نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورِحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِ غلامی کے اثرات اورجدید ٹکنالوجی کی وجہ سے اور دنیا کے سمٹ جانے اور مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے جو عملی مسائل درپیش ہیں‘ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتساب نو ناگزیر ہے۔ ۵-۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو اسلام آباد میں امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے نو منتخب مقالات اور ایک نہایت قیمتی معلومات سے پُرچھ صفحاتی ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔
اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘ عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج ومشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح‘ عرف و عادت اور استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ تمام پہلو اُجاگر ہوگئے ہیں۔
تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِ حاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔
امام ابوحنیفہؒ کی مجلس فقہ نے کوفہ میں ۱۵۰ھ میں ان کی رحلت تک ۳۰ برس کام کیا۔ یقینا اجتماعی مشاورت نے اس فقہ کو برکت عطا کی۔ امام اعظم نے ۵۵ حج کیے اور اس طرح مدینہ کے اہل علم و فضل سے بھی براہِ راست اکتسابِ فیض کیا۔
ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت کتب کے باب میں جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین‘ دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)
ڈاکٹر محمد حمیدؒاللہ کی رحلت کو ایک سال ہوچلا ہے‘ اس عرصے میں ان کی شخصیت اور کارناموں پر بیسیوں مضامین اور متعدد کتابیں سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر مجلے فکرونظر کی ضخیم خصوصی اشاعت ’’مطالعۂ حمیدیات‘‘ کے ضمن میں ان سب پر فائق حیثیت رکھتی ہے۔
مرحوم کو ادارۂ تحقیقات اسلامی سے خاص تعلق تھا۔ ادارے نے ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے سب سے پہلے (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو) ایک سیمی نار منعقد کیا اور اب اپنے مجلے کا ایک نہایت وقیع اور قابلِ قدر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نمبر شائع کیا ہے جو بلاشبہہ مرحوم کے لیے بہترین خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نمبر دو درجن سے زائد تقریباً سارے کے سارے نئے مضامین تحقیقی اور تاثراتی پر مشتمل ہے‘ جن میں ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی شخصیت اور ان کی علمی جہات کو‘ ان کے نیاز مندوں کے ذاتی مشاہدات‘ شخصی تعلقات اور مرحوم کے مکاتیب اور تحریروں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری نے مرحوم کے ساتھ برسوں (۱۹۴۸ء تا وفات) پر محیط یادوں کا احاطہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد نے ’’المجلس العلمی‘‘ (سورت‘ گجرات‘ بھارت) کے ساتھ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے علمی تعاون اور رہنمائی کی تفصیل بیان کی ہے۔ عذرا نسیم فاروقی اور محمدعبداللہ نے خطباتِ بہاولپور کے پس منظر اور ان کی علمی حیثیت و اہمیت کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مرحوم کی قرآنی مترجم‘ مفسر اور محقق کی حیثیت پر صلاح الدین ثانی نے‘ خدماتِ حدیث پر نثار احمد فاروقی نے‘ خدمات سیرت پر خالد علوی اور محمد اکرم رانا نے‘ فقہی افکارپر ظفرالاسلام اصلاحی نے‘ قانون بین الممالک اور بین الاقوامی اسلامی قانون پر محمد الیاس الاعظمی‘ محمد ضیاء الحق‘ محمد طاہر منصوری نے روشنی ڈالی ہے۔ خورشید رضوی اور احمد خان نے مرحوم کے خطوط کے حوالے سے ان کی شخصیت کو اور علمی نکات و معارف کو اجاگر کیا ہے۔ قاری محمد طاہرنے مرحوم کے چند تفردات اورمحمد ارشد نے مغرب میں دعوتِ اسلام کے سلسلے میں مرحوم کی خدمات کا دقت ِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ حافظ محمد سجاد نے معارف (اعظم گڑھ) سے مرحوم کی تاحیات وابستگی کی تفصیل پیش کی ہے۔ سارے ہی مضامین ایک علمی لگن سے لکھے گئے ہیں۔تقریباً ایک سو صفحات میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے منتخب مقالات بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں مرحوم کی تصانیف اور ان کے مقالات کی ایک جامع فہرست (مرتبہ: اظہار اللہ+ طارق مجاہد) شامل ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی نے مرحوم کی علمی خدمات کا ایک عمومی لیکن جامع جائزہ لیا ہے۔
یہ خاص اشاعت بڑی محنت و کاوش اور ڈاکٹر محمدحمیداللہ سے محبت کے جذبے سے مرتب کی گئی ہے اور اپنے موضوع پر ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادارئہ تحقیقات پر یہ مرحوم کا حق بھی تھا جسے ادا کرنے کی یہ سعی مستحسن اور قابلِ داد ہے۔ اگر ادارہ خطباتِ بہاولپور کے نمونے پر مرحوم کی دیگر تصانیف کو بھی خاطرخواہ تہذیب اور تحقیق و تدوین کے بعد شائع کرنے کا اہتمام کرے تو یہ ادارے کے لیے نیک نامی بلکہ فخرکا باعث ہوگا۔(رفیع الدین ہاشمی)
علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا موضوع ملتِ اسلامیہ ہے۔ ان کے نزدیک ملّت کی ہیئت ترکیبی تاریخِ عالم میں قطعی منفرد ہے۔ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
اقبال کی عظیم الشان فکر کا بڑا حصہ اسی ’’ترکیب‘‘ کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی توضیح و تفسیر بالفاظِ دیگر اس کے ملّی تشخص کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس اعتبار سے پروفیسر ڈاکٹرخالد علوی نے اپنی علمی کاوش کے لیے اقبالیات کے ایک بنیادی موضوع کو منتخب کیا ہے۔ اُن کے بقول اُس مختصر کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلم تشخص کی حفاظت کے اس سفر میں اقبال کی بیش قیمت رہنمائی کو بیان کیا جائے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اقبال کے بیشتر اہم تصوراتِ فکر (خودی‘ بے خودی‘ عشق‘ فقر‘ تصوف‘ مردِ مومن وغیرہ) ان کے تصورِ ملّت ہی سے مربوط ہیں۔ ملّتِ ختم رسل کا خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ غیراسلامی تہذیبوں خصوصاً مغربی تہذیب اور اس سے پھوٹنے والے لادینی نظاموں اور طور طریقوں کو کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد علوی نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال نے مغرب کی الحادی فکر اور نظاموں خصوصاً سرمایہ داری‘ اشتراکیت‘ مغربی جمہوریت اور سب سے بڑھ کر قوم پرستی (نیشنلزم) پر بھرپور تنقید کی ہے اور یوں اقبال کا پیش کردہ مسلم قومیت اور مسلم تشخص کا تصور واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔بلاشبہہ علامہ اقبال کو برعظیم میں دو قومی نظریے کے ایک بڑے علمبردار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی دو قومی نظریہ تصورِ پاکستان کی بنیاد ثابت ہوا۔ ڈاکٹر خالد علوی نے اُمت مسلمہ خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی امور و مسائل کو اقبال کے نظریاتی فریم ورک سے مربوط کر کے‘ اُن کی بیش بہا سیاسی خدمات و رہنمائی کو اس طور اُجاگر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کی سیاسی خدمات‘ روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہ تھیں بلکہ ان سے آگے بڑھ کر‘ فکری و نظریاتی رہنمائی تک وسیع تھیں۔ دین و سیاست کی ہم آہنگی پر اقبال کے اصرار اور مخلوط انتخاب کی مخالفت نے بالآخر‘ مسلمانوں کے نظریاتی و ملّی تشخص کو پختہ کیا۔ انھیں پاکستان کی صورت میں اپنی منزل کے تعین میں اقبال کی شعری کاوشوں سے بہت مدد ملی بلکہ خطبۂ الٰہ آباد نے ان کی بیش بہا رہنمائی کی۔
فاضل مصنف نے اپنے مباحث و استدلال کی عمارت اقبال کے فارسی اور اُردو شعری کلیات اور ان کی اُردو اور انگریزی نثرکی بنیاد پر استوار کی ہے۔
ڈاکٹر خالد علوی کے بقول: برعظیم کے مسلمانوں پر اقبال کا احسان ہے کہ اس نے انھیں فکری کج روی سے محفوظ کیا‘ تاریخ کی قوتوں سے آگاہ کیا اور انھیں روشن مستقبل کی نوید سنائی‘‘--- زیرنظر کتاب‘ اقبال کے اس احسان کی نوعیت کو مختصرلیکن جامع اور خوب صورت انداز میں سامنے لاتی ہے۔ طباعت و اشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (ر-ہ)
اس کتاب کا موضوع انسان‘انسانی معاشرت اور خیرو شر کی کش مکش ہے--- شاہ نواز فاروقی اپنے مطالعے کی وسعت‘ مشاہدے کی گہرائی‘ تجزیے کی کاٹ‘ اور فلسفیانہ اپج سے‘ مشکل موضوعات کو رواں دواں مضمون کے پیکر میں ڈھالتے چلے گئے ہیں۔
ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے والے عموماًتکلف کی دلدل اور دانش وری کے جھنجھٹ میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں لیکن شاہ نواز انقلابی جذبوں سے فیضیاب قلم کے ساتھ اس طرح اظہار و بیان کی دنیا میں خیال کو اُبھارتے ہیں کہ قاری کو سوالوں کا جواب دے کر عمل کا زادِ راہ فراہم کرتے ہیں۔
دیکھنے میں تو یہ اخبار جسارت میں چھپنے والے کالموں کا انتخاب ہے‘ لیکن پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتاہے کہ یہ اخباری کالم نہیں‘ بلکہ گہرے غوروفکر کی تصویریں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جھوٹ کی سب سے مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ ’’میں ایسے کئی مومن سرمایہ داروں کو جانتا ہوں جو روزے‘ نماز کے سلسلے میں جس تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اسی تندہی سے اپنے کارخانوں میں مزدوروں کا خون چوستے اور انکم ٹیکس بچاتے ہیں۔ یہ ایک بدترین منافقت ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ ’’بڑے بڑے مذہب پرستوں کے یہاں دولت وجہِ افتخار اور انسانوں کو ناپنے کا پیمانہ بنی ہوئی ہے‘ اور یہ رجحان آج کے اسلامی معاشرے کے لیے ہی نہیں بلکہ کل کے اسلامی معاشرے کے لیے بھی ایک خطرہ ہے… میری راے میں اسلامی انقلاب کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مبہم اصطلاحوں کے بجاے صاف لفظوں میں لوگوں سے گفتگو کریں‘‘۔ (ص ۲۱)
شاہ نواز فاروقی اپنے ان مضامین میں الٰہیات‘ فلسفہ‘ نفسیات‘ تاریخ اور سماجیات کے زندہ موضوعات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ ابلاغی سطح پر یہ نوجوان دانش ور بہت سوں سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔(سلیم منصورخالد)
ڈاکٹر جمیل واسطی کا تعلق لاہور کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد عبدالغنی اوردادا سید عبدالقادر دونوں ہی انگریزی ادب کے استاد تھے۔ خود سیدجمیل واسطی بھی انگریزی پڑھاتے رہے۔ انگریزی اور اُردو میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے فکرانگیز مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان لکھے۔ یہ ان مقالات کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ کتاب آٹھ مقالات پر مشتمل ہے۔ مقالہ اوّل عنوانات: علم وعمل‘ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کا اثر‘ پردہ‘ تعدد ازدواج‘ خنزیر خوری‘ صنم پرستی‘ نسلی تعصب‘ تہذیب اسلامیہ کے کچھ اور پہلو‘ تین ضمیمے (مغرب میں عورت‘ ادب و فن کا ایک پہلو‘ عربی‘ سائنس اور یورپ کے نام)کتاب کے آخر میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر واسطی نے ان تمام موضوعات پر ایک صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر مسلمان عالم کی حیثیت سے روشنی ڈالی ہے اور کسی جگہ بھی معذرت خواہانہ اسلوب اختیار نہیں کیا۔ دلائل ایسے قوی اور مضبوط دیے ہیں کہ ایک متشکک انسان کے ذہن کی الجھنیں دُور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان تمام مقالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب وسیع و عمیق اسلامیت کے حامل تھے جس کی نظیر اب شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ ہمارا خیال ہے کہ کتاب تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہر اس ذمہ دار کو پڑھنی چاہیے جن کا واسطہ سوال‘ جواب کی فکری مجلسوں سے پڑتا رہتا ہے۔ (ملک نواز احمد اعوان)
جناب طالب ہاشمی ایک ممتاز اہلِ قلم اور دینی اسکالر ہیں۔ انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور تہذیب اسلامی کے مختلف عناصر کی تشریح و توضیح‘ نیز نبی اکرمؐ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین کے سوانح پر سیرحاصل مضامین اور نہایت وقیع کتابیں تالیف کی ہیں۔ کم و بیش ان کی ۵۰کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔متعدد کتابوں پر انھیں انعام مل چکا ہے۔ (اگرچہ وہ دنیاوی انعامات سے مستغنی ہیں۔)
زیرنظر کتاب ان کے ۵۴ مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بعض ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوئے اور چند ایک رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ ان کی نوعیت خود مصنف نے بہت عمدگی سے بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ تمام مضامین متفرق دینی و معاشرتی موضوعات پر ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق اخلاق کے مختلف پہلوئوں‘ دین حق ‘ اسلام کے بعض خصائص اور اصلاح معاشرہ سے ہے۔ ان کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ ایک مومن کا مقصدِحیات کیا ہے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے خدوخال کیا ہیں‘ اولاد کی تعلیم و تربیت کے تقاضے کیا ہیں‘ مسرت اور شادمانی کا اسلامی تصور کیا ہے۔ عورتوں‘ پڑوسیوں اور گھریلو ملازموں (یا زیردست افراد) کے حقوق کیا ہیں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے‘ اسلام میں عدل‘ اعتدال اور رواداری کی کیا اہمیت ہے وغیرہ وغیرہ… فی الحقیقت ان مضامین کا مقصود و منشا اخلاق کی اصلاح اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ]قرآنی[ اوصاف اپنانے کی طرف راغب کرنا ہے‘‘۔
کتاب کے دیباچہ نگار ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے بہت اچھی تجویز دی ہے کہ اگر ان مضامین کو مخیرحضرات کتابچوں کی شکل میں شائع کر کے تقسیم کریں تو یہ بہت بڑی معاشرتی خدمت ہوگی۔ (ر- ہ )
فاضل مرتب کی یہ بات کئی حوالوں سے غور طلب ہے کہ: ]وحید الدین[ خان صاحب اسلام‘ مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کے کھلے مخالفینِ اسلام سے بھی بڑھ کر شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر حق کی رسائی کے دروازے کھول دے (ص ۶‘۷)۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اب موصوف کے لیے دعائوں کا مرکز مساجد نہیں‘ گرجاگھر اور مندر ہوں گے‘ یا پیکران فسق و الحاد کی نشست گاہیں اور اجتماع گاہیں(ص ۵)۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں یہ کلمات کسی دل جلے کی آہوں کا دھواں نہیں‘ بلکہ اخلاص‘ حقائق‘ منطق اور مشاہدات کے امتزاج سے ترتیب دیا گیا مقدمہ ہے۔
جناب علی مطہرنے‘ کچھ عرصہ پہلے‘ مولانا عامرعثمانی کے علمی آثار کو ترتیب دینے کے بلندپایہ کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ بڑے تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری پیش کش سے ذخیرئہ علم و دانش میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلہ سعادت میں یہ کتاب بھی منظرعام پر آئی۔ اس کتاب کا ماخذ‘ عامرمرحوم کا رفیع الشان ماہ نامہ تجلّی‘ رام پور ہے۔اس میں مولانا عامرکے پانچ اور دوسرے اہل علم حضرات (مولانا صدرالدین اصلاحی‘ مولانا محمد امام الدین رام نگری‘ مولانا سیف اللہ خالد‘ابواختراعظمی اور محمد نواز وغیرہ) کے سات مضامین شامل ہیں۔
ان مضامین کی بنیاد وحیدالدین خاں کی کتاب تعبیر کی غلطی بنی‘ جس میں انھوں نے فریضۂ اقامت دین کے لیے مولانا مودودی مرحوم کی تشریح اور جدوجہد کا ابطال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ’فرد قرارداد جرم‘کا جواب فاضل مقالہ نگاروں نے کسی طعن و تشنیع کے بجاے دلائل و براہین سے دیا ہے‘ اور ان کے فکری واہمے کا حدود اربعہ پیش کیا ہے۔
سیف اللہ خالد کا کہنا ہے: ’’وحید الدین کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو‘ آزاد ہوں یا محکوم‘ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں‘ غیرمسلموں کے ہاتھوں مار کھاتے اور ذلیل ہوتے رہنا چاہیے اور]انھیں[ اف تک کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ان کے سارے مسائل آپ سے آپ حل ہو جائیں گے (ص ۱۳)۔ مسلمانوں کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے تنہا ذمہ دار مسلمان ہیں‘ غیر مسلموں کا اس میں کوئی حصہ اور قصور نہیں ہے(ص۱۱)۔ خان صاحب کے اس خود ملامتی مرض کے متعدد شاخسانے ان کی تحریروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ موصوف کی اپنی: ’’تعبیر کی غلطی اور کج فکری کی داستان بہت لمبی ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں اس کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس فکر کو پاکستان میں بھی درآمد کیا اور فروغ دیا جا رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴) (س - م - خ)
پاکستان کے مشہور مؤرخ پروفیسر علی محسن صدیقی (پ: ۱۹۲۹ئ) کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ نے ۱۱کتابوں کے علاوہ ۱۰۰کے قریب تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے۔ زیرتبصرہ کتاب اسلامی تاریخ کے بنیادی‘ نہایت اہم اور پیچیدہ بحرانی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ گو یہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی مکمل و مستند سیرت سے متعلق ہے لیکن یہ داستان ایک عظیم بحران کی تاریخ بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے آخری لمحات میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ فتنۂ ارتداد اور انکار زکوٰۃ کی وجہ سے اسلام سمٹ کر دو تین شہروں تک محدود ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس بحران پر برہان سے قابو پایا اور دوبارہ اسلام کی حکومت جزیرہ عرب پر قائم کردی جس کے بعد اسلام کی قوتِ بہائو کفر کی سلطنتوں کو بہا لے گئی۔ ان کی حکومت کا یہ مختصر زمانہ ہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ واقعی افضل الناس بعدالانبیا اور خلیفۃ الرسول بلافصل کہلانے کے حق دار تھے۔ ان کی فراست ایمانی اور قیادت برہانی نے اسلام کو دوبارہ متمکن کر دیا۔
کتاب جدید انداز میں لکھی گئی ہے جو ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صدیقی صاحب نے سیرت صدیقؓ سے متعلقہ تمام مسائل پر بحث کی ہے اور اپنا تجزیہ اور قول فیصل بیان کیا ہے۔ مستشرقین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا ہے۔ (ن-ا-ا)
حافظ محمد ادریس ایک مصنف ہی نہیں ‘عمدہ مقرر بھی ہیں اور مُربی اور منتظم بھی‘ اور اہم تر بات یہ کہ تحریک اسلامی کے رہنما ہیں۔ وہ دعوتِ اسلامی کے علم بردار ہیں اور مبلغ بھی اور ان کی یہ شناخت ان کی تحریروں اور تقریروں سے نمایاں ہے۔ سرسوں کے پھول اور ناقۂ بے زمام ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔کشمیریوں کے کرب کو انھوں نے افسانوں کے مجموعے دخترکشمیر کے ذریعے اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سربکف‘سربلند حافظ صاحب کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ۱۱ افسانے شامل ہیں۔ابتدا میں معروف استاد ادب اور ناقد آسی ضیائی کا تحریر کردہ تعارف شامل ہے۔ لکھتے ہیں: حافظ صاحب کے افسانوں میں ایک مسلم تحریکی ادیب کا وقار اور ایک عام افسانہ نگار کی پیدا کردہ دل چسپی یکساں دکھائی دیتی ہے اور قاری ان کا ہر افسانہ پورے شوق اور انہماک کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔
حافظ محمد ادریس کے کردار ہمارے ہی معاشرے اور ماحول کے کردار ہیں۔ چاہے ’’مامتا کی نعمت‘‘ کا سرفراز ہو،’’ فطرت کی تعزیریں‘‘ کا محمد حسین یا ’’فخرالنساء تیموریہ‘‘ کی منگول رانی ہو۔ اُمت مسلمہ کا درد مصنف کے قلم سے ٹپکا پڑتا ہے۔ یوں ’’بابری مسجد‘‘ اور فلسطین کے پس منظر میں’’غلیل‘‘ افسانے تشکیل پاتے نظر آتے ہیں۔ ’’جنازہ‘‘، ’’کالم نگار‘‘ تو ذہن کو چھونے والے تاثراتی افسانے ہیں اور باقی افسانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ افسانہ نگار کے بقول: ’’ان افسانوں میں جتنے کردار بھی آپ کو نظرآئیں گے‘ وہ کسی نہ کسی پہلو سے جدوجہد کررہے ہیں‘ کوئی مقصد حاصل کرنا‘ ان کے پیشِ نظر ہے ‘ اس کے لیے جو بھی وسائل ان کو میسر ہیں‘ انھیں استعمال کرتے ہیں‘ کٹھن اور مشکل حالات میں تھک بھی جاتے ہیں مگر ہمت کر کے پھر اٹھتے ہیں اور اپنے مقصد کی لگن سینے میں سجائے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں‘‘۔
حافظ محمد ادریس کے افسانے جان دار‘ پُرمغز‘ بامقصد اور زندگی اور اُمت کے عملی مسائل کے عکاس ہیں۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور بیان بہت عمدہ ہے۔ ان کے اسلوب میں جملے چھوٹے مگر پُرمغز اور معنونیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان کے افسانوں کا اختتام بامعنی ہوتا ہے۔ ہر پڑھے لکھے شخص تک سربکف‘سربلند جیسا شاہکار ضرور پہنچنا چاہیے۔کتاب کا سرورق خوب صورت اور بامعنی ہے۔ طباعت اور قیمت مناسب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اس کتاب میں مختلف امراض کے ۱۷ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اوردیگر ڈاکٹر حضرات کے انٹرویو شامل ہیں جن میں مختلف امراض کے علاج اور ان امراض کے بارے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ ان میں ذیابیطس‘ امراضِ قلب‘ امراضِ اطفال‘ جنرل فزیشن‘ جنرل سرجن‘ پتھالوجسٹ‘ اعصابی و نفسیاتی امراض‘ فیملی فزیشن‘ امراض ہاضمہ‘ کینسر‘ بچوں کے کینسر‘ امراض ناک کان‘ امراضِ چشم‘ امراضِ گردہ و مثانہ‘ امراضِ ہڈی جوڑ اورامراضِ جلد کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر شامل ہیں۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوئے تھے‘ جنھیں یکجا کردیا گیا ہے۔اس میں طبی مفروضوں اور وہموں کا تدارک بھی ہے۔ (عبدالکریم عابد)