مئی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| مئی ۲۰۱۶ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

بااثر عناصر: کس راستے پر؟

سب سے پہلے جو بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں اسلامی نظام کے لیے خواہش کی کوئی کمی نہیں ہے، اصل کمی آمادگی کی ہے ، اور اس سے بھی زیادہ کمی استعداد کی۔ اگر آپ صدا لگائیں کہ کون یہاں اسلامی نظام چاہتا ہے تو ایک عنصر قلیل کو چھوڑ کر ساری قوم پکار اُٹھے گی کہ ہم سب اس کے طالب ہیں۔ لیکن اگر آپ پوچھیں کہ کون اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہے تو ساری بھیڑ چھٹ جائے گی اور بمشکل ۱۰۰ میں سے ۵، ۱۰ آدمی آگے بڑھ کر اس کی حامی بھریں گے۔ پھر اُن آمادگی ظاہر کرنے والوں کا بھی اگر آپ استعداد کے لحاظ سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بیش تر لوگ ان کم سے کم بنیادی اوصاف سے بھی خالی ہیں جن کا ہونا اس کام کے لیے ناگزیر ہے۔

دوسری بات جس پر نگاہ رکھے بغیر[جو تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں] اپنی ذمہ داری کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے، یہ ہے کہ ہماری قوم کے اندر جتنے بااثر عناصر پائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر بگاڑ کے لیے کام کر رہے ہیں، اور جو بگاڑنے میں لگے ہوئے نہیں ہیں وہ سنوارنے کی فکر سے بھی فارغ ہیں۔ اصلاح و تعمیر کے لیے کوشش کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی قوت کا تناسب بگاڑ کی قوتوں کے مقابلے میں بقدرِ نمک بھی نہیں ہے۔ اس میں جس کسی کو شک ہو  وہ ذرا سارے ملک پر ایک نگاہ ڈال کر خود دیکھ لے کہ یہاں سیاسی لیڈر، حکومت کے کارفرما اور کارکن، زمین دار، کارخانہ دار، تجّار، علما، اخبار نویس اور اجتماعی زندگی پر اثر ڈالنے والے دوسرے لوگ زیادہ تر بنانے میں لگے ہوئے ہیں یا بگاڑنے میں اور ہمارے متوسط تعلیم یافتہ طبقے کی عظیم اکثریت کوئی تعمیری فکر و سعی بھی رکھتی ہے یا بس اپنی ذات میں مگن ہے۔(’اشارات ‘ ، سیّد مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۳، رمضان ۱۳۷۵ھ، مئی۱۹۵۶ئ، ص ۲-۳)

_______________