اپریل ۲۰۱۶

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اپریل ۲۰۱۶ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا اِکرام کرتا ہے۔(مسند احمد)

اہلِ ایمان اپنے مسلمان بھائیوں سے ان کے ساتھ ایمانی رشتے کے سبب محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت اللہ کی خاطر ہے اور اسی طرح اہلِ ایمان کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنا، ان کے نقصان اور تکلیف کو       اپنا نقصان اور اپنی تکلیف سمجھنا بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔ پھر وہ اہلِ ایمان جو علمِ دین اور تقویٰ اور پرہیزگاری میں دوسروں سے آگے ہوں اور قیادت اور رہنمائی کے مقام پر فائز ہوں، مسلمانوں کو تعلیم دے رہے ہوں، ان کی تربیت کر رہے ہوں، ان کی فلاح و بہبود میں مصروف ہوں، اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں، مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت میں مصروف ہوں۔ جو حکمرانوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کو کرپشن اور سرکاری خزانوں کو لوٹنے سے روک رہے ہوں، ملکی معیشت کو سودی نظام، جوئے، رشوت کی لعنت سے پاک کرنے میں لگے ہوں، اور ان سب کاموں سے بڑھ کر ملک کے اسلامی آئین، اس کی اسلامی دفعات اور قانونِ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے تحریک برپا کریں اور اس کے لیے اُمت کو متحد کرکے پُرامن راے عامہ کے ذریعے ان نیک مقاصد کو حاصل کریں، وہ دوسروں سے بڑھ کر محبت کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے کاموں اور کارناموں کے سبب زیادہ محبت کرنا چاہیے۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اُمت کے کسی آدمی کی کوئی حاجت پوری کرکے اسے خوش کرنا چاہا تو اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا تو اس نے اللہ کو خوش کیا۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کردے گا۔(بیہقی، شعب الایمان)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی خوشی کے کام صرف نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مسلمان بھائیوں کی حاجات اور ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی حاجت لادینی نظام اور لادین اور کرپٹ مافیا کے اقتدارسے نجات ہے۔ لادینی نظام اور لادین حکمرانوں اور کرپٹ مافیا کے سبب لوگ طرح طرح کی تکالیف سے دوچار ہیں۔ ان پر طرح طرح کے مظالم ہورہے ہیں اور ان سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اور عدالتیں ظلم سے بچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن حکومت اور اس کے ادارے تو خود ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں قوم کی ایک بڑی خدمت ظلم کے خاتمے کی جدوجہد ہے۔ اسلامی انقلاب برپا ہوگا تو پھر حکومت اور  اس کے تمام ادارے خلقِ خدا کی خدمت کریں گے۔ عہدے اور مناصب پر فائز ہونے والے، عہدوں اور مناصب سے ناجائز فائدے نہیں اُٹھائیں گے، کرپشن نہیں کریں گے، حق داروں تک ان کا حق ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے۔ عزت والوں کی عزت ہوگی، مظلوموں کی دادرسی ہوگی اور مجرموں کو ان کے جرم کی سزا ملے گی۔ تب چور، لٹیرے، ڈاکو، بدکار اور لوگوں کی عزت لوٹنے والے کرسیِ اقتدار پر نہیں بلکہ جیلوں میں ہوں گے۔ اس طرح معاشرہ بُرائیوں اور مظالم سے پاک اور نیکیوں اور عدل و انصاف سے منور ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے اس کے نتائج اس فضیلت کی حقانیت کی دلیل ہیں۔

o

حضرت خولہ انصاریہؓ کے مطابق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں ان کے لیے آگ ہے۔(بخاری)

جو آدمی آخرت پر عقیدہ رکھتا ہو، جنت اور دوزخ کا قائل ہو وہ جنت کے شوق اور دوزخ کے خوف سے نیک کام کرے گا اور بُرائی سے بچے گا۔ کبھی بھی حرام خوری نہیں کرے گا۔ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر اللہ کے مال میں ناجائز تصرف ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے لوگ جنت اور دوزخ پر عقیدہ نہیں رکھتے۔ زبان سے اگرچہ انکار نہیں کرتے لیکن یہ عقیدہ ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ بے خوف ہیں۔ ملک ان کے ہاتھوں دیوالیہ ہوگیا ہے۔ غریب آدمی د و وقت کی روٹی کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے میں ملک کو کرپٹ لوگوں سے آزاد کرانا ہوگا اور جن لوگوں کا دامن صاف ہے، ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کرنا ہوگی۔ ایسا نہ کیا گیا تو ملک کی سلامتی اور آزادی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

o

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن النواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کذاب کے قاصد بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو انھوں نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: میں ایمان لایا اللہ اور اس کے رسول پر اور فرمایا: اگر میں نے کسی قاصد کو قتل کرنا ہوتا تو تمھیں ضرور قتل کردیتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ سنت اور اسلام کا ضابطہ یہی ہے کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔(مسند احمد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بردباری اور عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ہیں بلکہ آپؐ کی ساری مبارک زندگی اس کی دلیل ہے۔ آپؐ  کی یہی شان اُمت کو وراثت میں ملی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور مجاہدین اسلام نے ہر دور میں اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ آج بھی جب کہ اُمت مسلمہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہو رہا ہے، دو عشروں سے دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی خوں ریزی ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں ظلم سے احتراز کر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض ناسمجھ افراد مظالم سے تنگ آکر ظالموں کی گولیوں کا جواب گولیوں سے دے رہے ہیں لیکن اُمت مسلمہ کی دینی قیادت نے اس ردعمل کی طرف داری نہیں کی۔ دنیا میں عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں اور انھی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوسکتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے راستے پر گام زن ہوں۔ ان کے ہاتھ سے کسی پر ظلم نہ ہو اور ہر کوئی ان کے بارے میں یہی تصور رکھے کہ ان سے ہمیں خیر ہی مل سکتی ہے، شر نہیں۔ پُرامن جدوجہد کے ذریعے بُرائی کو مٹانا اور ظلم سے نجات حاصل کرنا وہ نصب العین ہے جسے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات نے اپنا طریق کار بنایا ہوا ہے۔ یہی طریق کار پُرامن انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اس طریق کار کو اپنا کر ہم ہر بُرائی کا قلع قمع کرسکتے ہیں اور اسی طریق کار کے ذریعے عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرسکیں گے۔ جن لوگوں کے ذریعے کوئی بھی بے گناہ مارا جائے گا مسلمان انھیں اپنی نمایندگی کبھی نہیں دیں گے۔ جو لوگ اسلام دشمنوں اور ظالموں کے آلۂ کار بن کر اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں وہ بہت جلد عوام کی تائید سے محروم ہوجائیں گے۔ آیندہ کے لیے عوام کبھی بھی ان کو اپنے سروں پر مسلط نہیں کریں گے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے  وہ لے آئے۔ لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہوجاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) الگ کرتے، پھر باقی مال کو  تمام مجاہدین میں تقسیم فرما دیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہوجانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا، سنا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کر آئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کر آنا، میں اب تم سے قبول نہیں کرسکتا ۔(ابوداؤد)

اس حدیث پر غور کیجیے، اجتماعی مال کو بروقت پیش کرنا کتنا ضروری ہے۔ وقت پر اگر بالوں کی ایک رسّی بھی کسی کے پاس تھی اور اس نے پیش نہ کی ہو تو اس پر کتنی بڑی مصیبت آجاتی ہے۔ قیامت کے روز کسی چیز کو پیش کرنا اتنی بڑی مصیبت ہے کہ اس سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہے۔ ایک شخص مجاہد ہے، جہاد میں شرکت کرتا ہے، اپنی جان کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس جذبے کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ اس نے میدانِ جنگ میں بھرپور حصہ لیا ہے، مالِ غنیمت بھی جمع کیا ہے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن بالوں کی ایک رسّی رہ گئی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی لحاظ نہیں فرمایا۔ وہ رسّی پیش کر رہا ہے لیکن آپؐ اسے قبول کرنے سے انکار فرما دیتے ہیں۔ تب آج کے دور میں سرکاری خزانے میں سے اربوں، کھربوں لوٹ کر بیرونِ ملک مختلف ممالک کے بنکوں میں اپنے نام یا اپنے بیٹے، بیوی یا بھائی کے نام سے جمع کردینا کتنا بڑا جرم ہے اور پھر اس کی آخرت میں کتنی بڑی سزا ہوگی۔ اور وہاں کون طاقت رکھے گا کہ وہ اربوں کھربوں پیش کرسکے۔ جب ایک مخلص مسلمان اور مجاہد ایک رسّی پیش کرنے سے عاجز ہے تو ان کرپٹ حکمرانوں اورافسروں کا کیا حال ہوگا۔ انھیں آج اس کی فکر کرنا چاہیے اور چند روزہ دنیا کی خاطر اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو برباد نہ کریں۔ اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن نہ بنائیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔