاکستانی کے جذبۂ حب الوطنی کے بھی آئینہ دار ہیں۔ حرفِ اول میں لکھتے ہیں: ’’میرے پیشِ نظر مقصد یہ ہے کہ اسلام کے سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور اخلاقی نقوش کو ابھارا اور اُجاگر کیا جائے تاکہ پاکستان میں فکروعمل کے اعتبار سے ایک صالح اور صحت مند معاشرہ وجود میں آئے‘‘۔
اُن کی یہ کتاب اول تا آخر اُن کے اسی عزم کی ترجمان نظرآتی ہے۔ وہ ارضِ پاکستان میں دین کے بنیادی علوم کے ہمراہ جدید سائنسی اور دیگر معاون علوم کی درس و تدریس سے ایک ایسا ریاستی نظام تشکیل دینے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں جو تقویٰ و جہاد‘ عشق رسالتؐ اور عدل و مساوات کی عملداری کے ہم سفر جدید سائنسی ترقی کا بھی مظہر ہو۔
یہ مضامین اپنے متنوع موضوعات کے اعتبار سے ایک خوب صورت گلدستے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے بعض سیاسی زاویہ ہاے نظر سے ہٹ کر سوچا جا سکتا ہے لیکن ان کے خلوص سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ (سعید اکرم)
ایک زمانہ تھا کہ اخبارات میں کالم صرف فکاہی نوعیت کے شائع ہوتے تھے۔ لیکن اب تو ہر طرح‘ ہر نوعیت اور ہر معیار و انداز کے کالم لکھے جا رہے ہیں‘ بلکہ کالم نگاری ایک الگ صنف بن گئی ہے اور کالم نگار اتنی سیاسی اہمیت اختیارکرگئے ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان‘ کالم نگاروں سے مناسب رابطہ رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں--- رضی الدین سید کسی بڑے اخبار کے اس نوعیت کے معروف کالم نگار نہیں۔ ان کے کالم ان کے زخمی اور حساس دل کی پکار ہوتے ہیں اور گاہے بہ گاہے ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ اپنے ۴۱کالموں کو انھوں نے اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔
کالموں کے موضوعات میں بڑی وسعت اور تنوع ہے۔ خود ہی انھوں نے سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ فکری اور متفرق عنوانات میں ان کو تقسیم کیا ہے اور ان میں موجودہ پاکستانی معاشرے کے سب ہی پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ معاشرہ آج جن تکلیف دہ مسائل کا شکار ہے‘ تجزیہ کیا جائے تو ان کا ایک سبب توعوام کی اپنی مسلمہ اقدار سے دُوری ہے۔ دوسرے‘ ملک کا اقتدار ایسے عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو مسائل کے حل کے بارے میں لاپروا ہیں اور مغرب کی نقالی ہی کو معراج سمجھتے ہیں۔ بعض عنوانات سے کالم کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مثلاً :علامہ اقبال بھی آج القاعدہ کے رکن شمار کیے جاتے--- اگر جاپان کے پڑوس میں ہندستان ہوتا--- اگر حج کی ادایگی پاکستان میں ہوتی--- وغیرہ۔
کتاب دل چسپ ہے اور ایمانی جذبے کی آبیاری کرتی ہے۔ رضی الدین سید انگریزی اور اُردو دونوں میں لکھتے ہیں‘ کئی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں۔ ان کی اصل دل چسپی صہیونیت کے بارے میں احادیث نبویؐ کی پیش گوئیوں پر تحقیقات سے ہے۔ (مسلم سجاد)
کردار اور بنی آدم ساتھ ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ انسان تخلیق کیا گیا تو اس کا کردار بھی متعین کر دیا گیا کہ انسان کی اچھائی یا برائی کا انحصار اس کے کردار پر ہوگا۔
آئینۂ کردار میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مختلف معاشروں میں اخلاق کی اہمیت مسلّم رہی ہے۔ جو قومیں اخلاق کے ضابطوں کو توڑتی ہیں وہ ذلیل و رسوا ہوجاتی ہیں۔ مصنف نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اخلاق کے مختلف پیمانوں اور اتار چڑھائو کی وضاحت کی ہے اور موقع محل کی مناسبت سے حوالے اور اقوال بھی درج کیے ہیں۔استقامت‘ صبر‘ پاکیزگی‘ مطابقت‘ تشکر‘ سفارش اور کامیابی اور اسی طرح کے متعدد موضوعات پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔
مولف کا دھیما اسلوب ایسا ہے جیسے کوئی سرگوشیاں کر رہا ہے۔ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ الفاظ شناسی اور شگفتگی ان کے اسلوب کا خاصہ ہیں۔ عربی و فارسی اشعار کا حوالہ ان کے وسیع مطالعے کا ثبوت ہے۔ قارئین‘ کتاب کو دل چسپ پائیں گے۔ (قاسم محمود وینس)