انسانی تاریخ سے مثالیں دینے کے بعد سورۂ ذاریات کے آخر میں آخرت کے حق میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۴۷) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔
عربی زبان میں ید کے معنی صرف ہاتھ کے نہیں ہوتے بلکہ یہ لفظ طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں معاملہ فلاں شخص کے ہاتھ میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی مٹھی میں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اختیار اور طاقت میں ہے۔
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍکا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے پیدا کیا ہے۔ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ’’اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ موسِعون کے کئی معنی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ یہ کام کرسکیں۔ دوسرے معنی موسِع کے وسیع کرنے اور پھیلانے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کا یہ مطلب ہوسکتا تھا کہ ہم وسیع ذرائع رکھنے والے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کا ایک اور تصور بھی پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات صرف یہی نہیں کہ ایک حالت پر جم کر رہ گئی ہے بلکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ پہلے نظریے کے مطابق اس کے اندر وسعت کا مفہوم تھا۔ اگر قدیم زمانے کا نظریہ اپنی جگہ صحیح ہو تو بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اس آسمان کو بنایا ہے، اس کو تخلیق کیا ہے، اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔
یہاں اس کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد دوبارہ اس کو نہیں بنا سکے گا ، اور انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ ان کو پیدا نہیں کرسکے گا، انسانی جسم جب زمین میں بوسیدہ ہوکر ،اس کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا تو اس کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر نہیں ہے، جو شخص یہ خیال رکھتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ کائنات کا نظام کس طرح بنا ہے؟ کس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسے بناسکے؟ اور جس نے اسے بنایا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ انسان کو پیدا کرسکے۔ اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ اس نظام کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے ایک دوسرا نظام بنادے۔
بَنَیْنٰھَاسے مراد صرف ایک عالم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پورا عالمِ بالا ہے جو ہماری زمین کے اُوپر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے مراد پوری کائنات ہے۔ چنانچہ جس کائنات کو ہم نے بنایا ہے ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔ ہم یہ طاقت رکھتے تھے کہ اس کو بنایا اور ہم یہ طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔
وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ o(۵۱ :۴۸) زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔
یعنی زمین کو بچھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ زمین جس طرح سے بنائی گئی ہے، جس طرح سے اس کے اُوپر ایسے مادوں کی سطح جمائی گئی ہے جس کی بدولت اس میں نباتات پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح اس زمین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس پر انسان اور حیوانات وجود میں آسکیں۔ پھر یہاں ہوا کا انتظام کیا گیا ہے، درجۂ حرارت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا ہے، جس طرح نظامِ شمسی میں، اسے سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، جس طرح اس زمین پر جگہ جگہ پہاڑ پیدا کیے گئے ہیں، جگہ جگہ میدان بنائے گئے ہیں اور دریا جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سارا نظام اگر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے اسے بنایا گیا ہے اور اس کرئہ خاکی کو کس طرح اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کے اُوپر زندگی وجود میں آسکے تو اسے اندازہ ہوگا کہ کتنے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جو موجودات ہیں، اس نے ان کو پیدا کیا اور انھیں باقی رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ جتنی مخلوقات زمین میں آتی جاتی ہیں ان کے رزق کا سامان زمین سے نکلتا چلا آتا ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی ہے اس کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ اور جسم میں رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرکے وہ سروسامان پیدا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمدن اور تہذیب کو ترقی دے سکے۔
آدمی میں خدا نے اگر یہ صلاحیت پیدا کی تھی کہ وہ کسی وقت جاکر موٹر بنا دے تو اس نے زمین کے اندر پٹرول بھی مہیا کر رکھا تھا۔ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنایا ہے اگر آدمی اس کو دیکھے تو اسے واقعی معلوم ہوگا کہ بڑا ہی عظیم الشان حکیم تھا اور بڑی ہی زبردست قدرت رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا تھا جس نے اس زمین کو بچھایا اور اس قابل بنایا کہ اس میں مختلف مخلوقات پیدا ہوسکیں۔
اس کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان زمین بنائی ہے اور عالم بالا میں اتنی عظیم الشان کائنات بنائی ہے وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا، اس سے زیادہ تنگ دماغ کا آدمی اور کون ہوسکتا ہے، الا یہ کہ وہ ضد میں مبتلا ہو یا یہ کہ اس کی عقل اتنی تنگ ہو کہ وہ یہ تصور نہ کرسکے کہ جس خدا نے اتنا کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرسکتا ہے۔
وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo(۵۱ :۴۹) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کی پوری کائنات میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ ہر طرف آدمی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں زوجیت کا قانون عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کے مقابلے میں ایک دوسری چیز ایسی رکھی جائے کہ ان کا جوڑ بنے اور ان کے ملنے سے نتائج پیدا ہوں۔
انسانوں میں عورت اور مرد کا جوڑا بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت نسلِ انسانی چل رہی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا گیا ہے جس سے ان کی نسلیں چل رہی ہیں اور ہرنوع کو باقی رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نباتات میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے بنائے ہیں، جن کے ملنے سے ان کی پیداوار ہوتی ہے۔ مختلف عناصر میں ایک دوسرے کا جوڑ ہے اور ان کے ملنے سے ہنگامۂ وجود نظر آرہا ہے۔ یہ سب مختلف عناصر کے ملنے سے ہے۔ بعض عناصر (elements) کے ملنے سے اور جوڑ لگنے سے ہی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض عناصر آپس میں نہیں ملتے تو نئی چیزیں نہیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نیگٹیو اور پازیٹو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اس پوری کائنات کو اگرآدمی دیکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ اس قادرِ مطلق اور حکیم نے اس کائنات میں نئی نئی چیزوں کے بننے میں اور بے شمار اشیا کے وجود میں آنے کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ قانون زوجیت ہے۔ مختلف چیزوں کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے جن کے ملنے سے نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے انتظام پیدا ہوتے ہیں۔
لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر غور کرو تو تمھیں خود معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ موجودہ زندگی کا بھی کوئی جوڑ ہونا چاہیے۔ دنیا کی یہ موجودہ زندگی ایک جنس ہے۔ اگر اس کا دوسرا جنس آخرت نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہوکر رہ جائے۔ تمھیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ قانونِ زوجیت خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ایک آخرت ہو، ورنہ خود یہ دنیا بے نتیجہ رہ جائے گی۔
فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo(۵۱ :۵۰) پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔
یہ تمام دلائل بیان کرنے کے بعد اب فرمایا ہے کہ پس اللہ کی طرف آئو۔ مطلب یہ ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوتا ہے تو اللہ سے بے نیاز اور اللہ کا باغی بنتا ہے۔ آدمی آخرت کا انکار بھی اس بنا پر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا اور جب آخرت کا انکار کرتاہے تو پھر اللہ کا مطیع نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔
اگر ایک انسان محض عقل کا بندہ ہو اور اس کے ساتھ خواہش لگی ہوئی نہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تووہ عقل کی بنا پر نہیں کہتا۔ دنیا کا کوئی فلسفہ اسے یہ نہیں بتاتا۔ کوئی سائنس اسے یہ نہیں بتاتی کہ آخرت نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہوگی تو وہ اس کی کوئی عقلی یا سائنسی دلیل نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آدمی یہاں تک جاسکتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی۔
اب جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تو دراصل اس کا جی نہیں چاہتا کہ آخرت کے ہونے سے اس پر جو اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کو وہ قبول کرے۔ پھر اخلاقی پابندیوں کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو مانے جو اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس قانون کو ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو مانے۔ اس وجہ سے انسان خدا کی بندگی نہیں کرنا چاہتا اور اس کا مطیع بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور جب وہ آخرت کا انکار کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک حالت پر نہیں ٹھیرتا۔ پھر وہ مسلسل گرتا ہے اور جتنا بھی گرتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔
فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo، پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔
اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ ’’دوڑواللہ کی طرف‘‘ تو یہ بات خود اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آخرت کو ماننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے آپ آجاتی ہے، اور آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ ہی انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کیا جا رہا ہے۔ رسولؐ اللہ فرما رہے ہیں کہ:دوڑو اللہ کی طرف۔ میں تو اللہ کی طرف سے تمھارے لیے صاف صاف متنبہ کرنے والا ہوں، یعنی ڈرو اس وقت سے جب وہ آئے۔ قبل اس کے کہ وہ آخرت برپا ہوجائے اور مرنے کے بعد تم جاکر دیکھو کہ جن چیزوں کا تم انکار کرتے تھے وہ یہاں سامنے موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرلو۔
وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo (۵۱:۵۱) اور نہ بنائو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمھارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔
دنیا میں انسان کی طرف سے اللہ کے ساتھ جو بڑی گمراہی رہی ہے، وہ شرک ہے، دہریت نہیں۔ دنیا میں دہریے پہلے بھی براے نام رہے ہیں، آج بھی براے نام ہیں۔ دنیا میں موجودہ زمانے میں دہریوں کی جو بڑی سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس وقت بھی دہریے ایک فی ہزار بھی ہوں گے۔ اصل بُرائی جس میں انسان مبتلا رہا ہے وہ دوسرے الٰہ ہیں۔ کہیں دوسرے انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں زندہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں مُردہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں تاروں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں دریائوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، غرض یہ کہ انسان نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنائے۔ یہی اصل گمراہی ہے۔
اس چیز کا تعلق بھی آخرت کے انکار سے بڑا گہراہے۔ آخرت کا منکر کوئی ایسا سہارا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی دوسری ہستیاں ہوں، تاکہ اگر آخرت ہو جیساکہ انبیاے کرام ؑ اس بات سے برابر مطلع کرتے رہے ہیں، تو وہ اس سے بچ سکے۔ جب سے انسان دنیا میں پایا جاتا ہے، انبیا ؑ بھی آتے رہے ہیں اور انبیا ؑ خبردار کرتے رہے ہیں کہ تمھیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی دوسری زندگی ہوئی اور وہاں جواب دہی کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟ یہ چیز اس بات کا جواز بنتی رہی کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی بنائے جائیں جو انسان کا سہارا بنیں۔ ان کی بندگی کی جائے اور وہ انھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں۔ گویا آخرت کا انکار اس چیز کا ایک بہت بڑا سبب رہا ہے، واحد سبب نہیں ہے، دوسر ے اسباب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ مت بنائو، میں اللہ کی طرف سے تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔
کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o(۵۱ :۵۲) یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔
اسی طرح (یونہی) کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں کوئی چیز ہے۔ یعنی پس منظر میں لوگ رسولؐ اللہ کو کبھی ساحر یا جادوگر کہتے تھے اور کبھی مجنون۔کبھی یہ کہتے تھے کہ ان کے اُوپر کسی جِنّ کا سایہ ہے، یہ دیوانے ہوگئے ہیں (معاذاللہ)اور اس وجہ سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی پختہ دماغ شخصیت ہو اور وہ یہ کہے کہ تمھیں مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بعید از عقل آدمی ہی کھڑے ہوکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ فلاں آستانہ جہاں سے ہماری آج تک مرادیں بَر آتی ہیں وہاں کچھ نہیں ہے، اور سارے کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس چیز کا نتیجہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، یا اگر یہ بات نہیں ہے کہ تم جان بوجھ کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہو تو تم دیوانے ہو۔
کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح سے باتیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہر زمانے میں اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ جو نبی بھی آیا اور اس نے لوگوں کو آکر اس بات سے متنبہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں۔ کوئی ہستی تمھاری قسمت بنانے اور بگاڑنے والی نہیں ہے۔ کوئی دوسری ہستی تمھاری دُعائیں سننے والی اور ان کو قبول کرنے والی نہیں ہے۔ اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، یا یہ دیوانہ ہے۔
اسی طرح جب اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آکر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ’’تمھیں مرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے جانا ہے اور جواب دہی کرنی ہے‘‘ تو جس طرح آج یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ رہے ہیں اسی طرح سے پچھلے انبیا ؑ کو بھی کہتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔
اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o(۵۱ :۵۳) کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتا کرلیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔
اس ایک فقرے میں ایک پوری کی پوری داستان بیان کردی گئی ہے۔ ایک طویل استدلال ہے جو ایک ذرا سے فقرے میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں کچھ طے کیا ہے کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیں گے؟
مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں جن انسانوں نے خدا کے رسولوں کے مقابلے میں گمراہی اختیار کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے، وہ ہر زمانے میں ایک ہی طرح سے دلائل کیوں دیتے رہے؟ ہر زمانے میں لوگ ایک ہی طرح سے بات کیوں کرتے رہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اگلوں اور پچھلوں کی کوئی کانفرنس ہوئی ہو اور جس میں یہ طے ہوا ہو کہ جو نبی ؑ بھی آئے گا تو ہم یہ جواب دیں گے۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ فرعون کی قوم اور قریش نے ایک وقت میں جمع ہوکر یہ طے نہیں کیا تھا کہ فرعون کی قوم بھی کہے کہ موسٰی ؑ ساحر ہیں اور قریش کے لوگ بھی کہیں کہ محمدؐ ساحر ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔آپس میں مل کر یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ مشابہت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہ صدیاں گزرتی جاتی ہیں، ہزاروں برس گزرتے جاتے ہیں، قوم پر قوم ایسی آتی ہے کہ جس کے سامنے نبی آکر وہی ایک بات کہتا ہے اور وہ اس کے سامنے جواب میں وہی ایک رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍo وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(۵۱ : ۵۳-۵۵) نہیں،بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبیؐ، ان سے رُخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔
ابتدا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سردارِ قریش اور ایک ایک گروہ کے پاس جاتے تھے اور جاکر ان کو نصیحت کرتے تھے۔ خاص طور پر آپؐ کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو سمجھاکر درست کیا جائے تاکہ پوری قوم درست ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے منہ پھیرلو تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمھارے اُوپر اب یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کہ یہ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ تم نے ان کو نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی کی۔ نہیں، تم نے حق بات پہنچانے میں اور اپنی بات سمجھانے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ ہمیں تمھاری طرف سے کوئی ملامت نہیں ہے۔انھوں نے سرکشی کا جو فیصلہ کیا ہے، تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں ہے۔
وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ،البتہ نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کلمۂ نصیحت سنانا چھوڑ دو، البتہ خاص طور پر اِن لوگوں کو نصیحت کرنے کی اب حاجت نہیں ہے۔ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ ایک ایک آدمی تک جاکر اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اب تمھارے اُوپر کوئی ملامت نہیں۔ اب عام نصیحت اور عام دعوت تم پھیلاتے چلے جائو۔ جو ایمان لانے والا ہے، اس کے لیے یہ نافع ہوگی۔ یعنی خاص طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا، ایسی حالت میں، جب کہ دعوتِ عام پہنچ چکی ہو، قطعاً غیرضروری ہے۔ دعوت کے آغاز میں خاص خاص لوگوں کو مخاطب کر کے کہ چونکہ وہ قوم کے سردار ہیں، قوم کے بڑے ہیں، ان کے پاس طاقت اور اقتدار ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہیں، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا درست ہے۔ کیوںکہ اگر وہ سمجھ جائیں تو پوری قوم سدھر جائے گی۔ لیکن اگر دعوت عام پھیل چکی ہو، عام طور پر معلوم ہوچکا ہو کہ نبیؐ کیا چاہتے ہیں، خدا کے رسولؐ کاہے کے لیے آئے ہیں، خدا کی کتاب کیا تعلیم دیتی ہے اور یہ ساری باتیں پھیل چکی ہوں اور لوگوں کو معلوم ہوچکا ہو، تو اس کے بعد خاص خاص لوگوں کو مخاطب کرنے کی اب حاجت نہیں رہتی۔
اب دعوتِ عام آدمی پھیلاتا چلا جائے۔ اب تم دعوتِ عام پھیلائو کیوں کہ یہ تذکیر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ دعوتِ عام میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون آدمی ایمان لانے والا ہے اور کون ایمان نہیں لانے والا۔ ان میں جو آدمی ایمان لانے والا ہوگا اس کے لیے یہ تذکیر نافع ہوگی، اور جو آدمی ان میں ایمان لانے والا نہیں ہوگا وہ اپنی گمراہی میں پڑا رہے گا۔ دعوتِ عام پھیلانے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اگر وہ گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اس وجہ سے کہ اس نے دعوت پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے اور ادا کرتا چلا جا رہا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (۵۱ :۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
یہاں خاص طور پر جنوں اور انسانوں کا ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادت کے اصل معنی تو ہیں بندگی اور اطاعت کے، اور یہ عبادت پوری کائنات کر رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ سورج، چاند، زمین، آسمان، پتھر اور درخت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی بندگی نہ کر رہی ہو۔ اللہ کی بندگی سے باہر جانے والی کوئی چیز اس کائنات میں پائی ہی نہیں جاتی۔ اب خاص طور پر یہ فرمایا گیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد سفلی اور پیدایشی عبادت نہیں ہے، بلکہ اختیاری عبادت ہے۔
جِنّ اور انسان دو مخلوقات ایسی ہیں، کم از کم اس زمین کی حد تک پوری کائنات کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں، جنھیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ تمھیں اس کی آزادی ہے کہ اللہ کی بندگی کرنا چاہو تو کرو اور اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو کرو۔ باقی کسی اور مخلوق کو یہ آزادی اور اختیار حاصل ہی نہیں ہے۔ کوئی دریا، پہاڑ اور درخت کافر نہیں ہوسکتا۔ کافر یا انسان ہوسکتا ہے یا جِنّ۔ اس لیے کہ انھیں یہ آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کے اپنے دائرۂ اختیار کا تعلق ہے وہ اللہ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں اور نافرمانی کرنا چاہیں تو نافرمانی کریں۔
اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ پیدا تو ہم کریں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی۔ ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اُن کو رزق دیں اور یہ شکر بجا لائیں دوسروں کا۔ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان کے سارے وجود کی پرورش تو ہم کر رہے ہیں، ان کو وجود میں بھی ہم لائیں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی اور جاکر ماتھا رگڑیں دوسروں کے سامنے، اور اطاعت کریں دوسروں کی اور قانون مانیں دوسروں کا۔ ہم نے انھیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ ہمارے بندے ہیں اور ہماری ہی بندگی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انھیں اختیار دیا ہے اور یہ اختیار ان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ ان کے امتحان کے لیے ہے کہ جہاں ہم ان کو اختیارات دیتے ہیں وہاں یہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں یا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اختیار تو انھیں آزمایش کے لیے دیا گیا ہے۔لیکن اس اختیار کا یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ہماری بندگی چھوڑ کر دوسروں کی بندگی اختیار کرلیں۔ ان کو اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے دوسروں کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔
مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ o اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo(۵۱ :۵۷-۵۸) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔
یہ بندگی اور اطاعت کا مطالبہ اس لیے نہیں ہے کہ اگر یہ عبادت نہیں کریں گے تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بھوکا مرجائے گا، یا اللہ تعالیٰ کی خدائی نہیں چل سکے گی۔ اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کسی رزق یا کسی سہارے کی حاجت ہے۔ رزق دینے والے تو ہم ہیں۔
اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo، اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، وہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے، کسی کا محتاج نہیں۔
یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے، انھیں اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ یعنی ان کا خدا کی مخلوق ہونا خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس خدا کی عبادت کریں جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں ہماری عبادت کرنی چاہیے ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی عبادت کرنے کے ہم محتاج ہیں، ہماری خدائی ان کے عبادت کرنے پر موقوف ہے، یا یہ کہ یہ ہمیں رزق عطا کریں گے تو ہم جئیں گے۔
اس میں ایک لطیف تعریض (چوٹ) مشرکین کے معبودوں پر بھی ہے۔ مشرکین کے جتنے معبود ہیں ان کی خدائی ان کے بندوں کی عبادت کی بدولت چلتی ہے۔ جن انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے، ان کی بندگی کیسے چل رہی ہے؟ ایک فوج ظفر موج ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ پولیس ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کی بدولت ان کی خدائی چل رہی ہے۔ عام لوگ انھیں ٹیکس دے رہے ہیں جن کی بدولت ان کو روپیہ ملتا ہے۔ اگر یہ سب لوگ ان کی اطاعت نہ کریں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کسی آمر کی آمریت نہیں چل سکتی، کسی بادشاہ کی بادشاہی نہیں چل سکتی۔ کسی ایسے طاقت ور شخص کے بارے میں جس کے متعلق آدمی سوچتا ہے کہ یہ بڑا زورآور ہے، اگر وہ قوتیں جن کے بل بوتے پر وہ اپنی خدائی چلا رہا ہے وہی قوتیں اس کے خلاف ہوجائیں تو وہی صاحب خاک اور خون میں لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح سے مُردہ معبود ہیں۔ ان کے مجاورین اور معتقدین دنیا میں چل پھر کر اور دنیا میں دوڑدھوپ کرکے لوگوں کو یہ یقین نہ دلاتے پھریں کہ یہاں سے مرادیں بَر آتی ہیں، یہاں سے بیٹا ملتا ہے، روزگار ملتا ہے، تو کوئی ان کی بندگی کرنے والا نہ ہو۔ اگر لوگ وہاں منّتیں اور نذرانے نہ چڑھانے جائیں تو کوئی ان کا مقبرہ تعمیر کرنے والا نہ ملے۔ جن کے پیچھے دوڑنے والا کوئی نہیں ہے، وہ بھی زمین میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خدائی اُن کی بدولت چل رہی ہے جو ان کے بندے بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں چل رہی۔ اگر اس طرح خدائی چلنے والی ہوتی تو ہرمرنے والا اپنی خدائی چلا رہا ہوتا۔
ایسے ہی دوسرے معبود ہیں جو انسان نے بنا رکھے ہیں۔ کوئی معبود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان نے بنا رکھا ہو اور اس کی خداوندی اپنے عبادت گزاروں کے بغیر نہ چل رہی ہو۔ یہاں بہت سے مندر ہیں جو ہندوئوں کے چھوڑ جانے سے ویران پڑے ہیں۔ اب وہاں کون سی کرامت ہے اور کون ہے جو وہاں گھنٹیاں بجاتا ہے۔ جب تک وہاں گھنٹیاں بجانے والے تھے اس وقت تک ان کی خداوندی چل رہی تھی۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میری خداوندی تمھارے چلانے سے نہیں چلتی۔ دوسروں کی خداوندی تمھارے چڑھاوے چڑھانے، نذرانے دینے اور ان کی بندگی کرنے سے چلتی ہے۔ لیکن مَیں وہ خدا ہوں جو رزق دینے والا ہے۔ میں خود اپنی طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہوں۔ میری خدائی تمھارے رزق دینے سے نہیں چل رہی۔ یہ تمھارے نذرانے چڑھانے کی محتاج نہیں ہے۔
فَاِِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِo (۵۱ :۵۹) پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔
یہاں ظلم سے مراد دوسرے انسانوں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھا دیا جائے پھر نہ سمجھیں تو اس کے معنی ہیں کہ وہ حقیقت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی آدمی متنبہ کرنے والا اور حقیقت بتانے والا ہو، اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ تو ساحر اور مجنون ہے، تو یہ ظلم ہے۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں وہ اپنے خدا کے حق میں دوسروں کی خدائی مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کرکے فاسق بن رہے ہیں۔ یہ سمجھانے والے کی بات نہیں مانتے، اُلٹا اسے ملامت کرتے ہیں، اس کے اُوپر الزامات رکھتے ہیں، تہمتیں دھرتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس طرح کا ظلم کرنے والوں کے نصیب میں عذاب کا حصہ ہے جس طرح کہ ان سے پہلے ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔ یہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں یہ اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی خدائی کو مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کر کے فاسق بن رہے ہیں۔
ذنوب کا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں بڑے ڈول کے لیے ذنوب بولا جاتا ہے۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ یہ اس طرح پیدا ہوا کہ جب کوئی قافلہ کسی مقام پر جاکر اُترتا ہے جہاں پانی یا کوئی کنواں ہو تو اس جگہ قافلے کے پانی دینے والے سقّے ہوتے تھے جو ڈول لے کر ہر ایک کے حصے کا پانی نکالتے جاتے تھے کہ یہ ڈول فلاں کے حصے کا ہے اور یہ ڈول فلاں کے حصے کا۔ اس طرح سے ڈول نکالتے جاتے تھے اور لوگوں کو دیتے جاتے تھے۔
یہاں ذنوبکا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوا ہے کہ ان کے حصے کا بھی ڈول ہے جیساکہ ان سے پہلے والوں کے حصے کا ڈول تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں کو عذاب مل چکا، اِن کے عذاب کا حصہ بھی محفوظ ہے جو انھیں ملنے والا ہے۔ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنَ، ’’یہ جلدی نہ کریں‘‘ یعنی قریش کے لوگ نبی کریم ؐ کو باربار کہتے تھے کہ تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ تو فرمایا گیا کہ جلدی نہ کرو، تمھارا حصہ بھی تیار ہے۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o(۵۱ :۶۰) آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جارہا ہے۔
یعنی اگر اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے، اس دنیا میں پکڑ نہ بھی ہو، تب بھی وہ دن تو آنا ہے جس میں یقینا ہر ایک کی پکڑ ہوگی۔ یہاں سے بچ بھی نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کامیاب ہوگیاکہ سب مزے بھی کیے، ظلم و ستم بھی کیا اور یہاں سے اطمینان سے بخیریت بھی گزر گیا۔ نہیں، ایک دن ضرور ایسا آنا ہے جب اس کے معاوضے میں ہر اس شخص کو جس نے کفر کا رویہ اختیار کیا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)