اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ظالموں کی گرفت اور پکڑ کے لیے اس کا اپنا نظام ہے۔ ڈھیل دینے کی مصلحتیں بھی اسی کی تدبیر کا حصہ ہیں، خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بھی اس کا اپنا طریقہ ہے اور اربابِ اقتدار کو اچانک گرفت میں لینا بھی اسی کا حصہ ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ انسانی زندگی خیروشر کی کش مکش سے عبارت ہے۔ کبھی کسی کے دن بڑے اور کبھی کسی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں___ لیکن جلد یا بدیر وہ وقت بھی آتا ہے جب اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال کی سی کیفیت برپا ہوجاتی ہے، بڑی بڑی مضبوط کرسیاں ہلنے لگتی ہیں، ظلم و استحصال کے منبع کی حیثیت سے جو قلعے بڑے اہتمام سے تعمیر کیے گئے ہوتے ہیں اور جن کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بڑے بڑوں کو زعم ہوتا ہے، ان میں شگاف پڑنے لگتے ہیں اور شکست و ریخت اور بگاڑ اور بنائو کے نئے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ اللہ کی سنت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے: وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (انفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ زمانے کے نشیب و فراز کا یہ الٰہی قانون ہے اور بالآخر اس کے ذریعے دُور رس تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں، بڑے بڑے تخت اُلٹ جاتے ہیں، برج گر جاتے ہیں، جو بالا ہوتے ہیں وہ زیر ہوجاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ طاقت وروں پر غالب آجاتے ہیں: وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
آج پاکستان میں ملکی سطح پر نگاہ ڈالیں یا عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو ہرطرف تبدیلی کی لہریں موج زن نظر آرہی ہیں۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پرانا نظام دم توڑ رہا ہے اور زمانہ نئے نظام کو دعوت دے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا قانون ہے کہ بہتر تبدیلی اس وقت آتی ہے، جب افراد اور اقوام ایسے تاریخی لمحات کے موقعے پر خاموش تماشائی نہیں بنتے، بلکہ حق و انصاف کے حصول اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے صحیح خطوط پر مؤثر اور قرار واقعی جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، اور بدی کو نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان، عالمِ اسلام اور پوری دنیا ممکنہ تبدیلی کے ایک ایسے ہی تاریخی لمحے کے موڑ پر کھڑی ہے۔ کیا ہم تاریخ کی پکار پر لبیک کہنے کو تیار ہیں؟
۳؍اپریل ۲۰۱۶ء کو ایک ایسی خبر نے پوری دنیا میں ایک ہیجان برپا کر دیا، جس کے بارے میں کسی کو کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا اور جو قدرت کا ناگہانی تازیانہ بن کر نازل ہوئی۔ جرمنی کے ایک اخبار نے ’پاناما لیکس‘ (Panama Leaks) کے نام سے عالمی سطح پر کالے دھن کے کاروبار، اس کی وسعت اور ستم کاریوں کے بارے میں ایک کروڑ سے زیادہ دستاویزات کا راز فاش کیا۔ اس خبر نے دنیا کے گوشے گوشے میں، مالیاتی اور سیاسی میدانوں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔۲لاکھ۲۴ہزار نمایشی کمپنیاں ہیں اور کم از کم ۳۲ ٹریلین ڈالر (۳۲کھرب ڈالر) کا سرمایہ ۳۰ ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں ہے جو دنیا کی کُل سالانہ دولت کا ایک تہائی ہے۔جو نمایشی کمپنیاں ہر طرح کے ٹیکس اور ریاستی نگرانی کے نظام سے بالا ہوکر اپنا کھیل کھیل رہی ہیں، انھیں پاناما میں قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ حیرت انگیز طور پر ۱۴۶ عالمی لیڈر اس کالے کھیل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث ہیں، اور مزید سیکڑوں چہروں سے پردہ اُٹھنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
’آف شورکمپنی‘ کا لفظ جو ایک محدود حلقے ہی میں پہچانا اور بولا جاتا تھا، اب زبانِ زدعام و خاص ہے۔ ٹیکس سے بچائو کی پناہ گاہیں (Tax Havens) جو سرمایہ داروں، بڑی بڑی کارپوریشنوں اور بنکوں کی کمین گاہیں بن گئی تھیں، اب وہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہیں۔ بڑے بڑے سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں ، حتیٰ کہ ججوں اور خیراتی اداروں کو بھی کالے دھن کے تاجروں اور پجاریوں کی صف میں دیکھا جاسکتاہے۔ اس انکشافی آندھی سے ابھی تو ڈیڑھ سو کے قریب عالمی شخصیات کے چہروں سے پردہ اُٹھا ہے۔ یہ صرف پہلی قسط ہے، جسے سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے پہاڑ کا محض چھوٹا سا حصہ کہا جا رہا ہے۔ بس بارش کے چند پہلے قطرے۔ موسلادھار بارش کی پیش گوئیاں تو ۹مئی سے بعد کے زمانے سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آئس لینڈ کے وزیراعظم، یوکرین کے صدر، اسپین کے وزیر صنعت و حرفت، FIFA (’فیفا‘ فٹ بال کی بین الاقوامی اتھارٹی) کے سربراہ اور نصف درجن اربابِ اقتدار مستعفی ہوچکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی اخلاقی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور اپنے سارے حسابات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کے باوجود، ان کا قدکاٹھ کم ہوا ہے اور وہ دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ وہ مالیات کی نگرانی کے نظام اور خصوصیت سے کارپوریشنوں اور آف شور کمپنیوں کے کردار میں بنیادی تبدیلیوں کے باب میں فوری اقدام کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ان کے علاوہ ڈیوڈکیمرون کے وزیرخزانہ، پارلیمنٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن اور متعدد اہم شخصیات نے اپنی آمدنی، ٹیکس ادایگی کی تفصیلات اور ذاتی مالی صورتِ حال، تحریری شکل میں، رضاکارانہ طور پر پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کردی ہے۔ اس طرح انھوں نے بجاطور پر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جواب دہی سے بالاتر نہیں سمجھ رہے۔ یہاں پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جمہوریت کی جو بھی خوبیاں اور خامیاں ہوں، ان میں سب سے اہم چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ سرآئیورجنگز کی کتا ب Cabinet Government (کیمبرج یونی ورسٹی پریس،۱۹۵۹ئ) علمِ سیاسیات میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ: جمہوریت میں اصل چیز قیادت کی اخلاقی ساکھ ہے۔اگر اس پر حرف آجائے تو پھر حکمرانی کا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمارے دستور میں بھی ایک دفعہ سیاسی قیادت کے صادق اور امین ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن افسوس کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنے دستور کا یہ حصہ یاد رکھنے کی فرصت ہی نہیں!
یورپ کے پانچ ممالک اور دنیا کے ۳۰ سے زیادہ ممالک کے نظامِ احتساب و اصلاح میں تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ آف شور کمپنیوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور کالے دھن کو قابو میں کرنے کی بات اب سرفہرست آگئی ہے۔ ایک طرف احتساب کا عمل ہے، جو حرکت میں آرہا ہے، تو دوسری طرف کالے دھن کا پورا تصور، ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز ( Tax Haven) کا وجود، اس سلسلے کے قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر سوچ بچار اور مالی معاملات میں شفافیت (transparency) کی ضرورت کو وقت کے اہم ترین مسئلے کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ ہزاروں افراد اور اداروں سے جواب طلبی ہورہی ہے۔ دنیا کے پورے مالی دروبست اور ٹیکس کے نظام پر بنیادی نظرثانی کی ضرورت کو اُجاگر کیا جارہا ہے۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں۔ ایک شر سے بہت سے خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، حتیٰ کہ امریکا جس کی نصف درجن ریاستیں ٹیکس سے چھوٹ کے مراکز کا درجہ رکھتی ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے ان ۳۰ممالک میں، جو ٹیکس چوری کی پناہ گاہ ہیں اور تیسرے نمبر پر ہے (یعنی پاناما سے بھی اُوپر ہے) اس کے صدر بارک اوباما کو کہنا پڑا ہے کہ:
اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ عالمی سطح پر ٹیکس کی ادایگی سے بچنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسے اس لیے قانونی نہیں بنانا چاہیے کہ محض ٹیکسوں کی ادایگی سے بچنے کے لیے رقوم کی منتقلی (transactions) میں مصروف ہوا جائے، جب کہ اس پر زور دیا جانا چاہیے کہ اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہرشخص ٹیکس کے سلسلے میں اپنا مناسب حصہ ادا کرے۔ (دی گارڈین، ۵؍اپریل ۲۰۱۶ئ)
امریکی اٹارنی براے مین ہیٹن، مسٹر پریٹ بھرارے نے امریکا کی ان تمام کمپنیوں، جن کا نام موجودہ فہرست میں آیا ہے اور جن کی تعداد ۲۰۰ ہے ، ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان ۲۰۰کمپنیوں کے بارے میں باقاعدہ تفتیش اور تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ ’’امریکا کی کوئی کمپنی اس فہرست میں شامل نہیں‘‘، یہ درست بات نہیں ہے)۔ (دیکھیے: دی انڈی پنڈنٹ، لندن،۲۰؍اپریل ۲۰۱۶ئ)
بلاشبہہ پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت، کاروباری شخصیات، حتیٰ کہ ایک سابق اور ایک موجودہ جج تک آف شور کمپنیوں کے اس انکشاف کی زد میں ہیں اور یہ ایک بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ پورے مسئلے کو اس کے عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور وہ راستہ اختیار کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک طرف کالے دھن کا کاروبار کرنے والے افراد اور اداروں پر ریاست کی اور عالمی احتسابی نظام کی بھرپور گرفت ہوسکے، تو دوسری طرف ظلم اور استحصال کے اس نظام کا ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر قلع قمع کیا جاسکے، جس کی وجہ سے کرپشن، معاشی دہشت گردی اور لوٹ مار کی لعنت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفادپرستی، نفع اندوزی، دولت کی شرم ناک عدم مساوات (obscene inequalities) اور انسانوں کے بڑے طبقے کی محرومیاں زندگی کی تلخ حقیقت بن گئی ہیں۔
’کالادھن‘ کرپشن کی ایک ملعون شکل ہے اور اس سے مراد خصوصاً وہ دولت ہے، جو جائز طریقے سے حاصل نہ کی گئی ہو۔ رشوت، کمیشن اور ایسی ہی دوسری قبیح حرکتوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کے ساتھ وہ دولت بھی، جو چاہے جائز طریقے سے کمائی گئی ہو لیکن اگر اس کو ریاست کے ٹیکس کے نیٹ ورک سے باہر رکھا گیا ہو، تو وہ ’کالے دھن‘ میں شمار ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر ایک ہی کمپنی اپنی ذیلی کمپنیوں کی مدد سے اشیاے تجارت کی قیمتوں میں کمی اور اضافے کے ذریعے اخراجات کو مصنوعی طور پر بڑھانے اور دکھائے جانے والے منافعے کو کم کرنے کے لیے ہاتھ کی صفائی کا مظاہرہ کرے، تو یہ بھی کالے دھن ہی کی ایک صورت ہے۔
اگر یہ کھیل قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کر کے انجام دیا جائے، تو اسے ’فرارِمحاصل‘ یا فرارِ ٹیکس (Tax Evasion) کہتے ہیں اور اگر اس حوالے سے قانون کے کسی سقم سے راستہ نکالا جائے تو اسے ’اجتنابِ ٹیکس‘ (Tax Avoidance)کہتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے دونوں ہی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نیز آمدنی اور اس کے اصل ذرائع کو مخفی (secret) رکھا جاتا ہے، اور حسابات اور مالی معاملات کو اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ اصل نفع راز بھی رہے اور ٹیکس کی مشینری کی گرفت میں بھی نہ آئے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کھلے کھلے دھوکے کا ایک ’خوش نما‘ نام ہے اور ہاتھ کی صفائی کی جادوگری ہے۔ قانون کو ہوشیاری سے توڑا جائے یا قانون کو بھونڈے طریقے سے توڑا جائے، اخلاقی طور پر دونوں قبیح فعل ہیں اور اپنی روح کے اعتبار سے جرائم ہیں۔ اس لیے قانون کے باب میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پاس داری لفظی اور معنوی اعتبار سے (in letter and spirit) کی جانی چاہیے۔
دین اسلام پر مبنی قوانین کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اَخلاق اور ایک حتمی اور بالاتر اتھارٹی کے حکم پر مبنی ہونے کی وجہ سے ایمان کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت محض قانون کی خانہ پُری کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ حق و انصاف کے قیام اور اللہ کی اطاعت، اور اس کی رضا کے حصول کے جذبے سے ہوتی ہے۔ یہی وہ صورت ہے جس میں قانون اپنی تمام برکات اور اپنے تمام ثمرات سے فرد اور معاشرے کو فیض یاب کرسکتا ہے۔ اللہ اور خلق، دونوں کے سامنے بیک وقت جواب دہی اور اس جذبے کے ساتھ قانون، اس کے الفاظ اور روح کے ساتھ پاس داری میں معاشرے کی مضبوطی اور خوش حالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اپنی وسعت اور ہمہ گیریت سے الٰہی اصول، اور قانون فراہم کرتی ہے۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جو اسلامی قانون اور شریعت کو انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا حقیقی ضامن بناتی ہیں۔ جب ’مذہبی خاندان‘ ہونے کے دعوے دار ’فرار‘ (evasion) اور ’اجتناب‘ (avoidance) کی بات کرتے ہوں تو اس پر تعجب نہ ہو تو اور کیا ہو۔
یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، جب جیل میں مَیں حضرت مولانا معین الدین خٹک مرحوم [مارچ ۱۹۲۰ئ-۲۷جولائی ۱۹۸۲ئ] سے اصولِ فقہ پڑھ رہا تھا، تو باب الحیل کی تدریس کے دوران زکوٰۃ کے بارے میں ایک بات انھوں نے ایسی کہی، جو ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہوگئی۔ زکوٰۃ اس مال پر واجب ہوتی ہے، جو ایک سال تک ایک فرد کی ملکیت میں رہا ہو۔ مولانا خٹک مرحوم نے فرمایا کہ: ایسے لوگ بھی ہیں جو ۱۰ماہ کے بعد اپنی دولت، اپنی بیوی یا کسی رشتے دار کو ہبہ کردیتے ہیں اور اگلے ۱۰ماہ کے بعد وہ رشتہ دار اوّلین مالک کو ہبہ کر دیتا ہے اور اس طرح دونوں زکوٰۃ سے بچ جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ اجتناب کی حیلہ بازی (avoidance) جس کا کریڈٹ لیا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت وہی ہے جس کی طرف مولانا معین الدین خٹک نے متوجہ فرمایا، یعنی:
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرہ ۲:۹-۱۰) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکابازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے ،جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔
ٹیکس بچانے کی کمین گاہوں اور آف شور کمپنیوں کا پورا نظام: ریاست، قانون کے نظام، معاشرے، انسانیت بلکہ خو د اپنے آپ کو دھوکا دینے کی ایک منظم ( بظاہر قانون کی چھتری کے تحت) کوشش سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، جو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی چال بازی کے سوا کچھ نہیں۔ گذشتہ ۱۰۰ سال کے تجربے کے بعد اب اس کے نظامِ ظلم و استحصال ہونے کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ عوامی ردعمل کے نتیجے میں اسے ختم کیا جائے گا یا پھر کم از کم اس پہلے مرحلے میں اس کی حشرسامانی کو بڑی حد تک محدود کیا جائے گا۔
۲۰ویں صدی کے آغاز میں انکم ٹیکس اور کاروباری ٹیکس کا آغاز ہوا، اور اس کے بعد ہی سے بنکاری نظام میں رازداری کے نام پر ٹیکس چوری کی کمین گاہوں کا قیام، نمایشی اور ذیلی کمپنیوں کا وجود، اور ان کے ذریعے نفعے کو لاگت کا لبادہ اُوڑھا کر کالے دھن کے کاروبار کو آسمان پر پہنچا دیا گیا۔ ابتدا میں پٹرول اور گیس کی کمپنیوں اور ٹرانسپورٹ اور بحری جہازرانی کے شعبے، اس میدان میں بہت آگے تھے، پھر پوری ہی کاروباری دنیا نے اس نظام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ۔ اب یہ اندازہ ہے کہ دنیا کی تجارت کا تقریباً ۴۰ فی صد اس کالے دھندے کے سہارے انجام پذیر ہو رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: Panama and The Criminalization of the Global Finance System از Sharmini Peries and Michael Hudson ، کاؤنٹرپنچ، ۱۸؍اپریل ۲۰۱۶ئ)۔ اس طرح ۳۲ ٹریلین ڈالر سے زیادہ رقم صرف ان ۳۰ ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں ہے۔ جہاں تک ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے، ان کی دولت کا بھی بڑا حصہ انھی پناہ گاہوں کی زینت ہے۔
ورلڈبنک کے ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۳ء تک ۸ئ۷ ٹریلین ڈالر غریب ممالک سے ان مالیاتی کمین گاہوں میں منتقل ہوئے ہیں، جو تین یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور اٹلی کی مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ ہے۔ اس وقت ان مراکز میں سالانہ ایک ٹریلین ڈالر منتقل ہورہے ہیں اور اس میں سالانہ اضافے کا اندازہ ۵ئ۶ ہے، جو عالمی سطح پر معاشی ترقی کی رفتار میں اضافے سے دو گنا ہے۔ اس طرح منتقل ہونے والے سرمایے کی وجہ سے صرف ٹیکس کی مد میں جو نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہو رہا ہے، وہ سالانہ ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر صرف یہ رقم ترقی پذیر ممالک کے پاس ہو اور کُل سرمایہ انھی میں دوبارہ گردش میں آجائے ہو تو ۱۰سال میں ان تمام ممالک سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور صحت و صفائی اور مناسب سماجی زندگی میں بھی نمایاں ترقی ہوسکتی ہے۔ ایک طرف ان ممالک کی دولت امیر ملکوں کی طرف منتقل ہورہی ہے اور دوسری طرف غریب ممالک، امیرممالک کے قرضے کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں اور مالیاتی اور معاشی غلامی کے نئے شکنجوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔بدقسمتی سے غلامی کے اس نئے دور کو مسلط کرنے میں ان کے اپنے سیاسی قائدین اور کاروباری طبقوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
’پاناما لیکس‘ کے نتیجے میں جتنے ممالک کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، اور کمیت اور کیفیت ہر دو کے سلسلے میں جو وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے اس کے ایک طرف یورپ اور امریکا کی قیادتیں ہیں، جن کے ساتھ مشرقی ممالک کی قیادت کو بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، تو دوسری طرف عوامی سطح پر اس نے عام لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ استعجاب اور غصے کے بعد اب جو ردعمل ظہور پذیر ہوا ہے، وہ غلامی اور استحصال کے اس نظام کے خلاف بغاوت اور اس سے نجات کی جدوجہد کا ہے۔ اگر اس پہلوسے جان دار ردعمل رُونما ہوسکے تو اس شر سے بہت خیر کے رُونما ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت کیا احساسات کروٹ لے رہے ہیں، اس کا تھوڑا سا اندازہ مندرجہ ذیل آرا سے کیا جاسکتا ہے، جو اس وقت کے عوامی ردعمل اور ہوا کے رُخ کی نشان دہی کر رہے ہیں۔
سامنے آنے والی ان دستاویزات پر جنھیں ’پاناما دستاویزات‘ کا نام دیا گیا ہے، پہلا ردعمل حیرت زدگی کا ہے، اس دستاویزی ذخیرے کے پھیلائو اور حجم پر اور اس گم نام ذریعے کی غیرمعمولی ہنرمندی پر، جس نے ایک کروڑ ۱۵لاکھ دستاویزات یعنی ۶ئ۲ ٹیرابائٹس کے غیرمعمولی انکشافات پریس کے سامنے لائے، کس طرح آف شور بنک اکائونٹ اور ٹیکس پناہ گاہیں دنیا کے امیر اور طاقت ور افراد اپنی دولت چھپانے یا ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا ردعمل نفرت اور کراہت کا ہے۔ پوری دنیا میں ۱۴ہزار سے زیادہ گاہک اور ۲لاکھ ۱۴ہزار ۵سو سے زیادہ آف شور عناصر نے پاناما کی Mossack Fonseca کمپنی،کو جس کی خفیہ دستاویزات ظاہر ہوئی تھیں، شریکِ جرم کیا۔ یہ معصومیت سے اصرار کرتی ہے کہ اس نے کسی قانون یا اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔
لیکن یہ تمام سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں: کس طرح یہ سب سیاست دان ، آمر، مجرم، ارب پتی اور مشہور شخصیات بہت زیادہ دولت جمع کرتے ہیں اور پھر کس طرح ان شیل کمپنیوں کے پیچیدہ جال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، تاکہ اپنی دولت کو چھپائیں؟
پھر سب سے بڑا اور مرکزی سوال یہ بھی ہے کہ کیا انکشافات کے بعد کوئی چیز تبدیل بھی ہوگی؟ بہت سی رسمی تردیدیں بھی کی گئی ہیں اور سرکاری تحقیقات کے وعدے بھی کیے گئے ہیں، لیکن قانون اور عوام کے سامنے شرمندگی کو اس عالمی اعلیٰ طبقے پر کس حد تک برتری حاصل ہوگی؟ وہ عوام جو حکومتی سطح پر مالیات میں کرپشن کے باربار انکشافات سے پہلے ہی گھبرائے ہوئے ہیں، وہ حقیقت جاننے کا مطالبہ کریں گے۔
ان دستاویزات میں ایک ایسی عالمی صنعت کو تاریخی طور پر ترتیب وار جمع کیا گیا ہے، جس نے ایک بین الاقوامی اشرافیہ کو کرپٹ اور غیرقانونی ذرائع سے مالامال کیا ہے، تاکہ اپنی دولت اور اس کاروبار کو ٹیکسوں، مقدمات اور عوامی غیظ و غضب سے چھپائیں۔ یہ دستاویزات اس مشکوک دولت کا انکشاف کرتی ہیں جسے سرکاری ملازمین نے چھپایا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاناما دستاویزات ایک ایسی صنعت کا انکشاف کرتی ہیں جو بین الاقوامی مالیات کی دراڑوں اور خفیہ راستوں میں پھلتی پھولتی ہے۔ اس نظام کا ایک نتیجہ ٹیکس آمدنی کا وہ حصہ ہے جو وصول نہ ہوسکا۔ اس سے زیادہ خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ یہ جمہوری حکومت اور علاقائی استحکام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے کیوںکہ بدعنوان سیاست دانوں کے پاس، ایک ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں وہ چوری کیے ہوئے اثاثوں کو عوام کی نظروں سے بچاکر خفیہ جگہ پر رکھتے ہیں۔
لندن کے اخبار دی آبزرور (The Observer، ۱۰؍اپریل ۲۰۱۶ئ) نے ادارتی نوٹ میں برطانیہ اور اس کے وزیراعظم کے حوالے سے بات کہی ہے، لیکن اس کا پیغام بھی عالم گیر ہے:
’پاناما دستاویزات‘ کے جو حصے سامنے آئے ہیں اور ان میں جو انکشافات کیے گئے ہیں، وہ پوری دنیا کے رہنمائوں، حکومتوں اور تجارتوں کے لیے سنجیدہ مضمرات رکھتے ہیں۔ اب، جیساکہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ یہ مغربی حکومتیں ہیں، جو ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام کو برداشت کرتی اور سہولت دیتی ہیں ،جو موقع پرستانہ اور عموماً غیرقانونی، استحصالی، ایک نجی ملکیت میں کام کرنے والا ہو اور جس کا انتظام و انصرام بڑی حد تک خفیہ ہو، جو خودمختارکنٹرول کے بغیر، نیز ایک منظور شدہ قواعد کی کتاب اور مؤثر قواعد و ضوابط کے بغیر کام کرتا ہو۔اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک ایسی بااختیار تنظیم ہے، جس کی نگرانی اقوامِ متحدہ کرتی ہو۔
پروفیسر مِل گورٹوو جو پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں، اپنے ایک مضمون مطبوعہ کاؤنٹر پنچ (Counterpunch، ۱۸؍اپریل ۲۰۱۶ئ) میں لکھتے ہیں:
کثیر قومی کارپوریشنوں کے کاروباری انتظام کے بہت سے طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک منافعے کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور ریاست کی خودمختاری کو غیرمستحکم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کم ٹیکس والے ممالک کو منتقل ہوجائیں۔ بہت زیادہ دولت مند افراد کے ٹیکس سے فرار کے نتیجے میں غریبوں پر ٹیکس زیادہ ہو جاتا ہے۔
ایک یورپی مفکر، جس نے یورپ اور امریکا میں تدریس اور تحقیق کے طویل عرصے تک فرائض انجام دیے ہیں، اس نے اس پورے مسئلے پر الجزیرہ ٹیلی وژن (۶؍اپریل ۲۰۱۶ئ) پر اپنی ایک تقریر Panama Papers: Why should we care? کے دوران بڑی پتے کی بات کہی ہے:
ایک ایسی دنیا میں جس میں عدم مساوات انتہا کو چھوتی ہو اور سماجی مسائل بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے ہوں، جیساکہ ہماری دنیا ہے، ٹیکس پناہ گاہوں کے وجود سے ٹیکس سے بچنے کے معاشی، سماجی اور سیاسی طریقے بے پناہ ہیں۔ ایسے میں وہ معاشرے جو ٹیکسوں کے بغیر ضروری معیار پر کام کے لیے کوشش کر رہے ہوں گے، ناگزیر سماجی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہیں گے۔
لیکن جب مزدور اور اوسط درجے کے تاجر پوری شرح پر ٹیکس ادا کر رہے ہوں، جب کہ عالمی معیشت کی ساتھ ساتھ بڑھوتری اور آف شور پناہ گاہوں کے پھیلنے کی وجہ سے عالمی کارپوریشنوں اور غیرمعمولی دولت مند برسہا بر س سے کم سے کم ٹیکس ادا کر رہے ہوں___ تو پھر عالمی سرمایہ داری، ٹیکسوں کی ناانصافی اور جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کو خوش آمدید کہیے!
آخری بات یہ ہے کہ ’پانامادستاویزات‘ نے جس چیز کا انکشاف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ صرف عالمی ٹیکس کا نظام نہیں بلکہ بذاتِ خود عالمی طرزِحکمرانی ٹوٹ گیا ہے۔ اب آخری چیلنج یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری نظام کو بذاتِ خود تبدیل کیا جائے۔(الجزیرہ، ٹیلی ویژن نیٹ ورک، ۶؍اپریل ۲۰۱۶ئ)
’پاناما دستاویزات‘ پر جو ردعمل پاکستان میں سامنے آیا ہے اور جن اُمور پر بحث ہورہی ہے، ان پر بھی ہم کلام کریں گے، لیکن جو دو پہلو بدقسمتی سے اس بحث و مباحثے میں تقریباً مفقود ہیں، وہ اخلاقی، نظریاتی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی تباہ کاریوں کا حوالہ ہے، اور جس میں فتنے کی اصل جڑیں ہیں۔
دولت کا ایک وہ تصور ہے جو حرام اور حلال اور انصاف اور ظلم اور دولت کی پیدایش، وسائل کی ترقی اور انسانی معاشرے کی خوش حالی اور تہذیب و ثقافت کی آبیاری سے متعلق ہے۔ یہ زیربحث ہی نہیں آرہا۔ بلاشبہہ افراد کی کرپشن اہم ہے اور اس کے نتائج ملک و معاشرے کے لیے تباہ کن ہیں۔ اس پر مؤثر گرفت بھی ہونی چاہیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری شرط ہے۔ لیکن کالے دھن کے اس کاروبار میں اَخلاق ، قانون، معاشرے، سرمایے اور دولت کے رشتے کو جس طرح نظرانداز کیا جارہا ہے، وہ بحث کو یک رُخا بنادیتا ہے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کو درپیش مسئلے کو، اس کے تاریخی اور عالمی معاشی نظام کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی روشنی میں مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کریں۔
ہماری نگاہ میں اس کے تین پہلوئوں کو (جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں) سمجھنا، ان کے اسباب کا تعین اور حالات کی اصلاح کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر تبدیلی کا نقشۂ کار مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔
کالے دھن کی لعنت، دولت کے بارے میں غلط تصور، صرف مادی ترقی اور ذاتی اور خاندانی ثروت کی تگ و دو، حرام و حلال اور جائز و ناجائز سے بے پروا ہوکر دولت کی افزایش کا لالچ اور طمع، حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں سے اغماض اور صرف ذاتی غرض اور طمع کا اسیر بن جانا سارے بگاڑ کی بنیاد ہے اور کالا دھن اسی ذہن اور اسی روش کی پیداوار ہے۔
جو دین اسلام یہ حکم دیتا ہو کہ: ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو، دولت پیدا کرو، مگر اس لیے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرو، دعوت اور جہاد کی ضرورتوں کو پورا کرو، معاشرے اور ریاست کی خدمت کرو، ضرورت مندوں اور مجبوروں کو اُوپر اُٹھانے کے لیے وسائل کو بلاتامّل استعمال کرو۔ پھر جو دین یہ بھی دل و دماغ میں محکم کرتا ہو کہ: جواب دہی صرف ظاہری طور پر قانون اور معاشرے کے سامنے نہیں، سب سے بڑھ کر اللہ کے سامنے ہے اور ہم میں سے ہر فرد کو پائی پائی کا حساب دینا ہوگا کہ کہاں سے اور کیسے کمایا تھا اور کہاں اور کیسے خرچ کیا تھا؟ تو پھر پوری معاشی زندگی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
اگر ہمارے دعوے ’مذہبی پس منظر کے حامل خاندان‘ کے سے ہیں اور ہمارا ذہن اور رویہ خالص مادہ پرستانہ اور سرمایہ دارانہ فکرو اَخلاق ہی پر استوار ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ دین پرستی اور مادہ پرستی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے کے لیے اس اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو بالکل شروع ہی میں واضح کردیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کالے دھن، ٹیکس چوری، کرپشن سے حاصل کردہ دولت، ٹیکس چوری کی پناہ گاہوںمیں چھپنے کا کھیل___ اسے مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس پس منظر میں قارئین کے سامنے رکھیں، جس میں یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اس میں اپنے اور غیرسب برابر کے شریک ہیں۔ جن ۱۲ سربراہانِ مملکت کا نام لے کر ان کے یا ان کی اولاد کے یا قریبی عزیزوں کے ملوث ہونے کا ذکر ان دستاویزات میں آیا ہے ، ان میں سے چھے، یعنی ۵۰ فی صد مسلمان ہیں، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔
کرپشن کے خلاف مغربی قیادتیں اظہارِبیان کا لمباچوڑا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ لیکن ان کا قانون، ان کی پالیسیاں، ان کے بنائے ہوئے انتظامات ہی وہ فضا اور میدان فراہم کر رہے ہیں، جس میں یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ جو یورپ کا مالیاتی دارالحکومت ہے اور ہانگ کانگ جو ایشیا کا سوئٹزرلینڈ ہے، اس کے بعد امریکا اس وقت ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں نمایاں ترین مقام رکھتا ہے۔ خصوصیت سے اس کی چھے ریاستیں جو ’فرارِ ٹیکس‘ کی پناہ گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں، اس سارے کھیل کی آماج گاہ ہیں۔ برطانیہ کے جزائر تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹیکس چوروں کی پناہ گاہیں بنے ہوئے ہیں اور ان سب کو ایک طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔
گذشتہ ۱۰۰ سال سے یورپ کے بیش تر ممالک میں ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری اور تجارت دونوں کے سلسلے میں رشوت دے کر کاروبار حاصل کرنا، ایک جائز اور قانونی فعل تھا، اور اسے باقاعدہ حسابات میں ضروری اخراجات کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہ تبدیلی صرف گذشتہ ۱۵،۲۰ سال میں آئی ہے کہ اس کھلی کھلی مالی بدعنوانی کے لیے قانونی جواز کو ختم کیا گیا ہے۔ اگرچہ عملاً یہ کھیل اب بھی جاری ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق چند یورپی ممالک میں اب بھی کاروبار کے فروغ کے لیے اور خصوصیت سے اسلحے کی فروخت اور میگاپراجیکٹس کے سلسلے میں، اپنے ملک سے باہر رشوت اور کمیشن کی جادوگری کوئی قانونی جرم نہیں ہے۔
آج کے دور میں کالے دھن کی ریل پیل کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر جاننا ضروری ہے اور اس کا جو تزویری تعلق نظام سرمایہ داری، اس کی بنیادی اقدار اور نظامِ کار سے ہے، اس کو سمجھنا ، ازحد ضروری ہے۔ اسی پس منظر میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر ملک میں آپ سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیں گے تو ان تمام بُرائیوں اور تباہ کاریوں سے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں موضوعِ زیربحث کے تین پہلو ہیں، یعنی:
۱- کالا دھن، ان کی کمیت، کیفیت، تباہ کاریاں۔ ان کا ادراک اور لعنت سے نجات کی کوشش۔
۲- وہ نظام ظلم اور استحصال جو اس لعنت کو پیدا کرتا، پروان چڑھاتا اور معتبر بناتا ہے، بلکہ مذہبی پس منظر کے دعوے دار بھی کھلے بندوں اس سے فیض پانے کا اعلان کرتے ہیں۔’فرارِٹیکس‘ (Tax evasion) خلافِ قانون ہوسکتا ہے، لیکن ’اجتنابِ ٹیکس‘ (Tax avoidence) تو ہمارا حق ہے اور اس کے لیے جہاں بھی جانا پڑے، ہمارا پیدایشی حق ہے۔
۳- تیسرا پہلو حالات کی اصلاح کا ہے اور پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں: یعنی احتساب اور غلط کام پر اصولِ انصاف اور قانون کے مطابق مضبوط اور مؤثر گرفت اور نظام، اور اس سے بھی بڑھ کر اس ذہن وفکر اور طرزِزندگی کی اصلاح، تاکہ ظلم اور استحصال کے نظام سے بچاجاسکے۔
مجھے افسوس ہے کہ اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس اہم موضوع سے متعلق قرارواقعی معلومات پیش نہیں کرسکا اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آیندہ اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ اس وقت صرف چند ضروری نکات کی نشان دہی کرتا ہوں، اور ملک کی قیادت اور خصوصیت سے اسلامی قوتوں کو ان پر غور کرنے اور ان کی روشنی میں اپنی پالیسی اور حکمت عملی طے کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
۱-پہلی بات یہ ہے کہ ’پاناما دستاویزات‘ میں جو نام آئے ہیں اور جو مزید آئیں گے، ان سب کے بارے میں ایک واضح پالیسی اور طے شدہ قاعدے کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اس وقت ملک میں اور دنیا میں جو قانونی پوزیشن ہے، اس کی روشنی میں یہ کارروائی ہونی چاہیے۔ شاید اس کے لیے مناسب ترین انتظام یہ ہوکہ ملک میں حکومت، تمام اپوزیشن جماعتوں، عدلیہ اور سول سوسائٹی اور اچھی شہرت رکھنے والے سابق سول بیوروکریسی اور اعلیٰ فوجی افسران کے مشورے سے قومی احتساب کا ایک آزاد، بااختیار اور قابلِ اعتماد ادارہ بنایا جائے اور اسے تفتیش اور قانونی گرفت (Prosecution) کے پورے اختیارات دیے جائیں، ضروری وسائل فراہم کیے جائیں اور تربیت کا نظام بنایا جائے۔ نیزاس کے اندر بھی احتساب و توازن (check & balance) کا اہتمام کیا جائے اور متعین وقت کے اندر اسے زیرغور معاملات کو طے کرنے کا پابند کیا جائے۔
اس کی رپورٹ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہو، اور اس پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھل کر بحث کی جائے، تاکہ یہ ادارہ فی الحقیقت مؤثرانداز میں کام کرے اور محض ’باہمی مالیاتی سودے بازی‘ ( Plea bargaining) کا اکھاڑہ نہ بن جائے۔ یہاں پر مثال کے طور پر یہ امر مدنظر رہے کہ بھارت نے ۲۰۱۳ء میں بیرونی ممالک میں بھارت کے کالے دھن پر گرفت کاقانون بنایا اور احتساب کا نظام قائم کیا ۔ اب تک اس کی دورپورٹیں آچکی ہیں اور گذشتہ دوسال میں، ٹیکس سے بچ جانے والے سرمایے سے ٹیکس کی مد میں ۶؍ارب ڈالر سے زیادہ واجبات وصول کیے جاچکے ہیں۔اگر بھارت میں یہ ہوسکتا ہے تو ہمارے ہاں اس کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟
۲- موجودہ خصوصی صورت حال کے پیش نظر جوڈیشل کمیشن بھی ایک مناسب حل ہے۔ ضرورت ہے کہ بحث کو صرف ٹی وی اور گلیوں میں کرنے کے بجاے بامعنی مذاکرات کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے تحت اسی کے فیصلے سے تفتیشی ٹیم مقرر ہونی چاہیے جو ایسے معتبر اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ہو، جو متعلقہ اُمور کے بارے میں انصاف کے ساتھ تفتیش کرسکیں یا کراسکیں اور عدالتی کمیشن کی صحیح معاونت کرسکیں۔
اس کمیشن کو اپنا کام ایک متعین مدت میں ختم کر دینا چاہیے اور پھر اس کے کام اور تفتیشی ٹیم کی سفارشات کی روشنی میں اُوپر جس احتساب کمیشن کا مشورہ دیا گیا ہے، وہ کام کو جاری رکھے۔
مجوزہ کمیشن کام کا آغاز موجودہ حکومت کے ان تمام افراد کے بارے میں تحقیق و تفتیش سے کرے، جن کا نام ’پاناما دستاویزات‘ میں آیا ہے اور یہ ۱۹۸۶ء سے اب تک کے عرصے کو اپنے دائرۂ بحث میں لائے۔ لیکن اس کے بعد اس کمیشن کو دو مزید سیاسی قوتوں سے متعلق افراد کے معاملات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے___ یعنی سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے وہ لوگ اور اس کے اتحادی، جو ۱۹۸۸ء کے بعد سے حکومت میں رہے ہیں۔ اس طرح تیسرا سیاسی گروہ صدرپرویز مشرف ان کی حلیف مسلم لیگ کی شریکِ اقتدار پارٹیاں یا شخصیات ہیں، جو جنرل موصوف کے ساتھ ۲۰۰۲ء سے شریک رہی ہیں۔اس طرح گذشتہ ۳۰برس میں جن تین بڑے گروپوں کے ہاتھوں میں حکومت کی زمام کار تھی، ان کا احتساب اسی ترتیب سے اس جوڈیشل کمیشن کو کرنا چاہیے۔ باقی افراد، اداروں، تجارتی اور دوسرے اداروں کا احتساب اسی ماڈل کی روشنی میں مستقل ادارۂ احتساب کرے۔
واضح رہے کہ جناب محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کے بارے میں سوالات ۱۹۹۲ء سے اُٹھ رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دور سے لے کر اب تک ان کے اثاثہ جات میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی مکمل تفصیل قوم کے سامنے آئے۔ آمدنی کے ذرائع، اس پر ٹیکس کی ادایگی، سرمایے کی ملک سے باہر منتقلی، بیرونِ پاکستان جایدادوں اور کاروبار کا حصول، ہرچیز سامنے آنی چاہیے۔ ماشاء اللہ، اب ان کے بچے بڑے ہیں، اور اپنے معاملات کے ذمے دار ہیں، لیکن انھوں نے اپنے کاروبار کا آغاز تو محمد نواز شریف صاحب ہی کے عطا کردہ وسائل سے کیا تھا۔ اس سے متعلق اُمور سامنے آنے چاہییں۔
اسی طرح جناب آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مالی معاملات، شادی کے وقت ان کے مالی وسائل اور اس کے بعد سے اب تک اس خانوادے نے خود یا اپنے نمایندوں (proxies )کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا، اس کی تفصیل اور دلیل و جواز (justifications) قوم کے سامنے آنے ضروری ہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی دستاویزات ملک کے اداروں یا عالمی اداروں اور میڈیا کے پاس ہیں، ان سب کی روشنی میں حالات اور معاملات کی پوری تصویر قوم کے سامنے پیش کی جانی ازبس ضروری ہے۔
ہم نے مارچ ۲۰۱۶ء کے اشارات اور دوسرے متعدد اہلِ قلم نے اپنے مضامین اور کالموں میں ان اسکینڈلوں کا ذکر کیا ہے، جو گارڈین، بی بی سی، برطانوی اور سوئس عدالتوں کے فیصلوں میں ضبط ِ تحریرآچکے ہیں۔ جن کا خلاصہ ریمنڈڈبلیو بیکر نے اپنی کتابCapitalism's Achilles Heel (مطبوعہ ۲۰۰۵ئ) میں پیش کیا ہے، اور جس میں زرداری صاحب کے خاندان کے علاوہ، بلاواسطہ یا بالواسطہ آف شورکمپنیوں اور درجنوں بنک اکائونٹس کی تفصیل دی گئی ہے (ملاحظہ ہو: ص۷۷ تا ۸۲)۔ اس کے علاوہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بڑی اہم رپورٹ ۲۰۰۴ء میں، لندن سے شائع ہوئی تھی، جس کے صفحہ۱۰۲ سے ۱۰۴ تک، گرافکس کی شکل میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں،انھیں بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہی معاملہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے شرکاے اقتدار گروہ کا ہے۔ انھوں نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اثاثوں کا اعلان کیا تھا۔ آج جو کچھ ان کے پاس ہے، اس کے بارے میں اب خاصی معلومات مغربی میڈیا اور خود پاکستانی میڈیا میں برابر آرہی ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسلام آباد، کراچی، دبئی، لندن اور نیویارک میں ان کے پاس اربوں روپے کی جایدادیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر، درجنوں بنک اکائونٹس میں موجود ہیں۔ ان کو بھی اپنے تمام اثاثوں اور ان کے حصول کی تفصیلات کا حساب دینا ہوگا۔ اور یہی معاملہ اس دور میں ان لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے، جو ان کے شریکِ اقتدار رہے ہیں۔ اندرونِ خانہ کیا کیا کچھ ہوتا رہا ہے، اس کی کچھ جھلکیاں، جنرل مشرف کے ساتھی لیفٹیننٹ جنرل شاہدعزیز کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک؟ میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی قیادت کے بارے میں جو معلومات سامنے آرہی ہیں، وہ بھی اسی دور کا قصہ ہیں۔
اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم ان تین بڑے بڑے ٹولوں (شریف خاندان، زرداری خاندان، مشرف اور ان کے رفقاے کار) کے مالی معاملات کا پورا پورا حساب کتاب ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنی پاک دامنی ثابت کردیں تو سر آنکھوں پر۔ لیکن اس کے برعکس، جس جس کا دامن داغ دار ہے، اس کا احتساب شفاف انداز میں ہونا چاہیے، تاکہ کالے دھن کے اس کاروبار پر کہیں تو ضرب لگے اور کسی مقام پر تو اس کو روکا جاسکے، تاکہ اس تاریک باب کو کہیں ختم کیا جاسکے اور شفاف قومی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوسکے۔۱؎
جوڈیشل کمیشن کی شرائط ِ تحقیقات (ToRs) میڈیا میں اور سڑکوں پر طے نہیں ہوسکتے، بلکہ حکومت اور اپوزیشن سرجوڑ کر بیٹھیں اور طے کرلیں۔ ماضی میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے اور یہی ہے وہ طریقہ جس سے سیاسی مسائل طے ہوتے ہیں۔
۴- ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ ۳؍اپریل ۲۰۱۶ء کے بعد سے حکومت ِ پاکستان کے نمایندوں اور اپوزیشن کے ترجمانوں کے درمیان جس زبان میں، جس انداز میں، اور جن پلیٹ فارموں پر لفظی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا ازحد ضروری ہے۔ اصولی بات کہنے کا موقع ہمیشہ رہتا ہے، لیکن جتنے شخصی انداز میں اور جس زبان اور لہجے میں بات ہورہی ہے، اسے کسی مہذب معاشرے، چہ جائیکہ ایک مسلمان معاشرے میں مناسب، جائز اور معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ سب اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ شرائطِ تحقیقات طے کر کے معاملہ عدالتی کمیشن کے سپرد کردیں اور عدالتی کمیشن بھی اپنے لیے خود ضابطۂ کار طے کرلے، تاکہ ایک طرف اصل مسائل اور معاملات سے انصاف کیا جاسکے اور دوسری طرف کمرئہ عدالت سیاسی محاذآرائی کا ذریعہ نہ بن جائے، بلکہ گرمیِ گفتار کو قابوکرکے ساری توجہ حقیقی تفتیش، تحقیق اور حقائق کے تعین پر مرکوز ہونی چاہیے۔
۵- ہم پورے ادب اور دل سوزی سے میڈیا سے بھی درخواست کریں گے کہ اپنے رویے پر غور کرے۔ حقائق کی تلاش اور مختلف نقطہ ہاے نظر کی عکاسی ان کی ذمہ داری ہے، مگر خود فریق بن جانا اور جلتی پر تیل ڈالنا، ہرچیز کو تماشا بنانا کبھی بھی صحت مند صحافت کی روایت نہیں رہی اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ ہم سنسرشپ کے حامی نہیں، لیکن خوداختیاری سنسرشپ، احساسِ ذمہ داری کی ایک بہتر مثال ہے۔یہی وہ راستہ ہے جس سے زیادہ معتبر اور باوقار انداز سے بحث و گفتگو کو صحیح دائرے میں رکھا جاسکتا ہے اور اصل مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے، جس سے ملک کو کالے دھن اور اقتدار اور اختیار کے غلط استعمال کی لعنتوں سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
۶- ملک اس وقت بہت ہی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل، قومی سلامتی کو چیلنج، افغانستان اور بھارت کا رویہ، امریکا کے بدلتے ہوئے تیور، شرق اوسط کا خلفشار، یہ وہ شعلہ فشاں پہلو ہیں جو ہمارے لیے آزمایش کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ علاقائی اور عالمی تناظر میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ان حالات میں ملک کے تمام اداروں اور مؤثر قوتوں کے درمیان تعاون اور مشاورت سے معاملات کو طے کرنے اور قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔ سول، ملٹری تعلقات کا مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے، جسے نظرانداز کیا جاسکے اور نہ اسے قالین کے نیچے دبا کر رکھا جاسکتا ہے۔
کچھ عناصر تصادم کی فضا بنانے پرتلے نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو ختم کرنا (diffuse) ازبس ضروری ہے۔ ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے کو بڑھانے میں حکومت وقت کی خراب حکمرانی ہی واحد سبب نہیں ہے، بلکہ ملک اور بیرونِ ملک بہت سے عناصر اس آگ کو بھڑکانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔یہی وہ وقت ہے جب حکومت اور پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور میڈیا بھی ان حدود کا پورا پورا لحاظ رکھے، جو ایسے نازک معاملات کو سلجھانے اور بروے کار لانے کے لیے ضروری ہیں۔
دستور کے تحت کابینہ کی ’دفاع و سلامتی کی کمیٹی‘ وہ اہم فورم ہے، جسے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ اس کی نشست کا فی الحال باقاعدگی سے ہر مہینے اہتمام کیا جائے، جسے بعد میں حالات کی مناسبت سے معمول بنا لیا جائے۔ اسی طرح کابینہ کا اجلاس ہر ماہ لازماً ہونا چاہیے۔ وفاقی کابینہ اور ’مشترکہ مفادات کی کونسل‘ (CCI) وہ ادارے ہیں، جن کو باقاعدگی سے اپنے اداراتی فرائض انجام دینے چاہییں۔ پارلیمانی حکومت نام ہی کیبنٹ گورنمنٹ کا ہے، ورنہ یہ ایک قسم کا صدارتی نظام بن جاتا ہے۔یہ ہمارے دستور اور ہمارے زمینی حقائق دونوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا اور بدقسمتی سے ہم اس طرف لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔اس کے فوری تدارک کی ضرورت ہے۔
۷- حکومت اور اپوزیشن دونوں اسمبلی اور سینیٹ کو قرارِ واقعی اہمیت دیں اور ریاست کے تمام اداروں کو ان کی دستور کی طے کردہ حدود کار اور آج کے زمینی حقائق دونوں کی روشنی میں خوش اسلوبی کے ساتھ اصل توازن کی طرف لے جانے کی کوشش کریں۔
دستور ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں سارے سیاسی مسائل اور اختلافات کو حل کیا جاناچاہیے۔ دستور کے دائرے سے نکل کر جو بھی حل ہوگا، وہ حل نہیں، بلکہ نئے مسائل اور مشکلات کا پیش خیمہ بن جائے گا، اور خدانخواستہ ملک ایسے خلفشار کا بھی نشانہ بن سکتا ہے جو اس کے لیے تباہی کا باعث ہو۔ توقع ہے کہ اس اشارے کو سبھی سیاسی عناصر اور قوتیں محسوس کریں گی، اور دستور سے کھیل کھیلنے کا کسی کو موقع نہیں دیں گی۔
۸- لوکل گورنمنٹ کو جلد از جلد قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ انھیں اختیارات اور وسائل دونوں دیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کی ساری توجہ کا مرکز وفاق اور اپنے اپنے صوبے کے مسائل پر ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں قانون سازی، پالیسی سازی، حکومت کی کارکردگی پر نگرانی، عوامی مسائل پر توجہ اور حکومت اور عوام کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ترقیاتی کاموں ہی میں ان کو گھسیٹنا اور پھر ترقیاتی فنڈ ان کے توسط سے خرچ کرنا بڑے خسارے کا سودا ہے،جو بدقسمتی سے وزیراعظم محمد خاں جونیجو صاحب (۸۸-۱۹۸۵ئ) کے دور سے شروع ہوا اور کرپشن کے فروغ اور اچھی حکمرانی کے پٹڑی سے اُترنے کا سبب بنا ہے۔ اس کلچر کو ختم ہونا چاہیے۔ جو کام لوکل گورنمنٹ کا ہے، وہ لوکل گورنمنٹ کرے اور جو کام صوبے اور مرکز کے اداروں کا ہے، وہ انھیں انجام دیں۔ ترقیاتی کام کے سلسلے میں مرکزی پلاننگ کمیشن اور ہرہرصوبے میں مؤثر پلاننگ کمیشن ضروری ہیں۔ اسی طرح پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی شکنجے سے نکالنا بھی ازبس ضروری ہے۔ فوج اور رینجرز سے معاملہ کاری ( equation) پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ عدالت کی اپنی اصلاح ، تقویت، تربیت اور احتساب، یہ سب ضروری ہیں۔
۹- یہاں ہم دو مسئلوں کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں: ایک معاشرے کا اخلاقی بگاڑ، جس کے نتیجے میں باہمی حقوق کے احترام کا فقدان ہے۔ رواداری اور خوش خلقی سے معاشرہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ جرائم اور جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اور بحیثیت مجموعی معاشرے میں تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو خطرے کی علامت ہے۔ الحمدللہ، آج بھی ہمارے معاشرے میں جو خیر ہے، وہ اللہ کی نعمت ہے اور اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن یہ فکرمندی بھی ضروری ہے کہ معاشرے کی اقدار کمزور ہورہی ہیں اور اخلاقی بگاڑ میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی سب کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہرفرد، خاندان، معاشرہ، دینی اور سیاسی قوتیں، سول سوسائٹی، حکومت اور اس کے تمام ادارے ___ اس باب میں ہر ایک کو متحرک ہونا پڑے گا۔ کرپشن پر گرفت کے لیے احتساب کا مؤثر نظام ضروری ہے، مگر کرپشن کو ختم کرنے کے لیے فرد اور معاشرے کی اخلاقی تعمیر و اصلاح اور ان اسباب کا چُن چُن کر قلع قمع کرنا ضروری ہے، جو اسے جنم دے رہے ہیں اور پروان چڑھا رہے ہیں۔ آنکھیں بند کرنے سے معاملات حل نہیں ہوسکتے، مسائل کو کھلی آنکھوں دیکھ سمجھ کر ہی قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
۱۰-آخر میں عرض یہ ہے کہ ہمیں ملک کو نظریاتی اور فکری انتشار سے بچانا ہے۔ ہماری آبادی کا ۹۰ فی صد اپنے دین اور نظریے، اپنے ملّی اور قومی تشخص، اپنی اخلاقی اور تہذیبی اساس اور اپنی نئی نسلوں کی منزل کے بارے میں کسی شک کا شکار نہیں ہے۔ فقط، ایک طبقہ ہے جو کبھی لبرل ازم کا ، کبھی سیکولرزم کا راگ الاپتا ہے۔ کبھی دہشت گردی کو جہاد کا شاخسانہ قرار دے کر، کبھی اپنی تاریخ پر خطِ تنسیخ پھیرنے، اور کبھی قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں میں ذہنی پراگندگی اور خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کا رویہ خاصا پریشان کن بلکہ وطن دشمنانہہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سب عناصر سے بھی مکالمے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ان حضرات کو جہاں اپنے نظریات پر قائم رہنے کا حق ہے، وہیں انھیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی شناخت اور مسلم معاشرے کی بنیادی اقدار کوئی بحث طلب شے نہیں ہیں۔اپنے اور غیروں کے کیے ہوئے تمام جائزے (سروے) شاہد ہیں کہ ۹۰ فی صد آبادی شریعت کی بالادستی اور اسلامی اقدار و احکام کی پاس داری کی خواہاں ہے۔ یہ جذبہ شہری اور دیہی آبادی میں، مردوں اور عورتوں میں، عمررسیدہ افراد اور نوعمر آبادی میں ایک ہی طرز (pattern) پر ہے۔ یہ زمینی حقائق ہیں، جن کا احترام ہی قوم اور معاشرے میں ہم آہنگی اور تعمیری قوتوں کی تقویت کا باعث ہوسکتا ہے۔
جس قوم میں تعداد میں کم ،مگر وسائل میں مضبوط بااثر ، صاحب ِ ثروت طبقوں اور عوام الناس کے درمیان نظریاتی اور تہذیبی کش مکش برپا رہے، وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اختلاف راے کا احترام مہذب معاشرے کی شناخت ہے۔ تاہم، یہ بھی مہذب معاشرے ہی کی ایک ضرورت ہے کہ بااثر افراد، اکثریت کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں اور تبدیلی کا راستہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تعلّم اور اختلاف اور احترام کے ذریعے استوار کریں۔ اگر ایک مخصوص اقلیت محض اپنے وسائل اور بالاتر پوزیشن کے زعم میں اپنے خیالات اور ترجیحات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہوگا۔
ہم ان افراد کو بھی جو مذہبی تشددکا راستہ اختیار کرتے ہیں، یہی مشورہ دیں گے جو لبرل، تشدد پسندوں کو دے رہے ہیں کہ مستقبل کی روشن راہ صرف اعتدال اور توازن میں ہے۔ اپنے مسلک پر قائم رہیے، لیکن دوسرے کے مسلک کی تحقیر نہ کیجیے۔ رواداری اور مکالمہ ہی وہ راستہ ہے، جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔زندگی اور عزت سے زندہ رہنے کا یہی راستہ ہے، جس پر ہمیں ہمت اور استقلال سے سرگرمِ کار رہنا چاہیے۔