دنیا میں انسان کے پیشِ نظر بیسیوں مقاصد ہوتے ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے اسے متواتر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس تگ و دو اور کش مکش کے دوران اسے قدم قدم پر اپنی کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے جو اسے کسی بڑی قوت کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسی قوت جو ہر مشکل مرحلے پر اس کی دستگیری کرے‘ اس کی راہ کے خطرات کو دُور کر دے اور سفرِ زندگی کی گہری تاریکیوں میں تاحدِّنگاہ اُجالا کر دے۔
وہ قوت بس ایک ہی قوت ہے: عقیدہ و ایمان کی قوت۔ اس قوت کی بدولت بندئہ مومن اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کے فضل کی اسے امید ہوتی ہے۔ اللہ کے عذاب سے وہ ڈرتا ہے۔ وہ نہتا ہو کر بھی بڑا قوی ہوتا ہے کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مفلس و تہی دست ہونے کے باوجود غنی ہوتا ہے۔ تن تنہا رہ کر بھی اپنے آپ کو غالب و توانا محسوس کرتا ہے۔ جب سفینۂ حیات کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے تو وہ کسی اضطراب کا شکار نہیں ہوتا بلکہ پہاڑ کی سی مضبوطی و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان باللہ کی حیرت انگیز طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: لوعرفتم اللّٰہ حق معرفتہ لزالت بدعائکم الجبال‘ اگر تم اللہ کی معرفت کماحقہٗ حاصل کرلو تو تمھاری دعا سے پہاڑ ٹل جائیں۔
فرد کے اندر قوت کا یہ خزانہ دراصل معاشرے کی قوت کا مصدر و ماخذ ہے۔ وہ معاشرہ کتنا سعادت مند ہے جس کے افراد قوت و رسوخ کے اس درجے پر فائز ہوں۔ اس کے برعکس قوتِ ایمان سے محروم‘کمزور‘ ودوں ہمت اور درماندہ لوگوں کا معاشرہ کتنا شقی و بدبخت معاشرہ ہے جس میں کوئی اپنے دوست کی مدد نہیں کرتا اور نہ اپنے دشمن کو ڈرا دھمکا سکتا ہے۔
اللہ قوی و قدیر اور علی و کبیر ہے۔ جو اس پہ ایمان لے آئے‘ اس پر بھروسا کرے اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا پختہ اعتقاد رکھے‘ اللہ کبھی اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۳) اور ایمان داروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ اور جس کی اللہ مدد کرے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا‘ اِنْ یَّنْصُرْکُمْ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰)۔
مومن کی قوت کا دوسرا بڑا ماخذ اس کا حق و صداقت پر ایمان ہے۔ وہ خواہشِ نفس کے زیرِاثر کوئی کام نہیں کرتا۔ نہ ذاتی منفعت نہ جاہلی عصبیت اور نہ ظلم و زیادتی اُس کے اعمال کی محرک ہوتی ہے بلکہ وہ اُس حق کے لیے سب کچھ کرتا ہے جس پر سمٰوات والارض قائم ہیں۔ جہاں حق ہوگا وہاں کوئی دوسری چیز ٹھہر نہیں سکتی۔ وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ۔
قادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سفیر ربعی بن عامر جب ایرانیوں کے سپہ سالار رستم کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے خدم و حشم اور اس کے لشکری سونے چاندی میں لدے پھدے اس کے اردگرد دست بستہ کھڑے ہیں۔ مگر جنابِ ربعی بن عامر کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور اپنے کوتاہ قامت گھوڑے ‘ اپنی موٹی جھوٹی ڈھال اور اپنے معمولی لباس کے ساتھ رستم کے پاس جاپہنچے۔ اس نے سوال کیا: تم کون ہو؟ اللہ کے اس بندے نے پوری قوت سے کہا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے اللہ نے اس مقصد کے لیے مبعوث کیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ لاشریک کی غلامی میں دے دیں‘ اور دنیا کی تنگی سے نکال کر کشایش سے ہمکنار کریں اور باطل ادیان اور طاغوتی قوتوں کے ظلم و جور سے بچا کر اسلام کے سایۂ رحمت میں لے آئیں۔ کشور کشائی ہمارا مقصد نہیں۔ ربعی بن عامر کے اندر یہ کیا چیز بول رہی تھی؟ رستمِ ایران کے سامنے اُن کا یہ بے باکانہ طرزِ تخاطب کس بنا پر تھا؟ صرف اس بنا پر کہ وہ حق و صداقت کے نمایندہ اور علمبردار تھے اور قوتِ حق و صداقت نے ان کے اندر یہ شجاعت اور بے باکی پیدا کر دی تھی۔
انسان کے اندرجو مختلف چیزیں جبن وضعف اور انحطاط پیدا کر دیتی ہیں ان میں سے ایک اُس کا یہ احساس بھی ہے کہ وہ فانی مخلوق ہے کہیں فنا نہ ہو جائے۔ اُس کا کوئی اقدام اُس کی موت کا باعث نہ بن جائے لیکن مومن زندگی کو اِسی دنیا کی زندگی تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ وہ ازروے یقین و ایمان اس کا سلسلہ ناقابلِ تصور حد تک آگے پھیلا ہوا دیکھتا ہے۔ موت اس کی نظر میں ایک پردہ ہے جس کے پیچھے زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کا احساس اسے بزدل نہیں بناتا۔ اس کے برعکس وہ آگے بڑھ کر موت کو گلے لگا لیتا ہے کیونکہ موت آجانے سے وہ ابدی زندگی اور اُس کی نعمتوں کو پالیتا ہے۔
حضرت عمیرؓبن الحمام انصاری غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ کسی موقع پر ایک طرف کھڑے کھجوریں کھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سنے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو آدمی بھی آج اِن (مشرکین) سے لڑے اور نتیجتاً قتل ہو جائے اِس حال میں کہ وہ صابر ہو‘ ثواب کی نیت سے لڑائی میں حصہ لے رہا ہو‘ پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے والا ہو‘ اللہ اسے جنت میں داخل کر دیں گے‘‘۔ اور حضرت عمیرؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا: بخٍ بخٍ (کلمۂ تعجب ہے)۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: اے ابن الحمام‘ کس بات پر تعجب کرتے ہو؟ انھوں نے عرض کی: تو کیا‘یارسولؐ اللہ! میرے اور جنت کے درمیان صرف موت ہی حائل ہے‘یعنی آگے بڑھ کر لڑائی کروں اور مارا جائوں۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: تو اور کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت عمیرؓنے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں پھینک دیں اور کہنے لگے کہ کھجوریںختم ہونے کا انتظار کون کرے۔ اسی وقت دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کی زبان پر یہ رجز تھا:
رکضًا الی اللّٰہ بغیر زادٍ
الا التقی وعمل العادٖ
والصبر فی اللّٰہ علی الجھاد
وکل زادٍ عرضۃ النفادٖ
غیر التقی والبر والرشاد
اللہ کی جانب بغیر زادِ راہ کے رواں دواں ہوں۔ اپنا زادِ راہ تقویٰ اور آخرت میں اجر پانے کی نیت سے کیا جانے والا عمل ہے۔ راہِ خدا میں جہاد کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکا ہوں اور تقوی‘ نیکی اور بھلائی کے علاوہ ہر دوسرا زادِ راہ ختم ہو جانے والا ہے۔
چوتھی چیز جو ایک مومن کے لیے قوت کا باعث ہے وہ اس کا تقدیر پر محکم ایمان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو مصیبت بھی اسے پہنچتی ہے اللہ کے اذن سے پہنچتی ہے۔ تمام انسان‘ جنّ اور دوسری جملہ مخلوقات مل کر بھی اگر کسی کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتیں‘ الا یہ کہ اللہ کی مشیت بھی یہی ہو۔ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰـنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo (التوبہ ۹:۵۱) مومن اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے رزق کی تقسیم ہو چکی ہے اور اُس کی موت کا وقت مقرر ہے۔ اس عقیدے کے نتیجے میں اس کے اندر ایسی زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے جو تمام خطرات و وساوس کا قلع قمع کر دیتی ہے اور وہ بے خوف ہوکر میدانِ جہاد میں کود جاتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بیوی بچوں کا کیا کرچلے ہو تو اُس کا جواب یہ ہوتا ہے: علینا ان نطیعَہٗ تعالٰی کما امرنا وعلیہ ان یرزقنا کما وعدنا۔ ’’ہمارا فرض ہے کہ ہر حال میں اللہ کی اطاعت کریں جیساکہ اُس نے ہمیں حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہمیں رزق دے جس کا اس نے ہمارے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے‘‘۔اِسی طرح اگر کوئی محرومِ ایمان جاکر اُس مردِ مجاہد کی بیوی کے کان بھرے کہ دیکھو تمھیں بھوکا مرنے کے لیے پیچھے چھوڑے جا رہا ہے تو وہ مومنہ خاوند کا دامن پکڑنے کے بجاے پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہے: ’’میں اپنے خاوند کو کھانے والے کی حیثیت سے جانتی ہوں‘ رازق کی حیثیت سے نہیں۔ اگر کھانے والا چلا گیا تو کیا ہوا۔ رزق دینے والا تو موجود ہے‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ قضا و قدر پر ایمان‘ انسان کو جرأت و اقدام کی صفت سے متصف کرتا ہے‘ اس کے اندر شجاعت و بسالت پیدا کر دیتا ہے‘ اسے عظیم کارنامے انجام دینے اور خطرات میں کود جانے کی تاب و تواں بخشتا ہے اور اُس کی طبیعت میں ثبات و استقامت‘ حلم و تحمل اور صبرورضا کے اوصافِ حمیدہ کو پروان چڑھاتا ہے۔
آخری چیزجس سے اہلِ ایمان کو احساسِ تقویت ہوتا ہے وہ دوسرے صاحب ِ ایمان بھائیوں کا وجود ہے‘ وہ بھائی کہ جو اس کی خدمت و خیرخواہی کے لیے وقف ہوتے ہیں‘ اِس کی موجودگی میں ہر طرح اس کے مددگار ہوتے ہیں اور اس کی غیرحاضری میں اس کے حقوق کے محافظ۔ جو دکھ تکلیف میں اس کے غم گسار‘ دل سوز فدائی اور وحشت و خوف میں اس کے لیے سامانِ انس اور بوقت ِ لغزش اُس کے دستگیر ہوتے ہیں۔ جب اس کے قویٰ جواب دے جائیں تو وہ اسے سہارا بہم پہنچاتے ہیں۔ جب کوئی کام کرنے لگے تو وہ اس کے شریکِ کار بنتے ہیں اور جب وہ میدانِ جہاد و قتال میں مصروفِ حرب و ضرب ہوتا ہے تو دوسرے اہل ایمان اس کے دوش بدوش لڑتے ہیں۔ ایک ہزار صاحب ایمان جب کسی دشمن کی جمعیت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ان میں کوئی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا بلکہ ہر ایک اپنے آپ کو ہزار‘ ہزار افراد کی قوت سے سرشار پاتا ہے یا بالفاظِ دیگر وہ ہزار افراد تنِ واحد کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک لشکر دشمن کی فوج کے سامنے صف آرا تھا اور درمیان میں ایک دریا حائل تھا۔ سپہ سالار نے حکم دیا کہ دریا میں چھلانگیں لگا دو اور اسے پار کر کے دشمن پر حملہ آور ہوجائو۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے سارا لشکرِ اسلام دریا میں تھا۔ دوسری طرف دشمن حیران تھا کہ یہ انسان ہیں یا کوئی دوسری مخلوق۔ وسطِ دریا میں جب یہ لشکر پہنچا تو سب نے غوطہ لگایا اور دشمن نے خیال کیا کہ غرق ہوگئے مگر لشکرِاسلام اچانک پھر نمودار ہوگیا۔ دشمنانِ اسلام ایک دوسرے سے استفسار کرنے لگے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ آخر انھیں پتا چلا کہ کسی سپاہی کا پیالہ دریا میں گر گیا تھا۔ وہ چیخا: ’’میرا پیالہ‘ میرا پیالہ‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سب سپاہی اپنے بھائی کا پیالہ تلاش کرنے کی غرض سے پانی میں نیچے چلے گئے۔ اِس ہمدردی و خیرخواہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کی فوج سوچنے لگی: ایک پیالہ دریا میں گر جانے سے یہ لوگ تعاون و ایثار کا اتنا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے خود اِن میں سے کسی کو قتل کر دیا تو نہ معلوم یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اِسی احساس نے ان کی کمر ہمت توڑ دی‘ اُن کے حوصلے پست کر دیے اور مسلمانوں کے جذبۂ اخوت کے سامنے دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔
مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ پر ایمان‘ حق و صداقت پر ایمان‘ خلودِحیات پر ایمان اور قضا و قدر اور اخوت پر ایمان ہی درحقیقت ایک انسان کے مصادرِ قوت ہیں۔ اب یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ مذکورہ بالا حقائق پر جتنا کسی کا ایمان پختہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ خود کو قوی محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو حوصلہ شکن حالات پیدا ہوگئے اور اُن میں جس طرح سیدنا ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمت کو سنبھالا دیا‘ اسے دیکھتے ہوئے جنابِ فاروق کو اعتراف کرنا پڑا: بخدا اگر ابوبکرؓ کا ایمان ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پوری اُمت مسلمہ کا ایمان ترازو کے دوسرے پلڑے میں تو ابوبکرؓ کا پلڑا ہی جھکے گا۔ رسولؐ پاک کی وفات کے صدمے سے بڑے بڑے صحابہؓ کے اوسان خطا ہوگئے تھے خود عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقتی طور پر اپنے حواس کھو بیٹھے ۔ اس موقع پر جنابِ صدیقؓ کا یہ اعلان ان کی زبردست قوتِ ایمانی کا کھلا ہوا ثبوت ہے: جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ وفات پا چکے ہیں اور جو خداے واحد کا پرستار ہے (اس کے لیے خوف اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُسے موت اور فنا نہیں‘‘۔
جیشِ اسامہؓ جسے شام کی طرف بھیجنے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے قبل فرما چکے تھے‘ حضوؐر کی وفات کے بعد عام اصحابِ رسولؐ اس کی روانگی کو اس احساس کے تحت مؤخر کر دینا چاہتے تھے کہ آپؐ کی وفات کی خبرقبائلِ عرب میں نہ معلوم کیا ردِعمل پیدا کرے‘ لہٰذا اس امر کے متحقق ہونے تک وہ اسلامی حکومت کا ساتھ بھی دیتے ہیں یا نہیں‘ جیش روانہ نہ کیا جائے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ جناب رسالت مآبؐ کا یہ فیصلہ ہر قیمت پر نافذ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں ابوبکر کی جان ہے‘ اگر میرا گمان یہ ہوتا کہ درندے میری بوٹیاں نوچ لیں گے پھر بھی میں جیشِ اسامہؓ کو روانہ کرکے رہتا جیسا کہ رسول پاکؐ نے اس کی روانگی کا حکم صادر فرمایا ہے اور اگر لشکر بھیجنے کے بعد میں کہیں تن تنہا رہ جائوں پھر بھی آپؐ کے فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا۔
غور فرمائیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ باتیں کس برتے پر کر رہے تھے؟ انھیں کس قوت و طاقت کا سہارا تھا؟ وہ تنہا تھے پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ محض قوتِ ایمانی کا نتیجہ تھا۔ اس طرح مرتدین مانعین زکوٰۃ کا معاملہ جب پیش آیا تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا: ’’اے رسولؐ اللہ کے جانشین! آپ میں سارے عرب کے ساتھ لڑائی کرنے کی طاقت نہیں‘ لہٰذا دروازے بند کر کے اپنے گھر بیٹھ رہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت کیجیے تاآنکہ موت آجائے‘‘۔
اسی قسم کی رائے جب حضرت عمرؓ کی طرف سے بھی آئی تو آپ نے نہایت سختی سے اس کا نوٹس لیا اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا: خطاب کے بیٹے! جاہلیت میں تم بڑے دلیر تھے‘ اسلام قبول کرکے بزدل ہوگئے ہو۔ یاد رکھو‘ وحی مکمل ہوچکی ہے اور زکوٰۃ کا نصاب مقرر ہے۔ میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ خدا کی قسم! اگر مانعینِ زکوٰۃ نے مجھے اُونٹ باندھنے کی رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں اداکرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِخلافت کے یہ چند واقعات اس لیے نقل کیے گئے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مضبوط ایمان کے حامل لوگ کتنی غیرمعمولی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ کس طرح تن تنہا وہ بڑی بڑی جمعیتوں سے ٹکراجاتے ہیں اور اپنے عزمِ محکم کی بنا پر ایک دنیا کی دنیا کے خیالات و نظریات تبدیل کر کے اسے اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔
یہ ایمانِ محکم انھیں ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رکھتا اور حق و صداقت کا ترجمان بنا دیتا ہے۔ مادی سہاروں کی کوئی اہمیت ان کی نظرمیں باقی نہیں رہتی۔ قوی و طاقت ور ایمان ان کے قول و عمل میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے۔ خوف و حرص ان کے قریب نہیں پھٹکتا اور اپنے وقت کے جابر و مستبد حکمرانوں کو وہ پرکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ یہ سب باتیں محض زبانی باتیں ہی نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات ان حقائق سے بھرے پڑے ہیں۔ (ترجمان القرآن‘ اپریل ۱۹۷۴ئ)