اچھی زندگی پر رشک تو زمانے کا چلن ہے لیکن کامیاب زندگی وہ ہے جس کا اختتام اس موت پر ہو جس پر ہر صاحب ِ دل بے ساختہ رشک کرے__!!
میرے عزیز بھائی مطیع الرحمن نظامی کی شہادت ایک ایسی ہی یادگار موت بن گئی ہے جس نے ان کو بہترین انسانوں کے اس قافلے کا شریکِ سفر بنا دیا ہے جس میں ہمیشہ زندہ رہنے والے ہی سرگرم اور سرفراز رہیں گے۔
جس وقت ان کا جسد ِ خاکی بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے قصبے پبنہ میں، جو ان کا مولد ہے، سپردِ خاک کیا جارہا تھا اور اس بستی میں کرفیو کی کیفیت کے باوجود ہزاروں افراد شریکِ جنازہ تھے اور ان کے لیے مغفرت اور بلندیِ درجات کی دعائیں کر رہے تھے، تو ان دعائوں کی بازگشت بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سے لے کر استنبول، نیویارک، سری نگر، دہلی، اسلام آباد، لاہور، لندن، ٹوکیو اور مشرق و مغرب کے بیسیوں مقامات پر سنی جاسکتی تھی۔ جہاں ایسے ہزاروں افراد کی آنکھیں اَشک بار لیکن زبانیں مصروفِ دعا تھیں جن کی اکثریت نے زندگی میں کبھی ان کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی تھی ؎
ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر
یہ اس کی دین ہے، جسے پروردگار دے
مطیع الرحمن نظامی نے اللہ کی بندگی ، اس کے دین کی وفاداری، اور اسلام کی دعوت اور تحریک ِ اسلامی کی سربلندی کا جو عہد اپنے رب سے نوجوانی کے آغاز میں کیا تھا، اسے آخری لمحے تک صبرواستقامت کے ساتھ نبھایا، اللہ کی نافرمانی اور طاغوت سے سمجھوتے کے ہر دام سے اپنا دامن بچاتے ہوئے صرف اپنے خالق کی رضا کے حصول اور اس کے فیصلے پر اعتماد اور شکر کا راستہ اختیار کیا اور آخری چال ’رحم کی اپیل‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور اس طرح اللہ سے اپنے عہد کو سچا کر دکھایا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo(احزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
برادرم مطیع الرحمن نظامی نے اللہ پر بھروسا اور صرف اس کی خوشنودی کی طلب اور اپنے اہلِ خانہ کے جذبے اور عزم کے ساتھ تمام تحریکی رفقا اور ساتھیوں کے لیے اور تمام ہی اہلِ وطن کے لیے صبرواستقامت اور راہِ حق سے وفاداری کی وصیت کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے کی طرف جس اعتماد اور شوق کے ساتھ پیش قدمی کی، اس کا تصور ایمان افروز ہی نہیں بے ساختہ دل سے یہ پکار نکالنے کا وسیلہ بھی بنتا ہے کہ نئی زندگی میں فرشتوں نے بھی اسی شوق اور انبساط سے ان کا استقبال کیا ہوگا:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
میرے لیے مطیع الرحمن چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ۱۹۶۵ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن بنے۔ البتہ خرم بھائی ان کا ذکر اس سے پہلے کرچکے تھے۔ جن افراد کا خرم بھائی سے خصوصی تعلق تھا، ان میں مطیع الرحمن نمایاں تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں شرکت سے بھی پہلے انھی کے ایما پر انھوں نے جمعیت طلبہ عربیہ کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ پروفیسر غلام اعظم اور مطیع الرحمن نظامی دونوں ہی کا خرم بھائی سے بہت گہرا تعلق تھا اور مجھے بھی دونوں سے خصوصی تعلق رہا۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، دونوں نے اپنے اپنے انداز میں جو مثال قائم کی ہے، وہ مدتوں تحریک ِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے روشن چراغ کی مانند رہے گی۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب سے میرے تعلقات تقریباً ۶۰برس اور مطیع الرحمن نظامی سے ۵۰برس پر پھیلے ہوئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے دونوں کو اچھا انسان ، تحریک ِ اسلامی کا مخلص اور صاحب ِ بصیرت، خادم و قائد، وفادارپاکستانی اور دل و جان سے بنگلہ دیش کی خدمت اور ترقی اور اسلامی تشکیل و تعمیر کے لیے جان اور مال کی بازی لگادینے والا پایا۔
پروفیسر غلام اعظم ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۱ء تک جماعت اسلامی مشرقی پاکستان اور پھر ۱۹۷۸ء سے ۲۰۰۰ء تک جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر رہے اور مطیع الرحمن بھائی ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۶ء تک امارت کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ میں اس تاریخی حقیقت کو پوری دیانت اور پوری قوت سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح وہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے وفادار تھے اور ان کی پوری کوشش تھی کہ جس بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور جو اس کی اصل پہچان ہے، اس کی حفاظت کے لیے وہ سردھڑ کی بازی لگاد یں، اسی طرح جب بنگلہ دیش قائم ہوگیا تو پھر دل کی گہرائیوں سے انھوں نے اسی جذبے کے ساتھ اس کی آزادی، ترقی اور اسلامی تشکیل کے لیے اپنا سب کچھ لگادیا۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب ۱۹۷۲ء کی اس مرکزی شوریٰ میں شریک تھے جس میں مولانا مودودیؒ نے امارت سے فارغ ہونے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور پھر جماعت میں یہ طریقِ انتخاب رائج ہوا کہ شوریٰ امارت کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے اور ارکان ان تینوں میں سے کسی ایک کو، یا جسے وہ مناسب سمجھیں اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ میں کوئی راز فاش نہیں کر رہا ہوں لیکن اسی وقت جو تین نام آئے تھے، ان میں سرفہرست پروفیسر غلام اعظم ہی کا نام تھا اور اغلب تھا کہ وہ امیرجماعت منتخب ہوں لیکن پروفیسر صاحب نے جن الفاظ میں معذرت کی وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میرا مرنا اور جینا پاکستان کے لیے تھا لیکن اب زمینی حقائق کی روشنی میں میرا اصل میدانِ کار بنگلہ دیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے چند ماہ بعد ہی مشرق وسطیٰ اور پھر انگلستان منتقل ہوگئے اور بنگلہ دیش کے تحریکی معاملات سے اپنے کو وابستہ کرلیا۔ بالآخر ۱۹۷۸ء میں بنگلہ دیش آگئے۔ اپنی شہریت کے لیے قانونی اور سیاسی جنگ مردانہ وار لڑی اور بالآخر ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ان کی شہریت بحال کی گئی۔
جسٹس انوار چودھری نے اپنے فیصلے میں پروفیسر صاحب کے بنگلہ دیش سے وفاداری کے تعلق کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
درخواست گزار کا ایک طرزِ عمل بالکل واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب وہ بنگلہ دیش کی شہریت کے بغیر تقریباً ایک بے ریاست فردتھے، اور ایک بحرانی لمحے سے گزر رہے تھے، نہ وہ پاکستان گئے اور نہ پاکستان کا انتخاب کیا، جب کہ وہ ایسا کرسکتے تھے جیساکہ دیگر نااہل (disqualified)افراد نے کیا۔ یہ طرزِعمل اور ان کا یہ ارادہ کہ ایک بنگلہ دیشی کی حیثیت سے انھیں شناخت کیا جائے، اصل ڈومیسائل سے محض رہایشی ہونے کے مقابلے میں زیادہ متعلق ہے۔ (بحوالہ جسٹس انوارالحق چودھری، قطعی فیصلہ دیتے ہوئے ۱۰۳، ۱۰۴ اور ۱۲۲ رٹ پٹیشن نمبر ۱۲۱۶)
اس امر کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان سے وفاداری، اس کے تحفظ کی جدوجہد اور آخری لمحے تک جدوجہد ایک چیز ہے، اور زمینی حقائق کے نتیجے میں سیاسی نقشے کی تبدیلی کے بعد نئی مملکت سے تعلق اور وفاداری ایک دوسری شے۔ اول الذکر کو دوسرے پہلو سے دشمنی یا مخالفت کی دلیل بنانا، بدنیتی اور خلط مبحث ہی نہیں، تاریخی حقائق کا بھی مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کانگریس، خدائی خدمت گار، احرار اور جمعیت علماے ہند نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان کے قیام کے بعد جب انھوں نے پاکستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تو وہ قومی زندگی کا حصہ بن گئے اور کانگریس کے ارکان نے پارلیمنٹ میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کی پوری قیادت نے پاکستان کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی مگر تقسیم کے بعد ہندستان کا حصہ بننے والے علاقوں کی مسلم لیگ کی قیادت بھارت کی وفادار شہری بنی اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپنا کردار ادا کرنے لگی۔ یہی معاملہ ان ۱۵۰ سے زیادہ ممالک کی سیاسی قوتوں کے بارے میں رہا جنھوں نے تحریکاتِ آزادی میں حصہ لیا تھا یا اس کا مقابلہ کیا تھا لیکن آزادی کے بعد آزادی سے پہلے کی سیاسی صف بندیوں کو قصۂ ماضی بناکر نئے دروبست میں نیا کردار ادا کیا۔
مجھے خوشی ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کے فیصلے پر بحث کرتے ہوئے اس نکتے کو واضح کردیا ہے اور بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے کے دور کے سیاسی موقف اور جنگ کے دوران یا اس کے بعد انسانی جان، مال اور عزت کے باب میں جرائم کو دوالگ الگ ایشوز تسلیم کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلے میں جہاں پروفیسر صاحب کے بارے میں یہ بات صاف الفاظ میں کہی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء تک پاکستان سے وفادار ہونے، ۱۹۷۱ء کے بعد بنگلہ دیش سے باہر رہنے، ۱۹۷۳ء میں ان کو شہریت سے محروم کردینے اور ۱۹۷۸ء میں بنگلہ دیش واپس آکر شہریت سے محرومی کے علی الرغم بنگلہ دیش میں رہنے سے ان کے حقِ شہریت اور بنگلہ دیش کی آزاد مملکت سے وفاداری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ رہا معاملہ جنگی جرائم یا کسی دوسرے پہلو سے کسی ایسے جرم کا جسے وارکرائم یا Collaborators Act میں جرم قرار دیا گیا ہو تو ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے تک بھی پروفیسر صاحب کو کسی ایسے جرم میں ماخوذ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت واضح ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ۲۰۱۰ء سے جو محاذ کھولا ہے، وہ طبع زاد ہے اور ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۸ء تک پروفیسر صاحب یا جماعت اسلامی کی قیادت پر قتل و غارت اور اخلاقی جرائم کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جو کچھ گذشتہ چھے سات سال سے کیا جارہا ہے، وہ حکومت کی صریح دروغ بیانی ہے۔ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نے جو کچھ کیا ہے، وہ انصاف کا قتل ہے۔ غضب ہے کہ ان بے داغ سیاسی قائدین پر ایک سے ایک کریہہ اتہام لگایا جارہا ہے اور ظلم کی انتہا ہے کہ ان ناکردہ گناہوں پر ان کو پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں۔
ان افراد کے مقدمے اور سزا کے لیے، جنھوں نے جنگ ِ آزادی کے دوران افواجِ پاکستان سے خفیہ تعاون کیا اور یہ کرتے ہوئے دیگر مجرمانہ افعال کے لیے ایک خصوصی قانون بنا: Bangladesh Collaboration (special tribunal) Order 1972 (PO No.89 1972) بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت کچھ لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی۔ لیکن بعد میں سزایافتہ اور ان افراد کو جو مقدمات کے لیے مطلوب تھے، معافی دے دی گئی، سواے ان لوگوں کے جو سنگین جرائم، مثلاً قتل، عصمت دری، آتش زنی وغیرہ میں سزا یافتہ تھے یا مطلوب تھے۔ بالآخر یہ قانون منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن نہ تو ۱۹۷۲ء کا PO No.8 اور نہ PO No.149 میں کوئی ایسی دفعہ ہے جو کسی کی بنگلہ دیش کے شہری ہونے کی اہلیت ختم کردے۔
بھارتی فوج کے ساتھ جنگ ِ آزادی کے دوران تعاون کرنے اور قتل، عصمت دری یا آتش فشانی کرنے یا اس میں مدد دینے یا آزادی کے بعد بنگلہ دیش دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینا، اس قسم کے کسی جرم کا ارتکاب درخواست گزار کے خلاف کسی بااختیار عدالت میں ابھی تک رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی آگے بڑھ کر درخواست گزار کے خلاف کریمنل لا کے تحت پولیس میں ایف آئی آر درج کرواکر یا کسی مجسٹریٹ کے سامنے درخواست دائر کر کے کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔
مزید یہ کہ درخواست گزار نے بعد کی مطبوعات میں درج کیے گئے واقعات کی سچائی کو چیلنج کیا ہے۔ سواے چند خبروں اور ایک تصویر کے جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ درخواست گزار جنرل ٹکا خان یا جنرل یحییٰ سے ملا ہے، کوئی چیز بھی نہیں ہے جو درخواست گزار کو ان مظالم میں ملوث کرے جن کا پاکستانی فوج اور ان کے حلیفوں البدر اور الشمس کے رضاکاروں پر الزام لگایا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز درخواست گزار کو براہِ راست ملزم ثابت نہیں کرتی سواے اس بات کے کہ درخواست گزار آزادی کی اس جنگ کے دوران فوجی جنتا کے ساتھ ملتاجلتا تھا۔
بنگلہ دیش کی عدالت ِ عالیہ کے ۱۹۹۲ء کے فیصلے سے تین باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں جن کا تعلق اصولی طور پر ان تمام افراد اور اُمور سے بھی ہے جن پر ۲۰۱۰ء کے جنگی جرائم کے ٹریبونل نے انصاف کاخون کرتے ہوئے فیصلے صادر فرمائے ہیں۔
۱- بنگلہ دیش جنگ ِ آزادی کے دوران جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی، وہ کسی جنگی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ ایک نظریاتی اور سیاسی پوزیشن تھی۔ اس کے برعکس اگر کوئی فرد کسی غیرقانونی حرکت کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر متعلقہ قانون کے تحت گرفت ہونی چاہیے اور قانون اور مجاز عدالت میں ہونی چاہیے۔ دونوں کو الگ الگ رکھنا ضروری ہے۔
۲- محض جنگ ِ آزادی میں عدم شرکت یا اس کی مخالفت کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی شہریت سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جس نے اس سے وفاداری کا عہد کیا ہے، اس کے اس عہد کو چیلنج کیا جاسکتا ہے یا مشتبہ بنایا جاسکتا ہے۔ البتہ آزادی کے بعد اگر کسی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ قانون کے مطابق مجاز عدالت سے ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر گرفت ہوسکتی ہے۔
۳- جہاں تک پروفیسر غلام اعظم صاحب کا تعلق ہے، ۱۹۹۲ء تک ان پر کوئی الزام بھی کسی مجاز عدالت میں نہیں لگایا گیا اور ۷۳-۱۹۷۲ء میں جن افراد پر الزامات لگائے گئے تھے، ان میں پروفیسر صاحب کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ محض اخباری اطلاعات اور سنی سنائی باتوں (heresy) کی بنیاد پر ایسے سنگین الزامات لگانے کی کسی ایسے معاشرے میں کوئی گنجایش نہیں جو قانون کی حکمرانی کا دعوے دار ہو۔
گو یہ تینوں باتیں پروفیسر صاحب کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے میں آئی ہیں لیکن یہ ان تک محدود نہیں اور برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسرے تمام افراد جنھیں اس وقت ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان کے بارے میں بھی اتنا ہی لاگو (applicable) ہے، لیکن اب عدالت اور پوری انتظامی مشینری جس بے دردی اور بے شرمی سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے، اس نے پورے نظامِ حکومت کو غیرمعتبر بنادیا ہے۔ اس کھلے کھلے ظلم میں سب ہی شریک نظرآرہے ہیں اور اب اس کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جانے لگا ہے بلکہ وہ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں جو حسینہ واجد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند آرا حقائق کو واضح کرنے کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔
دی اکانومسٹ اپنی ۱۴مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں ’بنگلہ دیش __ یک جماعتی آمریت کی پھسلن پر‘(Bangladesh is sliding into one party dictatorship) کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بنگلہ دیش کا اصل مسئلہ عدم برداشت اور مخالفت کی آواز کو قوت سے دبانا ہے جسے وہ بنگلہ دیش کا ’پیدایشی مرض‘ قرار دیتا ہے۔ اور وہ مرض کیا ہے؟ ___ ’’ایک سیاسی کلچر جو اختلاف کو برداشت نہیں کرسکتا اور جو اقتدار کو اسے کچلنے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے‘‘۔
بہت سے بنگلہ دیشیوں کو اس پر غصہ تھا کہ اتنے طویل عرصے تک ۱۹۷۱ء میں کیے گئے جرائم کا کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھیرایا گیا۔ اس لیے جب عوامی لیگ کی شیخ حسینہ کی حکومت نے ۲۰۱۰ء میں ٹریبونل قائم کیا تو اس اقدام کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ عمل انصاف کے ساتھ ایک مذاق ثابت ہوا۔ یہ دراصل عوامی لیگ کی مخالفت کو کمزور کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈکر پکڑنے کی ایک کارروائی تھی۔ نظامی صاحب اپنی پارٹی جماعت اسلامی کی چوتھی سینیرشخصیت ہیں جن کو سزاے موت دی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی حکومت میں اس کی اتحادی تھی، اس کی پاداش میں شیخ حسینہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے۔ نظامی صاحب نے اس کے وزیرصنعت کی حیثیت سے کام کیا۔ جماعت اسلامی رُوبہ زوال ہے لیکن بنگلہ دیش کے بعض حصوں میں اب بھی ایک طاقت ہے…
اپوزیشن کنارے لگا دی گئی ہے اور عوامی لیگ پریس کو دبائو میں لے آئی ہے اور زبان بندی کردی ہے اور سرکاری ملازموں کو بہت زیادہ تنخواہیں بڑھا کر خرید لیا ہے۔ عدالتیں، سول سروس، فوج اور پولیس، سب پوری طرح سیاست زدہ ہیں۔
یہ ٹریبونل جماعت اسلامی کے قائدین کو ہدف بنانے کے لیے حکومت کا ایک سیاسی حربہ بن گیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۲مئی ۲۰۱۶ئ)
بھارت کا روزنامہ دی ہندو اس سے پہلے برادرم علی احسن محمد مجاہد اور محترم صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی دیے جانے کے اس ٹریبونل کے فیصلے کے بارے میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کرچکا ہے۔ سزاے موت کے باب میں دی ہندو کا کہنا یہ تھا کہ:
اس نے مقدمے کی کارروائی کو بجاے انصاف کے حصول کے، جو کسی ریاست کے قانونی نظام کی بنیاد ہونی چاہیے، انتقام کا رنگ دے دیا ہے۔ (Crime and Penalty in Bangladesh، دی ہندو، ۲۵نومبر ۲۰۱۵ئ)
بھارتی صحافی اور سابق سفارت کار کلدیپ نائر جو جماعت اسلامی کا سخت ناقد اور مذہبی قوتوں کا مخالف ہے اور ان کو غیرمؤثر دیکھنا چاہتا ہے وہ بھی اپنے syndicated مضمون میں جو پاکستان ٹوڈے (۱۹ جنوری ۲۰۱۵ئ) میں شائع ہوا ہے اور جس کا عنوان ’بنگلہ دیش کا المیہ ‘ ہے، میں لکھتا ہے:
یہ بات کہ شیخ حسینہ آمرانہ مزاج رکھتی ہے کوئی نئی بات نہیں۔ شیخ حسینہ کی حکومت ایک فردِ واحد کی حکومت ہے۔ حتیٰ کہ عدلیہ بھی ایسے فیصلے دینے سے ہچکچاتی ہے جو اسے ناراض کریں۔ رہی نوکرشاہی ،تو وہ محض ربڑاسٹامپ ہے۔
انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز کے ایک حالیہ شمارے (۲۰مئی ۲۰۱۶ئ) میں امریکا کے ایک سابق سفیر اور واشنگٹن کے مشہور تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر کے اسکالر ولیم میلام کا مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان Bangladesh's Real Terror ہے۔ اس میں وہ اعتراف کرتا ہے:
عوامی لیگ کا سیاسی مخالفین اور سول سوسائٹی کے خلاف عدلیہ اور پولیس کو استعمال کرنا ایک معمول کی کارروائی ہے۔
یہ وہ کرب ناک صورتِ حال ہے جس نے پوری عدلیہ اور انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے اور سیاسی آمریت کے سایے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن انتقام اور ظلم کا سب سے مؤثر ذریعہ جنگی جرائم کا نام نہاد بین الاقوامی ٹریبونل بن گیا ہے جو اب تک ۱۳؍افراد کو سزاے موت دے چکا ہے جن میں سے پانچ کو سولی پر چڑھایا بھی جاچکا ہے۔ برادرم مطیع الرحمن نظامی اس کا تازہ ترین شکار ہیں۔ ان کے سلسلے میں انصاف کا کس طرح خون کیا گیا ہے، اس کی داستان انگلستان کے مشہور قانون دان بیرسٹر ٹوبی کاڈمین نے اپنے حالیہ مضامین میں پیش کی ہے۔ ہم اس تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے ان کی تحریر کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جو مشہور آن لائن مجلہ The Huffington Post میں ۱۴مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے:
آج بین الاقوامی انصاف کے لیے ایک افسوس ناک دن ہے۔ ۱۱مئی ۲۰۱۶ء کو ایک بجے شب مطیع الرحمن نظامی کو ڈھاکہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔یہ پھانسی دیے جانے والے پانچویں شخص ہیں جنھیں انتہائی ناقص بین الاقوامی کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی بی) کے حکم پر پھانسی دی گئی۔ یہ ٹریبونل بین الاقوامی جرائم کی جواب دہی اور فراہمیِ انصاف کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کی کارروائی کے جواز کو بے ضابطگیوں، مقدمات کو سیاسی طور پر حسب موافق و منشا بنانا اور قانونی ناانصافی نے مجروح کردیا۔ سپریم کورٹ اور آئی سی ٹی بی کے فیصلوں کا ایک سادہ مطالعہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ ان دوسرے افراد کی طرح جن کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا نظامی کے مقدمے کی کارروائی بھی بین الاقوامی انصاف کے معیارات کے مطابق نہیں ہوئی۔ متعدد بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ایک عام بیان میں جو پھانسی کی سزا سے دو دن پہلے جاری کیا گیا تھا یہی موقف اپنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: جو لوگ آئی سی ٹی بی میں پیش ہونے والے تھے، ان کو دستوری اور منصفانہ ٹرائل میں جو تحفظات حاصل تھے انھیں حکومت نے واضح طور پر ختم کرکے اس کی اثرپذیری اور قانونی استحقاق کو شروع ہی سے ختم کردیا۔ اور مزید جو کچھ بعد میں ہونا تھا، اس کے لیے زمین ہموار کر دی۔ اس بیان پر آزاد اور نام وَر وکلا، جج اور ماہرین کے ایک گروہ کے دستخط ہیں۔
استغاثے کے مطابق نظامی ’البدر‘ کے جو پاکستان آرمی کی نیم فوجی فورس تھی، چیف تھے لیکن بکثرت ریسورسز تک رسائی کے باوجود سرکاری وکیل کوئی ایسی شہادت پیش کرنے سے قاصر تھا جو اس تنازعے سے متعلق ہو اورجس سے یہ ظاہر ہو کہ نظامی اس منصب کے حامل تھے۔ اس کے بجاے انھوں نے اشاروں (innuendo) اور نتیجہ نکالنے (inferences) کو ترجیح دی۔
فیصلے کی زبان اور بیان فنی کے بجاے لفظی اور یک رُخی ہے لیکن قانونی نقطۂ نظر سے جو بات اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرائم سے متعلقہ عناصر کے مکمل تجزیے سے محروم ہے۔ گو کہ اپیل کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نسل کشی کی سزا کو برقرار رکھا لیکن کورٹ نے نہ تو مطلوبہ تقاضوں (subjective)، یعنی نسل کشی کی تعریف کے مطابق متعلقہ گروہ کا تعین کیا ، نہ جرم کا ذہنی عنصر کو جو اس قسم کے جرم کا ایک لازمی خاصہ (فیچر) ہوتا ہے، فیصلے میں بیان کیا گیا۔
بہرحال مقدمے کی ناانصافی متعلقہ شہادتوں اور قانونی تجزیہ نہ ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ اساسی بنیادی حقوق کو بھی متاثر کرتی ہے۔ نظامی کے خلاف مقدمہ اسلحے کی خوف ناک عدم مساوات سے متاثر (infect) تھا۔ استغاثے کو تفتیش کے لیے ۲۲ماہ دستیاب تھے، جب کہ دفاع کے لیے مقدمے کی تیاری کے لیے محض تین ہفتے دیے گئے۔ استغاثہ نے ۲۶ گواہ بلائے، جب کہ مستغیث کو چار سے زیادہ گواہ بلانے سے روکا گیا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن یہ حقیقت ہے کہ گواہوں نے یہ قبول کیا کہ انھوں نے رشوتیں قبول کرنے کے بعد ایک خاص بیان دینے کی مشق کی اور جھوٹی گواہی دی ہے۔
اس حقیقت کے خلاف بڑی آراستہ و پیراستہ بیان بازی کے باوجود اس سے مفر نہیں ہے کہ آئی سی ٹی بی سیاسی طور پر ایک ساختہ پرداختہ ٹریبونل ہے۔ اسکائپ گیٹ اسکینڈل جس میں آئی سی ٹی بی کے ججوں اور ایک تیسرے فریق کے درمیان گھنٹوں گفتگو کا تجزیہ کیا گیا تھا، اس نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ آئی سی ٹی بی کے جج بیرونی احکامات کی پیروی کرتے ہیں بلکہ مقدمے کا سامنا کر نے والوں کا جرم پہلے ہی سے طے ہے۔
متعدد بین الاقوامی انسانی حقوق کی انجمنوں کی جانب سے آئی سی ٹی بی اور بنگلہ دیش پر پہلے ہی تنقید کی جارہی ہے کہ مقدمے کا سامنا کرنے والوں کو دستوری حقوق سے محروم کیا گیا ہے اور ایک جانب دار موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ٹریبونل کے قانونی اختیارات تنازعے کے ایک فریق کے کیے گئے جرائم تک محدود ہیں۔
اس مرتبہ نظامی کی پھانسی کو روکنے کے لیے عوام کا احتجاج پہلے کے مقابلے میں بہت مضبوط اور بہت زیادہ تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ، ٹام لنٹس ہیومن رائٹس کمیشن، دی بار ہیومن رائٹس کمیشن آف انگلینڈ اینڈ ویلز اور سابق سفیر امریکا براے وارکرائمز نے بیانات دیے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے نظامی کی سزا کو روکنے کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ ٹریبونل نے جن مقدمات کو سناہے، وہ بدقسمتی سے منصفانہ مقدمے اور مقررہ قانونی کارروائی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت بنگلہ دیش نے ان تمام مطالبات اور تنقید کو بالکل نظرانداز کر دیا جس سے آدمی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے لیے زیادہ مضبوط اقدام کرنے کا وقت ہے۔
انصاف کی ضرورت کو مسخ کردیا گیا ہے اور وہ ایک انتقام کی تلاش میں تبدیل ہوگیا۔ بغیر مقررہ قانونی کارروائی، بغیر حقوق کے اور یہ قانونی کارروائی محض ایک دکھاوے کا مقدمہ ہے اور موت کا فیصلہ آمرانہ قتل قرار پاتا ہے۔
برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسری تحریکی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ جنگی جرائم پر گرفت کے نام پرجو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے قانونی، عدالتی پہلوئوں اور عالمی اداروں کے اس ڈھونگ پر ردعمل کے اس مختصر جائزے کے ساتھ یہ امر بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے اسلامی تحریکات، انسانی حقوق کے نام وَر اداروں اور کچھ اہم سیاسی اور علمی شخصیات نے ان پر بھرپور احتجاج کیا ہے اور ترکی کے صدر اور وزیراعظم نے سب سے مؤثر انداز میں اس ظلم کو برملا ظلم کہا ہے اور بنگلہ دیش سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا ہے، وہیں بیش تر مسلم ممالک کی قیادتیں خاموش تماشائی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی نمایشی ردعمل سے ہٹ کر کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا اور مغرب کی وہ تمام قیادتیں اور تجزیہ نگار جو جانوروں اور درختوں کے تلف کیے جانے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں اور سیاسی اور معاشی پابندیوں (sanctions) کے تیرونشتر حرکت میں آجاتے ہیں، وہ بالکل منقار زیر ہیں بلکہ چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی تحریکات اور شخصیات پر ظلم کے پہاڑ بھی توڑے جائیں تو ان کے ضمیر میں کوئی کسک نہیں ہوتی۔ یہی وہ منافقت اور دوغلاپن ہے جو مغرب کی سیاسی اور فکری قیادت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور اگر عام انسان اس گندم نما جوفروشی پر اپنے اضطراب اور غصے کا اظہار کرتے ہیں تو معصوم چہرہ بناکر فرمایا جاتا ہے Why do they hate us? (وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟)
برادرم مطیع الرحمن نظامی اور دوسرے مظلوم رہنمائوں اور ساتھیوں کی پاک دامنی کا ثبوت یہ ہے کہ عدالت متعصب ہے، قانون بددیانتی پر مبنی ہے، انصاف کے ہرتقاضے کا خون کیا جارہا ہے، ملزموں کو دفاع کے حق اور کم سے کم مواقع سے بھی محروم رکھا جارہا ہے، گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، حتیٰ کہ اغوا کیا جارہا ہے اور عدل کی فراہمی کے عمل میں کھلے کھلے مداخلت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ وزرا، سرکاری مشیر، بیرونی افراد ججوں کو ہدایات دے رہے ہیں اور آخری حد یہ ہے کہ جب کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت میں کھلے الفاظ میں یہ تک کہہ دیا کہ ملزموں کے خلاف نہ کوئی قابلِ اعتماد گواہی اور شہادت ہے اور نہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرسکا ہے تو بھارت کا ہائی کمشنر فیصلے کے اعلان سے ایک دن پہلے کھلے بندوں چیف جسٹس سے ملتا ہے اور وہی چیف جسٹس صاحب اس شخص کو جس پر اس کے اپنے بقول استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکا، نہ صرف موت کی سزا دے دیتے ہیں بلکہ یہ بھی فرما دیتے ہیں: ’’جنگی جرائم کا ثابت ہونا ضروری نہیں، بلکہ جنگ ِ آزادی کی مخالفت بھی ایک کافی ’جرم‘ ہے ‘‘ اور اس طرح معصوم انسانوں کو تختۂ دار پر چڑھایا جارہا ہے۔
ایک طرف حکمرانوں، عدالتوں اور قانون کے محافظوں کا یہ کردار ہے اور دوسری طرف ان افراد کی پوری زندگیوں کو دیکھا جائے جن کو اس ظلم و سفاکیت اور انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو ایک بالکل دوسری ہی تصویر سامنے آتی ہے۔
آیئے کچھ جھلکیاں تصویر کے دوسرے اور اصل رُخ کی بھی دیکھ لیں۔ وہ حضرات جن کو ظلم اور عدالتی قتل کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان کا اصل کردار کیا ہے اور معاشرے میں ان کے لیے کیا جذبات ہیں، یہ سب ایک کھلی کتاب کے مانند ہے۔
مطیع الرحمن نظامی ضلع پبنہ کے گائوں منحت پور میں ۳۱مارچ ۱۹۴۳ء کو ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی اور پھر ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شعیب پور کے مدرسے کی طرف رجوع کیا جس سے فارغ ہوکر ڈھاکہ کے مدرسۂ عالیہ سے ۱۹۶۳ء میں کامل کی سند حاصل کی۔ دینی علوم کے ساتھ آپ نے جدید تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ڈھاکہ سے ۱۹۶۴ء میں انٹر اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ۱۹۶۶ء میں بی اے کی سند لی۔
مدرسیہ عالیہ ہی کے دور میں تحریک اسلامی سے رشتہ جوڑا اور خرم بھائی کی تحریک پر جمعیت طلبہ عربیہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ ۱۹۶۳ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے اور ۱۹۶۵ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان جمعیت کے ناظم رہے اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اس طرح مشرقی پاکستان سے پہلے ناظم اعلیٰ منتخب ہونے کی سعادت پائی۔ یہ ذمہ داری ۱۹۷۱ء تک ادا کی اور اس طرح متحدہ پاکستان کی جمعیت کے آخری ناظم اعلیٰ ہونے کا تاج بھی ہمیشہ کے لیے ان کے سر کی زینت بن گیا۔
۲۰ویں صدی میں اسلامی تحریکات کے قائدین کو طرح طرح کی آزمایشوں سے سابقہ رہا ہے اور شہادت اور عدالتی قتل ان کا حصہ رہے ہیں لیکن جہاں تک میرا حافظہ ساتھ دیتا ہے، برادرم مطیع الرحمن نظامی کسی ملک کے پہلے امیرجماعت ہیں جنھیں امیرجماعت ہوتے ہوئے عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں شہادت کی سعادت نصیب ہوئی ہے ع
یہ رُتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا
نظامی صاحب پر الزامات کی حقیقت
میں اپنے۵۰ سال سے زیادہ پھیلے ہوئے ربط و تعلق کی بنیاد پر پورے وثوق سے یہ گواہی دینے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ان کا جو اَخلاق، جو مزاج، جو جذبات و احساسات میں نے دیکھے اور ان کی ذاتی زندگی، تحریکی معاملات، ملکی اور سیاسی اُمور کو انجام دینے کے طریقے کا جتنا مجھے تجربہ ہے، اس کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ جن جرائم کو ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے ان کے بارے میں قرآن کے الفاظ میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ o (النور ۲۴:۱۶)
ان الزامات کے بارے میں نظامی بھائی نے ٹریبونل کو جو بیان دیا ہے اس کے یہ اقتباسات میرے احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں:
’’میرے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں انھیں تاریخ کا بدترین جھوٹ کہوں گا۔ یہ مقدمات مخالفین کے سیاسی قدکاٹھ کو کم تر بناکر پیش کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ میں عرصۂ دراز سے کارزارِ سیاست میں ہوں۔ صرف سیاسی بنیادوں پر کسی کو عدالتوں کے حوالے کر دینا کوئی کمال نہیں ہے۔ میری جو سرگرمیاں بھی رہی ہیں، سیاسی کارکن کے طور پر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہیں۔
’’جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں کبھی کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔ کوئی بھی حکومت آخری حکومت نہیں قرار دی جاسکتی، نہ دنیاکی کسی عدالت کو آخری عدالت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس عدالت کے بعد ایک اور عدالت ہے اور تمام افراد کو اس عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’۱۹۷۱ء میں، مَیں ایک سیاسی کارکن تھا اور میرا کسی غیرقانونی سرگرمی سے تعلق نہ تھا۔ میرا مطالبہ یہ تھا کہ مقامی طور پر جو نمایندے منتخب ہوئے ہیں، ان کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ جماعت اسلامی بھی یہی مطالبہ کر رہی تھی کہ اقتدار منتخب نمایندوں کو منتقل کیا جائے۔ اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) بھی یہی مطالبہ کر رہی تھی۔ اگر اقتدار منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جاتا تو موجودہ کریہہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔
’’تاریخ گواہ ہے کہ کس نے اقتدار کی منتقلی کے لیے زور دیا اور کس نے رکاوٹ پیدا کی؟ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ثبوت دے سکے کہ اقتدار کی منتقلی میں جماعت اسلامی نے رکاوٹ پیدا کی۔ بھٹو کی تقریر کی مخالفت سب سے پہلے میں نے کی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جنھوں نے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ پیدا کی۔ ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان کے بل بوتے پر اقتدار سے لطف اندوز ہورہے تھے یا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس سوال پر تحقیق ہونی چاہیے۔ نہ ہمارا کوئی ایسا رابطہ تھا، نہ ایسی کوئی بنیاد تھی جس کی بنیاد پر ’نسل کشی‘ کا ارتکاب ہوتا۔
’’اتفاقیہ طور پر میں اُس وقت متحدہ پاکستان کی ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ [اسلامی جمعیت طلبہ] کا ناظم اعلیٰ تھا اور میں ستمبر کے آخری ہفتے تک اس ذمہ داری پر رہا۔ ۲۹ ستمبر تا یکم اکتوبر کو ایک کانفرنس [۲۰واں سالانہ اجتماع] ملتان میں ہوئی اور مجھے اس ذمہ داری سے فارغ کر دیا گیا۔
’’بعدازاں ایک دینی ریسرچ سنٹر کے ممبر کے طور پر میں نے کام شروع کر دیا۔ مجھ پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُن میں الزام نمبر۱۶ یہ ہے کہ میں اُس وقت عہدے دار تھا اور چھاتروشنگھو کا مرکزی صدر تھا،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں اکتوبر کے بعد اُس کا عام کارکن بھی نہیں تھا، بلکہ اُس وقت میں جماعت کا رُکن بھی نہیں تھا۔ اس حوالے سے یہ سوال اُٹھانا بے بنیاد ہے کہ جماعت اسلامی کے صدر کے طور پر میری کیا سرگرمیاں تھیں۔
’’میرے بارے میں کہا گیا کہ میں ’البدر‘ کا سربراہ تھا۔ اس سلسلے میں جو شہادتیں پیش کی گئی ہیں، اُن میں کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں البدر اور رضاکاروں کا کمانڈر تھا۔ بطور ثبوت جو کتاب پیش کی گئی ہے، اُس میں تحریر ہے کہ ’انصار باہنی کو رضاکار باہنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ انصارباہنی کا سازوسامان، البدر باہنی کے حوالے کر دیا گیا۔ انصارباہنی کے ذمہ دار، رضاکار کے اعلیٰ عہدے دار بن گئے۔ انصار باہنی کے نمایاں لوگ، البدر کے اہم ترین اور نمایاں ترین عہدے دار بن گئے۔ تب میرے لیے کون سا موقع تھا کہ میں رضاکاروں کا کمانڈر یا سربراہ بن جاتا۔ آپ کی جانب سے پیش کی جانے والی کتاب سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ میرے رضاکاروں کے سربراہ بننے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
’’میرے خلاف کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انھیں کریمنل پروسیجر ۱۸۹۸ء کے تحت پیش کیا گیا ہے، لیکن میرا ضمیر صاف ہے اور میں اپنے رب کے حضور سرخ رو ہوں کہ ایک سیاسی کارکن کے سوا میرا کوئی کردار نہ تھا۔ میرا کسی بھی غیراخلاقی، جنگی یا انسانیت کے خلاف جرائم میں کوئی کردار نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی کسی بھی شرم ناک حرکت اور سرگرمی سے بچائے رکھا۔
’’میرے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی جرم میری موجودگی میں کبھی نہیں ہوا، نہ میری رضامندی سے ہوا اور نہ میں ایسے کسی جرم سے واقف ہوں۔ میں جن جن جگہوں پر گیا ہوں، اُن کے نام اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں، لیکن میں اپنے والدین سے ملنے کے لیے ایک روز بھی نہیں گیا۔ جن علاقوں میں جرائم کا ارتکاب ہوا، نہ میں وہاں گیا، نہ میں نے جرائم کا ارتکاب کیا تو میں کس طرح ان جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہوں؟ میں اسے تاریخ کا بدترین جھوٹ ہی کہہ سکتا ہوں۔
’’مجھ پر الزامات کے دوران جن علاقوں کے ناموں کا تذکرہ ہے، ان میں سے کئی نام میرے لیے نئے ہیں، مثلاً ’کورموجا‘۔ مجھ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ میں نے کورموجا کے لوگوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کیں، کیونکہ انھوں نے مجھے ووٹ نہیں دیے تھے۔ لیکن ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں مَیں اُمیدوار ہی نہیں تھا، تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مجھے ووٹ نہیں دیے تھے۔
’’اسمبلی کا اُمیدوار پہلی بار ۱۹۸۶ء میں بنا۔ ۱۹۸۸ء میں میرے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بننے کی خبر شائع ہوئی تو میری اہلیہ کو گمنام شخص کی طرف سے فون کال موصول ہوئی، جس میں کہا گیا کہ اگر میں نے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو میری اہلیہ بیوہ ہوجائے گی۔ میری اہلیہ سے کہا گیا کہ اگر بیوہ ہونے سے بچنا چاہتی ہو تو اپنے شوہر کو جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دو۔
’’جب میں وزیر بنا، میں نے واضح کیا کہ میں نے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا جس سے ملک کو نقصان پہنچا ہو۔ جب میں وزیرزراعت تھا تو ملک کی پیداوار بڑھانے کے لیے کئی بنیادی اور مؤثراقدامات کیے گئے۔
’’کوئی عدالت آخری عدالت نہیں ہے اور کوئی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ ایک اور عدالت آئے گی جس میں ہم سب کو پیش ہونا ہوگا‘‘۔
میری شہادت مجھے نظر آرہی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو عطا فرماتا ہے۔ میری شہادت پر کسی کو رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ میں سب کو صبر کی تلقین کرتا ہوں [پھر قرآنِ حکیم کی یہ آیت پڑھی: وَ اصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo انفال ۸:۴۶]۔ میرا دل بالکل مطمئن ہے، میں اپنے تمام چاہنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی پُرامن جدوجہدجاری رکھیں اور اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ میرے وطن عزیز بنگلہ دیش میں اللہ تعالیٰ اسلامی نظام کے لیے فضا ہموار فرمائے۔
۱۰ مئی ۲۰۱۶ء کی شب آٹھ بجے سے پہلے ان کو ڈھاکہ سنٹر ل جیل منتقل کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کا ریویو پٹیشن پر فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔ ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے نو بجے شب اہلِ خانہ سے آخری ملاقات ہوئی۔ خاندان کے ۲۶؍افراد نے مطیع الرحمن بھائی کے ساتھ ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت گزارا۔دن کے دوران دو وزرا نے رابطہ کیا اور اطمینان دلایا کہ اگر رحم کی اپیل کردیں تو سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن نظامی بھائی نے صاف انکار کر دیا کہ یہ خسارے کا سودا ہے۔ شہادت تو مومن کے لیے مقصود و مطلوب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے اتنے قریب آنے کے بعد اس سے محروم رہنے کا کون سوچ سکتا ہے؟ ان کا جواب بڑا نپاتلا تھا:
آٹھ بج کر ۵۸ منٹ پر دو منٹ کے لیے ڈیلی اسٹار کے نمایندے کو آخری بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کال کوٹھڑی میں لایا گیا۔ مطیع الرحمن نظامی نے ایک جملے میں پوری داستانِ حیات بیان کردی:
میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ عمر کے اس حصے میں شہادت نصیب ہو، اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہوگی۔
خاندان کے ہم ۲۶؍افراد ان سے ملنے کے لیے جیل کے بلاک راجن ایگندھا میں داخل ہوئے۔ والد صاحب اس بلاک کے آخری کمرہ نمبر ۸ میں تھے اور سبزرنگ کی جاے نماز پر قبلہ رُو دُعا میں مشغول تھے۔ ان کے پوتے نے دادا کو متوجہ کیا جس پر انھوں نے خود دروازہ کھولا اور یوں آخری ملاقات شروع ہوئی۔ موسم بے حد گرم تھا ۔ وہ اور ہم سب ہی پسینے میں شرابور تھے لیکن ان کا چہرہ پُرسکون اور روشن تھا۔
اس ملاقات میں نظامی صاحب نے اہلیہ اور بچوں کو رحم کی درخواست کے بارے میں بھی بتایا اور واضح کیا کہ ’’میں نے زبانی ہی نہیں، لکھ کر بھی دے دیا ہے کہ مَیں اللہ کے سوا کسی سے رحم کی درخواست نہیں کرتا۔ زندگی اور موت کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور میں کسی انسان سے رحم کی درخواست کر کے اپنے ایمان کو تباہ نہیں کرنا چاہتا۔
۱۰مئی ۲۰۱۶ء سہ پہر کے وقت جیل کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کو لکھ کر دے دیا ہے کہ: I would not seek any mercy or clemency
اس ملاقات میں عجیب سماں تھا، جذبات موجزن تھے۔ میرے والد نے ہم سب کو صبر کی تلقین کی اور بار بار کی۔ والد صاحب پُرسکون تھے۔ ان کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک نفس مطمئنہ اپنے رب سے ملنے کا منتظر ہے۔
پھر کچھ دیر کے لیے ہم سب کمرے سے باہر چلے گئے اور صرف والدہ، والد صاحب کے ساتھ رہ گئیں۔ میری والدہ نے بتایا کہ ہم نے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے کو اتنا قریب دیکھ کر رب کا شکر ادا کیا۔
ہم اللہ کے سامنے بھی گواہی دیں گے کہ آپ ایک نیک اور دیانت دار شخص تھے اور آپ نے کبھی کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔
اس کے جواب میں میرے والد نے والدہ کو یہ نصیحت کی کہ اب آپ کو صرف ماں ہی نہیں بچوں کے لیے باپ کا کردار بھی ادا کرنا ہے۔ آپ مجھے میرے بیٹوں اور بیٹیو ں کی شخصیت میں پائیں گی۔
ہم سب ایک بار پھر کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس موقعے پر والد صاحب نے سب کو مخاطب کر کے جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے:
تم سب آیندہ بہت ہم آہنگی کے ساتھ رہو۔ اللہ اور رسول کے راستے کی پیروی کرو اور اپنی والدہ کا خیال رکھو۔ تم مجھے اپنی ماں میں پائو گے۔ یہ بھی یقینی بنائو کہ تمھاری والدہ مجھے تم میں پائیں۔ تم لوگوں کو میرے بارے میں بتائو جیساکہ تم نے مجھے دیکھا ہے، مبالغہ مت کرو۔ اب میری عمر ۷۵برس ہوگئی ہے۔ میرے بیش تر رفقاے کار اور ساتھیوں کو اتنی طویل زندگی نہیں ملی۔ تمھیں اپنا باپ بہت طویل مدت کے لیے زندہ ملا۔ زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی ہے کہ میں آج رات مرجائوں تو اگر میں اپنے گھر پر ہوتا جب بھی مجھے موت آجاتی۔ ہمیشہ اللہ کے بارے میں پُرامید رہو اور اللہ کے شکرگزار بھی رہو۔
اس کے بعد ہم نے اپنے بچوں اور بچیوں کو پیار اور دُعا کے لیے ان کے سامنے پیش کیا، خصوصیت سے چھوٹے بچوں کو۔ ان کا ارشاد تھا:’’میں ان کے لیے دُعائیں کررہا ہوں تاکہ وہ مجھ سے بھی بڑے ہوجائیں، رسولؐ اللہ کے صحابہ کی طرح‘‘۔
والد صاحب نے خصوصیت سے ہمیں پیغام دیا کہ تحریک اسلامی کے تمام قائدین اور کارکنوں تک ان کا سلام اور دُعاپہنچا دیں اور یہ درخواست بھی کی کہ سب سے درخواست کریں کہ ان کے لیے، خصوصیت سے ان کی شہادت کے قبول کیے جانے کی دُعا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں عزت دی ہے اور ان شاء اللہ آنے والی زندگی میں بھی آپ کو عزت دے گا۔
میں دیہات سے آنے والا ایک عام سا آدمی تھا۔ یہ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے علما میرے بارے میں اپنی پریشانی اور فکر کا اظہار کر رہے ہیں اور میرے لیے دُعائیں کر رہے ہیں۔
شیخ حسینہ او آئی سی کانفرنس میں اس لیے نہیں گئی کہ اسے یہ اندیشہ تھا کہ وہاں میری رہائی کے بارے میں گفتگو ہوگی۔ یہ تمام چیزیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بہت زیادہ رحم اور رحمتیں ہیں۔
ہم نے والد صاحب سے استدعا کی کہ اللہ کے دربار میں ہمارے لیے بھی دُعا کریں کہ جنت میں ہم سب کو ملوائے۔
والد صاحب نے فرمایا: نیک عمل کرو کہ جنت تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے۔ ان شاء اللہ پھر اللہ تعالیٰ بھی کرم فرمائیں گے اور ہمیں جنت میں رفاقت نصیب ہوگی۔ پھر انھوں نے بڑی رقت کے ساتھ یہ دُعا کی جو ہمارے دلوں پر نقش ہوگئی۔
انھوں نے پھر اپنے دونوں ہاتھ ہمارے ساتھ دُعا کے لیے اُٹھائے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور رسولؐ اللہ پر درود و سلام بھیجا۔پھر ۲۰منٹ تک رسولؐ اللہ کی سکھائی ہوئی دُعائیں کرتے رہے جیساکہ وہ اپنی پوری زندگی میں کیا کرتے تھے۔
پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی: اے اللہ! میں ایک عام گناہ گار شخص ہوں۔ ازراہِ کرم میرے ان تمام اچھے کاموں کو قبول کرلیجیے جن کی آپ نے مجھے اپنے دین کی خاطر کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مجھے ایمان اور اسلام کے راستے پر موت تک استقامت عطا فرما اور مجھے شہادت عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے اور میری آیندہ نسلوں کو اقامت صلوٰۃ کی توفیق عطا فرمائے اور میری اور تمام اہلِ ایمان کی فیصلے کے دن مغفرت فرما۔ اے اللہ! ہمیں مضبوط ایمان کی برکت عطا فرما اور صرف اپنے پر ہی سچا توکل عطا فرما۔ ہماری زبانوں کواپنے ذکر سے ہمیشہ تر فرما۔ ہم ایسے زندہ قلب کے لیے آپ سے التجا کرتے ہیں جو ہمیشہ آپ سے ڈرے، علم نافع، حلال روزی اور اسلام کے صحیح فہم کی توفیق دے۔ ہم آپ سے اس کی التجا کر رہے ہیں ۔ اے اللہ! ہمیں موت سے پہلے پچھتانے کی توفیق دے۔ موت کے وقت ہمیں آرام دے اور موت کے بعد ہمیں اپنی مغفرت عطا کر اور دوزخ کی آگ سے بچا۔
یااللہ! ہم کو حلال پر قانع رہنے کی توفیق عطا فرما اور حرام سے بچنے کی توفیق دے۔ ہمیں پوری زندگی اپنا مطیع بنا اور ہمیں اپنی معمولی سی نافرمانی سے بھی دُور رکھ اور ہمیں اپنی ذات کے علاوہ کسی کا محتاج نہ کر۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنے نور (قرآن) سے ہدایت دے۔ تو ہمارے گناہوں کو پورا کا پورا جانتا ہے اس لیے ہم تیرے سامنے نادم ہوتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ یاحنّان! یامنان!
انھوں نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ! اس ملک کو اپنے دین کے لیے قبول کرلے اور اس ملک کو پُرامن بنا دے اور قتل و غارت، غنڈا گردی، اغوا اور سامراجیت سے محفوظ کردے۔ انھوں نے ملک کی ترقی کے لیے بھی دعا کی۔ اس جذباتی دُعا کے دوران میں میری بیٹی نے جیل کے اہل کاروں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔
یہ منظر، یہ جذبات، یہ دُعائیں، یہ تمنائیں عزیزی مطیع الرحمن نظامی کی کُل کائنات اور سرمایۂ حیات ہیں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے کبھی اپنے دشمنوں کو بھی تکلیف نہیں دی یہ الزام کہ اس نے درجنوں افراد کے قتل اور دسیوں محصنات سے جنسی زیادتی کا حکم دیا، ایک ایسا جھوٹ ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ اور یہ سب ایک چھوٹے سے قصبے میں جس کے باسی رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اس کے جنازے میں شرکت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوگئے۔ پہلے دوانتخابات میں اسے کُل ڈالے جانے والے ووٹوں کا ۵۴ فی صد سے زیادہ حاصل ہوا اور ۲۰۰۸ء میں جب تاریخی دھاندلی، جعلی ووٹ اور سرکاری مداخلت کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے، اس انتخاب میں بھی ووٹوں کا ۴۵ فی صد اسے حاصل ہوا۔
کیا کسی قاتل اور زانی سے بھی اس کے اہل محلہ اور اہلِ شہر ایسا پیار کرتے ہیں؟ بنگلہ دیش سے آنے والی خبریں چشم کشا ہیں۔ نظامی صاحب کی شہادت کے بعد سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جب کہ شہید کے اہلِ خانہ کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ تحریک کے کارکنوں اور حامیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے لیکن شہید کے گھر اور قبر پر ایسے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ وہ شہید کے احسان مند ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہیں جنھیں انھوں نے ہرقسم کی مدد دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کیا اور ان میں بیش تر افراد وہ بھی ہیں جن کا جماعت سے باقاعدہ کوئی تعلق نہ تھا۔ ان میں سے متعدد نے جنازے کے بعد ان کے احسانات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کتنی دُور سے چل کر آئے ہیں تاکہ ان کے جنازے میں شرکت کرسکیں۔ روایت ہے کہ جنازے کے بعد ایک کلین شیو شخص نے جس کا جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا، بہ آوازِ بلند اعلان کیا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ مطیع الرحمن نیک، بلند کردار شخصیت کے حامل ہیں جو کسی کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کو پھانسی دینے والے دنیا اور آخرت میں ذلیل و رُسوا ہوں گے۔(روزنامہ اُمت، ۱۳مئی ۲۰۱۶ئ)
مطیع الرحمن نظامی کے دوسرے صاحب زادے ندیم طلحہ نے اخباری نمایندے سے بات کرتے ہوئے کہا:
ہمیں اپنے والد کی شہادت اور قربانی پر فخر ہے۔ حکمرانوں نے بنگلہ دیش اور اُمت مسلمہ کے سب سے بڑے خیرخواہ اور محب وطن کو پھانسی دی ہے۔ میرے والد نے تاریخ رقم کردی ہے۔ سزاے موت کے خلاف رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ انھوں نے بہت پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ریکارڈ کی درستی اور حکمرانوں کی بدنیتی کو ظاہر کرنے کے لیے عدالتوں سے تو رجوع کیا جائے گا تاکہ حقائق کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے، مگر کسی حکمران سے رحم کی اپیل نہیں کی جائے گی۔ شہید مطیع الرحمن نظامی کل بھی عوام کے مقبول رہنما تھے اور آج بھی مقبول رہنما ہیں۔
میرے والد اکثر کہتے تھے کہ ہمارے تمام آنسو صرف اللہ کے لیے ہیں۔ میرے والد نے اپنی پوری زندگی ہم وطنوں کی فلاح و بہبود اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں صرف کی۔ جن لوگوں کا ان سے قریبی تعلق رہا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ پروفیسر مطیع الرحمن نے اپنی زندگی، دولت، جان و مال سمیت سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دیا تھا۔ ان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک بہترین انسان تھے اور آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی آفاقی تحریک سے منسلک نہ ہوتے اور اسلام کی آبیاری کے لیے کام نہ کر رہے ہوتے تو ان کی موت کے بعد یہ دنیا اندھیر ہوجاتی۔ مگر اسلام کے رشتے کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ہمیں اللہ کی جانب سے روشنی ملتی ہے۔ آج ہم انسانوں سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔ صرف اپنے رب سے رحم اور بخشش کا سوال کرتے ہیں۔ ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔
اس کی عزت پر حسینہ واجد کے حواری کیا دھول پھینک سکتے ہیں؟ الحمدللہ اپنے اور غیر جس کے بارے میں جو گواہی دے رہے ہیں وہ دلوں پر نقش ہی نہیں فضا کو بھی معطر کیے ہوئے ہے۔ جوشخص آٹھ سال وزیر اور وہ بھی زراعت اور صنعت کا وزیر رہا ہو، لیکن اس کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے ۱۹۷۱ء میں یہ اور یہ کیا یا کروایا، اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا باعث تو ہوسکتا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ قانونی سقم جو بھی ہوں، اور وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اس پورے مقدمے کو اسقاطِ عدل (miscariage of justice) کی بدترین مثال ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن مسئلے کو جانچنے کا ایک پیمانہ اخلاق اور معاشرے میں شہرت بھی ہے۔ اہلِ خانہ، پڑوسیوں، محلہ داروں، اہلِ شہر، دُور و نزدیک کے آشنائوں کی گواہی بھی ہے۔ بلاشبہہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے اور اس کے فرشتے ہرہرلمحے کا حساب محفوظ کیے ہوئے ہیں لیکن زبانِ خلق بھی نقارئہ خدا کی حیثیت رکھتی ہے کہ ’بھلا کہے جسے دنیا اسے بھلا سمجھو!‘
اس سلسلے میں قرآنِ پاک میں استدلال کا ایک عجیب و غریب پہلو بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ سورئہ یونس میں قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کی دلیل کے طور پر قریش کو چیلنج کرکے کہا جاتا ہے کہ کیا تم اس شخص سے واقف نہیں ہو جس کے اُوپر یہ کلام نازل کیا گیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرا کلام نہیں اللہ کا کلام ہے۔ کیا اس شخص نے پوری زندگی تمھارے درمیان نہیں گزاری؟ کیا تم نے اس کو صادق اور امین کے لقب سے نہیں نوازا؟ جس کی زندگی ایسی ہو، وہ ایسے عظیم معاملے کے باب میں کوئی غلط دعویٰ کرسکتا ہے؟
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo(یونس ۱۰:۱۶) آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور۔قیمت:-/۱۵ روپے، سیکڑہ:۱۰۰۰ روپے)
حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت میں لوگوں کو جمع کرے گا۔ مسلمان کھڑے ہوں گے اور جنت ان کے قریب کر دی جائے گی۔ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے والد بزرگوار! چلیے ہم لوگوں کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیجیے۔ وہ کہیں گے: میں اس کام کے لائق کہاں؟ اپنے والد کی ایک غلطی ہی کی وجہ سے تم جنت سے باہر نکلے ہو۔ جائو میرے فرزند ابراہیم ؑ کے پاس جائو، وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ فرمائیں گے:میں اس خدمت کے قابل کہاں؟ میں تو بس دُور دُور ہی سے خلیل تھا۔ موسٰی ؑ کے پاس جائو، ان سے اللہ تعالیٰ نے بڑی خصوصیت سے باتیں کی ہیں۔ وہ ان کے پاس جائیں گے۔ یہ فرمائیں گے: میں اس خدمت کے لائق کہاں؟ عیسٰی ؑ کے پاس جائو، وہ اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ کُن سے پیدا ہوئے ہیں اور روح اللہ کا لقب پایا۔ عیسٰی ؑ فرمائیں گے: میں اس لائق کہاں؟ اس کے بعد لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ آپؐ شفاعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور آپؐ کو اجازت مل جائے گی (اور حساب شروع ہوجائے گا)۔ اس دن صفت امانت اور صلۂ رحمی کو اتنی اہمیت دی جائے گی کہ ان کو ایک حسّی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پُل صراط کے دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی (تاکہ اپنی رعایت کرنے والوں کی سفارش اور رعایت نہ کرنے والوں کا شکوہ کریں)۔ پھر تمھارا پہلا قافلہ بجلی کی طرح تیزی سے گزر جائے گا۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کا کیا مطلب ہوا؟ فرمایا: تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح پل بھر میں گزر کر لوٹ بھی آتی ہے۔ اسی تیزی کے ساتھ تمھارا گزرنا ہوگا۔ پھر ہوا کی طرح، پھر تیز پرندے کی طرح، پھر انسانوں کی دوڑ کی طرح، غرض کہ جیسے ان کے اعمال ہوں گے اسی تیزی کے ساتھ وہ ان کو لے جائیں گے اور تمھارا نبیؐ کھڑا ہوکر یہ دُعا مانگ رہا ہوگا: میرے رب! ان کو سلامتی سے گزار۔ یہاں تک کہ اب ضعیف الاعمال اور گنہ گار لوگوں کی باری آئے گی۔ حتیٰ کہ ایک شخص وہ ہوگا جسے گھسٹ کر چلنے کے سوا طاقت نہ ہوگی۔ فرمایا کہ پل صراط کے دونوں طرف کانٹے ہوں گے اور جس کے متعلق حکم دیا جائے گا وہ اس کو پکڑیں گے۔ پس جس کے صرف خراش آئے گی وہ تو نجات پاجائے گا اور جس کے ہاتھ پیر باندھ دیے جائیں گے وہ دوزخ میں جائے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ قسم کھا کر کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں ابوہریرہؓ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ۷۰سال کی مسافت ہے۔(مسلم)
حدیث ِشفاعت میں تفصیلات کا اختلاف ہے۔ بعض میں حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ کا اور ان کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ بعض دیگرتفصیلات میں بھی کہیں اختصار ہے جیساکہ مذکورہ حدیث میں، اور کہیں تفصیل ہے جیساکہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس اختلاف سے ان احادیث میں تعارض اور اختلاف نہ سمجھا جائے۔ یہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ تفصیل اور اختصارموقع محل کے لحاظ سے ہوجاتا ہے۔ اس حدیث سے انبیاء علیہم السلام کی تواضع اورعاجزی ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر ان سے تھوڑی سی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اس پر ان کو کتنا بڑا خوف لاحق ہوجاتا ہے اور وہ اللہ رب العالمین سے ہم کلامی اور سفارش سے کس قدرگھبرا جاتے ہیں۔
اس سے ہمارے لیے ایک نمونہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی اُمید رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ اس کی نافرمانی کا خوف بھی کرنا چاہیے۔ اول تو نافرمانی سرزد ہی نہ ہواور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے نافرمانی سرزد ہوجائے تو فوراً توبہ و استغفار کی طرف توجہ کرنا چاہیے ۔ پُل صراط سے گزرنے کی جو تفصیلات سامنے آتی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ جن نیک اعمال کا موقع ملے ان کو کر گزرنا چاہیے، اس میں کسی تذبذب اور سُستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔بے شک ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے نبی جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ تمام انبیا ؑ سے اُونچا ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی احساس بیدار رکھنا چاہیے کہ آنحضرتؐ کی نافرمانی بھی بہت بڑی نافرمانی ہوگی اور آپ کے دین کی بے قدری بھی بہت بڑا جرم شمار ہوگا۔ آج یہ جرم بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ مسلمان ممالک جو نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور مسلمانوں کے فتح کردہ ہیں، آج ان ممالک میں مسلمان تو ہیںلیکن اسلام نہیں ہے۔ اسلام کو تخت اقتدار سے معزول رکھا ہوا ہے۔ یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا وہ لوگ جن کو اسلام نے یہ ممالک عطا کیے ہیں وہ اسلام کے ساتھ اس بدسلوکی کا جواب دے سکیں گے؟ اگر نہیں تو ابھی سے اس کے ازالے کی کوشش کریں اور تمام لادینی نظاموں اور لادینوں کو تخت ِ اقتدار سے معزول کرکے اسلام اور اسلام کے علَم برداروں کو تخت ِ اقتدار پر فائز کریں کہ اس سے اس ظلم کا ازالہ ہوگا اور جواب دہی آسان ہوگی۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی۔ پھر ترکی خیمے سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے سر باہر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش کی وجہ سے کیا۔ پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا۔ پھر مجھے کسی بتلانے والے نے بتایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات دکھلائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اس کی علامت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ لہٰذا اب اس کو اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس رات بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی اکرمؐ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا نشان اکیس کی صبح کو دیکھا۔(مشکوٰۃ)
رمضان المبارک کا مہینہ نزولِ قرآنِ پاک کا مہینہ ہے۔ اسی لیے قرآن اسے تنفیذِ قرآن کا مہینہ قرار دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے آنے سے پہلے مسلمانوں کو اس مہینے کی عظمت سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس کی برکات و حسنات اور فضائل بیان فرما کر متوجہ فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اس میں ایک رات ایسی ہے کہ جو اس سے محروم ہوگیا، وہ ہرخیر سے محروم ہوگیا۔ ظاہر بات ہے اس مہینے میں نفل عبادت کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرضوں کے برابر اور لیلۃ القدر کا ثواب ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے۔ ہزار راتیں ۸۳سال چار ماہ بنتے ہیں۔اگر ایک رات میں کسی کاروباری کو ۸۳سال چار ماہ کی کمائی ملتی ہو تو وہ اس رات کاروبار کو کیسے چھوڑے گا اور کیوں سونے میں وقت لگائے گا ۔افسوس ہے ان پر جو آخرت کے کاروباری ہیں، یعنی اہلِ ایمان، ان کو اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے فیض یاب ہونے کا شوق، جذبہ اور فکر نہیں ہے اور جن کو ہے وہ بہت کم ہیں۔ آیئے اس مہینے اور اس مہینے کی اس عظیم رات میں اُخروی کمائی کی فکر کریں۔
اس حدیث سے اعتکاف کا ایک مقصد لیلۃ القدر کی تلاش سامنے آیااور اسی کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ پورا ماہ رمضان اعتکاف فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخیر عشرے میں اعتکاف کرنے والے کو وہ رات لازماً مل جائے، یعنی وہ ۸۳سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب پالے۔
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: معتکف تمام گناہوں سے رُک جاتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسی ان لوگوں کے لیے لکھی جاتی ہیں جو وہ نیکیاں عملاً کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)
اگر ایک آدمی جو آخرت کا طلب گار ہے اس حدیث پر غور کرے تو اسے اعتکاف کا شوق پیدا ہوگا اور وہ دس دن اللہ کے گھر میں آکر سوالی بن کر بیٹھ جائے گا۔ تب ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ جو رحمن و رحیم ہے جو بندوں پر ان کے سوال کے بغیر بھی عنایات فرماتا ہے پورے دس دن اور رات اس کے دَر کا سائل بن کر بیٹھ جانے والے کو کیوں کر نہیں نوازے گا۔ پھر نبی اکرمؐ نے اس کا اہتمام فرمایا اور اہلِ ایمان آپؐ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے تاکہ لیلۃ القدر مل جائے۔ اس لیے بارانِ رحمت سے سرفراز ہونے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دی جائے۔
خواتین کے لیے تو اعتکاف مردوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے ۔ وہ اپنے گھر کے کسی کونے کو مسجد بناکر اس میں اعتکاف کی نیت سے ۲۰رمضان المبارک کو سورج غروب ہونے سے پہلے بیٹھ جائیں، اور اپنی اعتکاف کی جگہ کو دن رات کسی وقت بھی ضروری بشری حاجات، مثلاًقضاے حاجت وغیرہ کے بغیر نہ چھوڑیں۔ اپنے معتکف (جاے اعتکاف) میں بیٹھے بیٹھے اپنے بچوں اور بچیوں کو مختلف کاموں کا حکم اور ہدایت دیتی رہیں لیکن خود کام کے لیے باہر نہ نکلیں تو ان کو بھی اسی طرح وہ تمام فضائل و برکات حاصل ہوں گی جو مردوں کو مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ احادیث میں عورتوں کے لیے ہدایت ہے کہ ان کی نماز گھر کے اندرونی حصے میں جس میں گھر والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوتا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت گھر کے صحن کے اور بہ نسبت مسجد کے۔ البتہ تراویح میں خواتین مسجد میں جاسکتی ہیں، جب کہ ان کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہو تاکہ پورا قرآنِ پاک سن سکیں اور خلاصہ قرآن پاک جو تراویح کے بعد بیان کیا جاتا ہے کو سن کر اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کو نورِ قرآنِ پاک سے منور کرسکیں۔
یہ نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…
لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو۔ اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پاکر تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو، تمھیں اس کامستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
وہ ان میںاتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں بہر حال دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے ، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو۔ لڑکر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ … دوسرے تمام دینوںکی طرح دین اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیں اور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔ کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔ کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اور یا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔ یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا اعتقاد سچا ہوگا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آ سکے گی کُجا کہ آپ اُس کی خدمت کریں اور اس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانا زہر اور حنظل کا کھانا ہوگا اور دینِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا۔ لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہواور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں، خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں، کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں، کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں، اور کتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں…
قرآنِ مجید انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت و اصلاح ہے۔ یہ فرد اور جماعت، حکمران اور عوام، قوموں اور ریاستوں کے لیے یکساں طور پر ضابطۂ ہدایت ہے۔ اس کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوئوں میں اس کی رہنمائی کی جائے اور اُسے درست راستے پر چلایا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ایک لمحے تو اس کو اپنا حاکم اور مقتدا مانتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ کسی واقعے میں قرآن اُن کے لیے قانون اور دستور ہوتا ہے اورکسی واقعے میں اس سے قانونی رہنمائی لینے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔قرآن جہاں لوگوں کے مفادات، خواہشات، میلانات اور ضروریات کے مطابق ہو وہاں لوگ آگے بڑھ کر اس کو بیچ میں لاتے اور اس کو حَکم مانتے ہیں، لیکن جہاں معاملہ اس کے برعکس ہو وہاں لوگ اس سے دُوری میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔آج ہر گھر میں قرآن موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں قرآن کے ایک سے زائد نسخے موجود نہ ہوں۔ پرنٹ میڈیا کی مطبوعات اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں قرآن کے بلاواسطہ پیغام کا اظہار دن رات کا معمول ہے۔ دنیاے اسلام میں سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جو آنے چاہییں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم وہ شرائط پوری نہیں کر رہے جو قرآن کسی بھی دل کے اندر اپنے اثرات چھوڑنے کے لیے طلب کرتا ہے۔ قرآن کے مفہوم کی تعلیم زبان سے اس کے حروف کی ادایگی کی تعلیم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بیش تر حفاظ اور قراء قراء تِ قرآن کے ماہر ہیں، لیکن اس کے مفہوم و مقصود سے ناآشنا ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ حاملین قرآن کی اس صورتِ حال نے اُمتِ مسلمہ کے اندر بیداری کی روح کو بھی متاثر کررکھا ہے۔ قرآن کی تعلیم اور تدریس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد معاملات کو سلجھانے، عوام کی رہنمائی کرنے اور حق و ناحق کے خلط ملط ہوتے تصورات کو چھانٹ کر بیان کرنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ صورتِ حال جہاں حاملین قرآن کے اعلیٰ طبقے معلّمین و مدرّسین اور حفاظ و قراء ِ قرآن کی کثیر تعداد میں موجود ہے وہاں امت کے عام افراد میں اس کا گراف مزید پست ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سرسری تعلق اور سلوک کا نتیجہ ہے جس کو ہم اپنی زندگیوں کا ایسا معمول بنائے ہوئے ہیں کہ ذرا رُک کر اس پر غور کرنے کی ضرو رت محسوس نہیں کرتے۔
قرآنِ مجید اور اس کے علوم کالجوں، یونی ورسٹیوں، دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے مقالات اور خطابات کا موضوع ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری کانفرنسوں میں بڑے بڑے مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ کتب لکھی جاتی ہیں۔ مسائل اور موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوتا اور پیش کیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلمان قرآنِ کریم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے، قرآن او رعلومِ قرآن کے ساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اور احکام کے دل و جان سے گرویدہ ہیں۔ حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا۔ ان مقالات، کتب، تقریروں، لیکچروں اور گفتگوئوں میں کوئی لفظ، کوئی مسئلہ، کوئی قضیہ ایسا نہیں چھوڑا جاتا جس کے اوپر بحث و تحقیق کی انتہا نہ کر دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے عام انسانی زندگی کس قدر مستفید ہوتی ہے؟ کیا یہ دل و دماغ، روح و ضمیر اور اخلاق و کردار کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان سے انسانوں کے ایمانی و اعتقادی، ثقافتی و نظریاتی اور قدری و روایاتی انحرافات میں کوئی اصلاح ہوتی ہے؟
اصحابِ علم و معرفت اور علومِ قرآن کے اہلِ اختصاص کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو فلسفیانہ موشگافیوں سے دُور رکھ کر عام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں۔ وقت کی ضرورت اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔جامعاتی تحقیقات، علمی رسائل و جرائد، ادارہ جاتی اور نشریاتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں بھی اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ اور خصوصی جدوجہد کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی زندگی پر قرآنِ مجید کس طرح سے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ اُن کی بیداری و تبدیلی کا کیوںکر ذریعہ بن سکتا ہے؟ ان کی تجدید و احیا کا رہنما کس انداز میں ہو سکتا ہے؟ مسلمانوں کے اجتماعی نظام اور باہمی تعلقات میں قرآن کی تاثیر کہاں تک ہے اور کہاں تک ہونی چاہیے؟ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے کیسا محفوظ و متوازن پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ نظری تحقیقات سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے قرآن کے مطالعے اور تلاوت کی ناگزیر ضرورت ہے تاکہ تلاوتِ قرآن کا وہ حق ادا ہو جائے جس کے نتیجے میں تلاوت کرنے والا حقیقی صاحبِ ایمان بنتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اِس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔اور جو اِس کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ پڑھنے والا اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا ہے اُسی طرح اس کو پڑھے، اس کے الفاظ و کلمات میں کسی قسم کی تحریف نہ کرے، اور اس کی کوئی غیرحقیقی تاویل نہ کرے۔
اس طرز کی تلاوت اور تعلیم ہی سے مطلوب تزکیے اور تقویٰ و طہارت کا حصول ممکن ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآنِ مجید کی مجرد تلاوت بھی باعثِ برکت اور حصولِ ثواب کا ذریعہ ہے، مگر اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تلاوت ہی کے لیے قرآن نازل نہیں فرمایا، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ خوب صورت خطاطی میں اس کی آیات دیواروں کی زینت بنائی جائیں، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی غرض سے اسے پڑھا جائے، اور نہ محض اس لیے نازل کیا ہے کہ اسے خوش الحانی سے تلاوت کرنے کے لیے قراء ت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اپنی ہدایت و رہنمائی سے انسان کے سفرِ حیات کو منظم اور منضبط بنا دے۔ زندگی پر ہدایت ِالٰہی اور دینِ حق کی حکمرانی قائم کر دے۔ اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر لے آئے اور اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا کرے۔
اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، مگر دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔
ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوںکہ قرآن کی حقیقی برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قراء ت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قراء ت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قراء ت کیوںکر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا: لَا یَفْقَھُہُ مَنْ یَقْرَوُہُ فِی اَقَلٍّ مِنْ ثَلَاثٍ(صحیح الجامع الصغیر) ’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قراء ت کر لیتا ہے‘‘۔
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قراء ت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۷۵)۔امام قرطبیؒ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء ۴:۸۲) کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۱۸۷)
قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲)’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا: اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَـہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُـہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام ۶:۱۲۲)’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ط (الشوریٰ ۴۲:۵۲)اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔
جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا: اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط(الزمر۳۹:۲۲)’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اِذَا دَخَلَ النُّوْرُ القَلْبَ اِنْشَرَحَ وَانْفَتَحَ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ!اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اَلْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الخَلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِالغَرُورِ، وَالْاِستِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہِ دارِخلود،’’(آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری!‘‘۔ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر۵۹:۲۱) اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر)غور کریں۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن۱۸:۳۰)
قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںگہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ اللہ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قراء ت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی:
اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۸) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ اللہ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ وَاَخَوَاتُھَا قَبْلَ المَشِیْبِ!(صحیح الجامع الصغیر) ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم___؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟___نہیں، ہرگز نہیں!قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!
اسلام کے نظامِ عبادت کا بنیادی مقصد بندے اور رب کے تعلق کو مستحکم کرنا اور للہیت پر مبنی اجتماعیت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ عبادات بھی جو انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں، ان کی روح بھی اجتماعیت ہی میں ہے۔ حج کو چھوڑتے ہوئے، کیوںکہ وہ تو ہوتا ہی اجتماعی سطح پر ہے نماز روزہ اور زکوٰۃ اجتماعیت اور للہیت پیدا کرنے کے عملی ذرائع ہیں۔ رمضان الکریم ہر سال اہل ایمان کو ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مستحکم کریں، بلکہ اللہ کے بندوں کو روزہ افطار کراکے ، اللہ کے بندوں کو لباس پہنا کر، اور اللہ کے بندوں پر سے کام کی مشقت کم کرکے رب کی قربت حاصل کر لیں۔
رمضان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت رحمت کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنی فیاضی اور کرم سے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اپنے لیے کیے گئے اس عمل کو قبول فرما کر اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کا بندوبست کر دیتا ہے۔ یہ کرم بالاے کرم ہی تو ہے جسے ایک حدیث میں رحمت کے اس بادل سے تعبیر کیا گیا ہے جو مومن بندوں پر رمضان میں سایہ فگن ہوتا ہے اور اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں کی عبادت کے مثل ہو جاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی عام دنوں کے مقابلے میں ستّر گنا بلکہ سات سو گنا اجر کا سبب بن جاتی ہے۔
اس مہینے کا اول عشرہ رحمت، وسط کا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کا سامان کرتا ہے۔اگر اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ عمدہ لذیذ کھانوں سے نہیں،محض دودھ کے ایک گلاس یا ایک کھجور سے افطار کرا دیا جائے اور پیٹ بھر کھانا کھلا دیا جائے تو رب کریم اپنے بندے کو حوضِ کوثر سے پانی پلوانے کا وعدہ فرماتا ہے جس کے بعد اس خوش نصیب کو میدانِ حشر میں بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔
یہ مہینہ ایمان کی بہار اور انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کی تربیت گاہ ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا علم صرف بندے اور رب کریم کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو جسمانی طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن روزہ جس طرز عمل کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی کیفیت اور قوت کا اظہار کرتا ہے روزہ دار کی گفتگو ہو یا معاملات میں طرزِعمل، روزہ کے دوران باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و فضیلت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے، اس کا حق ادا کرنے، اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی کوشش کی جانی چاہیے۔
دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان عموماً دن میں پانچ مرتبہ قرآنِ کریم کی پُراز حکمت آیات کی تلاوت سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی مختصر سورہ کی شکل میں کرتا ہے لیکن غوروفکر کی عادت سے محرومی کے سبب ان آیات کے انتہائی واضح مفہوم پر غور کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کا یادداشت یا کتابِ عزیز کو سامنے رکھ کر پڑھنا بلاشبہہ اجروثواب کا کام ہے لیکن کیا قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم ترین ہدایت نامے کے بارے میں کہیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے صرف اجروثواب کے لیے نازل کیا گیا ہے یا بار بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کلام پر غور، فکر، تدبر، تعقل، تحقیق اور تفقہ کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم اکثر اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ کہتے تو ہیں کہ اس کا سبب قرآنِ کریم سے دُوری ہے۔ لیکن کیا بیماری کا سبب جاننے کے بعد نسخہ اور مشکلات کا حل کرنے والی چابی کی طرف متوجہ ہوکر مرض کے علاج اور شفا کے لیے اس اکسیر کا استعمال کرنے کے لیے اپنے وقت میں سے کوئی حصہ نکالتے ہیں؟
انسانی تاریخ میں آج تک مسائل و مشکلات کا حل نہ خواہشات سے ہوا ہے نہ محض اُمید سے۔ عملی اقدامات کے بغیر کسی بھی مسئلے کا حل نہ عقل مان سکتی ہے اور نہ تجربہ۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف حکمت و دانائی سے لبریز ہے اور بغیر اس کی فلسفیانہ تعبیرات کے، صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے معانی پر غور ہمارے مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتا ہے۔
تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ربِ کریم نے محض ایک کلمے میں ہمارے طرزِعمل، معاملات، ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کی طرف نشان دہی فرما دی ہے۔ سورئہ نساء میں ایک آیت پر اگر غور کیا جائے تو اس میں انسانیت کا پورا منشور رقم کر دیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ٰامِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا o(النساء ۴:۱۳۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر اور اُس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔
اہلِ ایمان کو ’اے ایمان والو‘ کہنے کے بعد یہ فرمانا کہ ’ایمان لائو‘ ہر صاحب ِ فہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض ایک ادبی اسلوب ہے یا ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں دوبارہ ایمان لانے پر متوجہ کرنے کا مفہوم کچھ اور ہے؟آیت ِ مبارکہ کابقیہ حصہ اُس ایمان کی وضاحت کرتا ہے جو ہم ہرمسلمان بچے، جوان اور معمر فرد کو زبانی یاد کراتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر نازل کردہ اس کتاب، اور ہر اُس کتاب پر جو آپ کی شریعت سے پہلے نازل کی گئی، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ایمان ہے۔ اور جو اس کا منکر ہے وہ گمراہ ہے جسے ہدایت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کی طرف لانے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈال دی گئی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو ارشاد ربانی کہ ’ایمان لائو‘ کی وضاحت خود کلامِ عزیز تفصیل کے ساتھ ہرصفحۂ کتاب پر کرتا ہے تاکہ ایمان کسی مخفی کیفیت تک محدود تصور نہ کیا جائے ،بلکہ ایمان کا واضح اظہار طرزِعمل (behaviour) اور قابلِ محسوس رویے میں ہو، اور جسے انسانی نگاہ اور ذہن عقلی پیمانوں کے ذریعے پیمایش کرکے اور ناپ تول کر یہ طے کرسکے کہ ایمان، ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا تنزل کی طرف جارہا ہے۔ ایک حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب کوئی مومن کسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل میں کم سے کم تر ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔
گویا جدید علوم انتظامی میں جس چیز کو کارکردگی کے قابلِ پیمایش پیمانے KPI (Key Performance Indicators) کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہیKPI بھی بیان کردیا جاتا ہے، تاکہ ایمان ایک طرزِعمل کی شکل اختیار کرجائے اور ایک مخفی کیفیت تک محدود نہ رہے۔
اس پس منظر میں پہلا پیمانہ یا KPI دین کو جامع نظامِ حیات ماننا ہے۔ اس صداقت پر یقین کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص زندگی کے کاروبار میں روایتی تقسیم کرتا ہے یا توحید ِ خالص اور اطاعت ِ رسولؐ کی بنا پر اپنے ذاتی، گھریلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور دفاعی، تعلیمی معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بناتا ہے۔ اگر اس کا ایمان تو اللہ اور رسولؐ پر ہے لیکن اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار اس کی برادری یا حلقۂ احباب کا کسی کام کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یا دوستوں یا اہلِ خانہ کا عبد یا بندہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنی پارٹی (حزب) کو اپنا خدا بنالیتا ہے۔ اگرچہ وہ کلمۂ شہادت پڑھ کر اعلان تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا لیکن اس کی اَنا، نفس، ذاتی مفاد، اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہیں تو وہ ایمان لانے کے باوجود ایمان نہیں لایا۔ خاتم النیینؐ نے اس عملی صورتِ حال کو، جو ہم میں سے ہر فرد کو دن میں بارہا پیش آتی ہے، اپنے ایک قولِ بلیغ میں یوں ارشاد فرما دیا:
مَن اَحبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (بخاری، عن ابوامامہؓ) جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا ، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔
گویا ایمان کوئی غیرمرئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا احساس و اظہار طرزِعمل میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی اصطلاحات ایمان، فسق، نفاق، کفر اور ظلم طرزِعمل پر مبنی اصطلاحات ہیں۔ یہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے آزاد واضح اور آسان خطوط پر مبنی ہیں۔
جو شخص روایتی تقسیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بعض معاملات ’دینی‘ ہیں اور بعض ’دنیاوی‘ ہیں، وہ دین کی کاملیت اور جامعیت کا عملاً انکار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ دین محض نماز اور روزے کا اہتمام کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے، جب کہ اس کی پسند و ناپسند کا پیمانہ کبھی مغرب، کبھی مشرق، کبھی اپنا نفس، کبھی اس کی جماعت اور پارٹی ہو اور کبھی برادری اور معاشرے کا خوف ہو۔ یہ وہ پہلا پیمانہ ہے جو ہمیں آئینے میں اپنا صحیح چہرہ دکھا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک صاحب ِ ایمان ہونے کے باوجود حاملِ ایمان ہیں اور ہمارا عمل کس بات کی شہادت دے رہا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (التوبہ ۹:۲۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔
دوسر ا اہم پیمانہ کسی فرد کا ایمان لانے کے بعد صداقت، سچائی اور بھلائی اور خیر کا بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی زندگی کے معاملات میں رائج کرنا ہے۔ یہ صداقت اور سچائی محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص جب بات کرتا ہے تو وہ سیدھی ، سچی اور کھری ہو، یا اس میں کوئی لگاوٹ، اخفا یا ذومعنی الفاظ کا استعمال یا کسی حیلہ کا استعمال کیا جا رہا ہو، بلکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب بات کی جائے تو خیرخواہی کی ہو۔ اس میں اپنے بھائی کو چکّر دینے اور اپنے فائدے کے لیے اسے صرف اتنی بات بتانا جس سے خود اپنا فائدہ اُٹھایا جاسکے یا پورے حقائق، اور پورے حق کا اظہار نہ کرنا بھی شامل ہے۔
قرآنِ کریم اس رویے اور طرزِعمل کو قولاً سدیداً سے تعبیر کرتا ہے۔ قولِ حق و صداقت کا تعلق محض ایک سیدھی بات کہہ دینے سے نہیں ہے بلکہ حق کو پہچاننا اور باطل، ظلم، طاغوت کے ساتھ فرق کو سمجھنا، مداہنت سے بچنا اور اپنے ذاتی فائدے سے بلند ہوکر حق کا ساتھ دینا ہے۔ اسی پہلو کو قرآنِ عظیم نے یوں واضح فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
سچ اور صداقت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ باطل اور ناحق کو ہاتھ اور زبان سے دُور کرنا اور حق و صداقت کو بغیر کسی ملاوٹ کے مشکل ترین حالات میں حکمت دین کے ساتھ واضح کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس کے بغیر کارِ نبوت مکمل نہیں ہوتا۔ ابھی نزولِ وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن صاحب ِ قرآن کے طرزِعمل اور رویے نے اہلِ مکہ کو آپؐ کی صداقت اور سچائی اور امانت کے برملا اقرار پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آپؐ کو سچا اور صادق ماننے کے باوجود اپنے عملی تضاد کی بنا پر آپؐ کے لائے ہوئے حق اور صداقت کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔
اکیسویں صدی کے تناظر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مغرب ہو یا مشرق، انسان کے خودساختہ نظام انسانیت کو فلاح، سعادت اور سکون دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق تک قولِ حق اور قولِ سدید کو پہنچانے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوچکی ہے۔ اب یہ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کو بغیر کسی مداہنت اور قولِ حق کو بغیر کسی مفاہمت کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حکمت ِ دعوت کے ساتھ تمام موجود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ کام کرتے ہوئے ایمان کے ایک اور مطالبے، یعنی ربِ کریم کی حمد، شکر اور ذکر کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرے۔
للہیت اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محض اپنی عددی طاقت پر بھروسا، عوامی مقبولیت اور عوامی نعروں پر اعتماد ایک ناپایدار تصور ہے۔ دعوتِ دین اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ یہاں ۱۰ تربیت یافتہ ، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے کارکن اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ باطل کی قوت کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ (اے نبیؐ) مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے‘‘ (انفال ۸:۶۵)۔ قرآنی تصورِ قوت ایک نرالا تصور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ پہلے ۶۰لاکھ لوگ جمع کرو، تب تم street power بن کر انقلاب لائو گے، بلکہ وہ واضح طور پر کم تعداد میں وہ قوت مجتمع کردیتا ہے جو بڑے بڑے طوفانوں اور کفر کے سیلاب کو اپنی قوتِ ایمانی سے انگیز کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کفروظلم کی کثیرطاقت پر کامیابی حاصل کرسکے۔ بدر کا معرکہ ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔
یہاں مطالبہ تزکیۂ نفس کا، قرآن سے تعلق کا، سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگ جانے کا ہے۔ یہاں صبرواستقامت پر اُبھارا جا رہا ہے۔ صابرون سے مراد وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں جو ہرمیدان میں ایمانی بصیرت کے ساتھ مہارت رکھتے ہوں۔ وہ میدان معیشت کا ہو، تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو یا فکر کا ہو یا عسکری جہاد، یہ صابرون ان تمام شعبوں میں قیادت کی صلاحیت کے ساتھ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے جب اس کی راہ میں نکلتے ہیں تو پھر راستے کی رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے ایمان کو ناپنے کا ایک پیمانہ اللہ کی یاد، ذکر اور تذکرہ ہے جو قلت تعداد کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت کو لرزہ براندام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo
(احزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان لانے والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔
اللہ کا ذکر اپنی مکمل شکل میں نماز میں پایا جاتا ہے۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۵)’’اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی‘‘۔ لیکن یہ ذکر اور یاددہانی محض صلوٰۃ فجر اور عشاء تک محدود نہیں۔ ایک مومن کا ہرلمحہ، ہر سانس، ہرعمل بندگیِ رب میں کیا جا رہا ہو تو اس کا ہرعمل عبادت اور ذکر شمار کیا جاتا ہے اور ارحم الراحمین مزید فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی خامیوں اور کمزوریوں کو قوتوں اور حسنات سے بدل دیتا ہے۔
تزکیہ نفس
ایمان کی کیفیت کا تیسرا پیمانہ یا KPIایک فرد کا مسلسل تزکیہ میں مصروف رہنا ہے۔ تزکیہ ایام بیض کے روزوں یا قیام لیل تک محدود نہیں ہے۔ اس کا پہلا میدان گھر اور خاندان ہے کہ ایک فرد کہاں تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کررہا ہے جو محبت، ہمدردی اور نصیحت کا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے جو روزی کما رہا ہے، وہ حلال ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں پر جو خرچ کر رہا ہے، اس میں کہاں تک اعتدال ہے، وہ اسراف سے کتنا محفوظ ہے۔ وہ اپنے والدین اپنے اقربا اور اپنے احباب کے حقوق کس حد تک ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام اعمال ایمان کے پیمانے ہیں۔ ایک حدیث صلہ رحمی کے حوالے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اقربا کی طرف سے ناشکرگزاری کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ فرد کا تزکیہ اس کے مال کا بھی ہے، صلاحیت کا بھی، وقت کا بھی اور سنن اور نوافل کے اہتمام کا بھی۔ تزکیہ بھلائی اور خیر کے مسلسل بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ ایک جامع ذاتی ترقی کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں شخصیت و کردار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔
چوتھا پیمانہ جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد کا طرزِعمل ایمان کا پتا دیتا یا تقویٰ سے دُوری کی نشان دہی کرتا ہے، جادئہ عدل کو اختیار کرنا ہے۔عدل قرآنِ کریم کی بنیادی اصطلاحات میں سے ایک اہم تعلیم اور اصول ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم وہ ہے جو ہم میں سے ہرایک بخوبی جانتا ہے، یعنی کسی تعصب، لاگ لپیٹ، ذاتی پسند ناپسند، نفرت یا محبت، قبائلی نسبت، خونی اور خاندانی تعلق، نظریاتی اتحاد، غرض ہر تعلق سے آزاد ہوکر اللہ کی خاطر، سچائی اور حق کی گواہی دیتے ہوئے ایک مشرک کے ساتھ بھی عدل کا رویّہ اختیار کرنا۔ اسی کا نام تقویٰ اور اسی کا نام توحید ہے۔
عدل کا مطالبہ ہے کہ تمام مراسمِ عبودیت ، اطاعت ، فرماں برداری، محبت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اس میں کسی کو شریک کرلیا گیا تو اسی کا نام ظلم عظیم، یعنی شرک ہے۔ بالکل اسی طرح کسی گروہ کی دشمنی یا دوستی سے بلند ہوکر شہادتِ حق دیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا جو عدل کا مطالبہ ہو تقویٰ ہے۔ گویا عادلانہ رویہ وہ پیمانہ یا KPIہے جو یہ بتلاتا ہے کہ ایک شخص ایمان اور تقویٰ سے کتنا قریب ہے۔ یہاں بھی ایمان کسی مخفی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک واضح طرزِعمل اور قابلِ محسوس رویّہ ہے جیسے ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن بغیر کسی الجھائو کے محسوس کرسکتا ہے۔ ایمان کے اس پہلو کو کتابِ حکمت و رُشد و ہدایت یوں بیان کرتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط
اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(المائدہ ۵:۸) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں تحریکی کارکنوں کے لیے اہم دعوتی پہلو واضح کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی یا مخالفت مستقل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہر مشرک، فاسق اور ظالم ایک ممکنہ مومن ہے۔ فرعون کی فرعونیت کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ سے فرمایا گیا کہ تم دونوں جائو اور اسے نرم اور دل نشین انداز میں دعوتِ حق دو شاید وہ بھلائی کی طرف آمادہ ہوجائے۔ گویا سیاسی مخالفین ہوں یا نظریاتی دشمن، اُن تک دعوت کا پہنچانا ہر تحریکی کارکن کا ہدف ہونا چاہیے۔
ایمان کے وجود اور قوتِ ایمانی کا ایک پیمانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اطاعت کا وہ رشتہ ہے جس میں ایک مرتبہ منسلک ہونے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان تمام غلامیوں اور ہرقسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہ طوقِ اطاعت ہے جو ایک شخص کو تمام غلامیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کے احکام چاہے وہ مشکل نظر آئیں یا آسان، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے طاغوت، اپنے زمانے کے معاشی طاغوت، سیاسی طاغوت، ثقافتی طاغوت اور سیاسی برتری اور قوت کے طاغوت سے آزاد ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں کو، اپنے تمام معاملات کو، اپنے تمام مفادات کو صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بناتے ہوئے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ فرماں روا اور اولی الامر جن سے اس کا روز واسطہ پڑتا ہے، اگر وہ اللہ اور رسولؐ کے نظام پر عمل نہ کر رہے ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا رُخ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتا ہے۔
یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جو روزِ روشن ہو یا شام کی دھندلاہٹ، ہر صورتِ حال میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فرد کہاں تک اللہ کا عبد ہے اور کہاں تک مصلحت ِ وقت کا۔ یہ ایمان کو بے حجاب کردیتا ہے۔ ایمان اپنی ماہیت کے لحاظ سے چھپنے اور دبنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا جوش اور ولولہ اسے ہرسطح پر واضح طور پر نمایاں کردیتا ہے۔ یہ ایک قابلِ محسوس، قابلِ پیمایش رویہ اور طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے خَیْرٌ وَّاحْسَنُ تَاْوِیْلًا سے تعبیر کیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo(النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اس آیت مبارکہ نے اللہ اور آخرت پر ایمان کو جس طرزِعمل اور رویے سے منسلک کر دیا ہے وہ ہرلحاظ سے قابلِ محسوس ہے۔ تین پیمانے ہمیں بتا دیے گئے ہیں یہ جانچنے کے لیے کہ ایمان کی سطح کیا ہے:
اوّل: ایک کارکن یا ذمہ دار فرد کہاں تک فیصلے کرنے میں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں بنیادی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ وہ فیصلہ کسی اتحاد میں شامل ہونا ہو یا کسی عوامی ریلی میں شرکت، اس میں بنیاد رضاے الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ ہے یا کوئی قریب المیعاد سیاسی مفاد۔ اپنی شہرت و مقبولیت ہے یا ہر مفاد سے بلند ہوکر صرف اور صرف رضاے الٰہی۔ اور جب ایک فیصلہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی بنا پر کرلیا گیا تو پھر اس فیصلے پر کس شدت سے عمل کیا جا رہا ہے۔
دوم: اُولی الامر اور نظم کی اطاعت کرتے وقت کہاں تک نظم کی رضا مقصود ہے اور کہاں تک صرف اور صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی بنیاد ہے۔ جب اولی الامر کے حکم اور اللہ اور رسولؐ کے حکم میں انتخاب ہو تو پھر ایمان کا تقاضا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اللہ اور آخرت پر ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔
سوم: اگر کسی مسئلے میں تنازع کھڑا ہوجائے تو ایسے آزمایشی مواقع پر حق پر قائم رہنا، موقع پرستی اور مداہنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قولِ سدید اور شہادتِ حق دینا ایمان کا وہ پیمانہ ہے جسے اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ایمان کو جانچنے کا ایک پیمانہ وہ رویّہ اور طرزِعمل ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رشتۂ اخوت میں جوڑ دے اور وہ محض ایک جماعت کے کاغذی ممبر نہ رہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا اور قوت بن جائیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں برابر کے شریک ہوں۔ اگر تحریک کے ایک حصے میں جو سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو، کوئی آزمایش ہو تو وہ اس میں خاموش تماشائی نہ ہوں بلکہ ان کا دل و دماغ اور جسم اس تعلق کی وجہ سے بے چین ہو۔ وہ نہ صرف مظاہروں کے ذریعے بلکہ بین الاقوامی دبائو اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع استعمال کریں اور ربِ کریم کے حضور شب و روز دعائوں کا ایسا سلسلہ شروع کریں کہ اس کی رحمت جوش میں آجائے اور وہ تحریکِ اسلامی کی آزمایش کو ان کے لیے رحمت کا ذریعہ بنا دے۔
فلاح، کامیابی اور کامرانی کو قرآنِ کریم نے اس اخوت کی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جس پر ہر تحریکی کارکن اور قائد اپنی جانچ خود کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا قف وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پائو گے۔
ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے: ’’ایمان نام ہی صبروسماحت کا ہے۔ حضرت عمرو بن عتبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور سماحت کا(مسلم)۔ گویا راہ کٹھن ہو یا آرام دہ، عزم، جدوجہد اور جہد مسلسل پوری استقامت کے ساتھ جاری رہے۔ اور اللہ کے راستے میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات، اپنی قوت، اپنی حکمت عملی، اپنی سیاسی مقبولیت اور ذہانت، غرض ہر اُس طرزِعمل سے بچا جائے جو عالی ظرفی کے منافی ہو اور ہر وہ بات اختیار کی جائے جس سے خاکساری اور نرم خوئی میں اضافہ ہو۔
جب ایک مرتبہ سوچ سمجھ کر تحریک کی دعوت کو قبول کرلیا ہو تو پھر اپنی اَنا، ذاتی رنجش، اختلاف راے اور نظرانداز کیے جانے کے باوجود تحریک سے وابستگی، اپنی ذاتی راے کو اجتماعی راے کا تابع بنانا اور جماعت سے وابستگی اور دین کی دعوت کے لیے ہر سرگرمی میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لینا، کسی لمحے بھی مایوس اور شاکی نہ ہونا ثابت قدمی و استقامت کا تقاضا ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا فضل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بندے کو ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی توفیق دے جو معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ یہ تو شکر کے رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں شکایت، برہمی، مایوسی اور پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنی جان، اپنے مال اور اپنی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کے قیام کی جدوجہد میں مکمل طور پر لگا دیا جائے۔
یہ جدوجہد جزوقتی نہیں ہے کہ ’دنیا‘ کے بہت سے کاموں کے ساتھ، چاہے وہ ذاتی معاش کے لیے ہوں یا اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرکے شہرت کے لیے ہوں، یا اپنے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے ہوں۔ غرض ہر وہ کام جسے عام طور پر دنیاوی کہا جاتا ہے، اس میں اپنی تمام تعمیری صلاحیت اور قوت کو صرف کرنے کے بعد ہفتہ کے آخر میں دو دن جب ’دنیاوی کاموں‘ سے فرصت حاصل ہوتو اس وقت کو دعوتی کام میں لگا دیا جائے اور سمجھا جائے کہ اقامت دین کا فریضہ ادا کر دیا۔ درحقیقت دن رات کے ہرلمحے میں حضرت نوح ؑ کے عزم اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو انجام دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ انقلابی عمل ہے جس میں ایک فرد کا رویہ اور طرزِعمل، قرآن و سنت سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی دوستی کا معیار دعوتِ حق کو بناتا ہے۔ ان سے جڑتا ہے جو حق کی طرف راغب ہوں، ان سے محتاط ہوتا ہے، جو بے مقصد زندگی میں گم ہوں۔ ہاں، انھیں ا س سراب سے نکالنے کے لیے لازماً کوشاں رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دوستی کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں سے قربت، اور نمایش اور چمک دمک کی طرف لپکنے والوں سے فاصلہ ہوتا ہے۔ وہ ہرلمحہ اپنے رب سے اچھی اُمید اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔وہ اپنے رب کے فضل کو اس کی مغفرت میں تلاش کرتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (انفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی [بھلائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت] بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کردے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
قرآنِ کریم نے اس طرزِعمل کو دوسرے مقام پر ایک ایسی تجارت سے تعبیر کیا ہے جس میں صرف کرنے والے کے لیے نفع ہی نفع اور خسارے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں بھی ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ ایک قابلِ محسوس طرزِعمل اور رویہ ہے، یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت انسانوں کے لیے بھیجی ہے، اسے اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور نظامِ عدل اور حق و صداقت کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، اثاثے اور دولت کو لگادینا،کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے کسی مداہنت سے کام نہ لینا، اور قولِ سدید کے لیے اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں لگا دینا۔ اس سے زیادہ قابلِ اعتبار سودا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس سایے کے مانند پائی جانے والی دنیا میں، زندگی کے لمحات کو اللہ کے راستے میں لگانے کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں نجات اور عذاب سے نجات مل جائے۔ یہ سودا نہیں، یہ تو رب کریم کی ایک عظیم بخشش ہے، ایک انعام ہے جو مالکِ کائنات ہی دے سکتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ راہ رو جو اس راہِ مستقیم پر رواں دواں ہوں جن کی آبلہ پائی انھیں یومِ حساب کی شرمندگی سے محفوظ کردے، اور وہ ان میں شامل ہوجائیں جن سے ہلکا حساب لیا جائے گا:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف ۶۱:۱۰-۱۱) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
اللہ کے دین کی دعوت دینا اور اس بابرکت سرگرمی میں اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو لگا دینا وہ تجارت ہے جس میں نقصان آس پاس بھی نہیں آسکتا۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ نہ صرف عذابِ الیم سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ وہ مومن جو خلوص نیت کے ساتھ شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے، رب کریم اسے ان جنتوں سے نوازتا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جہاں اس بندۂ مومن کے لیے ہر ممکنہ آسایش اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ایمان و عمل کا رشتہ انتہائی قریبی ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، خاندان اور محلے کے دعوتی حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اجتماعیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ حقیقی کامیابی کا راز اجتماعیت ہی میں ہے۔ اجتماعی جدوجہد اور اللہ کی راہ میں جہاد دین حق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا۔ ایسی سعادت ہے جو خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہے۔ قابل مبارک باد ہیں اللہ کے وہ انصار جو بادِ مخالف کی پروا کیے بغیر اپنا تمام اثاثہ اس جدوجہد میں لگاتے ہیں، جن کی نماز اور جن کا جینا اور مرنا صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت:۱۳ روپے،سیکڑے پر خصوصی رعایت)
اتحاد اُمت کا مشن ایک ہمہ جہت پروگرام چاہتا ہے۔ وعظ ونصیحت کے ذریعے دلوں کو نرم کرنے کا کام بھی ہو، اتحاد اُمت کی اہمیت بھی بتائی جائے، کہ وہ ایسا ہی ایک فریضہ ہے جس طرح نماز اور زکوٰۃ فرض ہیں، ساتھ ہی تدبیری کوششیں بھی کی جائیں۔ ان مقامات کی نشان دہی کی جائے جہاں اختلاف کسی غلط فہمی کے نتیجے میں دَر آیا ہے۔ افتراق کی جڑوں کو کاٹا جائے، ان راستوں کو بندکیا جائے جہاں سے فرقہ بندی کو غذاملتی ہے، اور وہ نقطۂ نظر اور انداز فکر تشکیل دیا جائے جو اتحاد کے پہلو کو ترجیح دیتا ہو۔ زیر نظر تحریر بھی اسی طرح کی ایک تدبیری کوشش ہے۔
نماز کے طریقۂ ادایگی پر جس قدر غور کریں ، یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ نماز اُمت کے اتحاد کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ایک امام کی اتباع جس قدر نماز کے اندر نظر آتی ہے، وہ زندگی کے کسی اور عمل میں نظر نہیں آتی۔ باجماعت نماز کے دوران ایک انسانی گروہ جس یکسانیت کے ساتھ تمام اعمال انجام دیتا ہے وہ بس نماز کا امتیاز ہے۔ ایسی نماز کے ہوتے ہوئے اُمت میںاس قدر شدید اختلاف حیرت انگیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس نماز کے ذریعے اتحاد اُمت کے درخت کی روزانہ آبیاری ہوتی ہے، وہی نماز اُمت کے اختلافات کا سبب بنادی گئی ہے۔ مسجد جس میں اجتماعی شیرازہ بندی کی سب سے اچھی تعلیم مل سکتی تھی، وہی مسجد فرقہ بندی کی علامت بنادی گئی ہے۔ نماز کو بنیاد بناکر اُمت میں جو جھگڑے کھڑے کیے گئے ہیں، اگر آج ان سے ہاتھ اٹھا لیا جائے، اورنماز سے متعلق اختلافات کی حقیقت کو جان لیا جائے، اور اس کے مطابق اپنے رویے میں تبدیلی لائی جائے ، تو اُمت کے باہمی اختلافات کا حجم اچھا خاصا کم ہوجائے گا۔کیونکہ نماز فحش اور برے کاموں سے بھی روکتی ہے، اور باہمی تفرقے سے بھی دور رکھتی ہے۔
حج کے موقعے پر دنیا بھر کے مسلمان مسجد حرام میں ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سارے مسلمان مختلف مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، جب کہ امام صاحب اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھاتے ہیں۔ ایک امام کے پیچھے ایک جماعت میں نماز ادا کرنے کے لیے کسی سے یہ نہیں کہنا پڑتا کہ اپنا مسلک چھوڑو تاکہ جماعت سے نماز ادا ہوسکے۔ ایک جماعت میں شامل مختلف مسلک کے نمازیوں کو دوران نماز کوئی الجھن پیش نہیں آتی، نہ امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی تعارض کی نوبت آتی ہے۔ سب ایک ساتھ قیام کی حالت میں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی کے ہاتھ سینے کے اوپر بندھے ہیں، اور کسی کے سینے سے نیچے، لیکن سب ایک ساتھ ہی رکوع میں جاتے ہیں، اور ایک ساتھ رکوع سے اٹھتے ہیں، فرق صرف ہاتھوں کی کیفیت کا ہوتا ہے، کوئی اٹھاتا ہے، کوئی نہیں اٹھاتا۔ غرض یہ کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں جس کی ہیئت پر ان کا تقریباً اتفاق ہے، اور جو فرق ہے وہ ناقابل لحاظ اور غیر اہم ہے۔ اس کی بناپر یہ ایک دوسرے کے پیچھے اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مسلک تبدیل کیے بغیر نماز ادا کرسکتے ہیں۔نماز کی ہیئت پر اُمت کا جتنا زیادہ اتفاق ہے وہ حیرت انگیز ہے، لیکن اس اتفاق کے باوجود نماز کو لے کر اُمت میں جتنے زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں وہ اور بھی زیادہ حیران کن ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس تشویش ناک صورتِ حال کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ نماز کی جس صورت کے عادی ہیں اس سے ذرا بھی مختلف صورت جہاں انھوں نے دیکھی اور بس وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس شخص کا دین بدل گیا ہے اور یہ ہماری اُمت سے نکل کر دوسری اُمت میں جاملا ہے‘‘۔ (رسائل ومسائل، حصہ اول، ص: ۱۶۵)
ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پوری زندگی اوراس کی ساری عبادتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوں۔ عبادتوں میں نماز سرفہرست ہے۔ اس لیے نماز کے بارے میں یہ خواہش اور بھی زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ یہ بالکل سچی ، معقول اور فطری خواہش ہے، جس کا ایمان جس قدر زیادہ مضبوط ہوگا اس کی یہ خواہش اسی قدر شدید ہوگی۔
ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دل میں یہ جذبہ سب سے زیادہ رہا ہوگا۔ اسی طرح صحابہؓ کے بعد دورِ اول کے مسلمان اس جذبے سے بہت زیادہ سرشار رہے ہوں گے۔ بلاشبہہ دور اول کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ اہتمام اسی کا ہوتا ہوگا کہ ان کی عبادتیں اور خاص طور سے نمازیں ویسی ہی ہوں جیسی اللہ کے رسولؐ نے پڑھی تھیں، اور اُمت کو سکھائی تھیں۔
ہم یقین کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں اس وقت کی پوری اُمت کو نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اچھی طرح حفظ ہوگئی تھی، بعینہ وہی نماز جو اللہ کے رسولؐ پڑھا کرتے تھے۔ نماز ایک سادہ اورمختصر سی سرگرمی ہے جسے جوں کا توں یاد کرلینا بہت آسان کام ہے، بطور خاص اگر اس کی روزانہ کئی دفعہ تکرار بھی ہوتی ہو۔ اس لیے یقینا نماز کو اس کی اصلی شکل میں یاد کرلینا اُمت کے لیے بے حد آسان رہا ہوگا۔
گویا جب محفوظ کرنا بہت آسان ہو، محفوظ کرنے کے لیے بہت طویل وقت بھی ملا ہو، شدید ترغیب بھی ہو، اور سچا جذبہ بھی اور محفوظ کرنا نجات اور فلاح کے لیے ضروری بھی ہو، تویقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمام صحابہ نے نماز کو ساری جزئیات کے ساتھ اچھی طرح یاد کرلیا ہوگا۔ اور اپنے بعد والی اُمت کو اچھی طرح یاد کرادیا ہوگا، بلکہ نماز تو اپنی اصلی شکل میں ان کی زندگی میں خوشبو کی طرح رچ بس گئی ہوگی، اور ان کی زندگی کا سب سے نمایاں رنگ بن گئی ہوگی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ۱۰ سال تک روزانہ پانچ مرتبہ فرض نماز اُمت کے ساتھ جماعت سے ادا کی، یعنی تقریباً ۱۸ہزار مرتبہ صرف مدینہ منورہ میں اُمت کو نماز پڑھ کر دکھائی، مکہ مکرمہ کے ۱۳ سال اس کے علاوہ ہیں۔اس کے بعد لاکھ سے زیادہ صحابہ کرامؓ تقریباً سو سال تک پورے عالم اسلام میں پوری اُمت کو روزانہ پانچ مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ کر اور یقینا رسولؐ کے طریقے پر نمازپڑھ کر نماز پڑھنا سکھاتے رہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے اُمت کو نماز ملی۔
حج کو بھی اُمت نے اللہ کے رسول کو کرتے ہوئے دیکھا، لیکن صرف ایک بار، اور اچھی طرح یاد کرلیا، جب کہ نماز کو پوری اُمت نے اللہ کے رسول کو برسہا برس روزانہ پڑھتے ہوئے دیکھا، اوران دیکھنے والوں کو نئے آنے والے مسلسل روزانہ دیکھتے رہے۔ گویا اُمت کو نمازحقیقی تواتر کے ساتھ ملی اور صرف راویوں سے نہیں سنا کہ اللہ کے رسولؐ نماز کیسے پڑھتے تھے، بلکہ اس سے پہلے اور اس سے بہت بڑے پیمانے پر اُمت نے اللہ کے رسولؐ کو نماز پڑھتے دیکھا، اور ان لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا جو بعینہٖ اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے تھے۔
نماز کے معاملے کو آسان ترین طریقے سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مؤرخین کے بقول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ تمام صحابہ کے بارے میں ہمیں حُسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اللہ کے رسولؐ اور اکابر صحابہ سے نمازیں پڑھنے کا طریقہ تو ضرور سیکھا ہوگا، کیونکہ یہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے ضروری عمل تھا، اور اس پر اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ضروری تھا۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ ایک لاکھ صحابہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے ہوئے کم از کم ان کی اولاد نے تو خوب اچھی طرح دیکھا ہوگا اور ان سے سیکھا ہوگا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لاکھ صحابہ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ان کی اولاد کی نمازیں اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق تھیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمارا یقین ہے کہ صحابہ کی حیات میں نئے ایمان لانے والے لاکھوں مسلمانوں نے نماز کا طریقہ ضرور سیکھا ہوگا۔
مستدرک حاکم کی صحیح روایت ہے، جس میں راوی کہتا ہے کہ میں نے معتمر کو کہتے سنا کہ میں اپنے ابا جان جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور میرے ابا جان کہتے تھے کہ میں حضرت انس بن مالکؓ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور حضرت انس بن مالکؓ کہتے تھے کہ میں اللہ کے رسولؐ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ہوں۔
اپنے بزرگوں سے نماز سیکھنا اور اچھی طرح سیکھنا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ برتنا، اور اپنی اولاد اور شاگردوں کو اہتمام کے ساتھ نماز سکھانا، اور شوق اور انہماک واہتمام کے ساتھ سیکھنا، اور اس کی پابندی کرنا، یہ تو ہمارے اس گئے گذرے دور میں بھی عام ہے۔ اُس دور میں تو یہ رجحان اپنے عروج پر رہا ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے عظیم تواتر کے ساتھ نماز اُمت کو ملی ہے، تو پھر لوگوں کی نمازوں میں اتنا زیادہ اختلاف کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو نماز کا طریقہ سکھایا۔ اس طریقے میں کچھ اعمال ایسے تھے جنھیں سب کے لیے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دینا ضروی تھا، اور ان میں تنوع کی کوئی گنجایش نہیں تھی، جیسے دو بار سجدہ کرنا، اور ایک بار رکوع کرنا، فجر میں دو رکعتیں اور مغرب میں تین رکعتیں پڑھنا۔ اس طرح کے اعمال اللہ کے رسولؐ نے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دیے، اور ایک طرح سے انجام دینا اُمت نے سیکھا اور سکھایا، اور اُمت ان کو صدیوں سے ایک ہی طرح سے انجام دیتی آرہی ہے۔
تاہم، نماز کے کچھ اعمال ایسے تھے، جن میں تنوع کی گنجایش تھی۔ ان کو اللہ کے رسولؐ نے ایک سے زائد طرح سے انجام دیا، اور اُمت نے بھی ایک سے زائد طرح سے انجام دینا سیکھا۔چنانچہ ہر مسلمان کے لیے گنجایش تھی کہ وہ نماز کے ان متعدد مسنون طریقوں میں سے جو طریقہ چاہے اور جب چاہے اختیار کرلے۔ جب چاہے آمین آواز کے ساتھ کہہ دے اور جب چاہے آمین بلا آواز کے کہے۔یہ گنجایش نہیں رکھی کہ تشہد کوئی آواز کے ساتھ پڑھے اور کوئی بناآواز کے، لیکن خود تشہد کئی طرح کے سکھائے، کہ جس کا جی چاہے وہ کوئی ایک تشہد پڑھ لے۔
شروع میں تو سب لوگ سب طرح سے نماز پڑھتے تھے، تاہم جب اللہ کے رسولؐ کے زمانے کے بعد مسلمان بڑے بڑے خطوں میں پھیل گئے، تو یہ طریقے بھی پھیل گئے، اور اس طرح پھیلے کہ کسی علاقے میں کسی طریقے کو زیادہ رواج ملا تو کسی علاقے میں کسی دوسرے طریقے کو رواج ملا۔ لیکن یہ سب طریقے وہی تھے جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا تھا یا جن کی اجازت دی تھی۔جس طرح اللہ کے رسول ؐ کے زمانے میں قرآن مجید مدینہ کے اندر مختلف قراء توں کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قراء تیں رواج پاگئیں، اور خود مدینہ میں کسی ایک قرأت کو خاص رواج ملا اور باقی قراء توں سے عام لوگ نامانوس ہوگئے۔
جب فقہ کی تدوین کا زمانہ آیا، اور اس کام کے لیے فقہا سامنے آئے، اور دیگر مسائل کے ساتھ نماز کے طریقے کی بھی تدوین کی گئی، تو ہرفقیہ نے اپنے علاقے میں رائج نماز کے طریقے کو اختیار کرکے اس تدوین میں شامل کیا۔اس طرح اُمت میں نمازوں کے طریقوں کے سارے باہمی فرق مدون کردیے گئے۔
طریقوں کے فرق یا اختلاف کی اصل حقیقت تو یہ تھی کہ یہ سب اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے اور پسند کیے ہوئے طریقے تھے، اور ایک مسلمان کے لیے اس کی پوری گنجایش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے کسی بھی طریقے پر عمل کرلے۔ لیکن بعد کے لوگوں نے انھی طریقوں میں سے اپنے یا اپنے اماموں کے پسند کیے ہوئے طریقوں کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی۔اپنے اپنے طریقے کو افضل اور راجح قرار دینے کے لیے بالعموم اللہ کے رسولؐ سے مروی حدیثوں اور صحابہ وتابعین سے مروی آثار کو دلیل بنایا گیا، اور ایک زبردست حقیقت پس پردہ چلی گئی کہ نماز کے یہ سارے طریقے اُمت کو عملی تواتر کے ذریعے ملے ہیں۔اگر یہ حقیقت ذہنوں میں تازہ رہتی تو نماز کے مختلف طریقے اختلاف کا سبب نہ بنائے جاتے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لاکھ صحابہؓ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور آپ کی طرح خود نماز پڑھی، پھر صحابہ کے بعد لاکھوں پر مشتمل دوسری نسل نے صحابہ کو اللہ کے رسول کی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ویسے ہی نماز پڑھی۔ اسی طرح تیسری نسل نے کیا۔ اس دوران فقہا کا زمانہ آیا اور انھوں نے اس نماز کی باقاعدہ فقہی تدوین کردی۔ یہی وہ عظیم عملی تواتر ہے جس کے راستے سے اُمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ملی۔
اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی میں عملی تواتر کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’متواتر وہ ہے جسے کسی ایک گروہ نے ایک دوسرے گروہ سے اخذ کر کے منتقل کیا ہو، اس طرح کہ یہ نہیں تصور کیا جاسکتا ہو کہ اتنی بڑی تعداد جھوٹ پر جمع ہوجائے گی، اور یہ سلسلہ اسی طرح تم تک پہنچے، مثال کے طور پر جیسے قرآن مجید کو، رکعتوں کی تعداد کو اور زکوٰۃ کی مقدار کو نقل کیا گیا‘‘۔
عملی تواتر کے لیے فقہا ایک لفظ توارث کا استعمال کرتے ہیں۔ توارث کا مطلب وہ عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہو۔مثال کے طور پر تشہد کو بنا آواز کے پڑھناشرعاً مطلوب سمجھا گیا ہے۔ اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل نہیں کی گئی ہے کہ تشہد کو آواز کے ساتھ پڑھنا ہے، اور لوگ اللہ کے رسولؐ کے زمانے سے آج تک تشہد کو نسل در نسل بنا آواز کے پڑھتے آئے ہیں، اور توارث تواتر کی طرح ہے۔
بہت سارے فقہا عملی تواتر کے لیے نقل الخلف عن السلف کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ عمل جو اگلوں سے پچھلوں میں منتقل ہوتا آیا ہے۔
فرض نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں پوری اُمت کا موقف یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میںامام کو آواز کے ساتھ قرأت کرنا ہے، جب کہ باقی رکعتوں میں اور ظہر اور عصر کی تمام رکعتوں میں بنا آواز کے قرأت کرنا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تمام فقہا بلکہ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے، مگر اس کی پشت پر کوئی واضح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جن روایتوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ یا تو واضح نہیں ہیں یا پھر صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور سے فقہا اس مسئلے کی دلیل میں عملی تواتر کو پیش کرتے ہیں۔
نماز تمام فقہا تک عملی تواتر کے ساتھ پہنچی، تاہم امام مالک نے عملی تواتر کی اس دلیل کو زیادہ اُجاگر کرکے پیش کیا۔امام مالک کے استاذ ربیعہ اپنے دور کے امام تھے۔ وہ علم اور دانائی میں اس قدر ممتاز تھے کہ ربیعۃ الرأي کے نام سے معروف ہوگئے تھے۔ ان کا ایک جملہ امام مالک کی فقہ کی اساس قرار پایا۔ ان کا کہنا تھا: ایک ہزار آدمیوں کو ایک ہزار آدمیوں سے کوئی بات ملے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک آدمی کو ایک آدمی سے کوئی بات ملے۔ الف عن الف خیر من واحد عن واحد (حلیۃ الاولیائ)۔ اس طرح انھوں نے عملی تواتر اور قولی روایت کے درمیان فرق نمایاں کردیا۔
امام مالک کے یہاں اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی، کہ انھوں نے اپنے زمانے اور اپنے سے پیش تر زمانے کے لوگوں کو کیا کرتے ہوئے پایا۔ چنانچہ جب ان سے اذان اور اقامت کے الفاظ کو دو دو بار کہنے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: اذان اور اقامت کے سلسلے میں میرے پاس وہی بات پہنچی ہے جس پر میں نے لوگوں کو عمل پیرا پایا، لہٰذا تو اقامت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو دو دو بار نہیں کہا جائے گا۔ اسی پر اب تک ہمارے شہر میں اہل علم کا عمل جاری ہے۔
اس موقعے پر کوئی سوال کرسکتا ہے کہ عملی تواتر کی دلیل صرف فرض نماز کے طریقے کے لیے خاص ہے، یا شریعت کے تمام مسائل میں؟ یہ مانا جاسکتا ہے کہ فقہا نے جو بھی راے اختیار کی وہ عملی تواتر کی بنیاد پر اختیار کی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عملی تواتر ان مسائل میں وجود پذیر ہوتا ہے جو ہر خاص وعام کو بار بار درپیش ہوتے ہیں، جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ خاص وعام کو بار بار پیش آنے والے مسائل بہت سارے ہوسکتے ہیں، جیسے اذان کا مسئلہ ہے، جو بلا تفریق سب لوگ زندگی بھر صبح سے شام تک بار بار سنتے رہتے ہیں۔ تکبیر تشریق کے بار ے میں بھی فقہا یہی کہتے ہیں، کہ یہ ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیر کہنا عملی تواتر سے ثابت ہے۔ پوری دنیا اور ہر دورمیں تمام مسلمان جب بھی ایام تشریق آتے ہیں یہ تکبیر کہتے رہے ہیں۔ البتہ جو مسائل کبھی کبھی پیش آتے ہیں، اور کچھ خاص لوگوں کو ہی پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا حوالہ فقہا بھی نہیں دیتے ہیں، جیسے حدود وتعزیرات کا معاملہ ہے۔
بار بار پیش آنے والے معاملات میں فرض نماز کا معاملہ سب سے نمایاں اور ممتاز ہے، کہ یہ تو دین کا ستون ہے، اور اس کو تو بہت سختی کے ساتھ ویسے ہی انجام دینا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا، اور بلا استثنا سب کو انجام دینا ہے۔
عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ نماز کے ایک ہی عمل کو مختلف مسلک کے لوگ مختلف انداز سے انجام دیتے ہیں ، اور ہر کوئی یہ سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ میرا طریقہ سنت کے مطابق ہے۔ آخر اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے؟ سارے مختلف عمل کیسے رسول خدا کی سنت کے مطابق ہوسکتے ہیں؟ اور اگر ان میں سے کوئی ایک ہی عمل سنت کے مطابق ہے تو پھر دور اول ہی میں سنت کے خلاف بہت سارے عمل نماز میں کیسے داخل ہوگئے اور کیسے رائج ہوگئے، کہ بڑے بڑے امام یہ نہیں سمجھ سکے کہ نماز کے کون کون سے عمل سنت کے مطابق ہیں اور کون سے سنت کے مطابق نہیں ہیں۔
امام نوویؒ نے اس کا ایک جواب دیا ہے،: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مختلف احوال ہوا کرتے تھے۔ کبھی آپؐ یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے، تو کبھی وہ طریقہ اختیار فرماتے تھے۔ جیسے کبھی قرأت لمبی کرتے تھے تو کبھی مختصر کرتے تھے، اور کبھی اس کی دیگر شکلیں اختیار کرتے تھے۔ اسی طرح وضو میں اعضا کوکبھی ایک ایک بار تو کبھی دو دو بار تو کبھی تین تین بار دھویا، اور کبھی طواف سواری پر کیا تو کبھی پیدل کیا، نماز وتر شروع رات میں بھی پڑھی، آخر شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی پڑھی، اور کبھی نمازوتر طلوع فجر تک بھی ہوگئی۔ اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے احوال ہیں جیسا کہ ہمارے علم میں ہے۔ مزید برآں آپؐ کبھی عبادت کو دو طرح سے یا کئی طرح سے انجام دیتے تھے، تاکہ ایک مرتبہ یا کچھ مرتبہ کرکے بتادیں کہ اس کی بھی رخصت اور اجازت ہے، اور جو افضل ہوتا اس پر پابندی سے عمل فرماتے کہ یہ پسندیدہ ہے اور زیادہ بہتر ہے‘‘۔
اس قیمتی گفتگو پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو مختلف طریقوں سے انجام دیا کرتے تھے۔ کبھی یہ بتانے کے لیے کہ ان میں سے ایک عمل جائز ہے، اور ایک عمل افضل ہے۔اور کبھی یہ بتانے کے لیے کہ یہ سارے طریقے یکساں فضیلت والے ہیں، اور سب طریقوں میں خوبی ورعنائی ہے۔ اگر اُمت میں سارے طریقے بھرپور عملی تواتر کے ساتھ منتقل ہوں، اور اللہ کے رسولؐ سے کسی ایک کے محض جائز اور دوسرے کے افضل ہونے کی صراحت ثابت نہ ہو، تو مان لینا چاہیے کہ تمام طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں فضیلت کے ساتھ اُمت کو سکھائے، اور پھر ان سب کو افضل اورسنت مان لینا چاہیے۔
اس امر پر حیرانی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہی کام کے دو مختلف طریقے سنت کیسے ہوسکتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ نماز کے جن اعمال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے انجام دیا، اُمت میں وہ سارے متعدد اور متنوع طریقے سنت کے طور پر منتقل ہوئے۔ صحابہ سے خود اس بات کی صراحت ملتی ہے۔ اس کی مثال دعاے قنوت کے محل کی ہے۔
دعاے قنوت کے محل کے سلسلے میں دو موقف بطور سنت رائج ہوئے۔ ایک یہ کہ دعاے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے، اور دوسرا یہ کہ رکوع کے بعد پڑھی جائے۔ مختلف صحابہ اور تابعین سے یہ دونوں عمل منقول ہیں، بلکہ امام ابن المنذرنے جن صحابہ کے نام ذکر کیے، ان میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے نام رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے اور رکوع کے بعد پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے۔ یہ دیکھ کر جو تحیر پیدا ہوا، وہ حضرت انس بن مالکؓ کے ایک بیان سے دُور ہوگیا۔ یہ بیان ہمارے بہت سارے مسائل میں رہنمائی کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالک سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد؟ انھوں نے کہا’’ہم ان سب طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے ‘‘۔ کُلَّ ذَلِکَ کُنَّا نَفْعَلُ (مسند سراج، روایت نمبر ۱۳۵۰، شیخ البانی اور دیگر محققین نے روایت کو صحیح قرار دیا ہے)۔ سنن ابن ماجہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: حضرت انس بن مالکؓ سے صبح کی نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا: ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد بھی۔ سُئِلَ عَنِ الْقُنُوتِ فِی صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَقَالَ: کُنَّا نَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَبَعْدٰہُ۔
اس میں کون شک کرسکتا ہے کہ حضرت انسؓ اور دیگر صحابہ یہ سب اس لیے کرتے رہے ہوں گے کہ اللہ کے رسولؐ سے انھوں نے یہی سیکھا اور یہی کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ دراصل یہی حقیقت ہے نماز کے ان سب اعمال کی جن کے سلسلے میں ایک سے زائد طریقے اُمت میں منقول ہوئے ہیں، کہ اللہ کے رسول ان اعمال کو کئی طرح انجام دیا کرتے تھے، اور صحابہ بھی کئی طرح کیا کرتے تھے، اور پھر اُمت میں وہ سب طریقے الگ الگ علاقوں اور گروہوں میں رواج پاگئے۔(جاری)
قرآن پاک اور احادیث میں نیکیوں کے حوالے سے تیزی دکھانے،ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے اور سبقت لے جانے کی ترغیب دی گئی ہے،اور اس راہ کو اللہ کی مغفرت اور جنت کی راہ کہا گیا ہے۔
وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا (اٰلِ عمرٰن۳:۱۳۳) دوڑ کر چلو اُس راہ پر، جو تمھارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے،جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے۔
سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِلا (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔
مندرجہ بالا دونوں آیات میں ایک ہی راہ کا ذکر ہے۔وہ راہ جو اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف جاتی ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ پہلی آیت میں سارعوا کا لفظ ہے، یعنی سرعت دکھائو، یادوڑو، اور دوسری آیت میں سابقوا کا لفظ ہے، یعنی سبقت لے جائو ،آگے نکل جائو ، مسابقت کرو یا دوسروں سے مقابلہ کرو۔
یہ راہ جو کہ نیکیوں یا خیرات کی راہ ہے، اس پہ سرعت دکھانے کا ذکر قرآن میں سورۂ آل عمران(۳:۱۴)، سورئہ انبیائ(۲۱:۹)، سورئہ مومنون (۲۳:۶۱) میں بھی کیا گیا ہے۔ اس راہ میں سبقت کا ذکر سورئہ مومنون (۲۳:۶۱) میں بھی ہے اور سورئہ مائدہ (۵:۴۶)، سورئہ احقاف (۴۶:۱۱)، سورئہ فاطر (۳۵:۳۲) اور سورئہ واقعہ (۵۶:۱۰) میں بھی کیا گیا ہے۔
وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ط(انعام۶:۱۳۲) ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے۔
اس کے علاوہ سورۂ نسائ(۴:۹۵-۹۶)، سورئہ انعام (۶:۱۳۲)، سورئہ توبہ(۹:۲۰) اورسورئہ انفال (۸:۴) اور سورئہ طور (۵۲:۲۱) میں بھی درجات کا ذکر ہے۔
قرآن میں والدین کے لیے اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ کاذکر ہے(الطور۵۲:۲۱)،یعنی اولاد کودرجے کے تفاوت کی صورت میں ان سے ملا دیا جائے گا۔اس آیت سے بھی جنت کے درجات کا علم ہوتا ہے۔
وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o(الفرقان۲۵:۷۴) اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے۔
یہ مومنوں کی دعا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں صرف نیکیاں کرنے کی ہی نہیں، بلکہ نیکیوں میں آگے آگے رہنے کی بھی فکر ہوتی ہے۔
فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ ط(الذّٰریٰت۵۱:۵۰)یعنی اللہ کی طرف تیز بھاگنے کا ذکر ہے۔
وَ فِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَo (المطففین۸۳:۲۶) جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔
جنت کی نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ فقرہ آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت اور اللہ کی رضا/ مغفرت ہی ایسی چیز ہیں ،کہ ان کی رغبت و حصول کے لیے دوسروں سے مقابلہ کیا جائے، اور اسے تنافس کہا گیا۔
۱- آپؐ نے فرمایا: رشک کے قابل صرف دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور اسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر رہا ہو۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے علم دیا ہو اور وہ اس کو سکھا رہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم)
۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسے زمانے میں ہو کہ تم میں سے کوئی ا ن احکام کا دسواں حصہ بھی چھوڑے گا جو تمھیں دیے گئے ہیں تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ تمھارے بعد ایسا زمانہ آئے گا جو ان احکام کے دسویں حصے پر بھی عمل کرے گا جو اسے دیے گئے ہیں تو نجات پالے گا۔ (ترمذی)
۳- حدیث نبویؐ ہے: جو فسادِ اُمت کے زمانے میں ایک سنت زندہ کرے گا اس کو سوشہیدوں کا ثواب دیا جائے گا۔ (مشکوٰۃ)
اسی طرح ایسی احادیث بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف نیکیوں کی قدروقیمت بھی مختلف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے گفتگو فرمائی ہے کہ کیا تمھیں ان نیکیوں سے بہتر نیکی بتائوں؟ یا تم یہ چیز کرلو تو یہ اس سے بہتر ہے۔
دوڑنا کیوں ،چلنا کیوں نھیں؟
۱- پہلی بات یہ کہ وقت بہت کم ہے۔
۲-دوسری بات یہ کہ مختصر ہونے کے علاوہ یہ مدت انسان کے لیے نامعلوم ہے۔
۳- تیسری بات یہ کہ اس مختصر اور غیر یقینی مدت میں جو چیز حاصل کرنا ہے ، اس کا حصول اتنا آسان نہیں۔اللہ کی رضا،مغفرت اورجنت آسانی سے نہیں ملتی۔
۴-نیکیوں کے کسی مرحلے پہ پہنچ کے یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ یہ جنت کے حصول کے لیے کافی ہوجائیں گی۔
۵-ایک ایک لمحہ جو گزر رہا ہے،اس کا نتیجہ کروڑوں برس تک ملتا رہے گا۔ہر لمحے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے؟
۶- اللہ رب العالمین نے جو بے حد و حساب نعمتیں دی ہیں،ان کے شکر کا واحد طریقہ اس راستے پر چلتے رہنا ہے۔ اس راہ پر کتنی ہی تیزی دکھائیں، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
۷-رفتار کم ہونے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کم ہوتے ہوتے یہ ختم ہی نہ ہو جائے۔
۸-عمل کی رفتار تیزتر کردو تاکہ تمھاری روح کی غذائی ضرورت سخت تر ہو جائے۔
۹-اقامت ِ دین کا کام کرنے والوں کی رفتار، باطل قوتوں کی تیز رفتاری (جذبہ، انفاق، قربانیاں )دیکھ کر مزید تیز ہو جانا چاہیے۔
محو ِ خواب ہیں یا مطمئن ہیں کہ ہم اتنے اعمال تو کرلیتے ہیں اور نیکیوں میں اتنے لوگوں سے تو بہتر ہیں،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ دوڑ، مخالف سمت میں ہوتی ہے۔ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُo (التکاثر۱۰۲:۱) ’’ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے‘‘۔ معیارِ زندگی بلند کرنے کی ،اونچے عہدوں کی، عیش و عشرت کے سامان،کپڑے اور گاڑیاں جمع کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
۱- دنیا میں کسی کو اپنے سے آگے یا کسی کے پاس کوئی چیز زیادہ دیکھ کر حسرت تو نہیں ہوتی؟
۲- آخرت کمانے میں کسی کو اپنے سے آگے دیکھ کر کتنی حسرت ہوتی ہے اور اس کے برابر پہنچنے یا آگے نکلنے کی کتنی فکر ہوتی ہے؟
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۱) قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔
۱- دوڑ کے دوران بچوں یا بڑوں کو بھاگتے دیکھیں تو ایک بات جو مشترک نظر آتی ہے ، وہ یہ کہ سب کی نظریں ہدف پر گڑی ہوتی ہیں۔کتنا ہی وقت گزر جائے، کوئی گر جائے لیکن وہ اُٹھ کر پھر اسی طرف بھاگنا شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کی رضا اور جنت ہر وقت سامنے رہے تو رفتار تیز رہتی ہے ورنہ آہستہ پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔اپنا نصب العین سامنے رکھیں۔ نصب العین کا لفظی مطلب ہی وہ چیز ہے جس پر آنکھیں نصب رہیں،اور جو نظروں سے اوجھل نہ ہو۔
۲- جب آنکھیں نصب رہتی ہیں تو دوڑنے والے کو اردگرد کاہوش نہیں رہتا اور وہ آس پاس کی چیزوں سے بے نیاز ہو کر دوڑتا ہے۔ جنت کے راہی کے لیے بھی ذہنی یکسوئی یاحنیفیت اورنتیجتاً استغراق ضروری ہے۔
۳- اسی نصب العین اور استغراق کا لازمی اثر دوڑنے والے کی دُھن ہوتی ہے۔ جنت کے راہی پہ بھی یہ لازمی ا ثر ،دھن اور تڑپ کی طرح سوار رہنا چاہیے۔اور یہ سوار ہوگی تو اس کی رفتار بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
۴-اس یکسوئی اور دھن کے ساتھ دوڑنے والا ،اپنی پوری قوت صرف کرکے بس دوڑتا چلا جاتا ہے۔جنت کا راہی ،اس راہ کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف نہ کرے، تو اس کامطلب ہے کہ اس کی یکسوئی اور دھن میں کہیں کمی ہے۔اور اس کو جیتنے کی تدبیر یہاں سے شروع کرنا چاہیے۔
۵- رفتار کو مہمیز لگانے والی چیزوں سے مدد لینا چاہیے، یعنی اللہ کی یاد، موت کی یاد اور جنت دوزخ (دوڑ کا اختتام)سامنے ہونا۔ نیز ان کو تازہ رکھنے کے لیے مطالعہ،دروس میں شرکت اور نیکوں کی صحبت۔
۶-گناہوں اور برائیوں کا مطلب، اس راہ میں پیچھے ہٹنا یا رکنا ہے۔ان سے بچنا اس دوڑ کو جیتنے کے لیے ضروری ہے۔یہ راستہ روکنے والی کانٹے دار جھاڑیاں ہیں،جن سے دامن بچانا (تقویٰ)، اس راہ پہ آگے چلتے رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ دو پہلو بھی پیش نظر رہیں:
ا)کبیرہ گناہوں کی سنگینی کا احساس رہے۔ شراب اور خنزیر کی طرح، غیبت اور والدین کی نافرمانی جیسے کبیرہ گناہوں سے بھی، ایسی ہی قباحت کے احساس کے ساتھ بچا جائے۔
ب) صغیرہ گناہوں سے بھی اس جذبے کے ساتھ بچا جائے ،جس سے دنیوی امتحانوں میں چھوٹی غلطیوں سے بچا جاتا ہے۔کیونکہ صغیرہ گناہ میں دلیری اور ڈھٹائی سے وہ کبیرہ بن جاتا ہے۔ ورنہ صغیرہ گناہوں کا ڈھیرجمع ہو کرتو کبیرہ بن ہی جاتاہے۔
۷- کچھ گناہ ایسے ہیں جو حبطِ اعمال کردیتے ہیں، یعنی جو نیکیاں کی ہیں، ان کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جنت کی طرف دوڑنے والے نے پیچھے کی طرف دوڑنا شروع کر دیاہے۔ ان سے بچنا چاہیے۔ قرآن میں حبطِ عمل کی وجوہات میں شرک ،کفر، ارتداد، تکذیب، استکبار ،صد عن سبیل اللہ،اللہ کی نازل کردہ تعلیم سے کراہت، رسولؐ کے احترام میں کمی، نیت خالص نہ ہونے یا نیکی کا طریقہ غیر شرعی ہونے کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ حبطِ عمل کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں باطل کا ساتھ دیا جائے یا اس سے ہمدردی ہو ، یاایسی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دیا جائے اور اس کے لیے جان ومال و محنت صرف نہ کی جائے۔(احزاب۳۳: ۹، محمد۴۶:۳۲)
۸- دوڑنے والا اگر ٹھوکر کھاکر گر جاتا ہے، تو سنبھل کر جلد از جلد اٹھ کر دوبارہ بھاگنا شروع کردیتا ہے۔ جنت کی دوڑ میں یہی سنبھلنا توبہ ہے۔ غلطی کے بعد جلد از جلد سنبھل کر ،اپنا رخ صحیح کر کے اپنا سفر شروع کر دینا چاہیے۔
۹-بیٹھنا نہیں۔دوسرے کام تو کجا،دوڑنے والا بیچ میں سستانے کے لیے بھی نہیں بیٹھتا۔ کچھوے اور خرگوش کی مشہور کہانی کا سبق یہی ہے کہ جو بیٹھ جاتا ہے، وہ پھر بازی ہار ہی جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک لمحے کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر لمحے کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:اپنی عمر کے اس دن پر رو جو گزر گیا اور اس میں تو نے کوئی نیکی نہیں کی۔
اول تو اپنے اہداف،کاموں اور نظام الاوقات کی منصوبہ بندی ایسی ہونا چاہیے کہ خواہ مخواہ کی فرصت اور فراغت کا اس میں گزر نہ ہو۔اور ناگزیر وجوہات کی بنا پر اگر فراغت میسر ہو تو اسے بھی استعمال کر لینا چاہیے،مثلاً صرف ہاتھ پاوں مشغول ہوں یا استعمال نہ ہو پارہے ہوں (مثلاً سفر کے دوران)تو آنکھوں(مطالعہ،مشاہدہ)، کانوں(سمعی آلات)یا زبان (ذکر، گفتگو)یا دماغ (تفکر)کے استعمال سے نیکیاں کمانا چاہییں۔
۱۰- دوڑنے والا اپنے راستے کو خوب صورت بنانے نہیں بیٹھ جاتا۔جنت کمانے کے لیے بھی دنیا کی گزرگاہ ہونے کی حیثیت یاد رکھیں۔ رسولؐکی بیان کردہ مثال کے مطابق اس کو ایسے ہی برتیں جیسے ایک سرائے۔ آسایش، آرایش اور نمایش کے تین درجوں میں سے کم ترین سے کام چلانے کی کوشش کریں۔دنیا سے محبت سے متعلق آیات و احادیث ذہن میں رکھیں۔
۱۱- اس کے لیے مدد گار یہ نسخہ ہے کہ جن کو یہ سامان میسر ہیں، ان لوگوں یا ان کے سامان پہ زیادہ توجہ ہی نہ دیں:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ (طٰہٰ۲۰:۱۳۱) اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔
۱۲۔ راستے کی آرایش سے جو بچ جاتا ہے وہ بھی اپنی آسایش کے لیے ساز وسامان اکٹھا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی منع نہیں کیا ہے۔ لیکن ایک عام دوڑ والا اپنے ساتھ کم سے کم سامان رکھ کر ہلکا پھلکا ہو کر دوڑتاہے۔ اس سے سبق لیتے ہوئے جنت کا راہی بھی اپنے ساتھ صرف ضروری سامان ہی رکھے، یا وہ سامان جس سے دوڑنے میں آسانی ہوجائے۔ جس سامان کی وجہ سے رفتار ہلکی ہوجائے، اسے اتار پھینکنا ہی بہتر ہے۔
۱۳۔رکنا تو کجا، رفتار سُست نہ پڑنے دیں۔اور اس میں یہ امر شامل ہے کہ لایعنی کام نہ کیے جائیں۔کیونکہ دوڑنے والا ان کاموں سے بھی بچتا ہے جو اگرچہ اسے پیچھے کرنے والے تو نہ ہوں، لیکن جن کا فائدہ بھی نہ ہو۔اسی طرح جنت کے مسافر کو بھی لاحاصل کاموں سے بچنا چاہیے، خواہ وہ گفتگو ہو، یا کہیں آنا جانا ہو ،یا ٹی وی یا کمپیوٹر پہ ہو۔کچھ سننے میں ہو یا دیکھنے میں یا پڑھنے میں۔
مومنوں کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ:
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون۲۳:۳) وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی و کمال میں یہ شامل ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو ترک کردے۔(ابن ماجہ، ترمذی)
۱۴-وقت کی کمی،امتحان کی زندگی کے ایک ہی ہونے،اورجزاکے گراں قدر ہونے پر ایمان سے، اس معاملے میں حساسیت بہت زیادہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کبھی جائزیا ناگزیر کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے،کم کرنا پڑتا ہے،یا اس کی حد بنانا پڑتی ہے، مثلاً مال کمانے یا جمع کرنے کی حد،نیند کی حد۔ کیونکہ کسی مفید مد میں زیادہ مال لگانا ہو اور آمدنی مقررہ ہو تو دیگر اخراجات کم کرنا پڑتے ہیں۔ وقت مقررہ ۲۴گھنٹے ہیں اور جنت کا سامان زیادہ جمع کرنا ہے تو دیگر مشاغل و مصروفیات کم کرنا پڑیں گی۔
۱۵-نیکی کی قیمت بڑھانے کے لیے اس کی quality یا کیفیت بڑھائیں۔قرآن میں نیکیوں کو گننے کا نہیں،تولنے کا ذکر ہے۔کیفیت ان چیزوں سے بڑھتی ہے: l ایمانی جذبے اور اخلاص سے۔l دل کی پوری رضاورغبت کے ساتھ نیکی کرنے سے۔ l ہر نیکی کے کچھ مخصوص آداب سے۔
انفاق کو لے لیجیے۔ انفاق کی قبولیت والی چیزیں یہ ہیں:ریا نہ ہونا،بدلے کی طلب نہ ہونا،شکریہ کی طلب نہ ہونا،احسان نہ جتانا،جرمانہ نہ سمجھنا،نہ دے سکیں تو افسوس ہونا اور دینے والوں پر رشک آنا، دینے کے بعد خود پسندی نہ پیدا ہونا۔
انفاق کا اجر بڑھانے والی چیزیں یہ ہیں:اپنی ضرورت کی چیز دینا،اچھی چیز دینا، زیادہ مقدار میں دینا،مال کازیادہ تناسب دینا،آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف دینا،بدحالی میں بھی دینا، قریبی رشتہ دار کو پہلے دینا، سفید پوش کو دینا،زیادہ اجر والی مد میں دینا،زیادہ اجر والے زمانے، مثلاً رمضان میں دینا، دین کی مغلوبیت کے زمانے میں دین کے لیے دینا،جوانی اور اُمنگوں اور ضروریات والے زمانے میں دینا،خود سے موقع ڈھونڈھ کر دینا۔ اسی وجہ سے غزوہ تبوک کے موقعے پر انفاق کی گئی چند کھجوریں اپنی قدر و قیمت میں مال کے پورے ڈھیر سے بڑھ گئی تھیں اور رسول اکرم ؐ نے انھیں پورے ڈھیر پر بکھیر کے پھیلا دیا تھا۔
اسی طرح نماز کی کیفیات اور آداب کا خیال رکھ کے کوشش کریں کہ ۲۰فی صد، ۳۰فی صد کے بجاے کم از کم ۹۰ فی صد تو فائدہ جمع کریں۔
۱۶- کیفیت کے ساتھ مقدار اور تعداد پر بھی توجہ دیں۔ نماز میں نفل رکعتوں کی تعداد اور قیام و رکوع و سجود کا طول، تلاوتِ قرآن و حفظ کی مقدار اور اس کے لیے دیا گیا وقت،دیگر مطالعے کی مقدار، ذکر و دعا کی مقدار، انفاق، بندوں کی خدمت، دعوت و تبلیغ میں مخاطبین اور دائرہ کار، اقامت ِ دین کے محاذوں کی اورذرائع کی تعداد ___ہر چیز کی مقدار بڑھائیں اور بڑھانے کے طریقے سوچیں۔
یہاں ایک اصطلاح ’احسان‘ یعنی نیکی کو حسن یا خوب صورتی سے کرنے (excellence) کا مفہوم دیکھ لیتے ہیں۔ مندرجہ بالا ،نیکی کی کیفیت اور مقدار دونوں کا حسن اس میں شامل ہے۔
ا)عبادات میں احسان یہ ہے کہ اس تصور کے ساتھ کی جائیں کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں،ورنہ کم از کم اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔(ماخوذ از حدیثِ جبریل ؑ)
ب)حقوق العباد میں احسان یہ ہے کہ جو برا کرے، اس کو معاف کرکے اس کے ساتھ اچھا کیا جائے، یا جس کا حق نہ بنتا ہو ، اس کو بھی دیا جائے۔ یہ احسان کا عمومی مفہوم ہے۔
ج)دنیوی زندگی گزارنے کے لیے جو کام ناگزیر ہیں، انھیں بھی اچھی طرح کیا جائے، مثلاً زراعت۔ (ماخوذ از اسلامی تصوف،محمد غزالی)
د)ساری نیکیوں اور بالخصوص اقامتِ دین کی جدو جہد میں بڑھ کے کام کیا جائے۔ مولانا مودودی نے اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب بیان کرتے ہوئے، احسان کوبالائی منزل کہا ہے اور محسن کی صفات یہ بتائی ہیں: صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں،بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔اس دھن میں وہ فرض اور مطالبے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ (دعوتِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
۱۷-ہر نیکی یا نیکی کے ہر شعبے میں حصہ ڈالیں۔ دین کی سمجھ کے ساتھ نیکیوں کے شعبے بناتے جائیں اور ہر شعبے میں حصہ ڈالیں، مثلاًمراسمِ عبودیت کا شعبہ،حصولِ علم کا شعبہ،بنیادی اخلاقی اصولوں کا شعبہ، حقوق العباد کا شعبہ، تبلیغ و اقا متِ دین کا شعبہ۔ اس نکتے کے ضمن میں یہ یاد رہے کہ نیکیوں میں توازن ایسا ہونا چاہیے کہ ہر نیکی میں متناسب حصہ رہے۔
۱۸-ایک ہوشیار شخص کچھ کرتے ہوئے ایسے طریقے سوچتا جاتا ہے جن سے کم input سے زیادہ output، محدود سرمایے سے زیادہ نفع ،اورمقررہ محنت سے زیادہ رفتار حاصل ہوسکے۔ کچھ طریقے درج ذیل ہیں:
سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقَہٖ وَرِضٰی نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمٰتِہٖ (مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ، باب التسبیح اول النھار وعند النوم ) ’’اللہ کی تسبیح اور حمد (بیان کرتا ہوں) اس کی مخلوقات کی تعداد جتنی، اتنی کہ جس سے وہ راضی ہوجائے، اتنی کہ جتنا اس کا عرش کا وزن ہے، اتنی کہ جتنی اس کی صفات /کلمات لکھنے کے لیے روشنائی درکار ہے‘‘۔
٭جس وقت عمومی نیکی کا اجر زیادہ ہو،اس وقت زیادہ نیکیاں کرلینا:کسی وقت نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے۔اور جب نیکیاں سستی ہوں (یعنی سیلsaleلگی ہو)تو زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینا چاہیے۔جیسے:
ا)رمضان اور اس میں بھی لیلۃ القدر میں، ب)ذوالحج کے ابتدائی عشرے میں،ج)دین کی مغلوبیت کے زمانے میں خصوصاً نیکی پر قائم رہنا ،کہ اس وقت نیکی کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔
ب)آزمایشوں کو پار کرکے اس راہ پہ ثابت قدم رہنے سے نیکی کا اسکور زیادہ بڑھتا ہے۔ دوڑ کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔کسی دوڑ میں مختلف رکاوٹوں کو پار کرنا ہوتا ہے۔جیتنے کا جذبہ ان رکاوٹوں کو عبور کرواتا ہے۔جنت کی دوڑ بھی obstacleraceہے۔انعام کو سامنے رکھنے سے یہ کٹھن راستہ یا آزمایشیں آسان ہوجاتی ہیں۔دوڑ میں اردگرد ہمت بندھانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ یہاں رب العالمین خود ہمت بندھارہاہے کہ بھاگ کے آئو،میں نے تمھارے لیے یہ دل کش جگہ تیار کررکھی ہے۔لیکن اس راہ میں آزمایشیں یقینی ہیں۔
بہت سی نیکیوں سے رخصت کے لیے عذرِ شرعی موجود ہو سکتا ہے اور حرام کے ارتکاب کے لیے اضطرار کا جواز ہوسکتا ہے لیکن عزیمت کا راستہ یہ ہے کہ عذر کے باوجود نیکی کرلی جائے اور اضطرار و مجبوری کے باوجود حرام و ناجائز سے بچاجائے۔
باطل سے مداہنت، مشکلات سے مصالحت اور حالات سے مفاہمت کے مقابلے میں حق کا راستہ اختیار کریں۔
اسی عمل کو آزمایشوں کو انگیز کرنا بھی کہہ سکتے ہیں اور قربانیوں کا راستہ بھی۔ اور صبر و استقامت کے ابواب بھی یہیں کھلتے ہیں۔
حصولِ علم و مطالعہ ___دنیوی لذتوں کو قربان کر کے،
حسنِ اخلاق اور حقوق العباد کی ادایگی ___اپنی انا کو قربان کرکے،
انفاق ___ اپنی خواہشات کو قربان کرکے،
دوسروں کی خدمت ___ اپنا آرام قربان کرکے،
اقامت ِ دین کا کام___ اپنی مصروفیات اور نام نہاد وقار کو قربان کرکے۔
ہ) اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ جب عمل کرنے والا دوسرا کوئی بھی نہ ہو یا بہت تھوڑے ہوں، تو اس وقت عمل کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے۔ کہیں نماز نہ پڑھی جا رہی ہو، کہیں حجاب اور داڑھی نامانوس ہو ، اقامتِ دین کا کام کرنے والے بہت کم ہوں ، تو آگے بڑھ کر عمل کرنے کا اجر ، ایک بنے بنائے ماحول میں اجر کرنے سے زیادہ ہے۔غربا (اجنبیوں)کے لیے اس خوش خبری کو قبول کیجیے۔
و)اگر اللہ نے نوجوانی میں یہ سمجھ اور توفیق دی ہے ، تواس سنہری زمانے سے زیادہ سے زیادہ جنت کا سامان سمیٹ لیجیے۔کیونکہ نہ ایسی جسمانی طاقت دوبارہ ملنا ہے اور نہ اتنی کم قیمت پر یہ سامان۔ نماز، حصولِ علم،اقامت ِ دین___ان سب کواپنی زندگی کے بہترین حصے جوانی سے اچھا خاصا وقت دیں ؎
جوانی میں عدم کے واسطے سامان پیدا کر
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے
٭جس وقت کسی خاص نیکی کا اجرزیادہ ہو،اس کو ترجیحاً کرنا:کسی خاص وقت میں کسی خاص نیکی کا اجر بڑھ جاتا ہے۔جس وقت جس نیکی کی قدر سب سے زیادہ ہو ،اس کی پہچان پیدا کریں۔مثلاً:
ا)یوم النحر میں،
ب)حق کے محاذ پہ کسی اشد ضرورت کے وقت
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاط وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسّنٰیط (الحدید۵۷:۱۰) تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے، وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے ، جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔
ج) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو جہاد کے لیے ایک لشکر میں روانہ فرمایا۔ یہ روانگی جمعہ کے دن تھی چنانچہ لشکر روانہ ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے سوچا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمعہ کی نمازپڑھ کر اپنے لشکر سے جاملوں گا۔ چنانچہ وہ رُک گئے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے اور آپؐ نے انھیں دیکھا تو ارشاد فرمایا: اگر تم زمین کے تمام خزانے خرچ کرڈالو تب بھی اپنے ساتھیوں کی ایک صبح کی فضیلت کو نہیں پاسکتے۔ (ترمذی)
اس حدیث سے اطاعت ِ رسولؐ،اطاعت ِ امیر، اجتماعی کام،معرکہ حق و باطل اور جہاد کی افضلیت معلوم ہوتی ہے۔
۱۹- ہر نیکی کا موقع بار بار نہیں آتا اور ہر موقعے کی اپنی قدر و قیمت ہوتی ہے۔اس لیے موقعے کی تلاش میں رہیں ، موقع شناس بنیں اور کسی موقعے کو ضائع نہ جانے دیں۔جو نیکی کا کام سامنے آجائے ، اسے لپک کر کرلیں۔
oاگر مگر،چونکہ چنانچہ میں کام ترک یا موخر نہ کریں۔ جو کام کرنا ہے یا کرنا چاہیے، وہ کرلیں۔
oیہ نہ سوچیں کہ صرف میرا کام تو نہیں ، یا کوئی دوسرا کر لے گا،بلکہ خود غرضی دکھا کر خود بڑھ کے نیکی کرلیں۔
oیہ بھی نہ سوچیں کہ کوئی دوسرا آپ سے کوئی نیکی کرنے کو کہے گا، یا توجہ دلائے گا یا تربیت و تزکیہ کرے گا تو آپ نیکی کریں گے، بلکہ آپ خود بڑھ کے نیکی کرلیں۔
oدوسروں کو پیچھے دیکھ کر خود بھی پیچھے نہ ہوں۔ آگے بڑھ کر خود بھی نقصان سے بچیں اورپیچھے والوں کے لیے بھی مثال بنیں۔
oموقعے کی تلاش میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیاں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر کریں اور دونوں ہاتھوں سے دامن بھریں۔ اور اس میں یہ شامل ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔عام استعمال کی چیز کسی کو دے دینا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا،کسی کو پانی پلادینا، مسکرانا___وہ نیکیاں ہیں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت سی نیکیوں کے مواقع سامنے آتے ہیں، اگر انسان کو دین کی سمجھ ہو اور سمیٹنے کا جذبہ ہو۔
دنیوی امتحانی پرچوں کے معروضی سوالات کی طرح یہ بھی اہم ہیں۔ ایک ایک نمبر اہم بھی ہوتا ہے اور مل کر بڑا بھی ہوجاتا ہے۔
oنیکی کو ٹالنا نہیں اور اول وقت کرلینا:کاموں کو موخر نہ کریں ،یا بعد کے لیے ٹالیں نہیں۔ ایک دفعہ رسولؐ اللہ نماز کے بعد تیزی سے اٹھے اور اپنے حجرے میں چلے گئے۔ جب واپس آئے اور صحابہ کرامؓنے جلدی کا سبب دریافت کیا تو فرمایاکہ ایک سونے کی ڈلی گھر میں بچی رہ گئی تھی۔ (بخاری)۔ انھوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اسے اللہ کی راہ میں دینے میں ذرا بھی دیر کی جائے۔
حضرت ابو الدحداحؓ نے رسولؐ سے اللہ کو قرض دینے کی آیت سن کر فوراً اپنے باغ اور اس کے اندر کے گھر کی پیش کش کردی۔ اُم الدحداحؓ کو بتایا تو انھوں نے بھی گھر سے نکلنے میں دیر نہیں لگائی۔
اسی طرح حضرت عمیرؓبن حمام نے غزوۂ بدر کے دوران رسولؐ اللہ سے جنت کا ذکر سنا۔پوچھا کہ شہادت پر وہی جنت ملے گی جس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہے؟ہاں سن کر انھوں نے اتنی جلدی دکھائی کہ جوکھجوریں وہ کھا رہے تھے،پھینک دیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ شہادت ان کا مقدر ہوئی۔
اپنے محاسبے میں یہ شامل کرلینا چاہیے کہ نماز کا وقت شروع ہونے کے کتنے منٹ بعد نماز شروع کی(انفرادی نماز کی صورت میں)۔ مالی عبادات میں بھی جلدی کیجیے۔قرض ادا کرنے میں جلدی اور مزدور کی اُجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کی اہمیت تو حدیث میں ہی خصوصاً آئی ہے۔اپنے ماتحتوں کی تنخواہیں اگلا مہینہ یا مدت شروع ہونے سے پہلے دے دیجیے۔اپنے اوپر لاگو صدقات ، کسی فرد یا ادارے کی مدد کی صورت میں ،اور اقامت ِ دین کے لیے اعانت کی صورت میں،مہینے کے شروع میں ہی الگ اور ادا کردیجیے۔ ضرورت مند کے مانگے بغیر اور اجتماعی نمایندوں کی یاددہانی کے بغیر انفاق ، سبقت ہی ہے۔
اسی طرح اللہ کے بندوں کی مدد اور دل جوئی کا معاملہ ہو یا ان تک دین کی دعوت پہنچانے کا، ہر کام جلد از جلد ہی کرلینا چاہیے۔او رنوجوانی میں نیکیوں میں سبقت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ یہ ذمہ داری والی عمر کا اول دور ہے۔
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام آئے تو صبح کا انتظار نہ کر، اور جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔اور تنگدستی کی حالت میں بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے تیاری کرلے۔ (بخاری)
حضرت عباسؓ کا قول ہے: بھلا کام اسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے۔
۲۰-نیکی کو دوسروں سے پہلے کرلینا:پچھلے نکتے کو بڑھاتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ: اس دوڑ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ نیکی اتنی جلدی ہو کہ دوسروں سے پہلے کرلی جائے۔
اس معاملے میں بھی حضرت ابراہیم ؑ کا اسوہ ہمارے سامنے آتا ہے،جنھوں نے کہا تھا اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام۶:۱۶۳)’’میں سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں‘‘۔
حضرت موسٰیؑ نے بھی کہا تھا: اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ o(اعراف۷:۱۴۳)’’میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں‘‘۔
اسی لیے نماز کی صفوں کے عددکے لحاظ سے بھی اجر بدلتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگرتم صف اول کو(یعنی اس کے اجروثواب کو)جان لیتے تو تم قرعہ ڈالتے۔(مسلم)
اسی طرح دینی محافل،دروسِ قرآن کی بھی پہلی صف کا اجر زیادہ کیوں نہ ہو گا۔
قطع رحمی ختم کرنے اور صلہ رحمی اور حقوق العباد کی ادایگی میں پہل کا اجر بھی یقینا زیادہ ہے۔ موقع سامنے آنے پر انفاق ، لوگوں کے کام آنا اور خدمت بھی دوسروں سے پہلے بڑھ کر کرنا چاہیے۔
لفظ سابقون کی تفسیر میں ،نیکی کے ہر دائرے میں حصہ لینے،قربانی دینے اور دوسروں سے آگے نکلنے کو مولانا مودودی نے ایسے یکجا کیا ہے:’’سابقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں، خدا اور رسولؐ کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں،جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا، خدمتِ حق کا معاملہ ہو یا تبلیغِ حق کا،غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کے لیے ایثار و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے، اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں‘‘۔ (تفہیم القرآن، تفسیر سورۃ الواقعہ،جلدپنجم، ص ۲۷۸)
۲۱۔جنت اور رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی زندگی کا ایک مقصد آپ نے متعین کرلیا ہے تو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں اسے اتنا ہی مقام دیں جتنا اونچا آپ جنت کا درجہ لینا چاہ رہے ہیں۔ویسے بھی جنت کی قیمت تو قرآن کے الفاظ میں آپ کی پوری جان اور مال ہے (التوبہ۹:۱۱۱)۔اپنا ہر لمحہ اور ہر صلاحیت، ہر پیسہ اور ہر سامان اس راہ پہ دوڑنے کے لیے لگا دیجیے۔
۲۲-اصل چیز یہ کہ آپ یکسو ہو جائیں کہ پوری زندگی سے یہی حاصل کر نا ہے تو خود بخود ہر چیز اسی مقصد کے تحت ڈھلتی جاتی ہے۔ خرچ کرنا،کھانا، سفر،بولنا، آلات کا استعمال___یا قرآنی الفاظ کے مطابق جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہو جاتا ہے۔
۲۳- اپنی کوششیں کرکے بھی مطمئن نہ ہوں۔کیونکہ دوڑنے والا کبھی مطمئن نہیں ہوتا کہ اس کی جیت لازمی ہے۔جنت کی راہ میں کوئی مقام یا موڑ ایسا نہیں آتا،جہاں پہنچ کر راہی یہ سمجھ لے کہ منزل آگئی۔
مولانا مودودی کے مطابق کمال ایک لامتناہی چیز ہے۔دامن کے پچھلے دھبے ابھی دھو کر فارغ نہیں ہوئے کہ نگاہ کچھ اور ڈھونڈھ کے سامنے رکھ دیتی ہے کہ اب انھیں دھوئیے۔
جس مقام پر آدمی یہ سمجھ لے کہ منزل آگئی ،وہیں وہ بازی ہار جاتا ہے،اور اس کے زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔
ایک سنگِ میل عبور کرتے ہی اگلے سنگِ میل پر توجہ مرکوز کر دیجیے ع
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہیں اور اس طرف سفر کرتے رہیں___عبادات میں ، اخلاقی صفات اور ان کے معیار میں، حصولِ علم میں، دعوتی میدانوں میں، مقدار کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی۔
۲۴-دوڑنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پیچھے کتنے لوگ رہ گئے ہیں بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ آگے کتنے لوگ ہیں اوریہ بھی کہ وہ کتنا آگے ہیں۔
۲۵-اگر آپ نیکیاں کمانے کے لیے کسی اجتماعیت یا تحریک کا حصہ ہیں ، تو آپ خوش قسمت ہیں۔ یہ بہت سی ان نیکیوں کے دروازے کھولتی ہے جو ایک فرد کے بیرونِ دریا رہنے سے نہیں کھل سکتے۔اور اجتماعی نیکیوں میں اسے بھی حصہ دار بنا دیتی ہے جن میں اس نے براہِ راست حصہ نہیں لیا۔ اس وجہ سے کہ وہ اس اجتماعیت کا حصہ ہے اور اسے تقویت پہنچاتا ہے۔
اس اجتماعیت میں شامل ہوکر بھی کچھ پیچھے والے ہوتے ہیں اور کچھ آگے والے۔آگے والے بننے کے لیے اس اجتماعیت کو تقویت دیں،اس پر بوجھ نہ بنیں۔oامیر سے خود رابطہ کریں اور کام معلوم کریں۔امیر کی طرف سے رابطے کے انتظار میں نہ رہیں ، اور اطلاع کے بغیر عضوِ معطل نہ بنیں۔oہمہ وقت مستعدو چوکس گھڑسوار مجاہد کی طرح رہیں اور جو کام دیا جائے ، اسے قبول کریں۔ oاجتماعیت کے کاموں میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور کام دوسروں پر نہ چھوڑیں۔ oدیگر نیکیوں کی طرح اجتماعیت کے کاموں میں بھی اگرمگر نہ کریں اور فوراً کرلیں۔ oچھوٹے سے چھوٹا کام بھی لگن اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ وقت پر کریں۔oآگے کی صفوں کے کام ملیں تو وہ بھی کرلیں ، اور پچھلی صفوں میں رہ کے کام کرنا ہو، توان کو بھی خوش اسلوبی اور دل جمعی سے انجام دیں۔ oدوسرے لوگوں کو دیکھ کر خود پیچھے نہ ہوں۔ oاس کی نوبت نہ آئے کہ اجتماعیت کا کوئی دوسرا فرد، آپ کو متحرک کرے oکسی بھی اجتماعی کام میں اپنے حصے کا جائزہ لیتے رہیں۔oاجتماعی کاموں میں بھی حتی الامکان رخصت کے بجاے عزیمت کی راہ اختیار کریں۔
آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔وہی تو مقرب لوگ ہیں۔نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے چشمہ جاری سے شراب کے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گانہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔اور وہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں،اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کاچاہیں استعمال کریں۔اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی،ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔(الواقعہ ۵۶:۱۵-۲۴)
اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی اُحِبُّکَ بِقَلْبِی کُلِّہٖ وَأُرْضِیْکَ بِجُھْدِی کُلِّہٖ
(یہ تحریر جس مضمون کی تلخیص ہے، وہ منشورات نے ۴۸صفحات کے کتابچے کی صورت میں اسی عنوان: ’دوڑو اور آگے بڑھو!‘ سے شائع کر دیا ہے۔ قیمت: ۲۰ روپے۔ ۱۲۰۰ روپے سیکڑہ)
۲۱۷؍ ارکان پر مشتمل تیونس کی قومی اسمبلی میں تحریک نہضت ۶۹ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف گروہوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکمران پارٹی نداء تیونس کی ۵۹ نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ۲۷ اور باقی ایوان مختلف جماعتوں کے ۱۰ اور ۱۵؍ارکان پر مشتمل ہے۔ تحریک نہضت چاہتی یا اب بھی چاہے تو بڑی آسانی سے اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن اس نے ادنیٰ تردد کے بغیر دوسروں کو حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف حکومت یا اقتدار نہیں، ملک سے آمریت کا خاتمہ، ثمرات انقلاب کی حفاظت، جمہوری اقدار کی مضبوطی اور ایک شفاف نظام حکومت تشکیل دینا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اقتدار کی خاطر ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہادینے والے کئی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
عالمِ عرب میں آمریت سے نجات کا خواب بھی ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن اور لیبیا بھی تیونس کے نقش قدم پر چلے لیکن بدقسمتی سے جلد ہی گرفتارِ بلا ہوگئے۔ تیونس آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور دنیا کو ایک نئے جمہوری تجربے سے آشنا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۲۰سے ۲۲ مئی تک تیونس میں تحریک نہضت کا دسواں اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس سے پہلے آٹھ اجتماع آمریت کے زیر سایہ یا ملک بدری میں ہوئے۔ ۲۰۱۲ء میں ہونے والا نواں اجلاس آزاد فضا میں سانس لینے کا پہلا تجربہ تھا۔ حالیہ اجتماع کئی لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ دنیا کو تیونس اور تحریک نہضت کے کئی اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں تحریک کے سربراہ کے علاوہ مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی ہوا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دعوتی و تربیتی کام سے الگ کرنے کے اہم ترین فیصلے سمیت کئی بنیادی دستوری و تنظیمی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک میں شخصی اقتدار اور شخصی سیاسی جماعتوں کا تسلط ہے، تحریک نہضت نے شورائیت اور تنظیمی قوت کا شان دار مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے صدارتی انتخاب کے لیے آٹھ افراد کے نام سامنے آئے جو آخر میں تین رہ گئے۔ ۷۷ سالہ جناب راشد الغنوشی صاحب کو مجلس نمایندگان کی بھاری اکثریت نے آیندہ چار برس کے لیے منتخب کرلیا، انھیں ۸۰۰ ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سابق صدر (یا اسپیکر) کو ۲۲۹؍ اور تیسرے اُمیدوار کو ۲۹ ووٹ ملے۔
دوسرا اہم مسئلہ مجلس شوریٰ و عاملہ کے انتخاب کا تھا۔ ۱۵۰ رُکنی مجلس شوریٰ کے بارے میں طے پایا کہ اس کے دو تہائی (یعنی ۱۰۰) ارکان منتخب اور ایک تہائی (۵۰) ارکان صدر کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح مجلس عاملہ کے بارے میں بھی قدرے بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ صدر مجلس شوریٰ کے سامنے ان کے نام تجویز کرے گا اور شوریٰ کی منظوری سے مجلس عاملہ وجود میں آجائے گی۔ ان تنظیمی اصلاحات کے بارے میں بحث کے دوران بعض ارکان کی طرف سے تندوتیز تقاریر بھی کی گئیں، لیکن بالآخر راے دہی کے ذریعے ہونے والا مجلس کا فیصلہ سب کو قبول ہوا۔
تیسرا اور حساس ترین موضوع ایسا تھا کہ جس کے بارے میں اب بھی عالمی سطح پر بہت لے دے جاری ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے اور پھر دوران اجلاس راشد الغنوشی صاحب نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے تقاضوں اور انتخابی سیاست کے پیش نظر ہمیں اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ: ’’تحریک نہضت ایک قومی جماعت ہے جو تیونس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کررہی ہے۔ ہم ایک قومی، سیاسی، اسلامی بنیاد رکھنے والی، ملک کے دستوری دائرے میں رہنے والی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور عہد جدید کے تقاضوں کی روشنی میں کام کرنے والی جماعت ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ : ’’اب ہمیں ایک ایسی جماعت بنانا ہوگی جو صرف سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دے سکے۔ ہمیں دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے بجاے مسلم ڈیمو کریٹس کے طور پر متعارف ہونا ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو الفاظ کی نئی ترکیب سے زیادہ اس فیصلے میں کوئی اچنبھا خیز بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے مصر، لیبیا، اُردن، یمن، مراکش، کویت، بحرین اور سوڈان سمیت کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی و دعوتی تنظیم الگ الگ کرچکی ہیں۔ اس تنظیمی اختصاص کے نتیجے میں نہ صرف ان کی سیاسی پیش رفت میں بہتری آئی، بلکہ دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں بھی وسعت ، سہولت اور بہتری پیدا ہوئی ہے۔
لیکن تحریک نہضت تیونس کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے کئی دوستوں اور اکثر دشمنوں کی طرف سے گردوغبار کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث چھیڑی جارہی ہے۔شاید اس ساری بحث و تمحیص کا ایک سبب جناب راشد الغنوشی کی طرف سے ’سیاسی اسلام‘ اور ’مسلم ڈیموکریٹس‘ کی اصطلاح میں بات کرنا بھی ہو۔ حالاں کہ خود ’سیاسی اسلام‘کی اصطلاح بھی اغیار کی تراشیدہ ہے۔ وہ اس کے ذریعے الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی فکر اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کام کرنے والی تحریکوں کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔
امام حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان سے پہلے شاعر اسلام علامہ محمد اقبال رحہم اللہ کا یہ دوٹوک موقف کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، اور یہ کہ دین و سیاست اور مذہب و ریاست کے مابین مکمل ہم آہنگی، قرآنی آیات و احکام اور آپؐ کی تعلیمات کی اصل روح ہے، ان سب عالمی طاقتوں کے لیے سُوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل گویا ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ مصر میں ۱۰ہزار کے قریب بے گناہ شہید اور ۵۰ ہزار کے لگ بھگ بہترین دماغوں کو جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا ایک ہی جرم بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ’سیاسی اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
تحریک نہضت نے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو الگ کرتے ہوئے گویا اس ’سیاسی اسلام‘ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دعوتی و تربیتی سرگرمیوں کے تقاضے پورا کرنے اور انتخابی عمل کی ضروریات و مجبوریوں کا علاج کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ الفاظ و اصطلاحات میں مسلسل تبدیلی اور اپنے فیصلے کرتے ہوئے تیونس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھنا تحریک نہضت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس کا نام ’جماعت اسلامی تیونس‘ رکھا گیا تھا۔ پھر اس کا نام ’جہت اسلامی‘ رکھ دیا گیا‘‘ اور پھر ’تحریک نہضت اسلامی‘ رکھا گیا۔ جماعتی نام میں لفظ اسلام پر پابندی لگنے کے بعد صرف ’تحریک نہضت‘ کردیا گیا جو اَب ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا افتتاحی سیشن تیونس کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس میں بھی جگہ نہ رہی اور ہزاروں افراد باہر کھڑے رہے۔ اتنا بڑا اور انتہائی منظم اجتماع تیونس کی کوئی دوسری جماعت کبھی نہیں کرسکی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں الشیخ راشد الغنوشی نے عہد جبرکی تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی ملک میں تیونس جانے یا وہاں سے آنے والی پرواز دیکھتا تو حسرت پیدا ہوتی تھی کہ نہ جانے اب کبھی اپنے دیس اور اس کی گلیوں میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ صرف واپس آنے کا موقع بخشا بلکہ اب ہم الحمدللہ خالی خولی دعووں اور نعروں سے آگے بڑھ کر اصلاح ریاست کی منزل کی جانب کامیابی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انقلاب کے بعد اپنی قائم شدہ حکومت خود چھوڑ کر اور اب حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود دوسروں کو موقع دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا مقصد اقتدار یا منصب نہیں، بندگانِ خدا کو اپنے دین کے سایے میں آزادی، عزت اور راحت سے زندہ رہنے کا حق دلانا ہے۔ انھوں نے تحریک نہضت کی روایتی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیونس کی تاریخ کے تقریباً ہر اہم فرد کا نام لیتے ہوئے سابق آمر حبیب بو رقیبہ کا نام بھی لیا۔ ا س کے لیے مغفرت کی دُعا کی اور کہا کہ یقینا ان کی بہت سی غلطیاں ہیں لیکن ہمیں ان کی اچھائیوں کو یاد رکھنا ہے۔
انھی دنوں بعض تیونسی اخبارات میں سابق تیونسی آمر زین العابدین بن علی کے ایک داماد کا انٹرویو شائع ہوا۔ ملک سے فرار ہوتے ہوئے خوفناک جلاد کا یہ داماد اپنی اہلیہ سمیت تیونس ہی میں رہ گیا تھا اور انھیں بالآخر عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں میری اہلیہ (بن علی کی بیٹی) سے کسی نے کہا کہ آپ اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے غنوشی صاحب سے جاکر ملیں۔ بہت تردد کے بعد وہ جاکر انھیں ملیں تو راشد الغنوشی نے انتہائی شفقت سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’آپ کے والد کے خلاف جو مقدمات بھی عدالت میں ہیں ان کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ عدالت نے اگر آپ کی تمام جایداد ضبط کرلی ہے تو اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا، البتہ سرزمین تیونس کی ایک بیٹی ہونے کے ناتے میں آپ کو کبھی خوار نہیں ہونے دوں گا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے تو یہ لیں، یہ میرے فلاں عزیز کے گھر کی چابیاں ہیں، آپ کو جب تک ضرورت ہے آپ وہاں قیام پذیر رہیں‘‘، اور ہم اس گھر میں رہایش پذیر رہے۔ اس حسن سلوک کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ یہ یاد کریں کہ بن علی اور بورقیبہ کے دور میں تحریک نہضت کے ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جس میں ان اسیران اسلام کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے سامنے بے آبرو کرنا بھی شامل تھا۔
سابقہ دورِ جبر کی یہ تلخ یادیں اور ’’فی حماک ربنا ... فی سبیل دیننا: اے ہمارے پروردگار آپ کی پناہ میں ... اے ہمارے پروردگار اپنی دین کی خاطر‘‘ جیسے کلمات پر مشتمل تحریک نہضت کا سرمدی ترانہ ہونٹوں پر سجائے ہر طرح کے جبر و تشدد سے سرخرو ہوکر نکلنے والی تحریک نہضت اور اس کے کارکن ان تمام غلط فہمیوں کا عملی جواب ہیں جو ان کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں پھیلائی جارہی ہیں۔ تحریک نہضت اپنی سیاسی تنظیم اور دعوتی و تربیتی ہی نہیں فلاحی، رفاہی، تعلیمی، اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے ماہرین کواعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کررہی ہے اور ان کے تمام بہی خواہ دُعاگو ہیں کہ جامع مسجد زیتونہ کے تاریخی میناروں سے سجا تیونس، عالم اسلام میں حقیقی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
عین اس وقت کہ جب تیونس میں نہضت کے اجتماع کا اختتام ہورہا تھا، ترک دارالحکومت انقرہ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا تھا۔ ۲۲ مئی کو پارٹی نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی جگہ بن علی یلدریم کو اپنا نیا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ طویل عرصے تک وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر کام کرنے والے ایک انتہائی شریف النفس دانش ور اور عالمی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلو نے خود اپنے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا تقاضا کیا تھا۔
بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی شان دار رہی۔ خود انھوں نے بھی اس بہتر کارکردگی کا ذکر کیا۔ بالخصوص چند ماہ قبل عام انتخابات میں۸ئ۴۹ فی صد ووٹ حاصل کرنے پر اللہ کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ وہ سرد جنگ بنی جو بدقسمتی سے صدرمملکت اور وزیراعظم کے مابین چھیڑدی گئی تھی۔ رجب طیب اردوان نہ صرف قوم کے اصل قائد ہیں، بلکہ اب وہ قوم کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے صدر بھی ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۵ کو جب وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر منتخب ہورہے تھے، تب ہی سے ان کی جانشینی کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آیا تھا۔ پارٹی کے کئی افراد کا خیال تھا کہ سابق صدر عبد اللہ گل یا نائب وزیراعظم بلند آرینج کو وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ اردوان کی راے استنبول کی میئرشپ کے زمانے سے آزمودہ اپنے دیرینہ رفیق کار بن علی یلدرم کے حق میں تھی۔ ۲۱؍ اگست کو وزیراعظم کا چناؤ ہونا تھا اور ۱۹؍ اگست تک فریقین اپنی الگ الگ راے کا اظہار کررہے تھے۔ پھر اچانک احمد داؤد اوغلو کا نام تجویز ہوا، جس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس وقت یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ ’’طاقت ور صدر کا طاقت ور وزیراعظم‘‘۔
طیب اردوان ایک عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ ان کے مخالفین اسے ان کی آمریت اور تمام اختیار سمیٹنے کی خواہش کہتے ہیں لیکن طیب اردوان ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے ماضی کے تلخ واقعات کا سدباب کرتے ہوئے اسے قیادت کی وحدت اور حالات کا بنیادی تقاضا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف منتخب پارلیمنٹ او ردوسری طرف منتخب صدر کو جب ہر چار برس بعد عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا تو دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کریں گے۔ اس نظام کو باہم مربوط کرنے کے لیے صدر کو بھی جواب دہ لیکن بااختیار بنانا ہوگا۔ وزیراعظم کو صدر اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہو، لیکن اس کا بنیادی کام فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو۔ وہ متبادل قیادت کے طور پر اُبھرنے کے خبط کا شکار نہ ہو۔ نئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم صدر رجب طیب اردوان کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ وہ گذشتہ ۱۱برس سے وزیر مواصلات کے طور پر ملک میںنمایاں ترین منصوبوں کی تکمیل کرچکے ہیں۔ ملک میں نئے ایئرپورٹ، نئے پل، نئی ٹرین، نئے بحری جہاز اور الیکٹرانک نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے ۲۵۵؍ ارب ترک لیرے، یعنی ۸۵ ارب ڈالر کے منصوبے خاموشی سے مکمل کرچکے ہیں۔
۱۹۵۵ء میں پیدا ہونے والے بن علی یلدریم ۱۶ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ پھر بحری جہازوں کی انجینیرنگ پڑھی۔ اگرچہ ان کا تعلق اردوان کی طرح پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کی جماعت سے نہیں رہا، لیکن دین داری ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ طیب اردوان کے ساتھ بلدیہ استنبول کے کئی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے اور پھر وزارت ملنے پر بھی کئی نئے منصوبے مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً: ان سے پہلے ملک میں ۲۶ ایئرپورٹ تھے، اب ان کی تعداد ۵۵ہے۔ انھوں نے اعلان کیاتھا کہ ہر ترک شہری کو ہوائی سفر کی سہولت پہنچائیں گے۔ پہلے ترکی میں ہوائی سفر کے سالانہ مسافروں کی تعداد ۴و۳۴ ملین ہوا کرتی تھی جو اَب ۱۸۲ ملین سالانہ ہوچکی ہے۔ انھوں نے ۲۴ہزار ۲سو۸۰ کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں اور ۱۸۰۵ کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائن کا جال بچھا دیا جس میں ۱۲۱۳ کلومیٹر فاسٹ ٹرین کی لائن بھی شامل ہے۔ ان کے زمانے میں الیکٹرانک تجارت میں ۲۱گنا اضافہ ہوا اور وہ ۹۰۰ ملین ترک لیرے سے بڑھ کر ۱۸۰۹؍ ارب ترک لیرے تک جاپہنچی ... یہ اور اس طرح کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک صحافی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یلدریم کا مطلب ہوتا ہے ’بجلی کا کڑکا‘۔ شاید میری شخصیت میں میرے نام کا پرتو پایا جاتا ہے۔
نئے ترک وزیراعظم کے سامنے سب سے اہم مرحلہ ملک میں مجوزہ صدارتی نظام کے مراحل کو کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگر یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو وہ جدید ترکی کے آخری بااختیار وزیراعظم ہوں گے۔ کرد باغیوں، داعش کے جنگجوؤں اور اردوان کے بقول فتح اللہ گولان کی جماعت کی طرف سے ملک میں ایک متوازی ریاست چلانے کی کوششیں ناکام بنانا بھی مشکل ترین اہداف ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات بھی مسلسل نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور ترکی کے دشمنوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔۲۲ مئی کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارٹی کا جو اہم اجلاس بلایا گیا، اس میں ملک کی قومی قیادت کے علاوہ تمام سفرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتہائی اہم بات یہ تھی کہ مصر، شام، اسرائیل، روس اور بنگلہ دیش کے سفرا کو اس اجلاس میں قصداً نہیں بلایا گیا۔ ان پانچوں سفرا کو نہ بلایا جانا ترک عوام ہی نہیں، عالم اسلام کے اکثر عوام کے لیے خوشی کا باعث ہوگا لیکن ا س سے ترکی کو درپیش چیلنجوں کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب میں مدعو کیے جانے والے کئی سفرا کے ممالک بھی ترک پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، مثلاً امریکا، ایران اور متحدہ عرب امارات۔
اللہ تعالیٰ نے ترکی کو گذشتہ عرصے میں بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں سرخ رو کیا ہے اور ترک قیادت کو یقین ہے کہ چوں کہ وہ اپنے مقاصد میں مخلص ہیں، جاں فشانی اور حکمت سے کام کررہے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں__ اب بنگلہ دیش سے بھلا ان کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے سواے اس کے کہ وہاں کی پٹھو حکومت بے گناہوں کا خون بہارہی ہے۔ وہ ظلم رکوانے کے لیے کی جانے والی ترک ذمہ داران کی کسی کوشش، کسی مطالبے، کسی درخواست کو خاطر میں نہ لائی__ اس لیے ترک قیادت کو یقین ہے کہ اللہ کا فرمان مانتے ہوئے اگر کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور فرمائے گا۔ ایک اچھی مثال تو حالیہ بحران ہی میں سامنے آگئی کہ صدر اور وزیراعظم میں اختلاف راے پیدا ہوا تو انھوں نے کسی بڑی خرابی کا شکار ہوئے بغیر اس کا ایک بہتر حل نکال لیا۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول ’’ہمارے لیے عہدے اور مناصب نہیں مقاصد و نظریات اہم ہیں۔ اردوان میرے قائد ہیں اور میں پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے خدمت کرتا رہوں گا‘‘۔
سوال: میری شادی کو ۲۲برس کاعرصہ گزر چکا ہے۔ میں کافی عرصے سے ملازمت سے وابستہ ہوں، جب کہ میرے شوہر کو ملازمت ملنے میں بہت سال لگے۔ اس کے باوجود میرے شوہر نے میری تنخواہ اپنے ہاتھ میں رکھی اور اس سے اپنے نام پر جایداد خریدتے گئے کہ: ’’یہ سب کچھ تمھارا ہی تو ہے۔‘‘ مزاج کے اعتبار سے سخت مزاج، غصیلے اور بات بات پر بھڑک اٹھنے والی طبیعت کے مالک ہیں، اس لیے خوف کے مارے مجھے بار بار خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔بچوں کے ساتھ بھی بہت سخت رویہ ہے اور انھیں بری طرح پیٹتے ہیں۔ جب نوکری مل گئی تو ان کی جارحیت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔ میرے وسائل سے حاصل کردہ جایداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے تو وہ اب مجھے آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، مارپیٹ بھی کرتے ہیں، اور طلاق کی برملا دھمکیاں دیتے ہیں۔ میں یہ سب کچھ اس وجہ سے برداشت کرتی رہی ہوں کہ اگر میرا خاوند ناراض ہو گیا تو میری عبادت قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ ظلم اور بچوں پر تشدد صرف اسی ڈر سے برداشت کیا ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ اس رویے سے تنگ آکر خودکشی کر لوں۔
سوال یہ ہے کہ کسی مذہبی اسکالر نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا شوہر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ ہمیشہ عورت ہی کو کیوں ڈرایا جاتا ہے؟ سوچتی ہوں کاش! میرا باپ مجھے پیدا ہوتے ہی دفن کر دیتا تو شوہر کے اتنے ظلم سہنے سے تو بہتر ہوتا!
جواب:اسلام کے خاندانی نظام میں سربراہ خاندان کو سربراہ ہونے کی وجہ سے ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیںاس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘اس آیت مبارکہ میں فضیلت مطلق نہیں ہے بلکہ مشروط ہے اور سربراہی کے منصب سے براہ راست متعلق ہے۔ اگر شوہر مطلقاً افضل ہوتا تو قرآن کریم یہ بات نہ کہتا کہ وَلہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہَنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرہ۲:۲۲۸)، یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمے ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمے ہیں ۔حقوق میں مساوات کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ایک کو دوسرے پر مستقلاً فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ایک بیوی علم، تقویٰ، حسن اور مال میں شوہر سے افضل ہو سکتی ہے، لیکن اس فضیلت کے باوجود مرد کی قوامیت برقرار رہے گی کیوںکہ وہ گھر کی ذمہ داری کی بناپر تمام حقوق میں مساوات کے باوجود ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے۔
مسلم معاشروں میں غیر مسلم رسوم و رواج سے متاثر ہونے کی بناپر ایسی بہت سی باتیں صدیوں سے شامل ہو گئی ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔ قوام،قیام، قیم عربی زبان میں اس فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے کسی نظام یا ادارے کا سربراہ اور منتظم بنا دیا گیا ہو۔ مرد کو خاندان میں یہ مقام معروف وجوہات کی بنا پر دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے افراد کے لیے نفقہ اور تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ یہ کیسے ہوتا کہ مردبیوی اور بچوں کی حفاظت ، غذا، لباس، مکان، صحت کے لیے ذمہ دار بھی ہوتا اور اسے گھر میں کوئی اختیار بھی نہ دیا جاتا۔ اس لیے عدل کا تقاضا تھا کہ مرد کو ایک درجہ اختیار ہو اور گھر کے انتظامی معاملات مشاورت کے بعد اس کی سربراہی میں طے پائیں۔ البقرہ میں اس پہلو کو یہ ہدایت دے کر واضح کر دیا گیا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہَمَا وَ تَشَاوُرٍ (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں‘‘۔ یہاں بھی یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ بیوی کا مشورہ شامل کرنے کے بعد کوئی فیصلہ ہو۔ مطلق العنانی، لامحدود اختیارات اور آمریت کو اسلام نے کسی معاملے میں بھی پسند نہیں کیا ہے۔ خلیفۂ وقت بھی مشاورت کا پابند ہے۔ اس سے آزاد نہیں ہے۔
قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے گھر کے نظام کو عدل اور توازن و اعتدال کے ساتھ چلانے کے لیے شوہر اور بیوی کو یکساں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کیا ہے۔ اس لیے نام نہاد مردانگی کے نام پر دھونس اور چودھراہٹ اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں پر بھلائی میں تعاون اور ہر برائی میں عدم تعاون کا اصول کارفرما ہے۔ اسلام میں فضیلت اس خاوند کے لیے ہے جو خدا سے ڈر کر معاملات کرتا ہو۔ جہاں تک شوہر کے حقوق کا تعلق ہے، وہ ایسے شوہر کے حقوق ہیں جو عادل ہو، ظلم نہ کرتا ہو۔ظالم شوہر کو خدا کے ہاں اپنے رویے کی بنا پر جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
آپ نے جس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ اس لحاظ سے غیر معمولی طور پر اہم ہے کہ اسلام میں نظامِ خاندان کا تحفظ دین کے مقاصد کے حصول کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے ہر وہ کوشش جو خاندان کو یکجا اور مربوط رکھ سکے، اسے کرنا ایک فریضہ ہے۔ اسلام میں طلاق یا خلع دونوں کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ تاہم، اس سے پہلے خود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اصلاح کی کوشش، اور اگر انفرادی کوشش کامیاب نہ ہو تو دونوں جانب سے ایک ایک قریبی رشتہ دار بطور ’حکم‘ کے بیٹھ کر معاملے کا جائزہ لے، مصالحت کی کوشش کرے اور دیانت داری کے ساتھ بغیر کسی جانب داری کے خاندان کے حق میں جو بہتر ہو وہ فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ شوہر اور بیوی دونوں کو ماننا لازم ہوگا۔
آپ کے شوہر کا زبان اور ہاتھ کا غلط استعمال کرنا انتہائی افسوس ناک فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے اور آپ کے صبر و استقامت پر آپ کو اعلیٰ اجر دے۔ جب تک آپ کے شوہر بے روزگار تھے، آپ کا ملازمت کرنا اور گھر کے اخراجات اٹھانا ایک صدقہ ہے اور اس کا احساس شوہر کو لازماً ہونا چاہیے۔ اگر شوہر کو یہ احساس نہیں ہے تو کم از کم اللہ سبحانہ تعالیٰ، جو ہر بات سے باخبر ہے، وہ ان شاء اللہ آپ کو اس کا عظیم اجر دے گا۔ زندگی محض اس دنیا میں نہیں ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے اور جس کی زندگی وہاں کامیاب ہو گئی، وہی اصل میں کامیاب ہے۔ شوہر کو ملازمت ملنے کے بعد آپ کا اور بچوں کا خرچ خود اٹھانا چاہیے تھا اور ان کے والدین و اقربا کا یہ فرض تھا کہ انھیں اس طرف بار بار متوجہ کرتے۔ شرعاً وہ تمام دولت جو آپ نے ملازمت کرکے حاصل کی اور شوہر نے اپنے نام سے جایداد وغیرہ کے لیے استعمال کی، آپ کی ملکیت ہے۔ آپ کو پورا اختیار ہے کہ اسے آپ خوشی سے جس کو چاہیں دیں۔ شوہر شرعاً اس پر قابض نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ بغیر کسی دبائو کے اپنی خوشی سے شوہر کو دے دیں تو اس کے لیے آپ کو پورا اختیار ہے۔
آپ کے شوہر کا طرز عمل کسی بھی پہلو سے مناسب نہیں۔ انھیں تو آپ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ آپ نے ان کی ذمہ داریوں کو رضاکارانہ طور پر پورا کیا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی باتیں رواج پا گئی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مرد کی ہر معاملے میں فوقیت اس میں سے ایک ہے۔ آپ نے آج تک جس صبرو تحمل کے ساتھ اپنے فرائض سے زیادہ حق ادا کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر ضرور دے گا۔ مشکلات اور شوہر کے غلط رویے سے تنگ آکر خودکشی کا تصور کرنا اسلام کی تعلیمات میں حرا م ہے اور یقینا اللہ سے محبت کرنے والی مسلمان بیوی کے لیے اس غلط کام کے بارے میں سوچنا بھی درست نہیں۔ ہاں، اسلام نے لازماً آپ کو خلع کا حق دیا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ خاندان کے بڑے آپ کے شوہر کو سمجھائیںکہ ان کی سختی اور خصوصاً ہاتھ کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہے۔ اگر وہ آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں تو انھیں اپنے اس خلاف سنت طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔ نبی کریمؐ کا رویہ اپنے گھر والوں سے انتہائی احترام و محبت کا تھا۔ آپ نے کبھی اپنے خادم پر بھی ہاتھ نہیں اٹھایا، حتی کہ خادم کو سخت سست بھی نہیں کہا۔ شوہر کا اپنی بیوی کے لیے سخت زبان استعمال کرنا ، غصے کا اظہار کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
بچوں کے مستقبل کے پیش نظر آپ جو عظیم قربانی دے رہی ہیں اللہ تعالیٰ یقینا اس پر آپ کو بہترین اجر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے قلب تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ علیم و خبیر ہے اور ان شا ء اللہ آپ کے شوہر کے دل کو تبدیل کرے گا۔ جہاں تک ممکن ہو، گھر کے بزرگوں کو درمیان میں لا کر اصلاح کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو گھر کا سکون اور امن دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: محکمہ تعلیم حکومت ِ پنجاب نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ اسکولوں کی سطح پر جن اساتذہ کا رزلٹ مطلوبہ معیار سے کم ہوگا، انھیں سزا دی جائے گی اس سزا سے بچنے کے لیے اکثر و بیش تر اساتذہ یہ طریقے اختیار کر رہے ہیں:
۱- امتحان میں ہر ذریعے سے بھرپور نقل کروائی جاتی ہے۔۲- پیپرز جن جن سنٹرز پر چیکنگ کے لیے جاتے ہیں وہاں رابطہ کر کے اپنے نتائج ٹھیک کرا لیے جاتے ہیں۔ ۳-سائنس کے عملی امتحانات میں ممتحن کی خدمت کر کے مرضی کے فرضی نمبر لگوا لیے جاتے ہیں۔ ۴- اس سب کچھ کے باوجود اگر رزلٹ پھر بھی خراب آئے تو محض اپنے بچائو کی خاطر تعلیمی دفاتر میں رشوت اور اثرورسوخ سے اپنا نام لسٹ سے نکلوا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
درج بالا اُمور میں جو اخراجات بطور رشوت کیے جاتے ہیں، سفارش کرائی جاتی ہے اوردیگر ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں کیا وہ جائز ہیں؟ جب کہ بعض عالم فاضل، امام اور خطیب اساتذہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں بلکہ حکومت کا بنایا ہوا ایک قانون ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا فرض نہیں۔ لہٰذا اپنی سروس اور عزت کو حکومتی عتاب اور سزائوں سے بچانے کے لیے یہ تمام اعمال بالکل درست اور جائز ہیں۔ ہم تو نیکی کا کام کر رہے ہیں کہ بچوں کو نقل لگوا کر ہی سہی کسی طرح تو پاس کروا کے نوکریوں کے قابل بنارہے ہیں۔ براہِ کرم اس معاملے کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
ج: ناجائز کام ناجائز ہے۔ وہ کسی مصلحت سے جائز نہیں ہوسکتا خصوصاً جب مصلحت بھی ناجائز ہو۔ امتحان اس لیے لیا جاتا ہے کہ طالب علم کی قابلیت کا پتا چلایا جائے۔ اس لیے اگر طالب علم فیل ہو تو اسے پاس کرنا ناجائز ہے۔ اگر تھوڑے نمبروں سے پاس ہو تو زیادہ نمبر دینا امانت و دیانت کے خلاف ہے۔ نیز نتیجہ شہادت ہے اور جھوٹی شہادت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناپسند فرمایا۔ آپ نے فرمایا: اَلَا الشَّہَادَۃُ الزّور،خبردار جھوٹی گواہی سے بچو۔ جو علما و خطبا اسے ایک دنیاوی کام قرار دے کر اسے جائز قرار دے رہے ہیں،وہ نام نہاد علما و خطبا ہیں، ان کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھیں تدریس اور امامت و خطابت کے منصب سے معزول کر دینا لازم ہے۔ جھوٹا اور بددیانت شخص منصب امامت کا مستحق نہیں ہے۔ عام طو ر پر تو عوام جھوٹ بولنے والوں کو علما نہیں سمجھتے اور انھیں امام نہیں بناتے۔ پتا نہیں آپ کے علاقے میں ایسا کیوں ہوگیا ہے۔ مفتیانِ کرام نے امتحان کے نتیجے اور سند کو شہادت قرار دیا ہے اور غلط نتیجہ اور سند کو جھوٹی گواہی قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلٰی غَیْرِ اَھْلِہٖ فَانْتَظِرِالسَّاعَۃَ (بخاری) ’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔
سرٹیفیکیٹ کسی نااہل کو دیا جائے تو حالات بگڑ جائیں گے، جس طرح قربِ قیامت میں حالات بگڑیں گے اسی طرح کے حالات ہوجائیں گے۔ آج اسی وجہ سے حالات خراب ہیں۔ واللّٰہ اعلم۔(مولانا عبد المالک)
س : مولانامحمد یوسف اصلاحی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منسوب ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) کے تحت بعنوان ’خاوند کے مال میں بیوی کا حصہ‘ لکھا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں ہے۔ نہ اسے چوری کہا جائے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ’معروف‘ کی شرط لگائی ہے۔ معروف کی شرط پوری ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی شوہر کو دلیل سے یا محبت سے یا بچوں کا واسطہ دے کر اسے خرچ دینے پر قائل کر کے اسے کہے کہ وہ اس کے مال سے بوقت ِ ضرورت بغیر بتائے کچھ لے لیا کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مال میں سے اس کی غیر موجودگی میں کچھ لینے کے بعد اُسے بتائے ورنہ اس کا فعل سرقہ ہی شمار ہوگا۔ لہٰذا یہ استنباط صحیح نہیں ہے۔
ج:حضرت عائشہؓ کی حدیث سے مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے جو مسئلہ مستنبط کیا ہے وہ درست ہے۔ ایک بخیل اور کنجوس شوہر سے اپنا حق لینا اس کے علم کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ وہ معروف کی حد میں ہو۔ اگر شوہر کے مال میں سے کوئی بڑی رقم یا بڑی چیز ہوجس کا عرف میں بغیر اجازت لینا صحیح نہ ہو تو اسے شوہر کی اجازت سے لیا جائے گا۔ کوئی بیوی بغیر اجازت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ حضرت ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے روز مرہ خرچ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس کا جواب دوسری بیویوں کے لیے بھی وہی ہے بشرطیکہ شوہر روز مرہ کا خرچ بھی خوش دلی سے دینے کے لیے تیار نہ ہو۔
احادیث سے شارح حدیث نے جو مسائل مستنبط کیے ہوں، پہلے ایک آدمی کو ان کا علم حاصل کرنا چاہیے اس کے بعد مزید استنباط کا سوچنا چاہیے۔ شوہر جو کمائی کرتا ہے اس میں بیوی اور بچوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش دلی سے نہ دینا چاہے تو بیوی اپنا اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا حق زبردستی بھی لے سکتی ہے اور شوہر کے علم میں لائے بغیر بھی لے سکتی ہے۔ (مولانا عبد المالک)
آخری پارہ، بقرہ اور آل عمران کے بعد، شیخ عمر فاروق کی یہ ضخیم تالیف حسب سابق وقف للہ تعالیٰ ہے۔ قرآن کی تفہیم کے لیے معروف تفاسیر: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، معارف القرآن، تیسیر القرآن، فہم القرآن اور کئی دوسری، کہیں کہیں عربی سے ترجمہ بھی انتخاب کرکے پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے تحت مفہوم سے متعلق آیات و احادیث عربی متن و ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ آخری عنوان آیات مبارکہ کی حکمت و بصیرت کے تحت ۱،۲،۳کرکے نکات کے تحت آیت کے مزید نکات خصوصاً اخلاقی پہلو اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے حوالے سے بیان ہوتے ہیں۔ جابجا اشعار بھی جیسے جڑ دیے گئے ہیں جو مضمون کی وضاحت کرتے ہیں اور کشش کا باعث ہیں۔ ۱۷۶آیات ۶۰۰صفحات پر بیان ہوئی ہیں۔ اگر کوئی اوسطاً۱۰صفحے روز پڑھنے کا التزام کرے، دو ماہ میں قرآنی معارف کے بحر ذخار سے سیراب ہوگا (کتاب پر ایک پیسہ خرچ کیے بغیر!)۔
سورۂ نساء میں اہم معاشرتی مسائل اور جہاد کا تذکرہ ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ کفار، مشرکین، منافقین کی بھی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ نیز مخلص اہل ایمان اور رسولؐ اللہ کی اپنی ذات گرامی کا بھی جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔
شیخ صاحب نے بڑی دلجمعی، ایمانی حرارت اور علمی وقار کے ساتھ تفسیری افادات کو مرتب کیا ہے۔ انھیں بس یہی فکر ہے کہ اُمت مسلمہ قرآن جیسی گوہرِ نایاب کتاب کو مقصد ِ حیات بناکر اپنی عظمت رفتہ کو پھر سے پالے۔ اس خدمت کے لیے وہ متلاشیانِ حق کی دعائوں کے حق دار ہیں۔ بیرون لاہور کے احباب ۶۰روپے کے ٹکٹ بھیج کر کتاب منگوا سکتے ہیں۔(مسلم سجاد)
شاہ عبدالقادر (۱۱۶۷ھ-۱۲۳۰ھ) کا اردو ترجمۂ قرآن مجید ۱۸۲۹ء میں دہلی سے شائع ہوا، جسے بالعموم پہلا اردو ترجمہ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے اندازے کے مطابق اب تک ۱۶۴ سے زائد مترجمین نے اپنے اپنے انداز میں قرآن مجید کے اردو ترجمے کیے ہیں۔
ترجمہ نویسی ایک مشکل فن ہے۔ کیونکہ ہر زبان ایک مخصوص تہذیبی اور ثقافتی مزاج رکھتی ہے۔ جب ایک زبان کی تخلیق کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے، تو دونوں زبانوں کے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ترجمۂ قرآن مجید تو اور بھی نازک اور مشکل کام ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف نے ترجمۂ قرآن مجید کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرنے کے بعد شاہ عبدالقادرؒ کے حالات اوران کی علمی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ترجمے کی خصوصیات کے ساتھ ان کے ترجمۂ قرآن کا لسانی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ لغت اور لسانیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ لسانی مطالعہ معلومات افزا ہو گا۔
مصنف نے بتایا ہے کہ مختلف لغات میں کسی ایک لفظ یا محاورے کے کیا کیا معنی ہیں، اورشاہ عبدالقادرؒ نے تمام لغات سے ہٹ کر کوئی نیا معنی اختیار کیا ہے اور اس میں کیا انفرادیت ہے؟ ان کے خیال میں ’’یہ ترجمۂ قرآن مجید محض ترجمہ نہیں بلکہ ادبی و لسانی خوبیوں کا خزانہ ہے اور شاہ صاحب کی عبقریت اور زبردست لسانی شعور کا زندہ و جاوید ثبو ت ہے‘‘ (ص۲۳۴)۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: ’’یہ ترجمہ اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ ہے۔ اس ترجمے کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر عام لفظوں کو نئے معنی پہنا کر انھیں نئی زندگی دے رہے ہیں‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
یہ کتاب سیّد مودودی کے دروسِ حدیث پر مشتمل ہے جو مشکوٰۃ المصابیح کے باب الصلوٰۃ کی تشریح پر مبنی ہے، جن میں نماز سے متعلق جملہ اُمور، تعلیمات، ہدایات اور نکات کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ سلسلۂ درسِ قرآن و حدیث ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۳ء تک جاری رہا(کیونکہ جنوری ۱۹۶۴ء میں مولانا مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر ایک عرصے تک وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے)۔ان دروس میں ہر خاص و عام شرکت کرتا اور علم کے نور سے قلب و ذہن کو منور کرتا۔ یہ قیمتی درس بھی یقینا فضا کے اندر تحلیل ہوجاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے میاں خورشیدانورصاحب کو ہمت اور توفیق عطا فرمائی کہ انھوں نے یہ درس ریکارڈ کرلیے، جس کا نتیجہ آج اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اس کتاب کے مندرجات، ترتیب، تدوین اور موضوعات کی وسعت کے بارے میں محترم میاں طفیل محمدرحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ: ’’اس موضوع پر اس قدر معتبر، مستند، مفصل اور عام فہم رہنمائی کرنے والی کوئی اور کتاب اُردو زبان میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، میرے نزدیک نماز اور اس کے جملہ مسائل کے بارے میں صحیح معلومات اور رہنمائی کے طالب حضرات کے لیے یہ کتاب نعمت ِ خداوندی ہے‘‘(ص۱۸)۔ اسی طرح محترم نعیم صدیقی مرحوم و مغفور نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’ان دروس میں نماز کے ضروری مسائل و احکام کی تشریح کی گئی ہے اور بڑی محبت سے دلوں کے کانٹے چننے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص ۲۰)۔واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کو اگر گھروں میں اہلِ خانہ اجتماعی مطالعے کا محور بناکر رمضان کی ساعتوں کو نفع بخش بنائیں تو یہ عمل انھیں بہت سی کتابوں سے بے نیاز اور بے شمار حسنات سے مالا مال کردے گا۔
کتاب کی تدوین کے لیے بدرالدجیٰ صاحب کی محنت قابلِ داد ہے۔ یاد رہے یہ کتاب اس سے قبل افاداتِ مودودی کے نام سے شائع ہوئی تھی، مگر موجودہ پیش کش خوب تر ہے۔(سلیم منصورخالد)
سیدنا ابوبکر صدیق، شخصیت اور کارنامے
تاریخ نویسی ان چند علوم میں سے ہے، جن پر مسلمان اہل علم نے آغاز ہی سے توجہ دی اور واقعات و کوائف کو علمی تحقیق کے بعد قلم بند کیا۔ کتب مغازی کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی صدی ہجری میں کام کا آغاز ہوا، اور بعد کے زمانے میں آنے والے مؤرخین نے عالمی تاریخ کے تناظر میں مسلم تاریخ کو مختلف زاویوں سے محفوظ کر دیا۔
زیر نظر تحقیق ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ مؤلف نے کتب حدیث، مغازی، سیرت و تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے بہت سے واقعات پر علمی تحقیق کی ہے، جو عرصے سے نقل کیے جاتے رہے ہیں، مثلاً حضرت علیؓ کے بارے میں یہ روایت کہ انھوں نے سیدہ فاطمہ ؓ کے انتقال تک حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، یا حضرت سعد بن عبادہؓ نے جن کے بارے میں انصارِ مدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قیادت کے لیے سوچ رہے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کے بعد اپنے اختلاف کا اظہار سخت الفاظ میں کیا وغیرہ۔ مؤلف نے مستند تاریخی بیان کے ساتھ تجزیہ اور تحلیل کے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ: جو رویے ان جلیل القدر صحابہؓ اور صحابیاتؓ سے منسوب کیے جاتے ہیں، وہ عقل اور نقل دونوں معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ اسی طرح: ’’حضرت علیؓ اورحضرت سعد بن عبادہؓ نے جس طرح سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ تعاون اور مشاورت میں شرکت کی، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دونوں اصحابؓ کا پورا اعتماد، حمایت اور وفاداری خلیفہ اولؓ کو حاصل تھی‘‘۔
ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی نے جامعہ اُم درمان سوڈان سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ کتاب حضرت صدیق اکبرؓ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا ایک حصہ ہے۔مؤلف نے دیگر تالیفات میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ اورخلیفۂ رابع حضرت علی بن ابی طالبؓ کے علاوہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی سیرت اور کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔تالیفات کے اس اہم سلسلے کو مکتبہ الفرقان، مظفرگڑھ نے بہت اہتمام سے طبع کیا ہے۔ عربی سے ترجمہ شمیم احمد خلیل سلفی نے بہت توجہ کے ساتھ سلیس اردو میں کیا ہے۔
یہ سلسلۂ تالیفات ہر تعلیم گاہ کے کتب خانے میں ہونا چاہیے تاکہ ان تاریخی تحریفات کی اصلاح ہو سکے، جن کی بنا پر مغربی مستشرقین اور بعض مسلمان تاریخ نگاروں نے بہت سے شبہات کو تقویت پہنچائی ہے جو باہمی اختلافات اور رنجش کا سبب بنے ہیں۔
مصنف نے تاریخی مواد کو جس محنت سے مرتب کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس قسم کی کتب امت مسلمہ میں اتحاد اور باہمی اعتماد پیدا کرنے میں ممدو معاون ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں اتفاق و محبت کے قیام میں ہماری مدد فرمائے، آمین۔(ڈاکٹر انیس احمد)
اساتذہ معاشرے کے وہ محسن ہوتے ہیں، جو علم کے خزانے لٹاتے اور تحقیق و تربیت کی روایت اگلی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں لیکن ان میں وہ اساتذہ جو فی الحقیقت علم و فضل میں اونچا مقام رکھتے ہوں، ان کے احسانات کا شمار مشکل ہوتا ہے۔ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم انھی بلند پایہ اساتذہ کی صف میں شمار ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ میں تدریسی و تحقیقی خدمات کی انجام دہی میں گزارا۔
زیر نظر مجموعہ ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو اعتراف ِ خدمات کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ شعبۂ ہٰذا کی جانب سے سلسلۂ ارمغان کی سابقہ پیش کشوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر معیار پر مبنی ہے۔ اس مجموعے میں ۳۷تحریریں شامل ہیں اور دو حصوں میں تقسیم ہیں:
پہلا حصہ حافظ صاحب کے شخصی محاسن اور ان سے متعلق یادداشتوں کی سبق آموز سے ۱۸تحریروں پر مشتمل ہے، خصوصاً ڈاکٹر ایس ایم زمان (ص۲۱-۳۱)، جناب راشد شیخ (ص۸۹-۱۰۰)، ڈاکٹر محمد عبداللہ (۱۰۱-۱۱۲) اور ڈاکٹر نضرۃ النعیم (۱۱۳-۱۳۲) کے مضامین دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ دوسرا حصہ حافظ صاحب کی۱۹تحریروں پر مشتمل ہے، جس میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ حافظ صاحب کے مطالعے اور تحقیق کا میدان قرآن کریم اور اس سے وابستہ علوم تھے، اس لیے اس حصے میں زیادہ ترمباحث قرآنیات سے منسوب ہیں۔ علاوہ ازیں حافظ صاحب کے ذخیرۂ مصاحفِ قرآن سے قرآنی خطاطی اور نادر قرآنی نسخوں کے خوب صورت عکس بھی شامل ہیں۔
پروفیسر حافظ احمد یار کی خوش گوار طبیعت اور دل آویز شخصیت سے متعارف اور علمی آفاق سے روشناس کرانے پر اس ارمغان کی مرتّب ڈاکٹر جمیلہ شوکت شکریے کی مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
تقریباً نصف صدی قبل ۱۹۶۳ء پروفیسر خورشیداحمد نے کراچی یونی ورسٹی کے اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے توجہ دلانے پر اسلامی نظریۂ حیات ترتیب دی تھی اور جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی جانب سے ہی اسے شائع کیا گیا تھا۔ گذشتہ ۵۳سال میں اس کتاب کے ایک لاکھ سے زائد نسخے شائع ہوئے۔
اسلامی نظریۂ حیات کا اوّلین ایڈیشن ایک جلد پر مشتمل تھا، لہٰذا ضخیم تھا لیکن اب یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کتاب کے تینوں حصے الگ الگ کتاب کے طور پر شائع کیے جائیں اور تینوں کا مجموعہ ایک ساتھ بھی دستیاب رکھا جائے۔
اسلامی نظریۂ حیات کے پیش لفظ میں، شیخ الجامعہ کراچی، محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی دُکھ بھرے انداز میں ہمارے نوجوانوں کی اسلام کے حوالے سے کتنی صحیح عکاسی کرتے ہیں: ’’ہماری درس گاہوں میں یہ روح فرسا منظردیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا ایمان متزلزل ہے جس کی وجہ سے نہ ان میں کردار کی بلندی باقی رہی ہے نہ صحیح ترقی کا ولولہ۔ یہی نہیں کہ ان کے عمل سے اسلام کی خوشبو نہیں آتی بلکہ ان کے دل بھی محبت سے خالی ہوتے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان سے محبت کا جذبہ بھی کمزورپڑ گیا ہے۔ انھیں اپنے والدین اور بزرگوں کی زندگی میں اسلام نظر نہیں آتا تو وہ اپنے آبائی دین کی عظمت کو کیسے سمجھیں۔
ہماری درس گاہیں جسد بے جان ہیں، جہاں نہ علم ہے نہ کردار۔ نہ دین، نہ جذبہ۔ ان سے تعلیم پاکر نوجوان جوش و ولولہ کہاں سے لائیں؟ ان کے دل پر جب اغیارکی عظمت کے نقوش ثبت ہیں تو وہ اپنی کس چیز پر فخر کریں۔ اگر ان کے کانوں میں مغربی تہذیب کے راگوں کے الاپ ہی پڑے ہیں تو وہ اپنی تہذیب میں کسی خوبی کا نشان کیسے پائیں گے؟ اور ثقافت اور دین کا چوں کہ گہرا تعلق ہے لہٰذا ان کے دل اگر ارتداد کی طرف مائل ہوں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے‘‘۔ (ص۵-۶)
اس کتاب سے محض نصابی کتاب کے طور پر نہیں، بلکہ اسلامی دعوت کو اس دور کے نوجوانوں کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے ہرطرح استفادہ کیا گیا، خصوصاً مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والوں کے لیے ایک MUST کی حیثیت اختیار کیے رہی۔ اس کے بے شمار جعلی ایڈیشن شائع ہوئے اور مقبولیت حاصل کرتے رہے۔
اس کتاب کی تالیف میں بعض انتہائی مشہور و معروف مسلمان اہلِ علم کی نگارشات ان کی اجازت سے شاملِ اشاعت ہیں: مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، لکھنؤ (بھارت)، ڈاکٹر مصطفی زرقا ، دمشق (شام)، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، لاہور، مولانا امین احسن اصلاحی، لاہور، ڈاکٹر حمیداللہ، پیرس(فرانس)، مولانا صدرالدین اصلاحی، اعظم گڑھ(بھارت)، جناب نعیم صدیقی، لاہور، مولانا افتخار احمد بلخی، کراچی۔ اس سے اس کتاب کی افادیت اور کشش بہت بڑھ گئی ہے۔
اسلامی نظریۂ حیات (حصہ اول)، مذہب اور دورِ جدید سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے، جب کہ (حصہ دوم) اسلامی فلسفۂ حیات او ر (حصہ سوم) اسلامی نظامِ حیات سے متعلق ہے۔ بحیثیت مجموعی اس کتاب میں زندگی کے اسلامی تصور کے تمام پہلوئوں کو مختصراً اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اسلام کے پورے نظامِ فکروعمل کا ایک واضح نقشہ بن جائے اور اسلام کے تقاضوں کی سمجھ بھی اس میں پیدا ہوجائے۔
مناسب ہوگا اس کتاب کا ایک اچھا انگریزی ترجمہ شائع کیا جائے کہ یہ معاشرے کی ضرورت ہے۔کتاب کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کی جدید انداز پر معقول تشہیر کروائی جائے۔ اسکول، کالج، جامعات اور دوسرے اداروں کی لائبریری میں فراہم کی جائے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جائے اور کتب میلوں میں خاص طور پر رکھوائی جائے۔ (شہزادالحسن چشتی)
خصوصی شمارے اپنے موضوع سے انصاف کریں تو انھیں پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس نمبر کے چار ابواب ہیں: تحفظ ماحولیات، مرض اور مریض، صحت و تندرستی، طب ِ نبویؐ، کُل ۳۵مقالات ہیں۔ کچھ لکھنے والوں کے نام سے رسالے کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہوگا: حکیم محمدسعید، ڈاکٹر حمیداللہ، مولانا محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر گوہر مشتاق، ڈاکٹر اُمِ کلثوم، ڈاکٹر عبدالحی عارفی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، حکیم طارق محمود چغتائی، حکیم راحت نسیم سوہدروی، ڈاکٹر خالد غزنوی، ڈاکٹر سیّدعزیز الرحمن، مولانا امیرالدین مہر، ارشاد الرحمن۔ بعض موضوعات: ماحولیات، جدید چیلنج اور تعلیماتِ نبویؐ، بیماریاں اور پریشانیاں، نعمت یا زحمت، دل کی صحت اور اس پر عبادت کے اثرات، حفظانِ صحت اور شریعت مطہرہ، روزے کی جسمانی اور نفسیاتی افادیت اور طب نبویؐ۔ زیتون، انجیر، کھجور، کلونجی اور شہد کے فوائد پر علیحدہ علیحدہ مضامین ہیں۔ نمبر کو سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔
کچھ ’لطائف‘ بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ۱۶ویں جلد کے اس شمارہ۶ پر نومبردسمبر ۲۰۱۶ء لکھا گیا ہے۔فہرست میں مختلف حصوں کے صفحات نمبرمیںپہلا تو ۱۱ تا ۸۰ درست ہے، لیکن اس کے بعد ۲۴۰ تا ۸۱، ۲۷۴تا ۳۴۱، ۴۴۴تا ۳۷۵ درج کیے گئے ہیں۔(مسلم سجاد)
علامہ اقبال کی شخصیت شاید وہ واحد علمی ہستی ہے جس کی زندگی ہی میں اردو کے معروف ادبی جریدے ماہ نامہ نیرنگ خیال نے ۱۹۳۲ء میں ۳۰۸ صفحات کا ایک ضخیم خاص اقبال نمبر شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک سیکڑوں اقبال نمبر چھپے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیرنظر خاص شمارہ سات حصوں میں منقسم ہے اور ہر حصے کا سرِ عنوان علامہ اقبال کی کوئی نہ کوئی فارسی ترکیب ہے۔
ڈاکٹر مقبول الٰہی کا مضمون (علامہ اقبال بہ حیثیت مردِ استقبال) نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ ناصر عباس نیر، غفور شاہ قاسم، رفیع الدین ہاشمی، افضل حق قرشی اور محمد شکور طفیل کے غیرمطبوعہ مضامین شامل ِاشاعت ہیں اور نسبتاً یہ اقبالیاتِ تازہ سے بحث کرتے ہیں۔
ایک حصہ عبدالمجید سالک، مولوی عبدالرزاق حیدرآبادی، چراغ حسن حسرت، مولانا عبدالرزاق کان پوری اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے مطبوعہ منتخب مضامین پر مشتمل ہے۔ منظوم حصے میں نئے پرانے شاعروں کی منظومات اور کلام اقبال پر مشتمل تضمینات شامل ہیں۔
فانوس کا یہ نمبر علامہ اقبال پر ایک حوالے کا درجہ رکھتا ہے اور اسے محنت اور کاوش سے مرتب کیا گیا ہے۔ (قاسم محمود احمد)
اس مختصر کتاب کا نصف پولیو کے حوالے سے ہے جو اس تیسرے ایڈیشن میں اضافہ ہے۔ غالباً اس لیے کہ اس کی ویکسین کے بارے میں افواہیں مسلم معاشروں کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین ورکرز باقاعدہ محافظوں کے ساتھ جاتی ہیں، پھر بھی حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کی جامعات و شخصیات کے فتاویٰ کی عکسی نقول پیش کی گئی ہیں (۲۲صفحات)۔ پولیو پر حقائق (۴۱ صفحات) سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پہلے چار ابواب میں صحت کے بارے میں عمومی بات کی گئی ہے (۷صفحات)۔ بچے کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) اور ماں کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) دیے گئے ہیں۔ ۱۳وبائی امراض پر ۱۷صفحات دیے گئے ہیں، یعنی مختصر طور پر علامات، اسباب وغیرہ۔ قرآنی آیات اور نبوی روایات کی روشنی میں، جاذب فکرونظر، روح پرور، موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اصولِ صحت، آداب اکل و شرب، طیبات کے فوائد منافع، خبائث کے قبائح، والدہ محترمہ کی توقیر، اولاد کے حقوق، مریض کی عیادت و تیمارداری، علاج اور پرہیز___ ۱۲۰صفحات کے کوزے میں کتنا سمندر بند کیا جاتا۔(مسلم سجاد)
oمیرا مطالعہ ،عرفان احمد، عبدالرئوف ۔ ناشر:ایمل مطبوعات، ۱۲سیکنڈ فلور، مجاہد پلازہ، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون:۲۸۰۳۰۹۶۔ صفحات: ۳۰۰(بڑی تقطیع)۔ قیمت:۶۵۰روپے۔[اس کتاب میں متعدد معروف ادیبوں اور دانش وروں نے اپنے مطالعاتی ذوق کی ابتدا، ارتقا، عادات اور مسائل کو رواں دواں انداز میں بیان کیا ہے۔ ان احباب میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر انور سدید، مولانا زاہدالراشدی، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر مبارک علی، طارق جان، تحسین فراقی، احمدجاوید، ڈاکٹر معین الدین عقیل، زاہدہ حنا، عامرخاکوانی، وغیرہ شامل ہیں۔]
پانامہ لیکس پر مئی کے ’اشارات‘ پر مفتی منیب الرحمن کے تبصرے سے قارئین کو محروم نہیں رہنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:’’اس پورے عرصے میں مجھے اس موضوع پر صرف پروفیسر خورشیداحمد کی جامع تحریر، تجزیہ اور تجاویز پڑھنے کو ملیں۔ انھوں نے پورے نظام کی اصلاح کی بات کی ہے اور یہ بھی تجویز دی ہے کہ دائرہ سب پر محیط کیا جائے۔ ہماری صحافت بھی کم و بیش دو کیمپوں میں منقسم ہے اور سب اپنے اپنے کیمپ میں مورچہ زن ہیںاور فریق مخالف پر زبانی اور تحریری بم باری کر رہے ہیں۔ اس سے بظاہر کسی مثبت نتیجے کی توقع عبث ہے، سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کچھ فیصلے مقدر ہوچکے ہوں تو انھیں کوئی ٹال نہیں سکتا‘‘۔(روزنامہ دنیا لاہور، جسارت، ۲۰مئی۲۰۱۶ئ)
محترم پروفیسر خورشیداحمد کے ’اشارات‘نے پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کی حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ آف شور کمپنی کس بلا کا نام ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟ اگر کسی کو سمجھنا ہو تو ان ’اشارات‘ (مئی ۲۰۱۶ئ) کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کرے۔ انھوں نے نہ صرف مرض کی تشخیص کی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتایا ہے۔ یہ تحریر سرمایہ دارانہ نظام پر ضربِ کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کے زورِ قلم کو اسی طرح توانا رکھے، آمین!
’ایم کیو ایم: سیاسی و معاشی دہشت گردی اور بھارتی کردار‘(اپریل ۲۰۱۶ئ) کے مطالعے سے ایم کیو ایم کی حقیقت کا علم ہوا۔برسوں سے خواہش تھی کہ ایم کیو ایم کی ۴۰سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے لایا جائے، بالخصوص اُن کے سامنے جو آنکھیں بند کر کے اندھی تقلید کر رہے ہیں۔
’لبرل ازم اور سماجی فساد‘ (مئی ۲۰۱۶ئ) قدسیہ ممتاز کی شروع سے آخر تک بہت زورآور تحریر ہے۔ ان کے آخری فقرے نے تو شورش کاشمیری کے طرزِ تحریر کو زندہ کر دیا۔ خدا مزید ترقی و سعادت نصیب فرمائے۔
ایک صفت اصلاح و تعمیر کے کارکنوں میں [یہ بھی] پائی جانی چاہیے کہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت ِ دین اُن کے لیے محض ایک خواہش اور تمنا کا درجہ نہ رکھتی ہو بلکہ وہ اسے اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو دین سے واقف ہوتے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں، مگر اسے قائم کرنے کی سعی و جہد ان کا وظیفۂ زندگی نہیں ہوتی، بلکہ وہ نیکی اور نیک عملی کے ساتھ اپنی دنیا کے معاملات میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ صالح لوگ ہیں، اور اگر اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم ہوچکا ہو، تو یہ اس کے اچھے شہری ہوسکتے ہیں۔ لیکن جہاں نظامِ جاہلیت پوری طرح چھایا ہوا ہو اور کام یہ درپیش ہو کہ اسے ہٹا کر نظامِ اسلام اس کی جگہ قائم کرنا ہے، وہاں صرف اس درجے کے نیک لوگوں کی موجودگی سے کچھ نہیں بن سکتا۔
وہاں ضرورت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے لیے یہ کام عین ان کا مقصد ِ زندگی ہو۔ وہ دنیا کے دوسرے کام تو جینے کے لیے کریں، مگر خود جینا اُن کا اِس ایک مقصد کے لیے ہو۔ اس مقصد میں وہ مخلص ہوں۔ اِسی کی لگن ان کے دل کو لگی ہوئی ہو۔ اِس کے حصول کی کوشش کا وہ پختہ عزم رکھتے ہوں۔ اس کام میں اپنا وقت، اپنا مال، اپنے جسم و جان کی قوتیں، اور اپنے دل و دماغ کی صلاحیتیں کھپا دینے کے لیے وہ تیار ہوں۔حتیٰ کہ اگر سردھڑ کی بازی لگادینے کی ضرورت پیش آجائے، تو وہ اس سے بھی منہ نہ موڑیں۔ جاہلیت کے جنگل کو کاٹ کر اسلام کی راہ ہموار کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہے۔
دین کا صحیح فہم، اس پر پختہ ایمان ، اس کے مطابق سیرت و کردار اور اس کی اقامت کو مقصد ِ زندگی بنانا___ وہ بنیادی اوصاف ہیں، جو فرداً فرداً اُن تمام لوگوں میں موجود ہونے چاہییں، جو اسلام نظامِ زندگی کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ان اوصاف کے حامل افراد بہم نہ پہنچیں تو اس کام کا سرے سے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔(’اشارات ‘ ، سیّد ابولاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن،جلد۴۶، عدد۴،شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ئ، ص ۵-۶)
_______________