پروفیسر خورشید احمد


۹ اپریل ۲۰۰۳ئ---!

یہ ایک عام دن نہیں ہے کہ جس کے شمار سے کوئی پہلو بچا کر نکل جائے۔ اسلامی‘ عالمی اور سیاسی تاریخ میں یہ دن کئی اعتبار سے حوالے‘ عبرت اور نئی منزلوں کی تلاش کا دن قرار پائے گا۔ اور اگر کوئی عبرت پکڑنے کے لیے تیار ہو تو قدرتِ حق کا یہ تازیانہ‘ بے عملی اور نفاق میں  مبتلا قوموں کو راست رو بنا دے گا‘ اگر شکستہ جسم و جان کے باوجود ذہن و ضمیر میں زندگی کی   رمق موجود ہوئی تو اس یوم سے وابستہ دکھ ‘ نہ صرف صف بندی کرائے گا‘ بلکہ منزل پر پہنچنے اور شکست و خجالت کے داغ دھونے کاکام بھی کرے گا۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس خوش گمانی کی کوئی بنیاد موجود ہے؟

گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بظاہر ایسی اُمید افزا بات کہنے کے لیے کوئی بڑے قابلِ قدر حوالے دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے ۹ اپریل کی شام بغداد کی دھواں دار فضا‘ اور تحیّروصدمے سے پتھرایاہوا شہر---جہاں ۵۰ لاکھ انسانوں کے اس شہر میں صرف ۱۵۰ افراد دیوانگی یا مسرت کا اظہار کر رہے ہیں‘ نگاہوں کے سامنے  گھوم جاتا ہے۔

اس روز بغداد کی تیسری تباہی کا علامتی سطح پر اظہار ہوا‘ جسے برقی خبر رسانی اور تصویرکشی کے سہارے کروڑوں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاتاری لشکروں کی بغداد میں خوں آشامی تو ماضی بعید کی تاریخ کا ایک حصہ ہے‘مگر آج کا انسان جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے اسے بہ چشم سر دیکھ رہا ہے ‘ اور انسان کی پستی‘ ظلم‘ زیادتی‘ بے بسی و بے چارگی کا  بار بار مشاہدہ کر رہا ہے۔

میں ان معنوں میں تو تاریخ کا طالب علم نہیں جن معنوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کوئی مورخ ہوتا ہے‘ لیکن اُمت مسلمہ کے بہی خواہ اور تاریخ کے موضوع میں دل چسپی رکھنے والے ایک شخص کی حیثیت سے اس کی کئی سطحیں میرے سامنے آتی ہیں۔

بغداد کی پہلی تباہی (۱۲۵۸ئ) اپنے اندر بڑے سبق رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ اس کے بعد پہلی جنگ ِ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ئ) کے اختتام پر دولت ِ عثمانیہ کا انتشار‘ لارنس آف عریبیا کی زیرقیادت عرب قومیت کے فریب کی پرورش‘ اور پھر برطانیہ کی عراق پر فوج کشی اور بغداد پر قبضہ اور اب سقوطِ بغداد کا وہ واقعہ جو ہم میں سے بیشترنے ٹی وی پر دیکھا ہے ‘ یہ ہماری تاریخ کے وہ الم ناک لمحے ہیں جن پر آنسو بہائے گئے ہیں اور آنسو بہائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دکھ‘ کرب اور غصے کی حالت میں مقید رہنے کے بجائے آگے بڑھیں‘ قرآن عزیز کے اوراق پر قوموں کے عروج و زوال اور ناکامی و کامرانی کا قانون پڑھیں۔ اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے‘ اُس کی طرف توجہ دیں۔

یہی بغداد چار ساڑھے چار سو سال تک علم‘ تہذیب‘ سیاسی قوت اور عسکری طاقت کا  مرکز و محور رہا ہے‘ جو مسلمانوں کی سطوت کی علامت اور پہچان تھا۔ بلاشبہہ اس باوقار ماضی کا ایک بڑا محرک وہ تعلیمی نظام تھا‘ جس نے ہر ہر میدان میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو پیدا کیا تھا۔ مفسرین‘ محدثین‘ فقہا‘ متکلمین‘ منتظمین ‘ مالیات کے ماہر‘ فوجی جرنیل‘ یہ سب اس نظامِ تعلیم کی پیداوار تھے‘ جسے آج مدرسے کا نظام کہتے ہیں۔ کبھی یہی مدرسہ ان تمام چیزوں کا جامع تھا۔ میرے محدود علم کی حد تک جامعہ کا تصور نہ یونان میں تھاکہ جنھوں نے تعلیم کی شمعیں روشن کیں‘ نہ چین میں تھا جو تعلیم کے میدان میں دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں دنیا کے دوسروں ملکوں سے بہت آگے تھے۔ تعلیم کو زندگی کے اجتماعی معاملات میں اہمیت دینے والوں میں‘ اُس عہدکے مسلمان بہت اُونچے مقام پر تھے۔ یہ تصور کہ تمام علوم کو ایک محور کے گرد جمع ہونا چاہیے‘ ایک منبع سے انھیں روشنی حاصل کرنی چاہیے‘ حتیٰ کہ ایک چھت کے نیچے ان سب کو جمع کیا جائے---   یہ تھا جامعہ کا تصور‘ جسے انگریزی میں یونی ورسٹی کہا گیا۔ یونی ورسٹی کا مفہوم ہی یہی تھا کہ پوری ’ورس‘ کو ہم ایک وحدت میں لا رہے ہیں۔ وہ مدرسہ جس کو آج تحقیر کے ساتھ پکارا جاتا ہے‘ اپنے آغاز میں دراصل یہی مدرسہ اس انقلابی تصورکا علم بردار اور نمونہ تھا۔

پھر اس زمانے کی مسلم قیادت نے پلٹی کھائی‘ جس کے نتیجے میں فکری آزادی‘ جمود اور تقلید کا شکار ہوگئی۔ وہ الہامی ہدایت ‘ جسے زندگی کے ہر شعبے میں اصل رہنما اور صورت گر ہونا چاہیے تھا‘ وہ گروہ بندی‘ فرقہ بندی‘ مسلک بندی کی نذر ہوگئی۔ تحقیق‘ جستجو‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ عمرانی علوم‘ اخلاقی پہلو‘ جن میں ہم آگے تھے روایت پسندی اور بے عملی کی یخ بستگی کا نشان بن کر رہ گئے۔ جارج سارٹنس اپنی کتاب ’ہسٹری آف سائنس‘ میں ہر ۵۰ سال پر ایک باب (chapter) باندھتا ہے اور ہر باب کے لیے ایک مفکر کو اس دور کا سب سے بڑا فکرساز اور مفکر قرار دیتا ہے۔ اس زمانے کے پانچ ابواب کے سرعنوان میں ہمیں مسلمان مفکر نظر آتے ہیں۔

اسی بغداد نے یہ بھی دیکھا کہ تعیش‘ نفس پرستی‘ فرقہ بندی‘ اندھی تقلید‘ قبرپرستی اور   اکابر پرستی ‘ محسن ناشناسی کے ایک طاعون نے انھیں گھیرلیا۔ اپنے محسنوں کی قدرافزائی     ایک بڑی قیمتی قدر ہے اور کوئی فرد اور کوئی قوم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ لیکن جب یہی  محسن شناسی‘ قبرپرستی اور شخصیت پرستی میں بدل جاتی ہے تو پھر فکری آزادی کے سوتے سوکھ جاتے ہیں۔ وہاں پر بھی یہی المیہ رونما ہوا۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب منگولوں کی سفاک فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ‘کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ بغداد کی نہریں انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھیں‘ اس وقت مسلمانوں کے خوف کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی حملہ آور منگول‘ مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم زمین پر لیٹ جائو‘ تاکہ میں تمھیں مارنے کے لیے نیا خنجر یا تلوار اپنے خیمے سے لے آئوں‘ تو وہ اُس حملہ آور کے ’’احترام‘‘ میں وہیں لیٹا رہتا‘تاآنکہ وہ اپنی تلوار لائے اور اس کو ذبح کر ڈالے۔

آج بھی ’آیندہ کون؟‘ (Who Next?) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج اس  کرئہ ارضی پر ۵۶ آزاد مسلمان ملک اور ایک ارب پچیس تیس کروڑ مسلمان ہیں۔ کس مپرسی کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک یہ سوچ رہا ہے کہ ’آیندہ کون؟‘ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اگر ہم مل کر اپنی قوت‘ اور اپنے وسائل کو استعمال کریں تو پھربے بسی‘ موت اور بربادی کے انتظار کا یہ لمحہ ختم ہو سکتا ہے۔

دوسرا واقعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ کو تین یا چار دن کے فاقے کی حالت میں زنجیروں سے باندھ کر دربار میں لایا گیا تو فاتح تاتاری جرنیل نے حقارت سے پوچھا: ’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ تو عباسی خلیفہ نے بے ساختہ کہا: ’’مجھے پانی چاہیے‘ کچھ کھانے کو دو‘‘۔ تو تاتاری جرنیل نے سونے کا ایک ٹکڑا اس کے سامنے ڈال دیا۔ خلیفہ نے کہا: ’’میں اس کو تو نہیں کھاسکتا‘‘۔  اس لمحے وہ دشمن یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے: ’’اگر تم نے اس سونے کو اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہوتا تو آج تمھیں ان حالات سے دوچار نہیں ہونا پڑتا‘‘--- ایسی صورت آج ہماری بھی ہے۔ ہم اپنے اسلحے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔ہمیں اپنے دفاع کے لیے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنے قومی وسائل سے جو دفاعی ذرائع ہم کو درکار ہیں انھیں حاصل کر سکیں‘ یا ان کی بنیاد پر ہم اپنا دفاعی اسلحہ تیار کر سکیں اور اپنا دفاع کر سکیں۔ برطانیہ کے وزیردفاع نے ۹ اپریل ۲۰۰۳ء ہی کی شام ڈنمارک میں یہ کہہ دیا کہ ’’عراق ہی نہیں‘ جس کے پاس بھی ہم سمجھیں گے کہ مہلک ہتھیار ہیں اور وہ ہمارے لیے خطرہ ہے تو ہم ان پر بھی پیشگی حملے کا حق استعمال کریں گے‘‘۔

یہ وہ ماحول ہے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ جس طرح امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراقی عوام کے لیے بیان دیا ہے: ’’ہم آپ کی آزادی کے لیے آئے ہیں‘ آپ بالکل پریشان نہ ہوں‘‘، اگر تاریخ کے ورق اُلٹیں تو برطانیہ کے وزیراعظم نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد فوج کشی کے موقع پر بھی یہی کہا تھا: ’ہم عربوں کو ترکوں سے آزادی دلانے کے لیے آ رہے ہیں‘ بعینہٖ وہی الفاظ ہیں‘ بلیئرکے بیان میں درج ہیں۔اُس وقت کے وزیراعظم کا بیان ملا کر دیکھ لیجیے‘ زبان و بیان ایک ہے‘ اگرچہ زمانہ بدلا ہوا ہے۔

میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ تعلیم کسی غار میں نہیں دی جاتی۔ تعلیم کاتعلق تہذیب سے ہے‘ معاشرے ‘سیاست ‘عسکریت اور زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔ تعلیم کا یہ رشتہ اگر کٹ جائے تو پھر وہ تعلیم‘ زندگی سے لاتعلق ہو جاتی ہے‘ محض وقت کاضیاع اور محکومی و غلامی کا دعوت نامہ بن جاتی ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں اس بات کا بڑا دخل تھا کہ عرصہ گزرا ہمارا تعلیمی نظام‘ زندگی کے تقاضوں اور اس کے مطالبات سے اس طرح مربوط نہیں رہا کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ وہ زوال کے حادثات بنے ۔ آج بھی ہم اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔

پچھلے ۲۰۰ سال کے حالات پر خصوصاً بیسویں صدی کے حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے ‘میں بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اُمت مسلمہ کو جو حالات درپیش ہیں ایک بنیادی فرق کے ساتھ ان میں غیرمعمولی مشابہت ہمارے اولین دور سے ہے۔

بڑا بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان کے ذریعے وحی کے نور سے انسانیت کی زندگی کو منور کرنے کا دور تھا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نئی تحریک اورایک نئی تہذیب اور ایک نئی عالمی رو کے اُبھرنے کا دور تھا۔ اس بنیادی فرق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور جوں ہی اسلامی دعوت جزدانوں سے نکلی اور فکرورہنمائی سامنے آئی تونئی تہذیب‘  نئی ٹکنالوجی‘ حکمرانی اور قانون کے نئے نظام نے‘ ایرانی و رومی تہذیبوں یا دوسری تہذیبوں کو متاثر ہی نہیں‘ بلکہ مسخر کیا۔ ایک طرف انھوں نے اس تحریک‘ پیغام اور انقلابی رو کو مستحکم کیا اور آگے بڑھایا اور دوسری طرف نئے ادارے قائم کیے اور جو ادارے پہلے سے موجود تھے ان کا احتساب کیا۔ رد و قبول کا سلسلہ شروع کیا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو چار بڑے علم اس زمانے میں پروان چڑھے: علمِ تفسیر‘علمِ حدیث‘ اصول فقہ اور کلام‘ کچھ پہلو سے ان میں اصول فقہ سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ ان سب نے ہماری فکر اور تہذیب کو استحکام عطا کیا۔

پھر قیادت‘ تعلیم‘قوت کا حصول اور قوت کے تمام ذرائع‘ جن میں علم‘ ایمان و کردار‘ سائنس و ٹکنالوجی ‘ انتظام و انصرام‘ تنظیمی مہارت‘ عسکری قوت‘ اسلحہ سازی‘ یہ چیزیں تقریباً چار صدیوں تک ہماری وسعت اور استحکام کے لیے جوہری بنیاد بنی رہیں۔ تہذیبی انتشارکے شروع ہو جانے کے باوجود امام غزالی ؒنے کوشش کی کہ فکری اعتبار سے اس وقت کی تمام تحریکوں کو جوڑ کر ایک مربوط شکل دیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پچھلے ۲۰۰ سالوں کو دیکھیں تو ایک بالکل اُلٹے پائوں چلتی ہوئی تحریک نظر آتی ہے ‘ جس کی بنیاد ‘اندرونی کمزوریوں پر استوار ہے۔

میں اس خیال کا علم بردار نہیں ہوں کہ اُمت مسلمہ کا انتشار اور ہماری سیاسی قوت کا محکوم اور منتشر ہو جانا محض بیرونی اسباب کی وجہ سے ہے۔ بلاشبہہ اس میں بیرونی اسباب ایک بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ لیکن بہرحال یہ ہماری اندرونی کمزوری تھی‘ جس نے بیرونی قوتوں کو ایک موثر کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ پھر ہم برابر پیچھے ہوتے چلے گئے۔ انجامِ کار جو کچھ ہوا‘ اس کا آغاز انیسویں صدی کے ابتدا میں ہوا‘ اور جس کا آخری باب ۱۹۲۴ء میں سقوطِ خلافت عثمانیہ کی شکل میں نظر آیا۔

اس زمانے میں وہ اُلٹا عمل شروع ہوا کہ جو کچھ ہم نے پہلے تین یا چار صدیوں میں حاصل کیا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ہم سے چھن گیا۔ اندرونی انتشار اور کمزوری‘ سیاسی شکست‘ عسکری میدان میں ہزیمت‘ ایک ایک کر کے مسلمان ممالک مغربی (یعنی: برطانوی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘پرتگالی‘ روسی‘ ولندیزی) سامراج کی زد میں آگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صرف چار بیمار مسلمان ملک باقی رہ گئے جنھیں نام کا آزاد کہا جا سکتا تھا۔ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ قوت‘ اقتدار اور عالمی حکمرانی کے کردار سے مسلمانوں کی گرفت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ۱۲۰۰ سال میں نشیب و فراز تو بہت آئے ‘ لیکن بے کسی و محکومی کا یہ سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔

دوسری چیز یہ کہ‘ پہلی صدی سے ہم نے جو ادارے قائم کیے تھے‘ وہ ایک ایک کر کے تباہ ہو گئے۔ بغدادکے پہلے سقوط کے بعد ہماری سیاسی قوت کو شکست ہوئی تھی‘ لیکن ہماری ایمانی اور تہذیبی اور اخلاقی قوت نے اس کو دوبارہ حاصل کیا اور اقبال نے اسی مناسبت سے فرمایا:   ؎

سبق ملا ہے یہ تاتار کے فسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ مغربی سامراج نے گذشتہ ۲۰۰برسوں کے دوران سیاسی قوت اور فوجی برتری حاصل کرنے کے ساتھ‘ ان اداروں کو تباہ ہی نہیں کیا‘ بلکہ ان کی جگہ متبادل ادارے مسلط (impose) بھی کیے۔ لے دے کر ۲۰۰ سال میں مجروح اور مضمحل شکل میں اگر کوئی چیز باقی رہی تو وہ تین ادارے تھے: مسجد‘ مدرسہ اور گھر۔ انھوں نے اس پورے زمانے میں ہم کو سنبھالا ہے۔ یہ بھی اپنی اصل شکل میں نہیں رہے‘ بلکہ مضمحل اور مجروح شکل میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن باقی سارے ادارے ہمارے ہاتھ سے نکل گئے!

پھر تیسرا سانحہ یہ ہوا کہ اس زمانے میں ایک نئی قیادت اُبھری۔ یہ قیادت بظاہر مسلمانوں میں سے اُبھاری گئی اور صرف سیاسی میدان میں نہیں‘ بلکہ ہر شعبے میں فکری‘ معاشی اور سیاسی سطح پر یہ قیادت‘ حکمران قوت کے طور پر تیار کر کے مسلط کر دی گئی۔ جو شکل اور نام سے مسلم دنیا کا حصہ دکھائی دیتی ہے‘ مگر ذہن‘ کردار‘ فکر اور مفادات کے حوالے سے مغربی استعمار کی نسل در نسل آلۂ کار بن کر خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ یہی قیادت اُمت مسلمہ کو ٹکڑیوں میں توڑنے اور غلامی و بربادی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔

پچھلے ۵۰ سال میں ۵۶ مسلمان آزاد ملک وجودمیں آئے ہیں۔ معاشی اعتبار سے بھی توازن میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوت پر ہماری گرفت‘ اداروں کی تباہی اور استعماریت کی کاسہ لیس قیادت کی معزولی میں ناکامی ہمارے بحران کے تین بڑے محورہیں۔

اللہ کی رحمتیں ہوں‘ ان انسانوں پر جنھوں نے دینی پس منظر میں بھی اور سیاسی پس منظر میں بھی‘ اس زمانے میں مسلمانوں میں بیداری کی تحریکوں کو جنم دیا۔ جمال الدین افغانی‘ پرنس حلیم پاشا‘ علامہ محمد اقبال‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمد عبدہ‘ امیرشکیب ارسلان‘ رشید رضا‘ امام حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘ مالک بن نبی رحمہم اللہ الاجمعین روشنی کے وہ مینار ہیں جنھوں نے دو صدیوں کی تاریکی کو چھاننے کا مشکل کام انجام دیا اور نئی راہیں کھول دیں۔بظاہر مایوس کن منظرنامہ ہونے کے باوجود مجھے امکانات نظر آرہے ہیں‘ لیکن ابھی منزل بہت دُور ہے‘ مسائل گمبھیرہیں اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہمہ گیر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔


اس وقت بغداد کا سقوط ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آمریت کا نظام کبھی استحکام نہیں دے سکتا۔ اس کے استحکام کے دعوے بڑے بودے اور بڑے دھوکا دینے والے ہوتے ہیں۔ آمریت کے علم بردار لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے استحکام دے دیا ہے‘ لیکن وہ استحکام چشمِ زدن میں زمین بوس ہو جاتا ہے۔ دراصل استحکام وہی ہے جو اعتماد‘ مشاورت‘ محبت‘ تعاون اور باہم شراکت کی بنیاد پر ہو اور جس کا انحصار افراد نہیں قوم اور اس کے اداروں پر ہو۔ پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ ہر وہ فوج جو فنی مہارت پر مشتمل فوج کے دائرے سے نکل کرسیاسی قوتوں کی آلہ کار بنی ‘ خواہ وہ ۱۹۶۷ء میں مصر کی فوج ہو‘ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی فوج ہو‘ یا ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں عراق کی فوج--- اس فوج نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ عوام ہی نے  بری بھلی مزاحمت کی ہے۔

وہ تمام اندازے‘ خواہشات‘ توقعات اور پروپیگنڈا جو استعماری قوتیں اپنے میڈیا کی طاقت کے زور پر کرا رہی تھیں ان میں کوئی اندازہ پورا نہیں ہوا۔ سبھی نے صدام حسین کے علامتی بت کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا ‘کہ ۵۰ لاکھ کے شہر میں ۱۵۰ سے زیادہ افراد دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ لیکن وہ فوج کہاں گئی جس کی طرف سے مزاحمت کی بات کی گئی تھی۔ اگرچہ فوجی قوت اور ٹکنالوجی کے مابین کوئی مقابلہ نہیں تھا ‘ لیکن تاریخ میں اس سے پہلے بھی قوت میں عدمِ توازن کے ساتھ مقابلے ہوئے ہیں‘ بے جگری سے ہوئے ہیں اور وہ مقابلے سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ کیا اسی عراق کی سرزمین پر شہید کربلا کا مقابلہ تاریخ کا حصہ اور تاریخ سازی کا عنوان نہیں؟ لیکن یاد رکھیے وہ فوج لڑنے کے لائق نہیں رہتی جو کسی ایک شخص کی وفاداری کے لیے اپنی قوتیں وقف کردے‘ جسے سیاست میں ملوث کیا جائے‘ جو اپنے لوگوں کو دھوکا دینے‘ اور ان کے اُوپر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کی جائے۔ ایسا عمل خود‘ فوج اور قوم دونوں کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیغام ہے۔ اگر ہم آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھتے تو پھر معلوم نہیں کون سی چیز ہماری آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنے گی؟ اور کتنے زلزلے‘ کتنی قیامتیں برپا ہوں گی کہ جن سے آنکھیں کھلیں گی اور ضمیر بیدار ہوں گے۔

اس المیے کی کتنی ہی تہہ در تہہ پرتیں ہیں۔ چند ایک تو آشکارا ہوئی ہیں‘ اور بہت سی پرتیں وقت کا تندوتیز دھارا کھول کر رکھ دے گا۔ امریکہ کی قیادت میں‘ استعمار کی بدترین یلغار اور عراق کے بے بس مسلمانوں کی حسرت ناک موت و حیات‘ وہ دو انتہائیں ہیں ‘ جنھیں دیکھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ڈارون ازم کی فکری بنیادوں پر اُٹھنے والی مغربی تہذیب کا بے رحمانہ طوفان دیکھ کر‘ علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا   ع

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے

تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

کیا واقعی بحیثیت مسلمان ہم اس خواب کی تعبیر پیش کرنے کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے مقتدر طبقے‘ مذہبی قیادتیں‘ اہل قرطاس و قلم اور اساتذہ کرام‘ اس طوفانِ مغرب بلکہ عذابِ مغرب کی طوفان خیزیوںکو محسوس کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے تو یہ نقصانِ عظیم‘ فلاح و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور گذشتہ ۳۰۰برس سے مسلمان جس عبرت کدے کی مجبور پتلیاں بنے ہوئے ہیں‘ اسے پیغامِ حق کا مرکز ثقل بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یہ سب کچھ کسی خوف ناک فلم کے دہشت انگیز منظر کی طرح ذہن کی اسکرین سے محو ہو جانے کا ایک عام واقعہ ہی ہے تو پھر اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھے بغیر چارہ نہیں۔

ایک کے بعد دوسرے کی باری ضروری نہیں کہ ڈرٹی بموں اور میزائلوں یا نیپام بموں کی بارش کی صورت ہی میں سامنے آئے ‘ بلکہ ان کے بغیر بھی وہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ ایک رات قوم سو کر اُٹھے‘ تو اس کے حکمران‘ محض جدید فرعون و نمرود کی خوشنودی پر پھولے نہ سمائے ہوئے قوم کے مستقبل کا سودا کر دیں‘ اور وہ بے بس لوگ تڑپ بھی نہ سکیں۔ کل ایسا ہوا ہے اور آنے والے کل میں ایسا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غداری اور بے وفائی کے ان مقامی کٹھ پتلیوں کو  بے نقاب کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے گا؟

۹ اپریل ۲۰۰۳ء کے بعد یہ چند امور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں:

۱-  جن مسلم ممالک میں اسلام کو محض اپنے اقتدار کی مدت دراز کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ وہاں اسلام کا سایہ انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

۲-  پروپیگنڈے کے زور پر‘ خود کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن قضا کو نہیں ٹالا جا سکتا۔

۳-  ایمان کی دولت اور آخرت میں کامیابی کی خوشبو سے کٹے ہوئے مسلم معاشرے کبھی کامرانی حاصل نہیں کر سکتے۔

۴-  قدرت کے خزانوں کو تعیش اور بے کار کی مہم جوئی پر صرف کرنے سے انسان خود اپنی نفی کرتا ہے‘ اور آخرکار عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔

۵-  تعلیمی و تحقیقی دنیا کو روایتی سست روی کا نشان بنانے سے کبھی حریت اور آزادی کے پرچم نہیں لہلہایا کرتے۔

۶-  اسلام کا سب سے بڑا موضوع انسان ہے۔ اسلام کا انسانِ مطلوب تیار کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر وہی ہوتا ہے ‘ جو مظلوم اہل عراق کے ساتھ اُن لٹیرے ہم وطنوں نے کیا۔ کیا یہ لوگ اَن پڑھ تھے‘ کیا یہ جدید روشنی سے بے خبر تھے‘ مگر انھیں کیا ہوگیا کہ اپنے ہی  بے بس و بے کس لوگوں کے گھروں کو لشکروں کی صورت میں لوٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ اصل انقلاب سڑکوں‘ ڈیموں‘ بموں اور بڑے ایئرپورٹوں کی تعمیر سے نہیںرونما ہوتا‘ بلکہ انسان کے اندر حیوانی جبلت کو اشرف المخلوقات اور ایک ذمہ دار ہستی کے قالب میں ڈھالنے سے روپذیر ہوتا ہے۔

۷-  حکمرانوں کے ظلم پر خاموش رہنے والے حکمران ہی نہیں‘ بلکہ گونگے بہرے معاشرے‘ قانون الٰہی کے تحت خود ظالم کے طرف دار اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔

۸-  آج بھی اگر مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‘ نئے سرے سے اپنے معاملات اور عوام کے تعلقاتِ کار کو درست نہیں کرتے ‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ قومِ یہود کی عبرت انگیزیوں سے فرار کا کوئی راستہ مل سکے۔


اس موقع پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران‘ بلکہ حکمرانی کے سرچشموں پر قابض رہنے پر مصر پاکستانی پینٹاگون کے چند ’’راج دلاروں‘‘ کو عبرت کے چوراہوں پر گھسٹنے سے پہلے توبہ کر کے اپنی اصل جگہ چلے جانا چاہیے۔ قدرتِ حق کی جانب سے عبرت کے       یہ چابک کبھی تاتاروں سے‘ کبھی یہودیوں سے‘ کبھی ہندو مہاشوں کے ہاتھوں اور اب مسیحی جنگ بازوں کے ذریعے‘ جسدِملّی پر پڑے ہیں۔ کیا ایسا انجام دیکھنے کے باوجود ‘ اپنوں کو محکوم بنانے کا نشۂ قوت ابھی تک ہرن نہیں ہوا؟

پاکستان کے ’’اصل ‘‘ حکمران طبقے کے لیے دو اقتباس پیش خدمت ہیں‘ جن میں اُن کی کارگزاری اور مستقبل کے خدشات کا ہیولا دیکھا جا سکتا ہے:

] آرمڈ [ سروسز سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تعلیم یافتہ لوگ ہیں‘ دین کی نہیں تو کم از کم دنیا کی سمجھ رکھنے کا تو آپ کو بڑا دعویٰ ہے۔ خدارا‘ کبھی اس بات پر غور کریں کہ جن انگریزوں سے آپ نے تعلیم اور حکمرانی کی تربیت پائی ہے‘ ان کی سروسز کے اخلاق و کردار کے مقابلے میں آپ کس قدر گھٹیا اور قابلِ شرم کردارپیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی قوم‘ اور اس کے آئین اور اس کی پارلیمنٹ کے وفادار تھے۔ اس کا مظاہرہ ایک دو دن نہیں‘ پورے ۱۹۰ سال انھوں نے آپ کی اسی سرزمین میں کر کے دکھا دیا… جب ان کی پارلیمنٹ نے آئینی طریقے سے اتنی بڑی سلطنت سے دست بردار ہو جانے کا فیصلہ کر لیا تو ان کی سول سروس نے بھی‘ اور ان کی فوج نے بھی پورے ڈسپلن کے ساتھ اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ ایک انگریز افسر بھی ایسا نہ تھا جو اَڑ کر بیٹھ گیا ہو‘ اور اس نے کہا ہو کہ میں لڑے بغیر اتنی بڑی سلطنت ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مگر آپ نے دنیا بھر کو یہ دکھا دیا کہ آپ کے اندر نہ قوم کی وفاداری ہے‘ نہ اس کے آئین کی‘ نہ اس کی پارلیمنٹ کی۔ آپ نے ہر موقع پر ان اشخاص کا ساتھ دیا ہے جنھوں نے آئین کو توڑ کر‘ قوم کی مرضی کو نظراندازکرکے‘ اور پارلیمنٹ کو پاے استحقار سے ٹھکرا کر‘ یہاں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہر آزمایش کے موقع پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو قانون کی حکمرانی کے اصول کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلسہ عام سے خطاب‘ لاہور‘ ۲۵مئی ۱۹۶۸ئ)

اپنی قوم کے لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی آزادی کی حفاظت اس وقت تک قطعاً نہیں کرسکتے ‘جب تک آپ کے اندر یہ مضبوط اور غیرمتزلزل قومی ارادہ پیدا نہ ہو جائے کہ آپ اپنے افراد کو‘ اور اپنے ] سول اور فوجی [ ملازمین کو اپنی اجتماعی مرضی کے تابع بنا کر چھوڑیں گے۔ کسی کو اس سے منحرف نہ ہونے دیں گے۔ آپ کے ملک میں آپ کی اپنی ہی پسند کا آئین چلے گا۔ کسی شخص یا گروہ یا طبقے کے بنائے ہوئے آئین کو آپ ہرگز نہ مانیں گے‘ اور جو آئین آپ کی مرضی سے بنے اس کی پیروی اس سرزمین میں ہر شخص کو کرنی پڑے گی‘ اور اس سے انحراف کرنے والے کے ساتھ آپ قطعاًکوئی رعایت‘ کوئی مداہنت اور کوئی مصالحت نہ کریں گے۔    یہ عزم اور یہ ارادہ آپ کے اندر پیدا نہ ہوا توآئے دن کوئی نہ کوئی طاقت ور آپ پر مسلط ہوتا رہے گا اور آپ کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ایک گلے کے سوا کچھ نہ ہوگی‘ جسے ہر لاٹھی والا جدھر چاہے ہانک کر لے جا سکے گا۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی‘  تحریک جمہوریت: اسباب اور مقاصد‘ ۱۹۶۸ئ‘ ص ۸۷)

عالِم کی موت عالَم کی موت کے مترادف ہے۔ موۃ العالِم موۃ العالَم، محض عربی زبان کا ایک مقولہ ہی نہیں انسانی زندگی کی ایک بڑی بنیادی حقیقت کا اعتراف اور اعلان ہے۔ زندگی صرف ہوا اور پانی کا نام نہیں‘ اس کا اصل جوہر علم کی روشنی ہے اور اہل علم میں سے کسی ایک چراغ کا بجھ جانا بھی انسانیت کے لیے بڑے خسارے کا معاملہ ہے چہ جائیکہ ایک بقعۂ نورسے محروم ہو جانا---! بلاشبہہ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمن کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا علمی دنیا کا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے علمی اور نظریاتی حلقے میں تو ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جسے برسوں محسوس کیا جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محترم مولانا مودودیؒ اور جناب ملک غلام علیؒ کے اٹھ جانے کے بعد جس شخص نے ہر علمی محاذ پر تحقیق اور تفقہ کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا وہ مولانا گوہر رحمن ہی تھے اور ان کے انتقال سے ایسا لگتا ہے جیسے   ع

خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا!

مولانا گوہررحمن مرحوم سے ملاقاتوں اور بحث و استفادہ کا سلسلہ ۱۹۶۳ء میں ان کے مرکزی مجلس شوریٰ میں آنے سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن زیادہ قریبی تعلق ۱۹۸۵ء میں ان کے قومی اسمبلی میں انتخاب سے بنا۔ شوریٰ کے اولین دور میں وہ نسبتاً کم گو تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا contribution بڑھتا گیا اور ہر میدان میں--- علمی‘ تنظیمی‘ دعوتی اور احتسابی--- انھوں نے اپنا منفرد مقام بنالیا۔گذشتہ ۲۰‘ ۲۵ سال میں مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے‘ گھنٹوں ان سے بحث و گفتگو کرنے اور ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے کا موقع ملا اور تعلق خاطر گہرے سے گہرا ہوتاچلا گیا۔ اس زمانے میں ان سے ہر ملاقات حتیٰ کہ ہر اختلاف کے بعد ان کی عظمت کا   نقش اور بھی تابندہ ہوتا رہا۔ مولانا کے تبحرعلمی اور عظمت کردار دونوں نے ان کا گرویدہ بنا لیا۔ نصف صدی کے اس دریچے میں جتنا بھی دیکھتا ہوں ان کی علمی عظمت‘ اخلاقی وجاہت‘ تحریکی معاملات میں فہم و فراست اور دینی حمیت ہی کے نقوش نظر آتے ہیں۔ کچھ معاملات میں مولانا کے مزاج میں سختی بھی تھی لیکن اس کا تعلق ان کی ذات سے نہیں‘ دین اور تحریک کے مفاد اور اس کے مزاج کے تحفظ کے جذبے سے تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کے احکام کے بارے میں ان کی بے لاگ وفاداری کا غماض تھا۔ وہ ہمارے دور میں سلف کا نمونہ تھے اور تحریک کا قیمتی سرمایہ۔ ان کی تنقید اور ان کا احتساب ان کے علمی افادات سے کچھ کم ہماری متاع نہ تھے۔

مولانا گوہر رحمن ایک غریب مگر صاحب ِ علم دینی گھرانے میں مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گائوں (چمراسی درہ شنگلی) میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ والد محترم مولوی شریف اللہ کے انتقال کے بعد‘ جو آبائی گائوں سے کوئی ۱۰ میل دُور کوبائی نام کے ایک گائوں میں امام تھے‘   عالم طفولیت ہی میں والدہ‘ ایک بھائی اور تین بہنوں کے ساتھ‘ دنیوی سہارے سے محروم ہو کر‘ ننھیال منتقل ہو گئے اور بڑی عسرت کی زندگی گزاری۔ ماں کی محبت اور محنت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا‘ پرائمری تعلیم کے بعددینی تعلیم حاصل کی اور ۱۵ سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ اس زمانے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’کھانا تو مسجد میں کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا تھا اگرچہ ہشت نگر کے گائوں شیخوتروسردھڑی کے دورانِ قیام میں بعض اوقات ہفتوں تک دن کا فاقہ کرنا پڑتا تھا لیکن کپڑوں اور جوتوں کے لیے اسباق کے اوقات کے بعد مزدوری کرتا تھا‘‘۔

ایسی پُرمشقت زندگی کے باوجود انھوں نے حصولِ علم میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور ۱۹۵۱ء میں تحصیل صوابی کی ایک مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ پھر مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی اور دارالعلوم سلفیہ فیصل آباد میں مختصر مدت کے لیے درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد بالآخر مولانا غلام حقانی امیرجماعت اسلامی صوبہ سرحد کے مشورے سے ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم تفہیم القرآن کی بنیاد ڈالی جو مولانا گوہر رحمن کی مسلسل محنت‘اللہ تعالیٰ کے فضل اور ساتھیوں کی تائید و معاونت سے آج صوبہ سرحد کی ایک عظیم جامعہ کا مقام حاصل کرچکی ہے۔ اس سے ہزاروں طلبا دین کا علم حاصل کر کے ملک ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ دارالعلوم تفہیم القرآن آج ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے جس میں مخلص اور صاحب ِ نظر اہل علم جمع ہیں اور جو قدیم کے ساتھ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔

مولانا گوہر رحمن کا جماعت اسلامی سے تعلق ۱۹۵۲ء میں قائم ہوا اور رکنیت کا رشتہ ۱۹۶۳ء میں استوار ہوا جس کے بعد وہ تحریک میں اہم سے اہم تر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ وہ ۱۹۶۳ء سے وفات تک مرکزی شوریٰ کے رکن رہے‘ کئی کمیٹیوں کے سربراہ بنے، ۱۲‘ ۱۳ سال صوبہ سرحد کے امیر رہے‘ جمعیت اتحادالعلما کے سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اور ۱۹۸۷ء سے رابطہ المدارس کے صدر رہے۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۸ء تک مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے شریعت بل (مئی ۱۹۸۵ئ) کا مسودہ اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز بل کے طور پر پیش کیا جو سینیٹ میں شریعت بل کی بنیاد بنا۔ ملک میں نفاذِ شریعت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مولانا گوہر رحمن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا۔

فکری اعتبار سے مولانا مرحوم اپنے کو دیوبندی مکتب ِ فکر کا حصہ سمجھتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے پورے علمی ورثے کے وارث تھے۔ طالب علمی ہی کے دور میں شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب  تقویۃ الایمان سے متاثر ہوئے۔ امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ اور شاہ ولیؒ اللہ کی فکر میں رچ بس گئے۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب  الجہاد فی الاسلام، ان کو مولانا کے حلقے میں لے آئی اور وہ تحریک کی فکر کے صاحب ِ نظر ترجمان بن گئے۔ فقہ حنفی سے خصوصی نسبت کے باوجود ان کے خیالات میں بڑی وسعت تھی اور خود ایک مقام پر کہتے ہیں کہ ’’ذہن میں بحمدللہ جموداور گروہی عصبیت نہیں ہے‘‘۔ امام عبدالوہاب شعرانی  ؒ کے مکاشفے نے جو انھوں نے اپنی کتاب المیزان الکبریٰ میں نقل فرمایا ہے‘ ذہن وفکر کی وسعت کو اور بڑھا دیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ علم رسولؐ کی مثال ایک بڑے اور وسیع حوض کی ہے جس کے چاروں طرف نالیاں ہیں اور ہر ایک میں اس کی وسعت کے مطابق حوض کا پانی بہہ رہا ہے۔ مگرایک بڑی نالی ہے جس میں سب سے زیادہ پانی بہہ رہاہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بڑی نالی امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے اور باقی نالیاں دوسرے ائمہ کی فقہ ہے‘‘۔

مولانا گوہر رحمن نے دورۂ تفسیرقرآن کی روایت ۱۹۶۷ء سے قائم کی۔ پہلے‘ سال میں دو بار پورے قرآن کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔پھر تحریکی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسے سال میں ایک بار کر دیا۔ منصورہ میں ۱۰ سال ۱۵ شعبان سے ۲۷ رمضان تک ڈیڑھ مہینے میں ہر سال سیکڑوں مرد و خواتین کو مکمل قرآن کا درس دیا ۔ درس کا یہ سلسلہ روزانہ ۸ سے ۱۰ گھنٹے چلتا تھا جو محض روایتی درس قرآن نہ تھا بلکہ قرآن کے پیغام و معانی کے ساتھ عصری مسائل و معاملات پر ان تعلیمات کے اطلاق اور قرآن کی روشنی میں مطلوبہ انسان اور معاشرے کے قیام تک کے مباحث پر محیط ہوتا اورایمان‘ علم‘اخلاق اور تحریکیت‘ ہر ایک کو جلا بخشنے کا ذریعہ بنتا تھا۔

توحید اور اسلامی سیاست کے موضوع پر انھوں نے بڑی معرکہ آرا کتابیں تحریر کی ہیں جو اہل علم کے لیے ایک مدت تک سرمایۂ جان رہیں گی۔ ان کے مقالات اور وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں ریفرنسوں کا مجموعہ تفہیم المسائل کے عنوان سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے جو بیک وقت مولانا مودودیؒ کی تفہیمات اور رسائل و مسائل کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے موضوع پر ہر تحریر معرکے کی چیز ہے۔ سود‘ اسلامی ریاست میں شوریٰ کا مقام‘ اسلام اور جمہوریت کے تعلق کی صحیح نوعیت‘ جدید اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور کردار کا مسئلہ‘ اقامت ِ دین کا حقیقی مفہوم اور غلبۂ دین کی جدوجہد کی اصل حیثیت وہ موضوعات جن پر مولانا نے صرف دادِ تحقیق ہی نہیں دی بلکہ بالغ نظری سے جدید حالات کو سامنے رکھ کر دین کے احکام کی تشریح کی ہے اور تطبیق کے میدان میں اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جدید میڈیکل مسائل کے بارے میں بھی ان کی تحقیق روایت اور جدت کا امتزاج ہے۔ وہ جدید دور کے تقاضوں کا کھلے دل سے ادراک کرتے مگر روایت کے فریم ورک میں ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے سے کہیں کہیں پورے ادب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی رائے کے وزن اور علمی ثقاہت کے بارے میں دو رائے ممکن نہیں۔ میں نے اسلامی سیاست کے طرز پر ’’اسلامی معیشت‘‘ پر لکھنے کے لیے ان سے  بار بار درخواست کی لیکن بدقسمتی سے اس موضوع پر انھیں مربوط کتاب لکھنے کی مہلت نہ ملی۔ اگرچہ سود کی بحثوں میں معاشی معاملات پر انھوں نے اپنی جچی تلی آرا کا اظہار کیا ہے۔

مولانا گوہر رحمن بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دلیل کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے‘ گو اپنی رائے پر دلیل کی بنیاد پر ہی قائم رہتے تھے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل کے سلسلے میں افہام و تفہیم کے لیے آمادہ رہتے لیکن جدید کے ادراک کے باوصف اپنے کردار کو قدیم اور روایت ہی کی ترجمانی قرار دیتے۔ دعوت کے میدان میں بے حد سرگرم اور  اَن تھک محنت کے عادی تھے۔ علم کا ایک بحربے کراں تھے اور الحمدللہ استحضار علمی کے باب میں منفرد تھے۔ بات منطقی ترتیب سے پیش کرتے اوردین کے معاملے میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیتے۔ احتساب کے باب میں بھی ان کی گرفت مضبوط اور بے لاگ ہوتی۔ تدبیر کے معاملات میں اختلاف بھی پوری قوت سے کرتے اور پھر جو فیصلہ ہو جائے اس پر دیانت داری سے عمل کرتے‘ البتہ جس چیز کو شریعت کے باب میں راہ صواب کے مطابق نہ پاتے اس پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے لیکن شریعت کے دائرے میں جو حل نکلتا اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ اپنے اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیتے جو ان کے کردار کی عظمت کی نشانی ہے۔

مجھے مولانا گوہر رحمن سے متعدد امور پر علمی استفادے کا موقع ملا اور میں نے ان کو ہمیشہ ایک روشن دماغ صاحب ِ علم پایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے استفادہ بھی ایک سعادت تھی اور اختلاف بھی ایک درس کا درجہ رکھتا تھا۔ تحریکی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں مولانا شدید اضطراب کا شکار تھے۔ کچھ چیزوں پر انھیں شدید عدمِ اطمینان تھا لیکن اس کے ساتھ تحریک سے وفاداری اور تعلق کے متاثر نہ ہونے دینے کی خواہش بھی تھی۔ ایک بہت ہی نازک مرحلے پر میں نے اور محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مردان کا سفر صرف اس لیے کیا کہ مولانا کے  نقطۂ نظر کو سمجھیں اور اختلاف کے باوجود تحریک سے تعلق کی استواری میں کمی نہ آنے کی درخواست کریں۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اجرعظیم دے کہ اپنے انقباض کے باوجود ہماری اور دوسرے احباب کی کوششوں سے‘ اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے‘ وہ اس دور سے جلد نکل آئے اور پھر اس کا کوئی سایہ ان کے تحریکی کردار پر باقی نہ رہا۔ جزاھم اللّٰہ خیرالجزائ۔

وہ کئی سال سے بیمار تھے۔ قوتِ کار برابر کم ہو رہی تھی۔ کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے تھے لیکن ان کے عزم اور شوقِ کار میں کوئی کمی نہ آئی۔ اپنی زندگی کے شوریٰ کے آخری اجلاس میں بھی شریک تھے اورکھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنے خیالات کا اظہار اسی شان سے اور دلیل اور جرأت سے کیا جو اُن کا شعار تھا۔ زیربحث موضوع پر اپنی جچی تلی رائے کا اظہار دلائل کے ساتھ اور نکات کی تعداد کے تعین کے ساتھ کیا۔ البتہ ان کی نقاہت اور آواز کے گلوگیر ہوجانے سے دل کودھچکا لگا اور ان کے لیے صحت اور درازیٔ عمر کی دعا کی۔ آخری ملاقات ان کے لائق فرزند ڈاکٹر     عطاء الرحمن کی پارلیمانی لاج کی قیام گاہ پر جنوری کے مہینے میں ہوئی۔ کیا خبر تھی کہ اس کے بعد ان سے ملنے کی سعادت حاصل نہ ہوگی اور ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو ان کے انتقال کی خبر ملے گی--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی گراں قدر خدمات کو قبول فرمائے‘ جو چراغ انھوں نے روشن کیے ہیں وہ تادیر روشن رہیں۔ ان کی کتب‘ ان کے خطبات‘ ان کے تیار کردہ انسان‘ اُس مشن کے فروغ کا ذریعہ بنیں جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔   اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مدارج میں جگہ دے اور ان کو اپنے مقرب بندوں کی معیت عطا فرمائے اور اس اُمت پر اپنا کرم جاری رکھے اور جو جگہ خالی ہوئی ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے۔ ان کے اُٹھ جانے سے اپنی محرومی کا احساس کچھ اور بھی شدید ہوگیا ہے   ع

جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

مولانا گوہر رحمن کا غم ابھی دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے ایک اولیں خادم اور مثالی کارکن مولانا مصاحب علی کے انتقال (۱۷ اپریل ۲۰۰۳ئ) کی خبر نے غم و الم کو اور بھی  گراں بار کر دیا۔ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن میں نے تو ان کو اپنی  طالب علمی کے دور میں تحریک کے سرگرم قائدین کی صف میں دیکھا ہے اور جماعت کے اولیں دور کا سراپا ان کے اور ان جیسے تحریکی رہبروں کی زندگی میں دیکھا ہے۔ اپنے جمعیت کے زمانے میں‘ نواب شاہ میں‘ مجھے ان سے ملنے اور ان کی شفقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پھر ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کا سب سے اہم حاصل ان کی دعوتی تڑپ اور اصلاحِ احوال کا شوق تھا۔ تحریک سے وفاداری‘ کام کی لگن‘ بے لوث تنقید اور محاسبہ‘ جرأتِ اظہار---کس کس بات کا انسان ذکر کرے۔ ایک طرف ذاتی شفقت اور محبت اور دوسری طرف بڑے سے بڑے انسان پر بھرپور تنقید اور احتساب۔ ان کا خلوص‘ ان کی یکسوئی‘ ان کی اصابت ِرائے‘ ہر ایک کا نقش دل پر مرتسم ہے۔

مولانا مصاحب علی مرحوم ہمارے لیے ایک مثالی کارکن اور ان لوگوں کا ایک نمونہ تھے جن کو سید مودودی کی انقلابی ؒتحریک نے سب سے پہلے متاثر کیا اور جو اس کا ہراول دستہ بنے۔ ان کی زندگی میں دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے دین‘ دعوت اور تحریک کے لیے اپنے اللہ سے عہد کر کے اپنے کو وقف کر دیا‘ اور پھر آخری لمحے تک انھوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج  (الاحزاب ۳۳:۲۳)

مولانا مصاحب علی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے جو سب کچھ لٹا کر سندھ آئے لیکن تبادلے میں حاصل کی جا سکنے والی جایداد تک کے بارے میں ‘ جو ان کا حق تھا‘کسی کوشش اور تگ و دو سے مجتنب رہے۔ استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جماعت اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ دعوت ان کی زندگی تھی اور قناعت ان کا شعار۔ اولاد کو بھی اسی راستے کی تعلیم دی اور عزیزی عبدالملک مجاہد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے اور آج کل امریکہ میں سمعی و بصری ادارے سائونڈ وژن کے ذریعے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی اولاد بھی الحمدللہ دین اور تحریک کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا مصاحب علی نے احیاے دین کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا اور دنیا سے حتیٰ کہ تحریک سے کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ ان کی سوچ‘ ان کی تگ و دو‘ ان کے اضطراب اور احتساب‘ غرض ہرایک کا محور بس یہی تھا کہ جس چیز کو زندگی کا مشن بنایا ہے اس کے حصول کے لیے سب کچھ تج دیں     ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

مولانامصاحب علی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب تھے۔ ایک مدت سے     صاحب ِ فراش تھے۔ آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کے گھر پر پچھلے سال ہوئی۔ زبان بند تھی۔ بار بار بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مگر جب ہوش آیا اور پہچانا تو بے حد خوش ہوئے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے ہاتھ سے اشاروں کو بھول نہیں سکتا۔ شفقت کا یہ عالم کہ اس عالم میں بھی بچوں کو تواضع کی ہدایات دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے‘ ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس سے نوازے   ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سپریم کورٹ نے انتخابات اور جمہوریت کی مکمل بحالی کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوجی دخل اندازی کے جواز (validation) کی فراہمی (۱۲ مئی ۲۰۰۰ئ) کے موقع پر تین سال کی جو مہلت دی تھی وہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو گئی۔ قومی اسمبلی نومبر میں‘ صوبائی اسمبلیاں دسمبر میں اور سینیٹ ۱۲ مارچ کو معرضِ وجود میں آیا ۔ اس طرح فوجی اقدام کے ۴۱ ماہ اور سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کے پانچ ماہ بعد دستور اور اس کے بنیادی ادارے (organs) اللہ اللہ کر کے بحال ہوئے۔ مگر یہ بحالی اس طرح ہوئی ہے کہ صدر کے انتخاب کے لیے دستور نے جو واحد طریقہ متعین کیاہے اس کے برعکس ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعہ جنرل صاحب بزعمِ خود صدر بن گئے اور پھر سپریم کورٹ کے کندھوں پر زبردستی سوار ہو کر اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے کے قطعاً برعکس انھوں نے ایل ایف او کے ذریعے دستور میں ایسی بنیادی ترامیم کا آمرانہ انداز میں اعلان کر ڈالا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور کا حلیہ بگڑ گیا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ جو پارلیمانی جمہوریت سے عبارت تھا تہ و بالا ہو گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر اب دعویٰ ہے کہ محض فردِواحد کے فرمان کے ذریعے ایل ایف او آپ سے آپ دستور کا حصہ بن گیا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں جو کش مکش برپا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کی ایک سرتاسر غیرآئینی ‘ غیر جمہوری اور غیراخلاقی پوزیشن کے بارے میں ہٹ دھرمی اور ضد ہے۔

ہم اس امر کا بلاتکلف اعتراف کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمریت سے جمہوری نظام کی طرف مراجعت کی اپنی نزاکتیں اور الجھنیں ہیں جن سے بڑی تدبیر اور افہام و تفہیم کے عمل سے ہی نمٹا جا سکتاہے۔ ملک کی تمام ہی سیاسی قوتوں نے تصادم کی جگہ ایک تدریجی اور قانونی طریقے سے جمہوریت کی بحالی کے راستے کو قبول کیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی گوارا کیا ہے جو عام حالات میں روا نہیں رکھی جا سکتی تھیں۔ انتخابات کے انعقاد اور قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام اور مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کے برسرِاقتدارآجانے کے باوجود بحالیِ جمہوریت کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں شدید بے چینی ہے اور ملک کے باہر ہمارے عزت و وقار پر تاریک سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔

حزبِ اختلاف کا اصولی موقف

ان حالات میں پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا ہے‘ وہ بہت مناسب اور بروقت ہے اور یہ بھی خوش آیند ہے کہ خاصے پس و پیش اور ردّ و کد کے بعد حزبِ اقتدار نے بھی گفت و شنید کے ذریعے اختلاف کے حل پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات اور حزبی ترجیحات سے بالا ہو کر‘ مذاکرات کے ذریعے دلیل اور اصولوں کی روشنی میں بنیادی اختلافی امور کو طے کریں‘ تاکہ اس طرح ملک حقیقی جمہوری راستے پر گامزن ہو۔ دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حاکمیت اس ملک کے اور تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وقتی مصلحتوں سے بالا ہو کر اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ لیگل فریم ورک آرڈر اور دستور میں ترمیم کے مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور اصول‘ حق و انصاف اور ملک و ملّت کے مفاد میں اس مسئلے کو دلیل کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ محض دھونس اور ہٹ دھرمی حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ اصلاح کا نہیں!

سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۳ء تک کے زمانے کی دستوری اور قانونی حیثیت کو متعین کیا جائے۔ ہمارے ملک میں دستور بننے کے بعد‘ چار بار فوجی حکمرانی کے ادوار آئے ہیں۔ ان میں پہلے دو یعنی جنرل ایوب کا مارشل لا اور جنرل یحییٰ کا مارشل لا جوہری اعتبار سے دوسرے دو یعنی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے مختلف تھے۔ جنرل ایوب نے ۱۹۵۶ء کے دستور کو منسوخ کر دیا اور خود ایک نیا دستور ملک پر مسلط کیا۔ جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کے دستور کو منسوخ کر دیا اور ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے نیا انتخاب کرایا اور ایک نئے نظام کے قیام کی راہ پیدا کی۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس اسمبلی نے بنایا جو جنرل یحییٰ کے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے وجود میں آئی تھی لیکن ۱۹۷۱ء کے سانحے کی روشنی میں اس اسمبلی اور اس وقت کی قیادت نے ایک بڑا دانش مندانہ اقدام کیا اور وہ یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور محض اکثریت کی بنیاد پر مرتب و مدون نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک قومی اتفاق رائے (national concensus) کی دستاویز بنایاگیا۔ اس کی بنیاد قرارداد مقاصد تھی جو تحریک پاکستان کے مقاصد اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی اُمنگوں کی مظہر تھی۔ اس دستور کی تین بنیادیں ہیں یعنی اسلام‘ پارلیمانی نظام اور ریاست کا وفاقی کردار۔ بلاشبہ یہ بھی ایک انسانوں کی تیار کردہ دستاویز ہے اور اس میں تبدیلی اور تجربات کی روشنی میں اصلاح و تغیر کی گنجایش ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کو قوم کے ہر طبقۂ خیال کی تائید حاصل ہے اور جس پر اس ملک کا شیرازہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں‘ اور دونوں مواقع پر سپریم کورٹ کے واضح اعلان کے مطابق ان ادوار میں دستور صرف جزوی طور پر معطل (in abeyance) رہا ہے اور ایمرجنسی اور عبوری دستوری انتظام کے باوجود ۱۹۷۳ء کا دستور ہی بالاتر قانون قرار پایا ہے اور آخرالذکر دونوں ادوار کو ایک قسم کا دستوری انحراف (constitutional deviation) تصور کیا گیا ہے۔ نصرت بھٹوبنام چیف آف آرمی اسٹاف (پی ایل ڈی ۱۹۷۷‘ ایس سی ۶۵۷) میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ:

نتیجتاً جو صحیح قانونی صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف الفاظ میں لکھا کہ:

عمل دستور کو اٹھا پھینکنے کے بجائے دستوری انحراف کی نوعیت کا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور کے بارے میں بھی سپریم کورٹ نے بالکل یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔یعنی:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔

اور یہ کہ:

یہ ایسی صورت نہیں ہے کہ جہاں پرانا قانونی نظام مکمل طور پر دبا دیا گیا ہو یا تباہ کر دیا گیا ہوبلکہ عارضی مدت کے لیے دستوری انحراف کی صورت ہے تاکہ چیف ایگزیکٹو اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کر سکے۔

سپریم کورٹ نے ان مقاصد کی تحدید بھی واضح الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے   ۱۳ اور ۱۷اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بیانات کی صورت میں کر دی۔ نیز یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس عبوری دور میں بھی نظامِ حکومت ۱۹۷۳ء کے دستور کے قریب قریب چلایا جائے گا‘ اور اگر کسی مشکل کو رفع کرنے کے لیے کوئی ترمیم دستور میں ضروری سمجھی گئی تو وہ بھی لازماً ایسی ہوگی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرے‘ بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے‘ عدالتوں کے نظام کو کمزور نہ کرے اور فوجی حکومت کے تمام اقدامات اور احکام عدالتی جائزے (judicial review) کے حق کے تابع ہوں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فوجی حکومت کا دور بھی نہ صرف یہ کہ دستور سے مستغنی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اسے دستور کے مکمل احیا پر بھی منتج ہونا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا یہ زمانہ ۱۹۷۳ء کے دستور سے انحراف کے عبوری دور کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی طرف مراجعت کے سوا کوئی دوسری سمت اختیار کرنے کا مجاز نہیں۔

صدر کا غیر آئینی تقرر

جنرل پرویز مشرف کے دور کا ہم ماضی میں بھی جائزہ لے چکے ہیں اور آیندہ بھی اس پر نقدواحتساب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت دستوری مسئلے کے پس منظر میں ہم ان کے تین اقدامات پر توجہ کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

پہلی چیز ۳۰ اپریل ۲۰۰۲ء کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے دستور کے طے کردہ طریق کار کے خلاف اور صدر کے لیے دستور کی متعین کردہ شرائط کے علی الرغم‘ قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کی تاریخ سے ۵ سال کے لیے صدر بن جانے کا اقدام ہے۔ اول تو جس طرح صدر رفیق تارڑ صاحب کو رخصت کیا گیا اور صدارت پر قبضہ کیا گیا ‘وہ بجائے خود نہایت معیوب تھا لیکن رہی سہی کسر اپریل ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے پوری ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کی جو کچھ بھی اخلاقی پوزیشن تھی وہ اس طرح پارہ پارہ ہو گئی اور وہ بھی ذاتی اقتدار کے جویا سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ ریفرنڈم میں جس طرح اور جس پیمانے پر دھاندلی کی گئی اس نے ملک کے اور خود ان کے وقار کو خاک میں ملا دیا۔ اس ریفرنڈم کو ملک اور ملک کے باہر ہر کسی نے ایک عظیم فراڈ سمجھا اور جمہوریت کی بحالی کے سفر کے لیے اسے ایک نہایت منفی اقدام قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے بھی اپنے ۲۷ اپریل ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں اسے سندِجواز دینے سے احتراز کیا‘ریفرنڈم کو ایمرجنسی اور عبوری آئین کے تحت ایک اقدام قرار دیا اور اس کے جواز و عدمِ جواز (legal status)کے بارے میں یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ اس مرحلے پر عدالت ان سوالات پر محاکمہ نہیں کرسکتی بلکہ:

ہم اس مرحلے پر ان سوالات میں جانا پسند نہیں کریں گے اور ان کو مناسب وقت پر مناسب فورم میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔

دستور کا حلیہ بگاڑنے کی جسارت

ایسے مشکوک و مشتبہ ریفرنڈم کا تاج پہن کر جنرل پرویز مشرف نے دوسری جسارت یہ کی کہ اپنے تین سالہ دور کے اختتام سے تین ماہ قبل لیگل فریم ورک آرڈر کی شکل میں دستور پر ۲۹ ترامیم کا تیشہ چلا ڈالا جس نے دستور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ان ترامیم کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو ان کو تین حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چند چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے مقاصد اور روح سے مطابقت رکھتی ہیں اور مناسب مشورے کے ساتھ انھیں دستور میں ترمیم کے جائز طریقے کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ووٹر کی عمر‘ اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ جیسی نوعیت کی ترامیم کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ترامیم ایسی ہیں جن پر بحث و گفتگو کے ذریعے اور مناسب رد و بدل کے بعد قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے مگر کچھ نہایت بنیادی چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح سے کلی طور پر متصادم ہیں اور جنھیں کسی صورت میں بھی اپنی موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بنیادی امور یہ ہیں:

۱-  مخلوط انتخاب کا اصول جو نظریہ پاکستان کی ضد ہے۔ اس پر مستزاد ایک طرف اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے مخلوط انتخاب کا اجرا اور دوسری طرف ان کے لیے مخصوص نشستوں کا تعین جو ان کو دوہرا ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ اگر اقلیتیں اپنے جداگانہ تشخص کی قائل ہی نہیں اور مجموعی دھارے سے ہی سیاست میں شرکت کرنا چاہتی ہیں توپھر نشستوں کی تعین کے کیا معنی؟

۲-  صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن کے نتیجے میں پارلیمانی نظام ایک طرح سے صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا ہے اور سیاسی نظام ایک قسم کی ثنویت (diarchy) کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کے اختیارات پر شب خون کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تصادم کا دروازہ کھولنے کا باعث ہوگا۔

۳-  پارلیمنٹ اور کابینہ سے بالا ایک نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام جس کا سربراہ صدر ہوگا اور جس میں جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہ شریک ہوں گے۔ اسے ہزار مشاورتی ادارہ ہی کہا جائے یہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا واضح راستہ ہے جو افواجِ پاکستان کے دستور میں طے کردہ رول کے منافی اور پارلیمانی نظام کو خاکی نظام میں بدلنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس ادارے کو ایک دستوری ادارہ بناکر پارلیمانی نظام کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔

۴-  سب سے زیادہ خطرناک تجویز جنرل پرویز مشرف کو بیک وقت صدر اور بری فوج کا سربراہ رکھنا ہے جس سے بحالیِ جمہوریت اور سول حکمرانی کا پورا تصور ہی پراگندا ہو جاتا ہے۔ یہ قانون اور معقولیت ہر دو اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ جس ملک کا سربراہ فوج کا حاضرسروس افسر ہو اسے جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ دستور فوج کے ہر افسر سے یہ حلف لیتاہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہیں ہوگا۔ صدر دستور کی حفاظت اور اطاعت کا حلف لیتا ہے اور صرف سیاست ہی اس کا کیریر ہوتا ہے اور چیف آف اسٹاف کے لیے سیاست میں آنا ایک دستوری جرم ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ پھر یہ فوج کے ساتھ بھی زیادتی ہے جسے ایک ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے۔ نیز فوج کا سربراہ تین سال کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے تین سال ۲۰۰۱ء میں پورے کرچکے ہیں‘ خود ہی اپنی مدت میں غیرمعینہ اضافہ کرچکے ہیں اور اب صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے مزید پانچ سال تک فوجی وردی اور صدارت کی خلعت دونوں کو زیب تن کرنے پر مصر ہیں۔ پھر مسلح افواج کے درمیان‘ جو تین افواج سے عبارت ہے‘ یہ امتیازی رجحان کو پرورش دینے کا ذریعہ ہوگی۔ تینوں افواج کے سربراہ صدر مملکت کے ماتحت ہیں جو سپریم کمانڈر ہے۔ اس انتظام میں بری فوج کے سربراہ کو ایک ایسی فوقیت حاصل ہو جاتی ہے جو دفاعی نظام کے لیے کسی اعتبار سے بھی مفید قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ بری فوج کا سربراہ‘ صدر‘ وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہے اور گریڈ ۲۲ کے افسرکے برابر ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف بحیثیت صدر‘وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے اعلیٰ افسر ہیں اور بحیثیت بری فوج کے سربراہ ان کے ماتحت اور ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔تعجب ہے کہ وہ اس کی غیرمعقولیت کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں؟

بنیادی اور مرکزی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ بحیثیت صدر مملکت وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو صدر‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور صدر کا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ بحیثیت صدر ان کا حلقہ یہ سیاسی ادارے ہیں۔ جب کہ بری فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا ابتدائی  حلقہ فوج بن جاتی ہے۔ وہ دو کشتیوں میں سوار رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں ایک حلقے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب محمدخان جونیجو نے وزیراعظم بننے کے بعد صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آج پھر یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جنرل پرویز مشرف فوجی حکومت اور اس کے دورِاقتدار کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور صدارت اور پارلیمان پر فوج کا سایہ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔

فوج کا جو مقام ہے وہ سرآنکھوں پر۔ اس کی جو ضروریات ہیں ان کا پورا کرنا قوم اور پارلیمنٹ کا فرض ہے۔ سلامتی کے معاملات میں اس کا مشورہ اور اس کے وژن سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت ہے۔ اور فوج کا ہر سیاسی تنازع سے بالا ہو کر پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور ہونا بھی اس کی دفاعی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب بجا لیکن اس سے آگے بڑھ کر فوجی وردی کے ساتھ صدارت‘ نیشنل سیکورٹی کونسل میں فوجی صدر اور سربراہانِ افواج کی شرکت‘ اور قومی صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جو انتظامیہ کا اصل سربراہ اسے بنادیں‘ یہ پارلیمانی اور جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔ یا قومی حکومت ہوگی یا جمہوریت--- فوجی جمہوریت ایک تضاد اور مسلسل فساد کا ذریعہ ہوگی‘ ملک کے لیے خیروفلاح اور دستوری پارلیمانی جمہوریت کی کوئی شکل نہیں ہو سکتی۔

جنرل پرویز مشرف‘ فوج کی قیادت اور پارلیمنٹ تینوں کو اسی بنیادی سوال کا ایمان داری سے جواب دینا ہے اور دونوں میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے۔ ورنہ دستوری حکومت اور اچھی حکومت اور عوام کی بالادستی محض ایک خواب رہیں گے اور قوم اور اربابِ اقتدار میں مسلسل کش مکش اور تصادم کی صورت رہے گی۔

فردِ واحد کے فرمان سے دستوری ترمیم

جنرل پرویز مشرف صاحب کی تیسری جسارت ان کی اور ان کے مشیروں کی دیدہ دلیری کا بھی شاہکار ہے اور وہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایل ایف او محض ان کے فرمان سے دستور کا آپ سے آپ حصہ بن گیا۔ یہ جسارت توجنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں کی تھی۔ انھوں نے بھی اپنے Revival of Constitutional Orderکو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں ۳۴ دن بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کی شکل میں اسے منظور کرایا۔

دستوری اعتبار سے اگر ان کی فوجی حکمرانی کا دور صرف ایک دستوری انحراف (constitutional deviation) کا دور ہے اور وہ ایک قانونی نظام کی جگہ دوسرا قانونی نظام نہیں لا رہے (جیساکہ حقیقت ہے‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی واضح ہے) تو پھر دستور کا آپ سے آپ حصہ بن جانے کی بات دراصل دستور کے خلاف ایک کاری وار کی حیثیت رکھتا ہے جو دستور کی دفعہ ۶ کے مطابق دستور کی تخریب (subversion) کے مترادف ہے۔ دستور میں ترمیم صرف دستور کے ترمیم کے طریقے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے جو دفعہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں مرقوم ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا دستوری اور قانونی طریقہ نہیں۔

سپریم کورٹ کے ۱۲ مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے سے جس اختیار کے حاصل کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ اس میں کوئی وزن نہیں۔ سپریم کورٹ خود دستور میں ترمیم نہیں کر سکتی اور جو ادارہ خود قانون سازی کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دوسرے کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اسمبلی اور سینیٹ موجود نہیں ہے جو دستور میں ترمیم کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ ریاست کے نظام کو چلانا ضروری ہے اس لیے نظریہ ضرورت کے تحت اگر دستوری انحراف کے اس دور میں کوئی حقیقی مشکل آتی ہے تو اس کی حد تک فوجی حکمران ترمیم کرسکتا ہے لیکن دستور کے ڈھانچے‘ بنیادی حقوق‘ عدالت کے مقام اور عدالتی جائزے کے اختیار کو ہاتھ لگائے بغیر۔ اور گویہ بات ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں نہیں کہی گئی لیکن یہ ایک دستوری مسلمہ ہے اور خود پاکستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواہ ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے مارشل لا کا دور ہو یا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دستوری انحراف والی فوجی حکومت کا--- ان تمام ادوار میں جو بھی قوانین لاگو کیے گئے ہیں بحالیِ جمہوریت کے بعد دستور میں ان کو indemnity  (تحفظ) دیے بغیر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ دستور میں دفعہ ۲۶۹‘ ۲۷۰ اور ۲۷۰‘ اے باقاعدہ دستور کی تدوین یا دستور کی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جادوگروں نے دستور پر حملہ آور ہو کر بزور شمشیر اپنی ترامیم کو دستور کا حصہ بنانے کی جسارت کی ہے جو دستور کے ساتھ دراز دستی کی شرمناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی ۱۹۵۴ء میں کی تھی لیکن فیڈرل کورٹ نے جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں اسے غیرقانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستوریہ توڑنے کے اقدام کو سندِجواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فردِواحدایک نیا دستوری‘ یا قانونی نظام‘ حتیٰ کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستورساز اسمبلی اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں بہ صورت مجبوری اور ضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سندِجواز صرف اس وقت مل سکتی ہے جب نئی دستوریہ /مقننہ ان قوانین کو قبول کر کے   انھیں تحفظ (indemnity) دے دے۔ یہ قانون کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے  Usif Patel vs. The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔

گورنر جنرل دستورساز اسمبلی کے قانون کی منظوری دے سکتا ہے‘ یا روک سکتا ہے لیکن وہ خود دستورساز اسمبلی نہیں ہے اور اس کی غیرموجودگی میں وہ ان اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اسے کبھی حاصل نہ تھے اور نہ اسمبلی کے اختیارات سنبھالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے (پی ایل ڈی ۱۹۵۵‘ فیڈرل کورٹ ۳۸۷‘ ص ۳۹۲)۔

عدالت نے ایسے حالات میں جس راستے کی نشان دہی کی وہ بہت واضح ہے:

حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے تھی کہ ایک دوسرے نمایندہ ادارے کو وجود میں لائے جو دستورساز اسمبلی کے اختیارات استعمال کرے تاکہ تمام بلاجواز قوانین کو   نیا ادارہ فوراً جواز دے سکے۔ ایسا طریق کار دستوری روایت کے مطابق ہونا چاہیے جو پیش آمدہ ایسی صورت کے لیے ہے۔

فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے ریفرنس کے جواب میں بھی اسی پوزیشن کو ایک بار پھر واضح کیا اور گورنر جنرل مجبور ہوا کہ نئی دستورساز اسمبلی لائی جائے اور وہ اس دور کے قوانین کو سندِجواز دے۔ جسٹس منیر نے ریفرنس کے جواب میں جو بات کہی اور جس کی فیڈرل کورٹ کے تمام ججوں نے تائید کی وہ یہ ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف جسٹس منیر کی رائے پر اکتفا کرتے ہیں:

That the free exercise of a discretionary or prerogative power at a critical juncture is essential to the executive Government of every civilised country, the indispensable condition being that the exercise of that power is always subject to the legislative authority of parliament, to be exercised ex post facto..........

The emergency legislative power, however, cannot extend to matters which are not the product of the necessity, as for instance changes in the constitution which are not directly referable to the emergency.

کسی نازک بحران میں ہر مہذب ملک میں حکومت کا انتظام چلانے کے لیے  صواب دیدی یا خصوصی اختیارات کا آزادانہ استعمال ضروری ہے‘ لیکن اس لازمی شرط کے ساتھ کہ ان اختیارات کا استعمال ہمیشہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارکے مشروط ہوگا جو بعد از وقت استعمال کیا جائے۔… قانون سازی کے ہنگامی اختیار کو ان معاملات تک توسیع نہیں دی جا سکتی جو ضرورت کی پیداوار نہیں‘ مثلاً دستور میں تبدیلیاںجو ہنگامی حالات سے براہِ راست متعلق نہیں۔ (ایضاً‘   ص ۴۸۵-۴۸۶)

عدالت عالیہ کے ان واضح احکامات اور دستور کی دفعہ ۲۶۹-۲۷۰ اور۲۷۰-اے کی روشنی میں ایل ایف او کے خود بخود یا فردِواحد کے فرمان سے دستور کا حصہ بن جانے کا دعویٰ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب اور حزبِ اقتدار کے لیے ایک ہی قانونی اور اخلاقی راستہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ انھیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں اس لیے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کے ذریعے دستوری ترامیم کا پیکج تیار کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے جو چیزیں  قابلِ قبول ہیں انھیں دستور کا حصہ بنا لیں اور جن چیزوں پر اتفاق رائے نہیں ہو سکتا ان سے دست بردار ہو جائیں تاکہ قوم اور پارلیمنٹ کے تصادم سے بچیں اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔

یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کے انتخابات ان ترامیم کے تحت ہوئے ہیںاس لیے حزبِ اختلاف نے ایل ایف او کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ بات دستوری اور سیاسی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ جب بھی ایک فوجی نظام سے کوئی ملک اور قوم ایک دستوری اور جمہوری نظام کی طرف مراجعت کرتی ہے تو عبوری دور میں کسی نہ کسی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہی یہ کام ہوتا ہے۔ لیکن جب دستوری ادارے وجود میں آجاتے ہیں تو پھر   وہ بعد از وقت (ex post facto) ان اقدامات کو سندِجواز دیتے ہیں۔ محض ان پر عمل سے ان کو جواز نہیں مل جاتا۔

قانون اور سیاسی تجربہ دونوں اس بارے میں بہت واضح ہیں۔ شریعت کے بھی اضطرار کے اصول سے اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ مجبوری کے عالم میں ایک حرام چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن رغبت اور طلب کے بغیر اور صرف حدِ ضرورت تک۔ ضرورت کے ختم ہوتے ہی اس کے استعمال کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور مقدار ضرورت و حاجت سے تجاوز ناقابلِ قبول ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌُ رَّحِیْمٌ o (پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیراس کے کہ وہ حدِضرورت سے تجاوز کرے تو یقینا تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الانعام ۶:۱۴۵)

ہمیں توقع ہے کہ اگر ہمارے اربابِ اقتدار ان گزارشات پر دیانت اور کھلے دل و دماغ سے غور کریں گے تو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے اور پارلیمنٹ کے ذریعے تمام متعلقہ امور پر بحث و گفتگو کے ذریعے قابلِ قبول ترمیمات کے ذریعے دستوری تنازع کا حل نکال لیں گے۔

اہم قومی مسائل

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت دستوری مسئلے کے علاوہ پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے دو دوسرے بڑے اہم مسائل ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کا تحفظ اور دنیا میں واحد سوپرپاور کی بالادستی کا جو سامراجی نظام قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے پس منظر میں اپنی آزادی اور حاکمیت کا تحفظ اور ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل جو ہماری اور تمام کمزور اقوام خصوصیت سے مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری کی ضامن ہو سکے اور دنیا ایک نئے سامراجی دور کے عذاب اور آزمایش سے بچ سکے اور یک قطبی نظام کی جگہ ایک کثیر قطبی نظام (multi polar system) وجود میں آسکے جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف اور برابری کی بنیادوں پر قوموں کے درمیان معاملات طے ہوسکیں۔

دوسرا مسئلہ ملک کے اندرونی مسائل کا ہے جن میں امن و امان‘ جان و مال و آبرو کا تحفظ اور عوام کی معاشی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ملکی پیداوار اور پیداآوری دونوں کی حالت غیرتسلی بخش ہے۔

ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ۲۰۰۲ء کی رپورٹوں کی رو سے ۱۹۸۹ء میں آبادی کا صرف ۱۲ فی صد غربت کی سطح سے نیچے تھا (یعنی ایک ڈالر یومیہ آمدنی) جب کہ یہ تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۱ فی صد ہوگئی اور اب ۲۰۰۱ء میں ۳۸-۳۷ فی صد کے قریب ہے۔ قحط اور    فاقہ کشی اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں موت اور خودکشی کی نوبت آگئی ہے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم بھی روز افزوں ہے جس سے معاشی ظلم اور بے اطمینانی کا طوفان ہی نہیں اُمنڈ رہا بلکہ معاشرتی اور ثقافتی تصادم کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ سارے مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی اور اقتدار کو عوام کی خدمت اور ان کی آرزوئوں کے مطابق معاشرے اور معیشت کی تشکیل کے لیے متحرک ہونا ہے۔ ان بیرونی و قدرتی مسائل کے حل کے لیے قومی یک جہتی اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکومت اور سیاسی جماعتیں سب کی آزمایش اس میں ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔

سامراجی قوتوں نے ہمیشہ اور دنیا کے ہر حصے میں تعلیم کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ‘اس لیے کہ جسم پر قبضہ تو فوج اور مالی قوت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر دل و دماغ اور فکروخیال کو صرف تعلیم ہی کے ذریعے پابند سلاسل کرنا ممکن ہے۔ استعمار کے جدید دور میں تعلیم کی اس قوت کو سیکولر تہذیب کے علم برداروں نے بھی استعمال کیا ہے اور مغربی تہذیب نے اپنے تمام سیکولر دعاوی کے علی الرغم اسے مذہب اور مشن کی چھتری تلے استعمال کیا ہے۔ عیسائی مشنری تحریک اور ان کے تعلیمی اداروں کا یہ کردار اب تاریخی حقائق اور ناقابل انکار شواہد سے ثابت ہے۔ خود مغربی جامعات میں دسیوں تحقیقی مقالے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیںاور مذہبی اور فکری تحریکوں کی اعلیٰ قیادت بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہوئی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں سوئٹزرلینڈ میں شمباسی (Chambasy) کے مقام پر جو کرسچن مسلم مشاورت ہوئی تھی اور جس کے داعی ورلڈ کانگریس آف چرچز جنیوا اور اسلامک فائونڈیشن لسٹر تھے اور خود راقم کو اس کا شریک صدر نشین ہونے کا شرف حاصل ہے‘ اس کے اعلامیے میں اس حقیقت کا اعتراف چوٹی کی عیسائی مشنری قیادت نے ان الفاظ میں کیا تھا:

مسیحی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں سے ان زیادتیوں پر ہمدردی کا اعلان کرتے ہیں جو مسلم دنیا کے ساتھ نوآبادکاروں اور ان کے شرکاے جرم کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ کانفرنس آگاہ ہے کہ مسلم عیسائی تعلقات بے اعتمادی‘ شبہات اور خوف سے متاثر ہوئے ہیں۔ اپنی مشترکہ بھلائی کے لیے تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے سے اجنبی اور علیحدہ رہے ہیں۔ استعمار کی ایک صدی کے بعد جس کے دوران بہت سی مشنریوں نے جانتے بوجھتے یا لاعلمی میں نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی خدمت کی‘ مسلمان عیسائیوں سے تعاون میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جن سے وہ اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے آلۂ کار کے طور پر لڑے۔ گو کہ ان تعلقات میں نیا ورق اُلٹنے کا وقت یقینا آگیا ہے‘ مسلمان اب بھی قدم اٹھاتے ہوئے رکتے ہیں کیونکہ مسیحی اداروں کے بارے میں ان کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سی مسیحی مشنری خدمات کو آج بھی ناپسندیدہ محرکات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی جہالت ‘ تعلیم‘ صحت‘ ثقافتی اور معاشرتی خدمات کی ضرورت‘ مسلمانوں کے سیاسی بحران اور دبائو‘ ان کی معاشی محتاجی‘ سیاسی تقسیم‘ عمومی کمزوری اور زدپذیری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدس تبلیغ کے علاوہ دوسرے مقاصد کی خاطرمشنری خدمات انجام دی ہیں‘ یعنی مذہب کی کشش کے علاوہ دوسری وجوہات سے عیسائی آبادی میں اضافہ کرنا۔ ان میں سے بعض خدمات کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہونے والی اس بات نے کہ ان کے رابطے بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں سے ہیں‘ پہلے سے موجود خراب صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کانفرنس ان خدمات کے اس طرح کے غلط استعمال کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ (کانفرنس کی روداد‘ جلد Lxv ‘ اکتوبر ۱۹۷۶ئ)

ہم نے اس حقیقت کا اعادہ اس لیے ضروری سمجھا کہ سامراج اپنے نئے دور میں‘ جس میں اب امریکہ ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘ ایک بار پھر مشنری تعلیمی اداروں اور این جی اوز کی چھتری تلے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں بالخصوص اور افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں بالعموم ایک نئے جارحانہ اقدام کا آغاز کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک محاذ این جی اوز نے سنبھالا ہے تو دوسری طرف عیسائی مشنری ادارے تعلیم کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ ایف سی کالج لاہور اور اس کے متعلقہ اداروں کو امریکہ کے پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ناپاک مہم میں عیسائی مشنری اداروں کے پڑھے ہوئے سول اور فوجی افسران ایک نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایف سی کالج ایک مثالی معاملہ (test case) ہے۔ حکومت نے امریکی اثرات‘ اور ملک کے ذہنی غلامی کے شکار اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کی چالوں کا شکار ہو کر اس اہم تعلیمی ادارے کو چرچ کو واپس کر دیا ہے جس نے اس کے لیے امریکہ سے نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔  اس ادارے کو نج کاری کے نام پر مشنری طاقتوں کو سونپا جا رہا ہے جو صاف اعلان کر رہے ہیں کہ جلد اس ادارے کی مکمل نج کاری ہوجائے گی اور اسے قومی تعلیمی دھارے سے نکال کر مارکیٹ کے نام پر فیسوں کے نئے نظام کے ذریعے اشرافیہ اور دولت مند طبقوں کی اولاد کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایف سی کالج ہی وہ ادارہ ہے جس کے ایک سابق پرنسپل سے انگریزی حکومت کے دور میں جب اس ادارے کے مشنری سربراہ اورمالیات فراہم کرنے والے نے سوال کیا کہ ہم نے اس ادارے پر اتنا سرمایہ اور اتنا وقت صرف کیا ہے‘ بتائو تم نے کتنے طلبہ کو عیسائی بنایا تو اس پرنسپل کا جواب (جو آج تاریخ کا حصہ اور ملّت اسلامیہ پاکستان کے لیے ایک تازیانہ ہے) یہ تھا: ’’مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ کتنے طلبہ کو ہم نے عیسائی بنایا؟ یہ پوچھو کہ کتنوں کو اسلام پر قائم نہیں رہنے دیا۔ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو اب اسلام سے وفادار نہیں رہی اور یہی ہماری محنتوں کا حاصل اور ہماری اصل کامیابی ہے‘‘۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے غلط کام کیے لیکن جن چند اچھے کاموں کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے ان میں دستور ۱۹۷۳ء کو ایک متفقہ دستاویز بنانے اور نیوکلیر استعداد کے لیے ڈٹ جانے کے ساتھ عیسائی مشنری تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں لانا اور استعماری چھتری کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ ایف سی کالج کو بھی دوسرے مشنری تعلیمی اداروں کی طرح قومی تحویل میں لیا گیا اور اس طرح یہ سامراجی چوکیاں ختم ہو گئیں۔ افسوس کہ پچھلے دو فوجی حکمرانوںکے ادوار میں بیرونی اثرات کے تحت ان اداروں کو بار بار سابق مشنری قوتوں کی تحویل میں دینے کی کوشش ہوئی اور بالآخر اب ایف سی کالج کو پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کرنے سے اس خطرناک کھیل کو عمل کا جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اس تہذیبی حملے اور مفاد پرست طبقے کے جاں گسل وار کے خلاف سینہ سپرہوگئے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بھی اس خطرناک کھیل کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن محض ان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا ساتھ دینا اور اسے ایک قومی قرارداد کی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم ملک کی تمام دینی اور محب وطن قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ گربہ کشتن روزاول کے اصول پر اس رجعت قہقہری کو رکوانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ خود اس پر ناخوش ہیں مگر ’’اُوپروالوں‘‘ کے اشاروں پر یہ کچھ ہونے دے رہے ہیں اور خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سب اس خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے اور اس کے آگے سدسکندری بننے کی تحریک میں سرگرم ہوں اور ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ کو تنہا نہ چھوڑیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور ایک بڑی سازش کا حصہ۔ یہی موقع ہے کہ اس کو ناکام بنا دیا جائے اورایف سی کالج اور ایسے تمام اداروں کو قومی تعلیمی دھارے کا حصہ رکھا جائے اور ان کے تعلیمی معیار اور تعلیمی سہولتوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں ترقی دینے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم صاحب ایک طرف تو نظریہ پاکستان اور حب الوطنی پر مبنی مشترک تعلیمی نصاب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ۳۰ سال سے قومی دھارے کا حصہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو محض باہر والوں یا اُوپر والوں کے اشاروں پر عالمی سامراجی اور تہذیبی فوج کشی کا نشانہ بننے کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہیں۔ اسے برداشت کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہوگا     ؎ 

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ عالم اسلامی کے خلاف جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ‘ ان سے اس کے مذموم عزائم دیکھنے والوں کی نظر میں کھلی کتاب کی طرح سامنے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرتؐ پاک پر تدبر کرنے سے جو حکمت عملی ہمارے سامنے آتی ہے اسے دو نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے: ۱- استقامت ‘۲- حکمت۔

استقامت

استقامت یہ ہے کہ اللہ پر پورا بھروسا کیا جائے اور اللہ کا دین‘ جیسا کہ وہ ہے‘ اس پر پورے اطمینان ‘ یقین محکم اور صبروثبات کے ساتھ ڈٹ جایا جائے۔ اپنے مقصد اور نصب العین‘ مستقبل کے بارے میں اپنے وژن اور اُمت مسلمہ کے حقیقی اہداف‘ اس کی قوت کے اصلی ذرائع‘ اور اقامت دین کے سلسلے میں اس کے اصول‘ مشن اور مخصوص عملی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور نہ کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ اسلام کی تراش خراش ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا اور اسلام کے دائرے کے اندر فکروتدبر‘ اطاعت اور اجتہاد‘ وفاداری اور رواداری‘ جدوجہد اور ایثار کے لیے جو خطوطِ کار‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیے ہیں ان پر ایمان اور احتساب کے ساتھ جم جایا جائے۔ اسلام اللہ کی ابدی ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات صبح نو کی طرح تازہ اور نکھری ہوئی ہیں۔ اعتدال اور توازن اس کا طرۂ امتیاز ہے ‘ لیکن یہ اس کے اپنے نظام کے اندر اور اس کا ابدی حصہ ہیں‘ اپنے نفس یا دوسروں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اسے موڈرن یا موڈریٹ نہیں بنایا جا سکتا۔

یہ حقیقت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہی راہِ اعتدال ہے اور سارا توازن‘ رواداری‘ میانہ روی‘ اس کے دیے ہوئے حقوق و فرائض کے نظام میں اپنی کامل شکل میں موجود ہیں۔ اُمت مسلمہ ہے ہی امت وسط اور عقیدہ و عمل ہر اعتبار سے یہ اُمت مسلک اعتدال پر قائم ہے۔ مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور آپ پائیں گے کہ خدا اور انسان‘ معبود اور عبد‘ خدا اور پیغمبر کے رشتے اور حقوق و مقام کے باب میں کس طرح وہ افراط اور تفریط کا شکار رہے ہیں۔ اسلام نے نقطۂ عدل کو واضح کر دیا۔ خدا خدا ہے اور انسان انسان۔ لائق عبادت و عبودیت صرف اللہ ہے جو خالق سماوات والارض ہے۔ انسان کا مقام اللہ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ وہ کسی حیثیت سے بھی خدا کی ذات یا صفات میں شریک نہیں۔ حتیٰ کہ خداکے پیغمبر بھی‘ بہترین نمونہ اور قرب الٰہی میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود خدا کے اقتدار میں کوئی شرکت نہیں رکھتے۔ یہی وہ اعتدال ہے جس پر کائنات قائم ہے۔

پھر آپ مذاہب کی تاریخ میں دین اور دنیا‘ روح اور مادہ‘ اس زندگی اور اُس زندگی کے باب میں افراط و تفریط کا سماں دیکھیں گے ۔لیکن اسلام نے یہاں بھی وہی راہ ِاعتدال اختیار کی اور دین و دینا کی یک رنگی‘ روح اور مادے کی ہم آہنگی‘ اور حسنات دنیا اور حسنات آخرت کے اجتماع کی شکل میں ایک متوازن اور مبنی برعدل تصورِ حیات کو نہ صرف پیش کیا بلکہ اس پر عملاً فرد اور اجتماع‘ ذاتی سیرت اور اجتماعی تہذیب کا نقشہ تعمیر کر کے دکھا دیا۔

اسی طرح قانون اور اخلاق‘ ظاہر اور باطن‘ لفظ اور معنی کے باب میں افراط و تفریط کے بے شمار نمونے‘ مذہب اور تہذیب دونوں کی دنیائوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اسلام نے پھر ایک راہِ اعتدل اختیار کی اور اس طرح اختیار کی کہ ثبات اور تغیر کے تمام تقاضے بھی بھرپور انداز میں پورے ہوئے اور قانون اور روحِ قانون دونوں کو بیک وقت حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن ہوگیا۔

معاملہ فرد اور معاشرے کے تعلقات کا ہو یا مرد و زن کے رشتے کا‘ آزدی اور نظم وضبط کا ہو یا قیادت اور مشاورت کا‘ عبادت کا ہو یا کاروبارِ زندگی کا‘ باطن کی اصلاح ہو یا قانون اور نظام کی تبدیلی‘ دوستی کی بات ہو یا دشمنی کے آداب‘ ہر معاملے میں اسلام نے اعتدال کے راستے کو اختیار کیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملے میں اسلام کی اس شناخت کو بیان فرما دیا کہ بہترین عمل وہی ہے جو راہِ وسط پر قائم ہو: خیرالامور اوسطھا۔ دیکھیے قرآن و سنت نے کس طرح اسلام کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے اور زندگی کا محور بنا دیا ہے۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ ۲:۱۴۳)

ہم نے تمھیں ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم انسانوں پر حق کے گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ o  (الاعراف ۷:۱۸۱)

اور ہماری مخلوق میں ایک اُمت ہے جو ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتی ہے۔

اللہ کے بندوں کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵:۶۷)

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

وہ کھاتے پیتے ہیں مگر اسراف سے بچتے ہیں کہ اللہ کو اسراف پسند نہیں (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo الاعراف ۷:۳۱)۔ انفاق فی سبیل اللہ ان کا وطیرہ ہے مگر اس میں بھی نہ وہ اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھتے ہیں اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑتے ہیں (وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا - بنی اسرائیل ۱۷:۲۹)۔ نوافل کا وہ اہتمام کرتے ہیں لیکن اس میں بھی اعتدال اور استمرار ان کا شعار ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں‘ قیام اللیل بھی کرتا ہوں اور آرام بھی‘ ازدواجی زندگی کا بھی اہتمام کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ دین اور نظامِ حیات ہے جو عبارت ہے زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال‘ توازن‘ عدل ‘ انصاف‘ ادایگی حقوق‘ فرائض کی پابندی‘ صلہ رحمی‘ احترامِ انسانیت‘مخالف کے معبودوں کو بھی بدزبانی سے محفوظ رکھنے اور دین میں ہر جبر اور اکراہ سے پرہیزسے۔ یہ ہے اسلام اور اسلام کی امتیازی شان۔ لیکن یاد رکھیے یہ ساری میانہ روی‘ اعتدال اور رواداری شریعت کے نظام کا حصہ ہے‘ اور منصوص اور مطلوب ہے--- لیکن میانہ روی کے نام پر اسلام میں قطع و برید‘ اعتدال کے نام پر فرائض اور واجبات سے رخصت‘ دوستی کی خاطر جہاد سے فارغ خطی‘ رواداری کے نام پر کفر اور ظلم سے سمجھوتہ--- یہ اسلام نہیں‘ اسلام کی ضد ہیں۔ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے احکام اور حدود کے بارے میں کوئی مداہنت اللہ کی ناراضی کو مول لینے کا راستہ ہے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کا موجب ہو سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے محمود اور مطلوب قرار دیا ہے وہی ہمارا محمود اور مطلوب ہے اور جسے انھوں نے ناپسند کیا ہے اس سے برأت ہی ہماری میانہ روی اور رواداری ہے۔ اس لیے کہ اسلام نام ہی طاغوت سے بغاوت اور اللہ سے رشتے کو جوڑنے کا ہے---  فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم  بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَاط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ البقرہ ۲:۲۵۶)۔ اسلام کے نظام اور فریم ورک میں بے پناہ آزادی ہے مگر یہ آزادی اس فریم ورک کے اندر ہے‘ اس فریم ورک کو توڑنے ‘ اس سے فرار اختیار کر کے یا اس کے باہر آزادی کی تلاش اسلام کے منافی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اقبال نے یوں کہا ہے کہ   ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

دین کو ہرپیوندکاری سے محفوظ رکھنا اور دوسروں کے مطالبوں پر یا انھیں خوش کرنے کے لیے دین میں قطع و برید اللہ کی اطاعت کا نہیں اس سے بغاوت کا راستہ ہے۔ دیکھیے خود اللہ کے رسولؐ کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے:

قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَمَّا جَآئَ نِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْز وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۶)

اے نبیؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے ان ہستیوں کی عبادت و اطاعت سے منع کر دیا گیا ہے جنھیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں‘ جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی کھلی نشانیاں آچکی ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ رب العالمین کے آگے سرتسلیم خم کر دوں۔

قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط قُلْ لاَّ ٓ اَتَّبِعُ       اَھْوَآئَ کُمْلا قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ o (الانعام ۶:۵۶)

اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو‘ ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے اور کہو میں تمھاری خواہشات ذات کی پیروی نہیں کروں گا اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا اور راہِ راست پانے والوں میں سے نہیں رہا۔

وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھم بَعْدَ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّلاَوَاقٍ o (الرعد ۱۳:۳۷)

اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ قرآن عربی تم پر نازل کیا ہے‘ اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔

وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّ تَّخَذُوْکَ خَلِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۳)

اے نبیؐ! ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمھیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمھاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمھیں اپنا دوست بنا لیتے۔

واذا قتلٰی علیھم ایاتنا بینت قال الذین لا یرجون لقاء نا انت لقرآن غیر ھذا … یوم عظیم o (یونس ۱۰:۱۵)

جب انھیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ کہتے ہیںاس کے بجائے کوئی اور قرآن لائو یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبیؐ، ان سے کہو تیرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیروتبدل کروں۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ میں ۔۔۔۔ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

یہ آیات بینات ایک آئینہ ہیں جن میں اہل حق کے موقف اور مثال اور اہل باطل کی خواہشات‘ ترغیبات اور مطالبات ہر دو کی مکمل تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے اور تاریخ کے اسٹیج پر کارفرما کردار کیسے ہی نئے ناموں اور نئی شکلوں میں نمودار ہو جائیں‘ اہل حق اور اہل باطل کا مسلک اوررویہ سرمو نہیں بدلتا۔ اس آئینے میں غیروں ہی کی نہیں بہت سے دوستوں کی اصل صورت بھی دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں ہمیں وہ اسوہ بھی صاف نظر آتا ہے جو استقامت اور وفاداری کی راہ ہے۔ یہی ہمارا مطلوب و مقصود ہونا چاہیے۔

وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o  وَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً o (الاحزاب ۳۳: ۲-۳)

پیروی کرو اس بات کی جس کی طرف رہنمائی تمھارے رب کی طرف سے تمھیں کی جا رہی ہے اور اللہ اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر توکل کرو‘ اللہ ہی تمھارا وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o اِنَّھُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًاط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍج  وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ o ھذا بصآئرٍ للناسِ وھدًی ورحمۃً لقومٍ یوقنون o (الجاثیہ ۴۵: ۱۸-۲۰)

اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمھارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔

حکمت

استقامت ہماری حکمت عملی کی پہلی بنیادہے‘ اور اس کا تقاضا ہے کہ مقصد‘مشن‘ اہداف اور منزل کے بارے میں نہ کوئی ابہام اور جھول رہے اور نہ کوئی کمزوری دکھائی جائے۔ وژن بہرصورت واضح اور ہر دھند سے پاک ہونا چاہیے۔ اس پر جم جانا‘ اللہ کا دامن تھامے رکھنا‘ صرف اس کی قوت پر بھروسہ کرنا اور صبر اور پامردی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ جانا اہل ایمان کا شیوہ اور طرئہ امتیاز ہے۔ اس میں ان کی بقا اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے۔

اگر استقامت اس حکمت عملی کی پہلی بنیاد ہے تو اس کی دوسری بنیاد اور اتنی ہی اہم بنیاد حکمت اور دانش مندی ہے۔ استقامت کسی اندھی اور بہری قوت کا نام نہیں‘ استقامت کے لیے ضروری ہے کہ ساری جدوجہد پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ انجام دی جائے جس میں کلیدی کردار مقاصد کے صحیح شعور‘تدابیر کی مکمل تفہیم‘ نقشہ کار کی دقت نظر سے تیاری‘ وسائل اور لوازمات کے حصول کی موثر منصوبہ بندی اور تعمیرمنزل کی تمام ضروریات کا پورا پورا ادراک اور ان کو عملاً حاصل کرنے اور صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا اہتمام ہوگا۔ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرت خیرالانامؐ پر تدبر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ کار نبوت کی انجام آوری کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور بیک وقت استقامت اور حکمت پر مبنی راستہ ہی وہ راستہ ہے جس سے اہل دین اپنی منزل کو پا سکتے ہیں۔ ان کی حیثیت انسان کی دو ٹانگوں کی طرح ہے۔ پیش قدمی کے لیے دونوں ٹانگیں درکار ہیں‘ محض ایک کے سہارے منزل سر نہیں کی جا سکتی۔

حکمت کا تقاضا ہے کہ جہاں ہم دین میں کوئی قطع و برید نہ کریں اور نہ ہونے دیں بلکہ اللہ کے دین کو جیسا کہ وہ ہے مضبوطی سے تھام لیں وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کسی اشتعال میں نہ آئیں‘ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں‘ اسلام کی سکھائی ہوئی میانہ روی اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں‘ اپنی داعیانہ حیثیت کو نہ بھولیں۔ہماری لڑائی مرض سے ہے مریض سے نہیں‘ کفر سے ہے لیکن اہل کفر کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے‘ نیست و نابود کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کی ساری مخلوق کے کچھ حقوق ہیں اور ان کو دین حق کی طرف لانے کے کچھ آداب ہیں۔ ان کا احترام اور اہتمام ہی حکمت دین ہے۔ مالک کا حکم ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)

اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)

تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o  وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۳-۳۴)

اور اس شخص سے ا چھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

حکمت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم عدل و انصاف کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں حتیٰ کہ مخالفت‘ جنگ و جدال اور مذاکرہ و مجادلہ‘ ہر میدان میں ہم عدل کی راہ پر قائم رہیں اور فراست ِ مومن کے ساتھ نرمی اور سختی‘ عفو و درگزر اور مقابلہ اور انتقام‘ ہاتھ روکنے اور دشمن پر وار کرنے کے تمام ممکنہ ذرائع اپنے اپنے صحیح وقت پر استعمال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عدل اور قسط کے ساتھ احسان‘ بدلہ اور انتقام کے ساتھ عفوودرگزر جنگ کے ساتھ صلح‘ اور قوت کے استعمال کے ساتھ مذاکرے اور معاہدے کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے موقع اور محل پر ضروری ہے اور حکمت اور فراست اس کا نام ہے کہ ان میں سے ہر حربے کو اس کے صحیح وقت پر استعمال کیا جائے اور یہاں بھی اعتدال اور توازن پر کاربند رہا جائے۔ دیکھیے اس باب میں قرآن کس طرح ہماری رہنمائی اور تربیت کرتا ہے۔

قل امر ربی بالقسط (الاعراف ۷:۲۹)

تم کہہ دو‘ میرے رب نے عدل اور قسط کا حکم دیا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ………  لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۰)

اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق سیکھ لو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوْا ………… بِمَا تَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے پوری طرح باخبرہے۔

فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ……… اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۹۴)

لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھی لوگوں کے ساتھ ہے‘ جو اس کی حدُود میں توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا ……… خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل ۱۷:۱۲۶)

اگر تم لوگ بدلہ لو تو اُسی قدرے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔

وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃِ …… ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشوریٰ ۸۲:۴۰-۴۳)

برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کر دے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی‘ ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اُولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے نفس کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (ترمذی)۔

اس طرح اللہ نے مسلمانوں کو ہر لمحہ تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور صرف تیار رہنے ہی کا نہیں مقابلے کی قوت (deterrant power) کے حصول کو لازم کیا ہے۔ اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی ترغیب دی ہے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ ……… وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (انفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے--- اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

وَاِنْ ………… اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۱-۶۲)

اے نبیؐ، اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جائو اور اللہ پر بھروسہ کرو‘ یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہیں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔

مقابلے اور معاملات میں غصہ اور اشتعال سے پرہیز کی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں (واذا ما غضبوا ھم یغفرون - الشوریٰ ۴۲:۳۷) اس لیے کہ مومن غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس - آل عمران ۳:۱۳۰) علامہ قرطبی‘ امام رازی اور علامہ ۔۔۔۔ مالکی نے بہت خوب کہا ہے کہ عفوودرگزر کے نتیجے میں اگر فتنہ دب رہا ہے اور غلط کار اپنی روش سے باز آ رہا ہے تو عفو پسندیدہ ہے لیکن اگر عفوودرگزر سے مجرم کا حوصلہ بڑھ جائے اور اس کے غیض و غضب کو تقویت پہنچے تو انتقام لینا صحیح ہے۔ ان مواقع میں تمیز اور  حسب حال رویہ کے اختیار کرنے کا نام ہی حکمت ہے۔

حکمت ہی کا ایک پہلو مکالمہ ‘ گفت و شنید اور ڈائیلاگ ہے اور وہ بھی صحت علوم کے ساتھ ساتھ شیریں کلامی کے ذریعہ (وقولوا للناس حسنًا - البقرہ ۲:۸۳) اس لیے کہ اللہ کی تعلیم ہے ہی یہ کہ  وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ’’میرے بندوں (مسلمانوں) سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہترین ہو (بنی اسرائیل ۱۷:۵۳)۔ اور ڈائیلاگ کے بھی آداب یہ ہیں کہ قدر مشترک کی طرف بلایا جائے (تعالوا الٰی کلمۃٍ  سواء بیننا وبینکم----آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ آل عمران ۳:۶۷) نیز یہ کہ:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)

اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔

وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ  (حم السجدہ ۴۱:۳۴)

نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔

یہ سب حکمت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔

اسی طرح یہ بات کہ کب قوت کا استعمال مطلوب ہے اور کب ہاتھ روک لینا اولیٰ ہے اور اس کا استعمال بھی حکمت ہی سے ہے۔ مکی زندگی اور مدنی زندگی ایک مدت ہیں لیکن کون سا طریقہ استعمال کیا جائے اس کا انحصار حکمت بالغہ پر ہے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ ……… وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً o (النساء ۴:۷۷)

تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جواُنھیں لڑائی کا حکم دیا گیا ہے تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ اِن سے کہو‘ دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے‘ اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت‘ تو جہاں بھی تم ہو‘ وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی ‘ خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں رہو۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمت کے پہلو اتنے ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے۔ ہم صرف چند اشارات پر قناعت کر رہے ہیں اور جو کچھ عرض کیا ہے بطور مثال ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ استقامت اور حکمت دونوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے‘ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور دونوں کے دامن میں جو وسعت اور تنوع ہے ان کا احاطہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ استقامت اور حکمت ہی وہ راستہ ہے جس پر بیک وقت چل کر ہم آج بھی اسلام کے خلاف کی جانے والی ساری سازشوں‘ منصوبوں اور تحریکوں کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جس طرح سمجھوتا اور دشمن کے آگے سپر ڈال دینا موت کا راستہ ہے اسی طرح جذبات سے مغلوب ہوکر‘ مناسب تیاری کے بغیر‘ اشتعال اور تشدد کا راستہ بھی حق و ثواب کا راستہ نہیں۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر اسلام سے برگشتہ کرنے‘ باطل قوتوں سے سمجھوتہ کرنے یا راہِ حق سے فرار کی راہ اختیار کرنے میں دنیا اور دین دونوں کا خسارہ ہے لیکن اس یلغار کا مقابلہ بھی اسلام ہی کی بتائی ہوئی راہِ اعتدال و حق و انصاف پر جم جانے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے ہمارے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریک اسلامی کو کامیابی سے ہم کنار کیا اور اسی راستے پر چل کر آج بھی ہم اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔


اس وقت اُمت کے ارباب دانش‘ اسلامی تحریکات کے قائدین اور مسلمان ملکوں کی قیادت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان قرآنی بنیادوں پر وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جائے؟ اس حکمت عملی کی روشنی میں کیا پالیسیاں اور کیااقدامات تجویز کیے جائیں تاکہ اُمت اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے اور دنیا کو بھی نئے استعمار کی جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود اپنے گھر کی اصلاح کا نقشہ بنایا جائے۔ ان خطوط کار کا تعین بھی ضروری ہے جن پر دنیا کی دوسری اقوام‘ خصوصیت سے امریکہ سے آیندہ معاملات کیے جائیں۔ اس کے تین محاذ ہوں گے: ہر ملک کا اپنا محاذ‘ اُمت مسلمہ کا اجتماعی محاذ اور عالمی سطح پر نئے نظام اور اس کے قیام کے لیے منصوبہ بندی۔ بلاشبہہ امریکہ اور اس کے عزائم اس پورے معاملے میں ایک کلیدی مقام رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں ایک سوچے سمجھے موقف کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں کے تمام اہل فکر اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات اور مسلمان حکومتوں کے کارپردازوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان امور پر غوروفکر اور مباحثے اور مذاکرے کا اہتمام کریں۔ اس سلسلے میں ہم اپنی گزارشات اُمت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر‘ مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار حضرات ان لوگوں کی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جو اسلامی تحریکات اور مسلم ممالک کی قیادت پر فائز ہیں۔

تین راستے

ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اُمت کے لیے غفلت اور فرار کا راستہ مکمل تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے مقابلہ اور مردانہ وار مقابلہ ہی زندگی اور بقا کا راستہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حالات کے آگے سپر ڈالنے کے معنی محکومی اور موت کے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے نتیجے میں ہم سوا ارب کی اُمت ہوتے ہوئے بھی خس و خاشاک سے زیادہ وزن کے حامل نہ ہوں گے اور بالآخر ایک نئی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔ یہ راستہ جس قوم نے بھی اختیار کیا‘ وہ تاریخ کے اوراق میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی‘ عبرت کا نشان بن گئی اور کبھی باقی نہیں رہی۔ افسوس کہ مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے طوعاً یا کرہاً ، لیکن عملاً اس تباہ کن راستے کو اختیار کر لیا ہے۔ کچھ شیطانی قوتوں کے باقاعدہ شریک کار بن گئے ہیں اور کچھ خاموش تماشائی یا نوالہ تر بننے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ یہ دراصل ذہنی‘ فکری اور عملی طور پر ہتھیار ڈال دینا ہے۔ دشمن کے رنگ میں رنگ جانا ہے‘ جسم کو بچانے کی موہوم امیدیں‘ ایمان‘ تہذیب‘ اقدار‘ نظریات اور تصورِ حیات تک کی قربانی دے دینا ہے۔ ترکی میں کمال ازم نے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ مغرب اور مغرب کے کاسہ لیس دانش ور‘ مسلمانوں کو آج بھی سیکولرازم اور قومیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ راستہ نہ صرف روحانی اور اخلاقی موت بلکہ تہذیبی موت کا ہے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ شریک کار نہ بنا جائے‘ نرم چارہ نہ بنا جائے اور بس اپنے آپ کو بچا لیا جائے۔ اسے تحفظ کی حکمت عملی (strategy of preservation) کہتے ہیں۔ اس حکمت عملی پر ایک طبقے نے ۔۔۔۔۔۔ استعماری یلغار کے پہلے دور میں بھی عمل کر کے دیکھ لیا لیکن افسوس اس سے تم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ بلاشبہ یہ حکمت عملی ہتھیار ڈال دینے (سرنڈر) کی پالیسی سے کچھ بہتر ہے۔ اس میں اپنے آپ کو مسجد‘ مدرسہ اور خانقاہ میں محصور کرکے تبلیغی سرگرمیوں تک محدود تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکافی‘ نامکمل اور نادرست ہے‘ جس میں خطرات کا مقابلہ کرنے کی حس پر جمود طاری ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر مغلوبیت اور محکومیت ایسی اقوام کا مقدر بن جاتے ہیں۔

تیسرا راستہ تصادم اور انتقام کا راستہ ہے کہ جذبات میں آکرمیدان میں کود پڑو‘ بس جان کی بازی لگا دو‘ اڑادو اور تباہ کر دو اور جس چیز پر حملہ آور ہو سکتے ہو‘ حملہ کر ڈالو۔ یہ بھی کوئی دانش مندی کا راستہ نہیںاور نہ بھی کسی پہلو سے اسے آئیڈیل شکل کہا جا سکتا ہے۔ جذبات کی ایک اہمیت ہے‘ لیکن جذبات کے ساتھ ساتھ تفکر اور سوچ بچار کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریق کار کی تعلیم دی ہے وہ استقامت کے ساتھ حکمت سے عبارت ہے۔ اس میں قوت کا استعمال تو ایک ضروری عنصر ہے مگر قوت کا بے محابا استعمال یا بس اندھی انتقامی کارروائی کا کوئی مقام نہیں۔ اس میں قوت کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنا شامل ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر تیاری اور صحیح حکمت عملی اور صحیح وقت کا تعین کیے بغیر جنگ کرنا‘ حماقت اور خودکشی ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال تک مکہ میں اپنی دعوت اور اپنے مسلک کے اُوپر قائم رہتے ہوئے ظلم کو برداشت کیا‘ دعوت کے لیے نئے سے نئے راستے نکالے لیکن عسکری مزاحمت نہیں کی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی یک لخت فوج کشی شروع نہیں کر دی‘ بلکہ دفاعی تیاریاں کیں‘ اپنی قوت کار کو منظم و مرتب کیا‘ دشمن کے خلاف اقدام میں پہل نہ کی اور اپنی اجتماعیت کو میثاقِ مدینہ کی شکل میں مستحکم کیا۔ یہودی جو بغل میں بیٹھے ہوئے تھے اُن سے معاملات طے کیے‘ اور جب جنگ مسلط کر دی گئی تو اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ بلاشبہہ رب کی مدد اور نصرت پر بھروسا کیا لیکن اس یقینی بھروسے کے ساتھ ساتھ مادی سطح پر تیاری بھی کی۔ جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا: اللہ پر توکل کرو‘ مگر اونٹ باندھ کر رکھو۔اگر اُونٹ کو آپ باندھیں گے نہیں‘ تدبیر اور حکمت اختیار نہیں کریں گے تو صرف توکل کی بنیاد پر کوئی ردعمل اسلامی ردعمل نہیں کہلائے گا--- گویا کہ محض جذباتی ہو کر‘ وقتی طور پر کچھ کر دینا‘ یہ بھی ایک راستہ ہے‘ مگر اس راستے میں خیر کے امکانات بہت ہی کم ہیں‘ البتہ تباہی اور برس ہا برس کی محنتوں پر پانی پھر جانے کا خطرہ ضرور ہے۔

اصل اور حقیقی اہداف

میں جتنا بھی غور کرتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں مسلم اُمت کم و بیش اسی نوعیت کے چیلنجوں سے دوچار ہے جو بیسویں صدی کے آغاز پر ہمیں درپیش تھے۔ بلاشبہہ گذشتہ پچاس سال میں ہم نے بہت کچھ پیش رفت کی ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ سیاسی آزادی کے حصول اور معاشی وسائل کی فراہمی کے باوجود ہم ایک بار پھر ویسی ہی استعماری یلغار کی زد میں ہیں جس سے بیسویں صدی کے پہلے ربع میں ہمیں نبرد آزما ہونا پڑا۔ اس کربناک ماحول میں اللہ کے چند بندوں نے اُمت کی بیداری اور تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھایا اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے بجاے استقامت اور حکمت کے ساتھ مقابلے کا راستہ اختیار کیا۔ جمال الدین افغانی‘ محمد عبدہ‘ علامہ محمد اقبال‘امیرشکیب ارسلان‘ سعید نورسی‘ حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے اپنے عصری حالات و ماحول کی روشنی میں ایک حیات بخش لائحہ عمل تیار کیا اور اُمت کو اس جادہ پر گامزن کیا۔ آج بھی ان سارے تجربات کو سامنے رکھ کر مقابلے اور تعمیرنو کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اصل اہداف کا تعین کر لیا جائے اور پھر ان اہداف کے حصول کے لیے دیکھا جائے کہ کن خطوط پر حکمت عملی وضع کی جائے۔ صرف تذکیر کی خاطر عرض ہے کہ اس سلسلے میں تین امور مرکزی اہمیت کے حامل ہیں‘ یعنی:

۱- اصل ہدف کا تعین‘ ہماری نگاہ میں وہ ہدف یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان‘اپنے نظریے‘ اپنے نصب العین سے سرموانحراف نہیں کرنا چاہیے۔ جس چیز کا تقاضا ہمارا ایمان کرتا ہے‘وہ اسلام کے بارے میں ہمارا وژن ہے۔ اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر پختہ ایمان ہو۔ اس میں نبی پاکؐ کی سنت مطہرہ ہمارا طریقہ اور سہارا ہے۔ ہمیں اِس ہدایت کے ماخذ سے روشنی حاصل کر کے نقشۂ زندگی مرتب کرنا ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز اپنی شناخت کا تحفظ ہے۔ اگر ہماری شناخت مجروح یا تحلیل ہو جائے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ گویا اس حکمت عملی میں ہمارا پہلا ہدف اپنے وژن‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت اور اپنی منزل کا تحفظ ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔

۲-  دوسری چیز وہ قوت حاصل کرنا ہے جس سے ہم اپنے اِس وژن کو صحیح طور سے حاصل کر سکیں۔ یہ محض آنکھیں بند کر کے آگ میں کود جانے والی بات نہیں ہے‘ بلکہ اخلاقی اور اجتماعی قوت‘ مادی اور عسکری قوت کا حصول بھی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک منصوص ضرورت ہے۔ قرآن نے اپنے اندر مقابلے کی جو استطاعت پیدا کرنے‘ گھوڑوں کو تیار رکھنے‘ اور دیگر وسائل مہیاکرنے کا حکم دیا ہے‘ ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے اور اسے اپنی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت دینا چاہیے۔

۳-  تیسری چیز اُمت کی وحدت ہے۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن وحدت اور اپنی قوت کو مجتمع کرنا اشد ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ مسلم ممالک کے لیے فرداً فرداً اس سیلاب بلا کا مقابلہ مشکل ہے۔ بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ سب مل کر حالات کا مقابلہ کریں۔ اس سلسلے میں دینی قوتوں کا اتحاد پہلی ضرورت ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں۔ صرف دین اور اپنی تہذیب کے بقا ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی مسلمان ملکوں کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ مل جل کر حالات کا مقابلہ کریں ورنہ خطرہ ہے کہ ’’تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!‘‘

ان اصولی لیکن عملی اعتبار سے فیصلہ کن (crucial) بنیادوں کی وضاحت کے بعد ہم مطلوبہ نقشہ کار کے خدوخال کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں لیکن آگے بڑھنے سے پہلے دو بہت ہی اہم امور کو ایک بار پھر بہت صاف الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر ساری نظری اور عملی حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار ہے۔

صاحب دعوت اُمت

اولاً ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک صاحب دعوت اُمت ہیں اور مقابلے کے لیے قوت کوئی بھی ہو اور مقابلے کا زمانہ کچھ بھی ہو‘ ہمارا مقصد دشمن کی تباہی نہیں‘ انسانیت کی اصلاح اور فلاح ہے اور اللہ کے بندوں کو‘خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی بھی نظام کے تحت ہوں بالآخر اللہ کے راستے کی طرف لانا ہے۔ مقابلے‘ لڑائی اور جنگ میں بھی ہمارا مقصود دوسروں کی تباہی نہیں‘ ان کو خیر کی طرف بلانا ہے۔ اسی لیے آج امریکہ کے استعماری عزائم‘ فکری اور ثقافتی یلغار‘ معاشی شکنجوں اور جنگی کارروائیوں تک کے مقابلے میں ہمیں یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکی عوام کی تباہی ہمارا ہدف نہیں۔ پھر آج کی سوسائٹی کی جو ساخت ہے‘ اس میں امریکہ محض وہاں کی موجودہ قیادت اور انتظامیہ کا نام نہیں۔ خود اس معاشرے میں متعدد قوتیں برسرکار ہیں اور ان میں خیر اور شر دونوں عناصر موجود ہیں۔ ایک صاحب دعوت اُمت اور ایک داعی الی الخیر اُمت کی حیثیت سے ہمیں کوئی جذباتی یا یک رخا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے ڈائیلاگ کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے اور بگاڑ کو محدود کرنے کے لیے جہاں کہیں سے ہمیں معاون و انصار مل سکیں اس کی ہمیں اتنی ہی فکر کرنی چاہیے جتنی اپنے حقیقی دفاع کی۔ ہر معاشرے میں کچھ خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور ہر ملک میں کچھ اچھے نفوس بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلم اُمت کی دفاعی اور جنگی دونوں حکمت عملیوں کی بھی ایک امتیازی شان ہونی چاہیے اور عمومی تباہی کبھی ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا۔ شرمحض کا کوئی وجود نہیں اور خیر جہاں بھی ہو اور جس درجے میں ہو اس کو ہمیں اپنا اثاثہ بنانا چاہیے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی‘ جنگی نقشہ کار اور سفارت کاری میں ہمیں مقابلے اور مذاکرے کا ایک حکیمانہ امتزاج نظر آتا ہے۔ اسے آج بھی ہماری حکمت عملی کا امتیاز ہونا چاہیے۔

کثیر جہتی حکمت عملی

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ جس طرح آج اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھی کوئی یک رخی (one dimensional) جنگ نہیں ہے۔ بلاشبہہ اس کی عسکری قوت اور فوجی بالادستی اس نقشہ جنگ میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ آج امریکہ کی فوجی قوت دنیا کے باقی تمام ممالک کی مشترک فوجی استعداد سے بھی زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جس ملک پر چاہتا ہے‘ چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے اور ایک کے بعد دوسرے کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کو بھی اپنی باندی سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لیکن یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی کہ یہ جنگ بس ایک عسکری معرکہ ہے۔ نئے استعمار کے دوسرے رُخ --- فکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور اعلامی بھی اتنے ہی اہم اور نئی غلامی کی زنجیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے کی حکمت عملی کو بھی کثیرجہتی (multi-dimensional) ہونا چاہیے ورنہ جس یلغار کی زد میں ہم ہیں اس کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔

ہماری حکمت عملی میں ان دونوں پہلوئوں کا پورا پورا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔   ہماری نگاہ میں پاکستان اور اُمت مسلمہ کو آج جس حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے  اس کے تین پہلو ہیں--- ۱- نظریاتی اور اخلاقی ۲- تزویری (structural) ۳- اطلاقی (operational) ۔ ہم ان تینوں کے بارے میں چند گزارشات پیش کر رہے ہیں:

نظریاتی اور اخلاقی

ہماری حکمت عملی کی اساس محض مفاد اور وقتی مصالح نہیں ہو سکتے۔ ملک کا مفاد‘ اُمت کا مفاد‘ بلکہ انسانیت کا مفاد بلاشبہہ اس کا ایک اہم حصہ ہے اور وقتی مصالح سے بھی صرف وہی صرفِ نظر کرسکتا ہے جس کے پائوں زمین پر نہ ہوں۔ لیکن کسی مسلمان‘ کسی مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حکمت عملی کی اساس ان کا ایمان‘ ان کا نظریہ‘ ان کا تہذیبی مشن اور ان کی اخلاقی استعداد ہو۔ اس لیے ہم جو بھی راستہ اختیار کریں اور جو بھی منصوبہ کار تیار کریں اس میں سب سے پہلی چیز اللہ سے تعلق‘ اپنے خلیفۃ اللہ ہونے کا شعور اور خیراُمت کی حیثیت سے اپنے تاریخی رول کا ادراک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی بقا اور اس کے احیا کے لیے جو حکمت عملی بھی وضع کی جائے گی اس کا اولیں نکتہ استعانت باللّٰہ ہے۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت الم نشرح ہو جاتی ہے کہ اس پوری تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو نہیں بچایا بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے۔ مادی قوت‘ فکری محرک‘ عسکری اور سائنسی طاقت سب ضروری ہیں لیکن سب سے اہم چیز اللہ سے تعلق‘ اللہ کی مدد اور اسلام کی رسّی کو تھامنا ہے۔ نقطۂ آغاز ایک اور صرف ایک ہے:

الذین اذا اصابتھم … ا نا للّٰہ وانا الیہ راجعون (البقرہ ۲:۱۵۶)

جب ان پر تکلیف دہ مصیبت حملہ آور ہوتی ہے تووہ کہتے ہیں --- بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ

ان ینصرکم اللّٰہ ……… فلیتوکل المومنون (آل عمران ۳: ۱۶۰)

اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعدکون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔

دوسری چیز اصلاح ذات ہے۔ اُمت کی ترقی کا کوئی راستہ محض وسائل کی فراوانی سے استوار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی میکانکی عمل نہیں۔ اس میں اصل قوتِ کار مسلمان مرد اور مسلمان عورت ہے۔ ان کی حیثیت عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹوں کی ہے۔ اگر یہ اینٹیں کمزور اور خستہ ہوں گی تو عمارت مضبوط کیسے ہوگی؟

واضح رہے کہ ذات کی فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم تنومند ہو جائیں اور مال دار بن جائیں۔ بلاشبہہ اچھی صحت اور مالی قوت بھی درکار ہے‘ لیکن اصل قوت راسخ ایمان اور مضبوط کردار کی ہے۔ انفرادی تزکیے اور سیرت سازی کے ذریعے ہی اس اُمت کا ہر فرد اُمت کی قوت کا ذریعہ بن سکتا ہے  اور پھر یہ گروہ ایک ایسا گروہ بن سکتا ہے جو لوہے کے چنوں کی مانند ہوں کہ کوئی آپ کو چبا نہ سکے اور کوئی چبانے کی کوشش کرے تو اپنے دانت تڑوا بیٹھے۔

تیسری چیزدعوت الی اللّٰہ ہے۔ دعوت الی اللہ ہی اُمت کو بیدار اور متحرک کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اس کے ذریعے ہم دنیا کے دوسرے لوگوں تک ایک پیغام کے علم بردار بن کر پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے اُمت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا رواج ہو سکے گا اور معاشرے کی اصلاح واقع ہو سکتی ہے۔ اس سے تعلیمی ترقی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ معاشرے کو متحرک اور تیار کیے بغیر مسلمان عسکری‘ سیاسی اور معاشی چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ خاندان‘ معاشرہ اور اجتماعیت ان سب کی قلب ماہیت اگر ہو سکتی ہے تو دعوت الی اللہ کو مرکز و محور بنا کر ہی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن سے ربط و تعلق اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا اور سیرت پاکؐ سے نسبت اور حضورؐ کی محبت اور اطاعت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ کام باہر نکلے اور لوگوں تک پہنچے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن اور سیرت نبویؐ سے جو سبق ہم سیکھتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے عوام تک پہنچیں۔ انھیں بیدار کرنے اور ان کے اخلاق سنوارنے کے لیے سب مل جل کر کام کریں۔ جب تک ہم سب دعوت کے اس عمل میں مصروف اور متحرک نہیں ہو جاتے‘ اُمت کو وہ قوت میسر نہیں آسکتی جس سے وہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کر سکے۔

اس سلسلے کی چوتھی چیز آپس میں رواداری اور اخوت کا پیدا کرنا اور اختلافات کے سلسلے میں برداشت اور تکثر(plurality) کی حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے۔ لازمی ہے کہ ہم اپنے دینی‘ سیاسی اور تہذیبی اختلافات کو حدود میں رکھنا سیکھیں اور اختلاف مسلک کو جنگ و جدال اور تصادم کا رنگ نہ دیں۔ ضروری ہے کہ یہ احساس پیدا کیا جائے دین کے دائرے میں بھی فطری اختلافات لائق احترام ہیں۔ دوسرے الفاظ میں برداشت‘ افہام و تفہیم‘ ایک دوسرے کو قبول کرنا ہمارا طریقہ ہو۔ اس لیے کہ اُمت کی وحدت اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ ایمان کے بعد ایک دوسرے کو قبول کرنے سے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے سے ہو سکتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب مسلم قیادت‘ اپنی ذات سے بلند ہو کر اختلاف کوحدود میں رکھناسیکھے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے درمیان تین روایات کو پروان چڑھانا ہوگا یعنی اختلاف کے باوجود باہم متحد رہنے کا جذبہ‘ دوسرا افہام و تفہیم کے جذبے سے مسلسل مکالمہ اور تبادلہ خیال اور تیسرے مشاورت اور نصیحت کے نظام کا احیاء مشاورت کا دائرہ صرف اپنے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ مشاورت کے دائرے کو زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دیں۔

حکمت عملی کے نظریاتی اور اخلاقی یہ چار ستون ہیں جنھیں اساسی مقام دینا ناگزیر ہے۔

تزویری دائرہ

حکمت عملی کا دوسرا دائرہ تزویری (structural) ہے جس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو اپنے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ان پہلوئوں کو محض وسطی مدت یا لمبی مدت کی اصلاحات کے نام پر معرض تعویق میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان اصلاحات کی فوری ضرورت ہے اور اس باب میں ایک ایک دن کی تاخیر بھی ملک و ملت کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی ضرورت آزادی اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کا‘ جن کی ضمانت اسلام دیتا ہے‘ غیر مشروط تحفظ ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو سوچنے‘ سمجھنے والے ذہنوں پر قفل لگاتا ہے‘ اظہارِ خیال‘ افہام و تفہیم‘ بحث و مذاکرے کے مواقع سے اپنے ہی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور اصل حقائق اور رجحانات کو جاننے‘ سمجھنے اور ان کی روشنی میں صحیح رویے اختیار کرنے سے احتراز کرتا ہے وہ قوم کی تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو مضحمل کر رہا ہے‘ اور جھوٹے استحکام کے نام پر فرد اور قوم دونوں کی ترقی کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویری اصلاحات کے باب میں یہ پہلی ضرورت ہے۔

دوسری چیز دوسروں کے مقابلے میں اپنی قوم پر اعتماد‘ اس کو پالیسی سازی میں شریک کرنا‘ حقیقی شورائی اور جمہوری نظام کی ترویج اور تمام قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں informed debate کی روایت کا قیام ہے۔ کسی ایک فرد پر انحصار ہماری سب سے بڑی اور خطرناک غلطی ہوگی۔ مجالس دانش (think tanks) کا قیام‘ کھلی بحث اور اجتماعی احتساب ہی میں ہماری ترقی اور قوت کا راز مضمر ہے۔

تیسری چیز تعلیم‘ تحقیق‘ ایجادو انکشاف اور مادی وسائل اور ٹکنالوجی کے میدان میں نہ صرف ترقی بلکہ مقابلے کی ترقی ازبس ضروری ہے۔

چوتھی چیزاصولی طور پر تو ہر دور میں لیکن خالص عملی اعتبار سے آج کی دنیا میں‘ خصوصیت سے عالم گیریت کے ایسے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہمیں ہماری معیشت اور ہماری تہذیب کو جڑ سے اکھاڑ دینے پر تلی ہوئی ہے‘ وہ کچھ دائروں میں ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کی خودانحصاری ہے۔ خودانحصاری کے معنی ہر میدان میں خودکفالت نہیں کہ یہ قدرت کی تقسیم وسائل اور صلاحیتوں کے تنوع کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ نہ اس کے معنی دنیا سے کٹنا اور تجارت‘ معیشت‘ مالیات‘ ثقافت وغیرہ کے میدانوں میں دنیا سے الگ ہوجانے کے مترادف ہے۔ خود انحصاری کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم اپنے بنیادی‘ معاشی‘ مالیاتی‘ سیاسی اور ثقافتی فیصلے کسی دبائو اور مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے تصورات‘ اقدار‘ اصولوں اور منصفانہ مفادات کی بنیاد پر کر سکے اور اپنے اندر ایسی فکری‘ معاشی اور عسکری قوت فائق ہو کہ دوسرے اس کے فیصلوں پر ناروا انداز میں اثرانداز نہ ہو سکتے ہوں۔ اس کے برعکس سامراجی نظام کا خاصا یہ ہے‘ خواہ کسی شکل میں بھی ہو‘ کہ وہ دوسروں کو دنیا کا محتاج بناتا ہے اور ان کو فیصلے کی آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی شخصیت کی نفی کے مترادف ہے اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ جو قوم اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے اور اس کے وجود کا انحصار دوسروں پر ہو‘ وہ کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ اُمت مسلمہ کو بھی زمین و آسمان کے خالق نے جو مشن دے کر زمین پر برپا کیا ہے وہ ہے:  شھداء علی الناسکا مقام۔

اگر یہ اُمت ہی دوسروں کی ذہنی اور فکری طور پر‘ نظریاتی اور تہذیبی طور پر‘ اسلامی اور ثقافتی طور پر‘ مادی اور سائنسی طور پر‘ سیاسی اور عسکری طور پر دست نگر ہو جائے تو پھر یہ اپنا تشخص کیسے برقرار رکھ سکتی ہے اور اپنا تاریخی کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ آج پوری دنیا کو اور خصوصیت سے مسلم ممالک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اگر وہ سب سرجوڑ کر نہیں بیٹھتے اور مل جل کر ایک دوسرے کی قوت کا ذریعہ نہیں بنتے تو ڈر ہے کہ خدانخواستہ ایک ایک کر کے سب پٹ جائیں گے۔ اگر آج عراق نشانہ ہے تو کل ایران ہوگا اور پرسوں پاکستان‘ شام‘ سعودی عرب‘ انڈونیشیا‘ ترکی۔ یہ محض ایک واہمہ نہیں بلکہ آج کی دنیا کے geo-political حالات پر نظر ڈالنے والا ہرشخص اس نقشہ جنگ کو بچشم سر دیکھ سکتا ہے بلکہ یہ نشانہ بازی شروع ہوچکی ہے اور جن ۲۵ ممالک کے شہریوں سے امریکہ میں امتیازی سلوک قانون کے ڈنڈے کے زور سے شروع ہواہے ان میں سے ۲۴مسلمان ملک ہیں اور سرفہرست وہ ہیں جو اپنے کو امریکہ کا حلیف اور تاریخی اعتبار سے دوست سمجھے ہوئے ہیں۔ عراق کے خلاف محاذ محض عراق کے خلاف نہیں بلکہ ایک عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ ابھی ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ء کے واشنگٹن پوسٹ میں صدربش کی دو صفحات پر مشتمل ایک نہایت خفیہ (top secret)دستاویز شائع ہوئی ہے‘ جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعہ سے صرف ۶ دن بعد یعنی ۱۷ستمبر کو ضبطِ تحریر لائی گئی تھی اس میں افغانستان کے خلاف جنگ کی ہدایات کے ساتھ وزارتِ جنگ (Pentagon) کے لیے یہ احکام بھی شامل ہیں کہ:

to begin planning military options for an invision of Iraq.

عراق پر حملے کے لیے عسکری متبادلات کی منصوبہ بندی شروع کرنا۔

اور پھر ۱۷ جنوری ۲۰۰۳ء کو اسی واشنگٹن پوسٹ میں یہ بات بھی آگئی ہے کہ مقصد عراق کے نام نہاد تباہی کے اسلحے پر قبضہ نہیں بلکہ عراق پر مکمل فوجی قبضہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان پر قبضہ کی طرح امریکی فوج کے حاضر سروس جنرل کے تحت فوجی قبضہ ہے۔

افسوس کہ ہمارے کمانڈو صدر ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کا افغانستان اور عراق سے‘ اور عراق کا ایران‘ پاکستان اور سعودی عرب سے تعلق (linkage) دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اور اس خودفریبی میں مبتلا ہیں کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تو!‘‘ ہمیں اس خواب سے اب بیدار ہو جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اُمت مسلمہ کی وحدت کے سوا کوئی راستہ کسی کے لیے بھی بچائوکا راستہ نہیں۔ ہم مل کر ایک قوت بن سکتے ہیں اور الگ الگ ہر ایک پٹ جائے گا اور خدانخواستہ وہی ہوگا جو دولت عثمانیہ کے انتشار‘ تقسیم اور علاقائیت کے ہاتھوں سو سال پہلے ہوا یا شمالی عربوں‘ اور حجازیوں اور یمنی عربوں کی باہمی آویزش اور داخلی نزاعات کے نتیجے میں سات سو سال پہلے اندلس (اسپین) میں ہوا تھا۔ یہ اتحاد دین و ایمان اور نظریے اور تہذیب کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ بقاے باہمی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن گیا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب ثروت کا اپنا مفاد اس میں مضمر ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کو کم کریں اور اپنے معاملات اور اپنے وسائل اپنے تصرف میں لائیں اور مسلم ممالک میں مقابلے کی قوت پیدا کریں۔ ستم ہے کہ اس وقت مسلم ممالک کا ۳.۱ ٹریلین یعنی ایک ہزار تین سو ارب ڈالر کا سرمایہ امریکہ اور یورپی ممالک میں لگا ہوا ہے اور اب اس رقم کو آسانی سے امریکہ اور یورپی ممالک سے واپس لانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس رقم کا نصف بھی مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے صحیح ترجیحات کے ساتھ استعمال ہو تو چند سال میں مسلمان ممالک ایک عالمی معاشی قوت بن سکتے ہیں۔ جن ممالک اور افراد کا یہ سرمایہ ہے یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اس کو مغرب کی گرفت سے نکالیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی گردن ان ممالک کے ہاتھ میں دے دیں اور پھر اپنی آزادی اور خودمختاری کا خواب بھی دیکھیں۔ حالات ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مسلم ممالک میں معاشی‘ مالیاتی‘ تعلیمی‘ سائنسی‘ عسکری غرض ان سب میدانوں میں خودانحصاری کے حصول کو اولیت دی جائے۔ اس کے بغیران ممالک کے آزاد رہنے اور کوئی مثبت عالمی کردار ادا کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ نظریاتی اور اخلاقی اساس پر ایک مضبوط معیشت ‘ مادی وسائل کا حصول‘ ٹکنالوجی کے میدان میںمقابلے کی مہارت اور عسکری اعتبار سے اتنی قوت کہ آپ اپنا دفاع موثرانداز میں کر سکیں‘ پوری اُمت کی اجتماعی ضرورت ہے۔ وسائل موجود ہیں۔ امکانات کی کمی نہیں۔ کمی ہے تو وژن کی‘ منصوبہ بندی کی‘ اپنے ہی وسائل کے ٹھیک استعمال کی‘ سمجھ دار اور باصلاحیت قیادت کی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اب options کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد‘ مسلمان عوام کی بیداری اور اُمت میں مقابلے کی قوت کو ترقی دینے کے سوا زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان بنیادی تبدیلیوں اور تزویری اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا آغاز بلاتاخیر ہو جانا چاہیے لیکن ان کے پورے اثرات رونما ہونے میں ایک وقت لگے لگا۔ فوری تعاون کے راستے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ تعاون اور ربط باہمی (cooperation and coordination) سے آغاز کر کے اتحاد‘ انضمام اور انحصارباہمی (unity, integration and inter - dependence) کی طرف مراجعت کی جائے تاکہ ہمارا اتحاد محض اوپری انداز کا نہ ہو بلکہ اُمت مسلمہ اپنے تنوع کو باقی رکھتے ہوئے ایک حقیقی وحدت کی شکل اختیار کرلے۔ اگر یورپ صدیوں کے جنگ وجدال اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونے کے باوجود مصالح کی بنیاد پر ایک معاشی اور سیاسی وحدت بن سکتا ہے تو مسلمان اُمت کیوں نہیں بن سکتی۔ آج بھی اُمت کے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت ہے‘ حکمران اور مخصوص مفاد کے پرستار اصل رکاوٹ ہیں۔ لیکن اب یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اپنے اس خول سے نکلیں اور وہ راستہ اختیار کریں جو اُمت کے اور خود اُن کے حق میں بہتر ہے۔

مسلمان عوام آج بھی ہر مسلم مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور جان اور مال سے اس میں شرکت اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عوامی جذبے کو اجتماعی نظام کی بنیاد بنانا زیادہ آسان ہے۔ اس گئے گزرے دور میںبھی آخر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر ایران اور عرب ممالک ہی نہیں ‘انڈونیشیا نے بھی بھارت سے اپنے تاریخی تعلقات اورنہروسوئیکارنو دوستی کی روایات کے باوجود کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور صرف سفارتی میدان میں ہی نہیں‘  عملی عسکری تعاون کے ذریعے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد پاکستان کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے میں سعودی عرب اور کویت نے جو تعاون کیا ہے وہ بھی محض خیالی چیز نہیں۔ اس کے باوجود صدر صاحب کا جنوری ۲۰۰۳ء میں لاہور کے دانش وروں کی محفل میں یہ ارشاد کہ ’’ہماری مدد کو کون آیا‘‘ ایک غیر حقیقت پسندانہ ارشاد ہے۔

اطلاقی دائرہ

حکمت عملی کا تیسرا اور فوری توجہ کا حصہ اطلاقی (operational) ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی ہے۔ امریکہ ایک عالمی قوت بلکہ واحد سوپر پاور ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف محاذ آرائی یا تصادم نہ مطلوب ہے اور نہ یہ کوئی راستہ ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ مسلمان ملک فرداً فرداً اور مل کر امریکہ کو ایک پیغام دیں--- ہم دوستی اور تعاون کا راستہ تو اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی ایسے نظام کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے جس میں ایک قوم کی بالادستی سب پر قائم کی جائے۔ شمالی کوریا نے جرأت مندانہ پالیسی کا ایک نمونہ پیش کیا ہے حالانکہ شمالی کوریا ایک غریب ملک ہے جس کی قومی دولت جنوبی کوریا کا بھی صرف چالیسواں حصہ اور تیل اور خوراک دونوں میں باہر کی سپلائی کا محتاج ہے۔ مسلم ممالک اپنے وسائل‘ جغرافیائی محل وقوع‘ معاشی دولت‘ سیاسی وزن (leverage) ہر اعتبار سے کہیں زیادہ موثر قوت بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ذاتی مفاد کے چکر سے نکل کر اجتماعی قوت اور فلاح باہمی کا راستہ اختیار کریں۔ اس کے لیے عزم اور وژن کے ساتھ مکالمے (dialogue) اور اجتماعی تحفظ کے لیے سدجارحیت (deterrance) کا راستہ بیک وقت اختیار کیا جائے۔ اس وقت امریکہ نے جن ۲۵ ممالک کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک شروع کیا ہے ان میں سے ۲۴ ممالک مسلمان ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فوری طور پر پہل قدمی کی ضرورت ہے۔ یہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کے لیے ایک مناسب نقطہ آغاز ہے۔ بلاشبہہ ہر ملک کو اپنے تحفظ کا اختیار ہے لیکن دہشت گردی کے خطرے کے سدباب کے نام پر کچھ خاص ملکوں کو نشانہ بنانا اقوامِ متحدہ کے چارٹر‘ انسانی مساوات کے بنیادی اور مسلمہ اصول اور خود امریکی دستور کی پہلی دفعہ کے خلاف ہے۔ اس پر مستزاد کہ یہ پابندی selective اور discriminitary ہے یعنی دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں سے صرف ۲۵ کے خلاف جو بظاہر دوست ملک ہیں اور ان کی عالمی سطح پر امریکہ سے کوئی مخالفت نہیں رہتی۔ بین الاقوامی قانون میں وہ نہ برسرِ جنگ ہیں اور نہ alien طاقتوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی جنس کی بنیاد پر امتیاز کی زد میں بھی آتی ہے کہ صرف ۱۶ سال کی عمر کے مردوں پر اس کا اطلاق ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دوسری جنگ کے بعد دنیا کے سارے ممالک میں اگر کسی ملک میں امریکیوں کے خلاف دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں تو وہ یونان ہے مگر وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔ اگر معاملہ تارکینِ وطن اور خاص طور پر غیر قانونی تارکینِ وطن کا ہے تو امریکہ کے اپنے رپورٹر گواہ ہیں کہ ہر سال امریکہ میں ۳۰۰ ملین افراد باہر سے آتے ہیں جن میں سے ۲ ملین واپس نہیں جاتے۔ ان میںسب سے زیادہ لوگوں کا تعلق میکسیکو‘ یورٹوریکا ‘کیوبا اور دوسرے جنوبی امریکہ کے ممالک سے ہے لیکن یہ سب اس فہرست سے باہر ہیں۔ اس لیے سیاسی اور قانونی دونوں محاذ پر اس قانون اور مسلمانوں پر اس کے اطلاق کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلانی چاہیے۔

اسی طرح عراق کی جنگ کا مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ عراق تو ایک عالمی استعماری جنگ کے آغاز کا صرف عنوان ہے۔ اصل مسئلہ اصول کا ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے بالا ہو کر امریکہ یا اس کے کسی اتحادی ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ محض کسی خیالی خطرے کا سہارا لے کر pre-emptive strike کے نام پر (جس کا بین الاقوامی قانونِ جنگ و صلح میں کوئی مقام نہیں) ایک دوسرے خودمختار ملک پر جو اقوامِ متحدہ کا رکن بھی ہے‘  فوج کشی کر سکتا ہے۔ کیا ملک کی حکومت بدلنے کے لیے کسی دوسرے ملک پر فوج کشی‘ قیادت کے  قتل یا بغاوت کو منظم کرنے کا جواز ہے۔ اسی طرح کیا کسی بھی ملک کو اس بنیاد پر کہ اس کے پاس مہلک ہتھیار ہیں‘ نشانۂ جنگ بنایا جا سکتا ہے۔

یہ وہ بنیادی ایشوز ہیں جو آج معرضِ خطر میں ہیں۔اگر دنیا کے دوسرے ممالک اور خصوصیت سے مسلم اور عرب ممالک خود کو ان فوجی جولانیوں اور جنگی تباہیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو آج عراق پر امریکہ کی دست درازی کو روکنا اس کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری کے وسط میں دنیا کے ۲۵ ممالک میں امریکہ کے جنگی عزائم کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے ہیں اور خود واشنگٹن‘نیویارک‘لاس اینجلز اور سان فرانسسکو جنگ کے خلاف نعروں سے گونج رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس نے بھی موثر احتجاجی آواز بلند کی ہے اور روس اور چین بھی اس صورتِ حال پر مضطرب ہیں۔ صرف اسرائیل اور بھارت اپنے اپنے استعماری عزائم کی وجہ سے بش کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن بھی کھل کر اس جارحیت کے خلاف شکایت کناں ہیں لیکن اس جارحیت کا اگلا ہدف بننے والے مسلم ممالک منقارزیر پر ہیں۔ یہ وقت جاگنے‘ احتجاج کرنے اور خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور تمام مسلم ممالک کو بروقت اقدام کرنا چاہیے۔

دوسری فوری ضرورت امریکہ اور پوری مغربی دنیا سے معنی خیز مکالمے کا آغاز ہے جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں‘ ان ممالک کے تمام موثر عناصر اور عوام مخاطب اور شریک ہوں۔ اس کے لیے میڈیا کی قوت کا استعمال ازبس ضروری ہے۔ آج دنیا کے ذہنوں پر امریکی میڈیا چھایا ہوا ہے جو خود پنجۂ یہود میں ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی ایک ننھی سی آواز ہے جس نے عرب دنیا میں کچھ آگاہی پیدا کی ہے لیکن ضرورت ایک ایسے طاقت ور میڈیا کی ہے جو مسلم ذہن اور عالم اسلامی کے جذبات اور مفادات کا ترجمان ہو لیکن یہ نہ محض سرکاری آواز ہو اور نہ ابلاغ کے جدید ترین اسالیب سے محروم۔ یہ وسائل ہمارے پاس ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں خود اپنا سیٹلائٹ فضا میں آویزاں کیا ہے جو اعلیٰ پیشہ ورانہ انداز میں ہماری آواز پوری دنیا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم اپنی سیاسی بازی محض اپنی بے تدبیری اور بے عملی کی وجہ سے ہار رہے ہیں جسے انگریزی محاورہ loosing by default کہا جاتا ہے۔ اس کی تلافی کی فوری ضرورت  ہے اور یہ کام مناسب منصوبہ بندی سے ا نجام دیا جائے تو مہینوں نہیں‘ ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔

ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ مسلم دنیا کے اتحاد کے ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک‘ اقوام اور گروہوں کو ہمیں اپنے ساتھ ملانا چاہیے جو آزادیوں کے تحفظ‘ استعمار کے خلاف جنگ‘ بین الاقوامی قانون کی پاس داری‘ انصاف کے قیام کے مقاصد کے حصول کے لیے ہمارے معاون ہو سکتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر انھیں مناسب طور پر منظم اور استعمال کیا جائے تو یہ ساری قوتیں اس جدوجہد میں ہماری حلیف اور ساتھی ہیں اور مزید بن سکتی ہیں۔ مکالمے کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ جہاں ہم حکومتوں سے مذاکرات کریں‘ وہیں دوسری سطح پر افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع کریں اور اس طرح دنیا کو سب کے لیے ایک زیادہ پُرامن اور منصفانہ بنانے کی خدمت انجام دے سکیں۔

تیسری ضرورت مکالمے کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور عسکری محاذوں پر ایسی منصوبہ بندی اور تنظیم کی ہے جو کمزور ممالک کے خلاف جنگی یلغار یا انھیں مغلوب کرنے کی چالبازیوں کے مقابلے میں سدجارحیت کا کردار ادا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں وقت کی اہم ترین ضرورت مغرب پر انحصار کو ختم کرنا‘ مغرب سے موثر اور معنی خیز مکالمہ شروع کرنا اور خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی سدجارحیت کی طاقت کو وجود میں لانا ہے۔ یہ کام ٹھوس منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے معاشی اور عسکری قوت اوراپنے وسائل پر اپنی گرفت ضروری ہے۔ نہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ یوں گھٹنے ٹیکتے چلے جائیں اور نہ اتنے قوی ہیں کہ فوری تصادم کاخطرہ مول لے سکیں۔ اس لیے استقامت اور حکمت سے راستہ نکالنے ہی میں اُمت کی نجات ہے۔ اس کے لیے جہاں نظریاتی استحکام ضروری ہے وہیں مادی قوت کا حصول اور اس کا صحیح صحیح استعمال بھی ضروری ہے۔ خطرات کا صحیح شعور اولیں شرط ہے لیکن بلاتیاری مقابلہ اور تصادم کے راستے کو اختیار کرنا بھی خود تباہی کا راستہ ہے۔ اس لیے جو بھی نقشہ کار وضع کیا جائے اسے پوری حکمت ‘ دانائی اورمومنانہ فراست سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے کی آخری چیز صحیح معاشی منصوبہ بندی اور مسلم ممالک میں ایک ہمہ گیر معاشی ترقی کا کریش پروگرام ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی معاشی بحالی کے لیے مارشل لا پلان بنایا گیا تھا اسی طرح اس وقت اسلامی دنیا میں معاشی ترقی‘ جدید ٹکنالوجی میں قوت کے حصول‘ بنیادی صنعتوں اور asset creation کے مقاصد کے لیے فوری اقدام درکار ہیں۔ مسلم سرمایے کو محفوظ کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ وہ مسلم ممالک میں asset creation کے لیے استعمال ہو۔ ترکی کے ایک صاحب نظر سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی پہل قدمی پر D-8 کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب وقت ہے کہ فوری طور پر اس وژن پر عمل ہو اور اسلامی ترقیاتی بنک‘ او آئی سی‘ اسلامک چیمبر آف کامرس اور دوسرے متعلقہ ادارے فوری طور پر ان ممالک میں متقابل فوائد اور تقسیم کار کے معاشی اصولوں کی روشنی میں معاشی ترقی کا ایک ماسٹر پلان بنائیں اور اس پر عمل شروع کریں۔ کم از کم ۸ مسلمان ملک ایسے ہیں جن کے پاس جدید ٹکنالوجی اس حد تک موجود ہے کہ وہ مسلم دنیا کے لیے ایک مضبوط اور وسیع صنعتی اساس تعمیر کرسکتے ہیں اور مسلم ممالک خود وسیع مارکیٹ ہیں جو اس کو معاشی استحکام دے سکتے ہیں۔ آج ایسے صاحب نظر لوگوں کی ضرورت ہے جیسے یورپ کو گائی مولے‘ ڈی گال اور ایدینور کی شکل میں میسرآگئے تھے۔ کسی بھی اطلاقی منصوبے کا یہ ایک بہت نہایت اہم حصہ ہے۔

پاکستانی قیادت کیا کر ے ؟

آخر میں ہم یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے اور امریکہ کی خدمت میں درخواستیں بھیجنے کا رویہ ترک کرے۔ ایک باوقار ملک کی حیثیت سے اور امریکہ کے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں اپنی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کی تشکیل نو کرے۔ قوم پر اعتماد کرے اور اکتوبر کے انتخابات (خواہ وہ کیسے بھی خام کیوں نہ ہوں) کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کو طاقت ور کرے۔ انھیں ذریعہ بناتے ہوئے قومی بیداری پیدا کرنے اور دُور رس نتائج کی حامل نئی پالیسیاں تشکیل دینے کا یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم یہ کلیدی کردار اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ذاتی مفادات سے بالا ہو کر افہام و تفہیم کے ذریعے بنیادی امور پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور پھر دوسرے سارے ممالک کو ایک ایسے مرکزی پروگرام پر مجتمع کرنے کی کوشش کرے جس سے عالم اسلامی اپنی آزادی‘ معاشی وسائل اور نظریاتی تشخص کی قرار واقعی حفاظت کر سکے اور عالمی سطح پر انصاف کے قیام اور ایک ایسے عالمی نظام کے فروغ کے لیے سرگرم ہو سکے جو انسانیت کو جنگ‘ تباہی اور معاشی لوٹ کے موجودہ نظام سے نجات دلا سکے اور سب کے لیے عزت‘ آزادی اور انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج یہ صرف مسلمانوں ہی کی ضرورت نہیں انسانیت کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اکیسویں صدی کو امن و انصاف کی صدی بنانے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیکہ ہماری قیادت اپنے ذاتی مفادات کے خول سے نکلے اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو درپیش خطرات کا استقامت اور حکمت سے مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کرے۔

جمہوریت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو عوام کی خواہشات اور ضروریات کا کچھ نہ کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے اور اگر جواب دہی کا موثر نظام موجود ہو تو یہی چیز وسائل کے بروقت استعمال اور عوام کی مشکلات کے حل کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ آمریت کے ادوار میں تو ساری توجہ ورلڈبنک ‘ آئی ایم ایف اور فوجی اور سول بیوروکریسی کی دل پسند ترجیحات پر مرکوز رہتی ہے‘ لیکن جیسے ہی الیکشن کے آثار رونما ہوتے ہیں فوجی حکومت بھی عوام کے لیے سہولتوں کی باتیں (کم ازکم باتیں) کرنے لگتی ہے اور الیکشن کے نتیجے میں رونما ہونے والی حکومتیں تو بڑھ چڑھ کر عوام کے مسائل ہی کو اپنی ترجیح بتاتی ہیں۔ اعلانات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اسی وقت خوش آیند ہے جب ان پر عمل ہو اور صرف نمایشی اقدامات پر قناعت نہ کی جائے‘ بلکہ حقیقی مسائل کو وسائل کے موثر استعمال‘ صحیح ترجیحات اور بدعنوانی کو لگام دے کر حل کیا جائے۔

اس پس منظر میں پنجاب کی صوبائی حکومت کا اپنی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں (۴جنوری ۲۰۰۳ئ) یہ اعلان کہ صوبے میں میٹرک تک سرکاری اور ضلعی اداروں میں تعلیم مفت ہوگی۔ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ سرحد کی حکومت نے بھی اپنی دوسری اصلاحات کے ساتھ جن میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والے چند اقدامات پر گرفت اور اُردو کو سرکاری زبان بنانا شامل ہے ‘میٹرک تک مفت تعلیم کا اعلان (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ئ) کر دیا ہے۔ ہم ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے اور انھیں مستقبل کے لیے ایک نیک فال تصور کرتے ہیں۔ ہم اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ باقی دو صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس سلسلہ میں جلد اقدام کرنا چاہیے‘ تاکہ پورے ملک میں سرکاری اور ضلعی حکومت کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں میٹرک تک تعلیم مفت ہو اور ملک کے طول و عرض میں کم از کم اس محدود میدان میں یکسانی پیدا ہو۔ ہم ان اقدامات کی خوش الحانی پر مایوسی کا کوئی سایہ ڈالنا نہیں چاہتے لیکن صرف امر واقعہ کے طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام نہاد عوامی دور کا آغاز جن چند اقدامات سے کیا تھا‘ ان میں ملک بھر میں میٹرک تک مفت تعلیم بھی شامل تھی لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ اصل میزان عمل ہے‘ اعلان نہیں اس لیے اب ان منتخب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلہ پر لفظ و معنی ہر دو اعتبار سے پورا پورا عمل کروائیں۔

اس اقدام کی تحسین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تعلیم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ سرکاری اسکولوں میں پرائمری تعلیم مفت ہے اور میٹرک تک تعلیم کے لیے ۵ روپے ماہانہ سے ۲۰ روپے ماہانہ تک فیس ہے۔ اس رقم کا بوجھ غریب عوام کی پشت سے اگر کم ہو جائے تو یہ اچھا ہے لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ فروغ تعلیم کے لیے یہ اقدام مشکل کشا ہوگا تو بڑا گمراہ کن ہوگا۔ غریب بچوں پر سرکاری اسکولوں میں فیس کے علاوہ سب سے زیادہ بوجھ کتابوں اور اسٹیشنری کا ہے جو فیس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہر بچے کے والدین پر آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک کا بوجھ اس عنوان سے پڑتا ہے۔ پھر یونیفارم کا مسئلہ ہے‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے چندہ ہے‘ پورے دن کے اسکولوں میں بچوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے۔ مفت تعلیم اسی وقت مفت ہو سکتی ہے جب ان سب کی ذمہ داری ریاست اور معاشرہ لے جو اس کا فرض ہے۔ بنیادی تعلیم ایک حق ہے جسے کاروباری ذہن سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔

یہ سب بجا‘ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار اتنا پست اورتعلیمی سہولتوں (بلڈنگ‘ صفائی‘ روشنی‘ پانی‘ لائبریری‘ اچھا استاد وغیرہ) کی فراہمی ایسی زبوں حالی کی تصویر پیش کرتی ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی اداروں کی جو ریل پیل ہے اس کی اصل وجہ سرکاری اور ضلعی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی بدحالی ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ان اداروں کو قتل گاہیں سمجھتا ہے اور پیٹ کاٹ کر اور قرض لے کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھیجنے کی فکر کرتا ہے۔ اصل مسئلہ سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار‘ ان کی بلڈنگ اور سہولتوں اور سب سے بڑھ کر اچھے تربیت یافتہ اور  جذبے سے بھرپور اساتذہ کی فراہمی ہے۔ جب تک اس لحاظ سے صورتِ حال درست نہیں ہوتی عوام کا رجوع سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف نہیں ہو سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم تک کے افسر اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے؟ اصل مسئلہ سرکاری تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے تفاوت کو دُور کرنا ہے اور جب تک آپ سرکاری تعلیمی اداروں کو اتنا پُرکشش نہیں بناتے کہ والدین نجی اداروں کا رُخ نہ کریں‘ تعلیم کا مسئلہ علیٰ حالہ باقی رہے گا اورگمبھیرنہ ہوتا جائے گا۔

پھر تعلیمی پالیسی کے مسائل بھی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں لانا‘ ان کے لیے نگرانی کا‘ خصوصیت سے نظریاتی اور ثقافتی معاملات میں بہت ضروری ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایک نہیں کئی کئی تعلیمی نظام چل رہے ہیں‘ کچھ اشراف اور متمول گھرانوں کے لیے اور کچھ مجبور اور بے وسیلہ طبقوں کے لیے۔ یہ چیز قوم کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ معاشی اور ثقافتی حیثیت سے ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔ اس سے طبقاتی تفاوت ہی پیدا نہیں ہو رہا‘ طبقاتی جنگ کے لیے بھی زمین ہموار ہو رہی ہے۔ نجی اداروں میں بے مہار انداز میں پبلک اسکول‘ اور کونونٹ اسکول ہی کم مصیبت نہ تھے کہ انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے اور بیرونی تعلیمی نظاموں (او لیول/ اے لیول) سے رشتہ جوڑنے کے نتیجے میں ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جن کے فکرونظر اور جذبات و احساسات کا رشتہ ملک سے باہر جڑ رہا ہے۔ وہ اپنے وطن اور اپنے گھر میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی پالیسی کے یہ مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کی طرف فوری توجہ دیں گی۔

پاکستان کی سیاست میں ایجنسیوں کا عمل دخل

مرکز اور صوبہ سندھ میں آنکھ مچولی کے مختلف کھیلوں کے بعد بالآخر ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کی ذاتی مداخلت کے نتیجے میں اپنا گورنر مقرر کرا لیا اور صوبائی حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس وقت ہمارا موضوع ایم کیو ایم کا کردار نہیں‘ بلکہ ملک کی سیاست میں فوجی ایجنسیوں کا کردار ہے جس کا سب سے نمایاں سرٹیفیکیٹ خود جناب الطاف حسین نے اپنے گورنر کے تقرر اور سندھ کی حکومت بننے پر ان الفاظ میں دیا ہے۔ انھوں نے نام لے کر اپنی اس کامیابی کا سہرا جنرل پرویز مشرف (چیف آف اسٹاف)‘ جنرل احسان الحق (آئی ایس آئی کے ڈائرکٹرجنرل)‘ میجر جنرل احتشام ضمیر (آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائرکٹر) اور جنرل مشرف کے بیوروکریٹ معاون طارق عزیز کے سر باندھا ہے اور ان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا ہے بلکہ انھیں اس عظیم خدمت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ کم از کم اس بات کی حد تک الطاف حسین صاحب نے اصل حقائق کو بلاکم و کاست کھلم کھلا بیان کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج وہ اس پر ممنونیت کا اظہار کر رہے ہیں اور کل وہ انھی ایجنسیوں کو سب و شتم کا نشانہ بنا رہے تھے اور ان کے خون کے پیاسے تھے۔ صرف ریکارڈ کی خاطر عرض ہے کہ ایم کیو ایم کی سرکاری ویب سائٹ پر فوج‘ اس کی قیادت اور آئی ایس آئی کے ذمہ دار حضرات کے بارے میں گذشتہ سالوں بلکہ مہینوں تک میں جو کچھ آتا رہا ہے‘ اس پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو    ایم کیو ایم نے اپنے اس نظریاتی موقف کے ساتھ کہ:

ہندستان کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی۔

نام لے کر فوج اور اس کے اداروں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور فوج اور پولیس کے ۴۸ اعلیٰ افسروں کو "most wanted people" قرار دیا۔ اس فہرست میں آئی ایس آئی‘ آئی بی اور ایف آئی اے کے نام سب سے اُوپر تھے۔ ان ناموں میں لیفٹیننٹ جنرل مظفرعثمانی‘ لیفٹیننٹ جنرل نصیراختر‘ لیفٹیننٹ جنرل اسعد درانی‘ میجر جنرل نصیراللہ بابر‘ کرنل عبید اور خفیہ ایجنسیوں کے طارق لودھی ‘ مسعود شریف اور رحمان ملک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر اور ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کو آج پھول پہنائے جا رہے ہیں اس آئی ایس آئی کے بارے میں ان کی ویب سائٹ کا فتویٰ یہ ہے:

آئی ایس آئی بدنام زمانہ ہے۔ اسے ریاست در ریاست قرار دیا جاتا ہے یا پاکستان کی نہ دکھائی دینے والی حکومت۔ اس نے بھارتی کشمیر میں مسلمان باغیوںکو اسپانسر کیا ہے‘ اور طالبان کو کھڑا کیا ہے اور افغانستان میں اس کے باطن عرب مہمانوں کی سرپرستی کی ہے--- گو یہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے پنجے پاکستانی سیاست‘ عدالت اور روز مرہ زندگی تک گڑے ہوئے ہیں۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔ کسی آئی ایس آئی افسر کی ایک زہریلی سرگوشی کسی کے کیریر کے تباہ کرنے‘ گرفتار کرنے یا اس سے بھی بدتر انجام تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

ایم کیو ایم کو مبارک ہو کہ اس ’’زہریلی سرگوشی‘‘سے اب وہ گورنری اور وزارتوں پر متمکن ہے اور ’’تھا جو ناخوب‘‘ وہ خوب بلکہ خوب تر ہوگیا۔

ایم کیو ایم‘ جس کے بارے میں واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اس کا قیام بھی اسی ’’سرگوشی‘‘کا رہینِ منت ہے‘ اور اس کی خون آشام جولانیاں بھی اس کی سرپرستی اور حفاظتی  چھتری میں کراچی اور حیدرآباد کو خون کی ہولی کھلاتی رہی ہیں اور پھر اس کا دور ابتلا بھی انھی سرپرستوں کو آنکھیں دکھانے کی پیداوار تھا اور اب اس کا نیا ہنی مون بھی انھی کی کرشمہ سازی ہے--- یہ سب بجا‘ لیکن کیا یہ سب قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں! کیا ایجنسیوںکا ہماری زندگی میں اس طرح دخیل ہونا اور کھل کھیلنا گوارا کیا جا سکتا ہے؟ کیا  حاضرسروس فوجی اور سول حکام کو اسی طرح سیاسی جوڑ توڑ اور بنائو بگاڑ کی کارفرمائی کی چھوٹ ملی رہنا چاہیے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ’’بس بہت ہو چکا‘‘ (enough is enough)کہہ دیں تاکہ سول نظام فی الحقیقت سول اور جمہوری نظام کی صورت اختیار کرسکے۔

یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہی نہیں‘ فیصلہ کن وارننگ بھی ہے:

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

سگریٹ نوشی --- خودسوزی ہی نہیں خودکشی!

ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ میں جو ۱۹۹۹ء کے حالات کے جائزے پر مشتمل ہے یہ وحشت ناک حقائق دنیا کے سامنے پیش کیے گئے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ۱۹۹۹ء میں ۱۷۵ ارب سگریٹ کام و دہن کو دھواں دار کرنے کا باعث ہوئے لیکن پاکستان‘ اس علاقے کی آبادی کا صرف دس فی صد ہونے کے باوجود‘ سگریٹ نوشی میں ۳۲ فی صد حصہ بٹانے والا ملک ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ ۱۵ سال کی عمر سے بڑے افراد کا تناسب اگر نکالا جائے تو اگرچہ علاقے کا اوسط ۱۵ پیک فی کس ہے لیکن پاکستان میں ۳۰ پیک فی کس سے متجاوز ہے۔ تپ دق اور سرطان جیسے موذی مرض اس کا عطیہ ہیں۔ پورے علاقے میں سگریٹ سے پیدا ہونے والے امراض میں ہر سال خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں میں اس کا استعمال اور سگریٹ نوشی پر مبنی امراض سے اموات کا تناسب عورتوں میں کہیں زیادہ ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کے فروغ میں سب سے اہم کردار سگریٹ کے اشتہارات کا ہے۔ بھارت نے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے لیکن پاکستان میں اس کی کوئی فکر نہیں۔ اور ذرا سی آمدنی (ریونیو) کے لیے سگریٹ سے خودسوزی کی بلا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے اپنے طور پر اشتہارات پر کچھ پابندیاں عائد کر کے اچھا اقدام کیا ہے مگر اسے بھی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کی نئی جمہوری حکومت کو خودسوزی کے اس عمل کو لگام دینے کے لیے جلد موثر تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دنیا کے طول و عرض میں دہشت گردی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک مہم کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے کے لیے نت نئے اہداف کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے پوری دنیا کے چین اور سکون کو پامال کر دیا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ انسانیت کو امن و انصاف سے کوسوں دور لے جانے اور دنیا کی بیشتر اقوام کو ایک نئے سامراجی نظام کے شکنجے میں کسنے کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ طاقت کے نشے نے اسے ایسا بدمست کر دیا ہے کہ صدر جارج بش اور ان کے رفقا‘ نہ اپنے ملک کے اصحاب علم و بصیرت کی بات پر کان دھر رہے ہیں اور نہ عالمی رائے کی آہ و بکا کی انھیں کوئی پروا ہے۔ واشنگٹن اور نیویارک سے لے کر لندن‘ برلن‘ کوپن ہیگن‘ استنبول‘ سیول اور لاہور تک عوام جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں‘ لیکن افغانستان کو تباہ کرنے اور اپنی گرفت میں لے لینے کے بعد امریکہ عراق پر فوج کشی کے لیے تلا ہوا ہے اور ایران‘ سعودی عرب‘ پاکستان‘ شمالی کوریا سمیت۱۸ ممالک کو ضربِ کاری (hit list) کی زد پر رکھے ہوئے ہے‘    بین الاقوامی قانون کو عملاً ہی نہیں‘ نظری طور پر بھی rewrite کیا جا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے جو بھی برا بھلا نظام اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے تحت قائم ہونے والے اداروں‘ معاہدات اور ضوابط کی شکل میں بنایا گیا ہے اسے تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ صدربش کسی شرم و حیا اور تکلف کے بغیر صاف کہہ رہے ہیں کہ:

امریکہ اپنے دشمنوں پر پیش بندی کے طور پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گا خواہ اسے بین الاقوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ اپنی فوجی بالادستی کو خطرے میں پڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔عقل عام اور خود اپنے دفاع کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ اس طرح کے ابھرنے والے خطروں کے خلاف ان کے مکمل شکل اختیار کرنے سے پہلے اقدام کرے۔(دی گارڈین ویکلی‘ ۲۶ ستمبر تا ۲ اکتوبر۲۰۰۲ئ)

گویا:    ؎

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا خطاے نظر سے پہلے عتاب جرم سخن سے پہلے

بش صاحب یہ بھی فرما چکے ہیں کہ:

یا تو عراق اپنے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کو غیر مسلح کر دے یا امریکہ عراق کو اقوام متحدہ کی حمایت یا بغیر حمایت کے غیر مسلح کر دے گا۔

بات صاف ہے ‘ اب نہ کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ‘ صرف طاقت کے ذریعے فیصلے ہونے ہیں اور پوری دنیا امریکہ کی باج گزار ہے۔

دنیا امریکہ کی اس سامراجی یلغار اور استعماری مملکت سازی (empire building) کی دراندازیوں پر ششدر‘ مضطرب اور ان سے متنفرہے۔ راے عامہ کے امریکی ادارے PEW Research کے تازہ ترین جائزے کے مطابق‘ جس میں دنیا کے ۴۶ ملکوں میں ۳۸ ہزار افراد سے ۶۳ زبانوں میں انٹرویو کیے گئے‘ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا کے ہر علاقے کے عوام امریکہ سے نالاں ہیں اور ان کی امریکہ سے خفگی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ممالک جو بظاہر اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے نالاں اور امریکہ کے جنگی عزائم کے مخالف ہیں۔ امریکہ کے ان عالمی تصورات اور اثرات سے اگر برطانیہ کے ۵۰ فی صد عوام غیرمطمئن اور متفکر ہیں اور ان کو منفی سمجھتے ہیں تو جرمنی میں یہ تناسب بڑھ کر ۶۷ فی صد‘ روس میں ۶۸ فی صد‘ فرانس میں ۷۱ فی صد‘ ترکی میں ۷۸ فی صد‘ پاکستان میں ۸۱ فی صد اور مصر میں ۸۴ فی صد ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں ۴۴ فی صد‘ جرمنی میں ۵۴ فی صد اور فرانس میں ۷۵ فی صد افراد نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ عراق پر حملے کی اصل غایت شرق اوسط کے تیل کے چشموں پر قبضہ ہے۔ ترکی کے ۸۳ فی صد عوام عراق پر حملے کے لیے ترکی کے اڈوں کو استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ لبنان میں ۷۳ فی صد‘ اُردن میں ۴۳ فی صد‘ بنگلہ دیش میں ۴۴ فی صد اور نائیجیریا میں ۴۷ فی صد عوام خودکش حملوں کی تائید میں ہیں۔

لندن کے اخبار گارڈین کا مقالہ نگار پیٹرپرسٹن اس پر پکار اٹھتا ہے کہ:

This is alienation on the grandest scale.

یہ عظیم ترین پیمانے پر بیزاری ہے (دی گارڈین‘ لندن ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۹)

راے عامہ کے اس جائزے کا خلاصہ بھی گارڈین کے اسی شمارے میں ہے۔ مکمل جائزے کے لیے دیکھیے: What The World Thinks in 2002.

Website: www.people.press.org

جرمنی‘ترکی‘ بحرین‘ مراکش‘ پاکستان‘ ارجنٹائن اور جنوبی کوریا کے انتخابات میں عوام نے   ہوا کے جس رخ کا اظہار کیا ہے وہ اس عالمی رائے کا ایک مظہر ہے۔

ایک طرف دنیا کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت کی رعونت اور انسانیت کو جنگ میں جھونک دینے کے عزائم روز افزوں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس سے مجبور ہو کر امریکہ کا سابق صدر جیمی کارٹر ۲۰۰۲ء کے نوبل انعام کو وصول کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (۱۰ دسمبر ۲۰۰۲ئ) کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ انسانیت نئے ہزاریے میں ایک ایسے عالم میں داخل ہو رہی ہے جسے کسی صورت میں بھی امن و آشتی کی حالت نہیں کہا جاسکتا۔ کارٹر کے الفاظ میں:

The World is now, in many ways, a more dangerous place

حقیقت یہ ہے کہ دنیا مختلف پہلوئوں سے آج ایک بڑی خطرناک جگہ بن گئی ہے۔

وہ صاف اشاروں کے ذریعے اپنی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ نہ یہ صورت حال طویل عرصے جاری  رہ سکتی ہے اور نہ کوئی بھی طاقت ور ملک پیش بندی کے طور پر جنگ (pre emptive war) کا راستہ اختیار کر کے اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

امریکہ کی یہ پالیسی پوری دنیا اور خصوصیت سے عالم اسلام کو شدید خطرات سے دوچار کررہی ہے۔ اس نے اپنے استعماری اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جن خطوطِ کار پر کام شروع کر دیا ہے‘ ان کو سمجھنا اور حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں جو اہم دستاویزات امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں نے جاری کی ہیں ان کا مطالعہ اور تجزیہ بے حد ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم قومی حکمت عملی کی دستاویزات (ستمبر ۲۰۰۲ئ) (US National Strategy Papers) ہیں۔ اس کے ساتھ  Nuclear Posture Review اور تازہ ترین دستاویز: عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے مقابلے کی قومی حکمت عملی (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اہم ترین نکات سامنے آتے ہیں:

۱-  امریکہ کی انتظامیہ اب نہ اقوام متحدہ کو عالمی سلامتی اور صلح و جنگ کے لیے ایک بالاتر ادارہ تسلیم کرتی ہے اور نہ عالمی راے عامہ کو کوئی اہمیت دیتی ہے حتیٰ کہ خود اپنے دستور سے بھی اپنے کو بالارکھنے کا عزم کرچکی ہے۔ جنگ اور کسی دوسرے ملک کے خلاف قوت کے استعمال کے بارے میں جو پابندی امریکی دستور نے لگائی ہے اسے بھی ضروری اقدام کے لیے عمومی اجازت کا مبہم سہارا لے کر جنگ کے اہداف‘ وقت اور نوعیت طے کرنے اور فوج کشی کرڈالنے کے سارے مطلق اختیار امریکی صدر نے خود ہی اپنے ہاتھوں میں  نہایت بے باکی سے بے جا طور پر لے لیے ہیں۔ یہ صاف لفظوں میں نئے استعمار اور استبداد کا راستہ ہے۔

۲-  گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی صلح و جنگ کا نظام جن دو اصولوں پر چل رہا تھا‘ یعنی طاقت کا توازن اور ردِ جارحیت‘ وہ دونوں اب ازکار رفتہ ہوگئے ہیں۔ اب نیا اصول پہلے ہی فوجی اقدام ہے جس کا خود دفاعی (self defence) کے نام پر جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس کی حد پوری دنیا ہے‘ کوئی بھی افراد‘ گروہ‘ اقوام اور ممالک۔ امریکہ جہاں چاہے اور جس انداز میں چاہے‘ اس بنیاد پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس میں روایتی جنگ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ غیر ایٹمی ممالک پر بھی کیمیاوی یا گیس کے ہتھیاروں کے بہانے ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے۔

۳-  پچھلے چار سو سال سے عالمی نظام جس قومی حاکمیت اعلیٰ (national sovereignty) کے تصور پر قائم تھا وہ اب غیرمتعلق ہو گیا ہے۔ امریکہ کی ستمبر۲۰۰۲ء کی  قومی سلامتی کی ان دستاویزات میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ:

امریکہ کے فوجی اور متعلقہ سول اداروں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ عمومی تباہی کے ہتھیاروں سے مسلح دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں بشمول اس کے کہ جہاں ضرورت ہو پیش بندی کے طور پر دیگر اقدامات کریں۔ اس کے لیے اپنے دشمن کے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے ذخائر کا پتا چلانا‘اس سے پہلے کہ انھیں استعمال کیا جائے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ اس میں فوجی اور سول دونوں ایجنسیوں کو ان اختیارات سے مسلح کیا گیا ہے۔

۴-  اس اختیار کے تحت امریکی صدر نے سی آئی اے کو صاف الفاظ میں یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ دوسرے ممالک میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ریاست کے سربراہوں تک کو قتل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے امریکہ میں ایک نیا سیکورٹی نظام قائم کیا گیا ہے جس کا بجٹ ۳۹ارب ڈالر ہے اور جس میں ۲ لاکھ کے قریب عملہ ہوگا۔ ۱۸ ملکوں کو‘ جن میں ۱۷ مسلمان ممالک ہیں‘ ممکنہ دہشت گرد ملک سمجھ کر‘ ان کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلے پر امتیازی طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور مستقل نگرانی کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اس فہرست میں سعودی عرب اور پاکستان کا اضافہ سارے احتجاج کے باوجود ابھی دسمبر۲۰۰۲ء میں کیا گیا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک نیا شعبہ آگاہی اطلاعات (Information Awareness Office) کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی سطح پر جاسوسی کا ایک ایسا نظام قائم کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر پیش بندی کے نام پر اقدامات کا کاروبارچلے گا۔

افسر برائے آگاہی اطلاعات‘ ایسی اطلاعی ٹکنالوجیوں کے بارے میں سوچنے‘ ان کو نشوونما دینے‘ اُن کو بروے کار لانے‘ ان کو منضبط کرنے‘ اُن کی وضاحت کرنے اور اُن کی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا۔ اس طرح کی مکمل آگاہی پیش بندی‘ قومی سلامتی کے لیے تنبیہات اور فیصلہ سازی میں مفید ہوگی اور ہر طرح کے خطرات کا سدباب کرنے کا باعث ہوگی۔

اس کام کے لیے جن زبانوں کو فوری طور پر high terrorist risk زبانیں قرار دیا گیا ہے وہ عربی‘ پشتو‘ فارسی‘ دری اور مسلم ممالک میں بولی جانے والی دوسری زبانیں ہیں۔ اس ادارے کے ویب پیج پر جو تصویر دی گئی ہے وہ ایک باحجاب (اسکارف پہنے ہوئے) خاتون کی ہے جو فارسی میں ایک امریکی فوجی سے ہم کلام ہے۔ صرف اس ایک ادارے کے لیے      ۲۰۰ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں اور مشہور زمانہ سابق ایڈمرل جان پوائن ڈیکسٹر اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو صدر ریگن کے زمانے میں ایران کے معاملات کے سلسلے میں سزایافتہ ہیں اور امریکی کانگریس کے سامنے غلط بیانی اور اسے گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پانچ الزامات پر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ دی گارڈین ویک اینڈ‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

۵-  ایک محاذ جو اسی حکمت عملی کا حصہ ہے اس کا عنوان ’’جمہوریت کا فروغ‘‘ رکھا گیا ہے‘ خصوصیت سے عالم اسلام اور عرب دنیا میں۔ یہ کثیرجہتی پروگرام ہے جس میں ایک طرف ان ممالک میں اخبارات‘ رسائل اور میڈیا کو متاثر کیا جائے گا‘ تربیتی نظام قائم کیے جائیں گے اور متعلقہ افراد اور اداروں کو مالی وسائل اور دوسرے ذرائع فراہم کیے جائیں گے تاکہ امریکہ کے نقطۂ نظر کو عام کیا جا سکے اور راے عامہ کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکے۔ دوسری طرف ان ممالک کے تعلیمی اداروں کو ’’نئی روشنی‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان ممالک میں انسانی حقوق‘ عورتوں کی بیداری اور معاشرتی ترقی کے منصوبوں کو امریکی جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ این جی اوز اس کا خصوصی آلہ کار ہوں گی۔ ان ممالک میں حکومتوں کو ’’زیادہ جمہوری‘‘ بنانے کے لیے وہاں کی ’’ہم خیال‘‘ قوتوں کو مضبوط کیا جائے گا۔عراق میں جمہوریت لانے کے لیے وہاں کی حزب اختلاف کو لندن میں حال ہی میں جو منظم کیا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ عمل ان تمام ممالک کے لیے اختیار کیا جائے گا جہاں امریکہ تبدیلی ٔ قیادت کو ضروری سمجھتا ہے۔ اب تک جمہوریت کے معنی یہ تھے کہ ملک کے عوام اپنی مرضی کی قیادت منتخب کریں۔ اب جمہوریت کے معنی یہ ہوں گے کہ فوجی یا سیاسی عمل کے ذریعے دنیا کے ممالک میں ان قیادتوں کو ہٹا دیا جائے جو امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہیں اور ان کو زمام کار سونپی جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ فلسطین میں یاسرعرفات کا معاملہ ہو یا عراق‘ ایران‘ پاکستان‘ سعودی عرب یا کسی بھی ملک میں سیاسی قیادت کا--- اب امریکہ کو جمہوریت کے نام پر اپنی من پسند قیادت اوپر لانے کا اختیار ہے اور جسے وہ ناپسند کرے اسے ہٹانے کے لیے جو حربہ بھی وہ استعمال کرنا چاہے وہ جائز اور روا ہے۔ سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد شرق اوسط اور دوسری جنگ کے بعد افریقہ کا سیاسی نقشہ استعماری قوتوں نے بنایا جس کی سزا یہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں اسی طرح اب امریکہ نیا نقشہ بنائے گا۔ جنگ‘ سیاست‘صحافت‘ ڈپلومیسی‘ یہ سب اس کے ہتھیار ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ اس سے پہلے بوسنیا اور کوسووا میں جو تجربہ ہوا ‘ اور اب عراق میں جو کچھ کیا جانے والا ہے وہ سب اسی حکمت عملی کے شاخسانے ہیں۔

گارڈین کا مضمون نگار ٹموتھی ایش اس کا پورا نقشہ کھینچتا ہے:

یہ نیا جمہوری اور خوشحال عراق اپنے پڑوسیوں کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوگا جس طرح کہ مغربی جرمنی اور مغربی برلن سردجنگ کے زمانے میں اپنے غیرآزاد پڑوسیوں کے لیے تھے… پیش بیں سوچنے والے ایران کو جمہوری بنانے کے لیے نرم انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ پھر امریکہ کا مال دار‘ استبدادی دوست و حلیف سعودی عرب ہے‘ جس کے وہابی اسلام کے چشموں سے--- تیل کے چشموں کے ساتھ ساتھ‘ نفرت کے ان چشموں سے--- بہت سے دہشت گرد نکلے جنھوں نے ۹ستمبر کو امریکہ پر حملہ کیا۔ انتظامیہ میں کوئی بھی اس بات کو کھل کر کہنا نہیں چاہتا مگر عراق کو جمہوری بنانے کا واضح منطقی تقاضا سعودی عرب کو جمہوری بنانا ہے۔ اگر آپ اسلامی مچھروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان جوہڑوں کو خشک کرنا ہوگا جہاں وہ پرورش پاتے ہیں۔ گو کھلے طور پر نہیں‘ لیکن اقتدار کے بغلی کمروں اور راہداریوں میں اب لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پورے شرق اوسط کو نئے نقشے کے طابق بنانے کے لیے ولسن جیسے منصوبے پر عمل کیا جائے جس کا موازنہ تصور کی بلندی میں صرف یورپ کے لیے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۴۹ء کے منصوبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

اس نقشہ جنگ کے مختلف پہلو ہیں: عسکری‘ سیاسی‘ سفارتی‘ ابلاغی‘ نظریاتی اور تہذیبی۔ دوسرے پہلوئوں کے بارے میں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے اور اس تحریر میں بھی اس کے واضح اشارات موجود ہیں۔ البتہ جس پہلو کے بارے میں ہم ذرا کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں وہ نظریاتی اور تہذیبی ہے ‘ بالخصوص عالم عرب اور عالم اسلام کے بارے میں۔

ہزار کہا جائے کہ امریکہ کی یہ جنگ صرف تشدد کے خلاف ہے‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج اگر بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تشدد کی کوئی علامت ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ نہ بھارت کی جنتا پارٹی‘ ہندو بنیاد پرستی‘ تشدد اور خون آشامی کوئی مسئلہ ہے‘ نہ اسرائیل کی لیکود (likud) پارٹی کے شیرون کی فسطائیت کوئی قابلِ قدر مسئلہ ہے اور نہ شیشان میں روس کا ظلم و ستم ہی کسی زمرے میں آتا ہے بلکہ بھارت امریکہ کی اسٹرے ٹیجک دوستی ہمیشہ سے زیادہ مستحکم ہے۔ اسرائیل امریکہ کا اسی طرح چہیتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے  اقوام متحدہ کے مبصروں کی ہلاکت پر سلامتی کونسل میں مذمت کی قرارداد کو ۱۵ میں سے۱۲ ووٹ حاصل ہوئے اور دو کے غیر جانب دار ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکہ ویٹو کرکے اس ظلم میں شرکت اور اس کی سرپرستی کا اعزاز حاصل کر رہا ہے‘ اور سارے ظلم و زیادتی کے باوجود  اسرائیل کو روس کے صدر پیوٹن کی آشیرباد حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر عالم اسلام یہ نتیجہ نکالے کہ امریکہ کا یہ ساراکھیل صرف مسلمانوں کے لیے ہے‘ یعنی اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں تو اسے کسی طرح خلافِ حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ اس جنگ کا اصل ہدف مسلمان اور اسلام ہیں۔ اس بارے میں کسی غلط فہمی میں رہنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی پردہ تھا تو وہ صدربش کے قریب ترین مشیروں کے ہاتھوں تار تار ہو چکا ہے۔ ان کا ایک پالیسی ایڈوائزر کینتھ ایڈلمین ہے جو وزارتِ دفاع کے دفاعی پالیسی کے بورڈ کا رکن رکین ہے‘ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ صدربش نے جو اسلام کو ایک ’’امن پسند دین‘‘ کہا ہے وہ قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کے الفاظ میں:

To call Islam a peaceful relegion is increasingly hard argument to make.

اسلام کو ایک پُرامن مذہب قرار دینا ایک ایسی دلیل ہے جسے دینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس کا اعلان ہے کہ اسلام عسکریت پسند (militriastic) ہے۔ وہ یہاں تک کہہ گیا ہے کہ:

بہرحال اس کے بانی محمدؐ ایک جنگجو تھے‘مسیحؑ کی طرح امن کے علم بردار نہیں تھے۔

ایک دوسرے مشیرخاص ایلیٹ کوہن جو Johns Hopkin School of International Studies کے پروفیسرہیں اور اسی بورڈ کے رکن ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ امریکہ کا اصل دشمن ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ’’عسکری اسلام‘‘ (millitant islam)ہے۔

جارج بش کا دوست اور مشہور عیسائی خطیب پیٹ رابرٹسن تو دریدہ دہنی کی اس انتہا تک جاتا ہے کہ: ایڈولف ہٹلر برا تھا لیکن مسلمان یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔

جیری فال ویل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دہشت گرد‘‘ (نعوذ باللہ) کہنے کی جسارت کرتا ہے اور بلی گراہم کے صاحبزادے فرینکن گراہم جنھوں نے صدربش کی  افتتاحی تقریب میں بائبل پڑھی تھی اسلام کو "evil" قرار دیتے ہیں۔ ہم نے دل پر جبر کر کے یہ تمام حوالے اس لیے دیے کہ مسلمانوں کے سامنے امریکہ کی نظریاتی جنگ کا صحیح نقشہ آسکے اورڈپلومیسی کی زبان کے پیچھے جو اصل عزائم کارفرما ہیں ان کو سمجھنے میں کوئی التباس باقی نہ رہے۔

ایک طبقہ وہ ہے جو اس طرح کھل کر اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا رہا ہے اور امریکہ اور مغرب کی قیادتوں کو یقین دلا رہا ہے کہ اصل دشمن قوت اسلام ہے تو دوسرا زیادہ سمجھ دار طبقہ اس سے ذرا ہٹ کر یہ راستہ اختیار کر رہا ہے کہ اسلام اور موڈریٹ اسلام میں فرق کی ضرورت ہے۔ اسلام کو کھلے کھلے ہدف بنانا خلافِ حکمت اور ناقابلِ عمل ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے ان کے دین کو اس طرح چیلنج کر کے معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو بانٹنے‘ ان کے درمیان انتشار اور افتراق ڈالنے اور خود ان کو عسکری اور امن پسند‘ انتہا پسند اور معتدل‘ انقلابی اور موڈریٹ کے خانوں میں بانٹا جائے اور اندر سے نقب لگا کر ان کو اپنے رنگ میں رنگنے اور عالمی اقدار‘ جمہوریت اور آزاد روی (liberalism) کے نام پراپنے مفید مطلب کردار کے لیے تیار اور آمادہ کیا جائے۔ یہ اسلام پر سامنے سے   حملہ آور ہونے کے بجائے اسے اندر سے سبوتاژ کرکے اور مسلم معاشرے کو آپس میں بانٹنے اور لڑانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں انھیں اپنے اعوان و انصار کے طور پر خود مسلمانوں میں سے بھی کمزور ایمان و اخلاق والے عناصر اور ان افراد اور گروہوں کے تعاون کی توقع ہے جو مغربی استعمار اور تہذیبی یلغار میں اپنی دینی اور تہذیبی جڑوں سے کٹ گئے ہیں اور مغرب کے تہذیبی تصورات اور طور طریقوں کے دلدادہ بن چکے ہیں۔

اس جنگ کا ایک فکری محاذ ہے۔ اسلام کے بارے میں وہ سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا پچھلی صدی میں کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے تاکہ علم دین اور تہذیبی روایت کے یہ محافظ ڈانواڈول ہو سکیں۔ معاشی ترقی اور مادی سہولتوں کے نام پر ایسے منصوبے فروغ دیے جا رہے ہیں جو ایک مفاد پسند طبقے کو جنم دے سکیں اور وہ مغربی استعمار کا آلۂ کار بن سکے۔ اسلام کو مسجد اور گھر کی چار دیواری میں محصور کرنے اور دین و سیاست کے دائروں کو الگ الگ کرنے کا سبق پڑھایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام ہی کے ایک مطلوب کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلامی اداروں اور تحریکوں کو مادی اور مالی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے اور اسے مزید مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اسلامی سرگرمیوں کو مالیات فراہم کرنے کے آزاد ذرائع مفقود ہو جائیں اور صرف وہ میدان میںرہیں جو سرکار دربار کے ہم نوا ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند اہم حوالے صرف ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے دے رہے ہیں جو اب بھی امریکہ کی قیادت اور مغربی کوچہ گردوں سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔

امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال وال فووٹز نے لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں ابھی پچھلے مہینے اپنے خطاب میں سارے پتے کھول کر میز پر رکھ دیے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

جدید ترکی اس امر کا مظہرہے کہ ایک جمہوری نظام یقینا اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور ریاست سے مذہب کو جدا کیا جا سکتا ہے جو انفرادی نیکی کے ساتھ مکمل موافقت رکھتا ہے۔

اس خطبے میں موصوف نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ:

اسلام کی ایک اصلاح شدہ اور معتدل شاخ جمہوریت پر مبنی آفاقی اقدار کے نظام کی ایک شاخ کے طور پر سامنے آئے گی۔ اگر اقدار آفاقی ہوں گی تو تہذیبوں کا کوئی تصادم نہیں ہوگا۔

موصوف کو کون یاد دلائے کہ ترکی میں فوج سیکولرزم کے نام پر جمہوری قوتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے‘ کس طرح انھیں کان سے پکڑ کر پارلیمنٹ اور سیاست سے باہر کر رہی ہے اور پورے نظام کو اپنے فوجی بوٹ تلے دبائے ہوئے ہے۔ رہا معاملہ آفاقی اقدار کا‘ تو اگر موصوف اس میں ’’مغربی‘‘ کا اضافہ کر دیتے تو بات صاف ہو جاتی!

سارا مسئلہ ہی اسلام کو غیر سیاسی بنانے کا ہے جو خالص مغربی تصور ہے۔ اسلام تو اس کی ضد ہے  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

لیکن مغرب کا اسلامی دنیا میں ہدف یہی دین و سیاست کی تفریق ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا کے لیے امریکہ کی سفیرصاحبہ کے گھر پر منعقد ایک تقریب میں سفیرصاحبہ نے ساری بات ایک جملے میں ادا کردی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہم پاکستان کو ایک روادار‘ سیکولر ملک کے طور پردیکھنا چاہتے ہیں‘‘ (نوائے وقت‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ پس یہی کانٹے کی بات ہے۔

تھامس فریڈمین امریکہ کے ان صحافیوں میں سے ہے جو سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہے۔ سعودی ولی عہد نے فلسطین کے بارے میں اپنے خیالات اسی کے ذریعے امریکہ اور دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ وہ مسلسل لکھ رہا ہے کہ ہماری اصل جنگ اس اسلام سے ہے جو جہاد کے تصور کو دین کا حصہ سمجھتا ہے۔ وہ صاف لکھتا ہے کہ:

اگر پاکستان جیسی قومیں غربت میں زندگی گزارتی رہیں‘ اگر اُن کے عوام صرف ان مذہبی مدارس کے مصارف ہی برداشت کر سکتے ہوں جو صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر ہم خوف ہی کے عالم میں زندگی گزاریں گے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘  آئی ایچ ٹی‘ ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ:  Cause to worry)

اور اس سے بھی کھل کر اس نے نیویارک ٹائمز اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بالی کے واقعے کے بعد صدربش کی طرف سے مسلم ممالک کے تمام قائدین کے نام ایک فرضی خط کی شکل میں امریکہ کے پورے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی قیادت کو مطعون کرنے کے بعد بش کی زبان سے موصوف یوں گویا ہوتے ہیں:

آپ کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں--- میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق آپ کے درمیان اسلام کی ایک شدید  غیرروادار قسم کے عروج سے ہے جو محض اسرائیل کے خلاف ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ آپ کی ناکام ریاستوں‘ تیل کی ضائع شدہ دولت‘ شکستہ نظریات (ناصرازم) اور نسل درنسل آمریت اور ناخواندگی کا جواب ہے۔ یہ سخت گیر بنیاد پرستی جو مسلح اور ناراض ہے ایسا لگتا ہے کہ اب اعتدال پسند مسلمانوں کو بھی خوف زدہ کر رہی ہے۔ لیکن جن اقدار کی یہ تبلیغ کرتی ہے ‘ یہ آپ کے لیے تباہی لائیں گی اور ہمارے ساتھ تنازع کا باعث بنیں گی۔ جیسا کہ کیٹو (CATO) ادارے کے برنک لنٹسے نے نیشنل ریویو میں لکھا ہے: ’’کوئی مذہب جو قدیم کتابوں کا رٹا لگائے‘ ناقدانہ تجسس اور اختلاف کو دبائے‘ خواتین کو محکوم رکھے‘ اقتدار کے آگے غلاموں کی طرح جھکنا سکھائے‘ تہذیبی زوال کے علاوہ کسی چیز کا نسخہ نہیں ہے۔ وسط میں موجود شائستہ لیکن غیرسرگرم مسلمانوں کو اس سخت بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کرنا چاہیے۔

اور اس خط کو یوں ختم کرتا ہے:

دوستو! جب تک تم خود اپنی تہذیب کے اندر جنگ نہیں کرتے تو ہماری تہذیبوں کے درمیان جنگ ہوں گی۔ ہم ا س سے صرف ایک اور ۹ ستمبر کے فاصلے پر ہیں۔ اس لیے آیئے ہم تہیہ کرلیں کہ آیندہ برس ہم اپنے درمیان عدم روادری کے خلاف لڑیں گے تاکہ ہمارے باہمی تعلقات قائم رہ سکیں۔ (دی ایشین ایج‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۴)

اصل ایشو کیا ہے؟ اس کا اس سے واضح بیان اور کہاں سے حاصل ہوگا۔ اگر اس    پس منظر میں سعودی وزیرداخلہ کے اس بیان کو پڑھا جائے جو پچھلے ایک مہینے میں انھوں نے دو بار دیا ہے اور اخوان المسلمون کو اپنے سارے عتاب کا نشانہ بنایا ہے تو بات سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس لیے کہ سعودیوں کو بھی امریکہ کی قیادت اور صحافت نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا وار کر کے وہ اسے حواس باختہ کیے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف محض نام نہاد اور نامعلوم ’’دہشت گردوں‘‘ کی مالی معاونت نہیں‘ اس ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش ہے۔

امریکہ کے ایک دانش ور جن کا پالیسی ساز اداروں پر بڑا اثر ہے جم ہوگ لینڈ ہیں‘   وہ صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ:

دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ اور پیٹروڈالر کے وافر ذخائر کے غائب ہونے نے سعودی حکمرانوں کو فیصلے کی نازک گھڑی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اکیسویں صدی میں اپنی بقا کے لیے اُن کو دہشت گردوں اور رقمیں وصول کرنے والوں کے کام کو سرگرمی سے بند کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اُن کو تحفظ دیں اور رقم فراہم کریں۔ سب سے بڑی تبدیلی اپنے گھر میں آنی چاہیے۔ آل سعود کو وہابی فرقے کے ساتھ اپنے عہدکو ختم کر دینا چاہیے جس کو بادشاہت کی حمایت کے بدلے میں مملکت کے اجتماعی‘ اقتصادی اور سیاسی زندگی میں غیرمعمولی غلبہ حاصل ہے۔ وہابی علما نے اسلامی خیرات کو شرق اوسط اور وسط ایشیا میں دہشت گردی نفرت پھیلانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا۔ سعودی بادشاہت کو انتہا پسندوں سے دست کش ہوجانا چاہیے اور اُن کا جواز ختم کر دینا چاہیے… یا دنیا سے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امریکیوں کو سعودیوں کو دیانت داری سے بتا دینا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کی یہ واحد صورت ہے۔(آئی ایچ ٹی ‘۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

چلیے سعودی عرب کا تو قصہ پاک ہوا۔ اب باقی عالم اسلام کو لے لیجیے۔ ایک اور مشہور مفکر اور کالم نگار ولیم یف ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے عنوان سے صورت حال کی یوں نقشہ کشی کرتے ہیں:

مبصرین جب اسلامی دنیا میں جدیدکاری کے بحران پر گفتگو کرتے ہیں تو دراصل وہ تنازعے کی حقیقی وجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وجہ اسلامی معاشرے کی اور جدید مغرب کی اقدار میں عدم مطابقت ہے۔

مغرب کا غلبہ اور مادی رفتارِ ترقی ایک ایسے نظام اقدار سے علیحدہ نظر نہیں آتا جس کا مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنے اخلاقی تشخص کو ترک کر دیں۔ ایک تازہ کتاب میں برطانوی مصنف ریجر سکروٹن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم اسلام کو مغربی ٹکنالوجی‘ مغربی ادارے اور مذہبی آزادی کے مغربی تصورات کو رد کرنے کی کوشش کرنے کا الزام کیوں دیں جب کہ ان میں ان تصورات کو مسترد کیا گیا ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے: اللہ کا ناقابل تغیرفرمان جو اُن کے نبی پر نہ تبدیل ہونے والے مجموعہ قانون کی شکل میں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے نازل کیا گیا۔

آخر مغرب نے خود ہی سے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے موجودہ مذہبی تصورات کو بہ زور ختم کر دیا جائے‘ صرف اس لیے نہیں کہ وہ مغرب کو موافق نہیں آتے بلکہ اس لیے کہ مغرب یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ خودمسلمانوں کے لیے بھی مناسب حال نہیں۔

اسلامی حکومتوں پر مسلسل مغربی دبائو ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مغربی تصورات کے مطابق ہو جائیں اور آزادانہ اور ناقدانہ مذہبی فکر کی حوصلہ افزائی کریں۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اصل ایشو ہی یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا تشخص اسلامی رکھنا چاہتا ہے یا ’’ماڈرن اسلام‘‘ کے عنوان تلے اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے اور اس کے تہذیبی اور معاشی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ اصل جنگ ہے جو سیاست اور عسکری میدانوں میں لڑی جا رہی ہے اور فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اوراخلاقی میدانوں میں بھی۔ امریکہ اور اس کے کارندے ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ بات افغانستان پر فوج کشی اور نام نہاد امن فوج کی کارگزاریوں کی ہو یا عراق پرحملہ اور عمومی ماس کے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی مہم جوئی کی‘ پاکستان کے جوہری وسائل کا تعاقب ہو یا ایران پر جوہری صلاحیت کے حصول کے الزامات--- یہ سب تو سیاسی اور عسکری دبائو کا حصہ ہیں لیکن ان کے ساتھ معاشی ترغیبات و ترہیبات اور ثقافتی‘ تعلیمی اور ابلاغی جارحیت اس ہمہ جہتی جنگ کے اہم پہلو ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونی ورسٹی کے دفاعی اور اسٹرے ٹیجک مطالعات کے شعبے کے ڈائرکٹر ایل ڈنیورٹ نے جنگ کے اس محاذ کی یوں نقشہ کشی کی ہے:

ایک ایسی جنگ مذہبی مدارس اور ان کے ہوسٹلوں میں لڑی جانی چاہیے جو مستقبل کے انتہا پسندوں کی پرورش گاہ (incubator) ہیں۔ یہ جنگ جنوب مشرقی ایشیا کے ظہور پذیر سول سوسائٹی کے مدیران جرائد‘ اسکولوں کے اساتذہ‘ مذہبی رہنمائوں‘ سیاست دانوں‘ غیر حکومتی انجمنوں اور دیگر عناصر کو لڑنا چاہیے اور معتدل مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

نقشہ جنگ آپ کے سامنے ہے۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش بالکل اسی نوعیت کی کوشش ہے جیسی برطانوی استعمار نے اپنے عروج کے زمانے میں جہاد کے خلاف محاذ قائم کیا اور ایسی نبوتوں کی افزایش کی کوشش کی جو جہاد کو منسوخ قرار دیں تاکہ اس طرح برطانوی استعمار کے سائے میں زندگی کو عین اسلامی قرار دینے کی سعادت حاصل ہو لیکن جس طرح وہ حکمت عملی ناکام رہی اسی طرح یہ حکمت عملی بھی بارآور نہیں ہو سکتی۔

اصل نقشۂ جنگ کو سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس پر آیندہ شمارے میں اظہارِ خیال کیا جائے گا۔

 جس کی بہار یہ ہو‘ اس کی خزاں نہ پوچھ!

خدا خدا کر کے جمہوری عمل شروع ہوا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے‘ نتائج آنا شروع ہوئے تو اس طرح کہ جو علاقہ جتنا دُور تھا اس کا نتیجہ اتنا ہی جلدی آگیا اور جو جتنا قریب تھا وہاں کا نتیجہ آنے میں اتنی ہی دیر لگی اور شکوک و شبہات کا ایک دفترکھل گیا۔ جن علاقوں میں حزب اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ووٹوں کی تعداد ملکی اوسط کے قریب تھی اور جہاں سے سرکاری لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ڈبوں سے نکلنے والے ووٹوں کا اوسط ایک دم زیادہ تھا اور ریفرنڈم کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس بار انجینیری  زیادہ سمجھ داری سے کی گئی۔

لیجیے نتائج مکمل ہو گئے مگر پارلیمنٹ کی ولادت ہے کہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی التوا کا نیا دور شروع ہو گیا۔ پھر ووٹوں کی خرید وفروخت‘ لوٹوں کی آمدورفت‘ گھوڑوں کی تلاش و تجارت‘ پارٹیوں کی شکست و ریخت‘ غرض سارے ہی جتن پورے ہوئے اور بالآخر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگیا اور انتخاب کے ۶ ہفتے کے بعد مرکزی حکومت قائم ہوگئی خواہ ایک ووٹ کی اکثریت سے اور وزارت میں لوٹوں کی بھرمار کے ساتھ!

صوبہ سندھ کا معاملہ سب سے اہم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن تھا۔ سرحد میں جیسے تیسے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت بن گئی۔ پنجاب میں بھی جیسی بھی تھی اکثریت واضح تھی اور بڑی پارٹی ہی کی حکومت بنی۔ لیکن سندھ میں ساری کوشش تھی کہ سب سے بڑی پارٹی کی حکومت نہ بننے پائے اور اس کے لیے وہ وہ جتن ہوئے کہ شیطان بھی امان پائے۔ جوڑ توڑ‘ دھونس دھاندلی‘ وفاداریوں کی تبدیلی‘ نیب اور عدالتوں کے سزا یافتہ افراد سے معانقہ‘  جو نوگوایریا تین سال سے نظر نہیں آ رہے تھے ان پر یورش‘ جو عدالتوں کو مطلوب تھے ان کو سیاست کا چاند تارا بنانے کی سازش‘ فارورڈ بلاک کی تشکیل‘ نامزدگیوں کے وقت میں غیر قانونی تبدیلیاں‘ اسمبلی پر پولیس کی یورش اور ۱۰ گھنٹے کا محاصرہ‘ رکن اسمبلی کی اسمبلی کے احاطے میں گرفتاری اور ارکان اسمبلی بشمول خواتین ارکان کی مارپیٹ‘ جعلی ڈگریوں کی بازگشت‘ فوج کے باوردی اعلیٰ افسروں اور سول سروس کے سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف لینے والے ملازمین کی کھلی یوریش--- یہ سب ہوا اور بالآخر سندھ کی اسمبلی بھی وجود میں آگئی اور وزارت اعلیٰ کا ہُما ایک اقلیتی جماعت کے فرد کے سر پر آبیٹھا--- لیکن اس سارے معاملے میں جمہوریت کی جو تصویر اُبھر کر آئی وہ ایسی مکروہ تھی کہ اسمبلی کے درودیوار بھی شرمندہ ہوگئے ۔ چلتے پھرتے سیاست دانوں اور ان کی باگ ہلانے والے فوجی اور سول افسران کو شرم نہ آئی‘ ان کی غیرت کا رونا روتے ہوئے بے جان ایوان کی بجلیاں ضبط نہ کر سکیں اور شرم سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کہا تو یہی گیا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اسمبلی تاریکی میں ڈوب گئی--- تاریکی تو ایسی جمہوریت کامقدر ہے لیکن اس اسمبلی کے درودیوار نے اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا جس نے ۵۵ سال پہلے اسی ہال میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پورا اجلاس دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کی گونج سنی تھی۔

کیا یہی وہ جمہوریت کا جوہر (substance)ہے جس کی نوید جنرل پرویز مشرف نے دی تھی۔ کیا یہ اس "sham democracy" سے بدتر نہیں جس کی مذمت کرتے جنرل صاحب تھکتے نہ تھے۔ کیا جمہوریت کی بحالی کا یہی وہ وعدہ ہے جس کے ایفا کے اعلانات جنرل صاحب اور ان کے نامزد وزیراعظم کر رہے ہیں  ع

جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ!

لاہور کے قریب مناواں میں ڈاکٹر احمد جاوید خواجہ اور ان کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تعلق صرف ایک فرد یا خاندان سے نہیں بلکہ پوری قوم اور اس کی بنیادی اقدار کی پامالی سے ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں آج کے پاکستان کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔

واقعات کی پوری تصویرکشی اخبارات میں ہو چکی ہے۔ کس طرح نصف شب پولیس اور کسی دوسری سرکاری ایجنسی کے کارپرداز بیرونی ایجنٹوں کے ہمراہ ایک معزز گھرانے پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ چوکیدار کا سر پھاڑ کر گھر میں داخل ہو جاتے ہیں‘ عورتوں کو ایک کمرے میں بند کرا دیتے ہیں‘ تمام مردوں کو ہتھکڑیاں لگاکر اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔ تلاشی کے بہانے نقدی اور قیمتی اشیا پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یہ سب اسی طرح کہ نہ وزیراعلیٰ کو خبر ہے اور نہ وزیراعظم کو اطلاع---! چار افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دو کا ریمانڈ لیا جاتا ہے‘ باقی سب بھی غیرقانونی تحویل میں ہیں اور پولیس مزاحمت‘ ناجائز اسلحہ‘ فساد اور نامعلوم کس کس جرم کی ایف آئی آر کاٹنے میں مشغول ہے۔

اس شرم ناک واقعے پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل‘ ڈاکٹروں کی تنظیم سب ہی نے احتجاج کیا ہے اور قائداعظم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نے بھی صاف الفاظ میں مذمت کی ہے۔ معاملہ عدالت میں بھی چلا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے چند اصولی پہلوئوں کی طرف ملک و قوم کی توجہ مبذول کرائیں۔

ایک مہذب معاشرے کی پہچان اس کے شہریوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کا آج یہ حال ہے کہ کسی کی جان‘ مال اور آبرو محفوظ نہیں۔ ابھی ایک ماہ پہلے ڈاکٹر عامر عزیز کا اغوا ہوا اور چار مہینے زبردست احتجاج کے بعد رہائی عمل میں آئی۔ اسی زمانے میں کوئٹہ میں ایک غیرملکی ڈاکٹر کو ناجائز حراست میں رکھا گیا اور ہائی کورٹ نے اس پر سخت نکیر کی۔ اور اب بھی اسی قسم کا واقعہ لاہور میں ایک اور معزز ڈاکٹر اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ہوا۔

یہ سب کیا ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں؟ یہ حق کس کو ہے کہ جب چاہے کسی کے گھر میں داخل ہو جائے‘ عورتوں کو کمرے میں محصور کر دے‘ مردوں کو بے عزت کرے اور گرفتار کر لے۔ وارنٹ کے بغیر لے جائے اور غیرملکیوں کے سامنے تفتیش کے لیے پیش کر دے۔ اسلامی تو کیا کوئی مہذب معاشرہ بھی اس کا روادار نہیں ہو سکتا۔

دوسرا پہلو ہمارے اندرونی معاملات میں امریکہ کا عمل دخل ہے۔ اس کا تعلق ہماری آزادی اور قومی غیرت سے ہے۔ ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ ہو یا ایک سو‘ ہمارے معاملات میں ان کی اس طرح کی مداخلت‘ قومی آزادی کے لیے ایک چیلنج ہے اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی گوارا کرنا ممکن نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر پردہ ڈالنے اور حقائق کو چھپانے کے بجائے سیدھے سیدھے اقدام کرے اور امریکہ کو بتا دے کہ خفیہ اطلاعات میں تعاون ایک چیز ہے اور سی آئی اے اور ایف بی آئی کا ملکی معاملات میں عمل دخل بالکل دوسری شے۔ یہ دراندازی فوراً رکنی چاہیے اور قومی اسمبلی اور اعلیٰ عدالتوں کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ چودھری شجاعت حسین نے جو بات اپنے جذبات کے اظہار کی شکل میں کہی ہے ان کا اور ان کی حکومت کا فرض ہے کہ اسے عملاً نافذ کرے۔ یہ دراندازی امریکہ کے لیے بھی بہت مہنگی پڑے گی اور اس سے اس کے خلاف نفرت کے شعلے اور بھی بلند ہوں گے۔

تیسری بات کا تعلق ہماری پولیس اور ایجنسیوں کے رویے اور طریق واردات سے ہے۔ اگر کسی فرد سے پوچھ گچھ کرنا بھی ہے تویہ کام ایک شائستہ انداز میں بھی ہو سکتا ہے۔ قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔ دن کے وقت آپ کے افسر متعلقہ اشخاص سے ربط قائم کرسکتے ہیں اور ضروری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ آدھی رات کو سوتے ہوئے افراد پر حملہ آور ہوا جائے۔ سیدھے سیدھے ربط قائم کرنے کی بجائے دروازے توڑنے (gate crash) کا راستہ اختیار کیا جائے۔بدتمیزی اور بے تہذیبی کا ہر حربہ استعمال ہو۔ بچے اور بوڑھے میں تمیز نہ ہو۔ چور‘ ڈاکو اور مہذب شہریوں میں فرق نہ کیا جائے۔ یہ سارے ہتھکنڈے کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک لمحے کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔

اسی طرح پولیس کا یہ رویہ کہ جھوٹی ایف آئی آر درج کی جائیں‘ اپنی ہرزیادتی کے لیے بطور بہانہ مقابلہ اور مزاحمت کی داستانیں گھڑی جائیں--- یہ کھیل ۵۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے‘ اب اسے ختم ہونا چاہیے۔

نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی اور اس کا نوٹس لینا چاہیے بلکہ شہریوں کی تنظیموں کو بھی ان مسائل کو اٹھانا چاہیے اور سب کی عزت و تحفظ کے لیے مناسب ضابطہ کار تسلیم کرائے اور نافذ کرائے جانے چاہییں۔

سود کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ماضی کے ساہوکاری نظام میں تو یہ ظلم کا آلہ تھا مگر آج کے جدید بنک کاری نظام میں یہ خیر ہی خیر کا باعث ہے۔ اگر گہرائی میں جا کر موجودہ نظام کا مطالعہ کیا جائے تو سود آج بھی اسی طرح آلۂ ظلم ہے جس طرح ماضی کے ادوار میں رہا ہے۔ اس کا اندازہ انگلستان کے ایک تحقیقی ادارے Jubilee Research کی ایک تازہ رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو ترقی پذیر ملکوںکے سودی قرضوں کے بارے میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۰ء میں تمام ترقی پذیر ملکوں پر امیر ملکوں کا مجموعی قرض ۷.۷۲ ارب ڈالر تھا۔ اس میں اس وقت کا کل قرض اور جمع شدہ سود دونوں شامل تھے۔ ۳۰ سال میں یہ قرض ۷.۷۲ ارب سے بڑھ کر ۵.۲۵۲۷ ارب ڈالر ہو گیا ہے‘ جب کہ اس پورے عرصے میں یہ ممالک قرض کی اقساط بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ۳۰ سال میں یہ اضافہ ۳۵گنا ہے۔ آج کا قرضہ ان ممالک کی کل قومی پیداوار کے ۳۷ فی صد کے برابرہو گیا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ۷.۷۲ ارب ڈالر کے کل قرضوں کے مقابلے میں ۱۹۹۰ء میں‘ یعنی ۲۰ سال کے بعد صرف سود اور اداے قرض کی مد میں یہ ممالک ۸.۱۶۳ ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہے تھے جو اب سنہ ۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۹.۳۹۸ ارب ڈالر ہو گیاہے۔ گویا ۲۰ سال بعد اصل قرض سے ڈھائی گنا رقم صرف سالانہ سود ادا کرنے کی نذر ہو رہی تھی۔ ۲۰۰۰ء کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ اس سال بیرونی امداد کے نام پر جو رقم تمام ترقی پذیر ملک وصول کر رہے تھے وہ صرف ۶۵ ارب ڈالر تھی‘ جب کہ اس سال جو سود اور ادایگی قرض انھوں نے امیرملکوں کو کیا وہ اس سے ۷ گنا زیادہ تھا ‘یعنی ۹.۳۹۸ ارب ڈالر۔

کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ سودی قرضوں کا نظام دراصل ایک نیا غلامی کا نظام ہے جس کے ذریعے امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور وہ ان کا خون چوس رہے ہیں۔

کل کے ساہوکارکو ہر کوئی نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اسے ظالم سمجھتا تھا مگر آج کا ساہوکار محسن بن کر آیا ہے‘اور احسان جتا کر قرض لینے والے ملکوں کو لوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ معاشی جال میں پھنسا کر ان کی سیاسی آزادی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ جس معاشی ترقی کی خاطر قرض کا یہ سلسلہ چلا تھا‘ وہ ناپیدہے۔ افریقہ کے ممالک کی مجموعی پیداوار ان ۳۰ سالوں میں کم ہوئی ہے۔ غربت ہر جگہ بڑھی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہمالیہ صفت ہو گیا ہے۔ ان ممالک کی اشیاے پیداوار کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سود اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ کیا وہ وقت اب بھی نہیں آیا کہ سودی بنیاد پر قائم پوری معاشی حکمت عملی پر ازسرنو غور ہو اور معاشی ترقی کا کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو فی الحقیقت غربت و افلاس کو دُور کر سکے اور عوام کے لیے حقیقی خوش حالی ممکن ہو سکے۔

______________

قارئین کرام کی خدمت میں

ترجمان القرآن کا جو شمارہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں آپ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے کچھ تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ۷۰ برس پہلے ترجمان القرآن کا جو قدوقامت اس کے مؤسس مدیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترتیب دیا تھا اس پورے عرصے میں اس پر قائم رہنے کی کوشش کی گئی۔ کاغذ اور فن طباعت نے اس زمانے میں جو بھی کروٹیں لیں ترجمان ان سے متاثر نہ ہوا۔رسالے کا سائز وہی رہا ‘صفحات میں کمی اور اضافے کا سلسلہ ہوتا رہا۔ اب اس سلسلے میں ایک فیصلہ ناگزیر ہوگیا۔ جس سائز پر اب تک یہ شائع کیا جاتا رہا ہے اس میں کاغذ کی دستیابی کے علاوہ طباعت کی جدید سہولتوں کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اس لیے ادارے نے طے کیا کہ سائز میں تبدیلی کر دی جائے لیکن مطالعے کے لوازمے کی مقدار کو نہ صرف باقی رکھنے بلکہ اس میں کچھ اضافہ کرنے کے لیے صفحات کو بڑھا دیا جائے۔ اس لیے اس شمارے کا سائز پہلے سے چھوٹا ہے اور ہر صفحے پر ۲۵ کے بجائے ۲۳سطریں ہیں۔ ضخامت کے اعتبار سے ۸۸ صفحات کے بجائے ۱۱۲ صفحات پیش خدمت ہیں۔اس طرح سابقہ قیمت پر ہی ۲۴ صفحات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ترجمان القرآن کے اشارات کا بھی ایک اپنا ہی آہنگ ہے۔ اس کی ابتدا سید مودودیؒ نے ۷۰ سال پہلے کی تھی اور پھر برادران محترم نعیم صدیقی‘ عبدالحمید صدیقی اور خرم مراد نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے انداز میں اسے برقرار رکھا اور پروان چڑھایا۔ میں نے بھی مقدور بھر اسی کی کوشش کی اور دوستوں کے مختصر نگاری کے مطالبوں کے باوجود اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا کہ    ؎

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

اس اسلوب کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مہینے میں ایک ہی مسئلے پر بات ہوسکی اور بہت سے موضوعات جو دعوت کلام دیتے تھے رہ جاتے تھے۔ اب ایک جدت یہ کی جا رہی ہے کہ اشارات کے بعد چند شذرات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس عنوان کے تحت مدیر یا رفقاے ادارہ مختلف موضوعات پر نقدوتبصرہ کرسکیں گے۔ اس سے تنوع میں اضافہ ہوگا اور دوسرے لکھنے والے بھی ادارتی صفحات میں اظہار خیال کر سکیں گے۔ اس طرح ترجمان القرآن کی کہکشاں پر چاند اور تاروں کا سماں پیدا ہو سکے گا۔

یہ دونوں تبدیلیاں صوری اور معنوی اعتبار سے جدت کی طرف ایک قدم ہیں لیکن درحقیقت روایت ہی کے تسلسل کی علامت ہیں۔ گویا    ؎

فصل بہار آئی ہے لے کر رت بھی نئی‘ شاخیں بھی نئی

سبزہ و گل کے رخ پر لیکن رنگ قدامت آج بھی ہے

توسیع اشاعت کے سلسلے میں

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمان القرآن کی اشاعت کی توسیع کے سلسلے میں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ترجمان القرآن روزاول سے ایک پیغام کا علم بردار رسالہ ہے۔ اس کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ اس کے پیغام کو پھیلایا اور آگے بڑھایا ہے۔ آج جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں حقیقی اسلام کے احیا کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے اس کا آغاز اس صدی میں سید مودودی ؒکے رسالے ترجمان القرآن نے کیا۔

۱۴۲۳ھ کے آغاز پر ہم نے اسے توسیع اشاعت کا سال قرار دیا اور اپنے سب خیرخواہوں کو متوجہ کیا کہ اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر حلقے میں اشاعت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ ۱۴۲۳ھ کے اختتام میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں‘ ہم ایک دفعہ پھر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تمام رفقا نظم کی ہر سطح پر خصوصی منصوبہ بندی کر کے ممکنہ حد تک جو کچھ کر سکتے ہیں اس میں کمی نہ کریں۔

دورانِ سال کا ہمارا تجربہ اور تاثر یہ ہے کہ دل چسپی لینے والوں نے جہاں بھی کوشش کی اس کے نتائج بڑے مثبت آئے۔ ایک ایک جگہ ۵۰ سے زائد خریدار بنائے گئے۔ جب مرکزی منصوبے میں ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے تو ہرسطح پر اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جانی چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے (ایک آسان نسخہ کاغذ پر لکھنے کی حد تک تو یہ ہے کہ ہر خریدار ایک نیا خریدار بنا دے تو اشاعت دگنی ہو جائے گی)۔ ایسے فرد بھی موجود ہیں جو ۵۰۰ پرچہ لے کر فروخت کردیتے ہیں‘ لیکن اس سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں‘ تمام شہروں اور قصبات میں جہاں تحریک کا کام ہے‘ ایسے ۶۰ آدمیوں کے برابر کام ہو رہا ہے؟

جب ارادہ ہوتا ہے تو راستہ بھی نکل ہی آتا ہے۔ کرنے کے دس طریقے اور نہ کرنے کے سو بہانے۔ اس پرچے کو ایسے ہر شخص تک پہنچانا جو اس کا قدردان اور امکانی خریدار ہو سکتا ہے۔ متعلقہ افراد اور نظم کی ذمہ داری ہے۔ کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور نتائج دے گا۔ اس کا وعدہ ہے۔ تربت جیسے ضلع اور آزاد کشمیر کی ایک یونین کمیٹی میں ۵۰ خریدار بن سکتے ہیں تو زیادہ آباد‘ اور زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور شہروں اور قصبات میں ہزاروں کیوں نہیں بن سکتے؟

متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے بھی ایک خداداد موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اور ملک کے ہر گھرانے میں مجلس عمل موضوع ہے۔ جہاں ہم خود پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے‘ اسلام موضوع بن گیا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں تاکہ وہ ہماری کارکردگی صحیح معیار سے جانچیں۔ یقینا  ترجمان القرآن کا مطالعہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

حسن اتفاق سے ۲۰۰۳ء میں سید مودودی علیہ الرحمہ کی پیدایش کو صدسال مکمل ہو رہے ہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے دو ماہ میں ان کے رسالے ترجمان القرآن کا نئے حلقوں میں تعارف کروانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے خصوصی کوشش کریں۔ یاد کریں کہ ۷۰ سال قبل جب انھوں نے ترجمان القرآن کا آغاز کیا تھا تو اس کی اشاعت کس کس طرح اور کس جذبے اور محنت سے کی تھی۔ آج اس پرچے کو ہر طالب حق تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے‘ آیئے اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کوشش میں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔

ترکشِ مارا خدنگِ آخریں

برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کو درخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے ہیں--- !

علامہ اقبال گئے‘ مولانا اشرف علی تھانوی گئے‘ مولانا ابوالکلام آزاد گئے‘ مولانا شبیراحمد عثمانی گئے‘ سید سلیمان ندوی گئے‘ مفتی محمد شفیع گئے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن گئے‘ مولانا امین احسن اصلاحی گئے‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے--- اور اب مشرق سے اُبھرنے والے اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

محمد حمیدؒاللہ ۱۶محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونی ورسٹی سے‘ جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونی ورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیدؒاللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Muslim Conduct of State بنی۔جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون (Sorbonne) یونی ورسٹی سے عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ  میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔

اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک بار بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری (travel documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھیماہ کے اندر اندر انھیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخروہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی--- ہاں ان کے پاس ایمان‘ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز Centre National  de la Researche Scientifiqueسے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف    علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیے جوخطبات بہاول پور کے عنوان سے شائع ہوئے اوران کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور   یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔

میری نگاہ میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انھوں نے اسلام کو‘ جیساکہ وہ ہے‘ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف‘ تلاش و جستجو‘ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا‘ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورےpaying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!

ڈاکٹر حمیداللہ فکرونظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انھوں نے سلف کے نقطۂ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔

ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی دل چسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام  کثیرجہتی (multi dimensional) تھا۔ انھوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انھوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں‘ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ھمام ابن مُنبّہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآبؐ اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں تدوین کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اولین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ‘ہے انھوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ آپؐ کے غزوات‘ سفرہجرت‘ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب--- ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تادیر چراغ راہ رہیں گے۔

اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہؒ کی methodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انھوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما سے ماخوذ ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش  اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کی تحقیق میں انھوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضورپاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے‘ ان کی علمی دل چسپی کا بھی محور تھے۔

فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت پاکؐ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین   ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دُور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور اس کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلاپتلا اور سادہ سا فقیرمنش انسان پایا۔ اکہرا بدن‘ لمباقد‘ صاف رنگ‘ کتابی چہرہ‘ اوسط لمبائی کی مگر غیرکفی ڈاڑھی‘ پُرنور آنکھیں--- اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ‘ تواضع کا پتلا‘ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پائوں میں کھڑاوں--- پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آ سکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہوگا۔

حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دُور ہو گئی اور تبحرعلمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں‘ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی۔

پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پربالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصرحاشیے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کر رہا ہوں--- اور اس طرح صفحہ اور سطرکے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کراے پر لیا تھا‘ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی۔ انھوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانورکی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ ‘ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیّم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللّٰہ خیرا الجزائ۔

وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹرصاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیرمتعلق نہ ہو (اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا    ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹر حمیداللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے‘ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسیں--- ہر جگہ انھوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اورنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی اور ادبی اعزازات سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انھوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونی ورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے۔

ڈاکٹرحمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرمملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیش کش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر‘ علم و دعوت کی سیکڑوں شمعیں روشن کر کے‘ اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عبادالرحمن کے ابدی مسکن کو پا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے