موجودہ نظامِ معیشت میں سرمایہ دار اپنے سرمایے اور اس سے حاصل ہونے والے کثیرمنافع کی وجہ سے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے جاتے ہیں اور دولت چاروں سمت سے سمٹ سمٹ کر سرمایہ دار طبقے کی تجوریوں میں جمع ہوتی رہتی ہے‘ یوں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل طبقۂ غربا‘ متوسط طبقہ اور معینہ آمدنی والے لوگ دن بدن مالی پریشانیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موجود ہے بلکہ ہر وہ معاشرہ جو سرمایہ دارانہ نظام یا مخلوط معاشی نظام اپنائے ہوئے ہے اس میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بے شمار معاشی‘ سماجی‘ اخلاقی اور تمدنی نقصانات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
اس بنا پر اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسان جائز ذرائع سے حاصل کردہ مال کو اپنی ذاتی ضروریات خریدنے پر صرف کرے‘ یا کسی جائز کاروبار میں لگائے‘ یا دوسرے ضرورت مند افراد کو بغرض ضرورت قرض یا فی سبیل اللہ صدقہ کر دے۔ اسی لیے قرآن پاک کا حکم ہے: کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر ۵۹:۷) ’’یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے) کہ یہ مال تمھارے مال داروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے‘‘۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِلا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُم وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۴-۳۵)
اور (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذابِ دردناک کی خوش خبری سنا دو۔ (وہ عذاب) جس دن (واقع ہوگا)‘ جب کہ اس (سونے چاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں‘ ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی۔ (اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) یہ ہے جو تم نے (دنیا میں) اپنے لیے جمع کیا تھا‘ تو جو کچھ تم جمع کرتے رہے (آج) اس کا مزہ چکھو۔
اسی لیے اسلام نے اس بات کا انتظام کیا ہے کہ مختلف معاشرتی‘ اداراتی‘ قانونی اور اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور یہ دولت پورے معاشرے میں گردش کرتی رہے۔ اس ضمن میںسب سے پہلے تو دولت کے حصول کے تمام طریقوں کے لیے ضوابط مقرر کیے ہیں۔ ہر قسم کے غلط طریقوں کی نشان دہی کر کے ان کے ذریعے دولت کے حصول کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ باہمی لین دین میں سود‘ قمار‘ سٹہ بازی‘ حرام اشیا کی خرید و فروخت‘ ملاوٹ‘ کم معیار کی اشیا کی تیاری اور خرید و فروخت‘ احتکار‘ یعنی ذخیرہ اندوزی‘ عیب دار مال کی فروخت‘ اجارہ داریوں کے قیام اور غیرمعمولی منافع کے حصول‘ جھوٹی قسموں‘ دھوکا دہی پر مبنی خرید و فروخت وغیرہ کو ممنوع قرار دے دیا اور خرید و فروخت اور لین دین کے لیے اخلاقی اقدار پر مبنی ایک ضابطۂ اخلاق مہیا فرما دیا۔
اسی طرح معاشی میدان میں کام کرنے والے افراد‘ پیدایش کے شعبے میں کام کرنے والے عاملین پیدایش کے معاوضوں کی بنیاد تقویٰ‘ عدل‘ احسان‘ اخوت‘ مساوات اور تعاون کے سنہری اصولوں پر رکھنے کا حکم دیا تاکہ استحصال کی ساری صورتوں کا استیصال ہو اور کوئی فریق دوسرے فریق پر ظلم نہ کر سکے (اسلامی معاشیات‘ ص ۱۹۹-۲۲۴)۔ گویا مزدور کی مزدوری‘ زمین کا لگان‘ سرمایہ اور کاروباری ناظم کا منافع‘ ان کی بنیاد ان اصولوں پر رکھ دی جس کے نتیجے میں اول تو دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہوگی اور اگر پھر بھی ایک انسان تمام دینی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر معاشی معاملہ کرتا رہا‘اس کے باوجود اس کے پاس دولت جمع ہوتی رہی تو اس کے لیے اسلام نے ایک تفصیلی ضابطہ مقرر کر دیا اور کچھ ایسے اقدامات تجویز کر دیے کہ جن کے نتیجے میں جمع شدہ دولت کی وسیع پیمانے پر تقسیم کا انتظام ہوگیا۔ ان اقدامات میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کو فرض اور لازمی قرار دے دیا گیا۔ مثلاً زکوٰۃ فرض قرار دے دی گئی۔ اسی طرح کچھ اقدامات کو نفلی حیثیت دی گئی لیکن ان پر بہت زور دیا گیا۔ حتیٰ کہ ان کو اللہ کے ذمے قرض قرار دیا۔ ان میں نفلی صدقہ‘ ضرورت مندوں کے لیے قرضِ حسنہ کی فراہمی‘ وقف اور اوقاف کا نظام۔ اس کے علاوہ بعض مواقع پر کچھ چیزوں کی لازمی ادایگی‘ مثلاً عیدالاضحی پر قربانی‘ حج کے موقع پر قربانی‘ عیدالفطر پر صدقہ فطرکی ادایگی۔ بعض معاملات میں کفارہ ادا کرنے کا حکم‘ مثلاً روزہ توڑنے‘ قسم توڑنے وغیرہ کی صورت میں کفارہ کی ادایگی۔ انھی اقدامات میں سے ایک لازمی امر تقسیمِ میراث کا ہے۔
اسلامی نظام تمدن و معاشرت میں تقسیمِ میراث کو قانون کا درجہ دیا گیا ہے اور اس قانون کی پابندی کو ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے‘ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم‘ اس کو تقسیم کے عمل سے گزار کر دُور و نزدیک کے رشتے داروں میں ایک ضابطے کے تحت درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے ‘اور اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو یا نہ ملے تو بجاے اس کے کہ اسے متبنیٰ بناکر دولت کے ارتکاز کو برقرار رکھنے کا موقع دیا جائے‘ اس کے مال کو بیت المال میں داخل کر کے قومی ملکیت قرار دیا گیا ہے تاکہ اس سے معاشرے کے تمام افراد استفادہ کر سکیں۔ اس تحریر میں کچھ اصطلاحات کی وضاحت اور اسلامی قانونِ وراثت کے نمایاں خدوخال کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
وراثت ایک غیر اختیاری انتقالِ ملکیت ہے جس کے ذریعے ایک متوفی کا ترکہ اس کے ورثا کے حق میں بطریق خلافت (جانشینی) منتقل ہو جاتا ہے۔(ایضاً)
(الف) مورث : یعنی وہ شخص جو وفات پا گیا۔
(ب) وارث: وہ افراد جو کہ شرعی طور پر مرنے والے کے ترکے میں حق دار ہیں۔
(ج) ترکہ: کسی شخص کی وفات کے وقت اس کی تمام جایداد‘ منقولہ و غیرمنقولہ‘ نقد و جنس‘ جو شرعاً اس کی ملکیت میں ہو‘ خواہ وہ اس کے قبضے میں ہو‘ یا دوسروں کے ذمے واجب الادا ہو‘ اس میت کا ترکہ کہلائے گی۔
وراثت کے بنیادی اصول دو ہیں جو کہ آیت کے ذیل کے حصے سے اخذ کیے جاسکتے ہیں: … مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ (النساء ۴:۷) ’’ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں خواہ تھوڑا ہو یا بہت‘ لڑکوں کا حصہ ہے اور اسی طرح ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں لڑکیوں کا حصہ ہے اور یہ حصہ ہمارا ٹھیرایا ہوا ہے‘‘۔
دوسرا اصول: عام رشتہ داری بحوالہ ’’والاقربون‘‘۔ اس میں والدین کے علاوہ تمام خاندانی رشتے اور ازدواجی تعلق کی وجہ سے پیدا ہونے والے رشتے شامل ہیں اور اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ رشتے قربت کے رشتے ہوں‘ مثلاً اولاد‘ ماں باپ‘ بیوی شوہر وغیرہ۔
۱- وراثت کی تقسیم افراد کی ضروریات‘ ذمہ داریوں یا کسی اور بنیاد پر نہیں بلکہ قرابت کی بنیاد پر ہوگی۔ اسی لیے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو میراث نہ ملے گی خواہ اس کا باپ مرگیا ہو یا زندہ ہو (اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا فتویٰ پیش نظر رہے کہ مرنے والے کو ایک تہائی مال کی وصیت کا حق حاصل ہے۔ اس لیے یتیم پوتے/ پوتیوں کے حق میں وصیت کر دی جائے)۔
۲- مالِ میراث تھوڑا ہو یا بہت‘ اس میں ہر وارث کا حق ہے اور ہر ایک چیز تقسیم کے عمل سے گزرے۔ بحوالہ قرآن کے الفاظ: مِمَّا قَلَّ مِنْـہُ اَوْ کَـثُرَ ۔
۳- والدین‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بہن وغیرہ کے حصے قرآن پاک نے خود مقرر کر دیے ہیں۔ ان حصوں میں تبدیلی کا اختیار کسی حکومت‘ عالم یا مفتی کو حاصل نہیں ہے۔
۴- وراثت کی تقسیم ایک جبری عمل اور حق ہے۔ اس کے لیے مالک کی رضامندی کی شرط شامل نہیں ہے۔ بحوالہ قرآن کے الفاظ: مفروضًا۔
۵- ایسے مسکین یا یتیم رشتے دار جو کہ وراثت کی تقسیم کے موقع پر موجود ہوں اور ان کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں بنتا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی کچھ دینے کا حکم دیا ہے جو کہ صدقہ ہے نہ کہ حصہ میراث۔ بحوالہ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی… (النساء ۴:۸)
۶- میراث کے حصے قرآن پاک نے متعین کر دیے ہیں۔ اس لیے کسی وارث کو محروم کر دینے (عاق کر دینے) یا اس کے حق سے زیادہ سے حصہ دینے کا حق بھی کسی فرد کو حاصل نہیں۔
۷- اسی ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورثا کے حق میں وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے: بحوالہ لاوصیۃ للوارث۔
۸- اسی طرح کسی ایسے طریقے کو اختیار کرنے‘ کہ جس کے نتیجے میں ورثا کو ان کے حصے سے کم ملنے کا امکان ہو‘ منع کیا گیا ہے۔ بحوالہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اپنا پورا یا آدھا مال صدقہ کر دینے سے روک دیا ہو اور صرف ایک تہائی (۳/۱) مال صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (مشکٰوۃ، باب الوصایا‘ ص ۲۶۵)
۹- اسلام سے پہلے ضعیف لوگ خصوصاً یتیم‘ بچے اور عورتیں وغیرہ وراثت میں حق سے محروم تھے۔ لیکن قرآنِ پاک نے نہ صرف ان کے حصے مقرر فرمائے بلکہ یتیم بچوں کو ان کے حق سے محروم کرنے پر سخت وعید سنائی۔ بحوالہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا… (النساء ۴:۱۰)
۱۰- یتیموں کے سرپرستوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ یتامیٰ کے مالوں کی حفاظت کریں اور سنِ بلوغت کو پہنچنے پر ان کو پورا پورا مال دینے کا اہتمام کریں (بحوالہ النسائ۴:۶)
۱۱- وراثت کی تقسیم درج ذیل اصول پر ہوگی (بحوالہ النساء ۴:۱۱-۱۲)
(ا) کفن و دفن: ترکہ میں سب سے پہلے میت کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) کے اخراجات پورے کیے جائیں لیکن ان اخراجات کو حدِّاعتدال میں رہنا چاہیے۔
(ب) قرض کی ادایگی: بقیہ ترکہ میں قرض کی ادایگی سب سے پہلے کی جائے گی۔ قرض دو اقسام کے ہوں گے۔ ایک وہ جن کا اقرار متوفی نے بحالت ِ صحت کیا ہو‘ وہ پہلے ادا کیے جائیں گے۔ دوسری قسم کا قرض وہ ہے جس کا اقرار مرنے والے نے مرض الموت کی حالت میں کیا ہو۔ وہ بعد میں ادا کیے جائیں گے۔ اگر قرض مالِ وراثت کے برابر ہوں یا زیادہ ہوں تو نہ تو کسی کو وراثت میں حصہ ملے گا اور نہ اگر متوفی نے وصیت کی ہو تو وہ نافذ ہوگی۔
(ج) وصیت کو پورا کرنا: کفن دفن اور قرض کی ادایگی کے بعد جو کچھ ترکہ میں سے بچے‘ اس سے میت کی وصیت پوری کی جائے۔ بشرطیکہ:
۱- وصیت کل مال کے ایک تہائی (۳/۱) سے زیادہ نہ ہو۔
۲- وصیت کسی ایسے وارث کے حق میں نہ ہو جسے ازروے قرآن و حدیث حصہ ملنے والا ہے۔
۳- وصیت کسی حرام کام کے لیے نہ ہو۔
(ا) ذوی الفروض: وہ رشتے دار جن کے حصے شریعت نے مقرر کر دیے ہیں۔ یہ ۱۲قسم کے رشتہ دار ہیں‘ جن میں چار قسم کے مرد اور آٹھ قسم کی عورتیں شامل ہیں۔ مردوں میں میت کا باپ‘ دادا‘ ماں شریک بھائی اور خاوند شامل ہیں‘جب کہ عورتوں میںبیوی‘ ماں‘ بیٹی‘پوتی‘ سگی بہن‘ سوتیلی بہن‘ (باپ شریک)‘ ماں شریک بہن‘ جدہ (دادی‘ نانی) شامل ہیں۔ ذوی الفروض کے بارے میں احکامات واضح طور پر قرآن و حدیث میں دیے گئے ہیں۔
(ب) عصبات: یہ وہ رشتے دار ہیں جن کو وارث تو ٹھیرایا گیا ہے لیکن قرآن و حدیث میں ان کے حصے مقرر نہیں کیے گئے۔ حکم یہ ہے کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو بچے عصبات میں تقسیم کر دینا چاہیے (تقسیم میراث‘ سید شوکت علی‘ ص ۱۷)۔ ان کے متعلق احکام سورۂ النساء میں ہیں اور بخاری کی ایک حدیث ہے: ’’یعنی ذوی الفروض سے جو بچ رہے مرد رشتہ داروں کا حق ہے جو قریبی ہوں‘‘۔ (بخاری)
۱- عصبی نسبی: میت کے ددھیالی رشتے دار (والد کی طرف سے)۔ اس میں بیٹی‘ پوتی‘ سگی اور سوتیلی بہن کے علاوہ بیٹا‘ باپ‘ دادا‘ بھائی‘ بھتیجا اور چچا وغیرہ شامل ہیں۔ (ایضاً‘ص ۲۰)
۲- عصبہ سببی: جنگی قیدی جو کہ اسلامی ریاست نے مسلمانوں میںتقسیم کردیے ہوں یعنی غلام عصبہ سببی میں شامل ہیں۔
(ج) ذوی الارحام: ان میں وہ ددھیالی اور ننھیالی رشتے دار شامل ہیں جو ذوی الفروض یا عصبہ نہ ہوں‘ مثلاً نانا‘ نواسا‘ نواسی‘ماموں‘ خالہ‘ پھوپھی۔ ان کے بارے میں ایک آیت سورۂ نساء میں‘ ایک سورۂ انفال میں اور بخاری کی ایک حدیث ہے: ’’جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے اور بھانجا بھی اس قوم میں شمار ہوتا ہے‘‘۔
۱۳- غیر وارث رشتے یہ ہیں: سوتیلی ماں‘ سوتیلا باپ‘ سوتیلی اولاد‘ سسرالی رشتے دار یعنی ساس‘ سسر‘بیوی کے بھائی بہن‘ داماد‘ بہو‘ بھاوج‘ چچی‘ خالو‘ بہنوئی وغیرہ۔ یہ اس لیے وراثت میں حصہ نہیں پاتے کہ ان کا نسبی تعلق دوسرے خاندان سے ہوتا ہے اور یہ اپنے خاندان میں وارث ہوتے ہیں۔(ایضاً‘ ص ۲۲)
(ا) وراثت کی تقسیم الاقرب فالاقرب (یعنی پہلے قریبی پھر اس کے بعد کے رشتہ دار) کے اصول پر کی جائے گی۔ اسی بنا پر اولاد اور والدین ہرصورت میں وراثت میں حصہ پائیں گے۔ ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔ اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ اگر اولاد میں بیٹوں کے علاوہ بیٹیاں بھی ہوں تو ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے گا۔ (بحوالہ النساء ۴:۱۱)
(ب) قرآن پاک نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیاہے کہ لڑکیوں کے حصے کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ مقرر کیا ہے ۔ اس میں بہنوں اور بیٹیوں کو لازماً حصہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حصہ نہ دینا سخت گناہ ہے اور بیٹی یا بہن نابالغ ہوں تو گناہ بھی دوگنا ہو جاتا ہے۔ ایک میراث نہ دینے کا اور دوسرے یتیم کے مال کو کھانے کا۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع)
(ج) نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت: اگر مرنے والے شخص کا کوئی بیٹا نہ ہو اور ایک سے زائد بیٹیاں ہی ہوں تو ان کو ترکہ میں سے دو تہائی (۳/۲) ملے گا۔ اور تمام بیٹیاں اس میں برابر کی شریک ہوں گی۔ باقی ایک تہائی (۳/۱) دیگر ورثا‘ مثلاً والدین‘ بیوی یا شوہر وغیرہ میں تقسیم کیا جائے گا (دو یا دو سے زائد بیٹیوں کا بھی یہی حکم ہے)۔
(د) اولادِ نرینہ نہ ہو اور وارث صرف ایک لڑکی ہو‘ تو اس صورت میں اس کو والد یا والدہ کے ترکہ میں سے نصف (۲/۱) ملے گا۔ باقی دوسرے ورثا کو ملے گا۔
۱- والدین (دونوں) زندہ ہوں اورمتوفی کی اولاد بھی ہو۔ اس صورت میں باپ اور ماں دونوں کو چھٹا (۶/۱) حصہ ملے گا اور باقی اولاد اور بیوی (یا شوہر) کو ملے گا۔
۲- والدین (دونوں) زندہ ہوں اور متوفی کی اولاد اور بہن بھائی نہ ہوں اور شوہر اور بیوی بھی نہ ہو۔ اس صورت میں والد کو ۳/۲ حصہ اور والدہ کو ۳/۱ حصہ ملے گا‘ لیکن اگر شوہر (یا بیوی) زندہ ہو تو پہلے ان کا حصہ نکال کر بقیہ درج بالا شرح سے تقسیم ہوگا۔
۳- مرنے والے کی اولاد نہ ہو البتہ بہن بھائی موجود ہوں: اگر بہن یا بھائی یا دونوں کی تعداد دو ہو تو اس صورت میں ماں کو ۶/۱ حصہ اور اگر کوئی وارث نہ ہو تو والد کو ۶/۵ حصہ ملے گا اور والدہ کو ۶/۱ حصہ ملے گا۔
(ا) مرنے والی خاتون کے ہاں اگر اولاد نہ تھی تو اس صورت میں مرحومہ کے کل ورثہ میں سے شوہر کو نصف (۲/۱) ملے گا‘ جب کہ باقی ترکہ دیگر رشتے داروں کو حسب ِضابطہ ملے گا۔
(ب) مرحومہ کی اولاد (لڑکا یا لڑکی) ہونے کی صورت میں شوہر کو ایک چوتھائی (۴/۱) ملے گا اور بقیہ تین چوتھائی (۴/۳) دوسرے عزیزوں کو ملے گا۔
(ا) متوفی شوہر بے اولاد ہو تو بیوی کو ایک چوتھائی (۴/۱) حصہ ملے گا اور دیگر رشتے داروں میں بقیہ ترکہ تقسیم ہوگا۔
(ب) متوفی شوہر کی اولاد ہو تو اس صورت میں بیوی کو آٹھواں (۸/۱) حصہ ملے گا۔
(ج) اگر متوفی کی بیویاں ایک سے زائد ہوں تو ۴/۱ یا ۸/۱ میں سب بیویاں برابر کی شریک ہوں گی‘ جب کہ بقیہ ترکہ دیگر رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے گا۔
(د) اگر بیوی/ بیویوں کا مہر واجب الادا ہو تو یہ قرض تصور کیا جائے گا اور ترکہ کی تقسیم سے پہلے بطورِ قرض ادا کیا جائے گا۔
(ا) اسلام دولت کی تقسیم اور اسے وسیع دائرے میں پھیلانے کا داعی ہے۔ اس ضمن میں زیادہ بڑے پیمانے پر تقسیم کے لیے متوفی کے ترکہ کو بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا جا سکتا تھا‘ جس کے نتیجے میں عامۃ الناس کوفائدہ پہنچتا‘ لیکن اس کے بجاے اسلام نے ترکہ قریبی عزیزوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔
(ب) عورتوں کو وراثت میں لازماً حصہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(ج) نہ متوفی اور نہ کوئی اور شخص ہی ورثا کو ان کے حق سے محروم کرسکتا ہے اور نہ ان کے حصوں میں تبدیلی کرنے کا حق ہی رکھتا ہے۔
(د) تقسیم میراث میں نہ تو عمروں کا تفاوت پیشِ نظر ہے (جیسا کہ یورپ میں بڑا بیٹا جایداد کا وارث سمجھا جاتا تھا) اور نہ ورثا ہی میں سے کسی فرد کی ضروریات۔ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدائی حکمت پر اپنی سوچ کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔
(ھ) وصیت کل مال کے ایک تہائی سے زائد میں جائز نہیں اور ورثا کے حق میں بھی نہیں کی جا سکتی۔
(و) متوفی کو متبنٰی بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی وارث نہیں ہے تو ترکہ بیت المال میں داخل کیا جائے گا‘ تاکہ اُمت مسلمہ کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
(ا) مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس معاملے (قانونِ وراثت) میں قرآن نے جو اصول اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو مال ایک شخص کی زندگی میں یکجا مرتکز ہوگیا ہو‘وہ اس کے مرنے کے بعد مرتکز نہ رہنے دیا جائے‘ بلکہ اس کے قرابت داروں میں پھیلا دیا جائے۔ یہ اصول ’’توریث اکبر‘‘ (یعنی یورپی نظامِ وراثت Primogeniture) اور ’’مشترکہ خاندانی جایداد‘‘ (Joint Family System) اور ایسے ہی دوسرے طریقوں کے برعکس ہے جن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مرتکز شدہ دولت مرنے کے بعد بھی مرتکزہی رہے‘‘۔ (معاشیات اسلام‘ ص ۱۰۸)
(ب) مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے الفاظ میں: ’’اسلامی قانونِ وراثت میں تقسیمِ دولت کاجو طریقہ ہے وہ ایسا معتدل اور مدبرانہ ہے کہ اگر صحیح طور پر اس کو اختیار کیا جائے اور سوسائٹی میں اس کا رواج عام ہو جائے‘ تو نہ تو اس سے سرمایہ دارانہ دولت پیدا ہونے کا امکان باقی رہتا ہے‘ کہ جس سے بڑی بڑی زمینداریاں بنتی ہیں اور نہ افراد و اشخاص کے درمیان افلاس و فاقہ مستی کو فروغ ہوسکتا ہے‘ کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس سے دولت کا سامان ہر وقت گردش میں بتا رہے اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پہنچتے رہنے کی وجہ سے کم و بیش ہر فرد کو فائدہ بخشتا رہتا ہے۔
اسلامی قانونِ وراثت پوری معیشت پر بڑے دور رس اثرات کا حامل ہے۔ یہ اثرات انفرادی سطح (micro level) پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اجتماعی سطح (macro level) پر بھی۔ ان اثرات کا مختصر احاطہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
(ا) ارتکازِ دولت کا خاتمہ:ارتکازِ دولت فی زمانہ عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ سے لے کر حکومتوں کی سطح تک بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں اپنی مالیاتی پالیسیوں (Fiscal Policies) میں اسے بڑی اہمیت دینے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن مسئلہ روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے‘ غربت بڑھ رہی ہے‘ امیر و غریب کے درمیان حائل خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ و صدقات کے نظام کے نفاذ کے باوجود ایک شخص کے مرنے پر دولت کے ارتکاز کی صورت میں فوری طور پر اس کی گردش کا اہتمام کر دیا ہے۔ ذوی الفروض‘ عصبات اور ذوی الارحام کے دائرے میں اس کی تقسیم کا حکم یوں دیا گیا ہے کہ کوئی بھی قریبی عزیز محروم نہ رہ جائے۔ یوں دولت پشت در پشت تقسیم کے عمل سے گزرتی جاتی ہے اور ارتکاز میں خاتمے کا سبب بنتی ہے۔
(ب) معیشت میں پھیلاؤ: ارتکازِ دولت کے خاتمے کے نتیجے میں جمع شدہ دولت کئی ہاتھوں میں تقسیم کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت میں مجموعی صرف (aggregate consumption) میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ جس کو پورا کرنے کے لیے اشیا و خدمات کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یوں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور پوری معیشت میں پھیلائو اور اضافہ ہو جاتا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔
(ج) جاگیرداری نظام کا خاتمہ: بڑی بڑی جاگیروں کے قائم ہونے اور پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ مشترکہ خاندانی نظام اور بڑے بیٹے کی وراثت کا حق (Primogeniture) ہے۔ اسلامی قانونِ وراثت میں یہ دونوں طریقے ممنوع ہیں اور مال و جایداد میں وراثت کا حق مختلف افرادِ خاندان کو دے دیا گیا ہے۔ اس طرح جاگیریں بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نظامِ جاگیرداری اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
(د) زرعی پیداوار میں اضافہ: نظامِ جاگیرداری کی موجودگی میں زمین کے مختلف اور بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے قطعاتِ اراضی پر انفرادی توجہ ناممکن ہو جاتی ہے اور اس سے بھی بڑی خرابی غیرحاضر زمینداری کی صورت میں ظاہرہوتی ہے اور یوں زمین سے بھرپور پیداوار حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا‘ جب کہ زمین کے نسبتاً چھوٹے ٹکڑوں پر نئے مالکان زیادہ محنت اور توجہ سے بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں اضافہ‘ اس سے مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ اور معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ اور مزید لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
(ھ) منصفانہ تقسیمِ دولت: نظامِ زکوٰۃ کے عملی نفاذ اور قانون تقسیمِ دولت کے اطلاق کے نتیجے میں دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہوتی چلی جائے گی اور اس کے نتیجے میں امیروغریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کیا جا سکے گا اور معاشرہ بہتر صورتِ حال کی طرف گامزن ہوگا۔
(و) ورثاء کی معاشی حالت کی بہتری: متوفی کی دولت کے جمع رہنے یا بڑے بیٹے کو ملنے سے دیگر ورثا محروم رہ جائیں گے۔ اس صورت میں خصوصاً بچے‘ خواتین اور بوڑھے والدین دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور دوسروںکے محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گے‘ جب کہ اسلامی قانونِ وراثت ان کی معاشی حالت کو بہتر بنا کردوسروں کا دست ِ نگر بننے سے بچاتا ہے۔ (اسلامی معاشیات‘ از پروفیسر عبدالحمید ڈار‘ پروفیسرمحمد عطمت‘ پروفیسرمیاں محمد اکرم‘ ص ۲۴۱-۲۴۲)
نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’اے لوگو! علم الفرائض خود بھی سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھائو کہ وہ نصف علم ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے پہلے جو علم میری اُمت سے اُٹھا لیا جائے گا وہ علم الفرائض ہے‘‘۔(تقسیمِ میراث‘ سید شوکت علی‘ ص ۳-۴)
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علم کو پھیلایا جائے اور مومنوں کو بھولا سبق یاد دلایا جائے اور انھیں اس قانون پر عمل کرنے پر اُنھیں ابھارا جائے۔