اشتراکیت بری طرح نوجوانوں میں نشوونما پانے لگی ہے۔ اس سلسلے میں رہ نمائی کی بڑی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس کے مقابلے کی طرف توجہ کریں‘ اور اس کی تردید کے لیے قلم اٹھائیں‘ تو غالباً وقت کا ایک اہم تقاضا پوا ہو جائے گا۔
اشتراکیت کے مقابلے کی طرف مجھے توجہ ہے۔ سات آٹھ برس‘ اس کے مطالعے میں صرف کرچکا ہوں اور اس کے ساتھ اسلام کے معاشی نظام کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن جس وجہ سے اب تک اس چیز پر براہِ راست حملہ نہیں کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اشتراکیت کا مقابلہ محض ایک آدھ کتاب یا چند مضامین سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک تحریک ہے جو ۸۰‘ ۹۰ سال کے اندر بڑے سازوسامان اور بڑی زبردست علمی تیاریوں کے ساتھ پرورش پاکر دنیا پر چھا گئی ہے۔ اس کا ایک پورا نظامِ فلسفہ ہے جس پر اخلاق‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت‘ ادب‘ تعلیم‘ علومِ طبیعی‘ غرض تمام شعبہ ہاے زندگی کے متعلق ایک ہمہ گیر ’’دین‘‘ کی عمارت قائم کی گئی ہے‘ اور پھر وہ کاغذ ہی پر نہیں بنی ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں ذہین‘ ذی علم‘ جفاکش اور ایثار پیشہ لوگوں نے‘ سالہا سال کی محنتوں سے اس دین کو ایک تحریک کی شکل میں‘ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا ہے اور ایک وسیع خطۂ زمین میں اس کی بنیاد پر ایک نہایت طاقتور حکومت عملاً چلاکر دکھائی ہے۔ ایسی تحریک کا مقابلہ صرف ایک تحریک ہی کرسکتی ہے جس کی پشت پر ایک ایسی جماعت ہو جو علمی ہتھیاروں سے بھی مسلح ہو‘ کیرکٹرکی طاقت بھی رکھتی ہو‘ عمل اور قربانی کے میدان میں بھی ٹکرلے سکتی ہو‘ اور پھر وہ اتنی تیار ہو کہ جس دین کو وہ دین مارکس کے مقابلے میں لے کر اٹھے اس کی ترجمانی زندگی کے ہر شعبے میں مارکسیوں سے زیادہ کامیاب علمی و عملی طریقوں سے کر سکے۔ اسی لیے میں نے اشتراکیت کے خلاف محض دل کی تسلی کے لیے کوئی کتاب یا مضمون لکھنے کے بجاے وہ پروگرام اختیار کیا ہے جسے آپ جماعت ِاسلامی کی تحریک کی صورت میں‘ اس وقت عہدِطفولیت سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔میں پوری قوت کے ساتھ نہ صرف دینِ مارکس بلکہ ہر دینِ باطل کے مقابلے میں اُترنا چاہتا ہوں اور اسی کی تیاری کر رہا ہوں۔ اللہ مدد فرمائے۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۳ھ‘ جنوری و فروری ۱۹۴۴ئ‘ ص ۸۸)