جنوری ۲۰۰۴ء کا ترجمان القرآن سرورق سے لے کر مضامین تک‘ ایک خوش گوار تازگی و تبدیلی لیے ہوئے محسوس ہوا۔ خصوصاً فہم قرآن کے تحت ’’منتخب تفاسیر سے ایک مطالعہ‘‘ نے بہت متاثر کیا۔ ایک ہی نشست میں مختلف النوع تفاسیر‘ ایک ہی آیت کے حوالے سے مفید‘ موثر اور طلبِ علم کے پیاسوں کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ کیا یہ سلسلہ مستقل جاری رہ سکتا ہے؟ ’’تربیت: چند بنیادی باتیں‘‘ ، خرم مرادؒ کی باتیں ’’جوبات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘کا زندہ ثبوت ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’’خسارے کی تجارت‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) پڑھی۔ ۶۰ سال پہلے کی تحریر کا آج بھی ہمارے حالات پراسی طرح انطباق ہوتا ہے۔ آج بھی وطن عزیز کے ڈاکٹر‘انجینیراور ماہرین مالیات بیرون ملک اغیار کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل پر خوش ہیں۔ مولانا علیہ الرحمہ کی یہ رائے بالکل صد فی صد درست اور صائب تھی کہ ہم ایسا کرنے سے اپنے تعلیم یافتہ افراد کو ضائع کر رہے ہیں۔ واقعی مولانا علیہ الرحمہ اس صدی کے عظیم انسانوں میں سے ایک تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی قبرپر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
’’تربیت: چند بنیادی باتیں‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) بہت اچھا مضمون ہے۔ ترجمان القرآن اپنی تحریروں کے حوالے سے پہلے سے زیادہ معیاری بن گیا ہے۔ ’’رسائل و مسائل‘‘ مفید سلسلہ ہے۔ اس کی کمی محسوس ہوئی۔ ’اشاعت ِ خاص‘یقینی طور پر ایک تاریخی دستاویز ہے۔
نکٹائی کے بارے میں ڈاکٹرانیس احمد (’’رسائل و مسائل‘‘، دسمبر ۲۰۰۳ئ) کے ارشادات محل نظر ہیں۔ ان کے خیال میں ایک عمل اگر عموم کے درجے میں آجائے تو قباحت رفع ہوجاتی ہے۔ جہاں تک نکٹائی کا معاملہ ہے‘ اس کا رواج عیسائیوں میں ہے۔ وہ کسی نہ کسی طریق پر گلے میں اسے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں ان کا اصرار یہاں تک ہے کہ سابق صدرِامریکہ نے وہائٹ ہائوس کے ملازمین سے نکٹائی باندھ کر دفترآنے کی باقاعدہ فرمایش کی اور فرمایا کہ یہ امر ’’ہمارے لیے باعث ِ فخرہے‘‘۔ جہاں تک اس کے عموم کا تعلق ہے وہ عموم اتباع کا ہے آزاد مرضی کا نہیں۔ چونکہ نصرانی ہم پر صدیوں تک حکمران رہے‘ علم وعمل‘ قوت و زور اور وسائل دنیاوی میں وہ ہم سے آگے ہیں اور ہم تابعِ محض‘نتیجہ یہ کہ ان کا ہر خوب و ناخوب‘ خوب ہی ہے اور ہمارے لیے عموم!
نکٹائی باندھ لینے میں کوئی اخلاقی برائی نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں جذبہ یہ ہے کہ ہم وہ نظرآئیں جو وہ ہیں۔ یہ ذہن کی مرعوبیت کی دلیل ہے۔ بنیادی جذبہ درست ہونا چاہیے۔ جب ہم اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہوجائیں گے تو دنیا کے تمام’’خوب‘‘ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث ہی سمجھیں گے۔ جہاں تک مسائل کا معاملہ ہے‘ نکٹائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ روزی کو ٹھکرایا جائے۔ اگر بہتر ملازمت مل سکتی ہو تو کراہت کو اپنے اوپر لازم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں بدمزگی پیدا کرنے کے بجاے’برداشت‘کیا جانا چاہیے۔
’اشاعت ِ خاص‘ علم و ادب کا بہترین مرقع ہے جس کے لکھنے والے اور مرتبین سب لائقِ تحسین ہیں۔ یوں تو ہرمضمون کا ہر جملہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ محترمہ بشریٰ تسنیم اور خلیل الرحمن چشتی صاحب کی تحریر پسند آئی۔ خصوصاً وہ دعا جو ڈاکٹر صاحبہ کو اُن کے والدین نے سکھائی تھی وہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
’مولانا مودودی نمبر‘جامع و مانع اور ظاہری وباطنی خوبیوں کی بنا پر اپنی مثال آپ--- ایک قابلِ ستایش کاوش! ’اشاعت ِخاص‘میں خاص مضمون محمدمامون الہضیبی کے قلم سے ہے جن کو مجاہد ابن مجاہد اور مرشدعام الاخوان المسلمون ابن مرشد عام الاخوان المسلمون ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ سونے پہ سہاگا ہے۔ ایک ایسے نادر روزگار شخص کے قلم سے الامام الشہیدحسن البنا اور الامام العبقری سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سیرتوں کا تقابلی مطالعہ‘ مماثل پہلوئوں کو گنانے کی نیت سے کیا جائے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ مودودی کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ وہ حسن البنا سے واقف ہیں۔ یہ ان کی علمی وسعت اور فکر کی گہرائی کی دلیل ہے۔
میرے نزدیک دوسرا خاص مضمون محمداسماعیل قریشی ایڈووکیٹ کا ’’یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند‘‘ ہے جس میں نہ صرف پاکستانی قانون دانوں کی طرف سے بلکہ عالمِ اسلامی کے قانون دانوں کی جانب سے مودودیؒ کی دستوری اور قانونی عبقریت کا اعتراف ان کو ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی تنظیم کا سرپرست اعلیٰ منتخب کرکے کیا گیا۔
اسلامی دستور کا معرکہ اور محاذ مودودیؒ کی عبقری فکر کا مرہونِ منت تھا۔ انھوں نے اس محاذ پر معرکے کا آغاز کیا اور پھر اس کے ہر مورچے پر یہاں تک ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ باطل کو ہمیشہ پسپا ہی ہونا پڑا۔ اسی معرکے کا ایک رخ پاکستان کی مختلف عدالتوں میں نہایت درجے نازک دستوری اور قانونی مسائل پر بحثیں بھی ہیں جن میں کامیابی کا کریڈٹ خود صف ِ اوّل کے وکلا نے مودودیؒ کو دیا ہے۔ یہ اچھوتا معرکہ تھا جو اپنے جلو میں اچھوتے مسائل لایا اور جس کو ایک بے مثال دستوری اور قانونی دماغ نے حل کیا۔ ابھی ضرورت باقی ہے کہ خود قانون دان حضرات دستوری اور قانونی میدان میں مودودیؒ کی عبقریت پر لکھیں اور مختلف پہلوئوں کو اجاگر کریں۔
خلیل الرحمن چشتی کا مضمون: ’’تحریک احیاے دین کا قافلہ سالار‘‘ بھی خوب ہے۔ ان کی یہ تجویز بھی قابلِ غور ہے کہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح لکھی جائے۔ ڈاکٹرجاوید اقبال نے ’’اجماع‘‘ کی بات بھی خوب کہی۔ یہ کن کا اجماع ہے؟ بشر کا اجماع خدا کے خلاف‘ حق کو حق ہونے کی صفت سے محروم نہیں کر سکتا۔