پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین کا نام نہیں۔ پاکستان ایک نظریہ پہلے ہے اور ایک مملکت بعد میں۔۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے پاکستان نام کا کوئی خطۂ زمین دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھا لیکن ایک نظریہ تھا ،جو ایک قوم کو اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک خطۂ زمین پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ایک تاریخی جدوجہد میں سرگرم کیے ہوئے تھا۔ یہی وہ جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے، قائداعظمؒ کی قیادت میں اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے تصور نے ایک خطۂ زمین کی شکل اختیار کی۔ عالمی سیاسی بساط پر ایک ایسے ملک کا رُوپ دھارا جو صرف ایک قومی ریاست (نیشن اسٹیٹ) نہیں، بلکہ اپنی اصل میں ایک نظریاتی ریاست ہے۔یہ مغرب کی لادینی لبرل جمہوریت اور ایشیا کی اشتراکی ریاست اور بھارت کی سیکولر ریاست کے مقابلے میں ایک ایسے سیاسی تصور کے مظہر کے طور پر وجود میں آئی جس میں دنیوی مسائل کو حل کرتے ہوئے الہامی ہدایت اور اخلاقی قوت کی تسخیر کے ذریعے سب کے لیے عدل و انصاف، اخوت اور بھائی چارے اور حقوق و فرائض کی پاس داری پر مبنی نظام قائم کیا جاسکے۔
پاکستان کے تمام مسائل اور مصائب کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ قائداعظم اور قائدملّت کے بعد ملک کی زمامِ کار پر ایسے لوگوں نے قبضہ کرلیا، جن کا کوئی عملی کردار تحریکِ پاکستان میں نہ تھا۔ ملک غلام محمد، محمد علی بوگرا، جسٹس منیر، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان ایک دوسری ہی فکر کے علَم بردار، اورایک دوسرے ہی طرزِ زندگی کے گرویدہ تھے۔ انھوں نے نظریاتی نیشن اسٹیٹ کو محض ایک ’نیشن اسٹیٹ‘ (قومی ریاست) میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نظریاتی، معاشی اور تہذیبی کش مکش رُونما ہوئی۔ اس کش مکش نے قوم کو بانٹ دیا ہے اور وہ اصل منزل کی طرف یکسوئی اور یک جہتی سے گامزن ہونے کے بجاے مفادات کی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ قائداعظمؒ نے نہایت صاف الفاظ میں حصولِ آزادی کے بعد قوم کو یہی یاد دہانی کرائی تھی کہ:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ (۱۲جنوری ۱۹۴۸ئ، اسلامیہ کالج پشاور)
۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا:
جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گذشتہ ۱۰ برس جدوجہد کی ہے، آج اللہ کے فضل سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کو معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے، اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔
پاکستان کی طاقت کا سرچشمہ یہی وژن اور اس کو حقیقت کا رُوپ دینے کی انفرادی اور اجتماعی کوشش ہے، اور پاکستان کی کمزوری اور خلفشار کا سبب اس نصب العین اور منزل سے صرفِ نظر کرکے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہونے میں ہے۔
اس مرکزی اہمیت کے مسئلے پر ہماری اور پوری قوم کی توجہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے فل کورٹ (۱۷ ججوں) کے فیصلے نے مرکوز کرا دی ہے۔ اگرچہ فیصلے کا اصل موضوع دستور کی ۱۸ویں، ۱۹ویں اور ۲۱ویں ترامیم ہیں اور ان کے بارے میں اکثریتی راے سے وہ تلوار ہٹ گئی ہے جو ان ترامیم پر منڈلا رہی تھی۔ پارلیمنٹ کو بھی سُکھ کا سانس لینے کا موقع مل گیا ہے کہ ان ترامیم کو ردّ نہیں کیا گیا۔ عدالت بھی خوش ہے کہ اس نے اپنے اختیارات سے دست برداری اختیار نہیں کی، اور دفاعی ادارے بھی سُکھ کا سانس لے رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ملزموں پر مقدمات چلانے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ کوئی اسے عدالتی تدبر (judicious statesmanship) قرار دے رہا ہے، کسی نے اسے ’عدالتی حقیقت پسندی‘ (judicial pragmatism)کا نام دے دیا ہے اور کوئی اس پر ’عدالتی موقع پرستی‘ (judicial opportunism) کی پھبتی کی تہمت دینے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ بظاہر فیصلہ چند قانونی اور انتظامی اُمور سے متعلق ہے، لیکن ۹۰۲ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں بڑی اہم قانونی اور نظریاتی بحثیں کی گئی ہیں۔ بڑی عرق ریزی سے جج حضرات نے اپنے فیصلے لکھے ہیں۔ آٹھ ججوں کا مرکزی اور اجتماعی فیصلہ ہے اور اِس وقت کے چیف جسٹس سمیت نو ججوں نے الگ اپنے اپنے فیصلے لکھے ہیں اور پاکستان کے نظریاتی تشخص، قراردادمقاصد کے مقام اور کردار، دستور میں کسی ناقابلِ تغیر اساس کے وجود یا عدم وجود، عدالتوں کے کردار اور پارلیمنٹ کے دستور میں ترمیم کے اختیار جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ فیصلہ متفقہ نہیں لیکن اختلافی فیصلے (split judgement) کی وجہ سے بحث بڑی مفید، متنوع اور ہمہ جہتی ہوگئی ہے اور نقطہ ہاے نظر کے اختلاف اور امکانات کے تنوع نے سوچ بچار کے نئے گوشے وَا کرا دیے ہیں۔ یہ بات بھی باعث ِ مسرت ہے کہ بحث کا معیار بالعموم بڑا علمی اور باوقار ہے اور ان مباحث میں غوروفکر اور اختلاف و اتفاق کا بڑا سامان موجود ہے اور منظر یہ نظر آتا ہے کہ ع
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مباحث میں کچھ بڑے سخت مقامات بھی آگئے ہیں، جن پر نقدواحتساب، علمی بحث اور کھلے ذہن سے افہام و تفہیم کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے قومیں ترقی کرسکتی ہیں۔
دستور میں ۱۸ویں ترمیم اپریل ۲۰۱۰ء میں ہوئی تھی اور اس کے خلاف درخواستیں اس وقت سے عدالت کے زیرسماعت تھیں۔ دستور کی دفعہ ۱۷۵-اے کے بارے میں، جس کا موضوع اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کا تقرر تھا، عدالت کے ایک جزوی فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ نے ۱۹ویں ترمیم کی اور اسی طرح ۱۸ویں اور ۱۹ویں دونوں ترامیم عدالت کے زیرغور آگئیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دستوری چھتری فراہم کرنے کے لیے ’ضربِ عضب‘ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور تینوں افواج سے متعلق خصوصی قوانین میں اور خود دستور میں ۲۱ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں، تاکہ ایسی فوجی عدالتیں قائم ہوسکیں جن میں سول ملزموں پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ ان ترامیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور تقریباً ۳۹ درخواستیں(petitions) سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں، جن کے بارے میں فل کورٹ کا فیصلہ ۵؍اگست ۲۰۱۵ء کو سنایا گیا ہے۔
اگر مرکزی مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی مسائل تین ہی تھے: یعنی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کا نظام اور اس میں پارلیمنٹ کا کردار، ایسی فوجی عدالتوں کا قیام کہ جن میں کچھ خاص نوعیت کے الزام میں سویلین شہریوں پر مقدمہ چلایا جائے، اور غیرمسلموں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں پر تقرر کا طریقہ۔ پہلے اور تیسرے مسئلے کا تعلق ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم سے ہے اور دوسرے کا تعلق ۲۱ویں ترمیم سے ہے، لیکن بات صرف ان متعین مسائل کی نہیں تھی۔ عدالت کو زیادہ موضوعات پر بڑی گہرائی میں جاکر راے قائم کرنا پڑی اور اصل اہمیت ان بنیادی مسائل ہی نے اختیار کرلی، یعنی:
۱- کیا پاکستان کے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا متعین اور ناقابلِ تغیر حصے ہیں جو دستور کی اساس ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کا اختیار خود پارلیمنٹ کو بھی حاصل نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر دستورِ مملکت، بلاشبہہ ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد ہے، لیکن زمانے کی تبدیلیوں اور نئے مسائل اور مشکلات کے پیدا ہونے سے اس میں ترمیم و تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ: دستور اگر ایک قوم اور ملک کے اجتماعی نظام کا صورت گر ہے، اور اسے قوم نے ایک بنیادی فیصلے کے طور پر طے کیا ہے، تو اس میں کن چیزوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کون سی ایسی بنیادیں ہیں، جو قوم کی شناخت کے ان پہلوئوں کی حامل ہیں، جن کی تبدیلی سے اس کا وجود اور اجتماعی تشخص بھی مجروح ہوجاتا ہے؟ یقینا کچھ ایسے ناقابلِ تغیر حصے، اصول یا اقدار ہیں جنھیں پارلیمنٹ ترمیم کے نام پر تبدیل نہیں کرسکتی۔ ترمیم صرف جزوی معاملات کے بارے میں ہوسکتی ہے۔ اصل مقاصد کے حصول کی راہ میں اگر کچھ رکاوٹیں آرہی ہوں تو ان کو رفع کرنے کے لیے ہوسکتی ہے، لیکن قوم کے مقاصد اور نظریاتی اہداف، بنیادی حقوق اور اساسی اداروں، یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور ان کا توازن، یا ایسی ہی کچھ دوسری چیزیں ہیں، جو وجود کا درجہ رکھتی ہیں وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ نیز ان ناقابلِ تغیر حصوں یا اصولوں کا تعین کو ن کرے گا؟ کیا دستور خود یہ طے کرے گا یا دستور کی روشنی میں عدلیہ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے؟
۲- اگر دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا ناقابلِ تغیر اصول، اقداراور اہداف ہیں تو پھر ان کی حفاظت کیسے ہو؟ کیا پارلیمنٹ ہی ان کی واحد ذمہ دار ہے، یا دستور کے ان پہلوئوں کی حفاظت کی ذمہ داری میں عدلیہ کا بھی کردار ہے جسے قانون کی اصطلاح میں عدلیہ کے نظرثانی کرنے کا اختیار (judicial review) کہتے ہیں؟
۳- بنیادی حقوق کو دستور میں کیا مقام حاصل ہے؟ دستور نے ہی پارلیمنٹ پر یہ پابندی لگا دی ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی اور دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ متاثر افراد کی شکایت پر یا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نہ صرف نوٹس لے، بلکہ اگر کوئی قانون ان سے متصادم ہو تو اس کو خلافِ دستور قرار دے کر منسوخ کردے۔ لیکن کیا یہ اختیار اس صورت میں بھی حاصل ہے جب پارلیمنٹ عام قانون سازی نہیں، بلکہ کوئی ایسی دستوری ترمیم کرے جو بنیادی حقوق کو پامال کرنے یا مجروح کرنے کا سبب بن سکتی ہو؟
انسانی حقوق کی حفاظت اور عام افراد کے لیے عدل کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو۔ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی یا دستوری ترمیم کرسکتی ہے، جو عدلیہ کی آزادی کو مجروح کردے اور اس طرح وہ دستور کی حفاظت اور بنیادی حقوق کی ضمانت کا فرض ادا نہ کرسکے۔ نیز اگر ریاست کا کوئی نظریہ ہے، جیسے پاکستان کے دستور میں ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کی دفعہ۲ اور ۲-اے میں اسلام کو ملک کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی پر پابندی ہے، کیا ان حصوں میں بھی ترمیم ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا دفعہ ۲-اے کے نتیجے میں قانون ہی نہیں دستور کے بارے میں بھی عدالت یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ اس کی کچھ شقیں قرآن و سنت سے متصادم ہیں؟ یہ سوال بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ایسی ناقابلِ تغیر چیزوں کا تعین ہوگیا ہے یا خود اس بارے میں غوروفکر کا دروازہ کھلا رہے گا اور اس فہرست میں اضافہ یا کمی ہوسکتی ہے اور اگر ہوسکتی ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا___ یعنی کیا پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے، جو اس کو متعین کرنے کا کام انجام دے گی، یا اس میں پارلیمنٹ کا بھی کوئی کردار ہے، یا صرف پارلیمنٹ ہی یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے؟
اس بحث میں ایک بنیادی اور مشکل سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ترمیم کے معنی معمولی اور جزوی تبدیلیاں ہیں، جو اصل مقاصد کے حصول کے لیے ضرورت کے تحت یا مشکلات کو دُور کرنے کے لیے یا نئے امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کی جاسکتی ہیں؟ یا ترمیم کے معنی دستور کو re-writeکرنا، یا زیادہ خام لفظوں میں اس کی مکمل تنسیخ (abrogation) ،یا ایسی تبدیلیاں کرنا ہے جو اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیں، یعنیsubversion؟ اور اگر ترمیم اور تنسیخ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کیا جو ترامیم کی گئی ہیں ان میں کہاں معاملہ صرف ترمیم کا ہے اور کہاں بات تخریبی (subversive) حد تک پہنچ گئی ہے اور کہاں بات تنسیخ یا معطل کرنے (suspension) کی صورت اختیار کر گئی ہے؟
۴- ایک اور اہم مسئلہ وہ ہے جس کا تعلق ’نظریۂ ضرورت‘ سے ہے۔ جسٹس محمدمنیر کے زمانے سے آج تک یہ آسیب باربار سایۂ فگن رہا ہے۔ ملک غلام محمد کے پہلی دستوریہ کو تحلیل کرنے سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے دستور کو معطل کرنے تک، دستور پر بار بار یہ شب خون مارا گیا ہے، اور ہربار اعلیٰ عدالتوں نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لے کر ایسے اقدام کو جواز اور اعتبار (validation) فراہم کیا ہے اور پارلیمنٹ نے بھی بعد میں بہ امر مجبوری انھیں تحفظ دیا ہے، لیکن عدالت ِ عظمیٰ ہی نے کم از کم دوبار دوٹوک الفاظ میں ’نظریۂ ضرورت‘ کی نفی کی ہے۔ دستور کو منسوخ کرنے یا محض معطل کرنے کو اختیارات کا بدترین استعمال کہا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا قانونی تحفظ فراہم کیے جانے کو بھی وطن دشمنی یا غداری (high treason) قرار دیاہے، اور اس کے مرتکب کو غاصب (usurper) کہا ہے۔
اسماء جیلانی کیس میں چیف جسٹس حمودالرحمن کی صدارت میں عدالت نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا (۱۹۶۹ئ-۱۹۷۱ئ) کو ایسا ہی جرم قرار دیا تھا، اور ایک مقدمے میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں فل کورٹ نے ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خود پارلیمنٹ نے ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ۶ میں مزید ترمیم کر کے ’نظریۂ ضرورت‘ سے براء ت کا اعلان کیا تھا، لیکن کیا فی الحقیقت ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے؟ کیا بظاہر اس کا دروازہ بند کیا گیا ہے، مگر کھڑکی یا روشن دان کھلے ہیں، جن سے اس کے داخل ہوجانے یا دَر آنے کے امکانات موجود ہیں؟
یہ وہ بڑے ہی بنیادی مسائل ہیں جن پر اس موجودہ فیصلے میں معرکہ آرا بحثیں کی گئی ہیں، گو کوئی متفقہ فیصلہ نہیں آسکا۔ تاہم، اکثریتی اور اقلیتی فیصلوں کی شکل میں بحث کے تمام ہی اہم گوشے منقش ہوکر سامنے آگئے ہیں اور اس طرح اختلاف راے کے آئینے میں امکانات کی شکلیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
اگر ہم فیصلے کا خلاصہ پیش کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
(الف) اکثریت نے دبے لفظوں میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دستور کے کچھ حصے اور کچھ اصول اور اقدار جن پر دستور مبنی ہے وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ بھارت میں جس انداز میں بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو دستوری اصولِ قانون (constitutional jurisprudence) کا حصہ بنا دیا گیا ہے وہ کیفیت تو ہماری عدالت کے فیصلے میں نظر نہیں آتی، مگر اصول کی حد تک الفاظ بدل کر دستور کے بنیادی خدوخال (salient features) کی بات کو اکثریت نے تسلیم کیا ہے۔
(ب) اُوپر جس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس باب میں پارلیمنٹ کے اختیارات بسلسلہ ترمیم دستور کی تحدید ہوجاتی ہے، اور اس حد تک اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ دستوری ترامیم پر بھی نظرثانی کرسکے، جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی ترمیم کو دستور کے بنیادی خدوخال سے متصادم پائے تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
(ج) دستور کے بنیادی خدوخال کیا ہیں___ اس بارے میں کچھ نکات کو فیصلے کے مختلف حصوں میں بیان کیا گیا ہے، لیکن کوئی جامع فہرست اور مکمل تصویر نہیں دی گئی۔ بنیادی حقوق کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی اور حقوق اور دستور کی حفاظت کے باب میں اس کے کردار کو واضح طور پر دستور کے بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اسلام کو ملک کا مذہب تسلیم کرنے اور اس کے وجود کی اصل وجہ (raison d'etre) تسلیم کرنے کے باوجود کھل کر اسے دستور کے بنیادی خدوخال میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اس کا انکار نہیں کیا گیا ہے اور چند محترم جج صاحبان نے اپنے انفرادی فیصلے میں ’قرارداد مقاصد‘ اور دستور کی اسلامی دفعات کو بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا ہے، خصوصیت سے جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحبان نے بلاواسطہ یا بالواسطہ انداز میں قراردادِ مقاصد اور دفعہ۲- اے کو ایک مرکزی اہمیت دی ہے۔ آٹھ ججوں کے مشترک فیصلے میں اس کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے، حالانکہ عدالت کے دستوری ترمیم پر نظرثانی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جناب جسٹس ثاقب نثار نہ عدالت کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں اور نہ قرارداد مقاصد کوکوئی مستقل اور فیصلہ کن کردار دینے کا عندیہ دیتے ہیں، بلکہ ان کے فیصلے میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا قد کاٹھ کم کرنے ( belittle) کے متعدد پہلو پائے جاتے ہیں، جن پر ہم آگے کلام کریں گے۔
چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے بھی چونکہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مکمل اختیارات کا حامل قرار دیا ہے، اور اس ضمن میں عدلیہ کے کسی کردار کی نفی کی ہے، اس لیے وہ بھی ’قراردادِ مقاصد‘ کی فیصلہ کن حیثیت پر خاموش ہیں۔ اس طرح اکثریت نے بلالحاظ اس کے کہ وہ دستوری ترمیم کے باب میں عدالت کے نظرثانی کے حق کے قائل ہیں یا نہیں، کھل کر دستور کے بنیادی خدوخال میں ’قراردادِمقاصد‘ اور ’اسلامی دفعات‘ کا ذکر نہیں فرمایا۔ جناب جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد نے اسے ایک بھول قرار دیا ہے۔ خدا کرے یہ صرف بھول ہو، لیکن اگر یہ بھول ہے تب بھی کوئی معمولی بھول نہیں ہے، جلد ازجلد اس کی تلافی ہونی چاہیے اور ایسا ہونا ہی خوشی کی بات ہوگی!
(د) فوجی عدالتوں کے باب میں ۱۷ میں سے چھے جج صاحبان نے انھیں دستور کے خلاف قرار دیا ہے لیکن ۱۱ جج صاحبان نے دستور اور اس کی بنیادی حقوق کی دفعات سے انھیں متصادم تصور نہیں کیا۔ البتہ عدالت کے لیے جزوی نظرثانی کی کھڑکی ضرور کھول دی ہے، جو روشنی کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ نیز اس ترمیم کا ایک متعین مدت (دو سال) کے لیے ہونا بھی ایک مثبت پہلو ہے جسے عدالت نے اپنی راے قائم کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے۔
(ھ) غیرمسلموں کی اضافی نشستوں کے بارے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن چونکہ اکثریت نے آٹھویں ترمیم کو دستور سے متصادم قرار نہیں دیا، اس لیے اس سلسلے میں درخواست خود بخود غیرمؤثر ہوگئی ہے۔
ہم قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں اور عدالت کا فیصلہ ہی اس وقت کا قانون ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک پارلیمنٹ یا عدلیہ اس میں تبدیلی نہ کریں، لیکن دنیا بھر میں یہ بڑی صحت مند روایت ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ان پہلوئوں پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے، جن کا تعلق اصولوں سے ہو، یا ان اُمور سے متعلق ہوں جو عوامی اہمیت کے حامل ہیں، جیسے انسانی حقوق، معاشی حقوق، معاشرتی عدل اور معاشرے کے اخلاقی اور تہذیبی مسائل وغیرہ۔ اس فیصلے کے اختلافی فیصلہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ خود اعلیٰ عدالت میں مختلف آرا، بلکہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج کا اکثریتی فیصلہ کل کا اقلیتی فیصلہ بھی بن سکتا ہے اور آج کا اقلیتی فیصلہ کل کا اکثریتی فیصلہ۔ اسی طرح صرف علمی بحثوں میں ہی نہیں، عدالتی بحثوں میں بھی اکثریتی فیصلے کے ساتھ اختلافی فیصلوں کو بھی دلیل کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور ایسے فیصلوں کا حوالہ (quote) بھی دیا جاتا ہے۔ یہی وہ صحت مند روایت ہے جس کے ذریعے غوروفکر کا باب کھلا رہتا ہے اور علمی ترقی اور انصاف کی فراہمی دونوں میں مدد ملتی ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم فاضل عدالت کے ججوں کے لیے احترام کے بہترین جذبات کے ساتھ کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:
پہلی گزارش ’نظریۂ ضرورت‘ کے دوبارہ بڑی خاموشی سے سر اُٹھانے کے بارے میں ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ فیصلے میں ’نظریۂ ضرورت‘ کا کھل کر دفاع نہیں کیا گیا ہے، اور ایک ڈھکے چھپے انداز میں حالات کی سنگینی اور غیرمعمولی کیفیات کی بناپر، وقتی طور پر ایک محدود مدت کے لیے، کچھ نظرثانی کی گنجایش پیدا کرتے ہوئے،سویلین افراد کے لیے فوجی عدالتوں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کچھ گنجایش اس بنیاد پر نکالی گئی ہے کہ دستور میں عدالتی نظام میں کثرتیت (plurality ) پہلے ہی موجود ہے۔ اگر ’خصوصی عدالتیں‘ اور ’ٹریبونل‘ موجود ہیں، تو اسی چلن کے تحت وقتی طور پر تھوڑی سی گنجایش اور بھی پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں اس بنیادی بات کو شاید ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ دستور نے مرکزی نظامِ عدل سے ہٹ کر جہاں کہیں گنجایش پیدا کی ہے، وہ بھی بنیادی طور پر سول قانون ہی کی فراہمی کی ایک شکل ہے۔ جہاں تک قانون کے مرحلہ وار عمل (due process of law) کا تعلق ہے ،جو اَب دستور میں ایک بنیادی حق کے طور پر موجود ہے، اور جو اسلام کا بھی ایک مسلّمہ اصول ہے، اس باب میں نظامِ عدل میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں قانون کا بنیادی ڈھانچا اور قانونی عمل ایک ہی ہے، گو خصوصی میدانوں کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ اصولاً مختلف ہے۔ بلاشبہہ اس کے اپنے آداب اور قواعد ہیں ، لیکن شہری قانون (civil law) میں جسے ’قانونی مرحلہ وار عمل‘ کہا جاتا ہے اور جس میں گرفتاری کی وجہ، دفاع کا حق، اپنی مرضی کے وکیل کا انتظام، دورانِ حراست ضروری تحفظات، مقدمے کی کھلی سماعت و کارروائی، شہادتوں پر جرح کا حق، فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس فوجی عدالتی نظام میں یہ چیزیں نہیں ہوسکتیں۔
اصل ضرورت اس کی ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام کو ٹھیک کریں۔ تفتیش (investigation) اور استغاثے (prosecution) کو صحیح بنیادوں پر منظم کریں۔ ججوں، وکیلوں اور گواہوں کو تحفظ فراہم کریں۔ عدالتوں کی تعداد میں اضافے اور مقدمے کے لیے فیصلے کی مدت میں کمی، انصاف کی فراہمی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو بہتر بناکر وہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جو فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے ملزمان کو بھیجنے سے حاصل کیا جانا پیشِ نظر ہے۔ پھر قانون میں یہ بڑا سقم ہے کہ دہشت گردی کو بھی انواع و اقسام میں تقسیم کردیا گیا ہے، گویا مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ہے، اور نسلی، لسانی، معاشی، سیاسی اور دوسری بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ۔ یہ صریح امتیاز (discrimination) ہے جو انسانی شرف اور ہمارے دستور دونوں کے خلاف ہے۔
’نظریۂ ضرورت‘ نے اس قوم کو بڑے چرکے لگائے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ نظریہ کسی چوردروازے سے آکر ایک بار پھر ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل کی فراہمی کے نظام کو تہ و بالا نہ کردے۔
دوسرا اور اہم ترین پہلو جس پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں، اس کا تعلق دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور ترقی سے ہے۔ ہماری نگاہ میں ملک و قوم کے مستقبل کا انحصار اس مسئلے کے بارے میں صحیح موقف اختیار کرنے پر ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق اور پاکستان کے نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی میں اسلام کے کردار کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر ایک مخصوص طرز فکر کو منظم انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک خاص گروہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت فکری انتشار پھیلانے اور اسلام اور دینی قوتوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ضرورت اور بھی محکم ہوجاتی ہے کہ اس بارے میں قوم میں مکمل یکسوئی ہو۔دلیل، تاریخی حقائق اور قوم کے حقیقی جذبات و احساسات کی روشنی میں قوم، پارلیمنٹ اور عدالت ایک واضح راستہ اختیار کریں۔ ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس فیصلے پر نظرثانی کرکے وقت کی اس ضرورت کو پورا کرے گی۔ ہم مسئلے کی اہمیت اور نوعیت کی صحیح تفہیم کے لیے اصل مسئلے اور عدالت کے فیصلے میں اُٹھائے گئے سوالات کے بارے میں اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔ ہم دلیل سے بات سننے اور خود اپنی راے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ ہوں گے۔ ہماری درخواست اور دُعا ہے کہ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے فاضل جج بھی دلیل سے بات سننے اور اگر دلیل معقول ہو تو اپنی راے پر نظرثانی کرنے کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس کریں گے۔
پاکستان کا قیام محض تحریکِ آزادی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ ایک قوم کے حق خود ارادی کی بات، ایک نظریے کی بنیاد پر ایک علاقے کے حوالے سے تھی، یعنی قوم ایک نظریے کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک علاقے کو حاصل کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ہی قوم کی بنیاد تھا اور نظریہ ہی ریاست کی بنیاد بنا۔ قراردادِ مقاصد اس نظریاتی اور تاریخی حقیقت کا دستاویزی مرقع اور پاکستانی قوم کے ریاست سے عمرانی معاہدے کا اقرار و اظہار ہے۔ یہ روایتی طور پر دساتیر اور قوانین میں درج ہونے والے عام پیش لفظوں (preambles)سے قطعاً مختلف اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد دستاویز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دستور ہی نہیں، پاکستانی قوم اور ریاست کی زندگی میں اس کا ایک ایسا مقام ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں پائی جاتی اور جسے کوئی درہم برہم نہیں کرسکتا۔
’قراردادِ مقاصد‘ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تین اور دستاویزات کو بغور دیکھا جائے اور ان کے پس منظر میں قراردادِ مقاصد کے اصل پیغام اور مقام کو متعین کیا جائے:
اوّلاً: اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ دین و دنیا کی تفریق کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسولؐ صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ وہ بیک وقت بندے اور رب کے درمیان جہاں ایک روحانی اور اخلاقی تعلق کو استوار کرتے ہیں، وہیں انسانوں کے درمیان تعلقات اور سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے لیے بھی ایک واضح ضابطۂ کار فراہم کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عقیدے اور اجتماعی زندگی میں ایک ناقابلِ تنسیخ تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق اتنا بنیادی ہے کہ ایک کی کمزوری یا رشتے کی نوعیت کی تبدیلی واقع ہو، تو دوسرا رشتہ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عقیدے کے طور پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کو اسلام کے احکام کے مطابق ڈھالنے کا اہتمام ہو اور جو چیزیں اس میں مانع ہیں، ان سے نجات حاصل کی جائے۔
دوم: برعظیم پاک و ہند میں مسلمان مغرب کے لبرل جمہوری نظام کا حصہ بن کر اپنا دینی اور اجتماعی تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مسئلہ صرف مسلمانوں کے دنیوی مفادات اور سیاسی حقوق کا ہی نہیں، ان کے دین و معاشرت اور ان کے عقیدے اور ایمان کا بھی ہے۔ جن حالات سے مسلمان دوچار ہیں، ان میں ہندو اکثریت کے ساتھ مشترک قومیت اور مشترک سیاسی اور اجتماعی نظام کی صورت میں نہ ہماری تہذیب و تمدن کی بقا ممکن ہے اور نہ سیاست اور معاشرت کی اور نہ عقیدے اور ایمان کی حفاظت۔اس لیے نئی سیاسی تنظیم بندی اور سیاسی اقتدار کے لیے نئی علاقائی تشکیل ناگزیر ہوگئی ہے۔
سوم: اُوپر کے مقاصد کے حصول کے لیے جو قابلِ عمل راستہ ہے، وہ تقسیمِ ملک ہے، تاکہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں ان کو نئی سیاسی تنظیم کے ذریعے آزاد اور خودمختار ملک کی شکل دے دی جائے ،اور جن علاقوں میں ہندوئوں کی اکثریت ہے وہاں وہ حکمران ہوں۔
یہ ہیں وہ تین دستاویزات، جن کے خمیر سے قراردادِ مقاصد کی صورت گری کی گئی ہے۔ اس کا سلسلۂ نسب کسی اور طرف جوڑنا تاریخ اور حقائق دونوں سے زیادتی ہوگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے کم از کم ۱۳ بار پاکستان کے اسلامی تشخص اور تاریخی کردار کا کھل کر اظہار کیا، اور تقسیم سے قبل ۱۰۰ سے زیادہ بار جو تصور انھوں نے دیا تھا اور جس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ایک نیا عزم، نئی زندگی اور نئی جدوجہد پر کمربستہ کیا تھا اس کا اعادہ کیا۔ جوافراد اس مشن اور منزل سے انحراف یا اغماض کی باتیں کر رہے تھے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
اس پس منظر میں پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر اس امر پر کھلا اظہارِ خیال ہوا کہ دستور کو کیسا ہونا ہے، اس کو ایک قراردادِ مقاصد کی شکل میں دستور کے بننے سے پہلے مرتب کر دیا جائے، تاکہ پاکستان کی منزل کا تحریکِ پاکستان کے اوّلیں ذمہ داران کے ہاتھوں دستوری زبان میں تعین کردیا جائے۔ اس زمانے کے اخبارات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے سیکڑوں قائدین اور کارکنوں اور علماے کرام کی بڑی تعداد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ریاست کے اسلامی کردار کے بارے میں دستوری زبان میں جلد از جلد اظہار و اعلان کیا جائے۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا اکرم خان کے مشورے سے جناب لیاقت علی خان اور ان کے رفقا خصوصیت سے جناب عبدالرب نشتر، جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ایک مسودہ تیار کیا، جس پر پارلیمنٹ سے باہر اہلِ علم سے بھی مشاورت ہوئی۔ میں گواہ ہوں کہ اس کا مسودہ پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کے ذریعے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا اور انھوں نے اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔
قراردادِ مقاصد محض ایک دستوری دیباچہ (preamble) نہیں بلکہ ایک مستقل دستوری دستاویز ہے اور ’میگناکارٹا ‘کی طرح اپنا منفرد وجودرکھتی ہے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور پاکستان میں کن بنیادوں پر اور کن خطوط پر اجتماعی نظام کا قیام عمل میں آئے گا، اس کے تمام ضروری خدوخال واضح کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ان بنیادی خدوخال کی روشنی میں دستور بنانے کی ہدایت (direction) دی گئی ہے، جو محض ایک خواہش یا نظری تمنا نہیں، بلکہ واضح طور پر ایک قانونی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی زبان، اس کی ترتیب، اس کے مندرجات ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام دساتیر میں پائے جانے والے دیباچوں سے اس کا موازنہ کر لیجیے، یہ سب سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پاکستان میں بنائے جانے والے تمام دساتیر میں بطور دیباچہ یہ شامل ہے، وہاں اس کی اپنی ایک مستقل بالذات حیثیت ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اور پھر ۱۹۸۵ء میں ترمیم کے ذریعے بطور دفعہ ۲-اے شامل ہوجانے سے، اس کے قانونی کردار میں اگر کوئی ابہام تھابھی، تووہ دُور ہوچکا ہے۔
قراردادِ مقاصد پہلی دستوریہ میں بڑی اچھی فضا میں کھلی بحث کے بعد منظور کی گئی۔ تمام مسلمان ارکانِ پارلیمنٹ نے اس کی تائید کی اور چند نے بڑی جان دار تقاریر کیں، جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ صرف کانگریس کے ارکانِ اسمبلی نے مخالفت کی، اور اس طرح ایک بار پھر وہی منظر دنیا نے دیکھ لیا، جو تقسیم سے قبل تحریکِ پاکستان کے دوران شب و روز نظر آتا تھا___ مسلمان اپنے ایمان، نظریے اور نظامِ زندگی پر مبنی شناخت کی بنیاد پر ایک فریق اور ہندو اور سیکولر قوتیں دوسرا فریق۔ مسلمانوں میں علما بھی تھے اور لبرل بھی، لیکن سب یک زبان تھے۔ مولانا شبیراحمدعثمانی ؒ سے لے کر میاں افتخارالدین صاحب تک سب نے اس قرارداد کے حق میں پورے جذبے اور جوش سے بڑے محکم دلائل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا اور کانگریس کے ہندو ارکان نے اپنے تاریخی اور روایتی موقف کے مطابق اختلاف کا اظہار کیا۔ کانگریس کے ارکان نے درجن بھر ترامیم بھی پیش کیں، جو اکثریت سے رد کردی گئیں۔ پھر قرارداد منظور ہوئی، لیکن اس پر کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی۔ اس لیے اسے دستور ساز اسمبلی کی متفقہ قرارداد بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس کی تائید کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اس کے ذریعے ملک کی منزل اور ترقی کا رُخ متعین کردیا اور اس کی شکل میں اللہ کی حاکمیت کا ابدی اور سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے اظہار کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ملک کی قیادت نے اللہ کی حاکمیت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کے اندر اپنی آزادی اور اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تشکیل کا عہد کیا اور پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ ان خطوط پر نیا دستور مرتب کرے۔ یہ محض ایک خواہش کا اظہار نہ تھا، جیساکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی اپنے وضاحتی نوٹ میں لکھا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ وہ ایک واضح رہنمائی (direction) ہے اور اس حیثیت سے وہ خود بھی ایک حکم (order)کا درجہ رکھتی ہے اور اس میں جو اصول طے کیے گئے ہیں، وہ بھی اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتے ہیں، جو ایک تاریخی عمرانی معاہدہ ہیں اور جن میں کسی کو بھی تغیر و تبدیلی کی اجازت نہیں۔ وہ اصول کیا ہیں؟ پہلے ان کو ذہنوں میں تازہ کرلیں تاکہ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان اور اس کا دیا ہوا پاکستان کا وژن واضح ہوجائے:
۱- قراردادِ مقاصد کا سب سے اہم حصہ اس کا ابتدائیہ ہے، جو پوری قرارداد کے رُخ اور خطوطِ کار کو متعین کرتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ پوری قوم، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے واضح اور مستقل ہدایات کی بنیاد فراہم کرتا ہے:
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت ِغیرے حاکمِ مطلق ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت ِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے۔
اس تمہید پر جو اساس ہے، غور کیا جائے تو پاکستان کا خصوصی اور امتیازی کردار واضح ہوجاتا ہے:
۱- سیکولر تصورِ زندگی کے مقابلے میں یہ زندگی کا ایک بالکل دوسرا تصور ہے کہ کائنات کا اصل حاکم اللہ تعالیٰ ہے، انسان کی حیثیت اس کے خلیفہ کی ہے۔ جو انسان اس خلافت کی ذمہ داری کو قبول کریں وہ مسلمان ہیں اور اس حاکمِ مطلق کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور زندگی کا نظام چلانے کا عہد کرتے ہیں۔
۲- اس تصور کا تقاضا ہے کہ زندگی اور حکمرانی کا پورا نظام اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر اور اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے اور یہ ہدایت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں ہے، کوئی دائرہ اس سے باہر نہیں۔
۳- اجتماعی زندگی میں حکمرانی کا یہ اختیار کسی خاص فرد، خاندان، گروہ یا طبقے کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ اختیار ملک کے تمام عوام کو دیا گیا ہے، جن کی مرضی سے اور جن کے منتخب نمایندوں کے ذریعے اسے انجام دیا جائے گا۔
۴- زندگی اور تمام وسائل کی حیثیت ایک امانت کی ہے اور امانت کے تصور میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں کہ جس نے یہ امانت دی ہے اصل فیصلہ کرنے والا وہی ہے اور اس امانت کو اس کی ہدایت کے مطابق ادا ہونا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ اس امانت کے ساتھ جواب دہی بھی لازمی ہے اور اس فریم ورک میں یہ جواب دہی دُہری ہے، یعنی ایک اللہ کے سامنے اور دوسرے عوام کے سامنے جن کے ذریعے اس امانت کو استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
۵- آخری چیز یہ ہے کہ اس طرزِ حکمرانی اور طریقۂ فیصلہ سازی کا اطلاق ریاست اور اس کے تمام اداروں پر یکساں ہے۔ ریاست کے لفظ کا استعمال یہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں اختیار عوام کو دیا گیا ہے وہیں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے دائرے میں اس امانت کے امین اور اس کے سلسلے میں جواب دہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ جس مثالیے ( paradigm) کو اس قرارداد میں پیش کیا گیا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک اُمت کا یہی نقطۂ نظر رہا ہے۔
چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس مسلمانوں کے اس امتیازی طرزِعمل کو یوں بیان کرتے ہیں:
اسلامی ریاست کی بنیاد خود مذہب کی آمد کے ساتھ ہی رسولؐ اللہ کو اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کے ذریعے مکمل جزئیات کے ساتھ ڈال دی گئی تھی۔ جن کو ایسی روشن بصیرت، فہم کی گہرائی اور ذہنی قوت مرحمت کی گئی تھی کہ ۱۰سال کے مختصر عرصے میں قرآنی ہدایت اور رسولؐ اللہ کے عمل کی روشنی میں حکومتی نظم و ضبط، قانون اور خارجہ اُمور چلانے کے اصول، یعنی ایک ایسی سلطنت کے تمام لوازمات جو پورے عرب پر حاوی تھی، بیان کردیے گئے تھے۔(Chief Justice Cornelius of Paksitan: An Analysis with Letters and Speeches، مرتبہ:رالف برے بنٹی، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ئ، ص ۲۸۹)
خود قائداعظم نے عثمانیہ یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تصورِ ریاست کو اس طرح واضح کیا تھا:
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآنِ مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے۔ (ملاحظہ ہو: قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ مرتبہ: حمیدرضا صدیقی، ناشر:کاروان، لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص ۸۱)
قراردادِ مقاصد کے محرک جناب لیاقت علی خان نے قرارداد پیش کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ بھی قرارداد کی منظوری کے اُس موقعے کو ملک کی زندگی کااہم واقعہ سمجھتے تھے: ’’اہمیت کے اعتبار سے صرف حصولِ آزادی کا واقعہ اس سے بلند تر ہے‘‘ کہہ کر انھوں نے فرمایا تھا:
پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ برعظیم کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے کہ آج حیاتِ انسانی کو طرح طرح کی جو بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے اسلام ہی اکسیراعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔
انھوں نے میکیاولی کے تصورِ سیاست کے مقابلے میں اسلام کے اصولِ حکمرانی کی بنیاد پر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور صاف الفاظ میں کہا: ’’ہماری ریاست کی بنیاد یہ ہے کہ تمام اختیار اور اقتدار ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے اور اس طرح مملکت کے وجود کو خیر کا آلۂ کار ہوناچاہیے، نہ کہ شرکا‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمانی موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام (انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہوسکے‘‘۔
ہماری ان گزارشات سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کوئی روایتی قرارداد یا محض ایک دستور کے لیے مقدمہ نہیں تھی، بلکہ ایک نئے تصورِ زندگی کو ریاست کی بنیاد بنانے کا اعلان اور اس اعلان کے مطابق ایک دستور کی تدوین اور نظامِ حکمرانی کے قیام کے لیے واضح اور حتمی حکم نامہ ہے۔
یہاں ضمناً ہم یہ وضاحت بھی کردیں کہ قراردادِ مقاصد کے اصل مسودے میں لفظ ’اسٹیٹ‘ موجود ہے اور اب بھی دستور کی دفعہ ۲-اے میں جس قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے، وہ قرارداد انھی الفاظ کے ساتھ ہے، جو ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو دستورساز اسمبلی میں منظور کی گئی تھی اور جس میں سے ’’اسٹیٹ‘‘ کے لفظ کو نکلوانے کے لیے کانگریس کے رکن جناب پروفیسر چکرورتی نے ایک ترمیم پیش کی تھی، کہ اسے ’عوام‘ سے بدل دیا جائے جو اس وقت منظور نہیں ہوئی تھی۔ آج بھی یہ اصل ’قراردادِ مقاصد‘ میں موجود ہے۔ دستور کے ضمیمے میں جو قرارداد دی گئی ہے، وہ انھی الفاظ میں ہے جن میں وہ اصلاً منظور کی گئی تھی۔ اس میں ’ریاست‘ کے ساتھ ’عوام‘ کا ذکر بھی ہے۔ البتہ، بعد میں جب دستور میں اس قرارداد کو بطورِ دیباچہ شامل کیا گیا تو ’ریاست‘ کا لفظ نکال دیا گیا۔ ضمناً یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ یہ تبدیلی ۱۹۵۶ء کے دستور میں کی گئی تھی اور فاضل جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ تبدیلی ۲۴سال بعد ۱۹۷۳ء میں کی گئی ہے۔ ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء دونوں کے دساتیر نکال کر دیکھ لیں ان میں ’ریاست‘ کا لفظ نہیں ہے۔ میری ذاتی راے میں ’ریاست‘ کا لفظ رہنا چاہیے تھا، اس لیے کہ عوام کے ذریعے اس اختیار کے استعمال کی بات قرارداد کے دیباچے اور آگے کی ہدایات دونوں میں موجود ہے۔
قراردادِ مقاصد کا اصل جوہر اور اساس یہی تصورِ کائنات، تصورِ زندگی اور سیاسی نظام کا تصور ہے اور یہ جدید عالمی سیاسی تناظر میں ایک حقیقی مرکز ثقل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ایک تبدیلی سے ہر چیز بدل جاتی ہے کہ اب ہماری آزادی ان حدود کی پابند ہوجاتی ہے، جو قرآن و سنت نے ہمارے لیے متعین کی ہیں۔ آزادی برحق اور عوام کا یہ اختیار کہ وہ ہی حکمرانوں کا انتخاب کریں اور ان کا احتساب کریں اپنی جگہ مسلّم، لیکن عوام اور اربابِ اقتدار، افراد اور ادارے سب حدود اللہ کے پابند کردیے گئے ہیں۔ سب کو وہ مقصد اور مشن دے دیا گیا ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؑ بھیجے اور جس کا مکمل ترین اظہار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، تعلیمات اور نمونے میں ہے۔
قراردادِ مقاصد کی باقی تمام شقیں اس بنیادی اپروچ کی وجہ سے بالکل مختلف معنویت رکھتی ہیں اور اگر الفاظ میں دنیا کے دوسرے دساتیر سے کچھ مماثلت نظر آتی ہے، تو وہ بھی صرف ظاہری ہے۔ جوہری اعتبار سے ان سب کا مفہوم حدود اللہ کی وجہ سے بدل جاتا ہے۔ ویسے تو شکل و صورت کے اعتبار سے ایک مسلمان اور کافر میں بہت سی چیزیں مشترک اور مماثل ہیں، لیکن تصورِ زندگی اور حلال و حرام کی حدود دونوں کو دو مختلف شخصیتیں بنادیتے ہیں۔ اسی طرح قراردادِ مقاصد اور خصوصیت سے اس کے اساسی عقیدے نے ہر چیز کا رُخ بالکل بدل دیا ہے۔
۲- قراردادِ مقاصد نے اس بنیادی حقیقت اور پاکستان کے دستور اور حکمرانی کے لیے نئے مثالیے کی نشان دہی کے بعد پاکستان کے سیاسی نظام کا جو نقشہ دیا ہے وہ یہ ہے:
۱- مملکت اپنے اختیارات اور اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
۲- جمہوریت، آزادی، مساوات ، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا۔
۳- جس کی رُو سے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے لائق بنایا جائے گا۔
۴- جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ نیز اقلیتوں اور پس ماندہ طبقوں کے جائز حقوق کو تحفظ ملے گا۔
۵- جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہارِ خیال، عقیدہ و دینی عبادات اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
۶- جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا جن میں اس کے برو بحر و فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
ان چھے بنیادوں پر پاکستان کی علاقائی سالمیت اور عوام کی خوش حالی اور اقوامِ عالم میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرنے اور امنِ عالم کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کے مقاصد کے حصول کو ملک و قوم کا ہدف اور منزل مقرر کیا گیا۔
واضح رہے کہ قرارداد میں نظریاتی ریاست کی تشکیل کے باب میں ابتدائیہ کے علاوہ: دو دفعات نظریاتی ریاست میں مسلم معاشرے کی تشکیل سے متعلق ہیں، اور دو دفعات غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ ایک دفعہ عوامی نمایندہ حکومت اور عوام کے سرچشمۂ قوت ہونے کے بارے میں ہے۔ ایک کا تعلق سب شہریوں کے لیے بنیادی حقوق کی ضمانت سے ہے۔ ایک عدلیہ کی آزادی کے بارے میں ہے، ایک علاقائی حدود کے تعین اور ان کی حفاظت سے متعلق ہے، اور ایک مملکت کے وفاقی نظام کی وضاحت کرتی ہے۔ یہی تمام پہلو دستور کے وہ بنیادی خصائص (features) ہیں، جن سے ہمارا سیاسی اور تہذیبی وجود عبارت ہے اور جن میں کوئی تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ قرارداد اور دستور کے یہ پہلو ہر چیز پر غالب اور حکمران ہیں اور ان کی حفاظت عوام، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔(جاری)
بلاشبہہ قومی ریاستیں اپنی خود مختار حیثیت سے، اپنے شہریوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا حق رکھتی ہیں۔ لیکن کیا، قوموں کی زندگی اور ان کے وجود کے لیے محض ’معاشی نفع‘ ہی آخری معیار ہوتا ہے؟ دنیا میں قوموں کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ کئی حوالوں سے محض معاشی فلاح کو اوّلین حیثیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تاریخی، تہذیبی، نظریاتی یا فکری پس منظر اور اس سے وابستہ امور بین الاقوامی تعلقات میں فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ اکثر یہ پہلو حد درجہ غالب رہتا ہے، جب کہ معاشی پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
گذشتہ دنوں (۱۶،۱۷؍اگست) بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی بنیادیں موجود ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کے پروان چڑھتے بلکہ پرجوش بڑھتے ہوئے تعلقات میں بھارتی قومی مقاصد اور عرب یا مسلم دنیا کے مفادات و مقاصد، کون سی نزاکت رکھتے ہیں؟
یوں تو شروع ہی سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ایک خفیہ تاریخ ۱۹۵۰ء سے موجود تھی، جب اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور عملاً تجارتی اور عسکری میدانوں میں تعاون بھی ایک حقیقت تھا۔ نام نہاد ’ناوابستہ ممالک تنظیم‘ (NAM) کا رکن ہونے کی بنا پر بھارت نے ان تعلقات کو چھپائے رکھا۔ مگر ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑنے کی مہم میںبھارت نے کھل کراسرائیل سے مدد مانگی اور اپنے یہودی جرنیل جنرل جیکب کو اس مقصد کے لیے صہیونیوں سے تعاون لینے کی ذمہ داری سونپی۔ تاہم، گذشتہ ۱۰برسوںکے دوران میں ’بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی کی ایک لہر، منظر پہ چھائی نظر آتی ہے، جس میں اسلحے کی خرید، جنگی تربیت، تحقیقاتی تعاون اور جوہری مہارتوں کے تبادلے میں حد درجہ ابھار آیا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مختصر رپورٹ India Israel Defense Co-operation کے مطالعے سے کئی پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر الویت سنگھ نے لکھی ہے، اور بارالانا یونی ورسٹی، اسرائیل کے ’دی بیگن سادات سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، کے تحقیقی مجلے Perspectives (۲۷؍جنوری۲۰۱۴ئ) نے شائع کی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے بھارت نے اسرائیل سے ’ری کونا سینس اینڈ آبزرویشن سسٹم‘ (LORROS) خرید کر مقبوضہ کشمیر میں جابجا نصب کیے ہیں، تاکہ کشمیری جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے ۸لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ایک ایک کشمیری کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔
اسی طرح عالمی امور کے ماہر بھارتی نژاد کنشک تھاروا نے ۳؍اگست۲۰۱۴ء کو الجزیرہ امریکا کے لیے اپنے تجزیے میں بھارت اسرائیل تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’ان دونوں ممالک کے درمیان خصوصی تعلقات ہیں اور ان کا ہدف بھی ایک ہے۔ اسرائیل، روس کے بعد دوسرے نمبر پر بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔مزید برآں اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہی ہے۔ بھارت نے بڑی چابکدستی سے عربوں میں دوستی کے تعلقات کی جڑوں کو گہرا کیا ہے، مگر اب تک وہ عرب ممالک پر زور ڈال کر، پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا‘‘۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں نریندرا مودی کے دورئہ اسرائیل کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے یکم جون ۲۰۱۵ء کو اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتی وزیراعظم کے دورئہ اسرائیل کا پروگرام طے کرلیا گیا ہے، جس میں دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کو اوّلیت حاصل ہوگی، اور یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا‘‘۔ اب اگر عرب شیوخ اور راجے امریکی معاشرت میں، صہیونیوں سے بے زار شہریوں کی اصطلاح ’Jew‘ اور ’Black Jew‘کو سامنے رکھیں تو انھیں بخوبی علم ہو جائے گا کہ ’کالے یہودیوں‘ سے مراد بھارتی قوم پرست لیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ۲۶؍جنوری۲۰۰۶ء کو حرمین شریفین کے خادم شاہ عبداللہ مرحوم نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی سالانہ پریڈ منعقدہ نئی دہلی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ تب انھوں نے بھارتی سرزمین پر بھارت کو کسی ’دہشت گردی سے محفوظ رکھنے‘ کی خواہش کا اتنا پرزور اظہار کیا تھا کہ بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے ان خیالات کو واضح اور متعین طور پر: ’’کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف سعودی حکومت کے عزم اور دہلی سرکار کی ظالم حکومت سے طرف داری‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات سے حریت کانفرنس اور مظلومانِ کشمیر کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ازاں بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ’سعودی بھارت دفاعی تعاون کا معاہدہ‘ طے پایا۔ یہ چیزیں خصوصاً گذشتہ ۱۰برسوں میں تیزی سے پروان چڑھیں اور انھی کے پس منظر میںمودی کے حالیہ دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ’بھارت سعودی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری‘ کی بنیاد شاہ عبداللہ نے جنوری۲۰۰۶ء میں نئی دہلی میں ’اعلانِ دہلی‘ کے ذریعے رکھی تھی، اور پھر ۲۰۱۰ء میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سعودیہ کے دورے کے دوران ’اعلانِ ریاض‘ کے ذریعے اسے کئی درجے آگے بڑھا دیا تھا۔ شاہ عبداللہ نے شاہ فہد کے انتقال کے بعد اگست ۲۰۰۵ء میں زمام کار سنبھالی تھی اور گذشتہ۵۱برسوں کے دوران وہ پہلے سعودی حاکم تھے، جنھوں نے (ساڑھے پانچ ماہ بعد ہی) ان تعلقات کا سنگ بنیاد رکھا۔ (دی اکانومک ٹائمز ، ۲۳؍جنوری۲۰۱۵ئ)
پھر چند برسوں بعد ریاست اومان نے بھی بھارت سے ’فوجی تعاون کا معاہدہ‘ کیا، جس سے بحیرۂ عرب میں بھارت کے قدم اورپھیل گئے۔شرق اوسط میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹرے ٹیجک وسعت پذیری پر، دی نیویارک ٹائمز کے خصوصی نمایندے کبیر تانیجا نے لکھا ہے: ’’نئی دہلی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں دوحہ (قطر) میں نہایت مہنگے اور اپنی نوعیت کے منفرد (one of a kind) دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ایسا معاہدہ آج تک کسی اور ملک سے نہیں کیا، جس کے تحت بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قطر کے اثاثہ جات (assets) اور مفادات (interests)کو لاحق بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔‘‘ (The Diplomat، ۸؍مارچ۲۰۱۵ئ)
یہاں دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست قطر کو بیرونی خطرات کس سے لاحق ہو سکتے ہیں: کیا ایران سے؟ سعودی عرب سے؟ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے؟ یا امریکاسے؟ فرض کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ملک قطر پر چڑھ دوڑتا ہے تو کیا بھارت، مذکورہ ممالک سے اپنے گہرے تعلقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قطر کا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا، یا اس کاغذی معاہدے کا اکلوتا مقصد اربوں ڈالر اینٹھنے کا کھیل ہی کھیلنا ہے؟
سعودی گزٹ (۱۷؍اگست۲۰۱۵ئ) نے بتایا ہے کہ: ’’بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کا آغازوہاں کی عظیم مسجد میں قدم رکھتے ہوئے کیا، جہاں شیخ زید بن سلطان کی قبر ہے۔ گذشتہ ۳۴ برسوں میں یہ پہلا بھارتی وزیراعظم ہے، جس نے اس ملک کا دورہ کیا ہے۔‘‘ اس پر دل چسپ تبصرہ خود بھارت میں ہوا، جہاں تمام مسلم مکاتبِ فکر کے نمایندہ پلیٹ فارم: ’’مسلم پرسنل لابورڈ‘ کے سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا کہ مودی، ہندستان کی کسی مسجد کا دورہ کرتے‘‘ (روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ درحقیقت اس ایک جملے میں مولانارحمانی نے شہید بابری مسجد کی چیخ اور ہندوانتہا پسندوں کے دست شرانگیز میں پھڑپھڑاتی کئی مسجدوں کا نوحہ بیان کیا ہے۔ گلف نیوز (۱۶؍اگست) کو انٹریو دیتے ہوئے مودی نے ایک طرح دار جملہ یہ بھی کہا: ’’متحدہ عرب امارات میں ایک چھوٹا بھارت ہے۔‘‘ سعودی گزٹ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’’سات ریاستوں کے اس ملک میں ۲۶لاکھ بھارتی ماہرین اور کارکن بستے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں، اور یہاں سے ۱۴؍ارب ڈالر سالانہ بھارت لے جاتے ہیں۔‘‘ یاد رہے اسی دورے میں مودی کو سرزمین عرب پر مندر بنانے کے لیے شاہانِ امارات نے زمین کا بڑا ٹکڑا دے کر، وہاں فتح مکہ کے چودہ سوسال بعد پہلا ’بت کدہ‘ بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس پر بجاطور پر کئی عرب علما نے سخت احتجاج کیا ہے۔
دبئی کرکٹ گرائونڈ میں تقریباً ۵۰ ہزار بھارتی باشندوں سے خطاب کے دوران مسلم کشی کے دیوتا نریندرا مودی نے پاکستان پر سنگین حملے کرتے ہوئے کہا: ’’اچھی دہشت گردی یا بُری دہشت گردی نہیں چلے گی۔ تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم دہشت گردوں کے ساتھ ہو یا انسانیت کے ساتھ؟ ہم سارک کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہیں جو رخنہ اندازی کر رہے ہیں، اور پھر سارک کے تمام ممالک کے نام دہرائے، مگر ان ناموں میں پاکستان کا نام نہیں لیا (خلیج ٹائمز، ہندستان ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ مودی نے اس تقریر میں شرانگیزی کی حد تک پاکستان کا خاکہ اُڑانے کی کوشش کی ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے اسی تقریر کی رپورٹ میں لکھا ہے: ’’مودی نے پاکستان پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں کو دہشت گردی کی ’پناہ گاہ‘ کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے، حالانکہ پاکستان نہ صرف ان الزامات کی تردید کرتا ہے، بلکہ وہ خود بدترین دہشت گردی سے متاثر ہے‘‘ (WST، ۱۸؍اگست)۔ گویا کہ مودی نے اس دورے میں پاکستان اور اس سے وابستہ مسائل کو نفرت انگیز طریقے سے نشانہ بنانا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھا۔
مودی کے دورے کے اختتام پر ۳۱ نکاتی مشترکہ اعلامیے کو دیکھیں تو اس کے پانچ نکات (۲،۳، ۴، ۵، ۱۶) دراصل ایک ہی نکتہ ہیں: ’’مذہب کا غلط استعمال، برداشت، امن، دہشت گردی کا خاتمہ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ، اس ضمن میں اقوامِ متحدہ میں بھارتی مجوزہ ضابطے کی تائید‘‘ وغیرہ۔ یہاں پر پھر دھیان اس طرف جاتا ہے کہ امارات میں تو کوئی دہشت گردی ہو نہیں رہی، البتہ بھارت کے ہاں بغاوت اور خوداختیاریت کی داخلی تحریکیں یقینا مضبوط ہیں، جنھیں بھارت ’دہشت گردی‘ کہتا ہے۔ اسی طرح عرب دنیا میں بھارتی مسلمان مزدور اپنی کمائی سے دین اسلام کے آخری قلعے، مدرسے اور مساجد محفوظ کرنے کے لیے ایثار کرتے ہیں، ان کی رقوم کو بند کرنے کے لیے بھی اسی اعلامیے کا کوڑا برسایا جائے گا۔ برہمن بنیے نے کمال ہوشیاری سے ’دہشت گردی‘ کا سکّہ رائج الوقت اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے عربوں کا کندھا استعمال کیا ہے۔
عرب دنیا میں بھارت سے گہرے تعلقات کے علم بردار طبقے یہ دلیل پورے زورو شور سے پیش کرتے ہیں کہ: ’’بھارت میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، اس لیے ہم کس طرح اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘‘ عرب محبانِ بھارت کی دلیل جزوی طور پر درست ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود بھارت میں یہی مسلمان، جن کی تعداد گن گن کر بھارت، عربوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے، وہ بھارت کی فیصلہ سازی، حکومت اور ریاستی ڈھانچے میں کیا وزن، حیثیت اور مقام رکھتے ہیں؟
ہند کی ۱۸فی صد آبادی رکھنے کے باوجود یہ مسلمان، جن کا واسطہ دے کر تعلق بنایا یا تعلق بڑھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے، بے وزن ہی نہیں، بڑی حدتک بے حیثیت بھی ہیں۔ وہاں ان کا جو وجود ہے، وہ دینی مدارس، دینی جماعتوں، مسلم رفاہی اور تعلیمی اداروں کے بل بوتے پر ہے، اور جو وزن ہے وہ جنوبی ریاستوں میں ان کی آزادانہ معاشی ترقی کی بنیاد پر۔ وگرنہ کانگریس سے لے کر راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کی دہشت گرد سیاسی قیادت تک زیر اقتدار ۲۰کروڑ مسلمانوں کی قسمت کو چند حوالوں سے بخوبی جانچا جا سکتا ہے: یعنی بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد اور ممبئی میںمسلم نسل کشی (جس کی قیادت یا سرپرستی مسٹر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے کی)، آزادی سے لے کر اب تک ۳۰ہزار مسلم کش فسادات، گذشتہ آٹھ برسوں سے اب تک پورے ہند میں ذہین اور متحرک مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے ڈال دینے کا عمل، مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے ’گھر واپسی مہم‘، ۱۹۷۱ء میں پاکستان پر فوج کشی اور ۶۸ برسوں سے ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین فوجی یلغار اور مسلم خواتین کی بڑے پیمانے پر بے حرمتی۔ یہ چند مثالیں بھارتی سیاسی قیادت کی ’مسلم دوستی‘ کے زندہ ثبوت ہیں۔ اور اگر ثناء خوانِ تقدیسِ بھارت، ۹مارچ ۲۰۰۵ء کو ، جسٹس راجندرسچر کی سربراہی میں قائم سات رکنی اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ (۱۷؍نومبر۲۰۰۶ئ) کو چشم ہوش سے پڑھ لیں، تو انھیں بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی، معاشی قتل عام، سماجی اور انسانی تذلیل کے بہت سے ثبوت مل جائیں گے (حالانکہ خود مسلمان اس رپورٹ کو بھی ادھورا سچ کہتے ہیں)۔ اسی طرح یہی لوگ چند کتابیں بھی مطالعہ کرلیں: قیدی نمبر۱۰۰، از انجم زمرد حبیب (کشمیری تحریکِ آزادی سے وابستہ خاتون جس نے زندگی کا قیمتی حصہ تہاڑ جیل میں گزارا)۔ آپریشن اکشردھام از راجیو یادویو اور شاہ نواز عالم، گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے از مفتی عبدالقیوم، اور کرکرے کے قاتل کون؟ ایس ایم مشرف (سابق انسپکٹر جنرل پولیس مہاراشٹر) تو یہ بھارت کے ’من موہنے چہرے‘ کو عرب پالیسی سازوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آخرالذکر کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ایک ہندو پولیس افسر ہیمنت کرکرے نے کس طرح جواں مردی، انسان دوستی اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اُن اصل ہندو انتہاپسند قاتلوں کو بے نقاب کردیا تھا، جو ہرقسم کی دہشت گردی کرتے اور الزام اُلٹا مسلمانوں کے سر دھرتے ہیں۔ اس ہندو پولیس افسر کو اس ’جرم‘ کی پاداش میں ممبئی کے مشہور اور نام نہاد ’حادثے‘ کے دوران قتل کردیا گیا۔
بھارت کے اس ڈپلومیٹک حملے کا تقاضا ہے کہ جہاں مسلم دنیا کے تحقیقی ادارے معروضی انداز سے گواہی پیش کریں، وہیں مسلم حکومتوںکو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ یہ کام محض ملازمانہ ذہنیت رکھنے والے سفارت کار نہیں کرسکتے۔
حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کر کے دیکھو،اس میں تمھارے لیے کتنے منافع ہیں۔ میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گنا سکوں، تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو مَیں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ مگر یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں بھی سن لو!
تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھاکر ایک صاف سیدھا راستہ بنادیتا ہے، بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خودبخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیںہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے، اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خداپرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے ، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی۔ کیوںکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اُسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچّہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انھیں کنکرپتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟
میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر سنا ہی ہوگا کہ ؎
خر عیسیٰ اگر بمکّہ رود
چُوں باز بآید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا خواہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔
نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں جو ان عبادتوں میں بھرا ہوا ہے، بلکہ جن کے دماغ میں اِن عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو، وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اُتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں۔ ہرعبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کردی گئی ہے ویسی ہی بناکر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل روح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔
تم دیکھتے ہو کہ ہرسال ہزارہا زائرین مرکز اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کر کے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجاے اس کے کہ دین کی بزرگی کا سکّہ غیرپر جمے، خود اپنوں کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو۔
حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔ کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھینچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں، ملک ملک اور شہرشہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں، وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ ہرسال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا۔ ہزاروں غیرمسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا اور لاکھوں غیرمسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے۔(’حقیقت ِ حج‘، خطبات، ص ۳۱۲-۳۱۵)
اہلِ دل مدینہ منورہ کو اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کا مرجع بنائے رکھنے ہی کو ایمان کی سلامتی کی علامت خیال کرتے ہیں۔ تمام اہلِ ایمان مدینۃ الرسولؐ کی خاک میں دفن ہونے کی آرزو کی تکمیل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مورد سمجھتے ہیں۔ اب دنیا بھر کے مسلمان مدینۃ الرسولؐ کی زیارت کے تمنائی ہیں۔ سورۃالاحزاب میں خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (احزاب۳۳:۵۶) ’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو‘‘۔
دنیا کے تمام حاجی، حج سے پہلے یا بعد مسجد نبویؐ تشریف لے جاتے ہیں۔ ان حجاج کرام میں سے بعض نے اپنے اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے ہیں۔ ذیل میں چند تاثرات نقل کیے جاتے ہیں:
۲۷ جولائی کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے… جدّے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بہ کثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے، لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش! سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔
حج سے فارغ ہوتے ہی مدینہ جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، وہاں تو جذبات کا وفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے… مدینہ طیبہ کے سفر میں ۲۴گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گئے تھے، اور راستے میں غذا اور نیند سے بھی زیادہ تر محرومی ہی رہی تھی۔ دوسرے روز حاضری دی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے مزارات کی زیارت کی۔
یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آںحضورؐ نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔(حج بیت اللّٰہ اور سفرِعرب، ص ۶۴-۶۷)
آج کی صبح کتنی مبارک صبح ہے۔ آج کے دن زندگی کا سب سے بڑا ارمان پورا ہونے کو ہے۔ آج ذرہ آفتاب بن رہا ہے۔ آج بھاگا ہوا غلام اپنے آقا و مولا کے دربار میں حاضر ہو رہا ہے۔ آج گنہگار اُمتی کو شفیع و شفیق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانے پر سلام کی عزت حاصل ہورہی ہے.... ایک سرگشتہ و دیوانہ، عقل سے دُور، علم سے بیگانہ، نہ گریاں نہ شاداں، نہ اپنی حضوری کی خوش بختی پر خوش اور نہ تباہ کاریوں کی یاد پر مغموم، محض اس اُلجھن میں گرفتار کہ یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری! کہاں یہ ارضِ پاک اور کہاں یہ بے مایہ مشت ِخاک! کہاں مدینہ کی سرزمین اور کہاں اس ننگِ خلائق کی جبیں! کہاں سیّدالانبیاؐ کا آستانہ اور کہاں اس روسیاہ کا سروشانہ۔ وہ پاک سرزمین کہ اگر اس پر قدوسیوں کو بھی چلنا نصیب ہو تو ان کے فخروشان کا نصیبا جاگ اُٹھے اور کہاں ایک آوارہ و ناکارہ، بے تکلف اسے پامال کرنے کی جرأت کربیٹھے…(سفرِحجاز، ص ۷۸-۸۰)
مدینہ طیبہ کی حاضری کے سلسلے میں [یہ خیال رہے کہ] راستے ہی سے خوب ذوق و شوق سے حضوؐر پر صلوٰۃ و سلام پڑھیے۔
مسجد شریف میں داخل ہوکر سب سے پہلے اس حصے میں پہنچیں جس کو روضۃ الجنۃ اور ’جنت کی کیاری‘ کہتے ہیں۔ پہلے وہاں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں۔ اس کے بعد حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریف میں آئیں اور آسان سلام عرض کریں جس کو آپ خود سمجھتے ہوں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ ، اے اللہ کے حبیبؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاشَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ، اے گناہگاروں کی شفاعت فرمانے والے! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ، اے خاتم النبیینؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِکَ وَاَصْحَابِکَ اَجْمَعِیْنَ ، سلام آپؐ پر اور آپؐ کی تمام آل اور اصحاب پر۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے نبیؐ اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔
اس کے بعد حضوؐر سے اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے دعا اور شفاعت کی درخواست کیجیے اور جن لوگوں کے آپ پر خاص احسانات ہوں یا جنھوں نے آپ سے کہہ دیا ہو اور آپ نے ان سے وعدہ کرلیا ہو ان کے لیے بھی دعا اور شفاعت کی درخواست کیجیے۔
مدینۂ رسولؐ کی راہ میں درود کے شغل سے بہتر کوئی شغل نہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۵۶) اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا (مسلم)
جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔
اس راستے کو درود و سلام کے ورد ہی میں ختم کرنا چاہیے۔ حب ِ نبویؐ کا تقاضا یہی ہے۔ جب مدینہ منورہ کی دیواروں پر نظر پڑتی ہے تو عاشق کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ وہ مقامِ مقدس ہے جہاں آپؐ نے حق تعالیٰ کے فرائض و سنن مشروع فرمائے، اعداے دین سے جہاد کیا اور حق تعالیٰ کے دین کو ظاہر کیا۔
پھر زیارت کی نیت سے نہایت ادب و خشوع کے ساتھ روضۂ پاک کے سامنے حاضر ہوتا ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے آنے، کھڑے ہونے اور زیارت کرنے کا علم ہوتا ہے اور اس کا درود و سلام آپؐ کی خدمت مبارک میں پہنچتا ہے۔
[ایک مرتبہ درود پڑھنے کی جزا اللہ کی طرف سے دس مرتبہ درود بھیجنے کی] جزا تو صرف زبان سے درود پڑھنے کی ہے، جب وہ خود زیارت کے لیے تمام بدن سے حاضر ہوا ہے تو اس کا بدلہ کس قدر عظیم الشان ہوگا۔
اب وہ اپنے آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے:
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ السَّیِّدُ الْکَرِیْمُ وَالرَّسُوْلُ الْعَظِیْمُ وَالْحَبِیْبُ الرَ ؤُفُ الرَّحِیْمُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّدُ بْنُ عَبْدَاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ابْنِ ہَاشِمٍ یَاطٰہٰ یٰسِیْنُ یَابَشِیْرُ یَاسِرَاجُ یَامُبِیْنُ یَامُقَدِّمَ جَیْشِ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
درود و سلام ہو آپؐ پر اے نبی کریمؐ، رسولِ عظیمؐ، حبیب ِؐ خدا، اے رحیم و مہربان، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں آپؐ پر، درود و سلام ہو آپؐ پر، اے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ابن ہاشم، اے طٰہٰ و یٰسین، اے بشر، اے سراجِ مبین، اے نبیوں ؑ اور پیغمبروں ؑ کے لشکر کے سردار!(ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جلد۱۸، شمارہ ۹-۱۰)
بارگاہِ اقدس میں قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھری ہوئی ہے کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے۔ اے آلودئہ گناہ! اے غفلت شعار! ان کے حضور جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس اُنھی کو سزاوار ہے۔ کس منہ سے روضۂ اقدس کے سامنے السلام علیک یارسول اللّٰہ کہے گا۔ اس زبان نے [یہاں آنے سے پہلے اپنے ملک میں]کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں۔ ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے۔ ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام! اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے۔ اُن کی اطاعت سے کس کس طرح سے گریز کیا ہے۔ اُن کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے۔ ان کے اُسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کو کوئی دُور کی بھی نسبت نہیں رہی ہے۔
اے رُوسیاہ! تیرے بُرے اعمال حضوؐر کی روحِ مقدس کو اذیت ہی پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ تو پاکوں اور نیکوں کی سرزمین ہے۔ یہاں تجھ جیسے گندے آدمی کا کیا کام؟ مگر شرم و ندامت کے اس احساس کے ساتھ معاً یہ خیال بھی آیا کہ میرے آقا رحمۃ للعالمینؐ اور شفیع المذنبین بھی تو ہیں۔ گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کی جاے پناہ اور ہے کہاں؟ ان سے شفاعت نہ چاہیں تو اور کس سے چاہیں؟
اسی عالمِ خیال و تصور میں ’باب السلام‘ سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ [جس کی] ایک ایک چیز آنکھوں میں کھُبی جارہی ہے اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی جیسے مسجد نبویؐ کے دَرودیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں!
تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے انوار کا کیا پوچھنا.... روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور، مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں کا نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔ صوفیا کا قول ہے کہ ’’تجلّی میں تکرار نہیں‘‘ مگر اس مسئلے پر غور کرنے کی یہاں فرصت کسے ہے!
جب ہم مسجد نبویؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ کہاں مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی!
نماز کے بعد اب روضۂ اقدس کی طرف چلے۔ حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں۔ مواجہ شریف حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر ؎
وہ سامنے ہیں، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے
زائرین بلند آواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں مگر اس کمینہ غلام کے شوق بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سے مختلف! آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے ، اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں۔
الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاخیر خلق اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یارحمۃ للعالمین
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے__!
صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں مگر آواز گلوگیر ہوتی جارہی ہے اور الحمدللہ کہ آنکھیں برس رہی ہیں۔ ندامت، مسرت اور عقیدت کے ملے جلے آنسو! نگاہیں روضۂ مبارک کی جالیوں کو چوم رہی ہیں اور دل آنکھوں کو مبارک باد دے رہا ہے، زبانِ حال سے! آنکھوں کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے! (کاروانِ حجاز، ماہنامہ فاران، کراچی ۱۹۶۵ئ)
حرمین میں اللہ و محمدؐ کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، باقی سبھی کچھ عجزوالحاح ہے یا سوزوگداز۔ یہاں کوئی اکڑ نہیں، کوئی تمکنت نہیں، کوئی شاہی نہیں، کوئی دولت نہیں۔ یہاں وہی سب سے زیادہ اکڑ والا ہے جو سب سے زیادہ عاجز ہے، وہی باتمکین ہے جو سب سے زیادہ منکسر ہے۔ وہی شاہ ہے جو گدا ہے اور وہی دولت والا ہے جو اللہ کا بھکاری ہے۔ یہاں کسی دنیوی عزت کو ترجیح نہیں۔ یہاں ترجیح صرف عشق نبویؐ کو ہے۔ کسی کو کسی سے سروکار نہیں۔ سب کو ایک ہی چوکھٹ سے سروکار ہے۔ جو آتا ہے اسی کا ہوکر آتا ہے۔
بیت اللہ میں عقیدہ حاضرہوتا اور جبینیں جھکتی ہیں۔ حرمِ نبویؐ میں عشق لے جاتا اور دل جھکتے ہیں۔ دل میں اللہ و رسولؐ ہیں تو آزما لیجیے۔ یہاں حاضر ہونا بڑا مشکل ہے، نفس پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ آستانۂ محمدؐ پر حاضرہونے والے، یہ بوتا کہاں سے آیا ہے، یہاں تو بڑے بڑے رہ جاتے ہیں، محمدؐ کے رُوبرو کھڑا ہونا آسان بات ہے؟ اس کی تاب جانثارانِ محمدؐ میں کہاں تھی۔
اب جو ساتھی آگے بڑھنے لگے تو میں رُک گیا۔ انھیں تو یہاں رہتے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں۔ سال بھر میں کئی کئی حاضریاں دیتے ہیں۔ میں کیا؟ میری بساط کیا؟ ایک مجموعۂ فسق، مجھ میں یہ بال و پَر کہاں سے آگئے کہ اُڑ کے یہاں چلا آیا؟ بہت ہمت کی۔ قدم اُٹھتے ہی نہیں۔ ایک سیاہ کار کا رسولؐ اللہ کے روضۂ اقدس پر حاضر ہونا__ بہت بڑی جسارت ہے!.... دل نے کہا: بڑھ! نالائقوں کے نالائق__ روسیاہ!جب تک اس دَر پر کھڑا نہ ہوگا یہ روسیاہی نہیں دُھلے گی، یہ داغ نہیں مٹیں گے پاگل! اُن سے مایوس ہوتا ہے جو مایوسیوں کو دُور کرنے آئے ہیں۔ لَا تَقْنَطُوْا کا مژدہ کون لایا؟ وہی تو لائے تھے۔ اب نفس نخرہ دکھا رہا ہے۔ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ندامت کا غلبہ ہے۔ ہمت جواب دے گئی ہے۔ نفس کی فریب کاری تابہ کے؟ چشمے پر تشنگی مٹانے پہنچا ہے اور اب لب خشک کیے کھڑا ہے۔ بڑھ آگے اور کھڑا ہو جا اُن کے سامنے جو ہر جہان کے لیے رحمت ہیں۔ ان کا خزانہ کھلا ہے۔ جھولی بھر، دونوں ہاتھوں سے بھر، صبح و شام بھر۔ یہاں سے ہرشخص کو خلعتِ فاخرہ ملتی ہے۔ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ کا دربار ہے۔ یہاں سورج کالے گورے پر یکساں چمکتا ہے۔ ہوا گنہ گاروں کے لیے رُک نہیں جاتی۔ وہ سب کے لیے مشامِ جان ہے۔ خوشبو پھیلنے کے لیے ہے۔ چشمے کسی کے لیے اپنے سوتے نہیں موڑتے۔ وہ سب کے لیے رواں دواں ہیں۔ لوگ آتے اور تشنگیاں مٹا کر چلے جاتے ہیں۔ آبِ رواں نے کسی تشنہ لب سے کبھی اس کی ذات پات بھی نہیں پوچھی، ہمیشہ ظروف بھر دیے ہیں۔
آخر وہاں پہنچ گیا جہاں پہنچنے کے لیے آیا تھا__ روضۂ مبارک کے رُوبرو:
الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یانبی اللّٰہ
(شب جائے کہ من بودم،ص ۱۴۰-۱۴۲)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ- ۱۹۷۹ئ) اپنی مذہبی و فکری کاوشوں سے قبل، اپنے ذوق اور اپنی دل چسپیوں کا اظہار ادب اور تاریخ میں کرتے رہے ہیں۔انھوں نے بچپن ہی میں عربی زبان میں اتنی استعداد پیدا کرلی تھی کہ ۱۳سال کی عمر ہی میں شیخ عبدالعزیز شاویش (۱۸۷۶ئ-۱۹۲۹ئ)کی تصنیف الاسلام و الاصلاح کا اور ساتھ ہی قاسم امین بے (۱۸۶۳ئ- ۱۹۰۸ئ) کی کتاب المراۃ الجدیدہ کاترجمہ اردو میں کرسکیں۔ ۱؎ یہ تراجم اس وقت ان کے ذوق کے اولین مظاہر تھے۔اس ذوق کے ذیل میں ، کہ جب مطالعے کی ابھی ابتدا ہے، کسی ایک موضوع کا تعین نظر نہیں آتا، بلکہ دل چسپیوں کی طرح موضوعات بھی تنوع کے حامل رہے ہیں۔کہیں وہ ’برق یا کہربا‘ کی تصریح و وضاحت کررہے ہیں یا ’انگریزی لغت میں دوستی کے معنی‘ تلاش کررہے ہیں۔ایک جانب وہ ’حالات ِ زندگی آنریبل پنڈت مدن موہن مالویہ آ ف الٰہ آباد‘ لکھ رہے ہیں تو دوسری جانب ’مسٹر آصف علی بیرسٹر کی بے دردیاں، ٹیگور کے ساتھ‘ پر اظہار ِ خیال کررہے ہیں۔ ’قمار خانۂ مونٹی کارلو‘ بھی ان کے قلم کی توجہ سے دور نہ رہا۔خالص ادب اور اس کے قریبی موضوعات بھی ان کی توجہ میں رہے۔ قربان علی بیگ سالک (۱۸۲۴ئ-۱۸۸۰ئ) سے خاندانی قرابت نے ان کی شاعری پر تین چار مضامین ان سے اسی زمانے میں لکھوالیے اور ’ حسن ِ ادا اور ادب‘ کے تعلق سے اسلوبیات بھی ان کے پیش ِ نظر رہے۔ ۲؎
اس طرح کے موضوعات کو اپنی دل چسپی میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ رسائل تاج اور مسلم ۳؎ اور پھر الجمعیۃ ۴؎ کے توسط سے صحافت سے وابستگی نے ان کے قلب و ذہن کو عصری مسائل اور حالات و حوادث ِ زمانہ سے بھی قریب کردیا تھا۔ نوجوانی کے زمانے میں ان کے مضامین: ’سمرنا میں یونانی مظالم‘، ـ’ترکی میں عیسائیوں کی حالت‘ اور ’مصطفی کمال پاشا‘ عالمِ اسلام کے حوادث اورقومی ادبار سے ان کی دل گرفتگی کی علامتیں ہیں۔ ۵؎ غالباً ترکی کی اسی ابتلا و افتاد کی مثال نے انھیں طویل مضمون ’ہندستان کا صنعتی ز وال اور اس کے اسباب پر تاریخی تبصرہ‘ لکھنے پر مجبور کیا۔ ۶؎اسی ضمن میں ان میںتاریخ اور تاریخ نویسی سے دل چسپی کا پیدا ہونا غیر متوقع نہ تھا۔ان کی یہ دل چسپی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ان کی زیر ادارت شائع ہونے والے رسالوں: تاج، مسلم اور الجمعیۃ میں جو کچھ انھوں نے بحیثیت مدیر لکھا، ان کی تفصیلات معلوم و مرتب نہیں، لیکن خیال ہے کہ حالاتِ حاضرہ کے پس منظرمیں ملکی و عالمی، خصوصاً عالمِ اسلام کے حالات نے انھیں ضرور تاریخی تناظر اپنے پیش ِ نظر رکھنے پر مجبور رکھا ہوگا۔ تاریخ نویسی کے زمرے میں ان کی تصانیف شمار کی جائیں تو ، ان کی تفسیر تفہیم القرآن سے قطع نظر، کہ جس میں قبلِ اسلام کے واقعات کی تحقیق و جستجو میں اور ماضی کی اقوام کی تاریخ و تہذیب کے حوالوں میں اپنے مطالعۂ تاریخ سے انھوں نے بالعموم مدد لی ہے، اور اپنی معروف تصنیف الجہاد فی الاسلام میں تاریخ کے حوالے ان کا سہارا بنتے رہے ہیں۔ تاریخ نویسی میں ان کی مستقل تصانیف : دولتِ آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (۱۹۲۸ئ)، سلاجقہ، حصّۂ اول (۱۹۲۹ئ)، تجدید و احیاے دین (۱۹۴۰ئ)، دکن کی سیاسی تاریخ ( ۱۹۴۴ئ)، اور خلافت و ملوکیت (۱۹۶۵ئ) معروف ہیں۔
تاریخ نویسی میں دکن کی تاریخ سے ان کی دل چسپی کئی اسباب کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔اس ضمن میں تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور میں انھوں نے یا تو محض عصری تقاضوں کے تحت ترکی کوموضوع بنایا یا دکن اور مملکت ِ آصفیہ حیدرآباد ان کا موضوع بنے۔خلیفۃ المسلمین کی سرزمین ترکی اس وقت ابتلا کا شکار تھی اور اس سے ایک نسبت خاندانی بھی تھی کہ ان کی ننھیال کا تعلق ترکی سے تھا اور اجداد سلسلۂ چشت سے وابستہ تھے اور ہرات (ترکستان)ان کا وطنِ مالوف تھا۔ ۷؎ مملکت ِ آصفیہ حیدر آباد سے ان کا تعلق جذباتی بھی ہوسکتاتھاکہ اس کا ایک علاقۂ محروسہ اورنگ آباد ان کی جاے پیدایش تھا ،جہاں انھوں نے اپنے بچپن کا ایک یادگار وقت گزارا تھا۔اس کی یادیں تاعمر ان کے ساتھ رہیں۔لیکن ان کے قلم کی کاوشوں کے تنوع کو دیکھ کر یہ خاندانی اور جذباتی وابستگیاں محض حسنِ اتفاق بھی ہوسکتی ہیں۔
دکن یا مملکت ِ آصفیہ کی تاریخ نویسی کے ضمن میں ان کی اولین مستقل کاوش، دستیاب معلومات کے مطابق: دولتِ آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ۸؎ تھی۔اس کو موضوع بنائے جانے کی صراحت انھوں نے اپنے پیش لفظ میں بیان کردی ہے۔ ان کے لیے یہ حیران کُن تھا کہ ایک ایسی مستحکم مملکت جو ’ پوری برٹش انڈین امپائر کا مرکز ِ ثقل‘ ہو،جسے اپنی ایک کروڑ ۳۰ لاکھ رعایا پر کامل حاکمیت حاصل ہو،جس کا رقبہ یورپ کی عظیم الشان سلطنتوں کے مساوی ہو،اس نے کیوں کر برطانوی سرپرستی کو قبول کرلیا؟اور اپنی خارجی آزادی اوراپنے فوجی استقلال کو اپنے مساوی بلکہ باج گزار حلیف کے سپرد کردیا؟اس حیرت کو رفع کرنے یا ایسے پیدا شدہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے کہ ڈیڑھ صدی کے حلیفانہ روابط میں دونوں مملکتوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات رہے ہیں؟اور دونوں نے ایک دوسرے سے دوستی کا حق کیسے ادا کیاہے؟۹؎ یہاں مصنف کا رویہ برطانوی حکومت کے لیے جارحانہ ہوگیاہے۔ان کے خیال میں دولت ِ آصفیہ نے دوستانہ وفاداری کو نباہنے کی کوشش کی ہے، جب کہ حکومت ِ برطانیہ نے اپنے ’یار ِ وفادار‘کو ہمیشہ مایوس کیاہے۔ ۱۰؎
یہ کتاب مولانا مودودی کے الجمعیۃ کے زمانۂ ادارت فروری ۱۹۲۵ء تا مئی ۱۹۲۸ء کے دوران لکھی گئی تھی، جب کہ انھوں نے اس کتاب کی تصنیف سے قبل متعدد مضامین حکومت ِ حیدرآباد اور نظام ِ دکن کی حمایت میں اس رسالے میں تحریر کیے تھے۔ ۱۱؎ ان مضامین میں اور اپنی اس کتاب میں مولانا مودودی نے حکومت ِ حیدرآباد اور نظام کا دفاع کرتے ہوئے ان کی حکمت عملیوں کی بڑی حد تک تائید و حمایت کی ہے لیکن حکومت ِ برطانیہ پرسخت تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت ِ حیدرآباد کا مجرم قرار دیاہے۔حیدرآباد میںاس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے شائع ہونے کے بعد ، حکومت ِ حیدرآباد کی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت یہ مسئلہ پیدا ہوگیاکہ آیا حیدرآباد کی حدود میںاس کتاب کو ضبط کرلیا جائے؟ لیکن عمالِ حکومت کی آرا میں اختلاف کے سبب معاملہ رفت و گزشت ہوگیا۔ ۱۲؎ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ کے بارے میں مولانا مودودی کا جو تنقیدی اور جارحانہ نقطۂ نظر تھا، حکومت ِ حیدرآباد کے لیے، مصلحتاً گوارا نہ ہوتے ہوئے بھی قابل ِ قبول تھا۔
اس کتاب کی تصنیف کے لیے مولانا مودودی نے جو جستجو اور محنت کی ہے اس کا اندازہ اس کے حواشی میں درج مآخذ کو دیکھ کر لگایا جاسکتاہے جن میں دکن کی تاریخ سے متعلق ہم عصر اُردو و فارسی مطبوعات ہی نہیں وہ انگریزی کتب بھی شامل ہیں جو اس کتاب کی تصنیف سے ۵۰،۶۰سال پہلے کے عرصے میں شائع ہوئی تھیں۔ ان سے انھوں نے بھرپور استفادہ کرکے مفید مطلب اور ضروری معلومات اخذ کیں اور جہاں جہاں ضروری محسوس کیا وہاں متعلقہ دستاویزات کے حوالے دیے ہیں۔واقعتا ً تاریخ نویسی کا یہ اسلوب اس وقت اردو میں بہت عام نہیں تھا۔ کم ہی مصنّفین نے اس طرح کے مآخذ کی جستجو اور تلاش اور ان سے حقیقی استفادے کا مظاہرہ کیاہے۔
دکن یا مملکت ِ حیدرآباد کی تاریخ پر مولانا مودودی کی دوسری مستقل اور اہم تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ ہے۔ ۱۳؎ دولتِ آصفیہ اور مملکت برطانیہ‘‘ تو ایک عصری تناظر میں لکھی گئی تھی اورایک عمومی دل چسپی کا اس میں احاطہ نہ تھا، لیکن خود مملکت ِ آصفیہ کی تاریخ جس میں اس کے قیام کا پس منظر اور عہد بہ عہد حالات و واقعات شامل ہوں ، مولانامودودی کی نظر میں اس کی ضرورت موجود تھی۔ چناں چہ اپنی مذکورہ کتاب کی تصنیف اور اشاعت کے بعد انھوں نے اس ضرورت کے ذیل میںاپنی اِس تصنیف کے لیے جب وہ ۱۹۳۰ء میںبھوپال میں چند ماہ مقیم رہے تو مواد جمع کرنا شروع کیا تھا اور وہاں سے جولائی ۱۹۳۱ء میں حیدر آباد منتقل ہوئے تو وہاںاسی جستجو اور مآخذ کی جمع آوری میں منہمک ہوگئے۔ ان کا ارادہ ایک مفصل تاریخ لکھنے کا تھا جو چار جلدوں پر مشتمل ہوتی۔ انھوں نے اس کا آغاز بھی کردیا کہ ان کے ایک دوست مولوی احمد عارف (م: ۱۹۴۹ئ) نے اس کو دیکھ کر مشورہ دیاکہ ان کا منصوبہ تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی ضرورت بھی ہے جو مبتدی طلبہ کے لیے ہو۔یہ مشورہ انھیں پسند آیا چنانچہ انھوں نے بہت آسان اسلوب میں دکن کے عہد قدیم سے قطب شاہی عہد تک کے مختصر حالات لکھ دیے اور خود مولوی احمد عارف نے اس میں شامل کرنے کے لیے مغلیہ عہد اور آصف جاہی عہد کے حالات تحریر کیے۔اس طرح ایک مشترکہ کوشش سے ایک کتاب تاریخ دکن مرتب ہوگئی اورشائع بھی ہوگئی۔ ۱۴؎ کتاب کے سرورق پر اشاعت کا سنہ ۱۳۴۱ھ اور مولانا مودودی کے دیباچے پر ۱۳۵۱ھ درج ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر خود مولانا مودودی نے اپنی ’خود نوشت‘ میں’مختصر تاریخ دکن‘ کے طور پر کیاہے لیکن اس کا ذکر ان کی دستیاب تصانیف کی کسی فہرست میں نظر نہیں آتا۔ ۱۵؎ احمد عارف صحافت سے منسلک تھے اور ایک بہت مؤثر اخبار صبحِ وطن کے مدیر تھے، جسے انھوں نے ۱۲ربیع الاول ۱۳۴۷ھ (۱۹۲۹ئ) سے جاری کیا تھا۔اس اخبار کو قومی تحریکوں میں قومی امنگوں کی ترجمانی اور حکومت ِ وقت کی تائید و حمایت کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ حیدرآباد کے اکابر میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے خاصی دل چسپی تھی۔ ۱۶؎
مولانا مودودی کی یہ غیر معروف ا ور نادر تصنیف اگرچہ طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی لیکن اس کے لیے محنت اور اہتمام خاصے کیے گئے تھے۔خود بیان کیا ہے کہ اس کا تاریخی مواد نہایت معتبر و مستند مآخذ سے اخذ کیا گیا ہے اور ایسے واقعات شامل کرنے سے گریز کیاگیاہے جن کی سند مشکوک ہو۔کوشش کی گئی ہے کہ طلبہ کے ذہن میں دکن اور اس کے جغرافی، نسلی، لسانی،تاریخی اور معاشرتی حالات کی ایک صاف اور واضح تصویر نقش ہوجائے۔کوشش کی گئی ہے کہ جو جو قومیں اس علاقے میں وارد ہوئیںاور جو حکومتیں یہاں قائم ہوئیں،ان کے زمانی اور جغرافی حدود اور ان کے پیدا کردہ تغیرات اور ان کے قائم کردہ اثرات کو نمایاں کیا جائے۔اس کا ایک امتیاز یہ ہے کہ تاریخِ دکن کے متعلق جو نظریات قائم کرلیے گئے تھے ان سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے وہ نظریات اختیار کیے گئے ہیں جو جدید تحقیقات و مطالعات کا نتیجہ ہیں۔مصنّفین کے اس عمل کے پسِ پشت مزید اہم بات یہی ہے کہ طلبہ کے ذہن میں ابھی سے ایک غیر محسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کا ذوق پیدا ہوجائے۔ ۱۷؎
چوں کہ یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی اور اس کا مقصد بظاہرانھیں دکن کی تاریخ سے واقف کرانا تھا لیکن ساتھ ہی وہ ان میں تاریخ کے مطالعے کا ذوق و شوق عام کرنے اور ابھی سے ان میںایک ’ غیر محسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے‘ کا ذوق پیداکرنے کے لیے ایسے اہتمام بھی اس کتاب میں کرتے نظر آتے ہیں، جو منفرد ہیں۔مثلاً اس کتاب کو موضوعات اور عہد کے لحاظ سے آٹھ ابواب میںتقسیم کیا گیا، لیکن ہر باب کو بھی ذیلی اسباق میں تقسیم کیا گیا،تاکہ طلبہ ہر عہد کی بھی ذیلی موضوعاتی تفریق و تقسیم کی مصلحت سے واقف ہوسکیں اور تاریخ کو ان کے تناظر میں سمجھ سکیں۔ پھراساتذہ سے بھی ان مصنّفین کو یہ توقع ہے کہ تاریخ پڑھاتے ہوئے وہ پہلے اپنے سبق کاایک عمومی خاکہ طلبہ کے ذہن نشین کریں اور دوسرے مرحلے میں واقعات یاد کرائیں۔ لیکن تفصیلات بیان کرتے ہوئے غیر اہم شخصیات اور سنین کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔اساتذہ سے انھیں یہ بھی توقع ہے کہ تاریخ پڑھانے سے پہلے خود غور کریں کہ تاریخ کے کون سے واقعات زیادہ اہم ہیں اور نقشہ بھی اچھی طرح خود ذہن نشین کریں اور طلبہ کوبھی ذہن نشین کرائیں۔ان کے خیال میں ہرتاریخی تغیر اور اہم واقعے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نقشوں سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ ۱۸؎ اس حکمت کے تحت مصنّفین نے نقشوں کا اہتمام بڑی محنت سے کیاہے اور ان کی مدد سے ہر عہد کی جغرافیائی حد بندیوں کو واضح کیاہے۔نسلوں اور زبانوں کے لحاظ سے بھی نقشے شامل کیے گئے ہیں۔
مولانا مودودی نے اس کتاب کے چھے ابواب : ہمارا ملک اور اس کے باشندے؛دولت ِ آصفیہ کا رقبہ اور آبادی؛ پرانے زمانے کی تاریخ؛ دکن کی آریہ اور دراوڑ ریاستیں؛دکن میں مسلمانوں کی آمد؛ سلطنت ِ بہمنیہ؛دکن کی پانچ ریاستیں، تحریر کیے ہیں۔یہ ابواب کُل ۱۷۱ صفحات پر مشتمل ہیں، جب کہ کتاب کی کُل ضخامت ۲۲۴ صفحات ہے۔اس طرح ۵۳ صفحات مولوی احمد عارف نے تحریر کیے تھے۔
یہ کتاب دکن کی تاریخ نویسی میں مولانا مودودی کی ایک درمیانی کڑی ہے۔اس کی تمہید میں جو باتیں تاریخ کے ضمن میں انھوں نے تحریر کیں، ان سے اور اس کتاب کے خاکے سے تاریخ نویسی کے تعلق سے ان کے نقطۂ نظر کو اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
دکن کی تاریخ کے ضمن میں اس تصنیف، یا اولین تصنیف سے قطع نظر، ایک مبسوط تصنیف کی صورت میں ایک بڑا منصوبہ ان کے پیشِ نظر رہا جس کا آغازانھوں نے بڑی دل جمعی اور محنت سے اپنی نسبتا ً ضخیم تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ سے کیا جو مارچ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب اگرچہ ایک وسیع تر منصوبے کے تحت لکھی گئی تھی اور مولانا مودودی اسے ۴۰؍ ابواب تک وسعت دینا چاہتے تھے لیکن یہ محض قیام مملکت ِ آصفیہ (۱۷۲۴ئ) کے پس منظر ہی کا احاطہ کرتی ہے اوربانی ِ مملکت نظام الملک آصف جاہ اول (۱۶۶۱ئ-۱۷۴۸ئ) کے دور ِ آخر تک کا بھی احاط نہ کیا جاسکا اور نادر شاہ (م: ۱۷۴۷ء ) کے حملۂ دہلی (۱۷۳۹ئ)پر اس تاریخ کا اختتام ہوجاتا ہے۔جس قدر بھی تاریخی واقعات اور سیاسی حالات اس میں یک جا ہوگئے ہیں وہ مفصل ہیں اوران کے بیان کرنے میں خاصی وضاحت روا رکھی گئی ہے۔
یہ تاریخ تین ابواب میں منقسم ہے۔پہلا باب بانیِ مملکت کے اسلاف اور خاندان کے تذکرے پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرا باب اورنگ زیب کی رحلت (۱۷۰۷ئ) کے بعد قیام مملکت ِآصفیہ تک کے عمومی سیاسی واقعات کو تفصیل سے پیش کیاگیاہے۔ تیسرا باب قیام ِ مملکت کے بعد نادرشاہ کے حملے اور اس کے اثرات کے جائزے پر مشتمل ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس تاریخ کے لکھنے کے لیے جو جو مآخذ ، مطبوعہ و غیر مطبوعہ، ضروری ہوسکتے تھے، انھیں پیش ِ نظر رکھا جائے۔ اس ارادے میں خاصی کامیابی نظر آتی ہے۔کتاب کے آخر میںبڑی محنت سے مملکت کا ایک مکمل نقشہ بھی ترتیب دیا گیاہے جس میں اماکن کے ساتھ ساتھ صوبوں کی قدیم اور حالیہ حدود کو واضح کیاگیاہے۔ پھر مزید یہ کہ نقشے کی تشریح بھی کی گئی ہے اور آمدنی کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ اس طرح اس کتاب کی تصنیف کے لیے مصنف نے خاصی محنت و جستجو کا ثبوت دیاہے اور وہ مواد و معلومات یک جا کی ہیں جو قدیم و معاصر تاریخوں میں منتشر اور بے ترتیب پھیلی ہوئی تھیں۔اس کے باوجود کہ اس تصنیف میں پیش کردہ دور اور خصوصاً نظام الملک کے حالات اور عہدپر قدیم اور جدید کتابوں کی کمی نہیں لیکن مولانا مودودی کی یہ تصنیف اپنے اسلوب اور معلومات کے لحاظ سے اپنے وقت کے اور آج کے قارئین کے لیے زیادہ پُرکشش اور جاذب ِ توجہ ہے۔
دکن کی تاریخ کے تعلق سے مولانا مودودی کی ان مذکورہ تصانیف کو ان کے اس منصوبے کی جزوی کاوشیں کہاجا سکتاہے ،جو ان کے پیشِ نظر تھا۔ان کا یہ منصوبہ جو ۴۰؍ابواب پر مشتمل تھا، ’تاریخِ دکن کا خاکہ‘ کے عنوان سے دستیاب ہے اورمولانا مودودی سے متعلق دستاویزات و اسناد کے مجموعے: وثائقِ مودودی۱۹؎ میں شامل ہے۔اسے انھوں نے ۱۹۲۸ء میں ترتیب دیا تھا۔ یہ ۴۰؍ابواب پر مشتمل تھا اور اس کے مطابق مولانا مودودی نے اس کے ۳۴؍ ابواب کا مواد جمع کرلیا تھا اور ہر باب کا ایک مختصر خاکہ بھی تحریر کرلیا تھا کہ جس کے مطابق انھیں وہ باب تحریر کرنا تھا۔ لیکن وہ اس منصوبے میں مزید پیش رفت نہ کرسکے، دیگر منصوبوں اور کاموں میں مصروف ہوگئے۔
اپنے اس منصوبے کے تحت وہ فقط اس کے ۱۸؍ ابواب کے موضوعات اپنی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ میں سمیٹ سکے تھے لیکن جو کچھ انھوں نے اس تصنیف (دکن کی سیاسی تاریخ) میں تحریر کیا،اگروہ اس منصوبے کے مطابق ، اور اس کے متعینہ معیار کے مطابق ہوتا تو یہ تصنیف شاید مزید بلند معیار اور اسلوب کی حامل ہوتی۔اس منصوبے کے معیار کا اندازہ ، اس کے متعینہ موضوعات یا ابواب کی فہرست سے تو ہوتا ہی ہے لیکن ہر باب کے تحت جو خاکہ یا اس کے خام عنوانات درج کیے گئے ہیں، ان سے قطع نظر ہر باب کے لیے انھوں نے مآخذ کا ایک تعین بھی کرلیاتھا کہ اس باب کی تصنیف میں ممکنہ طور پران کے لیے کون کون سی کتب مددگار ثابت ہوں گی۔ اس فہرست ِ ابواب اور اس کے لیے ممکنہ مصادر و مآخذ کی فہرست کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک تو بہت محنت و جستجو سے ان تمام اہم تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرلی تھیں جو کسی انفرادی ابواب کے لیے ناگزیر ہوسکتی ہیں۔ پھر یہ بھی قابل رشک ہے کہ ان کی رسائی یا معلومات میں قدیم و نادر، مطبوعہ و غیر مطبوعہ، فارسی و اردو اور انگریزی، ہر طرح کی کتب شامل تھیں۔یہ بھی حیران کن ہے کہ ان کی نظر میں متعلقہ موضوعات یا عنوانات پر جدید و قدیم ہر طرح کی انگریزی کتب، ، جو بالعموم ہندوستان کی تاریخ کے ہر دور کا احاطہ کرتی ہیں، ان کی فہرستوں میں درج نظر آتی ہیں۔ اس طرح اس خاکے سے ان کے مطالعے کی وسعت، تازگی،اور تاریخ سے ان کی غیر معمولی دل چسپی کابھی ثبوت ملتاہے۔یہ خاکہ یا منصوبہ چوں کہ وثائقِ مودودی میں عکسی شائع ہواہے، اور چوں کہ مولانا مودودی کا دست نوشتہ ہے، اس میں انگریزی کا ان کا خط بھی نہایت پختہ اور جامع ہے جو انگریزی میں ان کے لکھتے رہنے کا ایک مظہر بھی ہے۔
ان تصانیف سے قطع نظر مولانا مودودی نے دکن کی تاریخ پر مستقل کتابوں کی تصنیف کے علاوہ کم از کم ایک مقالہ ایک اہم تاریخی ماخذ: ’فتوحات ِ آصفی‘ مصنفہ: ابوالفیض معنی دہلوی کے مطالعے و تعارف پر لکھاہے جو غیر معروف اور غیر مدون ہے۔یہ حیدرآباد دکن سے نکلنے والے اخبار روزنامہ صبح دکن کے ’سالگرہ نمبر‘ ، ۱۳۵۱ھ ؍۱۹۳۲ء میں صفحات: ۳۸ ۔۴۲ پرشائع ہوا تھا۔اس اخبار کے مدیر مولوی احمد عارف ان کے قریبی دوست تھے جن کے اشتراک سے انھوں نے اپنی کتاب تاریخِ دکن لکھ کر شائع کروائی تھی۔اپنی اس مذکورہ تصنیف کے لیے مولانا مودودی نے تاریخی اورمستند معلومات کے حصول کے لیے معاصر اور تازہ ہر طرح کے مآخذ اپنے پیشِ نظر رکھے تھے۔دکن کی اپنی تاریخ نویسی کا کام انھوں نے ، اپنے مذکورہ منصوبے کے ذیل میں، قیامِ مملکت ِ آصفیہ (۱۷۲۴ئ) کے بعد دارالحکومت دہلی پر نادرشاہ کے حملے (۱۷۳۹ئ) تک ایک لحاظ سے مکمل کرلیا تھا۔اس کے بعد وہ اس کام کو بوجوہ آگے نہ بڑھاسکے لیکن اپنے منصوبے کے تحت مآخذ اور معلومات جمع کرتے رہے۔اس ضمن میں ان کی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ کے مآخذ کی فہرستوںاور کتابیات میں، جو ہر باب کے اختتام پر شامل ہے، دیکھا جاسکتاہے کہ انھوں نے اپنے احاطہ کردہ دور سے متعلق قریب قریب سارے ہی اہم اور بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کرلی تھی۔وہ اپنے مصادر میں فتوحاتِ آصفی اور مآثرِِ نظامی، مصنفہ: لالہ منسا رام کو زیادہ اہم اور قابل ِ اعتماد سمجھتے تھے ۲۰؎ ۔یہ دونوں مؤرخین باہم ہم عصر تھے اور نظام الملک آصف جاہ اول کے بھی معاصر تھے۔ ان کی مذکورہ تصانیف نظام الملک ہی کے حالات و عہد کا احاطہ کرتی ہیں۔ ۲۱؎ یہ دونوں فارسی میں ہیں اورتا حال غیر مطبوعہ ہیں۔ان دونوں میںفرق صرف اسلوب کا تھا کہ فتوحات ِ آصفی منظوم ہے، جب کہ مآثرِِ نظامی نثر میں ہے۔
فتوحاتِ آصفی کی طرح ممکن ہے مولانا مودودی نے مآثرِِ نظامیکو بھی اپنے خصوصی مطالعے یا مقالے کا موضوع بنایا ہو لیکن فتوحاتِ آصفی پر ان کا مقالہ دستیاب ہے۔اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تو مولانا مودودی کا دکن کی تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع اور پختہ تھا اور دوسرے انھوں نے فتوحاتِ آصفی کو اپنی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ کے لیے ایک اہم اور بنیادی ماخذ سمجھ کر اس کا مطالعہ بالاستیعاب کرنا پسند کیا تھا۔ چنانچہ نہ صرف انھوں نے اپنی کتاب میںاس سے ضروری استفادہ کرتے ہوئے اس سے جگہ جگہ معلومات اخذ کیں بلکہ ضرورتا ًاس کے اہم اہم اقتباسات بھی درج کیے، جو متعدد مقامات پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
فتوحاتِ آصفی چوں کہ تا حال غیر مطبوعہ ہے اور عام نہیں،اس لیے اس تک رسائی، اس کا حصول اور اس سے ضروری استفادہ ایک خاص جستجو اور تلاش کا نتیجہ ہے۔اس کے قلمی نسخے بھی عام نہیں۔ ایک نسخہ کتب خانہ ٔ آصفیہ میں موجود ہے اور دو نسخے مملکت کے دفتر استیفا میں محفوظ ہیں۲۲؎ ، جب کہ ایک نسخہ ’ گورنمنٹ اورینٹل مینوسکرپٹ لائبریری، مدراس‘ میں بھی موجود ہے۔ ۲۳؎ اس کی کمیابی سے اندازہ ہوتاہے کہ مولانا مودودی نے اس سے استفادے کے لیے یقینا ً کافی تگ و دو کی ہوگی۔انھوں نے جس نسخے سے استفادہ کیا اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کہاں موجود ہے۔چوں کہ کتب خانۂ آصفیہ کا مخزونہ نسخہ آب رسیدہ اور ناقص الطرفین ہے، اس لیے شایداس سے استفادہ نہیں کیا گیا ،ممکن ہے کہ دفتر استیفا کے نسخے ان کے ملاحظے میں رہے ہوں۔۔
ابوالفیض معنی دہلوی کے بارے میں شمس اللہ قادری (م: ۱۹۵۳ء ) نے تحریر کیاہے کہ وہ مرزا عبدالقادر بیدل (۱۶۴۴ئ-۱۷۲۰ئ) کا شاگرد رہاہے۔ابتدا میں شاہجہاں آباد کے محلہ گلاب واڑی کا رہایشی تھا۔آصف جاہی افواج کے ساتھ اورنگ آباد آیا اور نواب شاہنواز خان صمصام الدولہ (م: ۱۷۵۸ئ) کی مصاحبت اختیار کی۔قاضی محمد صادق اختر ( ۱۸۰۷ئ-۱۸۵۸ئ) کے تذکرہ آفتاب عالم تاب‘ میں اس کا احوال ملتا ہے ۲۴؎، جب کہ علی حسن خان (۱۸۶۶ئ-۱۹۳۶ئ) کے تذکرہ صبح گلشن ۲۵؎ ؛اور مظفر حسین صبا (م: ۱۹۲۹ئ) کے تذکرۂ روزِِ روشن۲۶؎ میں بھی اس کا احوال موجودہے۔
شمس اللہ قادری کے مطابق فتوحاتِ آصفی جانشینانِ اورنگ زیب کے عہد کی تاریخ اور نظام الملک آصف جاہ کی مفصل سوانح حیات ہے۔اس کا آغاز اورنگ زیب کی وفات کے بعد سے ہوتاہے اوراس میں محمد شاہ (۱۷۱۹ئ-۱۷۴۸ئ) کے پچیسویں سالِ جلوس ( ۱۷۴۴ئ)تک چھے بادشاہوں اور پانچ دعوے دارانِ سلطنت کا تذکرہ کیاہے۔اس کے ساتھ تاریخ اور عہد کے لحاظ سے آصف جاہ کے حالات ، مختلف صوبہ جات کی حکومت، دربار ِ دہلی کی وزارت، دکن کی فتوحات وغیرہ بیان کی گئی ہیں۔ان واقعات پر کتاب کا دو تہائی حصہ مشتمل ہونے کی وجہ سے مصنف نے اس کا عنوان ’فتوحات ِ آصفی‘ رکھا ہے۔۱۱۵۶ھ؍ ۱۷۴۴ء تک کے واقعات شامل کرنے کے بعدکتاب ختم ہوگئی ہے۔
[مولانا مودودی کے اس مقالے کا مکمل متن ادارہ معارف اسلامی کراچی کے مجلے معارف مجلۂ تحقیق، شمارہ ۹(جنوری-جون ۲۰۱۵ئ) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس کا اختتامیہ درج کیا جا رہا ہے]:
’’کاش! ہندستان میں بھی یورپ کی طرح ایسے علمی ادارے قائم ہوتے جنھیں قوم کی فیاضی روپے سے بے نیاز کر دیتی اور وہ اس قسم کی کتابوں کو نئے طرز سے مرتب و مہذب کر کے مفید فہرستوں اور انڈکسوں کے ساتھ شائع کرتے، لیکن ایک ایسے ملک میں اس قسم کی تمنا کرنا حماقت سے کم نہیں ہے جہاں غیر ملکوں کی ہر چیز عزیز اور اپنے ملک کی ہر شے حقیر و ناچیز ہے۔ روم و یونان، عراق و ایران اور فرانس و انگلستان کی تاریخ سے تو اعتنا کا یہ عالم ہے کہ ہماری یونی ورسٹی کا سارا نصاب نامہ اس سے بھرا پڑا ہے۔ اور ہندستان کی تاریخ سے یہ بے اعتنائی ہے کہ اس کی تاریخ کو اس نصاب نامے میں بہت تھوڑی جگہ ملی ہے اور اس تھوڑی جگہ کا بھی بیش تر حصہ ان کتابوں نے لے لیا ہے جن میں ہم اپنے آپ کو غیروں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم ہندستان کی مجموعی تاریخ پر کچھ نہ کچھ پڑھایا تو جاتا ہے۔ دکن جو خود اپنا گھر ہے اور جس کی تاریخ کا علم، اگر فی الواقع تاریخ کا علم ضروری ہے تو ۔۔۔۔ اس ملک کے ہر بچے کو حاصل ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس تھوڑے سے شرف سے بھی محروم رہا۔
ابتدائی تعلیم سے لے کر یونی ورسٹی کی اعلیٰ تعلیم تک پورے نصاب درس پر ایک نظر ڈالی جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف ثانوی تعلیم میں ملک کے بچوں کو دکن کی تاریخ سے مجملاً روشناس کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے بعد دکن کی تاریخ ہندستان کی عام تاریخ کا ایک ضمیمہ بن کر رہ جاتی ہے جس کو پڑھ کر اس خطۂ ملک کے ایک فارغ التحصیل گریجویٹ کو اپنے درنگل، گولکنڈ، گلبرگہ، بیدر، دولت آباد، بیجا پور اور بیجا نگر کے متعلق اس سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوتیں جتنی وہ اجین، اجمیر، دہلی، قنوج اور پٹنہ کے متعلق رکھتا ہے۔ اور اس ذخیرۂ علم کا موازنہ اس واقفیت سے کیا جائے جو اسے یونان، روم، فرانس اور انگلستان کے متعلق حاصل ہے تو شاید یہ اس کے مقابلے میں بالکل ہی حقیر پایا جائے___ پھر اگر ایسی تعلیمی فضا میں نشو ونما پانے کے بعد وہ اپنے ملک کی زینت، اپنے وطن کے علوم و فنون، اپنی قوم کے عالی قدر فرماں روائوں، سپہ سالاروں اور مدبروں اور اپنی ملّت کے مایہ ناز علما، شعرا، ادبا اور ماہرینِ فنون سے نا آشنا اور ان کی حقیقی عظمت و شان سے بے خبر رہیں اور ان کو ناقابلِ اعتنا سمجھ کر تمام تر دوسرے ملکوں کی تہذیب و تمدن کو خراج تحسین ادا کرنے اور غیر قوموں کے نامورابطال کی ثنا و وصف کے ترانے گانے میں مشغول رہیں، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے‘‘۔
۱؎ سفیر اختر، ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں، دار المعارف، واہ کینٹ، ۱۹۹۸ئ، ص ۱۰
۲؎ ان ابتدائی تحریروں کی طباعتی تفصیلات کے لیے ، ایضا ً ، ص ۱۱، اور ایضا ً، ’ سید مودودی اور ماہنامہ معارف، دارالمعارف، واہ کینٹ، ۱۹۹۹ئ، ص ۷۹
۳؎ ان وابستگیوں کا ذکر، ضروری تفصیلات کے ساتھ سید مودودی کی' خود نوشت 'میں موجود ہے، مشمولہ: سفیر اختر، ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں،ص ۹ا-۴۴، خصوصاً، ص ۲۶-۲۸؛ ایضاً، ’سید مودودی اور ماہنامہ معارف‘، ص ۹۱-۹۳
۴؎ ایضاً، ص ۲۸ و نیز محمد رفیع الدین فاروقی، ’مولانا مودودی اور حیدر آباددکن‘ ، مشمولہ:تذکرہ سید مودودی جلد ۳، مرتبہ جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد، ادارۂ معارف اسلامی، لاہور، ۱۹۹۸ئ، ص ۳۱۵
۵؎ اسی ضمن میں مصطفی کامل پاشا کی کتاب مسئلۂ شرقیہ کا اردو ترجمہ بھی شمار کیا جاسکتاہے جو اگرچہ نیاز فتح پوری کے نام سے ’صوفی پرنٹنگ پریس، منڈی بہاالدین سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا اور اس پر نیاز صاحب کے سہو کی وجہ سے مصنف کا نام ’ مصطفی کمال پاشا‘ چھپ گیا۔اس بارے میں تفصیلات کے لیے: سفیر اختر، ’سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کا سرمایۂ قلم، بھولی بسری تحریروں کی روشنی میں‘، دارالمعارف، واہ کینٹ، ۲۰۰۴ئ، ص ۱۴، ۲۷۔۲۸
۶؎ ان مضامین کی اشاعتی تفصیلات کے لیے:سفیر اختر، ایضاً، ص ۱۰۔۱۱
۷؎ سید مودودی، ’خودنوشت‘،مشمولہ محولہ بالا، ص ۲۰
۸؎ شائع کردہ: کتب خانہ ٔ رحیمیہ، دہلی، ۱۹۲۸ء
۹؎ دولتِ آصفیہ اور حکومت ِ برطانیہ، اشاعت ِ اول، ص ۱ ۱۰؎ ایضاً، ص ۱۔
۱۱؎ محمد رفیع الدین فاروقی ، تصنیفِ مذکور میں ان ۱۲ مضامین کی فہرست درج ہے۔ ص۳۱۵۔
۱۲؎ تفصیلات کے لیے: ایضاً، ص ۳۱۷؛اس ضمن میں متعلقہ دستاویزات کو سید شکیل احمد’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، چند اسناد و مآثر دکن کی روشنی میں‘‘، مشمولہ: یادگاری مجلہ بموقع چھٹا آل انڈیا اجتماع جماعت اسلامی ہند‘، ۲۰ تا ۲۳ فروری، ۱۹۸۱ئ، بمقام حیدر آباد، ص ص ۲۵۹۔۲۶۳ سے اخذ کرکے آئین کی محولہ بالااشاعت میں صفحات: ۶-۸ پرنقل کردیا گیا ہے۔
۱۳؎ مطبوعہ: دارالاشاعت سیاسیہ، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۴ئ؛ بعد میں یہ کتاب اسلامک پبلی کیشنز، لاہور سے اگست ۱۹۶۸ء میں اور پھر جون ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی۔
۱۴؎ مطبع عہد آفریں ، حیدر آباد، ۱۳۵۱ھ
۱۵؎ مشمولہ: ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں، ص ۱۹،۴۳۔
۱۶؎ سید محمد جعفری، ’اسٹار ڈائرکٹری‘ اسٹار پریس، الٰہ آباد، سن ندارد،ص ص ۴۴۴۔۴۴۵؛ صبح وطن، ۱۹۲۸ء میں جاری کیاتھا، سید ممتاز مہدی، ’حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات‘، قومی کونسل براے قومی زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ئ، ص ۴۱؛دار العلوم، حیدرآباد سے فارغ التحصیل تھے۔۱۹۴۸ء میں یہ اخبار بند ہوگیا، طیب انصاری، حیدر آباد میں اردو صحافت۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد، ۱۹۸۰ئ، ص ۶۰
۱۷؎ دیباچہ، ص ۲ ۱۸؎ ایضا ً۔
۱۹؎ مرتبہ: سلیم منصور خالد، شائع کردہ ’ادارہ ٔ معارف اسلامی‘، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ص ۲۲۔۵۰
۲۰؎ مولانا مودودی ’فتوحات ِ آصفی‘، مشمولہ: روزنامہ صبح دکن، سالگرہ نمبر، ۱۳۵۱ھ، ص ۳۸
۲۱؎ ان دونوں مؤرخین اور ان کی تصانیف پر شمس اللہ قادری نے اپنی تصنیف مؤرخینِ دکن، میں تعارفی شذرات تحریر کیے ہیں۔مآثرِ نظامی کے لیے: ص ۱۳-۱۵؛ فتوحاتِ آصفی کے لیے: ص۵-۶
۲۲؎ شمس اللہ قادری، تصنیفِ مذکور، ص ۶؛ یہ آب رسیدہ اور ناقص الطرفین ہے۔تفصیلات کے لیے: ’فہرست کتب خانہ سرکار عالی‘، جلد سوم، دارالطبع سرکار عالی، ۱۳۵۵ھ، ص ۹۶۔ یہاں فہرست نگار نے اس کا عنوان ’’تاریخ فتوحات ِ آصفی منظوم (شاہ نامہ ٔ دکن)‘‘ تحریر کیاہے اوراسے سہواً میر محمد احسن المتخلص بہ ایجادکی تصنیف قرار دیاہے۔
۲۳؎ چندر سیکھرن، ٹی، A Catalogue of Persian and Arabic Manuscripts in the Government Oriental Manuscripts Library, Madras مدراس، ۱۹۶۱ئ، ضمیمہ، ص۱۳۔ ان نسخوں میں اس کا عنوان الگ الگ بھی ملتاہے، جیسے: ’تاریخ فتوحاتِ آصفی منظوم‘ اورمثنوی فتوحاتِ آصفی‘۔ سی۔ اے۔ اسٹوری (C.A. Storey) ، Persian Literature, a bio-bibliographical Survey. جلد اول، ص ۶۰۵، ۷۴۸،۱۳۳۱
۲۴؎ شمس اللہ قادری، تصنیف مذکور، ص ۶
۲۵؎ مطبوعہ: مطبع شاہجہانی، ۱۲۹۵ھ، ص ۴۳۱
۲۶؎ مرتبہ: محمد حسین رکن زادہ آدمیت، کتاب خانہ ٔ رازی، تہران، ۱۳۴۳ش، ص ۷۴۸
یہ ایک ایسے امریکی نوجوان کا عدالتی بیان ہے جو امریکا میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا۔ امریکا کی ظالمانہ کارروائی کا شکار ہوا۔ طارق مہنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں۔ ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکا رہ بس گئے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور آج کل امریکا ہی میں مقیم ہیں۔ انھیں امریکی حکومت نے سوشل میڈیا پر مجاہدین کی حمایت کرنے کے الزام میں اُن پر مقدمہ چلایا۔ جب امریکی عدالت کا جج انھیں سزا سنا رہا تھا انھوں نے بھری عدالت میں یہ بیان دیا تھا۔ اس بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مبہوت کر دیا تھا ۔جج نے جواب میں صرف یہ کہا: ’’امریکی عدالت صرف قانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہے، قانون بناتی نہیں‘‘۔ طارق مہنا امریکی عقوبت خانوں میں تشدد برداشت کرنے کے بعد مدتِ قید گزار رہے ہیں۔ ادارہ
آج سے چار برس پہلے اپریل کا مہینہ تھا، جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جا رہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے۔ انھوں نے کہا: ’’تمھیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایک راستہ آسان ہے اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کے مخبر بن جائو اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی شکل نہ دیکھنا پڑے گی، جب کہ دوسرا دشوار راستہ ہے۔ سو، وہ آپ کے سامنے ہے‘‘۔
تب سے اب تک ان چار برس کا بیش تر عرصہ میں نے قیدتنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے، جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے ۲۳گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ ایف بی آئی ، ان کے وکلا اور حکومت نے مجھے اس کوٹھڑی میں ڈالنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھڑی میں مزید وقت گزارنے کی منزل تک پہنچانے کے لیے عام امریکی شہریوںکے ادا کردہ ٹیکسوں کے ہزاروں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
جب میں نے مخبر بننے سے انکار کر دیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پر مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا ’جرم‘ کیا ہے، یا ’دہشت گردوں‘ کی حمایت کی ہے، جیساکہ وہ ایسا کہنا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں پیدا نہیں ہوا بلکہ یہیں امریکا میں پلابڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضب ناک کرتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ: ’’میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کر رکھا ہے!‘‘ انسان اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ اس کا ایک جز بن جاتا ہے، یہی اُس کا نقطۂ نظر تشکیل دیتا ہے اور یہی حال میرا بھی ہے۔ لہٰذا یہی ایک نہیں، بلکہ بہت سی وجوہ کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکا ہی کی وجہ سے ہوں۔
چھے برس کی عمر میں مَیں نے طنزومزاح پر مبنی کتب کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کیا تھا۔ ’بیٹ مین‘ نے میرے ذہن میں یہ تصور بویا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلومین کی حمایت کے لیے آگے آتے ہیں۔ یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست ہوتی رہی کہ اپنے بچپن کے پورے زمانے میں مَیں ہراس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا، جس میں یہ نمونہ پیش کیا جا رہا ہو۔ The Uncle Tom's Cabin اور Autobiography of Malcom X،حتیٰ کہ مجھے تو The Cather in Ryethein میں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔
پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا۔ وہاں میں نے تاریخ کے اسباق پڑھے۔ میں نے امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے مظالم کے بارے میں پڑھا کہ ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر پال ریور اور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ جانا کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی۔ وہ بغاوت جس کا آج ہم امریکا کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔ آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں ہم اس سے کچھ دُور ہی اسکول کی طرف سے سیروسیاحت پر جایا کرتے تھے۔ اس دوران میں، مَیں نے ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔ میں نے ایما گولڈمین، یوجین ڈبیز، مزدوروں کی انجمنوں اور غریبوں کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔ میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے اور مخالفین کو قید کرتے تھے۔ پھر روزاپارکس، میلکم ایکس، مارٹن لوتھرکنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔ اسی طرح ہوچی منہہ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندوں نے کئی عشروں تک یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبوں کے خلاف لڑنے میں زندگیاں گزار دیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔ میں نے ان برسوں میں جو کچھ پڑھا، وہ چھے برس کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کر رہا تھا کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔ غرض جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا، میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرف دار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی اسکول کے زمانے میں اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی، جب کہ میں یہاں کھڑا ہوں، وہ نوٹس میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔
جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں، مَیں نے پڑھا، ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی جس کا نام میلکم ایکس ہے۔ میلکم ایکس کی بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا، لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دل چسپی بڑھائی وہ تھی ان کی کایاپلٹ ۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’ایکس‘ دیکھی ہے یا نہیں۔ یہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی ہے اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔ وہ ایک اَن پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے۔ ایک اصولی مسلمان جو مکہ معظمہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔
میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے۔ یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام بھی نہیں ہے۔ یہ تو طریقۂ زندگی ہے، ایک فکری حالت ہے، جسے کوئی بھی اپنا سکتا ہے، خواہ وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلابڑھا ہو۔ اس چیز نے مجھے اسلام کو بہ نظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔ میں تو صرف ایک نوجوان تھا اور اسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا ہے، جو بڑے بڑے سائنسی ذہن پیش کرنے سے قاصر ہیں اور جس کا جواب نہ پاکر اُمرا اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ سوال ہے: زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟
اسلام نے نہ صرف ان سوالوں کا جواب دیا ہے، بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔ درحقیقت اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں بناتا۔ لہٰذا میں نے براہِ راست قرآن و سنت کا مطالعہ شروع کردیا، تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے؟ اور بحیثیت انسان اسلام میرے لیے اور میرے اردگرد کے لوگوں کے لیے، ساری دنیا کے لیے کیا پیش کرتا ہے؟__ جتنا جتنا میں سیکھتا گیا، مجھے اسلام کی قدروقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا ۔گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔ یہ میرے عنفوانِ شباب کی بات ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دبائو کے باوجود میں یہاں آپ کے اور اس کمرئہ عدالت میں تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں، الحمدللہ!
اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔ جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی، یہی دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب اُمت مسلمہ کی تذلیل کرنے کے درپے ہیں۔ مجھے پتا چلا کہ: سوویت یونین نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پر کیا قیامت ڈھائی؟ روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتا چلا ۔ مجھے پتا چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا اور اب امریکا کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کر رہا ہے؟ اور یہ پتا چلا کہ خود امریکا مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
مجھے جنگ ِ خلیج [۱۹۹۱ئ] کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا، جن سے ہزاروں لوگ مرگئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔ پھر میں نے امریکا کے مسلط کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا، جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا، اور کس طرح اقوام متحدہ کے ذریعے ان جابرانہ اور انسانیت کش پابندیوں کے باعث ۵لاکھ سے زائد معصوم عراقی بچے ہلاک ہوگئے، جن کی کسی سے دشمنی نہ تھی، جنھوں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ مجھے امریکی وزیرخارجہ میڈیلائن البرایٹ کے ’۶۰منٹ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ: ’’یہ بچے اسی قابل تھے‘‘۔ میں نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء (نائن الیون) کو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انھیں عمارتوں میں اُڑا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ [۲۰۰۳ء میں] امریکا نے براہِ راست عراق پر حملہ کردیا ہے۔ اس حملے کے پہلے روز آپریشن ’Aweand Shock‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی۔ ہسپتال کے وارڈوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے (یہ سب کچھ CNN پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہوا، جہاں ۲۴مسلمانوں کو، جن میں ایک ۷۶سالہ ویل چیئر پر بیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کو بستروں ہی پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔
پھر مجھے عبیرالجنی کے بارے میں پتا چلا: ایک ۱۴سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں ان فوجیوں نے اس مظلوم بچی اور اس کے گھروالوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلادیا۔ میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے سر کے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گائوں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اس کی عصمت دری کریں۔ آج بھی، جب کہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں، ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں مستقل بنیادوں پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ پچھلے ہی ماہ ان ۱۷افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا، جن میں اکثریت مائوں اور ان کے بچوں کی تھی، جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے، ان میں بھائی چارہ اور وفاداری بھی شامل ہے کہ ہرمسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی، اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔ بالفاظِ دیگر میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے۔ امریکا بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیرجانب دار رہوں۔ ان حالات میں مَیں نے صرف مظلوموں کے لیے حمایت بھی کی۔
میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لیے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کانکورڈ جائیں گے، تاکہ وہاں آزادی کے لیے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحے کو ضبط کریں۔ جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لیے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لیے ان کے سامنے مقابلے کے لیے کھڑے تھے۔ انھوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انھیں شکست دی۔ اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغاز ہوا۔
جہاں تک میرے مقدمے کا تعلق ہے، اس کی تمام پیشیوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی ہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا ، لیکن اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا ’ماہر‘ اس جگہ آکھڑا ہوتا رہا، جنھوں نے میرے تحریر کردہ ہرہرلفظ کے حصے بخرے کرکے وہ وہ معانی پہنانے کے جتن کیے، جو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھے۔ پھر کئی گھنٹے اس چیز پر صرف کیے گئے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں، مگر اس کے باوجود مجھے رہائی مل گئی۔ اس کے بعد حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے ’دہشت گردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے ایسے کسی بے ہودہ کام میں شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔
لہٰذا، میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل کی مناسبت سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہیے، چاہے وہ امریکی ہوں، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔ میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ نہ دہشت گردی ہے اور نہ انتہاپسندی۔ یہ تو بس اپنی ذات کے دفاع کی سادہ سی منطق ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی نمایندگی آپ کے پیچھے آویزاں ’مونوگرام‘ میں موجود علامت کے تیر کر رہے ہیں: ’’وطن کا دفاع‘‘۔ چنانچہ میں اپنے وکلا کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔ نہیں، بلکہ جس کے اندر تھوڑی سی بھی عقل اور انسانیت کی رمق ہوگی، لامحالہ اسے یہ بات ماننا ہی پڑے گی۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے، تو عقلِ عام یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لیے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کس وجہ سے یہ اصول بدل دیا جائے؟ اس عقلِ عام کا نام ’دہشت گردی‘ رکھ دیا جاتا ہے اور جو لوگ سمندرپار سے آئے قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع کرتے ہیں، وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے دیے جاتے ہیں۔
ڈھائی صدی پہلے امریکا جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل پھر رہے تھے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کا شکار آج مسلمان ہیں، جن کی سڑکوں پر آج امریکی فوجی مٹرگشت کررہے ہیں۔ یہ استعمار کی ذہنیت ہے۔ جب سارجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات ،اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کے گروی ہونے پر تھا۔ لیکن جن لوگوں کو اس نے مارا تھا، ان کے لیے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی۔ گویا وہ انسان نہیں تھے۔ بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوتی جارہی ہے، چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔ حتیٰ کہ میرے وکلا بھی، دو سال تک مجھے یہی سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے رہے۔ دوسال! اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا بات سمجھنے میں، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا۔ پھر مجھے جیوری کے سامنے اس طرح پیش کر دیا گیا کہ وہ میرے ’غیرجانب دار موکل‘ ہیں۔ آج جو ذہنیت امریکا پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔ اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لیے نہیں کہ انھیں کوئی ضرورت تھی، بس صرف اس لیے کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں۔
میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں تاریخ کی کلاسوں میں ایک اور بات بھی سیکھی تھی۔ وہ یہ کہ امریکا نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف نہایت غیرمنصفانہ حکمت عملیاں اپنائی ہیں، اور ایسے افعال کیے ہیں جنھیں ان کے خودساختہ قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا۔ یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابلِ قبول تھا، اور امریکی سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا امریکا بدل گیا۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ کر ایسا کر رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نے نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے اسے قیدحیات کی سزا سنائی تھی، لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی ظالمانہ تھی کیوں کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کر دیا گیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہٰذا، ہر چیز ذہنیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح’دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی اور یہ بھی کہ کون ’دہشت گرد‘ ہے۔ یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے، اور اس پر بھی کہ کون اس وقت ’عالمی قوت‘ ہے۔
آپ کی نظروں میں مَیں دہشت گرد ہوں اور صرف ایک مَیں ہی یہاں پر زرد لباس میں کھڑا ہوں۔ ایک دن امریکا بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن حقیقت کا احساس ہوگا۔ وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیرممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج بنا دیے گئے۔ تاہم،میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔ لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے ’دہشت گرد‘ کی حیثیت سے قید رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ لیکن اگر ہم کسی طرح معصوم عراقی مسلمان بچی عبیرالجنی کو اس موقعے پر زندہ کر کے لاکھڑا کریں، جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقینا اس کا اشارہ میری طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر ’انتہاپسندی‘ کا بھوت سوارہے، ’امریکیوں کے قتل کا بھوت‘۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ نفرت آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔
مترجم: ایم فل اسکالر، رفاہ یونی ورسٹی ، اسلام آباد
عدالت عظمیٰ کی حالیہ ہدایات کے تحت دستور کی دفعہ ۲۵۱(۱) کے مطابق قومی زبان کو اختیار کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ نہایت خوش آیند ہے ۔ لیکن یہ کام مختصر اور آسان نہیں۔ اس حوالے سے یہ تحریر پیش ہے۔ ادارہ
اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے یا مبالغے پر، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ آنے والی نسلیں اُردو ادب سے تو کٹتی جا رہی ہیں، وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کیا جائے توہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ کیوں نا مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے؟
کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں۔ ایک تو سورہ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔
پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)۔خود سوچ لیجیے کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟
اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘۔ اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔
دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے ۱۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۶۴ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔
انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل سلیمین کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانان ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پایہ کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بو علی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یوروپین بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور گھٹیا محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔
ہم کیا تھے اور ہمارے انگریز آقا ہمیں کیا بنانا چاہتے تھے۔ اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں کسی کو بھکاری دیکھا ہے نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے افراد دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی و روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے نظامِ ثقافت کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت داستانِ ماضی ہو جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنہیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح مغلوب قوم....‘‘۔
چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے اوّل علم دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزاے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، بالآخر طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے۔
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اُردو ذریعۂ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں، ان کی بہت بڑی اکثریت اُردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے۔ انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔
آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت حمیت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ یہاں پر دو واقعات ملاحظہ کیجیے جوآنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔
ایک معالجِ امراضِ ذہنی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصیص (اسپیشلائزیشن) کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو اپنی زبان ہے۔
دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیرِ تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے کالے انگریزوں نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انھوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج بھی خلفشار کے اس دور میں یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے پچھلی صدی سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر اُردو رسم الخط میں کام کے حوالے سے یہ تا ثر پایا جاتا ہے کہ اِن پیج کے سوا کام نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے اُردو معلومات کو ترسیم(گراف)، چارٹ، جدول میں اُس طرح پیش کرنا ممکن نہیں جیسے انگریزی میں ممکن ہے۔ مگر اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ سافٹ ویئر ما ہرین نے اب ان پیج ایپلی کیشن کو مائکرو سافٹ ورڈ اور ایکسل کے ساتھ جوڑ کر ان سافٹ ویئرز پر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ان پیج کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جا سکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔
ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔
ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے یا پھر المیہ کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔ دراصل اُردو کے نفاذ سے اقتدار، عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اُردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔
کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اُردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔
ان امور پر عمل کرنے میں شروع میں ہمیں تکلیف تو ہو گی لیکن ان شاء اللہ یہ مشکل جلد رفع ہو جائے گی۔ یاد رکھیے!ہر بڑا کام محنت اور مستقل مزاجی چاہتا ہے۔
ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟
مقالہ نگار میڈیکل آفیسر، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، کراچی ہیں
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کی ۶۵ فی صد آبادی کی گزربسر زراعت پر ہے۔ اگر ایسے زرعی ملک کے کسان بلبلا اُٹھیں اور کاشت کار چیخ رہے ہوں کہ حکومت کو ان کے مسائل کا اِدراک نہیں اور اربابِ بست و کشاد کو ان کے دُکھ درد کا احساس نہیں تو یہ ایک الم ناک صورتِ حال ہے۔
اس وقت وطن عزیز کی پانچوں بڑی فصلیں: چاول، کپاس، گندم، گنا اور آلو بدترین بحران کا شکار ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے چاول برآمد نہیں ہوسکا، پرانے اسٹاک گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کاشت کار کو پچھلے سال کی نسبت چاول کی آدھی قیمت بھی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال باسمتی مونجی ۲۵۰۰ روپے من بکتی رہی، جب کہ اس سال کسان کے لیے وہی مونجی ۱۲،۱۳ سو روپے فی من بیچنا بھی مشکل تھا۔ کپاس کی کاشت پر فی ایکڑ تقریباً ۴۴ہزار روپے اخراجات آتے ہیں، جب کہ کاشت کار کو ۲۰ سے ۲۲ ہزار روپے فی ایکڑ قیمت وصول ہوئی، جو اخراجات سے کہیں کم ہے۔ گندم کی سرکاری قیمت خرید ۱۳۰۰ روپے فی من مقرر ہے مگر کھیت میں کاشت کار کو دو سے تین سو روپے فی من کم ملتی رہی ہے۔ گنے کی فصل اچھی تھی مگر شوگر ملوں کے مالکان نے کاشت کاروں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا، لہٰذا انھیں گنے کے بہت کم نرخ مل سکے۔ آلو کے کاشت کارنے جب اندازہ لگایا کہ فروخت کے بعد وصول ہونے والی رقم اس پر اُٹھنے والے اخراجات سے کہیں کم ملے گی تو اس نے آلو کی فصل کو منڈی تک پہنچانے کی زحمت ہی نہیں کی اور پکی ہوئی تیار فصل کو ہل چلا کر زمین کے اندر ہی دفن کر دیا۔ یہ ہے اس ملک کے اس کاشت کار کی کہانی جو برفانی راتوں، جان لیوا حبس اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلا کر ملک کے کروڑوں باشندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیا کر رہا ہے۔
کچھ عرصے سے اجناس کی برآمد رُک گئی ہے جس کے باعث سفیدپوش کسان عرش سے فرش پر آگرا ہے۔ غربا و مساکین کو خیرات و صدقہ دینے والے کنبے خود صدقہ و خیرات کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی ایک سفیدپوش گھرانے کے ایک بزرگ پچھلے دنوں بتا رہے تھے: ’’چند سال پہلے تک اللہ کے فضل سے فصل اچھی ہوتی تھی اور نرخ بہت اچھے مل رہے تھے‘‘۔ پھر یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ’’مگر اب کاشت کاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہم دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔
بلاشبہہ اس ملک کو قدرت کی طرف سے بے پناہ نعمتیں اور وسائل میسر ہیں۔ یہاں کے موسم اور مٹی قدرت کا اَنمول تحفہ ہیں۔ رواں دواں دریا اور رواں نہریں موجود ہیں۔ مگر بے نیاز حکومتوں، قومی جذبے سے عاری نوکر شاہی، فاترالعقل منصوبہ سازوں اور ذاتی مفادات کے غلام عوامی نمایندوں نے مل کر اس کی زراعت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
زرعی شعبے کی ترقی کے لیے جدید طرز کی ریسرچ اور تحقیقی ادارے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں زرعی تحقیق کے ادارے کبھی بہت فعال ہوتے تھے، حکومت کا رویہ ہمدردانہ اور سرپرستانہ تھا۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا، اس لیے ان کی کاوشوں کے ثمرات کسانوں تک پہنچتے تھے۔ اب یہی ادارے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر میڈیا کا موضوع بنارہا ہے۔ زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی تحقیق کے لیے مختص جگہ پر کسی بیوروکریٹ کی ہوس ناک نظریں پڑگئیں اور اس نے کچھ مقامی سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر زراعت کے لیے مختص زمین پر بھی اپنے لیے پلاٹ لینے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ زرعی تحقیق کے لیے مخصوص جگہ ہتھیاکر اُس پر ہائوسنگ کالونی بنانے کی سازش کی گئی۔ ہوس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی زرعی تحقیق کے لیے وفاقی سطح پر چند قومی ادارے قائم کیے گئے۔ ۱۹۷۵ء میں نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی گئی۔یوایس ایڈ کے تعاون سے اس ادارے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا اور ۱۰سال کی شبانہ روز محنت کے بعد اس سنٹر نے عالمی معیار کی حامل جدید ترین لیبارٹریز، تجرباتی پلانٹس، گرین ہائوسز، گلاس ہائوسز اور اینمل شیڈز پر مشتمل ایک متحرک نظام قائم کرلیا۔ یہ ادارہ ملک کا ایک قومی اثاثہ ہے جو دنیا کے ۱۷۰۰؍ اداروں میں اٹھارھویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ زرعی تحقیق، فوڈ سیکورٹی، پیداوار میں اضافے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس میں ۴۰۰ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان اور ۸۰۰سے زائد دیگر ملازمین کام کر رہے ہیں۔ نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی ادارے نے ملک کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے اور کئی فصلوں کی بیماریوں کا تدارک کیا ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جاپان کے تعاون سے یہاں منفرد ’جین بنک‘ قائم کیا گیا جو ملکی غذائی تحفظ کا اہم ترین ستون ہے اس میں ۳۵ہزار سے زائد جرم پلازمز (germplasms) محفوظ ہیں۔
اس ادارے نے ۱۹۹۵ء سے اب تک ملکی پولٹری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کی۔ ۲۰۰۸ء میں قائم شدہ ’قومی ادارہ براے پولٹری امراض‘ نے پاکستان کو برڈفلو سے پاک ملک ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ اس کے بعد پاکستان سے شرق اوسط کے ممالک میں پولٹری مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی اُٹھا لی گئی۔
پاکستان ہر سال تقریباً ۱۲؍ ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے درآمد کرتا ہے۔ ’ریسرچ سنٹر‘ کسان بھائیوں سے مل کر زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ٹماٹر کی اقسام اور پیداواری ٹکنالوجی کو متعارف کروا رہا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۴۰ مقامات پر ۸۰ کسان خاندانوں کو تربیت دی جارہی ہے جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے گی بلکہ کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اسی ریسرچ سنٹر نے کینولا، سرسوں، اسٹرابری (توتِ فرنگی)، انگور اور زیتون کی کاشت متعارف کروائی ہے جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا۔ اس ادارے نے اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی ترویج و ترقی کے لیے ایک منصوبہ مکمل کیا ہے جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ منظور کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں موزوں مقامات پر ۵۰؍ایکڑ پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔پاکستان سویابین اور سویامیل کی درآمد پر ہرسال ۶۵؍ارب روپے خرچ کرتا ہے۔ NARC نے ملکی سطح پر سویابین کی ترویج و ترقی کے لیے جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۲۰۰ ٹن بیج پیدا کرلیا گیا ہے جس کے بے پناہ فوائد سے اس فصل کو وسیع رقبے پر کاشت کرنا ممکن ہوگا۔
اس ادارے نے گندے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کی ٹکنالوجی متعارف کروائی ہے۔ اس کے تیار کردہ ’ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘ کی بدولت وطن عزیز آم برآمد کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۹۱ملین ٹن ریکارڈ برآمد کی گئی، جب کہ پڑوسی ملک پر بدستور پابندی عائد ہے۔
اس ادارے کا مزید دعویٰ ہے کہ اس نے نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سسٹم کے تحت گندم، چاول، مکئی، کپاس، کماد، دالیں، چارہ جات، تیل والی فصلیں، سبزیوں اور پھلوں کی ۶۰۰ سے زائد نئی اقسام اور ہائبرڈ تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ٹشوکلچر ٹکنالوجی سے وائرس سے پاک کیلے کے لاکھوں پودے تیار کر رہا ہے کی بنیاد پر کیلے کی فصل کو صوبہ سندھ میں جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ یہ قومی ادارہ ہر سال ملک بھر سے سیکڑوں کسانوں اور سائنس دانوں کو جدید تکنیکی تربیت بھی فراہم کر تا ہے۔
زراعت قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں ۲۲ فی صد ہے اور جو ۶۵ فی صد لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت کسی طرح بھی ایٹم بم سے کم نہیں۔ یاد کیجیے سوویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا، جس نے سیکڑوں ایٹم بم بنا لیے، چاند ستاروں پر کمندیں ڈال لیں، لیکن خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے سوویت یونین کے طور پر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔
زراعت کی بہتری کے بغیر معیشت میں کبھی بہتری نہیں آسکتی اور زراعت میں بہتری اعلیٰ معیار کی ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ۲۰۰۱ء تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھارت سے زیادہ تھی۔ بھارت سالانہ ۱۲ہزار ملین گانٹھیں، جب کہ پاکستان ۱۳ہزار گانٹھیں پیدا کرتا تھا مگر بھارت نے بہتر بیج پیدا کرلیا جس کی مدد سے اب اُس کی سالانہ پیداوار ۳۵ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اسی طرح مستند اور بہتر بیج کے باعث بھارت میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی تحقیق کے اداروں پر توجہ دی جائے۔ انھیں فنڈز مہیا کر کے ہدف دیے جائیں اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا موثر نظام وضع کیا جائے۔
یہ ایک بڑا قومی المیہ ہے کہ وزارتِ تجارت بیرونی منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام ہے، جس کے باعث چاول برآمد نہیں ہوسکا اور پچھلے دو سال سے گوداموں میں پڑا خراب ہو رہا ہے۔ اس کے تین طریقے ہیں: اوّل یہ کہ مونجی کی اگلی فصل کی سرکاری قیمت (سپرباسمتی مونجی کی قیمت ۲۲۰۰ روپے فی من اور باسمتی ۸۶ کی ۱۴۰۰ روپے فی من) مقرر کردی جائے اور حکومت پاسکو کے ذریعے خود مونجی خریدے۔ دوسرا یہ کہ ڈیلرز کے پاس پڑا ہوا چاول حکومت خرید کر خود برآمد کرے ورنہ پھر سبسڈی یا چھوٹ کے ذریعے ڈیلروں کی مدد سے یہ کام کیا جائے۔ چند ارب روپے کی حکومتی امداد سے چاول کا سنگین بحران حل ہوسکتا ہے۔ حکومت اور قوم کو یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وطن عزیز کو خوراک کی خود کفالتی حیثیت سے محروم کرنا عالمی ساہوکاروں کا پرانا ایجنڈا ہے اور اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے وہ براہِ راست یا بالواسطہ ہماری قومی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
اس وقت بھی ایسے لگتا ہے کہ زرعی شعبے کے پالیسی ساز اداروں میں کچھ ملک دشمن عناصر موجود ہیں جن کی بے جا مداخلت سے اس اہم سیکٹر کو کئی طرح سے نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہماری زرعی آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ ۲۴ فی صد سے کم ہوکر ۲۱ فی صد رہ گیا ہے۔ شعبۂ زراعت کی افرادی قوت جو کوئی دوسرا کام نہیں جانتی بے روزگاری کا شکار ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک کو خوراک کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ بلاروک ٹوک انتہائی زرخیز زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنائی جارہی ہیں جس سے زیرکاشت رقبہ سمٹ رہا ہے اور خوراک کی فراہمی مزید کم ہورہی ہے۔ زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتوں کا زراعت کے شعبے کے ساتھ اسی طرح بے نیازانہ رویہ رہا اور ہماری پالیسیاں زمینی حقائق کے برعکس بنتی رہیں تو آیندہ چند برسوں میں ہماری فوڈ سیکورٹی کے حالات انتہائی خطرناک ہوجائیں گے۔
تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ کاشت کاروں کو وہ تمام سہولیات فراہم کریں جن سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس ضمن میں معیاری بیج کی فراہمی، مناسب نرخوں پر کھاد کی دستیابی، کم نرخوں (subsidised rates) پر ٹریکٹر، تیل اور بجلی کی فراہمی اور کسانوں کو ان کی محنت کے معقول معاوضے کی فوری ادایگی، کسانوں اور کاشت کاروں کا حق ہے، جو انھیں ہرصورت ملنا چاہیے۔ حکومت زراعت کی اہمیت سمجھتے ہوئے اسے اپنی ذمہ داری سمجھے۔
بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق نئے بیج تیار کرنے اور بیماریوں سے مدافعت کے لیے مؤثر دوا اور سپرے کی ضرورت اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آزادی کے ۶۸سال بعد بھی کاشت کاروں کو کسی بھی فصل کے لیے ۱۰۰ فی صد سرٹیفائیڈ سیڈ (مصدقہ بیج) میسر نہیں۔ ابھی تک صرف ۲۰ فی صد کاشت کار مصدقہ بیج استعمال کر رہے ہیں۔ اس بیج کے استعمال سے فصل کی نمو اور فی ایکڑ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاشت کار کو مارکیٹ سے جو بیج اور ادویات ملتی ہیں وہ زیادہ تر غیرمعیاری یا جعلی ہیں۔ اس کے علاوہ بیج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ اسے خریدنے کے لیے کاشت کار کو قرض درکار ہوتاہے۔ کاشت کاروں کو آسان اقساط پر قرضے دینا بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ تمام زرعی بنکوں کو پابند کرے کہ وہ بیج کے لیے دیے جانے والے قرضے کو نقد رقم کے بجاے سیڈکارپوریشن کے نام ووچر دے تاکہ کاشت کار بیجائی کے لیے لازماً مستند بیج استعمال کریں۔ نیز کاشت کار کو میڈیا کے ذریعے مستند بیج اور قابلِ اعتماد دوائیوں کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ کپاس، گندم اور گنے کے ماہرین جدید بیج کے نام پر ہرسال سیڈمافیا سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ وہ تنخواہ اور مراعات حکومت سے لے رہے ہیں، مگر اچھا بیج بناکر پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ ایسے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ کمپنیاں اعلیٰ معیاری بیج تیار کرنے والے سائنس دان سے ملی بھگت کرکے اپنی ناقص اور دو نمبر دوائیاں (جن پر یورپ میں پابندی لگ چکی ہے) یہاں کھلے عام بیچ رہی ہیں۔ اس کا فوری تدارک بہت ضروری ہے۔
فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کھاد بنیادی ضرورت بن چکی ہے مگر اس کے نرخ کسان کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں میں یوریا کے نرخ میں ۲۹۳ فی صد اور فاسفیٹ کھاد میں ۲۸۹ فی صد اضافہ ہوا ہے، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کھاد کے استعمال میں ۲۰ فی صد کمی ہوگئی ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ ہمسایہ ملک میں بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی میں کاشت کاروں کو دل کھول کر سبسڈی دی جارہی ہے جس سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
بھارت کے صوبہ پنجاب میں زراعت کے لیے بجلی بالکل مفت ہے، جب کہ گجرات میں ایک روپیہ فی یونٹ اور راجستھان میں ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے، جب کہ ہمارے ہاں زرعی مقاصد کے لیے کاشت کاروں کو ۱۰ روپے ۳۵ پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے۔ غریب کاشت کاروں کے لیے بجلی کے نرخ ناقابلِ برداشت ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ تر کاشت کاروں نے بجلی کے کنکشن کٹوا دیے ہیں اور وہ بیچارے دوبارہ ڈیزل انجن کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اگر اسے ہمسایہ ملک جیسی امداد اور سہولتیں میسر آجائیں تو یہاں یقینی طور پر سبز انقلاب آجائے گا اور ہماری معاشی ترقی کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا۔
پانی کے بغیر زراعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں صوبہ پنجاب کو ۵۴ فی صد نہری پانی مل رہا تھا جو ۱۹۹۱ء میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ۹ئ۴۸ فی صد رہ گیا ہے۔ اب ناکافی پانی کی وجہ سے کاشت کار کو ٹیوب ویلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے کُل کاشتہ رقبے کا ۷۰ فی صد سب سے بڑے صوبے میں ہے۔ نہری اور ٹیوب ویل کے پانی کی کوالٹی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ۷۰ فی صد ٹیوب ویلوں کا پانی آب پاشی کے لیے غیرموزوں ہے۔ نیز یہ نہری پانی سے ۱۸ سے ۲۵ فی صد زیادہ مہنگا ہے، جس کی وجہ سے کاشت کار کا خالص منافع کم ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہمیں پانی کی کمی کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمارا ملک ۹ملین مکعب فٹ سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے۔ دونوں بڑے ڈیموں میں مٹی جمع ہونے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجایش کم ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ ۳۸سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا۔
دنیا بھر میں کسانوں کو رعایتی قیمت اور اجناس کی مددگار قیمت ملتی ہے۔ کاشت کار کی سبسڈی کی مخالفت کرنے والے نام نہاد معیشت دانوں کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ سبسڈی زرعی شعبے میں دی جاتی ہے۔
زراعت سے متعلق تحقیقی اداروں کا بجٹ بڑھایا جائے اور ان کی ضروریات کے مطابق انھیں فنڈز فراہم کیے جائیں، مگر ساتھ ہی ان کی کارکردگی کی سختی سے نگرانی کی جائے۔ چاول کے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ ایک سال میں چاول، کپاس اور گندم کے ہائبرڈ بیج (جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کم از کم ۳۰ فی صد اضافہ ہو) تیار کرکے کاشت کاروں کو فراہم کریں۔ ہدف حاصل کرنے والے ماہرین کو انعامات اور ترقیاں دی جائیں اور نااہلوں اور کام چوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔
زرعی ترقیاتی بنک کو اس طرح فعال اور کارآمد بنایا جائے کہ کاشت کار صحیح معنوں میں اس کی خدمات سے مستفید ہوسکیں۔ تمام صوبوں میں زراعت کے محکمے کو متحرک کیا جائے اور زراعت کے اہل کاروں کا کسان کے ساتھ دوبارہ تعلق استوار ہو۔ کسان، محکمہ زراعت اور زرعی بنک کے درمیان رابطے کے فقدان کو ختم کر کے ان کے درمیان قریبی، مفید اور مستقل رابطہ استوار کیا جائے۔ چھوٹے کاشتکار کو آڑھتی کے استحصال سے بچایا جائے اور آڑھتی کا مناسب کمیشن حکومت مقرر کرے۔
سیم اور تھور کے خاتمے کے لیے کبھی بڑے زور شور سے مہم چلا کرتی تھی۔ ہر دو لعنتوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی زمانے میں نہروں اور راجباہوں کی بھل صفائی بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی قصۂ پارینہ بن گئی ہے۔ صوبائی حکومتیں اس طرف توجہ دیں اور نہروں کو پختہ کرنے کے طویل مدتی منصوبوں پر بھی عمل درآمد کریں۔ نیز سیلاب کی روک تھام کے لیے طویل مدتی منصوبے بنائیں۔
سندھ میں بُری گورننس کی وجہ سے نہری پانی کی چوری بڑے دھڑلے سے ہورہی ہے۔ اس لیے ٹیل پر پانی دستیاب نہیں ہوتا، خاص طور پر بدین، تھرپارکر اور میرپور خاص میں پانی کی عدم دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ صوبائی حکومت اس کا تدارک کرے۔
آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے محرک اور حامی غالباً اُس وقت اس کے مضر اثرات کا اندازہ نہ کرسکے۔ صوبوں کی خودمختاری بجا مگر خودمختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دست بردار ہی ہوجائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں توانائی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے۔ مگر اٹھارھویں ترمیم میں توانائی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے، جس سے آئے روز مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کے لیے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے۔ اسی طرح فوڈ سیکورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ ہے مگر اٹھارھویں ترمیم کے حامیوں نے اس کے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے۔ اسٹاف کالج میں اس ترمیم کے سب سے بڑے وکیل رضا ربانی صاحب سے کورس کے شرکا نے پوچھا کہ فوڈ سیکورٹی مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور تعلیمی نظام ایک قوم بنانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ آپ نے پاکستان کو اس سے کیوں محروم کردیا ہے؟ ربانی صاحب نے دلیل سے جواب دینے کے بجاے ایک جذباتی تقریر کرڈالی، جس پر ایک دوست نے کہہ دیا: ’’آپ جذباتی خطبے سے ہمیں مرعوب کرسکتے ہیں مگر قائل نہیں کرسکتے‘‘۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم، زراعت اور توانائی کے شعبوں کو اٹھارھویں ترمیم کے شکنجے سے آزاد کرایا جائے اور ان اہم شعبوں پر مرکز کی نگرانی بحال کی جائے۔
مضمون نگار سابق انسپکٹر جنرل پولیس نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز ہیں
۱۶؍اگست ۲۰۱۵ء کو نمازِ فجر کے بعد خبریں سننے کے لیے ٹی وی کھولا تو پہلی خبر ہی جنرل حمیدگل کے انتقال کی تھی___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
موت برحق ہے۔ ہم سے رخصت ہونے والا یاددہانی کراتا ہے کہ آنے والی اصل زندگی کے لیے کچھ کر رکھنے کی فکر ہماری ہر فکرمندی پر غالب ہونی چاہیے۔ نیز رخصت ہونے والا جتنا عزیز، جتنا قریب اور جتنا عظیم ہوتا ہے اس سے جدائی کا دُکھ بھی اتنا ہی شدید، اتنا ہی گہرا اور قلب کو تڑپانے والا ہوتا ہے۔ جنرل حمیدگل عزیز ہی نہیں، عزیز جہاں بھی تھے۔ ان کا انتقال بلاشبہہ میرے لیے ایک بڑا ذاتی نقصان ہے لیکن مجھے علم ہے کہ یہ نقصان میرے جیسے ہزاروں انسانوں کا نقصان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور عالمِ اسلام کا نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ان کو اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے،ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ یہ بھی دُعا ہے کہ ان کی وفات سے پاکستان بلکہ عالمِ اسلام میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے بھرنے کا انتظام فرمائے اور اس قوم کو وہ قیادت میسر آئے جس کا وژن ہر آلودگی سے پاک ہو، جس کی سیرت بے داغ ہو، جو عزم و ہمت کا پیکر ہو، جس کی منزل اور مشن اسلام کی سربلندی، پاکستان کے نظریاتی، سیاسی ، معاشی اور تہذیبی وجود کا استحکام ہو، اور جو ملت اسلامیہ کے لیے ایک روشن مستقبل کی تعمیروتشکیل کے لیے سرگرم ہو۔
جنرل حمیدگل سے میرا پہلا تعارف اس دن ہوا جب مارچ ۱۹۸۸ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں، جس میں جنیوا معاہدے پر بحث ہو رہی تھی، ان کو ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے افغان جہاد اور جنیوا معاہدے کے بارے میں بریفنگ کی دعوت دی گئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاہدہ ہوجائے، اور وزارتِ خارجہ نے ایسی بریفنگ دی تھی جو تصویر کا ایک خاص رُخ پیش کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی کے چیف کی حیثیت سے جنرل حمیدگل کو بریفنگ کی دعوت دی گئی اور وزیراعظم صاحب کی توقعات کے برعکس انھوں نے بڑے مضبوط دلائل سے اور بڑے اعتماد اور بڑی جرأت کے ساتھ اس معاہدے کا پوسٹ مارٹم کرڈالا اور تصویر کا وہ رُخ پیش کیا جسے چھپایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم اور ان کے وزیروں خصوصیت سے زین نورانی کے چہروں پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ بالآخر جونیجو صاحب سے نہ رہا گیا اور بیچ میں مداخلت کر کے انھوں نے جنرل حمیدگل کو بات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ جنرل حمیدگل نے کسی ناراضی کے بغیر بات کو ختم کردیا، لیکن ارکان پارلیمنٹ نے صاف محسوس کرلیا کہ ان کی زبان بندی کی گئی ہے۔ محترمہ سیّدہ عابدہ حسین میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان سے بھی رہا نہ گیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا کہ حالات کی یہ تصویر تو ہمارے سامنے آئی ہی نہ تھی! پارلیمنٹ میں مَیں نے اور حزبِ اختلاف کے دوسرے ارکان نے جنیوا معاہدے کی بھرپور مخالفت کی، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی راہداری میں سابق وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب علی نے بھی اپنے اضطراب کا اظہار کیا (وہ رکن نہ تھے اس لیے بحث میں شرکت نہیں کرسکتے تھے)۔ لیکن جونیجو صاحب نے وہ کیا جو امریکا چاہتا تھا اور اس طرح جہاد افغانستان کو de-rail کرنے (پٹڑی سے اُتارنے) اور افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک جیتی ہوئی بازی کو ہار کی طرف دھکیلنے کا عمل شروع ہو گیا جس کے نتائج آج تک ہم اور پورا خطہ بھگت رہا ہے۔
جنرل حمیدگل نے سرکاری افسر ہوتے ہوئے وزیراعظم کی لائن سے ہٹ کر صحیح صحیح صورتِ حال پیش کر کے ایک تابناک مثال قائم کی___ اوریہیں سے میرے اور ان کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ میں نے ان کی راے کی تائید کی، ان کی زبان بندی پر احتجاج کیا اور جنیوا معاہدے کو رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ پہلی ملاقات ایک اجتماع میں ہوئی تھی، جس میں مَیں نے سرعام ان کے تجزیے اور ان کی جرأت دونوں کو سراہا۔ جو تعلق ۱۹۸۸ء کی اس ملاقات میں بنا تھا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا اور ذاتی دوستی اور اعتماد کے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ الحمدللہ، ہمارے تعلقات ۲۷سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بارہا میرے گھر اور میرے دفتر میں تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ کم از کم دو بار مَیں بھی ان کے گھر گیا او ان کے دیوان خانہ میں سجا ’دیوارِبرلن‘ کا ٹکڑا آج بھی یاد ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر ایک ماہ ہم ۱۹۹۳ء میں کابل میں تقریباً ساتھ رہے۔ گو ہمارا قیام دو مختلف جگہوں پر تھا، مگر ہم روزانہ ہی ملتے رہے اور مجاہدین کے متحارب گروہوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے رفیق کار رہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ گو ہم (یعنی جماعت اسلامی کا وفد جس کی قیادت محترم قاضی حسین احمد کر رہے تھے اور جس میں مولانا جان محمد عباسی، مولانا عبدالحق بلوچ، پروفیسر ابراہیم، برادرم خلیل حامدی اور مَیں شامل تھے) افغانستان کے صدر پروفیسر ربانی کے مہمان تھے اور جنرل حمیدگل ایک دوسرے مہمان خانے میں ٹھیرے ہوئے تھے، لیکن دن کا بڑا حصہ ہمارے ہی ساتھ گزرتا تھا، جس میں بار بار پروفیسر ربانی، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور حکمت یار (جن کا کیمپ (base) کوئی ۲۱ کلومیٹر دُور تھا) سے مشترکہ اور الگ الگ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنرل حمیدگل کے پسندیدہ مجاہد گلبدین حکمت یار تھے اور یہی بات جماعت اسلامی کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے، اس میں اتنی صداقت تو ضرور ہے کہ وہ اور ہم سب گلبدین حکمت یار کی دل سے قدر کرتے تھے اور کرتے ہیں اور حزبِ اسلامی کے جو حقیقی اثرات تھے ان کا ادراک رکھتے تھے، مگر اس بات میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ جنرل صاحب یا ہم کسی ایک کے ساتھ بریکٹ (bracket) تھے۔ پروفیسر ربانی کے تو ہم مہمان ہی تھے، احمد شاہ مسعود سے بھی بڑے اچھے تعلقات تھے اور ہر روز ہی بات چیت ہوتی تھی۔ میں شاہد ہوں کہ جنرل حمیدگل کو سب کا اعتماد حاصل تھا۔ اُس پورے مہینے میں مَیں نے خود دیکھا کہ سب مجاہد رہنما ان کی عزت کرتے تھے ، ان کی بات کو وزن دیتے تھے اور ان سے تعلقات میں کوئی شائبہ بھی اس کا نہیں تھا کہ وہ انھیں کسی ایک کا سرپرست سمجھتے ہوں۔ جب بھی حکمت یار صاحب کے بارے میں میری ان سے بات ہوئی تو انھوں نے ہمیشہ اپنے اتفاق اور اختلاف دونوں کا اظہار کیا، البتہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں زمینی حقائق سے واقف ہوں کہ کس کی کتنی قوت ہے اور کس کے کیا اہداف ہیں!
جنرل حمیدگل ۲۰نومبر ۱۹۳۶ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان سوات سے کوئی ۱۰۰برس پہلے پنجاب منتقل ہوا تھا لیکن ان کے گھرانے میں پشتون اور پنجابی دونوں روایات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ۱۹۵۶ء میں فوج میں ان کا کمیشن ہوا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور غیرمعمولی فکری اور پروفیشنل خدمات کی بنا پر تیزی سے بلندی کے مراحل طے کرتے ہوئے کورکمانڈر، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی، آئی ایس آئی کے مناصب پر فائز ہوئے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دورِ حکومت میں ان کو ۱۹۸۹ء میں آئی ایس آئی سے ملتان کور کی کمانڈ کے لیے منتقل کردیا گیا اور پھر ۱۹۹۲ء میں اس وقت کے چیف آف اسٹاف نے ان کو ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں منتقل کرنے کی کوشش کی، مگر جنرل گل نے معذرت کی اور فوج سے رخصت ہوگئے۔ بلاشبہہ انھوں نے اس وقت کی سیاسی قیادت کی ناقدری کے باعث ۱۹۹۲ء میں وردی اُتار دی لیکن جو حلف فوج میں داخل ہوتے وقت لیا تھا، اسے زندگی کے آخری لمحے تک نبھایا۔ پاکستان اور اسلام ان کی زندگی کا محور اور ان کے عشق کا مرکز تھے۔ اپنے ۲۷سالہ تعلق کی بنیاد پر مَیں شہادت دے سکتا ہوں کہ انھوں نے جو عہد اپنے اللہ سے کیا تھا اسے پورا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جنرل حمیدگل کو میں نے ایک بہت باخبر فرد پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کی فکر بہت بیدار تھی۔ اقبال کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ مولانا مودودی کی بھی بیش تر کتب کا مطالعہ وہ کرچکے تھے۔ مغربی فکر اور خصوصیت سے عسکری اور بین الاقوامی اُمور پر ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر تھے۔ پھر ان کے روابط اتنے وسیع اور اتنے کثیرالجہت تھے کہ تعجب ہوتا ہے کہ ایک انسان ۲۴گھنٹے میں اتنا کچھ کیسے کرلیتا ہے۔ اہلِ خانہ کو بھی وہ وقت دیتے تھے، اہلِ محلہ سے بھی ان کے روابط گہرے تھے، فوجیوں اور سابق فوجیوں میں بھی بڑے متحرک تھے۔ دوستوں کے وہ دوست تھے لیکن مخالفین سے بھی میل ملاپ رکھتے تھے۔ میڈیا سے بھی ان کی راہ و رسم معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ دینی اور سیاسی حلقوں میں بھی ان کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ سفارت کاروں اور غیرملکی صحافیوں اور سیاست کاروں کا بھی ان کی طرف رجوع رہتا تھا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ؎
ایک دل ہے اور ہنگامہ حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں مَیں
میں نے جنرل حمیدگل کو ایک اچھا انسان، ایک محب ِ وطن پاکستانی، اسلام کا ایک شیدائی اُمتی، ایک پیشہ ور فوجی اور کامیاب جرنیل اور ایک بالغ نظر دانش ور پایا۔ ان کو اپنی بات پر بڑا اعتماد ہوتا تھااور انھیں اپنی بات کہنے کا بڑا سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ان کو اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا کرتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی بات بڑے محکم انداز میں اور بڑی جرأت کے ساتھ بیان کرتے تھے لیکن دوسرے کی بات کو اختلاف کے باوجود سننے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے اور سلیقے سے رد کرنے کا بھی۔ میں نے انھیں دوسروں کی تحقیر کرتے نہیں دیکھا۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا دل فریب پہلو تھا۔
الحمدللہ، جنرل حمیدگل نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ متحرک رہے اور اُس مقصد کی خدمت میں مصروف رہے جسے انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا۔ بلاشبہہ پاکستان کی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے اور کم ظرفی کے اس سارے مظاہرے کے باوجود جو اُن کے ناقدین نے ان کی زندگی ہی میں نہیں ان کے انتقال کے بعد بھی کیا ہے، ان کی خدمات اَنمٹ ہیں اور مدتوں یاد رہیں گی۔ ان کی وفات سے جہاں ہرکسی نے کچھ نہ کچھ کھویا ہے، مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک مخلص دوست اور ساتھی سے محروم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، آمین!
جنرل حمیدگل ان لوگوں میں سے تھے جو فکری یکسوئی کی اعلیٰ ترین مثال ہوتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بھی بڑی ہم آہنگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات، سیاسی رجحانات اور ان کی تزویراتی فکر کے بارے میں تو اختلافی آرا کا اظہار ہوا ہے، لیکن ان کی دیانت اور ان کے کردار کے بارے میں کسی کو انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوئی۔ انھوں نے ایک صاف زندگی گزاری جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں۔ امریکا کی نگاہ میں وہ ایک کانٹا تھے اور امریکی سیاست دان، سفارت کار اور صحافی ان پر تیراندازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے لیکن ان کی وفات پر جو اطلاعاتی شذرہ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز (۱۶؍اگست ۲۰۱۵ئ) میں شائع ہوا ہے اور جس میں ان کی تزویراتی فکر پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور انھیں سیاسی طور پر ایک متنازع فیہ شخصیت کہا گیا ہے ،مگر وہاں بھی وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ :
ان کے گرد سیاسی اور دہشت گردی سے متعلق تنازعات کی کثرت کے باوجود ان پر کبھی بھی معمولی سی اخلاقی یا مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا گیا۔
جنرل حمیدگل اپنی وفات کے بعد بھی ان شاء اللہ زندہ رہیں گے اور پاکستان اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو جدوجہد انھوں نے کی وہ جاری و ساری رہے گی اور ظلمت کی یہ شام ان شاء اللہ ختم ہوگی۔
تحریک طالبان افغانستان کے رہنما مُلّا محمد عمر کے انتقال کی خبر ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کے بہی خواہوںکے لیے یہ خبر یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کی رحلت کب، کہاں اور کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے اطلاعات میں نہ صرف کافی ابہام پایا جاتا ہے بلکہ کچھ تضاد بھی نظر آتاہے۔
مُلّامحمد عمر نے ان حالات میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جب افغان مجاہدین، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام میں ناکام ہوکر خانہ جنگی پر اتر آئے تھے ۔طالبان اس شدید بدامنی اور افراتفری کو جواز بناتے ہوئے مختصر مدت میں نہ صرف افغانستان کی مقبول ترین عسکری قوت کا روپ دھار گئے بلکہ کابل سمیت پورے افغانستان کے تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جمانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں قیامِ امن اورلوگوں کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی ایسے کارنامے تھے جس نے طالبان حکومت کے استحکام میں بنیادی کردار اداکیا۔ مُلّا محمد عمر اور ان کی حکومت کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکا کو ۴۸ ممالک کی ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج اور دنیا کی جدید ترین جنگی ٹکنالوجی کاسہارا لینا پڑا۔ پھر امریکا نے مُلّاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی۔ یہ مُلّاعمر کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا اپنی اندھی طاقت کے زور سے خاتمہ کیا، تو وہ مختصر عرصے میں طالبان کی منتشر صفوں کو امریکا کے خلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
آج افغانستان کے طول وعرض میں امریکی اور ناٹو فورسز سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جومنظم عسکری کارروائیاں ہورہی ہیں اور مختلف اضلاع سے طالبان کی فتوحات اورقبضوں کی جو خبریں آرہی ہیں، ان کے پیچھے جہاد کے بعد سب سے بڑا محرک اور عامل مُلّا محمد عمر کی قیادت رہی ہے۔ افغان قوم میں ان کی مقبولیت اور اثرپذیری کانتیجہ تھاکہ طالبان قیادت کو دوسال سے بھی زائد عرصے تک مُلّاعمر کے انتقال کی اہم ترین خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا پڑا ۔ دوسال تک طالبان قیادت ان کی موت کو چھپانے پر اس لیے مجبور رہی کہ اس بات کا کامل یقین تھاکہ مُلّاعمر کے انتقال کی خبرسامنے آنے سے نہ صرف طالبان جنگجوئوں کے حوصلے پر منفی اثرپڑے گا، بلکہ ا س خبرسے امریکا اور دیگر طالبان دشمن قوتیں بھی ہرممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ طالبان قیادت کے یہ خدشات مُلّاعمر کے انتقال کی تصدیق ہونے پر بعض طالبان گروپوں کی مخالفت اور تحفظات کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں۔
مُلّا محمد عمر مرحوم کے نائب مُلّا اختر منصور کے توسط سے یہ بات توسامنے آچکی ہے کہ انھوں نے مُلّاعمر کے انتقال کی خبر مبینہ طورپر ملا عمر کی وصیت کے مطابق جہاد کو جاری رکھنے کی حکمت کے تحت صیغہ راز میں رکھی تھی۔اس حد تک تو اخترمنصور کی بات پر یقین کا جواز اور گنجایش موجود ہے۔ لیکن جہاں تک مُلّامنصور کے امیر بننے اور ملا عمر کے انتقال کی تصدیق اور اعلان کے اوقات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مختلف سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ یہ سوال کہ اچانک ایسے کون سے عوامل پیدا ہو گئے تھے جن کے باعث ملا عمر کے انتقال کی خبر کو صیغۂ راز میںمزید رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ؟
اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر طالبان افغان حکومت مذاکرات سے محض ایک دن قبل افشا کرنے کااصل پس منظر کیا ہے؟ان دونوں سوالات کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق طرح طرح کے جوابات اور چہ میگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اور تحریک طالبان سمیت افغان حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں تک رسائی رکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کااستدلال ہے کہ مُلّاعمر کی وفات کی خبر کو مزید چھپا کر رکھنا ا س لیے ناممکن ہوگیاتھا کہ طالبان سمیت افغان حکومت کے بعض بارسوخ حلقوں کو یہ شک پڑگیاتھا کہ مُلّا محمد عمر زندہ نہیں رہے اور وفات پاچکے ہیں۔ ان کو یہ شک دو وجوہ کی بنا پرپڑا۔
اس کی پہلی اور فوری وجہ حالیہ عیدالفطر کے موقعے پر مُلّا محمد عمر کا امن مذاکرات کی حمایت پر مبنی پیغام کا سامنے آناتھا۔ واضح رہے کہ مُلّا محمد عمر شروع دن سے مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے عیدین پر جتنے بھی پیغامات جاری کیے تھے ان سب میں وہ طالبان کو جہاد جاری رکھنے اور مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ امن مذاکرات کی حمایت میں ان کابیان سامنے آنے سے طالبان کی صفوں میںان کے زندہ رہنے کے متعلق شکوک وشبہات نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح ان شکوک وشبہات کو تقویت ملنے کی دوسری بڑی وجہ ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصے سے مُلّا محمد عمر کی آواز میں کسی آڈیو پیغام کاسامنے نہ آناتھا۔ جہاں تک مُلّاعمر کی وفات کی خبر امن مذاکرات کے دوسرے دور سے محض ایک دن قبل افشا کیے جانے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے اس بات پر اتفاق راے پایاجاتاہے کہ ایساکرنا سب سے زیادہ خود طالبان اور بالخصوص نومنتخب امیر ملااختر منصورکے حق میں تھا۔اگرمذاکرات میں کسی ممکنہ پیش رفت کے بعد آگے جا کر یہ بات سامنے آجاتی کہ مُلّاعمر دوسال پہلے وفات پاچکے ہیں تو ایسی حالت میں مُلّااختر منصور سمیت کسی بھی طالبان رہنما کے لیے امن مذاکرات کے فیصلوں کو طالبان کمانڈروں اور جنگجوئوں سے منوانا تقریباً ناممکن ہوتا، لہٰذا اسی احساس نے انھیں یہ خبر جاری کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب ملامنصور کی امارت کے اعلان اوران کا اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے پر بعض طالبان راہنمائوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، وہ اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کی امارت پر ان لوگوں نے اعتراض اٹھایاہے، جو ملامنصور کی امارت کے لیے منعقدہ رہبری شوریٰ کے فیصلے میں شریک نہیں تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام مُلّا محمد عمر کے برادرخورد مُلّاعبدالمنان کا سامنے آیاہے، جنھوں نے ملامنصور کی امارت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے نئے امیر کے انتخاب کے لیے صرف رہبری شوریٰ پر انحصار کے بجاے تمام فیلڈ کمانڈروں، علماے کرام اور طالبان کی بااثر شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔ جس کے جواب میں ملامنصورگروپ کاکہناہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پورے افغانستان کے حالات طالبان کے حق میں سازگار تھے اور انھیں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات لاحق نہیں تھے، جب کہ آج پوری طالبان قیادت کا اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پرافغانستان کے اندر جمع ہوناتقریباً ناممکن ہے ۔
مُلّااختر منصور کی مخالفت میں طالبان کاجو گروپ سرگرم عمل ہے، وہ اپنی حمایت میں مُلّا محمد عمر کے ۲۶سالہ بڑے بیٹے مُلّا محمد یعقوب کو بھی استعمال کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہاہے جس کی مخالفت ان کی کم عمری اورکم تجربے کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس تمام صورت حال کانیانقشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے سے طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کے علاوہ طالبان کے نئے امیر مُلّا اختر منصور کاان مذاکرات سے انکار کرکے جہاد جاری رکھنے کے اعلان کی صور ت میں سامنے آیاہے۔اسی طرح قطر میں قائم طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر دفتر کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ طیب آغا اوران کی ٹیم کا مُلّا اختر منصور سے اختلافات کی بنیادپر مستعفی ہونے سے بھی جہاں امن مذاکرات کامستقبل مخدوش نظر آرہاہے، وہاں اس صورت حال کو تحریک طالبان کی صفوں کو منظم رکھنے کے لیے بھی نیک شگون قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر طالبان، امریکا اور افغان حکومت پراپنا دبائو برقراررکھ کر مُلّامحمدعمر کے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں تو اس کے لیے تحریک طالبان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اورمزید نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاداور اتفاق برقرار رکھنا ہوگا، بلکہ باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے نئے امیر کے قضیے، نیز امن مذاکرات کے مستقبل کابھی کوئی متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر طالبان مخالف قوتیں ان کو منتشر پا کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے تیار بیٹھی ہیں، جیسے دسترخوان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بھوکے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ موقع بلاشبہہ طالبان کی معاملہ فہمی،حسن تدبر اور ان کی بصیرت کا کڑا امتحان ہے جس کے لیے اُمت ِ مسلمہ کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
سوال:کیا طوافِ کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کے لیے وضو ضروری ہے؟ اگر ہاں تو جس شخص کا وضو اس دوران ٹوٹ جائے وہ کیا کرے؟ کیاوضو کے بعد طواف یا سعی کو وہ ازسرِنو دہرائے گا یا جتنا کرچکا ہے اس کے آگے مکمل کرے گا؟
جواب:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَیْتِ مَثْلُ الصَّلَاۃِ اِلَّا اَنَّکُمْ تَتَکَلَّمُوْنَ فِیْہِ (ترمذی، کتاب الحج، باب ماجاء فی الکلام فی الطواف، ۹۶۰، دارمی: ۲؍۴۴، ابن خزیمہ: ۲۷۳۹) خانہ کعبہ کے گرد طواف نماز کی طرح ہے۔ سوائے اس کے کہ اس میں بات چیت کی اجازت ہے۔
اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ (بخاری، کتاب الحج، باب الطواف علی الوضوئ:۱۶۴۱،۱۶۴۲، مسلم: ۱۲۳۵)
حجۃ الوداع کے دوران حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اب کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا:
اِفْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لَّا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَطْہُرِیْ (بخاری: ۱۶۵۰، مسلم: ۱۲۱۱) ہروہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔ بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو، جب تک پاک نہ ہوجائو۔
مذکورہ احادیث کی بنا پر ائمہ وفقہا طواف کے لیے وضو کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے حکم کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ وضو کو طواف کے لیے شرط قرار دیتے ہیں ، یعنی ان کے نزدیک بغیر وضو کے طواف نہیں ہوگا۔ احناف کے نزدیک طواف کے لیے وضو واجب ہے، یعنی اگر کوئی شخص بغیر وضو کے طواف کرلے تو اس کا طواف تو ہوجائے گا ، لیکن واجب چھوٹ جانے کی وجہ سے یاتو وہ باوضو ہوکر طواف دہرائے گا یا بہ طور کفارہ ایک جانور قربان کرے۔
اگر دورانِ طواف کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تو احناف اور شوافع کے نزدیک وہ جاکر وضو کرے اور جتنے چکر باقی رہ گئے ہیں انھیں پورا کرلے۔ازسرنو طواف کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں۔ حنابلہ کے نزدیک اگر اس نے جان بوجھ کر وضو توڑا ہے تو دوبارہ وضو کرکے ازسرنو طواف کرے اور اگر بے اختیار وضو ٹوٹ گیا ہے تو اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں۔
کوئی شخص، چاہے حج کرے یا عمرہ، اسے طواف کے ساتھ صفا ومروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے علما نے لکھا ہے کہ طواف کے ساتھ سعی بھی باوضو ہوکر کرنا چاہیے، لیکن اوپر مذکور حدیث میں صرف طواف کے ضمن میں پاکی کی صراحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طہارت کے سعی کی جاسکتی ہے(دیکھیے: الموسوعۃ الفقہیہ ،کویت: ۲۷؍۱۳۰-۱۳۲)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طور صدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ کسی مناسبت سے ، مثلاً مرض سے شفایابی پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کو بطور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کو بطور تقرب یا بغرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتا جارہا ہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد تقرب کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اور خون بہانے کو کارـثواب سمجھتا ہے اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دیتا ہے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ بغرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے۔ ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں۔ الاّ یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذر مان لے تو بحیثیت نذر درست ہے ، کیونکہ کسی بھی عمل صالح کو بشکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پر بطور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں ہے اور تعبدی امور میں قیاس درست نہیں۔
ج:حلال جانوروں کا گوشت کھانا اور کھلانا عام حالات میں ، بغیر کسی مناسبت کے، جائز ہے۔ اسی طرح کسی مناسبت سے بھی اس کا جواز ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مرض سے شفا پاجائے تو بہ طور شکرانہ وہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرسکتا ہے۔ فقہاے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔
شیخ محمد صالح المنجد عالم اسلام کے مشہور فقیہ اور مفتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر Islamqa کے نام سے موجود سائٹ پر ان کے فتاویٰ موجود ہیں۔ فتویٰ نمبر۱۰۷۵۴۹ کے مطابق ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا: میرا چچازاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی ۵۰فی صد امید ہے۔ ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کے لیے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟
اس کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’اگر اللہ کے لیے ذبح کرنے کے بعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقرا اور مساکین میں تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: دَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو)۔ ابودائود نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے اور طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے اسے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا ہے۔ اس کی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، جب کہ البانی ؒ نے اسے ترمذی (۷۴۴) میں حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ آگے انھوں نے دو فتاویٰ بھی نقل کیے ہیں۔
دائمی کمیٹی براے فتویٰ کے علماے کرام سے پوچھا گیا کہ حدیث: دَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو) کا مطلب سمجھا دیں، جسے بیہقی نے السنن الکبریٰ (۳؍۳۸۲)میں بیان کیا ہے، لیکن اکثر محدثین کرام مریض کا علاج جانور کو ذبح کرنے کے حوالے سے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:’’مذکورہ حدیث درست نہیں ہے، لیکن مریض کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور شفایابی کی اُمید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ صدقے کی فضیلت میں بہت سے دلائل موجود ہیں اور صدقے سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ اللجنۃ الملدائمۃ۲۴؍۴۴۱)
شیخ ابن جبرینؒ کہتے ہیں: ’’صدقہ مفید اور سودمند علاج ہے۔ اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ’’صدقہ گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘سے ہوتی ہے۔ اسے احمد( ۳؍۳۹۹) نے روایت کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہوجاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثا اس کی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اس کا گناہ دھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔(الفتاویٰ الشرعیۃ فی المسائل الطبیۃ، جلد۲، سوال نمبر۱۵)
آخر میں شیخ المنجد نے لکھا ہے: ’’چنانچہ اللہ کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے گا‘‘۔
ہندستان کے مشہور فقیہ اور مفتی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے دریافت کیا گیا:اگر کوئی شخص بیمار پڑا تو اس کے گھر والے اس کے اچھے ہونے کے بعد جان کی زکوٰۃ میں بکرا ذبح کرتے ہیں۔ یہ گوشت گھر والے کھاسکتے ہیں یا نہیں؟
انھوں نے جواب دیا: ’’اگر صحت مند ہونے سے پہلے نذر مانی ہو کہ صحت حاصل ہونے پر میں بکرا ذبح کروں گا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ یہ ان لوگوںکو کھلایا جاسکتا ہے جن کو نذر ماننے والا زکوٰۃ دے سکتا ہو۔ اور اگر پہلے سے نذر نہیں مانی تھی، بلکہ صحت مند ہونے کے بعد اظہار مسرت کے لیے قربانی کی تو یہ شکرانہ کی قربانی ہے۔ اس کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسرے اہل تعلق کو بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ (کتاب الفتاویٰ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۲۰۰۵ئ، فتویٰ نمبر۱۳۰۶)
پاکستان کی مشہور درس گاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون، کراچی کے مفتی مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے لکھا ہے: ’’مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے‘‘۔(قربانی کے مسائل کا انسائی کلو پیڈیا، بیت العمار کراچی، ص ۹۶)
خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ جائے یا کسی موذی مرض سے شفا پاجائے تو اس کے بعد اس کا کسی جانور کا خون بہانے کو کارِ ثواب سمجھنا اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دینا تو غلط ہے، لیکن بطور شکرانہ زندہ جانور کو صدقہ کرنا یا اسے ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا دونوں صورتیں درست ہیں۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
یہ عربی کتاب الثقافۃ الاسلامیۃ کی اُردو ترجمانی ہے۔ ساڑھے آٹھ سوسے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کو موضوع اور مضامین کے لحاظ سے دوجلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی جلد ماقبل نبوت کی عرب تاریخ سے لے کر قرآن، علومِ قرآن اور حدیث و علومِ حدیث کے مباحث سے متعلق ہے۔ دوسری جلد فقہ، علوم و اُصولِ فقہ اور علم کلام و علم تصوف وغیرہ کی بحثوں پر مشتمل ہے۔
جلد اوّل میں عرب اور اسلام کے تاریخی، علمی اور تمدنی پس منظر پر نہایت اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعد ازاں قرآن مجید کے نزول، مضامین قرآن اور اس کے مقاصد، جمع و تدوینِ قرآن، قرآن کا اسلوب و اعجاز، لہجاتِ قرآن، قرآن کا رسم الخط، علمِ قرائ۔ت اور طبقاتِ قرائ، علمِ تجوید، تفسیر اور علمِ تفسیر، طبقات المفسرین اور ۳۶عربی تفاسیر کا اجمالی تعارف اس جامع انداز میں کرایا گیا ہے کہ ان تمام علوم وفنون کی نہ صرف وقعت و حیثیت اور اہمیت و ضرورت نمایاں ہوگئی ہے بلکہ ان کے حُسن و قبح بھی ظاہر ہوگئے ہیں۔ جلد اوّل کا دوسرا اہم مبحث حدیث اور علومِ حدیث ہیں۔ اس علم کے مقاصد و موضوعات اور اُسلوب و فصاحت کے تذکرے سے بات کا آغاز ہوتا ہے، اور پھر اقسام الحدیث، کتابتِ حدیث، جمع و تدوینِ حدیث اور اہم مجموعہ ہاے حدیث، روایت اور رواۃ، ائمہ و کتبِ حدیث کے طبقات، اُصولِ حدیث، صحاحِ ستہ اور اصطلاحاتِ حدیث کے مؤلفین کے تعارف پر اس بحث کا اختتام ہوتا ہے۔
جلد دوم علم الفقہ اور اس کی تدوین و اشاعت کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ علومِ اسلامیہ کے تعارف اور ابتدائی تالیفات، علم الفقہ کے تاریخی ارتقا اور فقہی مذاہب کے وجوہِ اختلاف پر متوازن اور معلومات افزا بحث ہے۔ چاروں ائمہ فقہ کے مسلک، ان کے تلامذہ اور ان کی تالیفات کا تعارف پیش کیا گیا اور اُن کے دائرۂ اثر کو بھی زمینی حدود کے اعتبار سے متعین کیا گیا ہے۔ یہ بحث ابتدائی تاریخ اور عصرِحاضر کے ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ اس جلد کا دوسرا اہم مبحث علم الکلام اور تصوف ہے۔ جلد دوم کا تیسرا ہم مبحث علومِ ادبیہ کا تذکرہ ہے۔ اس میں علم النحو، علم الصرف، علم الاشتقاق، علم البلاغت اور علم الجدل کا تعارف کرایا گیا ہے۔ چوتھا اہم مبحث علمِ تاریخ ہے جس میں تاریخ کے ارتقا میں مسلمانوں کی خدمات اور اسلام میں مبداے تاریخ اور تاریخ کے مشہور مؤلفین کے مباحث شامل ہیں۔ پانچواں اہم مبحث یونانی علوم کی اشاعت و اثرات پر ہے۔ چھٹا مبحث علومِ اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اس مبحث میں زوالِ علوم و افکار کے بعد بیداری پر مختصر بات کرکے مختلف خطوں سوریا (شام)، تیونس (تونس)، جزائر (الجزائر)، مراکش (مغربِ اقصیٰ)، عراق، حجاز اور یمن کی علمی تاریخ، تنظیموں، کتابوں، علمی و تعلیمی اداروں، شخصیات اور علوم و معارف کے حوالے سے آگاہی دی گئی ہے۔
اسلامی علوم و معارف اور افکار و نظریات کو مصنف نے ’’اسلامی ثقافت‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ثقافت کی تعریف اور تعین پر نہایت فکر انگیز مقدمہ اربابِ دانش و اہلِ اقتدار کی چشم کشائی کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ مصنف کے نزدیک مسلم تہذیب کے افکار وعلوم ہی اس کی ثقافت ہیں۔ اسلامی تاریخ سے یقینا یہی علوم و فنون مسلمانوں کی ثقافت ثابت ہوتے ہیں۔ دین تہذیب کی بنیاد ہوتا ہے اورتہذیب سے ثقافت جنم لیتی ہے۔ لہٰذا رقص و سرود اور گلوکاری و اداکاری کبھی مسلم تہذیب کی ثقافت نہیں رہی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ شام کے اندر دمشق اور حلب کے لاکالجوں کے نصاب کے لیے مرتب کی گئی تھی مگر اس کی جامعیت اور مشمولات نے اسے پورے عالمِ اسلام کی ضرورت بنادیا ہے۔ علومِ اسلامیہ و عربیہ کا کوئی طالب علم یا اسکالر اس کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے اعلیٰ سطحی نصابِ تعلیم میں اس کتاب کا مطالعہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے جس طرح یہ شام کے لاکالجوں میں بطور نصاب شامل ہے۔
اس کتاب کی تصنیف و تالیف میں مصنف نے جس عرق ریزی سے کام لیا ہے لائقِ صدتحسین ہے۔ اُردو ترجمہ مولانا افتخار احمد بلخی نے کیا ہے، مگر سرورق اور اندرونی سرورق پر مترجم کا نام نہیں دیا گیا۔ افسوس ہے کہ موجودہ ایڈیشن میں صفحہ سازی اور پروف خوانی کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ آیندہ اشاعت میں اس خامی کا بھرپور ازالہ کرنا ناشر پر واجب ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
محسن انسانیتؐ کی شخصیت کا سورج، اختتام کائنات تک انسانوں کی راہ نمائی کرتارہے گا۔انسانوں کے بحر برعظیم ہند میں علامہ محمد اقبال وہ نابغۂ روزگار ہیں جو غلام ہندستان میں پیدا توضرور ہوئے مگراپنے افکار کے ذریعے انھوں نے غلامی(سیاسی اورذہنی، یعنی ہر قسم کی غلامی) سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔تخلیق ارض وسماسے لے کران کے اپنے دور تک،اگر انھوں نے کسی ہستی کی عظمت و بالادستی کوبسروچشم قبول کیاتووہ محمد کریمؐ کی ذات ستودہ صفات ہے ؎
ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست
فکرِ ما پروردۂ احسانِ تست
(یہ سب آپؐ کے لطفِ بے پایاں کے طفیل ہے، ہماری فکر نے آپؐ کے احسان سے پرورش پائی ہے۔)
اقبال نے (موجودہ دور میں اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر ہونے کے ناتے) قوت ِعشق سے ہر پست کو بالا کرنے اور دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کی عقیدت اورقلبی وابستگی کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نظر کتاب ایک پُراثر تحریر ہے۔ ۷۰صفحات میں ۲۰ عنوانات کے تحت،متعدد واقعات اوردرجنوں اشعار کوتاریخی حوالوں سے اس طرح سمیٹ دیاگیاہے کہ قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتاب میں علامہ اقبال کی زندگی، رسول اکرمؐ سے ان کی محبت، سفرِحجاز کے عزم،حج بیت اللہ کی خواہش، روضۂ رسولؐ کی زیارت کے واقعات کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ علامہ کی خواہش تھی کہ حیات مستعار کاآخری زمانہ سرزمینِ حجازمیں بسر ہو، وہیں دَم نکلے اور وہیں دفن ہوں۔ علامہ کی اس آرزوکو بھی مؤلّف نے مؤثر اسلوب میں بیان کیاہے۔(محمد ایوب منیر)
سوے حرم دیدۂ دل سے سفرِحجاز اور حرمین شریفین کی زیارت اور دید کا عکس ہے۔ مصنف نے اس مختصر سے سفرنامے میں روح پرور لمحوں کی تصویرکشی کرتے ہوئے ان اہم ترین مسائل کو چھیڑا ہے جن پر عام سفرنگار کم توجہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ علماے کرام کے نقطۂ نظر کے مطابق حدودِ حرم کے اندر وقف کا مسئلہ۔ اس کے علاوہ انھوں نے دکان داروں کے ان حربوں کا ذکر بھی کیا ہے جو دجل و فریب سے زائرین کو لوٹتے ہیں۔
بیانیہ انداز، مبالغے اور تصنع سے مبرا یہ سفرنامہ انسانی سوچ، فکر اور نفسیات کے اس پہلو کا آئینہ دار بھی ہے کہ کوئی انسان بڑی آزمایش سے دوچار ہو تو وہ صدمہ کہاں کہاں اُسے بے تاب کردیتا ہے۔ جواں ہمت انسان بھی کہاں کہاں سہاروں کے خواب دیکھتا ہے اور یقینا ایسے حساس انسان کی دعائوں کی تاثیر زوداثر ہوجاتی ہے۔ بے شک کوئی آزمایش اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی اور گہرے اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
۲۰۱۴ء کو ’سالِ حالی و شبلی‘ کے طور پر منایا گیا۔ اخبارات و رسائل میں ملّت کے دونوں محسنوں پر بہت کچھ شائع ہوا۔ بعض اداروں نے حالی و شبلی سیمی نار بھی منعقد کیے۔ پاکستان کی نسبت بھارت میں تقریری اور تحریری لوازمہ زیادہ مقدار میں سامنے آیا۔ معارف کے مدیراعلیٰ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی کی دل چسپی سے دارالمصنّفین نے شبلی پر عالمی سیمی نار منعقد کیا تھا، پھر رسالے کے خاص نمبر کے علاوہ شبلی پر متعدد کتابیں بھی شائع کیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے مجلّے صحیفہ کا زیرنظر شبلی نمبر اپنے موضوع پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً ۵۰ مضامین پر مشتمل اس ضخیم اشاعت میں شبلی کے سوانح، تصانیف، شعری و نثری کاوشوں اور ان کی نقاد، شاعر، سیرت نگار، مؤرخ کی حیثیتوں پر ہمارے معروف اہلِ قلم (سرسیّد احمد خاں سے لے کر راقم الحروف تک) نے لکھا ہے۔
نئے اور پرانے منتخب مضامین کی تدوین، اشعار اور حوالوں کی اصلاح اور اقتباسات کی تصحیح کے ذیل میں ایڈیٹر کی محنت صاف نظر آتی ہے۔ مجلس ادارت (تحسین فراقی اور افضل حق قرشی) نے بھی مضامین کی شکل میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا مضمون خصوصیت سے علّامہ شبلی کے ایک ایرانی مداح و مترجم فخرِداعی گیلانی سے متعارف کراتا ہے۔ ہمارے علمی حلقوں میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہوں گے۔
قرشی صاحب نے شبلی کی ۱۶ غیر مدّون تحریروں اور تقریروں پر مشتمل ’نوادرِ شبلی‘ پیش کیے ہیں۔ مختصر یہ کہ شبلی پر یہ ایک معلومات افزا اور مستند اشاعت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب پاکستان میں شعبۂ تعلیم کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ قریباً ۴۵ سال درس و تدریس ، تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات اور مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں پر فائز رہے، جہاں انھیں مختلف اور ہمہ گیر نوعیت کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ زیر نظر کتاب انھی منفرد تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے، جنھیں مصنف نے بہت خوبی سے قلم بند کیا تاکہ آیندہ آنے والے افراد کو ان تجربات سے استفادے کا موقع ملے۔
کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ (ص ۲۹ تا ۲۲۰) آئی بی اے سے حاصل شدہ مشاہدات سے متعلق ہے جہاں مصنف نے بحیثیت لیکچرار ، ڈین اور بعد ازاں ڈائرکٹر کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ گزارا ہے ۔ حصہ اول میں معیارِ تعلیم کی بہتری ، ادارے میں نئے پروگرامات کے اجرا، نظم و ضبط کے اُمور، میرٹ کی بحالی، مالی بدعنوانیوں پر قابو پانا،دبائو کا مقابلہ اور تعلیمی ادارں میں امن و امان کے حوالے سے کیے گئے اقدامات اور نتائج پر گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ (ص ۲۳۰ تا ۳۷۷) جامعہ کراچی، جہاں مصنف شیخ الجامعہ کی حیثیت سے فائز رہے، کے مشاہدات پر مبنی ہے۔حصہ دوم میں جامعہ کراچی میں کی گئی تعلیمی و انتظامی اصلاحات، ریسرچ کی حالت زار اور جامعہ کے اثاثہ جات کی حفاظت سے متعلق اُمور زیربحث آئے ہیں۔
اس کتاب کا اصل سبق یہ ہے کہ کسی ادارے میں بگاڑ ہو اور سربراہ اصلاحِ احوال کرنا چاہے تو وہ بڑی حد تک کرسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ خود ایسے کردار کا مالک ہو کہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ مخالفتوں کا مقابلہ عزم و حوصلے سے کرے، اللہ کی مدد طلب کرتا رہے۔ داخلہ ٹیسٹ میں دو نمبر کم ہونے پر بیٹے کو بھی داخلہ نہ دیا۔ جعلی ڈگریوں کا منظم سلسلہ جاری تھا، اسے توڑنے میں کیا کچھ نہ کرنا پڑا۔ جعلی بل پاس نہ کیے تو قاتلانہ حملہ ہوا۔ پوری کتاب اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آنکھیں کھولنے والی ہے اس لیے کہ ہم ۱۰، ۲۰، ۳۰ سال پہلے اور وہ بھی تعلیمی اداروں میں اتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی توقع نہیں کرتے۔ (عبداللّٰہ فیضی )
زیرتبصرہ کتاب میں تعمیرِمعاشرہ میں خواتین کے کردار کو زیربحث لایاگیا ہے اور معروف مسلم خواتین کے تذکرے کی صورت میں فکروعمل کے لیے راہ نمائی، نمونہ اور مثالی کردار اور ایمان افروز واقعات پیش کیے گئے ہیں، نیز ظلمت سے روشنی کا سفر کرنے والی معروف نومسلم خواتین کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔ گویا حضرت حواؑ سے نومسلم ڈاکٹر ماریہ تک، مختلف خواتین کے تذکرے سے اسے سجایا گیا ہے۔
ایک بنیادی چیز جو اس کتاب میں کھٹکتی ہے ، وہ یہ کہ نہ تو ان تحریروں کے مصنّفین کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ ان کتب اور مآخذ ہی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
یہودی دنیا میں غلبے کے لیے ایک مدت سے سازشوں میں مصروف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں ۱۴مسلم اور غیرمسلم (یہودی و عیسائی) مفکرین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے، جن میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ نے یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں مختلف اَدوار میں یہودیوں کی جلاوطنی اور تباہی کا جائزہ لیا ہے۔ یہودی مصنف نارٹن میزونیسکی نے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کی قتل و غارت گری کے علاوہ ان کا معاشی قتلِ عام بھی جاری ہے۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع ختم کیے جارہے ہیں اور وہ بدترین حالات میں محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ فلسطینی بستیوں کو قصداً پس ماندہ رکھا جا رہا ہے اور فلسطینی پانی کے لیے کنویں کھودنے تک کے حق سے محروم ہیں۔
رکن امریکی کانگریس پال فنڈلے امریکا میں یہودی اثرو رسوخ کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح امریکی پالیسیاں یہودی مفادات کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ عالمی نظامِ حکومت کے ایک ایسے منصوبے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے تحت ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی کو مختلف حربوں سے گھٹا کر ایک ارب کردیا جائے گا اور پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے گا۔اس کتاب کے مطالعے سے یہودی ذہنیت اور سیاست کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور غیرمسلم مفکرین کی تحریریں اس پر صاد ہیں۔ (امجد عباسی)
ماہِ اگست کے ’اشارات‘ میں آپ نے پاکستان کے وجود میں آنے کے عوامل، اسلامیانِ ہند کی حیرت انگیز جدوجہد اور اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد کو جس عالمانہ اور حقیقی انداز میں بیان کیا ہے وہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ وقت تھا کہ ہندستان کے مسلمان بحیثیت ایک ملّت اپنی حالت بدلنے پر آمادہ تھے۔
یہ مملکت خداداد آج جس انتشار اور پستی کے عالم میں ہے اس سے نکلنے کے لیے آپ نے جو راہ تجویز کی ہے وہ ہے کہ ’’قوم کو خود اپنے معاملات کی اصلاح کے لیے اپنے میں سے اچھے لوگوں کو آگے لانا ہوگا‘‘۔ہمارے ملک میں جمہوری نظام قائم ہی نہ ہوسکا۔ عام انتخابات محض تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے دھرنوں کا حربہ اختیار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دھرنے اچھے لوگوں کو آگے لاسکیں گے یا کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا ہوگا؟
’سیّد قطب شہید: قرآنی دعوت انقلاب کے داعی‘ (جون ۲۰۱۵ئ) کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ سیّدقطب شہید کو تو فراعنہ مصر نے پھانسی دے دی اور اسی طرح دوسرے ہزاروں اخوانیوںکو سرعام شہید کر دیا اور ان سے جیلیں بھر دی گئیں لیکن فراعنہ مصر کی تمام تر سفاکیت اخوان المسلمون کے ہمالیہ سے بلند عزائم کو شکست نہ دے سکی۔ آج بھی وہ ظلم اور سفاکیت کے مقابلے میں آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم فرما دے اور ابتلا اور آزمایشوں سے ان کو نکال دے۔ ہمارے ملک میں قرآن کی انقلابی دعوت کے لیے میدان کھلا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ موقع ہم سے چھین لیا جائے اور پھر اللہ کے ہاں ہمارا مواخذہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے، آمین!
جولائی کا شمارہ نظرنواز ہوا۔ اشارات (بجٹ اور پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنج)سمیت تمام مضامین خوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور زورِقلم عطا فرمائے اور ہم سب کو دعوتِ دین، اشاعت اسلام اور غلبۂ اسلام کی توفیق دے، آمین!
بدنصیبو، یہ آنکھ، کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ تم ان سے بس وہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو، اور ہروقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہوسکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف راہ نمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں، جن کانوں سے سب کچھ سناجائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے؟ حیف ہے اگروہ پھر ایک بیل کے بجاے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں!
[المومنون میں] علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرفِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشان دہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کرسکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خدائوں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی برحکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جواب دہ ہونا اور بس یونہی مرکر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۵، عدد۱،محرم ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۵ء ،ص۲۳)
______________