جواب: اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی رہنمائی زندگی کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)‘ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (۳:۸۵)‘ یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ تو اللہ کے ہاں صرف اسلام ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ ڈھونڈ نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا اور ایسا فرد آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ شادی غمی بالخصوص نکاح کے لیے بھی اسلام نے اپنا ایک طریقہ اور نظام قائم کیا ہے اور وہ یہ کہ مرد گھر بسانے اور آباد کرنے کا مکمل ذمہ دار ہے۔ گھر والی کے جملہ اخراجات بھی شادی کے بعد مرد ہی ادا کرے گا‘ عورت کسی چیز کی ذمہ دار نہ ہوگی۔ البتہ عورت گھر کا انتظام سنبھالنے‘ بچوں کی اچھی تربیت کرنے اور شوہر کی تمام جائز ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرنے کی پابند ہوگی۔
اس طرح گھر کی آبادکاری اور جملہ ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔ البتہ اگر لڑکی خود یا اس کے والدین اور سرپرست بچی کے ساتھ بطور جہیز کے کچھ سامان یا چیزیں دینا چاہیں تو ان کے دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ جہیز فراہم کرنا اپنے اوپر ہر حال میں لازمی کر لینا صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی گھرانے کے مالی حالات جہیز دینے کی اجازت نہیں دیتے تو بالکل جہیز نہیں دینا چاہیے‘ بالخصوص ادھار اور قرض لے کر بچی کو بھاری بھرکم جہیز دینا نہ کوئی عقل مندی ہے اور نہ اسلام اس کی اجازت ہی دیتا ہے۔
لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکی سے جہیز کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ سامان فراہم کرنا مرد کی اپنی ذمہ داری ہے اور دوسروں سے اس کی توقع رکھنا مردانگی کے خلاف ہے۔ رشتہ خاتون سے ہونا چاہیے نہ کہ جہیز کے سامان سے۔ حضوؐر پاک کی سنت بھی یہ ہے کہ حسب استطاعت بچی کو بطور تحفہ کچھ سامان جہیز میں دیا جائے۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں جہیز دینا یا اس کی توقع رکھنا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اسلام میں مرد اور عورت دونوں کے درمیان نکاح کے وقت مہر کے طور پر کوئی بھی رقم متعین کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ رقم کسی بھی صورت میں اتنی نہیں ہونی چاہیے جس کی ادایگی ہی ناممکن ہو اور خاندان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو۔ حضور پاکؐ نے کم مہر کو پسند فرمایا تاکہ شادی کا کلچر عام کیا جاسکے۔ سیدہ نساء اہل الجنۃ بی بی فاطمہؓ حضوؐر کی بڑی پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کا رشتہ حضرت علیؓ سے صرف ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے مہر سے طے پایا تھا جو ۵۰۰درہم کے برابر تھا یعنی تقریباً ۱۲‘۱۳ تولے چاندی جو آج کے مطابق تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپے بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مہر کی رقم دولہا کی مالی حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ نہ تو اتنا کم ہو‘ جیسے بعض علاقوں میں ۵۰اور ۴۹روپے رکھا جاتا ہے جو محض خانہ پُری ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ مہرکا تعین لاکھوں میں کر دیا جائے جس کی ادایگی پھر مرد کے لیے ممکن نہ رہے۔
ہمارے معاشرے کی غلط رسوم و رواج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو شادی کے وقت نظر لڑکی کے جہیز پر ہوتی ہے کہ ساتھ کیا کچھ آتا ہے تو دوسری طرف مہر کا تعین اتنا زیادہ کر دیا جاتا ہے کہ بعد میں اس کا مہیا کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی عورت کو فارغ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ مہر کس طرح ادا کیا جائے گا۔ لہٰذا عورت کو درمیان میں لٹکا دیا جاتا ہے‘ نہ اس کو فارغ کیا جاتاہے اور نہ اس کو آباد ہی کیا جاتا ہے‘ جب کہ مطلوب یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط (النساء ۴:۴)‘یعنی اپنی بیبیوں کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو۔ اورحضوؐر پاک کا ارشاد ہے کہ ان اوفی الشروط ما استحللتم بہ الفروج‘ یعنی شادی کے وقت جو شرائط مہروغیرہ کی صورت میں تم متعین کرلو اس کو پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
مختصر یہ کہ جہیز اور مہر دونوں کے بارے میں میاں بیوی اور ان کے خاندان والوں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کیونکہ اسلام تو نام ہی اس اصول کا ہے کہ لا ضرر ولا ضرار‘ یعنی نہ خود نقصان اٹھائو اور نہ اوروں کو نقصان پہنچائو۔ نہ کسی کے ہاں سے جہیزکی امید پر جیو‘ نہ قرض لے کر جہیز دو۔ نہ زیادہ مہرکا تقاضا کرو‘ نہ اتنا زیادہ مہر دینے کا وعدہ کرو جو تمھاری برداشت اور تحمل سے زیادہ ہو۔ اسی صورت میں دونوں خاندانوں کے باہم مربوط اور خوشحال رہنے کے زیادہ امکان ہوں گے‘ شادی کا کلچر عام ہوگا‘ بدکاری اور فحاشی پروان نہیں چڑھے گی اور معاشرہ صاف ستھرے ماحول میں پوری صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ روبہ ترقی ہوگا۔ دنیا میں بھی سکون نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہمارا مقدر ہوگی۔ (مولانا مصباح الرحمٰن یوسفی۔ بہ شکریہ دعوۃ‘ جولائی ۲۰۰۳ئ)
س: ادارے میں ٹائی پہننے کے حوالے سے شدید دبائو رہا ہے لیکن میں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس معاملے کو ٹالتا رہا ہوں‘ اس لیے کہ علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے مزید ایسا کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ میری رہنمائی فرما دیجیے۔
ج: اسلام نے لباس کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول ہمیں دیے ہیں ان میں جسم کا تحفظ‘ زینت اور سادگی کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو اس سے تکبر کا اظہار ہو اور نہ جان بوجھ کر لاپروائی اور غربت کا اظہار کیا جائے۔ گویا ایک شخص اپنی استطاعت اور ضرورت کی مناسبت سے لباس کی وضع قطع اور اس کے لیے مناسب کپڑے کا استعمال کرے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ٹائی کے استعمال کی کوئی روایت نہیں ملتی‘ جب کہ مغربی لباس سے وابستہ روایت میں اس کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ اس استعمال کے حوالے سے ایک دور تھا جب اہل ثروت ٹائی کا استعمال رسمی لباس کے حصے کے طور پر کرتے تھے۔ بعض عیسائی فرقوں میں ایک ڈوری کالر کے گرد باندھ دی جاتی تھی جو گلے میں لٹکتی رہتی تھی۔ کبھی اس میں کوئی پتھر یا موتی نما چیز اور کبھی صلیب بھی لٹکا لی جاتی تھی۔ یہ رواج آہستہ آہستہ متروک ہوگیا اور ٹائی کا استعمال وہ سب لوگ کرنے لگے جو مذہب کو اہمیت دیتے ہوں یا اس کے مخالف۔ گویا اس کی نسبت کسی خاص طبقے‘ فرقے یا مذہبی مسلک سے نہ رہی۔ فقہ کا ایک کلیہ یہ ہے کہ اگر ایک چیز کی حالت تبدیل ہو جائے تو حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایک لباس کسی خاص طبقے یا فرقے کی اجارہ داری یا پہچان نہ رہے تو اس کی کراہت بھی باقی نہیں رہے گی۔ یہی شکل کوٹ پتلون اور ان لباسوں کی ہے جو وقت کے ساتھ کسی خاص قوم‘ مذہب یا فرقے سے وابستہ نہیں رہے۔
جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ کوٹ پتلون یا کالر والی قمیص کس حد تک ساتر ہے۔ اس میں کوئی نفس کے فتنے کا سامان تو نہیں۔ گویا ٹائی ہو یا پتلون اور کوٹ‘ اس کے عمومیت اختیار کرلینے کے سبب اس پر وہ حکم نہیں لگے گا جو کسی قوم سے مشابہت کا ہے۔ اس کے حلال یا حرام ہونے سے قطع نظر اگر محض شریعت کے اس اصول پر غور کیا جائے جس میں شریعت ہمارے لیے آسانی چاہتی ہے تو عقل یہ کہتی ہے کہ ٹائی آسانی کی جگہ دقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اگردو بھلے آدمیوں میں سے ایک کو ٹائی پہنا کر اور دوسرے کو بغیر ٹائی کے کھلے کالر کی قمیص کے ساتھ آپ کسی بند کمرے میں جہاں ہوا کا گزر نہ ہو بٹھا دیں تو ۱۵ منٹ کے بعد جس نے ٹائی کس کر باندھ رکھی ہے‘ ٹائی ڈھیلی کر کے یا مکمل طور پر گلے سے اُتار کر الگ رکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ جن دفاتر میں رسمی طور پر ٹائی استعمال کرائی جاتی ہے جیسے ہی کھانے کا وقفہ ہوتا ہے بھلے آدمی ٹائی کو کھول کر رسّی کی طرح گلے میں لٹکا لیتے ہیں یا اُتار کر اس کو رکھ دیتے ہیں اور پھر جب دوبارہ دفتر کی کرسی پر واپس جانے کا وقت آتا ہے تو گلے میں کس کر تیار ہو جاتے ہیں۔
آخر یہ کون سا حکیم لقمان کا نسخہ ہے کہ جب تک ٹائی نہ ہوگی اچھا sales person نہیں بن سکتا یا اچھا مینیجرنہیں بن سکتا۔ اس لیے دین کے سہولت پسند ہونے کی بنا پر اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ گو اسے حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کا حق صرف شارع کو ہے‘ کسی انسان کو نہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
میرا خیال ہے کہ نفع اور نقصان کے اس کاروبار میں برابر کا امکان ہے اور بازارِ حصص (shares market) کا تجزیہ بذاتِ خود ایک مشقت طلب کام ہے جو اس کاروبار میں محنت کے عنصر کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔
اس بات پر کہ چونکہ یہ کمپنیاں اپنے معاملات سودی نظام کے تحت طے کرتی ہیں‘ اس لیے ان کا حصے دار بننا جائز نہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی کاروبار یا ملازمت‘ چاہے وہ نجی نوعیت کا ہو یا سرکاری‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح موجودہ نظام کے تحت اُس کی کڑیاں سودی نظام ہی سے جا ملتی ہیں۔ اس صورت حال میں کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے؟
ج: قرآن کریم نے بیع اور تجارت کو حلال (البقرہ ۲:۲۷۵) قرار دے کر چھوٹے اور بڑے کاروبار کرنے والوں کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرنے کے ساتھ اہل ایمان کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے صرف جائز ذرائع کو استعمال کریں۔لیکن کاروبار میں سرمایے کی فراہمی ایک مستقل مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کی ایک شکل یہ پائی جاتی ہے کہ ایک سے زائد صارف مل کر ایک کاروبار میں سرمایہ لگائیں اور اپنے سرمایے کے تناسب سے نفع یا نقصان میں شریک ہوں۔ اس غرض سے بہت سی کمپنیاں حصص کی فروخت کا اعلان کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے منصوبے کے لحاظ سے عوام ان کے حصص خرید کر حصے دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح جو نفع ایک حصے دار کو ملتا ہے وہ نہ سود کی تعریف میں آتا ہے نہ قمار اور جوئے کی تعریف میں آتا ہے۔ اس پورے عمل میں جوچیز بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ کمپنی کی سرگرمی ہے۔ اگر وہ کمپنی کسی ممنوعہ اور حرام کام میں رقم لگا رہی ہے تو یہ کاروبار اور اس کے شرکا‘ حرام کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگرکمپنی کی سرگرمی حلال اور جائز نوعیت کی ہے تو اس سے ملنے والا نفع کم ہو یا زیادہ‘ حرام کی تعریف میں نہیں آتا۔
اس لیے کسی کمپنی کے حصص لیتے وقت یہ تحقیق کر لیجیے کہ وہ کس نوعیت کا کاروبار کرنے جا رہی ہے۔ اگر وہ کاروبار حلال ہے تو اس میں حصص لینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا- ا)
س: بنک کی ملازمت کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے بالخصوص ایسے بنک جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اُن کے نظام کا بنیادی ڈھانچا اسلامی بنک کاری پر مبنی ہے؟
ج: اسلام انسان کی معاشی ضروریات کو ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اکلِ حلال کے حصول میں ہدف اور ذرائع دونوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ ایک شخص نیک نیتی کے ساتھ چوری کرکے غربا و مساکین کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ بنک سود کی بنیاد پر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی واضح شکل ہے جیسے ایک ناچ گھر یا شراب خانے کا کاروبار کھلے طور پر حرام پر مبنی ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص اپنے اور اپنے بچوں کو فاقے اور موت سے بچانے کے لیے جگہ جگہ ملازمت تلاش کرتا ہے لیکن کہیں کامیابی نہیں ہوتی اور آخرکار اسے ایک ناچ گھر پر چوکیداری کی ملازمت مل جاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہاں پر حرام کا ارتکاب ہورہا ہے لیکن اس کے سامنے انتخاب یہ ہے کہ وہ یا تو فاقے سے مر جائے یا صبح سے رات تک چوکیداری کی مشقت کر کے اتنی رقم حاصل کرلے کہ بچے اور وہ خود فاقے سے نہ مریں۔ ایسی صورت حال میں شریعت اس کے لیے ایسی روزی کو اس وقت تک حلال قرار دیتی ہے جب تک اسے ایک حلال روزگار نہ مل جائے۔ انسانی جان بچانا شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے جو اصول دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایسی مجبوری آپڑے جس میں بغیر کسی باغیانہ روش کے اضطراراً ایک ممنوعہ شے استعمال کرنی پڑے تو صرف ضرورت کی حد تک اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رہا معاملہ ایسے بنکوں کا جو غیر سودی بنیاد پر کام کر رہے ہوں تو ان کی ملازمت اس زمرے میں نہیں آتی۔ وہاں پر کام کرنا ہر لحاظ سے جائز ہے۔ (ا- ا)
س: اسلام میں نکاح کا جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں بہ رضا و رغبت آپس میں شادی پر راضی ہوں اور اس پر کم سے کم دو گواہ موجود ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر منگنی لڑکے اور لڑکی کی خوشی سے اور اُن دونوں کے والدین کی باہمی رضامندی سے طے پائی ہو تو کیا اس کو نکاح کی ایک صورت تصور کیا جا سکتا ہے؟
ج: ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان عقد نکاح دراصل ایک ایجاب و قبول کا معاہدہ اور اعلان ہے جس میں لڑکی کی طرف سے اس کے ولی یا وکیل کا گواہوں کے سامنے یہ اظہار کرنا کہ لڑکی بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے نکاح پر آمادہ ہے اور رشتے کو منظور کرتی ہے‘ اور لڑکے کا گواہوں کے سامنے اس بات کے اظہار کا نام ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہے۔ اگر لڑکے اور لڑکی کے والدین نے آپس میں رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن لڑکے نے گواہوں کے سامنے قبولیت کا اعلان نہیں کیا تو اسے عقد نکاح تصور نہیں کیا جائے گا۔ہاں‘ اگر کسی مجبوری کی بناپر لڑکا خود قبولیت کا اعلان نہ کر سکتا ہو تو اس کا وکیل اس کی طرف سے ثبوت یا شہادت کی بنیاد پر قبولیت کا اعلان کر سکتا ہے۔ گو‘ اتنے اہم اور ذمہ داری کے معاملے میں خود لڑکے کا قبولیت کا اعلان کرنا لازماً افضل اور روح عقد کے مطابق ہے۔
رہا سوال منگنی کا‘ تو اس کا کوئی تعلق عقدنکاح سے نہیں ہے۔ یہ ایک مقامی رسم ہے جس کی کوئی سند قرآن و سنت سے نہیں ملتی اور یہ رشتے کو حلال نہیں کرسکتی۔ صرف عقدِنکاح ہی رشتے کو قائم و حلال کرتا ہے۔ (ا- ا)