اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں ۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔مسلمان کے مسلمان پر حقوق کے ضمن میں چندگزارشات پیش ہیں:
اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا دینی بھائی قرار دیا ہے۔جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کے جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کامحافظ اور ضامن ہو تا ہے ، اس کی ہرضرورت وحاجت کو ملحوظ رکھتا ہے، بالکل اسی طرح دینی بھائی اس کے لیے نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہے۔ جس طرح سے خونی رشتے مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہوتا ہے اسے نہ صرف قائم ودائم بلکہ مزید سے مزید تر مستحکم بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ ( الحجرات ۴۹:۱۰ ) ’’بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہے‘‘۔
اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دینے کے بعد یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)، یعنی آپس میں دوبھائیوں میں ملاپ کرا دیا کروــ۔چنانچہ اپنے بھائی کی اصلاح حال کی فکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپس میں ہمدرد و غم گسار اور شفیق و حلیم بن کر رہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فر مائی:
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کر تا ہے نہ اس کو کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر تا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے کو ئی مصیبت دُور کر ے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دُور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کی پردہ پو شی کر ے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر د ہ داری فرمائے گا۔(بخاری)
ایک مسلمان کسی بھی تکلیف ،مصیبت اور پر یشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کے مسلمان بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو مصائب اور پر یشانیوں سے آزادکر ے۔ اگر اس کو کوئی حاجت پیش ہو تو اس کی حاجت روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کا انتظام کرے اوراس کے دکھ درد کو دُور کر نے کا ذریعہ بنے۔اس کو کسی ظلم و جبر کے شکار ہو نے سے بچائے۔ اس کو نصیحت کر نا اپنا فرضِ منصبی سمجھے۔اس کو نیکی کی طر ف را غب کر نے اور برائی سے نفرت پیدا کرنے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔ علاوہ ازیں اس کے بال بچوں کی تعلیم و تر بیت کا بھی خیال رکھے۔
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے آئینے کی طرح ہو تا ہے۔ آئینہ انسان کو اس کے جسم پر اور بالخصوص اس کے چہرے پر جو داغ دھبے ہو تے ہیں وہ ان کو من و عن دکھا تا ہے اور اس میں ذرہ بر ابر بھی کمی بیشی نہیں کر تا۔ آئینہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو اس کی موجودہ حالت کو پوری دیانت داری سے دکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے ایک مو من کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ فر مایا:’’ایک مومن دوسرے مو من کا آئینہ ہے اور ایک مو من دوسرے مو من کا بھائی ہے۔ اس کے ضر ر کو اس سے دفع کر تا ہے اور اس کی عدم موجودگی اس کی نگہبانی کر تا ہے۔ (سنن ابوداؤد )
آئینہ کسی بھی شخص کو غلط فہمی میں نہیں رکھتا ہے اور نہ کسی کو دھو کا ہی دیتا ہے بلکہ وہ اس کو اپنی اصل ہیئت و شکل سے بخو بی آگاہ کر تا ہے تب جا کے وہ اپنی صورت اور حلیے کو ٹھیک کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی خامیوں اور ان کے عیبوں کی بھر پور اصلاح کر نے کی کو شش کر ے۔وہ نہ صرف اپنے بھائی کے ظاہری خدوخال کو صحیح کر ے بلکہ باطنی امراض کوبھی دُور کر نے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔اس کی عادات و اطوار کو دُرست کر نے میں پہل کرے۔ اس کو تحفظ فر اہم کر نے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے کسی بھی غیر قانونی کام میں مبتلا نہ ہو نے دے اور نہ اس کو بغیر کسی جرم ہی کے قید میں دیکھنا پسند کر ے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگرکسی وقت قید میں ہو تو اس کو قید سے چھڑانے کی بھر پور کو شش کرے۔مسلمان آپس میں جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں۔اس کی مثال اللہ کے رسولؐ نے بہت ہی جامع انداز میں یوں دی:’’آپس کی محبت اور شفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی سی ہے کہ اگر کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب اور بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)
اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
خیر اُمت اور خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے ۔اس لیے اللہ کے رسول ؐ نے فر مایا: الدین نصیحۃ ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول ؐ نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحا بی نے عر ض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا : اللہ تعالیٰ ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی )
’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں ۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو ۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کر نا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ ،قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھو ٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو ۔حضوؐر نے فر مایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری ،کتا ب الایمان )
ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہو تا ہے۔ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اورتر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔
ایک مسلمان کے او پر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو علم کی روشنی سے منور کر ے۔ اگر وہ خو د اسے علم نہ سکھا سکے تو وہ اس کام کے لیے کسی دوسرے فر د کو تعینات کر ے۔ علم و حکمت ایک ایسی دولت ہے جو دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علم و حکمت ہی تمام بھلائیوں کی کنجی ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط( البقرہ ۲:۲۶۹) جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑ ی دولت عطا کی گئی۔
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo ( طٰہٰ۲۰:۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔
تمھارے پاس لو گ علم حا صل کر نے کی غرض سے آئیں گے۔ جب تم انھیں دیکھو تو انھیں علم سکھا ئو۔ایک مسلمان کی یہ بہت بڑ ی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پا س علم و حکمت کی بات ہو تو وہ اسے دوسرے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، کتا ب السنہ)
علم و حکمت کی بات کو پہنچانے کے سلسلے میں ایک مسلمان کو ہر گز بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس پر سخت و عید سناتے ہو ئے فر مایا:’’ جس شخص سے کو ئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو چھپائے تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دی جائے گی‘‘ (ابن ماجہ ،کتاب السنہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کو علم کی بات سکھا نے کوا فضل صد قہ قر ار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :’’ افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم حاصل کرے اور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو سکھا دے‘‘۔( ابن ماجہ، کتاب السنہ )
ایک مسلمان کو علم چھپانے والو ں ( کتمان علم ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرنا چاہیے ۔ جو مسلمان دینی تعلیم وتربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے کمزور ہو تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی نہ صرف فکر بلکہ کوشش بھی کریں۔
مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جڑ ے رہنا چاہیے۔ ان کے آپس میں محبت و مودت، ملنسار ی اور گہرے روابط ہو نے چاہییں ۔انھیں ان مضبوط اینٹوں کی طر ح رہنا چاہیے جو دیوار میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر دیوار کی مضبوطی میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ کے رسول ؐ نے اس طرح دی ہے:’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طر ح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے‘‘ (مسلم)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’مو من مومن کے لیے دیوار کی طر ح ہو تا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبو ط بنا تا ہے ‘‘۔(بخاری)
ایک مسلمان کا ایمان تب ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے سراپا خیر اور ہمدرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کو ئی آدمی اس وقت مومن نہیں ہو گا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہے‘‘۔( متفق علیہ )
مسلمان پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی چاہے اس کے سامنے کی جائے یا اس کی پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔اللہ کے رسولؐ نے اس ضمن میں واشگاف انداز میں تنبیہ فرمائی: ’’مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون،مال اور اس کی آبرو پر حملہ کرنا حرام ہے‘‘۔(مسلم)
تمھاری جانیں ، تمھارے مال، تمھارے عزت وآبرو، تمھارے درمیان اسی طرح محترم اور مُقدس ہیں جس طرح آ ج کے دن کی حرمت تمھارے اس مہینے اور اس شہر میں محترم اور مقدس ہے۔(بخاری، کتاب الحج)
ظلم سے بچو ! اس واسطے کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ظلم کا مرتکب شخص ہر حال میں نقصان اور خسارے میں رہے گا اور ظالم کو اللہ تعالی قیامت کے دن رُسوا کن عذاب میں مبتلا کرے گا ۔(بخاری،حدیث رقم:۲۴۴۷)
وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵:۱۹) اورجو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
ظلم کے علاوہ ایک مسلمان پر یہ بھی حرام کیا گیا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے اور دھمکائے یا اس کو کسی بھی قسم کے ہتھیا ر سے خوف زدہ کرے۔ اور جو کوئی ایسا کرے وہ گویا کہ مسلمان ہی نہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پر زور الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہم پر اسلحہ یا ہتھیار ظاہر کیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میںفرمائی:’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طر ف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے ا ور وہ قتلِ ناحق کے نتیجے میں جہنم کے گڑھے میں جاگرے‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے ہتھیار ظاہر کرنے والے شخص کو لعنت کا مستحق ٹھیرایا۔ ’’مسلمان پر ہتھیار سے اشارہ کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (ترمذی )
اسلام تو اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے یا اس پر ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا کجاکہ وہ اس کے خلاف ہتھیار یا اسلحہ اٹھائے۔ جو شخص اپنی شرارتوں سے اپنے مسلمان بھائی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی کمینگی کی وجہ سے اس کے سُکھ اور چین پر شب خون مارتا ہو، تو وہ مومن نہیں ہے ۔لہٰذا، ایک مسلمان کو اس بات پر چوکنا رہنا چاہیے کہ اس سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خلیفہ کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مکر م بھی بنایا ہے ۔اس لیے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت و احترام کر نے میں کسی بھی کو تاہی سے گریز کر ے۔ باہمی عزت و احترام خو ش گوار ماحول کی ضمانت ہے۔ اس کے بر عکس ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا یا جاننا خوش گوار ماحو ل کو بگاڑ نے کا ایک اہم سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر استہزا کرنے سے منع فر مایا کیوں کہ باہمی تعلقات کے بگڑنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔(الحجرات۴۹:۱۱ )
ایک شخص دوسرے شخص پر استہزا اور مذاق اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اعلیٰ وبر تر اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہو اور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ایک دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں قرآن میں الگ سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ حضوؐر نے اس ضمن میں ارشاد فر مایا :’’ اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسی عورت کا استہزا نہ کر ے‘‘۔(بخاری )
کسی کو حقیر جاننا، اپنے سے کم تر سمجھنا اور استہزا کر نا ایک گھناؤنا فعل ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں واضح انداز میں موجود ہے ۔ حدیث کے مطابق حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا جنت میں جانے کی رکاوٹ بن سکتا ہے (مسلم،کتاب الایمان )۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے بُرا ہو نے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے‘‘(مسلم)۔لہٰذا اسلامی سماج کی تعمیر اور خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے میں ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ کر عزت واحترام کے ساتھ اس سے تعلقات قائم کر ے۔
اسی طر ح سے جب ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنی ہو یا کو ئی معاملہ در پیش ہو تو اس کے ساتھ نر می و شفقت سے پیش آئے ۔جو شخص نر می و شفقت کے دامن سے خالی ہو تو اللہ کے رسو ل ؐ کی زبان میں وہ ہر خیر سے محروم ہے ۔چنانچہ فر مایا :’’جو شخص نر می کے صفت سے محر وم ہو وہ ہر خیر سے محر و م ہے‘‘۔(مسلم )
مذکورہ حقوق کے علاوہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے عمو می حقوق ہیں۔ ان چھے حقوق کا تذ کرہ حضورِ اکرم ؐ نے اس طرح فرمایا:
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حق ہیں۔ پو چھا گیا: یارسولؐ اللہ! وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: جب ملاقات ہو تو اسے سلام کر ے ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب نصیحت کا طالب ہو تو اس کونصیحت کر ے۔جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللّٰہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کے ساتھ جواب دے۔جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، اور جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔(بخاری، مسلم، ابوداؤد)
ان گزارشات کی روشنی میں اگر ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو نہ صرف اخوت و محبت کو فروغ ملے گا بلکہ باہمی اصلاح اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات بھی فروغ پائیں گے، نیز ظلم و زیادتی کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ آج اسلامی معاشرت کے اس نمونے کو عملاً پیش کرنے کی ضرورت ہے۔