ایٹمی ہتھیار بنانے کے منصوبے سے لیبیا کی پسپائی کا اعلان گذشتہ ماہ کی سب سے بڑی خبر بنا رہا اور امریکہ نے بجا طور پر اسے اپنی فتح قرار دیا۔ کرنل قذافی کا امیج عالمِ اسلام میں ایک دم مجروح ہوکر کاغذی شیرکی سطح پر آگیا۔ البتہ مغرب میں انھیں کچھ خیرسگالی حاصل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کرنل قذافی کا اتنا زیادہ ہاتھ نہیں جتنا کہ ان کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کا ہے۔ خود سیف الاسلام نے برطانوی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے ہی اپنے والد کو قائل کیا تھا۔ ممکن ہے قذافی اپنا امیج بچانے کی خاطر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فیصلے کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ ان کے بیٹے کو جاتا ہے‘ تاہم مغربی میڈیا کی یہ اطلاعات قابلِ غور ہیں کہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ مغرب کے ساتھ سفارت کاری کا عمل کئی ماہ سے جاری تھا۔
آمر حکومتیں ہمیشہ غیرملکی دبائو کے مقابلے میں پسپا ہوجاتی ہیں۔ اندرونِ ملک انھیں عوامی طاقت کا سہارا نہیں ہوتا چنانچہ انھیں ڈھیر ہونا ہی پڑتا ہے۔ لیبیا پر عالمی دبائو تولاکربی طیارے کے حادثے کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے لیکن ماضی میں سوویت یونین موجود تھا‘ اس لیے ۱۹۹۰ء میں اس کے انہدام تک لیبیا نے آسانی سے اس دبائو کا مقابلہ کرلیا۔ ۹۰ء کے بعد کے حالات اس طرح کے ہوئے کہ لیبیا پر زیادہ توجہ نہ رہی۔ پہلے عراق کی جنگ چھڑی۔ پھر امریکی توجہ کا مرکز فلسطین رہا۔ سعودی عرب کے اندرونی مسائل بھی امریکی توجہ کھینچتے رہے۔ اسی دور میں بلقان کا مسئلہ اُبھرا اور کلنٹن دورِ حکومت میں امریکہ کی سب سے زیادہ توجہ اسی طرف رہی۔ پہلے بوسنیا اور پھر کوسووا کی صورت حال عالمی فلیش پوائنٹ بنی رہی۔ چنانچہ لیبیا کی پوزیشن اس نالائق طالب علم کی طرح رہی جس کی طرف استاد ابھی متوجہ نہ ہوا ہو۔ اس طرح وہ اپنا ایٹمی پروگرام خفیہ طور پر آگے بڑھاتا رہا۔ اس عمل میں اسے شمالی کوریا سے بھی مدد ملتی رہی۔ لیکن عراق پر حملے کے بعد سے لیبیا کو اپنی کمزور پوزیشن کا احساس ہونا شروع ہوا۔ گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں ایران نے بھی اپنے ایٹمی پروگرام پر لچک دکھائی اور لیبیا کو محسوس ہوا کہ ایران اب عراق کے وار تھیٹر میں امریکہ کا عملاً اتحادی ہے اور اس کے ساتھ گرم محاذآرائی کی پالیسی بھی تبدیل ہورہی ہے۔ لیبیا نے دیکھا کہ وہ یکہ و تنہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد جس طرح اچانک یک طرفہ پسپائی دکھائی‘ عراق کی فتح اور لیبیا کی اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری اسی کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ امریکہ یکے بعد دیگرے مورچے فتح کرتا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے اس کی ’’چین ری ایکشن‘‘فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔
برسرِاقتدار آنے کے بعد سے کرنل قذافی کی یہ شعوری کوشش رہی کہ وہ جمال ناصر کی جگہ لے لیں اور عرب دنیا کو عرب قوم پرستی کے نام پر متحد کریں۔ لیکن اس کوشش میں وہ عرب دنیا کو مزید منتشرکرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ عراق کی فتح سے قبل قذافی پان عرب ازم اور پان اسلام ازم سے تائب ہوکر عظیم تر افریقہ کے مبلغ بن چکے تھے اور پورے افریقہ کو ایک ہی ملک بنانے کا منصوبہ شروع کر چکے تھے۔ لیکن ان کا یہ منصوبہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اور کچھ عراق پر امریکی قبضے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا اور قذافی کو اپنی اور اپنے ملک کی فکر پڑ گئی۔
اپنے بچائو کے لیے سب سے پہلے انھوں نے لاکربی تنازعہ نمٹانا چاہا اور حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کو بھاری معاوضہ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ کھلا اعتراف تھا کہ لاکربی کے حادثے میں لیبیا سرکاری طور پر ملوث تھا۔ اس حادثے کی وجہ سے سلامتی کونسل نے جو پابندیاں لگائی تھیں‘ وہ اس نے مذکورہ اعلان کے بعد اٹھالیں۔ اس سے قذافی کو کافی ریلیف ملا اور اب انھوں نے مغرب اور امریکہ کی مزید ’’گڈوِل‘‘حاصل کرنے کی ٹھانی۔ کئی مہینے تک امریکہ اور مغرب کے سفارت کاروں سے رابطے اور خفیہ یقین دہانیوں کا عمل جاری رہا جس کے بعد اچانک دسمبر۲۰۰۳ء میں لیبیا کا یہ اعلان سامنے آکر پوری دنیا کو چونکا گیا کہ وہ وسیع تباہی والے ہتھیار بنانے کے اپنے منصوبے ترک کر رہا ہے۔ اس اعلان کو برطانیہ نے سراہا اور امریکہ نے اسے آزاد دنیا سے تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک مثال قرار دیا۔ عرب لیگ نے لیبیا کے فیصلے کو سراہتے ہوئے آزاد دنیا سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے بھی ایسے ہی فیصلے کا مطالبہ کرے۔
برطانیہ کا سرکاری بیان یہ ہے کہ لیبیا کو قائل کرنے کے لیے سفارتی عمل نو ماہ سے جاری تھا۔ مغربی میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ فیصلہ کُن مہینہ اصل میں اکتوبر کا تھا جب امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس افسروں کی ایک مشترکہ ٹیم نے لیبیا میں قذافی کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ یہ ٹیم دو ہفتے تک لیبیا میں رہی اور قذافی نے خود اسے اپنے اسلحی پروگرام کے خفیہ اڈوںکا معائنہ کرایا۔ ان میں میزائل سازی‘ کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کے کارخانوں کے علاوہ ایٹمی پلانٹ بھی شامل تھا جس کے بارے میں امریکہ کی ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں سات برس میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن جب ٹیم نے معائنہ کیا تو پتاچلا کہ سات برس کا اندازہ غلط تھا۔ لیبیا محض ایک ڈیڑھ سال کے فاصلے پر تھا۔
عالمی دبائو اور عالمی تنائو کے عوامل کے ساتھ ساتھ قذافی کو ایک داخلی چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ اگرچہ ان کی آمرانہ حکومت ایک تہائی صدی سے قائم ہے اور اس دوران وہ تنقید کرنے والے ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے آگے پیچھے کا زمانہ دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی زیرزمین اسلامی انتہاپسندی کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ انتہا پسند زیادہ مقبولیت اور طاقت حاصل کرتے نظر آرہے تھے۔ چنانچہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری تھا کہ امریکہ کی آغوش میں پناہ لی جائے۔ لیبیا کا دورہ کرنے والی انٹیلی جنس ٹیم کے ایک افسرنے خبر رساں ایجنسی رائٹر کو بتایا کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں ہم قذافی سے اشتراک کے لیے تیار ہیں۔ اس افسر نے بتایا کہ لیبیا میں انتہاپسندوں کے کئی گروپ موجود ہیں جو ہر طبقے کے لوگوں کو ڈرادھمکا رہے ہیں۔ رائٹر کی یہ رپورٹ ۲۰ دسمبر۲۰۰۳ء کو جاری ہوئی اور اس سے پتاچلا کہ آہنی پردوں والے لیبیا میں ’خطرناک‘ لوگوں کے ایک دو نہیں‘ کئی گروپ کام کررہے ہیں اور وہ اتنے طاقت ور بھی ہیں کہ مقابلے کے لیے تنہا لیبیا کی حکومت کافی نہیں‘ اسے امریکی تعاون بھی درکار ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ امریکہ ہر تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسی ٹیم کے ایک اور افسر نے بتایا کہ سفارت کاری کا یہ سارا عمل ہم نے پوری طرح خفیہ رکھا اور ساری ملاقاتیں صرف لیبیا میں نہیں ہوئیں بلکہ بعض اجلاس یورپ میں بھی ہوئے۔ انھی افسروں نے بتایا کہ سلسلہ جنبانی کا آغاز خود قذافی نے وسط مارچ میں کیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں قذافی کا طرزِعمل یہ تھا کہ وہ اپنے تباہ کن ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں اعتراف پر اعتراف کیے چلے جا رہے تھے‘ یعنی خود ہی ایک ایک تفصیل بتا رہے تھے۔ افسروں کی مذکورہ ٹیم کو مہلک ہتھیار بنانے کے کم از کم ایک درجن اڈے دکھائے گئے۔ ٹیم کو وہ جدید اور ترقی یافتہ میزائل بھی دکھائے گئے جو شمالی کوریا نے ۱۹۹۰ء کی دہائی کے شروع میں اسے فراہم کیے تھے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق لیبیا کی اس پسپائی کے محرکات میں عالمی دبائو اور داخلی صورت حال کے علاوہ معاشی بحران بھی شامل تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق لیبیا کی معیشت کو کمزوری کا سامنا ہے اور اس کے عوام کا معیارِ زندگی تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں گر رہا ہے۔ تاہم یہ عامل ثانوی نوعیت کا ہوسکتا ہے‘ بنیادی نہیں۔
شمالی کوریا کے علاوہ‘ لیبیا کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کرنے کا الزام ایران اور پاکستان پر بھی لگ رہا ہے۔ جاپان کے ایک اخبار سانکی شمبون کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے کئی درجن سائنس دان اور انجینیرکئی برس تک لیبیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں ملوث رہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان ۱۰۰ کے قریب معاہدے ہوئے۔ اسی طرح ایران کے بھی کئی انجینیرلیبیا میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان کو خود قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ملوث کیا۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ کو انٹرویو میں اس نے بتایا کہ دسیوں لاکھ ڈالر کے معاوضے پر پاکستانی سائنس دانوں نے لیبیا کو اہم ایٹمی معلومات دیں جن کی وجہ سے لیبیا ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔ پاکستان کی تردید اور غالباً خفیہ احتجاج کے بعد پاکستان میں لیبیا کے سفارت خانے نے جو وضاحتی بیان دیا اس میں بتایا کہ سیف الاسلام نے یہ بات ’’شاید‘‘ کے لفظ کے ساتھ کہی تھی۔
لیبیا کو توقع تھی کہ وہ اچانک امریکہ کا ڈارلنگ بن گیا ہے۔ اس لیے اب امریکہ اس پر سے عائد پابندیاں اٹھا لے گا لیکن اسے یہ معلوم کر کے سخت مایوسی ہوئی کہ صدربش ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بش نے واضح الفاظ میں بیان جاری کیا کہ لیبیا اپنے اسلحی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ جب وہ ایسا کرلے گا توہم جوابی خیرسگالی اقدام کریں گے‘ فی الحال پابندیاں نہیں اٹھائی جاسکتیں۔ ان پابندیوں کے تحت امریکہ میں لیبیا کے تمام اثاثے منجمد ہیں جن کی مالیت سیکڑوں ملین ڈالر ہے۔
لیبیا نے پسپائی میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی رابطے کیے ہیں اور مختصر عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا قوی امکان ہے۔ لیبیا کے نمایندوں نے جنوری کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی وزیراعظم شیرون سے ملاقات کی تھی اور ان سے استدعا کی تھی کہ بوجوہ اس ملاقات کو اخفا میں رکھا جائے‘ لیکن اسرائیل کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کر دی جس پر لیبیا نے برہم ہوکر اس امر کی تردید کر دی کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے والا ہے‘ تاہم یہ قضیہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جلد طے ہوجائے گا۔ یہ امر دل چسپی کا حامل ہے کہ انکشاف خود شیرون نے کیا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی وزارتِ خارجہ لیبیا سے تعلقات کی بحالی کی حامی ہے لیکن شیرون کا کیمپ ایسا نہیں چاہتا۔
لیبیا نے بھی اپیل کی تھی اور امریکہ نے بھی کہا تھا کہ اب شمالی کوریا اور ایران بھی لیبیا کی پیروی کریں لیکن شمالی کوریا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کو ایسی کوئی توقع ہے تویہ اس کی حماقت ہے۔ یہ بیان ملک کی وزارتِ خارجہ نے دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی اس پسپائی کے بعد شام پر دبائو بڑھے گا جس نے ترکی سے دوستی بڑھا کر اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ صدر بش ۱۲ دسمبر کو شام پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی منظوری دے چکے ہیں جو شام کے محاصرے کا آغاز سمجھی جانی چاہییں۔ امریکہ کے شام پر جو الزامات ہیں ان میں سرفہرست دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشت گرد گروپوں کی امداد کر رہا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہتھیار بنا رہا ہے۔ شام نے صرف ایک جوابی بیان دیا ہے کہ اسرائیلی خطرے کے پیشِ نظر اسے ہر قسم کااسلحہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ عرب سفارتی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ شام امریکہ سے ’’سفارتی صلح‘‘ کی کوشش کرے گا۔