۱- اگرچہ دستور کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن دراصل ملک کا نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور موجودہ فوجی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے کے سلسلے میں دستور سے صرف ناگزیر حد تک انحراف کرے اور عملاً تمام معاملات کو دستور کے مطابق یا اس سے قریب ترین انداز میں طے کرے۔ نیز شخصی آزادی‘ بنیادی حقوق اور عدالتوں کی بالادستی پر کوئی آنچ نہ آنے دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے تمام اقدام و احکام عدالتی محاسبے (judicial review)کی گرفت میں ہوں گے۔
۲- دستور کے تحت کام کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی حقیقی مشکل پیش آئے تو اس مشکل کو رفع کرنے کی حد تک چیف ایگزیکٹو کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوگا‘ مگر وہ کوئی ایسی ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کو متاثرکرے جس میں پارلیمانی نظام‘ فیڈرل نظامِ حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور ریاست کا اسلامی کیریکٹر شامل ہیں۔
۳- ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے تین سال کے اندر اندر نئے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے فوج اپنی بارکوں میں واپس چلی جائے گی اور اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ سول حکومت نظامِ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور دستور کے مطابق کاروبارِ سلطنت چلایا جاسکے۔
اس فیصلے کی اصل روح یہ تھی کہ اقتدار منتخب سول حکومت کو منتقل کر دیا جائے اور فوج کا اصل کام صرف دفاع وطن کی ذمہ داری ہو۔
جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو دستور میں من مانی تبدیلیوں کے جواز کے لیے تو بڑی بے دردی اور بے باکی سے استعمال کیاہے مگر فی الحقیقت اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور انتقالِ اقتدار(transfer of power) کے اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف محدود اشتراکِ اقتدار (power sharing) کا ایک بندوبست وضع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عمل فیصلے کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ جنرل صاحب کی ساری کوشش یہ رہی ہے کہ اصل قوت اور اختیار حسب سابق انھی کے پاس رہے۔ سول نظام کی بحالی ایک ظاہری اور نمایشی عمل سے زیادہ نہ ہو اور قوت اورفیصلوں کا مرکز ان کی ذات اور ان کے معتمد علیہ افراد رہیں۔ اس کے لیے دستور کے ڈھانچے میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں کہ طاقت کی کنجی صرف ان کے ہاتھ میں ہو‘ پھر ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر دستور پر مسلط کر دیا گیا۔اس نے دستوری نظام کا حلیہ ہی بگاڑدیا ہے۔ وہ اپنے لائے ہوئے ایل ایف او سے بھی بڑھ کر عملاً اس طرح پورے نظام پر چھائے ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ انتظامی مشینری سب ان کے تابع مہمل ہے۔ دستور‘ قانون‘ روایات‘ سب کو بالاے طاق رکھ کر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور صرف دھونس‘ ہوس اقتدار اور فوجی قوت کے بل بوتے پر نظام چلایا جا رہا ہے جسے ’’خاکی جمہوریت‘‘ کے سوا کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل صاحب نے بارہا یہ کہا ہے کہ ۱۹۹۹ء سے پہلے ملک ’جعلی جمہوریت‘ (sham democracy) کے دور میں تھا اور اب میں ’حقیقی جمہوریت‘لانا چاہتا ہوں جسے کبھی انھوں نے real democracy (حقیقی جمہوریت)کہا اور کبھی substance of democracy (جوہرجمہوریت)لیکن فی الحقیقت جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا وہ ’جعلی جمہوریت‘ کی ہی بدترین صورت ہے۔خود ان کے مجرم ضمیر نے ایک آدھ بار ان سے اس کا اس طرح اعتراف کرا لیا ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم کے تماشے سے شروع ہونے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے ذریعے صورت پذیر ہونے والے سول نظام کو صرف فوجی حکمرانی کی ایک شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں مجبور ہیں کہ بحالیِ جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کو اولیں اہمیت دیں۔ اس لیے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دستور مکمل طور پر اور اپنی اصل شکل میں بحال ہو‘ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو‘ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی منتخب کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہو‘ عدالتیں خودمختار ہوں اور سیاست میں فوج کا عمل دخل عملاً ختم ہو‘ وہ سول نظام کے ماتحت ہوکر ان حدود کے اندر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جو دستور نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ الیکشن اور پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے ایک سال بعد بھی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں لیگل فریم ورک آرڈر اور جنرل پرویز مشرف کی ضد اصل رکاوٹ ہیں‘ جس نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔
جب تک لیگل فریم ورک آرڈر پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آتا اور پارلیمنٹ اسے ضروری ترمیم کے بعد منظور نہیں کرتی‘ ملک دستوری بحران کی گرفت میں رہے گا‘ سارے دستوری ادارے غیر موثر رہیں گے اور پاکستان جمہوریت اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔
اس پس منظر میں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی‘ ظفراللہ جمالی کی مخلوط حکومت کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے عملی کے نتیجے میں ملک و قوم کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا گیا ہے اور مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک ضائع شدہ سال ہی شمار کرے گا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات اورمنتخب پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے بس اتنا فرق پڑا ہے کہ ملک کھلی فوجی حکومت کی جگہ ایک ’خاکی جمہوریت‘ کے چنگل میں آگیا ہے اور اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی اسے جمہوریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مجبور ہوئی ہیں کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں اور ایک سال میں تقریباً پچاس مرتبہ انھیں اسمبلی اور سینیٹ سے واک آئوٹ کرنا اور پریس کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا پڑا ہے۔ یورپی یونین نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نہ صرف انتخابات خامیوں سے پُر تھے بلکہ ایل ایف او کی وجہ سے پارلیمنٹ با اختیار حیثیت سے محروم ہے۔ دولت مشترکہ نے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مکمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خود جنرل صاحب کے پشت پناہ اور مداح خواں صدر بش بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے جو انھوں نے مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کے بارے میں اپنی نومبر ۲۰۰۳ء کی بدنامِ زمانہ تقریر میں پیش کی ہے۔
بات بہت واضح ہے کسی بھی ملک میں بیک وقت جمہوریت اور فوجی قیادت کی حکمرانی (یعنی مارشل لا) ممکن نہیں۔ کاروبارِ حکومت میں فوج کو بالادستی جمہوریت اور دستوریت (constitutionalism) کی نفی ہے۔فوج کو سول نظام کے تابع ہونا ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالاتر اتھارٹی قائم کرنا ہوگی‘ جو جمہوریت کی روح کو بحال کرنے کی شرط ہے۔ اس پر مہر تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے نے لگا دی ہے جو اس نے نومبر ۲۰۰۳ء میں ایک سرکاری ملازم کے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں دیا ہے اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوری نظام میں دستور اور قواعد و ضوابط کے تحت کسی سرکاری ملازم کو‘ سول یا فوجی‘ سیاست میں حصہ لینے کا اختیار نہیں۔
اس وقت ملک جس کش مکش میں مبتلا ہے اس کی جڑ ’’خاکی جمہوریت‘‘ کا وہ باطل تصور ہے جو کبھی عبوری دور اور کبھی تسلسل کے نام سے ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تعداد نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو ماضی میں سیاست دان فوجی اقتدار کے لیے دست و بازو بن کر کرتے رہے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ کا اصل فرض اور عوام کے منتخب نمایندے ہونے کی حیثیت سے ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور کی بحالی اور سول نظامِ حکمرانی کے قیام کو اولیت دیں۔ سال رواں میں پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکمران الائنس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور محض اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے ایک ایسے مخلوط سیاسی نظام (political hybrid) کو ملک پر مسلط کر دیا ہے جو فوجی حکمرانی کی ایک قبیح شکل ہے اور جس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک سارا نظامِ حکومت شترگربگی کا شکار ہے۔
مشرف جمالی حکومت کے ایک سال پر نظر ڈالی جائے تو اس کا سب سے زیادہ پریشان کن‘ بلکہ اندوہناک پہلو اداروں کی تباہی (structural deformity) ہے جس سے ملک دوچار کر دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ پورا نظام ٹھٹھرا ہوا ہے‘ کسی سمت میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی‘ پارلیمنٹ بالاتر قوتوں کی یرغمال بن گئی ہے اور جنرل مشرف سے لے کر وزیراعظم جمالی تک اس کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسمبلیوں کی برطرفی اور نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات ہر وقت سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پارلیمنٹ اور سول حکومت اپنی بالادستی دستوری اور عملی ہر دو پہلو سے نہیں منوا لیتی۔ حزبِ اختلاف کی جدوجہد اقتدار میں شرکت کے لیے نہیں(اقتدار تو اسے بار بار پیش کیا گیا) بلکہ یہ جدوجہد نظام کو پٹڑی پر لانے کے لیے ہے جس کے بغیر حالات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں اس وقت جو بھی مخدوش حالات ہیں وہ اسی بنیادی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اور جمالی صاحب اور ان کے رفقاے کار نے ملک کو جس بحران میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا ایک بہت ہی اہم اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکمرانی سندِجواز (legitimacy) سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی واضح نہیں کہ کس دستور کے تحت نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور کتنا بحال ہوا ہے‘ ایل ایف او جسے جنرل صاحب اپنے اقتدار کا اصل ستون قرار دے رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دستور کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دستور کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ دستور پر بالاتر دستور (supra constitution) کیسے بن سکتا ہے؟ عدلیہ کس دستور کے تحت کام کر رہی ہے؟
حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اسے دستور کا حصہ تسلیم نہیں کرتیں۔ پوری وکلا برادری اس دھاندلی کے خلاف صف آرا ہے۔ اس باب میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عدلیہ اور قانون دان اور وکلاء ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ مرکز‘ صوبے اور لوکل باڈیز کا نظام سبھی دستوری تحفظ سے محروم ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکمران اور عدلیہ کس دستور کے پابند ہیں اور ان کے دستوری حلف کی کیا حیثیت ہے؟ عدلیہ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے عبوری آئین کے تحت حلف لیا تھا اب اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر ملک کا سیاسی اور قانونی نظام ہی جواز سے محروم ہو اور قوت اور اختیارات کا پورا دروبست ہی مشکوک ہو تو وہ نظام کیسے چل سکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک دستوری انحراف کے دور سے دستور کی بحالی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو دورِ انحراف کے اقدامات کو قانونی جواز (indemnity)پارلیمنٹ کے فیصلے کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہی ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کی دفعات ۲۷۰-۲۶۹ کی شکل میں کیا گیا اور یہی جنرل ضیا الحق مرحوم کے مارشل لاکے بعد ۱۹۸۵ء میں جمہوریت کے احیا کے وقت آٹھویں ترمیم کی شکل میں کیا گیا اور دستور کی دفعہ ۲۷۱ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف اس معاہدے کے باوجود جو ایم ایم اے سے جمالی صاحب کی ٹیم (ایس ایم ظفرکمیٹی) نے کیا اس صاف اور سیدھی بات سے پہلو بچا رہے ہیں اور ملک کے پورے دستوری‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مخدوش بنائے ہوئے ہیں۔ اس سال کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بدستور حل طلب ہے۔ جب تک یہ حل نہیں ہوتا کسی مثبت پیش رفت کی توقع عبث ہے۔
دوسری بنیادی چیز کا تعلق تقسیمِ اختیارات (checks & balances) سے ہے جس کا جنرل صاب موقع بہ موقع ذکر کرتے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد پورے ایک سال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ اختیار اور فیصلوں کا مرکز جنرل صاحب کی ذات ہی ہے اور انھوں نے پورا نظام اس طرح وضع کیا ہے کہ اصل قوت انھیں حاصل رہے‘ باقی سب نمایشی ہے۔ نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر بننے کا دعویٰ کیا جب کہ دستور میں ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی کوئی گنجایش نہیں۔ وہ منتخب صدر نہیں اور عملاً ملک ایک خود مسلط کردہ غیر آئینی صدر کے تحت کام کر رہا ہے۔ پھر انتخابات کو متاثر کرنے اور اس سے بھی پہلے ایک کنگز پارٹی بنانے اور اسے اکثریت دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ کوشش ناکام ہوگئی اور انتخاب میں بھی عوام کے تین چوتھائی ووٹ انھی جماعتوں کو حاصل ہوئے جو جنرل صاحب کے ساتھ نہ تھیں اور سرکاری جماعت کو سادہ اکثریت بھی میسر نہ آئی تو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وفاداریوں کی تبدیلی‘ ضمیر کی خریدوفروخت‘ نیب (NAB) کے بے محابا استعمال کے ذریعے زیرتفتیش ارکان اسمبلیوں کو جن میں سے کچھ پر باہر جانے پر پابندی بھی تھی‘ شامل حکومت کرکے مصنوعی اکثریت حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹس کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس میں ٹوٹنے والے دس ارکان میں سے چھے کو وزارت سے نواز دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بھی طہارت کا اشنان دے کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا اور اس طرح ایک ایسی سیاسی حکومت بنائی گئی جس میں وزیراعظم کو ووٹ اسمبلی میں دیے گئے مگر ان کا انتخاب کسی اور نے کیا۔
وزیراعظم کی کابینہ کا انتخاب بھی وزیراعظم یا پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کام ان کے لیے کسی اور نے کیا بشمول وزارتوں کی تقسیم۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ تو وزیراعظم کی ہے مگر وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے وزیر ان کی بات نہیں سنتے‘ اس کی سنتے ہیں جس نے ان کو وزارت سے نوازا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ’باس‘ کوئی اور ہے حالانکہ پارلیمانی نظام کی روح ہی یہ ہے کہ کابینہ وزیراعظم بناتا ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ قومی سلامتی کے امور ہوں یا خارجہ سیاست کے‘ معاشی و مالی معاملات ہوں یا انتظامی‘ گورنروں کا تقرر ہو یا سول انتظامیہ اور پولیس افسران کا‘ بین الاقوامی معاہدات کا معاملہ ہو یا لوکل گورنمنٹ کے اختیارت اور تنازعات کا‘ سب کا مرجع و مرکزجنرل صاحب کی ذات ہے۔ وہ بیرونِ پاکستان دورے اور معاہدات اس شان سے کرتے ہیں کہ وزیرخارجہ تک ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ صدربش سے ملنے جاتے ہیں تو اپنے معتمد وزیرخزانہ اور دستوری امور کے مشیر شریف الدین پیرزادہ صاحب کو لے کرجاتے ہیں۔ وہ وزیراعظم اور بیرونی سفرا سے فوجی وردی میں ملتے ہیں‘ حتیٰ کہ بیرونی سفروں سے ان کے پروانہ تقرری کی وصولی کی تقریب میں بھی فوجی وردی میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اندازِ حکمرانی کو کون جمہوری قرار دے سکتا ہے جہاں حکمرانی کا منبع فوجی صدارت ہے نہ کہ پارلیمنٹ اور اس کا منتخب کردہ وزیراعظم اور کابینہ۔
ہمیں معاف رکھا جائے اگر یہ کہیں کہ جو انتظامِ حکمرانی جنرل صاحب نے مرتب کیا ہے اور جس کے مطابق وہ عمل کر رہے ہیں اس میں وزیراعظم ایک بھاری بھرکم show piece (محض دکھاوے کی چیز) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمالی صاحب پر بہادر شاہ ظفر کا شبہ ہوتا ہے جو زبانِ حال سے گویا ہے کہ
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اس نظام میں تقسیمِ اختیارات کا کوئی تصور نہیں۔ سب کے لیے صرف تحدیدات (checks) ہیں۔ اقتدار کا سارا سرمایہ صرف ایک فرد کے کھاتے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پورے سال سے ایک تماشائی بنی کھڑی ہے‘ قومی اور عوامی امور پر کوئی بحث‘ کوئی قانون سازی‘ کوئی پالیسی سازی اس کے دامن میں نظر نہیں آتی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا گیا ہے اس کا کچھ اندازہ اس سے کیجیے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انتخابات کے ۴۰ دن کے بعد بلایا گیا تاکہ سرکاری پارٹی کے لیے اکثریت (خواہ وہ ایک ووٹ کی ہو اور وہ ووٹ بھی غالباً اس شخص کا جس کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا تھا اور خود بھی بصدِافسوس تشدد کا نشانہ بن گیا) وضع کرلی جائے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس تو اسی مصلحت کی خاطر ۶۳ دن کے بعد بلایا گیا۔ قومی اسمبلی کو دستوری طور پر سال میں ۱۳۰ دن اجلاس کرنا ہوتا ہے لیکن پہلے ۹ مہینے میں صرف ۵۷ دن اجلاس ہوئے اور آخری تین مہینے میں جیسے تیسے ۸۳ دن بھگتا دیے گئے اور وہ بھی اس طرح کہ ہفتہ میں ۳ دن ایک ایک گھنٹے کا اجلاس ہوتا تھا اور ۴ دن کی چھٹی کو بھی اجلاس کے ایامِ کار میں شمار کرلیا جاتا تھا۔ سینیٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ مارچ میں پہلا سیشن ہوا ہے اور اب ۸مہینے گزر گئے ہیں لیکن سینیٹ صرف ۲۸ دن کے لیے اجلاس میں رہا ہے جن میں عملاً صرف ۱۸ دن کام ہوا ہے اور ۱۸میں ۶دن حزبِ اختلاف کے طلب کرنے پر (requisition) منعقد ہونے تھے اور ایک دن حلف برداری کے لیے تھا۔ گویا حکومت کی طرف سے صرف ۱۱ دن کارروائی ہوئی ہے‘ جب کہ سینیٹ کے لیے بھی دستوری طور پر سال میں ۹۰ دن ملنا ضروری ہے۔
اسمبلی نے پورے سال میں صرف دو بل منظور کیے ہیں جن میں سے ایک فائی نانس بل تھا جسے صرف ۵ دن میں کسی بحث کے بغیر نمٹا دیا گیا جب کہ ماضی میں بجٹ پر معمولاً ۴ ہفتے بحث ہوتی تھی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے ہر سال کے شروع میں ہونا چاہیے‘ جس سے صدر خطاب کرتا ہے اور جسے پارلیمانی سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے آج تک نہیں ہوا۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے وجود میںآنے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کوقائم ہونا چاہیے۔ مالیاتی کمیشن ایک سال کے بعد قائم ہوا ہے اور باقی دونوں دستوری ادارے آج تک نہیں قائم کیے گئے۔ اسمبلی کی مجالس قائمہ کا تقرر (نامکمل اور مشتبہ شکل میں) بارھویں مہینے ہوا ہے اور سینیٹ میں تومجالس قائمہ آج تک قائم ہی نہیں ہوئیں حتیٰ کہ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی جو سارے مالی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ تک نہیں بنی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی جو سب سے طاقتور اور محاسبے کے لیے سب سے اہم کمیٹی ہے‘ اس نے آج تک کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔
ارکان اسمبلی نے ۱۶۰ استحقاق کی قراردادیں داخل کرا رکھی ہیں جن کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے۔ ماضی میں ہر سال پارلیمنٹ نے اوسطاً ۲۸ بل منظور کیے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی نے عملاً کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ حکومت نے تو بل پیش کرنے کی بھی زحمت نہیں فرمائی۔ اگر اسمبلی اور سینیٹ کے order of the day کا مطالعہ کیا جائے تو حکومت کے پاس سرکاری دنوں میں کوئی ایجنڈا ہی نہیںہوتا تھا۔ سینیٹ میںارکان کے نجی بلوں کی تعداد سرکاری بلوں سے کہیں زیادہ ہے‘ گو ان پر بھی کوئی بحث اور فیصلے نہیں ہوسکے۔ قومی اسمبلی میں کورم بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور کم از کم ایک درجن مواقع پر کورم نہ ہونے کے سبب اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۰ ارکان ایسے ہیں جو پورے سال میں غائب رہے ہیں اور اس میں سرفہرست سرکاری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا نام آتا ہے۔
ایک طرف یہ افسوس ناک کارکردگی ہے‘ جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کو الزام دیا جاتا ہے حالانکہ حزبِ اختلاف کے واک آئوٹ کے بعد‘ سرکاری پارٹی کو کام کی کھلی چھٹی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے بیرونی دوروں پر بڑا وقت صرف کیا۔ صرف گذشتہ دو مہینے میں ۳۲ ارکان نے امریکہ کا سفر کیا جس کاڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بلکہ مجرمانہ کارروائی سال کے آخری دن ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہے اور وہ بھی اس غریب ملک میں جس میں آبادی کا ۳۳ سے ۴۰ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ جہاں خودکشی اور فاقہ کشی زندگی کا معمول بن رہے ہیں اور وہ بھی ایسے ارکان پارلیمنٹ کے لیے جن کے اثاثوں کا حال ہی میں جو ریکارڈ شائع ہوا ہے‘ اس کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کروڑپتی ہیں اور بقیہ ۷۰فی صد لکھ پتی۔بمشکل ۵ فی صد ایسے ہیں جو سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے والے ہیں۔
پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ریکارڈنہایت مایوس کن ہے اور اس کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ چشم پوشی ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس پارلیمنٹ نے خود اپنے مقام اور اختیارات سے غفلت برت کر اور ایل ایف او کو زیربحث نہ لا کر اپنی جو تصویر قوم کے سامنے پیش کی ہے وہ بے حد ناقابلِ رشک ہے۔ اس کے ارکان‘ خصوصیت سے سرکاری الائنس سے وابستہ ارکان نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی خاطر اصولی معاملات سے صرفِ نظر کیا۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ دوسری قابلِ گرفت چیز پارلیمنٹ کے ارکان کی اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے اغماض اور محض ذاتی استحقاق اور مالی مراعات میں دلچسپی ہے۔ اسلام میں تو سیاست ایک خدمت ہے لیکن مغربی جمہوریتوں میں بھی ارکانِ اسمبلی ملک و قوم اور اپنے حلقہ انتخاب کی خدمت کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ارکان کی دل چسپی نہ قومی امور سے ہے اور نہ عوام کی خدمت سے بلکہ وہ مراعات میں دل چسپی رکھتے ہیں جو جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل مشرف کی ’’خاکی جمہوریت‘‘ میں یہ خرابی دوچند ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔
اس سال کے جائزے سے جو حیران کن اور تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اس میں صرف حکومت اور پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی ہی نمایاں نہیں بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو ملک میں اداروں کی تباہی (institutional breakdown) اور روایات کی پامالی اس مقام پر پہنچ سکتی ہے جس سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جنرل صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان کے چارسالہ دور کا حاصل یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور سیاست اور سرکاری مداخلت بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قانون اور ضابطے کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدلیہ کا وقار معرض خطر میں ہے۔ ایک طرف عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کش مکش ہے تو دوسری طرف عدلیہ اور وکلا (Bench & Bar) دست و گریباں ہیں اور ان میں کشیدگی اتنی گمبھیر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ کہ پاکستان بار کونسل نے جو بار کا اعلیٰ ترین سرکاری طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہے‘ عدلیہ کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں قرطاس ابیض شائع کیا ہے جس میں عدلیہ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ شرم ناک ہے۔ اس سے زیادہ نظامِ عدل کی زبوں حالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ پارٹیوں کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ بھی وفاداریوں کی خرید و فروخت کے ذریعے۔ اسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان کش مکش ہے۔ مسئلہ پانی کا ہو‘ محصولات کی تقسیم کا ہو‘ سرکاری افسروںکے تقرر اور تبدیلی کا ہو‘ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے اور دلوں کو پھاڑنے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے۔ صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ایسی قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں جو مرکزی اقدامات اور اعلانات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین سرکاری ادارے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ ضلعی نظام کو صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس بے لگام ہو رہی ہے اور جگہ جگہ عوام اور پولیس کا تصادم روز مرہ کا معمول ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کا عفریت بے قابو ہورہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ملک میں جرائم میں دوسو سے تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور پولیس اور حکمران عناصر کا ایک حصہ بھی ان میں ملوث ہے۔ سول ججوں کو جیل خانے میںہلاک کیا جاتا ہے اور مجرم گرفت میں نہیں آتے۔ ڈاکے‘ قتل‘ اجتماعی زیادتیاں‘ تاوان کے لیے اغوا کی بھرمار ہے اور کوئی ظالموں اور قانون کا دامن تار تار کرنے والوں کو گرفت میں لانے والا نہیں۔مسجدیں اور امام بارگاہیں خون سے آلودہ ہیں اور مجرم قانون کی گرفت سے باہر۔ یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے اور اس میں بڑا دخل اس امر کا ہے کہ دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ اگر بڑے بڑے دستور توڑنے والے احتساب سے بالا ہیں تو پھرعام لوگ قانون شکنی میں پیچھے کیوں رہیں؟ اگر ملک کا نظام سندِجواز سے محروم ہے تو پھر عام آدمی اور افسر سے جائز (legitimate)عمل کی توقع کیسے کی جائے؟
اداروں کی تباہی کا ایک نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب فوج اور سول سوسائٹی میں کش مکش اور تصادم کی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بری فال ہیں۔ اوکاڑہ کے مزارعوں سے تصادم‘ جرنیل کی گاڑی کے شیشوں پر سپاہی کے اعتراض کا معاملہ۔ ہم بڑے دکھ سے کہنا چاہتے ہیں کہ فوج جسے پوری قوم کی معتمدعلیہ ہونا چاہیے اور جسے سب کی تائید حاصل ہونا چاہیے وہ بار بار کی سیاسی دراندازیوں اور فوجی حکمرانی کے دور میں سیاست‘معیشت اور انتظامی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب سیاسی اختلاف اور انتظامی بدعنوانیوں کا ہدف بن رہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈھائی سو فوجی افسر انتظامی مشینری میں داخل کیے گئے تو جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۲۷ ہوگئی ہے جو سول نظام کی بحالی اور شدید تنقید کی وجہ سے تبدیلیوں کے باوجود اس وقت ۷۰۰ سے زیادہ ہے‘ جب کہ سول انتظامیہ کے کئی سو افراد اوایس ڈی (’افسر بہ کار خاص‘)اور فارغ خطی کاشکار ہیں۔ فوجی ضرورتوں اور اعزازات کے نام پر زمینوں کے حصول‘ کنٹونمنٹ کے نظام کا سول انتظام سے بالا ہونا اور پھر سابق فوجیوں اور ان کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا معاشی امپائر کی شکل اختیار کرلینا بھی تشویش اور کشیدگی کا باعث ہو رہا ہے۔ ایک گروہ کی نگاہ میں اس طرح فوج کی دفاع کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے اور اس کے کچھ عناصر ایک vested inteestکی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں چیف آف اسٹاف اور صدارت کے عہدوں کا ایک ہی شخص کے پاس ہونا‘ گورنری اور دوسرے اہم مقامات پر سابق فوجیوں کی موجودگی‘ سول انتظامیہ اور سفارتی عہدوں پر ان کا تقرر‘ صنعت‘ بنک کاری‘ تعلیم‘ غرض ہر میدان میں ان کے لیے ایک مخصوص مقام اور حیثیت کا انتظام اور انصرام سول نظام اور ملٹری کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے اور ان میں جوہری تبدیلیوںکا ذریعہ بن رہا ہے جو فوج پر قومی اعتماد‘ اس کی غیرمتنازع حیثیت‘ اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ میں بھی بعد بلکہ ایک طرح کی رقابت (rivalry) کو جنم دے رہا ہے‘ فوج اور پولیس کے تعلقات میں کشیدگی رونما ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر فوج اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اگر جنرل مشرف اور فوج کی قیادت ان زمینی حقائق سے واقف نہیں تو یہ ایک سانحہ ہے اور اگر وہ اب بھی ان حالات کو سدھارنے کی فکر سے غافل ہیں تو یہ فوج اور ملک دونوں کے لیے اپنے دامن میں بڑے خطرات رکھتا ہے۔
ہم پوری دردمندی کے ساتھ فوجی قیادت اور سیاسی عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ملک پہلے ہی بیرونی خطرات اور اندرونی مشکلات میں مبتلا ہے۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے ہی ہم ان خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی اس ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سیاسی جماعتیں‘ وکلا‘ صنعت کار‘ تاجر‘ اساتذہ‘ طلبا‘ غرض ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حق تلفی کے بغیر یہ کام انجام دینا چاہیے۔ اسی میں سب کے لیے خیر ہے۔
دستوری‘ اداراتی اور سیاسی خلفشار اور شتر گربگی کے ساتھ ملک کی معاشی صورت حال بھی دگرگوں نظرآتی ہے۔ اس میدان میں گذشتہ چار سال اور خصوصیت سے پچھلے سال کی کارکردگی مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی منڈیوں میں روپے کی قیمت میں بحیثیت مجموعی استحکام رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں معتدبہ اضافہ ہوا جس نے عالمی منڈی میں پاکستان کی rating کو بہتر بنایا۔ یہ ذخیرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۱ بلین ڈالر سے متجاوز کرگیا جو تقریباً سال بھر کی درآمدات کے مساوی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس مثبت پہلو کا صرف جزوی کریڈٹ حکومت کی پالیسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی میکرو اسٹابی لائی زیشن کا ایک نتیجہ ضرور ہے لیکن اس کے حصول میں بیرونی ترسیلات اور آزاد منڈی سے ڈالر کی خرید (kerb buying) کا بڑا حصہ ہے۔ زرمبادلہ کے ان ذخائر میں اضافہ ملکی پیداوار اور برآمدات میں نمایاں اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں بڑا دخل عالمی حالات اور مرکزی بنک کی زرمبادلہ کے managment کی کارگزاری کا ہے۔ اس کا جزوی طور پر جو کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور جس میں سالِ رواں میں تسلسل کی پالیسی کا بھی عمل دخل ہے‘ اس کے اعتراف میں ہمیں کوئی باک نہیں‘ لیکن جو پہلو بہت ہی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی حقیقی فائدہ عوام کو نہیں ملا۔
بیرونی قرضوں کے باب میں مرکزی حکومت کو ریلیف ضرور ملا مگر ملک میں غربت میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ واضح اضافہ ہوا ہے جس پر شماریات کی اُلٹ پھیر(jugglery) سے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس پر گواہ ہے۔ غربت جس کی گرفت میں ۱۵سال پہلے آبادی کا صرف ۲۰ فی صد تھا اب وہ ۳۳ فی صد ہوگیا ہے اور آزاد معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ ۴۰ فی صد سے کم نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۴ کروڑ آبادی میں ۵ سے ۶کروڑ انسان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰۰۳ء جو ابھی شائع ہوئی ہے اس میں عالمی برادری میں ہماری غربت کی پوزیشن اور بھی نیچے چلی گئی ہے اور اب ہمارا مقام ۱۳۸ سے کم ہو کر ۱۴۴ پر آگیا ہے۔بے روزگاری میں بھی ۴۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت ہے اور لوگ خودکشی کا الم ناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی برابر جاری ہے۔ اس ایک سال میں پیٹرول و تیل کی قیمتوں میں ۲۱ بار اضافہ اور صرف تین بار کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر تیل کی قیمت میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کا ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر مستزاد زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح پر بدعنوانی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کرپشن میں اضافے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ حکومت کے سارے دعووں کے باوجود بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اضمحلال کے شکار معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کی کوئی موثر کوشش سامنے آئی ہے۔ خواہ نظری طور پرModis' rating میں اضافہ ہو گیا ہو مگر عملاً بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری ۱۹۹۰ء کے عشرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ خود۲۰۰۱-۲۰۰۲ء کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تازہ ترین تبصرہ کی رو سے اس کی بڑی وجہ وہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے جس میں ملک مبتلا ہے:
غیریقینی قومی اور علاقائی صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کی سطح کم رہی ہے۔ اس کا ایک عنصر غیریقینی سیاسی منظر ہے لیکن سرمایہ کاری کی عمومی فضا کے خراب معاشی اور ادارتی پہلوئوں نے بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۵ نومبر۲۰۰۳ئ)
بنک کاری کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ قومی بنکوں نے ۱۴۵۹ شاخیں بند کرنے اور عملے میں تقریباً ۴۰ فی صد کمی کے باوجود نہ اخراجات میں کمی کی ہے اور نہ non-performing قرضوں کی پوزیشن خطرے سے باہر ہوئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوئی کام شروع نہیں کیا لیکن وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ جو ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء سے متعلق ہے یہ خبردیتی ہے کہ سرکاری محکموں کے آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۰ کھرب ۴۷ ارب روپے کی رقوم میں سے ایک کھرب ۴۲ارب اور ۹۰ کروڑ روپے کی رقوم کا استعمال قواعد کے مطابق نہیں ہوا۔ یعنی ۱۰فی صد سے بھی زیادہ سرکاری اخراجات یا بلاجواز تھے یا ان کا ناجائز استعمال ہوا۔
اس صورتِ حال کو کسی پہلو سے بھی قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خارجہ سیاست کے باب میں بھی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ہم جس طرح امریکہ کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کر رہا ہے۔ عالمی وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے روایتی دوست بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں دکھا رہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی دوستی تو کبھی بھی قابلِ اعتماد نہ تھی۔ اس کا مسلسل رویہ یہ ہے کہ ہر خدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور نیوکلیر پھیلائو اور دہشت گردی میں مطلوبہ سے کم تعاون پر ہاتھ مروڑنے اور بلیک میل کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ چین اور ایران سے تعلقات میں پہلی سی گرمی نہیں۔ بھارت کی ساری ناز برداریوں کے باوجود اس کا رویہ خطرناک حد تک معاندانہ اور ہمارا شرم ناک حد تک عاجزانہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بڑھ رہا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ بلکہ اب تو بھارت تاجکستان میں فوجی اڈے بنارہا ہے اور ہمارا عالم ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! قابلِ اعتماد دوستوں کا فقدان ہے۔ جو حقیقی دوست تھے اور ہمیں ان سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا‘ ان کو ہم نے دشمن قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے عوام میں ہماری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ خود جنرل صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشکل وقت آیا تو کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا‘‘۔اس سے زیادہ خارجہ سیاست کے افلاس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ۔ یہ سب اس حالت میں ہے کہ قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کی ساری باگ ڈور پارلیمنٹ یا وزارت خارجہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلاواسطہ ایوان صدارت کی گرفت میں ہے اور بش سے ساری ذاتی دوستی اور ’’جب چاہوں ٹیلی فون کر لوں‘‘ کی تعلیوں کے باوجود ہماری مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور آزادی اور خودانحصاری کی فصیل میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں۔ داخلی اور خارجہ کارکردگی کا یہ جائزہ روشنی سے محروم اور تاریکیوں اور مسائل کے گمبھیر بادلوں سے فضا کی آلودگی کا منظرپیش کرتا ہے۔
اس سال کا ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا اگر ہم مرکزی اداروں اور قیادت کی مایوس کن کارکردگی کے مقابلہ میں صوبہ سرحد کی متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلوئوں کا ذکر نہ کریں جو امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک تاریخی امر ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کا قیام انتخابات سے صرف دو ماہ قبل ہوا اور اسے انتخابی مہم کے لیے بہت کم وقت ملا لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں‘ بلکہ ملک کے اہم ترین سیاسی اور تجارتی شہروں یعنی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ حیدرآباد اور گوجرانوالہ میں اس کی کامیابی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک معتدبہ تعداد میں اس کے نمایندوں کا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا ملک گیر پیمانے پر ایک نئے رجحان کا غماز ہے۔ عوام دینی قوتوں کے اتحاد میں اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں جو بااثر اور مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں اور جنھیں بار بار مواقع دینے کے باوجود عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی نے بھی ان کے اس احساس کو اور بھی قوی کر دیا ہے کہ ان جماعتوں اور طبقوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایم ایم اے کی پوری قیادت عوام میں سے ہے اور اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو عوام کے مسائل اور معاملات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایم ایم اے نے ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے اور وہ ملک کی آزادی‘ معاشی خوش حالی اور دینی اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی علم بردار ہے۔ وہ خودانحصاری کی داعی اور ملک کی امریکی حاشیہ برداری سے نجات کے لیے کوشاں ہے۔
اکتوبر کے انتخابات کے بعد صرف صوبہ سرحد سے اسے اکثریت حاصل تھی اس لیے اس نے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کی اور مرکز میںاپنے اصولی موقف کے مطابق حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سرحد میں حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلو‘ ان تمام مشکلات اور تحدیدات کے باوجود جو مرکز کی طرف سے اسے پیش آئیں اور مرکز کے نمایندے کی گورنری کے منصب پر موجودگی اور اس کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جنھیں اور بھی گمبھیر کر دیا تھا‘ نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔
پہلی چیزیہ ہے کہ سرحد میں ایک مختصر کابینہ بنائی گئی جس نے پورے سال بڑی محنت سے کام کیا اور سادگی‘ عوام کی خدمت گزاری اور ہر وقت ان کی پہنچ میں ہونے اور ان کے درمیان پہلے کی طرح زندگی کے شب و روز گزارنے کی اچھی مثال قائم کی۔ مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں خدمت کی ایک شاہراہ روشن کی۔ الحمدللہ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کر رہے ہیں۔
دوسری چیز اسمبلی کی کارکردگی ہے۔ صوبائی اسمبلی قومی اور صوبائی معاملات پر بحث و مشورے کا محور اور مرکز رہی ہے۔ دستوری اعتبار سے سال میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۷۰ دن ہونا ضروری ہے مگر سرحد اسمبلی نے ۹۹ دن کام کیا اور ان بارہ مہینوں میں ایک بار بھی کورم کا مسئلہ پیش نہ آیا۔ اس سال ۱۳ بل منظور کیے جن کا تعلق زندگی اور حکمرانی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ خصوصیت سے شریعت بل‘ ہائیڈل پاور بل‘ غیرمنقولہ جایدادوں کا بل‘ ہیلتھ اور ہوسپٹل سروس بل وغیرہ۔ ان ۱۳ بلوں کے علاوہ بھی تین بل اسمبلی میں آئے جن میں ایک نامنظور ہوا اور دو ضروری تائید نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔ اسمبلی میں ۶۶ قراردادیں متفقہ طور پر اور دس اکثریتی ووٹ سے منظور ہوئیں جن کا تعلق ملکی اور صوبائی مسائل سے تھا۔ ان میں عالمی امور پر صوبے کی اسمبلی کی رائے بھی شامل ہے۔ پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت جیسے امور کے بارے میں قراردادیں بھی ہیں۔
سرحد اسمبلی کی کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام امور پر کھل کر بحث ہوئی اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف یہ کہ بڑی خوش گوار فضا رہی بلکہ بیشتر معاملات میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور سرحد کی روایات کے مطابق جرگے کے طریقہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوبہ سرحد کا بجٹ اور شریعت بل دونوں مکمل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے جو ترقیاتی فنڈاستعمال ہوتے ہیں ان میں حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
سرحد اسمبلی نے اپنی ۲۹ مجالس قائمہ بھی پہلی فرصت میں قائم کر دیں جو اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بڑی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بدمعاملگیوں کا سراغ لگایا ہے اور ان کا احتساب کیا ہے۔ تمام بلوں پر متعلقہ کمیٹیوں نے غور کیا ہے اور ہیلتھ کمیٹی نے ماضی میں (فوجی حکومت کے دور میں) اختیار کی جانے والی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کو سرحداسمبلی سے منظورکرا کے نافذ کرا دیا ہے۔
صوبہ میں تعلیم‘ صحت اور ڈویلپمنٹ کے میدانوں میں نئی پالیسیوں اور اقدامات کااہتمام کیا گیا ہے اور صوبے کے حقوق‘ خصوصیت سے پن بجلی کے سلسلے میں صوبے کی رائلٹی کے معاملے میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اسے بھی کل جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں بھی کئی اہم امور میں پہل قدمی کی گئی جن میں فلاحی بجٹ (welfare budget) ایک لازمی حصہ کے طور پر شامل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر کابینہ اور ارکانِ اسمبلی نے اپنے مشاہروں میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اور سینیر وزیر نے اپنے اپنے مشاہرے میں علامتی کمی کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ سرحد میں اسلامی بنک کاری کو متعارف کرانے کے الیکشن کے دعویٰ پر بھی پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور پہلے ہی سال اسٹیٹ بنک کی اجازت اور تعاون سے خیبربنک کی ایک شاخ نے مکمل اسلامی بنک کاری کا آغاز کر دیا ہے اور اس شاخ کا باقاعدہ افتتاح ۲۷رمضان المبارک کو عمل میں آ رہا ہے۔
صوبہ سرحد میں ایم ایم اے نے جو روشن مثال قائم کی ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک فال ہے ۔ ایم ایم اے کو تقسیم کرنے اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود الحمدللہ ایم ایم اے نے نہ صرف یہ کہ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہے بلکہ حکمرانی‘ عوامی خدمت اور اسلامی شعائر کے مکمل احترام کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن انگریزی محاورے کے مطابق: Well begun is half done ۔ اس سرسری موازنے سے قوم کے سامنے امید کی ایک نئی کرن آتی ہے اور اقبال کا ہم زباں ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے ؎
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ