سوال: کچھ عرصہ قبل ’رسائل و مسائل‘میں اپنے باپ کے نامناسب رویے پر ایک بیٹے کا جواب ’والد سے حق کی وصولی‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) شائع ہوا تھا۔ میں ایک باپ کی حیثیت سے ناخلف بیٹے کے رویے کے بارے میں قرآن و سنت سے رہنمائی چاہتا ہوں۔
میرا بڑا بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ مکان میں رہتا ہے۔ ۲۰سال قبل اپنی معاشی پریشانی کے پیشِ نظراپنے باپ سے مدد کے لیے کہتا ہے۔ بحیثیت والد اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے ایک دکان خرید کر بیٹے کے حوالے کر دیتا ہوں اور کاروبار کی بہتری کے لیے امکانی حد تک تعاون کرتا ہوں۔ میرے بیٹے نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس دکان کے آپ ہی مالک ہیں اور جیسے آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ میرا بیٹا تحریکِ اسلامی سے بھی وابستہ ہے‘ رکن ہے۔ لیکن اچانک ایک روزبغیرکسی مشورے اور اطلاع کے میرے بیٹے نے وہ دکان فروخت کر دی۔ اب میں اس پیرانہ سالی میں انتہائی کس مپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہا ہوں‘ اپنی بیوی اور بیٹی کے اخراجات برداشت کر رہا ہوں۔ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے اور خیرات اور زکوٰۃ پر گزربسر کرتے ہوئے مجھے شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ سرِدست خدا کی ذات پر بھروسا اور صبر کا سہارا ہے۔ اپنے حق کی وصولی کے لیے میرا کیا طرزِعمل ہو‘ نیز ایسے بیٹے کے ساتھ ایک باپ کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟
جواب: آپ نے اپنے صاحبزادے کے طرزِعمل کے بارے میںجو تفصیلات لکھی ہیں وہ ہر حساس اور اللہ سے ڈرنے والے کے لیے تکلیف کا باعث ہیں لیکن حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک ہر دو جانب سے بات نہ سن لی جائے‘ کوئی قطعی راے نہ قائم کی جائے۔ ویسے تمام تفصیلات لکھنے کے باوجود آپ کے خط میں کوئی واضح سوال بھی نہیں اٹھایا گیا۔ غالباً مدعا یہی ہوگا کہ اس طرح کے طرزِعمل کے بارے میں ایک باپ کا ردعمل کیا ہو۔ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے اس میں آپ کا ردعمل وہی نظر آتا ہے جو اسلام چاہتا ہے یعنی اپنی اولاد کی طرف سے مایوس کن اور غیرمتوقع رویے کے باوجود قطع رحمی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر بہترین اجر دے اور صبرواستقامت کے ساتھ اس تکلیف دہ صورت حال کو برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔
آپ نے خط میں جو مسائل اٹھائے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے بیٹے کو ایک دکان خرید کر دی جس کی ملکیت اس کے نام ہے اور آپ اس کا انتظام ونگرانی کر رہے ہیں تو کیا قانونی طور پر اسے اس دکان کو فروخت کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں بات واضح ہے۔ اگر آپ نے دکان اس کے نام سے خریدی ہے تو اصل مالک تو بیٹا ہی ہوا۔ اب یہ آپ کا ایک انتظامی معاملہ تھا کہ آپ دکان پر بیٹے سے تعلق کی بنا پر محنت کے ساتھ وقت دیتے رہے۔ دراصل مالی معاملات میں قرآن کریم نے بلاتخصیص یہ اصول رکھا ہے کہ ہر معاہدے کو تحریر میں لے آیا جائے۔ اگر آپ نے یہ بات تحریر کرالی ہوتی کہ جب تک آپ حیات ہیں اس وقت تک آپ دکان کے مالک و منتظم ہوں گے توآپ کا بیٹا بھی اس معاہدے کا پابند ہوتا۔
یہاں تک تو بات قانونی نوعیت کی تھی۔ اس معاملے کا دوسرا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن وسنت نے والدین کو جو مقام خاندان میں دیا ہے‘ اس کے پیشِ نظر اگر ایک باپ مفلس بھی ہو اور بیٹا مال دار ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: وہ اور اس کا مال سب اس کے باپ کا ہے۔ اس حدیث کی تعبیر بعض حضرات یہ کرتے ہیں اس میں ترغیب و تعلیم ہے تشریع نہیں ہے۔ لیکن اگر حدیث کے سیاق پر غور کیا جائے تو بات محض اخلاقی وعظ کی نہ تھی بلکہ ایک باپ نے حضورؐ سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تھی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ باپ اور بیٹا دونوں صحابی تھے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اصحاب رسولؐ ہر لحاظ سے ہم سے زیادہ اللہ کا خوف کرنے والے اور تربیت یافتہ تھے۔ گویا اس تربیت کے باوجود ایک بیٹا بوجوہ‘ اپنے باپ کی ضروریات سے لاپروائی برتتا ہے حتیٰ کہ باپ کو نبی کریم ؐ سے شکایت کی نوبت آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان صحابی کی مثال کی روشنی میں آج کا بیٹا باپ کی ضروریات سے لاپروا ہوجائے یا ایسے معاملات میں جن میں مشاورت کا حکم دیا گیا ہے خود کو بالغ سمجھتے ہوئے جو چاہے کرڈالے‘ بلکہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے پر باپ کا کتنا زیادہ حق ہے‘ اس لیے آپ کے صاحبزادے نے آپ کے بیان کے مطابق جو کچھ کیاہے‘ وہ مناسب نہیں۔ انھیں آپ سے مشورے کے بعد دکان کا معاملہ طے کرنا چاہیے تھا اور آپ کے حقوق کا مکمل احترام و اہتمام کرنا چاہیے تھا۔
مزید یہ کہ اگر وہ جانتے ہیں کہ آپ کتنی سخت مالی مشکلات میں ہیں تو قرآن کا حکم ان کے لیے واضح طور پر یہ ہے کہ اپنے والدین پر خرچ کرو‘ بطور احسان نہیں بلکہ بطور فریضہ۔ اور آپ کو بھی ان سے مالی خدمت لینے میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ آپ کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور والدین دونوں کو راہِ راست پر چلنے کی توفیق دے۔ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ ایسے معاملات میں اگر لڑکا کسی ناانصافی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے تو تحریک کے نظم یا خاندان کے ایسے افراد سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو لڑکے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : میں سندھ میڈیکل کالج کراچی کی طالبہ ہوں۔ ہمارے کالج میں شہر کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ آتا ہے‘ تاہم یہاں کا ماحول ان کے لیے زہرقاتل کا کام انجام دے رہا ہے۔ کالج میں طلبہ کی سیاسی تنظیموں کی بھرمار ہے اور ہرتنظیم بدی کو پھیلانے میں اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہے۔ خصوصاً ایم کیو ایم کی اے پی ایم ایس او‘ پنجابی پختون ایسوسی ایشن‘ سندھی میڈیکوز وغیرہ۔ ان تمام تنظیموں کی دو طرح کی سرگرمیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف کالج میں بدی اور بدامنی کا فروغ ہے۔ تفریح کے نام پر میوزیکل کنسرٹ‘غزل نائٹ‘ اسپورٹس ویک جیسے پروگرام اتنے تواتر سے ہوتے ہیں کہ تقریباً ہرماہ ایک پروگرام ضرور کالج میں ہورہا ہوتا ہے۔ جس دن یہ پروگرام ہوتے ہیں اُس سے ایک ہفتہ پہلے ہی یہ تنظیمیں پورے کالج کی تعلیمی سرگرمیاں بند کرا دیتی ہیں اور پھر ریہرسل کے نام پر پورا پورا دن تیز میوزک‘ ڈانس اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں کالج کے اندر ہوتی رہتی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کی کثیرتعداد ان سرگرمیوںمیں بھرپورحصہ لیتی ہے۔ دین کی سمجھ اور اللہ رب العالین کی عطا کردہ غیرت رکھنے والا دل‘ یہ سب کچھ بہت مشکل سے برداشت کرپاتا ہے۔ ان حالات میں ہم‘ اسلامی جمعیت طالبات‘ میوزک کے حوالے سے پوسٹرز‘ جن میں قرآنی آیات درج ہوتی ہیں‘ کالج میں لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبات سے خصوصی ملاقات کر کے انھیں اس حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ وہ ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں بلکہ جمعیت طالبات سے کترانے بھی لگتی ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے کالج میں ’فرسٹ ایئرفولنگ‘کے نام پر انتہائی قبیح برائی جاری ہے جس میں نئے آنے والوں کو محض بے وقوف بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ لیکچر کے دوران ساری تنظیموں کے لڑکے اور لڑکیاں کلاسوں میں داخل ہوکر‘ٹیچر کو کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں اور کمرے بند کر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک حرکتیں کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر جمعیت طالبات نے پرنسپل سے بات کی‘ اساتذہ سے ملاقاتیں کیں کہ وہ اس غلط حرکت کو روکیں‘ تاہم پرنسپل تو عموماً ان اوقات میں غائب ہوجاتے ہیں‘ ٹیچر بھی کچھ نہیں کرتے اور ایک دفعہ تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق رفیق‘ ہمارے ٹیچر نے اُلٹا ہمیں ہی ڈانٹ دیا کہ ’’آپ یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہیں مسلمان نہیں۔ اسلام کو مسجد تک رہنے دیں‘‘۔ غرض اس طرح کا رویہ اساتذہ کا ہے۔ جہاں تک طلبہ و طالبات کی بات ہے تو واقعی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ان تمام چیزوں سے محظوظ ہوتی ہے۔ یقین کیجیے کہ اُس وقت دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے جب پورا کالج گانوں کی آواز سے گونج رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی لڑکے لڑکیاں اس آواز پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں ہم کالج میں ہفتہ وار درسِ قرآن رکھتے ہیں۔ دو سال پہلے تک طالبات کی اچھی خاصی تعداد اس میں شرکت کیا کرتی تھی‘ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ درس میں صرف اور صرف کارکنان ہی آتی ہیں۔ طالبات کے ساتھ ملاقاتیں کی جاتی ہیں جس میں کبھی ان کے ساتھ مل کر حدیث یا قرآن کا مطالعہ کرلیا جاتا ہے‘ کبھی کوئی اور اچھی بات‘ لیکن گذشتہ دو برسوں سے ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اب طالبات ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔ اگرچہ پورے کالج میں عام تاثر یہ ہے کہ جمعیت سے وابستہ طالبات اخلاق اور پڑھنے کے لحاظ سے بہت اچھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔ امدادِ طالبات کے حوالے سے ہمارا بھی کافی کام ہے۔ مستقل بُک بنک ہے‘ کتابوں کی لائبریری ہے‘ طالبات کی ضرورت کے حوالے سے نوٹس وغیرہ بھی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ غرض طالبات اپنے کاموں کے لیے تو ہمارے پاس خوشی خوشی آتی ہیں لیکن اگر ہم ان کے پاس قرآن یا پھر اس حوالے سے کسی اور پروگرام کے لیے جاتے ہیں تو وہ فوراً کسی دوسری طرف چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ جب گرلز کامن روم میں درسِ قرآن ہوتا ہے تو باہر ہی سے دیکھ کر وہ اُلٹے قدموں واپس لوٹ جاتی ہیں۔
ہم اپنے تئیں انھیں مثبت تفریح فراہم کرنے کے لیے کالج کی سطح پر بہت بڑا میلہ بھی منعقد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف پروگراموں میں ڈرامے وغیرہ بھی ہوتے ہیں لیکن طالبات کی شرکت بہت کم رہتی ہے۔ غرض یہ کہ ہم ہر طرح سے کوشش کرتی ہیں کہ انھیں تفریح بھی فراہم کریں اور اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیں۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتی ہیں کہ ہماری تمام کوششیں اور محنتیں اس وقت ضائع ہوجاتی ہیں جب لوگ ہماری بات تک سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ قریبی سہیلیاں تک دُور ہو جاتی ہیں۔ یہ تاثر بھی ہے کہ لوگ ہم سے اس لیے دُور ہوجاتے ہیں کہ ہم روک ٹوک کرتی ہیں۔ ہم لوگ آزمایش اور کام کی محنت سے تو نہیں گھبراتے لیکن بس یہ بات پریشان کر دیتی ہے کہ کیا دعوت کا کام رُک جائے گا‘ دعوت محدود ہو جائے گی؟
ازراہ کرم ہماری رہنمائی فرما دیجیے کہ ہمیں اپنی تربیت کے کن پہلوئوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟ دعوت کے کٹھن میدان میں آنے والی ان مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے اور کیا حکمت عملی اختیا ر کی جائے‘ اور کن دعوتی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے‘ نیز اس طرح کے حالات کو انقلابِ اسلامی کے لیے ہونے والی کوشش اور ان کے اثرات کے حوالے سے کس نظر سے دیکھا جائے؟
ج: آپ نے اپنے میڈیکل کالج میں جس ماحول کا تذکرہ اپنے مفصل خط میں کیا ہے‘ وہ آپ کے کالج تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ ۵۵سال سے قوم کی غفلت اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے سبب ایک سرطان کی طرح ملک کی تمام درس گاہوں میں پھیل چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ نہ بھولیے کہ ان ۵۵ برسوں میں نوجوان نسل میں آپ جیسی باشعور‘ بااصول اور باہمت قیادت کرنے والی بچیاں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں اور انھوں نے خراب سے خراب ماحول میں اپنے کردار‘ اپنے لباس ‘ اپنے تعلیمی نتائج غرض ہرحیثیت سے اپنے آپ کو ممتاز حیثیت میں پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کفر اور فحاشی اور عریانیت کے سورمائوں کے مقابلے میں ایک باشعور اور باکردار بچی کا اپنے دین پر قائم رہنا زیادہ بھاری ہے اور اس کا وجود کفراور فحاشی کے ایوانوں کو لرزانے کے لیے کافی ہے۔
جہاں تک محافلِ موسیقی اور دیگر غیر اخلاقی پروگراموں اور ان کی ریہرسل کے ذریعے‘ طلبا تنظیموں کی جانب سے تدریسی عمل میں خلل ڈالنے کا سوال ہے تو اس میں آپ کو ایک جانب کالج کی انتظامیہ پر کام کرنا ہوگا اور دوسری جانب یہ دیکھنا ہوگا کہ جو طلبہ اور طالبات موسیقی اور گانوں کے اسیرہوچکے ہیں‘ انھیں کس طرح اس لت سے نکالنا ہے۔ قرآن کریم نے اہلِ مکہ کے حوالے سے ہمیں بتایا ہے کہ وہ بھی دعوت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے دلائل کے بجاے لہوالحدیث ہی کو لائے تھے‘ چنانچہ ناچنے گانے والے اور قصہ گو طائفوں اور موسیقاروں کے ذریعے انھوں نے اہلِ مکہ کو منکرات میں اُلجھانا چاہا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہ کی۔ اور ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں یہ بات کہی کہ اگر تم قصوں کو اہمیت دیتے ہو تو ہم تمھیں احسن القصص سناتے ہیں گویا ایسے کوائف جو بجاے منکر کے مُعروف اور بھلائی اور نیکی کی طرف لے جانے والے ہوں۔
آپ ایک جانب کالج کی انتظامیہ کے لیے ایک حکمت عملی بنائیں کہ ان میں کون سے افراد ایسے ہیں جو دلی طور پر فحاشی کے حامی نہیں ہیں لیکن ماحول کی وجہ سے خاموش ہیں اور کون لوگ آپ کی سی فکر رکھتے ہیں اور کتنے افراد فحاشی کی حمایت کرنے والے ہیں۔ آخری قسم کو چھوڑ کر بقیہ کے لیے ایک منصوبہ بنائیں‘ ان سے کالج میں ہونے والے واقعات پر‘ ایسے وفود کی شکل میں ملیے‘ جس میں نہ صرف باحجاب بلکہ ایسی لڑکیاں بھی ہوں جو حجاب نہ کرتی ہوں لیکن آپ کی مخالفت بھی نہ کرتی ہوں اور برائی کو برائی سمجھنے میں آپ کی ہم خیال ہوں۔ یہ کام صبر اور ہمت سے کافی عرصہ کرنا ہوگا جب اس کے اثرات نظرآئیں گے۔
دوسری جانب بجاے محض پوسٹرلگانے یا محض درسِ قرآن یا درسِ حدیث کرنے کے‘ دیگر ایسے موضوعات پر پینل ڈسکشن یا ڈائیلاگ کروائیں جن میں دیگر طالبات کو بھی دل چسپی ہو۔ شام غزل میں اگر آپ لوگ ایسے شعرا کا کلام منتخب کریں جس میں کوئی فحاشی نہ ہو‘ چاہے وہ شعرا اسلامی ادب کی تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ اردو شاعری میں میرتقی میر‘سودا‘ غالب‘ مومن‘ ذوق‘ حالی سے اقبال‘ حسرت‘ اصغر‘ جگر‘ ماہر‘ فضلی‘ نعیم صدیقی اور منیرنیازی تک ہر شاعر کے یہاں اچھی غزلیں اور نظمیں ہیں جن کو جائز تفریحی پروگراموں میں بلاتکلف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبات کو ایک متبادل ماحول دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یاد رکھیے جب کوئی شخص آپ سے بھاگنا شروع کر دے تو اس پر الزام دینے کے بجاے اپنی حکمت عملی پر غور کیجیے کہ اس میں کیا کمی یا خامی ہے۔ بعض اسلامی فکر رکھنے والے افراد نے ایسے نغمے لکھے ہیں جو محفلوں میں پیش کیے جاسکتے ہیں‘ مثلاً یوسف اسلام کے بعض نغمے۔ جو حضرات اسلام کو مسجد میں قید کرنے کے قائل ہیں انھیں بھی lost case نہ سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے کر انھیں بھی آپ سے قریب لاسکتا ہے۔
اپنے متعین سوالات کے حوالے سے پہلی بات یہ یاد رکھیے کہ گفتگو کا مقصد تو لازماً قرآن و سنت سے قریب لانے کی خواہش میں ہونا چاہیے لیکن گفتگو کے موضوعات میں کرکٹ میچ‘ کسی ٹی وی ڈرامے کی کہانی‘ شہرمیں ہونے والا کوئی واقعہ‘ کالج کی سرگرمیوں پرتبصرہ‘ کسی طبی فنی معاملے میں ہونے والی کوئی تحقیق‘ جس میں اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہو‘ عالمی حالات‘ ملک کی معاشی صورت حال‘ ثقافت کس چیز کا نام ہے‘ کیا ہندو ثقافت اور ہماری ثقافت میں کوئی اشتراک ہے؟ کیا اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرنا درست ہے؟ کیا امریکہ‘ افغانستان‘ مشرق وسطیٰ اور دیگر مقامات پر دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ مسائل کا حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ گویا قرآن و حدیث تک لانے کے لیے زندگی کے تمام معاملات پر گفتگو کو اختیار کریں۔ اس میں آپ کو بھی مطالعہ وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی اور آپ کی image محض درسِ قرآن کی نہیں رہے گی۔ ان تمام موضوعات پر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا نقطۂ نظر کیا ہو۔ اگر اس پہلو پر آپ کی سوچی سمجھی رائے دوسروں کے سامنے آئے گی تو یہ بھی دعوت دین ہی ہے۔
دعوت کے ضمن میں یہ بنیادی بات ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک آپ خود ان لوگوں کے قریب نہ ہوں جنھیں قریب لاکر پیغامِ ربانی پہنچانا مقصود ہو تو دعوت کا اثر بھی کم ہوگا۔ طالبات میں امدادی کام‘ امتحانی پرچوں کی فراہمی‘ نوٹس اور کوچنگ اس حوالے سے ملاقات اور تعاون کا ایک اچھا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن اس میں مزید نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مثلاً مختلف قسم کے کھانوں کا بازار‘ جس کا مقصد نہ صرف متنوع کھانے فراہم کرنا ہو بلکہ دو تین دن تک اس بہانے عام طلبہ سے تعارف ہو تاکہ آپ بعد میں ان کو دعوت دے سکیں۔
جہاں تک سوال اپنی تربیت کا ہے‘ وہ اس مخالف ماحول میں سوچ سمجھ کر‘ صبرواستقامت‘ اور حکمت کے ساتھ کام کرنے سے ہی خود بخود ہوتی رہے گی۔ اس کے لیے آپ کو الگ سے کوئی ہفتہ تعمیر سیرت منانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتے وقت یہ سوال سامنے ضرور لائیں کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ صورتِ حال درپیش ہوتی تو آپؐ اس کا کیا حل نکالتے۔ کس حد تک جاتے اور کن باتوں کونظراندازکرتے‘ کن پر گرفت کرتے‘ جس چیز کا نام اسلامی انقلاب ہے وہ ایک مسلسل تعمیری عمل ہے۔ اس میں فکری تبدیلی‘ عملی اصلاح‘ اجتماعی تربیت و تزکیہ اور آخرکار اداروں کی تبدیلی شامل ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کام چند دنوں میں نہیں ہوسکتے۔ اس میں وقت‘ مال‘ انسانی کاوش ہر ایک کا حصہ شامل ہوگا۔ لیکن یہ یقین رکھیے کہ اس تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ جلد اس کے اثرات نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔(۱-۱)