’اسلامو فو بیا‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے بر طانیہ میں استعمال کیا گیا ۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’یہ اصطلاح ۱۹۹۱ء میں امریکی رسالہ Insightمیں معرض وجو د میں آئی‘‘۔ ا یٹن دیمت اور سلیما بن ابراہیم نے فرانس میں یہ اصطلاح ۱۹۲۵ء میں استعمال کی، جب انھوں نے کہا کہ: occes detive islampnobia۔۱ اگرچہ اُس وقت یہ اصطلاح، آج کے عہد میں زیراستعمال اصطلاح کے تناظر میں نہیں تھی۔
کسی بھی چیز یا عمل سے خوف کھانے کو ’فوبیا‘ کہا جاتا ہے ۔اس کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہو تی ہیں، مثلاً وہ شخص جس کو پانی سے ڈر لگتا ہو،اس کے لیے ’ہایڈروفوبیا‘ کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے۔اسی طرح سے ایک اصطلاح ’فوبوفوبیا‘ ہے۔ اس مرض کامر یض کسی حادثے کو دیکھ کر خوف زدہ رہتا ہے ۔کچھ لو گوںکواُونچائی سے ڈر لگتا ہے وہ ’ایکروفوبیک‘ کے مریض ہو تے ہیں، جب کہ ’مونوفوبیک‘ بھی ایک نفسیاتی بیماری کا نام ہے جس کا مریض تنہا ئی سے ڈر تا ہے۔
’فوبیا‘ (phobia)خوف، ڈر اور نفرت رکھنے کو کہتے ہیں۔یہ ذہن کی اس مریضانہ کیفیت کا نام ہے، جو کسی کی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہو تی ہے۔۲چیمبرز ڈکشنری میں ’فوبیا‘ کا یہ معنی مذکور ہے: a fear, aversion, or hatred esp, morbid and irrational ۔
’فوبیا‘ غیر منطقی اور مریضانہ ذہنیت کا نام ہے، جو خوف ،بے رغبتی اور نفرت پر مبنی ہے۔ جب لفظ ’فوبیا‘ کو اسلام کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کے معنی و مفہوم: ’’اسلام سے خوف،ڈر یا نفرت‘‘ کے ہوتے ہیں، جو مخالفین اسلام اور معترضین کے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے ۔اسلام کی حقیقی تصویر کو بگاڑنا، مسلما نوں کو بد نام کرنا ،انھیں جاہل اور خوف ناک رُوپ میں پیش کرنا،اور انھیں ذہنی و جسمانی طور سے پر یشان کرنا،تشددکا نشانہ بنانا،مساجد اور اسلامی شعائر پر حملے کرنا،مسلمانوں کے مخصوص لباس پر طعنے دینا اور ان کے تہذیبی تشخص اور جائز اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا وغیرہ، ’اسلامو فوبیا‘ کی مختلف شکلیں اور حر بے ہیں۔ اگر جامع الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے:
’اسلامو فوبیا‘ سے مراد، اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذ یب و ثقافت سے نفرت اور خوف کا اظہار اور عمل ہے۔’اسلامو فوبیا‘ ایک ایسا نظر یہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکثر مسلمان جنونی ہو تے ہیں جو غیر مسلموں کے بارے میں متشددانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘ (OIC) نے ’اسلامو فوبیا‘ کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:’’اسلام کے خلاف غیر منطقی، جارحانہ اور سخت نا پسند ید گی کے اظہار کا نام ’اسلامو فوبیا‘ ہے‘‘۔
اسی طرح ’اسلامو فوبیا‘ میں مسلمانوں کو نفسیاتی ،سماجی اور تہذیبی طور پر ہراساں کر نا اور اسلام کے ماننے والوں کو ملک و قوم کے اقتصادی ،سماجی ،سیاسی اور روز مرہ زندگی سے بے دخل کر نا بھی شامل ہے۔دنیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ عملاً ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔مخا لفینِ اسلام کی طرف سے یہ مبنی بر جاہلیت بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ: ’’اسلام میں کو ئی تہذیب ہی نہیں ہے اوراگر ہے بھی تو وہ مغربی تہذیب سے ہر اعتبار سے کم تر ہے‘‘۔ علاوہ ازیںوہ اپنے آپ کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو کم تر باور کر تے ہیں۔بر طانیہ کا ایک تحقیقی ادارہ ’دی رُونی میڈ ٹرسٹ‘ بائیں بازو کا ایک ’مرکزدانش‘ (تھنک ٹینک) ہے، جس نے۱۹۹۷ء میں: ’اسلاموفوبیا ہم سب کے لیے چیلنج‘ کے عنوان کے تحت ایک دستاویز میں ’اسلامو فوبیا‘ کی تعریف کے درج ذیل آٹھ نکات بیان کیے ہیں:۳
l اسلام ایک توحید پرست، جامد اور ناقابلِ تغیر مذہب ہے۔lاسلام ایسا منفرد مذہب ہے، جس میں دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے مختلف اقدار ہیں۔ lیہ غیر معقول،قدامت پرست، جنسی تفریق پر مبنی، خطر ناک، دہشت گردی اور تہذیبی تصادم کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔lمغر بی فکر و تہذیب سے کم تر مذہب ہے۔ l اسلام ایک سیاسی نظر یہ ہے۔ lاسلام مغر بی فکر و اقدار پر غیر معمولی تنقید کر تا ہے۔
یہ سب باتیں توہیں آج کی، لیکن ہم ماضی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے یہی پروپیگنڈا چلا آرہا ہے۔ اسلام کے خلاف بُغض و عنا د ،نفرت اور خوف بعثت نبویؐ سے ہی شروع ہوگیا تھا۔جب اللہ کے رسول ؐ نے لو گوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو دشمنان اسلام نے اسلام کے خلاف زبردست محاذ سنبھالا۔وہ ہر اس جگہ پہنچ جاتے ،جہاں اللہ کے رسول ؐ پیغام پہنچاتے تھے۔ وہ اللہ کے رسول ؐ پر بے جا الزامات و اعتراضات عائد کر تے تھے کہ یہ نعوذ باللہ ’کا ہن‘ اور ’شاعر‘ وغیرہ ہیں، اور لوگوں سے کہتے تھے کہ ان کی باتوں میں نہ آیئے ۔
اس کی ایک مثال حضرت طفیلؓ بن عمر دوسی کی ہے۔ جس زمانے میں حضرت طفیل ؓ کا مکہ آنا ہوا، قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو نبی کر یم ؐ کے پاس آنے سے روکتے تھے، ان کے پاس بھی پہنچے اور کہا کہ: ’’تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو۔ اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص نے ہمارے اندر پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کی زبان میںکیا سحر ہے، جس کے زور سے وہ بیٹے کو باپ سے،بھائی کو بھائی سے،اور بیوی کو شوہر سے لڑادیتا ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ کہیں تم اور تمھاری قوم بھی ہم لو گوں کی طر ح اس کے دام میں نہ آجائے۔ اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو‘‘۔ غر ض کہ ان لوگوں نے انھیں ہرممکن طریقے سے سمجھا کر نبی کر یمؐ کی ملاقات سے روک دیا۔طفیل دوسیؓ نے اس خیال سے کہ مبادا نبی کریمؐ کی آواز کانوں میں پڑجائے، دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر بالآخر وہ نبی کریمؐکی زبان سے قرآن کی آیتیں سن کر متحیر ہو گئے اور اسلام کی آغوش میں آگئے۔۴
سخت جاں قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، دشمنان اسلام کااسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف و خطرہ اور عنا دو بغض بھی بڑھتا گیا۔ دور نبوت کے بعد عہد فاروقی میں جب مسلمانوں نے یروشلم اور شام کو فتح کرلیا، جو اس وقت عیسائیوں اور یہودیوں کا مر کز تھا تو انھوں نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کیں۔اس کے بعد دوسری صدی عیسوی میں مسلمانوں نے یورپ کے مغر بی حصے کی طر ف رخ کر کے اسلام کی روشن تعلیمات کو پہنچایا۔ بعد میں سلطان محمد فاتح [۳۰ مارچ ۱۴۳۲ء-۳مئی ۱۴۸۱ء] نے اس کو مزیدوسعت دے کر اسلامی حکومت کا جھنڈا گاڑ دیا۔علاوہ ازیں قسطنطنیہ [استنبول]کو بھی فتح کر لیا۔
اس سے قبل جب ۱۰۹۹ ء کے بعد عیسائی اور یہودی دنیا نے صلیبی جنگوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف ،نفرت، خطرہ اور منفی نفسیاتی اثرات مر تب کیے۔اسلامی تاریخ میں صلیبی جنگوں کا عہد نازک ترین دور تھا ۔پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کی اور ان کے مذہب کی بیخ کنی کے لیے اُمنڈ پڑی تھی، مگر انھوں نے پامردی اور جرأت کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے ان کے ارادوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ وہ ان کی تاریخ کا بہت ہی زریں کا رنامہ کہا جاسکتا ہے۔ ۵
’اسلامو فوبیا‘ منظم طر یقے سے صلیبی جنگوں سے شروع ہوا، کیوںکہ عیسا ئی دنیا کو فوج کی کثرت اور بے شمار وسائل کے باوجود کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو ا۔مشہور مصنفہ اور راہبہ کیرن آرم سٹرانگ [پ:۱۹۴۴ء]نے اعتراف کیا کہ:’’اسلامو فوبیا کی تاریخ صلیبی جنگوں سے ہی جاملتی ہے‘‘۔۶ یعنی عیسائی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف رکھنے کی تاریخ محفوظ ومدون ہے۔
مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ رویہ ۲۰ویں صدی کے اختتام اور نائن الیون (۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء) کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔اسلامی تعلیمات اور اقدار کو مغر ب نے اپنی پیش کردہ لبرل جمہوریت کے نظر یے سے متصادم قرار دیتے ہو ئے کہا کہ: ’’اسلام اور مسلم دنیا مغر بی فکر و اقدار اور تہذ یب کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘۔اس نظریے کے تحت مغرب اور یو رپ اپنی تہذ یبی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسلام کو بُرا نام دینے اور مسلمانوں کے خلاف نت نئے حر بے استعمال کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جب کچھ مہم جوئوں نے امریکا کے ’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘ پر حملہ کیا (جو کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا)۔ اس کے بعد مغرب اور مغرب کے زیراثر قوتوں کے ہاں اسلام کی تعلیمات، تہذیب اور تاریخ کو نشانہ بنانے میں کسی قاعدے، کلیے،عدل اور اخلاق کا لحاظ نہ کیا گیا۔ تب سے اب تک مسلمانوں کے تہذ یبی اور ثقافتی اداروں کے ساتھ مساجد، اسکولوں اور اسلامی مراکز پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔
مغرب میں ایک ہی بات بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اسلام ’انتہا پسندی‘ کا ذریعہ ہے۔ یہ امریکا میں مارچ ۲۰۰۲ ء میں ۲۵ فی صد لوگوں کی راے تھی، جب کہ ۲۰۱۴ء میں یہ ۵۰ فی صد تک پہنچ گئی۔ ۷ برطانیہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔
کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں: ’’ نائن الیون کی پانچویں بر سی کے موقعے پر پاپاے اعظم بینیڈکٹ [پ: ۱۹۲۷ء] نے جر منی میں جو متنازع بیان دیا، اس نے ’اسلامو فوبیا‘ کی لہر کو اور بڑھادیا۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ’اسلاموفوبیا ‘کی تحر یک کو فروغ مل رہا ہے اور مغر ب ایک نئی صلیبی جنگ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ ۸
مغرب اور یو رپ میں اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی تضحیک کی جاتی ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے، کیو ںکہ انھیں معلوم ہے کہ مسلمان رسول پاک ؐ اور ان کی تعلیمات سے بے حد عقید ت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مغرب اور یو رپ میں ہرزمانے اور ہر وقت اللہ کے رسول ؐ پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں وہاں کا ہر طبقہ پیش پیش ہے۔چاہے وہ حکمرانوں یا پالیسی سازوں کا طبقہ ہویا دانش وروں، مصنفوں،فن کاروں اور ادبیوں کا، غرض کہ ان میں ہر گروہ یا طبقے کے سرگرم افراد اسلام اور نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس پر حملہ کرنے کی کو شش میں مصروف عمل ہیں۔
مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ [م: اکتوبر۲۰۰۶ء] نے نبی کر یم ؐ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کے حوالے سے مغرب کے تاریخی کردار کے بارے میں لکھا ہے: ’’تاریخ کی کسی بھی بڑی شخصیت کو اتنا ہتک آمیز طور پر مغر ب میں پیش نہیں کیا گیا، جتنا کہ محمد[صلی اللہ علیہ وسلم]کو پیش کیا گیاہے‘‘۔ ۹
مغر ب میں اسی فضا کو پروان چڑھایا جارہا ہے، گویا: ’’اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہرچیز کا دوسرا نام انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے‘‘۔دنیا میں جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی شہریت پر سوالات ،پاسپورٹ مشکوک،نقاب و حجاب میں ملبوس عورتیں شکوک و شبہات کی شکار ہیں۔ جس مذ ہب کو سب سے زیادہ ہدف تنقید و ملامت بنایا جارہا ہے وہ اسلام ہی ہے۔ CSEW [کرائم سروے فار انگلینڈ اینڈ ویلز]کی تحقیق کے مطابق نفرت اور عداوت کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں،جن کا تنا سب۸ء۳ فی صد ہے۔ اس کے بر عکس ہندو ۳ء۰فی صد، عیسائی ۱ء۰فی صد اور باقی مذاہب کا تناسب ۵ء۰ فی صد ہے ۱۰، اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر تشدد کے بھی بے شمار واقعات رونما ہو ئے ہیں۔ CAIR [کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز] کے مطابق امریکا میں: ۲۰۰۵ ء کے دوران ۱۹۷۲ ،جب کہ ۲۰۰۶ء میں ۲ہزار ۴سو۷۲ حادثات اور حملے مسلمانوں پر ہو ئے۔۱۱
اسی چیز کو پھیلا کر دیکھیے تو مغر ب میں نائن الیون کے بعد جب کسی مسلمان سے کو ئی جر م یا خطا سرزد ہو جاتی ہے تو اس کو نہ صر ف شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ قانون کے دائرے میں بھی لیا جاتا اور اسلام پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس کسی دوسرے مذ ہب سے تعلق رکھنے والے شخص سے جر م یا قتل سرزد ہو جاتا ہے تو صرف اس کی ذات کو تنقید کی زد میں لایا جاتا ہے۔
میڈیا ’اسلامو فوبیا‘کی جڑ مضبوط کر نے اور پھیلانے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔مسلمانوں کو متشدد، گمراہ ،جاہل ،انتہا پسند اور جنو نی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مغر ب اور یورپ کا کو ئی ایسا اخبار اور رسالہ نہ ہو گا، جس میں آئے روز اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی نہ کی گئی ہو۔برطانیہ کے قومی اخبارات ہر ماہ اوسطاً پانچ سو سے زیادہ تحریریں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق شائع کرتے ہیں ۔ان میں سے ۹۱فی صد مضامین میں منفی تصویر پیش کی گئی، جب کہ صرف ۴فی صد نے کسی حد تک مثبت خیالات کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ ۶۰ فی صد میں اسلام کو مسیحی اور مغر بی دنیا کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور زبان بھی اس کے لیے بازاری قسم کی استعمال کی جاتی ہے،مثلاً پیغمبرؐ اسلام کے لیے وہ جان بوجھ کر ذومعنی اور ناشائستہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح جب مسلم دنیا میں کو ئی شخص یا عورت اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی شبیہہ بگاڑنے کی کو شش کرتا یاکر تی ہے تو مغر بی اور یورپی میڈیا اس کو امت مسلمہ کے لیے ’رول ماڈل‘ کی حیثیت سے پیش کر تا ہے۔جس کی بدترین مثال بھارتی نژاد سلمان رشدی، بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین،پاکستان کی ملالہ یوسف اور صومالیہ کی ایان حرثی علی کی ہے۔ اس رویے پر کیرن آرم سٹرانگ نے لکھا ہے:
مغر بی اسکا لرز نے اسلام کو کھلے عام گستاخانہ اور ہتک انگیز مذہب قرار دیا اور پیغمبرؐ اسلام پر جھوٹ کہنے اور تلوار پر مبنی پُرتشدد مذہب کی بنیاد ڈالنے کا الزام دہرایا۔۱۲
مغر بی میڈ یا کی یہ سب زہر افشانیاں،جنھیں وہ ’آزادیِ راے ‘کہتے ہیں ،صرف اسلام، پیغمبرؐ اسلام اور مسلمانوں تک ہی محدود ہیں۔لیکن جب بھی کو ئی ان کی فکر و تہذیب، ثقافت، سیاست اور اخلاقیات پر کسی قسم کی تنقید کر تا ہے،تو اسے وہ آزادیِ اظہارِ راے پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
مغر بی اور یو رپی ممالک میں مسلسل نہ صر ف اسلام اور پیغمبرؐ اسلام بلکہ مساجد ،اسلامی مراکز، اس نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں، بلکہ روز مرہ کاموں ،سفر اور دفاتر میں مسلم خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔
۲۰۱۳ ء کی اسی رپورٹ میں ایک ۲۱ سالہ حاملہ خاتون کی مثال پیش کی گئی، جب اس پر حملہ کیا گیا تو اس وقت وہ حجاب پہنے ہو ئی تھیں۔ د و مردوں نے اس کا اسکارف چھین لیا۔پھر اس کے بال کٹوا ئے، اس کے بعد اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، جس کی وجہ سے اس کا حمل ضا ئع ہوگیا۔۱۳ اسی طر ح سے بہت سی خواتین نے اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کی داستان الم سنائی۔ لندن میں حال ہی میں ایک شر م ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک باحجا ب مسلم لڑ کی کو بھر ی ٹر ین میں نسلی تعصب کی بنیاد پر حملے کا نشانہ بنا یا گیا۔ ۱۴
مغرب اور یورپ میںمیڈیا ،ادبا،اور دانش وروں کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ بھی ’اسلاموفوبیا‘ کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے ۔امریکا میں اس کی بہت سی مثالیں ضرب المثل بن چکی ہیں۔ یورپ میں فرانس وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان(۶۰ لاکھ) آباد ہیں۔مارین لوپون [پ: ۱۹۶۸ء] وہاں مسلم مخالف قدامت پسند جماعت ’فرنٹ نیشنل‘ [تاسیس: ۵؍اکتوبر ۱۹۷۲ء] کی سربراہ نے ۲۰۱۰ء میں بیان دیا کہ ’’جب مسلمان، گلیوں اور سڑکوں پر عبادت کر تے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ نازی جرمن دوبارہ فرانس پرقبضہ کریں گے‘‘۔ وہ حکومت سے حجاب اور مسلم مہاجرین کی آمد پر پابند ی کا مسلسل مطالبہ کر تی آرہی ہے۔ اسلام مخالف یورپی حکمرانوں میں ہالینڈ کا خیرت دیلدرس بہت مشہور ہے اور پارٹی فارفر یڈم کا سربراہ بھی ہے۔ جس کا لائحہ عمل ہے کہ:’’ اب وہ وقت آپہنچا ہے جب یورپی معاشروں کو مسلمانوں سے پاک کر دیا جائے اور ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں پر اپنی سر حد یں بند کر دیں‘‘۔۱۵
بعض ماہرین کے مطابق:’’اسلامو فوبیا مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نسلی تعصب کا نام ہے‘‘۔ مذہبی اور نسلی تعصب زیادہ تر ڈنمارک ،جرمنی،ہنگری، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ایسٹونیا،یونان اور اٹلی میں پایا جاتا ہے۔ ۱۶ مغر بی اور یورپی دنیا میں مسلمانوں کے لیے ’Others‘ یعنی ’دوسروں‘ کا لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ ڈاکٹر موسیلا تن کیری (ہارورڈ یونی ورسٹی) لکھتی ہیں:
یورپ اور مغرب، اسلام اور مسلمانوں کو دشمن کے طور پرپہلے ہی سے پیش کر تے آرہے ہیں۔ قرون وسطیٰ سے مسلمانوں کو مغرب میں غیروں کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بالخصوص ترقی ،قوم، فرد اور سکولرائزیشن کی بنیاد پر مغرب ایک ایسے مستقل میلان طبع کی نشان دہی کرتا ہے، جس کے زیر اثر اسلام کو غیر مہذب رو یے سے جوڑا جاتا ہے، اور مسلمانوں کی اقدار اورشناخت کو لاحق خطرے کی شکل میں داخلی دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے ساتھ برسرِ پیکار خارجی دشمن بھی سمجھا جاتا ہے۔۱۷
آسٹریلیا میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور مذہبی عدم روا داری کا غیر مسلموں کے مقابلے میں تقریباًتین گنا زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تقریباً ۶۰ فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ انھیں ’اسلاموفوبیا‘کی کسی نہ کسی قسم کا سامنا رہا ہے۔۱۸اسی طرح سے ایئرپورٹ پر جہاز سے چڑھتے اور اُترتے وقت بھی مسلمانوں کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔نومبر ۲۰۱۵ء میں امریکی ریاست شکاگو سے فلاڈلفیا جانے والی پرواز کے دومسافروں کو اس وجہ سے جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا، کیوںکہ یہ آپس میں عربی بول رہے تھے۔بر طانیہ میں مسلمانوں پر حملوں میں ۳۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹ اور مسلمان اپنے آپ کو مغر بی اور یورپی ممالک میں قدرے الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔
بھارت میں بھی مسلم مخالف لہر زوروں پرہے، جہاں آئے روز مسلمان نوجوانوں کو اسلام پسندی کی بنیا د پر گرفتار کر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس طرح مسلم شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں کو بہت سے حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ’اسلامو فوبیا‘کی بنیاد پر ہی گو دھرا، میرٹھ اور مظفر نگر جیسے فسادات واقع ہو ئے۔۲۵ ؍اگست ۲۰۱۵ء کو بنگلور میں ایک لڑکے شاکر کو مبینہ طور پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے کھمبے سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹااور اس کے کپڑے تار تار کر دیے۔ اسی طرح سے مئی ۲۰۱۵ ء کو ممبئی میں ایم بی اے گر یجویٹ ذیشان کو ایک کمپنی نے یہ کہہ کر نوکری دینے سے انکار کر دیا کہ :’’ہم صرف غیر مسلم امید واروں کو ملازمت پر رکھتے ہیں‘‘۔۲۰
راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آرایس ایس) ، بجرنگ دل ،بی جے پی اور دیگر بھگوازعفرانی تنظیموں اور تحریکوں کے قائدین اور سیاسی زعما کے زہر آلود نظریات و بیانات سے بھارت میں ہرمسلمان پریشان ہے۔ زعفرانی تحریکات ہندو اکثر یت کو بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیںکہ: ’’مسلمان بھارت میں اپنی آبادی میں اضافے کے ذریعے اسے مسلم ملک بنانے کی سازش میں لگے ہو ئے ہیں اور چند برسوں میں بھارت ایک مسلم ملک بن جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں اب کھلے بندوں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں کسی بھی جائز مطالبے کی حق دار نہیں ہیں۔
۲۹ تا ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو آر ایس ایس کے قومی سطح کے اجلاس نئی دہلی میں جس مسئلے کو مرکزی حیثیت دی گئی، وہ مسلمانوں کی ملک میں بڑھتی ہو ئی آبادی تھا۔اجلاس کے اختتام پر ایک قرارداد میں دو باتوں کا اظہار کیا گیا۔ ایک یہ کہ: ’’بھارتی مذاہب ہندومت ،بدھ مت اور جین مت کے ماننے والوں کی آبادی میں تشویش ناک حد تک کمی آرہی ہے‘‘۔ دوسری یہ کہ: ’’مسلمانوں کی آبادی میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے‘‘، اور آخر میں یہ پیغام دیا گیا کہ: ’’اسلام، مسلمان اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں۔ یہ بھارت ماتا کو نہیں مانتے ‘‘۔۲۱ آرایس ایس سے وابستہ ہریا نہ کے وزیر اعلیٰ نے انڈین ایکسپریس سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ: ’’بھارت میں مسلمان رہیں مگر اس دیش میں ان کو گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا، یہ یہاں کی گئوماتاہے۔۲۲اس اعلان کے چندہی روز بعد ایک مسلمان محمد اخلاق کو ہندوئوں نے محض اس افواہ کی بنیاد پر کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے، مارمار کر ہلاک کر دیا۔
’اسلاموفوبیا‘ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاo وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا o (احزاب۳۳:۴۵-۴۶)اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اس ذمہ داری کا مکلف ٹھیرایا گیا :
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط ( ٰال عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی بنیاد پر ہی خیر امت ہے ۔اور ہر مسلمان دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار بنایا گیاہے۔یہ صرف چند مخصوص، تنظیموں ،اداروں اور علما کا کام نہیںبلکہ امت مسلمہ سے وابستہ ہر فرد کا کام ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میراراستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خودبھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوںاور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
آج دعوت الی اللہ کی اہمیت اور افادیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ مشرق و مغرب میں متلاشیانِ حق حقیقی راہ اختیار کر نے کے لیے ترستے رہتے ہیں، لیکن ان تک یہ پیغام حق پہچانے والا کوئی نہیں ہے۔مسلمانوں نے دعوت الی اللہ کے فریضے کے ساتھ بے حدغفلت برتی ہے، اب وہ وقت آگیاہے کہ تمام مسلمان اس کا رخیر کی انجام دہی میں تن من دھن سے لگ جائیں۔
اسلام کی حقیقی تصویر کو بگا ڑنے میں میڈیا زبردست کردار ادا کرر ہا ہے۔اسلام دشمن میڈیا اور معترضین زہر آلود مکا لمے اور بیانات دینے کا کو ئی مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مغربی اور یورپی لو گوں کو میڈیا نے اسلام کے تئیں جاہل اور گمراہ قراردیاہے۔ دوسری جانب وہاں کے لوگوںکی اسلام کے متعلق جو معلومات ہیں وہ یا تو اخبارات سے حاصل کر تے ہیں یا ٹی وی کے ذریعے سے ،جو اسلام کی انتہائی مسخ شدہ تصویر لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔You Gov سروے کے مطابق ۵۷ فی صد لوگ وہاں اسلام کے متعلق معلومات ٹی وی چینل کے ذریعے اور ۴۱ فی صد لوگ اخبارات سے حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کو میڈ یا کے تئیں حساس اور سنجیدہ ہونا چاہیے، اور مسلم حکومتوں کو میڈیا پر اچھی خاصی رقم خرچ کر کے میڈیا میں نہ صرف نمایندگی بلکہ کارِ دعوت کے لیے استعمال میں لانا وقت کی اہم ترین ضرور ت ہے۔
ہم اہلِ مغرب سے یہ نہیں کہتے کہ آپ اسلام، حضرت محمد، ؐ قرآن اور تہذیب ِ اسلامی پر علمی اور دیانت داری سے تنقید نہ کر یں، بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بازار ی زبان استعمال کرکے بے بنیاد اعتراضات ،پروپیگنڈا اور جھوٹے الزامات نہ لگائیں ۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں:
اسلام کو پیش کر نے میں انھوں نے بالعموم تعصب، جانب داری اور غیر سائنٹی فک اسلوب اختیار کیا ہے۔اسلام کے متعلق ان کی معلومات غلط، ناقص اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کو پورا حق ہے کہ وہ اسلام پر تنقید کریں لیکن پسندیدہ ، معتبر،سنجیدہ اور متوازن طر یقے سے۔۲۳
لیکن مسلمانوں کو بھی جواب دینے کے لیے روایتی طریقے سے ہٹ کر ایک نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ان کے اعتراضات ،الزامات اور پیغمبر ؐاسلام کی زند گی پر حملے کے جواب میں محض احتجاج اور مظاہر ے کر نا کو ئی حل نہیں ہے، اور نہ جذبات میں بہہ کر اور مشتعل ہو کر جارجیت کا جواب جارجیت سے دینے میں اسلام کا کچھ فائدہ ۔ علمی اور فکری میدان میں کود کر احسن طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام کے سا منے اسلامی تعلیمات کو عام کر نے کے سلسلے میں کانفرنسوں، کارگاہوں [ورکشاپس] دعوتی مہمات،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ،اداروں ، کتابوں، مضامین اور اس کے علاوہ ہرممکن طریقے سے مغربی اور یو رپی سازشوں اور کارستانیوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اسلام کی روشن تعلیمات کو اس طر ح پیش کیا جائے کہ ہر ایک ان تعلیمات سے متا ثر ہو۔
اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے ، خصوصاً خاندان کا تصور،بنی آدم،تصورِ عدل، تصورِ رحمت اور امن وغیرہ پراسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح سود،جوا،نسل پرستی، حرص مال وغیرہ کے خلاف تحریکات چلائی جائیں تاکہ ’اسلامو فوبیا‘ کے اصل محرکات پر ضرب لگے اور اسلام اور اُمت مسلمہ کے لیے راہ ہموار ہو جائے‘‘۔۲۴اس سلسلے میں باہمی اور مسلکی اختلافات اور فروعی مسائل کو بالاے طاق رکھ کر امت کے مفاد عامہ کے لیے پالیسیاں اور اہداف طے کیے جائیں۔
اسلام کا دوسرا نام ہی امن وامان ہے اور یہ عدل و انصاف قائم کر نے کے ساتھ ساتھ قیام امن کی بے حد تاکید کرتا ہے۔اسلام کا بنیادی نظر یہ قیام امن و عدل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ظلم، تشدد، فسطائیت ، فساد، جنگ،قتل غارت گری وغیرہ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔اس سلسلے میں اسلام اور اس کی بنیادی تعلیمات کو عام کر نے کا بھی ایک سنہرا موقع ہے۔ کیوں کہ دنیا اس وقت امن اور اس کی برکتوں کے لیے ترس رہی ہے۔مغر بی دنیا آج بھی اسلام اور پیغمبرؐ اسلام اور ان کی تعلیمات سے نہ صرف غلط فہمیوں کی شکار ہے، بلکہ لا علم بھی ہے۔ایک سر وے کے مطابق مغرب میں ۶۰ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کے متعلق واقفیت نہیں رکھتے ہیں، جب کہ ۱۷ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کو سرے سے جانتے ہی نہیں ۔۲۵
’اسلاموفوبیا‘ کی صورت میں اسلام کو درپیش چیلنج کا اُمت مسلمہ کو نہ صرف ادراک کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اسلام کو دنیا ے انسانیت تک پہنچانے کی بھر پو ر جدو جہد کر نے کی بھی اشد ضرورت ہے، تاکہ دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہو جائے، اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی یہ چال خود مغرب میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن جائے۔
۱- کرس ایلن،Islamophobia،لندن، ۲۰۱۰ء، ص ۵۔
۲- اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری ،شان الحق حقی ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پر یس، کراچی ۱۳ ۲۰ ،ص ۱۲۳۳
۳- Islamophobia: a challange for us all،لندن، ۱۹۹۷ء، ص ۳
۴- شاہ معین الدین احمد ندوی، مہاجرین ،جلد دوم۔دارالمصنفین، شبلی اکیڈ می اعظم گڑھ،۱۹۹۶ء ،ص ۲۴۷
۵- سیّد صباح الد ین عبدالرحمٰن ،صلیبی جنگ،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۵ء،ص ۳۹
۶- کیرن آرم سٹرانگ، دی گارڈین، ۸ستمبر ۲۰۰۶ء
۷- دی واشنگٹن پوسٹ، ۳ دسمبر ۲۰۱۵ء
۸- کیرن آرم سٹرانگ، ایضاً، ۸ستمبر ۲۰۰۶ء
۹- منٹگمری واٹ، Muhammad at Mecca، لندن ۱۹۵۳ء، ص ۵۲
۱۰- دیکھیے: The Fear of Islam at www.news.org
۱۱- عبدالرشید متین: The West Islam and the Muslim Islamophobia and Extremism
۱۲- کیرن آرم سٹرانگ: Muhammad. A Biography of the Prophet، نیویارک، ۱۹۹۲ء
۱۳- Huge Rise in Islamophobia، جریدہ نیوز ویک، ۱۰مئی ۲۰۱۵ء
۱۴- دیکھیے: Islamophobia in Briton ،ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۷ستمبر ۲۰۱۵ء
۱۵- سیّد عاصم محمود، دنیاے مغرب میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا، لاہور
۱۶- نیوز ویک، ۱۵مئی ۲۰۱۵ء
۱۷- www.commongroundnews.org
۱۸- روز نامہ انقلاب ،نئی دہلی، یکم دسمبر ۲۰۱۵ء
۱۹- روز نامہ انقلاب، نئی دہلی،نومبر ۲۰۱۵ء
۲۰- ’اسلامو فوبیا: محرکات ، اثرات اور تدارک‘ ،عرفان وحید ماہنامہ رفیق منزل ،دہلی، اکتو بر، ۲۰۱۵ء،ص ۲۳
۲۱- ناظم الدین فاروقی ،’مسلمانوں کی آبادی میں اضا فے کی حقیقت‘ ،سہ روزہ دعوت نئی دہلی ۱۰؍ اکتوبر۲۰۱۵ء
۲۲- اسرار الحق قاسمی،’مسلم دشمنی کی آگ میں بے جے پی‘،ماہنامہ ابلاغ ،ممبئی، نومبر۲۰۱۵ء،ص ۲۹
۲۳- پروفیسر خورشید احمد: Islam and The West ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۸ء، ص ۶۲
۲۴- عبدالرشید اگوان ،اسلامو فوبیا ،رجحانات ،اثرات تدارک،اقلیتوں کے حقوق اور اسلامو فوبیا ، ایفاپبلی کیشنز، دہلی۔۲۰۱۱ء میں۵۱۷
۲۵- The You Gov survey
اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں ۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔مسلمان کے مسلمان پر حقوق کے ضمن میں چندگزارشات پیش ہیں:
اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا دینی بھائی قرار دیا ہے۔جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کے جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کامحافظ اور ضامن ہو تا ہے ، اس کی ہرضرورت وحاجت کو ملحوظ رکھتا ہے، بالکل اسی طرح دینی بھائی اس کے لیے نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہے۔ جس طرح سے خونی رشتے مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہوتا ہے اسے نہ صرف قائم ودائم بلکہ مزید سے مزید تر مستحکم بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ ( الحجرات ۴۹:۱۰ ) ’’بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہے‘‘۔
اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دینے کے بعد یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)، یعنی آپس میں دوبھائیوں میں ملاپ کرا دیا کروــ۔چنانچہ اپنے بھائی کی اصلاح حال کی فکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپس میں ہمدرد و غم گسار اور شفیق و حلیم بن کر رہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فر مائی:
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کر تا ہے نہ اس کو کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر تا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے کو ئی مصیبت دُور کر ے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دُور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کی پردہ پو شی کر ے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پر د ہ داری فرمائے گا۔(بخاری)
ایک مسلمان کسی بھی تکلیف ،مصیبت اور پر یشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کے مسلمان بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو مصائب اور پر یشانیوں سے آزادکر ے۔ اگر اس کو کوئی حاجت پیش ہو تو اس کی حاجت روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کا انتظام کرے اوراس کے دکھ درد کو دُور کر نے کا ذریعہ بنے۔اس کو کسی ظلم و جبر کے شکار ہو نے سے بچائے۔ اس کو نصیحت کر نا اپنا فرضِ منصبی سمجھے۔اس کو نیکی کی طر ف را غب کر نے اور برائی سے نفرت پیدا کرنے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔ علاوہ ازیں اس کے بال بچوں کی تعلیم و تر بیت کا بھی خیال رکھے۔
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے آئینے کی طرح ہو تا ہے۔ آئینہ انسان کو اس کے جسم پر اور بالخصوص اس کے چہرے پر جو داغ دھبے ہو تے ہیں وہ ان کو من و عن دکھا تا ہے اور اس میں ذرہ بر ابر بھی کمی بیشی نہیں کر تا۔ آئینہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو اس کی موجودہ حالت کو پوری دیانت داری سے دکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے ایک مو من کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ فر مایا:’’ایک مومن دوسرے مو من کا آئینہ ہے اور ایک مو من دوسرے مو من کا بھائی ہے۔ اس کے ضر ر کو اس سے دفع کر تا ہے اور اس کی عدم موجودگی اس کی نگہبانی کر تا ہے۔ (سنن ابوداؤد )
آئینہ کسی بھی شخص کو غلط فہمی میں نہیں رکھتا ہے اور نہ کسی کو دھو کا ہی دیتا ہے بلکہ وہ اس کو اپنی اصل ہیئت و شکل سے بخو بی آگاہ کر تا ہے تب جا کے وہ اپنی صورت اور حلیے کو ٹھیک کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی خامیوں اور ان کے عیبوں کی بھر پور اصلاح کر نے کی کو شش کر ے۔وہ نہ صرف اپنے بھائی کے ظاہری خدوخال کو صحیح کر ے بلکہ باطنی امراض کوبھی دُور کر نے کی حتی الامکان کو شش کر ے۔اس کی عادات و اطوار کو دُرست کر نے میں پہل کرے۔ اس کو تحفظ فر اہم کر نے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے کسی بھی غیر قانونی کام میں مبتلا نہ ہو نے دے اور نہ اس کو بغیر کسی جرم ہی کے قید میں دیکھنا پسند کر ے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگرکسی وقت قید میں ہو تو اس کو قید سے چھڑانے کی بھر پور کو شش کرے۔مسلمان آپس میں جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں۔اس کی مثال اللہ کے رسولؐ نے بہت ہی جامع انداز میں یوں دی:’’آپس کی محبت اور شفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی سی ہے کہ اگر کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب اور بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)
اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
خیر اُمت اور خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے ۔اس لیے اللہ کے رسول ؐ نے فر مایا: الدین نصیحۃ ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول ؐ نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحا بی نے عر ض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا : اللہ تعالیٰ ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی )
’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں ۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو ۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کر نا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ ،قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھو ٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو ۔حضوؐر نے فر مایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری ،کتا ب الایمان )
ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہو تا ہے۔ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اورتر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔
ایک مسلمان کے او پر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو علم کی روشنی سے منور کر ے۔ اگر وہ خو د اسے علم نہ سکھا سکے تو وہ اس کام کے لیے کسی دوسرے فر د کو تعینات کر ے۔ علم و حکمت ایک ایسی دولت ہے جو دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علم و حکمت ہی تمام بھلائیوں کی کنجی ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط( البقرہ ۲:۲۶۹) جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑ ی دولت عطا کی گئی۔
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo ( طٰہٰ۲۰:۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔
تمھارے پاس لو گ علم حا صل کر نے کی غرض سے آئیں گے۔ جب تم انھیں دیکھو تو انھیں علم سکھا ئو۔ایک مسلمان کی یہ بہت بڑ ی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پا س علم و حکمت کی بات ہو تو وہ اسے دوسرے تک پہنچائے۔ (ابن ماجہ، کتا ب السنہ)
علم و حکمت کی بات کو پہنچانے کے سلسلے میں ایک مسلمان کو ہر گز بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس پر سخت و عید سناتے ہو ئے فر مایا:’’ جس شخص سے کو ئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو چھپائے تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دی جائے گی‘‘ (ابن ماجہ ،کتاب السنہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کو علم کی بات سکھا نے کوا فضل صد قہ قر ار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :’’ افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم حاصل کرے اور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو سکھا دے‘‘۔( ابن ماجہ، کتاب السنہ )
ایک مسلمان کو علم چھپانے والو ں ( کتمان علم ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرنا چاہیے ۔ جو مسلمان دینی تعلیم وتربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے کمزور ہو تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی نہ صرف فکر بلکہ کوشش بھی کریں۔
مسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جڑ ے رہنا چاہیے۔ ان کے آپس میں محبت و مودت، ملنسار ی اور گہرے روابط ہو نے چاہییں ۔انھیں ان مضبوط اینٹوں کی طر ح رہنا چاہیے جو دیوار میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر دیوار کی مضبوطی میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ کے رسول ؐ نے اس طرح دی ہے:’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طر ح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے‘‘ (مسلم)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’مو من مومن کے لیے دیوار کی طر ح ہو تا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبو ط بنا تا ہے ‘‘۔(بخاری)
ایک مسلمان کا ایمان تب ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے سراپا خیر اور ہمدرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کو ئی آدمی اس وقت مومن نہیں ہو گا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہے‘‘۔( متفق علیہ )
مسلمان پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی چاہے اس کے سامنے کی جائے یا اس کی پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔اللہ کے رسولؐ نے اس ضمن میں واشگاف انداز میں تنبیہ فرمائی: ’’مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون،مال اور اس کی آبرو پر حملہ کرنا حرام ہے‘‘۔(مسلم)
تمھاری جانیں ، تمھارے مال، تمھارے عزت وآبرو، تمھارے درمیان اسی طرح محترم اور مُقدس ہیں جس طرح آ ج کے دن کی حرمت تمھارے اس مہینے اور اس شہر میں محترم اور مقدس ہے۔(بخاری، کتاب الحج)
ظلم سے بچو ! اس واسطے کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ظلم کا مرتکب شخص ہر حال میں نقصان اور خسارے میں رہے گا اور ظالم کو اللہ تعالی قیامت کے دن رُسوا کن عذاب میں مبتلا کرے گا ۔(بخاری،حدیث رقم:۲۴۴۷)
وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵:۱۹) اورجو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
ظلم کے علاوہ ایک مسلمان پر یہ بھی حرام کیا گیا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے اور دھمکائے یا اس کو کسی بھی قسم کے ہتھیا ر سے خوف زدہ کرے۔ اور جو کوئی ایسا کرے وہ گویا کہ مسلمان ہی نہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پر زور الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہم پر اسلحہ یا ہتھیار ظاہر کیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میںفرمائی:’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طر ف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے ا ور وہ قتلِ ناحق کے نتیجے میں جہنم کے گڑھے میں جاگرے‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے ہتھیار ظاہر کرنے والے شخص کو لعنت کا مستحق ٹھیرایا۔ ’’مسلمان پر ہتھیار سے اشارہ کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (ترمذی )
اسلام تو اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے یا اس پر ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا کجاکہ وہ اس کے خلاف ہتھیار یا اسلحہ اٹھائے۔ جو شخص اپنی شرارتوں سے اپنے مسلمان بھائی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی کمینگی کی وجہ سے اس کے سُکھ اور چین پر شب خون مارتا ہو، تو وہ مومن نہیں ہے ۔لہٰذا، ایک مسلمان کو اس بات پر چوکنا رہنا چاہیے کہ اس سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خلیفہ کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مکر م بھی بنایا ہے ۔اس لیے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت و احترام کر نے میں کسی بھی کو تاہی سے گریز کر ے۔ باہمی عزت و احترام خو ش گوار ماحول کی ضمانت ہے۔ اس کے بر عکس ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا یا جاننا خوش گوار ماحو ل کو بگاڑ نے کا ایک اہم سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر استہزا کرنے سے منع فر مایا کیوں کہ باہمی تعلقات کے بگڑنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔(الحجرات۴۹:۱۱ )
ایک شخص دوسرے شخص پر استہزا اور مذاق اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اعلیٰ وبر تر اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہو اور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ایک دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں قرآن میں الگ سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ حضوؐر نے اس ضمن میں ارشاد فر مایا :’’ اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسی عورت کا استہزا نہ کر ے‘‘۔(بخاری )
کسی کو حقیر جاننا، اپنے سے کم تر سمجھنا اور استہزا کر نا ایک گھناؤنا فعل ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں واضح انداز میں موجود ہے ۔ حدیث کے مطابق حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا جنت میں جانے کی رکاوٹ بن سکتا ہے (مسلم،کتاب الایمان )۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے بُرا ہو نے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے‘‘(مسلم)۔لہٰذا اسلامی سماج کی تعمیر اور خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے میں ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ کر عزت واحترام کے ساتھ اس سے تعلقات قائم کر ے۔
اسی طر ح سے جب ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنی ہو یا کو ئی معاملہ در پیش ہو تو اس کے ساتھ نر می و شفقت سے پیش آئے ۔جو شخص نر می و شفقت کے دامن سے خالی ہو تو اللہ کے رسو ل ؐ کی زبان میں وہ ہر خیر سے محروم ہے ۔چنانچہ فر مایا :’’جو شخص نر می کے صفت سے محر وم ہو وہ ہر خیر سے محر و م ہے‘‘۔(مسلم )
مذکورہ حقوق کے علاوہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے عمو می حقوق ہیں۔ ان چھے حقوق کا تذ کرہ حضورِ اکرم ؐ نے اس طرح فرمایا:
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حق ہیں۔ پو چھا گیا: یارسولؐ اللہ! وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: جب ملاقات ہو تو اسے سلام کر ے ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب نصیحت کا طالب ہو تو اس کونصیحت کر ے۔جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللّٰہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کے ساتھ جواب دے۔جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، اور جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔(بخاری، مسلم، ابوداؤد)
ان گزارشات کی روشنی میں اگر ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو نہ صرف اخوت و محبت کو فروغ ملے گا بلکہ باہمی اصلاح اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات بھی فروغ پائیں گے، نیز ظلم و زیادتی کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ آج اسلامی معاشرت کے اس نمونے کو عملاً پیش کرنے کی ضرورت ہے۔