بدنصیبو، یہ آنکھ، کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ تم ان سے بس وہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو، اور ہروقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہوسکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف راہ نمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں، جن کانوں سے سب کچھ سناجائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے؟ حیف ہے اگروہ پھر ایک بیل کے بجاے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں!
[المومنون میں] علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرفِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشان دہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کرسکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خدائوں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی برحکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جواب دہ ہونا اور بس یونہی مرکر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۵، عدد۱،محرم ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۵ء ،ص۲۳)
______________