مہاتیرمحمد اقتدار سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ عبداللہ احمد بداوی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاچکے ہیں۔ دنیا بھر میں خیرمقدم کیا جا رہا ہے کہ مہاتیرمحمد اپنی رضامندی سے اقتدار سے الگ ہوئے۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس میں ان کی تقریر کو اُمت مسلمہ کے نقطۂ نظر سے بہت سراہا گیا ہے۔
ملائیشیا میں مسلمان ۶۰ فی صد اور دیگر مذاہب کے پیروکار۴۰ فی صد ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیرمحمد ۲۲ برس تک وزیراعظم رہے۔ اُنھوں نے نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کی بہتری کو اولین ترجیح بنایا‘ دنیا بھر سے لائق اساتذہ کو اپنے ملک میں اکٹھا کیا اور ملک کے معماروں کی تعمیر کا مستحکم نظام قائم کیا۔ ملایشیا کی موجودہ فی کس آمدن ۳ ہزار ۶سو امریکی ڈالر ہے۔ اُن کے دورِ اقتدار میں یہ ربڑ کی برآمد کرنے والے غیرترقی یافتہ ملک سے درمیانے درجے کے صنعتی ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں جو اقتصادی بحران ۱۹۹۷ء میں آیا اُس سے صرف ملائیشیا ہی محفوظ رہ سکا۔ اس وقت ملائیشیا کی برآمدات ۸۸ ارب امریکی ڈالر سے متجاوز ہیں‘ جب کہ حکومت کے محفوظ ذخائر کا اندازہ ۳۳ ارب امریکی ڈالر ہے۔
مہاتیرمحمد کی پالیسیوںکا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُنھوں نے جاپان اور مغربی ممالک کے لیے سرکاری طور پر اس قدر سہولتیں فراہم کیں کہ وہاں کے صنعت کار ملائیشیا میں بلاروک ٹوک سرمایہ کاری کرنے لگے۔ سرکاری تحویل سے بیشتر کاروبار نجی شعبے کو منتقل کر دیا گیا۔ سرمائے کی گردش کی حدود واضح کی گئیں‘ اور سکّے کے بجاے سونے یا اسلامی دینار کو مسلم دنیا میں کرنسی بنانے کا نظریہ پیش کیا گیا تاکہ ڈالر کی بالادستی کو توڑا جا سکے۔ داخلی طور پر اُنھوں نے پوری قوم کو محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا سبق دیا۔ اُن کا کہنا تھا جس طرح کمپنی کا ہر کارکن کام کرتا ہے اس طرح ہر شہری اپنا فرض ادا کرے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے بوسنیا کی جنگ کے دوران‘ بوسنیا کے لیے ببانگ دہل آواز بلند کی‘ فلسطینیوں کے بارے میں بھی اُن کے بیانات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے اقتدار سے دستبردار ہوکر اُن درجنوں مسلم سربراہوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ ہمارا ملک ہمارے دم سے یا ہماری اولاد کے دم قدم سے شاد آباد رہے گا‘ ہم چلے جائیں گے تو ملک تباہ ہو جائے گا۔
مہاتیرمحمدنے اسلامی ایشوز کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی شناخت تسلیم کروائی‘ اور دوسری طرف معاشی خوشحالی کے لیے بھرپور کوشش کی۔ اُن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام‘ اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے اور اس پر وہ اور اُن کے ساتھی عمل پیرا رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ مہاتیراور اُن کی جماعت United Malay National Organization (UMNO) میں اس طویل عرصے میں حزبِ اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہی رہا۔ اُنھوں نے پریس کی آزادی پر کافی حد تک پابندی عاید کیے رکھی۔ حزبِ اختلاف کی اسلامی پارٹی ملایشیا،’پاس‘(PAS) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اُن کا رویہ سخت رہا۔ سابق قائد حزبِ اختلاف فاضل نور کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے مخالفین کی کردارکُشی کی پالیسی اختیار کی۔ مخالفین کے لیے انٹرنل سیکورٹی ایکٹ (ISA) اور (OSA) جیسے قوانین ابھی تک روبہ عمل ہیں۔ اس کے تحت مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی شخص کو غیرمعینہ مدت کے لیے پابند ِ سلاسل رکھا جا سکتا ہے۔ کلنتان اور ترنگانو کی ’پاس‘ کی حکومتوں کے لیے ہر اُس مرحلے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جہاں قانون سازی پر عمل درآمدکے لیے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہو۔ اَناکی جنگ لڑتے لڑتے مہاتیرنے انور ابراہیم جیسے نائب اور باصلاحیت قائد کو جیل خانے تک پہنچا دیا۔
ملائیشیا میں انتخابات کا شیڈول اپریل ۲۰۰۴ء میں جاری ہو جائے گا اور امید ہے کہ اکتوبر تک انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ ’امنو‘ کے نمایندے اور موجودہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی کی پالیسی یہ ہے کہ چینی النسل باشندوں اور ہندوئوں کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہو۔
آیندہ کے سیاسی منظرنامے کے بارے میں سنٹر فار ماڈرن اورینٹ اسٹڈیز‘ برلن‘ جرمنی کے سربراہ ڈاکٹر فارش اے نور لکھتے ہیں: ڈاکٹر مہاتیرمحمد کے جانشین داتو عبداللہ احمدبداوی کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ چیلنج یہ ہے کہ ریاست کے انتظامی ادارے(bureau cratic institutions) ازسرِنو ترتیب دیے جائیں‘ سرکاری نوکریاں اور عہدے قابلیت پر ہی فراہم کیے جائیں‘ سیاسی اقربا پروری پر پابندی ہو‘ عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی جائے‘ حکومت برداشت‘ جمہوریت‘ اجتماعیت اور بنیادی انسانی حقوق کی علم بردار ہو۔ ملک کے کئی خطے اور آبادی کے مجموعے اُس اجتماعی خوشحالی سے بہرحال محروم ہیں کہ جن کا بیرونِ ملک خوب چرچا ہوتا ہے۔ اُن کے لیے بھی راہِ عمل متعین کی جائے۔
ملائیشیا کی قیادت کو یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ معاشی خوش حالی کی قیمت پر جمہوری روایات اور ثقافتی ادارے متاثر ہوئے ہیں۔ شہروں پر آبادی کا دبائوبہت بڑھ گیا ہے۔ امیر اور غریب طبقات کے درمیان فرق میں اضافہ ہوا ہے اور شہری زندگی کے مسائل میں فلک بوس عمارتوں کی طرح اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ زراعت اور ماہی گیری کے شعبے پسِ منظر میں جا رہے ہیں۔ مہاتیر کے بعد زیادہ عوامی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
وفاق میں حکومت بنانے کے لیے ’پاس‘ کو شدید محنت کی ضرورت ہے۔ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ کے ۳۹ ممبران ہیں۔ قدامت پرستی‘ عورتوں سے امتیاز اور آرتھوڈوکس ہونے کے پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے مضبوط سیاسی و انتخابی اتحاد کی ضرورت ہے۔
اسلامی پارٹی ملائیشیا جو گذشتہ ۱۲ برس سے برسرِاقتدار مخلوط حکومت کی منفی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہے‘ اور اس نے کلنتان اور ترنگانو صوبوں میں حکومت بنانے کے بعد وفاقی اسمبلی میں بھی اصول پرست مضبوط حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا ہے‘ اپنے کردار کے ذریعے ملائیشیا کی ۴۰ فی صد غیرمسلم (ہندو‘ سکھ‘ چینی) آبادی کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہماری پارٹی برسرِاقتدار آنے کے بعد اُن کو تبدیلی مذہب پر مجبور کرنے کی احمقانہ کوشش نہ کرے گی‘ اور وفاق میں حکومت بنانے کے بعد اُن کے سیاسی‘ معاشرتی اور اقتصادی حقوق پر ہرگز آنچ نہ آئے گی۔ خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے گا جن کا ملائیشیا کے اخبارات میں چرچا رہتا ہے۔
۱۷ رمضان المبارک (یومِ بدر) کے موقع پر اسلامی پارٹی کے سربراہ داتوسری حاجی عبدالہادی آوانگ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مجوزہ دستاویز اہالیانِ وطن کے سامنے پیش کی۔ اس کے اہم ترین نکات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے:
۱- ریاست بلاتفریق مذہب و ملّت تمام شہریوں کے تمام حقوق کی مکمل ضمانت دے گی۔
۲- وفاقی دستور میں اُسی وقت تبدیلی کی جائے گی جب یہ انتہائی ناگزیر ہو۔
۳- تمام مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی روایات‘ ثقافتی رسومات پر عمل پیرا رہ سکیں گے۔
۴- کسی بھی شخص کو مجبور نہ کیا جائے گا کہ وہ دین اسلام کو قبول کرے۔
۵- عدلیہ اور مقننہ کا علیحدہ نظام برقرار رہے گا۔
۶- ملازمتیں میرٹ اور اصولوں کی بنیاد پر مہیا کی جائیں گی۔ مذہب‘ نسل اور جنس کی بنا پر امتیاز نہ برتا جائے گا۔
۷- شہریوں کے جمہوری حقوق کی پاسداری وفاقی دستور کے مطابق جاری رہے گی۔
۸- عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ میں کوئی بھی شخص منتخب ہو سکے گا۔ نسلی اور لسانی گروہ کی بنا پر پابندی عائد نہ کی جائے گی۔
۹- فروغِ تعلیم اور مادری زبان میں تعلیم کا حق‘ ریاست کو حاصل رہے گا۔
۱۰- عورتوں کے لیے تعلیم‘ ملازمت‘ تجارت‘ سفر کے تمام حقوق برقرار رہیں گے اور اُن کے ساتھ جنس‘ مذہب اور لسانی گروہ کی بنا پر کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے گا۔
گذشتہ پانچ برسوں میں یونی ورسٹیوں کے انتخاب میں اسلامی پارٹی کے نامزد اور ہم خیال طلبہ کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں صوبوں کے خوش گوار تجربات کے اثرات بھی پھیل رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے تیاری جاری ہے۔ مہاتیر نے ایک ایسے وقت دست برداری کی ہے کہ اس کی پارٹی انتخابات جیت سکے۔ ’پاس‘ ایک سنجیدہ متبادل قیادت کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اب ملائیشیا کے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔