حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھا۔ جب میں نے کام کر لیا اور سمجھا کہ اب فارغ ہوگیا ہوں تو یہ سوچ کر کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیلولہ فرمائیں گے‘ میں آپؐ کے پاس سے باہر نکل آیا۔ بچے کھیل رہے تھے‘ میں ان کا تماشا دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ بچوں کو سلام کیا‘ پھر مجھے بلایا اور کسی کام سے بھیجا۔ وہ راز دارانہ کام تھا۔ میں نے وہ کام کیا اور آپؐ کے پاس آگیا۔ اپنی والدہ صاحبہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتلایا کہ رسولؐ اللہ نے کام سے بھیجا تھا۔ والدہ نے پوچھا کس کام سے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ہے۔ میں رسولؐ اللہ کے راز کی حفاظت کروں گا۔ حضرت انسؓ نے اپنے شاگرد حضرت ثابت سے کہا کہ میں نے وہ راز ابھی تک کسی کو نہیں بتلایا۔ اگر میں کسی کو بتلاسکتا تو تجھے بھی بتلا دیتا۔ (بخاری ‘ادب المفرد)
کسی کے راز کی حفاظت خوش گوار معاشرتی زندگی کا اہم اصول ہے۔ بڑے تو بڑے‘ ایک بچے کو بھی اس کی اہمیت کا اتنا احساس ہے کہ ساری عمر اس نے راز کو راز ہی رکھا‘ حتیٰ کہ والدہ اور دوست کو بھی نہ بتایا۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے‘ جب ثقیف کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا تو میں بھی اس میں شامل تھا۔ نبی کریمؐ کے دروازے پر پہنچ کر ہم نے اپنے ’’حلّے‘‘ (لباس) زیب تن کیے۔ پھر سواریوں کی نگرانی زیربحث آئی کہ کون یہ کام کرے گا۔ سارے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ پیچھے رہنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں ان سب میں چھوٹا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اونٹنیوں کی نگرانی اس شرط پر کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ واپس آئیں گے تو میری اونٹنی کوپکڑیں گے تاکہ میں بھی آپؐ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لوں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ تمام لوگ چلے گئے۔ واپس آئے تو کہنے لگے: چلو۔ میں نے کہا: کدھر؟ کہنے لگے: اپنے گھروں کی طرف واپس۔ میں نے کہا کہ میں اپنے گھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے تک آپہنچا ہوں۔ اب ملاقات کے بغیر واپس ہوجائوں؟ تم لوگوں نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ یاد نہیں ہے؟ کہنے لگے تو پھر جلدی ملاقات کر کے آجائو‘ ملاقات سے زیادہ کسی سوال و جواب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ساری باتیں پوچھ لی ہیں۔ اس لیے آپ کو کسی مسئلے اور بات چیت کی حاجت نہیںہے۔
میں حاضر خدمت ہوا۔ عرض کیا : یارسولؐاللہ! میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے دین کی گہری سمجھ عطا فرمائے اور دین کے علم سے نوازے۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا؟ اپنی بات کو دہرائو۔ چنانچہ میں نے اپنی بات دہرائی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھ سے وہ چیز مانگی ہے جو تمھارے ساتھیوں میں سے کسی نے نہیں مانگی۔ جائو تم ان کے امیر ہو اور اپنی قوم کے ان تمام لوگوں کے امیر ہو جو تمھارے پاس آئیں۔ (مجمع الزوائد ‘ج۹‘ ص ۳۷۱)
اس حدیث سے قوموں کی قیادت کا بنیادی اصول بڑی خوب صورتی سے واضح ہوگیا ہے۔ جب مسلمان علم کے میدان میں پیچھے ہوگئے تو دنیا کی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج بھی سربلندی کا راز یہی ہے کہ ملت کے قائدین اور نوجوان علم میں برتری کی منصوبہ بندی کریں اور وسائل اور صلاحیتیں اس پر لگائیں۔
دیکھیے کہ سب سے کم عمر کو ہی یہ سمجھ تھی کہ اس نے آپؐ سے دین کا فہم اور علم کی فرمایش کی اورکم عمری کے باوجود اس بنا پر آپؐ نے اسے اپنی قوم کا امیر بنا دیا۔
حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تیاری کرو‘ اپنے کپڑے اور ہتھیار لے لو اور میرے پاس پہنچو۔ میں تیاری کر کے آیا تو آپؐ نے فرمایا: میں ایک لشکر کا امیربناکر تمھیں بھیجنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں سلامت رکھے‘ غنیمت عطا کرے۔ میری پسندیدہ خواہش ہے کہ تمھیں مال ملے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مال کی خاطر مسلمان نہیں ہوا بلکہ صرف اسلام کی طرف رغبت اور رسولؐ اللہ کی معیت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر مسلمان ہوا ہوں۔ اس پر آپؐنے فرمایا: بہترین مال بہترین مدد ہے‘ صالح آدمی کے لیے۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۹‘ ص ۳۵۳)
جذبۂ خیر اور خلوصِ نیت کی اپنی اہمیت ہے لیکن وسائل کے بغیر کام نہیں ہوتے۔ مال کی وجہ سے آدمی خود بھی حرکت کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کام لیتا ہے۔ ایمان والوں اور نیک لوگوں کے پاس مال ہو تو وہ ایمان و اسلام اور خیرکے کاموں کو فروغ دیتے ہیں اور برائیوں کو مٹانے کے لیے کامیاب جدوجہد کرتے ہیں۔ معاشی حالت اچھی ہو تو غلبۂ دین کی جدوجہد تیز ترکی جاسکتی ہے‘ اور مساجد ومدارس‘ ہسپتال اور رفاہی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں‘ اور اس کے ساتھ دوسری سہولتیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے رزق حلال کی طلب‘ اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص نیت کے منافی نہیں ہے۔ دین دار لوگوں کو اپنی معاشی حالت کو بہتربنانے سے بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ معاشی حالت کا مضبوط ہونا‘ دین داری کے منافی نہیں ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات اپنے پہلو کے نیچے کھجور کا ایک دانہ پایا تو اسے تناول فرما لیا۔ پھر آپؐ کو ساری رات بے چینی کی وجہ سے نیند نہ آئی۔ ایک زوجہ مطہرہ نے عرض کیا: آپؐ ساری رات بیدار رہے‘ اس کا کیا باعث بنا؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے پہلو کے نیچے سے ایک کھجور پائی تو اسے کھالیا۔ اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں صدقے کی کھجوریں بھی تھیں۔ مجھے ڈر لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ کھجور صدقے کی نہ ہو۔ (احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماں باپ‘ اولاد اور جان سے زیادہ عزیز رکھنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپؐ کی محبت کا تمام محبتوں پر غالب ہونا جزو ایمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے فیض سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں۔ آج اگر نبیؐ کے اس اسوۂ حسنہ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو حرام سے بچنے کے لیے ہماری نیندیں حرام ہو جائیں۔ صدقہ کی ایک کھجور کے شک نے آپؐ کی نیند ختم کی لیکن یہاں دن رات اربوں کھربوں کی حرام خوری نہ صرف قائم ہے بلکہ اسے معاشی ترقی کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ تب نبیؐ سے ہم کس قدر دُور اور شیطان سے کس قدر قریب ہیں۔ اس کا اندازہ خود ہی کرلیجیے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور حاضرین سے کہا : اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ سے‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ جب ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ! اس کی بخشش فرما‘ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ)
مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسن اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے عوام اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔