مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۱۶

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ظالموں کی گرفت اور پکڑ کے لیے اس کا اپنا نظام ہے۔   ڈھیل دینے کی مصلحتیں بھی اسی کی تدبیر کا حصہ ہیں، خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بھی اس کا اپنا طریقہ ہے اور اربابِ اقتدار کو اچانک گرفت میں لینا بھی اسی کا حصہ ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ انسانی زندگی خیروشر کی کش مکش سے عبارت ہے۔ کبھی کسی کے دن بڑے اور کبھی کسی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں___ لیکن جلد یا بدیر وہ وقت بھی آتا ہے جب اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال کی سی کیفیت برپا ہوجاتی ہے، بڑی بڑی مضبوط کرسیاں ہلنے لگتی ہیں، ظلم و استحصال کے منبع کی حیثیت سے جو قلعے بڑے اہتمام سے تعمیر کیے گئے ہوتے ہیں اور جن کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بڑے بڑوں کو زعم ہوتا ہے، ان میں شگاف پڑنے لگتے ہیں اور شکست و ریخت اور بگاڑ اور بنائو کے نئے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔

یہ اللہ کی سنت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے: وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (انفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا  تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ زمانے کے نشیب و فراز کا یہ الٰہی قانون ہے اور بالآخر اس کے ذریعے دُور رس تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں، بڑے بڑے تخت اُلٹ جاتے ہیں، برج گر جاتے ہیں، جو بالا ہوتے ہیں وہ زیر ہوجاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ طاقت وروں پر غالب آجاتے ہیں: وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

آج پاکستان میں ملکی سطح پر نگاہ ڈالیں یا عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو ہرطرف تبدیلی کی لہریں موج زن نظر آرہی ہیں۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پرانا نظام دم توڑ رہا ہے اور زمانہ نئے نظام کو دعوت دے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا قانون ہے کہ بہتر تبدیلی اس وقت آتی ہے، جب افراد اور اقوام ایسے تاریخی لمحات کے موقعے پر خاموش تماشائی نہیں بنتے، بلکہ حق و انصاف کے حصول اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے صحیح خطوط پر مؤثر اور قرار واقعی جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، اور بدی کو نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔

اس وقت پاکستان، عالمِ اسلام اور پوری دنیا ممکنہ تبدیلی کے ایک ایسے ہی تاریخی لمحے کے موڑ پر کھڑی ہے۔ کیا ہم تاریخ کی پکار پر لبیک کہنے کو تیار ہیں؟

پاناما لیکس اور عالمی تغیر و تبدل

۳؍اپریل ۲۰۱۶ء کو ایک ایسی خبر نے پوری دنیا میں ایک ہیجان برپا کر دیا، جس کے بارے میں کسی کو کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا اور جو قدرت کا ناگہانی تازیانہ بن کر نازل ہوئی۔    جرمنی کے ایک اخبار نے  ’پاناما لیکس‘ (Panama Leaks) کے نام سے عالمی سطح پر کالے دھن کے کاروبار، اس کی وسعت اور ستم کاریوں کے بارے میں ایک کروڑ سے زیادہ دستاویزات کا راز فاش کیا۔ اس خبر نے دنیا کے گوشے گوشے میں، مالیاتی اور سیاسی میدانوں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔۲لاکھ۲۴ہزار نمایشی کمپنیاں ہیں اور کم از کم ۳۲ ٹریلین ڈالر (۳۲کھرب ڈالر) کا سرمایہ ۳۰ ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں ہے جو دنیا کی کُل سالانہ دولت کا ایک تہائی ہے۔جو نمایشی کمپنیاں ہر طرح کے ٹیکس اور ریاستی نگرانی کے نظام سے بالا ہوکر اپنا کھیل کھیل رہی ہیں، انھیں پاناما میں قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ حیرت انگیز طور پر ۱۴۶ عالمی لیڈر اس کالے کھیل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث ہیں، اور مزید سیکڑوں چہروں سے پردہ اُٹھنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

’آف شورکمپنی‘ کا لفظ جو ایک محدود حلقے ہی میں پہچانا اور بولا جاتا تھا، اب زبانِ زدعام و خاص ہے۔ ٹیکس سے بچائو کی پناہ گاہیں (Tax Havens) جو سرمایہ داروں، بڑی بڑی کارپوریشنوں  اور بنکوں کی کمین گاہیں بن گئی تھیں، اب وہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہیں۔ بڑے بڑے سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں ، حتیٰ کہ ججوں اور خیراتی اداروں کو بھی کالے دھن کے تاجروں اور پجاریوں کی صف میں دیکھا جاسکتاہے۔ اس انکشافی آندھی سے ابھی تو ڈیڑھ سو کے قریب عالمی شخصیات کے چہروں سے پردہ اُٹھا ہے۔ یہ صرف پہلی قسط ہے، جسے سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے پہاڑ کا محض چھوٹا سا حصہ کہا جا رہا ہے۔ بس بارش کے چند پہلے قطرے۔ موسلادھار بارش کی پیش گوئیاں تو ۹مئی سے بعد کے زمانے سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

آئس لینڈ کے وزیراعظم، یوکرین کے صدر، اسپین کے وزیر صنعت و حرفت، FIFA (’فیفا‘ فٹ بال کی بین الاقوامی اتھارٹی) کے سربراہ اور نصف درجن اربابِ اقتدار مستعفی ہوچکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی اخلاقی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور اپنے سارے حسابات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کے باوجود، ان کا قدکاٹھ کم ہوا ہے اور وہ دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ وہ مالیات کی نگرانی کے نظام اور خصوصیت سے کارپوریشنوں اور آف شور کمپنیوں کے کردار میں بنیادی تبدیلیوں کے باب میں فوری اقدام کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

ان کے علاوہ ڈیوڈکیمرون کے وزیرخزانہ، پارلیمنٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن اور متعدد اہم شخصیات نے اپنی آمدنی، ٹیکس ادایگی کی تفصیلات اور ذاتی مالی صورتِ حال، تحریری شکل میں، رضاکارانہ طور پر پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کردی ہے۔ اس طرح انھوں نے بجاطور پر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جواب دہی سے بالاتر نہیں سمجھ رہے۔ یہاں پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جمہوریت کی جو بھی خوبیاں اور خامیاں ہوں، ان میں سب سے اہم چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ سرآئیورجنگز کی کتا ب Cabinet Government (کیمبرج یونی ورسٹی پریس،۱۹۵۹ئ) علمِ سیاسیات میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ: جمہوریت میں اصل چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہے۔اگر اس پر حرف آجائے تو پھر حکمرانی کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمارے دستور میں بھی ایک دفعہ سیاسی قیادت کے صادق اور امین ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن افسوس کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنے دستور کا یہ حصہ یاد رکھنے کی فرصت ہی نہیں!

یورپ کے پانچ ممالک اور دنیا کے ۳۰ سے زیادہ ممالک کے نظامِ احتساب و اصلاح میں تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ آف شور کمپنیوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور کالے دھن کو قابو میں کرنے کی بات اب سرفہرست آگئی ہے۔ ایک طرف احتساب کا عمل ہے، جو حرکت میں آرہا ہے، تو دوسری طرف کالے دھن کا پورا تصور، ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز ( Tax Haven) کا وجود، اس سلسلے کے قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر سوچ بچار اور مالی معاملات میں شفافیت (transparency) کی ضرورت کو وقت کے اہم ترین مسئلے کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ ہزاروں افراد اور اداروں سے جواب طلبی ہورہی ہے۔ دنیا کے پورے مالی دروبست اور ٹیکس کے نظام پر بنیادی نظرثانی کی ضرورت کو اُجاگر کیا جارہا ہے۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں۔ ایک شر سے بہت سے خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، حتیٰ کہ امریکا جس کی نصف درجن ریاستیں ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز کا درجہ رکھتی ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے ان ۳۰ممالک میں، جو  ٹیکس چوری کی پناہ گاہ ہیں اور تیسرے نمبر پر ہے (یعنی پاناما سے بھی اُوپر ہے) اس کے صدر بارک اوباما کو کہنا پڑا ہے کہ:

اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ عالمی سطح پر ٹیکس کی ادایگی سے بچنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسے اس لیے قانونی نہیں بنانا چاہیے کہ محض ٹیکسوں کی ادایگی سے بچنے کے لیے رقوم کی منتقلی (transactions) میں مصروف ہوا جائے، جب کہ اس پر زور     دیا جانا چاہیے کہ اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہرشخص ٹیکس کے سلسلے میں اپنا مناسب حصہ ادا کرے۔ (دی گارڈین، ۵؍اپریل ۲۰۱۶ئ)

امریکی اٹارنی براے مین ہیٹن، مسٹر پریٹ بھرارے نے امریکا کی ان تمام کمپنیوں،  جن کا نام موجودہ فہرست میں آیا ہے اور جن کی تعداد ۲۰۰ ہے ، ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان ۲۰۰کمپنیوں کے بارے میں باقاعدہ تفتیش اور تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ ’’امریکا کی کوئی کمپنی اس فہرست میں شامل نہیں‘‘، یہ درست بات نہیں ہے)۔ (دیکھیے: دی انڈی پنڈنٹ، لندن،۲۰؍اپریل ۲۰۱۶ئ)

کالادہن : کرپشن کی مکروہ شکل

بلاشبہہ پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت، کاروباری شخصیات، حتیٰ کہ ایک سابق اور ایک موجودہ جج تک آف شور کمپنیوں کے اس انکشاف کی زد میں ہیں اور یہ ایک بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ پورے مسئلے کو اس کے عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور وہ راستہ اختیار کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک طرف کالے دھن کا کاروبار کرنے والے افراد اور اداروں پر ریاست کی اور عالمی احتسابی نظام کی بھرپور گرفت ہوسکے، تو دوسری طرف ظلم اور استحصال کے اس نظام کا ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر قلع قمع کیا جاسکے، جس کی وجہ سے کرپشن، معاشی دہشت گردی اور لوٹ مار کی لعنت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفادپرستی، نفع اندوزی، دولت کی شرم ناک عدم مساوات (obscene inequalities) اور انسانوں کے بڑے طبقے کی محرومیاں زندگی کی تلخ حقیقت بن گئی ہیں۔

’کالادھن‘ کرپشن کی ایک ملعون شکل ہے اور اس سے مراد خصوصاً وہ دولت ہے، جو جائز طریقے سے حاصل نہ کی گئی ہو۔ رشوت، کمیشن اور ایسی ہی دوسری قبیح حرکتوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کے ساتھ وہ دولت بھی، جو چاہے جائز طریقے سے کمائی گئی ہو لیکن اگر اس کو ریاست کے ٹیکس کے نیٹ ورک سے باہر رکھا گیا ہو، تو وہ ’کالے دھن‘ میں شمار ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر ایک ہی کمپنی اپنی ذیلی کمپنیوں کی مدد سے اشیاے تجارت کی قیمتوں میں کمی اور اضافے کے ذریعے اخراجات کو مصنوعی طور پر بڑھانے اور دکھائے جانے والے منافعے کو     کم کرنے کے لیے ہاتھ کی صفائی کا مظاہرہ کرے، تو یہ بھی کالے دھن ہی کی ایک صورت ہے۔

اگر یہ کھیل قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کر کے انجام دیا جائے، تو اسے ’فرارِمحاصل‘    یا فرارِ ٹیکس (Tax Evasion) کہتے ہیں اور اگر اس حوالے سے قانون کے کسی سقم سے راستہ نکالا جائے تو اسے ’اجتنابِ ٹیکس‘ (Tax Avoidance)کہتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے دونوں ہی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نیز آمدنی اور اس کے اصل ذرائع کو مخفی (secret) رکھا جاتا ہے، اور حسابات اور مالی معاملات کو اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ اصل نفع راز بھی رہے اور ٹیکس کی مشینری کی گرفت میں بھی نہ آئے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کھلے کھلے دھوکے کا ایک ’خوش نما‘ نام ہے اور ہاتھ کی صفائی کی جادوگری ہے۔ قانون کو ہوشیاری سے توڑا جائے یا قانون کو   بھونڈے طریقے سے توڑا جائے، اخلاقی طور پر دونوں قبیح فعل ہیں اور اپنی روح کے اعتبار سے جرائم ہیں۔ اس لیے قانون کے باب میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پاس داری لفظی اور معنوی اعتبار سے (in letter and spirit) کی جانی چاہیے۔

دین اسلام پر مبنی قوانین کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اَخلاق اور ایک حتمی اور بالاتر اتھارٹی کے حکم پر مبنی ہونے کی وجہ سے ایمان کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت محض قانون کی خانہ پُری کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ حق و انصاف کے قیام اور اللہ کی اطاعت، اور اس کی رضا کے حصول کے جذبے سے ہوتی ہے۔ یہی وہ صورت ہے جس میں قانون اپنی تمام برکات اور اپنے تمام ثمرات سے فرد اور معاشرے کو فیض یاب کرسکتا ہے۔ اللہ اور خلق، دونوں کے سامنے بیک وقت جواب دہی اور اس جذبے کے ساتھ قانون، اس کے الفاظ اور روح کے ساتھ پاس داری میں معاشرے کی مضبوطی اور خوش حالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اپنی وسعت اور ہمہ گیریت سے الٰہی اصول، اور قانون فراہم کرتی ہے۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جو اسلامی قانون اور شریعت کو انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا حقیقی ضامن بناتی ہیں۔ جب ’مذہبی خاندان‘ ہونے کے دعوے دار ’فرار‘ (evasion) اور ’اجتناب‘ (avoidance) کی بات کرتے ہوں تو اس پر تعجب نہ ہو تو اور کیا ہو۔

یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، جب جیل میں مَیں حضرت مولانا معین الدین خٹک مرحوم [مارچ ۱۹۲۰ئ-۲۷جولائی ۱۹۸۲ئ] سے اصولِ فقہ پڑھ رہا تھا، تو باب الحیل کی تدریس کے دوران زکوٰۃ کے بارے میں ایک بات انھوں نے ایسی کہی، جو ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہوگئی۔ زکوٰۃ اس مال پر واجب ہوتی ہے، جو ایک سال تک ایک فرد کی ملکیت میں رہا ہو۔ مولانا خٹک مرحوم نے فرمایا کہ: ایسے لوگ بھی ہیں جو ۱۰ماہ کے بعد اپنی دولت، اپنی بیوی یا کسی رشتے دار کو ہبہ کردیتے ہیں اور اگلے ۱۰ماہ کے بعد وہ رشتہ دار اوّلین مالک کو ہبہ کر دیتا ہے اور اس طرح دونوں زکوٰۃ سے بچ جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ اجتناب کی حیلہ بازی (avoidance) جس کا کریڈٹ لیا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت وہی ہے جس کی طرف مولانا معین الدین خٹک نے متوجہ فرمایا، یعنی:

یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرہ ۲:۹-۱۰) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکابازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے ،جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔

ٹیکس بچانے کی کمین گاہوں اور آف شور کمپنیوں کا پورا نظام: ریاست، قانون کے نظام، معاشرے، انسانیت بلکہ خو د اپنے آپ کو دھوکا دینے کی ایک منظم ( بظاہر قانون کی چھتری کے تحت) کوشش سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، جو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی چال بازی کے سوا کچھ نہیں۔ گذشتہ ۱۰۰ سال کے تجربے کے بعد اب اس کے نظامِ ظلم و استحصال ہونے کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ عوامی ردعمل کے نتیجے میں اسے ختم کیا جائے گا یا پھر کم از کم اس پہلے مرحلے میں اس کی حشرسامانی کو بڑی حد تک محدود کیا جائے گا۔

۲۰ویں صدی کے آغاز میں انکم ٹیکس اور کاروباری ٹیکس کا آغاز ہوا، اور اس کے بعد ہی سے بنکاری نظام میں رازداری کے نام پر ٹیکس چوری کی کمین گاہوں کا قیام، نمایشی اور ذیلی کمپنیوں کا وجود، اور ان کے ذریعے نفعے کو لاگت کا لبادہ اُوڑھا کر کالے دھن کے کاروبار کو آسمان پر پہنچا دیا گیا۔ ابتدا میں پٹرول اور گیس کی کمپنیوں اور ٹرانسپورٹ اور بحری جہازرانی کے شعبے، اس میدان میں بہت آگے تھے، پھر پوری ہی کاروباری دنیا نے اس نظام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ۔ اب یہ اندازہ ہے کہ دنیا کی تجارت کا تقریباً ۴۰ فی صد اس کالے دھندے کے سہارے انجام پذیر ہو رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: Panama and The Criminalization of the Global Finance System از Sharmini Peries and Michael Hudson ، کاؤنٹرپنچ، ۱۸؍اپریل ۲۰۱۶ئ)۔     اس طرح ۳۲ ٹریلین ڈالر سے زیادہ رقم صرف ان ۳۰ ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں ہے۔ جہاں تک ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے، ان کی دولت کا بھی بڑا حصہ انھی پناہ گاہوں کی زینت ہے۔

ورلڈبنک کے ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۳ء تک ۸ئ۷ ٹریلین ڈالر  غریب ممالک سے ان مالیاتی کمین گاہوں میں منتقل ہوئے ہیں، جو تین یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور اٹلی کی مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ ہے۔ اس وقت ان مراکز میں سالانہ ایک ٹریلین ڈالر منتقل ہورہے ہیں اور اس میں سالانہ اضافے کا اندازہ ۵ئ۶ ہے، جو عالمی سطح پر معاشی ترقی کی رفتار میں اضافے سے دو گنا ہے۔ اس طرح منتقل ہونے والے سرمایے کی وجہ سے صرف ٹیکس کی مد میں جو نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہو رہا ہے، وہ سالانہ ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر صرف یہ رقم ترقی پذیر ممالک کے پاس ہو اور کُل سرمایہ انھی میں دوبارہ گردش میں آجائے ہو تو ۱۰سال میں ان تمام ممالک سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور صحت و صفائی اور مناسب سماجی زندگی میں بھی نمایاں ترقی ہوسکتی ہے۔ ایک طرف ان ممالک کی دولت امیر ملکوں کی طرف منتقل ہورہی ہے اور دوسری طرف غریب ممالک، امیرممالک کے قرضے کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں اور مالیاتی اور معاشی غلامی کے نئے شکنجوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔بدقسمتی سے غلامی کے اس نئے دور کو مسلط کرنے میں ان کے اپنے سیاسی قائدین اور کاروباری طبقوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

عالمی ردعمل

’پاناما لیکس‘ کے نتیجے میں جتنے ممالک کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، اور کمیت اور کیفیت ہر دو کے سلسلے میں جو وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے اس کے ایک طرف یورپ اور امریکا کی قیادتیں ہیں، جن کے ساتھ مشرقی ممالک کی قیادت کو بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، تو دوسری طرف عوامی سطح پر اس نے عام لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ استعجاب اور غصے کے بعد اب جو ردعمل ظہور پذیر ہوا ہے، وہ غلامی اور استحصال کے اس نظام کے خلاف بغاوت اور اس سے نجات کی جدوجہد کا ہے۔ اگر اس پہلوسے جان دار ردعمل رُونما ہوسکے تو اس شر سے بہت خیر کے رُونما ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت کیا احساسات کروٹ لے رہے ہیں، اس کا تھوڑا سا اندازہ مندرجہ ذیل آرا سے کیا جاسکتا ہے، جو اس وقت کے عوامی ردعمل اور ہوا کے رُخ کی نشان دہی کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز A Global Web of Corruption کے زیرعنوان ادارتی مقالے (۷؍اپریل ۲۰۱۶ئ) میں بیان کرتا ہے:

سامنے آنے والی ان دستاویزات پر جنھیں ’پاناما دستاویزات‘ کا نام دیا گیا ہے، پہلا ردعمل حیرت زدگی کا ہے، اس دستاویزی ذخیرے کے پھیلائو اور حجم پر اور اس گم نام ذریعے کی غیرمعمولی ہنرمندی پر، جس نے ایک کروڑ ۱۵لاکھ دستاویزات یعنی ۶ئ۲ ٹیرابائٹس کے غیرمعمولی انکشافات پریس کے سامنے لائے، کس طرح آف شور بنک اکائونٹ اور ٹیکس پناہ گاہیں دنیا کے امیر اور طاقت ور افراد اپنی دولت چھپانے یا ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا ردعمل نفرت اور کراہت کا ہے۔ پوری دنیا میں ۱۴ہزار سے زیادہ گاہک اور ۲لاکھ ۱۴ہزار ۵سو سے زیادہ آف شور عناصر نے پاناما کی Mossack Fonseca کمپنی،کو جس کی خفیہ دستاویزات ظاہر ہوئی تھیں، شریکِ جرم کیا۔ یہ معصومیت سے اصرار کرتی ہے کہ اس نے کسی قانون یا اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

لیکن یہ تمام سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں: کس طرح یہ سب سیاست دان ، آمر، مجرم، ارب پتی اور مشہور شخصیات بہت زیادہ دولت جمع کرتے ہیں اور پھر کس طرح ان شیل کمپنیوں کے پیچیدہ جال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، تاکہ اپنی دولت کو چھپائیں؟

 پھر سب سے بڑا اور مرکزی سوال یہ بھی ہے کہ کیا انکشافات کے بعد کوئی چیز تبدیل بھی ہوگی؟ بہت سی رسمی تردیدیں بھی کی گئی ہیں اور سرکاری تحقیقات کے وعدے بھی کیے گئے ہیں، لیکن قانون اور عوام کے سامنے شرمندگی کو اس عالمی اعلیٰ طبقے پر کس حد تک برتری حاصل ہوگی؟ وہ عوام جو حکومتی سطح پر مالیات میں کرپشن کے باربار انکشافات سے پہلے ہی گھبرائے ہوئے ہیں، وہ حقیقت جاننے کا مطالبہ کریں گے۔

ان دستاویزات میں ایک ایسی عالمی صنعت کو تاریخی طور پر ترتیب وار جمع کیا گیا ہے، جس نے ایک بین الاقوامی اشرافیہ کو کرپٹ اور غیرقانونی ذرائع سے مالامال کیا ہے، تاکہ اپنی دولت اور اس کاروبار کو ٹیکسوں، مقدمات اور عوامی غیظ و غضب سے چھپائیں۔ یہ دستاویزات اس مشکوک دولت کا انکشاف کرتی ہیں جسے سرکاری ملازمین نے چھپایا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ پاناما دستاویزات ایک ایسی صنعت کا انکشاف کرتی ہیں جو   بین الاقوامی مالیات کی دراڑوں اور خفیہ راستوں میں پھلتی پھولتی ہے۔ اس نظام کا ایک نتیجہ ٹیکس آمدنی کا وہ حصہ ہے جو وصول نہ ہوسکا۔ اس سے زیادہ خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ یہ جمہوری حکومت اور علاقائی استحکام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے کیوںکہ بدعنوان سیاست دانوں کے پاس، ایک ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں وہ چوری کیے ہوئے اثاثوں کو عوام کی نظروں سے بچاکر خفیہ جگہ پر رکھتے ہیں۔

لندن کے اخبار دی آبزرور (The Observer، ۱۰؍اپریل ۲۰۱۶ئ) نے ادارتی نوٹ میں برطانیہ اور اس کے وزیراعظم کے حوالے سے بات کہی ہے، لیکن اس کا پیغام بھی عالم گیر ہے:

’پاناما دستاویزات‘ کے جو حصے سامنے آئے ہیں اور ان میں جو انکشافات کیے گئے ہیں، وہ پوری دنیا کے رہنمائوں، حکومتوں اور تجارتوں کے لیے سنجیدہ مضمرات رکھتے ہیں۔ اب، جیساکہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ یہ مغربی حکومتیں ہیں، جو ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام کو برداشت کرتی اور سہولت دیتی ہیں ،جو موقع پرستانہ اور عموماً غیرقانونی، استحصالی، ایک نجی ملکیت میں کام کرنے والا ہو اور جس کا انتظام و انصرام بڑی حد تک خفیہ ہو، جو خودمختارکنٹرول کے بغیر، نیز ایک منظور شدہ قواعد کی کتاب اور مؤثر قواعد و ضوابط کے بغیر کام کرتا ہو۔اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک ایسی بااختیار تنظیم ہے، جس کی نگرانی اقوامِ متحدہ کرتی ہو۔

پروفیسر مِل گورٹوو جو پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں، اپنے ایک مضمون مطبوعہ کاؤنٹر پنچ (Counterpunch، ۱۸؍اپریل ۲۰۱۶ئ) میں لکھتے ہیں:

کثیر قومی کارپوریشنوں کے کاروباری انتظام کے بہت سے طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک منافعے کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور ریاست کی خودمختاری کو غیرمستحکم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کم ٹیکس والے ممالک کو منتقل ہوجائیں۔ بہت زیادہ دولت مند افراد کے ٹیکس سے فرار کے نتیجے میں غریبوں پر ٹیکس زیادہ ہو جاتا ہے۔

ایک یورپی مفکر، جس نے یورپ اور امریکا میں تدریس اور تحقیق کے طویل عرصے تک فرائض انجام دیے ہیں، اس نے اس پورے مسئلے پر الجزیرہ ٹیلی وژن (۶؍اپریل ۲۰۱۶ئ) پر اپنی ایک تقریر Panama Papers: Why should we care?  کے دوران بڑی پتے کی بات کہی ہے:

ایک ایسی دنیا میں جس میں عدم مساوات انتہا کو چھوتی ہو اور سماجی مسائل بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے ہوں، جیساکہ ہماری دنیا ہے، ٹیکس پناہ گاہوں کے وجود سے ٹیکس سے بچنے کے معاشی، سماجی اور سیاسی طریقے بے پناہ ہیں۔ ایسے میں وہ معاشرے جو ٹیکسوں کے بغیر ضروری معیار پر کام کے لیے کوشش کر رہے ہوں گے، ناگزیر سماجی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہیں گے۔

لیکن جب مزدور اور اوسط درجے کے تاجر پوری شرح پر ٹیکس ادا کر رہے ہوں، جب کہ عالمی معیشت کی ساتھ ساتھ بڑھوتری اور آف شور پناہ گاہوں کے پھیلنے کی وجہ سے عالمی کارپوریشنوں اور غیرمعمولی دولت مند برسہا بر س سے کم سے کم ٹیکس ادا کر رہے ہوں___ تو پھر عالمی سرمایہ داری، ٹیکسوں کی ناانصافی اور جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کو خوش آمدید کہیے!

آخری بات یہ ہے کہ ’پانامادستاویزات‘ نے جس چیز کا انکشاف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ صرف عالمی ٹیکس کا نظام نہیں بلکہ بذاتِ خود عالمی طرزِحکمرانی ٹوٹ گیا ہے۔ اب آخری چیلنج یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری نظام کو بذاتِ خود تبدیل کیا جائے۔(الجزیرہ، ٹیلی ویژن نیٹ ورک، ۶؍اپریل ۲۰۱۶ئ)

اخلاقی اور نظریاتی پھلو

’پاناما دستاویزات‘ پر جو ردعمل پاکستان میں سامنے آیا ہے اور جن اُمور پر بحث ہورہی ہے، ان پر بھی ہم کلام کریں گے، لیکن جو دو پہلو بدقسمتی سے اس بحث و مباحثے میں تقریباً مفقود ہیں، وہ اخلاقی، نظریاتی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی تباہ کاریوں کا حوالہ ہے، اور جس میں فتنے کی اصل جڑیں ہیں۔

دولت کا ایک وہ تصور ہے جو حرام اور حلال اور انصاف اور ظلم اور دولت کی پیدایش، وسائل کی ترقی اور انسانی معاشرے کی خوش حالی اور تہذیب و ثقافت کی آبیاری سے متعلق ہے۔    یہ زیربحث ہی نہیں آرہا۔ بلاشبہہ افراد کی کرپشن اہم ہے اور اس کے نتائج ملک و معاشرے کے لیے تباہ کن ہیں۔ اس پر مؤثر گرفت بھی ہونی چاہیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری شرط ہے۔ لیکن کالے دھن کے اس کاروبار میں اَخلاق ، قانون، معاشرے، سرمایے اور دولت کے رشتے کو جس طرح نظرانداز کیا جارہا ہے، وہ بحث کو یک رُخا بنادیتا ہے۔  اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کو درپیش مسئلے کو، اس کے تاریخی اور عالمی معاشی نظام کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی روشنی میں مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کریں۔

ہماری نگاہ میں اس کے تین پہلوئوں کو (جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں) سمجھنا، ان کے اسباب کا تعین اور حالات کی اصلاح کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر تبدیلی کا نقشۂ کار مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔

کالے دھن کی لعنت، دولت کے بارے میں غلط تصور، صرف مادی ترقی اور ذاتی اور خاندانی ثروت کی تگ و دو، حرام و حلال اور جائز و ناجائز سے بے پروا ہوکر دولت کی افزایش کا لالچ اور طمع، حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں سے اغماض اور صرف ذاتی غرض اور طمع کا اسیر بن جانا سارے بگاڑ کی بنیاد ہے اور کالا دھن اسی ذہن اور اسی روش کی پیداوار ہے۔

جو دین اسلام یہ حکم دیتا ہو کہ: ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو، دولت پیدا کرو، مگر اس لیے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرو، دعوت اور جہاد کی ضرورتوں کو پورا کرو، معاشرے اور ریاست کی خدمت کرو، ضرورت مندوں اور مجبوروں کو اُوپر اُٹھانے کے لیے وسائل کو بلاتامّل استعمال کرو۔ پھر جو دین یہ بھی دل و دماغ میں محکم کرتا ہو کہ: جواب دہی صرف ظاہری طور پر قانون اور معاشرے کے سامنے نہیں، سب سے بڑھ کر اللہ کے سامنے ہے اور ہم میں سے ہر فرد کو پائی پائی کا حساب دینا ہوگا کہ کہاں سے اور کیسے کمایا تھا اور کہاں اور کیسے خرچ کیا تھا؟ تو پھر پوری معاشی زندگی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

اگر ہمارے دعوے ’مذہبی پس منظر کے حامل خاندان‘ کے سے ہیں اور ہمارا ذہن اور رویہ خالص مادہ پرستانہ اور سرمایہ دارانہ فکرو اَخلاق ہی پر استوار ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ دین پرستی اور مادہ پرستی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے کے لیے اس اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو بالکل شروع ہی میں واضح کردیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کالے دھن، ٹیکس چوری، کرپشن سے حاصل کردہ دولت، ٹیکس چوری کی پناہ گاہوںمیں چھپنے کا کھیل___ اسے مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس پس منظر میں قارئین کے سامنے رکھیں، جس میں یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اس میں اپنے اور غیرسب برابر کے شریک ہیں۔ جن ۱۲ سربراہانِ مملکت کا نام لے کر ان کے یا ان کی اولاد کے یا قریبی عزیزوں کے ملوث ہونے کا ذکر ان دستاویزات میں آیا ہے ، ان میں سے چھے، یعنی ۵۰ فی صد مسلمان ہیں، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔

کرپشن کے خلاف مغربی قیادتیں اظہارِبیان کا لمباچوڑا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ لیکن ان کا قانون، ان کی پالیسیاں، ان کے بنائے ہوئے انتظامات ہی وہ فضا اور میدان فراہم کر رہے ہیں، جس میں یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ جو یورپ کا مالیاتی دارالحکومت ہے اور ہانگ کانگ جو ایشیا کا سوئٹزرلینڈ ہے، اس کے بعد امریکا اس وقت ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں نمایاں ترین  مقام رکھتا ہے۔ خصوصیت سے اس کی چھے ریاستیں جو ’فرارِ ٹیکس‘ کی پناہ گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں،  اس سارے کھیل کی آماج گاہ ہیں۔ برطانیہ کے جزائر تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹیکس چوروں کی پناہ گاہیں بنے ہوئے ہیں اور ان سب کو ایک طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔

گذشتہ ۱۰۰ سال سے یورپ کے بیش تر ممالک میں ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری اور تجارت دونوں کے سلسلے میں رشوت دے کر کاروبار حاصل کرنا، ایک جائز اور قانونی فعل تھا، اور اسے باقاعدہ حسابات میں ضروری اخراجات کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہ تبدیلی صرف گذشتہ ۱۵،۲۰ سال میں آئی ہے کہ اس کھلی کھلی مالی بدعنوانی کے لیے قانونی جواز کو ختم کیا گیا ہے۔ اگرچہ عملاً یہ کھیل  اب بھی جاری ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق چند   یورپی ممالک میں اب بھی کاروبار کے فروغ کے لیے اور خصوصیت سے اسلحے کی فروخت اور میگاپراجیکٹس کے سلسلے میں، اپنے ملک سے باہر رشوت اور کمیشن کی جادوگری کوئی قانونی جرم نہیں ہے۔

آج کے دور میں کالے دھن کی ریل پیل کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر جاننا ضروری ہے اور اس کا جو تزویری تعلق نظام سرمایہ داری، اس کی بنیادی اقدار اور نظامِ کار سے ہے، اس کو سمجھنا ، ازحد ضروری ہے۔ اسی پس منظر میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر ملک میں آپ سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیں گے تو ان تمام بُرائیوں اور تباہ کاریوں سے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں موضوعِ زیربحث کے تین پہلو ہیں، یعنی:

۱- کالا دھن، ان کی کمیت، کیفیت، تباہ کاریاں۔ ان کا ادراک اور لعنت سے نجات کی کوشش۔

۲- وہ نظام ظلم اور استحصال جو اس لعنت کو پیدا کرتا، پروان چڑھاتا اور معتبر بناتا ہے، بلکہ مذہبی پس منظر کے دعوے دار بھی کھلے بندوں اس سے فیض پانے کا اعلان کرتے ہیں۔’فرارِٹیکس‘ (Tax evasion) خلافِ قانون ہوسکتا ہے، لیکن ’اجتنابِ ٹیکس‘ (Tax avoidence) تو ہمارا حق ہے اور اس کے لیے جہاں بھی جانا پڑے، ہمارا پیدایشی حق ہے۔

۳- تیسرا پہلو حالات کی اصلاح کا ہے اور پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں: یعنی احتساب اور غلط کام پر اصولِ انصاف اور قانون کے مطابق مضبوط اور مؤثر گرفت اور نظام، اور اس سے بھی  بڑھ کر اس ذہن وفکر اور طرزِزندگی کی اصلاح، تاکہ ظلم اور استحصال کے نظام سے بچاجاسکے۔

مجھے افسوس ہے کہ اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس اہم موضوع سے متعلق قرارواقعی معلومات پیش نہیں کرسکا اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آیندہ اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ اس وقت صرف چند ضروری نکات کی نشان دہی کرتا ہوں، اور ملک کی قیادت اور خصوصیت سے اسلامی قوتوں کو ان پر غور کرنے اور ان کی روشنی میں اپنی پالیسی اور حکمت عملی طے کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

مسئلے کا حل اور مجوزہ اقدامات

۱-پہلی بات یہ ہے کہ ’پاناما دستاویزات‘ میں جو نام آئے ہیں اور جو مزید آئیں گے، ان سب کے بارے میں ایک واضح پالیسی اور طے شدہ قاعدے کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔  اس کے لیے اس وقت ملک میں اور دنیا میں جو قانونی پوزیشن ہے، اس کی روشنی میں یہ کارروائی ہونی چاہیے۔ شاید اس کے لیے مناسب ترین انتظام یہ ہوکہ ملک میں حکومت، تمام اپوزیشن جماعتوں، عدلیہ اور سول سوسائٹی اور اچھی شہرت رکھنے والے سابق سول بیوروکریسی اور اعلیٰ فوجی افسران کے مشورے سے قومی احتساب کا ایک آزاد، بااختیار اور قابلِ اعتماد ادارہ بنایا جائے اور اسے تفتیش اور قانونی گرفت (Prosecution) کے پورے اختیارات دیے جائیں، ضروری وسائل فراہم کیے جائیں اور تربیت کا نظام بنایا جائے۔ نیزاس کے اندر بھی احتساب و توازن (check & balance) کا اہتمام کیا جائے اور متعین وقت کے اندر اسے زیرغور معاملات کو طے کرنے کا پابند کیا جائے۔

اس کی رپورٹ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہو، اور اس پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھل کر بحث کی جائے، تاکہ یہ ادارہ فی الحقیقت مؤثرانداز میں کام کرے اور محض ’باہمی مالیاتی سودے بازی‘ ( Plea bargaining) کا اکھاڑہ نہ بن جائے۔ یہاں پر مثال کے طور پر یہ امر مدنظر رہے کہ بھارت نے ۲۰۱۳ء میں بیرونی ممالک میں بھارت کے کالے دھن پر گرفت کاقانون بنایا اور احتساب کا نظام قائم کیا ۔ اب تک اس کی دورپورٹیں آچکی ہیں اور گذشتہ دوسال میں، ٹیکس سے بچ جانے والے سرمایے سے ٹیکس کی مد میں ۶؍ارب ڈالر سے زیادہ واجبات وصول کیے جاچکے ہیں۔اگر بھارت میں یہ ہوسکتا ہے تو ہمارے ہاں اس کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟

۲- موجودہ خصوصی صورت حال کے پیش نظر جوڈیشل کمیشن بھی ایک مناسب حل ہے۔ ضرورت ہے کہ بحث کو صرف ٹی وی اور گلیوں میں کرنے کے بجاے بامعنی مذاکرات کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے تحت اسی کے فیصلے سے تفتیشی ٹیم مقرر ہونی چاہیے جو ایسے معتبر اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ہو، جو متعلقہ اُمور کے بارے میں انصاف کے ساتھ تفتیش کرسکیں یا کراسکیں اور عدالتی کمیشن کی صحیح معاونت کرسکیں۔

اس کمیشن کو اپنا کام ایک متعین مدت میں ختم کر دینا چاہیے اور پھر اس کے کام اور تفتیشی ٹیم کی سفارشات کی روشنی میں اُوپر جس احتساب کمیشن کا مشورہ دیا گیا ہے، وہ کام کو جاری رکھے۔

مجوزہ کمیشن کام کا آغاز موجودہ حکومت کے ان تمام افراد کے بارے میں تحقیق و تفتیش سے کرے، جن کا نام ’پاناما دستاویزات‘ میں آیا ہے اور یہ ۱۹۸۶ء سے اب تک کے عرصے کو اپنے   دائرۂ بحث میں لائے۔ لیکن اس کے بعد اس کمیشن کو دو مزید سیاسی قوتوں سے متعلق افراد کے معاملات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے___ یعنی سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے وہ لوگ اور اس کے اتحادی، جو ۱۹۸۸ء کے بعد سے حکومت میں رہے ہیں۔ اس طرح تیسرا سیاسی گروہ صدرپرویز مشرف ان کی حلیف مسلم لیگ کی شریکِ اقتدار پارٹیاں یا شخصیات ہیں، جو جنرل موصوف کے ساتھ ۲۰۰۲ء سے شریک رہی ہیں۔اس طرح گذشتہ ۳۰برس میں جن تین بڑے گروپوں کے ہاتھوں میں حکومت کی زمام کار تھی، ان کا احتساب اسی ترتیب سے اس جوڈیشل کمیشن کو کرنا چاہیے۔ باقی افراد، اداروں، تجارتی اور دوسرے اداروں کا احتساب اسی ماڈل کی روشنی میں مستقل ادارۂ احتساب کرے۔

واضح رہے کہ جناب محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کے بارے میں سوالات ۱۹۹۲ء سے اُٹھ رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دور سے لے کر اب تک ان کے اثاثہ جات میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی مکمل تفصیل قوم کے سامنے آئے۔ آمدنی کے ذرائع، اس پر ٹیکس کی ادایگی، سرمایے کی ملک سے باہر منتقلی، بیرونِ پاکستان جایدادوں اور کاروبار کا حصول، ہرچیز سامنے آنی چاہیے۔ ماشاء اللہ، اب ان کے بچے بڑے ہیں، اور اپنے معاملات کے ذمے دار ہیں، لیکن انھوں نے اپنے کاروبار کا آغاز تو محمد نواز شریف صاحب ہی کے عطا کردہ وسائل سے کیا تھا۔ اس سے متعلق اُمور سامنے آنے چاہییں۔

اسی طرح جناب آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مالی معاملات، شادی کے وقت ان کے مالی وسائل اور اس کے بعد سے اب تک اس خانوادے نے خود یا اپنے نمایندوں (proxies )کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا، اس کی تفصیل اور دلیل و جواز (justifications) قوم کے سامنے آنے ضروری ہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی دستاویزات ملک کے اداروں یا عالمی اداروں اور میڈیا کے پاس ہیں، ان سب کی روشنی میں حالات اور معاملات کی پوری تصویر قوم کے سامنے پیش کی جانی ازبس ضروری ہے۔

ہم نے مارچ ۲۰۱۶ء کے اشارات اور دوسرے متعدد اہلِ قلم نے اپنے مضامین اور کالموں میں ان اسکینڈلوں کا ذکر کیا ہے، جو گارڈین، بی بی سی، برطانوی اور سوئس عدالتوں کے فیصلوں میں ضبط ِ تحریرآچکے ہیں۔ جن کا خلاصہ ریمنڈڈبلیو بیکر نے اپنی کتابCapitalism's Achilles Heel (مطبوعہ ۲۰۰۵ئ) میں پیش کیا ہے، اور جس میں زرداری صاحب کے خاندان کے علاوہ، بلاواسطہ یا بالواسطہ آف شورکمپنیوں اور درجنوں بنک اکائونٹس کی تفصیل دی گئی ہے (ملاحظہ ہو: ص۷۷ تا ۸۲)۔ اس کے علاوہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بڑی اہم رپورٹ ۲۰۰۴ء میں، لندن سے شائع ہوئی تھی، جس کے صفحہ۱۰۲ سے ۱۰۴ تک، گرافکس کی شکل میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں،انھیں بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہی معاملہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے شرکاے اقتدار گروہ کا ہے۔ انھوں نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اثاثوں کا اعلان کیا تھا۔ آج جو کچھ ان کے پاس ہے، اس کے بارے میں اب خاصی معلومات مغربی میڈیا اور خود پاکستانی میڈیا میں برابر آرہی ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسلام آباد، کراچی، دبئی، لندن اور نیویارک میں ان کے پاس اربوں روپے کی جایدادیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر، درجنوں بنک اکائونٹس میں موجود ہیں۔ ان کو بھی اپنے تمام اثاثوں اور ان کے حصول کی تفصیلات کا حساب دینا ہوگا۔ اور یہی معاملہ اس دور میں ان لوگوں کے    ساتھ ہونا چاہیے، جو ان کے شریکِ اقتدار رہے ہیں۔ اندرونِ خانہ کیا کیا کچھ ہوتا رہا ہے، اس کی کچھ جھلکیاں، جنرل مشرف کے ساتھی لیفٹیننٹ جنرل شاہدعزیز کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک؟ میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی قیادت کے بارے میں جو معلومات سامنے آرہی ہیں، وہ بھی اسی دور کا قصہ ہیں۔

اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم ان تین بڑے بڑے ٹولوں (شریف خاندان، زرداری خاندان، مشرف اور ان کے رفقاے کار) کے مالی معاملات کا پورا پورا حساب کتاب ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنی پاک دامنی ثابت کردیں تو سر آنکھوں پر۔ لیکن اس کے برعکس، جس جس کا دامن داغ دار ہے، اس کا احتساب شفاف انداز میں ہونا چاہیے، تاکہ کالے دھن کے اس کاروبار پر کہیں تو ضرب لگے اور کسی مقام پر تو اس کو روکا جاسکے، تاکہ اس تاریک باب کو کہیں ختم کیا جاسکے اور شفاف قومی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوسکے۔۱؎

جوڈیشل کمیشن کی شرائط ِ تحقیقات (ToRs) میڈیا میں اور سڑکوں پر طے نہیں ہوسکتے، بلکہ حکومت اور اپوزیشن سرجوڑ کر بیٹھیں اور طے کرلیں۔ ماضی میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے اور یہی ہے وہ طریقہ جس سے سیاسی مسائل طے ہوتے ہیں۔

۴- ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ ۳؍اپریل ۲۰۱۶ء کے بعد سے حکومت ِ پاکستان کے نمایندوں اور اپوزیشن کے ترجمانوں کے درمیان جس زبان میں، جس انداز میں، اور جن پلیٹ فارموں پر لفظی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا ازحد ضروری ہے۔ اصولی بات کہنے کا موقع ہمیشہ رہتا ہے، لیکن جتنے شخصی انداز میں اور جس زبان اور لہجے میں بات ہورہی ہے، اسے کسی مہذب معاشرے، چہ جائیکہ ایک مسلمان معاشرے میں مناسب، جائز اور معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ سب اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ شرائطِ تحقیقات طے کر کے معاملہ عدالتی کمیشن کے سپرد کردیں اور عدالتی کمیشن بھی اپنے لیے خود ضابطۂ کار طے کرلے، تاکہ ایک طرف اصل مسائل اور معاملات سے انصاف کیا جاسکے اور دوسری طرف کمرئہ عدالت سیاسی محاذآرائی کا ذریعہ نہ بن جائے، بلکہ گرمیِ گفتار کو قابوکرکے ساری توجہ حقیقی تفتیش، تحقیق اور حقائق کے تعین پر مرکوز ہونی چاہیے۔

۵- ہم پورے ادب اور دل سوزی سے میڈیا سے بھی درخواست کریں گے کہ اپنے رویے پر غور کرے۔ حقائق کی تلاش اور مختلف نقطہ ہاے نظر کی عکاسی ان کی ذمہ داری ہے، مگر خود فریق بن جانا اور جلتی پر تیل ڈالنا، ہرچیز کو تماشا بنانا کبھی بھی صحت مند صحافت کی روایت نہیں رہی اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ ہم سنسرشپ کے حامی نہیں، لیکن خوداختیاری سنسرشپ، احساسِ ذمہ داری کی ایک بہتر مثال ہے۔یہی وہ راستہ ہے جس سے زیادہ معتبر اور باوقار انداز سے بحث و گفتگو کو صحیح دائرے میں رکھا جاسکتا ہے اور اصل مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے، جس سے ملک کو کالے دھن اور اقتدار اور اختیار کے غلط استعمال کی لعنتوں سے پاک کیا جاسکتا ہے۔

۶- ملک اس وقت بہت ہی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل، قومی سلامتی کو چیلنج، افغانستان اور بھارت کا رویہ، امریکا کے بدلتے ہوئے تیور، شرق اوسط کا خلفشار، یہ وہ شعلہ فشاں پہلو ہیں جو ہمارے لیے آزمایش کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ علاقائی اور عالمی تناظر میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ان حالات میں ملک کے تمام اداروں اور مؤثر قوتوں کے درمیان تعاون اور مشاورت سے معاملات کو طے کرنے اور قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔ سول، ملٹری تعلقات کا مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے، جسے نظرانداز کیا جاسکے اور نہ  اسے قالین کے نیچے دبا کر رکھا جاسکتا ہے۔

کچھ عناصر تصادم کی فضا بنانے پرتلے نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو ختم کرنا (diffuse) ازبس ضروری ہے۔ ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے کو بڑھانے میں حکومت وقت کی   خراب حکمرانی ہی واحد سبب نہیں ہے، بلکہ ملک اور بیرونِ ملک بہت سے عناصر اس آگ کو بھڑکانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔یہی وہ وقت ہے جب حکومت اور پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور میڈیا بھی ان حدود کا پورا پورا لحاظ رکھے، جو ایسے نازک معاملات کو سلجھانے اور بروے کار لانے کے لیے ضروری ہیں۔

دستور کے تحت کابینہ کی ’دفاع و سلامتی کی کمیٹی‘ وہ اہم فورم ہے، جسے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ اس کی نشست کا فی الحال باقاعدگی سے ہر مہینے اہتمام کیا جائے، جسے بعد میں حالات کی مناسبت سے معمول بنا لیا جائے۔ اسی طرح کابینہ کا اجلاس ہر ماہ لازماً ہونا چاہیے۔ وفاقی کابینہ اور ’مشترکہ مفادات کی کونسل‘ (CCI) وہ ادارے ہیں، جن کو باقاعدگی سے اپنے اداراتی فرائض انجام دینے چاہییں۔ پارلیمانی حکومت نام ہی کیبنٹ گورنمنٹ کا ہے، ورنہ یہ ایک قسم کا صدارتی نظام بن جاتا ہے۔یہ ہمارے دستور اور ہمارے زمینی حقائق دونوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا اور بدقسمتی سے ہم اس طرف لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔اس کے فوری تدارک کی ضرورت ہے۔

۷- حکومت اور اپوزیشن دونوں اسمبلی اور سینیٹ کو قرارِ واقعی اہمیت دیں اور ریاست کے تمام اداروں کو ان کی دستور کی طے کردہ حدود کار اور آج کے زمینی حقائق دونوں کی روشنی میں خوش اسلوبی کے ساتھ اصل توازن کی طرف لے جانے کی کوشش کریں۔

دستور ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں سارے سیاسی مسائل اور اختلافات کو حل کیا جاناچاہیے۔ دستور کے دائرے سے نکل کر جو بھی حل ہوگا، وہ حل نہیں، بلکہ نئے مسائل اور مشکلات کا پیش خیمہ بن جائے گا، اور خدانخواستہ ملک ایسے خلفشار کا بھی نشانہ بن سکتا ہے جو اس کے لیے تباہی کا باعث ہو۔ توقع ہے کہ اس اشارے کو سبھی سیاسی عناصر اور قوتیں محسوس کریں گی، اور دستور سے کھیل کھیلنے کا کسی کو موقع نہیں دیں گی۔

۸- لوکل گورنمنٹ کو جلد از جلد قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ انھیں اختیارات اور وسائل دونوں دیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کی ساری توجہ کا مرکز وفاق اور اپنے اپنے صوبے کے مسائل پر ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں قانون سازی، پالیسی سازی، حکومت کی کارکردگی پر نگرانی، عوامی مسائل پر توجہ اور حکومت اور عوام کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ترقیاتی کاموں ہی میں ان کو گھسیٹنا اور پھر ترقیاتی فنڈ ان کے توسط سے خرچ کرنا بڑے خسارے کا سودا ہے،جو بدقسمتی سے وزیراعظم محمد خاں جونیجو صاحب (۸۸-۱۹۸۵ئ) کے دور سے شروع ہوا اور کرپشن کے فروغ اور اچھی حکمرانی کے پٹڑی سے اُترنے کا سبب بنا ہے۔ اس کلچر کو ختم ہونا چاہیے۔ جو کام لوکل گورنمنٹ کا ہے، وہ لوکل گورنمنٹ کرے اور جو کام صوبے اور مرکز کے اداروں کا ہے، وہ انھیں انجام دیں۔ ترقیاتی کام کے سلسلے میں مرکزی پلاننگ کمیشن اور ہرہرصوبے میں مؤثر پلاننگ کمیشن ضروری ہیں۔ اسی طرح پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی شکنجے سے نکالنا بھی ازبس ضروری ہے۔ فوج اور رینجرز سے معاملہ کاری ( equation) پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ عدالت کی اپنی اصلاح ، تقویت، تربیت اور احتساب، یہ سب ضروری ہیں۔

۹- یہاں ہم دو مسئلوں کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں: ایک معاشرے کا اخلاقی بگاڑ، جس کے نتیجے میں باہمی حقوق کے احترام کا فقدان ہے۔ رواداری اور خوش خلقی سے معاشرہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ جرائم اور جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اور بحیثیت مجموعی معاشرے میں تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو خطرے کی علامت ہے۔ الحمدللہ، آج بھی ہمارے معاشرے میں جو خیر ہے، وہ اللہ کی نعمت ہے اور اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن یہ فکرمندی بھی ضروری ہے کہ معاشرے کی اقدار کمزور ہورہی ہیں اور اخلاقی بگاڑ میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی سب کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہرفرد، خاندان، معاشرہ، دینی اور سیاسی قوتیں، سول سوسائٹی، حکومت اور اس کے تمام ادارے ___ اس باب میں ہر ایک کو متحرک ہونا پڑے گا۔ کرپشن پر گرفت کے لیے احتساب کا مؤثر نظام ضروری ہے، مگر کرپشن کو ختم کرنے کے لیے فرد اور معاشرے کی اخلاقی تعمیر و اصلاح اور ان اسباب کا    چُن چُن کر قلع قمع کرنا ضروری ہے، جو اسے جنم دے رہے ہیں اور پروان چڑھا رہے ہیں۔ آنکھیں بند کرنے سے معاملات حل نہیں ہوسکتے، مسائل کو کھلی آنکھوں دیکھ سمجھ کر ہی قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

۱۰-آخر میں عرض یہ ہے کہ ہمیں ملک کو نظریاتی اور فکری انتشار سے بچانا ہے۔ ہماری آبادی کا ۹۰ فی صد اپنے دین اور نظریے، اپنے ملّی اور قومی تشخص، اپنی اخلاقی اور تہذیبی اساس اور اپنی نئی نسلوں کی منزل کے بارے میں کسی شک کا شکار نہیں ہے۔ فقط، ایک طبقہ ہے جو کبھی لبرل ازم کا ، کبھی سیکولرزم کا راگ الاپتا ہے۔ کبھی دہشت گردی کو جہاد کا شاخسانہ قرار دے کر، کبھی اپنی تاریخ پر خطِ تنسیخ پھیرنے، اور کبھی قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں میں ذہنی پراگندگی اور خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کا رویہ خاصا پریشان کن بلکہ وطن دشمنانہہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سب عناصر سے بھی مکالمے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ان حضرات کو جہاں اپنے نظریات پر قائم رہنے کا حق ہے، وہیں انھیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی شناخت اور مسلم معاشرے کی بنیادی اقدار کوئی بحث طلب شے نہیں ہیں۔اپنے اور غیروں کے کیے ہوئے تمام جائزے (سروے) شاہد ہیں کہ ۹۰ فی صد آبادی شریعت کی بالادستی اور اسلامی اقدار و احکام کی  پاس داری کی خواہاں ہے۔ یہ جذبہ شہری اور دیہی آبادی میں، مردوں اور عورتوں میں، عمررسیدہ افراد اور نوعمر آبادی میں ایک ہی طرز (pattern) پر ہے۔ یہ زمینی حقائق ہیں، جن کا احترام ہی قوم اور معاشرے میں ہم آہنگی اور تعمیری قوتوں کی تقویت کا باعث ہوسکتا ہے۔

جس قوم میں تعداد میں کم ،مگر وسائل میں مضبوط بااثر ، صاحب ِ ثروت طبقوں اور عوام الناس کے درمیان نظریاتی اور تہذیبی کش مکش برپا رہے، وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اختلاف راے کا احترام مہذب معاشرے کی شناخت ہے۔ تاہم، یہ بھی مہذب معاشرے ہی کی ایک ضرورت ہے کہ بااثر افراد، اکثریت کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں اور تبدیلی کا راستہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تعلّم اور اختلاف اور احترام کے ذریعے استوار کریں۔ اگر ایک مخصوص اقلیت محض اپنے وسائل اور بالاتر پوزیشن کے زعم میں اپنے خیالات اور ترجیحات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہوگا۔

ہم ان افراد کو بھی جو مذہبی تشددکا راستہ اختیار کرتے ہیں، یہی مشورہ دیں گے جو لبرل، تشدد پسندوں کو دے رہے ہیں کہ مستقبل کی روشن راہ صرف اعتدال اور توازن میں ہے۔ اپنے مسلک پر قائم رہیے، لیکن دوسرے کے مسلک کی تحقیر نہ کیجیے۔ رواداری اور مکالمہ ہی وہ راستہ ہے، جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔زندگی اور عزت سے زندہ رہنے کا یہی راستہ ہے، جس پر ہمیں ہمت اور استقلال سے سرگرمِ کار رہنا چاہیے۔

ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رُو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات [جزئیات] کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع [معاہدہ] کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔

معاھدے کی نوعیت

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیوںکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید وفروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے  خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار، یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا (free-will and freedom of choice)۔ اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہوجاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کردے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب ِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جوچیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خودمختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خودبخود دست بردار ہوجا۔ اس طرح اگر دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کردے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروںگا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے، اور جو شخص اس سے انکار کردے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویّہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

اللّٰہ سے معاھدے کے تقاضے

بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضَمُّنات  کا تجزیہ کیجیے:

۱- اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمایشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمایش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمایش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر   اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔

۲- دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیرمومن یا خارج از ملّت ہونے کا حکم نہیں لگاسکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعاے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہوجائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو،اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیوںکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ   سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو، وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِعمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

۳- ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہرشعبے میں خدا کی مرضی کے تابع بن کر کام کرتاہے اور اس کے رویے میں کسی جگہ بھی خودمختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کربیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ، اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہوکر اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہوکر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقاتِ نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا    نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے، خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیرمسلم‘ کے نام سے۔

۴- اس بیع کی رُو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا، اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدئہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبرؐ کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خریدوفروخت کے معاملے میں بھی قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا  نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘، بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہوگی ، جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہوجائے اور   فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدئہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۳۵-۲۳۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد کا شدت سے انتظار فرماتے تھے۔ رمضان کے لیے شعبان کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے تاکہ پورے اہتمام سے رمضان کا آغاز کیا جاسکے۔ نبی کریم ؐ کا معمول تھا کہ رمضان کی آمد سے قبل اس ماہ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر صحابہ کرامؓ کو نصیحت فرماتے تھے، تاکہ اہلِ ایمان اس مبارک ماہ کی برکات سے بھرپور استفادہ کرسکیں اور اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرسکیں، اور بھلائی کے طالب آگے بڑھ سکیں۔

  •  حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک بڑا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (اس کے) روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام (تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی، تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اس نے ۷۰فرض ادا کیے۔
  •  رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے، اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو (بھی) دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوا دے، یا ایک کھجور کھلا دے، یا ایک گھونٹ پانی پلادے۔(بیہقی)
  •  لیلۃ القدر کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: جو اس سے محروم رہ گیا وہ تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو ہے ہی بدنصیب! (ابن ماجہ)
  •  آپؐ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) تو اس کے وہ قصور معاف کر دیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ (متفق علیہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطبات اور ارشادات سے رمضان کی فضیلت اور اہمیت بخوبی اُجاگر ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو اس مبارک ماہ کی قدر جانے اور اس کی برکات سمیٹنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرے۔

رمضان اللہ کی بندگی اور حصولِ تقویٰ کا خصوصی موقع ہے۔ صلوٰۃ اور قیامِ لیل وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قرآنِ مجید قربِ الٰہی اور تقویٰ کے حصول کا وہ  نسخۂ ہدایت ہے جو تزکیہ و تربیت اور صراطِ مستقیم پر استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے بہترین سہارا ہے۔ پھر یہ مہینہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی کرنے اور اللہ کی راہ میں انفاق کا مہینہ ہے۔

  •  احساسِ بندگی: رمضان کا اولین تقاضا اللہ کی بندگی کا احساس اُجاگر کرنا ہے۔ روزہ محض بھوک یا پیاس کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی مشق ہے۔ لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا ہم زندگی کے ہرمعاملے میں اللہ کی بندگی کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے نفس، خاندان، برادری، معاشرتی رسوم و رواج کو اللہ کے احکام پر فوقیت تو نہیں دے رہے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کیجیے۔ دو رنگی اور منافقت کی روش کو ترک کیجیے۔ اس کے نتیجے میں رمضان المبارک میں احساسِ بندگی مزید تقویت پائے گا اور روزے کے اصل مقصد کے حصول اور رمضان کی برکات کو سمیٹنے میں مدد ملے گی۔
  •  شعور کے ساتھ نماز: نماز احساسِ بندگی کا عملاً مظاہرہ ہے۔ روزمرہ مصروفیات کو ترک کرکے نماز باجماعت کی ادایگی اللہ کی اطاعت کی عملی مشق ہے۔ نماز کو شعوری طور پر ادا کیا جائے۔ نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کا مفہوم سیکھ لیجیے تاکہ پوری یکسوئی سے نمازا دا کی جاسکے۔ دورانِ نماز اپنا جائزہ لیجیے کہ کیا میں صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کر رہا ہوں؟ اس جائزے کے نتیجے میں تزکیۂ نفس ہوگا۔ خلافِ اسلام روش کو ترک کرنے، بُرائی اور فحش کام سے بچنے کی باربار ترغیب ملے گی۔ اس طرح رمضان میں پورے شعور کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملے گا اور تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ نماز کس طرح سے تزکیۂ نفس اور تربیت کرتی ہے یہ جاننے کے لیے سیّدمودودی کی خطبات، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ، نیز دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات میں سے میاں طفیل محمد کی نماز پر تحریر کا مطالعہ مفید ہوگا۔

نوافل خصوصاً نمازِ تہجد کا اہتمام کیجیے۔ دورانِ نماز قرآنِ مجید کو خشوع و خضوع سے پڑھیے۔ آیات پر غور کیجیے، اپنا جائزہ لیجیے اور احکامات پر عمل کی توفیق و دُعا مانگیے۔ تہجد میں ٹھیرٹھیر کر اور  تدبر اور غوروفکر سے تلاوتِ قرآن سے حقیقی لذتِ ایمان میسر آتی ہے۔ نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کا تزکیہ و تربیت کا اہم ذریعہ ترتیل قرآن اور قیامِ لیل تھا۔

  •  قرآن فھمی:رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ رمضان میں قیامِ لیل (صلوٰۃ التراویح) کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ قرآن کی سفارش کا مستحق بننے کے لیے قرآن سے خصوصی تعلق قائم کیجیے۔ قرآنی عربی سیکھنے کے لیے کورس کیجیے یا انٹرنیٹ پر کسی کورس سے استفادہ کرکے اتنی عربی سیکھ لیجیے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کا مفہوم آپ کے ذہن میں آجائے۔ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ تھوڑی سی مشق سے یہ مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ قرآنِ مجید کی ہدایات سے مستفید ہونے،اس کی لذت اور تاثیر سے صحیح معنوں میں فائدہ تب ہی اُٹھایا جاسکتا ہے جب آیاتِ قرآنی کا مفہوم جانا جائے۔ پھر ان آیات کی روشنی میں اللہ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے۔ تراویح سے قبل ترجمۂ قرآن پڑھنا اور خلاصۂ قرآن کے ذریعے بھی اس تعلق کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
  •  صلہ رحمی اور اِنفاق: رمضان ہمدردی اور اِنفاق کا مہینہ بھی ہے۔ روزے سے بھوک پیاس اور غربت و افلاس کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب، پڑوسیوں اور اہلِ محلہ کی ضروریات کا خیال کیجیے۔ بیماروں کی عیادت کیجیے۔ علاج کے لیے ادویات کی ضرورت ہو تو فراہم کیجیے۔ مالی پریشانی کا سامنا ہو تو ازالے کی صورت بنایئے۔ اس کے لیے دوست احباب کو بھی توجہ دلایئے اور باہمی تعاون سے انفاق کیجیے۔سفیدپوش مستحقین کو تلاش کرکے ان کا حق ان تک پہنچایئے۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور نہ کسی پر احسان جتانے کی کوشش کیجیے کہ اس طرح سے دیے جانے والے صدقات برباد ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول نہیں فرماتا۔ اپنے گھر پر درسِ قرآن یا مطالعۂ قرآن کا اہتمام کیجیے تاکہ دین کی تعلیمات پہنچانے کا فریضہ انجام دیا جاسکے اور سادگی سے روزہ کھلوایئے۔
  •  دعوتِ دین اور اصلاحِ معاشرہ: ہمدردی اور خیرخواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنے بھائیوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا جائے۔ خوبیوں کو اپنانے اور خرابیوں و کوتاہیوں کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ نیز جہنم کی آگ سے بچنے کی تلقین کی جائے۔ رمضان کا احترام کرتے ہوئے معاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی خرابیوں کو روکا جائے اور اس کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے۔

کرپشن اور بدعنوانی جو ناسور بن چکا ہے اور رشوت اور رزق حرام کا ذریعہ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے لوگوں کو توجہ دلایئے کہ معاشرے میں پھیلنے والی خرابی کو اگر نہ روکا جائے تو بالآخر    یہ فسادِ عظیم بن جاتی ہے، بربادی اور خدا کے عذاب کا مستحق بنادیتی ہے۔ اُمت مسلمہ کو تو کھڑا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتی ہے اور بُرائی سے روکتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ اور غلبۂ دین کے لیے کوشش کیجیے۔ رمضان، نیکیوں کے موسمِ بہار میں یہ فریضہ بہ حسن و خوبی ادا کیا جاسکتا ہے۔

  •  دُعا: رمضان کا مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتاتھا، اور دُعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے (دُرِ منثور)۔لہٰذا دعائوں کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ رمضان کی خیروبرکات کو بہترین انداز میں سمیٹنے کی توفیق دے۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق دے۔ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور نیکی کی راہ پر استقامت دے۔ صحیح معنوں میں عبادت و بندگی کی توفیق دے۔ قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل اور دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانے کی توفیق دے، نیز ضرورت مند اور مستحقین تک پہنچ کر اُن کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور ان سب کے نتیجے میں ہماری مغفرت کا سامان اور جہنم سے نجات اور جنت کا مستحق ٹھیرا دے، آمین!

اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں ۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔مسلمان کے مسلمان پر حقوق کے ضمن میں چندگزارشات پیش ہیں:

مسلمان مسلمان کا بہائی ھے!

اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا دینی بھائی قرار دیا ہے۔جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کے جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کامحافظ اور ضامن ہو تا ہے ، اس کی ہرضرورت وحاجت کو ملحوظ رکھتا ہے، بالکل اسی طرح دینی بھائی اس کے لیے نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہے۔ جس طرح سے خونی رشتے مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو  دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہوتا ہے اسے نہ صرف قائم ودائم بلکہ مزید سے مزید تر مستحکم بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ  ( الحجرات ۴۹:۱۰ ) ’’بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہے‘‘۔

اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دینے کے بعد یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)، یعنی آپس میں دوبھائیوں میں ملاپ کرا دیا کروــ۔چنانچہ اپنے بھائی کی اصلاح حال کی فکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپس میں ہمدرد و غم گسار اور شفیق و حلیم بن کر رہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فر مائی:

 مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کر تا ہے نہ اس کو کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔  جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر تا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے کو ئی مصیبت دُور کر ے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دُور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کی پردہ پو شی کر ے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر د ہ داری فرمائے گا۔(بخاری)

 ایک مسلمان کسی بھی تکلیف ،مصیبت اور پر یشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کے مسلمان بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو مصائب اور پر یشانیوں سے آزادکر ے۔ اگر اس کو کوئی حاجت پیش ہو تو اس کی حاجت روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کا انتظام کرے اوراس کے دکھ درد کو دُور کر نے کا ذریعہ بنے۔اس کو کسی ظلم و جبر کے شکار ہو نے سے بچائے۔ اس کو نصیحت کر نا اپنا فرضِ منصبی سمجھے۔اس کو نیکی کی طر ف را غب کر نے اور برائی سے نفرت پیدا کرنے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔ علاوہ ازیں اس کے بال بچوں کی تعلیم و تر بیت کا بھی خیال رکھے۔

مسلمان مسلمان کا آئینہ  ھے!

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے آئینے کی طرح ہو تا ہے۔ آئینہ انسان کو اس کے  جسم پر اور بالخصوص اس کے چہرے پر جو داغ دھبے ہو تے ہیں وہ ان کو من و عن دکھا تا ہے اور   اس میں ذرہ بر ابر بھی کمی بیشی نہیں کر تا۔ آئینہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو اس کی موجودہ حالت کو پوری دیانت داری سے دکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے ایک مو من کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ فر مایا:’’ایک مومن دوسرے مو من کا آئینہ ہے اور ایک مو من دوسرے مو من کا بھائی ہے۔ اس کے ضر ر کو اس سے دفع کر تا ہے اور اس کی عدم موجودگی اس کی نگہبانی کر تا ہے۔ (سنن ابوداؤد )

آئینہ کسی بھی شخص کو غلط فہمی میں نہیں رکھتا ہے اور نہ کسی کو دھو کا ہی دیتا ہے بلکہ وہ اس کو  اپنی اصل ہیئت و شکل سے بخو بی آگاہ کر تا ہے تب جا کے وہ اپنی صورت اور حلیے کو ٹھیک کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی خامیوں اور ان کے عیبوں کی بھر پور  اصلاح کر نے کی کو شش کر ے۔وہ نہ صرف اپنے بھائی کے ظاہری خدوخال کو صحیح کر ے بلکہ باطنی امراض کوبھی دُور کر نے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔اس کی عادات و اطوار کو دُرست کر نے میں پہل کرے۔ اس کو تحفظ فر اہم کر نے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے کسی بھی غیر قانونی کام میں مبتلا نہ ہو نے دے اور نہ اس کو بغیر کسی جرم ہی کے قید میں دیکھنا پسند کر ے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگرکسی وقت قید میں ہو تو اس کو قید سے چھڑانے کی بھر پور کو شش کرے۔مسلمان آپس میں جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں۔اس کی مثال اللہ کے رسولؐ نے بہت ہی جامع انداز میں یوں دی:’’آپس کی محبت اور شفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی سی ہے کہ اگر کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب اور بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)

 مسلمان مسلمان کا خیر خواہ ھوتا ھے !

مسلمان جس امت سے تعلق رکھتا ہے وہ خیر امت کہلا تی ہے ۔خیر امت کا بنیادی کام یہ ہے :

اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)  اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی   ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

خیر اُمت اور خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے ۔اس لیے اللہ کے رسول ؐ نے فر مایا: الدین نصیحۃ ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول ؐ نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحا بی نے عر ض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا : اللہ تعالیٰ ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی )

’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں ۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو ۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کر نا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور     اس کے رسول ؐ ،قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھو ٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے   اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو ۔حضوؐر نے فر مایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہوسکتا    جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری ،کتا ب الایمان )

ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہو تا ہے۔ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اورتر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔

دین سے آگاہ کرتا ھے!

ایک مسلمان کے او پر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو علم کی روشنی سے  منور کر ے۔ اگر وہ خو د اسے علم نہ سکھا سکے تو وہ اس کام کے لیے کسی دوسرے فر د کو تعینات کر ے۔ علم و حکمت ایک ایسی دولت ہے جو دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ     علم و حکمت ہی تمام بھلائیوں کی کنجی ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط( البقرہ ۲:۲۶۹) جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑ ی دولت عطا کی گئی۔

دوسری جگہ علم و حکمت کے حصول کے لیے ابھاراگیا ہے۔ رب کریم نے فر مایا :

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo ( طٰہٰ۲۰:۱۱۴)  اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:

 تمھارے پاس لو گ علم حا صل کر نے کی غرض سے آئیں گے۔ جب تم انھیں دیکھو    تو انھیں علم سکھا ئو۔ایک مسلمان کی یہ بہت بڑ ی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پا س   علم و حکمت کی بات ہو تو وہ اسے دوسرے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، کتا ب السنہ)

علم و حکمت کی بات کو پہنچانے کے سلسلے میں ایک مسلمان کو ہر گز بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس پر سخت و عید سناتے ہو ئے فر مایا:’’ جس شخص سے کو ئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو چھپائے تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دی جائے گی‘‘ (ابن ماجہ ،کتاب السنہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کو علم کی بات سکھا نے کوا فضل صد قہ قر ار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :’’ افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم حاصل کرے اور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو سکھا دے‘‘۔( ابن ماجہ، کتاب السنہ )

ایک مسلمان کو علم چھپانے والو ں ( کتمان علم ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرنا چاہیے ۔ جو مسلمان دینی تعلیم وتربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے کمزور ہو تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی نہ صرف فکر بلکہ کوشش بھی کریں۔

مسلمانو ں کا باھمی تعلق

مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جڑ ے رہنا چاہیے۔ ان کے آپس میں محبت و مودت، ملنسار ی اور گہرے روابط ہو نے چاہییں ۔انھیں ان مضبوط اینٹوں کی طر ح رہنا چاہیے جو دیوار میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر دیوار کی مضبوطی میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ کے رسول ؐ نے اس طرح دی ہے:’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طر ح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے‘‘ (مسلم)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’مو من مومن کے لیے دیوار کی طر ح ہو تا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبو ط بنا تا ہے ‘‘۔(بخاری)

 ایک مسلمان کا ایمان تب ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے سراپا خیر اور ہمدرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کو ئی آدمی اس وقت مومن نہیں ہو گا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہے‘‘۔( متفق علیہ )

مسلمان کا مسلمان پر ظلم کرنا حرام ھے!

مسلمان پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی چاہے اس کے سامنے کی جائے یا اس کی پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔اللہ کے رسولؐ نے اس ضمن میں واشگاف انداز میں تنبیہ فرمائی: ’’مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون،مال اور اس کی آبرو پر حملہ کرنا حرام ہے‘‘۔(مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پریہ عالم گیرا علان فرمایا:

 تمھاری جانیں ، تمھارے مال، تمھارے عزت وآبرو، تمھارے درمیان اسی طرح محترم اور مُقدس ہیں جس طرح آ ج کے دن کی حرمت تمھارے اس مہینے اور اس شہر میں  محترم اور مقدس ہے۔(بخاری، کتاب الحج)

اسی طرح ظلم کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ظلم سے بچو ! اس واسطے کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ظلم کا مرتکب شخص ہر حال میں نقصان اور خسارے میں رہے گا اور ظالم کو اللہ تعالی قیامت کے دن رُسوا کن عذاب میں مبتلا کرے گا ۔(بخاری،حدیث رقم:۲۴۴۷)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵:۱۹) اورجو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

 ظلم کے علاوہ ایک مسلمان پر یہ بھی حرام کیا گیا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے اور دھمکائے یا اس کو کسی بھی قسم کے ہتھیا ر سے خوف زدہ کرے۔ اور جو کوئی ایسا کرے وہ گویا کہ مسلمان ہی نہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پر زور الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہم پر اسلحہ یا ہتھیار ظاہر کیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میںفرمائی:’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طر ف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے ا ور وہ قتلِ ناحق کے نتیجے میں جہنم کے گڑھے میں جاگرے‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے ہتھیار ظاہر کرنے والے شخص کو لعنت کا مستحق ٹھیرایا۔ ’’مسلمان پر ہتھیار سے اشارہ کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (ترمذی )

اسلام تو اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے یا اس پر ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا کجاکہ وہ اس کے خلاف ہتھیار یا اسلحہ اٹھائے۔ جو شخص اپنی شرارتوں سے اپنے مسلمان بھائی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی کمینگی کی وجہ سے اس کے سُکھ اور چین پر شب خون مارتا ہو، تو وہ مومن نہیں ہے ۔لہٰذا، ایک مسلمان کو اس بات پر چوکنا رہنا چاہیے کہ اس سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے؟

مسلمان کو حقیر سمجہنا حرام ھے!

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خلیفہ کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مکر م بھی بنایا ہے ۔اس لیے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت و احترام کر نے میں کسی بھی کو تاہی سے گریز کر ے۔ باہمی  عزت و احترام خو ش گوار ماحول کی ضمانت ہے۔ اس کے بر عکس ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا یا جاننا خوش گوار ماحو ل کو بگاڑ نے کا ایک اہم سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر استہزا کرنے سے منع فر مایا کیوں کہ باہمی تعلقات کے بگڑنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔   آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔(الحجرات۴۹:۱۱ )

ایک شخص دوسرے شخص پر استہزا اور مذاق اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو    اعلیٰ وبر تر اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہو اور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ایک دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں قرآن میں   الگ سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ حضوؐر نے اس ضمن میں ارشاد فر مایا :’’ اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسی عورت کا استہزا نہ کر ے‘‘۔(بخاری )

کسی کو حقیر جاننا، اپنے سے کم تر سمجھنا اور استہزا کر نا ایک گھناؤنا فعل ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں واضح انداز میں موجود ہے ۔ حدیث کے مطابق حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا جنت میں جانے کی رکاوٹ بن سکتا ہے (مسلم،کتاب الایمان )۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے بُرا ہو نے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے‘‘(مسلم)۔لہٰذا اسلامی سماج کی تعمیر اور خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے میں ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ کر عزت واحترام کے ساتھ اس سے تعلقات قائم کر ے۔

اسی طر ح سے جب ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنی ہو یا کو ئی معاملہ در پیش ہو تو اس کے ساتھ نر می و شفقت سے پیش آئے ۔جو شخص نر می و شفقت کے دامن سے خالی ہو تو اللہ کے رسو ل ؐ کی زبان میں وہ ہر خیر سے محروم ہے ۔چنانچہ فر مایا :’’جو شخص نر می کے صفت سے محر وم ہو وہ ہر خیر سے محر و م ہے‘‘۔(مسلم )

مذکورہ حقوق کے علاوہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے عمو می حقوق ہیں۔ ان چھے حقوق کا تذ کرہ حضورِ اکرم ؐ نے اس طرح فرمایا:

 ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حق ہیں۔ پو چھا گیا: یارسولؐ اللہ! وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: جب ملاقات ہو تو اسے سلام کر ے ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب نصیحت کا طالب ہو تو اس کونصیحت کر ے۔جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللّٰہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کے ساتھ جواب دے۔جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، اور جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔(بخاری، مسلم، ابوداؤد)

ان گزارشات کی روشنی میں اگر ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو نہ صرف اخوت و محبت کو فروغ ملے گا بلکہ باہمی اصلاح اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات بھی فروغ پائیں گے، نیز ظلم و زیادتی کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ آج اسلامی معاشرت کے اس نمونے کو عملاً پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات میں مسلم معاشروں میں عورت کا مقام و کردار ایک مرکزی موضوع کا مقام اختیار کرگیا ہے اوربعض غلط العام تاثرات کی تکرار نے بہت سے مسلم اہل قلم کو مدافعانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ کسی بھی عصری مسئلے کا علمی جائزہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب اوراس سے نکلنے والے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے معروضی طورپر یہ دیکھا جائے کہ جس بنیادپر دلائل کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، کیا وہ درست ہے یا اس کی ٹیڑھ پوری عمار ت کے ایک جانب جھک جانے کاسبب ہے اورکیا واقعی مقصود ایک ٹیڑھی عمارت ہے یا سیدھی تعمیر۔

تقابلی مطالعوں میں عموماً ایک محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مواد کو یک جا کردے جو تحقیقی مفروضے سے مطابقت رکھتاہو اور منطقی طور پر وہ نتیجہ حاصل کرلے جو پہلے قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اکثر مغربی تجزیوں کا آغاز مسلم دنیا میں پائی جانے والی چند بے ضابطگیوں سے ہوتا ہے جنھیں عموم کا مقام دے کر وہ نتیجہ حاصل کرلیا جاتاہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے مواد جمع کیا گیا تھا۔مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ کوئی انسان جو کسی معاشرے اورکسی علمی روایت سے وابستہ ہو مکمل طورپر اپنے آپ کو اپنے ثقافتی ماحول سے آزاد نہیں کرسکتا، لیکن اگرایک محقق کو اپنی محدودیت اوراپنے تصورات کا پورا اِدراک ہو اورساتھ ہی وہ دیگر نظریات کو عادلانہ نظر سے دیکھے جس کا حکم قرآن کریم نے شہادت کے حوالے سے دیا ہے کہ چاہے وہ شہادت ایک فرد کے خونی رشتہ دار ہی سے تعلق رکھتی ہو، شہادت حق ہی ہو اوراس میں رشتے کا تعصب نہ آنے پائے۔ چنانچہ علمی جائزے میں بھی اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ ایک مسلمان محقق اسلامی نظام حیات کی حقانیت پر ایمان رکھتاہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور دیگر تصورات کو معروضی طورپر ایک کھلے ذہن کے ساتھ اورپہلے سے تصورکردہ مفروضوں سے نکل کر جائزہ لینے کے بعدایک قول ِفیصل تک پہنچے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرحاضرمیںمغربی فکر اورمغرب زدہ مفکرین جن امور پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں انھیںاسلام میں خواتین کے حقوق خصوصی دل چسپی کا باعث نظر آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیونکہ خود مسلم اہل فکر نے اس موضوع پر یا توفقہی نقطۂ نظر سے فقہی احکام کی تشریح کرتے ہوئے عورت اورمرد یا شوہر اوربیوی کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی ہے، یا بعض اختلافی مسائل میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قانون اورفقہی آرا کا دفاع کیا ہے۔ چنانچہ حدود اورقصاص ودیت کے معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی حیثیت کیا ہوگی، وراثت میں تقسیم کا جو تناسب اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے اس پر کوئی ’نظرثانی‘ ہوگی یا نہیں، ایک شادی شدہ شخص کو دوسری شادی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اورریاست اس سلسلے میں کیا قدغن لگا سکتی ہے___ وہ موضوعات ہیں جو توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اسلامی قانون کے حوالے سے بحث کرتے وقت عموماً جو رویہ اختیار کیا جاتاہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ اکثر مغربی جامعات سے فارغ التحصیل مسلم مفکرین، مغربی فلسفۂ قانون کے مطالعے اور اس کے بنیادی مفروضوں پر ایمان لانے کے بعد اسلامی فقہ اورقانون کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ فکری بنیاد مغربی فلسفۂ قانون ہوتا ہے، اس لیے بار بار وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو نئے ہیں اورنہ منطقی طورپر صحت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قانون جو ساتویں صدی عیسوی میں یا نویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا، آخر کس طرح اکیسویں صدی کے تغیر شدہ ماحول و حالات میں قابل عمل ہو سکتاہے، یا یہ کہ قرآن کے احکامات جو خواتین سے متعلق ہوں یا مردوں سے یا معاشرے کے مسائل سے ، آج کس طرح نافذ ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم ’بدوی‘ معاشرے سے آگے نکل چکے ہیں!

خواتین کی قانونی شہادت ، وراثت میں تناسب، تعلیم کا حصول ، گھرمیں فیصلہ کن معاملات میں مقام، سیاسی کردار، معاشی میدان میں عمل دخل، فوج اورپولیس میں یکساں نمایندگی، نکاح میں مرد کی طرح ایک سے زائد شوہروں سے زواج قائم کرنا، نماز میں امامت اورجمعہ کا خطبہ دینا وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر اس انداز سے بات کی جاتی ہے گویا یہ مسائل اچانک دریافت کرلیے گئے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورشارع اعظم کے علم میں ان کا کہیں آس پاس بھی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان مسائل سے لاعلمی پر مبنی ایک شریعت ہمارے حوالے کردی گئی، اوراب چونکہ یہ مسائل یکایک دریافت ہوگئے ہیں اس لیے وہ شریعت جو ان سے لاعلمی کی بناپربنی تھی خود بخوداپنی قانونی قوت کھوبیٹھی ہے!

علمی اورمعروضی تحقیقی حکمت عملی کا بنیادی مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بات طے کرلی جائے کہ شریعت ہے کیا؟کیا یہ ایک مردانہ ذہن کے پیداکردہ تصورات اورحدود و قیود پر مبنی ہے، یا اسے خالق کائنات اورصانعِ انسان نے انسان اورانسانی معاشرے کی ضروریات، مستقبل کے مطالبات اورضروریات کے پیش نظر نازل کیا ہے؟ اگر شریعت زمان و مکان کی قید میں ہے تو لازماً اسے   تغیر و تبدیلی سے گزرنا ہوگا لیکن اگر شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد اُن آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جن پر انسانی خمیر کی تعمیر کی گئی ہے، تو اس میں آفاقیت ہوگی اورتبدیلیِ زمان و مکان سے اس کی قانونی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔

مرد اورعورت سے متعلق جو ہدایت نامہ قرآن کریم کی شکل میں اور اس کا عملی نمونہ حیاتِ مبارکہ سید الانبیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، ان دونوں میں  عدم تغیر، آفاقیت اورعالم گیریت کو اپنی مکمل شکل میں رکھ دیا گیا ہے ۔اس بنا پر قرآن کریم نے سنت کو تشریعی مقام دیا ہے۔ سنت، مدینہ اورمکہ کی زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ محض اخلاقی نصائح تک محدود نہیں ہے۔ یہ حدود کے اجرا، بین الاقوامی معاہدات، سفرا کے تقرر، قاضیوں اورمفتیوں کی نامزدگی، زکوٰۃ کے نصاب، مرتدین کے خلاف قتال، معاندین زکوٰۃ کی سرکوبی، غرض ان تمام معاشرتی ، معاشی ،سیاسی اورقانونی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو منصب ِنبوت کے فرائض میں شامل تھے۔

بعض سادہ لوح افراد قرآن فہمی کے دعووں کے ساتھ جب یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ’رجم‘ کا ذکر نہیں پایا جاتاتو یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم شارع اعظم کو حکماً یہ اختیاردیتاہے کہ وہ تحلیل و تحریم کریں۔ نتیجتاً ان کے تحکیم کردہ معاملات کو حتمی مقام حاصل ہوجاتاہے:’’(پس آج   یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسول نبی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتاہے۔ وہ انھیں نیکی کاحکم دیتا ہے بدی سے روکتاہے۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتاہے، اوران پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اوروہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف ۷:۱۵۷)۔ یہاں پر براہِ راست رسولؐ کو تحریم و تحلیل کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؐ کافیصلہ اللہ کے فیصلے کی طرح ہے اورجو اس فیصلے کو قرآن کے احکامات سے الگ سمجھتا ہے اس کا مقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ایمان کی شرائط میں سے یہ شرط قرآن کریم خود بیان کرتاہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورفیصلے کو کشادہ دلی کے ساتھ، بلا کسی تردد کے نہ مانا جائے، اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتاہے: ’’ نہیں، (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘(النساء ۴:۶۵)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ سبحانہ کی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرقانِ حکیم فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ،اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اورجو منہ موڑ گیا، تو بہر حال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘(النسائ۴:۸۰)۔ اس سلسلے میںحرف ِآخر وہ فرامین ہیں جو یہ کہتے ہیں:’’مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسولؐ کی اطاعت کرو اوراپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو‘‘ (محمد۴۷:۳۳)۔ مزید یہ کہ ’’اورجب ان سے کہا جاتاہے کہ آئو اس چیزکی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے تو ان منافقوں کو    تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء ۴:۶۱)

اس ضمنی توضیح سے قطع نظر، جو بات بلاجھجک کہنے کی ضرورت ہے وہ بہت آسان ہے۔    وہ یہ کہ اسلام اپنے تصورِ عدل کی بناپر مرد اورعورت دونوں کے حوالے سے جوہدایات دیتا ہے ان کی بنیاد جنسی تفریق نہیں ہے، جب کہ مغربی اورمشرقی فکر چاہے وہ مذہبی مصادر میں ہو یا معاشرتی علوم میںاس کی بنیاد جنس(gender)کی تفریق (discrimination)پرہے۔ چنانچہ اسلام نے جو حق خواتین کو ساتویں صدی عیسوی میں دیا کہ وہ ریاستی امور میں اپنی راے خلیفہ کے انتخاب کے موقعے پر دیں (حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقعے پر مدینہ کے ہر گھر کی خواتین سے ان کی راے سرکاری طور پر لی گئی )، وہ حق یورپ میں ۱۸۹۲ء میںصرف اصولی طور پر تسلیم کیاگیا، جب کہ اس پر عمل بیسویں صدی میں ہوا۔

آج بھی مغرب اورمشرق میں خواتین کاغذی حد تک تو بعض حقوق رکھتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔

اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ ’عدل‘ ہے۔ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک فرد پر اس کی برداشت اوراستعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کی وسعت کے لحاظ سے اس کی  جواب دہی ہو۔ یہ قرآنی اصول کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)، ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔

چونکہ اسلام ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قرار دیتا ہے اورمذاہب عالم کے تمام تصوراتِ ’تقویٰ و پاک بازی‘ کے بر خلاف رشتۂ ازدواج اورشوہر اوربیوی کے صحت مندانہ اخلاقی تعلق کو تقویٰ اورایمان کی علامت سمجھتا ہے، اس بنا پر عدل کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی سیاسی، معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کو خاندان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے شریعت کے بنیادی مقاصد اور ’مصلحت‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک ’کمائو بیوی‘کا حصول نہیںہے بلکہ آنے والی نسلوں کی معمار اورگھر کے اندر سکون، رحمت اورموّدت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔

اسلام کا تصورِ اجتماعیت اس کے عدلِ اجتماعی سے منطقی طور پر وابستہ و پیوستہ ہے اور یہ تصور مغربی اور مشرقی تصورِ انفرادیت کی مکمل ضد ہے۔ اس میں فرد کو جائز قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مقام کا تحفظ دیتے ہوئے معاشرتی رشتے میں جوڑا گیا ہے، جب کہ دیگر نظاموں میں، وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فرد کو عبادات میں محض اپنے خدا سے رشتہ جوڑنے کا تصور اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی تصورِ عبادت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان ایک نجی (private)اور ذاتی(personal) رشتہ ہے۔ اسلام اس کی تردید کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ نماز جماعت کی شکل میں قائم کرو اور اجتماعی طورپر نہ صرف نماز بلکہ صیام ،حج اور زکوٰۃ کو ادا کرو۔ قرآن کریم ان عبادات کے لیے ریاست کو ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ ان کے قیام اور تحفظ کے لیے اپنی قوت نافذ ہ کا استعمال کرے۔ یہ بنیادی نظریاتی فرق اگر سامنے نہ رکھا جائے تو پھر اہلِ علم بھی اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب یا مشرق عورت کو کون سے ’انفرادی حقوق‘ دیتا ہے اور مقابلتاً اسلام کون سے ایسے حقوق دیتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیںہے کہ انفرادی حقوق کی دوڑ میں کون کس سے آگے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عدل کس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ عدل ہوگا کہ ایک خاتون سے یہ کہا جائے کہ وہ اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرے،ایمان کی تکمیل کے لیے شادی کرے اور اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو جو وہ ایک سماجی معاہدے کے ذریعے اختیار کرتی ہے، پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک کم از کم ۸گھنٹے ایک معاشی کارکن کے طور پر کام کرے، اور جب گھر واپس آئے تو پھر اپنے خاندانی وظائف میں مصروف ہوجائے اور اس بات پر فخر کرے کہ وہ ’مرد کے شانہ بہ شانہ‘ ، ’معاشی دوڑ‘ میں اپنا کردار ادا کررہی ہے! چاہے اسے اس دوڑ کے لیے اپنے اعصابی تنائو کو قابو میں رکھنے کے لیے صبح شام ادویات کا استعمال کرنا پڑے، ہر روز کام پر جانے کے لیے دو گھنٹے سخت ہجوم میں ٹیکسی،بس یااپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرنا پڑے اور دفتر میں جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑے، لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے کرے کہ مغربی اور مشرقی تہذیب ایک کارکن خاتون کو زیادہ پیداآور (productive) کہتی ہے ! اگر معروضی طور پر صرف اس آمدنی اور اس خرچ کا ایک میزانیہ تیار  کرلیا جائے جو ایک ’کارکن عورت‘ اپنی ’دفتری ضرورت‘ کے طور پر ذاتی تزئین پر خرچ کرتی ہے تو ـ’معاشی ترقی‘ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اندازہ ہو جائے گا کہ جو آمدنی گھر لائی جا رہی ہے اور جس کا تذکرہ بطور ’دو تنخواہوں‘ کے ہر صحافیانہ تحریر میں پایا جاتا ہے وہ اصلاً کتنی آمدنی ہے۔

مسئلہ آسان ہے۔ مغرب و مشرق کا ذہنی سانچہ جنسی تقسیم اور استحصال پر مبنی ہے۔ مغرب کی پوری تہذیب میں، جواب مشرق میں بھی عام ہے، عورت ایک ’شے‘ (commodity)سے زیادہ مقام نہیں رکھتی اور وہ بھی ایسی شے جس کااستحصال کر کے ایک مرد انہ معاشرہ اپنے مقاصد حاصل کرے ۔ اس کے بر خلاف اسلامی شریعت کی بنیاد عدل کے اصول پر ہے جو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ  کسی فرد پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اوراسے اس کی ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔

مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی شریعت کے آفاقی پہلو کو اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کو، جو عدل اجتماعی پر مبنی ہو، مرکزِگفتگو بناتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ اطلاقی سطح پریہ اصول کہاں تک مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ مغربی معاشرے میں عورت کا استحصال، اس کی عصمت وعفت پر حملے، اس کے حقوق کی پامالی کی داستان ایک اذیت ناک کہانی ہے لیکن مسئلے کا حل محض یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ مغرب خواتین کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ ہمیں خود اپنے معاشروں میں ہونے والے مظالم کو ختم کرنا ہوگاجن کی بنیاد وہ جاگیر دارانہ ذہن ہے، جس کے لیے یہ شرط نہیںہے کہ کوئی فرد جاگیردار ہی ہو۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو ایک مزدور میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاسکتی ہے جتنی ایک لاکھوں ایکڑکے مالک وڈیرے یا سردار میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اوردین کے نام پر دوانتہائوں کا پایا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ایک جانب یہ ایسی شدت پیدا کرتی ہے کہ ایک خاتون اپنے گھر میں اجنبی اور ایک کمرے میں مقید ہو کررہ جائے اور وہ صرف شوہر اور حقیقی اولاد کے ساتھ تو بات چیت کر سکے، بلاتکلف کھانے میں شریک ہو سکے لیکن ان کے علاوہ اقربا اور رشتہ داروں سے مکمل قطع رحمی پر مجبور کرد ی جائے۔ دوسری طرف وہ انتہا بھی ہے کہ حجاب کو محض نگاہ تک محدود کردیاجائے اور جسم کی عریانی کو معاشرتی ضرورت قرار دے دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں انتہائوں سے نکلنا ہوگا اور    مدینہ منورہ کے معاشرے میں صحابیاتؓ کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اور اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا۔ وہ معاشرہ جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں، شرم و حیا، عفت و عصمت، پاک بازی اور تقویٰ کو عملی زندگی میں ڈھال کر پیش کرسکے۔

اس سلسلے میں تعلیمی حکمت ِعملی ، معاشرتی رسوم و رواج کی تبدیلی، اور سب سے بڑھ کر افراط و تفریط والے ذہن کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پوری دیانت اور نفس کے تجزیے و احتساب کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے دائرے میں لانا ہوگا۔

شریعت کادائرہ نہ قیدو بند پر مبنی ہے نہ مادرپدر آزادی پر۔ یہ وہ حد و دہیں جو معروف پر مبنی ہیں۔ یہ معروف وہ ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی و ارتقا کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن و سنت کی طرح سے آفاقیت اور عالم گیریت کا حامل ہے۔ اگر گفتگو معروف ہو، اگر معاشرت معروف ہو، اگرمہر معروف ہو، اگر رخصتی بھی معروف ہو، اگر معیشت معروف ہو تو پھر عدل کا قائم ہونا ایک منطقی عمل ہے۔

اس قیامِ عدل کے لیے راستہ صرف ایک ہے: قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق، اس کی تعلیمات و احکامات کا کسی حیل و حجت کے بغیر اور مغرب و مشرق کی فکری غلامی سے آزادی کے ساتھ اس کا نفاذ۔

اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے نہ رنگ و نسل اور زبان کی تفریق ۔ یہ آفاقی اور عالمی حیثیت کے اصولوں پر مبنی وہ شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے اصولِ حکمرانی فراہم کرتی ہے اور وعدہ کرتی ہے کہ کسی متنفس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حقوق کی علَم بردار اور ان کے عملی نفاذ کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ انسان کو وقار، عزت، اکرام اور معاشرتی وجود سے نوازتی ہے۔ یہ محض مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس پر عمل کیا جائے گا ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ و امریکا کے وہ بے شمار متلاشیانِ حق جو اپنے معاشروں کے ظلم و استحصال سے بے زار ہیں   یہ جاننے کے باوجود کہ یہ زریں اصولِ شریعت بہت سے مسلم ممالک میں بھی ابھی تک اجنبی ہیں اور مسلم ممالک کے غلام ذہن رکھنے والے فرماںرواان اصولوں کے مفید اور قابل عمل ہونے کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ متلاشیِ حق بادِ مخالف کے باوجود اسلام کے سچا اور برحق دین ہونے اور اس دور میں قابلِ عمل ہونے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اسلام کی کامیابی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اپنی معاشرتی مثال کا کوئی دخل نہیں۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں بھی اسلام کو وہ مقام حاصل ہو جائے جو ان متلاشیانِ حق کے دلوں میں اسلام کو حاصل ہے، تو پھر پوری انسانیت کو اس عدل کو دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے جوقیامت تک کے لیے صرف اورصرف حق و صداقت ہے اور انسانیت کو معراج پر لے جانے کا واحدراستہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کی مرکزی عمارات نیویارک میں کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (CSW) کا ۶۰واں اجلاس ۱۴ تا ۲۴ مارچ ۲۰۱۶ء منعقد ہوا۔ جس کے بیش تر پروگرام ’عورتوں پر تشدد‘ (Violance against Women) سے متعلق تھے، جن میں عورتوں کی خریدوفروخت، زنا بالجبر، دھمکی، دبائو، مارپیٹ، جنگوں کے دوران عورتوں سے جنسی بدسلوکی وغیرہ شامل تھے۔

پاکستان مشن کے ایک پروگرام میں تقریباً ساڑھے چار سو افراد، ایک سیشن میں موجود تھے، جہاں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی، جس کا عنوان تھا: ’لڑکی دریا میں‘ جسے پاکستانی نژاد شرمین عبید نے تیارکیا ہے۔ اسی پیش کش پر وہ آسکر ایوارڈ کی مستحق قرار دی گئی ہیں۔یہ فلم ایک لڑکی صبا کی کہانی پر مشتمل ہے، جو ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوکر گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ اس کا باپ اور چچا اس کو پکڑ لاتے ہیں، مارتے ہیں اور نہر میں پھینک دیتے ہیں مگر یہ نہر سے نکل آتی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ سے صحت یاب ہوکر غریب اور بڑے خاندان پر مشتمل سسرال میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ملزم باپ اور چچا جیل چلے جاتے ہیں۔ مقدمے میں وکیل قانون کا حوالہ دیتا ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے سزا ہے۔ لمبی داڑھی والا ایک انکوائری افسر راے دیتا ہے کہ: ’’اسلام میں بیٹی کو یوں مارنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ فلم ساز اور لڑکی کے باپ کا مکالمہ بھی ہے کہ: ’’قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ بیٹی پر یوں ظلم کیا جائے‘‘، جواب میں باپ کہتا ہے: ’’قرآن ، لڑکیوں کو گھر سے بھاگنے کی اجازت نہیں دیتا اور میں غیرت والا ہوں، بے غیرت نہیں ہوں‘‘۔ ہمسایوں اور رشتہ داروں کے دبائو پر نہ چاہتے ہوئے بھی لڑکی اپنے باپ اور چچا کو معاف کردیتی ہے، وہ جیل سے باہر آجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ لڑکی کا اپنے خاندان سے رابطہ نہیں رہتا، مگر بعد میں رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی، اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب پینل میں شامل تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ:’’فلم کا ابتدائی حصہ وزیراعظم پاکستان [نوازشریف] کے گھر فلمایا گیا ہے، جو ان کی خصوصی سرپرستی کی گواہی ہے۔ یہ اسلام نہیں، بلکہ روایات ہیں، جو لڑکیوں کو پسند کی شادی کرنے پر ظلم و تشدد کا نشانہ بننے کا سبب ہیں‘‘۔ تیسرا اہم عمل، پنجاب اسمبلی سے منظور کردہ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا قانون ہے، جو پاکستانی حکومت کی طرف سے عورت پر تشدد کے خاتمے کے لیے عزم اور اس ذیل میں پیش رفت کی دلیل ہے‘‘۔ پاکستان کے قانون میں سقم کی موجودگی کا بھی ذکر آیا کہ یہ قابل راضی نامہ ہے۔ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے، تاکہ یہ والدین اور رشتہ داروں کو لڑکیوں پر دست درازی سے روکے۔

اجلاس کے مرکزی موضوعات (themes) میں سے ایک ’عورت پر تشدد‘ تھا۔ اس لیے زیادہ تر پروگرام اسی عنوان سے متعلق تھے جنھیں بیان اور پیش کرنے کا پیرایہ مختلف تھا۔ یہ پروگرام یواین باڈیز اور این جی اوز گروپس کی طرف سے ترتیب دیے گئے تھے۔ عنوان کبھی بظاہر اس سے متعلق نہ ہوتا مگر تفصیلات میں تشدد کی کسی نہ کسی جہت کو بیان کیا جاتا، مثلاً: ’ہماری بچیوں کو بچائو‘، ’عورت کی اسمگلنگ بند کرو‘ ، ’عورتوں کی زندگی بچائو‘ یا براہِ راست عنوان اسی سے متعلق تھا، مثلاً عورت کی ترقی، جنگیں اور عورتوں پر تشدد، جنسی تشدد کے مقابلے کے لیے قانون سازی وغیرہ وغیرہ۔

عورت کے متعلق ہرقسم کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ (CEDAW) ۱۸دسمبر ۱۹۷۹ء کو ہوا، جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو اپنائے ۳۷سال بیت گئے۔ اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ ۱۹۳ ممالک میں سے ۱۸۸ ممالک نے اس پر دستخط کیے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز کیا۔ پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں ہے، مگر ان تحفظات کے ساتھ کہ: ’’کسی بھی ایسی شق پر عمل درآمد کا پابند نہیں ہوگا، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہے‘‘۔ یہ معاہدہ پانچ اہم معاملات کے متعلق ہے جو عورت کے انسانی، معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی حقوق ہیں۔

کمیشن آن اسٹسیٹس آف ویمن کے ۶۰ویں سیشن میں دو اہم موضوعات بعنوان ’عورت کی ترقی اور دنیا میں تسلسل سے ہونے والی ترقی کے اہداف‘ ، ’عورت اور لڑکیوں پر ہرقسم کے جنسی تشدد کا خاتمہ اور بچائو‘ تھے۔ یاد رہے یہ ایک تسلسل ہے، جس سے قبل عورتوں کی عالمی کانفرنسیں ۱۹۸۵ء نیروبی، ۱۹۹۵ء بیجنگ، ۲۰۰۰،بیجنگ پلس فائیو ۲۰۰۵ء بیجنگ پلس ٹین، ۲۰۱۰ء بیجنگ پلس ففٹین، ۲۰۱۵ء میں بیجنگ پلس ٹونٹی شامل ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں ۵۹واں کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن (CSW)  اجلاس ہوا۔ بیجنگ پلس۲۰ کے موقعے پر عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ ’سیڈا‘ اور بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن (BPFA) کی تائید کی گئی۔ BPFA کے ۱۳نِکات میں سے آٹھ کو اہم تر قرار دے کر ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (MDGs) کا نام دیا گیا۔ ۲۰۳۰ء کے لیے تشکیل دیا گیا ۱۷نکاتی ایجنڈا، ترقی کے تسلسل کے اہداف ہیں، جس کا نکتہ نمبر۵ عورتوں اور لڑکیوں کے لیے برابری اور ترقی کے حصول کو مرکز توجہ قرار دیتا ہے۔

۶۰ویں سیشن میں مجموعی طور پر ۵۵۰ پروگرام ہوئے ، جب کہ اقوامِ متحدہ کے خصوصی اجلاس اس کے علاوہ تھے۔ خواتین کے حوالے سے مغرب یا اقوامِ متحدہ کی دل چسپی کے حوالے سے ایک مثال ہی خاصی سبق آموز ہے۔

اسقاطِ حمل گذشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی پروگرام کا عنوان تھا، مگر اس کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھا گیا۔ وہ یہ کہ اسقاطِ حمل قانوناً جائز قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ ان پروگراموں کا عنوان تھا: ’اسقاطِ حمل، چھاتی کا کینسر اور عورت پر تشدد کا باہم تعلق‘، ’تولیدی صحت کے لیے تعلیم اور تحقیق‘، ’امریکا میں ماں کی صحت کی حفاظت کے لیے اچھے تجربات‘۔ وہاں پر ایک چار ورقہ بھی تقسیم ہورہا تھا، جو ڈاکٹروں اور نفسیاتی ماہرین کے تحقیقاتی مقالات سے مرتب کیا گیا تھا کہ: ’’اسقاطِ حمل عورت کی صحت کے لیے مضر ہے، خواہ وہ قانونی ہو یا غیرقانونی۔ جہاں اس کی قانونی یا رواجی اجازت ہے، وہاں عورت کی صحت کا معیار بڑھا، نہیں، بلکہ کم ہوا ہے‘‘۔ دوسرا پہلو اس میں یہ دیکھا گیا کہ اسقاطِ حمل کا عورت کی نفسیات پر اثر اور تیسرا پہلو آنے والے بچے کے ساتھ ناانصافی تھا۔ یہ مقالہ ایک عیسائی مرد نے لکھا ہے۔ جس نے ’سوسائٹی براے حفاظت بچگان قبل از پیدایش‘ (Society for the Protection of Unborn Children) تشکیل دی ہے۔ ۱؎

اس سال اجلاس میں چہرے کا پردہ کرنے والی چند پاکستانی خواتین کے علاوہ ، دوسرا وفد سعودی عرب سے، تین خواتین پر مشتمل تھا۔ اس سعودی وفد نے ایک تحریر از مسلم علما بھی تیار کی ہوئی تھی، جو بڑے سائز کے ۱۰ صفحات کے کتابچے کی شکل میں عربی اور انگریزی میں تھی۔ یہ پُرعزم خواتین کافی لوگوں سے ملاقاتیں کرکے، اپنا موقف پہنچا رہی تھیں کہ: ’’یو این ویمن کی دستاویزات میں شامل کئی چیزیں، اسلام کے خلاف ہیں اور ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ اس وفد سے ہماری تفصیلی ملاقات ہوئی۔ یہ بہت جذبے سے معمور تھیں۔ ان کو ہماری راے اور طریقۂ کار مصلحت پر مبنی محسوس ہو رہا تھا۔

ترکی سے وفد میں چھے خواتین نے بتایا کہ ان کا تعلق ’ڈائیلاگ انسٹی ٹیوٹ‘ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگوں کی متاثرہ، مثلاً شام کی عورتوں کی مدد کے لیے کام شروع کیا ہے، جس کو انھوں نے ’کمیشن براے انسانیت‘ کا نام دیا ہے۔ ایرانی عورتوں کا وفد سر پر حجاب لیے ہوئے تھا۔ انڈونیشیا، ملایشیا، سوڈان سے مسلم خواتین کے گروپ بھی حجاب اور اپنے مقامی ساتر لباس میں تھے۔ مراکش سے ایک بڑے گروپ میں انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کی خواتین بھی شامل تھیں۔  پاکستانی وفد میں بلوچستان سے خاتون اسپیکر، پارلیمنٹرینز اور این جی اوز کی معروف خواتین تھیں۔ ملیحہ لودھی صاحبہ نے ملاقات میں ہمیں بتایا کہ: میں نے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی تھی۔ انھوں نے بہت تحمل کے ساتھ تفصیلی جوابات دیے تھے۔ اسی طرح قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ بھی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔

اس بار انٹرنیشنل مسلم ویمن آرگنائزیشن براے عورت و خاندان کا تعارفی بروشر بھی موجود تھا۔ اس کے سرورق پر ’رابطہ عالم اسلامی‘ تحریر تھا اور اس میں مسلمان خاندان کی حفاظت اور عورت کے حقوق کا تحفظ کے ساتھ دیگر تفصیلات درج تھیں۔ ایک تعارفی بروشر میں تحریر تھا: ’’ہربچے کو امن کے ساتھ پرورش پانے کا حق ہے‘‘ اور یہ ’امام علیؓ پاپولر سٹوڈنٹس ریلیف سوسائٹی‘ کا تیار کردہ تھا، جو سوڈان کی عورتوں کے لیے ایک فلاحی تنظیم ہے۔ اسی طرح ایرانی عورتوں کی ایک این جی او کے تعارف و کام کی تفصیلات تھیں، جو غریب عورتوں کو ہنر سکھاتی ہے۔

’گلوبل ویلج یا عالمی گائوں‘ کی اصطلاح بظاہر بہت سادہ ہے، مگر شاید اس کا پوری طرح ادراک نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں کا تعلق گائوں سے ہوتا ہے وہ اس کی تائید کریں گے کہ گائوں والوں کے باہمی تعلقات گہرے ہوتے ہیں، اتنے گہرے کہ رشتہ داری بھی پیچھے چلی جاتی ہے۔ گائوں سب کا مشترک ہوتا ہے۔ اس لیے گائوں کے ہر گھر کی خبر رہن سہن، ملازمت، ترقی، موت، حتیٰ کہ شوہربیوی کی ناچاقی بھی اس کے گھر کے مکینوں کا نجی معاملہ نہیں ہوتا۔ فیصلوں کے لیے ان کی پنچایت ہوتی ہے اور اس کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور نفرت کی حد تک ان سے اختلاف رکھنے والے بھی اس کے فیصلوں کے آگے پَر نہیں مار سکتے، وغیرہ وغیرہ۔

یہ دنیا آج عالمی گائوں بن چکی ہے۔ اس گلوبل ویلج کی پنچایت اقوامِ متحدہ ہے۔ عورتوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کو ’یواین ویمن‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جنرل اسمبلی میں عورت کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی کانفرنسوں کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایسی ہی ایک کانفرنس کے موقعے پر عورت کے خلاف ہرطرح کے امتیاز کے خاتمے کی دستاویز ’سیڈا‘ منظور ہوئی۔ پھر   اس پر عمل درآمد کے لیے ۱۳نکات کا اعلان بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے نام سے ہوا۔ بعد میں اسے مخصوص کرنے کے لیے آٹھ نکات منتخب کیے گئے اور ان کو میلنیم ڈویلپمنٹ گولز کہہ دیا گیا۔ اب ۲۰۳۰ء کے لیے ان کے علاوہ قدرے زیادہ تفصیل کے ساتھ ۱۷نکات کا اعلان ہوا ہے، جو کہ ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز‘(SDGs) کہلاتے ہیں۔ان سب کے لیے ’مقدس حوالہ‘ انسانی حقوق کا منشور ہے۔ گذشتہ ۳۱برسوں سے اس کی پالیسی مرد اور عورت کی مساوات ہی ہے۔ اسی کو دہرایا جاتا ہے۔ عزم و تجدید ِ عہد کی جاتی ہے۔ یہاں سوچنے کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نشستند، گفتند، برخاستندہی ہے یا اس کے کچھ اثرات بھی ہیں۔

عورتوں کی سیاسی نمایندگی، بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس کے تحت ۲۰۰۰ء میں پاکستان میں بھی اس کے نفاذ کا آغاز ہوا، اور عورتوں کی اسمبلیوں میں ۵۰ فی صد نمایندگی کا فارمولا دیا گیا، جس کو کچھ رکاوٹوں کی بنا پر ۵۰ فی صد سے ۳۳ فی صد تک لے آیا گیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی زیرصدارت طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ:’’ہم اپنی عورتوں کو بھی پارلیمنٹ اور لوکل گورنمنٹ میں نمایندگی دلوائیں گے‘‘۔    یہ بات اگرچہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب اسلامی ریاست میں درج موقف کے برعکس تھی، مگر عالمی و مقامی دبائو کے نتیجے میں فیصلہ ہوگیا اور پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما کی ’متحدہ مجلس عمل‘ (MMA)کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر جماعت اسلامی کی خواتین کی جانب سے ایک ممبر سینیٹ اور چھے قومی اسمبلی کی ممبر بنیں۔ اسی طرح صوبائی و مقامی گورنمنٹ میں نمایندگی ملی۔

مستقبل میں پولیٹیکل پارٹی کی مرکزی کمیٹی، مشاورتی ادارے یا فیصلہ ساز فورم میں بھی عورتوں کو موجود ہونا ہے۔ یہ سب عورتوں کی سیاسی نمایندگی کے نکتے کی تدریج و تفصیل ہے۔ جماعت اسلامی میں بھی مرکزی شوریٰ میں ۱۰خواتین کی شمولیت کا فیصلہ ہوا ،اور اس سال انتخاب بھی ہوگیا۔ ہرپارٹی کو اپنی عددی قوت میں عورتوں کی مخصوص تعداد کو شامل کرنا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے بھی پارٹیز مصروفِ عمل ہیں کہ یہ سیاسی پارٹی کی تعریف میں شامل ہوگا اور انتخابات میں سیاسی پارٹی کو حصہ لینے کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔

تمام ممالک سے CSW 59 میں جن نکات پر رپورٹ لی گئی، وہ یہ نکتہ تھا کہ ’’مقامِ ملازمت پر خواتین کو تشدد سے بچانے‘‘ کے لیے کیا قانون سازی کی گئی ہے؟ کیا اس ضمن میں قومی سطح پر   بل منظور ہوچکا ہے؟ اس پر عمل درآمد کی کیا صورتِ حال ہے؟ اسی تسلسل میں گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں متعلقہ بل کا پاس ہونا اور پاکستان کے وفد کا اس کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرنا ، ملک میں ہونے والے اثرات ظاہر کرتا ہے۔ خواتین کی تعلیم، مخلوط تعلیم، اعلیٰ تعلیم، ملازمت کے لیے کوٹہ ۱۰ فی صد سے شروع ہوکر بڑھتے جانا ہے، وغیرہ۔ یہ ہیں وہ تمام حوالے ،جو اس عالمی سطح کی حکومت کی قانون سازی اور فیصلوں کے اثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اس عالمی فورم کی ان کاوشوں سے آگاہی حاصل کی جائے اور وہاں کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی بھی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے لیے ان دستاویزات اور طریق کار کا عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

برٹرینڈرسل نے حضرت موسٰی ؑ کو تفویض کردہ ’۱۰ خدائی احکامات‘ کے جواب میں جو  ’۱۰لبرل احکامات‘ پیش کیے تھے، ان میںساتواں نکتہ یہ بھی تھا کہ: ’’کبھی نہایت مضحکہ خیز خیال کے اظہار سے مت گھبرائو کہ آج جو باتیں معمول بن گئی ہیں، وہ کل مضحک اور ناقابل قبول سمجھی جاتی تھیں‘‘۔ بزرگوار کو علم ہوتا کہ اس کے فکری شاگردوں نے محض اسی ایک نکتے سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرلیے ہیں تو وہ خوامخواہ باقی نو نکات کی تشکیل میں سر نہ کھپاتا۔

امریکی اسکالر کارسن ہالووے اپنی کتابThe Way of Life: The Challenge of Liberal Modernity [۲۰۰۹ئ]میں بحث کرتے ہوئے امریکی معاشرے میں بڑھتے ہوئے لبرل ازم اور انحطاط پذیر اخلاقی اقدار کے بارے میں حددرجہ سنجیدہ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ: لبرل ازم کا سب سے بڑا جھوٹ یہ یقین دہانی ہے کہ اگر آپ اپنی اخلاقیات پہ قائم رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے رہیں، کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔یہ وہ دھوکا ہے جو لبرل ازم آپ کواس لیے دیتا ہے کہ بظاہر آپ کی اخلاقیات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نظر نہ آئے، لیکن درحقیقت بہت کچھ بدل چکا ہو۔  یہ سارا کھیل گذشتہ صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے میں شروع ہوا تھا جب کچھ خاص مقاصد کے لیے ’صنفی انقلاب‘ برپا کیا گیا۔

اس کے لیے اس جنسی تعلق کو، جو شادی جیسے مقدس ادارے تک محدود تھا،پھیلا کر ’فرد کی آزادی‘ کے نام پر عام کردیا گیا، اور معاشرے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔یاد رہے یہ وہی   صنفی انقلاب ہے، جس کی فکری آبیاری فرائڈ، لارنس اور رائک نے کی۔ جب ایک کلچر کے مقابلے میں متضاد کلچر متعارف کروایا گیا، جس کی بنیاد ہی رائج اخلاقیات کو  مسترد کرنے پر تھی۔ تب ہیوہن فر [پ: ۱۹۲۶ئ]نے پلے بوائے جیسے اَخلاق باختہ ماہ نامے کی اشاعت شروع کی، اور شکاگو میں پہلا پلے بوائے کلب کھولا۔ ۱۹۵۹ء میں ڈی ایچ لارنس [م:۱۹۳۰ئ] کا نہایت فحش مواد پہ مشتمل Lady Chatterley's Lover [۱۹۲۸ئ]کا امریکا میں غیر تحریف شدہ ایڈیشن شائع کرنے کی کوشش کی گئی، جس پہ باقاعدہ قانونی کارروائی ہوئی اور یہ اشاعت روکنی پڑی۔اس کے تین سال بعد ہنری ملر [م:۱۹۸۰ئ] کا ناولTropic of Cancer  [۱۹۳۴ئ] پیرس میں شائع ہوکر نیویارک اسمگل ہوا، کیوںکہ وہاں اس کی اشاعت پہ پابندی تھی۔ نیویارک میں اس ناول کو فروخت کرنے والے کتب فروشوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی، حتیٰ کہ امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ لیکن صرف دوسال بعد ہی حالات یک سر بدل گئے کہ جب جان کلے لینڈ [م:۱۷۸۹ئ] کے ناول  Fanny Hill [۱۷۴۹ئ]کی اشاعت پہ پابندی کے خلاف اپیل کی گئی تو [۱۹۶۱ء میں]سپریم کورٹ کا فیصلہ اشاعت کے حق میں آیا۔یہ فیصلہ درحقیقت امریکی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے تابوت کی پہلی اور گہری کیل تھی۔ اس کے الفاظ تھے:’’جنس انسانی زندگی کی سب سے بڑی اور پراسرار قوت محرکہ ہے اور ادب میں اس کے اظہار کا حق امریکی آئین دیتا ہے‘‘۔

ان چند مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح معاشرے میں جنسی انارکی منصوبے کے تحت پھیلائی گئی ۔ہر بار یہی جھوٹ بولا گیا کہ: ’’اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی، یہ کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں محض چند ایک جکڑ بندیاں ڈھیلی کرنا ہی تو ہے‘‘۔ لیکن قیامت آہی گئی اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔جنسی آزادی کو فریقین کی باہمی رضامندی سے اس طرح نتھی کیا گیا کہ شادی ایک بے معنی ادارہ بن کے رہ گیا۔ پھر نہ تو ہم جنسیت قبیح رہی اور نہ طوائف گیری کوئی بُری بات سمجھی جانے لگی۔ آج کا امریکا، اخلاقی اقدار کے لحاظ سے ۱۹۶۴ء کے امریکا کے لیے بالکل اجنبی ہے۔

اگر اُس زمانے کے ’لبرل‘ اپنے کیے دھرے کے نتائج کے متعلق جھوٹ نہیں بول رہے تھے تو صریحاً جھوٹ ضرور بول رہے تھے، اُس دکان دار کی طرح، جو اپنے سودے کے نقائص کبھی بیان نہیں کرتا۔ہمارے ساتھ ’لبرل ازم‘ کے نام پہ گذشتہ ۵۰برسوں سے دھوکا ہو رہا ہے اور ابھی تو نتائج پوری طرح منکشف بھی نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے، کیونکہ آزادی بھی تو ایک ارتقا پذیر عمل ہے،   جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ کہاں جا کر رُکے گی؟کچھ نہیں کہا جاسکتا۔   جنسی لبرل ازم جس پہ کوئی قدغن نہ ہو، اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بچے بڑے ہوکر کس قسم کے افراد بنیں گے اور آنے والی نسل کی اقدار کیسی ہوں گی؟کوئی ذمے دار شخص اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ کارسن ہالووے اپنی اس فکر مندی میں تنہا نہیں ہیں۔ امریکی معاشرے کے سنجیدہ طبقات جو اخلاقی اقدار پہ یقین رکھتے ہیں، اس حوالے سے حددرجہ فکر مند ہیں۔ان میں سے اکثریت اس بات پہ یقین رکھتی ہے کہ یہ اخلاقی انحطاط راتوں رات نہیں آیا، بلکہ غیر محسوس طریقے سے ایک مسلسل اور دھیمے عمل کے ذریعے لایا گیا ہے۔

مشہور امریکی اسکالر ڈینیل لپن [پ:۱۹۴۷ئ] اپنی کتابAmerica's Real War [۱۹۹۸ئ] میں لکھتے ہیں:’’ایک بار مجھ سے کہا گیا کہ مذہبی قوتیں اپنی اقدار ہمارے حلق میں ٹھونسنا چاہتی ہیں‘‘۔میں نے کہا:’’ ٹھیک ہے، لیکن کیا سیکولر قوتیں بھی ایسا ہی نہیں کر رہیں؟جب وہ پبلک اسکولوں میں ۱۰ سالہ بچوں میں جنسی عمل کی تعلیم دے رہی ہیں اور ساتھ ہی محفوظ جنسی عمل کی مصنوعات تقسیم کر رہی ہیں؟کیا تم نے اسے سگریٹ نوشی جتنا ہی عام اور نارمل نہیں بنا دیا؟کیا تم فحاشی اور  بے راہ روی کو تفریح بنا کر ہمارے ٹی وی لائونج میں نہیں لے آئے؟ دیانت داری سے فیصلہ کرو کہ  کیا تم نے اپنی سیکولر اخلاقیات، ہم مذہبی امریکیوں کے حلق میں نہیں ٹھونس دیں؟میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم امریکا کے لیے ہماری مذہبی روایات کی خواہش کو دفاعی پوزیشن پہ لے آئے ہو اور جب تم  حملہ آور ہوتے ہو تو دفاع تو کرنا پڑتا ہے۔ پھر اشتعال انگیزی کا الزام کیوں؟ یہ تو ’ذاتی دفاع‘ کا معاملہ ہے۔ تمھیں ڈر ہے کہ مذہبی اقدار تم پہ حاوی ہو جائیں گی اور مجھے ڈر ہے کہ ہم ہار جائیں گے، اور یہ بہت بُرا ہوگا ،کیونکہ یہ صرف ہماری ہار نہیں ہو گی‘‘۔

اسی طرح رچرڈ ایف ایمی بھی ایک فکر مند محقق اور اسکالر ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’امریکا  بے شک دنیا کے رہنما ملکوں میں سے ایک ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بے راہ روی اور بداخلاقی میں بھی امریکا ہی سب سے آگے ہے۔عظیم اقوام تو دنیا کے سامنے عظیم مقاصد اور کردار پیش کرتی ہیں، لیکن جب ان کی اقدار اور اخلاقی معیارات انحطاط پذیر ہونے لگیں، تب سمجھ لینا چاہیے کہ  ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔جب خاندان مضبوط ہوتا ہے اور والدین خدا کے بتائے اصولوں پہ زندگی گزارتے ہیں تو قوم بھی مضبوط ہوتی ہے، لیکن جب معاشرہ اخلاقی اقدار کو چھوڑ دیتا ہے تو قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ۸۰ فی صد امریکی خود کو مذہبی سمجھتے ہیں ،مگر پھر بھی اس بات پہ متفق ہیں کہ معاشرہ تیزی سے تباہ ہوچکا ہے‘‘۔

رچرڈ ایمی آگے چل کر کہتے ہیں: ’’کیا وجہ ہے کہ ۸۰ فی صد مذہبی امریکیوں کے ہوتے ہوئے نوبت یہ آگئی ہے، حالانکہ ریاست ہاے متحدہ امریکا کی بنیاد بائبل کی تعلیمات پہ تھی؟مانا کہ امریکا سیاسی طور پہ ایک مذہبی ریاست نہیں رہی، لیکن مذہب اس کی جڑوں میں پانی کی طرح زندگی بنارہا ہے۔اب ہماری قوم ’۱۰ خدائی احکامات‘ کو چھوڑ کر تیزی سے بداخلاقی کی طرف جارہی ہے۔ اکثر امریکیوں کے نزدیک اب شادی کے بغیر صنفی تعلق اور ہم جنسیت سے آگے بڑھ کر کثیر جنسی میں بھی کوئی قباحت نہیں رہی۔ آخر خدا محض فزکس اور کیمسٹری کے اصولوں کا خدا تو نہیں ہے، بلکہ وہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کا خدا ہے، جسے نظر انداز کر کے ہم سنگین نتائج بھگت رہے ہیں‘‘۔

تھامس ڈیل ڈیلے سابق ممبر امریکی ایوان نمایندگان اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’ہم امریکیوں نے بحیثیت قوم، خدا کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ ہمارے آباواجداد مذہبی لوگ تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کا ایک خدا ہوا کرتا تھا اور وہ اپنی رہنمائی کے لیے اسے پکارتے تھے۔ انھیں علم تھا کہ خدا اور انجیل کے پاس ان کے آلام و مصائب کا علاج موجود ہے۔ انھوں نے قدیم مسیحیت کے اصولوں کو قوم کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ان ہی کی وجہ سے امریکا عظیم ہے لیکن اس عظمت کو ٹھوکر اس لیے لگی کہ ہم نے اپنا رخ خدا سے پھیر لیا‘‘۔ آرکنساس کے سابق گورنر مائیک ہکیبی جو صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’جب ’۱۰ خدائی احکامات‘ موجود ہیں تو کسی اور قانون کی کیا ضرورت ہے۔ہماری آزادی کسی خلا میں    وجود نہیں رکھتی۔ یہ اس وقت ہی برقرار رہ سکتی ہے، جب اخلاقیات اس کی رہنمائی کے لیے موجود ہوں اور اس کام کے لیے ہمارا مذہب کافی ہے‘‘۔

اپنے پاکستانی سیکولر فاشسٹوں کو ان باتوں پر شدید غصہ آتا ہے، اور وہ اسی غصے میں بڑبڑاتے ہیں:’’جانے کہاں سے ڈرانے آجاتے ہیں، کھل کے جینے بھی نہیں دیتے۔دقیانوسی کہیں کے!‘‘

آیئے سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا؟ آپ کو معلوم ہے انگریز جب برعظیم میں آئے تو اپنے ساتھ دھواں گاڑی اور بھاپ جہاز بھی لائے۔ برعظیم پاک و ہند کے لوگوں کے لیے یہ اتنی نئی چیزیں تھیں کہ غالب نے جو کلکتے میں اُن کی جھلک دیکھی تو دیوانے ہوگئے۔ سرسیّد جو بعد میں انگریزوں کی حمایت کی علامت بنے، اُس وقت آئینِ اکبری لکھ رہے تھے۔انھوں نے غالب سے اس کی تقریظ لکھنے کی فرمایش کی تو غالب نے یک بیک پکی روشنائی سے لکھ کر دیا کہ: ’’میاں آئینِ اکبری کو کیا روتے ہو، اہلِ انگلستان کا آئین دیکھو اور ان چیزوں پر نظر ڈالو، جو وہ اپنے ساتھ لائے ہیں‘‘۔

اس معاملے میں غالب تنہا نہیں تھے۔ جہاں تک انگریزوں کی دھواں گاڑی کا تعلق ہے  اس سے کون انکار کرسکتا تھا، لیکن جب انگریزوں کی دھواں گاڑی کے ساتھ ان کی کوٹ پتلون اور چھری کانٹے بھی چلنے لگے، تو اکبر الٰہ آبادی جیسے بزرگ بُرا مان گئے۔ ان کا اعتراض انگریزوں کی برتری پر نہیں تھا۔ اگر ہوتا بھی تو حالات اس کی تردید کر رہے تھے۔ انگریز اپنی فوجی اور سیاسی برتری ثابت کرچکے تھے۔ علمی برتری کا ثبوت، ان کی دھواں گاڑی کی صورت میں موجود تھا، لیکن اکبر کا کہنا یہ تھا کہ: ’’فوجی اور سیاسی برتری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگریز تہذیبی طور پر برتر ہیں‘‘۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی تہذیب کے بارے میں کسی احساسِ مرعوبیت کا شکار نہ ہوں اور [اسے] قربان  نہ کریں۔ اکبر الٰہ آبادی کے مقابلے پر دوسرا گروہ سرسیّد احمد اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ سرسیّد، انگریزوں کی ہمہ جہت برتری کے اتنے قائل ہوگئے تھے کہ تقریباً ہرمعاملے میں انگریز کی تقلید ضروری سمجھتے تھے۔ وہ انگریزی تہذیب سے اتنے مرعوب تھے کہ ایک بار انھوں نے میزکرسی کی حمایت اور دسترخوان کی مخالفت میں لکھ ڈالا۔

مولانا الطاف حسین حالی نے اس پر حاشیہ لگایا کہ: ’’میزکرسی انگریزوں کی چیزیں تھوڑی ہیں، یہ تو اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد ہیں‘‘۔ اس رویے کو یاد رکھیے۔ پتا نہیں ہم سرسیّد کو ’ذہنی غلام‘ کہیں گے یا نہیں، لیکن اُن پر اکبر کا اعتراض یہ تھا کہ وہ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک بات مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں۔ لباس، نشست و برخواست کے طریقے، دسترخوان اور کھانے پینے کے آداب، تہوار اور نکاح اور شادی کے معاملات، اور بچے کے کان میں اذان دینے سے میت کی نماز تک کے تمام اوضاع [طورطریقے] کسی نہ کسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ یہ تہذیب اُوپر سے نیچے تک ایک کُل ہے، جس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ اس کے کسی جزو کو اس کے کُل سے، کُل کو نقصان پہنچائے بغیر الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس زمانے کی بحثوں میں یہ حدیث مسلسل بیان کی جاتی تھی کہ: جو کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اُس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔

اس لیے عام مسلمان سرسیّد پر صرف یہی اعتراض نہیں کرتے تھے کہ وہ مذہب میں ’نیچریت‘ پھیلا رہے ہیں، بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ انگریزوں کی تہذیب کی تقلید کے ذریعے مسلمانوں کو کرسٹان [عیسائی]بنا رہے ہیں۔ سرسیّد ان اعتراضات کا بُرا مانتے اور انھیں قل اعوذیوں کے اعتراضات کہتے تھے۔ اکبر کچھ ہوں بہرحال جج تھے اور سرسیّد انھیں قل اعوذیا نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ اکبر کا کہنا تھا کہ انگریزوں سے آگ پانی کا انجن بنانا ضرور سیکھو، لیکن اپنے دین اور اپنے بزرگوں کی تہذیب کو نہ چھوڑو۔ چنانچہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی یہ نہیں تھے کہ انگریزوں سے کچھ حاصل ہی نہ کیا جائے۔ اُن کا کلام غور سے پڑھیے تو وہ انگریزوں سے ہرمفید چیز حاصل کرنے کے حق میں ہیں، لیکن انگریزوں کی اندھی تقلید کے خلاف ہیں کہ ان کے چکّر میں اپنی اس تہذیب ہی کو چھوڑ دیا جائے جس کی برتری کے      اکبر بہرحال قائل تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی انگریزوں یا مغرب کی اندھی تقلید ہے، اور ذہنی غلامی کی یہ تعریف درست ہے۔

ذہنی غلام اندھے مقلد ہی کو کہتے ہیں۔ اب یہ بات ماننے کی ہے کہ اندھی تقلید شدید احساسِ مرعوبیت اور احساسِ کمتری سے پیدا ہوتی ہے۔ جب کوئی فرد کسی فرد سے اتنا مرعوب ہوجاتا ہے، کہ اس کے آگے اپنے آپ کو صفرِ محض سمجھنے لگتا ہے، تو اس فرد کی نقالی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ میں سرسیّد پر اس کا الزام نہیں لگائوں گا، لیکن برعظیم پر انگریزوں کے غلبے کے بعد مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ضرور پیدا ہوگیا تھا، جو انگریزوں کی ہر چیز کو مثالی سمجھنے لگا تھا اور اس کے سامنے اتنے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا تھا کہ اسے اپنی کسی چیز میں کوئی اچھائی نظر نہیں آتی تھی۔ اکبر نے دراصل اسی طبقے کے خلاف اپنا قلمی جہاد کیا تھا۔

  •  ازالے کی کوششیں: اب اگر ہم نے مسئلے کی صحیح تفہیم کرلی ہے تو آیئے یہ دیکھیں کہ مسلمانوں نے ذہنی غلامی کے مرض کا دفیعہ کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے؟ حالی کا ذکر کرچکا ہوں۔ وہ گلی گلی سرسیّد تحریک کے ساتھ تھے، مگر ان میں مسلمانوں کی عظمت کا احساس سرسیّد سے زیادہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان اس وقت پست حالت میں ہیں۔ اور بے شک ان کا یہ خیال بھی تھا کہ وہ اس پستی کو انگریزوں کی تقلید کے ذریعے دُور کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں مسلمانوں کے ماضی پر فخر بھی تھا۔ اس کے بغیر مسدس حالی  جیسی چیز لکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس لیے حالی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انھیں یہ بتایا جائے کہ انگریزوں میں جو اچھی چیزیں ہیں،   وہ انھوں نے مسلمانوں ہی سے لی ہیں اور مسلمانوں کو ان سے جھجکنا نہیں چاہیے اور انھیں خود اپنا مال سمجھ کر اس پر قابض ہوجانا چاہیے۔ حالی کے یہاں تو یہ خیال بالکل ابتدائی شکل میں ہے، لیکن   ان کے بعد آنے والے اس بات کو بہت دُور تک پھیلا دیتے ہیں۔

حالی کے بہت بعد ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ طریقہ اختیار کیا اور مسلمانوں کو سائنس کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے یہی کہا کہ سائنس خود مسلمانوں کی ایجاد ہے اور مسلمانوں کی اپنی چیز ہے، جسے مسلمان سازش کا شکار ہوکر کھوبیٹھے۔ ورنہ وہ خود آج مغرب کی طرح سائنس کی دنیا میں سب سے آگے ہوتے۔ مسلمانوں کے احساسِ کمتری کے ازالے کے لیے کچھ لوگوں نے ایک اور طریقہ نکالا، جو اسی طریقے کی ایک شاخ ہے۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے شان دار ماضی کے نغمے گانے شروع کیے اور مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کے ہر میدان میں مسلمان ماضی میں کتنے آگے تھے۔ جسٹس امیرعلی اور مولانا شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی اسی مقصد سے پیدا ہوئی۔ شبلی منطق اور کلام کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ فلسفہ اور کلام میں مسلمان پہلے کیا کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ المامون اور الغزالی کی طرف وہ اسی مقصد سے گئے۔ 

یہ رویّے آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو اقبال میں بھی مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مذکورہ طریقے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور مسلمانوں کے احساسِ کمتری کا بڑی حد تک ازالہ ہوگیا۔ وہ اپنے ماضی پر فخر کرنے لگے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں، لیکن اس طریقے میں بھی خرابی کی ایک صورت مضمر ہے۔ احساسِ کمتری کی طرح احساسِ برتری بھی صحت مندی کی علامت نہیں ہے۔ احساسِ کمتری سے تقلید پیدا ہوتی ہے اور احساسِ برتری سے خوداطمینانی۔ احساسِ کمتری کا شکار اپنے آپ سے اتنا غیرمطمئن ہوجاتا ہے کہ اپنے سوا ہر چیز    بن جانا چاہتا ہے۔ احساسِ برتری کا شکار اپنے سوا کسی کو دیکھتا ہی نہیں اور اس طرح مقابلہ اور موازنہ اور مسابقت کے جذبے سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک کا نتیجہ نقالی، اندھی تقلید اور ذہنی غلامی ہے، تو دوسرے کا فطری نتیجہ جمود۔ مسلمانوں کے لیے یہ دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ ہم دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں کے درمیان ہیں۔ ہمیں ان کے درمیان عزت اور وقار سے رہنا ہے اور دنیا کی تعمیر میں اپنی بساط کے مطابق حصہ لینا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے زندگی کا ایک صحت مند معیار ہو، جس کے مطابق ہم خود باقی بھی رہیں اور اپنی استعداد کے مطابق ترقی بھی کریں۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں سے جہاں بہت کچھ سیکھنا ہے، وہاں انھیں کچھ سکھانا بھی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حکمت تمھاری گم شدہ دولت ہے، جہاں پائو لے لو۔ اسی طرح حضوؐر نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان جب اپنی ترقی کے عروج پر تھے تو ان کا رویّہ یہی تھا۔ انھوں نے دنیا کے بہترین علوم سے کسب ِ فیض کیا اور انھیں ترقی دی۔ ہمیں بھی اپنے زمانے میں یہی کرنا ہے اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ ہم یہ کام صرف اُس وقت کرسکتے ہیں، جب ہم ذہنی طور پر آزاد ہوں، غلام نہ ہوں۔ ہمیں معلوم ہو کہ ہماری کیا کیا چیز اچھی ہے؟ کس کس چیز میں ہم کمزور ہیں؟ کون کون سی چیزیں ہیں، جنھیں ہمیں بدلنا ہے؟ اور اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں میں کون کون سی چیزیں اچھی ہیں، کون کون سی چیزیں بُری، کون کون سی چیزیں قابلِ قبول ہیں اور کون کون سی چیزیں قابلِ ترک۔

  •  خود شناسی: ہم یہ باتیں اس وقت تک معلوم نہیں کرسکتے، جب تک ہم میں وہ چیز  نہ پیدا ہو جسے ’خودشناسی‘ کہتے ہیں۔ ’خودشناسی‘ اور ’جہاں شناسی‘ خود کو پہچاننا اور دوسروں کو پہچاننا،  یہ ہماری پہلی ضرورت ہے، جو ظاہر ہے کہ علم صحیح کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اندر کون کون سی چیزیں اچھی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ وہ اخلاق جو ہمارا مذہب سکھاتا ہے، دنیا کا بہترین اخلاق ہے۔ وہ تہذیب جو ہمارے مذہب سے پیدا ہوئی ہے، دنیا کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں ان سب چیزوں کو قائم رکھنا ہے۔ انھیں اپنے باطن اور ظاہر کی پوری قوت سے اختیار کرنا ہے۔ نہ صرف خود اختیار کرنا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی ہے۔

لیکن، اس کے ساتھ ہی ہماری کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ ہمیں ان کا احساس پیدا کرنا ہے۔ خود اپنی تاریخ کی روشنی میں اور پھر دوسری قو موںکی مثالوں کے ذریعے، پہلے انھیں سمجھنے اور پھر دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح اپنی اچھائیوں اور بُرائیوں، اپنی صلاحیتوں اور کوتاہیوں ، اپنی قوتوں اور کمزوریوں کو جان کر ہی ہم ان کے بارے میں صحیح رویّہ اختیار کرسکتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنے اور دوسروں کے بارے میں صحیح فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں کی خوبیوں کا احساس و اعتراف بُری بات نہیں ہے، نہ اپنی خامیوں پر مطمئن رہنا کوئی اچھی بات ہے۔ اسی طرح نہ دوسروں کی بُرائیوں کو مرعوبیت کے سبب اچھا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے، نہ اپنی خوبیوں کو احساسِ کمتری کے سبب بُرا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے۔

دوسرے لفظوں میں ہمیں پہلے اچھائی اور بُرائی کی صحیح تمیز حاصل کرنا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک ہم چیزوں کو دیکھنے کے لیے صحیح داخلی رویّہ نہ پیدا کریں۔ یہ صحیح داخلی رویّہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری دونوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس آزادی کے ذریعے ہم اندھی تقلید اور جمود دونوں کمزوریوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں۔ ذہنی غلامی جو کہ ذہن سے تعلق رکھتی ہے،    اس لیے اس سے آزادی بھی ذہن کے ہی ذریعے ممکن ہے، اور ذہن کو بدلنے کے لیے صحیح خیال کی دولت، کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح خیال کی دولت، صحیح علم سے پیدا ہوتی ہے اور صحیح عمل کے ذریعے ہم اچھائی بُرائی میں تمیز کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ خود آگاہی کی اس منزل سے گزرنے کے بعد ہمیں  کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا پڑے گا اور ایک صحت مند قوم کی حیثیت سے اچھائی کو حاصل کرنا اور بُرائی کو ترک کرنا پڑے گا۔

معزز حضرات! آپ کا تعلق علم کے پیشے سے ہے۔ یاد رکھیے یہ صرف آپ ہیں جو صحیح علم کے ذریعے صحیح خیال، صحیح خیال کے ذریعے صحیح داخلی رویّے اور صحیح داخلی رویّے کے ذریعے صحیح عمل، اور صحیح کردار پیدا کرسکتے ہیں۔ نوجوان نسل اب کئی حالتوں میں کچی مٹی کی طرح ہے۔ آپ اسے کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی آیندہ نسلیں ذہنی غلامی کے اس خطرناک مرض سے آزاد ہوں، جو دورِ غلامی کی ابتدا سے ہمارے وجود کو گھُن کی طرح کھا رہا ہے، تو آپ کو ان نوجوانوں میں دو چیزیں پیدا کرنی اور انھیں ترقی دینی پڑے گی۔

  •  تنقیدی شعور: ایک چیز وہ ہے جسے تنقیدی شعور کہتے ہیں۔ تنقیدی شعور کے ذریعے ہی انسان اپنا اور دوسروں کا احتساب کرتا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی اچھائیوں اور بُرائیوں کو سمجھتا ہے اور زندگی کے داخلی اور خارجی انتشار میں اپنے راستے کی تلاش کرتا ہے۔ آپ کو نوجوان نسل میں یہ مادہ پیدا کرنا ہے کہ وہ ہرچمکتی ہوئی چیز کو سونا نہ سمجھیں۔ پروپیگنڈے کے بل پر پھیلائے ہوئے ہرخیال پر ایمان نہ لے آئیں۔ ہر دل کش اور پروان چڑھتی ہوئی چیز کو اپنی راہ نجات نہ سمجھ لیں، بلکہ ہرچیز اور ہرخیال پر سنجیدگی سے نظر ڈالیں۔ اُس پر غوروتامّل کریں اور اُس وقت تک اُسے  قبول نہ کریں، جب تک اُس کی حقیقی قدروقیمت انھیں نہ معلوم ہوجائے۔
  •  تجزیے کی قوت:دوسری چیز جو ذہنی غلامی سے نجات کے لیے ضروری ہے، وہ تجزیے کی قوت ہے۔ ہمارے چاروں طرف وہ جال پھیلے ہوئے ہیں جو ہمیں ذہنی غلامی میں پھنساتے ہیں۔ تجزیے کی قوت کے ذریعے ہم ان جالوں کے ایک ایک پھندے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے خیالات، اپنے جذبات اور اپنے محسوسات تک کے تجزیے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر مرعوبیت، احساسِ کمتری، اندھی تقلید یا خود اطمینانی، احساسِ برتری اور جمود کے رجحانات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اپنی ذات کا یہ تجزیہ ہمیں اپنے بارے میں صحیح علم دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر اُس چیز کا تجزیہ کرنا ہے، جوہم پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے تجزیے کا مقصد، اس کی صحیح قدروقیمت کو دریافت کرنا ہے۔

یوں داخلی اور خارجی تجزیوں کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو آزادی کی تربیت دے سکتے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی مرحوم نے اپنے زمانے میں نوجوان نسل سے کہا تھا کہ: ’’ہوشیار رہ کر پڑھیے۔ اس جال میں نہ آیئے کہ یورپ نے یہ کیا ہے، یورپ نے یہ کہا ہے‘‘۔ آپ کو بھی نوجوان نسل میں ہوشیاری اور چوکناپن پیدا کرنا ہے۔ اس کے بغیر ذہن میں کاہلی اور انفعالیت پیدا ہوتی ہے جو تنقیدی شعور اور قوتِ تجزیہ کی ضد ہے۔ سویا ہوا ذہن آسانی سے شکار ہوتا ہے اور ذہنی غلامی، ذہن کے سو جانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔

  •  مقصد کا تعین:نوجوان نسل کو تنقیدی شعور اور تجزیے کے ذہنی ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد، ان کے داخلی رویّے کو درست کرنے کے لیے ایک تیسری چیز کی ضرورت ہوگی، جو اُن کے جذبات کا ایک رُخ مقرر کردے۔ جذبات قوی ترین محرکِ عمل ہیں اور شخصیت کی تعمیر میں اہم ترین حصہ لیتے ہیں، مگر یہ بات ذہن میں تازہ رکھیے کہ عام طور پر جذبات میں ایک خرابی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان میں پایے داری اور استقلال نہیں۔ وہ ایک بے لنگر کی کشتی کی طرح حرکت کرتے ہیں اور ہوا کے ہرنئے جھونکے کے ساتھ اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ اس لیے جذبات کو ایک تعمیری رُخ پر ڈالنے کے لیے ایک نئی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قوت مقصدکے ایک گہرے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔

مقصد سے وابستہ ہوکر جذبات پایے دار اور مستحکم ہوجاتے ہیں اور ان کے لیے ایک مستقل سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ مقصد جتنا اعلیٰ ہو، شخصیت کی تعمیر بھی اتنی ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر آزاد شخصیت، ذہنی آزادی اور مقصد کے تابع جذبات کے اشتراک سے پیدا ہوتی ہے، اور اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ زندگی کے نت نئے بدلتے ہوئے حالات میں اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ مقصد کا تعین بھی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کی لازمی شرطوں میں سے ایک ہے۔[تنظیم اساتذہ پاکستان کے کُل پاکستان اجتماع میں خطبہ]

دنیا ان کو پروفیسر ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری کے نام سے جانتی ہے، مگر میرے لیے وہ صرف راجا بھائی تھے اور رہیں گے۔ مئی ۱۹۴۹ء میں بھائی ضمیر اور خرم بھائی کی معیت میں پہلی ملاقات ہوئی اور آخری اگست ۲۰۱۵ء میں، جب اپنی صحت اور ذاتی حالات کے باعث مَیں یہاں لسٹر آنے پر مجبور ہوا۔ ایک ہی ہفتہ قبل ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی اور پھر ۲۴؍اپریل کی صبح انیس میاں کے ٹیلی فون سے یہ اندوہناک خبر ملی کہ راجا بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے___ انا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔  اللہ سے ان کا رشتہ پیارے رب کا رشتہ تھا اور اپنی ۶۷سالہ رفاقت کی بنیاد پر گواہی دیتا ہوں کہ  ان کو ہمیشہ رب کا بندہ اور اس کی رضا کا طالب پایا۔ اب کئی سال کی بیماری اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ بیماری اور ہرتکلیف پر اللہ کا شکر ادا کرنے والا میرا پیارا بھائی اپنے رب کے حضور چلا گیا۔ گویا  ع

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت ِ خاص کے آغوش میں جگہ دے۔ ۷۰سے زیادہ برسوں پر پھیلی ان کی یہ علمی اور دینی خدمات، خصوصیت سے قرآن کی خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے، ان کو جنت کے منفرد مقام پر ہمیشہ کے لیے راحت کی زندگی سے سرفراز فرمائے اور جب تک زمین پر انسان بستے ہیں، آسمان ان کی لحد پر مسلسل شبنم افشانی کرتا رہے___ آمین!

میرے لیے یہ دو ماہ بڑی آزمایش کے مہینے رہے ہیں۔ فروری میں میرے ہم زلف سیّدجلال الدین احمد کا اچانک انتقال ہوا۔ ابھی ان کے غم سے آنکھیں اَشک بار تھیں کہ    عزیزی ممتازاحمد جنھیں سب ڈاکٹر ممتاز کہتے تھے لیکن میرے لیے وہ انیس اور مسلم کی طرح  چھوٹے بھائی یا بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے، کا غم سہنا پڑا۔ معاً بعد یہاں گلاسگو میں ینگ مسلم کے پہلے گروپ کے روحِ رواں اور عزیزی فاروق مراد کا ہم ساز اور ہم زاد عمران کھنڈ ۵۰برس کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوا ،اور اب ۲۴؍اپریل کو راجابھائی سے دنیوی جدائی کا زخم سہنا پڑا۔ افسوس کہ    ان میں سے کسی کی نہ آخری زیارت کرسکا اور نہ جنازے میں شرکت___ ہاں، ان کے لیے دعائوں کی سوغات ہے جو ان کی زندگی میں بھی بھیجتا رہا، اور اب اور بھی رقت کے ساتھ اپنے مالک کے حضور بھیج رہا ہوں۔ اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے اور اپنے پیاروں کی موت زندگی کی ناپاے داری اور موت کے محکم ہونے کی مؤثر ترین یاد دہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین حق پر قائم رکھے، اپنے سوا کسی کا محتاج نہ بنائے، اور ایمان پر خاتمہ کرے، آمین، ثم آمین۔ طالب علمی کے زمانے میں انگریزی ادب اور شاعری کا بھی کچھ رشتہ تھا۔ نہ معلوم کیوں شیکسپیئر کے یہ اشعار ذہن کے اُفق پر اُبھر آئے، جو ان چند ہفتوں کے حادثات کے عکاس ہیں:

When sorrows come,

They come not single spies

They come in battallions

One woe treads, the others heal,

So soon they follow

ہر آزمایش اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور اسی سے ہر غم اور آزمایش پر صبر و استقامت کی التجا ہے۔

برادرم ظفراسحاق الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی اسناد پر ان کی پیدایش دسمبر۱۹۳۲ء کی ہے، لیکن ہمارے بچپن میں انگریزی دور کی ’برکات‘ میں ایک یہ بھی تھی کہ اسکول میں داخلے کے وقت عمرکم لکھوائی جاتی تھی، تاکہ آئی سی ایس کے داخلہ امتحان کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کی جو قید ہے، اس میں کچھ وسعت آجائے۔ میری پیدایش بھی اسکول کے ریکارڈ میں ۱۹۳۴ء ہے جو حقیقت میں ۱۹۳۲ء تھی اور راجا بھائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ مجھ سے دو سال بڑے تھے، عمر میں بھی اور تعلیم کے میدان میں بھی۔ میں نے جس سال انٹرکامرس کیا ،انھوں نے اسی سال بی اے کیا تھا۔

مئی ۱۹۴۹ء میں ہماری شناسائی کا آغاز ہوا۔ میرے بڑے بھائی احمدضمیر مرحوم اور خرم بھائی مرحوم ڈی جے کالج میں کلاس فیلو تھے اور راجا بھائی ان کے اوّلین احباب میں سے تھے اور اسلامیہ کالج میں پڑھ رہے تھے۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا کُل انسانی سرمایہ سات آٹھ افراد تھے۔ خرم اور راجا ان کا محور تھے۔ مَیں فروری ۱۹۴۸ء میں دلّی سے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ایک سال لاہور میں زیرتعلیم رہا اور پھر مئی ۱۹۴۹ء میں کراچی منتقل ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہے، جب مجھے جمعیت سے شناسائی حاصل ہوئی اور اس کا ذریعہ بھائی ضمیر کے ساتھ خرم اور راجا بنے۔

خرم اور راجا سے پہلی ہی ملاقات میں ایک ایسا تعلق قائم ہوگیا، جو زمانے کے تمام نشیب و فراز کے باوجود ہر آلایش سے پاک اور گہرائی اور گیرائی ہراعتبار سے روز افزوں رہا۔ راے کا اختلاف کن انسانوں کے درمیان نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ ہم تینوں کے درمیان زندگی کے مقاصد کے اشتراک کے ساتھ ہمارے درمیان: باہمی اعتماد اور محبت، خیرخواہی اور عملی تعاون کا رشتہ قائم رہا اور سب سے بڑھ کر موجودگی اور عدم موجودگی دونوں میں ہمیں ہم رنگ اور ہم زبان ہونے کی نعمت و سعادت حاصل رہی ہے۔ میرے لیے ایمان کی سعادت اور خاندان کی نعمت کے ساتھ، یہ دوستی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ رہی ہے اور اس پر رب کا جتنا بھی شکرادا کروں  کم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان دونوں سے ملنے اور ان کے ساتھ شیروشکر ہوجانے نے زندگی کا رُخ متعین کر دیا، اور نہ صرف یہ کہ ’ایک ہی بار ہوئی وجہ گرفتاریِ دل‘، بلکہ الحمدللہ      زندگی بھر ان کی نگاہوں کے التفات کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ہمارا یہ رشتہ اس دنیا تک محدود نہ رہے اور آنے والی اور ابدی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ صرف اپنے رحم اور فضلِ خاص سے ہمیں یہاں سے بہتر زندگی ساتھ گزارنے کی سعادت سے نوازیں، آمین!

راجا بھائی کا ذکر چچا مرحوم کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما  مولانا ظفراحمد انصاری ان کے والد تھے۔ وہ علم و فضل، اخلاق و مروت، محبت و شفقت، سیاسی بصیرت اور حُسنِ عمل کا مرقع تھے۔ فلسفہ میں ایم اے امتیازی شان سے کرنے کے بعد ساری زندگی برعظیم کی سیاست کے میدان میں مسلم اُمت کے خاموش معمار کی حیثیت سے بسر کردی اور اس شان سے بسرکی کہ کبھی کسی عہدے یا ذاتی فائدے کا تصور بھی نہیں کیا۔ مقصد صرف اللہ کی رضا،اُمت کی خدمت، پاکستان کی تعمیروترقی، نئی نسلوں کی دینی، اخلاقی اور سیاسی تربیت و رہنمائی تھا اور جو عہد اپنے رب سے کیا، اسے آخری سانس تک سچ کردکھایا۔

راجا بھائی سے جمعیت کے دور میں جو تعلق قائم ہوا، وہ ان کی ذات تک محدود نہیں تھا۔  ان کے تمام بھائیوں اور سب سے بڑھ کر ان کے والد محترم کے ساتھ بھی بالکل باپ کا سا رشتہ  قائم ہوگیا تھا اور ان کی شفقت اور رہنمائی بھی الحمدللہ ان کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہی۔ یہ بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان گھرانوں کی روایت تھی کہ خاندان کے تمام بزرگوں سے    ان کے رُتبے اور مقام کی مناسبت سے تعلق استوار ہوتا تھا۔ راجا بھائی اپنے تایا کو ابّا کہتے تھے اور اپنے والد کو چچا۔ اور ہم نے بھی بچپن ہی سے ان کو چچا کہا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہم ہی نہیں، سبھی ان کو چچا ہی کہتے اور ان کی پدرانہ شفقت ہم سب پر اس طرح تھی کہ یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ رشتے میں کون سگا ہے اور کون اعزازی؟

راجا بھائی اور خرم بھائی دونوں تحریک میں میرے پیش رو ہی نہیں، مجھے یہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔ خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُردو اور انگریزی دونوں پر راجا کو عبور تھا۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت بھی کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ میں نے جمعیت کی رکنیت جنوری ۱۹۵۰ء میں اختیار کی۔ خرم اور راجا پہلے سے رکن تھے بلکہ راجا  (اور ایک رکن) نجمی صاحب وہ دو حضرات تھے، جن کو دسمبر ۱۹۴۷ء جمعیت کے تاسیسی اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل تھی۔ میں نے ستمبر ۱۹۵۰ء کے سالانہ اجتماع (لاہور) میں پہلی بار شرکت کی۔ ۴نومبر۱۹۵۱ء کو خرم بھائی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اسی سال جمعیت کے دستور کی تدوینِ نو ہوئی۔ اولیں دستور ’قواعد و ضوابط‘ کے عنوان سے محترم نعیم صدیقی کا لکھا ہوا تھا اور جمعیت کا پہلا باقاعدہ دستور جو ابھی تک دستورِعمل ہے، ۱۹۵۲ء میں مرتب ہوا اور اس کی تدوین جس کمیٹی نے کی اس میں خرم بھائی کے علاوہ راجا اور مَیں تھے۔ اس دستور کی بنیادی تسوید (drafting) کا کام زیادہ تر ظفراسحاق نے کیا، اگرچہ نوک پلک درست کرنے میں ہم سب نے حصہ لیا تھا۔

مَیں نے اپنی مرتب کردہ پہلی کتاب Maududi on Islamic Law and Constitution کے ’پیش لفظ‘ میں راجا بھائی کے بارے میں لکھا تھا کہ: یہ کتاب ہماری قلمی رفاقت کا ثمرہ ہے اور میری خواہش تھی کہ ان کا نام میرے ساتھ شریکِ مدیر کی حیثیت سے دیا جائے، جس کو انھوں نے سختی سے ویٹو کر دیا۔ عملاً ہماری اس رفاقت کا آغاز Students's Voiceکی اشاعت سے ہوا، جو ۱۹۵۱ء میں ہم نے مل کر نکالا اور جمعیت ہی نہیں پاکستان میں طالب علم دنیا میں طلبہ کا پہلا پرچہ تھا۔ ایک سال تک اسے سائیکلواسٹایل کرکے ہرماہ لایا جاتا تھا۔ ہم خود اسے لکھتے تھے، قاضی عبدالقادر ٹائپ کرتے تھے اور اسٹنسل کاٹتے تھے۔ محمدمیاں سائیکلواسٹایل کرتے تھے اور پھر سب کارکن مل کر فروخت کرتے اور پھیلاتے تھے۔ ایک سال میں اس کے ایک ہزار خریدار بن گئے تھے، جس سے متاثر ہوکر ہم نے ۱۹۵۲ء میں اسے ۱۵ روزہ مطبوعہ پرچے کی حیثیت سے شائع کیا۔ پہلاشمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور پھر صرف چھے مہینے میں ۷ہزار تک پہنچ گیا۔ راجا اور مَیں اس کے ایڈیٹر تھے۔ اس طرح ہماری ادبی رفاقت کا آغاز اسٹوڈنٹس وائس سے ہوا، اور اس کے بعد New Era ، Voice of Islam اور دوسری شکلوں میں زندگی بھر یہ سفر جاری و ساری رہا، الحمدلِلّٰہِ علٰی ذٰلک۔

اس امر کاکھلے دل سے اعتراف کرتا ہوںکہ مجھے اُردو میں لکھنے کی ترغیب دینے میں سب سے اہم کردار راجابھائی ہی کا تھا۔ میں اس زمانے میں انگریزی کے سحر میں کچھ زیادہ ہی مبتلا تھا اور اُردو میں لکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، گو اُردو تقریر میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔

کالج لائف کی ابتدا ہی سے لکھنے کا شوق تھا۔ ۱۹۴۹ء میں نصف صفحے کا ایک مضمون لاہور کے ایک رسالے میں شائع ہوا، جب میں انٹر آرٹس کر رہا تھا۔ ۵۱-۱۹۵۰ء گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی (جہاں مَیں زیرتعلیم تھا) کے سالانہ انگریزی میگزین کا مَیں ایڈیٹر تھا۔ رسالہ دو حصوں میں تھا۔ انگریزی حصے کا مَیں ایڈیٹر تھا اور اُردو حصے کا میرا ایک کلاس فیلو۔ اس کا اصرار تھا کہ مَیں اُردو میں بھی مضمون لکھوں اور میری ہمت نہیں ہورہی تھی۔ راجا بھائی نے مجھے  مجبور کیا کہ لکھوں ۔ تب میں نے جمعیت کے نئے نئے اثرات کے تحت نظامِ تعلیم کی اصلاح کے موضوع پر چند صفحے لکھے، جن کی نوک پلک راجا بھائی نے درست کرکے قابلِ اشاعت بنایا اور   اس طرح اُردو میں میرے لکھنے کا آغاز ہوا، جسے پھر اصل مہمیز چراغِ راہ کی ادارت کے ذریعے ملی،  جو محترم چودھری غلام محمدصاحب مرحوم کے اصرار بلکہ حکم پر سنبھالی۔ مسلم، ممتاز اور نثار صاحبان چراغِ راہ میں میرے دست و بازو تھے۔

راجا اور مَیں ۱۹۵۵ء تک اسٹوڈنٹس وائس مل کر نکالتے رہے۔راجا بھائی نے ایم اے معاشیات میں کیا تھا، اور پھر اس مضمون کی تدریس اختیار کر کے بحیثیت استاد کیریئر کا آغاز کیا۔ اسلامک اسٹڈیز میں وہ ۱۹۵۸ء کے بعد آئے، جب کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی کے وظیفے پر  وہ ایم اے کے لیے وہاں گئے۔ وہاں انھوں نے مشہور مستشرق پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ کی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پھر معاشیات سے ان کارشتہ عملاً کٹ گیا، اور اسلامک اسٹڈیز ، خصوصیت سے اسلامی قانون ان کا میدان بن گیا۔

 اسلامی قانون میں تخصص کے باوجود علومِ اسلامی کے ہر شعبے میں انھوں نے دادِ تحقیق دی ہے اور مشرق و مغرب کی نام وَر یونی ورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں۔ جن میں امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی، شکاگو یونی ورسٹی، کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی، آسٹریلیا کی میلبورن یونی ورسٹی، سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز  یونی ورسٹی، جدہ اور یونی ورسٹی آف پٹرولیم اینڈ منرلز دہران شامل ہیں۔ ۱۹۸۶ء میں اسلام آباد منتقل ہوگئے اور پھر انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد میں پروفیسر، نائب صدر اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ تدریس کے ساتھ تحقیق اور تصنیف و تالیف ان کا وظیفہ زندگی تھا۔   راجا بھائی کوئی خشک کتابی شخصیت نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی پُربہار اور شگفتہ شخصیت عطا کی تھی۔ وہ اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے درمیان گھنٹوں صرف کرتے تھے اور ہمیشہ رونق محفل رہتے تھے۔

راجا بھائی نے اپنی ۷۰سالہ علمی زندگی میں تصنیف و تالیف اور تعلیم و تعلّم کے ایسے چراغ روشن کیے ہیں، جو مدتوں ضوفشانی کرتے رہیں گے۔ میری نگاہ میں ان کا سب سے اہم علمی کارنامہ مولانا مودودیؒ کی تالیف تفہیم القرآن اور ترجمۂ قرآن کا انگریزی ترجمہ ہے، جس کے ’پیش لفظ‘ کے چند جملوں میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں:

ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، میرے بھائی، زندگی بھر کے ساتھی اور ہم دم دیرینہ نے بڑی مہارت، مشاقی اور قدرتِ کلام سے اسے انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں قطعاً جھجک نہیں ہے کہ ڈاکٹر انصاری نے اظہار و بیان کے اس معیار کو برقرار رکھاہے، جس کا اُردو میں اہتمام و انصرام سیّدابوالاعلیٰ مودودی کیا کرتے تھے۔  یہ ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے۔

مولانا مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن کی زبان کو ’اُردوے مبین‘ کہا تھا اور ظفراسحاق نے اسے ’انگریزی مبین‘ میں ڈھال دیا، وما توفیقی الا باللّٰہ۔

راجا بھائی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکنِ رکین تھے۔ مرکزی شوریٰ کے رکن رہے، البتہ نظامت وغیرہ کی ذمہ داریوں سے بچتے رہے۔ لیکن کراچی جمعیت کے مزاج اور پھر اس کی روشنی میں پورے پاکستان کی جمعیت کے مزاج اور کردار کی تشکیل میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ الحمدللہ جمعیت کے بے شمار پہلو ہیں، لیکن اس کا اصل تاریخی کارنامہ ،تعلیمی دنیا میں دین کے اس وسیع اور ہمہ گیر تصور کا فروغ ہے، جو تحریکِ اسلامی نے اس دور میں دیا ہے اور جس کے نتیجے میں اسلام انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کے صورت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پھر جمعیت کا تربیتی نظام اور ایک مخصوص کلچر ہے جس کا طرئہ امتیاز فکری اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ایک ہمدردانہ، مشفقانہ اور برادرانہ فضا کا قیام ہے، جسے رحماء بینھم کے قرآنی مطالبے کے حصول کی ایک کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی برادرانہ کلچر اسلامی تحریک میں بھی ایک امتیازی مقام رکھتا ہے اور خدانخواستہ جس کی کمی تحریک کی مضبوطی کو ضعف پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔

 رفقاکے درمیان ذاتی تعلق، بھائی چارہ، ایک خاندان اور ایک برادری بن جانے کی روح وہ چیز ہے، جس نے جمعیت کو ایک منفرد اسلامی تحریک بنادیا ہے۔ الحمدللہ بہت سے نشیب و فراز کے باوجود یہ روح اور یہ فضا قائم و دائم ہے۔ اس فضا اور برادرانہ تعلق کو جمعیت کی پہچان بنانے میں خرم بھائی اور راجا بھائی کا بڑا دخل ہے اور مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ان دونوں کی رفاقت میں اس عمل میں ایک ادنیٰ شریک کار کی حیثیت سے مددگار رہا ہوں۔ نیز اس امر کے اعتراف میں بھی کوئی باک نہیں کہ اس پہلو کو اُجاگر کرنے میں ہم نے اخوان کے رہنما ڈاکٹر سعید رمضان سے بہت کچھ سیکھا اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا گیا۔

راجا بھائی کے علمی مقام اور خدمات پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے اور ان کی کتابوں اور مضامین کا صرف انٹرنیٹ پر موجود ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کی حفاظت، طباعت اور تشہیر پر توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس تحریر میں راجا بھائی کی زندگی کے جن پہلوئوں کے بارے میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور ان میں سب سے اہم ان کا اسلام سے کمٹمنٹ، اسے صرف ایک نظریے اور عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے نصب العین کے طور پر اختیار کرنا اور اس پر جم جانا ہے۔ جمعیت کے دستور کی تدوین کے وقت، زندگی کے مقصد کے اظہارواعلان کے لیے جس آیت قرآنی کا انتخاب کیا گیا، وہ خرم بھائی اور راجا بھائی ہی کی تجویز کردہ تھی اور اپنی کم علمی کے باوجود میری زبان سے بھی بے ساختہ نکلا  ع

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

آیت مبارکہ ہے:

 اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ (انعام ۶:۱۶۱-۱۶۲)

کم از کم میں نے اس زمانے میں یہ تازہ تازہ رُوداد جماعت اسلامی میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمۃ کے خطبۂ جمعہ میں پڑھی تھی، جو دل و دماغ کو مسحور کیے ہوئے تھی۔

راجا بھائی کی پوری زندگی کھلی کتاب کے مانند ہے۔ ہزاروں افراد نے ان سے استفادہ کیا ہے اور سیکڑوں نے ان کو قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھا ہے۔ ان کی اولیں اور آخری وفاداری اپنے اللہ سے اور اللہ کے دین سے تھی۔ جو کچھ انھوں نے کیا، لکھا اور کہا، وہ اپنے مالک کی رضا کے حصول کے لیے اور اس دین کی خدمت کے جذبے سے اور بڑے شوق اور ولولے سے کیا، جسے انھوں نے زندگی کا مقصد اور حاصل بنایا تھا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے اور ان شاء اللہ ، اللہ کے فرشتے بھی گواہی دیں گے کہ وہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے، جنھوں نے رب سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے میں اپنی حد تک ہرکوشش کی اور جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوگئے: ذَاقَ طَعَمَ الْاِیْمَانُ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالِاسْلَامِ دِیْنًا۔

اور جن کے بارے میں اللہ گواہی دیتا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (احزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وقت آنے کا منتظر۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

راجا بھائی نے جماعت اسلامی سے باقاعدہ رکنیت کا تعلق قائم نہیں کیا اور اس کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں، جن میں ان کا مزاج، علمی مصروفیات، ۱۹۵۸ء میں ملک سے باہر چلے جانا اور ایک طویل مدت تک باہر ہی رہنا اور پھر تعلیمی کیریئر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا شامل ہیں۔ خود یونی ورسٹی کیریئر اور علمی کام، اور خصوصیت سے تخصص کے آداب اور تقاضے شامل ہیں۔ سیاسی امور پر کہیں کہیں اختلاف راے بھی رہا ہے اور ہم بارہا اس پر بات کرتے رہے ہیں، لیکن جہاں تک جماعت کے مقصد، طریق کار اور مجموعی خدمات کا تعلق ہے، جماعت سے ان کی محبت اور تعلق کسی رکن سے کم نہیں تھی۔

ایک بار میں نے راجا بھائی سے کہا کہ ’’دل چاہتا ہے کہ خرم کی طرح تم بھی جماعت کے اندر ہوتے‘‘ تو اپنے مخصوص انداز میں تبسم اور آنکھوں کی چمک کے ساتھ جواب میں کہا: ’’جماعت میرے اندر ہے، میرے جماعت کے اندر ہونے سے کیا فرق پڑے گا، میں تو اپنے کو اس کا اہل نہیں سمجھتا‘‘۔ اس پر مَیں نے ان کو مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا واقعہ سنایا۔ وہ جماعت سے نکل گئے تھے، مگر الحمدللہ میرا ان سے تعلق ہمیشہ ویسا ہی رہا اور وہ بھی ہم پر اسی طرح شفقت فرماتے رہے۔ ایک بار بڑے پیارے انداز میں مولانا اصلاحی صاحب نے فرمایا:’’میں جماعت سے نکل گیا ہوں، لیکن وہ جماعت جو میرے اندر ہے، وہ کبھی نہیں نکلتی۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت کوئی اچھا کام کرتی ہے یا اسے کوئی کامیابی ہوتی ہے تو مَیں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اور جب بھی جماعت کوئی غلطی کرتی ہے یا اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مجھے اس پر دُکھ ہوتا ہے‘‘۔

میرے خیال میں جماعت سے تعلق کے سلسلے میں یہ ایک بڑا سچا پیمانہ ہے اور راجا بھائی رکن نہ ہوتے ہوئے بھی اس پر ہمیشہ پورے اُترے۔ جمعیت کے دور کے بھائی چارے اور برادرانہ کلچر کی جو بات مَیں نے کی ہے، وہ کلچر راجا بھائی کی پوری زندگی میں دیکھا جاسکتاتھا۔ ان کی زندگی کا میرے لیے بہت ہی پیارا پہلو ان کی ذاتی رفاقت، محبت، خیرخواہی، اپنائیت، بے ساختگی ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا ہی دل آویز پہلو تھا، جو ان کی نیت کی پاکی اور حُسنِ سلوک کا مظہر تھا۔ ان کی زندگی میں دو رنگی نہیں تھی۔ مفاد پر مبنی تعلق کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نہیں پڑا تھا۔ ان کا گھر ہی نہیں، ان کا دل بھی ہر ایک کے لیے کھلا تھا اور یہ تعلق بے لوث تھا جس نے ان سے رشتے کو ایک مقدس رشتہ بنا دیا تھا۔ پھر وہ دوسرے کی بات بڑے سکون سے سنتے تھے اور اختلاف بھی اس طرح کرتے تھے کہ دل نہ ٹوٹنے پائے۔ خوش کلامی ہی نہیں، خلوص اور خیرخواہی وہ عناصر تھے، جو ان سے اختلاف کو ایک رحمت بنادیتے تھے اور خودپسندی، غرور اور من آنم کہ من دانم کا ان کی زندگی میں کوئی مقام نہیں تھا۔

پھر یہ بھی واضح رہے کہ راجا بھائی بڑے مجلسی انسان تھے۔ وہ بولتے آہستہ آہستہ تھے، کبھی تو یہ احساس ہوتا تھا کہ الفاظ کے باب میں بخل سے کام لے رہے، یا سوچ سوچ کر ، ٹھیرٹھیر کر بول رہے ہیں، حالانکہ خیالات کو حُسن و خوبی سے ادا کرنے میں کوئی ان کی ٹکر کا نہیں تھا، بس یوں سمجھ لیں کہ ان کا اسٹائل تھا۔ ان کے الفاظ میں جو شیرینی، ان کے انداز میں جو اپنائیت، ان کے لہجے میں جو خلوص اور ان کے احساسات میں جو خیرخواہی اور دردمندی بلکہ قدرافزائی ہوتی تھی، وہ دل و جان کو مسحور کردیتی تھی ،گویا     ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

راجا بھائی کا رویہ بڑوں کے ساتھ، ہم عمروں کے ساتھ، اپنے سے کم عمر کے ساتھیوں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ بڑا خوش گوار اور اپنائیت سے بھرپور ہوتا تھا۔ نیز ان کے مزاج میں خوش گوار مزاح کا ایک رنگ بھی تھا، جسے ان کی مسکراہٹ جو کبھی کبھی ہنسی کی شکل اختیار کرلیتی تھی کچھ اور بھی دل آویز بنادیتی تھی   ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

راجا بھائی کئی سال سے شدید بیمار تھے، لیکن مجال ہے کہ کبھی حرفِ شکایت ان کی زبان پر آیا ہو۔ صبر اور شکر کا وہ پیکر تھے۔ الحمدللہ، ان کے بیٹے یاسر اور ان کی بہو سمیرا نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا، خصوصیت سے سمیرابیٹی نے جس لگن اور محنت سے اپنے سُسر کی خدمت کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تعالیٰ، یاسر، سمیرا اور تمام اہلِ خانہ کو بہترین اجر سے نوازے اور ان کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت بخش کر ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہترین اجر کا سامان فرمائے۔ سمیرا بیٹی نے بتایا کہ انتقال سے چند دن قبل ہسپتال میں بار بار میرے بارے میں پوچھتے رہے، حالانکہ ہسپتال جانے سے ایک دن پہلے ہی مجھ سے بات ہوئی تھی۔ ہفتہ کو ہسپتال سے گھر واپس آئے، طبیعت خوش گوار محسوس کر رہے تھے۔ سمیرابیٹی سے فرمایش کرکے تھوڑی سی مٹھاس کھائی اور پھر ہمیشہ کی نیند سوگئے۔ الحمدللہ، خرم بھائی اور راجا بھائی سے تعلقات ان کی ذات تک محدود نہیں رہے۔ ہماری اولادیں بھی ایک دوسرے سے قریب ہیں اور ہر ایک کی اولاد نے ہم تینوں کو خاندان کے بڑے کا درجہ دیا ہے۔ خرم بھائی اور راجا بھائی دونوں کے بچے مجھے خورشید چچا ہی کہتے ہیں اور میرے بیٹے اور بیٹیاں اُن کو باپ کا سا احترام دیتے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

ان ۷۰برسوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو خرم ہوں یا راجا، ان کو اپنے سے جدا اور دُور محسوس نہیں کرتا، اور یہی احساس ہے جو دونوں کے بچھڑ جانے کے باوجود ان کو مجھ سے جدا نہیں ہونے دیتا:

من تو شدم ، تو من شدی

من تن شدم ، تو جاں شدی

تاکس نگوید بعد ازیں

من دیگرم ، تو دیگری

اسے پروٹوکول کا چھوٹا سا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز بھی کیاجا سکتا ہے، لیکن ممالک کے مابین تعلقات کا درجۂ حرارت جانچنے کے لیے پروٹوکول کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ۲۰؍اپریل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیجی ریاستوں کے سربراہوں اور امریکی صدر باراک اوباما کی آمد ہوئی۔ یہ سب رہنما ۲۱؍اپریل کو ایک روزہ امریکی خلیجی گول میز کانفرنس میں خطے کی صورت حال پر مشورہ کرنے جمع ہو رہے تھے۔پروٹوکول اور معمول کے مطابق سعودی فرماںروا شاہ سلمان نے تمام خلیجی ذمہ داران کا استقبال خود ائیرپورٹ جا کر کیا،جو سرکاری ٹی وی چینل پر   براہِ راست دکھایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسی ائیرپورٹ پر امریکی صدر پہنچے، لیکن سب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا استقبال کرنے کے لیے نہ شاہ سلمان خود تھے، نہ ان کے ولی عہد اور نہ نائب ولی عہد۔ ان کا استقبال ریاض کے گورنرفیصل بن بندر اور وزیر خارجہ عادل بن جبیر نے کیا۔ ٹی وی پر بھی یہ کارروائی نہ دکھائی گئی۔ امریکی صدر نے بھی جہاز سے اترتے ہی اپنے میزبانوں سے پہلے سعودی عرب میں امریکی سفیر سے قدرے طویل معانقہ کیا اور پھر میزبانوں سے مختصر مصافحہ کرتے ہوئے ، ان کے ہمراہ اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ گئے۔ یہی صدراوباماچند ماہ قبل ریاض آئے تھے توخود شاہ سلمان نے ائیرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا تھا۔

معاملہ ائیرپورٹ پر استقبال اور قومی ٹی وی پر براہِ راست نہ دکھائے جانے ہی کا نہیں، معاملات کئی پہلوؤں سے گھمبیر ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب آمد سے پہلے اہم امریکی رسالے    The Atlantic (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں’اوباما ڈاکٹرائن‘ کے عنوان سے امریکی صدر کا بہت طویل انٹرویو شائع ہوا۔۱۹ہزار الفاظ پر مشتمل اس انٹرویو اور تبصرے میں صدر اوباما نے واضح الفاظ میں   سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی مجھے سعودی عرب کے ساتھ اب بھی ایک حلیف کی حیثیت سے برتائو کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنے بغیر مفت میں مفاد حاصل کرتے رہنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کہیں امریکا کے حلیف ’سُنّی عرب ممالک‘ امریکا مخالف دہشت گردی کو شہ تو نہیں دے رہے؟ مزید کہا: ’’سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں خطے میں فرقہ وارانہ اختلافات اُبھار رہی ہیں‘‘۔ ’’ہمارا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ سعودی عرب کی مدد کرتے رہیں‘‘۔ ’’ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت نے شام ، عراق اور یمن میں پراکسی وار کو ہوا دی ہے‘‘۔ ’’ سعودی عرب خطے کے معاملات میں ایران کو ساتھ لے کر چلے‘‘ ۔ امریکی صدر کا یہ جملہ دوبارہ پڑھیں تو یوں ہوگا کہ: ’’سعودی عرب (ہمیں شیطانِ بزرگ قرار دینے والے) کو ساتھ لے کر چلے‘‘۔

انھوں نے شام کے بارے میںبھی تفصیلی بات کرتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا کہ:    ’’بشار الاسد کے خاتمے کے لیے امریکی فوجیںشام نہ بھیجنے کا ہمارا فیصلہ درست تھا۔ خطے کے ممالک کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہییں‘‘ یعنی بشار کو باقی رکھتے ہوئے کوئی حل نکالا جائے۔ اس انٹرویو کے علاوہ بھی صدر اوباما نے سعودی عرب پر کڑی تنقید کی ہے مثلاً یہ کہ ’’سعودی عرب صرف تیل ہی نہیں دہشت گردی بھی برآمد کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ معتدل سوچ رکھنے والے مسلمان تھے، سعودی عرب نے وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ دیا‘‘۔

 اسی دوران میں نائن الیون کی تحقیقات کے لیے قائم کانگریس کمیٹی کی طرف سے   سعودی عرب کے خلاف اقدامات کا عندیہ دینا شروع کردیاگیا۔ امریکی رسائل وجرائد کے مطابق وائٹ ہاؤس میںامریکی قومی سیکورٹی کونسل کے بعض ارکان یہ طعنہ دیتے سنائی دیتے ہیں کہ:  ’’نائن الیون کے واقعات میں ملوث ۱۹؍افراد میں سے ۱۵شہری سعودی تھے، کوئی بھی ایرانی نہیں تھا‘‘۔ کہا جانے لگا کہ ان واقعات میں ملوث سعودی باشندوں نے انفرادی طور پر ہی نہیں، ریاست کے بعض ذمہ داران کے تعاون سے یہ کارروائی کی۔ یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ مزید تحقیقات نے اگر یقینی طور پر یہ بات ثابت کردی تو پھر سعودی عرب کو بحیثیت ریاست اس کا ذمہ دارٹھیرایا جائے گا اور اس سے ۳ہزار ہلاک شدگان کا تاوان لیا جائے گا۔ سعودی عرب میں حقوق انسانی، جمہوریت ، عدلیہ اور حقوق نسواں کی لَے بھی بلند کی جانے لگی۔ یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ ۱۹۹۵ء میں ریاض میں امریکی کمپاؤنڈ پر حملہ بھی کوئی انفرادی کارروائی نہیں بلکہ اس میںبعض ریاستی ذمہ داران بھی ملوث تھے۔

 اس صحافتی وسفارتی یلغار کے جواب میںسعودی وزیر خارجہ اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر عادل جبیر نے بیان دیا ہے کہ: ’’اگر ہمیں محسوس ہوا کہ امریکی مالیاتی اداروں میں پڑے ہمارے سرمایے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں تو ہم یہ رقم، یعنی (۷۰۰؍ ارب ڈالر) واپس   لے آئیں گے‘‘۔

دوسری طرف ایران نے امریکا ہی نہیں اس پر مؤثر ہر لابی کو مزید بہتر تعلقات کے عملی پیغامات دینا شروع کردیے ہیں ۔ ایٹمی معاہدے کے بعد امریکا کو ۸میٹرک ٹن بھاری پانی کی فروخت کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول: ’’ایٹمی معاہدے کے بعد امریکی بنکوں میں منجمد ۵۵؍ارب ڈالر میں سے ۳؍ارب ڈالر اسے واپس مل گئے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ خود اسرائیل کے حوالے سے ایرانی لب ولہجہ تبدیل ہونے لگاہے۔ نیم سرکاری نیوز ایجنسی ـ’مہر‘ کے مطابق صدر روحانی نے ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط میں تجویز دی ہے کہ دور مار ایرانی میزائلوں پر تحریر ’مرگ بر اسرائیل‘ کی عبارت حذف کردی جائے۔

لیکن ان سابق الذکر چند جھلکیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ امریکا ایران اختلافات وعداوت ختم ہوگئی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے بقول امریکا سے ہونے والا معاہدہ ابھی صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے‘‘۔ سی این این ٹیلی ویژن کے مطابق ایرانی اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ: ’’اگر امریکا نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسے سخت نادم ہونا پڑے گا‘‘۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کسی فوری اور وسیع تر تنازعے کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ البتہ یہ حقیقت ضرور واضح ہے کہ ایران، سعودی عرب اختلافات بھیانک تر ہوگئے ہیںاور عالمی طاقتیں ان اختلافات کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ امریکا، روس اور اسرائیل اس سارے کھیل میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور باہم اختلافات کے باوجود تینوں ملک باہم مشاورت وتعاون کے کئی دائرے رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں:’’بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ،سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔

اسی پس منظر میں ۷،۸؍اپریل کو ترکی کے شہر استنبول میں ۱۳ویں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ حاضری کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی ۔۲۰سے زائد سربراہان شریک تھے، باقی ممالک کی نمایندگی مختلف افراد نے کی۔ ۵۷ممالک میں سے صرف شام غیر حاضر تھا ۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا ،لیکن عین آخری لمحے انھوں نے سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا۔ شاید یہی ’خطرہ‘ ہو کہ کہیں کوئی مسلم رہنما انھیں بنگلہ دیش میں جاری وحشیانہ انتقامی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ نہ کردے ۔

پروٹوکول کے واقعات نے یہاں بھی کئی پیغامات دیے، مثلاً کانفرنس کا آغاز ہی مصری وزیر خارجہ کی کم ظرفی پر مبنی ایک حرکت سے ہوا۔ تنظیم کا سابق سربراہ ہونے کے ناتے مصر نے رسمی طور پر یہ ذمہ داری ترکی کے سپرد کرنا تھی۔مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے جو مصری غاصب حاکم جنرل سیسی کی غیر حاضری کے باعث مصر کی نمایندگی کر رہے تھے ، افتتاحی سیشن کا آغاز کیا، چند رسمی جملے ادا کیے، جن میں ترکی کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر تک نہیں کہا اور پھر تنظیم کے نئے سربراہ اور میزبان ملک کے صدر طیب اردوان کا انتظار کیے بغیر، تیزی سے سٹیج سے اُتر کر اپنی نشست پر جابیٹھے۔

واضح رہے کہ مصر کے منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کے خلاف جنرل سیسی کے خونی انقلاب کی سب سے پُرزور مخالفت ترکی ہی نے کی تھی۔ صدر اردوان اب بھی جنرل سیسی کو ملک کا آئینی سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کانفرنس کے دوران تمام شرکا کے گروپ فوٹو کا موقع آیا تو  شاہ سلیمان اور صدر اردوان شرکا کے عین درمیان میں تھے۔ تصویر بننے کے بعد دونوں سربراہ دیگر مہمانوں کے جلو میں سٹیج سے روانہ ہوئے۔ ایرانی صدر روحانی بھی قطار میں کھڑے تھے۔ شاہ سلمان ان کے بالکل قریب اور سامنے سے گزر گئے اورسلام دعا تو کجا، ان سے آنکھیں بھی چار نہ کیں۔ دونوں ملکوں کے شہریوں نے اس منظر پر اپنے اپنے انداز میں کڑے تبصرے کیے۔

 دو روزہ کارروائی ، تقاریر اور جانبی ملاقاتوں کے بعد ۳۴صفحات اور ۲۱۸نکات پر مشتمل اختتامی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیہ کئی لحاظ سے بہت بہتر اور جامع ہے۔مسئلۂ فلسطین حسب سابق سر فہرست ہے، جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام اور ۱۹۴۸ء سے ملک بدر کیے گئے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا ذکر نمایاں ہے۔ اعلامیے کی شق ۲۱سے ۲۶تک میں مسئلہ کشمیر پر ایسا دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے جو بعض اوقات خود پاکستانی حکومت کے بیانات سے بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کشمیر کو پاکستان وہندستان کے مابین بنیادی تنازع قرار دیتے ہوئے، اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کیوں کہ اعلامیے کے الفاظ میں’’اس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں‘‘۔ عالمی برادری کو یاد دلایا گیا ہے کہـ’’کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں ۶۸برس سے   عمل درآمد کی منتظر ہیں‘‘۔ ’’حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی وسیع تر جدوجہد کی حمایت کرتے ہوئے دنیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ’’جدو جہد آزادی اور دہشت گردی کو یکساں قرار    نہ دے‘‘۔کشمیر میں ہندوستانی افواج کے مظالم اور حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ۱۴فروری ۲۰۱۶ء کو پلوامہ میں ۲۲سالہ کشمیری خاتون شائستہ حمید کی شہادت کا ذکر مثال کے طور پر کیا گیا ہے۔ آخر میں اسلامی تعاون تنظیم (جس کا نام پہلے اسلامی کانفرنس تنظیم ہوتا تھا) کے زیر اہتمام ایک دائمی اور آزاد ادارے کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جس کی ذمہ داری ’’ہندستان کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں ہونے والے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہوگا‘‘ ۔

حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں سے بھی ’مقبوضہ کشمیر ‘ آنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اوآئی سی کے ادارے ایسیسکو کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے۔ ساتھ ہی مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں۔ عالم اسلام کے سب سے اہم عالمی پلیٹ فارم سے کشمیر کے بارے میں اس قدر جامع اور مضبوط موقف کا اعلان کیے جانے میں بنیادی کردار یقینا پاکستانی وزارت خارجہ کا ہوگا۔ اس کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ا ن تمام مسلم ممالک کے کردار کی تحسین بھی کرنا ہوگی کہ جن کے واضح تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ البتہ اب اصل ضرورت عالم اسلام کے اس متفق علیہ موقف کو دنیا کے ہر شہری کے سامنے تسلسل اور مقبوضہ کشمیر سے حاصل کردہ سمعی وبصری شواہد کے ساتھ پیش کرتے رہنے کی ہے۔

اعلامیے میں افغانستان میں مصالحتی کاوشوں کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔’قلب ایشیا‘ کانفرنس کی بھی حمایت وتائید کی گئی ہے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں تشکیل پانے والی چار ملکی (افغانستان، چین، پاکستان، امریکا) کوارڈی نیشن کمیٹی کی بھی حمایت کی گئی ہے۔

اعلامیے کا سب سے نازک حصہ وہ درجن بھر شقیں ہیں، جن میں کہیں براہ راست اور واضح انداز سے اور کہیں بالواسطہ طور پر ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’دہشت گردی کی مدد‘ کرنے سے رُک جانے کا کہا گیا ہے۔ ان شقوں کا آغاز ’’مسلم ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین اچھے تعلقات کی ضرورت اور اہمیت‘‘ سے کیا گیا ہے(شق۳۰)۔ لیکن ساتھ ہی دیگر ممالک کی آزادی ، خودمختاری اور وحدت کے احترام کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔ تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بحرین، یمن، شام اور صومالیہ میں ایران کی مداخلت اور وہاں دہشت گردی کی پشتیبانی جاری رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے (شق۳۳)۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کو ہوا دینے سے خبردار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں اعلامیے کی کئی شقیں ہیں جن میں داعش کی دو ٹوک مذمت کرتے اور اسے    دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہے۔ اور پھر شق۱۰۵میں ’’شام، بحرین، کویت اور یمن میں حزب اللہ کی دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’خطے میں      عدم استحکام کے لیے دیگر دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کا اصل ذمہ دار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

عالم اسلام اور او آئی سی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایران کے خلاف اس طرح  کھل کر اور شدید تنقید کی گئی ہو۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ کانفرنس میں شریک ۵۶ممالک میں سے صرف ایک ایران ہی تھا جس نے اس اعلامیے پر احتجاج کرتے ہوئے اس سیشن کا بائیکاٹ کیا۔     سابق الذکر چند شقیںتو وہ ہیں جن میں ایران پر براہ راست الزامات اور اس کی مذمت ہے، وگرنہ شام اور صومالیہ سمیت کئی مسائل پر بات کرتے ہوئے بھی روے سخن اسی کی طرف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اعلامیے کے بعض الفاظ ضرورت سے زیادہ سخت ہوں، لیکن برادر اسلامی ملک ایران کو یہ ضرور سوچنا اور اس امر کا مبنی برحقیقت جائزہ لینا ہوگا کہ آخر پوری مسلم دنیا اس کے خلاف یک آواز کیوں ہوگئی۔

اعلامیے میں روہنگیا اراکان، فلپائن ، بوسنیا، کوسوا، اری ٹیریا سمیت امت مسلمہ کے تقریبا ہرمسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم اور اسلام فوبیا کا بھی سخت الفاظ میں نوٹس لیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ہونے والے قتل عام اور  توہینِ انسانیت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ مصر میں ۴۸ہزار سے زائد بے گناہ قیدیوں اور ہزاروں بے گناہ شہدا کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ بنگلہ دیش میں ۸۸ہزار سے زائد بے گناہوں کو    پسِ دیوار زندان دھکیل دینے، ۳۰۰ سے زائد شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کر دینے اور بے گناہ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔گذشتہ ۱۰برس سے جاری حصارِ غزہ کا ذکر بھی گول کردیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت کئی مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے فعال عالمی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بے نقاب کرتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ظلم پر آنکھیں نہ موند لی جائیں اور مکمل انصاف اور غیرجانب داری سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔ ۱۷؍اپریل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار صہیونی حکومت نے اپنا ہفتہ وار کابینہ اجلاس شام کے مقبوضہ علاقے ’جولان‘ میں کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے اس نے اعلان کیا کہ اب دنیا کو جولان پر بھی اس کا قبضہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ صہیونی ریاست کو یہ جسارت اسی لیے ہورہی ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت باہم سرپھٹول اور ماردھاڑ کا شکار ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ظالموں کا دفاع کرنے اور ان کے گناہ اپنے سر لینے میں لگاہوا ہے۔ یہی عالم رہا تو خاکم بدہن زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آج عافیت سے بیٹھے حکمران و عوام بھی دشمن کے بچھائے جال میں جکڑے جاچکے ہوں گے۔

اپنے اللہ پر کاکامل بھروسا رکھنے والے مظلوموں کو البتہ یہ یقین ہے کہ تاریکی کے بعد سحرنو کو بہرصورت طلوع ہونا ہے۔ اسی یقین کا اظہار کرتے ہوئے گذشتہ دنوں عدالت میں لائے جانے والے الاخوان المسلمون کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بلند کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا: مرسی راجع (منتخب صدر) مرسی واپس آکر رہیں گے!

جنگ ِ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت؟

سوال: اکثر لوگ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے (دین کی خاطر) کے خلاف اس واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ نے جنگ ِ جمل میں شرکت کی تھی‘‘۔ درحقیقت یہ سازش کا نتیجہ تھا۔ سازشیوں نے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے مابین معاہدہ واپسی و صلح کی سن گن لیتے ہی وہ صورتِ حال پیدا کی، کہ نتیجتاً جنگ میں مسلمانوں کا دونوں اطراف سے کافی نقصان ہوا تھا۔ حضرت عائشہؓ اگر قتلِ عثمانؓ کے  قصاص کا مطالبہ نہ کرتیں اور جنگ کا علَم بلند کرکے گھر سے نہ نکلتیں تو دنیا میں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی روایت قائم نہ ہوتی، جو اس عزم و ہمت کی پیکر خاتون نے اپنے عمل سے قائم کر دی۔ اس کے باوجود وہ اس اقدام کو یاد کر کے کیوں روتی اور     نادم ہوتی تھیں؟ کیا یہ قدم اُٹھانا اور قصاص کا مطالبہ کرنا غلط فیصلہ تھا؟ حضرت عائشہؓ  جیسی عالمہ و فقیہہ سے کیا یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک ایسا قدم اُٹھا بیٹھیں جس کی ضرورت اس وقت نہیں تھی؟

جواب:بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جو بڑے بڑے علما کو چکرا دیتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت اتنا بڑا حادثہ تھا کہ بقول حضرت عبداللہ بن عمرؓ، اس شہادت پر اُحد پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا تو کم تھا۔ جن باغیوں (خوارج) نے انھیں شہید کیا تھا، وہ بہت منظم اور بہت طاقت ور تھے اور انھیں کسی بھی مقدس جگہ، مقدس وقت اور مقدس شخصیت کی پروا نہ تھی۔ اس لیے کہ ان کا مشن خلافت ِ راشدہ کے نظام کو درہم برہم کرنا تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت عثمانؓ کسی ایسے اقدام سے دُور رہنا چاہتے تھے جس سے مدینہ اور اہلِ مدینہ کی حُرمت پامال ہو اور باغیوں میں سے کوئی فرد قتل ہوجائے۔ اسی طرح حضرت علیؓ اور دوسری ہستیاں بھی کسی قسم کی فوج کشی کے قائل نہ تھیں۔ نتیجتاً باغیوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا۔

اس شہادت نے نہ صرف حضرت عائشہؓ، حضرت معاویہؓ بلکہ حضرت علیؓ اور تمام صحابہ کرام ؓکو غم زدہ کر دیا۔ سب کی دلی خواہش تھی کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص لیا جائے، لیکن خوارج حضرت علیؓ کی فوج میں شامل ہوگئے اور ابھی تک منظم اور طاقت ور تھے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ  حضرت علیؓ سے خونِ عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے اور حضرت علیؓ بجا طور پر اپنی خلافت کو مضبوط کرکے قصاص لینا چاہتے تھے اور فوری طور پر اس قابل نہ تھے کہ باغیوں سے قصاص لے سکیں۔ دونوں کا اس معاملے میں بنیادی اختلاف نہ تھا بلکہ وقت کے تعین میں اختلاف تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہؓ کی پریشانی کا تعلق ہے تو اس کا سبب ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ اس طرح کے پیچیدہ مسائل میں حضرت عائشہؓ اور تمام صحابہؓ اور صحابیاتؓ کا مزاج یہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر گزرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان پر اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ اپنے صحیح اقدام پر بھی پریشان ہوتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ غلبۂ خشیت کی وجہ سے سمجھتی تھیں کہ وہ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (اَحزاب ۳۳:۳۳)’’اور تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو‘‘ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں، حالاںکہ انھوں نے اس حکم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔

ضرورت اور حاجت کے موقع پر خاتون باہر نکل سکتی ہے اور جنگ میں بھی جاسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ غزوئہ اُحد میں بھی آپؐکے ساتھ تھیں۔ وہ غزوئہ مریسیع جسے غزوئہ بنی المصطلق بھی کہا جاتا ہے، میں بھی آپؐ کے ساتھ تھیں اور رات کو پڑائو کے وقت ہار گم ہوجانے کے سبب لشکر سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ بعد میں صفوان بن المعطلؓ اپنے اُونت پر انھیں سوار کر کے لائے تھے۔ صفوان نے حضرت عائشہؓ سے نہ سلام کیا نہ کلام، بلکہ اُونٹ بٹھایا تو وہ اس پر سوار ہوگئیں اور پھر وہ اپنے اُونٹ کی باگ پکڑے لے کر آئے تھے۔ اس کے سبب عبداللہ بن ابی نے ان پر تہمت لگائی اور بعض مخلص صحابہ کو دھوکے اور چالاکی سے اپنے ساتھ ملالیا۔ اس بہتان کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام سے رد کیا۔ جب آیت  وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی یہ حکم بھی نازل ہوا تھا:  قد  اذن لکن ان تخرجین لحاجتکن ’’تمھیں اجازت دی گئی ہے کہ  تم اپنی حاجت اور ضرورت کے لیے باہر نکلو‘‘(بخاری، کتاب التفسیر، سورئہ احزاب، الجزئ۱۹، ص۷۰۷)۔ اس لیے ان کی پریشانی اس سبب سے نہیں تھی کہ ان کا نکلنا جائز نہ تھا بلکہ غلبۂ خشیت کی وجہ سے تھا اور جو کچھ ہوا اس پر ندامت کا اظہار تھا۔

جہاں تک باہمی جنگ اور اختلاف کا تعلق ہے تو وہ ختم ہوگیا تھا لیکن سازشیوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو وہ واضح ہے۔ غزوات میں خواتین گئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کروا کر آپؐ کی اجازت سے، آپؐ کے دور میں، آپؐ کے ساتھ اور آپؐ  کے وصال کے بعد بھی گئی ہیں، جیساکہ اُم حرام بنت ملحان جو حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں     غزوۃ الروم میں گئیں اور واپسی پر جب شام کے ساحل پر اُترنے کے بعد اپنی اُونٹنی پر سوار ہوئیں تو اُونٹنی نے انھیں گرا دیا اور ان کی گردن ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئیں۔ فقہا نے کہا ہے کہ اس طرح کے اختلافی مسائل اورجنگوں کے بارے میں بلاضرورت بحث نہ کی جائے۔ جن اکابر نے بحث کی ہے انھوں نے احتیاط کے ساتھ بعض مسائل کی تشریح کی خاطر بحث کی ہے، بلاوجہ ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت ان کے پیش نظر نہ تھی۔ جو لوگ صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ پر طعن و تشنیع کے لیے بحث کریں، کسی کی مدح اور کسی کی مذمت کریں، وہ مجرم ہیں۔ ایسے لوگ شرعاً تعزیری سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!(مولانا عبدالمالک)


بیوی کا الگ رہایش کا مطالبہ

س : میرا ایک بیٹااور دوبیٹیاں ہیں ۔سب کی شادی ہوگئی ہے ۔ میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتا ہوں ۔ گھر میں میری اہلیہ، بیٹے اوربہو کے ساتھ رہتی ہیں۔ میر ا گھر دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ البتہ گھر میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ایک ہی ہے۔ مزاجی اختلافات کی وجہ سے میری اہلیہ اوربہو میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ اس بنا پر بہو اور  اس کے میکے والوں کا پُراصرار مطالبہ ہے کہ اسے سسرالی گھر سے دور الگ سے رہایش فراہم کی جائے ۔ وہ ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ الگ سکونت کا مطالبہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔

براہِ کرم وـضاحت فرمائیں کہ کیا ایسا گھر، جو والدین اوربیٹے بہوپر مشتمل ہو، غیر اسلامی مشترکہ خاندان کی تعریف میں آتا ہے ؟ اگر ساس بالائی منزل پر رہنے والے بیٹے بہو کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے ، پھر بھی بہو کی جانب سے علیحدہ سکونت کا مطالبہ کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے ؟

ج: نکاح کے بعد لڑکی اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کوچھوڑ کر نئے گھر میں منتقل ہوتی ہے تو اسے شوہر کے ساتھ ساس سُسر، نندوں اوردیوروں کی شکل میں دوسرے رشتے دار مل جاتے ہیں۔ لڑکی اگر انھیں ماں باپ، بھائی بہن کی حیثیت دے اوروہ لوگ بھی اس کے ساتھ پیار محبت کا معاملہ رکھیں تو گھر میں خوشی ومحبت کی بہار آجاتی ہے۔ تاہم، اگر رشتوں کی پاس داری نہ کی جائے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اوربدگمانیاں پر وان چڑھنے لگیں تو گھر جہنم کدہ بن جاتا ہے۔

دلہن کا حق ہے کہ اسے ایسی رہایش فراہم کی جائے، جس میں اس کی نجی زندگی (پرائیویسی) متاثر نہ ہو۔ اس کی مملوکہ چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں اوران میں آزادانہ تصرف کا اسے حق حاصل ہو ۔یہ چیز مشترکہ مکان کا ایک حصہ مخصوص کرکے بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ اس کے لیے شوہر کے آبائی مکان سے دُور الگ سے رہایش فراہم کرنے پر اصرار نہ دلہن کی طرف سے درست ہے، نہ دلہن کے ماں باپ کی طرف سے مناسب ہے۔

ساس سسر کی خدمت قانونی طور پر دلہن کے ذمے نہیں ہے ، لیکن اخلاقی طور پر پسندیدہ ضرور ہے ۔ وہ شوہر کے ماں باپ ہیں۔ وہ ان کی خدمت کرے گی توشوہر کوخوشی ہوگی۔ کیا نیک بیوی اپنے شوہر کوخوش رکھنا نہیں چاہے گی ؟ بہر حال اگر مزاجی اختلاف کی وجہ سے دلہن شوہر کے ماں باپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تواسے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔

آپ نے جوصورت لکھی ہے کہ شوہر کے آبائی مکان کی بالائی منزل علیحدہ بلاک کی حیثیت رکھتی ہے ، صرف باب الداخلہ ایک ہی ہے۔ اس صورت میں اگر دلہن الگ رہنے پر بضد ہے توبالائی منزل اس کے لیے خاص کردینے سے اس کا قانونی حق پورا ہوجاتا ہے ۔ اس کی طرف سے یا اس کے والدین کی طرف سے الگ رہایش فراہم کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اوررشتوں کوپامال کرنے سے متعلق جووعیدیں قرآن و حد یث میں آئی ہیں انھیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


شادی میں تاخیر

س: میرے لڑکے کی عمر۲۵ سال ہے ۔ میں اب اس کا نکاح کردینا چاہتا ہوں ۔ لیکن اس کا اصرار ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل ہوجانے اور کہیں ملازمت حاصل کرلینے کے بعد ہی نکاح کروںگا۔ میر ا اندازہ ہے کہ ابھی اس کے برسرِ روز گار ہونے میں کم از کم   چار پانچ سال اورلگ جائیں گے۔ اس بنا پر میں اُلجھن کاشکار ہوں۔ براہِ کرم میری  راہ نمائی فرمائیں ۔ میری سوچ درست ہے یا میرے لڑکے کی بات میں وزن ہے؟

ج: اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی بلوغت کے بعد ان کے نکاح میں زیادہ تاخیر   نہ کی جائے ۔ ہر انسان میں جنسی جذبہ ودیعت کیا گیا ہے ۔ اسلام نہ اس کوکچلنے اوردبانے کا قائل ہے نہ اس کی تسکین کے لیے کھلی چھوٹ دینے کا روادار ہے ،بلکہ وہ اس کو نکاح کے ذریعے پابند کرنا چاہتا ہے ۔ جنسی جذبہ اتنا طاقت و ر ہوتا ہے کہ اگر انسان کواس کی تسکین کے جائز ذرائع میسر نہ ہوں توناجائز ذرائع اختیار کرنے میں اسے کوئی باک نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر بچوں کا نکاح وقت پر نہ کیا جائے توان کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ برابر قائم رہتاہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دین داری اوراخلاق پر تم کواطمینان ہوتو اس سے نکاح کردو ۔ اگر ایسا نہیں کروگے توروے زمین میں فتنہ اوربڑے پیمانے پر فساد برپا ہوجائے گا ۔(ترمذی، ابن ماجہ)


یعنی کوئی ایسا شخص جودین داری اوراخلاق کے معاملے میں قابل قبول ہو، اگر اس کے پیغامِ نکاح کوتم قبول نہ کروگے اورحسب ونسب، حسن وجمال اورمال ودولت کی رغبت رکھوگے تو بڑے پیمانے پر فساد برپا ہوجائے گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے بہت سی لڑکیاں بغیر شوہر وں کے اوربہت سے لڑکے بغیر بیویو ں کے زندگی گزاریں گے ،زنا عام ہوجائے گا، سرپرستوں کی عزت ووقار پر دھبہ لگ جائے گا، ہرطرف فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔ نسب پامال ہوگا اور صلاح وتقویٰ اور    عفت وعصمت میں کمی آجائے گی ۔

اس حدیث کا خطاب بہ ظاہر لڑکیوں کے سرپرستوں سے ہے ، لیکن حقیقت میں اس کے مخاطب لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے سرپرست ہیں ۔ نہ لڑکی کا سرپرست اس وجہ سے اس کے رشتے میں تاخیر کرے کہ جب صاحب ِ حیثیت ، مال دار اوربرسرِ روزگار لڑکا ملے گا تبھی رشتہ کریں گے ، چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے،اور نہ لڑکے کا سرپرست اس وقت تک اس کا نکاح ٹالتا رہے جب تک اسے کوئی اچھی اوراونچی ملازمت نہ مل جائے۔

تاہم، اس معاملے میں دوسرا پہلو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری اصلاً شوہر پر ہے ۔مروّج مشترکہ خاندانی نظام شرعی طور پر پسندیدہ نہیں ہے ۔ اس لیے لڑکے کی شادی سے قبل بہتر ہے کہ وہ اتنا کچھ کمانے لگے کہ اپنی بیوی کے ضروری مصارف برداشت کرسکے ۔ عموماً والد ین جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے لڑکوں کی جلد از جلد شادی کردینا چاہتے ہیں ، لیکن اس پہلو کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی ۔ چنانچہ بعد میں وہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


تحدیدِ نسل کی حرمت پر بعض اشکالات

س : قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا ہے (انعام۶:۱۵۱)۔اس آیت سے یہ بات تو واضح ہے کہ زندہ اولاد کا قتل حرام ہے ، جیسے عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج اسقاطِ حمل کے طریقے کو بھی اس آیت کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے۔ تاہم، جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کا آپریشن کراکے توالد وتناسل بند کردینا بھی حرام ہے تویہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اس فعل کے حرام ہونے کی گنجایش کہاں سے نکلتی ہے ؟

عزل کی متبادل صورتیں ، جوآج کل رائج ہیں اور جن سے دو بچوں کے درمیان وقفہ رکھا جاتا ہے ، اہلِ علم ان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اوراسے مطلقاً جائز مانتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص ان صورتوں کواختیار کرکے اس وقفے کوکتنی مدت تک دراز کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ اپنی بیوی کی موت تک ، توپھر اس کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپریشن کرواکے عورت کو ما ں بننے کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے۔ قتل اولاد کی ممانعت کا اطلاق حاملہ عورت کے جنین پر توہوسکتا ہے ، لیکن اس نطفے پر کیسے ہوسکتا ہے جس سے ابھی حمل کا استقرار ہی نہیں ہوا ہے ۔ وجود کے بغیر قتل اولاد کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟

دوسری دلیل اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآ ن نے اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے کے فعل کوشیطان کا فعل قرار دیا ہے (النسائ۴:۱۱۹)۔مولانا مودودی نے اس آیت کی تشریح میں اس فعل کوحرام قرار دیا ہے ۔ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ نساء ، حاشیہ:۱۴۸)۔ اس سے اگر انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی کومراد لیا جائے توپھر اس زمرے میں توبہت سے کام آجائیں گے ، مثلاً مصنوعی آنکھ لگوانا ، ایک شخص کا گردہ یا آنکھ کا عطیہ کرنا، ہاتھ یا پیر کاٹنا وغیرہ، لیکن ان کی حرمت کا کوئی بھی قابلِ ذکر فقیہ قائل نہیں ہے۔ جب انھیں گوارا کرلیا گیا(بہ ضرور ت ہی سہی ) تو پیدایشِ اولاد کو مستقل روکنے کو کیوں نہیں گوارا کیا جاسکتا؟

میں کثرتِ اولاد کا مخالف نہیں ہوں ، لیکن مسلم معاشرے میں کثرتِ اولاد سے بہت زیادہ پیچیدگیا ں پیدا ہورہی ہیں۔جس کا اثر نہ صرف خواتین کی صحت پر ، بلکہ بچوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے ، معاشی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں ،و ہ الگ ہیں۔ اس مسئلے کوصرف یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اللہ رازق ہے ۔ توکل علی اللہ کی یہ عجیب و غریب مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ آمدنی کوبڑھانے کے لیے توکوئی جدوجہد نہیں کی جاتی، بس اتنا کہہ کر خود کو متوکل باور کرلیاجاتا ہے ۔ اولاد کی تعلیم وتربیت سے مجرمانہ غفلت اس پر مستزاد ہے ۔ پھر جیسے ہی ان کی عمر ۱۰، ۱۲ برس کی ہوجاتی ہے انھیں محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ہوسکتا ہے ، بڑے شہروں میں نہ ہو ، لیکن دیہات اورچھوٹے شہروں کی پس ماندہ بستیوں میں عام ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مانع حمل ذرائع استعمال کرکے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، یا پھر حرمت سے واقفیت کے علی الرغم عورتوں کا آپریشن کرواکے اولاد کا سلسلہ بند کردیتا ہے ۔

موجودہ دور کا یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے ۔ آں جناب سے امید ہے کہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔

ج : عہدِ جاہلیت میں لوگ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کوقتل کردیتے تھے ۔ خاص طور سے وہ لڑکیوں کوبوجھ سمجھتے تھے ۔ اس لیے بـعـض قبائل میں یہ رسم جاری تھی کہ ان کی پیدایش کے بعد وہ انھیں زندہ در گور کردیتے تھے ۔ قرآن نے اس مذموم فعل کی شناعت بیان کی اوراس سے سختی سے روکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْـیَۃَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًاo  (بنی اسرائیل۱۷:۳۱) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تخلیق کا ایک نظام جاری وساری کیا ہے ۔ اسی طرح انسان ہو یاکائنات کی دیگر مخلوقات میں سے کوئی مخلوق، دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اسے جس رزق کی ـضرورت ہو تی ہے اس کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے :

 وَمَا مِنْ دَآ بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا  (ھود۱۱:۶) زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔

کوئی شخص تخلیق او ر رزق کے معاملات کواپنے قبضے میں کرنا چاہے ، چنانچہ کسی بچے کے پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ رہنے کا حق نہ دے اوراسے قتل کردے ، یا رحم مادر میں کسی جنین کو پرورش پاتا ہوا جان کر اس کا اسقاط کروادے ، یا ایسی کوئی تدبیر اختیار کرے جس سے توالد وتناسل کا سلسلہ ہی یک لخت موقوف ہوجائے ، تینوں صورتوں میں حقیقت اورانجام کار کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اسلامی شریعت میں جہاں قتلِ اولاد اوراسقاطِ جنین حرام ہیں ، وہیں دائمی طور پر توالد وتناسل کوموقوف کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کوبھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنے پر قتل اولاد کا اطلاق نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ کسی کواس کے وجود کے بغیر کیسے قتل کیا جاسکتا ہے ، لیکن اسے اس عمل کی عدم حرمت کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔

عہدِ نبویؐ میں بچہ پیدا نہ ہونے دینے کی دو صورتیں رائج تھیں: ایک خصی کروالینا ، دوسرے عزل کرنا ۔ اول الذکر کے نتیجے میں قوتِ مردمی ختم ہوجاتی تھی اور آیندہ استقرار حمل کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی ۔ حدیث میں ہے کہ بعض صحابہؓ پر راہبانہ تصور کا غلبہ ہوا اورانھوں نے اللہ کے رسولؐ سے خصی کروا لینے کی اجازت مانگی توآپؐ نے سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا اور ان کے سامنے اپنا اسوہ پیش کیا (بخاری:۲۲۲۹، مسلم:۱۴۳۸)۔عز ل کا مقصود بھی یہی تھا کہ    استقرارِ حمل نہ ہوسکے۔ اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں ۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اسے نا پسند کیا ہے اوراسے الوأد الخفی (زندہ در گور کرنے جیسی، لیکن اس کے مقابلے میں ہلکی صورت )قراردیا ہے (مسلم:۱۴۴۲)۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ جس بچے کی پیدایش اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھی ہو ، اس تدبیر کے ذریعے اسے روکا نہیں جاسکتا (بخاری: ۲۲۲۹، مسلم:۱۴۳۸)۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نا پسند کرنے کے باوجود آپؐ نے اس کی اجازت دی ہے (بخاری:۲۵۴۲، مسلم:۱۴۳۸)۔ اس تفصیل سے کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مردیا عورت کا آپریشن کرواکے توالد کاسلسلہ بالکلیہ موقوف کردینا جائز نہیں ، البتہ عارضی اور وقتی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے سورۂ نساء کی آیت  فَلَیُغَـیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ط(یعنی شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے)کی تشریح میں ضبط ولادت کو بھی شامل کیا ہے ۔  سوال میں مولانا کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن ان کی پوری بات نقل نہیں کی گئی ہے اوران کی بحث کوصرف انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی تک محدود کردیا گیا ہے۔ مولانا کی پوری عبارت سامنے ہو توغلط فہمی نہیںہوگی ۔ انھوں نے لکھا ہے:

در اصل اس جگہ جس ردّ وبدل کوشیطانی فعل قرار دیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدانے اسے پیدا نہیں کیا ہے اورکسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر، وہ تمام افعال جوانسان اپنی اور اشیا کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اوروہ تمام صورتیں جووہ منشاے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اس آیت کی رو سے شیطان کی گم راہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔(تفہیم القرآن ، اول ، ص ۳۹۹)

اس ضمن میں مولانا مودودی نے بہ طور مثال عمل قوم لوط ، ضبطِ ولادت، رہبانیت ، برہم چرج، مردوں اور عورتوں کوبانجھ بنانا، مردوں کوخواجہ سرا بنانا وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے ۔

سوال کے آخر میں مسلم معاشرے میں کثرتِ اولاد کے جومسائل اور پیچیدگیاں بیان کی گئی ہیں، وہ حقیقت ہیں ۔ انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمانوں کو تعلیم ، صحت اور معاش کے میدان میں اوپر اٹھانے اور ترقی دینے کی ہر تدبیر اورکوشش قابل قدر اور لائق ستایش ہے ، لیکن  اس کا حل یہ ہرگز نہیںکہ مسلمانوں کوکم سے کم بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا جائے۔ کچھ عشروں قبل جن ملکوں میں خاندانی منصوبہ بندی کوریاستی پالیسی بنایاگیاتھا اوراپنے شہریوں کوایک بچہ یا دو بچے پیدا کرنے کا پابند کیا گیاتھا، بالآخر ان کو معاشرتی مسائل کے پیش نظر اپنی غلطی کا احساس ہوا اوروہ قانون تبدیل کرکے شہریوں کوزیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے پر مجبور ہوئے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے ۔ کوئی عورت کسی مرض کی وجہ سے استقرار حمل کی متحمل نہیں ہے، یا اس کی صحت اس کی اجازت نہ دیتی ہو،یا اور کوئی معقول اورناگزیر سبب ہو تومنع حمل کی تدابیر اختیار کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ تاہم، اس چیزکوعام حالات میں جائز قرار دیا جاسکتا ہے نہ اسے ریاستی پالیسی بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

صحیفہ، حالی نمبر، مدیر: افضل حق قرشی۔ ناشر: مجلسِ ترقیِ ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون: ۹۹۲۰۰۸۵۶۔ صفحات: ۷۲۳۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

الطاف حسین حالی، قومی اور ملّی درد رکھنے والے بلندپایہ ادیب اور احیاے ملّت کے نقیب تھے۔ ان کی صدسالہ برسی (۲۰۱۴ئ) کی مناسبت سے علمی و ادبی مجلّے صحیفہ نے گذشتہ برس  ’شبلی نمبر‘ شائع کیا تھا (تبصرہ: ترجمان ستمبر ۲۰۱۵ئ) اور اب اس کا ’حالی نمبر‘ سامنے آیا ہے۔

یہ خاص شمارہ اپنے وقیع مقالات اور پیش کش کے بلند معیار کی وجہ سے صدسالہ برسی کی جملہ مطبوعات پر فوقیت رکھتا ہے۔  ابتدا میں مدیر صحیفہ نے بڑی محنت سے حیاتِ حالی کی توقیت، ماہ و سال کے آئینے میں مرتب کی ہے۔ حالی پر ایک صدی میں جتنے تنقیدی، سوانحی اور تجزیاتی مضامین لکھے گئے، اُن کا ایک کڑا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً ۱۵نئے اور غیرمطبوعہ مضامین بھی شامل ہیں۔

مضامین کا انتخاب کرتے وقت حالی کی مختلف حیثیتوں (حالی بطور غزل گو، بطور قصیدہ گو، بطور رباعی گو، بطور نقّاد) پر ایک ایک دو دو یا تین چار مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالی بطور شاعر بھی ہمہ جہت تھے۔ بطور نثرنگار بھی ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کی سوانح عمریاں، مقدمہ شعروشاعری، ان کا ناول مجالس النساء اور ان کے مکاتیب یہ سب کچھ ان کے صاف، سادہ اور صریح اسلوب کی نمایندہ کتابیں ہیں۔ بعض مضامین میں دیگر شخصیات کے ساتھ حالی کا تقابل بھی پیش کیا گیا ہے جیسے ’حالی اور سرسیّد‘ (اصغرعباس) یا ’نظیر اور حالی‘(فیض احمد فیض)۔ حالی کی تصنیف یادگار غالب کا شہاب الدین ثاقب نے اور مقدمہ شعروشاعری کا پروفیسر احتشام حسین اور محمد احسن فاروقی نے تجزیہ کیا ہے۔

یہ نمبر حالی کی شخصیت کا ایک ہمہ جہتی مطالعہ ہے جسے متعدد دستاویزات (تصانیف ِ حالی کی اوّلین اشاعتوں کے سرورق، مکتوبِ حالی کے عکس اور حالی کی چند نادر تصویروں) نے اور زیادہ مستند اور لائقِ مطالعہ بنادیا ہے۔ حالی پر قلم اُٹھانے والے اساتذہ، صحیفہ نگاروں یا تحقیق و تنقید کرنے والے طلبہ کے لیے یہ خاص نمبر ایک ناگزیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ایک عہد کی سرگذشت، ۱۹۴۷ئ-۲۰۱۵ئ، جمیل اطہر قاضی۔ ناشر:بک ہوم بک سٹریٹ، ۴۶-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۶۱۶۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

جمیل اطہر قاضی نے ملک کے نام وَر اخبارات میں بطور کالم نگار، سٹاف رپورٹر، سب ایڈیٹر، ایڈیٹر اور بیورو چیف فرائض انجام دیے۔ مجموعی طور پر وہ تمام عمر صحافت کے معیار کو بلند کرنے اور بلند رکھنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ وہ ایک نظریاتی پاکستانی ہیں۔ دیباچہ نگار الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں: ’’ملّی اور قومی مشاہیر رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے عظیم کارناموں، ان کی تابندہ روایات اور ان کے حیات افروز تذکروں سے قومیں حرارت حاصل کرتی ہیں اور عزیمت و استقامت کے چراغ جلائے رکھتی ہیں‘‘۔

مصنف نے اس کتاب میں مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے ۱۰۰ ملّی اور قومی مشاہیر کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ تذکرہ مدیر، صحافی، علما، اساتذہ ، سیاست دان، روحانی شخصیات، کارکن صحافی، احباب، اخبارفروش، بیوروکریٹ اور شعرا جیسے عنوانات کے تحت کیا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کالم نما یہ مضامین بھاری بھرکم اور ثقیل تحقیقی نوعیت کے نہیں ہیں، انھیں خاکے قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم، قاضی صاحب کے خوب صورت اسلوب میں یہ ۱۰۰ شخصیات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر انھی شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ ان کی ذاتی ملاقات رہی اور انھیں قریب سے دیکھا، یعنی ان کے تاثرات کی بنیاد ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں۔

مجموعی طور پر کتاب ایسی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے جو علم و ادب اور صحافت پر  قطبی ستارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قاضی صاحب نے ان شخصیات کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے اَحوال بھی لکھے ہیں، اس لیے اس کتاب کو ان کی آپ بیتی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے ۶۸سالہ عہد کی داستان ہے جو نوجوانوں اور موجودہ دور کے نام نہاد لبرلز، دو قومی نظریے کے مخالف اور اسلام بیزار طبقے کے پڑھنے کی چیز ہے۔(قاسم محمود احمد)


شروحِ کلامِ اقبال، ڈاکٹر اختر النساء ۔ ناشر: بزمِ اقبال ۲۔کلب روڈ ،لاہور۔ فون: ۹۲۰۰۸۵۶۔ صفحات: ۵۶۴، قیمت:۶۵۰روپے۔

علامہ اقبال کی شاعری کی شرح نویسی کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد شروع ہوا۔پروفیسر یوسف سلیم چشتی کلام اقبال کے پہلے معروف شارح تھے۔ ان کے علاوہ مزید شارحین نے بھی شرحیں لکھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب کلامِ اقبال کی شرح نویسی کی تاریخ ہے اور اس کا تجزیہ بھی۔ یہ مقالہ پی ایچ ڈی کی سند کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیرِ نگرانی لکھاگیا تھا۔ کتاب کے ۱۲؍ابواب اقبال کے ایک ایک مجموعۂ کلام کی شرحوں کے جائزے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ مصنفہ نے بڑی تفصیل، باریک بینی اور دقتِ نظر سے ۲۰۰۲ء تک کی شروحِ کلام اقبال کا جائزہ لیا ہے۔

کتاب میں ۱۵شارحین اقبال کے کام کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔باب اول شرح کے مفہوم، شرح نگاری کے اسباب ،اس کی اقسام ،عربی فارسی اور اردو میں شرح نویسی اور کلامِ اقبال کی شرح نویسی کے لیے مختص ہے ۔شرح نویسی کی اہمیت کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ شرح کے ذریعے کسی متن کی پیچیدگی اور دشواری کو دور کرنے کی سعی کی جاتی ہے ، اور متن کو قابلِ فہم بنایا جاتا ہے، چنانچہ شرح کی ہردور میں ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مجموعی تعلیمی معیار گرجانے اور عربی فارسی سے نابلد ہوجانے کی وجہ سے کلام اقبال کی تفہیم کے لیے شرحوں کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔                                          

مؤلفہ نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ شرح لکھتے وقت کسی شارح کے پیش نظر کیا مقاصد تھے۔ وہ مثال دیتی ہیں کہ غلام رسول مہر کی مطالب بانگِ درا کسی قدر معاشی مجبوری کے زمانے میں لکھی جانے والی فرمایشی شرح ہے (ص۵۵)۔ ان کا خیال ہے کہ ۱۴شارحین نے   کلامِ اقبال کی جو شرحیں لکھی ہیں، وہ سب اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں۔ تاہم، بعض شرحیں اپنے  مواد ومعیار کے اعتبار سے زیادہ افادیت کی حامل ہیں لیکن بعض اپنے کم تر معیار کی وجہ سے کچھ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔(ص ۵۳۷)

یہ کتاب اقبالیا تی ذخیرۂ کتب میں ایک اہم اضافہ ہے اور اقبالیات کی منتخب کتابوں میں شمار ہو گی۔ (فیاض احمد ساجد)


میڈیا، اسلام اور ہم، ڈاکٹر سیّد محمد انور۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔فون: ۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ صفحات:۱۳۳۔ قیمت: ۴۲۰ روپے۔

پاکستان میں عام لوگوں کے ذہنوں کو مثبت یا منفی طور پر متاثر کرنے اور کسی خاص رُخ پر ڈھالنے میں میڈیا بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ میڈیا اسلام اور اس کی تہذیبی اقدار کے خلاف کس کس انداز میں کام کر رہا ہے۔

دورِ رسالتؐ میں اسلام مخالف قوتوں کے انداز بھی ایسے ہی تھے، مثلاً: اسلام کی غلط تشریحات، کھیل تماشوں، میلوں اور نام نہاد تفریحی پروگراموں میں اُلجھانے اور اعتدال پسندی اور برداشت کے نام پر غیراسلامی رویوں کی ترویج وغیرہ ۔موجود میڈیا کے کمالات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔

مصنف نے اسلام کے نظریۂ سماع اور ابلاغ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام دشمن میڈیا کے غلبے کے دور میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں: اپنی شناخت پر قائم رہیں، اپنے مخالف کو پہچانیں، کتاب اللہ سے رہنمائی لے کر اپنی حالت کو خود بدلنے کی کوشش کریں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفین سے باوقار طریقے سے مکالمہ کریں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


بچوں کے نظیر، پروفیسر ایم نذیراحمد تشنہ۔ ناشر: قریشی برادرز پبلشرز، ۲-اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۲۳۲۲۹۴۔ صفحات:۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سیّد محمد علی، نظیر اکبر آبادی (۱۷۳۵ئ-۱۸۳۰ئ) کی شاعری اپنے معاصرین (خواجہ میردرد، میرتقی میر وغیرہ) سے یکسر مختلف ہے۔ نظیر، پیشے کے اعتبار سے معلّم تھے۔ مرزا غالب نے ابتدائی دور میں (جب وہ آگرہ میں مقیم تھے) نظیر سے اصلاح لی تھی۔ اپنے دور کے شعرا کے برعکس نظیر کی توجہ غزل کے بجاے نظم پر رہی۔ ان کی شاعری میں اس قدر تنوع ہے کہ ہرشخص کو ان کے ہاں سے اپنی پسند کی نظمیں اور اشعار مل جاتے ہیں۔

مرتب نے ایسی نظمیں جمع کی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے نظیر، اسلامی ادب کے ایک نمایاں شاعر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ان نظموں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، رسولِ اکرمؐ کی محبت، تسلیم و رضا، دنیا کا تماشا اور آخرت جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ ان کے بعض مصرعے (جیسے: ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘) دنیا کے فانی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔انھوں نے زیادہ تر مخمس لکھے ہیں جن میں ردیف کی تکرار سے پیدا ہونے والا آہنگ تاثر کو مزید گہرا کردیتا ہے۔

پروفیسر نذیر احمد تشنہ صاحب نے ۲۸ منتخب نظموں کے مشکل الفاظ کے معانی دیے ہیں اور اشعار کی شرح بھی کی ہے۔ تشریح میں انھوں نے ہرنظم کا اخلاقی پہلو اُجاگر کیا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے مطالعے اور تفہیم کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

o نور القرآن حکیم ،(پارہ الم، پارہ عم)، مرتبہ: جنید قرنی۔ ناشر: ادارہ تعلیم القرآن، ۱۹-سی، منصورہ،   ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۳۷۶-۰۴۲۔ صفحات (علی الترتیب):۴۰،۴۶۔ہدیہ: درج نہیں۔[تجوید قرآنی کے اصول مع گرامر، یعنی اسم، فعل، حرف اور اسم ضمیر کا اظہار مختلف رنگوں کی مدد سے۔ لفظی اور آسان رواں ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ فہمِ قرآن اور عربی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے مفید رہنمائی۔ اپنی نوعیت کا منفرد کام۔]

o  اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ،مرتبین: ڈاکٹر رخسانہ جبین، افشاں نوید، صائمہ اسما۔ناشر: البدرپبلی کیشنز، ۲۳-راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۷۴۵۷۲۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: ۲۵ روپے۔ [حضرت عائشہ صدیقہؓ کی سیرت اور دینی و علمی خدمات کا اختصار و جامعیت سے تذکرہ اور اُمت کے لیے   مثالی کردار (رول ماڈل)۔ نبی کریم ؐ کی عائلی زندگی اور ایک مثالی بیوی کے اسوہ کے ساتھ ساتھ خاندانی زندگی میں اہلِ ایمان کے رویوں کا جائزہ اور عملی رہنمائی۔ قرآن و حدیث کے علاوہ طب، تاریخ، ادب، خطابت، شاعری اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے سیّدہ عائشہؓ کا منفرد کردار، نیز ان کا قائدانہ کردار بھی زیربحث آیا ہے۔]

o دورِ نبوت میں شادی بیاہ کے رسم و رواج اور پاکستانی معاشرہ، گلریز محمود۔ ناشر: الائیڈ بک سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۵۴۵۱۔ صفحات: ۳۱۵۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[پاکستانی معاشرے کی بنیاد اسلامی تہذیب پر ہے مگر برعظیم میں صدیوں تک غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے، ہمارے ہاں بہت سی غیراسلامی رسومات در آئی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ان رسوم و رواج کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ پس منظر کے طور پر دورِ جاہلیت کے نکاح، عربوں کے ہاں شادی بیاہ کی رسوم ، اسلام کی اصلاحات، نکاح، رخصتی وغیرہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی کتاب خاصی محنت اور کاوش سے مرتب کی گئی ہے ۔ ]

o  حج و عمرہ ،گھر سے گھر تک ،سیّد عبدالماجد۔ ملنے کا پتا:قرآن آسان تحریک، ۵۰-لوئرمال، نزد ایم اے او کالج، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۲۲۶۵-۰۴۲۔صفحات:۱۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔[عازمینِ حج و عمرہ مناسک کے بارے میں پوری طرح باخبر نہیں ہوتے، لہٰذا انھیں عملی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں گھر سے روانگی سے لے کر ادایگی حج و عمرہ اور گھر واپسی تک کے تمام مراحل کے بارے میں قدم بہ قدم رہنمائی دی گئی ہے۔ فضائل حج و عمرہ، آدابِ سفر، اخلاقی اقدار اور عملی مسائل کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے۔یہ ایک مفید گائیڈبک ہے۔]

ڈاکٹر فضل عظیم ، بونیر

’ایم کیو ایم: سیاسی و معاشی دہشت گردی اور بھارتی کردار‘ (اپریل ۲۰۱۶ئ) ، پروفیسر خورشیداحمد کا تجزیہ ہلا دینے والا ہے۔ خصوصاً یہ اقتباس: اس گروہ (ایم کیو ایم) کو قائم کرنے اور لسانی بنیادوں پر کراچی کی تقسیم اور تصادم کے ذریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کا آغاز خود جنرل ضیاء الحق اور اُن کے قابلِ اعتماد افسروں کے ہاتھوں ہوا۔ سینیٹ کی ’سندھ کے حالات پر کمیٹی‘ جس کے صدر سینیٹر احمد میاں سومرو تھے اور جس کا میں خود ممبر تھا، کمیٹی کے سامنے پولیس کے دو اعلیٰ افسروں نے اپنے بیان میں ضیاء الحق اور اُن کے بعد فوجی قیادت کے اس کردار کا اعتراف کیا تھا (ص ۱۹)۔ معلوم نہیں یہ لوگ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟‘‘ڈاکٹر نجیب الحق نے وراثت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کی حقانیت اور قانونِ وراثت کی برتری کو بخوبی اُجاگر کیا ہے۔


حافظ افتخار احمد خاور، لاہور

انصار عباسی کا ’’یہ ’ن‘ لیگ کا لبرل ازم‘‘ (اپریل ۲۰۱۶ئ) اور اس سے پہلے مرزا محمد الیاس کا ’لبرل ازم کیا ہے اور کیا نہیں؟‘‘ (مارچ ۲۰۱۶ئ) سے لبرل ازم کے مفہوم کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ یہ بات تو طے ہے کہ اسلام کو درپیش ’فکری محاذ‘ پر مقابلہ مغرب سے ہے۔ لبرل ازم اور جتنے بھی ’ازم‘ ہیں ان کا مقصد، اسلام کو دورِحاضر میں ایک ناقابلِ عمل نظام کے طور پر پیش کرنا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ’عالمِ کفر‘ سے زیادہ ہمارے اپنے ہی حکمران اسلام کے مدّمقابل کھڑے ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغربی تہذیب کو سمجھیں اور مقابلے کے لیے بھی تیاری کریں۔


ڈاکٹر عبدالرشید ارشد ،  لاہور

مضمون ’نظامِ تعلیم کی نظریاتی تشکیل‘ (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں ژولیدہ فکری پائی جاتی ہے۔ تعلیم کا بنیادی اور    اصل کام ذہن سازی ہے۔ یہی بنیادی ذہن سازی کا کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا۔ اسی کی بنیاد پر انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر ہوتی گئی۔


پروفیسر عبدالحق،  اسلام آباد

’آخرت کا عقلی ثبوت‘ (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں سورئہ ذاریات کی آیت ۴۷ میں بِاَیْدٍ لکھا گیا ہے، حالانکہ قرآن کے ہرنسخے میں بِاَیْیدٍ لکھا جاتا ہے، یعنی اس میں ’ی‘ کا ایک کنگرا زائد ہے۔

  •  دونوں طرح لکھنے سے لفظ کا مفہوم ایک ہی رہتا ہے، لہٰذا ایسا لکھنا غلط نہیں ،البتہ سورئہ ذاریات میں استثنا ہے۔ بلاشبہہ یہ اعجازِقرآن ہے اور حفاظت ِ قرآن کی دلیل بھی۔(مولانا عبدالمالک)

     

عبدالرؤف ،بہاول نگر

ترجمان میں بلندپایہ اور علمی معیار کے مضامین دیکھنے سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جناب سلیم احمد کا مضمون ’نظامِ تعلیم کی نظریاتی تشکیل‘ (اپریل ۲۰۱۶ئ) تعلیمی تناظرمیں بہت اہم ہے۔ اسی طرح سعادت اللہ حسینی کا مضمون ’تحریکی لٹریچر اور درپیش علمی معرکہ‘ (مارچ ۲۰۱۶ئ) اس قابل ہے کہ تمام علمی اور تحقیقی ادارے اس پہلو پر توجہ فرمائیں اور قرار واقعی اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں۔


تحسین کوثر ، گجرات

’کرپشن کے خلاف جہاد، وقت کا تقاضا‘ (مارچ ۲۰۱۶ئ) میں پروفیسر خورشیداحمد نے نہایت عمدگی سے ماضی و حال کے آئینے میں کرپشن کے خلاف جہاد کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ مملکت ِخداداد ہر آن تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ لہٰذا اس بگاڑ کو روکنے کے لیے ہرسطح پر جدوجہد ناگزیر ہے۔


محمد سعید یوسف ،  میرپور خاص

اسلامی معاشرت کے حوالے سے ’راستے اور راہی کے حقوق‘ (مارچ ۲۰۱۶ئ) ایک عام فہم مضمون ہے اور درپیش مسائل کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔


عبداللطیف اثری ،مئوناتھ بھجن،بھارت

جناب احمد ابوسعید نے مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کو ’ترجمان القرآن الکریم‘ کے نام سے مرتب کیا ہے، جس کی مناسبت سے پہلے تو دسمبر ۲۰۱۵ء میں اور پھر (ان کی کتب پر مشتمل اشتہارکی اشاعت) مارچ ۲۰۱۶ء پر جناب رفیع الدین ہاشمی نے سخت گرفت فرمائی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ احمدابوسعید نے دیباچے میں یہ بات بیان کردی ہے کہ وہ لفظ ’خدا‘ کی جگہ ’اللہ‘ کا لفظ لکھ رہے ہیں (اور اسی طرح ’خداترسی‘ کے بجاے ’تقویٰ‘)۔    اس بات سے کوئی اختلاف تو کرسکتا ہے، مگر ان کی نیت کو نشانہ بنانے کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔

’’ہم نے آج تراویح میں کیا پڑھا؟‘‘ اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآنِ کریم کے حصے کا خلاصہ مع بنیادی مسائل و دیگر معلومات اور ’’قرآنی و مسنون دعائیں‘‘ عام ڈاک کے لیے کم از کم ۱۵ روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے ۶۰ روپے کے ڈاک ٹکٹ   بنام ڈاکٹرممتاز عمر، T-473 ، کورنگی نمبر۲، کراچی ۷۴۹۰۰ کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔

بااثر عناصر: کس راستے پر؟

سب سے پہلے جو بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں اسلامی نظام کے لیے خواہش کی کوئی کمی نہیں ہے، اصل کمی آمادگی کی ہے ، اور اس سے بھی زیادہ کمی استعداد کی۔ اگر آپ صدا لگائیں کہ کون یہاں اسلامی نظام چاہتا ہے تو ایک عنصر قلیل کو چھوڑ کر ساری قوم پکار اُٹھے گی کہ ہم سب اس کے طالب ہیں۔ لیکن اگر آپ پوچھیں کہ کون اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہے تو ساری بھیڑ چھٹ جائے گی اور بمشکل ۱۰۰ میں سے ۵، ۱۰ آدمی آگے بڑھ کر اس کی حامی بھریں گے۔ پھر اُن آمادگی ظاہر کرنے والوں کا بھی اگر آپ استعداد کے لحاظ سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بیش تر لوگ ان کم سے کم بنیادی اوصاف سے بھی خالی ہیں جن کا ہونا اس کام کے لیے ناگزیر ہے۔

دوسری بات جس پر نگاہ رکھے بغیر[جو تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں] اپنی ذمہ داری کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے، یہ ہے کہ ہماری قوم کے اندر جتنے بااثر عناصر پائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر بگاڑ کے لیے کام کر رہے ہیں، اور جو بگاڑنے میں لگے ہوئے نہیں ہیں وہ سنوارنے کی فکر سے بھی فارغ ہیں۔ اصلاح و تعمیر کے لیے کوشش کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی قوت کا تناسب بگاڑ کی قوتوں کے مقابلے میں بقدرِ نمک بھی نہیں ہے۔ اس میں جس کسی کو شک ہو  وہ ذرا سارے ملک پر ایک نگاہ ڈال کر خود دیکھ لے کہ یہاں سیاسی لیڈر، حکومت کے کارفرما اور کارکن، زمین دار، کارخانہ دار، تجّار، علما، اخبار نویس اور اجتماعی زندگی پر اثر ڈالنے والے دوسرے لوگ زیادہ تر بنانے میں لگے ہوئے ہیں یا بگاڑنے میں اور ہمارے متوسط تعلیم یافتہ طبقے کی عظیم اکثریت کوئی تعمیری فکر و سعی بھی رکھتی ہے یا بس اپنی ذات میں مگن ہے۔(’اشارات ‘ ، سیّد مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۳، رمضان ۱۳۷۵ھ، مئی۱۹۵۶ئ، ص ۲-۳)

_______________