فروری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

عالم اسلام اور امریکہ: مفاہمت کی تلاش

قاضی حسین احمد | فروری ۲۰۰۴ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

بِسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

صدر مجلس‘معزز مہمانان گرامی‘ اورخواتین و حضرات!

سب سے پہلے میں قطرکے امیرشیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کا یو ایس اسلامک ورلڈ فورم کے انعقاد اور عالم اسلام اور امریکہ کی ممتاز شخصیات کے اس باوقار اجتماع سے خطاب کا موقع فراہم کرنے پر شکر گزار ہوں۔ امریکہ اورمسلم معاشروںکے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جواب تلاش کرنا واقعی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بروکنگز کے سبان سنٹر کا یہ     نیا اقدام امریکہ کے اسکالرز اور پالیسی سازوں کے اس احساس کا غماز ہے کہ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات ضروری ہیں‘ اور ایک ارب ۴۰ کروڑ مسلمانوں اور دنیا کی بڑی طاقت کے درمیان    ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال غیرضروری ہے۔ میرے خیال میں اس سال کا اس سے اچھا آغازاور نہیں ہو سکتا کہ اقوامِ متحدہ اسے تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے مختص کردے۔

سامعین کرام! ہم مانتے ہیں کہ امریکہ آج کرہ ارض پر سب سے زیادہ بااثر اور باوسائل قوت ہے اور سردجنگ کے خاتمے کے بعد سے واحد عالمی قوت بن گیا ہے۔ اس کی عسکری طاقت سارے کرئہ ارض پر محیط ہے اور آگ برسانے کی وہ طاقت اس نے حاصل کرلی ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ قریباً ۵ کھرب ڈالر دفاع اور سیکورٹی پر خرچ کرتا ہے جو ساری دنیا کے دفاعی اخراجات کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا پر اس کا معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی اثر چھایا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے خطے میں امریکی پالیسیوں اور منصوبوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کو بھی ایک قوت سمجھنا چاہیے۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں ہونی چاہیے کہ مسلمان انسانی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں جو ۵۶ آزاد ممالک میں اکثریت اور بشمول امریکہ باقی دنیا میں ایک نمایاں اقلیت ہیں۔ عالمِ اسلام کو بڑی اسٹرے ٹیجک‘ سیاسی اور اقتصادی اہمیت حاصل ہے۔ حکومتوں اور داخلہ و خارجہ روابط کی ناکامی کے باوجود  مسلم عوام پُرعزم ہیں اور ہر اس کوشش کی مزاحمت کرتے ہیں جو ان کی آزادی و خودمختاری اور دینی معاملات میں مداخلت کرے۔

اسی تناظر میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ ہماری رائے ہے کہ ان تعلقات کو باہمی احترام‘ مکالمے‘ افہام و تفہیم اور عدل‘ کثیرجہتی اور بقاے باہمی پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی بنیاد بننا چاہیے۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالمِ اسلام اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ زیادہ دوستانہ نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات اور انھیں پروان چڑھانے کے اسباب کا غیرجانب دارانہ تجزیہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں طرف بہت سی غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں لیکن میری نگاہ میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات میں سب سے اہم عامل ان  اعلیٰ اخلاقی اقدار جن کا امریکہ علمبردار ہے اور عالمِ اسلام سے تعلقات میں امریکی حکومتوں کے طرزِعمل میں پایا جانے والا تضاد ہے۔ جب ہم امریکہ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں      عالمِ اسلام میں شخصی حکومتوں کی امریکی تائید‘ یک طرفہ پابندیاں‘ تجارتی بندشیں‘ اسٹرے ٹیجک دفاعی تنصیبات کے معائنے اور علاقائی تصادموں میں مخالفانہ رویہ عام نظرآتے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کی پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے آزاد ممالک کو اپنے ایجنڈے پر راضی کرنا بھی ہمارے تعلقات میں ناراضی اور نفرت پیدا کرتا ہے۔      خارجہ پالیسی کے یہ تمام حربے دو آزاد اور خودمختار مسلم ممالک افغانستان اور عراق پر حالیہ    کھلے حملے اور قبضے کے لیے استعمال کیے گئے۔

معزز سامعین!

یہ بہت اہم ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز سمجھیں کہ امریکہ کو باقی دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے۔ امریکہ کے استعماری خواب یا کردار کو فروغ دینے والی پالیسیاں   راے عامہ کے لیے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہیں اور یہ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اکیسویں صدی میں اجارہ داری‘ استبداد اور تسلط کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تنہا طاقت‘ پیشگی حملے‘ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جیسے گوانٹانامو جزیرے میں یا امریکی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہیں‘ اقوامِ متحدہ کو خاطر میں نہ لانا یااس کی قراردادوں کو نظرانداز نہ کرنا‘ نائن الیون کے بعد سے طاقت کے استعمال پر فریفتگی وہ فعل ہیں جو عالمی رائے‘ وژن اور اقدار کے خلاف ہیں۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری مہذب دنیا حتیٰ کہ امریکہ کے بانی سب اس کے خلاف ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی‘ جمہوریت اور فرد کی بہبود سارے بنی نوع انسان کی مشترکہ اقدار ہیں۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کے اقدامات‘ سیکورٹی اور انسانی بھلائی مشترکہ مقاصد ہیں لیکن یہ اعلیٰ اقدار اس وقت اپنا مفہوم کھوبیٹھتی ہیں جب انھیں حملوں اور کمزور قوموں کے وسائل‘ طرزِ زندگی اور اقدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔     گذشتہ دو برس سے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے‘ اس نے عالمِ اسلام میں بڑے پیمانے پر بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر اور چیچنیا کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو جس طرح دہشت گرد تحریکیں کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے‘ اس سے امریکی پالیسیوں کے دوہرے معیار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ جب ہم مسلمان عورتوں اور بچوں کو فلسطین‘ کشمیر‘چیچنیا‘ عراق اور افغانستان میں اپنے ہی گھروں کے ملبے پر بیٹھے روتے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پر دہشت گردی کا الزام کیسے لگ سکتا ہے۔

معزز سامعین!

ہم اُمت مسلمہ کے نمایندوں کی حیثیت سے عالمی لیڈروں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم امن‘ خوش حالی اور سارے بنی نوع انسان کی آزادی کے لیے فکرمند ہیں۔ ہم سارے انسانوں کو ایک برادری سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

کسی عربی کو غیر عربی (عجمی) پر یا غیر عربی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر‘ یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم سب آدم ؑکی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔

ہم عالم گیر انسانی برادری پر یقین رکھتے ہیں اور اسلا م کو ماننے والوں پر اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانیت کی خدمت فرض ہے۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النسائ۴:۱۳۵) ’

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَیَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا‘ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

اب یہ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اپنے اِن عظیم رہنمائوں کی اقدار کی طرف پلٹناچاہیے: جیفرسن آزادی و جمہوریت کا علم بردار تھا جسے بیسویں صدی کے حریت پسندوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں پسندکیا‘ ولسن کے اصولوں میں حق خودارادیت ناقابلِ انکار حق قرار دیا گیا ہے‘ فرینکلن روز ویلٹ کی تیسری دنیا میں استعمار مخالف جدوجہد کی تائید نے مظلوم اقوام کو جذبہ دیا ہے --- یا امریکہ اخلاقی ساکھ سے محروم وحشیانہ قوت پر انحصار کی موجودہ روش جاری رکھ سکتا ہے جو امریکہ کو اس کے اپنے دوستوں اور یورپ کے اتحادیوں میں بھی تنہا کرسکتی ہے‘ مسلم دنیا کو ایک طرف چھوڑ دیجیے۔

اہل علم اور دانش ور حضرات سے میری اپیل ہے کہ تاریخ کے اس نازک دور میں ان مسائل پر اخلاقی و اصولی موقف اپنائیں اور امریکی پالیسی کو مثبت سمت کی طرف لے جانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ یہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ ایسے ذہین لوگوں نے کچھ کام نہ کیا‘ یا وہ ناکام ہوئے کیونکہ ان میں سچ کہنے‘ عدل قائم کرنے اور امریکہ کی جنگ آزادی کے بنیادی اصولوں کو فروغ دینے کی اخلاقی جرأت نہ تھی۔

خواتین و حضرات! میں یہ اہم موقع فراہم کرنے پر ایک بار پھرآپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔