بعض معترضین کی طرف سے اسلام کے قانونِ وراثت میں عورت کے حصے کو یوں پیش کیا جا تا ہے گویاکہ: عورت کو ایک کم تر مخلوق سمجھ کر اس کے حصے کوآدھا کر دیا گیا ہے، پھر اسی مفروضے کی بنیاد پر اسلام کو بحیثیت مجموعی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔یہ اعتراض نہ صرف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے اُٹھایا جاتا ہے بلکہ یورپی لٹریچر پڑھنے والے مغرب زدہ مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے اس طرح کے اعتراضات کرتے رہتے ہیں ۔ نیز مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز اسی پردے میں اسلام کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتی ہیں۔
بدقسمتی سے قانونِ وراثت کو اسلام کے دوسرے تمام قوانین اور مرد و زن کے حقوق و فرائض سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی مال/جایداد کی تقسیم دو طرح سے ہو سکتی ہے :
۱- جایداد کو مساوی حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور متعلقہ افراد میں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے قطع نظر، مساوات کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سب میں برابر برابرتقسیم کردیاجائے۔
۲- افراد کی ذمہ داریوں کا تعیّن کیا جائے اور پھر ان میں ایک قاعدے کے مطابق مال کی تقسیم کر دی جائے ۔
اب ہم اس اصول کوسامنے رکھ کر سوچیں کہ عورت اور مرد کے درمیان وراثت کی تقسیم کیسے ہونی چاہیے؟
اسلام میں تقسیمِ وراثت کے اصول کی بنیاد اور حکمت کی بظاہر تین وجوہ ہیں :
۱-قرابت اور رشتہ داری
۲- ضرورت اور ذمہ داری (اسلام کی معاشی اور معاشرتی اقدار کے ساتھ مقرر کردہ دائرے میں ذمہ داری)
۳- ارتکاز دولت کی نفی(تقسیمِ دولت)
اس وقت چوںکہ دوسرا نکتہ ہی ہمارے موضوع سے متعلق ہے، اس لیے ہم صرف اسی کی بنیادی حکمت کا ذکر اور چند مثالیں بھی پیش کر یں گے تاکہ اس بات کی کچھ وضاحت ہو جائے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم کس بنیاد پر ہے؟
۱- صاحب ِاولاد بیٹے کی رحلت کی صورت میں ماں (عورت)اور باپ(مرد)کو برابربرابر حصہ (یعنی ۶/۱ حصہ) ملتا ہے اور ماں کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا یا باپ کو مرد ہونے کے ناتے دوگنا حصہ نہیں ملتا۔
سورئہ نساء میں ارشاد ہے: ’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے ۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔ اگر میت صاحب ِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے ۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے ۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)،جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو ، پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے ۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بہ لحاظِ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں ، اور اللہ یقیناسب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے‘‘۔ (النسائ۴:۱۱)
اس آیت میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں بنیادی اکائی (basic unit)عورت کے حصے کو بنایا گیا ہے اور مرد کو اس کا دوگنا دیا گیا ہے۔ گویا اہمیّت اور زور عورت کے حصے پر ہے، جس کو بنیادبنا کر باقی لوگوں کے حصوں کا حساب کیا جائے گا۔یہ بات بذات خود عورت کی حیثیت کو بلند کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ قانون اُس معاشرے کے اندر بیان ہوا، جس میں عورت کی حیثیت بہت ہی کم تر تھی۔ جایداد میں حصہ تو دُور کی بات ہے، اسے توصرف مردکے تصّرف کا ایک کھلونا سمجھا جاتاتھا اور وراثت میں حصہ صرف ان مردوں کو ملتا تھا جو صحت مند اور جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہوتے تھے۔
۲- مرد کی وفات کی صورت میں بیوی(عورت)کو۸/۱ حصہ ملتا ہے، چاہے اس کی جتنی بھی اولاد ہو، مثلاً اگر ۱۰ بیٹے بھی ہوں تب بھی بیوی کوشوہر کے ترکے سے ۸/۱ حصے کی ادایگی کے بعد باقی وِرثہ اس کے بیٹوں (مردوں)میں برابر تقسیم ہوگا۔ گویا بیوی کا حصہ پہلے سے متعین ہے اور باقی جایداد بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگی۔ اس کی بنیاد یہ نہیں رکھی گئی کہ چوںکہ وہ عورت ہے، اس لیے اس کا حصہ بیٹوں کے مقابلے میں آدھا ہوگا، بلکہ تمام دوسرے ورثا سے پہلے اس کا حصہ مقرر کیا گیا ہے جو پوری جایداد سے دیا جاتا ہے۔
۳- اگر میت کی ایک ہی بیٹی ہے اور باقی اولاد نہیں تو اس کو ترکے کا نصف حصہ ملے گا، باقی میت کے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے ورثا میں تقسیم ہوگا۔ نزدیک ترین مرد ورثا (اس صورت میں بھائی) کو بھی میت کی بیٹی کے مقابلے میں زیادہ حصہ نہیں ملتا۔
۴-ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے، جب عورت کو حصہ ملتا ہے مگر مرد کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ مثلاً : جب وارث دوبیٹے،ایک بیٹی،نانا اورنانی ہوں تو نانی کو ۶/۱ حصہ ملتاہے ،جب کہ ناناکوکچھ نہیں ملتا۔
۵- وراثت کی تقسیم اس وقت ہو تی ہے جب کفن دفن، زکوٰۃ، قضا روزوں کا کفارہ، قرض اور مہر وغیرہ سب مکمل طور پر ادا ہوجائیں۔ وراثت میں وہ چیز شامل نہ ہو گی، جو میت نے کسی کو زندگی ہی میں ہبہ (تحفہ)کی ہو اور وہ اس کی ملکیت میں سے نکل چکی ہو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر والدین اپنی زندگی میں جایداد کی تقسیم کرنا چاہیں تو (برخلاف وراثت کے اصول کے جو کہ مرنے کے بعد لاگو ہوتا ہے)وہ جایداد بیٹوںاور بیٹیوں میں برابر برابرتقسیم کریں گے، البتہ کسی بھی بیٹے یا بیٹی کو اپنی صواب دید کے مطابق خدمت کے صلے میں یا کسی اور جائز وجہ سے کم یا زیادہ حصہ دے سکتے ہیں۔
یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کا وراثت میں حصہ اس کی جنس کو کم تر سمجھ کر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ اس کی ایک اہم حکمت عورت اور مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مرد کو صرف وارثت میں حصہ ملتا ہے اور عورت کو نہ صرف وراثت میں حصہ بلکہ حق مہر بھی ملتا ہے اور شوہر کی جایداد اور مال و متاع میں بھی عورت کا حق ہے ۔ عورت ملازمت یا کسی کاروبار کی صورت میں کما رہی ہے تو وہ اگر اپنی مرضی سے شوہر کو اپنی کمائی میں سے کچھ دینا چاہے، اپنے بچّوں پرکچھ خرچ کرنا چاہے، یا گھر میں استعمال کرنا چاہے، تو یہ اس کی اپنی آزادانہ صواب دید پر ہے مگر یہ اس کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ عورت اپنے ذریعۂ معاش کی آمدنی کی خود ہی کلیتاً مالک ہوتی ہے ۔ وہ اگر اپنے سرمایے کو کاروبار میں لگائے تو اس کے نفع کی بھی وہی مستحق ہوتی ہے ۔ اس کی اس ذاتی دولت میں شوہر تک کو تصرف کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے۔عورت اپنی کمائی کی مختارِ کُل ہے اور اس پر شوہر، بچوں یا خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کی کوئی معاشی ذ مہ داری نہیں ہے ۔ یہ سب باپ کے ذمے ہے۔
اسلام عورت کومختلف حیثیتوں سے وراثت میں حصہ دیتا ہے۔ اسلام کے قانون وراثت میں عورت بیوی، ماں، بیٹی اور کئی دوسری حیثیتوں سے وراثت میں حصہ پاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف نہ صرف عورت (بیوی)کی کما ئی میں مر د(شوہر) کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ مکان خریدنے، گھر کا تمام خرچ ادا کرنے ،بیوی اور بچوںکا نان نفقہ،بیوی اور بچوں کے کپڑوں، ان کی تعلیم، نوکروں کی تنخواہوں اور گھر کے دوسرے تمام اخراجات کا ذمہ دار بھی صرف مر د ہی ہے اور عورت پر ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ مطالبہ کرے تو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے شوہر کو نوکر بھی رکھنا پڑے گا (بشرطیکہ وہ اخراجات اُٹھا سکتا ہو)۔حتیٰ کہ اگرعورت کسی وجہ سے اپنے میکے چلی جائے اور شوہر لینے نہ جائے تو وہاں بھی رہنے اور نان نفقہ کے اخراجات شوہر کو ہی ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ طلاق کی صورت میں بھی عدّت کے ایام میں عورت کے اخراجات کی ذمہ داری اسلام شوہرپر ڈالتا ہے اور عدت ختم ہوتے ہی عورت کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے ۔بیوی کو باپ کے گھر لے جانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا بھی شوہر کے ذمے ہے۔
ان اخراجات کے علاوہ مختلف قسم کے معاشی اور معاشرتی اُمور کا سامنا کرنا، تقریبات، جنازے، شادیاں ، صلح وغیرہ اور بے شمار دیگر امورسر انجام دینا بھی مرد کی ذمہ داری ہے اور ان سے متعلق تمام اخراجات بھی اسی کے ذمے ہیں۔
شادی سے پہلے یا بعد میں عورت کے مال اور کمائی پر قانونی حق صرف اسی کا ہے،جب کہ مرد کے مال اور کمائی میں خاندان کے کئی افراد کانہ صرف حق ہے بلکہ مرد پر اس کی ادایگی فرض ہے۔ عورت اگر بیٹی ہے تو معاشی ذمہ داری باپ کی، بہن ہے تو بھائی کی، دونوں میں سے کوئی نہیں تو قریب ترین مردو ں (مثلاً چچا وغیرہ )کی ، ماں ہے تو بیٹوں کی اور بیوی ہے تو شوہر کی۔
ذمہ داریوں کی اس تقسیم کو جاننے کے بعدایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وراثت میں عورت کے مقابلے میں مرد کا حصہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے؟
اسلام جس طرح عورت پر مالی ذمہ داریاں ڈالے بغیر اس کے لیے آمدنی کے اتنے راستے کھولتا ہے اور اس کے سرمایے کے تحفظ کے لیے اتنے اقدامات تجویز کرتا ہے، کیا دنیا کے کسی نظام میں بھی ایسی کوئی مثال ہے؟
اگر کوئی فرد بغیر کسی تعصب کے، دل کی نگاہ سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ بلاتردّد اس بات کو مان لے گا کہ اسلام کے اس قانون پر کسی اعتراض کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر وہ مردوں اور عورتوں کی معاشی، معاشرتی اور دوسری ذمہ داریوں اور پوری صورت حال کو سامنے رکھے تو اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ آجائے گی کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص ذمہ داریوں کی وجہ سے انتظامی بنیاد پر ہے۔ اور وراثت کی یہ تقسیم عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت پر کتنا احسان کیا ہے اور اس کو کتنی اہمیت دی ہے کہ اس پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی مگر پھر بھی اس کے لیے نہ صرف وراثت میں حصہ مقرر کیا، بلکہ اس کے لیے سرمایے کے حصول اور اس کے تحفظ کے کئی ذرائع متعین کیے اور اسے اپنے اس ’محفوظ سرمایے‘ کے استعمال میں کلّی طور پر خود مختار بھی بنا دیا۔ حتیٰ کہ اس کے شوہر پر بھی یہ پابندی لگا دی کہ وہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا سرمایہ استعمال نہیں کر سکتا،جب کہ بیوی ضرورت کے مطابق شوہر کے مال سے خرچ کر نے کی مجاز ہے۔ اس کے باوجود اگر وراثت میں عورت کے حصے پر اعتراض اُٹھایا جائے اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے___ کیا یہ مبنی بر انصاف ہوگا؟