۱۰ سے ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام قطر کی وزارتِ خارجہ نے واشنگٹن کے ایک فکری مرکز بروکنگز (Brookings) کے تعاون سے کیا تھا۔ اخراجات و وسائل قطرکے اور زیادہ تر پروگرام و افکار بروکنگز کے۔ طرفین نے آج سے ایک سال پہلے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا تھا۔ یہ اس فورم کی دوسری سالانہ سرگرمی تھی۔ اس برس کی کانفرنس‘ سابقہ سے یوں ممتاز تھی کہ اس میں دونوں طرف سے نمایندگی بھرپور تھی۔ امریکہ سے سابق صدر بل کلنٹن سمیت متعدد ذمہ داران اور سابق سفرا و دانش ور موجود تھے اور عالمِ اسلام کی ترجمانی کا حق علامہ یوسف قرضاوی اور محترم قاضی حسین احمد ادا کر رہے تھے۔
افتتاحی سیشن ہی سے پوری کانفرنس کا مزاج طے ہوگیا۔ امیرقطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے افتتاحی کلمات میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔ قطر میں اس کے لیے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے مستقل سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم ختم ہوئے بغیر خطے میں امن و امان ممکن نہیں۔ انھوں نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور عراق میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
افتتاحی خطاب کے بعد سب سے پہلے محترم قاضی حسین احمد کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انھوں نے اپنے جامع اور مؤثر خطاب میں حالات کی مکمل تصویرکشی‘ تباہ کن امریکی پالیسیوں اورمطلوبہ اقدامات کا احاطہ کیا (خطاب کا مکمل متن اسی شمارے میں دیکھیے)۔ ان کے بعد علامہ قرضاوی نے بھی زوردار انداز میں کفار سے تعلقات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اہلِ کتاب میں سے غیرمتحارب عناصر کے ساتھ حسنِ سلوک کے قرآنی احکام واضح کیے اور پھر کہا کہ امریکہ اور ہمارے اختلافات کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ۱- اسرائیلی ریاست کی اندھی تائید و حمایت‘ ۲- امریکی دانش وروں اور پالیسی سازوں کا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام کو اپنا متبادل حریف قرار دے دینا۔ علامہ قرضاوی نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی جہاں بھی ہوئی ہے‘ ہم نے سب سے پہلے اس کی مذمت کی ہے‘ لیکن پھر بھی ہم ہی پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ امریکی پالیسی ۱۱ستمبر سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ۱۱ستمبر کے واقعات کو آگ پر پٹرول کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم باہم بہتر تعلقات اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل چاہتے ہیں‘ لیکن مقابل میں چاہتے یہ ہیں کہ ہمیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے دی جائے۔
علامہ قرضاوی کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر ہولبروک نے خطاب کیا۔ وہ مراکش میں بھی سفیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بوسنیا کے مسئلے میں امریکی کردار کے حوالے سے اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ تجربہ کار سفارت کار ہونے کے باوجود انھوں نے بہت جارحانہ اسلوب اختیار کیا۔ انھوں نے ایک طرف تو اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے‘ اس لیے اس پر زیادہ گفتگو نہ کی جائے وگرنہ ساری کانفرنس میں یہی گفتگو ختم نہ ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی درشت الفاظ میں کہا کہ ’’ہم کبھی بھی اسرائیل کی مدد سے پیٹھ نہیں پھیریں گے‘‘۔ ’’اسرائیل ایک جمہوری‘ آزاد اور اقوامِ متحدہ کا رکن ملک ہے۔ ہم اس پر اپنی پالیسیاں ٹھونس نہیں سکتے‘‘۔
انھوں نے ۱۱ستمبر کے واقعات کی سنگینی پر بھی زور دیا اور اس امر پر بھی کہ ’’ہمیں اس کانفرنس میں صحت‘ تعلیم اور غربت جیسے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں بھی ایڈز بہت پھیل چکی ہے‘ ہمیں اس پر بات کرنا چاہیے‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں امریکی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتا‘ میں تو آرزو کرتا ہوں کہ اختتامِ سال سے پہلے پہلے یہ حکومت تبدیل ہو جائے (اس پر اکثر شرکاے کانفرنس نے انھیں تالیوں اور قہقہے سے داد دی)۔ بعد میں امریکی سیاست سے باخبر لوگوں نے بتایا کہ ہولبروک بش انتظامیہ کے سخت نقاد ہیں۔اگر ڈیموکریٹس جیت گئے تو انھیں ان کی حکومت میں اعلیٰ عہدہ مل سکتا ہے۔ اگرچہ تقریر میں ان کا لہجہ کرخت تھا لیکن بعد میں وہ محترم قاضی حسین احمد سے کہتے رہے کہ ’’کاش! صدر بش بھی آپ کی تقریر اور یہاں ہونے والی گفتگو سن سکتا۔
ہولبروک کے بعد اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈک نے بھی تقریباً انھی خطوط پر گفتگو کی۔ افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا تو اکثر شرکا کی زبان پر محترم امیرجماعت کی متوازن‘ جامع‘ جرأت مندانہ اور مسلم اُمت کی ترجمان تقریر کا ذکر تھا۔ افتتاحی سیشن کے اختتام پر عشایئے کا انتظام تھا اور اسی میں مزید سوال و جواب کے لیے افتتاحی سیشن والا چار رکنی پینل موجود تھا۔
محترم قاضی حسین احمد اور علامہ قرضاوی نے وہاں ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا کہ صحت‘ تعلیم‘ غربت‘ یقینا اہم مسائل ہیں اور ان کے لیے بلاتفریق و تعصب پوری دنیا کو جدوجہد کرنا چاہیے‘ لیکن یہاں جس مکالمے اور مذاکرات کی بات ہو رہی ہے وہ سیاسی اختلافات کے حوالے سے ہے۔ ان پالیسیوں اور سیاسی اختلافات کو جرأت سے زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔
اگلے دو روز گروپ ڈسکشن کے لیے وقف تھے جن میں ۱۲ مختلف موضوعات زیربحث آئے۔ ان میں جمہوری اقدار‘ امریکہ عالمِ اسلام کے تعلقات کا مستقبل‘ دونوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے وسیلے‘ ذرائع ابلاغ کا کردار‘ اسلام اور امریکہ کے متعلق پایا جانے والا عمومی تاثر‘ نمایاں تھے۔ ان اور دیگر موضوعات پر ۱۵۰ کے قریب امریکی و مسلم دانش وروں نے چھ مختلف اجلاسوں اور ۱۲ گروپوں میں بات کی۔ شرکا میں سابق و حالیہ کئی وزرا بھی تھے‘ جیسے عراق کے وزیر پٹرولیم‘ اُردن کے وزیرخارجہ‘ فلسطین کے وزیر اطلاعات اور سابق وزیرداخلہ۔ امریکی شرکا میں بڑی تعداد سابق سفرا اور بروکنگزکے دانش وروں کی تھی۔ اکثر شرکا امریکی نقطۂ نظر سے قریب سمجھ کر بلائے گئے تھے‘ جب کہ جماعت اسلامی‘ علامہ یوسف قرضاوی اور اسلامی پارٹی ملائشیا کے وفود کو شاید کانفرنس کی ساکھ کی خاطر اور ان سے ان کی حقیقی سوچ براہِ راست سننے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے بھی باہم اور بیرونِ ملک بعض احباب سے مشورے کے بعد اسی ارادے سے شرکت کی کہ صحیح موقف براہِ راست سنایا جائے‘ ان کا موقف سنا جائے۔ پاکستان سے بلائے جانے والے دیگر شرکا کی فہرست دیکھ کر آپ کو عالمِ اسلام کے دیگر شرکا کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہاں سے محترم امیر جماعت ‘ جنرل (ر) طلعت مسعود‘ فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر اعجاز حیدر‘ معروف صحافی ایازمیر‘ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین‘ جماعت کے شعبہ امورخارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف لقمان اور راقم نے شرکت کی۔ ان مختلف الخیال اور ’’مختلف المشرب‘‘ ‘افراد نے موقع ملنے پر قومی اور ملّی موقف کی اچھی ترجمانی کی۔
علامہ یوسف قرضاوی‘ کانفرنس کے بعد ایک نجی نشست میں فرما رہے تھے کہ افتتاحی سیشن میں ہونے والی زوردار تقاریر سے تمام شرکا کی ایک جہت کا تعین ہوگیا‘ اور بظاہر دین اور دینی تعلیمات سے بہت دُور نظر آنے والے بعض افراد نے بھی حق بات کہی۔
اگرچہ اکثر منتظمین بار بار کہہ رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ اور عرب اسرائیل مسئلے کو چھوڑ کر صحت اور تعلیم جیسے مسائل پر بات کی جائے لیکن کانفرنس کے دوسرے روز ظہرانے پر ہونے والی گفتگو کا عنوان ہی ’’مشرق وسطیٰ کا مسئلہ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کے تمام شرکا بہت سوچ سمجھ کر رکھے گئے تھے۔ پینل میں کوئی بھی مکمل حق کہنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اُردنی وزیرخارجہ مروان المعشر‘ فلسطینی سابق وزیراطلاعات یاسر عبدربہ‘ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک اور سابق اسرائیلی نائب وزیراعظم امنون شاحاک‘ سب نے وہی بات کی جس کی ان سے توقع تھی۔ فلسطینی نمایندہ اس قدر بودا تھا کہ ان کی اسٹیج پر موجودگی کے دوران ایک مقرر نے ان کے سربراہ یاسرعرفات کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ کہہ دیے‘ لیکن وہ اس پر مؤدبانہ احتجاج بھی نہ کرسکے یا کرنا ہی نہیں چاہا۔ کئی شرکا نے آرزو کی کہ کاش! اس سیشن میں علامہ قرضاوی یا قاضی صاحب بھی شریک ہوتے۔
آخری سیشن میں صرف قطری وزیرخارجہ اور صدر بل کلنٹن کا خطاب تھا۔ ایک امریکی سیاست دان اور سابق صدر کی حیثیت سے انھوں نے بہت اچھی تقریر کی اور اپنے تمام اصولی و قومی موقفوں پر مضبوطی سے جمے رہنے کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بھی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمان علما کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اسلام کو اور عالمِ اسلام کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۱۱ستمبر کے بعد صدربش کا سب سے اچھا اقدام واشنگٹن میں اسلامی مراکز و مساجد کا دورہ کرنا تھا۔ انھوں نے اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ دنیا میں امریکہ سے نفرت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے‘ حالانکہ ان کے بقول امریکہ عالمی امن و سلامتی کے لیے کوشاں ہے۔
مشرق وسطیٰ اورفلسطین کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوامِ متحدہ نے وجود بخشا ہے۔ اس کے لیے ہماری مدد جاری رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دو اچھے پڑوسی ریاستوں کی حیثیت سے جیئیں۔ انھوں نے اس امر پر بھی اصرار کیا کہ مسلم دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں نہ دیکھے۔ ہمارے اور آپ کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ شاید اس لیے کہ اگر دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں دیکھے گی تو ہمارا ناانصافی اور دوہرے معیار کھل کر سامنے آجائیں گے۔ ہمارے خلاف اس کی نفرت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ’’ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظرمیں نہ دیکھیں‘‘۔
صدر کلنٹن کے خطاب کے بعد دو تین سوالات کا بھی موقع دیا گیا۔ مشاہد حسین نے سوال کیا: ’’۱۱ستمبرکے بعد امریکہ نے ایک بے نام‘ بے وطن اور بلاچہرہ دشمن کے خلاف بڑی جنگ شروع کر دی ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس جنگ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اگر صدر بش کے بجاے آپ وائٹ ہائوس میں ہوتے تو کیا آپ بھی وہی کرتے جو صدر بش کر رہے ہیں؟‘‘
بہت تردد اور بوجھل ہوتی ہوئی خاموشی کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہاں‘ میں بھی یہی کرتا اور پھر دہشت گردی کی سنگینی کے تناظر میں اپنے اس موقف کی وضاحت کرنے کی مختصر کوشش کی‘‘۔
اختتام پر ہولبروک محترم قاضی حسین احمد کے پاس آئے اور انھیں ساتھ لے جا کر صدرکلنٹن سے ان کا تعارف کروایا۔ دونوں کے درمیان مختصر جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس طرح یہ کانفرنس امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان رابطے اور مذاکرات کی اچھی کوشش ثابت ہوئی۔ اگر تعصب اور مفادات سے بالاتر ہوکر اس کوشش کو جاری رکھا گیا تو ٹھوس بنیادوں پر باہمی مذاکرات ناممکن نہیں رہیں گے۔