دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۰۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف ایک وفد بھیجنے کا ارادہ کیا۔ وفد کا امیرانھی میں سے ان کو نامزد فرمایا جو ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ وفد کئی دن تک رکا رہا‘ روانہ نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان میں سے ایک آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا: اے فلاں! آپ کو کیا ہوا‘ آپ گئے نہیں؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے امیر کے پائوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور بسم اللّٰہ وباللّٰہ اعوذ باللّٰہ وقدرتہ من شر ما فیھا (اللہ کے نام سے‘ اللہ کی مدد سے میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ میں دیتا ہوں‘ اس تکلیف سے جو اس پائوں میں ہے) پڑھ کر سات مرتبہ پھونکا۔ اس کے ساتھ ہی آدمی ٹھیک ہو گیا۔ ایک بوڑھے شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ اسے ہم پر امیر بنا رہے ہیں حالانکہ یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: یہ قرآن پاک کے عالم ہیں۔ بوڑھے شخص نے کہا: مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میں راتوں کو سویا رہ جائوں اور نوافل میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کرسکوں تو میں بھی قرآن پاک حفظ کرلیتا۔ اس پر نبیؐ نے فرمایا: قرآن کی مثال اس مشکیزے کی ہے جس میں کستوری بھر کر رکھ دی ہو (وہ کھلا ہو تواس میں کستوری مہکتی ہے)۔ اسی طرح قرآن پاک کا معاملہ ہے جب آپ اسے پڑھیں اور وہ آپ کے سینے میں محفوظ ہو۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۱۶۶)

یعنی قرآن پاک کا حافظ تلاوت نہ کرے تو اس کی مثال اس کستوری کی ہے جو مشکیزے میں بند ہو۔

قرآن پاک اُمت کا نظام ہے۔ اس کے ہر سطح کے نظم کو قرآن کے مطابق چلنا ہے۔ اس لیے کسی بھی سطح کے عہدے اور منصب کے لیے موزوں ترین وہ شخص ہو سکتا ہے جو قرآن پاک کا عالم ہو تاکہ اس نظم کو قرآن پاک کے مطابق چلائے۔ جب قاری قرآن پاک پڑھتا ہے تو وہ اپنی خوشبو دیتا ہے جس طرح مشکیزے میں خوشبو ہو اور مشکیزہ کھلا ہو تو وہ گردونواح کو معطر کردیتی ہے۔ قرآن کاعلم رسولؐ اللہ اور آپؐ کی اُمت کا تشخص ہے۔ اُمت کو اُمت مسلمہ کی حیثیت سے قائم رکھنا مقصود ہو تو پھر نظام قرآنی قائم کرنا ہوگا اور منتظم بھی ایسے لوگوں کو بنانا ہوگا جن کا قرآنی نظام پر ایمان ہو‘ وہ اس کا علم رکھتے ہوں اور اسے عملی جامہ پہنانا چاہتے ہوں۔

اشکال کا دلیل سے ازالہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اشکال پیدا ہونا ممکن ہے۔ لیکن نبی کی بات کا انکار یا اس پر اعتراض جائز نہیں ہے۔ بوڑھے صحابی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اشکال پیش کیا‘ جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل سے جواب دے دیا۔ امرا کے لیے اس میں نمونہ ہے۔ انھیں اپنے ماتحتوں کے اشکال بلکہ اعتراض کا جواب دے کر انھیں مطمئن کرنا چاہیے کیونکہ امیر پر اعتراض ہوسکتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے تو صحابہ کرامؓ بخار کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہو کر اس قدر کمزور ہو گئے کہ نماز بھی بیٹھ کر ہی پڑھنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیؐ سے اس بیماری کو پھیر دیا۔ آپؐ تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرامؓ بیٹھ کر نمازیں پڑھ رہے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ہے۔ تب مسلمان ثواب اور فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ضعف اور بیماری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی مشقت اٹھانے لگے۔ (احمد‘ طبرانی‘ البدایۃ والنہایہ)

کمزور اور بیمار شخص کو بھی جب اونچے گریڈ کی ملازمت‘ بڑا مقام یا کوئی بڑا منصب ملتا ہے تو وہ بیماری کے باوجود ڈیوٹی ادا کرتا ہے اور اس کی مشقت اور تکلیف کو سہتا ہے۔ نصف تنخواہ کون کٹواتا ہے! پوری تنخواہ کی خاطر تو بیمار بھی صحت مند اور بوڑھا بھی جوان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ پورے اجر کے لیے کمزوری اور بیماری کے باوجود کھڑے ہو کر نمازپڑھتے تھے۔ پورے اجر کے اس شوق کی وجہ سے انھوں نے بھوکے پیٹ اور کمزور جسم کے ساتھ راتوں کو قیام اور دن کو جہاد کیا اور اللہ کے دین کو غالب کر دکھلایا۔

حضرت عمرو بن تغلبؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے بعض لوگوں کو عطیات دیے اور بعض کو چھوڑ دیا‘ جن کو چھوڑ دیا ان کے بارے میں محسوس کیا گیا کہ وہ ناراض ہوئے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کچھ لوگوں کو ان کی بے صبری اور واویلے کو دیکھ کر دیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو اُس بھلائی اور استغنا کے حوالے کردیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھ دی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔

حضرت عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کے ان کلمات کے مقابلے میں مجھے سرخ اُونٹ بھی پسند نہیں۔ (بخاری)

بیت المال کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو کسی خاص طبقے اور گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہوتا۔ اسلامی حکومت کے سربراہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے جن افراد کو دینا چاہے دے دے‘ جن علاقوں کو مقدم رکھنا چاہے مقدم رکھے۔ ایسی صورت میں جو لوگ بے صبری اور اضطراب کا شکار ہوں‘ ان کو مطمئن کرنا چاہیے اور دولت کی گردش سے ان کو فیض یاب کرنا چاہیے۔ صابروشاکر اور اللہ پر بھروسا کرنے والے وہ لوگ جن کے دل میں استغنا اور بے نیازی کی دولت ہے اگر ان کے صبروشکر کی وجہ سے اس بنا پر نظرانداز کردیے جائیں‘ کہ سب کے لیے گنجایش نہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دنیا کی بڑی سے بڑی دولت اور بڑے سے بڑا عطیہ دل کے استغنا کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ وہ لوگ بہت عظیم ہیں جن کے دل غنی ہوں۔ اس لیے حضرت عمرو بن تغلبؓ اور دوسرے صحابہ جنھیں آپ ؐنے ایک موقع پر عطیات سے محروم رکھا‘ آپؐ کی اس وضاحت کے بعد نہ صرف راضی بلکہ مطمئن ہوگئے کہ دوسروں کو مال کی دولت ملی اور ان کو دل کا استغنا نصیب ہوا۔ آج دولت کی کمی نہیں بلکہ دلوں کے غنا کی کمی ہے اسی لیے معاشرے میں معاشی بے اطمینانی اور اضطراب ہے۔

حضرت معاذ بن انس جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو کوئی مومن کو منافق کی بدزبانی سے بچائے گا‘ اللہ ایک فرشتہ اس کے لیے مقرر کر دے گا جو اس کے گوشت کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا ‘اور جو مومن پر اس کی عزت کو داغ دار کرنے کی خاطر کوئی الزام لگائے ‘ قیامت کے روز جہنم کے پُلوں میں سے ایک پُل پر اسے روک دیا جائے گا۔ وہ اس پر محبوس رکھا جائے گا جب تک کہ وہ اس الزام کے گناہ کی سزا نہ پا لے۔ (ابوداؤد‘ کتاب الادب)

اگر ایمان والے اپنے بھائیوں پر جھوٹے الزامات‘ طعن و تشنیع اور ظلم و زیادتی ہوتے دیکھ کر خاموش تماشائی نہ بن جائیں بلکہ ان کا دفاع کریں‘ الزامات لگانے والوں کو روک دیں تو کسی کو ان کی عزت کو پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔ آج بھی منافقین اپنی زبانِ طعن‘ ایمان والوں پر دراز کرتے رہتے ہیں بلکہ طعنہ زنی کرنے والے منافقین عالمی سطح پر ایک جتھہ اور قوت بن کر میڈیا کے ذریعے دن رات انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ انھیں دہشت گرد‘ انتہا پسند اور جنونی قرار دے کر گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دفاع میں نکلیں‘ بڑی ریلیاں اور جلوس نکالیں‘ کالم اور فیچر لکھیں‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے طعن زنی کرنے والے منافقین کا تعاقب کریں اور ان کی زبانیں بند کردیں۔ ان کی کوششوں کو بے اثر کر دیں۔ ایسا کریں گے تو منافقین کو ناکام کریں گے اور روزِ آخرت حدیث کے مطابق جزا پائیں گے‘ ورنہ ان کا شمار بھی منافقین کے ساتھ ہونے کا اندیشہ ہے کہ اہل ایمان کے دفاع میں جو کچھ کر سکتے تھے وہ کیوں    نہیں کیا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قیامت کے روز تین چیزوں سے پاک ہو کر آیا سیدھا جنت میں داخل ہوگا: تکبر‘ سرکاری مال میں خیانت اور کسی شخص کے دین (قرض) سے۔ (ترمذی)

نبی کریمؐ نے جنت میں داخل ہونے کا راستہ بتا دیا ہے۔ ہے کوئی جو آگے بڑھ کر تکبر‘ خیانت اور قرض کی نادہندگی سے‘ اپنے آپ کو پاک کرے اورجنت میں داخل ہو جائے!