دنیا ان کو پروفیسر ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری کے نام سے جانتی ہے، مگر میرے لیے وہ صرف راجا بھائی تھے اور رہیں گے۔ مئی ۱۹۴۹ء میں بھائی ضمیر اور خرم بھائی کی معیت میں پہلی ملاقات ہوئی اور آخری اگست ۲۰۱۵ء میں، جب اپنی صحت اور ذاتی حالات کے باعث مَیں یہاں لسٹر آنے پر مجبور ہوا۔ ایک ہی ہفتہ قبل ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی اور پھر ۲۴؍اپریل کی صبح انیس میاں کے ٹیلی فون سے یہ اندوہناک خبر ملی کہ راجا بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے___ انا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ سے ان کا رشتہ پیارے رب کا رشتہ تھا اور اپنی ۶۷سالہ رفاقت کی بنیاد پر گواہی دیتا ہوں کہ ان کو ہمیشہ رب کا بندہ اور اس کی رضا کا طالب پایا۔ اب کئی سال کی بیماری اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ بیماری اور ہرتکلیف پر اللہ کا شکر ادا کرنے والا میرا پیارا بھائی اپنے رب کے حضور چلا گیا۔ گویا ع
اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت ِ خاص کے آغوش میں جگہ دے۔ ۷۰سے زیادہ برسوں پر پھیلی ان کی یہ علمی اور دینی خدمات، خصوصیت سے قرآن کی خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے، ان کو جنت کے منفرد مقام پر ہمیشہ کے لیے راحت کی زندگی سے سرفراز فرمائے اور جب تک زمین پر انسان بستے ہیں، آسمان ان کی لحد پر مسلسل شبنم افشانی کرتا رہے___ آمین!
میرے لیے یہ دو ماہ بڑی آزمایش کے مہینے رہے ہیں۔ فروری میں میرے ہم زلف سیّدجلال الدین احمد کا اچانک انتقال ہوا۔ ابھی ان کے غم سے آنکھیں اَشک بار تھیں کہ عزیزی ممتازاحمد جنھیں سب ڈاکٹر ممتاز کہتے تھے لیکن میرے لیے وہ انیس اور مسلم کی طرح چھوٹے بھائی یا بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے، کا غم سہنا پڑا۔ معاً بعد یہاں گلاسگو میں ینگ مسلم کے پہلے گروپ کے روحِ رواں اور عزیزی فاروق مراد کا ہم ساز اور ہم زاد عمران کھنڈ ۵۰برس کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوا ،اور اب ۲۴؍اپریل کو راجابھائی سے دنیوی جدائی کا زخم سہنا پڑا۔ افسوس کہ ان میں سے کسی کی نہ آخری زیارت کرسکا اور نہ جنازے میں شرکت___ ہاں، ان کے لیے دعائوں کی سوغات ہے جو ان کی زندگی میں بھی بھیجتا رہا، اور اب اور بھی رقت کے ساتھ اپنے مالک کے حضور بھیج رہا ہوں۔ اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے اور اپنے پیاروں کی موت زندگی کی ناپاے داری اور موت کے محکم ہونے کی مؤثر ترین یاد دہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین حق پر قائم رکھے، اپنے سوا کسی کا محتاج نہ بنائے، اور ایمان پر خاتمہ کرے، آمین، ثم آمین۔ طالب علمی کے زمانے میں انگریزی ادب اور شاعری کا بھی کچھ رشتہ تھا۔ نہ معلوم کیوں شیکسپیئر کے یہ اشعار ذہن کے اُفق پر اُبھر آئے، جو ان چند ہفتوں کے حادثات کے عکاس ہیں:
When sorrows come,
They come not single spies
They come in battallions
One woe treads, the others heal,
So soon they follow
ہر آزمایش اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور اسی سے ہر غم اور آزمایش پر صبر و استقامت کی التجا ہے۔
برادرم ظفراسحاق الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی اسناد پر ان کی پیدایش دسمبر۱۹۳۲ء کی ہے، لیکن ہمارے بچپن میں انگریزی دور کی ’برکات‘ میں ایک یہ بھی تھی کہ اسکول میں داخلے کے وقت عمرکم لکھوائی جاتی تھی، تاکہ آئی سی ایس کے داخلہ امتحان کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کی جو قید ہے، اس میں کچھ وسعت آجائے۔ میری پیدایش بھی اسکول کے ریکارڈ میں ۱۹۳۴ء ہے جو حقیقت میں ۱۹۳۲ء تھی اور راجا بھائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ مجھ سے دو سال بڑے تھے، عمر میں بھی اور تعلیم کے میدان میں بھی۔ میں نے جس سال انٹرکامرس کیا ،انھوں نے اسی سال بی اے کیا تھا۔
مئی ۱۹۴۹ء میں ہماری شناسائی کا آغاز ہوا۔ میرے بڑے بھائی احمدضمیر مرحوم اور خرم بھائی مرحوم ڈی جے کالج میں کلاس فیلو تھے اور راجا بھائی ان کے اوّلین احباب میں سے تھے اور اسلامیہ کالج میں پڑھ رہے تھے۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا کُل انسانی سرمایہ سات آٹھ افراد تھے۔ خرم اور راجا ان کا محور تھے۔ مَیں فروری ۱۹۴۸ء میں دلّی سے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ایک سال لاہور میں زیرتعلیم رہا اور پھر مئی ۱۹۴۹ء میں کراچی منتقل ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہے، جب مجھے جمعیت سے شناسائی حاصل ہوئی اور اس کا ذریعہ بھائی ضمیر کے ساتھ خرم اور راجا بنے۔
خرم اور راجا سے پہلی ہی ملاقات میں ایک ایسا تعلق قائم ہوگیا، جو زمانے کے تمام نشیب و فراز کے باوجود ہر آلایش سے پاک اور گہرائی اور گیرائی ہراعتبار سے روز افزوں رہا۔ راے کا اختلاف کن انسانوں کے درمیان نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ ہم تینوں کے درمیان زندگی کے مقاصد کے اشتراک کے ساتھ ہمارے درمیان: باہمی اعتماد اور محبت، خیرخواہی اور عملی تعاون کا رشتہ قائم رہا اور سب سے بڑھ کر موجودگی اور عدم موجودگی دونوں میں ہمیں ہم رنگ اور ہم زبان ہونے کی نعمت و سعادت حاصل رہی ہے۔ میرے لیے ایمان کی سعادت اور خاندان کی نعمت کے ساتھ، یہ دوستی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ رہی ہے اور اس پر رب کا جتنا بھی شکرادا کروں کم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان دونوں سے ملنے اور ان کے ساتھ شیروشکر ہوجانے نے زندگی کا رُخ متعین کر دیا، اور نہ صرف یہ کہ ’ایک ہی بار ہوئی وجہ گرفتاریِ دل‘، بلکہ الحمدللہ زندگی بھر ان کی نگاہوں کے التفات کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ہمارا یہ رشتہ اس دنیا تک محدود نہ رہے اور آنے والی اور ابدی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ صرف اپنے رحم اور فضلِ خاص سے ہمیں یہاں سے بہتر زندگی ساتھ گزارنے کی سعادت سے نوازیں، آمین!
راجا بھائی کا ذکر چچا مرحوم کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما مولانا ظفراحمد انصاری ان کے والد تھے۔ وہ علم و فضل، اخلاق و مروت، محبت و شفقت، سیاسی بصیرت اور حُسنِ عمل کا مرقع تھے۔ فلسفہ میں ایم اے امتیازی شان سے کرنے کے بعد ساری زندگی برعظیم کی سیاست کے میدان میں مسلم اُمت کے خاموش معمار کی حیثیت سے بسر کردی اور اس شان سے بسرکی کہ کبھی کسی عہدے یا ذاتی فائدے کا تصور بھی نہیں کیا۔ مقصد صرف اللہ کی رضا،اُمت کی خدمت، پاکستان کی تعمیروترقی، نئی نسلوں کی دینی، اخلاقی اور سیاسی تربیت و رہنمائی تھا اور جو عہد اپنے رب سے کیا، اسے آخری سانس تک سچ کردکھایا۔
راجا بھائی سے جمعیت کے دور میں جو تعلق قائم ہوا، وہ ان کی ذات تک محدود نہیں تھا۔ ان کے تمام بھائیوں اور سب سے بڑھ کر ان کے والد محترم کے ساتھ بھی بالکل باپ کا سا رشتہ قائم ہوگیا تھا اور ان کی شفقت اور رہنمائی بھی الحمدللہ ان کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہی۔ یہ بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان گھرانوں کی روایت تھی کہ خاندان کے تمام بزرگوں سے ان کے رُتبے اور مقام کی مناسبت سے تعلق استوار ہوتا تھا۔ راجا بھائی اپنے تایا کو ابّا کہتے تھے اور اپنے والد کو چچا۔ اور ہم نے بھی بچپن ہی سے ان کو چچا کہا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہم ہی نہیں، سبھی ان کو چچا ہی کہتے اور ان کی پدرانہ شفقت ہم سب پر اس طرح تھی کہ یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ رشتے میں کون سگا ہے اور کون اعزازی؟
راجا بھائی اور خرم بھائی دونوں تحریک میں میرے پیش رو ہی نہیں، مجھے یہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔ خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُردو اور انگریزی دونوں پر راجا کو عبور تھا۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت بھی کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ میں نے جمعیت کی رکنیت جنوری ۱۹۵۰ء میں اختیار کی۔ خرم اور راجا پہلے سے رکن تھے بلکہ راجا (اور ایک رکن) نجمی صاحب وہ دو حضرات تھے، جن کو دسمبر ۱۹۴۷ء جمعیت کے تاسیسی اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل تھی۔ میں نے ستمبر ۱۹۵۰ء کے سالانہ اجتماع (لاہور) میں پہلی بار شرکت کی۔ ۴نومبر۱۹۵۱ء کو خرم بھائی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اسی سال جمعیت کے دستور کی تدوینِ نو ہوئی۔ اولیں دستور ’قواعد و ضوابط‘ کے عنوان سے محترم نعیم صدیقی کا لکھا ہوا تھا اور جمعیت کا پہلا باقاعدہ دستور جو ابھی تک دستورِعمل ہے، ۱۹۵۲ء میں مرتب ہوا اور اس کی تدوین جس کمیٹی نے کی اس میں خرم بھائی کے علاوہ راجا اور مَیں تھے۔ اس دستور کی بنیادی تسوید (drafting) کا کام زیادہ تر ظفراسحاق نے کیا، اگرچہ نوک پلک درست کرنے میں ہم سب نے حصہ لیا تھا۔
مَیں نے اپنی مرتب کردہ پہلی کتاب Maududi on Islamic Law and Constitution کے ’پیش لفظ‘ میں راجا بھائی کے بارے میں لکھا تھا کہ: یہ کتاب ہماری قلمی رفاقت کا ثمرہ ہے اور میری خواہش تھی کہ ان کا نام میرے ساتھ شریکِ مدیر کی حیثیت سے دیا جائے، جس کو انھوں نے سختی سے ویٹو کر دیا۔ عملاً ہماری اس رفاقت کا آغاز Students's Voiceکی اشاعت سے ہوا، جو ۱۹۵۱ء میں ہم نے مل کر نکالا اور جمعیت ہی نہیں پاکستان میں طالب علم دنیا میں طلبہ کا پہلا پرچہ تھا۔ ایک سال تک اسے سائیکلواسٹایل کرکے ہرماہ لایا جاتا تھا۔ ہم خود اسے لکھتے تھے، قاضی عبدالقادر ٹائپ کرتے تھے اور اسٹنسل کاٹتے تھے۔ محمدمیاں سائیکلواسٹایل کرتے تھے اور پھر سب کارکن مل کر فروخت کرتے اور پھیلاتے تھے۔ ایک سال میں اس کے ایک ہزار خریدار بن گئے تھے، جس سے متاثر ہوکر ہم نے ۱۹۵۲ء میں اسے ۱۵ روزہ مطبوعہ پرچے کی حیثیت سے شائع کیا۔ پہلاشمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور پھر صرف چھے مہینے میں ۷ہزار تک پہنچ گیا۔ راجا اور مَیں اس کے ایڈیٹر تھے۔ اس طرح ہماری ادبی رفاقت کا آغاز اسٹوڈنٹس وائس سے ہوا، اور اس کے بعد New Era ، Voice of Islam اور دوسری شکلوں میں زندگی بھر یہ سفر جاری و ساری رہا، الحمدلِلّٰہِ علٰی ذٰلک۔
اس امر کاکھلے دل سے اعتراف کرتا ہوںکہ مجھے اُردو میں لکھنے کی ترغیب دینے میں سب سے اہم کردار راجابھائی ہی کا تھا۔ میں اس زمانے میں انگریزی کے سحر میں کچھ زیادہ ہی مبتلا تھا اور اُردو میں لکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، گو اُردو تقریر میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔
کالج لائف کی ابتدا ہی سے لکھنے کا شوق تھا۔ ۱۹۴۹ء میں نصف صفحے کا ایک مضمون لاہور کے ایک رسالے میں شائع ہوا، جب میں انٹر آرٹس کر رہا تھا۔ ۵۱-۱۹۵۰ء گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی (جہاں مَیں زیرتعلیم تھا) کے سالانہ انگریزی میگزین کا مَیں ایڈیٹر تھا۔ رسالہ دو حصوں میں تھا۔ انگریزی حصے کا مَیں ایڈیٹر تھا اور اُردو حصے کا میرا ایک کلاس فیلو۔ اس کا اصرار تھا کہ مَیں اُردو میں بھی مضمون لکھوں اور میری ہمت نہیں ہورہی تھی۔ راجا بھائی نے مجھے مجبور کیا کہ لکھوں ۔ تب میں نے جمعیت کے نئے نئے اثرات کے تحت نظامِ تعلیم کی اصلاح کے موضوع پر چند صفحے لکھے، جن کی نوک پلک راجا بھائی نے درست کرکے قابلِ اشاعت بنایا اور اس طرح اُردو میں میرے لکھنے کا آغاز ہوا، جسے پھر اصل مہمیز چراغِ راہ کی ادارت کے ذریعے ملی، جو محترم چودھری غلام محمدصاحب مرحوم کے اصرار بلکہ حکم پر سنبھالی۔ مسلم، ممتاز اور نثار صاحبان چراغِ راہ میں میرے دست و بازو تھے۔
راجا اور مَیں ۱۹۵۵ء تک اسٹوڈنٹس وائس مل کر نکالتے رہے۔راجا بھائی نے ایم اے معاشیات میں کیا تھا، اور پھر اس مضمون کی تدریس اختیار کر کے بحیثیت استاد کیریئر کا آغاز کیا۔ اسلامک اسٹڈیز میں وہ ۱۹۵۸ء کے بعد آئے، جب کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی کے وظیفے پر وہ ایم اے کے لیے وہاں گئے۔ وہاں انھوں نے مشہور مستشرق پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ کی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پھر معاشیات سے ان کارشتہ عملاً کٹ گیا، اور اسلامک اسٹڈیز ، خصوصیت سے اسلامی قانون ان کا میدان بن گیا۔
اسلامی قانون میں تخصص کے باوجود علومِ اسلامی کے ہر شعبے میں انھوں نے دادِ تحقیق دی ہے اور مشرق و مغرب کی نام وَر یونی ورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں۔ جن میں امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی، شکاگو یونی ورسٹی، کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی، آسٹریلیا کی میلبورن یونی ورسٹی، سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ اور یونی ورسٹی آف پٹرولیم اینڈ منرلز دہران شامل ہیں۔ ۱۹۸۶ء میں اسلام آباد منتقل ہوگئے اور پھر انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد میں پروفیسر، نائب صدر اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ تدریس کے ساتھ تحقیق اور تصنیف و تالیف ان کا وظیفہ زندگی تھا۔ راجا بھائی کوئی خشک کتابی شخصیت نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی پُربہار اور شگفتہ شخصیت عطا کی تھی۔ وہ اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے درمیان گھنٹوں صرف کرتے تھے اور ہمیشہ رونق محفل رہتے تھے۔
راجا بھائی نے اپنی ۷۰سالہ علمی زندگی میں تصنیف و تالیف اور تعلیم و تعلّم کے ایسے چراغ روشن کیے ہیں، جو مدتوں ضوفشانی کرتے رہیں گے۔ میری نگاہ میں ان کا سب سے اہم علمی کارنامہ مولانا مودودیؒ کی تالیف تفہیم القرآن اور ترجمۂ قرآن کا انگریزی ترجمہ ہے، جس کے ’پیش لفظ‘ کے چند جملوں میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں:
ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، میرے بھائی، زندگی بھر کے ساتھی اور ہم دم دیرینہ نے بڑی مہارت، مشاقی اور قدرتِ کلام سے اسے انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں قطعاً جھجک نہیں ہے کہ ڈاکٹر انصاری نے اظہار و بیان کے اس معیار کو برقرار رکھاہے، جس کا اُردو میں اہتمام و انصرام سیّدابوالاعلیٰ مودودی کیا کرتے تھے۔ یہ ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن کی زبان کو ’اُردوے مبین‘ کہا تھا اور ظفراسحاق نے اسے ’انگریزی مبین‘ میں ڈھال دیا، وما توفیقی الا باللّٰہ۔
راجا بھائی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکنِ رکین تھے۔ مرکزی شوریٰ کے رکن رہے، البتہ نظامت وغیرہ کی ذمہ داریوں سے بچتے رہے۔ لیکن کراچی جمعیت کے مزاج اور پھر اس کی روشنی میں پورے پاکستان کی جمعیت کے مزاج اور کردار کی تشکیل میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ الحمدللہ جمعیت کے بے شمار پہلو ہیں، لیکن اس کا اصل تاریخی کارنامہ ،تعلیمی دنیا میں دین کے اس وسیع اور ہمہ گیر تصور کا فروغ ہے، جو تحریکِ اسلامی نے اس دور میں دیا ہے اور جس کے نتیجے میں اسلام انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کے صورت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پھر جمعیت کا تربیتی نظام اور ایک مخصوص کلچر ہے جس کا طرئہ امتیاز فکری اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ایک ہمدردانہ، مشفقانہ اور برادرانہ فضا کا قیام ہے، جسے رحماء بینھم کے قرآنی مطالبے کے حصول کی ایک کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی برادرانہ کلچر اسلامی تحریک میں بھی ایک امتیازی مقام رکھتا ہے اور خدانخواستہ جس کی کمی تحریک کی مضبوطی کو ضعف پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔
رفقاکے درمیان ذاتی تعلق، بھائی چارہ، ایک خاندان اور ایک برادری بن جانے کی روح وہ چیز ہے، جس نے جمعیت کو ایک منفرد اسلامی تحریک بنادیا ہے۔ الحمدللہ بہت سے نشیب و فراز کے باوجود یہ روح اور یہ فضا قائم و دائم ہے۔ اس فضا اور برادرانہ تعلق کو جمعیت کی پہچان بنانے میں خرم بھائی اور راجا بھائی کا بڑا دخل ہے اور مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ان دونوں کی رفاقت میں اس عمل میں ایک ادنیٰ شریک کار کی حیثیت سے مددگار رہا ہوں۔ نیز اس امر کے اعتراف میں بھی کوئی باک نہیں کہ اس پہلو کو اُجاگر کرنے میں ہم نے اخوان کے رہنما ڈاکٹر سعید رمضان سے بہت کچھ سیکھا اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا گیا۔
راجا بھائی کے علمی مقام اور خدمات پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے اور ان کی کتابوں اور مضامین کا صرف انٹرنیٹ پر موجود ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کی حفاظت، طباعت اور تشہیر پر توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس تحریر میں راجا بھائی کی زندگی کے جن پہلوئوں کے بارے میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور ان میں سب سے اہم ان کا اسلام سے کمٹمنٹ، اسے صرف ایک نظریے اور عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے نصب العین کے طور پر اختیار کرنا اور اس پر جم جانا ہے۔ جمعیت کے دستور کی تدوین کے وقت، زندگی کے مقصد کے اظہارواعلان کے لیے جس آیت قرآنی کا انتخاب کیا گیا، وہ خرم بھائی اور راجا بھائی ہی کی تجویز کردہ تھی اور اپنی کم علمی کے باوجود میری زبان سے بھی بے ساختہ نکلا ع
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ (انعام ۶:۱۶۱-۱۶۲)
کم از کم میں نے اس زمانے میں یہ تازہ تازہ رُوداد جماعت اسلامی میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمۃ کے خطبۂ جمعہ میں پڑھی تھی، جو دل و دماغ کو مسحور کیے ہوئے تھی۔
راجا بھائی کی پوری زندگی کھلی کتاب کے مانند ہے۔ ہزاروں افراد نے ان سے استفادہ کیا ہے اور سیکڑوں نے ان کو قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھا ہے۔ ان کی اولیں اور آخری وفاداری اپنے اللہ سے اور اللہ کے دین سے تھی۔ جو کچھ انھوں نے کیا، لکھا اور کہا، وہ اپنے مالک کی رضا کے حصول کے لیے اور اس دین کی خدمت کے جذبے سے اور بڑے شوق اور ولولے سے کیا، جسے انھوں نے زندگی کا مقصد اور حاصل بنایا تھا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے اور ان شاء اللہ ، اللہ کے فرشتے بھی گواہی دیں گے کہ وہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے، جنھوں نے رب سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے میں اپنی حد تک ہرکوشش کی اور جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوگئے: ذَاقَ طَعَمَ الْاِیْمَانُ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالِاسْلَامِ دِیْنًا۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (احزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وقت آنے کا منتظر۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
راجا بھائی نے جماعت اسلامی سے باقاعدہ رکنیت کا تعلق قائم نہیں کیا اور اس کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں، جن میں ان کا مزاج، علمی مصروفیات، ۱۹۵۸ء میں ملک سے باہر چلے جانا اور ایک طویل مدت تک باہر ہی رہنا اور پھر تعلیمی کیریئر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا شامل ہیں۔ خود یونی ورسٹی کیریئر اور علمی کام، اور خصوصیت سے تخصص کے آداب اور تقاضے شامل ہیں۔ سیاسی امور پر کہیں کہیں اختلاف راے بھی رہا ہے اور ہم بارہا اس پر بات کرتے رہے ہیں، لیکن جہاں تک جماعت کے مقصد، طریق کار اور مجموعی خدمات کا تعلق ہے، جماعت سے ان کی محبت اور تعلق کسی رکن سے کم نہیں تھی۔
ایک بار میں نے راجا بھائی سے کہا کہ ’’دل چاہتا ہے کہ خرم کی طرح تم بھی جماعت کے اندر ہوتے‘‘ تو اپنے مخصوص انداز میں تبسم اور آنکھوں کی چمک کے ساتھ جواب میں کہا: ’’جماعت میرے اندر ہے، میرے جماعت کے اندر ہونے سے کیا فرق پڑے گا، میں تو اپنے کو اس کا اہل نہیں سمجھتا‘‘۔ اس پر مَیں نے ان کو مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا واقعہ سنایا۔ وہ جماعت سے نکل گئے تھے، مگر الحمدللہ میرا ان سے تعلق ہمیشہ ویسا ہی رہا اور وہ بھی ہم پر اسی طرح شفقت فرماتے رہے۔ ایک بار بڑے پیارے انداز میں مولانا اصلاحی صاحب نے فرمایا:’’میں جماعت سے نکل گیا ہوں، لیکن وہ جماعت جو میرے اندر ہے، وہ کبھی نہیں نکلتی۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت کوئی اچھا کام کرتی ہے یا اسے کوئی کامیابی ہوتی ہے تو مَیں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اور جب بھی جماعت کوئی غلطی کرتی ہے یا اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مجھے اس پر دُکھ ہوتا ہے‘‘۔
میرے خیال میں جماعت سے تعلق کے سلسلے میں یہ ایک بڑا سچا پیمانہ ہے اور راجا بھائی رکن نہ ہوتے ہوئے بھی اس پر ہمیشہ پورے اُترے۔ جمعیت کے دور کے بھائی چارے اور برادرانہ کلچر کی جو بات مَیں نے کی ہے، وہ کلچر راجا بھائی کی پوری زندگی میں دیکھا جاسکتاتھا۔ ان کی زندگی کا میرے لیے بہت ہی پیارا پہلو ان کی ذاتی رفاقت، محبت، خیرخواہی، اپنائیت، بے ساختگی ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا ہی دل آویز پہلو تھا، جو ان کی نیت کی پاکی اور حُسنِ سلوک کا مظہر تھا۔ ان کی زندگی میں دو رنگی نہیں تھی۔ مفاد پر مبنی تعلق کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نہیں پڑا تھا۔ ان کا گھر ہی نہیں، ان کا دل بھی ہر ایک کے لیے کھلا تھا اور یہ تعلق بے لوث تھا جس نے ان سے رشتے کو ایک مقدس رشتہ بنا دیا تھا۔ پھر وہ دوسرے کی بات بڑے سکون سے سنتے تھے اور اختلاف بھی اس طرح کرتے تھے کہ دل نہ ٹوٹنے پائے۔ خوش کلامی ہی نہیں، خلوص اور خیرخواہی وہ عناصر تھے، جو ان سے اختلاف کو ایک رحمت بنادیتے تھے اور خودپسندی، غرور اور من آنم کہ من دانم کا ان کی زندگی میں کوئی مقام نہیں تھا۔
پھر یہ بھی واضح رہے کہ راجا بھائی بڑے مجلسی انسان تھے۔ وہ بولتے آہستہ آہستہ تھے، کبھی تو یہ احساس ہوتا تھا کہ الفاظ کے باب میں بخل سے کام لے رہے، یا سوچ سوچ کر ، ٹھیرٹھیر کر بول رہے ہیں، حالانکہ خیالات کو حُسن و خوبی سے ادا کرنے میں کوئی ان کی ٹکر کا نہیں تھا، بس یوں سمجھ لیں کہ ان کا اسٹائل تھا۔ ان کے الفاظ میں جو شیرینی، ان کے انداز میں جو اپنائیت، ان کے لہجے میں جو خلوص اور ان کے احساسات میں جو خیرخواہی اور دردمندی بلکہ قدرافزائی ہوتی تھی، وہ دل و جان کو مسحور کردیتی تھی ،گویا ؎
ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
راجا بھائی کا رویہ بڑوں کے ساتھ، ہم عمروں کے ساتھ، اپنے سے کم عمر کے ساتھیوں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ بڑا خوش گوار اور اپنائیت سے بھرپور ہوتا تھا۔ نیز ان کے مزاج میں خوش گوار مزاح کا ایک رنگ بھی تھا، جسے ان کی مسکراہٹ جو کبھی کبھی ہنسی کی شکل اختیار کرلیتی تھی کچھ اور بھی دل آویز بنادیتی تھی ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
راجا بھائی کئی سال سے شدید بیمار تھے، لیکن مجال ہے کہ کبھی حرفِ شکایت ان کی زبان پر آیا ہو۔ صبر اور شکر کا وہ پیکر تھے۔ الحمدللہ، ان کے بیٹے یاسر اور ان کی بہو سمیرا نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا، خصوصیت سے سمیرابیٹی نے جس لگن اور محنت سے اپنے سُسر کی خدمت کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تعالیٰ، یاسر، سمیرا اور تمام اہلِ خانہ کو بہترین اجر سے نوازے اور ان کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت بخش کر ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہترین اجر کا سامان فرمائے۔ سمیرا بیٹی نے بتایا کہ انتقال سے چند دن قبل ہسپتال میں بار بار میرے بارے میں پوچھتے رہے، حالانکہ ہسپتال جانے سے ایک دن پہلے ہی مجھ سے بات ہوئی تھی۔ ہفتہ کو ہسپتال سے گھر واپس آئے، طبیعت خوش گوار محسوس کر رہے تھے۔ سمیرابیٹی سے فرمایش کرکے تھوڑی سی مٹھاس کھائی اور پھر ہمیشہ کی نیند سوگئے۔ الحمدللہ، خرم بھائی اور راجا بھائی سے تعلقات ان کی ذات تک محدود نہیں رہے۔ ہماری اولادیں بھی ایک دوسرے سے قریب ہیں اور ہر ایک کی اولاد نے ہم تینوں کو خاندان کے بڑے کا درجہ دیا ہے۔ خرم بھائی اور راجا بھائی دونوں کے بچے مجھے خورشید چچا ہی کہتے ہیں اور میرے بیٹے اور بیٹیاں اُن کو باپ کا سا احترام دیتے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
ان ۷۰برسوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو خرم ہوں یا راجا، ان کو اپنے سے جدا اور دُور محسوس نہیں کرتا، اور یہی احساس ہے جو دونوں کے بچھڑ جانے کے باوجود ان کو مجھ سے جدا نہیں ہونے دیتا:
من تو شدم ، تو من شدی
من تن شدم ، تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں
من دیگرم ، تو دیگری