بلقان کی سرزمین پر اسلام کا علَم بلند کرنے اور بوسنیا ہرذی گووینا کی آزادی برقرار رکھنے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے علی عزت بیگووچ ۱۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات سے بوسنیا ایک اعلیٰ پائے کے دانش ور‘ تجربہ کار قانون دان اور اصولوں کی جنگ لڑنے والے سیاست دان سے محروم ہو گیا ہے۔ مسلم دنیا عمومی طور پر اور اسلامی تحریکات خصوصی طور پر اُن کی جدائی پر ملول ہیں اور ربِ کریم کے حضور اُن کی سرخروئی کے لیے دُعاگو بھی۔
علی عزت بیگووچ ۸ اگست ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ اِن کے اجداد بلغراد شہر کے رہنے والے تھے۔ علی کی پیدایش سراجیوو کے نواح میں ہوئی۔ جب ان کی عمر دو سال تھی تو اِن کا خاندان مستقلاً سراجیوو شہر میں مقیم ہوگیا۔ علی کے دادا فوجی تھے اور ان کی دادی ترکی سے تعلق رکھتی تھیں۔ علی کے والد ایک چھوٹی کمپنی میں ملازم تھے۔ علی پر اپنی والدہ کے بے انتہا اثرات تھے جوایک دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گراد کاک شہر کا رُخ کیا تاکہ فوج کی جبری بھرتی سے بچ سکیں۔
اُس زمانے میں یوگوسلاویہ پر کمیونسٹ حکمران تھے۔ مذہب سے برگشتہ کرنے والا لٹریچر اسکول میں لازماً پڑھایا جاتا تھا لیکن ماں کی تربیت کے سبب خدا مخالف‘ مذہب دشمن خیالات ان کے لیے اجنبی ہی رہے۔ ان کو مطالعے کا شوق تھا اور گریجوایشن سے پہلے وہ برگسان‘ کانٹ اور سپینگلر کی تحریروں کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ۱۹۴۳ء میں گریجوایشن کا امتحان پاس کیا۔ وہ قانون کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن کاتب تقدیر نے اُن کے لیے قوم کی قیادت لکھ دی تھی۔ اُنھوں نے فوج میں بادلِ ناخواستہ شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو خیرباد بھی کہہ دیا۔ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخِ اسلام‘فکرِاقبال اور عیسائیت کا گہرا مطالعہ انھوں نے اپنے شوق سے کیا۔ پھر ان کا تعلق یوگوسلاویہ کے نوجوانوں کی تنظیم ’’ینگ مسلمز‘‘ کے ساتھ ہوگیا۔ زغرب‘ بلغراد اور سراجیوو یونی ورسٹی کے طلبہ اس کے رُوحِ رواں تھے۔ ۲۲برس کی عمر میں اُنھوں نے رسالہ مجاھدکی ادارت سنبھالی۔کمیونسٹوںنے یکے بعد دیگرے نمایاں طلبہ کو گرفتار کرلیا اور کئی نوجوانوں کو تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ علی کو مختلف الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قید کے دوران علی لکڑیاں کاٹتے رہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اس قید نے تخلیقی ذہن کے مالک اور شعروادب سے دل چسپی رکھنے والے علی کو جفاکش بنا دیا اور بعد میں وہ بڑی سے بڑی آزمایش کو مسکرا کر جھیلتے رہے۔ مذکورہ تنظیم باضابطہ طور پر رجسٹر نہ ہو سکی لیکن اس کی سرگرمیاں طویل عرصہ جاری و ساری رہیں۔
کمیونسٹوں کے ہاتھوںنوجوان طلبہ کی گرفتاریوں اور سزائوں کا دُوسرا دور ۱۹۴۹ء میں شروع ہوا۔ علی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو جس قدر سزائیں سنائی گئیں‘ اگر اُنھیں یک جا کردیا جائے تو کئی ہزار سال بن جاتے ہیں۔ علی نے قانون کی اعلیٰ ڈگری ۱۹۵۶ء میں حاصل کی۔ ۱۰برس تک وہ ایک تعمیراتی کمپنی سے بھی منسلک رہے اور اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔
علی کے مُدلل مضامین مختلف جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ وہ ’اسلامی ڈیکلریشن ‘کے نام سے یکجا کر دیے گئے اور کتابی صورت میں شائع ہوئے لیکن اِن کی اشاعت کے ۲۰ برس بعد حکومت ِ یوگوسلاویہ نے اِن مضامین کی بنا پر علی عزت اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اِن مضامین میں کہا گیا تھا کہ اپنے دین کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے سے مسلمان سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ بغاوت کے زیرعنوان ۱۰۰ روز تک جاری رہنے والے اس مقدمے نے ’مقدمہ سرائیوو‘ کے نام سے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ علی کے خیالات کو بنیاد پرستی کی دعوت قرار دیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۸۳ء کو ۱۹ سال کا ریکارڈ مرتب کرکے عدالت میں پیش کیا گیا کہ علی عزت اور بہمن عمرکتابوں کے ذریعے زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ علی کو ۱۴ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
علی عزت بوسنیا کے مسلم عوام کی حالت ِ زار پر پہلے بھی فکرمند رہتے تھے۔ قیدخانے میں پہنچ کر اُنھیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اندازہ بھی ہوگیا۔ جیل کے اندر ہی اُنھوں نے سیاسی جدوجہد کا تفصیلی خاکہ مرتب کرلیا۔ اس سے ۲۰‘۲۵ برس قبل علی عزت نے اسلام‘ عیسائیت‘دورِ جدید اور آیندہ لائحہ عمل کے زیرِعنوان چند مضامین لکھے تھے۔ دوسری بار قید ہونے کے بعد اُنھیں موقع مل گیا کہ اِن مضامین کو ازسرنو تحریر کریں۔ یہ مضامین کتابی شکل میں امریکہ سے Islam between East & West کے نام سے شائع ہوئے۔ امریکہ میں اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوئے جس سے علی عزت کی شہرت سمندرپار پہنچ گئی۔ مذکورہ کتاب کا اُردو ترجمہ ادارہ معارفِ اسلامی لاہور اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش کے نام سے شائع کرچکا ہے۔
چھ برس بعد علی عزت کو قید سے رہائی ملی۔ اُس وقت رُوس کے زوال کے بعدیوگوسلاویہ کی کمیونسٹ پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو رہی تھی۔ علی عزت نے اپنے ۴۰دوستوں کے ہمراہ پارٹی فار ڈیموکریٹک ایکشن (SDA) قائم کی۔۲۷ مارچ ۱۹۹۰ء کو اس کا منشور منظرِعام پر آیا‘ انسانی و جمہوری اقدار کی بالادستی کی جدوجہد اس کا مطمح نظر ٹھیرا۔ اسی سال قومی انتخابات ہوئے تو بھرپور مہم چلائی گئی’’اپنی سرزمین اپنا نظریہ‘‘ اِن کا نعرہ تھا۔ اُس وقت یوگوسلاویہ کے صوبہ بوسنیا ہرذی گووینا میں رجسٹرڈ مسلمانوں کی تعداد ۲۲ لاکھ ۸۹ ہزار تھی۔ اسمبلی کی ۲۴۰ نشستوں میں سے ۸۶ پر علی عزت کے ساتھی کامیاب ہوئے اور یہ پارٹی قوت بن کر اُبھری۔
روس کے بعد یوگوسلاویہ میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا تو مقدونیہ‘ مانٹی نیگرو‘ کروشیا اور سلووینیا نے اسمبلی میں قراردادیں پاس کر کے آزادی کا اعلان کر دیا اور ان کے اعلانِ آزادی کا خیرمقدم کیا گیا۔ ان حالات میں بوسنیا کی اسمبلی نے بھی آزادی کی قرارداد پاس کرلی۔ ۲۲ مئی ۱۹۹۲ء کو یورپین یونین نے بوسنیا کی آزادی کو تسلیم کر کے ممبرشپ دے دی۔ بوسنیا کے لیے جو جھنڈا منتخب کیا گیا وہ ہسپانیہ کے مسلمانوں کا تھا جو وہ اپنے دورِ عروج میں استعمال کرتے رہے تھے۔ لیکن بوسنیا کی آزادی نے بلقان کے علاقے میں آگ اور خون کے ایک شرمناک سلسلے کا آغاز کر دیا۔ آرتھوڈوکس سربوں اور کروٹوں نے بوسنیا کے اعلان کو تسلیم نہ کیا۔ ۱۹۹۵ء تک بوسنیا دنیا کے اخبارات کی نمایاں ترین سرخیوں کا عنوان بنا رہا۔ ۲۲ لاکھ آبادی میں سے ۲ لاکھ مسلمان (جو ۵۱ ہزار مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے تھے) شہید کر دیے گئے۔ مسلمانوں کو تعذیب خانوں (Concentration Camps)میں رکھا گیا‘اُن کی عورتوں کی جبری اجتماعی آبروریزی جنگی تدبیر (war tactic)کے طور پر کی جاتی رہی‘ مسلمانوںکے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے حلقوم پھاڑ کر تڑپانے اور ہلاک کرنے (throat slitting)کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ یوگوسلاویہ کے جانشین سربیا کے صدر سلوبودان میلاسووچ اور رادوان کرادزچ نے ساری دنیا اور اس کے عالمی اداروں کو پسِ پُشت ڈال کر مسلمانوں کے شہر تباہ کر دیے‘ مسجدیں شہیدکر دیں‘ کوچہ و بازار خاک کر دیے۔ عالمی اداروں‘ مثلاً اقوامِ متحدہ کی امن فوج‘ یورپین یونین کمیشن اور دیگر فلاحی و رفاہی تنظیموں کو زچ کرکے رکھ دیا۔ مذاکرات کی میز پر بھی نئے نئے دائوپیچ آزمائے گئے‘ تبادلۂ آبادی‘ محفوظ مقامات (Safe Havens)‘ وسیع تر آزادی‘ وفاقی حکومت‘ چھ صوبے اور کتنی ہی تدابیر کے ذریعے بوسنیا کو آزادی سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی۔ سراجیوو کا کئی سال محاصرہ رہا۔ موستار‘ بنجالوکا‘ اور دیگر شہروں اور چھوٹے بڑے قصبوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ حقیقی معنوں میں بلڈوزر پھیر دیے گئے۔ شمالی اوقیانوس معاہدہ عظیم (NATO) اور کئی مؤثرادارے اس نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے رہے کیونکہ خون یورپین کا نہیں یورپین مسلمان کا بہہ رہا تھا۔
پانچ برسوں میں نجانے کتنے مواقع آئے کہ جب یہ حکومت ختم ہو جاتی اور بوسنیا‘ سربیا کی گودمیں چلا جاتا لیکن ایک شخص تھا جس نے ہمت نہ ہاری اور وہ شخص بوسنیا کا صدر علی عزت بیگووچ تھا‘ جو ڈٹا رہا‘ سفارتی جنگ بھی لڑی‘ دیگر ممالک سے امداد و تعاون کے لیے درخواستیں بھی کرتا رہا‘ عالمی اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتا رہا‘ امن اور انصاف کی دُہائیاں دیتا رہا‘ اپنے عوام کے لاشوں کو دفناتا بھی رہا‘ بچ رہنے والوں کو پُرسہ دیتا رہا‘ فوج کی تنظیمِ نو کرتا رہا اور بالآخربوسنیا کو اس صدی کے المناک طوفانِ حوادث سے نکال کر آزادی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ بوسنیا کے عوام پر کیا گزری‘ کون کون سے معاہدے ہوتے رہے‘ کہاں کہاں کانفرنسیں ہوتی رہیں‘ عالمی چودھریوں اور شاطروں کا کیا کردار رہا‘ اس کی تفصیلات محمد الیاس انصاری نے اپنی کتابوں مقدمۂ بوسنیا اور سانحۂ بوسنیا میں فراہم کر دی ہیں۔
بوسنیا کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے علی عزت بیگووچ ایران‘ ترکی‘ اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ہر اُس جگہ گئے کہ جہاں انصاف مل سکتا تھا یا داد رسی ہو سکتی تھی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری Inescapable Questions میںانھوں نے اس دور کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ امیرجماعت ِ اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد جنگِ بلقان کے دوران ان سے جاکر دو بار ملے اور اُمت ِ مسلمہ کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مذکورہ کتاب میں جو اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے شائع کی ہے‘ علی عزت نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی اخلاقی پشت پناہی کی۔ جو ممالک سرکاری طور پر اُن کے لیے آواز بلند کرتے رہے اُن کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
علی عزت بیگووچ نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو Dayton کے مقام پر ہونے والے معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے بعد بلقان میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور موجودہ بوسنیا وفاق وجود میں آیا۔ اس میں ایک صوبہ بوسنیائی سربوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسرے صوبے میں مسلمانوں اور کروٹوں کی فیڈریشن ہے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اصل مطلوب رقبے سے کم پر رضامندی کا اظہار کررہے ہیں لیکن اُن کے حالات ایسے ہی تھے جن کا قائداعظم محمدعلی جناح کو قیامِ پاکستان کے موقع پر سامنا تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اُس کا اندازہ برعظیم سے ہجرت کرکے آنے اور خاندان کٹوانے والے بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیا کی صدارت کے لیے تین ممبران پر مبنی صدارتی کونسل میں علی عزت بھی شامل تھے۔ بعدازاں سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے مسلسل خرابیِصحت کی بنا پر استعفا دے دیا۔بوسنیا کے لوگ اُنھیں محبت کے ساتھ ’’باباجان‘‘ کہتے ہیں۔
علی عزت بیگووچ پر الزام تھا کہ وہ انتظامی مشینری پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ملک میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے بحالی کے لیے ملنے والی بڑی بڑی رقوم سرکاری مشینری اور افسرہضم کر رہے ہیں۔ اُن کے مخالفین یہ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے بقربیگووچ کو بوسنیا کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ علی عزت نے ان الزامات کی تردید کی اور اُمید ظاہر کی کہ بوسنیا کو جو اندرونی مسائل درپیش ہیں اُن میں جلد کمی آجائے گی۔
بوسنیا کی آزادی کی جنگ کے دوران علی عزت کو کئی سربراہانِ مملکت سے بار بار ملنے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملا۔ انھیں امریکہ و یورپ کی یونی ورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ اسلام کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد علی عزت بیگووچ ہم سے رخصت ہوچکے ہیں اُن کی وفات کے بعد اُن کی پارٹی کے تین دھڑوں میں تقسیم ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں ‘تاہم آج بھی دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وہ ہمت وجرأت کا مینارئہ نور ہیں ع
خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را
علی عزت بیگووچ ایک جملہ بار بار کہا کرتے تھے اوروہ ہمارے لیے بھی غوروفکر کی راہیں وا کرتا ہے کہ ’جب زندگی کا کوئی متعین مقصد نہ رہے تو زندہ رہنا بے معنی ہو جاتا ہے‘۔