مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۱۶

کراچی محض ایک شہر نہیں بلکہ پاکستان کے فکری، سیاسی اور معاشی قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے جو بات پورے ایشیا کے تناظر میں ملت افغان کے بارے کہی تھی، وہی بات کراچی پر بھی بدرجۂ اولیٰ صادق آتی ہے، یعنی اس کے فساد سے پورا پاکستان فساد اور ابتلا میں   مبتلا ہوگا، اور اس کی کشادگی اور سکون پورے پاکستان کی کشادگی اور سکون پر منتج ہوگی۔۱؎

قیامِ پاکستان کے وقت کراچی اپنے سارے شہری جمال، معاشی مرکزیت اور جغرافیائی اہمیت کے باوصف چار ساڑھے چار لاکھ افراد کا شہر تھا، لیکن اس شہر قائد نے برعظیم پاک و ہند سے نقل آبادی اور مملکت ِ خداداد کے دارالحکومت اور تصورِ پاکستان کی علامت اور مرکزِ ثقل ہونے کے ناتے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔پہلے پانچ سال میں آبادی میں ۱۰ گنا اضافہ ہوا اور آج یہ شہر تقریباً اڑھائی کروڑ انسانوں کا مسکن ہے۔ قومی آمدنی میں تقریباً ایک چوتھائی اور قومی محصولات میں تقریباً نصف اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کے تمام علاقوں اور پاکستان میں تمام زبانیں بولنے والے اس شہر کے باسی ہیں۔ اس کے بازو ہر علاقے کے لوگوں کے لیے کھلے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے آئینۂ پاکستان اور  ’مِنی پاکستان‘ کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آبادی کے اس محیرالعقول اضافے اور  اس کی شہری زندگی کی ساخت اور ترکیب میں تبدیلی، نیز اس کے جغرافیائی پھیلائو اور متنوع معاشی سرگرمیوں سے وابستگی اور مختلف حکومتوں کے متضاد اور امتیازی رویوں ہی نے اُن ہمالیائی مسائل کو جنم دیا ہے، جن کی وجہ سے یہ ایک دہکتے الائو کا منظر پیش کر رہا ہے۔

لسانی فسادات کا پس منظر

قیامِ پاکستان کے اوّلیں ۱۰، ۱۵ برس تو نسبتاً پُرسکون تھے، لیکن ۱۹۷۰ء کے عشرے سے آج تک یہ شہر اگر ایک طرف خودکار اور مستقبل بین منصوبہ بندی سے محروم ،غیرمتوازن بڑھوتری یا ترقی کا شاہکار رہا ہے، تو دوسری طرف گوناگوں تضادات کا مجموعہ، متصادم قوتوں کا گہوارہ اور شہر کے مختلف علاقوں، آبادیوں، طبقات اور لسانی اور معاشی گروہوں کے درمیان کش مکش کا میدان بن گیا ہے۔

نام نہاد جمہوری اَدوار ہوں یا فوجی مہم   ُجو عناصر کی حکمرانی کے زمانے، بحیثیت مجموعی یہ شہر مشکلات، مسائل اور شکایات ہی کی آماج گاہ بنا رہا ہے۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ریاست کے تمام ہی ادارے اپنی اصل بنیادپر کام کرنے کے لائق نہ رہے۔ کرپشن، بدانتظامی، مفادپرستی، سیاسی جانب داری، لاقانونیت، بھتّا خوری، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوئے اڑھائی تین عشرے ہورہے ہیں۔ ریاست غیرمؤثر اور غیرریاستی ادارے اور گروہ اپنے اپنے مفادات کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔

یہ سلسلہ جولائی ۱۹۷۲ء میں کراچی میں اُردو سندھی لسانی فسادات سے شروع ہوا ،اور گذشتہ ۱۸برس (۱۰برس جنرل مشرف + ایم کیو ایم اور آٹھ برس پیپلزپارٹی+ایم کیو ایم دور) اس کی بدترین مثال پیش کرتے ہیں۔ جب سے آپریشن ’ضربِ عضب‘ کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور کراچی کے حالات کو  قابو میں لانے کے لیے رینجرز کے ہاتھوں حالات کچھ بہترہوئے ہیں، لیکن بنیادی مسائل اور حالات جوں کے توں اور شدید تشویش کا باعث ہیں۔ صوبائی حکومت کی بُری حکمرانی، نااہلی اور کرپشن اور بدعنوانی کی بدترین مثال ہے۔ مرکزی حکومت ظاہری فوں فاں کے باوجود ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ رینجرز اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان درپردہ ہی نہیں، کھلی کھلی کش مکش روز افزوں ہے اور غیر ریاستی عناصر کا تباہ کن کھیل جاری ہے۔

اس پس منظر میں تبدیلی کی جو لہریں اُبھر رہی ہیں اور جس طرح اُبھر رہی ہیں، وہ نئے نئے سوالات کو جنم دے رہی ہیں اور لوگوں کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آرہے ہیں    ؎

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

ہم سمجھتے ہیں کہ اس موقعے پر ٹھنڈے دل سے صورتِ حال کا جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے، تاکہ حقیقت پسندی سے ایک بُرائی کے بعد دوسری بُرائی، اور ایک تباہی سے دوسری تباہی کے جال میں پھنسنے کے کرب ناک اور خوف ناک چکّر سے نکلنے اور حالات کے حقیقی سدھار کے راستوں کو تلاش کرنے اور ان پر عمل کی راہیں استوار کرنے کی فکر اور کوشش کی جاسکے۔

سیاسی اختلاف اور جبر و تشدد

ایم کیو ایم نے گذشتہ ۴۰ برس میں کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں، سیاسی اور تنظیمی سطح پر ایک مقام بناکر ملک کی سیاست میں ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت  ایم کیو ایم کے اس کردار پر ملک میں پہلی بار کھل کر بات ہورہی ہے۔ چند ماہ پہلے تک پورے ملک کی سیاسی فضا اور خصوصیت سے میڈیا پر جبر اور خوف کا وہ عالم طاری تھا کہ ’متحدہ‘ کے کردار کے بارے میں کسی کے لیے بھی تنقید، اختلاف اور احتساب کی بات کہنا تو دُور کا معاملہ ہے، اشارہ تک کرنا ممکن نہ تھا۔

بلاشبہہ جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف اور چند سیاست دانوں، دانش وروں اور صحافیوں نے جان پر کھیل کر اس عفریتی صورتِ حال پر گرفت کی اور اس کی بڑی قیمت ادا کی۔ ان کے علاوہ بھی کچھ نے دبے الفاظ میں اشارے کیے، مگر کراچی کی مجموعی سیاست میں ایم کیو ایم کی حیثیت ایک ’مقدس گائے‘ ہی کی رہی۔ سیاسی میدان اور میڈیا میں اختلاف راے اور ان کے بارے میں حقیقت کے برملا اظہار کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس نے زبان کھولی، اس کی زبان کاٹ دی گئی۔ جس نے اختلاف کیا، اس کا مقدر بندوق کی گولی بنی۔ ۲۰ہزار سے زیادہ افراد نے جان کی بازی ہاری اور ہزاروں نے نقل مکانی کی۔ اس گروہ کی منہ زوری یہاں تک پہنچی کہ جن ۲۰۰ سے زیادہ پولیس افسروں اور  اہل کاروں بہ شمول چند فوجی افسروں کے، جو ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء کے دوران کراچی آپریشن سے کسی نہ کسی شکل میں وابستہ تھے، ایک ایک کر کے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح سچائی بیان کرنے والے ایک درجن صحافیوں کو خون میں نہلا دیا گیا اوران کے قتل کے گواہوں تک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

خصوصیت سے ’آپریشن ضربِ عضب‘ کے آغاز اور اس کے نتیجے میں دوسری دہشت گرد قوتوں کے ساتھ ’متحدہ‘ کے کچھ عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے سے، میڈیا پر ’متحدہ‘ کی حکمرانی کا بت اب ٹوٹ رہا ہے ۔ متحدہ کی سیاہ کاریوں کا جبری پردہ آہستہ آہستہ سرک رہا ہے اور اصل حقائق   قوم کے سامنے نسبتاً زیادہ آزادی سے آنا شروع ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تصویر کا وہ رُخ  اب نمایاں ہو رہا ہے، جسے عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھا گیا تھا۔ قانون، حکومت، عدالت اور  ملک کے مقتدر طبقات سبھی اپنے اپنے مفادات کے چکّر میں یا کچھ دوسری مجبوریوں کے باعث اس جبری خاموشی، یا اس مجرمانہ پردہ پوشی کے نتیجے میں مجرموں کے طرف دار، سہولت کار اور پناہ دہندگان کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس پس منظر میں ’متحدہ‘ سے وابستہ افراد کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے پہلی بار کھلی تنقید کی راہ اختیار کی ہے۔ وہ باتیں جو ماضی میں صرف جماعت اسلامی اور چند اہلِ علم، دانش ور اور صحافی کہنے کی جرأت کر رہے تھے، یہ سب کھل کر بیان کرنے کے لیے خود ’متحدہ‘ ہی کے افراد کی ایک  قابلِ ذکر تعداد سامنے آئی ہے اور گھر کے بھیدی کی حیثیت سے حقائق بیان کررہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ضمیر کی بیداری کے نام پر یہ حضرات اب گویا تو ہوئے ہیں اور کچھ اس اعتراف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں کہ: ’’ہم لوگ ان کارناموں کو جانتے تو تھے، مگر کہنے کی جرأت نہ رکھتے تھے‘‘۔

یہی وہ مقام ہے جہاں گروہ بندی اور مفاد پرستی کے بجاے اصل حقائق کو جاننے اور صحیح راہِ عمل اختیار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم تو ’متحدہ‘ کے بارے میں کبھی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے اور ہرمیدان میں اس کا مقدور بھر مقابلہ کر رہے تھے اور اپنی جانوں کے ساتھ اس کی بھاری قیمت ادا کرتے آرہے ہیں۔البتہ تبدیل ہوتے ہوئے اس منظرنامے میں، اس امر کی ضرورت بڑھ گئی ہے کہ محض ’مٹی پائو‘ کی سیاست کو کھل کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے، اور اصل حقائق کی روشنی میں بگاڑ کے اسباب کو سمجھا اور حقیقی اصلاح کا راستہ اختیار کیا جائے۔

’متحدہ‘ کے طرزِ فکر اور طرزِعمل سے سخت اختلاف اور ان کے غیض و غضب کا اوّلیں اور مسلسل نشانہ ہونے کے باوجود، ہم نے کل بھی یہ بات کہی تھی اور آج بھی کہتے ہیں کہ: سیاسی اختلاف___ اور سیاست میں تشدد، جبر اور فساد کے ہتھیاروں کا استعمال دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ریاست اور حکومت جب بھی قدم اُٹھائیں، اور جو بھی قدم اُٹھائیں، اسے قانون کی حکمرانی اور انصاف کے تقاضوں کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔ اوچھے ہتھکنڈوں اور انتقام سے اپنا دامن بچانا چاہیے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب پہلے مسلم لیگ (ن) اور پھر پیپلزپارٹی کے اَدوار میں، کراچی میں فوج اور رینجرز کے ذریعے ایم کیو ایم کی فسطائیت کے خلاف آپریشن ہوا، تو ہم نے اس وقت بھی اپنی اصولی اور حقیقی پوزیشن واضح کی تھی اور آج پھر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں۔

 ہماری نگاہ میں ’متحدہ‘ کا ایک تو سیاسی چہرہ اور اس کے کچھ سیاسی کام ہیں۔ ان کی دوسری شناخت ایک فاشسٹ گروہ کی بھی ہے، اور یہ گروہ تشدد، ظلم، جبر اور قوت کے مبنی بر فساد استعمال کی خونیں روایت کا علَم بردار ہے۔ جس کو مفادات کی سیاست کرنے والوں نے: خواہ ان کا تعلق جمہوری قوتوں سے ہو یا عسکری عناصر سے، نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ اس میں شریک ہوئے اور ان کے سرپرست اور پشتی بان بنے۔ ہم دستور اور قانون کے مطابق ان کی سیاسی سرگرمیوں کا حق اسی طرح تسلیم کرتے ہیں، جس طرح اپنے اور دوسرے سیاسی عناصر کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، مگر  ان کے دوسرے رُخ کو ہم ہر اعتبار سے مذموم، ملک کے لیے تباہ کن اور جمہوریت کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھتے ہیں۔ بگاڑ اور فساد کے جس عذاب سے آج سابقہ ہے، اور اس کے رُونما ہونے میں، ان کے اور چند دوسرے عناصر کی اس فسطائی اور تشدد پر مبنی سیاست کا نتیجہ تصور کرتے ہیں۔

۱۹۹۲ء کے آپریشن کے موقعے پر راقم الحروف نے سینیٹ میں اس وقت کے آپریشن پر مفصل تقریر میں جو کچھ کہا تھا، وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ تقریر اسی زمانے میں روزنامہ جنگ میں بطورِ مضمون بھی شائع ہوئی تھی۔ ریکارڈ کی خاطر اس کا ایک حصہ یہاں دیا جارہا ہے کہ کل بھی ہماری مخالفت اصولوں پر مبنی تھی اور آج بھی مبنی برحق ہے۔

ہم ذاتی مفادات یا گروہی عصبیت کے طرف دار نہیں ہیں۔ ہم نے کل بھی ’متحدہ‘ کے لیے انصاف اور اصل حقائق کی روشنی میں معاملہ کرنے کی بات کی تھی اور آج بھی اسی موقف کا اعادہ کرتے ہیں، لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ جن حقیقی جرائم کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، ان پر پردہ ڈالنا اور ان کو نظرانداز کرنا نہ کل صحیح تھا اور نہ آج درست ہے۔ ان پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے تھی اور اگر ماضی میں نہیں ہوئی تو آج ہونی چاہیے۔ لیکن جس جرم کے وہ مرتکب نہیں ہوئے ہیں، تو محض اس لیے کہ آج مقتدر عناصر ان سے ناراض ہیں، ان کو ماوراے حق و صداقت سزا دینا، بہرحال حق اور انصاف کا خون کرنا ہوگا۔ ہم اس سے بڑھ کر یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں جن جرائم کے بھی وہ مرتکب ہوئے ہیں، ان کی سزا جس طرح ان کو ملنی چاہیے، بالکل اسی طرح ان تمام عناصر کا بھی احتساب اور قانون کے مطابق گرفت اور حق و انصاف کی روشنی میں انھیں بھی سزا ملنی چاہیے، جو جرم میں شریک یا اس پر پردہ ڈالنے اور ظالم کو پناہ دینے کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہوں۔ فرد ہو یا ادارہ، سیاسی ہو یا غیر سیاسی، جمہوری ہو    یا عسکری، یا کوئی اور: انھیں بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔یہاں ملاحظہ فرمائیں کہ ۱۹۹۲ء میں ہم نے کیا کہا تھا:

تشویش کا تیسرا پہلو وہ چند ابتدائی کارروائیاں ہیں، جن میں بحریہ کی مڈبھیڑ، پنڈبہاول کا واقعہ اور دورانِ تفتیش لوگوں کی اموات شامل ہیں۔ ان چیزوں نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ یہ بڑی قابلِ اطمینان بات ہے کہ پنڈبہاول کے واقعے کے بعد فوج نے ایک صحیح، واضح اقدام اور درست موقف اختیار کیا اور اس طرح اپنی آبرو کو بحال کیا۔

چوتھا تشویش کا پہلو ایم کیو ایم اور حکومت کے تعلقات ہیں۔ ایک طرف یہ بات ثابت ہے کہ ایم کیو ایم ایک پُرتشدد جماعت تھی۔ اس کے اذیت خانے برابر کام کر رہے تھے اور یہ کوئی خفیہ راز نہیں تھا۔ حکومت کے علم میں ان تمام باتوں کو وقتاً فوقتاً لایا گیا اور کراچی کے بے شمار شہری ان عقوبت خانوں کا شکار ہوئے۔ بہت سے بچ جانے والوں کی آہوں اور کراہوں کو کسی نے سنا تک نہیں۔ لیکن آج بھی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت، دونوں سطحوں پر ایم کیو ایم برابر کی شریک ہے۔ اس پس منظر میں یہ ایک تشویش ناک پہلو ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ بلاشبہہ امن و امان کا ہے۔ اس مسئلے کو اگر حل نہ کیا گیا تو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات یقینا عاقبت نااندیشی ہوگی، اگر ہم یہ خیال کریں کہ یہ صرف امن و امان ہی کا مسئلہ ہے۔ درحقیقت یہاں اقتصادی اُمور میں خصوصیت سے زمینوں اور صنعت کا مسئلہ، انفراسٹرکچر کی تعمیر، بالخصوص نوجوانوں کی بے روزگاری کے مسائل ہیں کہ جن کی بناپر یہ نوجوان تخریب کاری کی طرف گئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کا زمین داری اور وڈیرہ شاہی کا نظام اس شکل میں مسلط ہے کہ جس کے باعث عوام وہاں ابھی تک احساسِ شرکت سے محروم ہیں۔ اگر عوام کسی پارٹی کو مینڈیٹ دیتے ہیں تو پھر ان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی حکومت بنائیں ۔ چنانچہ امن و امان کے ساتھ ساتھ مسئلے کا سیاسی صرف دیانت دارانہ عمل سے نکل سکتا ہے۔ اس کے لیے سیاسی پارٹیوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، خود ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

جہاں ایم کیو ایم کا امن و امان کے مسئلے کو پیدا کرنے میں مرکزی کردار ہے، وہیں   ایم کیو ایم کا ہر ممبر اس کا مجرم نہیں۔ کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے ہمیں مجرم اور بے گناہ میں فرق کرنا ہوگا۔ جو لوگ تشدد کے ذمہ دار ہیں، ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے۔ انصاف ہر ایک کے ساتھ کیا جانا چاہیے ،خواہ اس کا تعلق  ایم کیو ایم کے ساتھ ہو، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی یا کسی اور پارٹی سے۔ مراد یہ ہے کہ تشدد کی سیاست، لسانی سیاست اور پھر جائز اور صحیح سیاست کے درمیان فرق ضروری ہے۔ اگر ہم نے مجرم اور بے گناہ کے درمیان فرق نہ کیا اور فوج نے مکمل غیر جانب داری کا مظاہرہ نہ کیا تو یہ بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ چنانچہ انصاف، سیاسی سرپرستی اور جانب داری سے ماورا ہوکر کیا جائے۔ تشدد کی سیاست سے جس کسی کا بھی تعلق ہے اور جس نے بھی کسی ڈاکو کو پناہ دی ہے اور جو بھی ان کے سرپرست اور ذمہ دار ہیں،  ان تمام عناصر کا محاسبہ کیا جائے، چاہے ان کا تعلق ایم کیو ایم حقیقی سے ہو یا غیرحقیقی سے، یا کسی بھی طبقے سے۔ اگر حکومت نے اس معاملے میں کسی ایک گروہ کو دوسرے کے خلاف استعمال کیا، تو یہ انصاف نہیں ہوگا اور اس کے نتیجے میں یہ آپریشن ناکام ہوگا۔

ایم کیو ایم سے اصولی اختلاف

متحدہ قومی موومنٹ سے ہمارا اصولی اختلاف ان کے بنیادی فلسفۂ سیاست، یعنی مہاجریت اور اُردو زبان کی بنیاد پر قومیت کے سوال سے ہے۔ مہاجر ایک واقعاتی تصور بھی ہوسکتا ہے اور ایک نظریاتی اور اختلافی تصور بھی۔ جہاں تک واقعاتی پہلو کا تعلق ہے، ہر وہ شخص جو کسی بھی وجہ سے ایک ملک سے نقلِ مکانی کرکے کسی دوسرے ملک میں جاکر آباد ہوجائے، وہ مہاجر ہے۔ لیکن محض یہ نقلِ مکانی اور اپنے اصل وطن سے نسبت کسی شخص یا گروہ کو ایک قوم نہیں بناتی۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد ایک نظریاتی اور اخلاقی جدوجہد تھی۔ اس جدوجہد میں برعظیم کے مسلمانوں کی اکثریت شریک تھی۔ وہ بھی جن کا تعلق اُن علاقوں سے تھا جو پاکستان کا حصہ بنے، اور وہ بھی جن کا تعلق  اُن علاقوں سے تھا جنھیں ہندستان کا حصہ بننا تھا۔ پھر نقلِ آبادی تقسیمِ ہند کے منصوبے کا ایک حصہ نہیں تھی۔ وہ ان حالات کا نتیجہ ضرور تھی جن میں ملک تقسیم ہوا اور فسادات کی آگ نے ایک بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر مجموعی طور پر نقل مکانی کرنے والوں کی کوئی ایک زبان نہیں تھی۔اس میں اُردو بولنے والے بھی تھے، پنجابی، پشتو، بلوچی، پوربی، تامل، بہاری، گجراتی، میمن، کچھی، سرائیکی، دری اور دسیوں زبانیں بولنے والے ہم وطن شامل تھے۔

مغربی پاکستان میں ۱۹۵۱ء کی مردم شماری کی روشنی میں آبادی ۳کروڑ ۳۷لاکھ تھی، جس میں سے مہاجرین کی تعداد ۶۳لاکھ تھی، گویا آبادی کا تقریباً ۲۰ فی صد۔ اس میں اُردو بولنے والوں کی آبادی ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ تین چوتھائی مہاجر تھے، مگر وہ سب اُردو بولنے والے نہیں تھے اور یہ ایک چوتھائی اُردو بولنے والے بھی سبھی کراچی یا صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں آباد نہیں ہوئے۔ ہرچند کہ ان کی ایک بڑی تعداد یہاں ضرور آباد ہوئی، اور ان کے ساتھ دوسری زبانیں بولنے والے بھی ہجرت کرکے اپنے اپنے حالات اور امکانات کے مطابق آباد ہوئے۔ یہ ہیں اصل زمینی حقائق! اس پس منظر میں کسی ایک گروہ کا لسانی بنیادوں پر اپنا استحقاق دوسروں پر مسلط کرنا تصادم ہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ انصاف سب کے ساتھ ہونا چاہیے، لیکن کسی کے لیے بھی ترجیحی مقام (priviliged position) فساد ہی کا ذریعہ بن سکتی ہے، اور بن کر رہی ہے۔

اسی طرح مشرقی پاکستان میں ۷لاکھ کے قریب مہاجر آئے تھے، جن کی بڑی تعداد اُردو، بنگلہ اور آسامی بولنے والوں کی تھی۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ ہر زبان کا اپنا قابلِ احترام مقام ہے اور انسانوں کی پہچان میں زبان کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن ایک فرد کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت محض زبان کے استعمال و اختیار سے متعین نہیں ہوتی۔ اس لیے قرآن نے زندگی کا جو تصور دیا ہے وہ بڑا واضح ہے:

ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کو عقیدہ اور دین کی بنیاد پر ایک قوم بنایا اور اللہ کی اطاعت کو ان کا نصب العین اور اجتماعی زندگی کی بنیاد قرار دیا:

اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِo(انبیاء ۲۱:۹۲) یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔

وَاِِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ o(المومنون ۲۳:۵۲) اور یہ تمھاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔

مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی بنیاد اور اللہ کو رب تسلیم کرکے عقیدے اور الہامی ہدایت کے مطابق زندگی کی تشکیل دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ رب کی عبادت اور اس کے تقویٰ کو اللہ سے تعلق اور بندوں کے درمیان نظامِ کار کی اصل قرار دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے باب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک الفاظ میں واضح فرما دیا کہ: اگر تم اپنا وطن اس لیے چھوڑ رہے ہوکہ وہاں دین کی پیروی اور اللہ کی اطاعت اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا ممکن نہیں، اور ہجرت اس جگہ کے لیے کر رہے ہو، جہاں اللہ کی عبادت اور بندگی ممکن ہو اور اسلامی زندگی قائم کرسکو، تویہ ہجرت اللہ کے لیے ہے۔ اور اگر نقل مکانی کسی دنیوی مقصد کے لیے ہے، خواہ اس کا تعلق معاش سے ہو یا معاشرت (نکاح کی خواہش) سے، تو یہ ہجرت ان مقاصد کے لیے ہے، نہ کہ اللہ کی رضا کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ حبشہ اور مدینہ کی ہجرت نظریاتی اور اخلاقی ہجرت تھی اور اس کے نتیجے میں مہاجروں اور انصار میں ایک نیا رشتۂ مواخات قائم ہوا، اور دونوں مدینہ کی اسلامی ریاست کے شہری اور اسلام اور دولت ِاسلامیہ کے دفاع اور حکومت کے لیے کمربستہ ہوگئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جو بھی پاکستان کا شہری ہے، وہ پاکستان اور ملت اسلامیہ پاکستان کا حصہ ہے۔ ہر وہ زبان جس کے بولنے والے اس اُمت کا حصہ ہیں، ان کی ہر زبان معتبر ہے، لیکن ان کی قومیت، شہریت اور اجتماعیت کی بنیاد زبان نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ان کا نظریہ، پروگرام اور طریق کار ان کی شناخت کے صورت گرہیں اور اسی بنیاد پر اجتماعیت کی تشکیل و تعمیر میں سب اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہم بڑے دُکھ سے یہ بات کہتے ہیں کہ اُردو کا جھنڈا اُٹھانے والی ’متحدہ‘ نے اُردو زبان کی کوئی خدمت نہیں کی۔ وہ اُردو جو پاکستان کے ۸۰ فی صد سے زیادہ افراد کے درمیان رابطے کی زبان ہے اور پاکستانی قوم کی وحدت و یگانگت کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، اسے آبادی کے صرف ۸فی صد سے منسوب زبان بناکر قومی دھارے میں اس کے مقام کو عملاً بُری طرح سے مجروح کر دیا گیا ہے۔

’متحدہ‘ ایک طرف ہجرت کے اسلامی تصور کا سہارا لیتی ہے اور دوسری طرف اپنے کو ایک سیکولر اور لامذہبی تحریک قرار دیتی ہے۔ اب کچھ عرصے سے اس کے کچھ ترجمان اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہنے کے بعد اپنے سیکولر ہونے کا دعویٰ کر کے اس اقرار کہ ’’ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘کی نفی کردیتے ہیں اور اس تضاد کو محسوس بھی نہیں کرتے!

تنظیمی ڈہانچا اور شخصیت پرستی

’متحدہ‘ سے ہمارا دوسرا بنیادی اختلاف اس شخصی پرستش گیری ( personal cult) کے باب میں ہے، جس پر اس کا پورا سیاسی فلسفہ اور تنظیمی نظام قائم ہے۔ درحقیقت ’متحدہ‘ میں اس کے ’قائد‘ کی مرکزیت ہی تحریک کا سیاسی فلسفہ ہے۔ اس کا ’قائد‘ ہی حتمی سچائی اور ہر معاملے میں  حرفِ آخر ہے۔ ’قائد‘ سے وفاداری ’متحدہ‘ کی اساس ہے۔ ’متحدہ‘ کا لٹریچر اور عملی ڈھانچا، تربیتی نظام اور نعرے___ ان سبھی کا ایک ہی محور ہے، یعنی ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘۔ قائد پر اندھا ایمان (blind faith in the leader) ہی ہمارا اصل الاصول ہے۔ جس کا اظہار اس نعرے کی صورت میں ہرمحفل اور در و یوار پر کیا جا رہا ہے کہ:’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘۔

’قائد ِ تحریک‘ ہی ہرمعاملے میں سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ فکری اور پالیسی اُمور سے لے کر معمولی معاملات تک، ہر مسئلے میں صرف وہی حرفِ آخر ہے۔ صدر یا امیر کے بجاے اسے ’قائد‘ اور ’پیر‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور وہ جسے چاہے کان پکڑ کر نکال دے اور جسے چاہے پارٹی عہدہ یا اسمبلی کی رکنیت دے ڈالے۔ حال ہی میں ’متحدہ‘ کو چھوڑنے والوں نے اپنی اس کیفیت کو یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ الطاف صاحب کو تحریک میں نعوذباللہ ’خدا‘ کا سا درجہ دیا ہوا ہے۔ ایک محقق نے ’متحدہ‘ کے فکر اور مزاج کا خلاصہ یوں پیش کیا:

پارٹی [’متحدہ‘]عجیب و غریب طرزِفکروعمل کا ایسا ملغوبہ پیش کرتی ہے، جس میں قومیت پرستی، زبان پرستی، عصبیت زدگی اور سوشلسٹ رجحانات باہم مربوط ہیں۔ اس پارٹی کو ایک غیرمنتخب لیڈر ’روحانی‘ اصطلاحوں میں اپنی سربراہی میں چلاتا ہے، جس کے لیے صدر سے زیادہ ’پیر‘ کا لفظ برتا جاتا ہے، اور جس کی زبردست گرفت میں پارٹی کام کرتی ہے۔(Criterion، The MQM and Identity Politics in Pakistan Qurterly ، نومبر ۲۰۱۲ئ)

شخصیت پرستی اور ’قائد‘ کے انا ولاغیری مقام کا واضح اعلان اس ’حلف نامے‘ میں ہوتا ہے ،جو متحدہ کے ارکان روزنامہ ڈان کراچی کے مطابق ان الفاظ میں اُٹھاتے ہیں:

مَیں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لیے زندگی بھر وفادار رہوں گا۔ میں اپنی ماں کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف کوئی بھی سازش ہوئی، یا میرے علم میں ایسا کوئی بھی اقدام آیا کہ جس سے ان دونوں کو کوئی نقصان پہنچنے کا امکان ہوا، تو مَیں فی الفور الطاف حسین کو اس کی اطلاع دوں گا۔ حتیٰ کہ ان سازشیوں میں اگر میرا بھائی، بہن، ماں، باپ، کوئی رشتے دار یا دوست تک بھی ہوا، [تو اسے نظرانداز نہیں کروں گا] ۔ مَیں قسم کھاتا ہوں کہ میں الطاف حسین کے فیصلوں کو ہرصورت میں حتمی حقیقت کے طور پر تسلیم کروں گا۔ اگر مَیں اس [الطاف حسین]    کے کسی فیصلے سے سرتابی کروں تو مجھے غدار تصور کیا جائے۔(Herald Exclusive، Big brother is watching، عابد حسین، ڈان، ۳ستمبر ۲۰۱۴ئ)

’متحدہ‘ معروف معنی میں کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فرد کے گرد اور اس کے اشارئہ چشم  و ابرو پر ناچنے والے ’مرکزِپرستش‘ گروہ (cult)کی حیثیت رکھتی ہے، جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور کامیابی سے یہ کھیل ۴۰برس سے کھیلا جارہا ہے۔

سیاست میں تشدد

’متحدہ‘ سے ہمارا تیسرا بنیادی اختلاف سیاست میں تشدد کے بے مہابا استعمال پر ہے۔     یہ پارٹی کے اندر بھی ہے اور ملک کی سطح پر سیاسی مخالفین، معاشرے، میڈیا اور اجتماعی زندگی کے تمام ہی میدانوں میں روا رکھا گیا ہے۔ تنظیم ہر مقام پر دو سطحوں پر متحرک ہے: ایک باہر کی سطح کہ جس پر جمہوری لبادہ ہے اور دوسری اصلی تنظیم جو خالص فاشسٹ اصولوں پر ہے۔ ’قائدِ تحریک‘ کی آہنی گرفت پورے نظام پر ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی جو بھی تنظیمیں ہیں، خصوصیت سے تنظیمی کمیٹی، سیکٹر کی تنظیم اور مختلف سطح پر اس کے انچارج اور پھر انفرادی سطح پر عامل کارندے (operatives)، یہ سبھی مسلح ہیں۔ قوت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ الطاف صاحب یا ان کے خاص نمایندوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کی تربیت ہرسطح پر اور ہرقسم کی تخریبی کارروائیوں کے لیے ہوتی ہے۔ انھیں اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے، ان کو بلیک میل کرنے، ان سے بھتّا وصول کرنے، ان کی زبان بندی کرنے، اور ہر اس کام کے لیے جو الطاف صاحب یا ان کے مامور کرانا چاہیں، ان کے لیے روا ہے۔ قوت کا استعمال، اس کے لیے عسکری تربیت، جماعتی ڈسپلن، مکمل رازداری، ذاتی وفاداری، ہرقسم کی قتل و غارت گری اور تخریب کاری کی تربیت اور یہ کام کرنے والوں کو حفاظت۔

ہزاروں افراد پر مشتمل یہ فورس ’متحدہ‘ نے ان ۴۰برسوں میںتیار کی ہے اور یہ اس کے  ہمہ وقتی کارکنوں کی حیثیت سے ہروقت سرگرمِ عمل ہیں۔ان میں سے ایک بڑی تعداد سرکاری اداروں میں گھوسٹ ملازم کے طور پر تنخواہیں وصول کرتی ہے، لیکن کارکن وہ صرف ’متحدہ‘ کے ہیں اور سیکٹر انچارجوں کے ذریعے خدمات انجام دیتے ہیں۔اگر یہ پکڑے جاتے ہیں تو ان کو تحفظ دلانے اور رہا کرانے کا کام ’متحدہ‘ کی قیادت کرتی ہے۔ جیلوں میں ان کو وی آئی پی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ جیل کے اندر ہی ان کے لیے پارٹیاں ہوتی ہیں، حتیٰ کہ متحدہ کے اسمبلیوں کے ارکان اور سندھ کے گورنر تک ایسی محفلوں میں شریک ہوتے رہے ہیں جن کی تصاویر اور وڈیوز موجود ہیں،  جن میں کچھ صولت مرزا کے مقدمے،مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی)کی صورت میں قوم کے سامنے آچکی ہیں اور جن کی ’متحدہ‘کے ترجمانوں نے نہایت بھونڈے انداز میں توجیہات پیش کی تھیں، وہ آج ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ گویا ایک ’برابر کی‘ (parallel) حکومت ہے، ’ریاست در ریاست‘ ہے (state within state) ۔ جس کے ذریعے ’متحدہ‘ اور اس کی قیادت بندوق کی نالی کی قوت سے اپنا پورا نظام چلارہی ہے اور کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔

اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اور تشویش انگیز امر یہ ہے کہ اس گروہ کو قائم کرنے اور لسانی بنیاد پر کراچی میں تقسیم اور تصادم کے ذریعے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا آغاز خود صدرجنرل محمدضیاء الحق اور ان کے قابلِ اعتماد افسروں کے ہاتھوں ہوا۔ پاکستان سینیٹ کی سندھ کے حالات پر ایک کمیٹی، جس نے سینیٹر احمد میاں سومرو مرحوم کی صدارت میں کام کیا تھا، اور جس کا مَیں خود ممبر تھا۔ کمیٹی کے سامنے پولیس کے دو اعلیٰ افسروں نے اپنے بیان میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور پھر ان کے بعد فوجی قیادت کے دور کے اس کردار کا اعتراف کیا تھا، لیکن رپورٹ میں ان کے ناموں کی صراحت سے اس بیان کو ریکارڈ پر لانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ جس کا مطلب اپنے اور اپنی اولاد کے تحفظ کو قرار دینا تھا۔ لیکن ۲۰۱۱ء کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سوموٹو ، کیس نمبر۱۶، اور ۲۰۱۱ء ہی کے دستوری پٹیشن نمبر۶۱، جس کے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کی سربراہی میں کی، اس پس منظر کو ان الفاظ کے ساتھ پیراگراف ۶۵ میں درج کیا ہے:

کراچی کی تاریخ، جو اُوپر بیان کی گئی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۸۵ء سے لے کر اب تک، وقت گزرنے کے ساتھ جرائم کی سطح بلند اور امن و امان کی صورتِ حال بڑی تیزی کے ساتھ بد سے بدتر ہوئی ہے۔ سیّداقبال حیدر [سابق وفاقی وزیرقانون، عدل و پارلیمانی اُمور] نے واضح کیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے دانستہ طور پر یہاں کے لوگوں کو تقسیم کرنے اور غیرسیاسی قوتوں کا تر نوالا بنانے کے لیے ان تشدد پسند گروہوں کی پرورش کی۔ انھی گروہوں کو اسلحے سے لیس کیا کہ جن گروہوں کی بنیاد لسانی منافرت پر استوار تھی۔ ان میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (اب ’متحدہ قومی موومنٹ)، پنجابی پختون اتحاد(PPI) اور جیے سندھ (JS)شامل ہیں۔ اور پھر اپریل ۱۹۸۵ء میں ایک طالبہ  بشریٰ زیدی کی سڑک کے حادثے میں ہلاکت کے بعد بے شمار خونیں فسادات کا لاوا پھوٹ پڑا، جس میں مذکورہ بالا تینوں لسانی گروہوں یا پارٹیوں نے دل کھول کر حصہ لیا۔ انجامِ کار، کراچی اور حیدرآباد میں لاتعداد بے گناہ شہری موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ سرکاری اور نجی املاک کا بے پناہ نقصان ہوا، ہزاروں شہری بُری طرح زخمی یا معذور بنا دیے گئے۔ کرفیو کا نفاذ اور ہڑتالوں کی لعنت اور روزمرہ زندگی کے کاموں کا تعطل ہی کراچی کی پہچان بن کر رہ گئے۔ مزید یہ کہ ۱۹۸۰ء کے بعد مختلف اوقات میں سندھ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل چھے عدالتی کمیشن بنائے گئے۔ مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک بھی عدالتی کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی، اور نہ ان میں سے کسی کمیشن کی سفارشات پر کوئی عمل ہی کیا گیا ہے۔ جس کا سبب غالباً یہ ہے کہ ان خوں خوار واقعات کے ذمہ دار مجرموں کو تحفظ دیا جائے۔ اس کھیل کے پیش نظر، وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک آزاد اور اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد افضل ظُلہ کی سربراہی میں تشکیل دیا، جس میںچاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بطورِ ممبر شامل تھے۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ ۱۷مئی ۱۹۹۰ء کو پکاقلعہ حیدرآباد میں وقوع پذیر خوف ناک خونیں واقعے کی تفتیش کریں، مگر افسوس کی بات ہے کہ [اگست ۱۹۹۰ء میں] بے نظیر بھٹو کی مرکزی حکومت کو غیرآئینی طور پر تحلیل کردیا گیا۔ اور پھر اس دوران میں ایسی عبوری حکومت قائم کی گئی، جس نے مرکزی اور صوبائی وزارتوں میں ایم کیو ایم کو بھاری نمایندگی دے ڈالی اور انھوں نے مذکورہ بالا عدالتی کمیشن کو ہی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

لندن کے معروف جریدے دی اکانومسٹ (۲۱؍اگست ۲۰۱۱ئ) نے کراچی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے چند اقتباسات ذیل میں دیے جارہے ہیں:

پاکستان کے گنجان ترین شہر کراچی میں لسانی بنیادوں پر جنگ اس عروج کے نکتے کو چھورہی ہے کہ انسانی جان بچانے کے لیے ایمبولینس سروس تک کے ڈرائیور لسانی پہچان کے ساتھ زخمیوں کو اُٹھانے یا نہ اُٹھانے کی عصبیت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو ایمبولینس ڈرائیور زخمیوں کو اُٹھا کر ہسپتالوں کی طرف سائرن بجاتے ہوئے تیزی سے چلتے ہیں، وہ بھی مخالف نسلی گروہ کی فائرنگ کا لقمہ بن رہے ہیں۔

اس خوں ریزی کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ایک نئی صورت یہ ہے کہ لوگوں کو محض گولی نہیں ماری جاتی بلکہ انھیں اغوا کرکے بہیمانہ ٹارچر کیا جاتا ہے، اور پھر ان کی گولیوں سے ہلاک شدہ مسخ لاشوں کو بوریوں میں بند کرکے تنگ گلیوں اور گٹروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔عباسی شہید ہسپتال میں، جو کہ ایک سرکاری ہسپتال ہے، ڈاکٹر صرف مہاجروں کا علاج کرتے ہیں، جن کی اس ضلع میں غالب اکثریت ہے اور [مہاجر] کراچی کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔

اگر یہ جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان صرف ایک جنگ تھی تو اس پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ لیکن حیرت اس پر ہے کہ ہر جرائم پیشہ گروہ کو کسی نہ کسی مقبول سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لڑائی کا آغاز ۲۰۰۷ء میں ہوا تھا، اور انتخابات کے بعد [جنرل مشرف کی] فوجی حکمرانی کے دور کا اختتام ہوا تھا۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو نسلی گروہوں کی سیاسی حمایت سے مربوط ہے، اور جو اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ جو ۱۹۸۰ء کے عشرے میں قائم کی گئی تھی، اور جو مہاجروں کی نمایندگی کا دعویٰ کرتی ہے، ایک زمانے میں کراچی پر اس کی آہنی گرفت تھی۔ اِن دنوں    صدر آصف زرداری کی پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت میں شامل ہے۔ اس اجارہ داری کو عوامی نیشنل پارٹی جو پشتون آبادی کی ترجمان ہے ، چیلنج کر رہی ہے۔ ان کے جرائم پیشہ گروہ کو ہمسایہ صوبہ بلوچستان کے عصبیت پسند بلوچوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دو عشروں سے زیادہ ایم کیو ایم شہربھر سے تاجروں اور گھروں سے جبری وصولی جسے ’بھتّا‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، جمع کرتی آئی ہے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ڈھیلے ڈھالے اتحاد نے جو سیاسی حمایت حاصل کی ہے،    اب اس کو استعمال کرتے ہوئے پیشہ ور گروہ کیش میں اپنا حصہ بھی چاہتے ہیں۔     عین تنازعے کے بیچ میں تاجروں کو اب تین مخالف گروہوں کو ادایگی کرنا پڑے گی۔

جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، وہ اس قابل دکھائی نہیں دیتی ہیں کہ تشدد کو ختم کرسکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض جرائم پیشہ نہیں ہیں کہ جنھوں نے عملاً اپنے آپ کو پارٹی کے جھنڈے میں لپیٹ رکھا ہے بلکہ پارٹیوں کے سیاسی عمل کا جزو لازم ہے۔ اگر تشدد جاری رہتا ہے تو عام لوگ کسی سیاسی جماعت کا تحفظ حاصل کرنے پر مجبور ہوں گے اور انھیں مزید ادایگی کرنا ہوگی۔ غالباً یہ ہے یہاں سیاست دانوں کا ہدف۔ آپ اسے جرم کوسیاسی رنگ دینا یا سیاست کو جرم کا رنگ دینا کہہ سکتے ہیں۔

یہ ایسی دل خراش داستان ہے کہ جس کا ذکر کرتے ہوئے آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں، مگر حیف ہے ان سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور بااثر اور حُب ِ وطن کے دعوے دار حکمرانوں پر، کہ یہ سب کچھ ان کے سامنے ہورہا تھا اور ہو رہا ہے اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آپریشن ’ضربِ عضب‘ کے بعد جو حقائق کھل کر سامنے آرہے ہیں اور جن جن ناموں اور       سیاہ ’کارناموں‘ کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے، وہ ایک چارج شیٹ ہے پورے نظام پر اور اس نظام کے تمام رکھوالوں پر۔ مقتولین کی روحیں اور مظلوموں کی آہیں پکار رہی ہیں کہ انصاف کب ہوگا اور ظالموں کو کون اور کب کیفرکردار تک پہنچائے گا؟

’متحدہ‘ کی مرکزی قیادت کے جو لوگ اب رو رو کر اپنے ہی اقتدار کے دور کے واقعات بیان کر رہے ہیں اور سارا الزام الطاف حسین صاحب پر ڈال کر اپنی پاک دامنی کا واسطہ یا مغالطہ دے رہے ہیں، احتساب ان کا بھی ہونا چاہیے، لیکن ان کی گواہی گھر کے بھیدی اور شاھدٌ من اھلہ کی ہے ،جو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔اس سلسلے میں کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال اور ان کے  چھے ساتھیوں، جن کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، سے بھی تفصیلی معلومات حاصل کرنے اور اس کی روشنی میں مزید حقائق کو معلوم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔اسے محض سیاسی واہمہ یا وقتی اُبال بناکر ہوا میں تحلیل نہیں ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں مشترکہ تفتیشی ٹیم (JIT) کی رپورٹوں کے بھی جائزے کی ضرورت ہے۔ بلدیہ ٹائون کے بارے میں اب کوئی شبہہ نہیں رہا کہ اس فیکٹری کو آگ ’متحدہ‘ کی قیادت کے حکم پر، اس کے کارکنوں نے لگائی اور مسئلے کی جڑ میں بھتّا اینٹھنے کا مطالبہ تھا۔ غضب خدا کا کہ ۲۵۸ سے زیادہ افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور قاتل اور ان کے سرپرست نہ صرف دندناتے پھرتے رہے بلکہ آج بھی پھر رہے ہیں۔ ان میں حماد صدیقی کا نام بھی آتا ہے، جو اَب مصطفیٰ کمال صاحب کے سفیدپوش بریگیڈ میں شامل ہو رہے ہیں اور اشارے ہیں کہ JIT کے کسی نئے بیانیے (version) میں ان کا نام ’پاک صاف‘ کرنے کا امکان ہے۔ دیدہ دلیری کا عالم یہ رہا ہے کہ اس سب کے بعد بھی فیکٹری کے مالکان سے متاثرین کی مدد کے نام پر کروڑوں روپے وصول کیے گئے مگر روپے متاثرین کو دینا تو کجا، ان کروڑوں روپوں کا سایہ تک اصل متاثرین پر نہیں پڑا۔

ایک اور ہوش ربا رپورٹ دسمبر ۲۰۰۹ء یومِ عاشور کے موقعے پر شیعہ نوحہ خانوں کے جلوس کو بم دھماکے کا نشانہ بنانے کے بارے میں ہے، جس میں ۴۵ معصوم افراد کا سفاکانہ قتل ہوا۔اس جلوس پر حملے کا سرا بھی ’متحدہ‘ کے دامن تک پہنچتا ہے، اور اس سلسلے میں بھی حماد صدیقی کا نام آرہا ہے۔ تخریب کاری کے اس سفّاکانہ واقعے میں قرآنِ پاک کے صفحات تک کو استعمال کیا گیا، اور     اس حملے کا مقصد شیعہ سُنّی فسادات کی آگ بھڑکانا تھا۔ ایم کیو ایم جسے اپنے سیکولر ہونے پر بڑا ناز ہے اور جو اپنے آپ کو فرقہ واریت سے بالا ظاہر کرتے ہوئے نہیں تھکتی، اس کی قیادت کا اس خونیں ڈرامے میں کردار دل و دماغ کو مائوف کرنے والا واقعہ ہے۔

’متحدہ‘ سے منحرف ہونے والوں نے اب تک جو بیانات دیے ہیں، وہ ایک گھنائونی چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور چند دوسرے افراد  جن حقائق کو جان پر کھیل کر بیان کیا کرتے تھے، ان کی تائید اور توثیق آج یہ حلفیہ بیانات کرتے ہیں، اور متحدہ کا یہی وہ کردار ہے، جوہمارے اختلاف کا مرکزی نکتہ ہے۔

اس سلسلے میں اب اتنا لوازمہ اور اتنے اعترافی بیانات سامنے آرہے ہیں کہ ان کا احاطہ  ایک مضمون تو کجا، پوری کتاب تک میں بھی ممکن نہیں۔ لیکن ڈان(۱۸مارچ ۲۰۱۶ئ) نے اپنے ادارتی کالم Confronting MQM's Past میں مختصراً جو بات کہی ہے، وہ بھی قابلِ توجہ ہے:

مصطفیٰ کمال کے مسئلے میں، بہت سے افراد ، جن کا اس کی بے نام پارٹی سے تعلق ہے، ماضی بھی بے داغ نہیں ہے۔ وہ کراچی تنظیمی کمیٹی سے وابستہ تھے جو کہ متحدہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا بازو تھا۔ یہ ہمیں بنیادی مسئلے، یعنی متحدہ کی تشدد سے وابستگی اور اس کا اسے تسلیم کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت جس مسئلے پر بات نہیں کررہی، وہ یہ حقیقت ہے کہ جب تک حکومت نے اقدام نہیں کیا، پارٹی نے اپنے غیرواضح عسکری ونگ سے کراچی کو آہنی گرفت سے کنٹرول کیا۔ شہر کے رہایشی ابھی تک اس بات کو نہیں بھولے ہیں۔ جب ایم کیو ایم کے ایک اشارے پر تقریباً تمام شہر کو  کئی کئی دن کے لیے ’سوگ‘ یا احتجاج کے لیے بند کر دیا جاتا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ [’متحدہ‘] پارٹی نے سندھ کی شہری سیاست کے ساتھ ساتھ عصبیت کی سیاست میں بندوق کے کلچر کو متعارف کروایا اور پارٹی جبری وصولی پر پھلی پھولی ہے،  جیسے الزامات کو مسترد کرنا بہت مشکل ہے، جب کہ ایم کیو ایم اختلاف راے کو کم ہی برداشت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ کینیڈا کی دو عدالتیں متحدہ قومی موومنٹ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہیں اور اسی بنیادپر اس سے متعلق افراد کو پناہ گزیں قرار دینے سے انکار کرچکی ہیں۔ اسی طرح بی بی سی  کے نامہ نگار اور دی گارڈین کے کالم نگار اوون بینیٹ جونز کے بقول امریکا میں متحدہ کو TIER-3 کی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاچکا ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی اپنے ۲۰۱۱ء کے سوموٹو کیس میں اپنے فیصلے کے پیراگراف ۱۳۱، ص۱۵۱ پر جہاں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں دہشت گرد اور مجرم کارفرما     نظر آتے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت پر باقاعدہ مقدمہ چلانے اور دستور کے تحت اس پر بندش کی بات کو متحدہ کے بارے میں مطالبے کے باوجود حکومت کی طرف لوٹا دیا تھا کہ وہ اس پر دستور اور قانون کی روشنی میں غور کرے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اجمل پہاڑی اور اس کے بھارت میں تربیت پانے اور کراچی اور سندھ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا بھرپور انداز میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھیے: پیراگراف ۱۲۵، ص ۱۴۲-۱۴۳)

سپریم کورٹ کا فیصلہ، اخباری اطلاعات، عالمی میڈیا کی شہادت، متاثرہ افراد اور جماعتوں کا واویلا، ہزاروں افراد کا قتل، ساڑھے تین ہزار مقدمات سے سیاسی این آر او کے ذریعے گلوخلاصیاں، پولیس کی ناقص تفتیش اور مقدمات کی عدم پیروی، مجرموں کی سیاسی پشت پناہی،    ان سب کی موجودگی میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں، ریاست کے حساس اداروں بشمول انٹیلی جنس فورسز، افواجِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر اُس وقت کے صدور جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری اور آج کے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف کی خاموشی، آنکھ مچولی، غفلت اور بے عملی کو عملاً سرپرستی نہ کہا جائے تو کس نام سے پکارا جائے؟    ؎

پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

’متحدہ‘ اور اس کے لیڈر کے بنیادی فلسفے ، سیاسی عزائم اور طرزِ سیاست اور ۴۰برسوں پر پھیلے ہوئے ان کے کردار اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی تباہ کاریوں کے بارے میں ہم نے مختصراً اپنی گزارشات پیش کردی ہیں۔ ان کی روشنی میں اس امر سے انکار ناممکن ہے کہ اس تحریک نے گذشتہ ۴۰برسوں میں ملک کے دستوراور قانون کی دھجیاں بکھیری ہیں اور جو طرزِسیاست اختیار کیا ہے، اس کے نتیجے میں فساد فی الارض کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور جو کچھ فساد ہوا ہے، اس کی اوّلیں ذمہ داری اگر ایم کیو ایم، اس کی قیادت اور بندوق بردار کارکنوں پر ہے، تو وہیں اس پورے عرصے میں جو جو بھی اور جس حد تک بھی، ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والا تھا، وہ ان کے حالات کا ذمہ دار تھا، ان جرائم میں شریک اور اس مجرمانہ شراکت کے لیے قوم کے سامنے جواب دہ ہے۔

بہارتی حکومت اور ’را‘ سے تعلقات

مستقبل کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کرنے سے پہلے اس مسئلے کا ایک اور پہلو ایسا ہے، جس کا واضح الفاظ میں ادراک، اور قومی سلامتی کے لیے اس کے خطرات کی نشان دہی ضروری ہے۔ اور یہ پہلو ہے ایم کیو ایم کی قیادت خصوصیت سے الطاف حسین صاحب اور ان کے معتمدترین ساتھیوں کا بھارت کے بارے میں رویہ، پاکستان کے نظریے اور قومی مفادات کے بارے میں سردمہری اور ا س سے بھی بڑھ کر بھارت کی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ان کا تعلق اور اس سے مالی اعانت کے حصول کا ہولناک اسکینڈل۔

یہ ہے وہ پہلو، جس کے پس منظر میں اگر اس جماعت اور اس کی قیادت کے ’کارناموں‘ کا جائزہ لیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ اگر یہ سب باتیں صحیح ہیں (اور بظاہر وہ صحیح نظر آتی ہیں) تو وہ قومی سلامتی کے لیے بڑا سنگین خطرہ ہے ۔ دبے لفظوں میں سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے کے آپریشنل حصے میں صاف اشارہ دیا ہے: یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دستور اور سیاسی جماعتوں کے قانون کی روشنی میں اس باب میں اقدام کا جائزہ لے۔

بھارت نے پاکستان کے قیام کو کھلے دل سے ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا اور قیامِ پاکستان سے آج تک اسے کمزور کرنے، ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور خاکم بدہن صفحۂ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش میں نہ صرف وقتاً فوقتاً اس کا اعلان کرتا رہا ہے، بلکہ عملاً اس میں مصروف بھی رہا ہے۔ جس کا آغاز کانگریس کے اس باقاعدہ ریزولیوشن میں کیا گیا تھا جس میں ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند کے منصوبے کو انڈین نیشنل کانگریس نے اس توقع  کے ساتھ قبول کیا تھا کہ: پاکستان ایک دن دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔

۱۹۷۱ء میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے پاکستان کو توڑنے کی پوری جنگ لڑی اور پاکستان کو دولخت کرنے کا مذموم ’کارنامہ‘ اپنے نام کیا۔ لیکن حال ہی میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی ڈھاکہ کی تقریر میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا کہ: ہم نے، ہماری فوج نے اور ہماری تربیت کردہ مکتی باہنی نے یہ کام انجام دیا تھا۔ واضح رہے کہ ’را‘ (RAW) کا قیام ہی ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد، اس جنگ کو دوسرے ذریعے سے جاری رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہی وہ ’را‘ ہے، جس نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے اندر مسلح مداخلت کرنے کے ساتھ، پاکستان پر کھلی بھارتی جارحیت مسلط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہی ’را‘ بلوچستان میں ایک مدت سے سرگرمِ عمل ہے۔ اسی ’را‘ کے سابق سربراہ نے کھلی وارننگ دی تھی کہ کشمیر کی بات نہ کرو، ورنہ کشمیر کے ’ک‘ کی طرح ہمارے پاس ایک ’ک‘ (کراچی) ہے، اور حال ہی میں ایک دوسرے موقعے پر اس نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ: ’ایک اور ممبئی جیسا واقعہ ہوا تو بلوچستان سے پاکستان کو ہاتھ دھونے پڑیں گے‘۔

یہ ہے وہ ’را‘ ، جس کا ایم کیو ایم کی قیادت سے خصوصی ربط و تعلق ہے۔ جو ’متحدہ‘ کی مسلسل مالی امداد کرتی رہی ہے، جس نے اس کے عسکری اور دہشت گرد کارندوں کی تربیت کا اہتمام کیا۔        یہ سارے حقائق اب دو اور دو چار کی طرح سامنے آرہے ہیں، بلکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی فراہم کردہ سرکاری دستاویزات کی روشنی میں اس کا اعتراف الطاف حسین صاحب اور کم از کم ’متحدہ‘ کے دوچوٹی کے قائدین ، (جو الطاف حسین صاحب کے معتمد ساتھی ہیں) نے بھی کیا ہے۔ بی بی سی  کی ایک دستاویزی رپورٹ میں دو سال پہلے یہ سب حقائق سامنے آگئے تھے۔ متعدد JIT  (مشترکہ تفتیشی رپورٹوں) میں جستہ جستہ ان چیزوں کا ذکر ہے، جن میں سے کچھ تو اجمل پہاڑی کے ریفرنس سے پاکستان سپریم کورٹ کے ۲۰۱۱ء کے فیصلے کا حصہ بھی ہیں۔ [بقیہ دیکہیے: ص ۹۷]

[اشارات: ص ۲۶ سے آگے]  اس سلسلے میں ہر روز مزید حقائق سامنے آرہے ہیں ۔ انسان سمجھنے سے قاصر کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہاں جارہے ہیں؟ اور جو افراد اور ادارے قومی سلامتی کے ذمہ دار ہیں، وہ کیا کررہے ہیں؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ذرائع سے جو دستاویزات سامنے آئی ہیں، نیز لندن کے پاکستانی تاجر سرفراز مرچنٹ نے میڈیا پر اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے گواہی دی ہے، اور پھر خود مصطفیٰ کمال نے دوبئی کی اس میٹنگ کی گواہی دی ہے، جس میں ’متحدہ‘ کی قیادت کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اس وقت کے وزیرداخلہ اور صدر آصف زرداری صاحب کے معتمدخاص عبدالرحمان ملک صاحب اور صوبہ سندھ کے گورنر عشرت العباد صاحب شریک تھے۔

بات صرف مالی معاونت کی نہیں، اسلحے کی خریداری اور فراہمی، عسکری تربیت اور ہرطرح کی لاجسٹک سپورٹ کی ہے۔ اس کے بعد بھی قانون کے حرکت میں نہ آنے کے لیے کیا مجبوری ہے؟ انسان اس بات کے جواز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ستم بالاے ستم یہ ہے کہ اس کے بعد بھی ایف آئی اے اسلام آباد اخباروں میں اشتہار دینے کی مضحکہ خیز حرکتیںکر رہی ہے اور مشہور زمانہ آئی ایس آئی کی چلت پھرت بھی کہیں نظر نہیں آرہی۔ ہماری قیادتیں جس تضاد کا شکار ہیں، وہ کم سے کم الفاظ میں قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک بار نہیں متعدد بار کہا کہ ’’الطاف حسین غدار ہے‘‘۔ لیکن پھر اسی الطاف حسین کو مکمل تحفظ دیا۔ ان کی پارٹی’متحدہ‘ کو شریکِ اقتدار کیا، اربوں روپے سے نوازا، اس کی ہر غیرقانونی حرکت کو تحفظ دیا۔ ’بھارت یاترا‘ کی سرپرستی کی۔ ’را‘ سے تعلقات سے چشم پوشی فرمائی۔ ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی ائرپورٹ، شاہراہِ فیصل اور شہر کے مختلف حصوں میں جو خون کی ہولی ’متحدہ‘ نے کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے قافلے کو روکنے کے لیے کھیلی، اسے کون بھول سکتا ہے؟ لیکن اسی رات پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے اسلام آباد میں صدر جنرل پرویزمشرف نے ’متحدہ‘ کے اس خونیں کھیل کو ، فضا میں مُکّے لہراتے ہوئے اپنی قوت کا مظہر قرار دیا تھا۔ اس سب کے باوجود الطاف حسین صاحب قانون کی گرفت سے بالا ہیں اور جنرل پرویز مشرف بھی۔ آزاد مقتدر قوتیں نہ لندن سے کسی کو قانون کے کٹہرے میں لاسکی ہیں اور نہ پاکستان میں واپس آنے والے فوجی آمر کو قانون اور عدالت کی بالادستی کی خاطر ملک میں رہنے کو یقینی بناسکی ہیں۔اس کے برعکس منظر یہ ہے کہ کچھ ’پرندے‘ اب اُڑ اُڑ کر واپس پاکستان میں آرہے ہیں، جو دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر اپنا دامن بچانے کا ڈراما رچا تے دکھائی دے رہے ہیں اور بے وقت کی راگنی صدارتی نظام میں ملک کی فلاح کی باتیں کر رہے ہیں___ یاللعجب!

’متحدہ‘ کی قیادت، خصوصیت سے الطاف حسین صاحب، کا جرم صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے بھارت کی عظمت کے گیت گائے ہیں، اس کے مفادات کی تائید کی ہے، اس کی خفیہ ایجنسیوں سے رقم لی ہے، اسلحہ حاصل کیا ہے، پاکستانی نوجوانوں کو بھارتی کیمپوں سے تربیت دلاکر پاکستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان میں سے ہرجرم بے حد سنگین ہے، جو    آہنی گرفت، شفاف احتساب اور قرارواقعی سزا کا متقاضی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کا جرم یہ بھی ہے کہ انھوں نے پاکستان کے تصور اور بنیاد تک کی نفی کی ہے، اس کے قیام کو ایک ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا ہے، دوقومی نظریے کی موت کا اعلان کیا ہے، اور بھارت میں پناہ لینے تک کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔  ہم دل کڑا کرکے اور قوم کو موصوف کے اصل عزائم کے بارے میں متنبہ کرنے کے لیے بھارت کی سرزمین پر ان کی ہرزہ سرائیوں میں سے چند نمونے یہاں دینے کی جسارت کررہے ہیں:

ہندستان ٹائمز دہلی کی منعقدکردہ تقریب میں ۶نومبر ۲۰۰۴ء کو الطاف حسین نے کہا تھا:

 یہ حقیقت ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد بھارت میں feudal system [جاگیردارانہ نظام] کا خاتمہ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے آزادی کے بعد بھارت میں ایک دن کے لیے بھی مارشل لا نہیں لگا اور جمہوریت strengthen [مضبوط] ہونے لگی۔ اگر ترقی کی رفتار یہی رہی تو بھارت آیندہ ۱۵ یا ۲۰ برسوں میں دنیا کی مضبوط ترین economy [معیشت] والا ملک بن جائے گا۔ کسی بھی ملک کی growth [ترقی و نمو]اور دنیا کے دیگر چھوٹے بڑے ملکوں سے بہتر پارٹنرشپ کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی معیشت مثبت سمت میں سفر کررہی ہو۔ معزز خواتین و حضرات، میں اپنا ہر لفظ اور ہر جملہ انتہائی سوچ بچار اور کئی بار غور کرنے کے بعد آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

بھارت کی عظمت کے گیت گانے کے بعد پاکستان کی باری آئی تو مسٹر الطاف نے ارشاد فرمایا:

معزز خواتین و حضرات، آج پاکستان کے سیاسی scenario [منظرنامے]کی صورتِ حال بے حد depressing [مایوس کن]ہے کہ جب ملک کی لیڈرشپ کھلے عام یہ بات مانتی ہے کہ اگر فوج نے ملکی معاملات نہ چلائے تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ میرے نزدیک یہ admission [اعتراف] نظریۂ پاکستان Idea of Pakistan یعنی sub-continent [برعظیم] کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک اور پچھلے ۵۰برسوں میں کمزور سے کمزور تر ہونے والی two nation theory (یعنی دو قومی نظریے ) کے لیے ایک serious blow [سخت صدمہ]ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو tribal [قبائلی] اور linguistic differences [لسانی اختلافات] کی بناپر قتل کر رہے ہیں اور sectarianism [فرقہ وارانہ منافرت]میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس situation [صورتِ حال]سے سارا فائدہ mosque and madarasas [مسجد اور مدرسے] کو اپنے گھنائونے مقصد کے لیے استعمال کرنے والے اُٹھا رہے ہیں۔ شاید پاکستان بننے کے ساتھ ہی نظریۂ پاکستان دم توڑ گیا تھا جب sub-continent [برعظیم] کے مسلمانوں کی majority [اکثریت] نے تقسیم کے نتیجے میں بھارت میں رہنا ہی پسند کیا اور یہ سچائی ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی شکل میں پھراُبھر کر سامنے آئی۔

بھارتی اخبارات میں اس موقعے پر الطاف حسین صاحب کو ’مستقبل کے قائداعظم‘ کے  طور پر پیش کیا گیا۔ بلاک سائوتھ (جہاں بھارتی وزیراعظم کا دفتر واقع ہے) کے ذرائع کے مطابق ہندستان ٹائمز نے پروگرام سے پہلے ۴نومبر کو الطاف حسین صاحب کی ملاقات سیکورٹی ایڈوائزر  جے این ڈکشٹ(J.N. Dixit) سے ہوئی۔ واشنگٹن سے جاری ہونے والے ساؤتھ ایشیا ٹربیون کے مطابق بھارتی حکومت، الطاف حسین سے کشمیر کے مسئلے میں معاونت لے رہی ہے:

سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ حکومت ِ ہند اس [الطاف] کی مدد چاہتی ہے، تاکہ کچھ اُمور میں وہ جنرل مشرف کو بھارتی شرائط کے مطابق مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دے۔

اپنے ہندستان ٹائمز والے خطاب میں الطاف حسین صاحب نے کشمیر کی موجودہ سرحد کو تقسیم کشمیر کی بنیاد، مزاحمتی تحریک کو ایک ناکام اور نامراد تحریک اور استصواب راے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مُردہ اور بے اثر بھی قرار دے ڈالا تھا، اور کہا تھا [موصوف کی یہ تقریر روزنامہ  نواے وقت میں بھی ۴جنوری ۲۰۱۱ء کو ’نمستے ست سری اکال‘ کے زیرعنوان شائع ہوچکی ہے]:

کیا لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد قرار دے کر یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ یا کوئی دوسرا حل جو اَب تک زیربحث نہ آسکا ہو؟ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بھی ذکر آتا ہے۔ میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا ان قراردادوں کو نافذ کیا جاسکا؟ اور اگر یہ قراردادیں نافذالعمل ہوسکتی تھیں، تو ماضی میں ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟ میری نظر میں معاہدئہ تاشقند، شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور اب تک useless [بے فائدہ] رہے ہیں۔ مصلحت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے settlement [تصفیے]کے لیے کسی نئی اور disputed opinion [متنازع راے] کے بجاے جو حل پہلے سے بحث میں آچکے ہیں، اُنھی کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ میری راے یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی مؤثر اور alternate opinion [متبادل راے]سامنے نہ آجائے،    اس وقت تک پچھلی تین دہائیوں سے موجودہ ground reality [زمینی حقائق]یعنی   لائن آف کنٹرول کو بنیاد بناکر مذاکرات کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور اس میں بُرائی ہی کیا ہے۔

اس موقعے پر جنرل پرویز مشرف کو استصواب راے (referendum) کو مسئلۂ کشمیر کے ایک حل کے طور پر رد کرنے کے جرأت مندانہ موقف پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں نے بھی ہمیشہ اس option [اختیار]کو ناقابلِ عمل ہی قرار دیا ہے۔ گذشتہ ۵۷برسوں میں پاکستانی رہنمائوں نے ایک صوبے کو دیگر صوبوں پر سبقت دینے کے لیے کشمیر کا نام استعمال کرتے ہوئے نہ صرف عوام کو گمراہ کیا، بلکہ قوم کو جہالت، بھوک، غربت اور طبی سہولتوں سے محروم رکھ کر عوام کی نظروں میں ناکام بھی ہوئے۔

بھارتی اخبارات نے الطاف حسین کی اس بھارت یاترا کا بیان اور پیغام بہت ہی مختصر الفاظ میں یوں رقم کیا :

برعظیم میں اپنے پہلے دورے اور اپنی تقریر کے دوران [الطاف حسین نے]خام [Raw] جذبات سے یہ چیز ظاہر کی ہے کہ اپنے گھر واپسی کے وقت ایک فرد کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اور لیڈر الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کہا:

برعظیم کی تقسیم عظیم ترین غلطی تھی۔ یہ زمین کی تقسیم نہیں تھی، یہ خون کی تقسیم تھی۔ آپ کے وزیرخارجہ کا نام دلچسپ ہے۔ ان کا نام ’نٹور‘ میرے نزدیک Not War کے ہم معنی ہے۔

الطاف حسین کی خواہش ہے کہ:

بھارت اس ہر [پاکستانی] مہاجر کے لیے اپنے دروازے کھول دے، جو مسلمان پاکستان چلا گیا تھا۔ میں یہاں کے سیاست دانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کو معاف کردیں، جو بھارت چھوڑ کر [پاکستان] چلے گئے تھے۔(Pakistani Biggest Blunder،الطاف حسین، ۶نومبر ۲۰۰۴ئ)

الطاف حسین کی اس تقریر پر پاکستانی ہائی کمیشن میں پاکستانیوں کا کیا ردعمل تھا اور اس کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے احکام کیا تھے، اس کے لیے دی نیوز میں ۵؍اگست ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی چشم کشا رپورٹ سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی نئی دہلی کے تاج ہوٹل میں متنازع تقریر کے بعد، اُس وقت دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو زور دے کر کہا گیا کہ وہ ایم کیو ایم کے لیڈر [الطاف حسین] کو عشائیے پر مدعو کریں، اگرچہ اُس وقت پاکستانی سفارت خانہ نئی دہلی کے افسران اور اہل کار اس تقریر سے سخت دل برداشتہ اور دُکھی تھے۔ تب پاکستانی ہائی کمشنر عزیز احمد خاں کو اسلام آباد سے شدید دبائو کے ساتھ مجبور کیا گیا کہ الطاف حسین کو عشایئے میں مدعو کیا جائے۔ جس کا محرک یہ تھا کہ الطاف حسین، جنرل مشرف حکومت کا حلیف ہے۔ بہرحال، سفیرپاکستان نے مجبوراً اس (الطاف حسین) کو ایک ’نجی عشایئے‘ کی دعوت دی، جس نے برملا کہا تھا کہ: ’’تقسیم ہند، تاریخ کی عظیم ترین غلطی ہے۔ یہ زمین کی نہیں، خون کی تقسیم ہے‘‘۔ بجاے اس کے کہ مشرف حکومت اس یاوہ گوئی پر کوئی اقدام کرتی، دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کو الطاف حسین کی سرشاری میں شریک ہونے پر مجبور کیا گیا۔ سابق اعلیٰ سول افسر اور اُس وقت دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن سے وابستہ رائے ریاض حسین سے جب رابطہ کیا گیا، تو انھوں نے بتایا کہ: ’’میں الطاف حسین کی تقریر کا چشم دید گواہ ہوں، جو تقریر نومبر ۲۰۰۴ء کو تاج ہوٹل، نئی دہلی میں ہوئی تھی، میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ میری زندگی کا بدترین دن تھا، جب میں نے دشمن کی سرزمین پر الطاف حسین کی وہ تقریر سنی‘‘۔ انھوں نے یاد دلایا کہ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ: ’’جب میں نئی دہلی ائرپورٹ پر اُترا تو اپنے دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، اُوپر دیکھا، نیچے دیکھا اور گھر کی طرح محسوس کیا‘‘۔ رائے ریاض حسین نے کہا کہ:’’ پھر الطاف حسین نے تقسیم ہند کو تاریخ کی ہمالہ جیسی بڑی غلطی قرار دیا‘‘۔

چند غیر سنجیدہ جملوں کے بعد [الطاف حسین] اُردو میں یہ بتاتے ہوئے چلّائے کہ: ’’ہمیں پاکستان میں مہاجر ہونے کی بنا پر موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے اور بدسلوکی سے پیش آیا جاتا ہے۔ اب، جب کہ مہاجر ہونے کی بنا پر ہم سے بدسلوکی کی جاتی ہے، ہم آپ (بھارت) سے پناہ چاہیں گے‘‘۔ ریاض حسین نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پھر ایم کیو ایم کے چیف نے سامعین سے براہِ راست سوال کرتے ہوئے پوچھا:’’دلی والو بولو! ہمیں پناہ دو گے؟‘‘ مگر اس سوال پر ہال میں مکمل خاموشی چھائی رہی، جہاں معروف دانش ور، سفارت کار اور سینیرصحافی موجود تھے۔ رائے ریاض حسین نے بتایا کہ: الطاف حسین نے سامعین کے سامنے اس سوال کو تین مرتبہ دُہرایا۔ جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا: ’’غالباً میں نے ایک مشکل سوال پوچھ لیا ہے‘‘۔

سابق پریس منسٹر پاکستانی ہائی کمیشن، نئی دہلی نے اس موقعے پر کہا کہ: ’’پاکستانی سفارت کار اس قطعیت پر گُنگ اور سراسیمہ ہوکر رہ گئے۔ بطورِ پریس منسٹر یہ رپورٹ حکومت کو میرے ذریعے ارسال کی گئی تھی اورپاکستانی پریس کو جاری کی گئی تھی، اور جو یہاں چھپی بھی تھی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ: ہم اس پر بُری طرح پریشان تھے اور یہ بات ہمارے لیے قطعی حیران کن تھی۔ سفیر پاکستان نے مجبوراً ایم کیو ایم کے وفد کو اسی ہوٹل میں عشایئے میں مدعو کیا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ ہائی کمشنر عزیز احمد خاں نے ہمیں وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا: ’’یار! اُوپر سے حکم ہے‘‘۔ رائے ریاض نے کہا:’’جنرل پرویز مشرف پریشان تھے کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے ایم کیو ایم کے وفد کی میزبانی کیوں نہیں کی؟‘‘ ریاض حسین نے یہ بھی بتایا کہ: ’’نئی دہلی میں الطاف کی آمد کے موقعے پر، ائرپورٹ سے ہوٹل تک سڑک الطاف حسین کی تصاویر اور خیرمقدمی بینروں سے سجی ہوئی تھی جو کہ  ایک خلافِ معمول عمل تھا‘‘۔

کیا بلی اب بھی تھیلے سے باہر نہیں آئی؟ ’متحدہ‘ کے کچھ ترجمان اب بھی وہی گھسی پٹی بات دُہراتے ہیں کہ: ’’الطاف بھائی کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے‘‘۔ خواہ ۴۰سالہ تاریخ کا   ایک ایک صفحہ پکار رہا ہو ،کہ بھارت کو ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قیامِ پاکستان کی شکل میں نظریاتی اور سیاسی میدان میں جو تاریخی شکست ہوئی تھی، وہ اس کا بدلہ چکانے میں آج بھی سرگرم ہے۔ البتہ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ اس کے کچھ دست و بازو وہ لوگ بھی بن رہے ہیں، جنھیں پاکستان کا اصل خالق ہونے کا دعویٰ ہے اور جو اس دعوے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک امتیازی حیثیت کے طالب ہیں۔

’متحدہ‘ کے ہاتھ کہاں کہاں تک رنگے ہوئے ہیں اور کس کس کا خون اس کے اور اس کی قیادت کے ہاتھوں پر ہے؟ نیز ان ہاتھوں کو مضبوط کرنے میں اپنوں اور پرایوں، سیاسی قوتوں    اور فوجی قیادتوں اور پاکستانی دوستوں اور پاکستان کے دشمنوں میں سے کس کس کا کتنا حصہ ہے؟ جب تک یہ ایک معما رہے گا، حالات کی اصلاح مشکل ہے۔ جرم کے تعین کے بعد مجرموں کا   تعین اور ان کو قرارواقعی سزا ہی وہ راستہ ہے، جس سے افراد اور قوم کو انصاف مل سکتا ہے اور آیندہ کے لیے ان جرائم کے مقابلے کے لیے آہنی دیواریں کھڑی کی جاسکتی ہیں۔

اس پس منظر میں عام معافی کی بات بھی بڑی معنی خیز ہے۔ یہ وہی عناصر ہیں جو ایک طرف اچھے اور بُرے دہشت گردوں میں کوئی تمیز کرنے کے روادار نہیں، اور مکمل بربادی (elimination) سے کم بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ جب بھی امریکا کہتا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں اور امریکی اور افغان قیادت سے ہم زبان ہوکر نوازشریف صاحب اور سرتاج عزیز صاحب تک کہتے ہیں: طالبان سے بیک وقت لڑائی اور مذاکرات ممکن نہیں، تو یہ سیخ پا ہوتے ہیں اور ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کی تفریق کو تباہی کا راستہ قرار دیتے ہیں، لیکن بلوچستان کے دہشت گردوں اور ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کا ذکر آتے ہی ان کا رویہ بالکل بدل جاتا ہے اور جنرل ایمنسٹی یا ’عام معافی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔

مطلوبہ حکمت عملی

ہماری نگاہ میں عدل و انصاف اور حقیقت پسندی دونوں کا ایک ہی تقاضا ہے اور وہ یہ ہے:

                                ۱-دہشت گردی اور سیاست میں قوت کے استعمال کی ہرشکل کو غلط تسلیم کیا جائے اور یہ راستہ ہر ایک کے لیے بند ہو۔

                                ۲- ریاست کو قوت کے جائز استعمال کا حق ہے، لیکن اس کے لیے بھی دستور اور قانون کی پابندی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا لازم ہے۔

                                ۳- جو اپنی غلطی اور گناہ کا صدقِ دل سے اعتراف کرے اور مستقل طور پر اور عملی سطح پر قوت کے استعمال کے راستے کو ترک کرے، معروف جمہوری طریقے سے قانون کے دائرے میں سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرے، اسے سینے سے لگایا جائے اور کھلے دل سے موقع دیا جائے،  مگر آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔ دوست اور دشمن، مخلص اور مکار، توبہ کرکے پلٹنے والے اور لباس بدل کر دھوکا دینے والوں میں تمیز کی جائے۔ ناانصافی کسی کے ساتھ نہ ہو اور غلطی کا دیانت سے اعتراف کرکے راہِ راست پر آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تاہم ، ان چور دروازوں کو بندکیا جائے کہ جن سے داخل ہوکر شاطر ایک نیا کھیل کھیل سکتے ہیں۔ اسی لیے احتساب، نگرانی، جرم کی سزا اور مظلوموں کی اعانت کا یہ کام پوری حکمت اور فراست کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔ یہ کام بالکل ایک نئی حکمت عملی کا متقاضی ہے، جو ہمہ جہت ہو اور اس کے مختلف پہلوئوں میں توازن کے قیام ہی پر اس کی کامیابی کا انحصار ہے۔

                                ۴- مطلوبہ حکمت عملی کے ایک اہم حصے میں ان اسباب کا تعین ہونا چاہیے، جن کی وجہ سے حالات بگڑے اور پھر اس بگاڑ نے جن تحریکات کو جنم دیا ان کے مثبت اور منفی پہلو کیا رہے، تاکہ  اس تجزیے کی روشنی میں آیندہ کے لیے ایسے حالات سے بچا جاسکے۔ خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب ہی وہ راستہ ہے، جس سے ماضی کی غلطیوں کے اثرات سے اور ان غلطیوں کے دوبارہ ارتکاب سے بچا جاسکتا ہے۔ ہم یہ دعوت جہاں ’متحدہ‘ کی قیادت اور کارکنوں کو دے رہے ہیں، وہیں ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اپنے انداز میں حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر اصلاح کی راہوں کو استوار کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی ذمہ داری دوسروں سے بھی کچھ سوا ہے۔ حکومت کے اداروں کے لیے بھی اس نوعیت کا جائزہ ازبس ضروری ہے۔

                                ۵- سیاست میں تشدد اور گولی کے استعمال ، شہر میں امن و امان کی بربادی، قانون کی بالادستی کے خاتمے، شہر کے دوسرے بنیادی مسائل سے پہلوتہی، عوام کی حقیقی مشکلات، اداروں کے غیرمؤثر ہوجانے یا مخصوص مفادات کے آلہ کار بن جانے کے باعث جو بحرانی کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس پر بھی فوری اور بھرپور توجہ دی جائے۔ نیز صوبے اور لوکل گورنمنٹ میں اختیارات کی منصفانہ تقسیم کے مسئلے کو بھی بروقت حل کیا جائے۔

                                ۶- ہم یہ بات بھی بہت صاف لفظوں میں اور اپنی پوری قوت اظہار کے ساتھ کہنا چاہتا ہیں کہ حالات کو بگاڑنے، بگاڑ کے بڑھ جانے کے بعد اس کا مقابلہ کرنے کے بجاے اس سے سمجھوتا کرنے اور ’مشترک مفادات‘ کے حصول کے چکّر میں بگاڑ کی قوتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے باب میں جو رویہ مختلف حکومتوں، ریاستی اداروں، حتیٰ کہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار حساس ترین اداروں کے ذمہ داران نے اختیار کیا ہے، وہ بہت پریشان کن اور عبرت کا نمونہ ہے۔ گذشتہ ۴۰برسوں کے سیاسی حالات اور سیاسی قوتوں اور گروہوں کو بنانے، بگاڑنے، لڑانے اور محدود مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جو کوششیں ہوئیں، وہ ہولناک داستان پیش کرتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ان سب معاملات کا دیانت اور حکمت کے ساتھ، مگر بڑے کھرے اور شفاف انداز میں جائزہ لیا جائے۔ قومی سلامتی پر جو وار ہوتے رہے ہیں، اگر ذمہ دار ادارے اور افراد ان سے واقف نہیں تھے تو ان کی غفلت مجرمانہ اور ان کی صلاحیت کار ناقابلِ اعتبار ہے۔ اور اگر واقفیت کے باوجود وہ محض مصلحت، چھوٹے اور پست مقاصد، ذاتی، گروہی، طبقاتی، جماعتی یا دوسرے مفادات کی وجہ سے ان سے اغماض برت رہے تھے، تو وہ بہت بڑے قومی جرم کا ارتکاب کر رہے تھے۔ جس کی ان سے پوری پوری جواب دہی کی روایت اب قائم ہونی چاہیے، اور اگر وہ ان میں کسی بھی درجے میں شریک تھے اور ان کی سزا جرم کے دوسرے مرتکبین سے مختلف نہیں ہونی چاہیے۔    جس شیطانی چکّر (vicious circle) میں قوم اور ملک گرفتارہے، اسے اب ٹوٹنا چاہیے۔ جس گرداب میں ملک جکڑا ہوا ہے اس شیطانی جال کو توڑے بغیر اس سے نکلنا محال ہے۔ بات سخت ہے مگر اب اس کے کہنے اور اس پر عمل کی راہیں استوار کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں۔

                                ۷-  احتساب، گرفت، سزا اور اصلاحِ کار کے لیے ان سخت اقدامات کے ساتھ ایک ’نرم پالیسی‘ بھی اس مجموعی حل کا حصہ ہونی چاہیے۔

جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ محض غلطی کا اعتراف ماضی کے جرائم سے دامن پاک کرانے اور ان کے بارے میں جواب دہی سے معاف کردینے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اگر ’سچائی اور معذرت‘ کا راستہ بھی اختیار کیا جائے تو اس میں صرف انھی غلطیوں سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے جن کا تعلق پالیسی کے اُمور سے ہو۔ لیکن جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے، جن میں قتل، لُوٹ مار، ناجائز دولت کا حصول شامل ہیں، ان کے بارے میں جواب دہی اور حق کو حق دار تک پہنچانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

اس سلسلے میں احتساب ، اصلاح، سزا اور عفو و درگزر ہر ایک کا کردار رہے گا، اور یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کے سنہری اصول عدل و احسان کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ حق دار کو حق ملنا چاہیے، لیکن خیرکثیر کی خاطر نرمی کا راستہ بھی باہم رضامندی سے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ خوش دلی کے ساتھ رعایت، کسی جبر کے بغیر معافی اور رخصت، اور دلوں کو موہ لینے کے لیے حق سے بھی زیادہ نرمی اور انعام وہ راستہ ہے ،جس سے تشدد اور ظلم کی سیاست کا خاتمہ، معاشرے سے ناانصافی کا استیصال، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح، ناجائز دولت کی واپسی اور پوری شفافیت کے ساتھ قانون اور اخلاق کی حدود میں نئی سیاسی زندگی کے فروغ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اسی لیے قرآن نے یہ رہنمائی دی ہے کہ بُرائی کو بُرائی سے نہیں بلکہ بھلائی، نیکی، خیر اور   حُسن سلوک سے دُور کرو، تاکہ دنیا کا نقشہ بدلے اور خیرغالب ہو، لیکن یہ کام آسان نہیں اور اس کے لیے بڑے مضبوط عزم، قربانی اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بڑے واضح الفاظ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس اُمت کے لیے تعلیم کیا ہے:

اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(حم السجدہ ۴۱:۳۴-۳۶)

پاکستان کے حالات جس رُخ پر جارہے ہیں، ان سے شب و روز تشویش اور اضطراب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ مجھے اللہ پر مکمل بھروسا اور یقین صادق ہے کہ پاکستان اور اُمتِ مسلمہ اس تاریک رات سے جلد نکلیں گے۔ قرآن اور اُممِ سابقہ کی تاریخ اور خود     اپنے زمانے کے نشیب و فراز پر جتنا غور کرتا ہوں، اُمید کی شمع اتنی ہی روشن نظر آتی ہے۔ لیکن قرآن و سنت اور تاریخ کے اوراق ہمیں یہ تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں کہ یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے اور یہاں نتائج کا انحصار مشیت ِالٰہی کے فریم ورک میں کوشش اور تدبیر پر ہے۔

گذشتہ دو تین مہینے ایسے گزرے ہیں کہ ہر روز ایک نیا مسئلہ اُبھرکر سامنے آیا ہے اور اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے کے لیے دل بے چین ہوا ہے، مگر پھر صحت کی خرابی مانع ہوئی اور سینہ خواہشات کا مدفن بن کر رہ گیا۔ اس مہینے کئی ایشوز دل و دماغ پر چھائے رہے۔ ’متحدہ‘ اور اس سے متعلقہ اُمور پر شذرہ پیش نظر تھا، جو ’اشارات‘  بن گئے۔ پنجاب میں خواتین پر تشدد سے متعلق قانون کی نوعیت اور اس پر بحث میں بہت سی اہم باتیں اظہار کے لیے پریشان کرتی ہیں۔    تحفظ ناموسِ رسالتؐ کا قانون اور اس پر عمل داری کا مسئلہ بھی ذہن پر چھایا رہا۔ ملک کی نظریاتی اساس، قراردادِ مقاصد اور قراردادِ لاہور کے بارے میں جو لایعنی بحثیں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ہورہی ہیں، جس طرح ہرمتفق علیہ چیز کو ایک طبقہ متنازع اور مشتبہ بنانے کی کوشش کررہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نوجوان نسل کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کی     ایک خطرناک فصل اُگائی جارہی ہے۔ حقائق کو بے دردی بلکہ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے مسخ  کیا جارہا ہے ۔ یہ گندا کھیل، جھوٹے پروپیگنڈے کے گرو گوبلز کی حکمت عملی کے مطابق بڑے پیمانے پر کھیلا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلائو کہ آخرکار وہی جھوٹ، سچ بن جائے۔ افسوس کہ ایک مخصوص طبقہ یہ کھیل بڑے تسلسل سے کھیل رہا ہے۔

سیاسی قیادت کا رنگ ڈھنگ بھی عجیب ہے۔ نوازشریف صاحب جن کا گھرانا دینی پہچان رکھتا تھا۔ راقم کو اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے زمانے میں محترم قاضی حسین احمد مرحوم اور پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم کے ہمراہ ایک رات اُن کے گھر پر قیام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ تہجد کے وقت ان کے والدصاحب کس طرح مصروفِ عبادت ہوئے۔ نمازِ فجر کے لیے پورے گھر کے افراد کو بنفسِ نفیس بیدارکیا اور میاں نواز شریف کے ساتھ ماڈل ٹائون کی کوٹھی کے باہر لان میںادا کی۔ان نوازشریف صاحب کی زبان سے معلوم نہیں کس کے رقم کردہ، لبرلزم کے الفاظ سن کر دُکھ اور تعجب دونوں کا شکار ہوجاتا ہوں۔

ہندستان اور پاکستان کے کلچر کی ہم آہنگی کی بات ان کی زبان سے سن کر یقین نہیں آتا کہ وہ کون سے کلچر کی بات کر رہے ہیں؟ آج پاکستان کی نئی نسل کو ان حالات کا تجربہ نہیں جو قیامِ پاکستان پر منتج ہوئے۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے، جس نے دہلی کی گلیوں میں زندگی گزاری ہے اور عام پبلک اسکولوں میں تعلیم پائی ہے، جہاں مسلمان، ہندو، عیسائی اور سکھ طلبہ اور اساتذہ شانہ بشانہ زندگی گزارتے تھے۔ ہمیں خوب تجربہ ہے کہ کہاں پر کتنا اشتراک تھا اور کہاں کتنا شدید اختلاف۔ کتابیں ہم ساتھ پڑھتے تھے اور کھیل بھی ساتھ کھیلتے تھے مگر کھانا، پینا، لباس، رہن سہن، زبان اور محاورہ، جائز اور ناجائز کی حدود اور مظاہر کا فرق زندگی کی حقیقت تھا۔ آج کے پاکستان میں پیدا ہونے والے اور پڑھنے والے اس ماحول سے واقف ہی نہیں کہ جس میں ’مسلم پانی‘ اور ’ہندو پانی‘ ہر اسکول اور ریلوے اسٹیشن پر ایک منہ بولتی حقیقت تھے۔

سیاسی دنیا کے نومولود بلاول زرداری صاحب نے ایک نئی بحث شروع کر دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر بھارت میں مسلمان صدر ہوسکتا ہے تو پاکستان میں ہندو کیوں صدر نہیں ہوسکتا؟ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ نے وہ دستور پڑھا ہے، جسے آپ کے نانا جان نے اتفاق راے سے منظور کرایا تھا اور جس پر آپ کی والدہ صاحبہ اور والد صاحب نے حلف لیا تھا۔ اس دستور میں لکھا ہوا ہے کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ پاکستان ایک سیکولر نیشن اسٹیٹ نہیں، بلکہ ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے اپنے اصول اور حدود ہیں، اور جس نے بھی ان سے ٹکر لینے کی کوشش کی ہے، منہ کی کھائی ہے۔

جنرل ایوب خاں نے ۱۹۶۲ء کے دستور میں پاکستان کے نام کے ساتھ لگا’اسلامی‘ کا لفظ نکالا اور قراردادِ مقاصد میں بھی ترمیم کرڈالی تھی، لیکن انھی کے نظام کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی نے ایوب صاحب اور ان کے وزیرقانون ریٹائرڈ جسٹس محمد منیر کی ساری تگ و دو کے باوجود، اسلام کو بحیثیت ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کتابِ قانون پر رقم کیا۔ اس کے  حق میں خود ذوالفقار علی بھٹو نے زوردار تقریر کی۔ اس بحث کے دوران میں سب سے بُرا حال جسٹس منیر کا تھا، جنھوں نے پہلے مخالفت کی اور پھر کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، اسمبلی یہ اضافہ کرلے۔مگر ان کی بددیانتی کا حال یہ رہا کہ خود یہ سب بھگتنے کے باوجود اس واقعے کے ایک سال بعد اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں وہی رٹ لگائی کہ ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کی اصطلاح جنرل ضیاء الحق کی اختراع تھی۔ علمی بددیانتی اور حقائق کو مسخ کرنا اس طبقے کا شیوہ ہے۔

یہی معاملہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے وقت ہوا۔ پیپلزپارٹی کے مجوزہ مسودۂ دستور کی دفعہ اے-۳ یہ تھی کہ ’’پاکستان کا نظام سوشلسٹ معیشت پر مبنی ہوگا‘‘، لیکن پھر اسے واپس لیا گیا۔ ملک کا متفقہ دستوربنا، جس میں اسلام کی ضروری دفعات موجود ہیں۔ ۱۸ویں ترمیم کے موقعے پر سیکولرلابی کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود یہ اصول طے ہوا کہ جن چیزوں پر قوم کا اتفاق ہوچکا ہے انھیں دوبارہ نہیں کھولا جائے گا، بلکہ ان کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ ناموسِ رسالتؐ کا قانون اسلامی شریعت کا ایک محکم حصہ ہے اور مغرب کے واویلا سے متاثر ہوکر اس میں کوئی ترمیم اُمت مسلمہ کے لیے کبھی بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔

محمد نوازشریف صاحب اور شہباز شریف صاحب کو اگر کچھ غلط فہمی یا خوش فہمی لاحق ہوگئی ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ قوم اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود قانون میں کوئی ایسی تبدیلی گوارا نہیں کرے گی، جو شریعت سے متصادم ہو، خواہ اس کا تعلق ناموسِ رسالتؐ سے ہو یا مسلمانوں کے خاندانی نظام اور اس کی بنیادی اقدار سے۔ جو چیز خاندانی نظام کی بنیادوں کو کمزور کرے اور اسے درہم برہم کرنے والی ہو تو اسے کسی قیمت پر اور کسی بھی شکل میں گوارا نہیں کیا جاسکتا۔  صحیح راستہ یہ ہے کہ قانون سازی باہم مشاورت، دلیل سے بحث و گفتگو اور افہام و تفہیم کے ذریعے کی جائے، جو دستور کا بھی تقاضا ہے اور عقلِ عام کا مطالبہ بھی، اور یہ قانون سازی پاکستانی معاشرے کے اسلامی شریعت کے احکام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی اقدار اور روایات سے ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ قانون سازی کے اس عمل میں علما ، وکلا اور سماجی کارکنوں کے ساتھ خود مسلمان خواتین کے مشورے کو بھی شریک  کیا جائے، اور صرف ملک کی ایک فی صد سے کم خواتین کی ابلاغی یلغار کے مقابلے میں، ان ۹۹فی صد سے زیادہ مسلمان خواتین کے احساسات، جذبات اور ترجیحات کا احترام کیا جائے، جو ترقی، تحفظ اور انصاف چاہتی ہیں، مگر اسلام کے نظام کے دائرے کے اندر۔

ایک اور ہنگامہ ہولی پر قومی چھٹی اور ہولی کے تہوار میں مسلمانوں کی شرکت کے عنوان سے شروع کیا گیا ہے۔ ہولی ہی نہیں، اقلیتوں کو ان کے ہر معروف تہوار کے موقعے پر چھٹی ہماری تاریخ کا حصہ ہے، لیکن ایک فی صدی کے تہوار کو قومی چھٹی بنانا عقل اور قومی مفاد کسی کا بھی تقاضا نہیں اور پھر دوسروں کے تہواروں میں شرکت اور دھوم دھڑکا کرکے بلاول زرداری صاحب کس روایت کو قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کے نانا، والدہ صاحبہ، والد صاحب سب ہی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں بڑا متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیں۔جو بلاول کو سوجھی ہے وہ کسی کو   اس سے پہلے نہیں سوجھی تھی۔ یہ بڑی سطحی حرکتیں ہیں جن سے سنجیدہ قیادت کو احتراز کرنا چاہیے۔ اس قسم کی شعبدے بازی سے پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا وقار واپس نہیں لاسکتی۔ اس کے لیے اچھی حکمرانی، وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے والی پالیسیاں، دانش مندانہ حکمت عملی اور ٹھوس پروگرام، کرپشن سے پاک اور مفادات کی سیاست کی جگہ اصولی اور ملکی مفاد کی سیاست کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ کی قیادت ہو یا پیپلزپارٹی کی، ہماری نصیحت بھی ہے اور انتباہ بھی کہ ملک، اس کے دستور اور مسلم معاشرے کی روایات اور اقدار کے احترام اور ملک و ملّت کے اعلیٰ مفادات کے لیے بے لاگ اور اَن تھک محنت ہی سے ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ اختیار کیا جائے گا و ہ ناکام ہوگا اور ایسے تجربات کرنے والوں کو ان شاء اللہ منہ کی کھانا پڑے گی۔

انسانی تاریخ سے مثالیں دینے کے بعد سورۂ ذاریات کے آخر میں آخرت کے حق میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۴۷) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

عربی زبان میں ید کے معنی صرف ہاتھ کے نہیں ہوتے بلکہ یہ لفظ طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں معاملہ فلاں شخص کے ہاتھ میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی مٹھی میں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اختیار اور طاقت میں ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍکا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے پیدا کیا ہے۔ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ’’اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ موسِعون کے کئی معنی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ یہ کام کرسکیں۔ دوسرے معنی موسِع کے وسیع کرنے اور پھیلانے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کا یہ مطلب ہوسکتا تھا کہ ہم وسیع ذرائع رکھنے والے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کا ایک اور تصور بھی پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات صرف یہی نہیں کہ ایک حالت پر جم کر رہ گئی ہے بلکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ پہلے نظریے کے مطابق اس کے اندر وسعت کا مفہوم تھا۔ اگر قدیم زمانے کا نظریہ اپنی جگہ صحیح ہو تو بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اس آسمان کو بنایا ہے، اس کو تخلیق کیا ہے، اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔

یہاں اس کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد دوبارہ اس کو نہیں بنا سکے گا ، اور انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ ان کو پیدا نہیں کرسکے گا، انسانی جسم جب زمین میں بوسیدہ ہوکر ،اس کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا تو اس کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر نہیں ہے، جو شخص یہ خیال رکھتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ کائنات کا نظام کس طرح بنا ہے؟ کس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسے بناسکے؟ اور جس نے اسے بنایا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ انسان کو پیدا کرسکے۔ اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ اس نظام کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے ایک دوسرا نظام بنادے۔

بَنَیْنٰھَاسے مراد صرف ایک عالم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پورا عالمِ بالا ہے جو ہماری زمین کے اُوپر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے مراد پوری کائنات ہے۔ چنانچہ جس کائنات کو ہم نے بنایا ہے ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔ ہم یہ طاقت رکھتے تھے کہ اس کو بنایا اور ہم یہ طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔

وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ o(۵۱ :۴۸) زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔

یعنی زمین کو بچھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ زمین جس طرح سے بنائی گئی ہے، جس طرح سے اس کے اُوپر ایسے مادوں کی سطح جمائی گئی ہے جس کی بدولت اس میں نباتات پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح اس زمین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس پر انسان اور حیوانات وجود میں آسکیں۔ پھر یہاں ہوا کا انتظام کیا گیا ہے، درجۂ حرارت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا ہے، جس طرح نظامِ شمسی میں، اسے سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، جس طرح اس زمین پر جگہ جگہ پہاڑ   پیدا کیے گئے ہیں، جگہ جگہ میدان بنائے گئے ہیں اور دریا جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سارا نظام اگر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے اسے بنایا گیا ہے اور اس کرئہ خاکی کو کس طرح اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کے اُوپر زندگی وجود میں آسکے تو اسے اندازہ ہوگا کہ کتنے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جو موجودات ہیں، اس نے ان کو پیدا کیا اور انھیں باقی رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ جتنی مخلوقات زمین میں آتی جاتی ہیں ان کے رزق کا سامان زمین سے نکلتا چلا آتا ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی ہے اس کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ اور جسم میں رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرکے وہ سروسامان پیدا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمدن اور تہذیب کو ترقی دے سکے۔

آدمی میں خدا نے اگر یہ صلاحیت پیدا کی تھی کہ وہ کسی وقت جاکر موٹر بنا دے تو اس نے زمین کے اندر پٹرول بھی مہیا کر رکھا تھا۔ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنایا ہے اگر آدمی اس کو دیکھے تو اسے واقعی معلوم ہوگا کہ بڑا ہی عظیم الشان حکیم تھا اور بڑی ہی زبردست قدرت رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا تھا جس نے اس زمین کو بچھایا اور اس قابل بنایا کہ اس میں مختلف مخلوقات پیدا ہوسکیں۔

اس کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان زمین بنائی ہے اور عالم بالا میں اتنی عظیم الشان کائنات بنائی ہے وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا،  اس سے زیادہ تنگ دماغ کا آدمی اور کون ہوسکتا ہے، الا یہ کہ وہ ضد میں مبتلا ہو یا یہ کہ اس کی عقل اتنی تنگ ہو کہ وہ یہ تصور نہ کرسکے کہ جس خدا نے اتنا کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرسکتا ہے۔

وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo(۵۱ :۴۹) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کی پوری کائنات میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ ہر طرف آدمی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں زوجیت کا قانون عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کے مقابلے میں ایک دوسری چیز ایسی رکھی جائے کہ ان کا جوڑ بنے اور ان کے ملنے سے نتائج پیدا ہوں۔

انسانوں میں عورت اور مرد کا جوڑا بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت نسلِ انسانی چل رہی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا گیا ہے جس سے ان کی نسلیں چل رہی ہیں اور ہرنوع کو باقی رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نباتات میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے بنائے ہیں، جن کے ملنے سے ان کی پیداوار ہوتی ہے۔ مختلف عناصر میں ایک دوسرے کا جوڑ ہے اور ان کے ملنے سے ہنگامۂ وجود نظر آرہا ہے۔ یہ سب مختلف عناصر کے ملنے سے ہے۔ بعض عناصر (elements) کے ملنے سے اور جوڑ لگنے سے ہی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض عناصر آپس میں نہیں ملتے تو نئی چیزیں نہیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نیگٹیو اور پازیٹو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اس پوری کائنات کو اگرآدمی دیکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ اس قادرِ مطلق اور حکیم نے اس کائنات میں نئی نئی چیزوں کے بننے میں اور بے شمار اشیا کے وجود میں آنے کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ قانون زوجیت ہے۔ مختلف چیزوں کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے جن کے ملنے سے نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے انتظام پیدا ہوتے ہیں۔

لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر غور کرو تو تمھیں خود معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ موجودہ زندگی کا بھی کوئی جوڑ ہونا چاہیے۔ دنیا کی یہ موجودہ زندگی ایک جنس ہے۔ اگر اس کا دوسرا جنس آخرت نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہوکر رہ جائے۔ تمھیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ قانونِ زوجیت خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ایک آخرت ہو، ورنہ خود یہ دنیا بے نتیجہ رہ جائے گی۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo(۵۱ :۵۰) پس دوڑو  اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔

یہ تمام دلائل بیان کرنے کے بعد اب فرمایا ہے کہ پس اللہ کی طرف آئو۔ مطلب یہ ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوتا ہے تو اللہ سے بے نیاز اور اللہ کا باغی بنتا ہے۔ آدمی آخرت کا انکار بھی اس بنا پر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا اور جب آخرت کا انکار کرتاہے تو پھر اللہ کا مطیع نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔

انسان کو جو چیز آخرت کا انکار کرنے پر آمادہ کرنے والی ہے، وہ کیا ہے؟

اگر ایک انسان محض عقل کا بندہ ہو اور اس کے ساتھ خواہش لگی ہوئی نہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تووہ عقل کی بنا پر نہیں کہتا۔ دنیا کا کوئی فلسفہ اسے یہ نہیں بتاتا۔ کوئی سائنس اسے یہ نہیں بتاتی کہ آخرت نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہوگی تو وہ اس کی کوئی عقلی یا سائنسی دلیل نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آدمی یہاں تک جاسکتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی۔

اب جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تو دراصل اس کا جی نہیں چاہتا کہ آخرت کے ہونے سے اس پر جو اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کو وہ قبول کرے۔ پھر اخلاقی پابندیوں کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو مانے جو اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس قانون کو ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو مانے۔ اس وجہ سے انسان خدا کی بندگی نہیں کرنا چاہتا اور اس کا مطیع بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور جب وہ آخرت کا انکار کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک حالت پر نہیں ٹھیرتا۔ پھر وہ مسلسل گرتا ہے اور جتنا بھی گرتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo، پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ ’’دوڑواللہ کی طرف‘‘ تو یہ بات خود اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آخرت کو ماننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے آپ آجاتی ہے، اور آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ ہی انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کیا جا رہا ہے۔ رسولؐ اللہ فرما رہے ہیں کہ:دوڑو اللہ کی طرف۔ میں تو اللہ کی طرف سے تمھارے لیے صاف صاف متنبہ کرنے والا ہوں، یعنی ڈرو اس وقت سے جب وہ آئے۔ قبل اس کے کہ وہ آخرت برپا ہوجائے اور مرنے کے بعد تم جاکر دیکھو کہ جن چیزوں کا تم انکار کرتے تھے وہ یہاں سامنے موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرلو۔

وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo (۵۱:۵۱) اور نہ بنائو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمھارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

دنیا میں انسان کی طرف سے اللہ کے ساتھ جو بڑی گمراہی رہی ہے، وہ شرک ہے، دہریت نہیں۔ دنیا میں دہریے پہلے بھی براے نام رہے ہیں، آج بھی براے نام ہیں۔ دنیا میں موجودہ زمانے میں دہریوں کی جو بڑی سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس وقت بھی دہریے ایک فی ہزار بھی ہوں گے۔ اصل بُرائی جس میں انسان مبتلا رہا ہے        وہ دوسرے الٰہ ہیں۔ کہیں دوسرے انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں زندہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں مُردہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں تاروں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں دریائوں کو الٰہ بنایا گیا ہے،  غرض یہ کہ انسان نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنائے۔ یہی اصل گمراہی ہے۔

اس چیز کا تعلق بھی آخرت کے انکار سے بڑا گہراہے۔ آخرت کا منکر کوئی ایسا سہارا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی دوسری ہستیاں ہوں، تاکہ اگر آخرت ہو جیساکہ انبیاے کرام ؑ اس بات سے برابر مطلع کرتے رہے ہیں، تو وہ اس سے بچ سکے۔ جب سے انسان دنیا میں پایا جاتا ہے، انبیا ؑ بھی آتے رہے ہیں اور انبیا ؑ خبردار کرتے رہے ہیں کہ تمھیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی دوسری زندگی ہوئی اور وہاں جواب دہی کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟ یہ چیز اس بات کا جواز بنتی رہی کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی بنائے جائیں جو انسان کا سہارا بنیں۔ ان کی بندگی کی جائے اور وہ انھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں۔ گویا آخرت کا انکار اس چیز کا ایک بہت بڑا سبب رہا ہے، واحد سبب نہیں ہے، دوسر ے اسباب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ مت بنائو، میں اللہ کی طرف سے تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔

 کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ  اَوْ مَجْنُوْنٌ o(۵۱ :۵۲)  یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔

اسی طرح (یونہی) کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں کوئی چیز ہے۔ یعنی پس منظر میں لوگ رسولؐ اللہ کو کبھی ساحر یا جادوگر کہتے تھے اور کبھی مجنون۔کبھی یہ کہتے تھے کہ ان کے اُوپر  کسی جِنّ کا سایہ ہے، یہ دیوانے ہوگئے ہیں (معاذاللہ)اور اس وجہ سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی پختہ دماغ شخصیت ہو اور وہ یہ کہے کہ تمھیں مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بعید از عقل آدمی ہی کھڑے ہوکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ فلاں آستانہ جہاں سے ہماری آج تک مرادیں بَر آتی ہیں وہاں کچھ نہیں ہے، اور سارے کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس چیز کا نتیجہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، یا اگر یہ بات نہیں ہے کہ تم جان بوجھ کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہو تو  تم دیوانے ہو۔

کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح سے باتیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہر زمانے میں اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ جو نبی بھی آیا اور اس نے لوگوں کو آکر اس بات سے متنبہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں۔ کوئی ہستی تمھاری قسمت بنانے اور بگاڑنے والی نہیں ہے۔ کوئی دوسری ہستی تمھاری دُعائیں سننے والی اور ان کو قبول کرنے والی نہیں ہے۔ اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، یا یہ دیوانہ ہے۔

اسی طرح جب اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آکر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ’’تمھیں مرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے جانا ہے اور جواب دہی کرنی ہے‘‘ تو جس طرح آج یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ رہے ہیں اسی طرح سے پچھلے انبیا ؑ کو بھی کہتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔

اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o(۵۱ :۵۳) کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتا کرلیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔

اس ایک فقرے میں ایک پوری کی پوری داستان بیان کردی گئی ہے۔ ایک طویل استدلال ہے جو ایک ذرا سے فقرے میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں کچھ طے کیا ہے کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیں گے؟

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں جن انسانوں نے خدا کے رسولوں کے مقابلے میں گمراہی اختیار کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے، وہ ہر زمانے میں ایک ہی طرح سے دلائل کیوں دیتے رہے؟ ہر زمانے میں لوگ ایک ہی طرح سے بات کیوں کرتے رہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اگلوں اور پچھلوں کی کوئی کانفرنس ہوئی ہو اور جس میں یہ طے ہوا ہو کہ جو نبی ؑ بھی آئے گا تو ہم یہ جواب دیں گے۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔

ظاہر بات ہے کہ فرعون کی قوم اور قریش نے ایک وقت میں جمع ہوکر یہ طے نہیں کیا تھا کہ فرعون کی قوم بھی کہے کہ موسٰی ؑ ساحر ہیں اور قریش کے لوگ بھی کہیں کہ محمدؐ ساحر ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔آپس میں مل کر یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ مشابہت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہ صدیاں گزرتی جاتی ہیں، ہزاروں برس گزرتے جاتے ہیں، قوم پر قوم ایسی آتی ہے کہ جس کے سامنے نبی آکر وہی ایک بات کہتا ہے اور وہ اس کے سامنے جواب میں وہی ایک رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍo وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(۵۱ : ۵۳-۵۵) نہیں،بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبیؐ، ان سے رُخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

ابتدا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سردارِ قریش اور ایک ایک گروہ کے پاس جاتے تھے اور جاکر ان کو نصیحت کرتے تھے۔ خاص طور پر آپؐ کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو سمجھاکر درست کیا جائے تاکہ پوری قوم درست ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے منہ پھیرلو تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمھارے اُوپر اب یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کہ یہ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ تم نے ان کو نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی کی۔ نہیں، تم نے حق بات پہنچانے میں اور اپنی بات سمجھانے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ ہمیں تمھاری طرف سے کوئی ملامت نہیں ہے۔انھوں نے سرکشی کا جو فیصلہ کیا ہے، تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں ہے۔

وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ،البتہ نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کلمۂ نصیحت سنانا چھوڑ دو، البتہ خاص طور پر اِن لوگوں کو نصیحت کرنے کی اب حاجت نہیں ہے۔ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ ایک ایک آدمی تک جاکر اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اب تمھارے اُوپر کوئی ملامت نہیں۔ اب عام نصیحت اور عام دعوت تم پھیلاتے چلے جائو۔ جو ایمان لانے والا ہے، اس کے لیے یہ نافع ہوگی۔ یعنی خاص طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا، ایسی حالت میں، جب کہ دعوتِ عام پہنچ چکی ہو، قطعاً غیرضروری ہے۔ دعوت کے آغاز میں خاص خاص لوگوں کو مخاطب کر کے کہ چونکہ وہ قوم کے سردار ہیں، قوم کے بڑے ہیں، ان کے پاس طاقت اور اقتدار ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہیں، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا درست ہے۔ کیوںکہ اگر وہ سمجھ جائیں تو پوری قوم سدھر جائے گی۔ لیکن  اگر دعوت عام پھیل چکی ہو، عام طور پر معلوم ہوچکا ہو کہ نبیؐ کیا چاہتے ہیں، خدا کے رسولؐ کاہے کے لیے آئے ہیں، خدا کی کتاب کیا تعلیم دیتی ہے اور یہ ساری باتیں پھیل چکی ہوں اور لوگوں کو معلوم ہوچکا ہو، تو اس کے بعد خاص خاص لوگوں کو مخاطب کرنے کی اب حاجت نہیں رہتی۔

اب دعوتِ عام آدمی پھیلاتا چلا جائے۔ اب تم دعوتِ عام پھیلائو کیوں کہ یہ تذکیر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ دعوتِ عام میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون آدمی ایمان لانے والا ہے اور کون ایمان نہیں لانے والا۔ ان میں جو آدمی ایمان لانے والا ہوگا اس کے لیے یہ تذکیر نافع ہوگی، اور جو آدمی ان میں ایمان لانے والا نہیں ہوگا وہ اپنی گمراہی میں پڑا رہے گا۔ دعوتِ عام پھیلانے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اگر وہ گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اس وجہ سے کہ  اس نے دعوت پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے اور ادا کرتا چلا جا رہا ہے۔

بندگی کی دعوت

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (۵۱ :۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔

یہاں خاص طور پر جنوں اور انسانوں کا ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کے اصل معنی تو ہیں بندگی اور اطاعت کے، اور یہ عبادت پوری کائنات کر رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ سورج، چاند، زمین، آسمان، پتھر اور درخت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی بندگی نہ کر رہی ہو۔ اللہ کی بندگی سے باہر جانے والی کوئی چیز اس کائنات میں پائی ہی نہیں جاتی۔ اب خاص طور پر یہ فرمایا گیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد سفلی اور پیدایشی عبادت نہیں ہے، بلکہ اختیاری عبادت ہے۔

جِنّ اور انسان دو مخلوقات ایسی ہیں، کم از کم اس زمین کی حد تک پوری کائنات کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں، جنھیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ تمھیں اس کی آزادی ہے کہ اللہ کی بندگی کرنا چاہو تو کرو اور اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو کرو۔ باقی کسی اور مخلوق کو یہ آزادی اور اختیار حاصل ہی نہیں ہے۔ کوئی دریا، پہاڑ اور درخت کافر نہیں ہوسکتا۔ کافر یا انسان ہوسکتا ہے یا جِنّ۔ اس لیے کہ انھیں یہ آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کے اپنے دائرۂ اختیار کا تعلق ہے وہ اللہ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں اور نافرمانی کرنا چاہیں تو نافرمانی کریں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ پیدا تو ہم کریں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی۔ ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اُن کو رزق دیں اور یہ شکر بجا لائیں دوسروں کا۔ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان کے سارے وجود کی پرورش تو ہم کر رہے ہیں، ان کو وجود میں بھی ہم لائیں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی اور جاکر ماتھا رگڑیں دوسروں کے سامنے، اور اطاعت کریں دوسروں کی اور قانون مانیں دوسروں کا۔ ہم نے انھیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ ہمارے بندے ہیں اور ہماری ہی بندگی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انھیں اختیار دیا ہے اور یہ اختیار ان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ ان کے امتحان کے لیے ہے کہ جہاں ہم ان کو اختیارات دیتے ہیں وہاں یہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں یا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اختیار تو انھیں آزمایش کے لیے دیا گیا ہے۔لیکن اس اختیار کا یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ہماری بندگی چھوڑ کر دوسروں کی بندگی اختیار کرلیں۔ ان کو اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے دوسروں کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔

مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ o اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo(۵۱ :۵۷-۵۸) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

یہ بندگی اور اطاعت کا مطالبہ اس لیے نہیں ہے کہ اگر یہ عبادت نہیں کریں گے تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بھوکا مرجائے گا، یا اللہ تعالیٰ کی خدائی نہیں چل سکے گی۔ اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کسی رزق یا کسی سہارے کی حاجت ہے۔ رزق دینے والے تو ہم ہیں۔

اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo، اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، وہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے، کسی کا محتاج نہیں۔

یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے، انھیں اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ یعنی ان کا خدا کی مخلوق ہونا خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس خدا کی عبادت کریں جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں ہماری عبادت کرنی چاہیے ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی عبادت کرنے کے ہم محتاج ہیں، ہماری خدائی ان کے عبادت کرنے پر موقوف ہے، یا یہ کہ یہ ہمیں رزق عطا کریں گے تو ہم جئیں گے۔

اس میں ایک لطیف تعریض (چوٹ) مشرکین کے معبودوں پر بھی ہے۔ مشرکین کے جتنے معبود ہیں ان کی خدائی ان کے بندوں کی عبادت کی بدولت چلتی ہے۔ جن انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے، ان کی بندگی کیسے چل رہی ہے؟ ایک فوج ظفر موج ان کی اطاعت کر رہی ہے۔  پولیس ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کی بدولت ان کی خدائی چل رہی ہے۔ عام لوگ انھیں ٹیکس دے رہے ہیں جن کی بدولت ان کو روپیہ ملتا ہے۔ اگر یہ سب لوگ ان کی اطاعت نہ کریں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کسی آمر کی آمریت نہیں چل سکتی، کسی بادشاہ کی بادشاہی نہیں چل سکتی۔ کسی ایسے طاقت ور شخص کے بارے میں جس کے متعلق آدمی سوچتا ہے کہ یہ بڑا زورآور ہے، اگر وہ قوتیں جن کے بل بوتے پر وہ اپنی خدائی چلا رہا ہے وہی قوتیں  اس کے خلاف ہوجائیں تو وہی صاحب خاک اور خون میں لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح سے مُردہ معبود ہیں۔ ان کے مجاورین اور معتقدین دنیا میں چل پھر کر اور دنیا میں دوڑدھوپ کرکے لوگوں کو یہ یقین نہ دلاتے پھریں کہ یہاں سے مرادیں بَر آتی ہیں، یہاں سے بیٹا ملتا ہے، روزگار ملتا ہے، تو کوئی ان کی بندگی کرنے والا نہ ہو۔ اگر لوگ وہاں منّتیں اور نذرانے نہ چڑھانے جائیں تو کوئی ان کا مقبرہ تعمیر کرنے والا نہ ملے۔ جن کے پیچھے دوڑنے والا کوئی نہیں ہے، وہ بھی زمین میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خدائی اُن کی بدولت چل رہی ہے جو ان کے بندے بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں چل رہی۔ اگر اس طرح خدائی چلنے والی ہوتی تو ہرمرنے والا اپنی خدائی چلا رہا ہوتا۔

ایسے ہی دوسرے معبود ہیں جو انسان نے بنا رکھے ہیں۔ کوئی معبود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان نے بنا رکھا ہو اور اس کی خداوندی اپنے عبادت گزاروں کے بغیر نہ چل رہی ہو۔ یہاں بہت سے مندر ہیں جو ہندوئوں کے چھوڑ جانے سے ویران پڑے ہیں۔ اب وہاں کون سی کرامت ہے اور کون ہے جو وہاں گھنٹیاں بجاتا ہے۔ جب تک وہاں گھنٹیاں بجانے والے تھے اس وقت تک ان کی خداوندی چل رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میری خداوندی تمھارے چلانے سے نہیں چلتی۔ دوسروں کی خداوندی تمھارے چڑھاوے چڑھانے، نذرانے دینے اور ان کی بندگی کرنے سے چلتی ہے۔ لیکن مَیں وہ خدا ہوں جو رزق دینے والا ہے۔ میں خود اپنی طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہوں۔ میری خدائی تمھارے رزق دینے سے نہیں چل رہی۔ یہ تمھارے نذرانے چڑھانے کی محتاج نہیں ہے۔

یہ سب کچھ فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا جا رہا ہے:

فَاِِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِo (۵۱ :۵۹) پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔

یہاں ظلم سے مراد دوسرے انسانوں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھا دیا جائے پھر نہ سمجھیں تو اس کے معنی ہیں کہ وہ حقیقت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی آدمی متنبہ کرنے والا اور حقیقت بتانے والا ہو، اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ تو ساحر اور مجنون ہے، تو یہ ظلم ہے۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں  وہ اپنے خدا کے حق میں دوسروں کی خدائی مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کرکے فاسق بن رہے ہیں۔ یہ سمجھانے والے کی بات نہیں مانتے، اُلٹا اسے ملامت کرتے ہیں، اس کے اُوپر الزامات رکھتے ہیں، تہمتیں دھرتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس طرح کا ظلم کرنے والوں کے نصیب میں عذاب کا حصہ ہے جس طرح کہ ان سے پہلے ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔ یہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں یہ اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی خدائی کو مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کر کے فاسق بن رہے ہیں۔

ذنوب کا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں بڑے ڈول کے لیے ذنوب بولا جاتا ہے۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ یہ اس طرح پیدا ہوا کہ جب کوئی قافلہ کسی مقام پر جاکر اُترتا ہے جہاں پانی یا کوئی کنواں ہو تو اس جگہ قافلے کے پانی دینے والے سقّے ہوتے تھے جو ڈول لے کر ہر ایک کے حصے کا پانی نکالتے جاتے تھے کہ یہ ڈول فلاں کے حصے کا ہے اور یہ ڈول فلاں کے حصے کا۔ اس طرح سے ڈول نکالتے جاتے تھے اور لوگوں کو دیتے جاتے تھے۔

یہاں ذنوبکا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوا ہے کہ ان کے حصے کا بھی ڈول ہے جیساکہ ان سے پہلے والوں کے حصے کا ڈول تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں کو عذاب مل چکا، اِن کے عذاب کا حصہ بھی محفوظ ہے جو انھیں ملنے والا ہے۔ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنَ، ’’یہ جلدی نہ کریں‘‘ یعنی قریش کے لوگ نبی کریم ؐ کو باربار کہتے تھے کہ تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ تو فرمایا گیا کہ جلدی نہ کرو، تمھارا حصہ بھی تیار ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o(۵۱ :۶۰) آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جارہا ہے۔

یعنی اگر اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے، اس دنیا میں پکڑ نہ بھی ہو، تب بھی وہ دن تو آنا ہے جس میں یقینا ہر ایک کی پکڑ ہوگی۔ یہاں سے بچ بھی نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کامیاب ہوگیاکہ سب مزے بھی کیے، ظلم و ستم بھی کیا اور یہاں سے اطمینان سے بخیریت بھی گزر گیا۔ نہیں، ایک دن ضرور ایسا آنا ہے جب اس کے معاوضے میں ہر اس شخص کو جس نے کفر کا رویہ اختیار کیا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا اِکرام کرتا ہے۔(مسند احمد)

اہلِ ایمان اپنے مسلمان بھائیوں سے ان کے ساتھ ایمانی رشتے کے سبب محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت اللہ کی خاطر ہے اور اسی طرح اہلِ ایمان کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنا، ان کے نقصان اور تکلیف کو       اپنا نقصان اور اپنی تکلیف سمجھنا بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔ پھر وہ اہلِ ایمان جو علمِ دین اور تقویٰ اور پرہیزگاری میں دوسروں سے آگے ہوں اور قیادت اور رہنمائی کے مقام پر فائز ہوں، مسلمانوں کو تعلیم دے رہے ہوں، ان کی تربیت کر رہے ہوں، ان کی فلاح و بہبود میں مصروف ہوں، اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں، مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت میں مصروف ہوں۔ جو حکمرانوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کو کرپشن اور سرکاری خزانوں کو لوٹنے سے روک رہے ہوں، ملکی معیشت کو سودی نظام، جوئے، رشوت کی لعنت سے پاک کرنے میں لگے ہوں، اور ان سب کاموں سے بڑھ کر ملک کے اسلامی آئین، اس کی اسلامی دفعات اور قانونِ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے تحریک برپا کریں اور اس کے لیے اُمت کو متحد کرکے پُرامن راے عامہ کے ذریعے ان نیک مقاصد کو حاصل کریں، وہ دوسروں سے بڑھ کر محبت کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے کاموں اور کارناموں کے سبب زیادہ محبت کرنا چاہیے۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اُمت کے کسی آدمی کی کوئی حاجت پوری کرکے اسے خوش کرنا چاہا تو اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا تو اس نے اللہ کو خوش کیا۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کردے گا۔(بیہقی، شعب الایمان)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی خوشی کے کام صرف نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مسلمان بھائیوں کی حاجات اور ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی حاجت لادینی نظام اور لادین اور کرپٹ مافیا کے اقتدارسے نجات ہے۔ لادینی نظام اور لادین حکمرانوں اور کرپٹ مافیا کے سبب لوگ طرح طرح کی تکالیف سے دوچار ہیں۔ ان پر طرح طرح کے مظالم ہورہے ہیں اور ان سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اور عدالتیں ظلم سے بچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن حکومت اور اس کے ادارے تو خود ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں قوم کی ایک بڑی خدمت ظلم کے خاتمے کی جدوجہد ہے۔ اسلامی انقلاب برپا ہوگا تو پھر حکومت اور  اس کے تمام ادارے خلقِ خدا کی خدمت کریں گے۔ عہدے اور مناصب پر فائز ہونے والے، عہدوں اور مناصب سے ناجائز فائدے نہیں اُٹھائیں گے، کرپشن نہیں کریں گے، حق داروں تک ان کا حق ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے۔ عزت والوں کی عزت ہوگی، مظلوموں کی دادرسی ہوگی اور مجرموں کو ان کے جرم کی سزا ملے گی۔ تب چور، لٹیرے، ڈاکو، بدکار اور لوگوں کی عزت لوٹنے والے کرسیِ اقتدار پر نہیں بلکہ جیلوں میں ہوں گے۔ اس طرح معاشرہ بُرائیوں اور مظالم سے پاک اور نیکیوں اور عدل و انصاف سے منور ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے اس کے نتائج اس فضیلت کی حقانیت کی دلیل ہیں۔

o

حضرت خولہ انصاریہؓ کے مطابق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں ان کے لیے آگ ہے۔(بخاری)

جو آدمی آخرت پر عقیدہ رکھتا ہو، جنت اور دوزخ کا قائل ہو وہ جنت کے شوق اور دوزخ کے خوف سے نیک کام کرے گا اور بُرائی سے بچے گا۔ کبھی بھی حرام خوری نہیں کرے گا۔ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر اللہ کے مال میں ناجائز تصرف ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے لوگ جنت اور دوزخ پر عقیدہ نہیں رکھتے۔ زبان سے اگرچہ انکار نہیں کرتے لیکن یہ عقیدہ ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ بے خوف ہیں۔ ملک ان کے ہاتھوں دیوالیہ ہوگیا ہے۔ غریب آدمی د و وقت کی روٹی کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے میں ملک کو کرپٹ لوگوں سے آزاد کرانا ہوگا اور جن لوگوں کا دامن صاف ہے، ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کرنا ہوگی۔ ایسا نہ کیا گیا تو ملک کی سلامتی اور آزادی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

o

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن النواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کذاب کے قاصد بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو انھوں نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: میں ایمان لایا اللہ اور اس کے رسول پر اور فرمایا: اگر میں نے کسی قاصد کو قتل کرنا ہوتا تو تمھیں ضرور قتل کردیتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ سنت اور اسلام کا ضابطہ یہی ہے کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔(مسند احمد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بردباری اور عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ہیں بلکہ آپؐ کی ساری مبارک زندگی اس کی دلیل ہے۔ آپؐ  کی یہی شان اُمت کو وراثت میں ملی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور مجاہدین اسلام نے ہر دور میں اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ آج بھی جب کہ اُمت مسلمہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہو رہا ہے، دو عشروں سے دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی خوں ریزی ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں ظلم سے احتراز کر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض ناسمجھ افراد مظالم سے تنگ آکر ظالموں کی گولیوں کا جواب گولیوں سے دے رہے ہیں لیکن اُمت مسلمہ کی دینی قیادت نے اس ردعمل کی طرف داری نہیں کی۔ دنیا میں عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں اور انھی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوسکتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے راستے پر گام زن ہوں۔ ان کے ہاتھ سے کسی پر ظلم نہ ہو اور ہر کوئی ان کے بارے میں یہی تصور رکھے کہ ان سے ہمیں خیر ہی مل سکتی ہے، شر نہیں۔ پُرامن جدوجہد کے ذریعے بُرائی کو مٹانا اور ظلم سے نجات حاصل کرنا وہ نصب العین ہے جسے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات نے اپنا طریق کار بنایا ہوا ہے۔ یہی طریق کار پُرامن انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اس طریق کار کو اپنا کر ہم ہر بُرائی کا قلع قمع کرسکتے ہیں اور اسی طریق کار کے ذریعے عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرسکیں گے۔ جن لوگوں کے ذریعے کوئی بھی بے گناہ مارا جائے گا مسلمان انھیں اپنی نمایندگی کبھی نہیں دیں گے۔ جو لوگ اسلام دشمنوں اور ظالموں کے آلۂ کار بن کر اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں وہ بہت جلد عوام کی تائید سے محروم ہوجائیں گے۔ آیندہ کے لیے عوام کبھی بھی ان کو اپنے سروں پر مسلط نہیں کریں گے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے  وہ لے آئے۔ لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہوجاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) الگ کرتے، پھر باقی مال کو  تمام مجاہدین میں تقسیم فرما دیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہوجانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا، سنا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کر آئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کر آنا، میں اب تم سے قبول نہیں کرسکتا ۔(ابوداؤد)

اس حدیث پر غور کیجیے، اجتماعی مال کو بروقت پیش کرنا کتنا ضروری ہے۔ وقت پر اگر بالوں کی ایک رسّی بھی کسی کے پاس تھی اور اس نے پیش نہ کی ہو تو اس پر کتنی بڑی مصیبت آجاتی ہے۔ قیامت کے روز کسی چیز کو پیش کرنا اتنی بڑی مصیبت ہے کہ اس سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہے۔ ایک شخص مجاہد ہے، جہاد میں شرکت کرتا ہے، اپنی جان کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس جذبے کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ اس نے میدانِ جنگ میں بھرپور حصہ لیا ہے، مالِ غنیمت بھی جمع کیا ہے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن بالوں کی ایک رسّی رہ گئی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی لحاظ نہیں فرمایا۔ وہ رسّی پیش کر رہا ہے لیکن آپؐ اسے قبول کرنے سے انکار فرما دیتے ہیں۔ تب آج کے دور میں سرکاری خزانے میں سے اربوں، کھربوں لوٹ کر بیرونِ ملک مختلف ممالک کے بنکوں میں اپنے نام یا اپنے بیٹے، بیوی یا بھائی کے نام سے جمع کردینا کتنا بڑا جرم ہے اور پھر اس کی آخرت میں کتنی بڑی سزا ہوگی۔ اور وہاں کون طاقت رکھے گا کہ وہ اربوں کھربوں پیش کرسکے۔ جب ایک مخلص مسلمان اور مجاہد ایک رسّی پیش کرنے سے عاجز ہے تو ان کرپٹ حکمرانوں اورافسروں کا کیا حال ہوگا۔ انھیں آج اس کی فکر کرنا چاہیے اور چند روزہ دنیا کی خاطر اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو برباد نہ کریں۔ اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن نہ بنائیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔

اللہ جل شانہ کی ہستی جس قدر عظیم اور لا محدود ہے، اسی قدر اس کے حقوق بھی ہیں۔تاہم، قرآن مجید میں کسی ایک مقام پر ان کا مفصل اور جامع تذکرہ نہیں ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں اپنی عظمت و جلال کا بار بار ذکر کر کے اپنے بندوںسے یہ تقاضا ضرور کیا ہے کہ وہ یہ غورکریں کہ اب انھیں کس کس کے ساتھ کیا رویہ روا رکھناہے۔ اس کے بندوں کو اپنی عقل و فکر اور شعور و آگہی سے فائدہ اٹھا کر حق دار کو اس کا حق دینا ہے،اور اس غلطی سے بچنا ہے جس کا ارتکاب بہت سی قوموں نے کیا اور قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئیں۔صدقِ دل اور طلب ہدایت کے جذبے سے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے والوں کو اللہ کے بے شمار حقوق دکھائی دیں گے۔ ذیل میں اللہ کے حقوق کا اختصار سے تذکرہ پیش ہے:

  •  حقیقی ایمان: اللہ کے حقوق میں سے پہلا حق اللہ پر حقیقی ایمان ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا  (النساء ۴:۱۳۶)’’اے اہل ایمان، ایمان لائو‘‘۔ گویا اہل ایمان کانسل در نسل مسلمان ہونا کافی ہے، نہ وجہِ عزت و افتخار، نہ اس کا محض دعویٰ باعثِ نجات ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کے ماننے والے پورے فکر و شعور اور آگہی کے ساتھ اس کی ذات و صفات اور تمام تر قوت و اختیار پر یقین کے ساتھ اسے مانیں۔ اقرار با للسان کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی مطلوب ہے، جوانسان کے اعمال و کردار کی سمتوں کا تعین کرتی ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں    ؎

خرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلٰہ‘ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

  •  اِقرارِ توحید: اللہ کا دوسرا حق، اس کی ’توحید‘ کا اقرار اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط (الحج۲۲:۳۴) ’’پس تمھارا اللہ ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان ہو‘‘۔اس کی وحدت و یکتائی ،اس کی ذات و صفات، احوال و افعال ہر حوالے سے اسی کی برتری ہے۔ نہ اسے ہی گوارا ہے، اور نہ عقل و فطرت ہی اس کے مؤید کہ نظام ہستی میں اس کا کوئی شریک ہو اور اس کی بالادستی کو کوئی چیلنج کرے۔ نام تو اُس کا لیا جائے اور آئینِ حیات کسی اور کے حکموں کو مانا جائے۔ یہ اللہ کو کسی طور پسند نہیں۔ اللہ اپنے بندے کا ہر گناہ بخش سکتا ہے۔ اپنے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی سے صرفِ نظر کر سکتا ہے مگر شرک تو ’ظلم عظیم‘ ہے اسے وہ ہر گز معاف نہیں کرے گا۔ شرک خواہ خفی ہو یا جلی، معمولی ہو یا بڑا، عمل ہو یا وسوسہ، اللہ کو اپنی یہ حق تلفی ہرگز گوارا نہیں۔ اس کا واضح اعلان ہے کہ لَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ  ،یعنی اس کے ہم سر و برابر ہونے کا تصور بھی محال ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا (البقرہ۲:۲۲) ، یعنی دوسروں کو اللہ کا مدِّمقابل نہ ٹھیرائو۔
  •  حمد وثنا اور تعریف و توصیف:اللہ کا تیسرا حق، الحمدللہ___ صرف تعریف ہی نہیں، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ وہی خوبی اور کمال کا مرکز، محسنِ کائنات ہے۔ کائنات کا حُسن و جمال اُسی کی ذات کا عکس ہے۔ آسمان و زمین میں حمد و تعریف اُسی کی ہے،  وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (الروم ۳۰:۱۸)۔ ملک بھی اُسی کا ، اختیار بھی اُسی کا، او ر تعریف بھی اُسی کی۔ اُس کی بھرپور، مکمل، مسلسل اور ہر نوع کی حمد و ثنا اس کے بندوں کی جانب سے اس کی قدرشناسی کا مظہرہے ۔
  •  صراطِ مستقیم کی پیروی: اللہ کا چوتھا حق، اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص (البقرہ ۲:۲۰۸)ہے، یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے تاقیامت اسلام کو اپنی نعمت قرار دیا اور فرمایا وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ۵:۳)،یعنی تمھارے لیے دین اسلام کو میںنے پسند کر لیا۔ اس کے علاوہ اور کوئی نظام حیات نہ صرف اسے ناپسند بلکہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔ فرمایا: ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا (الانعام۶:۱۵۳) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ یہی درست نظامِ حیات ہے۔ اسی کی پیروی کرو، کسی اور راستے پر نہ چلنا، ورنہ تم اپنی منزل سے بھٹک جائو گے۔ یہ اللہ کی حق تلفی ہے کہ اس کے دین کا کچھ حصہ تو قبول کر لیا جائے اور کچھ کو شیطان کی مرضی یا خواہشاتِ نفس ،مفادات اور وقتی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔
  •  حکم و حکمرانی:اللہ کا پانچواں حق،  اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط(الانعام۶:۵۷) ہے، یعنی ملک بھی اسی کا اور حکم بھی اسی کا۔ جب وہی ہر چیز کا خالق و مالک اور مختارِ کل ہے،      لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) اسی کی مخلوق اور اسی کا حکم ہے۔ وہی اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ (ھود۱۱:۴۵)، اور وہی مٰلِکَ الْمُلْکِ  (اٰل عمرٰن۳:۲۶) ہے۔ جسے چاہے اختیار دے اورجس سے چاہے چھین لے۔ عزت اور ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے،  وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُط (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ خیر کے سارے سر چشمے اور منابع اسی کے زیر تصرف ہیں، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ زمین و آسمان پر اس کی بادشاہی ہے، وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ج (البقرہ۲:۲۵۵) ، مشرق و مغرب اُسی کے زیر تسلط ، لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ  ط (البقرہ۲:۱۴۲)۔ عظمت و کبریائی بھی اُسی کے لیے ہے، تو اُس کا فطری حق ہے کہ اُس کی کائنات پر حکم بھی اُسی کا چلے۔ اُسی کا سکہ رائج ہو۔ اُسی کا قانون رُوبۂ عمل لایا جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کا اختیار بھی اُسی کو حاصل ہو، اُسی کا جھنڈا لہرائے، وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط (التوبۃ۹:۴۰)۔ یہی معراج ہے اُس کے اِس حق کی ادایگی کی۔
  •  حقیقی تقویٰ:  اللہ کا چھٹا حق، اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۲) ہے، یعنی اللہ سے ایسے ڈرا جائے جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔اللہ کا تقویٰ، چند رسمی مظاہر کا نام ہر گز نہیں۔ اس کا تعلق تو دل سے ہے۔ یہی اس کا مرکز اور منبع ہے۔ اگر دل صنم آشنا ہو، تو لاکھ سجدے اور ماتھے پر پڑی محراب، تقویٰ نہیں کہلا سکتے۔ تقویٰ تو زندگی کے ہر کام میں اللہ کا خوف دامن گیر ہونا، اس کی عظمت کا پاس و لحاظ ہونا اور اس کی توحید خالص پر کار بند ہونا اور گناہوں سے اس طرح بچنا کہ یہ احساس تازہ و بیدار رہے کہ میرا آقا و مولا مجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جہاں سے اس نے منع کیا ،یا اسے ناگوار ہے۔ تقویٰ خلاصۂ دین، بہترین زادِ راہ ہے۔ بہترین انجام بھی اہلِ تقویٰ کا ہی ہے۔ اللہ کا یہ حق ادا کرنے والے ہی اس کے محبوب و مقرب ہیں۔

اللہ کاایک حق یہ بھی ہے کہ خَافُونِ (اٰل عمرٰن۳:۱۷۵)،مجھ ہی سے ڈرو۔ جب کائنات میری اور قوت و اختیار کا مالک مَیں، ہر نفع و نقصان پر میری قدرت، تو پھر کسی اور سے کیسا ڈر اور کیسا خوف۔ اُس نے تنبیہہ کی، اگر میرے علاوہ کسی اور سے خوف کھایا تو یاد رکھو وہ نہ تمھارا خوف دُور کر سکتے ہیں ،نہ مدد پر قادر ہیں، مگرتم میری پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ اور قوموں کی عبرت ناک داستانیں گواہ ہیںکہ میری پکڑ شدید ترہے،اِِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌo (البروج۸۵:۱۲) ’’درحقیقت تمھارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔

  •  ایفاے عھد: اللہ کا ساتواں حق  وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ط (الانعام۶:۱۵۲)، اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کا ایفا ہے۔ وہ وعدہ جو انسان کی روح نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط (اعراف ۷:۱۷۲) کے جواب میں کیا، جو اس کے شعور میں بسا ہوا ہے۔ انسان اللہ کی اس کائنات میں تخلیق و پرورش پانے اور بے شمار مفادات اٹھانے کے نتیجے میںاس عہد کی تکمیل کا پابند ہے۔ وہ وعدے بھی جو انسان نے اللہ کے بندوں کے ساتھ اللہ کو گواہ بنا کر کیے ، اور وہ وعدے بھی جو انسان کھلے چھپے اپنے رب سے کرتا ہے۔ دعائو ںمیں، نمازوں میں،تسبیحات اور مناجات میں ہاتھ اٹھا کر، لوگوں کو گواہ بنا کر، کلمہ پڑھ کر، اسلام قبول کر کے___ ان سب کا ایفا اللہ کا حق اور بندگیِ رب کا تقاضا ہے۔

 اللّٰہ کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف: اللہ کا آٹھواں حق ہے، وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ   رَبِّکَ فَحَدِّثْo (الضحٰی۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اللہ کی نعمتیں بے شمار ، اور ان کا احاطہ نا ممکن ہے، وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط(ابراھیم۱۴:۳۴)۔ ان کا تقاضا اور اللہ کا حق ہے کہ بندہ منعمِ حقیقی کی بے پایاں نعمتوں کا زبان سے اقرار اور عمل سے اعتراف کرے۔ ان نعمتوں میں اللہ کے بندوں کو شریک رکھے۔ ان کے حقوق بھی ادا کرے۔ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ’ ہدایت‘ ہے۔ کتابِ ہدایت قرآن ہے۔ لوگ باہم دشمن اور آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے اس قرآن کو اخوت و محبت کا وسیلہ اور حکمت و نصیحت کا صحیفہ بناکر انسانیت کو عطا کیا، اور انسانوں کو ایک جسدِواحد کا روپ دیا۔انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اپنے رب کی ہمہ جہت نعمتوں کو جھٹلائے۔ اس کی یہ نعمتیں رب کو ماننے والوں یااس کا کفر کرنے والوںسب ہی کے لیے بے حد و حساب ہیں۔ اس کا ارشاد ہے کہ میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراھیم۱۴:۷)، میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔ تمھاری شکر گزاری کا رویہ مجھے  راضی کرے گا۔ میں تمھیں دنیا میں ترقی اور آخرت میں سر بلندی عطا کروں گا۔ اللہ کی نگاہ میں کفرانِ نعمت جرمِ عظیم ہے۔ قرآن نے یہ حقیقت بھی بتائی کہ اللہ کی شکر گزاری خود تمھارے اپنے مفاد میں ہے، وَمَنْ شَکَرَ فَاِِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج (النمل۲۷:۴۰)۔ اللہ کو نہ تو تمھاری شکرگزاری کی ضرورت ہے، نہ وہ اس کا محتاج ۔ وہ غنی و حمید ہے۔ شکر گزاری کا تقاضا صرف اس لیے ہے کہ وہ منعم تمھیں اپنی بے حد و حساب نعمتوں سے نوازتے رہنا چاہتا ہے۔

  •  اللّٰہ کا ذکر: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیo (الاعلٰی۸۷:۱)___ اللہ کی نعمتوں پر اظہار تشکر کا تقاضا، اس کا حق، اس کی تسبیح، اس کی حمد و ثنا ہے۔ صبح و شام، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ہر دم ہر وقت تسبیح کے دانوں پر ہی نہیں، زبان اور عمل سے بھی۔ اس کے شایان شان، اس کے مقام و مرتبہ سے ہم آہنگ۔ فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ(البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا‘‘۔ عاجزی، انکساری اور سرشاری سے لبریز زبان سے بھی ذکر، اور نماز قائم کر کے عمل سے بھی اظہار ___  ولذ کر اللّٰہ اکبر___ اللہ کا ذکر، اللہ کا یہ حق ہرچیز سے بر تروبالاہے۔
  •  دُعا صرف اُسی سے:فَادْعُوْہُ (اعراف۷:۱۸۰)___اُسی کو پکارو،یہ اللہ کا   نواں حق ہے۔ اللہ اپنے بندوں کی شہ رگ سے قریب، اُن کی دعائیں سننے والا، حال دل جاننے والا، اُن کی بگڑی سنوارنے والا___ اُس کا حق ہے کہ ُاس کے بندے اُسی کو پکاریں۔ جب   کشتی  بھنور میں آ پھنسے اور ساری اُمیدیں دم توڑ دیں، تب تو سب ہی اُسے پکارتے ہیں۔ اُس کے مخلص بندوں پر لازم ہے کہ خوشی، غمی، تنگ دستی و خوش حالی ہرحال میں، ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے لیے صرف اُسی کو پکاریں۔ اُس کا اعلان ہے کہ یہ میرا حق ہے کہ میں ہی دعائیں سننے کا اہل ہوں، میں ہی انھیں پورا کرنے پر قادر ہوں، جب بھی مجھے پکارو گے، مجھے اپنی رگ ِجاں سے بھی قریب پائو گے، وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا (البقرہ۲:۱۸۶)۔
  •  رجوع اور توبہ کا سزاوار:  تُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ (النور۲۴:۳۱)___ اللہ کا ایک حق یہ ہے کہ اس کے بندے خواہ کتنے ہی گناہ کر لیں، کتنی ہی لغزشیں انجانے میں سرزد ہو جائیں، لوٹیں تو اُسی کی طرف۔ جہاں میں کہیں بھی امان نہ ملے اور نہ مل سکے گی، تو اُس کے عفو بندہ نواز میں پلٹیں، اُس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں۔ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo (النصر۱۱۰:۳)۔ وہ تو خود اپنے بندوں کی مغفرت کے لیے بار بار اعلان کر تاہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ توبۃ النصوح ہو۔ سچے دل کے ساتھ ہو۔ پچھلے گناہوں پر ندامت، دکھ اور صدقِ دل سے توبہ اور آیندہ نہ کرنے کا پختہ عزم___ یہی قبولیت توبہ کی شرط ہے۔

 اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاo (نوح۷۱:۱۰) ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے‘‘۔ معاف کر دینا اُس کی بے پایاں صفت ہے۔ اللہ کا حق ہے کہ اُس کے بندے اُس سے اپنے قصوروں کی معافی طلب کریں۔ غفاری، اس کی نمایاں ترین صفت ہے۔ بندگانِ خدا کو حکم دیا گیا: سَابِقُوْٓا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الحدید۵۷:۲۱)، اپنے رب کی مغفرت کی طلب میں ایک دوسرے سے سبقت کرو۔

  •  اللّٰہ سے محبّت:قرآن میں اللہ کا یہ حق بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ہی سے محبت کرو۔ وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرنے والا ہے۔ حقیقی اہل ایمان وہی ہیں جو سب سے بڑھ کر    اللہ سے محبت کرتے ہیں، اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ۲:۱۶۵)۔ اپنی ہرقیمتی متاع، دنیا کے ساز و سامان، حتیٰ کہ والدین اور اولاد ہر ایک سے بڑھ کر اللہ کو چاہتے ہیں۔ اللہ نے اپنی محبت کا ایک عملی طریقہ اپنے رسولؐ کی زبانی یہ بتایا: اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ  (اٰل عمرٰن ۳:۳۱)، اگر اللہ سے محبت کرتے ہو اور اس کی محبت کے امیدوار ہو تو رسولؐ کی کامل اطاعت کو اپنا لو۔
  •  تدبرو تفکّر: یہ بھی اللہ کا حق ہے کہ اس کے بندے اس کی تخلیق، اس کی کائنات میں غورو فکر کریں۔ مظاہرِ فطرت کا مشاہدہ، اللہ کی عظمت و وجود کا ادراک و احساس کریں۔ کائنات کے توازن اور اسرار و رُموز میں ان کے خالق کو تلاش کریں۔ زمین و آسمان کی وسعتوں،گردشِ لیل و نہار، بارش کے برسنے، ہوائوں کے چلنے، فصلوں کے پکنے اور خود انسان اپنی تخلیق پر غور کرے اور اپنے رب کی قدرتوں کا مشاہدہ اور اعتراف کرے۔
  •  جان و مال سے جھاد: اللہ کا یہ حق ہے کہ کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف۶۱:۱۴) ، اللہ کے مدد گار بن جائو۔ اللہ کے کلمے کی سر بلندی، اس کے دشمنوں کی سر کوبی، اس کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے باہر نکلو۔ اپنی جان و مال سے جہاد کرو، جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط  (الحج۲۲:۷۸)۔اسلحہ، علم، قلم، وسائل کے ہر ذریعے سے اس کی پکار پر لبیک کہو۔
  •  توکّل و بہروسا: اللہ کا یہ حق بھی ہے کہ اُسی پر بھروسا کر و،  وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo(المائدہ ۵:۲۳)’’اللہ پر بھروسا رکھو اگر تم مومن ہو‘‘۔ وہی کارساز، مددگار اور معاون ہے۔ اگر وہ تمھارے ساتھ ہے تو ساری خدائی ایک طرف فَھُوَ حَسْبُہٗ ط(الطلاق ۶۵:۳)، توکل کرنے والوں کے لیے وہ کافی ہے۔ دنیا کی آزمایشوں سے گھبرا کر یا اس کی چکا چوند سے مرعوب ہو کر اس کا دامن نہ چھوڑو۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَo (التوبۃ ۹:۱۲۰)، وہ ذرہ برابر بھی کسی عمل کو ضائع ہونے اور محنت اکارت نہیں جانے دے گا۔
  •  دوستی اور دشمنی کی بنیاد:اللہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اُسی کی خاطر محبت اور اُسی کی خاطر نفرت کی جائے___ الَحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ، جو اُسے ناپسند تمھاری اس سے دشمنی، جو اُس کے محبوب وہی تمھارے پیارے ہوں۔ وہ منافقوں، منکروں، شیطانوں ، خائنوںاور کفرانِ نعمت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مفسدوں، کا فروں اور ظالموں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کے رسولوں ؑ کی تکذیب کرنے والے اور زمین پر اکڑ کر چلنے والے اُس کے مبغوض ترین انسان ہیں اور شیطان کے دوست ہیں۔ اللہ کا حق اورہم پر فرض ہے کہ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآئَ الشَّیْطٰنِ ج  (النسائ۴:۷۶)، ان کا ہرقدم پر مقابلہ کرو۔ اللہ کو یہ ہر گز گوارا نہیں کہ اس کے دشمنوں سے دوستی اور محبت کا تعلق بنائو۔ تم ہر شب نماز و تر میں اس سے یہ وعدہ کرتے ہو۔ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرَکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ، کہ تیرا انکار کرنے والوں سے علیحدہ رہیں گے۔ لیکن پھر بھی ان سے رشتے ناتے، تعلقات، محبتیں ہوں تو یہ اللہ کی حق تلفی نہیں تو اور کیا ہے؟

 لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط (البقرہ۲:۱۶۸)___ جو رحمن کے مقابل آکھڑا ہوا ، اُس کا نافرمان ہوا، اس کے مقابلے میں بغاوت و سر کشی اور تکبر کا دعوے دار ہوا، اپنے رب کے احسانات کو بھلا بیٹھا، اسے اللہ کے مخلص بندے اپنادوست کیسے بنا سکتے ہیں؟حکم ہوا: فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط (الفاطر۳۵:۶)، تم بھی اسے اپنا دشمن تسلیم کرو، اور اس کی دوستی سے اجتناب کرو۔ اس لیے کہ وہ دوست نہیںبد ترین دشمن ہے۔

  •  کامل بندگی:حقوق اللہ کانکتۂ اول و آخر اس کی کامل بندگی ہے۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر۱۵:۹۹)، یعنی زندگی کے اولین سانس سے لے کر اس کی طرف واپسی تک اس کی عبادت و بندگی اور غلامی کہ نماز، قربانی، حج، زکوۃ، جینا مرنا،سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)۔ اللہ کی عبادت، انسان اور اس کائنات کی تخلیق کا مقصد، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذّٰریٰت۵۱:۵۶)،اُس کے سوا ہرقسم کے معبودسے بے زاری اور علیحدگی۔ کسی مصلحت، مداہنت کا شکار ہوئے بغیر، کسی کی شرکت کے بغیر، جبینِ نیاز اُسی کے حضور سجدہ ریز،  زندگی اُسی کے تابع، اُسی کے قانون کاچلن، اور اُسی کے حکم کی پاسداری۔ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo (الکافرون ۱۰۹:۲) کے اعلان کے ذریعے دنیا کے ہر معبودِ باطل کی خدائی سے انکار، اُسی کو حلال و حرام کے تعین کا اختیار، اُسی کے متعین کردہ حقوق و فرائض کی بجا آوری، اُسی کے اوامر و نواہی پر عمل۔ ہر معاملے میں اُسی کا فیصلہ قابلِ عمل، ہرمسئلے میں اُسی کی رہنمائی، اُسی کی طرف رجوع، اُسی کی رضا مقدم، اُسی کی خوشی پر ہر چیز قربان کرنے کے لیے آمادہ رہنا___ اللہ کا سب سے بڑا حق ہے۔

اہل ایمان پر لازم ہے کہ قر آن کی یہ پکار سنیں: مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o (نوح۷۱:۱۳)،یعنی تمھیں کیا ہوا ہے کہ اللہ کے وقار کا خیال نہیں رکھتے۔ اُس کے ساتھ اُس کے مرتبہ و مقام اور حیثیت کے مطابق سلوک نہیں کرتے۔ اپنے حقوق کی جنگ، اپنے مفادات کا تحفظ، اپنی شان و شوکت اور بقا کی لڑائی، اپنے معاملات میں غیرت و حمیّت کا اظہار ،مگر اللہ کے حقوق کی ادایگی نہ تمھارا مطمح نظر ہے، نہ ترجیح، اور نہ ان کے لیے کوئی جدوجہد ہی۔

اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کے حقوق کا شعور و ادراک کرتے ہوئے اُس کے شایانِ شان مقام اور اس کے وقار و عظمت کا اعتراف کریں اور اُس کے حقوق اِس طرح ادا کریں، جیسا کہ وہ اُن کا مستحق ہے۔ اس طرح کہ یہ احساس دامن گیر رہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

عدل کا ہماری عملی زندگی سے گہرا تعلق ہے لیکن انفرادی دائرے سے آگے بڑھ کر اسلام ہمیں عدل ِ اجتماعی کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یوں عدل انفرادی زندگی کو متاثر کرنے کے بعد دینی اجتماعی شکل میں معاشرتی ، معاشی ، قانونی اور سیاسی پہلوئوں کو متاثر کرتا ہے ۔ اسلام پہلی صدی کے آخر تک تین براعظموں کو مسخر کر چکا تھا۔ اسلام نے دنیا کی دوسری اقوام کو جس تیزی اور سُرعت کے ساتھ اپنے اندر سمو لیا ہے، یہ تاریخ ساز پہلو اسلام کے عدلِ اجتماعی کے باعث ہے ۔ اسلام اور دینِ شریعت کی عادلانہ روش نے اس نظام زندگی کے تما م تر روشن امکانات کو اہل دنیا کے سامنے واضح کیا اور انھوں نے جو ق در جوق اسے تسلیم کر لیا۔ اسلام کے اس عادلانہ پہلو کی تعریف میں سیکڑوں مستشرقین اور یورپی اہل علم رطب ُ اللسان دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے ہم عدل کے انفرادی، اجتماعی ، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور قانونی پہلوئوں کا تفصیل سے جائزہ لیں۔

جہاں تک انفرادی عدل کا تعلق ہے ، اسلام نے ایک فرد کے لیے حقوق و فرائض کا ایک دائرہ کھینچ دیا ہے۔ اسے حلال و حرام کی واضح تمیز عطا کر دی گئی ہے۔ اسے ظلم ، شرک ، بد دیانتی، بدعہدی، بد کرداری ، دھوکے بازی اور اخلاقِ فاسدہ کے تمام پہلوئوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پیدایش سے موت تک ایک مسلمان کو معاشرے کے مختلف اداروں اور معاملات سے تعلق استوار کرنا ہوتا ہے۔ شریعت نے ایک فرد کی حیثیت سے ہر جگہ اسے عدل اختیار کرنے کی تلقین کی ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔(المائدہ ۵:۸)

ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے۔(اعراف ۷:۲۹)

دین و شریعت کا علم رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسلام انفرادی تربیت کے نتیجے میں ایک اجتماعی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ تمام عبادات کا مزاج اجتماعیت پسندانہ ہے۔ مسجد، مکتب اور معاشرہ بھی اجتماعی ادارے ہیں۔ عدل اجتماعی کا تقاضا ہے کہ یہ عدل کے عالم گیر پہلو کو سامنے لائے۔ عدل کا عمل فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ متعلق ہے۔ حقوقِ اولاد، حقوق والدین، حقوق الزوجین، ہمسایے کے حقوق ، وراثت کے حقوق، بنیادی حقوق، حتیٰ کہ نفس کے حقوق سے لے کر عالمی حقوق تک کے ہر مرحلے کے لیے شریعت کی ترجمانی ہمارے سامنے ہے ۔ جنگ و جہاد میں اسلام نے مفتوحین کے حقوق کو کس شان کے ساتھ مرتب کیا ہے، وہ فقید المثال ہے۔ میثاق مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کی حدود میں بسنے والے مختلف مذاہب اور ملتوں کے افراد کے حقوق کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام، اول، ص ۵۰۴، ۵۹۳)

اسلام نے عدلِ اجتماعی میں معاشرتی حقوق کو بہت نمایاں مقام دیا ہے ۔ نام و نسب کے حوالے سے دنیا میں بہت سے فتنے موجود ہیں۔ انسانی معاشرت میں رنگ و نسل کے امتیازات کے باعث بے انصافی کو فروغ ملتا ہے ۔ قرآن مجید نے سورۃ الحجرات میں افراد کے امتیازات کو رنگ و نسل کے بجاے عبادت و تقویٰ سے جوڑ دیا ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :

لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ (الحجرات ۴۹:۱۳)

معاشرتی عدل کی اہمیت کا اندازہ ہمیں خطبہ حجۃ الوداع کے اس حصے سے بھی ہوتا ہے  جس میں حضور سرور کائناتؐ نے فرمایا: اے لوگو، تم سب آدم ؑسے ہو اور آدمؑ کو مٹی سے بنایا گیا۔ نسب قابل فخر بات نہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔ تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔

معاشرتی عدل کے نمونے تاریخ اسلام کا انمول سرمایہ ہیں۔ عدل کا یہی وہ پہلو ہے جس نے غلاموں کو آقائوں کے برابر ہی نہیں ، ان کی قیادت میں کام کرنے کا عظیم درس دیا ہے۔ خصوصاً عورتوں کو اسلام نے جو حقوق دیے ، وہ معاشرتی عدل کا سب سے عظیم پہلو ہے۔ اسلام ، دنیا کا واحد دین ہے جس نے عورت کے شرف کا تحفظ کیا اور بلند ترین مقام سے نوازا ہے ۔ اسی طرح معاشرتی عدل میں بیوہ اور یتیموں کے حقوق کی پاس داری کا جو درس دیا گیا ہے، وہ بھی قابل توجہ ہے۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک اجتماعی نظام میں پرو کران کا ایک معاشرہ اور ان کی ایک ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ مدینہ کی ریاست عدلِ اجتماعی کا پہلا گہوارہ ہے۔ اسلامی ریاست میں اگر سیاسی عدل کو قائم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں افراد کو اور اداروں کو ہر نوعیت کے ظلم سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے ۔ ریاست ایک قوت کا نام ہے جس کے زیر سایہ مختلف افراد اور ادارے عدل سے کام لیتے ہیں اور ریاست ہر قسم کے ظلم اور جبر کا دفاع کرتی ہے ۔ سیاسی عدل کے حوالے سے ریاست افراد کو انتظامی اداروں کے ظلم سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اگر سیاسی عدل کو برقرار نہ رکھا جائے تو معاشرے اور ریاست کا وجود معرضِ خطر میں آجاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرؓ کو انتظام کی اہمیت سے باخبر کرتے ہوئے فرمایا:

اے ابو ذر ؓ ! تم کمزور آدمی ہو اور حکومت کا منصب ایک امانت ہے۔ یہ منصب قیامت کے دن رُسوائی اور ندامت کا باعث ہو گا، بجز اس شخص یا عہد ہ دار کے جس نے اپنے عہدے کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہو گی اور خود پر عائد شدہ ذمہ داری کا حق ادا کیا ہوگا۔

اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل وا نصاف کا حکم دیتا ہے ۔ فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)۔اس آیت کے مخاطب یہود ہیں۔ گویا کہ آںحضوؐر کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہود جو نہ صرف غیر مسلم بلکہ آپؐ کے جانی دشمن تھے، کے درمیان بھی عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ چنانچہ یہودِ مدینہ اکثر اپنے مقدمات آپؐ کے پاس لایا کرتے تھے اورآپؐ ان کے فیصلے عدل و انصاف کے ساتھ فرما دیا کرتے تھے۔ پھر فرمایا کہ: ’’کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے بارے میں عدل   نہ کرو‘‘(المائدہ ۵:۹)۔ سورئہ ممتحنہ میں فرمایا کہ: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔(الممتحنہ  ۶۰:۸)

نبی کریم ؐ نے خیبر کی فتح کے بعد مفتوحہ زمینوں کے معاملات طے کرنے کے لیے جب عبداللہ ابن رواحہؓ کو بھیجا تو یہود نے انھیں رشوت دے کر نرمی حاصل کرنا چاہی تو انھوں نے فرمایا: تمھاری ان زمینوں کے مقابلے میں نبی کریم ؐ کی محبت اور حکم مجھے زیادہ عزیز ہے۔ یہود نے کہا کہ اسی عدل کی وجہ سے زمین و آسمان کا نظام قائم ہے۔ (صفی الرحمن، تجلیاتِ نبوتؐ، ص ۳۷۵-۳۷۶)

اسلام میں عدل کی یہ اہمیت ہے کہ اسے صرف قانون کے رحم و کرم پر ہی نہیں چھوڑا گیا بلکہ اسے دین کے فرائض میں شامل کیا گیا ہے اور ظلم کرنے والے کو آخرت کی سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ معاشرتی، معاشی اور سیاسی عدل کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون بھی سزا دیتا ہے اور اللہ کے ہاں بھی عدل نہ کرنے والا قابلِ مواخذہ ہے۔ قرآن میں ہے کہ ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے(انعام۶ : ۲۱) ’’اور یہ کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(اٰل عمرٰن۳ : ۱۴۰)

عدلِ اجتماعی کی بنیادیں

اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحبِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظر کرتے رہیں۔ اسلامی اخلاق و قانون کا ماخذ کسی فرد یا کسی گروہ کی پسند یا ناپسند نہیں، بلکہ خالق انسان کی جانب سے نازل کردہ قوانین و اصول ہیں جو انسانوں کو دہرے اخلاقی معیار سے نجات دلا کر زندگی کے تمام معاملات کو ایک وحدانیت میں لے آتے ہیں۔ جس انسانی معاشرے میں دہرے اخلاقی معیار پائے جاتے ہوں وہ عدلِ اجتماعی سے محروم ہوتا ہے۔

  •  عدلِ اجتماعی کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی زمین پر جہاں کہیں بھی انسان کا اختیار پایا جاتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب زندگی سے بنیادی تضادات کو خارج کرتے ہوئے اپنے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، تعلیمی ، قانونی اور ثقافتی مسائل کو صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہدایت و فرمان کا تابع کر دیا جائے ۔ گویا اسلامی عدل اجتماعی کی پہلی بنیاد توحید خالص ہے۔ توحید کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ خالق کائنات کے ساتھ کسی کو شریک  نہ کیا جائے اور جہاں کہیںبھی انسان کا اختیار ہو وہ جادۂ عدل کو اختیار کرے ، یعنی حقوق و فرائض کی بجا آوری میں کسی ســستی اور غیر ذمہ داری کا شکار نہ ہو۔
  •  عدلِ اجتماعی کی دوسری اہم بنیاد آزادی ہے ، یعنی ایک شخص اپنے آپ کو ان تعصبات سے آزاد کرے جو بعض اوقات خاندانی روایات، توہمات، رسوم و رواج اور قبیلہ یا برادری کے صدیوں پرانے طرزِ عمل کو قانون کا درجہ دے دیتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ  ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے جب اپنی قوم کو توحید اور عدل پر قائم ہونے کی دعوت دی تو ان کا رد عمل یہی تھا کہ:

 کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے۔  (یونس ۱۰: ۷۸)

یہ جاہلی عصبیت، یہ باپ دادا کی روایت پر فخر و نازاسلام کے تصور حق و باطل سے ٹکراتا ہے۔ اسلام جس عالمی اخلاقی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے اس میں عظمت اور قطعیت صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کو اور انبیا و رسل کے فیصلوں کو حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک انسان اپنے خالق کا ناشکرا اور انبیاے کرام ؑ کی ہدایات کا منکر قرار پاتا ہے۔ اسی کا نام ظلم ہے۔

آزادی کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو شعور کی آزادی اور فیصلے کی آزادی حاصل ہو۔ اس پر ایسے تصورات اور ایسی ثقافت کو زبردستی مسلط نہ کر دیا جائے جو اس کے بنیادی عقائد و تصورات سے ٹکراتی ہو۔ چنانچہ آج عالم گیریت کے سہارے یک قطبی سامراجیت اپنی ثقافت کو جس طرح دنیا بھر کی اقوام پر تعلیم ، معاشی حکمت عملی، سیاسی دبائو کے ذریعے مسلط کرنے میں مصروفِ عمل ہے ، یہ جارحیت کی ایک واضح شکل ہے ۔ یہ آزادیِ راے کو معطل یا مقید کردینا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے اپنا محکوم بنا کر غیر مؤثر کر دینا ہے ۔ اسلامی عدلِ اجتماعی ہر فرد کو آزادیِ راے، آزادی اجتماع اور آزادی عمل دے کر شعور و آگہی اور معروف ومنکر کی آفاقی بنیادوں کی روشنی میں کسی عمل کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا پورا حق دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل آمریت ہو یا بادشاہت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکیت زدہ نظام ، اپنی معاشی اور سیاسی گرفت کی بنا پر عملاً انسانوں سے ان کی قوتِ فیصلہ چھین لیتا ہے اور انھیں اپنی سامراجیت کا غلام بنا لیتا ہے۔ اسلامی نظامِ عدل اس استحصال سے نجات کا نام ہے۔

  •  اسلامی عدلِ اجتماعی کی تیسری بنیاد تمام انسانوں کو بحیثیت انسان یکساں قرار دینا ہے کیوںکہ تمام انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں اور رنگ و نسل یا زبان کی بنا پر ان میں کوئی تفریق کرنا ایک ظالمانہ رویہ ہے۔ چنانچہ تمام انسان قانون کی نگاہ میں مساوی ہیں۔ البتہ عقل کا مطالبہ ہے کہ اپنے وظیفۂ حیات اور تقسیم کار کے لحاظ سے ان کی ذمہ داری اور جواب دہی یکساں نہ ہو۔ اس لیے بحیثیت انسان ان کے حقوق وہی ہیں جو ایک مومن اور مسلمان کے ، لیکن اپنی ذمہ داری، صلاحیت اور کارکردگی کے لحاظ سے ان کا معاوضہ مختلف ہونا ایک فطری تقاضاے عدل ہے۔
  •  اسلام کے عدلِ اجتماعی میں تقسیم دولت کی بنیاد استطاعت، صلاحیت اور ضرورت کو قرار دیا گیا ہے۔ اگر استطاعت رکھتا ہو لیکن سعی نہ کرے، صلاحیت رکھتا ہو لیکن اپنے اختیار کو استعمال نہ کرے، تو وہ اُس کے برابر نہیں ہو سکتا جو اپنی صلاحیت اور ذمہ داری کو عدل کے ساتھ ادا کر رہا ہو۔ گویا یہاں بنیاد نہ طبقاتی نظام ہے نہ زیادہ مال اور وسائل رکھنے والوں کی حکمرانی و برتری۔ یہ صلاحیت پر مبنی ایک ایسا نظام امانت ہے جس میں امانتیں صرف ان کے اہل کو ہی دی جا سکتی ہیں۔
  •  اسلام تمام انسانوں کو جدو جہد اور اکتسابِ رزق کے مناسب مواقع کی فراہمی کو بھی معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ذمہ داری معاشرے اور حکومت کو سونپتا ہے کہ سب کے لیے مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائیں، اور جو مجبور ہوں ان کو ایسا سہارا فراہم کیا جائے کہ وہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دولت کی گردش کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلامی عدلِ اجتماعی زکوٰۃ، انفاق اور صدقات کے نظام کو مستحکم کرتا ہے۔ دوسری جانب معاشرے کے کم زور عناصر کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے ان کی مالی اور تربیتی ضروریات کو بہتر بنا کر ان میں خود انحصاری پیدا کرتا ہے۔ نظامِ زکوٰۃ انفاق، بیع اور تجارت کے فروغ کے نتیجے میں معاشی طور پر پس ماندہ افراد کو سہارا دے کر خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے۔
  •  کسی بھی انسانی معاشرے میں حادثات کے نتیجے میں کل تک جو صاحبِ وسائل تھا وہ مفلوک الحال بن سکتا ہے۔ اسلامی عدلِ اجتماعی میں تکافل اجتماعی کا تصور اسلامی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا اور ایسے مواقع پر انسانی ہمدردی اور تعاون کی بنیاد پر تکافلِ اجتماعی کا ادارہ جس میں معاشرے کے افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں ، اس نقصان کو پورا کرتا ہے۔

بعض معترضین کی طرف سے اسلام کے قانونِ وراثت میں عورت کے حصے کو یوں پیش کیا جا تا ہے گویاکہ: عورت کو ایک کم تر مخلوق سمجھ کر اس کے حصے کوآدھا کر دیا گیا ہے، پھر اسی مفروضے کی بنیاد پر اسلام کو بحیثیت مجموعی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔یہ اعتراض نہ صرف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے اُٹھایا جاتا ہے بلکہ یورپی لٹریچر پڑھنے والے مغرب زدہ مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے اس طرح کے اعتراضات کرتے رہتے ہیں ۔ نیز مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز اسی پردے میں اسلام کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتی ہیں۔

بدقسمتی سے قانونِ وراثت کو اسلام کے دوسرے تمام قوانین اور مرد و زن کے حقوق و فرائض سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی مال/جایداد کی تقسیم دو طرح سے ہو سکتی ہے :

۱- جایداد کو مساوی حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور متعلقہ افراد میں ان کے فرائض اور  ذمہ داریوں سے قطع نظر، مساوات کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سب میں برابر برابرتقسیم کردیاجائے۔

۲- افراد کی ذمہ داریوں کا تعیّن کیا جائے اور پھر ان میں ایک قاعدے کے مطابق مال کی تقسیم کر دی جائے ۔

اب ہم اس اصول کوسامنے رکھ کر سوچیں کہ عورت اور مرد کے درمیان وراثت کی تقسیم کیسے ہونی چاہیے؟

  اسلام میں تقسیمِ وراثت کے اصول کی بنیاد اور حکمت کی بظاہر تین وجوہ ہیں :

۱-قرابت اور رشتہ داری

۲- ضرورت اور ذمہ داری (اسلام کی معاشی اور معاشرتی اقدار کے ساتھ مقرر کردہ دائرے میں ذمہ داری)

۳- ارتکاز دولت کی نفی(تقسیمِ دولت)

اس وقت چوںکہ دوسرا نکتہ ہی ہمارے موضوع سے متعلق ہے، اس لیے ہم صرف اسی کی بنیادی حکمت کا ذکر اور چند مثالیں بھی پیش کر یں گے تاکہ اس بات کی کچھ وضاحت ہو جائے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم کس بنیاد پر ہے؟

۱- صاحب ِاولاد بیٹے کی رحلت کی صورت میں ماں (عورت)اور باپ(مرد)کو برابربرابر حصہ (یعنی ۶/۱ حصہ) ملتا ہے اور ماں کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا یا باپ کو مرد ہونے کے ناتے دوگنا حصہ نہیں ملتا۔

سورئہ نساء میں ارشاد ہے: ’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں  ترکے کا دو تہائی دیا جائے ۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔ اگر میت صاحب ِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے ۔ اور اگر       وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے ۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)،جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو ، پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے ۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بہ لحاظِ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ یہ حصے اللہ  نے مقرر کر دیے ہیں ، اور اللہ یقیناسب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے‘‘۔ (النسائ۴:۱۱)

اس آیت میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں بنیادی اکائی (basic unit)عورت کے حصے کو بنایا گیا ہے اور مرد کو اس کا دوگنا دیا گیا ہے۔ گویا اہمیّت اور زور عورت کے حصے پر ہے، جس کو بنیادبنا کر باقی لوگوں کے حصوں کا حساب کیا جائے گا۔یہ بات بذات خود عورت کی حیثیت کو بلند کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ قانون اُس معاشرے کے اندر بیان ہوا، جس میں عورت کی  حیثیت  بہت ہی کم تر تھی۔ جایداد میں حصہ تو دُور کی بات ہے، اسے توصرف مردکے تصّرف کا ایک کھلونا سمجھا جاتاتھا اور وراثت میں حصہ صرف ان مردوں کو ملتا تھا جو صحت مند اور جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہوتے تھے۔

۲- مرد کی وفات کی صورت میں بیوی(عورت)کو۸/۱ حصہ ملتا ہے، چاہے اس کی جتنی بھی اولاد ہو، مثلاً اگر ۱۰ بیٹے بھی ہوں تب بھی بیوی کوشوہر کے ترکے سے ۸/۱ حصے کی ادایگی کے بعد باقی وِرثہ اس کے بیٹوں (مردوں)میں برابر تقسیم ہوگا۔ گویا بیوی کا حصہ پہلے سے متعین ہے اور باقی جایداد بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگی۔ اس کی بنیاد یہ نہیں رکھی گئی کہ چوںکہ وہ عورت ہے، اس لیے  اس کا حصہ بیٹوں کے مقابلے میں آدھا ہوگا، بلکہ تمام دوسرے ورثا سے پہلے اس کا حصہ مقرر کیا گیا ہے جو پوری جایداد سے دیا جاتا ہے۔

۳- اگر میت کی ایک ہی بیٹی ہے اور باقی اولاد نہیں تو اس کو ترکے کا نصف حصہ ملے گا،  باقی میت کے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے ورثا میں تقسیم ہوگا۔ نزدیک ترین مرد ورثا (اس صورت میں بھائی) کو بھی میت کی بیٹی کے مقابلے میں زیادہ حصہ نہیں ملتا۔

۴-ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے، جب عورت کو حصہ ملتا ہے مگر مرد کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ مثلاً : جب وارث دوبیٹے،ایک بیٹی،نانا اورنانی ہوں تو نانی کو ۶/۱ حصہ ملتاہے ،جب کہ ناناکوکچھ نہیں ملتا۔ 

۵- وراثت کی تقسیم اس وقت ہو تی ہے جب کفن دفن، زکوٰۃ، قضا روزوں کا کفارہ، قرض اور مہر وغیرہ سب مکمل طور پر ادا ہوجائیں۔ وراثت میں وہ چیز شامل نہ ہو گی، جو میت نے کسی کو زندگی ہی میں ہبہ (تحفہ)کی ہو اور وہ اس کی ملکیت میں سے نکل چکی ہو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر والدین اپنی زندگی میں جایداد کی تقسیم کرنا چاہیں تو (برخلاف وراثت کے اصول کے جو کہ  مرنے کے بعد لاگو ہوتا ہے)وہ جایداد بیٹوںاور بیٹیوں میں برابر برابرتقسیم کریں گے،  البتہ کسی بھی بیٹے یا بیٹی کو اپنی صواب دید کے مطابق خدمت کے صلے میں یا کسی اور جائز وجہ سے کم یا زیادہ حصہ دے سکتے ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کا وراثت میں حصہ اس کی جنس کو کم تر سمجھ کر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ اس کی ایک اہم حکمت عورت اور مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم ہے ۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مرد کو صرف وارثت میں حصہ ملتا ہے اور عورت کو    نہ صرف وراثت میں حصہ بلکہ حق مہر بھی ملتا ہے  اور شوہر کی جایداد اور مال و متاع میں بھی عورت کا حق ہے ۔ عورت ملازمت یا کسی کاروبار کی صورت میں کما رہی ہے تو وہ اگر اپنی مرضی سے شوہر کو اپنی کمائی میں سے کچھ دینا چاہے، اپنے بچّوں پرکچھ خرچ کرنا چاہے، یا گھر میں استعمال کرنا چاہے، تو یہ اس کی اپنی آزادانہ صواب دید پر ہے مگر یہ اس کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ عورت اپنے ذریعۂ معاش کی آمدنی کی خود ہی کلیتاً مالک ہوتی ہے ۔ وہ اگر اپنے سرمایے کو کاروبار میں لگائے تو اس کے نفع کی بھی وہی مستحق ہوتی ہے ۔ اس کی اس ذاتی دولت میں شوہر تک کو تصرف کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے۔عورت اپنی کمائی کی مختارِ کُل ہے اور اس پر شوہر، بچوں یا خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کی کوئی معاشی ذ مہ داری نہیں ہے ۔ یہ سب باپ کے ذمے ہے۔

اسلام عورت کومختلف حیثیتوں سے وراثت میں حصہ دیتا ہے۔ اسلام کے قانون وراثت میں عورت بیوی، ماں، بیٹی اور کئی دوسری حیثیتوں سے وراثت میں حصہ پاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف نہ صرف عورت (بیوی)کی کما ئی میں مر د(شوہر) کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ مکان خریدنے، گھر کا تمام خرچ ادا کرنے ،بیوی اور بچوںکا نان نفقہ،بیوی اور بچوں کے کپڑوں، ان کی تعلیم، نوکروں کی تنخواہوں اور گھر کے دوسرے تمام اخراجات کا ذمہ دار بھی صرف مر د ہی ہے اور عورت پر ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ مطالبہ کرے تو گھر کے کام کاج میں  ہاتھ بٹانے کے لیے شوہر کو نوکر بھی رکھنا پڑے گا (بشرطیکہ وہ اخراجات اُٹھا سکتا ہو)۔حتیٰ کہ اگرعورت کسی وجہ سے اپنے میکے چلی جائے اور شوہر لینے نہ جائے تو وہاں بھی رہنے اور نان نفقہ کے اخراجات شوہر کو ہی ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ طلاق کی صورت میں بھی عدّت کے ایام میں عورت کے اخراجات کی ذمہ داری اسلام شوہرپر ڈالتا ہے اور عدت ختم ہوتے ہی عورت کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے ۔بیوی کو باپ کے گھر لے جانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا بھی شوہر کے ذمے ہے۔

ان اخراجات کے علاوہ مختلف قسم کے معاشی اور معاشرتی اُمور کا سامنا کرنا، تقریبات، جنازے، شادیاں ، صلح وغیرہ اور بے شمار دیگر امورسر انجام دینا بھی مرد کی ذمہ داری ہے اور ان سے متعلق تمام اخراجات بھی اسی کے ذمے ہیں۔

 شادی سے پہلے یا بعد میں عورت کے مال اور کمائی پر قانونی حق صرف اسی کا ہے،جب کہ مرد کے مال اور کمائی میں خاندان کے کئی افراد کانہ صرف حق ہے بلکہ مرد پر اس کی ادایگی فرض ہے۔ عورت اگر بیٹی ہے تو معاشی ذمہ داری باپ کی، بہن ہے تو بھائی کی، دونوں میں سے کوئی نہیں تو قریب ترین مردو ں (مثلاً چچا وغیرہ )کی ، ماں ہے تو بیٹوں کی اور  بیوی ہے تو شوہر کی۔

ذمہ داریوں کی اس تقسیم کو جاننے کے بعدایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی اس بات کو  آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وراثت میں عورت کے مقابلے میں مرد کا حصہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے؟

اسلام جس طرح عورت پر مالی ذمہ داریاں ڈالے بغیر اس کے لیے آمدنی کے اتنے راستے کھولتا ہے اور اس کے سرمایے کے تحفظ کے لیے اتنے اقدامات تجویز کرتا ہے، کیا دنیا کے کسی نظام میں بھی ایسی کوئی مثال ہے؟

اگر کوئی فرد بغیر کسی تعصب کے، دل کی نگاہ سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ بلاتردّد اس بات کو مان لے گا کہ اسلام کے اس قانون پر کسی اعتراض کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر وہ مردوں اور عورتوں کی معاشی، معاشرتی اور دوسری ذمہ داریوں اور پوری صورت حال کو سامنے رکھے تو اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ آجائے گی کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص ذمہ داریوں کی وجہ سے انتظامی بنیاد پر ہے۔ اور وراثت کی یہ تقسیم عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت پر کتنا احسان کیا ہے اور اس کو کتنی اہمیت دی ہے کہ اس پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی مگر پھر بھی اس کے لیے نہ صرف وراثت میں حصہ مقرر کیا، بلکہ اس کے لیے سرمایے کے حصول اور اس کے تحفظ کے کئی ذرائع متعین کیے اور اسے اپنے اس ’محفوظ سرمایے‘ کے استعمال میں کلّی طور پر خود مختار بھی بنا دیا۔ حتیٰ کہ اس کے شوہر پر بھی یہ پابندی لگا دی کہ وہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا سرمایہ استعمال نہیں کر سکتا،جب کہ بیوی ضرورت کے مطابق شوہر کے مال سے خرچ کر نے کی مجاز ہے۔ اس کے باوجود اگر وراثت میں عورت کے حصے پر اعتراض اُٹھایا جائے اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے___ کیا یہ مبنی بر انصاف ہوگا؟

ایک ہوتی ہے فکری اساس اور دوسری ہوتی ہے روزمرہ کی سوچ، یعنی روزمرہ کے زندگی کے مسائل کا ادراک___ فکری اساس مستقل اثاثہ ہوتی ہے جو تربیت، مطالعے اور گہرے غوروفکر سے تشکیل پاتی ہے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے اور غوروفکر اسے مستقل چمکاتا رہتا ہے۔ روزمرہ کی سوچ یا وقتی سوچ حالات کے تابع ہوتی ہے اور روزمرہ کی زندگی کے مسائل اور چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کا راستہ دکھاتی ہے۔ سیاست دانوں کے حوالے سے آپ اسے سیاسی سوچ بھی کہہ سکتے ہیں، جب کہ فکری اساس ایک ایسے فلسفے اور فکر کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف غوروفکر کا منبع اور سرچشمہ ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی ہے۔

فکری اساس تربیت اور گہرے مطالعے سے بنتی ہے۔ تربیت سے مراد گھریلو تربیت اور سکول کی تربیت ہے، جو اساتذہ کی ذاتی توجہ کی محتاج ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ استاد خود بھی صاحب ِ فکر ہو اور اپنی سوچ اور مطالعے کو شاگردوں میں منتقل کرنے کا فن جانتا ہو۔ اگر استاد محض دیہاڑی دار مزدور ہو، مطالعے اور فکر سے محروم ہو، جذبے سے تہی دامن ہو، تو وہ محض رٹ رٹا کر کورس پڑھاتا رہے گا، جس سے شاگرد شدید محنت کر کے امتحانات میں اچھے نمبر تو لے لیں گے، لیکن وہ فکری اساس یا نظریاتی محور سے محروم رہیں گے۔ گھریلو تربیت بھی صرف ان گھروں میں ملتی ہے جہاں والدین کو بچوں کی تربیت کا خیال ہو، والدین اخلاقی قدروں کے عملی نمونہ ہوں اور بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔ جن گھرانوں میں ماں باپ خود اخلاقی قدروں سے بے نیاز ہوں اور عدیم الفرصت ہوں، وہاں بچے کٹی پتنگ کی مانند ہوتے ہیں جن کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اور وہ ہوا میں اُڑتے کسی درخت کی ٹہنی سے اُلجھ جاتے ہیں۔

میرے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے مطابق بچوں کی فکری اساس یا بنیاد ۱۸،۲۰سال کی عمر تک تعمیروتشکیل کے مراحل سے گزرتی ہے اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہیں تو وہ بنیاد مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ کالجوں، یونی ورسٹیوں کے آزاد ماحول میں کسی خاص گروہ کے ہتھے چڑھ جائیں، تو وہ عام طور پر پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ بعدازاں اپنے محور و مرکز کی جانب    لوٹ آتے ہیں، بشرطیکہ ان کی فکری و اخلاقی اساس مضبوطی سے تعمیر کی گئی ہو۔ لیکن اگر اس میں کمزوریاں اور خامیاں زیادہ ہوں، تو وہ اپنے حلقے، دوستوں اور ساتھیوں کے زیراثر اپنے نظریات بدل لیتے ہیں۔ میرے سامنے کتنی ہی مثالیں ہیں کہ جن بچوں کی جوانی تک تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی، جہاں گھر کی فضا پر مذہب کا راج تھا اور والدین کی سخت گیری کی حکمرانی تھی، وہ عام طور پر یونی ورسٹی کی آزاد فضا یا آزاد منش دوستوں کے زیراثر چند ہی برسوں میں مذہب ہی سے باغی ہوگئے۔

اسی سے متعلق ایک دوسری قسم بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مذہبی ماحول اور نظریاتی و تنظیمی گروہ سے فکری اساس لے کر باصلاحیت نوجوان جب عملی زندگی کی دوڑ میں شریک ہوئے، تو کچھ عرصے تک اپنے نظریاتی اصولوں پر قائم رہے۔ اپنے اصولوں کے لیے ایثار بھی کرتے رہے اور اپنے آئیڈیلز کے حصول کے لیے، اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قیدوبند بھی مستقل مزاجی اور جرأت سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن جوں جوں وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھے اور انھیں معاشی دبائو کا سامنا ہوا، تو ان میں سے قلیل تعداد اپنے اصولوں پر قائم رہی، جب کہ اکثریت نے دھیرے دھیرے ’عملیت پسندی‘ کی پالیسی اپنا لی۔ بظاہر آئیڈیلز اور اعلیٰ مقاصد کا دامن بھی تھامے رکھا لیکن معاشی مفادات، حکومتی اثرورسوخ، معاشرے میں اہمیت کے حصول اور دوسرے دنیاداری کے تقاضوںکے تحت سمجھوتے کرنے بھی شروع کر دیے۔

جوانی میں جو باغی بن کر اُبھرے، جوانی ہی میں عملیت پسند بن کر دولت اور شہرت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور بعض تو اس دوڑ کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے خاصی تعداد ان حضرات کی ہے جو صحافت، قلم یا سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور ہماری نگاہوں کے سامنے حق گوئی کا علَم اُٹھائے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر مفادپرستی کی علامت   بن گئے۔ نظریاتی بنیادوں پر حکمرانوں یا جماعتوں پر تنقید کرتے کرتے مفادات کی خاطر انھی کے غیرسرکاری مشیر بن گئے اور دولت میں کھیلنے لگے۔

تاہم، اس کاررواں کے وہ لوگ جو آئیڈیلز، اصولوں اور خوابوں سے وابستہ رہے، عشروں کا سفر طے کرنے کے باوجود مادی پس ماندگی کا شکار رہے یا مالی آسودگی سے محروم رہے۔ گویا مضبوط فکری اساس کے لیے محض گھریلو یا جماعتی اور تنظیمی تربیت ہی کافی نہیں، زندگی کے سفر کے دوران راستہ طے کرنے میں ذاتی کردار اہم ترین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو استقامت، جواں مردی اور عزم کی کتنی دولت ملی ہے، آپ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت اور استقامت ہے، یہ سارے عناصر عملی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

میرے سامنے ایسے لاتعداد محترم حضرات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھوں نے صحافت، سیاست، قلم اور تدریس کے شعبے میں ایک خاص نظریاتی پس منظر یا حوالے سے قدم رکھا۔کچھ پر مذہب کا غلبہ تھا، کچھ اسلامی تنظیموں سے تربیت لے کر آئے تھے اور نظریاتی حوالوں سے دائیں بازو کے زیراثر تھے، اور کچھ لبرل ازم کے ’پروردہ‘ ذاتی زندگی میں ہرقسم کی اخلاقی قدروں سے آزاد تھے، لیکن میری گنہگار آنکھوں نے ان میں سے اکثریت کو بدلتے دیکھا لیکن اقلیت بہرحال اپنے اصولوں اور نظریات پر قائم و دائم رہی۔ جب میں کہتا ہوں ’بدلتے دیکھا‘ تو سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے حق گوئی و بے باکی کے علَم بردار صحافیوں، اہلِ قلم اور سیاسی کارکنوں کو حکومتوں، سیاست دانوں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے کارندے بنتے دیکھا۔ بالآخر دولت کو نظریات پر غالب آتے دیکھا۔ بس فرق صرف ڈگری کا رہا قِسم کا نہیں۔ مراد یہ ہے کہ فرق تھوڑے بہت کا رہا، قسم ایک ہی تھی۔ دیوانے تو فرزانے بنتے رہے لیکن فرزانوں میں سے کسی کو دیوانہ بنتے نہ دیکھا۔ میں نے ایسے نظریاتی حضرات بھی دیکھے جو بعض نظریات، آئیڈیالوجی یافلسفۂ حیات کے پرچارک تھے لیکن ان کی عملی زندگی یا اپنی شخصیت پر ان نظریات کی پرچھائیں بھی موجود نہیں تھی۔

فکری اساس کے حوالے سے یاد رکھیں کہ فکری اساس مکتب کی کرامت، والدین کی بھرپور توجہ سے مزین تربیت اور اپنے طور پر گہرے مطالعے اور غوروخوض سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ نہ تو وراثت میں ملتی ہے اور نہ آسمانوں سے اُترتی ہے۔ ملکوں اور قوموں میں جتنے بھی قابلِ ذکر یا تاریخی انقلابات رُونما ہوئے، وہ سب کے سب اُن لیڈروں کے مرہونِ منت تھے جن کی فکری اساس گہری اور مستحکم تھی۔ مائوزے تنگ ہوں یا چواین لائی، گاندھی ہوں یا ڈاکٹر مارٹن لوتھر، اقبال ہوں یا قائداعظم محمدعلی جناح، ملایشیا کے مہاتیر ہوں یا سنگاپور کے مسٹرلی___ ان سب حضرات کی فکری اساس نہایت مستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر قائم تھی اور فکری، سماجی یا سیاسی انقلاب برپا کرنے میں ان کی فکری اساس یا فلسفے کا اہم کردار تھا۔ فکری اساس سے محروم قیادت ایڈہاک اور وقت گزارنے کی پالیسیوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے۔ اپنے تجربے اور ساتھیوں کے مشورے سے بعض اچھی پالیسیاں بھی بنالیتی ہے لیکن کوئی بنیادی تبدیلی یا ملک و قوم کی زندگی میں انقلاب لانے کی اہل نہیں ہوتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے بعد پاکستان کو ایسی قیادت نصیب نہ ہوئی، جو مضبوط اور بے لوث فکری اساس کی بنیاد پر ملک و قوم کی زندگی میں وہ انقلاب لاسکتی ہو، جس کا سلسلہ اقبال کی شاعری اور پیغام سے شروع ہوا تھا اور جسے قائداعظم نے پروان چڑھایا تھا۔ نتیجے کے طور پر معاشرتی، ذہنی اور سیاسی انقلاب کا وہ سلسلہ جاری نہ رہا جو ارتقائی منازل طے کرتا ہوا پایۂ تکمیل تک پہنچتا۔

اندازِ حکمرانی یا گورننس کے سوتے فکری اساس، نظریات، ذہنی پس منظر اور غوروفکر سے پھوٹتے ہیں لیکن جہاں نہ تو فکری اساس ہو اور نہ پختہ نظریات، وہاں اندازِ حکمرانی ناپاے دار ہونے کے سبب بدلتا رہتا ہے۔ آج ان کا انداز ایک اسلامی ذہن رکھنے والے فرد کے مانند ہے تو     کل روایات سے انحراف کرتے ہوئے نظریاتی تقاضوں سے باغی ہونے کا ثبوت دینے لگے گا۔  گویا آج گورننس کو اسلامی لبادہ اوڑھایا جارہا ہے تو کل گورننس کو لبرل ازم کی خلعت پہنائی جارہی ہوگی۔ یہ رویہ ذہنی و نظریاتی ناپختگی کی چغلی کھاتا ہے۔ سیاست میں ارتقا اور بات ہے اور نظریات سے انحراف بالکل مختلف امر ہے۔ سیاسی ارتقا قائداعظم کی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا علیحدہ وطن کا مطالبہ اسی سیاسی ارتقا کا کرشمہ تھا۔ لیکن فکری اساس اتنی پختہ تھی کہ شروع سے      آخر تک اس میں دراڑیں پڑیں اور نہ وہ اس راستے ہی سے ہٹے۔ بھلا ان کی فکری اساس تھی کیا؟ اول آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنا، اور دوم اسلامی روایات کی پابندی اور یہ پابندی   ان معنوں میں کہ اپنی سیاست اور عوامی زندگی کو اسلام کے اصولوں کا تابع رکھنا۔

اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم نے انگلستان سے واپسی پر سب سے پہلے جن جلسوں میں شرکت کی، وہ عید میلادالنبیؐ کی تقریبات تھیں۔ یاد رہے وہ اس وقت ایک نوجوان تھے۔ دوسرا ثبوت قانون ساز ادارے کا رکن بننے کے بعد مسلمانوں کے لیے وقف الاولاد کی قانون سازی تھی۔ اسی طرح نواب صدیق علی خان لکھتے ہیں: جارج ششم انگلستان کا بادشاہ تھا۔ قائداعظم مذاکرات کے سلسلے میں لندن میں موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ انگلستان کا بادشاہ اپنی کالونی ہندستان کا بھی بادشاہ تصور ہوتا تھا۔بادشاہ کی طرف سے قائداعظم کو ظہرانے کی دعوت موصول ہوئی، جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ قائداعظم نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ آج کل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ یہ رویہ تھا ایک مسلمان کا، جس کی فکری و نظریاتی اساس مستحکم تھی۔ ورنہ کوئی اور مسلمان لیڈر ہوتا تو روزہ قضا کرکے یہ اعزاز حاصل کرنے پہنچ جاتا۔

قائداعظم آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔سیاسی زندگی میں صرف ایک بار ان کو احتجاج کی کال دینا پڑی کیوںکہ یہ گاندھی کی احتجاجی سیاست نے ناگزیر بنادی تھی اور ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے زندگی و موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ بات ہے مائنڈسیٹ کی، لیکن افسوس کہ مجھے پاکستان کی کئی عشروں کی سیاست پر آئینی سوچ کے بجاے احتجاجی اور ہڑتالی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ قانونی و آئینی طریقے اختیار کرنے کے بجاے ہڑتالیں، توڑپھوڑکی ترجیح نظر آتی ہے۔ ایک اور تضاد بھی قابلِ غور ہے: حکومت میں ہوں تو قانون اور ضابطے کی باتیں کرتے ہیں اور اپوزیشن میں ہوں تو ہڑتالوں اور احتجاجی حربوں سے تخت اُلٹنے کی سیاست۔

قائداعظم کی شخصیت کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ وہ اپوزیشن میں بھی قانون اور ضابطے کی تلقین کرتے تھے اور اقتدار میں بھی اسی اصول پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں نے قائداعظم کے سیاسی ورثے سے انحراف یا بغاوت کیوں کی؟ مجھے تو یہ مسئلہ کردار، ذہنی ساخت اور فکری اساس کا لگتا ہے۔ ہماری سیاست میں باتیں اور دعوے کچھ اور کیے جاتے ہیں لیکن عمل بالکل متضاد، یعنی کہ منافقت۔ انتخابی مہم میں سادگی اور حکومتی خرچے گھٹانے کی نوید سنائی جاتی ہے، لیکن اقتدار میں آکر ہمارے حکمران مغل بادشاہوں کے طرزِ حیات کو بھی شرما دیتے ہیں۔ قائداعظم کا کردار ایسی منافقت سے پاک تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

ہمارے وزراے اعظم اور وزرا ہر سال غیرملکی دوروں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ قائداعظم کی قومی خزانے سے محبت، سادگی اور بچت کا کون سا واقعہ سنایا جائے۔ ان کے اے ڈی سی حضرات اور سٹاف کی کتابیں، یادیں اور انٹرویو ہی پڑھ لیجیے۔ فی الحال اتنا ہی سن لیجیے کہ قائداعظم بیمار تھے اور مشرقی پاکستان میں بے چینی کے پیش نظر وہاں جانا چاہتے تھے۔ گورنرجنرل کا سرکاری جہاز ڈیکوٹا نہایت چھوٹا تھا اور اس سفر میں تکلیف دہ تھا۔فائل پر تجویز کیا گیا کہ گورنر جنرل کے دورے کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی سے جہاز کرایے پر لیا جائے۔ اس پر ۵ہزار پونڈ صرف ہوں گے، جو اس وقت کوئی ۸، ۱۰ ہزار روپوں کے برابر تھے۔ قائداعظمؒ نے لکھا: ’’غریب ملک کا خزانہ اتنے خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں گورنر جنرل کے چھوٹے طیارے ہی پر جائوں گا‘‘۔ آج کل ہمارے وزیراعظم اور صدرہائوس کا روزانہ خرچہ لاکھوں اور سالانہ اربوں میں ہے۔

قائداعظمؒ ایک ایک آنے کے خرچ پر نگاہ رکھتے تھے۔ گورنر جنرل کے لیے کراچی کی ایک بیکری سے روزانہ تازہ ڈبل روٹی آتی تھی۔ ایک دن بیکری کے مالک کو محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے فون موصول ہوا کہ آپ ڈبل روٹی بڑی بھیجتے ہیں۔ ہم ایک چوتھائی استعمال کرتے ہیں باقی ضائع ہوجاتی ہے، آیندہ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں۔ بیکری کے مالک نے مؤدبانہ عرض کیا: ’’ہمارے پاس اس سے چھوٹا سانچہ نہیں ہے‘‘۔ مادرِ ملّت نے تجویز کیا کہ: ’’نیا بنوائیں، آپ کے کام آئے گا‘‘۔ اس کے بعد سے گورنر جنرل کو چھوٹی ڈبل روٹی کی سپلائی شروع ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں کے کھانوں، باورچیوں اور متنوع کھانوں کی خواہشات بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں۔ میزپر سجے لاتعداد کھانوں سے پیٹ تو بھر جاتے ہیں لیکن آنکھیں نہیں بھرتیں۔ قائداعظمؒ زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے، ہمارے لیڈر کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔

گورنر جنرل پاکستان کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی کے بقول: قائداعظمؒ نے اپنے لیے ریلوے پھاٹک کھلوانے سے انکار کر دیا، حالانکہ ٹرین آنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور وہ آسانی سے گزر سکتے تھے۔ لیکن قائداعظمؒ نے کہا: قانون سب کے لیے برابر ہے۔ میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔ ہمارے حکمران جدھر جاتے ہیں، خلقِ خدا کی زندگی اجیرن بنادیتے ہیں۔ مریض گاڑیوں میں تڑپتے اور طلبہ اسکولوں سے لیٹ ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ سالانہ امتحان دینے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ ان ’اعلیٰ حاکموں‘کی آمد پر ہر قانون پامال ہوتا ہے۔ قانون کی پامالی قومی رویہ بن گیا ہے۔ کیا آپ ہر طرف افراتفری اور انتشار نہیں دیکھتے؟

مختصر یہ کہ ہماری قوم کئی المیوں کا شکار ہے اور ان میں ایک اہم المیہ، یعنی ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ قوم قائداعظم کے بعد ایسی کرشمہ ساز قیادت سے محروم ہے، جو مستحکم اور گہری فکری اور فلسفے کی مالک ہو اور جو قومی زندگی میں فکری تبدیلی یا انقلاب لانے کی اہل ہو۔ قومی انقلاب ہمیشہ لیڈروں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ قیادت اہل اور مخلص ہو تو قوم کو پستی سے نکال کر بلندی پر لے جاتی ہے اور نہ صرف معاشی بلکہ ذہنی انقلاب بھی برپا کردیتی ہے۔ ہماری قومی زندگی میں اقبال کی شاعری اور قائداعظم کی سیاست نے جس فکری آگہی، بیداری اور تحریک کا آغاز کیا تھا وہ قیامِ پاکستان پر منتج ہوکر پس پردہ چلی گئی، اور ان کے بعد ایسی قیادت نصیب نہ ہوسکی جو اس انقلابی تحریک کو  آگے بڑھا سکتی اور قوم کی ذہنی سمت متعین کرسکتی۔ اس المیے کی بنیادی وجہ وہی تھی کہ ہماری قیادت کسی ٹھوس فکری اساس سے تہی دامن تھی اور آج بھی تہی دامن ہے۔

   سننے اور دیکھنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔بعض چیزیں کتابوں میں پڑھنے کو ضرور ملتی ہیں، مگر ان کی عملی نظیردستیاب ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر قاری اپنے ذہن و دماغ کے مطابق ایک خیالی تصویرذہن میں بنا لیتا ہے اور ان خیالی تصاویر کے مصورین کی مصوری کا ایک جیسا ہونا بھی ناممکن ہوتا ہے ۔

چار شہید بیٹوں کی صابرہ و شاکر ہ ماں حضرت خنسائؓ کی بہادری اور شجاعت کی داستانِ بے بدل تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کو تو ملتی ہے مگر دورِ حاضر میں بھی روے زمین کی مظلوم ترین سر زمین کشمیرمیں ایک ایسا گھرانہ اپنی غربت ،مفلسی مگر خودداری اور حمیت ِ دینی کا نمونہ نظر آتا ہے، جہاں بوڑھے والدین کے کندھوں نے چارمجاہد لخت ِ جگروں کے جنازے اٹھائے ہیں۔

یہ ہے مرحوم لسّہ خان ساکن سونا براری ککر ناگ (اسلام آباد)کا گھر انا۔جن کی وفات ۵مارچ۲۰۱۶ء کو ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔شہید شیخ داؤد(کیموہ ،اسلام آباد) کے بھائیوں سے تعزیت کے بعدمیں اپنے چند دوستوں کے ساتھ لسّہ خانؒ کے گھر تعزیت کے لیے روانہ ہوا۔ماگام سونا براری وسیع ترین پہاڑی علاقہ ہے ۔لسّہ خانؒ کا گھر ایک پہاڑ کے بالکل  دامن میں واقع ہے ۔اس گھر میں اب نہ لسّہ خان ہے نہ اس کے بیٹوں میں سے کوئی ایک ۔یہاں صرف چار شہیدوں کو اپنی گود میں پروان چڑھانے اور جنازے دیکھنے والی صابرہ و شاکرہ ایک بوڑھی ماں، ان کی چھوٹی بیٹی، اس کا شوہر (منظور احمدکچھے)،ان کے تین معصوم بچے اور ایک شہید کے تین معصوم پھول۔ یہ ہے کُل کائنات لسّہ خان کے گھر کی ۔

میرا خیال تھا کہ لسّہ خان ؒ کشمیر کی کسی دینی تنظیم کے رکن ضرور ہوں گے۔ اس لیے انھیں اپنے دینی کارناموں پر ناز ہونا چاہیے۔ مگر میری حیرت اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب لسّہ خان کی بیوہ نے کہا کہ ان کا تعلق کسی بھی دینی یا سیاسی تنظیم سے کبھی بھی نہیں رہا ہے ۔میں نے استفساراً عرض کیا کہ کشمیر کی کسی دینی تنظیم کا یہاں کوئی یونٹ موجود ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیا ۔مجھے اس بات سے یقین ہوا کہ بے نیاز رب اپنے دین کی خدمت کے لیے جب چاہتا ہے سنگلاخ چٹانوں سے چشمۂ شیریں جاری کردیتا ہے ۔

لسّہ خانؒ کی کہانی ایک دو سال کی نہیں بلکہ پورے ۲۸ برس کی ایسی داستان ہے، جس میں ہمیں ایمان،تقویٰ،پہاڑ جیسی استقامت،مروت،ایثار،محبت اور فنا فی اللہ کی سچی تصویر نظر آتی ہے۔    ان کے تینوں بیٹے شہید غلام حسن،شہید مختار احمد اور شہید اعجاز احمد سب مجاہد تھے، جب کہ ایک ۱۳سالہ آخری بیٹا بھی بھارتی فوج کے ہاتھوں نزدیکی جنگل میں شہید ہوا ہے ۔جس پر لسّہ خانؒ کبھی بھی غمگین نہیں ہوا ۔چار شہیدوں کی ماں سے جب میں نے یہ پوچھا کہ کیا آپ کا ۱۳سالہ بیٹا بھی مجاہد تھا تو میرا سوال سنتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور ہچکی لیتے ہو ئے کہا: ’’نہیں، وہ مجاہد نہیں تھا بلکہ جنگل میں بھائیوں کا کھانا لے کر گیا کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز دیر تک سنائی دی۔ گاؤں میں خوف و دہشت کا ماحول طاری تھا۔ فوج نے لسّہ خانؒ کو بلایا تاکہ لاشوں کی شناخت کرسکے۔    ہم نے اُڑتی اُڑتی خبر سنی تھی:’’ آٹھ مجاہد شہید ہوئے ہیں‘‘ ۔ہمیں یقین سا ہوا کہ آج میرا بیٹا اعجاز احمد شہید ہوا ہوگا مگر ہمارے اُوپر بجلی گری جب اعجاز کے برعکس میرے ۱۳سالہ محمد عباس کی لاش تھما دی گئی‘‘۔

بوڑھی اماں کا کہنا تھا کہ: ’’اس روز لسّہ خان بے قابو سا ہوگیا، اس لیے کہ چھوٹو کے سینے کو  بہت ساری گولیوں نے چھلنی کر دیا تھا۔ لسّہ خان اور فوجی افسر کے درمیان اس کی شہادت پر سخت تکرار شروع ہوئی کہ آخر ایک معصوم بچے کو مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ فوجی افسر نے ہاتھ میں بندوق لہراتے ہوئے کہا کہ یہ ہے تیرے معصو م کی بندوق جس سے اس نے فوج پر فائرنگ کی ہے، حالانکہ یہ صریحاً جھوٹی کہانی تھی جس میں رتی بھر صداقت نہیں تھی ۔یہ کہہ کر بوڑھی ماں خاموش ہوگئی۔

    لسّہ خان نے تحریک کے لیے اپنے چار لخت جگروں کی قربانی ہی نہیں دی بلکہ دوبھانجوں کو بھی تحریک کشمیرکے لیے قربان کردیاہے۔ اس کا بھانجا۲۶سالہ حبیب اللہ خان  ولدسبحان خان حزب المجاہدین ہی کے ساتھ وابستہ تھا۔ وہ بھی ایک جھڑپ کے دوران شہید ہو اہے۔

لمبے وقفے کے بعد اعجازاحمد گھر لوٹ آیا، تاہم اسے معلوم نہ تھا کہ فوج نے کئی ماہ سے   ان کے گھر کو ہی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے۔تصور سے بالاتر صورتِ حال نے اعجاز کو خاصا پریشان کردیا۔ وہ کسی جگہ آڑ لینے کے لیے الٹے پاؤں پیچھے ہٹاتو فوج نے فوراًعلاقے کو گھیر لیا۔ فوج نے اعجاز احمدکو سرنڈر کرکے جان بچانے کی پیش کش کی مگر اس نے کسی پس و پیش کے بغیر رد کردی، جھڑپ کا آغاز ہوا جس میں بالآخر اعجاز احمد شہید ہوگیا۔

اس کے کچھ عرصے بعد ایک طویل جھڑپ میں حبیب اللہ بھی شہید ہوا۔اس جھڑپ کے دوران لسّہ خان کا دوسرا گھر اور گاؤ خانہ بھی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پانچ برس کی قلیل مدت میں تین بیٹے اوردو بھانجے کھونے کے بعد لسّہ خان اور ان کی اہلیہ اب چوتھے بیٹے ۲۸سالہ غلام حسن کی سلامتی کی دعائیں کررہے تھے۔ تاہم، اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

اُ م الشہدا کے بقول غلام حسن بھی حزب المجاہدین کے ساتھ ۹۰ کے عشرے میں وابستہ ہواتھا کہ اچانک گرفتار ہوا ۔کئی سال بعد رہائی نصیب ہوئی،پھراس نے شادی کی اور بچے بھی ہوئے تھے۔اپریل۲۰۰۳ء میں جب وہ کام کے بعد گھر لوٹ رہا تھا تو فوج نے اسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ ہلڑ نامی گاؤں لے گئے جہاں اس کا شدید ٹارچر کیاگیا اور بے ہوشی کی حالت میں ایک کھیت میں پھینک دیاگیا۔وہ تین ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہا اور بعد میں جب گھر میں رو بہ صحت ہورہا تھا تو اچانک اپریل۲۰۰۳ء کی ایک شب کے دوران میں فوجی اہلکار اس کے کمرے میں گھس گئے اور وہیں گولیاں مار کر ابدی نیند سُلادیا۔

اُم الشہدا کا کہنا ہے کہ: اس کے شوہر لسّہ خان کو فوج اور پولیس بار بارگرفتار کر کے ٹارچر کرتی تھی جس کے نتیجے میں وہ کئی بیماریوں کے شکار ہو گئے ۔دل،آنکھ اور پھیپھڑوں کی بیماری کی تکلیف وہ عرصۂ دراز سے جھیل رہے تھے مگر آخری تین سال میںوہ بستر تک محدود ہوگئے تھے ۔  ان ساری مشکلات کے باوجود میرے مرحوم شوہر کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے، بلکہ انھیں اپنے بیٹوں کی شہادت پر فخر تھا اور ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ۔ وہ علالت کے باوجود بھی عبادت کرتے رہے۔ وہ تہجد اور تلاوت قرآن کے سخت پابند تھے، حتیٰ کہ عین آخری وقت بھی وہ عبادت میں ہی محوتھے۔

    یہ مصیبتیں مرحوم لسّہ خان نے تنہا نہیں جھیلیں، بلکہ قدم قدم پر ان کی صابرہ و شاکرہ اہلیہ نفیسہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔چار بیٹوں کے شہید باپ کو تشدد کے ذریعے جسمانی عوارض میں مبتلا کردیا گیا۔ جب وہ انھی مصیبتوں اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کا ذکر کر رہی تھیں، تو ان کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔اس واقعے کو یاد کرکے وہ تڑپ اٹھیں جب وہ جنگل گئیں۔ گھر میں شوہر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ بھارتی فوج جنگل سے نفیسہ کو گرفتار کرکے اس حال میں لائی کہ نہ دوپٹہ سر پر رہا اور نہ پاؤں میں پھٹی چپل!کسی طرح لسّہ خان کو اطلاع ہوئی۔ وہ فوراً پہنچے تو ان کی بیوی کو رہا کردیا گیا،  مگر اس رہائی کے بعد وہ دوبارہ سنبھل نہیں پائے۔اس المیہ کا یہی اَلم ناک پہلو نہیں ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں بیٹوں کا انتقام والدین سے لیتی رہیں، بلکہ اپنوں کی بے اعتنائی نے اس درد میں بے پناہ اضافہ کردیا ۔مسلسل چھاپوں میں سرچھپانے کی جگہ کی عدم دستیابی ،اپنوں کے عدم تعاون ،مکان کی مسماری، معصوم اور یتیم بچوں کی دربدری اور تین بیٹوں اور دو بھانجوں کو اپنے ہاتھوں دفنانے اور پھر آخری بیٹے کو گولیوں سے چھلنی دیکھنے کا دل دوز منظر!

پاکستان کے ایک اعلیٰ سول افسر اور دانش ور قدرت اللہ شہاب مرحوم اپنی یادداشتوں شہاب نامہ  میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے ابتدائی دنوں [اکتوبر،نومبر ۱۹۵۸ئ] کے ایک اہم واقعے سے متعلق لکھتے ہیں، جس کا تعلق ہمارے آج سے بہت گہرا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:  اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی اُن کے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات، قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے، اُن میں صرف ’حکومت ِ پاکستان‘ کا حوالہ دیا جارہاہے۔ ’حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا کہیں ذکر نہیں آرہا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فروگزاشت ہوگئی ہوگی، لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگزاشت دُہرائی جارہی ہے، وہ سہواً کم اور التزاماً زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک مختصر نوٹ میں فیلڈمارشل محمد ایوب خان کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارتِ قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورتِ حال کی طرف دلائی جائے اور اُن کو ہدایت کی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی تصحیح کی جائے اور آیندہ اس غلطی کو نہ دُہرایا جائے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹاکر واپس بھیج دیا کرتے تھے، لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک واپس نہ آیا۔ ۵نومبر کی شام میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پر ایوب خان صاحب اپنے چندرفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر بحث کر رہے تھے۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو ایوب صاحب میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لیے کمرے میں آئے اور کہا: ’’تمھیں   غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا ہے کہ ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ سے ’اسلامک‘ کا لفظ نکال دیا جائے‘‘۔ شہاب صاحب نے پوچھا: ’’یہ فیصلہ ہوچکا یا ابھی کرنا ہے؟‘‘ ایوب خان نے کسی قدر غصے سے گھورا اور سخت لہجے میں کہا:  ’’ہاں ہاں، فیصلہ ہوگیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے۔ اس میں دیر نہ ہو‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے…

اگلی صبح قدرت اللہ شہاب نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا، بلکہ اُس کی جگہ ایک نوٹ لکھا، جس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ: ’’پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی، لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے درمیان ریڈکلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطۂ ارضِ اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حدبندی کی یہ لائن معدوم ہوجائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ افغانستان ، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیرباد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہِ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لیے ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو ، اسلام ہماری طرزِ زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لیے نہیں تو اسی چند روزہ زندگی میں خودغرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ہمیں اسلام کی بات ہرحال میں ڈنکے کی چوٹ کرنا ہی پڑے گی، خواہ اس کی دھمک ہمارے حُسنِ سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ ’جمہوریہ پاکستان‘ کے ساتھ ’اسلامک‘ کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرونِ وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[شہاب نامہ، ص۷۱۹، ۷۲۰]

پھر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: ساتھ ہی میں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفا بھی لکھ دیا کہ میرا استعفا منظور کرکے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے… (دوسرے روز) میں اپنے آفس وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ ایوب خان صاحب کے آنے سے پہلے اپنا نوٹ ٹائپ کروا رکھوں گا، لیکن وہاں دیکھا تو وہ پہلے ہی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمرے میں آگئے اور پوچھا: ’ڈرافٹ تیار ہے؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’تیار تو ہے، لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا‘۔ ’کوئی بات نہیں‘۔ انھوں نے کہا: ’ایسے ہی دکھائو‘۔ وہ سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ پڑھنے لگے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر ازسرِنو شروع سے پڑھنے لگے۔ جب پڑھ چکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے: Yes, you are right۔   یہ فقرہ انھوں نے دوبارہ دہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لیے کمرے سے چلے گئے۔ چند روز کے بعد میں کچھ فائلیں لے کر ایوب صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے: ’’کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ’ماڈرن ازم‘ اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں اُن سے کہتا ہوں: Pakistan has no escape from Islam۔ اس کے بعد انھوں نے پے درپے میرے نوٹ کے کئی فقرے بھی دُہرائے۔ [ص ۷۲۱، ۷۲۲]l

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے سامنے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کا مستقبل دھندلا دیا گیا ہے اور دھندلایا جارہا ہے۔ صدر ایوب نے تو ایک غلطی کی جس کو درست کرنے کے سلسلے میں ایک سرکاری افسر نے اپنا فرض ادا کیا، جس پر اللہ تعالیٰ   قدرت اللہ شہاب کو اجرعظیم عطا فرمائے، آمین!۔ لیکن آج پاکستان کو لاالٰہ الا اللہ کے نام پر قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ کے ’وارث‘ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کو ’لبرل‘ اور ’ترقی پسند‘ بنانے کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ اِس دور کے سرکاری افسروں میں تو کسی قدرت اللہ شہاب کا پیدا ہونا شاید ممکن نہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ن لیگ کا کوئی لیڈر نواز شریف کو یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ: ’’وہ لبرل ازم کا نعرہ لگاکر پاکستان کے قیام کے نظریے کی نفی کر رہے ہیں اور اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے رفقا میں سے کوئی اپنی آخرت کے لیے، اور پاکستان کے مستقبل کے لیے نواز شریف کو یہ نکتہ سمجھا نہیں رہا کہ وہ کیسی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس معاملے پر پارٹی کے بڑوں کو وزارت کی قربانی بھی دینی پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔

حزبِ اختلاف کا تو ویسے ہی کوئی حال نہیں ہے۔ پاکستان کو اسلامی آئین اور جوہری بم دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے وارث بلاول زرداری تو خود بھٹو کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کے لیے پیش پیش اور پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکا و یورپ سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے سندھ میں ہولی اور دیوالی پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا اور یہی مطالبہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ کیا امریکا اور یورپ میں عید کے موقعے پر قومی تعطیل ہوتی ہے؟ وہاں تو مسلمانوں کو عید کی چھٹی نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے مذہبی تہوار منانے کے لیے چھٹی دینا دُرست ہے، لیکن ایسے تہواروں کے لیے قومی تعطیل کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پالیسی پر ایک اعلیٰ افسر نے مجھے یہ پیغام بھیجا: ’’یومِ اقبال کی چھٹی ختم اور ہولی اور دیوالی کی چھٹی شروع ہوئی، جب کہ پاکستان میں ہندو ۶ئ۱ فی صد سے بھی کم… یہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ سرحدیں پامال کی جاچکی ہیں… افسوس اب اس قوم کو محض ایک ہجوم سمجھا اور ہجوم بنایا جارہا ہے‘‘۔

اور کیا واقعی پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور پہچان کا معاملہ کوئی چھوٹا مسئلہ ہے؟

کسی بھی نظریاتی مملکت میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہوتا ہے، جو اس کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے ہوں اور اپنی زندگیوں کو اس نظریے کے مطابق ڈھال سکیں۔ پاکستان ان معنوں میں ایک نظریاتی مملکت ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہے، اور یہ [عصرِحاضر] میں اسلام کو زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس لیے پاکستان میں تعلیم کا مقصد     ایسے افراد پیدا کرنا ہے، جو اسلام پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں، یعنی پکّے اور سچے مسلمان ہوں۔

بظاہر یہ ایک سیدھی سادی اور منطقی بات ہے، جس میں کوئی پیچیدگی یا اُلجھائو نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم اس بات پر عملی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو بہت سے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں، جن پر غور کیے بغیر اور ان کا کوئی تشفی بخش جواب سوچے بغیر، ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہم جب اسلام کو عہد ِ جدید کے تقاضوں سے مشروط کرتے ہیں تو   اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا [اکیسویں] صدی عیسوی میں مسلمان ہونا، پندرھویں صدی ہجری میں مسلمان ہونے سے مختلف بات ہے؟ دوسرے لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو [عصرِحاضر] سے تعلق رکھتی ہیں، اور وہ کیا چیزیں ہیں، جو اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر لمحۂ موجود میں ان کا اشتراک کیامعنی رکھتا ہے؟

ہمارے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ظہورِ اسلام سے اب تک ہماری معاشرت بہت کچھ بدلتی رہی ہے۔ اسلام عرب کے قبائلی نظام میں پیدا ہوا تھا اور اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں متعدد معاشروں سے دوچار ہوا۔ ان کے اعتبار سے عرب،عجم، ہندستان،وسطی ایشیا، افریقہ وغیرہ میں مسلمانوں نے کم از کم ظاہری طور پر مختلف شکلیں اختیار کیں۔ اب ان سب ملکوں کی معاشرت میں واضح اور نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام ان تبدیلیوں کے بارے میں کیا رویّہ رکھتا ہے؟شاید یہ سوال ایک مثال سے زیادہ واضح ہوسکے۔

عہدِ جدید سے پہلے پردے کی مختلف شکلیں مسلمان ملکوں اور معاشروں میں رائج تھیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں بھی اس کی ایک مخصوص شکل تھی۔ ہندستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد جب عورتوں میں بے پردگی پھیلی، تو پورے معاشرے میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی اور عورتوں کے پردے سے باہر نکلنے کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے پر جو جدیدیت پسند لوگ بے پردگی کے حامی تھے، انھوں نے ایسے دلائل دینے شروع کیے کہ: ’’برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں جو پردہ رائج تھا وہ تو غیراسلامی تھا اور اس کے مقابلے پر موجودہ بے پردگی ہی اسلامی ہے‘‘۔ یہ بحثیں کچھ عرصے تک زوروشور سے جاری رہیں، لیکن اس کے بعد بے پردگی کے رجحان نے قوت پکڑلی اور معاشرے میں دو طبقات وجود میں آگئے۔ ایک طبقہ اُن لوگوں کا، جو اَب بھی عورتوں کو پردہ کراتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا، جن کی عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔

تاہم، پردہ کرنے والوں میں بھی اب وہ سختی باقی نہیں رہی اور ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا [بقاے باہم کا] نظام وجود میں آیا کہ ماں برقعہ اُوڑھ کر باہر نکلتی ہے تو بیٹی بے پردہ ساتھ ہوتی ہے۔  بہ ظاہر حالات جوں جوں تبدیل ہوتے جارہے ہیں بے پردگی کا رجحان زیادہ تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ اب عملاً تو یہ بے عملی موجود ہے، لیکن نظریاتی طور پر یہ بات کھل کر طے نہیں ہوسکی کہ دونوں طبقات میں کس طبقے کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور کس کا اسلام کے خلاف؟ کم از کم اسلام کے مستند شارحین اس مسئلے پر ویسی بات نہیں کرتے جیسی پہلے کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پچھلے مقتدر نقطۂ نظر کی جگہ ایک خاموش قسم کے سمجھوتے نے لے لی ہے، اور زبان سے صاف طور پر قبولے بغیر بے پردگی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔

یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعے بہت سے دوسرے مسائل کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ عورتوں ہی سے متعلق ایک دوسرا سوال مخلوط تعلیم کا ہے۔ آپ ان مثالوں کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو بہت سے ایسے مسائل نظر آئیں گے، جن میں اسلام کا وہ نقطۂ نظر جو اِن تبدیلیوںکے آغاز میں اختیار کیا گیا تھا، عہدِ حاضر کے رویوں سے متصادم نظر آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ [پہلے والے] نقطۂ نظر کے مطابق ہوگا، یا اس میں ان جدید رویوں کو قبول کرلیا جائے گا، جو خواہ کسی زمانے میں اسلامی نہ سمجھے گئے ہوں، مگر موجودہ زمانے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں قبول یا رائج ہوگئے ہیں؟

اُوپر دی ہوئی وضاحت کی روشنی میں یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی آئے روز نت نئی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس جبر و اختیار کی فضا میں: اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارا رویّہ کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے یا انھیں رد کرنا چاہیے؟ اگر قبول کرنا چاہیے تو اسلام میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر رد کرنا چاہیے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں ویسا رہنا چاہیے جیسے ہم عہدِ حاضر کے آغاز سے پہلے تھے، اور کیا یہ ممکن ہے؟

جہاں تک دین و مذہب کے مستند نمایندوں کا تعلق ہے، ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ انھوں نے ابتدا میں معاشرے میں رُونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے تغیر کی مخالفت کی۔ بالوں کی وضع قطع، لباس، داڑھی کی مقدار، پردہ ، تصویریں کھنچوانا، مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال تک ایسے ہی   بے شمار مسائل پر اختلاف موجود تھا کہ یہ اسلامی ہیں یا غیراسلامی؟ یہاں تک کہ خود جدید تعلیم کا مسئلہ بھی ایک اختلافی مسئلہ تھا۔ بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ خاموشی اور پھر رفتہ رفتہ سمجھوتے کا رویہ اختیار کیا گیا۔

اعتراض یہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اعتراض یہ ہے کہ عملاً اگر کچھ چیزیں ابتدائی مخالفت کے بعد اختیارکرلی گئیں تو اس اصول کو واضح کیوں نہیں کیا گیاکہ جن کے تحت تبدیلیوں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ دین کے شارحین اور علماے کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کی وضاحت کریں کہ معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں اسلام کا رویّہ کیا ہے؟ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروہ جو مذہب سے بھی کچھ شغف رکھتا ہے ’اجتہاد‘ کے اصول پر زور دیتا ہے۔ لیکن جیساکہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارے یہاں ایسے مذہبی مکاتب ِ فکر موجود ہیں، جو ’اجتہاد‘ کے بجاے تقلید کے قائل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان بطور ایک نظریاتی مملکت کے ’اجتہاد‘ کو اپنا اصول بنائے گا یا تقلید کو؟ اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا حق کسے حاصل ہوگا؟ اب تک صورتِ حال یہ رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے انفرادی طو ر پرجو ’اجتہاد‘ کرنا چاہا ہے، علما اور معاشرے کی اکثریت نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’ اجتہاد‘ اگر ہماری ضرورت ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ادارہ کس قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوگا؟ اگر اس کی باگ ڈور علما کے ہاتھ میں ہوگی تو کیا ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو تقلید سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں؟ اگر نہیں تو پھرکیا علما کے تعاون کے بغیر کوئی ’اجتہاد‘ مستند سمجھا جاسکے گا؟

یہ سوال بظاہر تعلیم کے مسئلے سے غیرمتعلق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو تعلیم کے مسئلے سے ان کا براہِ راست تعلق ہے۔ تعلیم کا مقصد اگر سچے اور پکّے مسلمان تیار کرنا ہے، تو ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ایک سچے اور پکّے مسلمان کا ہمارے ذہن میں کیا تصور ہے؟ یعنی وہ ظاہر اور باطن میں کیسا ہوگا؟ اکبر الہ آبادی [م:۱۵فروری ۱۹۲۱ئ]کے الفاظ میں ہم اسے ’مسٹر‘ دیکھنا پسند کریں گے یا ’مولانا‘، یا دونوں کی کوئی ملی جلی شکل؟

ہم نے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو سوال اُٹھائے ہیں، اب تعلیم سے اُن کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا جواب پردے کے بارے میں یہ ہے کہ پردہ ہونا چاہیے تو تعلیم پر اس کے مختلف اثرات نمایاں ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوگا کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے؟ جو نقطۂ نظر پردے کے حق میں ہے، وہ عورتوں کے مخصوص سماجی کردار کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک عورت: ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے خاتونِ خانہ ہے، لیکن معاشرے میں اس کا گھر سے باہر کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نقطۂ نظر سے عورتوں کو ایسی تعلیم نہیں دی جائے گی، جس سے وہ ملازمتوں یا دوسرے پیشوں میں، جہاں مردوں سے اُن کے آزادانہ ربط ضبط کے مواقع ہوں داخل ہوسکیں۔

اسی طرح مردوں کے بارے میں یہ سوال اُٹھایا جائے گا کہ ان کی تعلیم میں سیرت و کردار کی تعمیر کو اوّلین اہمیت دی جائے یا پیشہ ورانہ ہنرمندی کو، یا دونوں کو۔ کچھ عرصہ پہلے جھوٹی گواہی کے مسئلے پر اسلامی نقطۂ نظر سے سفارشات کی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسا ہی مسئلہ خود وکالت کے پیشے کے سلسلے میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ وکالت بطور پیشے کے، جھوٹے مقدمات سے دامن نہیں چھڑا سکتی۔ اب پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا عدالت کا کوئی ایسا نظام پیدا کرنا ہوگا، جس میں وکیل کی ضرورت نہ پڑے یا وکیلوں میں خود ایسی ماہیت ِ قلب کرنی پڑے گی کہ وہ جھوٹے مقدمات کی پیروی نہ کریں؟ اگر ہمارا جواب یہ ہو کہ اسلامی معاشرے میں پیشہ ور وکیل کی ضرورت نہیں ہوگی، تو نظامِ تعلیم میں اس کے مطابق ردّ و بدل کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ضروری ہوگا کہ وکالت کی مخصوص تعلیم ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اس کے بدل کے طور پر ہر طالب ِ علم کو اتنا قانون سکھاناپڑے گا کہ وہ وقت ِ ضرورت اپنے مقدمے کی پیروی خود کرسکے۔

معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک زیادہ گہری بات یہ ہے ،کہ وہ ذہنی تبدیلیوں کا نتیجہ یا سبب بنتی ہیں۔ ذہنی تبدیلی میں خیال، جذبہ اور احساس سب کی تبدیلی شامل ہے۔ ایک ایسا فرد جو بچپن سے مذہبی ماحول میں رہا ہو، ایک ایسے فرد سے مختلف ہوتا ہے ، جو طبعاً آزادانہ ماحول کا تربیت یافتہ ہو۔ اس کی مثالیں آپ عورتوں اور مردوں میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک لڑکی جو پردے میں رہی ہو اور روایتی مشرقی ماحول میں پروان چڑھی ہو، وہ جدید تعلیم و تربیت کے گہوارے میں پلی بڑھی لڑکیوں سے اپنے پورے طرزِ احساس میں مختلف ہوتی ہے اور قطعی مختلف قسم کے معاشرتی رویّے کا اظہار کرتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں کس قسم کے معاشرتی رویوں کو پروان چڑھائیں گے اور تعلیم و تربیت کے ذریعے ان میں سے کون سے رویے کی حوصلہ افزائی کریں گے ؟

ذہنی تبدیلیوں کے سلسلے میں دوسرا اہم سوال خالص نصابی نوعیت رکھتا ہے۔ ایک نوجوان، جس کو تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کے دینی عقائد کی تعلیم دی گئی ہے، وہ اس نوجوان سے مختلف ذہنیت رکھتا ہے جو مثال کے طور پر ڈارون [م:۱۹؍اپریل ۱۸۸۲ئ]کے نظریۂ ارتقا پر یقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب میں ان نظریات اور خیالوں کو شامل کریں گے یا نہیں جو دین کی عام تعلیم سے لگّا نہیں کھاتے؟ یہ نظریہ کہ انسان آدم کی اولاد ہے اور یہ نظریہ کہ انسان بندر سے بنا ہے؟ ہم اپنے بچوں کو دونوں طرح کی باتیں بغیر کسی ترجیح کے سکھاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں تضاد، ثنویت اور کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں بہرحال یہ طے کرنا پڑے گا کہ ایسے علوم جو اسلام سے مختلف تصورات پر قائم ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا رویّہ کیا ہو؟ ایسے علوم پڑھانے سے کیا ہم گریز کریں گے یا ان کے نظریات سکھانے کے باوجود ان کے بارے میں ایک تنقیدی نقطۂ نظر کو پیدا کرنے پر زور دیں گے؟ جن نظریات سے اسلامی سیرت و کردار کی تعلیم پر گہرا اثر پڑسکتا ہے، ان میں بعض نفسیاتی نظریے بھی شامل ہیں۔ ایک طالب علم جو لاشعوری محرکات کے نفسیاتی نظریات سے اثر قبول کرتا ہے، وہ سیرت و کردار کی شعوری تعمیر کے نصب العین سے     ہم آہنگی محسوس نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی تعلیم میں اس بات کو طے کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے نظریات پڑھائیں یا نہ پڑھائیں؟ اگر ہمارا فیصلہ یہ ہو کہ ایسے نظریات کی تعلیم دینا مناسب نہ ہوگا، تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو کس کس علم کی تعلیم نہ دیں؟ دیں تو کس حد تک ، اور اس کے بارے میں ہمارا مجموعی رویّہ کیا ہو؟

ہمارے پُرانے نظامِ تعلیم میں جو فکروعمل کی یک جائی پائی جاتی تھی، اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس نظام کا بنیادی پتھر مذہب تھا۔ اس کے نصاب میں جو کچھ سکھایا جاتا تھا، وہ مذہب کی روشنی میں سکھایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے ہر شعبے کی تشریح و تفسیر، مذہبی نقطۂ نظر ہی سے کی جاتی تھی، اور اگر ایسے علوم کی تعلیم دی بھی جاتی تھی جو مذہب سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے تھے، تو اُن میں مذہبی نقطۂ نظر شامل کر دیا جاتا تھا۔مثال کے طور پر فلسفۂ یونان کی تعلیم تو دی جاتی تھی،  مگر اس کی خالص شکل میں نہیں، بلکہ اُس کے اس جواب کی شکل میں جو مسلمانوں میں ’علم الکلام‘ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اس لیے ایک مسلمان طالب علم، فلسفۂ یونان کے مسائل کو کلامی استدلال کی روشنی میں پڑھتا تھا۔ اب اگر اس اصول کو ہم نئے علوم پر منطبق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں سب سے پہلے مذہب کی روشنی میں ان علوم کا جواب پیش کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے بچوں کو ان علوم کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی تعلیم دے سکیں گے۔

جذباتی باتوں کا تو خیر معاملہ ہی اور ہے، لیکن جو لوگ ٹھوس بنیادوں پر اسلام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے کہ موجودہ زمانہ غالب طور پر ایک  مخالف ِ مذہب زمانہ ہے۔ جدید سائنسی اور معاشرتی علوم اپنی بنیاد میں اگر مذہب دشمن نہیں تو کم از کم غیرمذہبی یا سیکولر ضرور ہیں۔ طبیعیات [Physics] میں ہم پہلا اصول کچھ اس طرح پڑھتے ہیں کہ: ’’’مادّہ‘ [matter] کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ ختم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ دوسری طرف مذہب میں ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ: ’’ہرچیز کا پیدا اور ختم کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔ بالکل اسی طرح نفسیات، بشریات، حیاتیات اور دیگر علوم میں ہمیں بہت سی ایسی باتیں پڑھائی جاتی ہیں، جو مذہبی نقطۂ نظر کے بجاے ایک غیرمذہبی نقطۂ نظر کے حق میں زیادہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر تعلیم کا مقصد سچّے اور پکّے مسلمان پیدا کرنا ہے تو ہمیں یا تو ان علوم کی تعلیم بند کرنی پڑے گی یا پھر ان کے مقابلے پر اسلامی علوم پیدا کرنے ہوں گے۔

ہم اگر اسلام کو علوم کی بنیاد بنانا چاہیں گے، تو ہمیں غیرمذہبی یا سیکولر طبیعیات کے مقابلے پر اسلامی طبیعیات، غیرمذہبی یا سیکولر حیاتیات کے مقابلے پر ایک اسلامی حیاتیات، اور اسی طرح درجہ بہ درجہ دیگر اسلامی علوم پیدا کرنے یا پروان چڑھانے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ سرسیّد احمد خاں [م: ۲۷مارچ ۱۸۹۸ئ] کے زمانے میں کچھ حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے، جو نوجوانوں کو مذہب سے دُور لے جارہے تھے، مثلاً: فلکیات کا نیا علم بظاہر ان عقائد سے متصادم تھا، جو اس وقت ہمارے معاشرے میں رائج تھے۔ زمین کے گول ہونے اور حرکت کرنے کا نظریہ، مادے کے خواص میں تبدیل نہ ہونے کا نظریہ، یہ سب نئے نئے مشہور ہوئے تھے اور یہاں تعلیمی دنیا میں مروجہ تصورات سے متصادم تھے۔

سرسیّد احمد کو ان نظریات کی روشنی میں اسلامی عقائد کی ایک ایسی تاویل پیش کرنی پڑی، جس نے پورے معاشرے میں کہرام برپا کردیا۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے سرسیّد کی تکفیر کی گئی اور عوام میں اُن کو ’نیچری‘ قرار دیا گیا۔ اکثر حلقوں میں ان پر اب بھی یہ اعتراض ہوتا ہے کہ :’’انھوں نے اسلامی عقائد میں جدید سائنس کا پیوند لگایا‘‘۔ یہ بات اگر بُری تھی تو ہمیں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ سائنس سے تصادم کی صورت میں ان عقائد کے بارے میں کیا رویّہ اختیار کیا جائے، جو اَب جدید ذہن کو کسی طرح قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتے؟ جواب شاید یہ ہے کہ سوال کو ذہن میں آنے ہی نہ دیا جائے، لیکن یہ رویّہ چند در چند خطرات سے خالی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر یا تو آپ ایک ایسا ذہن پیدا کریں گے جو جدید ماحول اور اس کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ایک جامد ذہن ہوگا، یا پھر طالب علموں میں خودبخود ایک ناگزیر منافقت کا رویّہ پیدا ہوجائے گا۔ ایسے طالب علم اجتماعی طور پر آپ کے سامنے تو سرتسلیم خم کے رویّے کا اظہار کریں گے، مگر شخصی اور انفرادی طور پر اس پر یقین نہ کریں گے، بلکہ شاید تنفّر اور حقارت کا رویہ اختیار کریں گے۔

ہماری دانست میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ایک طرف تو یہ بات بالکل واضح طور پر سرکاری پالیسی کی بنیاد ہو کہ: اسلام کی وہ کون سی چیزیں ہیں جو جزوِ دین ہیں؟ اور کون سی چیزیں ہیں جو صرف ماحول اور زمانے کے اثر سے کسی خاص وقت میں اسلامی سمجھ لی گئی ہیں؟ جب کہ موجودہ زمانے میں اُن کی validity[اعتبار، صحت] باقی نہیں رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان مسائل سے دوچار ہوکر مسلمان ائمہ فکر نے جو کچھ سوچا ہے، اس میں کتنا حصہ  ہمارے لیے قابلِ قبول ہے اور کتنا حصہ نظرثانی کا محتاج ہے۔کچھ عرصہ پہلے پروفیسر کرّار حسین [م:۷نومبر ۱۹۹۹ئ]اور محمد حسن عسکری [م:۱۸ جنوری ۱۹۷۸ئ] نے مولانا اشرف علی تھانوی [م:۴جولائی ۱۹۴۳ئ]کے ایک رسالے کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا، جس میں مولانا تھانویؒ نے جدید ذہن کے مسائل کی روشنی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بعض اصولوں کی تشریح کی ہے۔ یہ کام ابتدائی نوعیت کا ہے اس لیے موجودہ حالات میں زیادہ کارگر اور مؤثر معلوم نہیں ہوتا۔ بہرحال اصولی طور پر ہمیں ایسے کام کی شدید ضرورت ہوگی اور وہ بھی بڑے پیمانے پر جدید ذہن کے اشکالات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کی قابلِ فہم اور دل لگتی تشریحات کے بغیر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو ایک قدم بھی آگے نہ لے جا پائیں گے۔

پاکستان کو اگر نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے، تو اسے اوّلین اہمیت اسی کام کو دینا پڑے گی اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنے پڑیں گے، جو ایک طرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہوں جو دینِ اسلام کا صحیح اور مستند علم رکھتے ہوں، اور دوسری طرف ایسے لوگوں پر مبنی ہوں جو جدید ذہن کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ ان دونوں کے اشتراک سے اسلام کی ایسی تشریح کی جاسکے گی، جو جدید ضروریات کے مطابق مذہب کو نئے ذہن کے لیے نئی زبان اور نئے طریق استدلال کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے۔یہ کام جتنا زیادہ گہرا اور وسیع ہوگا، اتنی ہی آسانی سے ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد بن سکے گا۔

عفیفۂ کائنات: سیّدہ عائشہ صدیقہؓ، مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۰۴۴۰۱۳-۰۳۲۲۔ صفحات: ۲۳۵۔ قیمت: ۳۲۰ روپے۔

اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ بنت ِ ابوبکر صدیقؓ کو اَزواج النبیؐکے درمیان کئی انفرادیتیں اور اُمت کے اندر کئی امتیازات حاصل ہیں۔ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۲۲۱۰ ہے۔ صرف پانچ اصحاب کی روایات آپؓ سے زیادہ ہیں۔ قرآنِ مجید، سنت ِ نبویؐ ، فقہ و قیاس، کلام و عقائد، تاریخ و ادب، خطابت و شاعری اور اجتہاد و اِفتا میں علم و مہارت کی بناپر سیّدہ عائشہ ؓ تمام اَزواجِ مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ممتاز مقام پر فائز تھیں۔

کتب ِ حدیث کی شروح، اسماء الرجال کے تذکروں، سیرتِ نبویؐ کے مصادر اور تاریخ و سیر کی کتب میں سیّدہ عائشہؓ کے علمی و فقہی کمالات اور ذاتی و شخصی اخلاق و عادات اور اوصاف و خصوصیات کے تذکرے موجود ہیں۔ ان بنیادی مآخذ سے مستفاد بعض بلندپایہ کتب سیّدہ عائشہؓ کے سیروسوانح پر اُردو میں بھی تصنیف ہوئی ہیں۔

فاروقی صاحب نے اس سلسلۂ تحقیق و تالیف کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کتاب محققانہ اسلوب میں تالیف کی ہے۔ اختلافی بحثوں سے اِعراض کرتے ہوئے حقائق کو مرتب کیا ہے۔ سیّدہ عائشہؓ کی زندگی کے علمی و تاریخی پہلوئوں کے ساتھ ذاتی اور شخصی پہلوئوں کو بھی بیان کیا ہے۔ آخر میں روایاتِ سیّدہ عائشہؓ سے ۴۰؍ احادیث کا انتخاب مع مختصر تشریح شامل ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


نگارشاتِ سیرت، سیّد عزیز الرحمن، مرتبین: ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری و حافظ محمد عارف گھانچی۔ ناشر: کتب خانہ سیرت، کھتری مسجد، لی مارکیٹ، صدرٹائون،کراچی۔ فون: ۲۸۳۴۲۴۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۶۸۔ قیمت (اشاعت خاص): ۴۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب سیّد عزیز الرحمن (مدیر: مجلہ السیرہ عالمی)کے اداریوں، مختلف کتب سیرت پر تبصروں، تقاریظ، پیش گفتار، تقدیم اور بعض علمی شخصیتوں کی خدماتِ سیرت پر مضامین کا مجموعہ ہے۔

یہ تمام تحریری لوازمہ ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک کے عرصے میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے جسے چار عنوانات کے تحت زمانی ترتیب سے جمع کر دیا گیا ہے۔ ان نگارشات میں سیرت النبیؐ پر کام کرنے والی معتبر شخصیات کی علمی و تحقیقی کاوشوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں رسائل و جرائد میں محبانِ رسولِ کریمؐ کے کتنے مضامینِ سیرت شائع ہوتے ہیں۔ (ظفرحجازی)


استاد الاساتذہ مولوی محمد شفیع کی علمی و تحقیقی خدمات، مرتب: محمد اکرام چغتائی۔ ناشر: نشریات، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۸۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

کیمبرج کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع عربی و انگریزی میں ایم اے اور عربی زبان و ادب کے جیّد عالم اور محقق تھے۔ شعبۂ عربی اورینٹل کالج لاہور (پنجاب یونی ورسٹی) کے صدر، کالج پرنسپل اور بعدازاں اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ کے اوّلین صدر نشین رہے اور یہ پورا منصوبہ انھی کا تیار کردہ ہے۔

مرتب ’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحقیقی اُمور میں کاملیت پسندی ، اصل تاریخی حقائق تک رسائی کے لیے معتبر مصادر کی چھان پھٹک، محکم روایات کی پیروی، زیرتحقیق مطالعات سے گہری وابستگی، خلوت گزینی، تضیع اوقات سے شدید اجتناب اور عام معمولاتِ زندگی سے ممکن حد تک الگ تھلگ رہنے کا چلن ایسے عوامل ہیں، جن پر مولوی محمد شفیع زندگی بھر سختی سے گامزن رہے‘‘۔

۱۹۵۵ء میں مولوی صاحب کے شاگرد ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنے استاد کی خدمت میں ارمغانِ علمی کا ہدیہ پیش کیا تھا۔ پھر مولوی صاحب کی وفات پر اورینٹل کالج میگزین نے (جس کے وہ بانی مدیر تھے) ان کے لیے ایک گوشہ مرتب کیا۔اب چغتائی صاحب نے مولوی صاحب کی ۵۰ویں برسی کی مناسبت سے زیرنظر مجموعہ تیار کیا ہے، جس میں مذکورہ گوشے کے بعض مضامین کے ساتھ دیگر رسائل میں ان پر شائع ہونے والے مقالات کو یک جا کیا گیا ہے۔

عربی زبان و ادب کے محقق ڈاکٹر مختارالدین احمد (۱۹۲۴ئ-۲۰۱۰ئ) نے ایک بار لکھا تھا: ’’شفیع صاحب جیسا اسکالر متحدہ ہندستان نے پھر کبھی پیدا نہیں کیا۔ افسوس ہے کہ ایسا اسکالرجو علم و ادب کی آبرو تھا، ہم لوگوں نے جلد بھلا دیا۔ پاکستان کی بھی نئی نسل انھیں کیا جانتی ہوگی‘‘۔

یہ مجموعہ مختارالدین احمد کے تاسف کی، ایک حد تک تلافی کرتا ہے۔ مجموعے میں خود  مولوی صاحب کی خودنوشت قسم کی تین تحریریں بھی شامل ہیں۔ مولوی صاحب کے شاگردوں، اُن کے رفقاے کار اور اُن کی معاصر علمی اور ادبی شخصیات میں سے ڈاکٹر وحید مرزا، مولانا فیوض الرحمن،   ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، پیر حسام الدین راشدی، عبدالمجید سالک، جسٹس ایس اے رحمن، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، موہن سنگھ دیوانہ، فیض احمد فیض، سعید نفیسی، دائود رہبر اور غلام حسین ذوالفقار نے انھیں    خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سیرتِ محمدؐ اور عصرِحاضر، میربابرمشتاق۔ ناشر: عثمان پبلی کیشنز، ۱۷-بی، فیض آباد، ماڈل کالونی، کراچی۔ فون: ۲۶۵۹۶۲۵-۰۳۰۵۔صفحات: ۲۷۲۔قیمت: ۳۰۰روپے۔

۴۰عنوانات کے تحت مقامِ مصطفیؐ اور سیرت النبیؐ کی اہمیت سے متعلق چند در چند موضوعات پر قرآن و سنت کی ہدایات کی روشنی میں مختلف تحریریں یک جا کی ہیں۔

کتابوں میں شامل قرآنی آیات اگر بغیر اعراب کے ہوں گی تو تلاوت میں غلطی کا خدشہ ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات کا حوالہ دیتے وقت اعراب لگانے کا اہتمام کیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں کسی بھی آیت پر اعراب نہیں لگائے گئے اور آیت کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ پروف خوانی کی متعدد اغلاط (ص ۲۰۸، ۲۰۹) قاری کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کی آیات غلط لکھی گئی ہیں (ص ۲۷، ۱۵۵، ۲۵۱، ۲۵۹)۔ یہ سخت تکلیف دہ لاپروائی ہے۔ (ظفرحجازی)


قائدکے نام بچوں کے خطوط (۱۹۳۹ئ-۱۹۴۸ئ)، مرتب: ڈاکٹر ندیم شفیق ملک۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: ۵۸۰ روپے۔

یہ کتاب ’معصومانہ وارداتِ قلبی‘ کے اظہار کا ایک خوب صورت نمونہ ہے، مثلاً: جماعت چہارم کا طالب علم لکھتا ہے: ’’جناب قائداعظم صاحب زندہ باد، ایک ماہ کا جیب خرچ تین پیسے ارسالِ خدمت ہے۔الیکشن فنڈ میں جمع کر کے مشکور فرمائیں۔ آپ کا تابع دار فضل الرحمن، طالب علم جماعت چہارم، مدرسہ شاخ نمبر۲، محلہ مفتی ریواڑی، ۱۲۱۸۱۴۵‘‘۔ ایک اور خط: ’’قائداعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اپنے جمع کیے ہوئے سب پیسے جو مجھے میرے ابی جی دیا کرتے ہیں، [آپ کو بھیج دیے ہیں]میں نے سنا ہے کہ آپ ہم کو آزادی لے کر دیں گے۔ میں بڑا ہوکر آپ کے پاس آئوں گا‘‘۔ ضلع کانگڑا سے اورنگ زیب خان نے ۱۱؍اپریل ۱۹۴۶ء کو تقسیم سے متعلق قائداعظم کو کچھ تجاویز بھیجیں جن کے مطابق، اورنگ زیب کے خیال میں کشمیر اور ضلع فیروز پور کو پاکستان میں شامل کیا جاسکتا تھا۔ انھوں نے اپنے خط میں ضلع کانگڑا کے ساتھ ’پاکستان‘ لکھا ہے۔

سبھی خط اس طرح کے جذبات اور ولولوں سے بھرپور ہیں اور اس لیے بہت دل چسپ۔

اگر لیڈر دیانت دار اور مخلص ہو تو بڑے ہی نہیں، بچے بھی ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان خطوں میں حکمرانوں کے لیے بہت کچھ سبق موجود ہیں۔ آج کل کے حکمران بھی اپنے آپ کو بااعتماد بناسکتے ہیں بشرطیکہ اُنھیں سبق حاصل کرنے کی توفیق مل جائے۔ ص۴۶ پر فارسی ضرب المثل غلط لکھی گئی ہے۔ صحیح صورت یہ ہے: ’صبر تلخ است و لیکن برِ شیریں دارد‘۔

کتاب کے ہر طاق صفحے پر قائداعظم کے ساتھ بچوں کے گرو پ فوٹو اور جفت صفحے پر بچیوں کے گروپ فوٹو دیے گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ بچوں کا گروپ فوٹو اصلی ہے اور بچیوں کا نقلی۔ اگر یہ واقعی اصلی ہے تو تعجب ہے کیوں کہ اُس زمانے میں بچیاں اور لڑکیاں (باجماعت) سر سے دوپٹّا نہیں اُتارتی تھیں۔

کتاب کی پیش کش بہت خوب صورت ہے اور متعدد خطوں کے عکس شامل ہیں اور ۱۰۳صفحات کی مجلّد کتاب کی قیمت (۵۸۰روپے) بھی ’معقول‘ سے زیادہ ’معقول‘ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


From Jinnah's Pakistan to Naya Pakistan [جناح کے پاکستان سے نیا پاکستان تک]،ڈاکٹر اقبال ایس حسین۔ ناشر: ہومینیٹی انٹرنیشنل، لندن، لاہور۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

اس کتاب کے سات حصوں میں اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ تبدیلی کا آغاز نظامِ تعلیم سے ہوتا ہے، اس کے بعد ہی تعمیروترقی کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ مصنف قائداعظم کے الفاظ کا تذکرہ کرتے ہیں جو پاکستان کو ’عظیم انقلاب‘ قرار دیتے تھے۔ افسوس،موجودہ پاکستان کی صورت حال قابلِ رحم ہے۔ اسی طرح اُن اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے جو تبدیلی کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ ایسی کتابیں نوجوانوں کی بیداری میں کردارادا کرسکتی ہیں۔ مصنف کے نزدیک تباہی و بربادی کی وجہ قرآن سے دُوری ہے۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست ہی پاکستانی عوام کے لیے بہتر تحفہ ہوسکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


اشاریہ ماہنامہ برہان دہلی، مرتب: محمد شاہد حنیف۔ ناشر: اوراقِ پارینہ پبلشرز۔ملنے کاپتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور فون:۴۱۴۸۵۷۰-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۷۲، قیمت (مجلد، بڑا سائز):۸۰۰ روپے۔

علمی مجلات کے مقالات کی اشاریہ سازی ایک فن کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس اشاریے کے مرتب محمد شاہد حنیف ۵۰ سے زائد علمی، دینی اور تحقیقی مجلات کے اشاریے مرتب کرکے ایک بڑی خدمت انجام دے چکے ہیں۔

زیر نظر اشاریہ ایک ایسے علمی و تحقیقی مجلے کا ہے جس کی شہرت پاک وہند کے ہر صاحب ِ مطالعہ کے علاوہ بیرون ملک بھی دُور دُور پہنچی تھی۔ دہلی کے ادارہ ندوۃ المصنّفین کے تحت مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ اور مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ کے اس علمی، دینی اور تاریخی مجلے کا نام برہان تھا۔ اس میں ۶۳ سالوں میں شائع شدہ بے شمار مقالات سے استفادہ کرنے اور اس تاریخی لوازمے کو    دُنیاے تحقیق کے سامنے لانے کے لیے اشاریے کی ضرورت تھی، جسے مرتب نے احسن انداز سے انجام دیا ہے۔ بُرہان کے اس اشاریے کو بنیادی موضوعات میں تقسیم کرکے ان کے متعلقہ مقالات کی فہرست سازی اس انداز میں کی گئی ہے، کہ اشاریے کی خوبیاں نکھر کر سامنے آگئی ہیں۔ اُمید ہے کہ بُرہان سے استفادے اور تحقیقی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ اشاریہ دینی اور تحقیقی اُمور میں دل چسپی رکھنے والوں کے معاون ثابت ہوگا۔ اس محنت کے لیے محمدشاہد حنیف دعائوں کے مستحق ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)


تعارف کتب

o درسِ قرآن کی تیاری کیسے کریں؟ انجینیر مختار فاروقی۔ ناشر: مکتبہ قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲،  ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر۔ فون: ۷۶۳۰۸۶۱-۰۴۷۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[درسِ قرآن کی تیاری اور اس کے لوازمات کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ قرآن کا موضوع، مرکزی مضامین، مدرس کا اسلوب، اندازِ بیان اور مؤثر درس کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ آخر میں قرآن فہمی کے تین منتخب نصاب بھی دیے گئے ہیں۔ ]

oنماز سے کردار سازی کیسے؟ یاسمین حمید۔ ملنے کا پتا: دفتر تحریک ِ اسلامی، اٹاوہ سوسائٹی، نزدگلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۳۵۰۱۰۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: درج نہیں۔[زیرتبصرہ کتاب میں توجہ دلائی گئی ہے کہ نماز کے الفاظ ہمارے ضمیر کو بیدار کرتے ہیں، ہماری سیرت سازی کرتے ہیں، ایمان و یقین کی دولت سے مالامال کرتے ہیں۔ نماز کیسے بدی کے طوفانوں میں، حق کی راہوں پر ہمارے قدموں کو مضبوط جماتی ہے۔  شرط صرف یہ ہے کہ ہم نماز بے سوچے سمجھے نہ پڑھیں، نماز کے الفاظ کے مدّعا کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور     اپنے قلب و روح میں انھیں جذب کرتے جائیں۔کتاب میں نماز کا حقیقی مدعا و مقصود ، نماز کا دین میں مقام، خشوع و خضوع، تزکیہ و تربیت، مسلمان کی طاقت کا اصل سرچشمہ، صبر اور صلوٰۃ سے مدد، سیرت و کردار سازی اور قائدانہ صلاحیتوں کا فروغ، نماز ایک بہترین تربیتی نظام جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]

o رُوداد مجلس شوریٰ ، چہارم، مرتبہ: شیخ افتخار احمد۔ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ ۴-۳۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔صفحات:۴۴۰، قیمت:۳۷۵ روپے۔[زیرنظر کتاب جماعت اسلامی پاکستان کی مجالس شوریٰ کے اجلاسوں کی کارروائیوں پر مشتمل ہے، جنھیں تاریخ کے ریکارڈ اور قوم کی رہنمائی کے لیے جماعت اسلامی کے موقف کی وضاحت کے لیے بڑا اہم مقام حاصل ہے۔]

o سہ ماہی جہانِ اعصاب(جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ئ)، مدیراعلیٰ: پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر۔ پتا: ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن، آغا خان ہسپتال، اسٹیڈیم روڈ، کراچی۔صفحات:۲۴۔ قیمت:۴۰ روپے۔ [مغربی دنیا کے مقابلے میں مسلم دنیا میں نفسیاتی امراض کا تناسب آج بھی کم ہے۔ تاہم جیسے جیسے مادیت اور مذہب سے دُوری بڑھ رہی ہے ان امراض کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی نے نفسیاتی امراض کی روک تھام کے لیے عوامی آگاہی کے لیے مذکورہ مجلے کا اجرا کیا ہے۔ قارئین کو دماغی، اعصابی اور نفسیاتی امراض سے معلومات اور بچائو کی تدابیر سے جدید تحقیق کی روشنی میں آگاہی دی جائے گی۔ ]

 

ڈاکٹر فضل عظیم ، پشاور

’اشارات‘ (پروفیسرخورشیداحمد) میں ’کرپشن کے خلاف جہاد‘ اور اس سے پہلے نعیم صدیقی ؒ کا خیانت پر تبصرے نے مارچ کے شمارے کو اور زیادہ مؤثر بنادیا۔ فروری ۲۰۱۶ء کے شمارے ’معذور افراد کے حقوق‘ اور عدل کے حوالے سے رسولؐ اللہ کا طرزِعمل، جب کہ مارچ ۲۰۱۶ء کے شمارے میں ’راستے اور   راہی کے حقوق‘ احمد اویس مدنی ایک بہترین انتخاب ہے۔


ڈاکٹر طارق محمود ،ماتلی، بدین

مارچ کے ’اشارات‘ میں لیاقت علی خاں مرحوم کو ذاتی زندگی کے چند قابلِ تحسین واقعات کی بناپر  کلین چٹ دینا مناسب نہیں ہے۔ بطورِ حکمران ان کے متعدد فیصلوں اور رویوں نے مجموعی طور پر پاکستان کو پہلے روز سے مشکلات کے جنگل میں دھکیلا، جو تاریخ کا تلخ باب ہے۔ محترم سیّد منور حسن صاحب نے اپنے خط میں امریکی سامراج کے حوالے سے بجا طور پر اسلامی تحریکوں کے موقف کی نشان دہی کی ہے۔ آج لبرلزم اور  سرمایہ داری کی ظالمانہ یلغار کی مناسبت سے کھل کر اور بغیر لگی لپٹی کے لٹریچر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


محمد شکیل ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

جناب سعادت اللہ حسینی کا مضمون: ’تحریکی لٹریچر، درپیش علمی معرکہ‘ (مارچ ۲۰۱۶ئ) اس امر کا عکاس ہے کہ تحریکِ اسلامی علمی جمود کا شکار نہیں۔ تاہم، مضمون نگار کے یہ الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں: ’’مسئلہ یہ ہے کہ ایمان اور دعوت، انصاف اور تہذیب، شرفِ انسانی کو پروان چڑھانے اور قرآن و سنت سے دنیا کو جوڑنے کے لیے یہ اُمورمرکزیت رکھنے کے باوجود، غالباً ثانوی درجے ہی میں کہیں دُور دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سرے سے نگاہوں سے اوجھل۔ کیا اس صورت میں غالب اور حاکم تہذیب و تمدن کا جواب دینا ممکن ہے؟‘‘ (ص۱۰۱)۔ جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے سیکولرسٹ دانش وروں کو مُسکت جواب دیا ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب جیسے محقق نہ ہوتے تو یہ لوگ اب تک قائداعظم کو سیکولر مبلغ بناچکے ہوتے۔ تاہم، ایسے عناصر باز آنے والے نہیں۔


نمیر حسن مدنی ، اسلام آباد

سعادت اللہ حسینی (مارچ ۲۰۱۶ئ) نے نہ صرف انتہائی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے، بلکہ اس کی  جزئیات تک سے آگاہ کیا ہے ۔ مگر اصل سوال تو یہ ہے کہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کون ہے؟ غالباً ترجیحات میں کہیں اس کا مقام نہیں ہے۔ محترم سیّد منور حسن صاحب نے اپنے خط میں امریکی فیکٹر کی نشان دہی کرکے حالات کی سنگینی کو آشکار کر دیا ہے۔اس پہلو کو نظرانداز کرنا ملّی خودکشی کے مترادف ہوگا۔


بیناحسین خالدی ، صادق آباد

تخفیف ِ آبادی کے موضوع پر افشاں نوید صاحبہ کا مضمون قابلِ غور وفکر ہے۔ ’تحریکِ اسلامی اور فکری چیلنج: چند گزارشات‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے بڑے اہم فکری چیلنج کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ دہریت کا بڑھتا ہوا فتنہ اُمت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اگلے شمارے میں سعادت اللہ حسینی کی پکار پر کون لبیک کہے گا؟


حافظ غلام رسول ، لورالائی

’آخرت میں جواب دہی کی حقیقت‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) میں مولانا مودودیؒ کے درسِ قرآن      سورئہ ذاریات کی آیت: فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًاo (۵۱:۳)’’پھر سُبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں‘‘ کا ترجمہ  درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ ’معذور افراد کے حقوق‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں آخری صفحے پر درج حدیث کے اعراب میں غلطی ہے۔ نیز حوالے میں بھی اِملا کی غلطی بلکہ غلطیاں موجود ہیں، مثلاً کتاب البروالصلہ والادب کے بجاے کتاب البرواصلہ ولادب لکھا ہوا ہے، جو حساس قاری کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ امید ہے کہ توجہ دی جائے گی۔


ڈاکٹر سیّد ظاہر شاہ ،پشاور

’لبرل ازم کیا ہے اور کیا نہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ)کے بارے میں عرض ہے کہ ’لبرل مسلمان‘ ایک گمراہ کن اصطلاح ہے۔ حقیقت میں دنیا میں کوئی بھی انسان لبرل نہیں ہے۔ ایک سچا مسلمان، اللہ کا بندہ اور غلام ہوتا ہے، جب کہ لبرل بہت سارے معبودوں بشمول نفس کا بندہ اور غلام ہوتا ہے۔ قرآن نے بہت احسن طریقے سے ایک مثال سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں، جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟___ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔(الزمر ۳۹:۲۹)۔ اقبالؒ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ وہ ایک سجدہ (اللہ کی بندگی) جس کو تو مشکل سمجھتا ہے، انسان کو ہزار سجدے (مختلف آقائوں کی بندگیوں) سے نجات دیتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان جب اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے تو وہ منافقت کرتا ہے۔ اس لیے کہ انسان ایک وقت میں اللہ کا بندہ ہوگا یا خواہشاتِ نفس اور دوسرے آقائوں کا بندہ۔